تفسير راہنما جلد ۱۰

تفسير راہنما 6%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 945

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 945 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 247335 / ڈاؤنلوڈ: 3404
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱۰

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

۸_الله تعالى كى مشيت اور ارادے كے مدمقابل ،پيغمبر (ص) كا كوئي مددگار اور دفاع كرنے والا نہيں ہے_

ثم لا تجدلك به علينا وكيل

۹_حسن بن محمد النوفلى يقول: قال سليمان: إرادته علمه، قال الرضا(ع): ما الدليل على أن إرادته علمه؟ وقد يعلم ما لا يريد ، أبداً وذلك قوله عزّوجلّ : ''أولئن شئنا لنذهبن بالذى أوحينا اليك'' قال سليمان: فان الارادة القدرة قال الرضا ( ع ): و هو عزّوجلّ يقدر على ماه يريده أبداً ولا بدّمن ذالك لأنه قال تبارك وتعالى :''ولئن شئنا لنذهبنّ بالذى اوحينا اليك'' فلو كانت الإرادة هى القدرة كان قد أراد أن يذهب به لقدرته ..._(۱)

حسن بن محمد نوفلى كہتے ہيں : سليمان نے كہا الله تعالى كا ارادہ اس كے علم كا عين ہے _ امام رضا (ع) نے فرمايا: اس پر كيا دليل ہے كہ اس كا ارادہ اس كے علم كا عين ہے حالانكہ الله تعالى جس چيز كو جانتاہے اس كا ارادہ ہرگز نہيں كرتا اور يہ الله تعالى كاكلام ہے كہ وہ فرمارہا ہے:''ولئن شئنا لنذهبن بالذى اوحينا اليك'' _ سليمان نے كہا: پس ارادہ وہى قدرت ہے _ تو امام رضا (ع) نے فرمايا : يہ الله تعالى ہے كہ جس چيز پر قادر ہے ہرگز اس كا ارادہ نہيں كرتا _ پس ناچار اس بات كو قبول كرنا چاہئے چونكہ الله تعالى نے فرمايا :'' ولئن شئنا لنذهبن بالذى أوحينا اليك '' _ پس اگر ارادہ وہى قدرت ہو تو جو پيغمبر (ص) پر وحى كيا وہ اللہ محو كرديتا چونكہ قادر تھا_

آنحضرت(ص) :آنحضرت (ص) پر وحى ۱، ۲، ۴;آنحضرت (ص) پر وحى كى محدوديت۵;آنحضرت(ص) كى نبوت۲; آنحضرت(ص) كے علم كى محدوديت ۵; آنحضرت (ص) كے علوم كا محوہونا۱;آنحضرت (ص) كے مقامات ۲; آنحضرت (ص) كے مددگار كا نہ ہونا ۸

الله تعالى :الله تعالى كا ارادہ ۹;اللہ تعالى كا علم ۵، ۹;اللہ تعالى كى قدرت ۱، ۹ ;اللہ تعالى كى مشيت كا حتمى ہونا ۳;اللہ تعالى كى مشيت كا غالب ہونا ۸;اللہ تعالى كى مشيت كے آثار ۴;اللہ تعالى كى نعمات ۷;اللہ تعالى كے ارادہ كا حتمى ہونا ۳

انسان :انسانوں كا علم لدنى ۴

خلفت :خلقت كے اسرار۵

ذكر:مادى و سائل كے سرچشمہ كا ذكر ۶

____________________

۱)عيون الاخبار الرضا ج۱، ص ۱۷۹،۱۸۹ ح۱، ب۱۳_توحید صدوق ص۴۵۱، ، ۴۵۴، ح ۱،ب ۶۶_

۲۴۱

روايت : ۹

شكر :نعمت كا شكر ۷

علم :علم لدنى كا سرچشمہ ۴;علم لدنى كے زوال كا سرچشمہ ۴

مادى وسائل :مادى وسائل كا پائدار نہ ہونا ۶

نعمت :قرآن كا نعمت ہونا ۷

وحي:وحى كا سرچشمہ ۴

آیت ۸۷

( إِلاَّ رَحْمَةً مِّن رَّبِّكَ إِنَّ فَضْلَهُ كَانَ عَلَيْكَ كَبِيراً )

مگر يہ كہ آپ كے پروردگار كى مہربانى ہوجائے كہ اس كا فضل آپ پر بہت بڑا ہے (۸۷)

۱_الله تعالى كى رحمت ولطف،پيغمبر (ص) سے وحى ( حقائق اور بنيادى معارف) واپس لينے سے مانع ہے_

لئن شئنا لنذهبن إلّا رحمة من ربك

استثناء ممكن ہے كہ محذوف كلمہ يا كلام سے ہو مثلاً عبارت يوں ہو كہ جو كچھ تمہيں ديا سوائے رحمت كے كچھ نہ تھا _ لہذا ہم محو نہيں كريں گے_ يعنى'' لئن شئنا'' سے استدراك ہو اور عبارت يوں فرض ہوگي''ولكن لانشاء ذلك رحمة'' (ہم نے عطا كئے معارف كو تجھ پر رحمت كى بناء پر زائل نہيں كرنا چاہا )

۲_پيغمبر (ص) كے دل ميں وحى كے مفاہيم كو ثابت اور ہميشہ ركھنا ان پر الہى ربوبيت كا جلوہ ہے_

لئن شئنا لنذهبن بالذى اوحينا إلّا رحمة من ربك

۳_وحى كو ثابت ركھنا اور قرآنى مفاہيم كو باقى ركھنا بندوں پر الہى رحمت كا جلوہ ہے_لئن شئنا لنذهبن إلّا رحمة من ربك

۴_پيغمبر اكرم(ص) پر الله تعالى كا عظےم و وسيع فضل ورحمت_إن فضله كان عليك كبيرا

۵_الله تعالى كے نزديك پيغمبر اكرم (ص) كى خاص اہميت اور بلند وبالا مقام_أن فضله كان عليك كثيرا

۶_الله تعالى كا پيغمبر (ص) كے دل ميں وحى كے مفاہيم كو استحكام بخشے كے سلسلہ ميں ان پر احسان_

۲۴۲

ولئن شئنا لنذهبن أن فضله كان عليك كبيرا

۷_ پيغمبر اكرم(ص) كے ليے پروردگار عالم كى ربوبيت رحمت سے متصل ہے_الاّ رحمة من ربك

آنحضرت (ص) :آنحضرت (ص) پر احسان ۶;آنحضرت (ص) پر رحمت ۴;آنحضرت (ص) پر فضل ۴،۷;آنحضرت (ص) پر وحي۱، ۲،۶;آنحضرت (ص) كاقرب ۵; آنحضرت (ص) كاقلب ۲، ۶; آنحضرت كا مربى ہونا ۲، ۷; آنحضرت (ص) كے مقامات ۵

الله تعالى :الله تعالى كا احسان ۶;اللہ تعالى كى ربوبيت ۷; الله تعالى كى ربوبيت كى علامات ۲;اللہ تعالى كى رحمت۷;اللہ تعالى كى رحمت كے آثار ۱;اللہ تعالى كى رحمت كى علامات ۳;اللہ تعالى كے لطف كے آثار ۱

الله كا فضل:الله كے فضل كے شامل حال لوگ ۴

رحمت:رحمت كے شامل حال لوگ ۴، ۷

قرآن:قرآن كو ثابت ركھنا ۳

وحي:وحى كو ثابت ركھنا ۲، ۳، ۶;وحى كے محو سے مانع ۱

آیت ۸۸

( قُل لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الإِنسُ وَالْجِنُّ عَلَى أَن يَأْتُواْ بِمِثْلِ هَـذَا القرآن لاَ يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيراً )

آپ كہہ ديجئے كہ اگر انسان اور جناب سب اس بات پر متفق ہوجائيں كہ اس قرآن كا مثل لے آئيں تو بھى نہيں لاسكتے چاہے سب ايك دوسرے كے مددگار اور پشت پناہ ہى كيوں نہ ہوجائيں (۸۸)

۱_قرآن كى مثل لانے سے جن وانس كى عاجزى كا اعلان كرنے كا پيغمبر (ص) كى ذمہ داري_

قل لئن اجتمعت الإنس والجنّ لايا تون بمثله

۲_ تمام مخاطبين قرآن كو (جن وانس) قرآن كے اعجاز كو آزمانے كى دعوت _

قل لئن اجتمعت الإنس والجن على أن يا توا بمثل

۳_قرآن ايسے حقائق' تعليمات اور معارف پر مشتمل ہے كہ جن پر جن و انس وحى كے بغير كبھى بھى دسترس حاصل نہيں كر سكتے_قل لئن اجتمعت الإنس والجن على أن يا توا بمثل هذالقرآن لايا تون ظهيرا

انسانوں اور جنوں كى قرآن كى مثل لانے سے عاجزى مطلق ہے يعنى اس كى تعليمات اور معارف كو بھى شامل ہے_

۲۴۳

۴_انسانى اور جنى طاقتيں ايك دوسرے كى پشت پناہى اور مدد كرنے كے باوجود بھى قرآن كى مثل لانے سے عاجز ہيں _

قل لئن اجتمعت ولو كان بعضهم لبعض ظهيرا

۵_قرآن ،اللہ كا ايسا جاودانى معجزہ ہے جو ہميشہ بے مثل كتاب رہا اور ابد تك بے مثل رہے گا_

قل لئن اجتمعت الإنس والجنّ لايا تون بمثله ولو كان بعضهم لبعض ظهيرا

يہ جو آيت تصريح كر رہى ہے كہ كوئي جن وانس قرآن كى مثل لانے كى طاقت نہيں ركھتا اس سے معلوم ہوتا ہے كہ قرآن ہميشہ بے مثل كتاب كى مانندرہے گا_

۶_ قرآن جيسى بے مثل كتاب كا پيغمبر (ص) كو عطا ہونا ان پر الله تعالى كے عظےم فضل كى نشانى ہے_

أن فضله كان عليك كبيراً _ قل لئن اجتمعت لايا تون بمثله

۷_چيلنج او رمقابلہ كى دعوت كے سلسلہ ميں قرآن مجيد كى فتح اس كى بلاشبہ حقانيت كا اعلان ہے _

قل جاء الحق قل لئن اجتمعت الإنس والجن لا يا تون بمثله

۸_انسان كا قرآن كى مثل لانے سے عاجز ہونا، اس كى الله كے مدّ مقابل كم علمى اور كم طاقت ركھنے پر دلالت كرتا ہے_

وما أوتيتم من العلم إلّا قليلاً قل لئن اجتمعت لايا تون بمثله

۹_جن، انسان كى مانند باشعور موجود ہے_قل لئن اجتمعت الإنس والجنّ على يا توا بمثهل

انسان و جن كے مابين، ارتباط اتفاق نظر اور تعاون ممكن ہے_يہ جو الله تعالى نے فرمايا: اگر جن اور انسان ايك دوسرے كا ہاتھ پكڑليں تو بھى قرآن كى مثل نہيں لاسكتے _ اس سے معلوم ہوتا ہے كہ انسان اور جن كے درميان رابطہ اور تعاون كا امكان ہے ورنہ يہ چيلنج لغو ہوتا_

۱۱_قرآن كااعجاز تمام جہات اور ابعاد ( لفظي، معنوى ' معرفت وغيرہ كے حوالے سے ...) تھا لہذا يہ چيلنج بھى ان تمام ابعاد ميں ہے_قل لئن اجتمعت الإنس والجنّ لايا تون بمثله

۲۴۴

پورى تاريخ ميں جن وانس كو مخاطب كرنا بتا رہا ہے كہ صرف عرب لوگ اس چيلنج كے مخاطبين نہيں تھے ورنہ يہ چيلنج قرآن كے لفظى اور ادبى بعد ميں ہى رہتا_

۱۲_پيغمبر (ص) كے زمانے كے بعض لوگوں كا قرآن كے بارے ميں يہ عقيدہ كہ وہ سرچشمہ وحى سے نہيں ہے اور خود ساختہ ہے_قل لئن اجتمعت الإنس والجنّ لايا تون بمثله

يہ جو قرآن مكمل قاطعيت سے چيلنج كر رہا ہے ہو سكتا ہے اس شبھہ كے جواب ميں ہو كہ قرآن وحى نہيں ہے_

۱۳_قرآن كى مثل كتاب لانے كا ناممكن ہونا خود ہى اس كے الہى ہونے اور بشرى نہ ہونے سے ہے _

قل لئن اجتمعت الإنس والجنّ لايا تون بمثله

آنحضرت (ص) :آنحضرت (ص) پر فضل كى نشانياں ۶;آنحضرت (ص) پر قرآن كا نزول ۶;آنحضرت (ص) كى ذمہ دارى ۱

الله تعالى :الله تعالى كے فضل كى نشانياں ۶

انسان:انسانوں كا عاجز ہونا ۱، ۳، ۴، ۸;انسانوں كو دعوت ۲;انسانوں كے علم كے محدود ہونے كى نشانياں ۸

جن :جن سے روابط ۱۰;جن كا شعور ۹;جن كا عجز ۱، ۳ ، ۴;جن كو دعوت ۲;جن كے ساتھ تعاون ۱۰

قرآن:قرآن پر افتراء ۱۲;قرآن كا اعجاز ۲;قرآن كا چيلنج ۲;قرآن كا وحى سے ہونا ۳; قرآن كى اہميت ۶;قرآن كى جاودانگى ۵;قرآن كى حقانيت كى نشانياں ۷;قرآن كى خصوصيات ۳;قرآن كى مثل بنانا ۱، ۴، ۸، ۱۳;قرآن كے اعجاز كے ابعاد ۱۱;قرآن كے بے نظير ہونا ۳، ۵،۱۳;قرآن كے چيلنج كے آثار ۷; قران كے چيلنج كے ابعاد ۱۱; قرآن كے وحى سے ہونے كے دلائل ۱۳

لوگ:بعثت كے زمانے كے لوگوں كا افتراء ۱۲;بعثت كے زمانے كے لوگوں كا عقيدہ ۱۲

موجودات:باشعور موجودات ۹

۲۴۵

آیت ۸۹

( وَلَقَدْ صَرَّفْنَا لِلنَّاسِ فِي هَـذَا القرآن مِن كُلِّ مَثَلٍ فَأَبَى أَكْثَرُ النَّاسِ إِلاَّ كُفُوراً )

اور ہم نے اس قرآن ميں سارى مثاليں الٹ پلٹ كر بيان كردى ہيں ليكن اس كے بعد پھر اكثر لوگوں نے كفر كے علاوہ ہر بات سے انكار كرديا ہے (۸۹)

۱_مختلف مثالوں اور بيانات سے قرآن ميں الہى حقائق كى وضاحت _ولقد صرّفنا للناس فى هذا القرآن من كلّ مثل

۲_حقائق اور مفاہيم كى تشريح كے لئے قرآن كے مختلف بيانات اور متنوع انداز ،اس كے ابعاد اعجاز كا ايك جلوہ ہے_

لايا تون بمثله ولقد صرّفنا للناس فى هذا القرآن من كلّ مثل

۳_قرآن كے مختلف بيانات اور مثاليں ، لوگوں كى فہم اور ان كى ہدايت كے لحاظ سے مناسب ہيں _

ولقد صرّفنا للناس فى هذا القرآن من كلّ مثل

''تصريف'' كا لغت ميں معنى ايك چيز كو مختلف جہات سے پھيرنا ہے اور ''تصريف كلام'' سے مراد اس كو مختلف معانى ميں لانا ہے يہ جو قرآن كتاب ہدايت ہے اور وہ فرماتا ہے ہم نے قرآن ميں معانى كو مختلف جہات سے بيان كيا_اس سے معلوم ہوا كہ ان جہات كى رعايت ہوسكتا ہے مندرجہ بالا نكتہ كى بناء پر ہو _

۴_لوگوں كے لئے حقائق كى وضاحت اور ان كى تشريح كے لئے ضرورى تھا كہ مختلف انداز اور بيانات سے فائدہ اٹھايا جائے_ولقد صرفنا للناس فى هذا القرآن من كل مثل

۵_تمام انسان، مخاطب قرآن ہيں نہ كہ كوئي خاص گروہ_ولقد صرفنا للناس فى هذا القرآن

۶_اكثر لوگوں كا قرآن سے منہ پھيرنا سوائے حق سے دورى كے علاوہ اور كچھ نہيں تھے_

ولقد صرفنا فا بى أكثر الناس الاّ كفورا

۷_قرآن سے منہ پھيرنے كى وجہ اس كا ناقابل فہم ہونا يا اس كے مضامين نہيں ہيں بلكہ اس كى وجہ حق سے

۲۴۶

دورى اختيار كرنا ہے_ولقد صرفنا للناس فى هذا القرآن من كل مثل فا بى أكثر الناس الاّ كفورا

۸_قرآن كى حقانيت اور اس كے بے مثل پر دليل ہونے كے باوجود اس كا انكار ايك بہت بڑى اور ناقابل قبول ناشكرى ہے_ولقد صرفنا للناس فى هذا القرآن من كل مثل فا بى أكثر الناس إلّا كفورا

مندرجہ بالا مطلب كى بناء يہ ہے كہ ''كفور'' سے مراد نعمت كى نا شكرى ہو_

اكثريت:اكثريت كا حق قبول نہ كرنا ۶

حق:حق قبول نہ كرنے كے آثار ۷

حقائق :حقائق كى وضاحت كا انداز ۱، ۴;حقائق كى وضاحت كا متنوع ہونا ۴

قرآن:اكثر لوگوں كا قرآن سے منہ پھيرنا ۶;قرآن سے منہ پھيرنے كا فلسفہ ۷;قرآن كا انداز بيان ۱، ۲; قرآن كا سارے جہان كے ہونا ۵ ; قرآن كا ہدايت دينا ۳;قرآنى تعليمات كى خصوصيات ۱، ۲;قرآن كى تكذيب ۸; قرآن كى فہم ميں سہولت ۳;قرآن كى مثالوں كا فلسفہ ۱، ۳;قرآن كے اعجاز كى نشانياں ۲; قرآن كے بيان كا متنوع ہونا ۲، ۳;قرآن كے مخاطب ۵

ناشكري:نعمت كى ناشكرى ۸

آیت ۹۰

( وَقَالُواْ لَن نُّؤْمِنَ لَكَ حَتَّى تَفْجُرَ لَنَا مِنَ الأَرْضِ يَنبُوعاً )

اور ان لوگوں نے كہنا شروع كرديا كہ ہم تم پر ايمان نہ لائيں گے جب تك ہمارے لئے زمين سے چشمہ نہ جارى كردو (۹۰)

۱_مشركين كى طرف سے پيغمبر (ص) پر ايمان لانے سے پہلے مكہ ميں مشركين كے ليے ايك پر جوش پانى كے چشمہ كو ظاہر كرنے كى شرط_وقالوا لن نو من لك حتّى تفجرلنا من الأرض ينبوعا

۲_مكہ ميں مشركين كے لئے چشمہ جارى كرنے كا تقاضا ان كا پيغمبر (ص) سے طلب كردہ ايك معجزہ تھا _و قالوا لن نومن لك حتّى تفجرلنا من الأرض ينبوعا

۳_مشركين مكہ معجزہ طلب كرنے كے ذريعہ اپنے فوائد حاصل كرنے اور بہانوں كى تلاش ميں تھے نہ كہ وہ پيغمبر (ص) كى حقانيت كشف كرنا چاہتے تھے

۲۴۷

_ولقد صرّفنا للناس فى هذالقرآن من كل مثل فا بى أكثر الناس الاّ كفوراً_ وقالوا لن نو من لك حتّى تفجرلنا الأرض ينبوعا چونكہ مشركين، پيغمبراكرم (ص) كى حقانيت كو جاننے كے لئے مختلف راہوں كو نظر انداز كرچكے تھے اور انہوں نے اپنے ايمان كو ايسى چند محدود سى باتوں كے ساتھ مشروط كيا كہ جن سے اكثران كے مادى فائدے پورے ہوتے تھے _ اس سے مذكورہ بالا مطلب سامنے آتا ہے_

۴_مشركين نے الله تعالى كى طرح طرح كى نشانياں ديكھنے كے باوجود پيغمبر اكرم (ص) سے معجزہ كى درخواست كي_

ولقد صرّفنا من كلّ مثل فابى وقالوا لن نو من لك حتّى تفجرلنا من الأرض ينبوعا

۵_مكہ كے مشركين، قرآن كے بے مثل ہونے كے باوجود اسے معجزہ نہيں مانتے تھے _قل لئن اجتمعت الإنس و الجن وقالوا لن نو من لك

يہ جو الله تعالى قرآن كے بے مثل معجزہ ہونے كى توصيف كرنے كے بعد مشركين كے طلب كردہ جيسى معجزہ كى درخواست نقل كر رہا ہے _ مذكورہ بالا نكتہ كى طرف اشارہ ہو سكتا ہے _

۶_پيغمبر (ص) كى بعثت كے آغاز ميں مكہ ميں پانى كى كمى تھى اور اہل مكہ پانى كے دائمى منابع كے محتاج تھے_

تفجر لنا من الأرض ينبوعا

مشركين كى پيغمبر اكرم -(ص) سے چشمہ جارى كرنے كى درخواست ممكن ہے ان كى پانى كے منابع كى شديد ضرورت كے پيش نظر ہو_

۷_انسان كى اجتماعى اور مادى ضروريات، اس كى آراء و نظريات يہاں تك كہ فكرى و معنوى مسائل پر بھى اثر انداز ہوتى ہيں _وقالوا لن نو من لك حتّى تفجرلنا من الأرض ينبوعا

يہ احتمال كہ مشركين نے منبع آب كى شديد ضرورت كے پيش نظر پيغمبراكرم(ص) سے جارى چشمہ كو بعنوان معجزہ طلب كيا ہو اس مندرجہ بالا مطلب سامنے آتا ہے_

آنحضرت (ص) :آنحضرت (ص) سے پانى كے چشمہ كى درخواست ۱، ۲

اسلام :صدر اسلام كى تاريخ ۱، ۲، ۳، ۴، ۵

ضرورتيں :مادى ضرورتوں كے آثار ۷;پانى كى ضرورت ۶

عقيدہ :عقيدہ ميں مو ثر اسباب ۷

۲۴۸

فكر:فكر كى اساس ۷

قرآن :قرآن كا اعجاز ۵;قرآن كا بے نظير ہونا ۵

مشركين مكہ :مشركين مكہ اور قرآن ۵;مشركين مكہ كا حسى چيزوں كى طرف پر اعتقاد۴;مشركين مكہ كا نفع پسند ہونا۳;مشركين مكہ كا ہٹ دھرم ہونا ۴;مشركين مكہ كى درخواستيں ۱، ۲، ۴;مشركين مكہ كي

فكر۵;مشركين مكہ كے ايمان كى شرائط ۱;مشركين مكہ كے بہانے بنانا۳

معجزہ :معجزہ اقتراحى (خود طلب كيا ہوا ) ۱، ۲،۴

معجزہ حسى كى درخواست: ۴

مكہ:اہل مكہ كى ضروريات ۶; مكہ كا جغرافيائي مقام ۶;مكہ كى تاريخ ۶;مكہ ميں پانى كا كم ہونا ۶

آیت ۹۱

( أَوْ تَكُونَ لَكَ جَنَّةٌ مِّن نَّخِيلٍ وَعِنَبٍ فَتُفَجِّرَ الأَنْهَارَ خِلالَهَا تَفْجِيراً )

يا تمھارے پاس كھجنور اور انگور كے باغ ہوں جن كے درميان تم نہريں جارى كردو (۹۱)

۱_مشركين كى پيغمبر اكرم(ص) پر ايمان لانے كے ليے ايك شرط يہ تھى كہ پيغمبراكرم(ص) كے پاس كھجور اور انگور كے درختوں كا ايسا بڑا باغ ہو جس كے درميان بہت سى پانى كى نہريں جارى ہوں _

وقالوا لن نو من لك حتّى أو تكون لك جنة من نخيل وعنبا

۲_مادى قدرت اور دنياوى وسايل سے سرشار ہونا مشركين مكہ كى نظر ميں پيغمبرى اور رہبرى كا معيار تھا_

وقالوا لن نو من لك حتّى أو تكون لك جنة من نخيل وعنبا

مندرجہ بالا مطلب اس احتمال كى بناء پر ہے كہ مشركين مكہ چاہتے تھے كہ آپ (ص) واقعاً مال ثروت اور باغ كے حامل ہوں نہ كہ معجزہ اقتراحى ان كى خواہش تھى _

۳_مشركين مكہ نے الله كى مختلف آيات كا مشاہدہ كرنے كے باوجود پيغمبر(ص) سے حسى معجزہ كى درخواست كي_

ولقد صرّفنا من كلّ مثل فا بى وقالوا

۲۴۹

لن نومن لك حتّى تكون لك جنة من نخيل وعنبا

يہ نكتہ اس آيت ميں اس احتمال كے ساتھ پيدا ہوگا كہ وہ اس قسم كے باغ كو معجزہ كے وسيلہ سے چاہتے تھے_

۴_كھجور اور انگور كا جارى نہروں كے ساتھ بڑا باغ مشركين مكہ كى جانب سے آنحضرت (ص) سے معجزہ اقتراحى (طلب كردہ) تھا_لن نو من لك حتّى تكون لك جنة من نخيل وعنبا

آنحضرت (ص) :آنحضرت (ص) سے باغ كى درخواست ۱، ۴;آنحضرت (ص) سے نخلستان كى درخواست ۱، ۴

اسلام:صدر اسلام كى تاريخ ۱، ۳، ۴

انبياء :انبياء كا مالدار ہونا ۲

رہبر:رہبروں كا مالدار ہونا ۲

رہبري:رہبرى كا معيار ۲

مشركين مكہ:مشركين كا عقيدہ ۲;مشركين مكہ كى ہٹ دھرمى ۳;مشركين مكہ كى خواہشات ۳، ۴;مشركين مكہ كے ايمان كى شرائط ۱

معجزہ:معجزہ اقتراحى ۱،۳ ،۴;معجزہ حسى كى درخواست ۳

نبوت:نبوت كا معيار ۲

آیت ۹۲

( أَوْ تُسْقِطَ السَّمَاء كَمَا زَعَمْتَ عَلَيْنَا كِسَفاً أَوْ تَأْتِيَ بِاللّهِ وَالْمَلآئِكَةِ قَبِيلاً )

يا ہمارے اوپر اپنے خيال كے مطابق آسمان كو ٹكڑے ٹكڑے كركے گرادو يا اللہ اور ملائكہ كو ہمارے سامنے لاكر كھڑا كردو (۹۲)

۱_آسمان سے ٹكڑے نازل كروانا،معجزات اقترا حى اور مشركين مكہ كى پيغمبر (ص) سے درخواستوں ميں سے ايك ہے_

اوتسقط السماء علينا كسفا

''كسَف'' كسف كى جمع ہے كہ جس سے مرادٹكڑا ہے_ (لسان العرب)

۲_آسمان سے ٹكروں كا نازل ہونا، مشركين مكہ كى آنحضرت (ص) پر ايمان لانے سے پہلے شرط تھي_

وقالوا لن نومن لك او تسقط السماء كما زعمت علينا كسفا

۲۵۰

۳_پيغمبر (ص) كا مشركين مكہ كو عذاب نازل ہونے پر آسمان سے ٹكڑوں كے گرنے كے امكان سے خبردار كرنا _

او تسقط السماء كما زعمت علينا كسفا

۴_مشركين مكہ كا ان پر آسمان سے ستاروں اور ٹكڑوں كے گرنے كے ساتھ عذاب كے نزول پر يقين نہ كرنا _

او تسقط السماء كما زعمت علينا كسفا

''الزعم'' سے مراد ايسى بات كى حكايت تھى كہ جہاں جھوٹ كا گمان ہو _(مفردات راغب)

۵_مشركين مكہ كى آنحضرت (ص) اور ان كى برحق تعليمات كے مدمقابل ھٹ دھرى _

لن نو من لك حتّى تسقط السماء كما زعمت علينا كسفا

۶_مشركين مكہ پيغمبر (ص) كى حقانيت پر گواہى كے لئے الله اور ملائكہ كو اپنے آمنے سامنے ديكھنا چاہتے تھے_

اوتا تى باللّه والملئكةقبيلا

''قبيلاً'' سے مراد مقابلہ (آمنے سامنے) ہے _ اس آيت ميں يہ ممكن ہے مندرجہ بالا مطلب كو بيان كرے _

۷_مشركين مكہ نے پيغمبر (ص) پر اپنے ايمان كو الله تعالى اور ملائكہ كو قابل مشاہدہ حالت ميں لانے پر مشروط كرديا _

قالوا لن نومن لك حتّى اوتا تى باللّه والملائكة قبيلا

مندرجہ بالا مطلب كى بناء يہ ہے كہ ''قبيلاً'' سے مراد آمنے سامنے مشاہدہ ہو_

۸_الله تعالى اور ملائكہ كو گروہ گروہ كى شكل ميں مشركين مكہ كے پاس لاياجانا، ان كى آنحضرت (ص) سے درخواست (اقتراحي) تھي_لن نومن لك حتّى اوتا تى باللّه والملائكة قبيلا

مندرجہ بالا مطلب كى بناء يہ ہے ''قبيلاً'' قبيلہ كى جمع ہو_

۹_مشركين مكہ كا الله تعالى اور ملائكہ كے بارے ميں مادى اور جسمانى تصور _تا تى باللّه والملائكة قبيلا

''قبيلاً'' سے مراد آمنے سامنے اور مشاہدہ ہے اس ليے اس كا استفادہ ہوتا ہے نكتہ_

۱۰_مشركين مكہ كا اپنے عقائد اور نظريہ كائنات ميں صرف محسوسات اور حسى چيزوں پر اعتماد كرنا_

تا تى باللّه والملائكة قبيلا

آسمان :آسمان كے گرنے كى درخواست ۱، ۲

آنحضرت (ص) :

۲۵۱

آنحضرت (ص) كى حقانيت پر گواہى ۶; آنحضرت (ص) كے ڈراوے ۳;آنحضرت (ص) كے دشمن ۵

اسلام :صدر اسلام كى تاريخ ۱، ۲، ۳، ۵، ۶، ۷، ۸

الله تعالى :الله تعالى كى گواہى كى درخواست ۶;اللہ كے ديكھنے كى درخواست ۷;اللہ تعالى كے سامنے آنے كى درخواست ۶، ۷، ۸

ڈراوے:عذاب سے ڈراوا ۳

عذاب:عذاب پر يقين نہ ہونا ۴;آسمان كے گرنے كے ساتھ عذاب ۳

مشركين مكہ :مشركين مكہ اور آنحضرت (ص) ۵;مشركين مكہ كا ايمان نہ لانا ۴;مشركين مكہ كا حسى چيزوں پر يقين ميلان۱۰;مشركين مكہ كا عقيدہ ۱۰ ; مشركين مكہ كا عادى چيزوں پر اعتقاد ۹; مشركين مكہ كى خواہشات ۱، ۶، ۷;مشركين مكہ كى فكر۹;مشركين مكہ كو ڈراوے ۳; مشركين مكہ كى ہٹ دھرمى ۵;مشركين مكہ كے ايمان كى شرائط ۲، ۷

معجزہ:معجزہ اقتراحى ۱، ۶، ۸

ملائكہ:ملائكہ كى گواہى كى درخواست ۶;ملائكہ كو ديكھنے كى درخواست ۷;ملائكہ كو سامنے لانے كى درخواست ۶، ۷، ۸

آیت ۹۳

( أَوْ يَكُونَ لَكَ بَيْتٌ مِّن زُخْرُفٍ أَوْ تَرْقَى فِي السَّمَاء وَلَن نُّؤْمِنَ لِرُقِيِّكَ حَتَّى تُنَزِّلَ عَلَيْنَا كِتَاباً نَّقْرَؤُهُ قُلْ سُبْحَانَ رَبِّي هَلْ كُنتُ إَلاَّ بَشَراً رَّسُولاً )

يا تمھارے پاس سونے كا كوئي مكان ہو يا تم آسمان كى بلندى پر چڑھ جاؤ اور اس بلندى پر بھى ہم ايمان نہ لائيں گے جب تك كوئي ايسى كتاب نازل نہ كردو جسے ہم پڑھ ليں آپ كہہ ديجئے كہ ہمارا پروردگار بڑا بے نياز ہے اور ميں صرف ايك بشر ہوں جسے رسول بناكر بھيجا گيا ہے (۹۳)

۱_اپنے ليے سونے كا گھربنانا مشركين مكہ كى پيغمبر (ص) سے درخواست (معجزہ اقتراحي) _

۲۵۲

ا ويكون لك بيت من زخرف

پچھلى آيات كے سياق وسباق سے معلوم ہوتا ہے كہ جہاں معجزات كى درخواست كى گئي تھي_ يہاں بھى ''اويكون لك بيت من زخرف'' سے مراد سونے كا گھر معجزہ كے ذريعے بنانا ہے_

۲_مشركين مكہ نے آنحضرت (ص) پر اپنے ايمان كو سونے سے بنے گھر كے معجزہ سے مشروط كرديا _

قالوا لن نو من لك حتّى أو يكون لك بيت من زخرف

۳_مشركين مكہ قران كے بلند مفاہيم سے غافل تھے اور دنيا كے مال پر آنكھيں لگائے ہوئے تھے_

ولقد صرّفنا فى هذالقرآن من كل مثل فا بى وقالوا لن نو من لك حتّى أو يكون لك بيت من زخرف

۴_مشركين مكہ نے الله تعالى كى مختلف نشانيوں كا مشاہدہ كرنے كے باوجود پيغمبر (ص) سے معجزہ حسى كى درخواست كي_

ولقد صرّفنا من كل مثل فا بى وقالوا لن نومن لك حتّى يكون لك بيت من زخرف أو ترقى فى السماء تنزل علينا كتاباً نقرؤه

۵_پيغمبر (ص) كا آسمان كى طرف اوپر جانا اور وہاں سے پڑھنے كے لائق لكھى ہوئي چيز اور اپنے اوپر جانے كى گواہى لانا مشركين مكہ كا پيغمبر (ص) سے طلب كردہ معجزہ _او ترقى فى السماء ولن نومن لرقيك حتّى تنزل علينا كتاباً نقرؤه

۶_پيغمبر (ص) كا آسمان كى طرف اوپر جانا اور وہاں سے اپنى حقانيت پر خط لانا' مشركين مكہ كى آنحضرت (ص) پر ايمان لانے كى شرط تھي_قالوا لن نو من لك حتّى ...او ترقى فى السماء ولن نومن لرقيك حتّى تنزل علينا كتاباً نقرؤه

۷_الله تعالى كے معجزات كے وجود ميں لانے كے اصلى ارادہ سے مشركين مكہ كى غفلت _

تفجرلنا تسقط السمائ تأتى بالله تنزل علينا كتباً نقرؤه

يہ كہ مشركين مكہ كى آنحضرت (ص) سے درخواست كہ تمام معجزات ،حتى كہ الله كا آنا مندرجہ بالا نكتہ كو واضح كر رہا ہے_

۸_الله تعالى كى آيات اور معجزات كى شناخت ميں مشركين مكہ كا صرف مادى اور حسى معياروں پر اعتماد كرنا _

حتى تفجرلنا حتّى تنزل علينا كتباً نقرؤه

۹_مشركين مكہ، قرآن اور آنحضرت (ص) كى رسالت كے آسمانى ہونے پر عقيدہ نہ ركھتے تھے_

او ترقى فى السماء ولن نومن لرقيك حتّى تنزل علينا كتاباً نقرؤه

يہ كہ وہ پيغمبر (ص) سے ايسے خط اور كتاب كو مانگ رہے تھے كہ جو وہ خود آسمان سے لے كر آئيں _ اس سے واضح ہورہاہے كہ قرآن جو كہ آنحضرت (ص) پر وحى كى صورت ميں نازل ہوا وہ اسے قبول نہيں كرتے تھے_

۲۵۳

۱۰_ پيغمبر (ص) پر مشركين مكہ كے بے جا طلب كردہ معجزات كا جواب دينے اور ان كى ايسى طلب كے پورا كرنے پر الله تعالى كے منزّہ ہونے كو بيان_قالوا لن نو من لك حتّى تفجرلنا ...قل سبحان ربي

۱۱_الله تعالى ، بہانوں كى تلاش ميں پڑے ہوئے لوگوں كى فضول خواہشات كے مطابق اپنے معجزات دينے سے منزہ ہے_

تفجرلنا من الأرض ينبوعاً قل سبحان ربي

مشركين مكہ كى اپنے ميلان كے مطابق پيغمبر اكرم (ص) سے معجزات كى متعدد درخواستوں كے مد مقابل الله تعالى فرما رہا ہے ''ميرا رب منزہ ہے'' اس جواب كا ممكن ہے يہ معنى ہو كہ الله تعالى اسے لوگوں كے ميلان كے مطابق معجزات عطا نہيں كرتا _

۱۲_الله تعالى كسى جگہ محصور ہونے' جسم ركھنے' ديكھے جانے اور دوسرے ايسے مادى اوصاف سے منزہ ہے_اوتاتى بالله قل سبحان ربي چونكہ مشركين كى پيغمبر (ص) سے درخواست :''تا تى باللہ '' الله تعالى كى جسمانيت ' ايك جگہ سے دوسرى جگہ آنا، اور ديكھے جانے كى موجب تھى تو جملہ ''سبحان ربي'' ہوسكتا ہے ايسى غير منطقى درخواست كا جواب ہو_

۱۳_معجزات كا پيش كرنا اور ان كى نوعيت واضح كرنا صرف الله تعالى كا كام ہے نہ كہ انبياء كا_تفجر لنا من الأرض ينبوعاً قل سبحان ربى هل كنت الاّ بشراً رسول يہ كہ مشركين، پيغمبر (ص) سے معجزات لانے كى درخواست كر رہے تھے اور انہوں نے ان كے جواب ميں فرمايا :''هل كنت الاّ بشراً رسولاً'' اس سے معلوم ہواكہ معجزہ كا سرچشمہ، فقط الله تعالى ہے_ پيغمبر-(ص) كا اس سلسلے ميں كوئي كردار نہيں _

۱۴_پيغمبر(ع) دوسرے انسانوں كى مانند ايك انسان ہے اور اس كى خصوصيت اور امتياز صرف اس كى رسالت اور پيغمبرى ہے_قل سبحان ربى هل كنت الاّ بشراً رسولا

۱۵_پيغمبر(ص) اپنى محدود ذمہ دارى كے اعلان اور مشركين كے طلب كردہ معجزات كو پيش كرنے سے اپنى عاجزى بيان كرنے كے ذمہ دار ہيں _قالوا قل هل كنت الاّ بشراً رسولا

مشركين كى درخواستوں كے مد مقابل ''ہل كنت '' كا جواب ہوسكتا ہے يہ بيان كر رہا ہو كہ ان كى درخواست كا پيغمبر كى رسالت اور ذمہ داريوں سے كوئي ربط نہيں ہے يا يہ اس كى طاقت ميں نہيں ہے_آسمانى خط :آسمانى خط كى درخواست ۵، ۶

آنحضرت (ص) :آنحضرت (ص) كى ذمہ دارى ۱۵; آنحضرت كى ذمہ دارى كا محدود ہونا ۱۵آنحضرت (ص) كى رسالت ۱۰;

۲۵۴

آنحضرت (ص) كى نبوت كو جھٹلانے والے ۹; آنحضرت (ص) كے فضائل۱۴; آنحضرت (ص) كى خصوصيات ۱۴;آنحضرت(ص) كابشر ہونا ۱۴; آنحضرت سے آسمان كى طرف جانے كى درخواست ۵، ۶

اسلام :صدر اسلام كى تاريخ ۱، ۲، ۴، ۵، ۶

اسما ء وصفات:صفات جلال ۱۲

الله تعالى :الله تعالى اور جسمانيت ۱۲; الله تعالى اور مكان ۱۲;اللہ تعالى كى تنزيہ ۱۰ ، ۱۱ ، ۱۲;اللہ تعالى كے اختيارات ۱۳;اللہ تعالى كے ارادہ كے آثار ۷;اللہ تعالى كے ديكھنے كا ردّ۱۲;اللہ تعالى كے مختصات ۱۳

انبياء :انبياء كى ذمہ دارى كا محدود ہونا ۱۳

قرآن :قرآن كا وحى ہونا ۹;قرآن كے جھٹلانے والے ۹

گھر:سونے كے گھر كى درخواست ۱، ۲

مشركين مكہ:مشركين مكہ اور الله تعالى كى آيات ۸;مشركين مكہ اور قرآن۳;مشركين مكہ اور معجزہ ۸; مشركين مكہ كا مادى چيزوں پر اعتقاد ۸; مشركين مكہ كا محسوس چيزوں پر اعتقاد۴، ۸; مشركين مكہ كى بے ايماني۹;مشركين مكہ كى دنيا طلبى ۳; مشركين مكہ كى غفلت ۳، ۷;مشركين مكہ كى ہٹ دھرمى ۴; مشركين مكہ كے ايمان كى شرائط ۲، ۶ ; مشركين مكہ كے تقاضے درخواستيں ۱، ۴، ۵، ۱۰، ۱۵

معجزہ:حسى معجزہ كى درخواست ۴;معجزہ اقتراحى ۱، ۴، ۵، ۱۵;معجزہ اقتراحى كا رد ہونا ۱۰;معجزہ كا سرچشمہ ۷، ۱۱ ، ۱۳، ۱۵

آیت ۹۴

( وَمَا مَنَعَ النَّاسَ أَن يُؤْمِنُواْ إِذْ جَاءهُمُ الْهُدَى إِلاَّ أَن قَالُواْ أَبَعَثَ اللّهُ بَشَراً رَّسُولاً )

اور ہدايت كے آجانے كے بعد لوگوں كے لئے ايمان لانے سے كوئي شے مانع نہيں ہوئي مگر يہ كہ كہنے لگے كہ كيا خدا نے كسى بشر كو رسول بنا كر بھيج ديا ہے (۹۴)

۱_مشركين مكہ، نبوت كے لئے نوع بشر كے انتخاب كے منكرتھے اور اسے ناممكن اور محال سمجھتے تھے _

وما منع الناس الاّ أن قالوا ا بعث اللّه بشراً رسولا

''الناس'' ميں الف لام عہدى ہے اور گذشتہ آيات كى طرف توجہ كرتے ہوئے ا س سے مراد، مشركين مكہ ہيں _

۲_الله كے رسولوں كا بشر ہونا، بہانے باز مخالفين يعنى كفار و مشركين كے ايمان نہ لانے كا عمدہ بہانہ تھا_

۲۵۵

وقالوا لن نؤمن لك حتّى الاّ أن قالوا ا بعث الله بشراً رسولا

۳_مشركين مكہ كے پاس آنحضرت (ص) پر ايمان نہ لانے كا ايك ہى بہانہ، آپ (ص) كا بشر ہونا تھا_

قالوا أبعث الله بشراً رسولا

۴_زمانہ بعثت كے كفار اور مشركين كے پاس الله كے رسولوں كو پہچاننے كے لئے غلط معيار تھے_

قالوا ا بعث الله بشراً رسولا

۵_پہلے سے ہى غلط معياروں پر كئے گئے فيصلے، انبياء كى صحيح تعليمات كو سمجھنے سے مانع تھے_

ومامنع الناس أن يؤمنوا إذ جاء هم الهدى بشراً رسولا

۶_ انبياء الہى كا پيغام سراسر ہدايت اور راہنمائي ہے_وما منع الناس أن يؤمنوا إذجاء هم الهدى بشراً رسول

۷_مشركين كا عقيدہ تھا كہ مقام رسالت ،بشر كى شان سے بہت بلند ہے_قالوا ا بعث الله بشراً رسولا

۸_انبياء كا تمام لوگوں كى مانند ہونا ان كى قدرو قيمت اور خصوصى صلاحيتوں كى شناخت سے مانع تھا_

ومامنع الناس الاّ ان قالوا ا بعث الله بشراً رسولا

يہ كہ مشركين، بشر كى نبوت كو محال چيز سمجھتے تھے شايد اس لئے ہو كہ وہ پيغمبروں كو اپنے جيسے افراد سمجھتے تھے_ اورانہيں اپنے جيسا ضعيف اور كمزور سمجھتے تھے_

۹_الله كے وجود اور رسالت كى ضرورت كى حقيقت حتّى كہ مشركين كے افكار ميں بھى تسليم شدہ تھى _

ا بعث الله بشراً رسول يہ كہ مشركين اصل رسالت كے انكار كے بجائے بشر كى نبوت كو بعيد شمار كرتے تھے اس سے معلوم ہوا كہ خود رسالت ونبوت جيسى حقيقت ان كى نظر ميں يقينى تھي_

۱۰_وعن أبى عبداللّه (ع) :''قالوا ا بعث الله بشراً رسولاً'' قالوا: إن الجن كانوا فى الأرض قبلنا، فبعث الله إليهم ملكاً، فلو اراد الله ان يبعث إلينا لبعث الله ملكاً من الملائكة وهو قول الله ''ومامنع الناس أن يؤمنوا إذجائهم الهدى إلّا ان قالوا ا بعث الله بشراً رسولاً_'' (۱) امام صادق (ع) سے روايت ہے كہ: قالوا ا بعث الله بشراً رسولاً '' وہ(منكرين رسالت محمد (ص) ) كہتے تھے كہ :ہم سے پہلے زمين ميں مخلوق جن موجود تھى الله تعالى نے ان كى طرف ايك فرشتہ

____________________

۱) تفسير عياشى ، ج ۲ ، ص ۳۱۷، ح ۱۶۷ _ نورالثقلين ج ۳، ص ۲۲۷، ح ۴۴۹_

۲۵۶

مبعوث كيا تو اگر الله نے چاہاہے كہ كسى كو ہمارى طرف بھيجے تو فرشتوں ميں سے ايك فرشتہ بھيجے_ يہ الله كا كلام كا معنى ہے كہ فرما رہا ہے:''ومامنع الناس أن يؤمنوا إذجائهم الهدى الاّ أن قالوا ا بعث الله بشراً رسولاً'' _

آنحضرت (ص) :آنحضرت (ص) كا بشر ہونا ۳

اسلام:صدر اسلام كى تاريخ ۳

انبياء:انبياء كا بشر ہونا ۲، ۷، ۱۰;انبياء كا ہدايت دينا ۶;انبياء كى تعليمات كى خصوصيات ۶;انبياء كى جنس ۱۰;انبياء كى شناخت سے مانع ۸;انبياء كى صلاحيتيں ۸;انبياء كے بشر ہونے كے آثار ۸;جنّات كے انبياء ۱۰;انبياء كے فضائل ۸;انبياء كے مخالفين كا بہانہ كرنا ۲;انبياء كے مخالفين كے كفر كى دليلےں ۲;انبياء كا كے ساتھ برتاؤ۵

پہلے سے فيصلے:پہلے سے فيصلوں كے آثار ۵

تجزيہ:غلط تجزيہ كے آثار ۵

دين :دينى خطرات كى پہچان ۵

روايت :۱۰

ضرورتيں :انبياء كى ضرورت ۹

كفار:صدر اسلام كے كفار كى پيغمبر(ص) كے بارے ميں شناخت۴;صدر اسلام كے كفار كے غلط معيار ۴كفار كا بہانے تلاش كرنا ۲

مشركين :صدر اسلام كے مشركين كى پيغمبر (ص) كے بارے ميں شناخت ۴;صدر اسلام كے مشركين كے غلط معيار ۴; مشركين اور نبوت ۹;مشركين كا بہانے كرنا ۲; مشركين كا عقيدہ ۷;مشركين كا نظريہ ۹;مشركين كى الله كے بارے ميں شناخت ۹

مشركين مكہ:مشركين مكہ كا بہانے تلاش كرنا ۳;مشركين كا نظريہ ۱;مشركين مكہ كے كفر كے دلائل ۳

نبوت:بشر كى نبوت كو جھٹلانے والے ۱;مقام نبوت كى قدروقيمت ۷

۲۵۷

آیت ۹۵

( قُل لَّوْ كَانَ فِي الأَرْضِ مَلآئِكَةٌ يَمْشُونَ مُطْمَئِنِّينَ لَنَزَّلْنَا عَلَيْهِم مِّنَ السَّمَاءِ مَلَكاً رَّسُولاً )

تو آپ كہہ ديجئے كہ اگر زمين ميں ملائكہ اطمينان سے ٹہلتے ہوتے تو ہم آسمان سے ملك ہى كو رسول بناكر بھيجتے (۹۵)

۱_پيغمبراكرم(ص) مشركين كے شبھات كا جواب دينے ميں الہى ہدايت پر اعتماد كرتے تھے_

قل لو كان فى الارض

۲_الله تعالى كا انسانوں كى جنس سے ہى ان كى طرف رسول مبعوث كرنے كا طريقہ كار _

قالوا أبعث الله بشراً رسولاً _ قل لو كان لنزلنا عليهم من السماء ملكاً رسولاً_

مندرجہ بالا مطلب كى بناء يہ ہے كہ يہ آيت مشركين كے شبھہ كے جواب ميں ہو كہ جو يہ تصور كرتے تھے كہ بشر نبوت كے لائق نہيں ہے_

۳_زمين پر رہنے والے خواہ انسان ہوں يا فرشتے ہم جنس انبياء كے محتاج ہيں _

قل لو كان فى الأرض ملائكة لنزلناعليهم من السماء ملكاً رسولا

۴_مشركين كى نظر ميں صرف ملائكہ ہى رسالت اور نبوت كے لائق تھے_قالوا أبعث الله رسولاً_ قل لو كان فى الأرض ملائكة لنزلنا عليهم من السماء ملكاً رسولا مشركين كے تعجب اور ان كى يہ بات ''أبعث الله بشراً رسولاً'' كے جواب الہى سے معلوم ہوتا ہے كہ وہ اس انتظار ميں تھے كہ پيغمبر (ص) ملائكہ ميں سے ہو، نہ كہ جنس بشر سے_

۵_زمين پر ھر باشعور موجود مخلوق الہى وحى اور آسمانى ہدايت كى ضرورت مند ہے _

قل لوكان فى الأرض ملائكة يمشون مطمئنين لنزلنا

۶_زمين پر رہنے والوں كے لئے نزول وحى اور پيغام الہى كے لانے ميں فرشتے فقط واسطہ ہيں _

لنزلنا عليهم ملكاً رسولا

مندرجہ بالا مطلب كى بناء يہ ہے كہ ''ملكاًرسولاً'' سے مراد فرشتہ وحى ہو نہ كہ پيغمبر_

۲۵۸

۷_مشركين كا بشر كو رسول بعيد شمار كرنے كى وجہ ،اللہ اور پيغمبروں ميں فرشتوں كے وسيلہ ہونے كى طرف توجہ نہ كرنا ہے_

قل لو كان فى الأرض ملائكة يمشون مطمئنين لنزلنا عليهم من السماء ملكاً رسولا

مندرجہ بالا آيت ممكن ہے كہ مشركين كے جواب ميں ہو كيوں كہ مشركين بشر ميں سے كسى فرد كے جہان كے مالك الله سے رابطہ كو بعيد شمار كرتے تھے_ آيت جواب دے رہى ہے كہ پيغمبر كسى واسطہ كے بغير وحى نہيں ليتے تھے بلكہ اصولى طور پر الله اور زمين پر رہنے والوں كے درميان فرشتہ وحى كا واسطہ ہے_

آنحضرت (ص) :آنحضرت (ص) اور مشركين كے اعتراضات ۱; آنحضرت(ص) كى ہدايت ۱

الله تعالى :الله تعالى كى سنتيں ۲;اللہ تعالى كى ہدايتيں ۱

انبياء:انبياء كا بشر ہونا ۲، ۷;انبياء كا ہم جنس سے ہونا ۲، ۳

ضرورتيں :انبياء كى ضرورت ۳;وحى كى ضرورت ۵; ہدايت كى ضرورت ۵

غفلت :ملائكہ كے كردار سے غفلت ۷

مشركين :مشركين كا نظريہ ۴;مشركين كى غفلت كے آثار ۷ ; مشركين كے اعترضات كے جواب كا سرچشمہ ۱

ملائكہ:ملائكہ كا كردار ۶;ملائكہ كى نبوت ۴

موجودات:باشعور موجودات كى معنوى ضروريات ۵ موجودات كى ضروريات ۳

نبوت:نبوت كا معيار ۴;نبوت كى اہميت ۳

وحي:وحى كا واسطہ ۶

آیت ۹۴

( قُلْ كَفَى بِاللّهِ شَهِيداً بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ إِنَّهُ كَانَ بِعِبَادِهِ خَبِيراً بَصِيراً )

كہہ ديجئے كہ ہمارے اور تمھارے درميان گواہ بننے كے لئے خدا كافى ہے كہ وہى اپنے بندوں كے حالات سے باخبر ہے اور ان كے كيفيات كا ديكھنے والا ہے (۹۶)

۱_مشركين، اس لائق نہيں ہيں كہ الله تعالى ان سے مخاطبهو_قل كفى بالله شهيداً بينى وبينكم

مشركين كو پيغام پہنچانے كے لئے پيغمبر(ص) كو مخاطب قرار دينا اگر چہ يہ اعلان بغير ''قل'' كے بھى ممكن ہے اس سے مندرجہ بالا مطلب سامنے آتا ہے_

۲۵۹

۲_پيغمبر (ص) اور مشركين كے درميان الله تعالى كا گواہ اور ناظرہونا كافى ہے _كفى بالله شهيداً بينى وبينكم

۳_پيغمبر (ص) اپنى رسالت كے منكرين كے مد مقابل الله كى ہدايات پر عمل كرتے تھے_قل كفى بالله شهيداً بينى وبينكم

۴_حق كے منكر اور بہانے باز مشركين وكفار كو الله كا خبردار كرنا _

قالوا ا بعث الله بشراً رسولاً _ قل كفى بالله شهيداً بينى وبينكم

الله تعالى كا پيغمبر (ص) اور حق كے منكرين و مشركين كے درميان گواہ ہونے كى تنبيہ، كا تذكرہ ممكن ہے ان كو خبردار كرنے كے لئے ہو_

۵_الله تعالى نے مشركين پر حجت تمام كردى ہے اور جو كچھ كہنا تھا وہ كہہ ديا ہے _قل كفى بالله شهيداً بينى وبينكم

''كفى باللہ شہيداً'' كى تعبير، مشركين كے شبھات كا جواب دينے كے بعدقول فصل اور اتمام حجت كى جگہ ہے_

۶_بہانے باز اور حق كے منكرين كے ساتھ بحث و گفتگو كے بارے ميں فيصلہ كرنے كى ضرورت ہے_

قل كفى بالله شهيداً بينى وبينكم

۷_الله تعالى كا بہانے باز مشركين كے مدمقابل پيغمبر (ص) كو حوصلہ دينا_قل كفى بالله شهيداً بينى وبينكم

يہ آيت جس طرح كہ حق كے دشمن، مشركين كے لئے خبردار ہو پيغمبر (ص) كے لئے ايك قسم كى تسلى اور حوصلہ افزائي بھى ہوسكتى ہے _

۸_الله تعالى ، اپنے بندوں كے امور پر خبير( آگاہ) اور بصير ( نظر ركھنے والا) ہے_إنه كان بعباده خبيراً بصيرا

۹_الله تعالى كى بندوں كے اعمال پر گواہي، اس كے ان كے حالات پر وسيع علم كى بناء پر ہے_

كفى بالله شهيداً بينى وبينكم إنه كان بعباده خبيراً بصيرا

۱۰_الله تعالى كا بندوں پر علمى احاطہ كى طرف توجہ ،ان كے حق كے انكار اور بہانے بازى سے پرہيز كرنے كا پيش خيمہ ہے_

قل كفى بالله شهيداً إنه كان بعباده خبيراً بصيرا

يہ كہ الله تعالى نے مشركين پر حجت تمام كردى ہے اور اس وقت يہ فرمايا : وہ بندوں كے حالات سے آگاہ اور ان پر نظر ركھے ہوئے ہے ' ہوسكتا ہے كہ مندرجہ بالا نكتہ كى طرف اشارہ ہو _

آنحضرت (ص) :آنحضرت (ص) اور مشركين ۲،۳، ;آنحضرت (ص) كو حوصلہ دينا ۷;آنحضرت (ص) كى ہدايت ۳; آنحضرت (ص) كے گواہ ۲

۲۶۰

خداوند سبحان کی یاد انسان کو غفلت اور نسیان سے نکال دیتی ہے اور اخلاقی تربیت کی راہ ہموار کرتی ہے، کیونکہ اخلاقی انحراف اور برے افعال کے اسباب وعلل غفلت اور نسیان ہیں:

'' اس انسان کی اطاعت نہ کرو جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا ہے اور اس نے اپنی ہوا وہوس کی پیروی کی ہے اوراس کے کام کی بنیاد زیادہ روی پر ہے''۔(١)

''در حقیقت جو لوگ صاحبان تقویٰ ہیں، جب شیطان کی جانب سے انھیں وسوسہ ہوتا ہے تو ]خداکو[ یاد کرتے ہیں اور حقائق کو دیکھنے لگتے ہیں''۔(٢)

حضرت علی ـ فرماتے ہیں: ''خداوند سبحان نے اپنی یاد کو دلوں کے لئے روشنی قرار دیا ہے، قلوب اس وسیلہ سے بہر ے پن کے بعد سننے والے، نابینائی کے بعد بینا اور سرکشی و طغیانی کے بعد مطیع وفرمانبردار ہوجاتے ہیں''۔(٣)

آیات ورایات میں ذکر کثرت ومداومت کی تاکید کی گئی ہے: ''اے صاحبان ایمان! خدا کو بہت زیادہ کرو''۔(٤)

ذکر الٰہی کی مداومت قلب کی اصلاح اور اخلاقی فضائل سے کہ جو بالیدگی وحیات نو کا سبب ہے:''جو انسان اپنے دل کو ذکر کی مداومت سے آباد کرے تو اس کا کردار ظاہر وباطن دونوں صورتوں میں نیک ہوجائے گا''۔(٥)

''قلب کی اصلاح کی بنیاد، انسان کا ذکر خداوندی میں مشغول ہونا ہے''۔(٦)

ذکر کی روش میںذکر خداوندی کے علاوہ خدا کی نعمتوں کا یاد کرنا بھی منعم ]نعمت دینے والے[ کے احترام کے عنوان سے انسان کو خداوندعالم کی بے نظیر اور لاثانی ذات کے سامنے سراپا تسلیم ہونے اور اس کی تعظیم کرنے پر آمادہ کرتا ہے، بالخصوص جس قدر نعمت عظیم اور اس کا منعم بے غرض ہوگا، اس کا احترام فطرت کی نظر میں اتنا ہی زیادہ لازم ہوگا:''اے لوگو! اپنے اوپر خداوند سبحان کی نعمت کو یاد کرو، آیاخدا کے علاوہ کوئی خالق ہے کہ تمہیں زمین وآسمان سے رزق دے ''۔(٧)

____________________

١۔ سورہ ٔکہف آیت٢٨۔ ٢۔ سورہ ٔاعراف آیت٢٠١۔٣۔ نہج البلاغہ خطبہ ٢٢٢۔ ٤۔ سورۂ احزاب آیت٤١۔المیزان ج١ ص٣٤٠۔

٥۔ غرر الحکم۔ ٦۔ غرر الحکم۔ ٧۔ سورہ ٔفاطر آیت ٣۔

۲۶۱

چونکہ قرآن کریم خود کو ذکر اور حامل ذکر کے عنوان سے تعارف کراتا ہیلہٰذا تلاوت قرآن بھی ذکر کی حالت انسان کے اندر پیدا کیااور ایمان کی پرورش کا باعث ہوتی ہے:

(اِنْ هُوَ الّا ذِکْر لِلْعَالَمِیْن )(١)

''یہ عالمین کے لئے صرف ذکر (نصیحت) کا سامان ہے''۔

(ص، والقرآن ذی الذکر )(٢)

''ص ذکر (نصیحت) والے قرآن کی قسم''۔

(وَاِذَا تَلِیَتْ عَلَیْهِم آیَاتِهِ زَادَتْهُمْ اِیْمَاناً )(٣)

''اور جب ان کے سامنے آیات الٰہی کی تلاوت کی جاتی ہے تو ان کے ایمان میں اضافہ ہوجاتا ہے''۔

ذکر کی بحث میں آخری نکتہ ''موت کی یاد'' سے متعلق ہے، اس بات کی طرف توجہ دیتے ہوئے کہ آخرت پر ایمان رکھنا اخلاقی تربیت میں اہم کردار ادا کرتا ہے، موت کا تذکرہ اور اس کا ]ذہن میں[حضور ایمان کی پرورش اور اخلاقی آثار کے مجسم ہونے کا باعث ہوتا ہے ۔ اس کے علاوہ موت کی یاد، دنیا کی دوستی اور محبت کو ختم کرنے میںجوکہ بہت سے اخلاقی رذائل کا سرچشمہ ہے، اہم کردار اداکرتی ہے:

(کلّ نفس ذائقة الموت، وانّما توفون اجورکم یوم القیامة فمن زحزح عن النار وادخل الجنة فقد فاز وما الحیاة الدنیا الّا متاع الغرور )(٤)

''ہرنفس موت کامزہ چکھنے والا ہے اور تمھارا مکمل بدلہ تو صرف قیامت کے دن ملے گا اس وقت جسے جہنم سے بچالیا گیا اور جنت میں داخل کردیا گیا وہ کامیاب ہے اور زندگانی دنیا تو صرف دھوکہ کا سرمایہ ہے''۔

ائمہ اطہار علیہم السلام کے بیانات میں بھی موت کی یاد کا تربیتی اثر ملتا ہے:

''جو شخص ]مرنے کے بعد[ سفر کی دوری کو یاد کرے گا وہ آمادہ سفر ہوجائے گا''۔(٥)

''جو انسان موت کی آمد کا انتظار کرے گا وہ نیک کاموں میں جلدی کرے گا''۔(٦)

____________________

١۔ سورہ ٔتکویر آیت٢٧۔ ٢۔ سورہ ٔصآیت١۔٣۔ سورہ ٔانفالآیت ٢۔ ٤۔ سورہ ٔآل عمران آیت١٨٥۔

٥۔ غرر الحکم ٦۔ غرر الحکم۔

۲۶۲

موت کی یاد نفسانی خواہشات اور شہوات کو مار دیتی ہے ، غفلت کی جڑوں کو اکھاڑ دیتی ہے، دل کو خداوند سبحان کے وعدوں سے قوی اور مضبوط بنا دیتی ہے ، انسان کے وجود کو لطیف ونرم کرتی ہے اور ہوا وہوس کی نشانیوں کو درہم وبرہم کردیتی ہے اورحرص وطمع کی آگ کو خاموش کردیتی ہے اور دنیاکوانسان کی نظر میں بے وقعت اور ذلیل وخوار کردیتی ہے۔(١)

راہ آخرت کے سالکین نے اپنے شاگردوں کو ہمیشہ قبرستان میں جانے کی تاکید کی ہے کہ کم از کم ہفتہ میں ایک بار جائیں اور اہل قبور کی زیارت کریں اور موت کی یاد سے اپنے آپ کو تقویت کریں۔(٢)

ج۔دعا :

دعا در اصل عالم کے غیر مادی مرکز کی جانب روح کی کشتی کا نام ہے عام طور سے عام طور سے دعا سے مراد تضرع وزاری، اضطراب اور نالہ وشیون، استعانت اور مددطلبی ۔ اور کبھی ایک روشن کشف وشہود کی حالت جو تمام محسوسات کی دنیا سے دورمستمر اور باطنی آرام ہے۔ بعبارت دیگر کہا جاسکتا ہے کہ دعاخدا کی سمت پروازِ روح کا نام ہے یا عاشقانہ پر ستش کی حالت ہے اس مبدأ کی نسبت جس سے معجزہ حیات صادر ہوا ہے اور بالآخر دعاانسان کی کوشش ہے اس نامرئی اور ناقابل دید وجود سے ارتباط کے لئے جو تمام ہستی کا خالق ، عقل کل، قدرت مطلق اورخیر مطلق ہے۔ خاص اورادکے نقل سے صرف تطر کرتے ہوئے، حقیقت دعا سوزو گذار سے بھری ایک عرفانی حالت کو مجسم کرتی کہ دل اس میں خدا سے جذب ہوجاتا ہے ۔(٣)

راز ونیاز ،دعا و مناجات بھی پرورش ایمان کا ایک طریقہ ہے۔دعا احتیاج کا اظہار ہے بلکہ دعایہ ہے کہ انسان یکسر احتیاج بن جائے ۔دعا اشتیاق کا اظہار ہے ، بلکہ انسان کی تمام احتیاج یہی شوق و اشتیاق ہے۔دعا سنوار نے اور تربیت دینے کا ایک عامل ہے کہ نہ صرف انسان کو اس کی کمیوں سے متعلق ہوشیار کرتی ہے بلکہ اس کی تمام کوششوں اور توانائیوں کو اس کے مطلوب کے حصول کی خاطر صرف کردیتی ہے۔

____________________

١۔ المحجة البیضا ج٨ص ٢٤٢۔

٢۔ ہم بالخصوص ملا حسین قلی ہمدانی ، بہاری ہمدانی اور میرزا جواد انصاری ہمدانی کی وصیتوں میں ملاحظہ کرتے ہیں۔

٣۔ الکسین کارل: نیایش، ص ٥١۔

۲۶۳

جب کوئی بیمار درد وسوز سے پیچ وتاب کھاتا ہے اور ڈاکٹر سے مدد مانگتا ہے خود ہی ابتدائی کاموں کو انجام دیتا ہے تاکہ معالجہ کی راہ ہموار ہوجائے پس یہی بات ہے کہ دعا اور طلب اپنے حقیقی معنی کو پالیتی ہے اور نتیجہ کے طور پر اجابت اور قبولیت سے ہمکنار ہوتی ہے:

(وَاِذَا سَئَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّی فَاِنِّی قَرِیْبُ، اُجِیْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ فَلْیَسْتَجِیْبُوا لِی وَلْیُؤمِنُوا بِیْ لَعَلَّهُم یَرْشُدُونَ )(١)

''اور اے پیغمبر! اگر میرے بندے تم سے میرے بارے میں سوال کریں تو میں ان سے قریب ہوں، پکارنے

والے کی آواز سنتا ہوں جب بھی پکارتا ہے لہٰذا مجھ سے طلب کرو قبولیت کریں اور مجھ ہی ایمان واعتماد رکھیں کہ شاید اس طرح راہِ راست پر آجائیں''۔

ابھی دعا کے عینی آثار ]حاجتوں کی برآوری اور قبولیت واجابت [ مورد نظر نہیں ہیں، بلکہ ان کے علاوہ دعا ومناجات ہے، معبود سے باتیں کرنا اورراز ونیاز کا اظہار کرنا ہے، اس وجہ سے محبوب کے حضور کو دعا کرنے والے کے دل وجان میں تقویت کرتی ہے، کیونکہ دعا ومناجات حاضر مخاطب سے بات کرنے کے سوا کچھ نہیں ہے، اسی وجہ سے کہ دعا عارفوں کے روح کی غذااور مومنین کے لئے خالص شراب ہے۔ خداوند سبحان نے اپنی توجہ وعنایت کو دعا وعبادت میں قراردیا ہے: ''کہو: اگر تمہاری دعا نہ ہو تو تمہارا رب تمہاری کوئی اعتنا نہیں کرتا''۔(٢)

حضرت علی ـ فرماتے ہیں: ''دعا ]مراد تک [پہنچنے کا خزانہ اور کامیابی کا چراغ ہے۔''(٣)

خداوند رحیم وکریم نے کشائش ، اور آسمانوں کے فتح باب اور معلومات ]فضائل ومکارم اخلاق[کے راستہ کو اپنی بارگاہ میں درخواست اور دعا کرنا قرار دیا ہے۔

حضرت امام جعفر صادق ـ فرماتے ہیں: زیادہ سے زیادہ دعا کرو کیونکہ وہ رحمت رحمت اور حاجت پوری ہونے کا ذریعہ ہے اور جو کچھ خدا کے پاس ہے وہ صرف دعا کے ذریعہ حاصل کرسکتے ہو...۔(٤)

____________________

١۔ سورہ ٔبقرہآیت ١٨٦۔

٢۔ سورہ ٔفرقان آیت ٧٧۔

٣۔ بحار الانوار ج٩٣ص٣٤١۔

٤۔ بحار الانوار ج٩٣ص٢٩٥۔

۲۶۴

استجابت وقبولیت دعا کے شرائط میں حضور قلب اور رقت کی شرط کی گئی ہے، کیونکہ جو چیزسوز ونیاز کے ساتھ ہوتی ہے وہ حقیقت میں ارزش وقیمت رکھتی ہے اور ایک حقیقت کو اپنے اندر پروان چڑھاتی ہے:جان لو کہ خداوندسبحان دعا کو غافل اور بے خبر دل سے قبول نہیں کرتا۔(١)

''دعا کو رقت قلب کے وقت غنیمت سمجھو اس لئے کہ وہ نزولِ رحمت کی نشانی ہے''۔(٢)

ائمہ معصومین (ع) کی دعائوں اور مناجاتوں میں ایسے عارفانہ مضامین ہیں کہ ائمہ معصومین (ع) نے محبوب ازلی کے ساتھ اپنی خلوتوں میں ان کو انشأ فرمایا ہے اورراز ونیاز کیا ہے۔ ان دعا ئو ں کے بعض فقرات کو حفظ کرکے اور مناسب مواقع پر ان کی تکرار کرکے تربیتی مکتب میں طرز دعا کو ہم سیکھ سکتے ہیں۔ البتہ صرف اسی پر اکتفا نہیں کرنا چاہئے بلکہ راز ونیاز، دعا ومناجات سوز دل کے ساتھ ہونی چاہئے اور دل کی گہرائی سے نکلنی چاہئے، اس لحاظ سے ہمیں سعی وکوشش کرنی چاہئے کہ اپنی زبان سے بھی دلوں کے محبوب سے راز ونیاز کریں اور اس سے شفیق و مہربان دوست اور اپنی خلوتوں کا مونس وغمخوار جانیں:''یَارَفِیقَ مَنْ لَا رَفِیقَ لَهُ، یَا اَنِیْسَ مَن لَا اَنِیْسَ لَهُ '' اے اس کا رفیق جوکوئی رفیق نہیں رکھتا، اے اس کا انیس جو کوئی انیس نہیں رکھتا۔

اس کے علاوہ بعض دعائیں ( بالخصوص صحیفۂ سجادیہ کی دعائیں) ہمیں باطنی دردوں اور بیرونی خطائوں سے آشنا کرتی ہیں کہ ہم ان دعائوں کے مضامین سے بھی استفادہ کرتے ہوئے اپنی اخلاقی تربیت کے بارے میں کوشش کریں۔

حضرت امام زین العابدین ـکی دعائے مکارم الاخلاق خاص اہمیت کی حامل ہے:

خدایا! میں تیری پناہ چاہتا ہوںحرص وطمع کی طغیانی سے، غیض وغضب کی تندی سے ، حسد کے غلبہ سے، صبر کی کمی اور قناعت کی کمی سے، بداخلاقی سے، شہوت افراط سے، تعصب کے غلبہ سے، نفسانی خواہشات کی پیروی سے، درستگی اورہدایت کی مخالفت سے، خواب غفلت سے، (دنیا کے) کاموں پر سخت راضی ہونے سے، حق پر باطل کے انتخاب سے، گناہوں پر اصرار سے، گناہوں کو معمولی اورکم سمجھنے سے اورعبادت و اطاعت کو عظیم خیال کرنے سے ۔(٣)

____________________

١۔ بحار الانوار ج٧٧ص١٧٣۔

٢۔ بحار الانوار ج٩٣ص٣١٣۔

٣۔ صحیفہ سجادیہ دعائے مکارم اخلاق۔

۲۶۵

د۔اولیائے خدا سے محبت:

جو کسی شخص کوانسان کامل سمجھے اور اس کے اخلاق ومعنویات کا سخت دلدادہ ہو تو اس کے تحت تاثیر واقع ہوجاتا ہے ۔

استاد مطہری اس سلسلہ میں فرماتے ہیں:

محبت مشابہت ومشاکلت کی طرف کھینچتی ہے اور اس کی قدرت باعث ہوتی ہے کہ محب محبوب کی شکل اختیار

کرلے۔ محبت الکٹریک تار کی طرح ہے کہ جو محبوب کے وجود سے وصل ہوتا ہے اور اُس میں محبوب کے صفات کو منتقل کرتا ہے۔(١)

تہذیب اخلاق میں محبت کی تربیتی تاثیر کے بارے میںفرماتے ہیں:

اہل عرفان اورصاحبان سیر وسلوک راہ عقل واستدلال سے کام لینے کے بجائے محبت وعقیدت کی تاکید اور پیشکش کرتے ہیں]اور[ کہتے ہیں: کسی کامل کو تلاش کرو اور اس کی محبت وعقیدت کے رشتہ کو گردن دل میں آویزاں کرلو کہ راہ عقل واستدلال سے بھی زیادہ بے خطر ہے اور سریع تر ہے۔ محبت اور عقیدت کی قوت کی تاثیر دل سے اخلاقی رذائل کو زائل کرنے میں لوہے پر کیمیکل مواد ڈالنے کے مانند ہے، مثال کے طورپر ایک اچھے چھاپے کی ]پھولدار[ پلیٹ بنانے والا تیزاب کے ذریعہ حروف کے اطراف کو مٹادیتاہے، نہ کہ ناخن سے اور نہ ہی چاقو کی نوک سے۔ لیکن عقلی توانائی کا اثر اُس انسان کے کام کے مانند ہے جو لوہے کے ذرّوں کو ہاتھ کے ذریعہ خاک سے جدا کرنا چاہتا ہے، اس میں کس قدر زحمت ومشقت ہے؟ اگر ایک قوی ومضبوط آہن ربا ]مقناطیس[ ہاتھ میں ہو، ممکن ہے کہ ایک گردش میں اُن سب کو جدا کردے، عقیدت ومحبت کی طاقت آہن ربا کے مانند صفات رذیلہ کو جمع کرکے دورپھینک دیتی ہے۔ صاحبان عرفان کے عقیدہ کے مطابق پاک و پاکیزہ اور کامل واکمل افراد کی محبت وعقیدت ایک ایٹومیٹک مشین کے مانند ہے جو خود بخود رذائل کو جمع کرکے باہر پھینک دیتی ہے(٢)

____________________

١۔ جاذبہ ودافعہ علی ـ ، ص٧٣۔

٢۔ جاذبہ و دافعہ علی ـ ص٧٧۔٧٨۔

۲۶۶

ان لوگوں کے نمونے جو صدر اسلام میں اس جذب وانجذاب کے تحت تاثیر واقع ہوئے ہیں اور حضرت رسول اکرم کے شیفتہ اور دلدادہ ہوگئے ہیںابوذر غفاری، بلال حبشی ،اویس قرنی اورسلمان فارسی ہیں اس محبت نے ایک عظیم اکسیر کے مانند انھیں بے مثال گوہر کے مثل کرامت انسانیمیں تبدیل کردیا، اُس کے بعد بھی پوری تاریخ میں ایسے نمونے ]شدت وضعف[کے ساتھ کثرت سے پائے جاتے ہیں جلال الدین محمد رومی جو ''مولوی''کے نام سے معروف ہیں اس مسیر کے بارزترین نمونوں میں سے ایک نمونہ ہیں۔ جب وہ ایک کمسن بچہ تھے اور اپنے والد کے ہمراہ نیشاپور سے گذر رہے تھے تو نیشاپور کے بزرگ شیخ عطار نے بہاء الدولہ بچہ کو عام انسانوں سے زیادہ افضل بچہ پایا اور کسی تردید اور تأمل کے بغیر، بہاء الدولہ کو مبارک باد دی کہ عنقریب یہ بچہ سوختگان عالم میںآگ روشن کردے گا اوررہروان طریقت کے درمیان ایک اورشور وغوغا مچادے گا۔(١)

اس واقعہ کو گذرے ہوئے چند عشرے بھی نہ گذرے تھے کہ یہ پیشینگوئی مولانا کی شمس تبریزی سے ملاقات اور اُن سے عشق وعقیدت میں ظاہر ہوئی۔اسلام میں یہ محبت اور شیفتگی ''ولایت ''کے عنوان سے معصومین علیہم السلام کی نسبت مکمل طور پر ظاہر ہوتی ہے کیونکہ ان اولیائے الٰہی کی محبت کہ جو حق کے مکمل آئینہ دار اور اس کی تجلی کی کاملجلوہ گاہ ہیں، انسان کو خدا پر ایمان اورعقیدت کی طرف منتقل کرتی ہے، اور اسی وجہ سے دعائوں میں اس محبت کو ہم خدا سے طلب کرتے ہیں:

خدایا! میرے نفس کو اپنی قدر سے ہماری جان کو قدرسے مطمئن اور اپنی قضا سے راضی قرار دے اور اپنے ذکر ودعا کا مشتاق اور حریص قرار دے اور اپنے خاص الخاص اولیاء کا دوستدار قرار دے اورزمین وآسمان کے درمیان محبوب قرار دے... ۔(٢)

آیات وروایات میں عام طور سے ائمہ ہدیٰ (ع) کی محبت اورمودت عمومی اورخالص طور پر امیر المومنین ـ کی محبت ومودت قابل توجہ و تاکید قرار پائی ہے:

(قُلْ لَا اَسْئَلُکُم عَلَیهِ اَجْراً اِلّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبیٰ )(٣) ''اے پیغمبر ! آپ کہہ دیجئے کہ میں تم سے اس تبلیغ کا کوئی اجر نہیں چاہتا علاوہ اس کے کہ میرے اقربا سے محبت کرو''۔

____________________

١۔ عبد الحسین، زرین کوب، پلہ پلہ تا ملاقات خداص٥٠۔

٢۔ مفاتیح الجنان ،شیخ عباس قمی، زیارت امین اللہ۔

٣۔سورہ ٔشوریٰ آیت٢٣۔

۲۶۷

اس آیت کے ذیل میں بہت سی احادیث شیعہ اور سنی سے نقل ہوئی ہیں کہ ''پیغمبر کے قربیٰ'' سے مراد ا

١س آیت میں علی، فاطمہ، اور آپ کے دونوں فرزند]حسن وحسین[ (ع) ہیں۔(١)

اس بناپر پیغمبر اور ائمہ اطہار (ع) کی محبت و ولایت کہ جو کامل انسان ہیں جس قدر بھی زیادہ ہوگی ، یہ درحقیقت مکارم اخلاق اور فضائل سے عشق ہے اور یہ عشق خدا کی محبت سے جدا نہیں ہوسکتا۔

اولیائے خداوندی سے قلبی طور پر محبت آمیز رابطہ اور توسل اسی وجہ سے پرورش ایمان کا باعث ہے۔

ہمیں توجہ رکھنی چاہئے کہ انسان کی خصوصیات میں ہے کہ وہ صرف یہ نہیں چاہتا کہ دوسروں کی توجہ کا مرکز رہے، بلکہ اس کی خواہش ہوتی ہے کہ کوئی ایسا ہو جس سے اظہار محبت کرے اور عشق رکھے جیساکہ مزلو ذکر کرتا ہے: ''... اسی طرح ہمیں اس حقیقت سے غافل نہیں ہونا چاہئے کہ محبت کی ضرورتیں دونوں ضرورتوں کو یعنی محبت کرنے اور محبت دیکھنے کو شامل ہیں''۔(٢)

اس بناپر اگر محبت کا متعلَّق ]ظرف[، اولیائے الٰہی اورانسان کامل کی محبت ہوں، تویہ سرگرداں قوّت مجازی عشقوں اوربے قیمت محبتوں میں صرف نہیں ہوگی، بلکہ کمال انسانیت کے اعلیٰ مقصد میں پھولے پھلے گی۔

سعدی اگر عاشقی کنی وجوانی

عشق محمد بس است وآل محمد

اے سعدی! اگر تم عاشقی اور جواں مردی کرو تواس کے لئے عشق محمد وآل محمد (ع) کافی ہے۔

اس موضوع میں آخری نکتہ ''زیارت'' ہے ائمہ اطہار (ع) کے مشاہد مشرفہ کی زیارت ان امور میں سے ہے جو ان کی محبت اور ولایت کو تقویت کرتی ہے اور باغ ایمان کو سر سبز وشاداب بنا دیتی ہے۔ متعدد روایات میں یہ نکتہ بیان ہوا ہے، نمونہ کے طور پر چند حدیث کی جانب ہم اشارہ کررہے ہیں:

''کسی قبر کی زیارت کے لئے سامان سفر آمادہ مت کرو، جز ہماری قبروں کی زیارت کے۔ جان لو کہ میں زہر سے شہید کیا جائوں گا اور پردیس اور عالم غربت میں دفن کیا جائوں گا۔ جو شخص میری زیارت کو آئے گا اس کی دعا مقبول ومستجاب ہے اور اس کا گناہ معاف ہے۔(٣)

____________________

١ ۔منجملہ تفسیر فخر رازیج٢٧ ص١٦٦۔بحارالانوار ج٢٧ ص١٣۔٢۔ روانشناسی شخصیت سالم ص١٥٤۔٣۔ عیون اخبار الرضا ـ ج١ ص٢٨٥۔

۲۶۸

محبت کے عنوان سے برادران دینی وایمانی کی زیارت بھی قلوب کی حیات کا باعث، ایمان اور محبت میں رشد

و اضافہ کا موجب ہے، بالخصوص صالح انسان اور ربانی علماء کی زیارت جو کہ دوگنا اخلاقی تاثیر رکھتی ہے:

''تم لوگ ایک دوسرے کی زیارت اور ملاقات کو جائو کہ یہ تمہارے دلوں کی حیات کا باعث ہے اورہماری باتیں بھی ذکر ہوں اورہماری احادیث تمہارے درمیان رابطہ برقرار کرتی ہیں، لہٰذا اگر ان سے تمسک اختیار کرو گے تو تمہارے رشد اورنجات کا باعث ہے''۔(١)

''زیارت دلوں میں دوستی اورمحبت ایجاد کرتی ہے''۔(٢)

نیک اور صالح افراد سے ملاقات کرنا قلب کی اصلاح کا باعث ہے۔(٣)

____________________

١۔بحارالانوارج٧٤ ص٢٥٨۔

٢۔ بحارالانوارج٧٤ ص٣٥٥۔

٣۔ بحارالانوارج٧٧ ص٢٠٨۔

۲۶۹

منابع

١۔ قرآن مجید

٢۔ نہج البلاغہ

٣۔آدلر، آ لفرد، روان شناسی فردی، ترجمہ حسن زمانی شرفشاہی، تصویر، ١٣٧٥۔

٤۔آمدی، عبدالواحد، غررالحکم ودرالکلیم، تہران، محمد علی الانصاری القمی، ١٣٣٧۔

٥۔ آندرہ، پی تیر، مارکسومارکسیم، ترجمہ شجاع الدین ضیائیان، تہران انتشارات دانشگاہ تہران، ، ١٤٠٢۔

٦۔ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ٢٠ جلد، بیروت، دار احیاء التراث، ١٣٨٥ ق۔

٧۔ ابن اثیر، مبارک بن محمد، نہایہ، قم، اسماعیلیان، ١٤٠٨ ق۔

٨۔ ابن شعبہ حرّانی، تحف العقول، قم، مؤسسہ النشرالاسلامی، ١٤٠٤ ق۔

٩۔ابن طاووس، علی ابن موسی، الملاحم و الفتن، قم، مؤسسہ صاحب الامر (عج ) ، ١٤١٦ ق۔

١٠۔ ابن فارس، معجم مقاییس اللغة، مصر، مطبعة المصطفی، ١٣٨٩۔

١١۔ ابن فہد حلّی، عدّة الداعی، قم، مکتبة الو جدانی، (تاریخ طبع مشخص نہیں ہے)۔

١٢۔ابن مسکویہ، تہذیب الاخلاق و تطہیر الاعراق، قم، بیدار، ١٣٧١ ش۔

١٣۔ ابن منظور، لسان العرب، بیروت، دار صار، ١٤١٥ق۔

١٤۔ اتکینسون، رتیال، زمینئہ روان شناسی، ترجمہ محمد تقی براہنی اور دیگر افراد، تہران، رشد، ١٣٦٦۔

١٥۔ اتکینسون، فلسفئہ اخلاق، ترجمہ سہراب علوی نیا، تہران، مرکز ترجمہ و نشر کتاب، ١٣٧٥۔

١٦۔ احمد بن ابی یعقوب، تاریخ الیعقوبی، قم، مؤسسہ ونشر فرھنگ اہل بیت، (تاریخ طبع مشخص نہیں ہے)۔

١٧۔ احمدی سید احمد، اصول و روشہای تربیت در اسلام، تہران، جہاد دانشگاہی، ١٣٦٤۔

١٨۔ ادگاردپش، اندیشہ ہای فروید، ترجمہ غلام علی توسّلی، تہران، انتشارات کتاب فروشی ابن سینا، ١٣٣٢۔

١٩۔ اربلی، ابوالفتح، کشف الغمہ، بیروت، دارالکتاب الاسلامی، ١٤٥١ ق۔

٢٠۔ ارسطو، اخلاق نیکو ماخس، ترجمہ سید ابو القاسم پور حسینی، تہران، انتشاردانشگاہ تہران، ١٣٦٨۔

٢١۔ ارون سون، الیوت، روان شناسی اجتماعی، ترجمہ حسین شکر کن، تہران، رشد، ١٣٦٦۔

٢٢۔ اسکانی، محمد بن ہمام، التمحیص، قم، مدرسہ امام مہدی (عج) ، ١٤٥٤ق۔

۲۷۰

٢٣۔اشعث کوفی، جعفریات، تہران، مکتبة نینوی الحدیثة، (تاریخ طبع مشخص نہیں ہے)۔

٢٤۔ الراغب اصفہانی، الحسین بن محمد، المفردات فی غریب القرآن، تہران، المکتبة المرتضویة لاحیاء آثار لمرتضویة۔

٢٥۔ المظفر، محمد رضا، المنطق، قم، اسماعیلیان، ١٣٦٦۔

٢٦۔ امام خمینی ، تحریر الوسیلہ، تہران، المکتبة العلمیة الاسلامیة، (تاریخ طبع مشخص نہیں ہے)۔

٢٧۔ امام خمینی ، چہل حدیث، تہران، مرکز نشر دانشگاہی رجائ، ١٣٦٨۔

٢٨۔ حضرت امام جعفر صادق ـ ، مصباح الشریعة۔

٢٩۔ حضرت امام جعفر صادق ـ، نہج الفصاحہ۔

٣٠۔ باب الحوائجی، نصر اﷲ، فروید چہ می گوید، تہران، انتشارات دریا، ١٣٤٧۔

٣١۔ باقری، خسرو، مبانی شیوہ ہای تربیت اخلاقی، تہران، سازمان تبلیغات اسلامی، مرکز چاپ و نشر، ١٣٧٧۔

٣٢۔ باقری، خسرو، نگاہی دوبارہ بہ تربیت اسلامی، تہران، وزارت آموزش وپرورش، ١٣٦٨۔

٣٣۔برقی، محمد بن خالد، محاسن، قم مجمع جہانی اہل بیت (ع)، ١٤١٣ ق۔

٣٤۔ بلاکہام، ھ۔ج، شش متفکر اگز یستانسیا لیست، ترجمہ محسن حکیمی، تہران، نشر مرکز، ١٣٧٢۔

٣٥۔ بی ناس، جان، تاریخ جامع ادیان، تہران، شرکت انتشارات علمی فرہنگی، ١٣٧٣۔

٣٦۔ بیہقی، احمد بن الحسین، شعب الایمان، بیروت، دارالکتب العلمیة، ١٤١٥ ق۔

٣٧۔ پاپکین و استرول، کلیات فلسفہ، ترجمہ جلال الدین مجتبوی، تہران، حکمت، ١٣٧٥ ش۔

٣٨۔ پروین، لارنس، روان شناسی شخصیت: نظر یہ وتحقیق، ترجمہ محمد جعفر جوادی، تہران، رسا، ١٣٧٢۔

٣٩۔ پیاژہ، ژان، تربیت بہ کجا می سپرد، ترجمہ دادستان و منصور، تہران، دانشگاہتہران، ١٣٦٩۔

٤٠۔ پیاژہ، ژان، دیدگاہ پیاژہ در گسترہ تحول روانی، ترجمہ وگردآوری ازمنصور، محمود وپریرخ دادستان، تہران، نشرژرف، ١٣٦٧۔

٤١۔ تفتازنی، سعد الدین، شرح مقاصد، قم، انتشارات شریف رضی، ١٣٧٥۔

٤٢۔ ثقفی، ابراہیم بن محمد، الغارات، تہران، انجمن آثار ملّی، ١٣٩٥ ق۔

٤٣۔ جرجانی، سید شریف، شرح المواقف، قم، انتشارات شریف رضی، ١٣٧٥۔

۲۷۱

٤٤۔ جعفری، محمد تقی، بررسی و نقد افکار راسل، تہران، امیر کبیر، ١٣٧٥۔

٤٥۔ جوادی، محسن، مسلہ باید و ہست، قم، تبلیغات اسلامی، ١٣٧٥۔

٤٦۔ جوادی، محسن، نظریہ ایمان درعرصہ کلام وقرآن، قم، معاونت امور اساتیدو دروس معارف اسلامی، ١٣٧٦۔

٤٧۔ جونز ارنست ودالبی یزو، اصول روانکاوی، ترجمہ ہاشم رضی، تہران، کاوہ، ١٣٤٢۔

٤٨۔ جوہری، اسماعیل بن حمّاد، صحاح اللّغة، بیروت دارالعلم للملایین، ١٩٩٠ م۔

٤٩جیمز، ویلیام، دین وروان، ترجمہ مہدی قائنی، قم، دارالفکر، ١٣٦٧۔

٥٠۔ حسینی، سید مہدی، مشاورہ وراہنمائی در تعلیم و تربیت اسلامی۔

٥١۔ حکیمی، محمد رضا، الحیاة، تہران، دفتر نشر فرہنگ اسلامی، ١٤٥٩ ق۔

٥٢۔ حمصی رازی، سدیدالدین محمود، المنقذ من التقلید، قم، مؤسسہ النشر الاسلامی، (تاریخ طبع مشخص نہیں ہے)۔

٥٣۔ خراسانی، محمد کاظم، کفایة الاصول، قم، مؤسسہ آل البیت (ع) لاحیاء التراث، ١٤١٧ ق۔

٥٤۔ خزّاز القمی، کفایة الاثر، قم، بیدار، ١٤٥١ ق۔

٥٥۔ خطیب بغدادی، تاریخ بغداد، مدینہ منوّرہ، مکتب سلفیّہ، (تاریخ طبع مشخص نہیں ہے)۔

٥٦۔ دفتر ہمکاری حوزہ و دانشگاہ، روان شناسی رشد با نگرش بہ منابع اسلامی، تہران، سمت، ١٣٧٤۔

٥٧۔ دفتر ہمکاری حوزہ و دانشگاہ، مکتب ہای روان شناسی و نقد آن، ٢ جلد، تہران، سمت، ١٣٦٩۔

٥٨۔ دفتر ہمکاری حوزہ و دانشگاہ، نقش تربیتی معلم۔

٥٩۔ دیلمی، حسن بن ابی الحسن، ارشاد القلوب ٢ جلد، قم، مؤسسہ آل البیت(ع) ا١٤١٣ ق۔

٦٠۔ دیلمی، حسن بن ابی الحسن، اعلام الدین، قم، مؤسسہ آل البیت(ع) ١٤٥٨ ق۔

٦١۔ راسل برتر اند، تاریخ فلسفہ غرب، ٢جلد، ترجمہ نجف دریابندی، تہران، شرکت سہامی کتاب داری جیبی، ١٣٥١۔

٦٢۔ راسل برتر اند، زناشویی واخلاق، ترجمہ مہدی افشار، تہران، کاویان، ١٣٥٥۔

٦٣۔ راوندی، قطب الدین، دعوات، قم، مؤسسہ الامام المہدی (عج) ، ١٤٥٧ ق۔

٦٤۔ روحانی، شہر یار، خانودہ موعود مارکسیم، تہران، قلم، ١٣٦٤۔

۲۷۲

٦٥۔ زبیدی، سید محمد بن محمد، تاج العروس، بیروت، دارالفکر، ١٤١٤ ق۔

٦٦۔ زرین کوب، عبد الحسین، پلہ پلہ تا ملاقات خدا، مولانا جلال الدین رومی کی زندگی اور ان کی فکر کے بارے میں، تہران، علمی، ١٣٧٢۔

٦٧۔ سبحانی، جعفر، حسن و قبح عقلی، پایہ ہای جاودان اخلاق، تہران، پژوہشگاہ علوم انسانی و مطالعات فرہنگی، ١٣٧٧۔

٦٨۔ سید ابن طاووس، مسکن الفوائد، قم، مؤسسہ آل البیت(ع) ١٤١٢ ق۔

٦٩۔ سیف، علی اکبر، تغییر رفتار و رفتار درمانی (نظریہ ہا وروش ہا) ، تہران، دانا، ١٣٧٣۔

٧٠۔ سیف، علی اکبر، روان شناسی پرورشی (روان شناسی یاد گیری و آموزش ) ، تہران، آگاہ، ١٣٦٨۔

٧١۔ شالہ، فیلیسین، فروید و فروید یسم، ترجمہ اسحاق وکیلی، تہران، بنگاہ مطبو عاتی قائم مقام، ١٣٤١۔

٧٢۔ شعیر سبزواری، جامع الاخبار، قم، مؤسسہ آل البیت(ع)، ٤١٤ ق۔

٧٣۔ شیخ صدوق، اعتقادات، قم، کنفرانس جہانی ہزارہ شیخ مفید، ١٤١٣ ق۔

٧٤۔ شیخ صدوق، توحید، قم، مؤسسہ نشر اسلامی، (تاریخ طبع مشخص نہیں ہے)۔

٧٥۔شیخ صدوق، خصال، قم، مؤسسہ نشر اسلامی، ١٤٥٣۔

٧٦۔ شیخ صدوق، صفات الشیعہ، قم، مؤسسہ الامام المہدی (عج) ١٤١٥۔

٧٧۔شیخ صدوق، علل الشرایع، بیروت، دار احیاء التراث، ١٣٨٥ ق۔

٧٨۔شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا ـ ، تہران، مکتبة جہان، (تاریخ طبع مشخص نہیں ہے)۔

٧٩۔ شیخ صدوق، مقنع، قم، مؤسسہ ا مام ہادی ـ، ١٤١٥ ق۔

٨٠۔ شیخ صدوق، تومن لا یحضر الفقیہ، قم، مؤسسہ نشر اسلامی، (تاریخ طبع مشخص نہیں ہے)۔

٨١۔ شیخ طوسی، امالی، قم، مؤسسہ البعثة، دارالثقافة، ١٤١٤ ق۔

٨٢۔ شیخ طوسی، محمد بن حسن، تہذیب الاحکام، بیروت، دارالتعارف و دار صعب، ١٤٥١ ق۔

٨٣۔ شیخ مفید، ارشاد، قم، مؤسسہ آل البیت(ع)، ١٤١٣ ق۔

٨٤۔شیخ مفید، اوائل المقالات، قم، کنگرہ جہانی شیخ مفید، ١٤١٣ ق۔

۲۷۳

٨٥۔ شیرازی، صدرالدین، تفسیر القرآن، قم، بیدار، (تاریخ طبع مشخص نہیں ہے)۔

٨٦۔صبور اردو باری، احمد، معمای عادت۔

٨٧۔ صحیفہ سجادیہ، الکاملة، دمشق، رایزنی فرہنگی جمہوری اسلامی ایران، (تاریخ طبع مشخص نہیں ہے)۔

٨٨۔ صدرا لدین شیرازی، الاسفار الاربعة، قم، مصطفوی، (تاریخ طبع مشخص نہیں ہے)۔

٨٩۔ صدر، سید محمد باقر، فلسفتنا (نظریہ المعرفة) ، قم، دارالکتاب الاسلامی، ١٤٥١ ق۔

٩٠۔ صدر، محمد باقر، بحث فی علم الاصول (تقریر سید محمود ہاشمی ) ، ٧جلد، قم، مکتب الاعلام اسلامی، ١٤٠٥ ق۔

٩١۔ صدر، محمد باقر، دروس فی علم الاصول، ٣حلقہ، بیروت، دارالکتاب اللبنانی، قاہرہ، دارالکتاب المصری، ١٩٨٧۔

٩٢۔ صدوق، عیون اخبارالرضا ـ تعلیق حسین اعلمی، بیروت، مؤسسہالاعلمی للمطبوعات، ١٤٠٤۔

٩٣۔ طبرسی، حسن بن فضل، مکارم الاخلاق، قم، مؤسسہ النشر الاسلامی، ١٤١٤ ق۔

٩٤۔ طریحی، فخرالدین، مجمع البحرین، قم، مؤسسہ البعثہ، ١٤١٥ ق۔

٩٥۔ طوسی، خواجہ نصیر الدین، اخلاق ناصری، شیراز انتشارات علمیہ اسلامیہ، (تاریخ طبع مشخص نہیں ہے)۔

٩٦۔ عاملی، شیخ حر، وسائل الشیعہ، ٢٠ جلد، تہران، کتاب فروشی اسلامیہ، ١٤٠٣ ق۔

٩٧۔ عبد الباقی، محمد فواد، المعجم لالفاظ القرآن الکریم، قاہرہ، مطبعہ دارالکتب المصریہ، ١٣٦٤ ق۔

٩٨۔ عدة من الرواة، اصول ستہ عشر، قم، دارالشبستری، ١٤٠٥ ق۔

٩٩۔ عسکری، ابو ہلال و جزایری، سید نور الدین، معجم الفروق اللغویہ، قم، مکتبہ بصیرتی، ١٣٥٣۔

١٠٠۔ علامہ امینی، احمد، الغدیر، بیروت، دارالکتاب العربی، ١٤٠٢ ق۔

١٠١۔علامہ حلی، کشف المراد، قم، مؤسسہ النشر الاسلامی، ١٤١٣ ق۔

١٠٢۔ علامہ طبا طبائی، سید محمد حسین، المیزان فی تفسیر القران، ٢٠ جلد، قم، جامعةالمدرسین، مؤسسہ نشر اسلامی۔

١٠٣۔ علامہ طبا طبائی، سید محمد حسین، رسائل سبعہ، قم، نمایش گاہ ونشر کتاب، ١٣٦٢۔

١٠٤۔ علم الہدی، سید مرتضی، الذخیرہ، قم، مؤسسہ نشر اسلامی، ١٤١١ ق۔

١٠٥۔ عیاشی، محمد بن مسعود، تفسیر عیاشی، تہران، المکتبہ العلمیہ الاسلامیہ، ١٣٨٠ ق۔

۲۷۴

١٠٦۔ غزالی، ابو حامد محمد، احیاء علوم الدین، بیروت، دارالعلم، (تاریخ طبع مشخص نہیں ہے)۔

١٠٧۔ فرانکل، ویکتور، انسان در جستجوی معنا، ترجمہ نہضت صالحیان ومیلانی، درسا، ١٣٧٣۔

١٠٨۔ فرانکنا، فلسفہ اخلاق، ترجمہ ہادی صادقی، قم، مؤسسہ فرہنگی طہ، ١٣٧٦۔

١٠٩۔ فقہ الرضا ( فقہ منسوب بہ امام رضا ـ) ، مشہد، کنفرانس جہانی امام رضا ـ ١٤٠٦ ق۔

١١٠۔ فلسفی، محمد تقی، اخلاق، تہران، نشر معارف اسلامی، (تاریخ طبع مشخص نہیں ہے)۔

١١١۔ فلسفی، محمد تقی، کودک ازنظر وراثت و تربیت، تہران، ، نشر معارف اسلامی، (تاریخ طبع مشخص نہیں ہے)۔

١١٢۔ فیض کاشانی، محسن، المحجة البیضائ، قم، دفتر انتشارات اسلامی، (تاریخ طبع مشخص نہیں ہے)۔

١١٣۔ فیض کاشانی، ملا محسن، المحجة البیضا فی تہذیب الاحیائ، ٨ جلد، بیروت، مؤسسہ اعلمی مطبوعات، ١٤٠٣ ق۔

١١٤۔ قطب محمد، روش تربیتی در اسلام، ترجمہ محمد مہدی جعفری، تہران، انجام کتاب، ١٣٦٢۔

١١٥۔ قمی، شیخ عباس، کلیات مفاتیح الجنان، بہ خط طاہرہ خوشنویس، تہران، کتابچی، ١٣٧٠۔

١١٦۔قمی، علی بن ابر ا ہیم، تفسیر قمی، قم، دارالکتاب، ١٤٠٤ ق۔

١١٧۔ کارل الکسیس، نیایش، ترجمہ علی شریعتی، تہران، حسینیہ ارشاد، ١٣٥٨۔

١١٨۔ کانت، ایمانوئل، بنیاد ما بعد الطبیعہ اخلاق، ترجمہ حمید عنایت و علی قیصری، تہران، شرکت سہامی انتشار خوارزمی، ١٣٦٩۔

١١٩۔کتاب مقدس، ترجمہ فارسی، قطع جیبی، (تاریخ طبع مشخص نہیں ہے)۔

١٢٠۔ کراجکی، محمد بن علی، کنز الفوائد، قم، دارالذخائر، ١٤١٠ ق۔

١٢١۔ کریستیانی، ترزاس، روان شناسی مشاورہ، ترجمہ رضا فلاحی و حاجی لو، مؤسسہ رشد، ١٣٧٤۔

١٢٢۔ کلینی، محمد بن یعقوب، اصول کافی، ٢جلد، بیروت، دارالاضوائ، ١٤١٤ ق۔

١٢٣۔ مارستون، انتفانی، معجزئہ تشویق، ترجمہ توراندخت تمدن (مالکی ) ، تہران، علمی، ١٣٧٥۔

١٢٤۔ مثولتز، دوان، روان شناسی کمال، ترجمہ گیتی خوش دل، تہران، نشر نو، ١٣٦٢۔

١٢٥۔ مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ١١١ جلد، بیروت، دارالاضوائ، ١٤١٣ ق۔

۲۷۵

١٢٦۔ محمد قاسمی، حمید، اخلاق جنسی اسلام کی نظر میں، تہران، سازمان تبلیغات اسلامی، ١٣٧٣۔

١٢٧۔ محمدی ری شہری، محمد، میزان الحکمہ، ١٠ جلد، قم، حوزہ علمیہ قم، دفتر تبلیغات اسلامی، ١٣٦٢۔

١٢٨۔ مزلو، آبراہام، روان شناسی شخصیت سالم، ترجمہ شیوا روی گردان، تہران، ہدف، ١٣٦٧۔

١٢٩۔ مزلو، آبراہام، انگیزش و شخصیت، ترجمہ احمد رضوانی، مشہد، آستانہ قدس رضوی، ١٣٦٧۔

١٣٠۔ مشکور، محمد جواد، خلاصئہ ادیان، تہران، شرق، ١٣٧٢۔

١٣١۔ مصباح یزدی، محمد تقی، اخلاق در قرآن، تہران، امیر کبیر، ١٣٧٢۔

١٣٢۔ مصباح یزدی، محمد تقی، دروس فلسفہ اخلاق، تہران، اطلاعات، ١٣٦٧۔

١٣٣۔ مطہری، مرتضی، آشنایی با علوم اسلامی ( حکمت عملی) ، قم، صدرا، (تاریخ طبع مشخص نہیں ہے)۔

١٣٤۔ مطہری، مرتضی، آشنایی با علوم اسلامی ( عرفان) ، قم، صدرا، ١٣٧١۔

١٣٥۔ مطہری، مرتضی، اخلاق جنسی در اسلام و جہان غرب، قم، صدرا، (تاریخ طبع مشخص نہیں ہے)۔

١٣٦۔ مطہری، مرتضی، اسلام و مقتضیات زمان، ٢جلد، قم، صدرا، ١٣٧٤۔

١٣٧۔ مطہری، مرتضی، تعلیم وتربیت در اسلام، تہران، ، صدرا، ١٣٦٧۔

١٣٨۔ مطہری، مرتضی، جاذبہ ودافعہ علی ـ ، تہران، ، صدرا، ١٣٦٨۔

١٣٩۔ مطہری، مرتضی، جاودانگی اخلاق، (چاپ شدہ در یاد نامہ استاد مطہری، ج١) ، تہران، سازمان انتشارات و آموزش انقلاب اسلامی، ٦٠ ١٣۔

١٤٠۔ مطہری، مرتضی، سیر ی در سیرئہ نبوی، قم، صدرا، ١٣٧٦۔

١٤١۔ مطہری، مرتضی، مسلہ حجاب، قم، صدرا، (تاریخ طبع مشخص نہیں ہے)۔

١٤٢۔ مطہری، مرتضی، مسلہ شناخت، قم، صدرا، ١٣٧٤۔

١٤٣۔ مطہری، مرتضی، مقدمہ ای بر جہان بینی اسلامی (انسان در قرآن) ، قم، صدرا، (تاریخ طبع مشخص نہیں ہے)۔

١٤٤۔ مطہری، مرتضی، نظام حقوق زن در اسلام، قم، صدرا، ١٣٧٥۔

١٤٥۔ مطہری، مرتضی، نقدی بر مارکسیسم، قم، صدرا، ١٣٦٢۔

۲۷۶

١٤٦۔ معین، محمد، فرہنگ فارسی( متوسط) ، ٦جلد، تہران، امیر کبیر، ١٣٧١۔

١٤٧۔ مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دارالکتب الاسلامےة، ١٣٧٢۔

١٤٨۔ مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، ٢٧ جلد، تہران، دارالکتب الاسلامےة، ١٣٧١۔

١٤٩۔ملکی تبریزی، میرزا جواد آغا، رسالئہ لقاء اﷲ، ترجمہ ومقدمہ واضافات سید احمد فہری، نہضت زنان مسلمان، ١٣٦٠۔

١٥٠۔منصور، محمود، احساس کہتری، تہران، دانشگاہ تہران، مؤسسہ انتشارات وچاپ، ١٣٦٩۔

١٥١۔ منصور، محمود، روان شناسی ژنتیک: تحول روانی از کودکی تا پیری، تہران، ترمہ، (تاریخ طبع مشخص نہیں ہے)۔

١٥٢۔ مہرین، مہراد، فلسفہ شرق، تہران، مؤسسہ مطبو عاتی، عطائی، ١٣٥٧۔

١٥٣۔ نائینی، میرزا محمد حسین، فوائد الاصول ( تقریر محمد علی کاظمی ) ، ٤جلد، قم، مؤسسہ النشر الاسلامی، ١٤٠٤ ق۔

١٥٤۔ ناطق، ناصح، بحثی دربارئہ زندگی مانی وپیام او، تہران، امیر کبیر، ١٣٥٧۔

١٥٥نراقی، ملا احمد، معراج السعادہ، تہران، رشیدی، ١٣٦٢۔

١٥٦۔ نراقی، ملا مہدی، جامع السعادات، قم، اسماعیلیان، (تاریخ طبع مشخص نہیں ہے)۔

١٥٧۔ نعمانی، محمد بن ابراہیم، الغیبہ، تہران، مکتبة الصدوق، (تاریخ طبع مشخص نہیں ہے)۔

١٥٨۔ نوری، میرزا حسین، مستدرک الوسائل، قم، مؤسسہ آل البیت، ١٤٠٧ ق۔

١٥٩۔ نوری، میرزا حسین، مستدرک الوسائل ومستنبط المسایل، بیروت، مؤسسہ آل البیت لاحیاء التراث، ١٤٠٨ ق۔

١٦٠۔ ورام بن ابی فراس، تنبیہ الخواطر، ٢ جلد، بیروت، دارالتعارف ودار صعب، (تاریخ طبع مشخص نہیں ہے)۔

١٦١۔ ویل دورانت، تاریخ تمدّن، ترجمہ گروہی ازمترجمین، تہران، اقبال، (تاریخ طبع مشخص نہیں ہے)۔

١٦٢۔ ویل دورانت، لذات فلسفہ، تہران، شرکت سہامی انتشار اندیشہ، ١٣٥٤۔

١٦٣۔ہرگنہان، بی۔ آر۔ مقدمہ ای بر نظریہ ہای یاد گیری، ترجمہ علی اکبر سیف، تہران، دانا، ١٣٧٤۔

١٦٤۔ ہرمان الدنبورک، فروغ خاور، ترجمہ بدر الدین کتابی، اصفہانی، انتشارات کتاب فروشی تیید، ١٣٤٠۔

١٦٥۔ ہیلگارد، ارنست، نظریہ ہای یاد گیری، ترجمہ محمد نقی براہنی، تہران، ستاد انقلاب فرہنگی مرکز نشر دانشگاہی، ١٣٧٦۔

١٦٦۔یونگ، روان شناسی ضمیر نا خود آگاہ، ترجمہ محمد علی امیری، تہران، انتشارات آموزش و انقلاب اسلامی، ١٣٧٢۔

۱۶۷- The Psychology of Healthe ,M.Robin Dimatteo, colifornia,۱۹۹۱

۲۷۷

فہرست

پہلا باب : اخلاق کے اصول ۴

پہلی فصل: کلّیات ۴

الف۔ علم اخلاق سے واقفیت ۴

١۔ لفظ اخلاق کا لغوی مفہوم ۴

٢۔علم اخلاق کی تعریف ۵

٣۔ اخلاق کا فلسلفہ ۶

٤۔ اخلاقی تربیت ۷

ب۔ علم اخلاق اور دوسرے علوم ۸

١۔ علم اخلاق اور فقہ ۸

٢۔ علم اخلاق اور حقوق ۹

٣۔ علم اخلاق اورعرفان عملی ۹

٤۔علم اخلاق اور تربیتی علوم ۱۰

ج۔ اخلاق سے متعلق نظریات ۱۱

١۔فیلسوفوں کا نظریۂ اخلاق ۱۱

٢۔ عارفوں کا نظریۂ اخلاق ۱۱

٣۔اخلاق نقلی(٣) ۱۳

د: اخلاق اسلامی کے مباحث کی تقسیم ۱۶

١۔اخلاق کی بعض بنیادی اور فلسفی بحثیں ۱۶

٢۔اخلاقی خوبیوںاوربرائیوں کی توصیف ۱۶

۲۷۸

٣۔اخلاق تربیتی ۱۶

دوسری فصل : اخلاق کی جاودانی ۱۷

مقدمہ ۱۷

١۔مسئلہ کی وضاحت: ۱۷

٢۔ بحث کی تاریخ: ۱۷

٣۔ موضوع کی دینی اہمیت: ۱۸

٤۔اطلاق اور نسبیت کا مفہوم: ۱۸

الف۔ اخلاقی نسبیت پسندی کے نتیجے: ۲۰

١۔ ذمہ داری کا سلب ہونا: ۲۰

٢۔اخلاقی احکام کا بے ثمر ہونا: ۲۱

٣۔ دین کے مکمل اور جاودانی ہونے کی نفی: ۲۱

٤۔ اخلاقی شکّاکیت : ۲۱

٥۔خادموں اور خائنوں کا یکساں ہونا: ۲۲

ب۔ ا خلاق میں مطلق پسندی اور اس کی دلیلیں ۲۲

١۔پائدار اخلاق کی نشاندہی کی ضرورت: ۲۲

٢۔ اخلاق کے جاودانی اصولوں کو بیان کرنا: ۲۲

ج۔ سو ا لا ت اور جوابات ۲۵

پہلاسوال: ۲۵

پہلا جواب: ۲۵

دوسرا جواب: ۲۵

۲۷۹

تیسرا جواب: ۲۶

چوتھا سوال: ۲۸

جواب: ۲۸

تیسری فصل: اخلا قی عمل ۲۹

عناوین ۲۹

١لف ۔اخلاقی عمل کے قیمتی عناصر ۳۰

١ ۔فاعلی عناصر ۳۰

ایک: فاعل کی آزادی اور اس کا اختیار ۳۱

١۔فلسفی جبر: ۳۲

٢۔ اخلاقی جبر: ۳۲

٣۔ حقوقی جبر: ۳۲

٤۔ نفسیاتی جبر: ۳۲

٥۔سماجی جبر: ۳۳

دو: فاعل کی نیت اورمقصد ۳۴

١۔مقصدکی عقلی اہمیت: ۳۵

نیت کے مراتب: ۳۶

مقصد اور ایمان کارشتہ: ۳۷

ایمان اورعمل کا رشتہ : ۳۹

کافروں کے نیک اعمال: ۴۰

٢۔فعلی اور عینی عنصر ۴۱

۲۸۰

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809

810

811

812

813

814

815

816

817

818

819

820

821

822

823

824

825

826

827

828

829

830

831

832

833

834

835

836

837

838

839

840

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863

864

865

866

867

868

869

870

871

872

873

874

875

876

877

878

879

880

881

882

883

884

885

886

887

888

889

890

891

892

893

894

895

896

897

898

899

900

901

902

903

904

905

906

907

908

909

910

911

912

913

914

915

916

917

918

919

920

921

922

923

924

925

926

927

928

929

930

931

932

933

934

935

936

937

938

939

940

941

942

943

944

945