تفسير راہنما جلد ۱۰

تفسير راہنما 6%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 945

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 945 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 254179 / ڈاؤنلوڈ: 3518
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱۰

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

إسرائيل كو انذار ۵;بنى إسرائيل كو وعدہ ۹;بنى إسرائيل كى تاريخ ۱، ۲;بنى اسرئيل كى حاكميت كا سبب۴;بنى إسرائيل كى حاكميت كے آثار ۵;بنى إسرائيل كى سكونت ۹; بنى إسرائيل كى غفلت كا پيش خيمہ ۵;بنى إسرائيل كى نعمتيں ۷;بنى إسرائيل كے آرام كے آثار۵; سرزمين شامات ميں بنى إسرائيل ۱، ۴، ۹; سرزمين مصر ميں بنى إسرائيل ۱،۴;قيامت ميں بنى إسرائيل۷،۸

زندگى :زندگى ميں امن كى اہميت ۳;زندگى ميں امن كى قدر ۳

ظالمين :ظالموں سے دورى كى اہميت ۳;ظالموں سے دورى كى قدروقيمت ۳

غفلت :آخرت سے غفلت كا پيش خيمہ ۵، ۶

فرعون :فرعون كى حكومت سے نجات ۲

فرعونى لوگ:فرعونيوں كا اخروى حشر ۸;فرعونيوں كا اخروى مؤاخذہ۸;قيامت ميں فرعونى لوگ ۸

قدرت :قدرت كے آثار ۶

آیت ۱۰۵

( وَبِالْحَقِّ أَنزَلْنَاهُ وَبِالْحَقِّ نَزَلَ وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلاَّ مُبَشِّراً وَنَذِيراً )

اور ہم نے اس قرآن كو حق كے ساتھ نازل كيا ہے اور يہ حق ہى كے ساتھ نازل ہوا ہے اور ہم نے آپ كو صرف بشارت دينے والا او رڈرانے والا بناكر بھيجا ہے (۱۰۵)

۱_قرآن كاا للہ كى طرف سے نازل ہونا اور اس كا بغير كسى خلل اور باطل كے حق كے ساتھ پيغمبر (ص) اور لوگوں تك پہنچانا_وبالحق ا نزلنه وبالحق نزل

۲_قرآن ايك ايسا الہى مجموعہ ہے جس ميں كسى معمولى سے مقام پر تبديلى اور چشم پوشى ممكن نہيں ہے_

وبالحقّ أنزلناه وبالحق نزل

آيت ۸۸ اور ۹۳ كے مضامين كى طرف توجہ ركھتے ہوئے كہ مشركين كى قرآن كے مكتوب صورت ميں نازل ہونے كى درخواست بيان كى گئي تھي_ ممكن ہے يہاں ان كے لئے جواب ہو كہ اقتراحات سے قرآنى حقائق تبديل نہيں ہوسكتے_

۳_قرآن غير وحى كے كلام سے مخلوط ہونے سے منزہ ہے اور اس كے صحيح وسالم ہونے كى الله تعالى كى طرف سے ضمانت

۲۸۱

ہے_وبالحق ا نزلناه وبالحقّ نزل جمع''وبالحقّ نزل'' ہوسكتا ہے _قرآن كے نازل ہونے كى كيفيت كو بيان كرنے كے ليے ہو يعنى نزول قرآن حق كى بنياد پر ہوا ہے اور كبھى بھى باطل اور ناحق سے مخلوط نہيں ہوا ہے_

۴_قرآن ايك جاودانى كتاب ہے كہ گذرتے زمانوں سے اس كى تعليمات پر كوئي اثر نہيں پڑا_وبالحقّ انزلناه وبالحق نزل

مندرجہ بالا مطلب كى بناء ''حق'' كے استعمال كے موارد اور معانى مےں سے ايك ہے كہ اس سے مراد كسى چيزى ثابت اور زوال پذير نہ ہونا ہے_

۵_پيغمبر(ص) كى ذمہ دارى فقط لوگوں كو بشارت دينا اور ڈرانا ہے_وما أرسلناك إلّامبشراً ونذيرا

۶_قرآنى حقائق پيغمبر (ص) كى رسالت اور ان كى بشارتوں اور ڈراووں كى اساس ہيں _

وبالحقّ أنزلناه وبالحق نزل وما أرسلناك إلّا مبشراً ونذيرا

۷_حق وحقيقت كے قبول كرنے يا نہ كرنے كى لوگوں كے حوالے سے پيغمبر اكر(ص) پر ذمہ دارى نہيں ہے_

ومإرسلناك إلّا مبشراً ونذيرا

''وماأرسلناك ...'' ميں حصر اضافى ہے ممكن ہے اس حقيقت كو بيان كر رہا ہو كہ پيغمبر (ص) لوگوں كے قبول كرنے يا نہ كرنے ميں كسى قسم كے ذمہ دار نہيں ہيں اور وہ لوگ اپنے انتخاب كے ذمہ دار خود ہيں اور پيغمبر (ص) تو فقط لوگوں كو بشارت دينے اور ڈرانے كا ذمہ ركھتے ہيں _

۸_بشارت اور ڈراوے كا لوگوں كى ہدايت كى ساتھ ملاپ كا ضرورى ہونا _وما أرسلناك إلّا مبشراً ونذيرا

۹_كوئي بھى اپنا عقيدہ اور دين اگر چہ حق ہى كيوں نہ ہو لوگوں پر تحميل كرنے كا حق نہيں ركھتا _

وبالحقّ نزل ومإرسلناك إلّا مبشراً ونذيرا

جب پيغمبر، (ص) دين اسلام جو كہ دين حق ہے اس كا لوگوں پر تحميل كا حق نہيں ركھتے تھے وہ صرف بشارت اور ڈراوا دينے كا عہدہ ركھتے تھے تو دوسرے بدرجہ اولى ايسا حق نہيں ركھتے_

آنحضرت(ص) :آنحضرت (ص) كى بشارتيں ۵، ۶ ;آنحضرت (ص) كى ذمہ دارى كا محدود ہونا ۵،۷;آنحضرت(ص) كى رسالت ۶;آنحضرت (ص) كے انذار۵،۶;

انسان :انسان كا اختيار ۹

۲۸۲

بشارت :ہدايت ميں بشارت ۸

دين:دين ميں جبر كى نفى ۹

ڈراوا :ہدايت ميں ڈراوا ۸

عقيدہ :آزاد ى كا عقيدہ ۹

قرآن:قرآن كا محفوظ ہونا ۲،۳; قرآن كا وحى سے ہونا ۲، ۳;قرآن كى تعليمات ۵ ; قرآن كى جاودانى ۴;قرآن كى خصوصيات ۲، ۳، ۴; قرآن كے نزول كى حقانيت ۱;قرآن ميں تبديلى نا ممكن ہونا ۴

ہدايت :ہدايت كا طريقہ ۸

آیت ۱۰۶

( وَقُرْآناً فَرَقْنَاهُ لِتَقْرَأَهُ عَلَى النَّاسِ عَلَى مُكْثٍ وَنَزَّلْنَاهُ تَنزِيلاً )

اور ہم نے قرآن كو متفرق بناكر نازل كيا ہے تا كہ تھوڑا تھوڑا لوگوں كے سامنے پڑھو او رہم نے خود اسے تدريجاً نازل كيا ہے (۱۰۶)

۱_قرآن كى تنظےم ' تفصيل اور ابواب ميں ہونا الله تعالى كى جانب سے نہ كہ پيغمبر (ص) كے اختيار ميں ہے_

قراء ناً فرقناه

۲_ممكن ہے پيغمبر (ص) پر قرآن كے تدريجى نازل ہونے كا فلسفہ اس كا لوگوں پر ٹھہر ٹھہر كر اور آرام سے پڑھنا ہو_

وقراء ناً فرقناه لتقرأه على الناس على مكث ''مكث'' لغت ميں ٹھہرنے اور تامل كا معنى ديتا ہے_(لسان العرب)

۳_لوگوں پر آرام اور ٹھہر ٹھہر كر قرآن پڑھنے كى پيغمبر (ص) كى ذمہ دارى _وقرء اناً فرقناه لتقرأه على الناس على مكث

۴_دينى تعليمات كا تدريجى طور پر نازل ہونا اور ان كو تدريجى طور پر تعليم دينا لوگوں كى ہدايت ميں موثر كردار ادا كرتا ہے_

فرقناه لتقرأه على الناس على مكث

يہ كہ قرآن ايك كتاب ہدايت ہے اس كا پيغمبر پر تدريجى نزول كے ياد دلانے كا مقصد يہ ہو كہ

۲۸۳

ہدايت كے ليے تدريجينزول موثر كردار ادا كرتا ہے_

۵_ دينى معارف اور قرآنى تعليمات كو گہرائي سے سمجھنے كے لئے انسان كى فكرى اور روحى استعداد كو مناسب انداز سے استعمال كرنے كى ضرورت _وقرء اناً فرقناه لتقرأه على الناس على مكث يہ كہ الله تعالى نے قرآن ميں دينى معارف كو بيان كرنے ميں تدريجى اور قدم بقدم كہ طريقے سے استفادہ كيا ہے' مندرجہ بالا نكتہ حاصل آتا ہے_

۶_قرآنى تعليمات عالمگير ہيں اور سب لوگ انہيں سمجھنے كى طاقت ركھتے ہيں _

وقرء اناً فرقناه لتقرأه على الناس على مكث ونزلنا تنزيل

۷_مخاطبين پر قرآن كو تدريجى طور ے پڑھنا ان ميں دوسرے حصہ كے پڑھنے كے انتظار كو پيدا كرنے كا موجب بنتا ہے _

لتقراه على الناس على مكث لغت ميں ''مكث'' اس آرام كو كہتے ہيں كہ جس ميں انتظار بھى ہو _(مفردات راغب)

۸_قرآن وہ بلند حقائق ہيں كہ جو بشر كى فہم اور ادارك كى حد تك نازل ہوئے ہيں _نزّلناه تنزيل

''نزول'' كے معنى ميں '' عالى درجہ سے اترنا ''پوشيدہ ہے_(مفردات راغب) كيونكہ قرآن كا مادى و جسمانى نزول تو قابل تصور نہيں ہے ممكن ہے يہاں نزول معنوى مراد ہو_

آنحضرت(ص) :آنحضرت (ص) كا قرآن تلاوت كرنا۳; آنحضرت (ص) كى ذمہ دارى كا محدود ہونا ۱; آنحضرت (ص) كى رسالت ۳

الله تعالى :الله تعالى كے اختيارات ۱

انسان :انسان كى استعداد كى اہميت ۵

تعلق:قرآن سے تعلق كا موجب ۷

دين :دين كى وضاحت كى روش۵;دين كے تدريجى بيان كے آثار ۴

قرآن:قرآن كا سورتوں كى شكل ميں ہونا ۱;قرآن كا عالمگير ہونا ۶;قرآن كا نزول ۸;قرآن غور سے سننے كا پيش خيمہ ۷;قرآن كى تدريجى تلاوت كے آثار۷;قرآن كى تلاوت ميں ٹھہرنا ۲; قرآن كى تنظيم ۱;قرآن كى خصوصيات ۸; قرآن كى وضاحت ۶;قرآن تدريجى نازل ہونے كا فلسفہ ۲;قرآن كے سمجھنے مےں آسانى ۶، ۱۰;قرآنى تعليمات ۸

ہدايت :ہدايت كے اسباب ۴

۲۸۴

آیت ۱۰۵

( قُلْ آمِنُواْ بِهِ أَوْ لاَ تُؤْمِنُواْ إِنَّ الَّذِينَ أُوتُواْ الْعِلْمَ مِن قَبْلِهِ إِذَا يُتْلَى عَلَيْهِمْ يَخِرُّونَ لِلأَذْقَانِ سُجَّداً )

آپ كہہ ديجئے كہ تم ايمان لاؤ يا نہ لاؤجن كو اس كے پہلے علم دے ديا گيا ہے ان پر تلاوت ہوتى ہے تو منھ كے بھل سجدہ ميں گر پڑتے ہيں (۱۰۷)

۱_قرآن پر لوگوں كا ايمان لانا يا نہ لانا اس كے مفاہيم و معارف كى حقانيت پر اثر نہيں ڈالتا _

وبالحقّ أنزلناه قل ء امنوا به أولا تؤمنوا

۲_ايمان اور كفر كى طرف ميلان انسان كے اپنے ارادہ اور عزم پر متوقف ہے_ء امنوا به أولا تو منوا

۳_دينى تعليمات كے بيان اور ابلاغ كے بعد راہ ايمان يا كفر اختيار كرنا يہ خود لوگوں كى ذمہ دارى ہے_

وقراء ناً فرقناه لتقرأ ه على الناس على مكث قل ء امنوا به أو لا تؤمنوا

قرآن كے تدريجى نزول كے فلسفہ اور لوگوں پر حق وباطل بيان كرنے كے بعد يہ جملہ ''قل امنوا بہ اولا تومنواً'' مندرجہ بالا نكتہ پر دلالت كرتا ہے_

۴_آسمانى معارف كے بارے ميں علم وآگاہى ركھنے والے، حق قبول كرنے والى روح اور آيات قرآنى كے مد مقابل خضوع كے حامل ہوتے ہيں _إن الذين أوتوا العلم من قبله إذا يتلى عليهم يخّرون

۵_نزول كے زمانہ ميں لوگوں كے درميان علماء كاموجود ہونا اور ان كا قرانى آيات سننے كے بعد اس كى حقانيت پر يقين كرنا _

إن الذين أوتوا العلم من قبله إذا يتلى عليهم يخّرون

۶_نزول قرآن سے پہلے لوگوں كے درميان بعض صحےح الہى معارف وعلوم كا موجود ہونا _إن الذين أوتوا العلم من قبله

۷_ايمان كے پيدا ہونے اور اس كے موانع سے جہالت ميں علم اور آگاہى كا موثر كردار_إن الذين أوتوإلعلم من قبله يخّرون للأذقان سجّدا

۸_دينى حقايق كے بارے ميں علم بہت اہميت كا حامل تھا' اور ايسے علم كے علماء كا الله كى بارگاہ ميں بلند مقام اور درجہ ہے _إن الذين أوتوإلعلم من قبله يخّرون للأذقان

۲۸۵

۹_حقيقت كو پانے اور دينى تعليمات قبول كرنے كے لئے علم بہت اہم وسيلہ ہے _إن الذين أوتوإلعلم من قبله يخّرون للأذقان

۱۰_علماء اور مفكرين كے وجود ميں ،آيات قرآن كا گہرا اثر_إن الذين أوتوا العلم من قبله يخرون للأذقان سجدا

۱۱_علم وآگاہى كى بناء پر پيداہونے والا ايمان ،بہت قيمتى اور قابل تعريف ہے _

ء امنوا به أولا تؤمنو إن الذين أوتوالعلم يخّرون للأذقان

۱۲_اہل كتاب كے بعض علماء كا قرآن كى معرفت پيدا كرنے كے بعد اپنے تمام تر وجود كے ساتھ الله كى بارگاہ ميں سرتسليم كرنااور چاہت سے سجدہ ميں گرپڑنا_إن الذين أوتوالعلم من قبله يخرون للأذقان سجدا

مندرجہ بالا مطلب كى بناء يہ نكتہ ہے كہ ''أوتوا العلم من قبلہ'' سے مراد اہل كتاب ہوں اور سجدہ كى ''خرّ'' سے تعبير سقوط اور گرنے كے معنى ميں ہو لہذا ہوسكتا ہے كہ يہ مندرجہ بالا حقيقت كى طرف اشارہ ہو رہا ہو_

۱۳_قرآن كے مد مقابل علماء كا خضوع اور سجود، گواہ ہے كہ وہ دوسروں كے ايمان كا محتاج نہيں اور ان كى بے ايمانى اس پر اثر انداز نہيں ہوتى ہے_ء امنوا به أولا تؤمنوا إن الذين أوتوالعلم من قبله إذا يتلى عليهم يخرون

مندرجہ بالا مطلب كى بناء يہ احتمال ہے كہ ''إن'' جملہ ''امنوا بہ او'' كے لئے ''تعليل'' ہو چونكہ اہل علم ودانش جب قرآن پر ايمان لے آتے ہيں تو دوسروں كا اس پر ايمان لانا اور نہ لانا برابر ہے اور ان كے ايمان كى احتياج نہيں ہے_

۱۴_قرآنى معارف سے بہرہ مند ہونے كى مقدار ميں ، لوگوں كى علمى سطح كا اثر _إن الذين أوتوا العلم يخرون لإذقان

۱۵_''على بن محمد قال : سئل ابوعبدالله (ع) عمّن بجبهته علة لا يقدر على السجود عليها قال :يضع ذقنه على الارض ان الله عزّوجلّ يقول: ''ويخّرون للأذقان سجداً''_ (۱)

على بن محمد كہتے ہيں كہ امام صادق(ع) سے اس شخص كے بارے ميں كہ جو اپنى پيشانى كے حوالے سے مرض ميں ہو''زخم'' پھوڑا و غيرہ

____________________

۱_ كافى ج۳، ص ۳۳۴، ح ۶_ نورالثقلين ج ۳، ص ۲۳۱، ح ۴۶۹ح_

۲۸۶

ہو'' كہ وہ سجدہ نہ كرسكتا ہو سوال كيا تو حضرت (ع) نے فرمايا : تھوڑى كو زمين پر ركھے كيونكہ الله تعالى نے فرمايا ہے :''ويخّرون الاذقان سجداً''

ارادہ:ارادہ كے آثار ۲

اقدار;۸//اقرار:قرآن كى حقانيت كا اقرار ۵

الله تعالى :الله تعالى كے لئے خضوع ۱۲//انسان:انسان كا اختيار ۲، ۳

ايمان :ايمان كا اہم ہونا ۱۱;ايمان كا پيش خيمہ ۲، ۳;ايمان سے مانع ۷;ايمان كے اسباب ۷; قرآن پر ايمان ۱۳;قرآن پر ايمان كے آثار ۱

بيمار:بيمار كا سجدہ ۱۵

جبرواختيار :۳

جبر كا باطل ہونا ۲

جہالت :جہالت كے آثار ۷

خاضع افراد :۴

دين:دين كو قبول كرنے كا پيش خيمہ ۹//روايت : ۱۵

سجدہ:سجدہ كے احكام ۱۵

علم :علم كى اہميت ۷، ۹;علم كى تاريخ ۶;علوم دينى كى اہميت۸;علم كے آثار ۷، ۹، ۱۱، ۱; قرآن سے پہلے علوم ۶

علمائ:صدر اسلام كے علماء كا اقرار ۵;علماء كا اثر لينا ۱۰

علماء اہل كتاب:علماء اہل كتاب اور قرآن ۱۲;علماء اہل كتاب كا خضوع ۱۲;علماء اہل كتاب كا سجدہ ۱۲

قرآن:قرآن اور علماء ۱۰;قرآن كا كردار ۱۰;قرآن كو سمجھنے كا پيش خيمہ ۱۴;قرآن كو غور سے سننے كے آثار ۵;قرآن كى حقانيت ۱;قرآن كى معرفت كے آثار ۱۲;قرآن كے بے نياز ہونے كى دليلےں ۱۳;قرآن كے مد مقابل خضوع ۴، ۱۳;قرآن كے مد مقابل سجدہ ۱۳

كفر :قرآن سے كفر ۱۳;قرآن سے كفر كے آثار ۱;كفر كا پيش خيمہ ۲، ۳

ہدايت :ہدايت كا پيش خيمہ ۹

۲۸۷

آیت ۱۰۸

( وَيَقُولُونَ سُبْحَانَ رَبِّنَا إِن كَانَ وَعْدُ رَبِّنَا لَمَفْعُولاً )

اور كہتے ميں كہ ہمارا ادب پاك و پاكيزہ ہے اور اس كا وعدہ يقينا پورا ہونے والا ہے (۱۰۸)

۱_آسمانى معارف سے آگاہ لوگوں كى نظر ميں پروردگار ،ہر قسم كے نقص و عيب سے منزہ ہے _

إن الذين أوتوإلعلم من قبله يقولون سبحان ربنا

۲_الله تعالى ميں كمى اور نقص پائے جانے اور شرك كا عقيدہ جہالت اور نادانى كى بناء پر ہے _

إن الذين أوتوإلعلم يقولون سبحان ربنا

۳_اس كى بر حق آيات كا مشاہدہ كرتے ہوئے اس كے مد مقابل خضوع اور سجود كے ساتھ ساتھ پروردگار كى تسبيح مطلوب ہے_إذا يتلى عليهم يخرون للا ذقان سجداً ويقولون سبحان ربنا

۴_علماء اہل كتاب گذشتہ آسمانى كتب ميں قرآن جيسى آسمانى كتاب كے نازل ہونے كے الہى وعدہ سے آگاہ تھے_

الذين أوتو االعلم من قبله إذا يتلى عليهم يخرون يقولون سبحان ربنا إن كان وعد ربنا لمفعولا

۵_قرآن كے نزول كے ضمن ميں الہى بشارت كے محقق ہونے كو مشاہدہ كرتے ہوئے علماء اہل كتاب كا الہى وعدوں كے تبديل نہ ہوسكنے كے بارے ميں يقين_أوتوإلعلم يقولون إن كان وعد ربنا لمفعولا

۶_علماء كى نظر ميں قرآنى آيات، انسانوں كے حوالے سے الله تعالى كى بے نقص اور كامل ربوبيت كا آئينہ ہيں _

إن الذين أوتوا العلم ...إذا يتلى عليهم يقولون سبحان ربنا ان كان وعد ربنا لمفعولا

۲۸۸

۷_الله تعالى كى انسانوں كے حوالے سے كامل ربوبيت ،اس كے وعدوں ميں تبديلى نہ آنے كا موجب ہے_

سبحان ربّنا إن كان وعد ربّنا لمفعولا

۸_معاد اور انسان كى پھر سے نئي زندگي، علماء كى نظر ميں ايك يقينى اور ناقابل تغير الہى وعدہ ہے_

يقولون إن كان وعد ربنا لمفعولا

احتمال ہے كہ اس سورہ كى ۹۷، ۹۸ آيات كے قرينہ سے ''وعد'' سے مراد، انسان كى دوبارہ زندہ اور معاد ہو_

آسمانى كتب:آسمانى كتب كے وعدے ۴

اسماء و صفات:صفات جلال ۱

الله تعالى :الله تعالى اور نقص ۱، ۲;اللہ تعالى كا منزہ ہونا ۱;اللہ تعالى كى ربوبيت كى علامات ۶;اللہ تعالى كى ربوبيت كے آثار ۷;اللہ تعالى كے لئے خضوع ۳;اللہ تعالى كے وعدے ۴;اللہ تعالى كے وعدوں كا يقينى ہونا ۵، ۷، ۸

الله تعالى كى آيات:الله تعالى كى آيات كو ديكھنے كے آثار ۳

تسبيح :الله تعالى كى تسبيح كے آداب ۳

جہالت:جہالت كے آثار ۲

سجدہ:الله ك سامنے سجدہ ۳

شرك:شرك كا سرچشمہ ۲

علمائ:علماء كا عقيدہ ۶،۸

علماء اہل كتاب:علماء اہل كتاب كا آگاہ ہونا ۴;علماء اہل كتاب كا اقرار ۵

علماء دين :علماء دين كا عقيدہ ۱

قرآن:كتب آسمانى ميں قرآن ۴;قرآن كى آيات ۶ ; قرآن كے نازل ہونے كا وعدہ ۴;قرآن كے نازل ہونے كے آثار ۵

معاد :معاد كا حتمى ہونا ۸

۲۸۹

آیت ۱۰۹

( وَيَخِرُّونَ لِلأَذْقَانِ يَبْكُونَ وَيَزِيدُهُمْ خُشُوعاً )

اور وہ منھ كے بھل گر پڑتے ہيں روتے ہيں اور وہ قرآن ان كے خشوع ميں اضافہ كرديتا ہے (۱۰۹)

۱_حق قبول كرنے والے علماء ،ہميشہ قرآن كے مد مقابل خاضع اور خاشع ہيں _

إن الذين أوتوالعلم من قبله إذا يتلى عليهم ...يخرون للأذقان يبكون

۲_قران ا س قدر عظےم معارف پر مشتمل ہے كہ تمام علماء مفركين كے خضوع اور خشوع كو ابھارتا ہے_

إن الذين أوتوالعلم من قبله إذا يتلى عليهم يخّرون للأذقان يبكون

۳_آسمانى معارف سے آگاہ لوگوں اور علماء كا قرآن كے مدّمقابل آنكھوں ميں آنسووں كے ساتھ خضوع_

إن الذين أوتوالعلم من قبله إذا يتلى عليهم يخّرون للأذقان يبكون ويزيدهم خشوع

۴_آيات قرآن كو سنتے وقت گريہ كرنا،ايك با عظمت امر ہے_إذا يتلى عليهم ...ويخّرون للأذقان يبكون

۵_معار ف آسمانى سے آشنا علماء كى روح ورواں پر قران كا اثر اس حد تك ہے كہ ان كى آنكھوں سے آنسو جارى ہو جاتے ہيں _إذا يتلى عليهم ...يبكون

۶_قرآنى آيات كى تلاوت، علماء ميں خشوع كو بڑھاتى ہے_إن الذين أوتوالعلم من قبله إذا يتلى عليهم ويزيدهم خشوع

۷_معارف الہى سے آگاہ انسان ہميشہ معنوى كمال اور روحى بلندى كى راہ پرگامزن ہے _إن الذين أوتوالعلم ...ويزيدهم خشوع

اقدار:۴

رونا:رونے كى اہميت ۴;قرآن كو غور سے سنتے وقت

۲۹۰

رونا ۴، ۵

علماء :علماء اور قرآن ۱، ۲، ۳; علماء كا خشوع ۱، ۲، ۳;علماء كا خضوع ۱، ۲;علماء كا رونا ۳،۵;علماء كے آنسو ۳;علماء كے خشوع كے اسباب ۶

علماء دين :علماء دين كا كمال ۷

قرآن :قرآن كى تلاوت كے آثار ۶;قرآن كے آثار ۲;قرآن كے روحى آثار ۵;قرآن كے سامنے خشوع ۱;قرآن كے سامنے خضوع ۱، ۲

آیت ۱۱۰

( قُلِ ادْعُواْ اللّهَ أَوِ ادْعُواْ الرَّحْمَـنَ أَيّاً مَّا تَدْعُواْ فَلَهُ الأَسْمَاء الْحُسْنَى وَلاَ تَجْهَرْ بِصَلاَتِكَ وَلاَ تُخَافِتْ بِهَا وَابْتَغِ بَيْنَ ذَلِكَ سَبِيلاً )

آپ كہہ ديجئے كہ اللہ كہہ كر پكارديا رحمن كہہ كر پكار و جس طرح بھى پكاروگے اس كے تمام نام بہترين ہيں اور اپنى نمازوں كو نہ چلاكر پڑھو اور نہ بہت آہستہ آہستہ بلكہ دونوں كادرميانى راستہ نكالو (۱۱۰)

۱_الله تعالى كے بہت سے ناموں اور صفات ميں سے كسى ايك سے اسے پكارنے كا جائز ہونا _ادعوإلله اوادعوالرحمن

۲_مشركين كى طرف سے حضرت بارى تعالى كے اسماء وصفات ميں بيان شدہ شبہات كو دور كرنے كے لئے آنحضرت (ص) پر الہى پيغام پہنچانے كى ذمہ داري_قل ادعوا الله اوادعوالرحمن

۳_الله تعالى كے صفات اور اسماء كا متعدد ہونا مسمّى ميں كثرت اور اس كى ذات ميں شرك كا موجب نہيں بنتا_

ادعوإلله اوادعوإلرحمن ا يّاًماتدعوا فله الأسماء الحسني

مندرجہ بالا مطلب كى بناء يہ احتمال ہے كہ آيت مشركين كے جواب ميں ہے كہ جو الله كو الله اور رحمان كہنے سے مسمّى اور ذات ميں كثرت مراد ليتے تھے_

۲۹۱

۴_الله تعالى كو متعدد ناموں اور صفات سے پكارنے ميں اصلى مقصد، اس كے يكتا ہونے ميں توجہ ہے_

ا يًّاماً تدعوا فله الأسماء الحسنى

۵_فقط ذات پروردگار، اسماء حسنى (بہترين نام) اور بلندترين صفات كى حامل ہے_ا يًّاما تدعوا فله الأسماء الحسنى

۶_الله تعالى كو ايسے اسماء اور صفات سے پكارنا جائز نہيں ہے كہ جن ميں نقص، كمى اور محدوديت كا شائبہ ہو_

ادعوا الله أوادعوإلرحمن ا يًّاماً تدعوا فله الأسماء الحسنى

۷_''اللہ'' اور ''الرحمن'' الله تعالى كے اسماء حسني، بہترين ناموں اور بلندترين صفات ميں سے ہيں _

أدعوا الله أوادعوإلرحمن ا ياماً تدعوا فله الأسماء الحسنى

۸_تمام نمازوں كو بلند يا آہستہ آواز سے پڑھنا الله تعالى كے نزديك منع ہے _ولاتجهر بصلاتك ولاتخافت به

يہ مطلب اس بات پر مبنى ہے كہ ''صلاة'' سے مراد تمام نمازيں ہوں نہ صرف كہ ايك نماز_

۹_بلند آواز يا بہت آہستہ آواز ميں الله تعالى كى بارگاہ ميں دعا اور مناجات كرنااللہ تعالى كى طرف سے ممنوع ہے_

ولا تجهر بصلاتك ولاتخافت به يہ كہ ''صلاة'' سے مراد مطلق دعا ہو تو مندرجہ بالا مطلب سامنے آتا ہے_

۱۰_نماز كو بہت بلند يا بہت آہستہ آواز سے پڑھنا جائز نہيں _ولا تجهر بصلاتك ولا تخافت به

مندرجہ بالا مطلب كى بناء يہ ہے كہ ''صلاة'' سے مراد ہر وہ نماز ہو كہ جسے نماز گزار ادا كرتے ہيں _

۱۱_الله تعالى كى بارگاہ ميں دعا اور مناجات كے وقت معتدل آواز كو اختيار كرنا لازمى ہے_

لاتجهر بصلاتك ولاتخافت به

۱۲_پيغمبر (ص) پر نماز كى قرا ت ميں ميانہ روى كى رعايت اور بہت بلند آواز يا بہت آہستہ آواز سے پرہيز كى ذمہ داري_

ولاتجهر بصلاتك ولا تخافت به

۱۳_پيغمبر (ص) پر بعض نمازوں ميں جہر اور بعض نمازوں ميں اخفات كى ذمہ دارى ہے _

ولاتجهر بصلاتك ولا تخافت بها وابتغ بين ذلك سبيلا

يہ كہ آيت سے مراد يہ ہو كہ تمام نمازوں كو جہر يا تمام كو اخفات سے نہ پڑھو اور ''وابتغ'' سے مراد يہ ہو بعض كو جہر كے ساتھ اور بعض كو اخفات سے پڑہو تو مندرجہ بالا نكتہ واضح ہوگا_

۱۴_عبادات اور مناجات كے انجام ميں ميانہ روى كى رعايت اور افراط اور تفريط سے پرہيز كا ضرورى

۲۹۲

ہونا_ولا تجهر ولاتخافت بها وابتغ بين ذلك سبيلا

احتمال ہے كہ يہاں نماز يا دعا كوعبادات كے مظہر اور مصداق اصلى كے طور پر ذكر كيا گيا ہے_بذات خود ان دونوں ميں بلند آواز سے پڑھنے يا آہستہ آواز سے پڑھنے كى خصوصيت مراد نہ ہو لہذا اس آيت سے تمام عبادات كے انجام ميں ميانہ روى كى رعايت معلوم ہوتى ہے_

۱۵_((عن أبى عبدالله (ع) قال : الرحمن، الرحيم ، الملك الباعث الوارث فهذه الأسماء وماكان من الأسما الحسنى حتّى تتم ثلاث مائة وستين اسمائ وذلك قوله تعالى : قل ادعوا الله أوادعوإلرحمن أيًّاما تدعوا فله الأسماء الحسنى _ (۱) امام صادق _ سے روايت ہوئي ہے كہ آپ (ع) نے فرمايا : رحمن ، رحےم ، ملك باعث، وارث يہ اسماء اور ان كے علاوہ ديگر اسماء جو كہ ۳۶۰ ہيں يہ سب كے سب ال

قل ادعوا الله اوادعوإلرحمن ايًّاماتدعوا فله الاسماء الحسنى _

۱۶_عن أبى عبدالله (ع) قال : والله غيراسمائه ألاترى إلى قوله: ...''قل ادعوا الله أوادعوإلرحمن أيًّاما تدعوا فله الأسماء الحسنى '' فالأسماء مضافة إليه ،(۲)

امام صادق _ سے روايت ہوئي ہے كہ آپ (ع) نے فرمايا : الله تعالى كى ذات اس كے اسماء كے علاوہ ہےكياآپ نے الله تعالى كا كلام نہيں ديكھا كہ وہ فرماتا ہے :قل ادعوا الله اوادعوإلرحمن ايًّاما تدعوا فله الاسماء الحسنى _ پس الله كے ناموں كى اس كى طرف نسبت دى گئي ہے_

۱۷_عن سماعة قال : سا لته عن قول الله عزّوجلّ : ''ولا تجهر بصلاتك ولا تخافت بها'' قال :المخافته ما دون سمعك والجهر أن ترفع صوتك شديداً ،(۳)

سماعتہ كہتے ہيں ہے كہ امام عليہ السلام سے الله تعالى كے اس كلام ''ولاتجھر بصلاتك ولاتخافت بھا'' كے بارے ميں سوال كيا تو حضرت (ع) نے فرمايا : آہستہ پڑھنا يہ ہے كہ تم خود بھى نہ سنو اور بلند پڑھنا يہ ہے كہ تمہارى آواز بہت بلند ہو _

۱۸_عن أبى جعفر الباقر (ع) فى قوله : ''ولاتجهر بصلاتك ولا تخافت بها'' قال :''الاجهار أن ترفع صوتك تسمعه

____________________

۱) كافى ج۱، ص ۱۱۲، ح ۲۱، نورالثقلين ج۳، ص ۲۳۲، ح۴۷۱_۲) توحيد صدوق ص ۵۸، ح ۱۶، ب ۲_ نورالثقلين ج ۳، ص ۲۳۳، ح ۴۷۴_

۳) كافى ج ۳، ص ۳۱۶، ح ۲۱_ نورالثقلين ج ۳، ص ۲۳۳، ح ۴۷۶_

۲۹۳

من بعد عنك و الاخفات أن لاتسمع من معك إلّا يسيراً_

امام باقر _ سے روايت ہوئي ہے كہ انہوں نے الله تعالى كے كلام :''ولاتجهر بصلاتك ولا تخافت بها'' كے بارے ميں فرمايا : ''اجہار'' يہ ہے كہ آپ كى آواز اس قدر بلند ہو كہ وہ شخص جو تم سے دور ہے وہ سن لے اور ''اخفات'' يہ ہے كہ آپ كى آواز اس قدر آہستہ ہو جو تمہارے قريب شخص ہے وہ محض ايك خفيف سى آواز كے اور كچھ نہ سنے_

۱۹_عن أبى عبدالله (ع) فى قوله الله تعالى :''ولاتجهر بصلاتك ولاتخافت بها'' فقال : ...وما بين ذلك قدر ما يسمع اُذنيك _(۲) امام صادق _ سے روايت ہوئي ہے كہ انہوں نے الله تعالى كے كلام :''ولا تجهر بصلاتك ولا تخافت بها'' كے بارے ميں فرمايا : ''بين ذلك '' سے مراد آواز كى وہ مقدار ہے كہ تمھارے اپنے كان سن ليں _

۲۰_إن رسول الله (ص) قال : ''ولاتجهر بصلاتك ولا تخافت بها'' إنما نزلت فى الدعا (۳)

پيغمبر اكرم (ص) سے نقل ہوا ہے كہ انہوں نے فرمايا : ''ولا تجھر بصلاتك ولا تخافت بھا'' يہ آيت فقط دعا كے مورد ميں نازل ہوئي ہے_

۲۱_عبدالله بن سنان قال : قلت لأبى عبدالله (ع) : على الامام ان يسمع من خلفه وإن كثروا؟ فقال : ليقرا قراء ة وسطاً يقول الله تبارك وتعالى : ''ولا تجهر بصلاتك ولا تخافت بها'' _(۴)

عبداللہ بن سنان كہتے ہيں كہ امام صادق(ع) كى خدمت ميں عرض كى :كيا امام جماعت پر لازم ہے كہ وہ اپنى آواز تمام مقتديوں كے كانوں تك پہنچائے اگر چہ وہ زيادہ ہى كيوں نہ ہوں ؟ تو حضرت (ع) نے فرمايا : ضرورى ہے كہ قرائت معتدل انداز ميں ہو _ الله تعالى فرماتاہے:''ولا تجهر بصلاتك ولا تخافت بها'' _

۲۲_عن أبى جعفر وابى عبدالله (ع) فى قوله تعالى : ''ولاتجهر بصلاتك و لا تخافت بها ...''قال: كان رسول الله(ص) إذا كان بمكة جهر بصوته فيعلم بمكانه المشركون فكانوا يؤذونه، فا نزلت هذه الأية عند ذلك _(۵)

امام باقر _ اور امام صادق _ سے الله تعالى كے كلام : ''ولاتجھر بصلاتك ولاتخافت بھا'' كے بارے ميں روايت ہوئي ہے كہ انہوں

____________________

۱) تفسير قمى ج ۲ ، ص ۳۰ _ نورالثقلين ج ۳، ص ۲۳۴ ، ح ۴۷۹_۲) تفسير عياشى ج ۲ ، ص ۳۱۹ ، ح ۱۷۷ _ نورالثقلين ج ۳، ص ۲۳۴ ، ح ۴۸۲_

۳) الدرالمنثور ج ۵، ص ۳۵۱_۴) كافى ج ۳ ، ص ۳۱۷ ح ۲۷_ نورالثقلين ج ۳ ، ص ۲۳۳ ح ۴۷۷_۵) تفسير عياشى ج ۲، ص ۳۱۸ ، ح ، ۱۷۵_ نورالثقلين ج ۳، ص ۲۳۴ ، ح ۴۸۱_

۲۹۴

نے فرمايا : كہ جب رسول الله (ص) مكہ ميں تھے تو اپنى نماز كو بلند آواز سے پڑھا كرتے تھے تو مشركين آپ(ص) كى جگہ سے باخبر ہو جاتے اور آپ (ص) كو اذيت ديتے تو يہ آيت اس حوالے سے نازل ہوئي_

۲۳_عن أبى عبدالله (ع) فى قوله: ''ولا تجهر بصلاتك ولا تخافت بها'' قال : نسختها ''فاصدع بماتؤمر'' _السورة حجر آلأية ۹۴ _(۱)

امام صادق _ سے روايت نقل ہوئي ہے كہ آپ نے الله تعالى كے اس كلام''ولا تجهر بصلاتك و لا تخافت بها'' كے بارے ميں فرمايا: كہ يہ آيت سور حجر كى آيت ۹۴ كے ذريعے نسخ ہوچكى ہے_

آنحضرت (ص) :آنحضرت (ص) كى رسالت ۲;آنحضرت(ص) كى شرعى ذمہ دارى ۱۲،۱۳;آنحضرت (ص) كى نماز ۱۲، ۱۳، ۲۲//آيات قرآن:آيات منسوخ ۲۳;آيات ناسخ ۲۳

احكام: ۸ ، ۹ ، ۱۰//اسماء وصفات :اسماء حسنى ۵، ۷، ۱۵، ۱۶;اللہ ۷;رحمان ۷; شبھات كا جواب ۲; متعدّد۲

الله تعالى :الله تعالى كى ذات ۱۶;اللہ تعالى كى طرف سے ممنوعات ۸، ۹اللہ تعالى كےمختصات۵;

توحید :توحيد ذاتى ۳;توحید صفاتى ۳//دعا:دعا كى آواز ميں اعتدال ۹;دعا كے آداب ۱،۴، ۶، ۱۱، ۱۴، ۲۰;دعا كے احكام ۹;دعا ميں بلند آواز ۹;دعا ميں اسماء و صفات ۱، ۴;دعا ميں اعتدال ۱۴ ;دعا ميں آہستہ اواز سے پڑھنا ۹

ذكر:دعا ميں الله كا ذكر ۴

روايت : ۱۵ ، ۱۶، ۱۷، ۱۸، ۱۹، ۲۰، ۲۱، ۲۲، ۲۳

صفات :بہترين صفات ۵

عبادت:عبادت كے آداب ۱۴;عبادت ميں اعتدال ۱۴

مشركين :مشركين كے اعتراضات كا جواب ۲

نام :بہترين نام ۵

نماز :نماز كى آواز ميں اعتدال ۱۰، ۱۲;نماز جماعت كے احكام ۲۱;نماز كے احكام ۸،۱۰; نماز ميں آہستہ بولنا۱۰ ;نماز ميں اخفات ۸، ۱۳، ۱۷، ۱۸ ;نماز ميں بلند آواز ۱۰، ;نماز ميں جہر ۸، ۱۳، ۱۷، ۱۸، ۱۹

____________________

۱) تفسير عياشى ج ۲، ص ۳۱۹، ح ۱۷۶_ نورالثقلين ج ۳، ص ۲۳۴، ح ۴۸۴_

۲۹۵

آیت ۱۱۱

( وَقُلِ الْحَمْدُ لِلّهِ الَّذِي لَمْ يَتَّخِذْ وَلَداً وَلَم يَكُن لَّهُ شَرِيكٌ فِي الْمُلْكِ وَلَمْ يَكُن لَّهُ وَلِيٌّ مِّنَ الذُّلَّ وَكَبِّرْهُ تَكْبِيراً )

اور كہو كہ سارى حمد اس اللہ كے لئے ہے جس نے نہ كسى كو فرزند بنايا ہے اور نہ كوئي اسكے ملك ميں شريك ہے اور نہ كوئي اس كى كمزورى كى بناپر اس كا سرپرست ہے اور پھر باقاعدہ اس كى بزرگى كا اعلان كرتے رہو (۱۱۱)

۱_آنحضرت (ص) پر الله تعالى كى حمد اور تمام تر حمد كو اس كى ذات ميں منحصر كرنے كى ذمہ داري_وقل الحمدلله

''الحمد'' ميں الف لام استغراق كے لئے ہے اور ''للہ'' ميں لام خاص كرنے كے لئے ہے_

۲_الله تعالى كى طرف سے انسانوں كو حمد كرنے كى روش كى تعليم_وقل الحمدلله الذى لم يتخذ ولد

۳_كائنات كے معبود ميں تمام خوبياں اور كمالات موجود ہيں اور ہر نقص او راحتياج سے بے نياز ہے_وقل الحمدلله

تمام تر حمداللہ كے ساتھ خاص ہونے كا نتيجہ يہ ہے

كہ تمام قابل حمد خوبياں اس كى ذات ميں جمع ہيں اور وہ ہر نقص واحتياج سے منزہ ہے_

۴_ہر موجود كى تمام تعريقيں الله واحد لاشريك كى حمد وستائش كى طرف پلٹى ہيں _وقل الحمدلله

تمام تر حمد كا الله تعالى واحد كى ذات سے مخصوص ہونا اور ادھر كائنات ميں وجود كے مظاہر ميں قابل تعريف خوبيوں كا ہونا اس معنى كى طرف اشارہ كر رہا ہے كہ چونكہ مخلوق نے اپنا تمام وجود خالق سے ليا ہے تو ا سكى خوبياں اس ذات كى طرف سے ہيں درحقيقت فقط الله ہى قابل حمد وستائش ہے اور بس_

۵_الله تعالى كى كوئي اولاد نہيں ہے اور وہ ہر قسم كے

۲۹۶

شريك اور مددگار سے منزہ اور بے نياز ہے _لم يتخذ ولداً ولم يكن له شريك ولم يكن له وليّ

۶_تمام تعريفوں كا الله تعالى كے ساتھ مخصوص ہونا اس كا اولاد، شريك اور مددگار سے بے نيازى كے نتيجے ميں ہے_

الحمدلله الذى لم يتخذ ولم يكن له وليّ

اگر الله تعالى كو اولاد، شريك اور مددگار كى احتياج ہوتى تو يہ سب اس ميں نقص اور كمى پر دليل ہوتيں تو اس صورت ميں تمام تعريفيں اس كى ذات ميں منحصر نہ ہوتيں تو تمام تعريفوں كا الله كى ذات ميں انحصار اس صورت ميں ہے كہ ہم اسے مطلق بے نياز جانيں _

۷_الله تعالى كى اولاد،شريك اور مددگار كا عقيدہ ، ايك شرك آلودہ اور اس كى ذات ميں نقص ڈالنے والا عقيدہ ہے _

لم يتخذ ولداً ولم يكن له وليّ

۸_الله تعالى كا كائنات كا تنہا حاكم اور اپنى حكومت ميں ہر قسم كے شريك سے منزّہ ہونا _ولم يكن له شريك فى الملك

۹_كسى سرپرست يا مددگار كا محتاج ہونا ذلت ناقص اور محدود ہونے كى وجہ سے ہے_ولم يكن له وليّ من الذلّ

''ولايت'' يا دوستى كے معنى ميں ہے يا سرپرست كے معنى ميں ہے دونوں صورتوں ميں اگر ذلت مطرح ہو تو يہ كسى ميں نقص اور كمى كو بيان كرتا ہے كہ جسے حمايت ودوستى كى ضرورت ہے_

۱۰_الله تعالى كے پاس عزت اور مطلق كبريائي ہے_ولم يكن له ولى من الذل وكبّره تكبيرا

۱۱_الله تعالى كے مقام كى بڑائي كا بيان كرنا اور اسے تمام تر نقائص سے منزّہ سمجھنا ضرورى ہے_وكبّره تكبيرا

۱۲_الله تعالى كے مقام كى بلندوبالا عظمت بے مثل اور اس كے غيركے ساتھ ناقابل مقائسہ ہے_وكبّره تكبيرا

۱۳_الله تعالى كا مقام اس سے بلند ہے كہ وہ فرزند، شريك اور مددگار ركھے_لم يتخذ ولداً وكبّره تكبيرا

آنحضرت (ص) :آنحضرت (ص) كى شرعى ذمہ دارى ۱

اسماء وصفات:صفات جلال ۵، ۸

الله تعالى :الله تعالى اور شريك ۵، ۶، ۸، ۱۳;اللہ تعالى اور فرزند ۵، ۶، ۱۳;اللہ تعالى اور مددگار ۵، ۶، ۱۳;اللہ تعالى كا بے مثل ہونا ۱۲;اللہ تعالى كى بڑائي ۱۲;اللہ تعالى كا منزہ ہونا ۵، ۸، ۱۳; الله تعالى كى بڑائي كى اہميت ۱۱;اللہ تعالى كى بے نيازى كے آثار ۶;اللہ تعالى كى تعليمات ۲;اللہ تعالى كى

۲۹۷

عزت ۱۰; الله تعالى كى عظمت ۱۲;اللہ تعالى كى كبريايى ۱۰;اللہ تعالى كے ساتھ خاص ۶۲۱، ۸، ۱۲;اللہ تعالى كے منزّہ ہونے كى اہميت ۱۱

حمد:الله تعالى كى حمد ۱، ۴، ۶;حمد كى تعليم روش ۲

سچا معبود:سچا معبود اور محتاج ۳;سچا معبود اور نقص ۲;سچا معبودوكا منزّہ ہونا ۳;سچا معبودكے كمالات ۳;

شرك:شرك كا ردّ ۸;شرك كے موارد ۷

عقيدہ:الله تعالى كے لئے شريك كا عقيدہ ۷;اللہ تعالى

كے لئے اولاد كا عقيدہ ۷;اللہ تعالى كے لئے مددگار كا عقيدہ ۷

كائنات پر حاكم ۸

محتاجياں :ولايت كى طرف محتاج ہونے كے آثار ۹

معبوديت:معبوديت كا معيار ۳

موجودات:موجودات كى حمد ۴

ولايت و سرپرستى :ولايت كى طرف محتاج ہونے كى ذلت

سورہ اسراء کا اختتام ہوا

۲۹۸

۱۸-سوره کهف

آیت ۱

( بسم الله الرحمن الرحیم )

( الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَنزَلَ عَلَى عَبْدِهِ الْكِتَابَ وَلَمْ يَجْعَل لَّهُ عِوَجَا )

بنام خدائے رحمان و رحيم

سارى حمد اس خدا كے لئے ہے جس نے اپنے بندے پر كتاب نازل كى ہے اور اس ميں كسى طرح كى كجى نہيں ركھى ہے (۱)

۱_فقط الله تعالى كى ذات ،حمد كے لائق ہے _الحمدلله

''الحمد'' ميں '' الف لام ''استغراق كے لئے اور الحمدللہ يعنى تمام تعريفيں الله كے لئے ہيں _

۲_الله تعالى تمام كمالات اور خوبصورتى كا سرچشمہ ہے_الحمدللّه

۳_الله تعالى پيغمبر(ص) پر قرآن نازل كرنے والا ہے _أنزل على عبده الكتاب

۴_الله تعالى ، پيغمبر (ص) پر قرآن نازل كرنے كى وجہ سے تمام تعريفوں كے لائق ہے_الحمدلله الذى أنزل الكتاب

الله تعالى كى''الذى انزل'' كے ساتھ توصيف

اس كے ساتھ تمام تعريفوں كے خاص ہونے كى علت ودليل بيان كر رہى ہے_

۵_قرآن، عظےم كتاب ہونے كے ساتھ ساتھ زيبائي اور كمال كے عروج پر واقع ہے _

الحمدلله الذى أنزل على عبده الكتاب

''الكتاب'' ميں '' الف لام'' صفات كے استغراق كے لئے ہے _ يعنى وہ تمام اوصاف كہ جنہيں كامل حد تك ايك كتاب كو ركھنا چاہئے وہ اس كتاب ميں موجود ہے اور يہ چيز قرآن كى عظمت سے حكايت كر رہى ہے اور چونكہ زيبائي اور كمال كى بناء پر حمد ہوتى ہيں اوراس آيت ميں الله تعالى نے قرآن كے نازل كرنے كى بناء ہو اپنے آپ كو تمام تر حمدو ستائش كے لائق قرار ديا ہے اس سے معلوم ہوا كہ قرآن بھى كمال اور زيبائي كى آخرى سرحدوں پر واقع ہے _

۶_پيغمبر اكرم (ص) الله تعالى كے بندے ہيں اور اس كى عبوديت پر فخر كرتے ہيں _انزل على عبده الكتاب

۲۹۹

۷_پيغمبر (ص) كے مقام رسالت پر فائز ہونے اور ان پر قرآن كے نازل ہونے ميں ان كى عبادت اور عبوديت كا كردار _أنزل على عبده الكتاب آنحضرت پر قرآن نازل كركے الله نے پيغمبر كو اپنا بندہ كہہ كر ياد كيا ہے يہ توصيف كرنا ہوسكتا ہے اس مطلب كو واضع كو رہا ہو كہ پيغمبر (ص) كا بندہ خدا ہونا اور اس كى بندگى وعبادت كرنا ا ن كے مقام رسالت پر فائز ہونے اور وحى پانے كا اہم سبب ہے _

۸_الله تعالى كى بندگي، انسان كے لئے شريف ترين اور عزيزترين مرتبہ ہے _أنزل على عبده الكتاب

پيغمبر (ص) كى شناخت كروانے كے سلسلہ ميں عنوان ''عبد'' سے استفادہ كرناانسانى فضےلت وكمالات كے زمرہ ميں اس مرتبہ كے عظيم ومقام ومنزلت كو بيان كر رہا ہے_

۹_قرآن ،ہر قسم كى كجى اور انحراف سے منزہ ہے_أنزل على عبده الكتاب ولم يجعل له عوج عوج كا معنى كجى اور انحراف ہے_

۱۰_قرآن كى عظمت وكمال اور اس ميں معمولى سى كجى اور انحراف كا نہ ہونا، اس كو نازل كرنے والے كے سامنے حمدوستايش كا تقاضا كرتا ہے _الحمدللّه الذى لم يجعل له عوج آنحضرت (ص) :آنحضرت (ص) كى عبادت كے آثار ۷; آنحضرت (ص) كى عبوديت ۶;آنحضرت (ص) كى عبوديت كے آثار ۷; آنحضرت (ص) كى نبوت كا باعث ۷;آنحضرت (ص) كے مقامات ۶، ۷

الله تعالى :الله تعالى كا كردار ۲;اللہ تعالى كے افعال ۳;اللہ تعالى كے مختصات ۱/الله تعالى كے بندے: ۶

انسان:انسان كے مقامات ۸//حمد :الله كى حمد كا پيش خيمہ ۴، ۱۰;اللہ كى حمد ۱

زيبايي:زيبائي كا سرچشمہ ۲

عبوديت :عبوديت كا مقام ۸

قرآن:قرآن اور انحراف۹;قرآن كا كمال۵; قرآن كا منزہ ہونا۹;قرآن كا نزول ۴; قرآن كى خصوصيات ۵،۹; قرآن كى زيبائي ۵; قرآن كى عظمت۵; قرآن كى عظمت كے آثار ۱۰;قرآن كے كمال كے آثار ۱۰; قرآن كے نزول كا پيش خيمہ ۷;قرآن كے نزول كا سرچشمہ ۳

كمال :كمال كا سرچشمہ ۲

۳۰۰

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

فان لم تأتونى به و لا تقربون

(لا تقربون ) ميں نون مكسورہ ، نون وقايہ ہے اور يأى متكلم محذوف پر دلالت كرتى ہے تو اس صورت ميں ( لا تقربون ...) كا معنى يہ ہوگا : كہ ميرے پاس نہ آنا _

۴_ حضرت يوسفعليه‌السلام نے اپنے مقصود تك پہنچنے كے ليے ترغيب دلانے كے ساتھ ساتھ تہديد سے بھى كام ليا_

الا ترون اوفى الكيل فان لم تأتونى به فلا كيل لكم

۵_ اپنے جائز اور مشروع مقاصد كے ليے اقتصادى پابندوں سے مدد حاصل كرنا جائز ہے _

فان لم تأتونى به فلا كيل لكم عندي

۶_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹے دوبارہ مصرلوٹنے اور خوراك حاصل كرنے كے سلسلہ ميں مصمم تھے_

فان لم تأتونى به فلاكيل لكم عندي

۷_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے خاندان كے ليے قحط كے سالوں ميں اپنى خوراك مہيا كرنے كا واحد راستہ مصر ميں آنا اور حضرت يوسف(ع) كى طرف رجوع كرنے ميں تھا_فان لم تأتونى به فلا كيل لكم عندى و لاتقربون

اگر بردران يوسف(ع) كے پاس خوراك حاصل كرنے كے ليے مصر آنے كے علاوہ بھى كوئي راستہ ہو تا توحضرت يوسف(ع) كى تہديد(فلا كيل لك عندي ) كا كوئي معنى نہيں رہتا اوراس كا كو ئي اثر نہ ہوتا_

۸_ حضرت يوسفعليه‌السلام ، بنيامين كا ديدار كرنے ميں بہت ہى زيادہ شوق ركھتے تھے_

ائتونى بأخ لكم فأن لم تأتونى به فلا كيل لكم عندى و لا تقربون

آل يعقوب :آل يعقوب كى تا مين معاش ۷

احكام :۵

اقتصاد :اقتصادى پابندى كا جائز ہونا ۵;اقتصادى ترقى كى اہميت ۵

برادران يوسف :برادران يوسف اور غلّہ كا دريافت كرنا ۲،۶; برادران يوسف كا ارادہ ۶;برادران يوسف كا حضرت يوسف سے ملاقات ۶

عواطف :بھائي كى عطوفت و محبت ۸

ہدف و وسيلہ : ۵

۵۴۱

يوسفعليه‌السلام :حضرت يوسف(ع) اور بنيامين ۸;حضرت يوسف(ع) اور بنيامين سے ملاقات ۲، ۳;حضرت يوسف(ع) اور غلات كى تعين مقدار۱; حضرت يوسف(ع) اور غلات كى تقسيم ۱;حضرت يوسف(ع) سے ملاقات كے شرائط ۲، ۳; حضرت يوسف(ع) كا بنيامين سے لگاؤ ۸ ;

حضرت يوسف(ع) كا پروگرام ۱;حضرت يوسف(ع) كا ڈرانا ۴;حضرت يوسف(ع) كا شوق دلوانا ۴; حضرت يوسف(ع) كا قصہ ۲، ۳، ۶;حضرت يوسفعليه‌السلام كى اقتصادى سياستيں ۱;حضرت يوسف(ع) كى بھائيوں سے ملاقات ۲، ۳; حضرت يوسف(ع) كے پيش آنے كا طريقہ ۴

آیت ۶۱

( قَالُواْ سَنُرَاوِدُ عَنْهُ أَبَاهُ وَإِنَّا لَفَاعِلُونَ )

ان لوگوں نے كہا كہ ہم اس كے باپ سے بات چيت كريں گے اور ضرور كريں گے (۶۱)

۱_ حضرت يعقوبعليه‌السلام اپنے بيٹے بنيامين سے خصوصى محبت كرتے تھے _قالوا سنراود عنه اباه

۲_ حضرت يعقوبعليه‌السلام ہميشہ بنيامين كو اپنے بھائيوں كے ساتھ سفر كرنے سے منع كرتے تھے_قالوا سنراودعنه اباه

۳_ برادران يوسفعليه‌السلام نے بنيامين كے ہمراہ نہ ہونے كى دليل يہ ذكر كى كہ حضرت يعقوب(ع) ان سے شديد لگاؤ ركھتے ہيں _قالوا سنراود عنه آباه

(ہم اپنے باپ سے بات كريں گے اور كوشش كريں گے كہ اسكو راضى كريں تا كہ بنيامين كو ہمارے ساتھ بھيجے)جو جملہ (سنراودعنہ آباہ) سے معلوم ہوتا ہے_ اس سے يہ بھى اشارہ ملتا ہے كہ بنيامين جو ان كے ہمراہ نہيں تھے دراصل ان كے باپ نے انہيں منع كيا تھا_

۴_ حضرت يعقوب(ع) كے بيٹے بنيامين كو مصر لانے كيلئے حضرت يعقوبعليه‌السلام كى رضايت كو جلب كرنے كے علاوہ كوئي اور راستہ نہيں ركھتے تھے_قالوا سنراود عنه آباه و انا لفاعلون

۵_ حضرت يوسفعليه‌السلام كے بھائيوں نے يہ وعدہ كياكہ دوسرى بار جب وہ آئيں گے تو بنيامين كو آپ كى خدمت ميں لے آئيں گے_سنراود عنه آباه و انا لفاعلون

۶_ برادران يوسف نے ان سے وعدہ كيا كہ وہ اپنے

۵۴۲

باپ حضرت يعقوبعليه‌السلام كو راضى كريں گے كہ بنيامين كو ہمارے ساتھ روانہ كريں _قالوا سنراود عنه آباه و انا لفاعلون

(مراودہ ) (نراود) كا مصدر ہے جسكا معنى نرمى اور پيار و محبت سے درخواست كرنے كا ہے _ اور (عنہ ) كا لفظ جس كے بارے ميں درخواست كى جا رہى ہے اس پر دلالت كرتا ہے _تو اس صورت ميں '' سنراود '' كا معنى يہ ہوا كہ ان كے باپ ( بنيامين كے والد گرامى ) سے نرمى و محبت سے درخواست كريں گے كہ آئندہ كے سفر ميں ان كو ہمارے ساتھ روانہ كريں _

۷_ برادران يوسف(ع) نے اس بات كى تاكيد كى كہ وہ يہ صلاحيت ركھتے ہيں كہ والد گرامى كو راضى كرليں تا كہ بنيامين كو آپ كے پاس لانے كے ليے ہمارے ساتھ روانہ كردے _انالفاعلون

(سنراود عنہ آباہ ) كے جملہ سے يہ ظاہر ہوتا ہے كہ حضرت يوسف كو يہ احتمال بھى تھا كہ ان كے والد گرامى راضى نہ ہوں ( انا لفاعلون ) كے جملے سے ان كے بھائي ان كو اطمينان دلانا چاہتے تھے كہ بغير كسى تشويش كے والد گرامى كى رضايت

جلب كريں گے اور بنيامين كو آپ كے ہاں لے آئيں گے_

برادران يوسف :برادران يوسف اور بنيامين ۴، ۵; برادران يوسف اور رضايت حضرت يعقوبعليه‌السلام ۴، ۶، ۷; برادران يوسف كا وعدہ ۵،۶

بنيامين :بنيامين كا مصر كى طرف سفر ۴، ۵، ۶، ۷;بنيامين كو ساتھ نہ لانے كے دلائل ۳

عواطف :عواطف پدرى ۱

يعقوبعليه‌السلام :حضرت يعقوب(ع) اور بنيامين كى مسافرت ۲; حضرت يعقوب(ع) كا قصہ ۵; حضرت يعقوب(ع) كى بنيامين سے محبت ۱، ۲، ۳

يوسف(ع) :حضرت يوسفعليه‌السلام كا قصہ ۳، ۴، ۶، ۷;حضرت يوسف(ع) كے ساتھ عہد ۵، ۶

۵۴۳

آیت ۶۲

( وَقَالَ لِفِتْيَانِهِ اجْعَلُواْ بِضَاعَتَهُمْ فِي رِحَالِهِمْ لَعَلَّهُمْ يَعْرِفُونَهَا إِذَا انقَلَبُواْ إِلَى أَهْلِهِمْ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ )

اور يوسف نے اپنے جوانوں سے كہا كہ ان كى پونچى بھى انكے سامان ميں ركھ دو شائد جب گھر پلٹ كر جائيں تو اسے پہچان ليں اور اس طرح شايد دوبارہ پلٹ كر ضرور آئيں (۶۲)

۱_ حضرت يوسفعليه‌السلام لوگوں كے حصے كو انہيں فروخت كرتے اور اس كى قيمت وصول كرتے تھے _

و قال لفتيانه اجعلوا بضاعتهم فى رحالهم

(بضاعة)اس مال كو كہا جاتا ہے جو مال، تجارت اور خريد و فروش كے ليے ہو _ اسى وجہ سے (بضاعتہم) سے وہ مال مراد ہے جو برادران يوسف نے قيمت كے بد لے حاصل كيا تھا_

۲_حضرت يوسف(ع) نے اپنے كا رندوں سے كہا كہ جو قيمت فرزندان يعقوب(ع) نے دى ہے اسے ان كے سامان ميں پنہاں كرديں _و قال لفتيانه اجعلوا لضاعتهم فى رحالهم

۳_ حضرت يوسفعليه‌السلام نے كارندوں سے يہ تاكيد فرمائي كہ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں كے مال كو ان كے سامان ميں اس طرح پوشيدہ كريں كہ اپنے وطن پہنچنے سے پہلے وہ اسكى طرف متوجہ نہ ہو سكيں _

اجعلوا بضاعتهم فى رحالهم لعلم يعرفونها اذا انقلبوا الى اهلهم

۴_ حضرت يوسفعليه‌السلام نے بہت سے غلاموں اور كارندوں كو اپنى خدمت ميں ليا ہوا تھا جو ساز و سامان كا وزن ، تقسيم اور قيمت وصول كرنے پر ما مور تھے_قال لفتيانه اجعلوا بضاعتهم فى رحالهم

(فتيان )جو (فتي) كى جمع ہے غلاموں اور جوانوں كے معنى ميں استعمال ہوتا ہے_

۵_ حضرت يوسفعليه‌السلام يہ اميد ركھتے تھے كہ جو مال اپنے بھائيوں كو واپس لوٹا دياگيا ہے وہ اپنے وطن لوٹ كر اسے پہچان سكيں گے_اجعلوا بضاعتهم فى رحالهم لعلهم يعرفونه

يہ بات واضح ہے كہ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹے جب اپنے ساز و سامان كو كھولتے تو اپنے مال كو جو قيمت كے طور پر ديا تھا اس ميں پاتے ، اسى وجہ سے (لعل) كا ذكر جو ( شايد و ممكن ) كے معنى ميں ہے مناسب نہيں تھا اسى وجہ سے (لعل) كى تفسير ميں چند وجوہ ذكر كى گئي ہيں :

۵۴۴

۱_ (اذا انقلبوا ) كى قيد كے طور پر ذكر ہوا ہو اور اشفاق و ترجّى كے معنى ميں ہو يعنى اميد ہے كہ جب وہ اپنے اہل وعيال كے درميان پہنچيں تو اسكو جان سكيں اور اس سے پہلے متوجہ نہ ہوں _

۲_ يہاں شناخت سے مراد، اپنے حق كى شناخت ہے _ يعنى اس كے حق كو پہچان سكيں يعنى اپنے مال كوپہچان كر ميرى قدر دانى كا اقرار كريں _

۳_ (لعل) (كَي) كے معنى ميں ہو يعنى ( يہاں تك كہ ) اور يہ ترجى و اميدى كے معنى ميں نہ ہو _

۶_ حضرت يوسفعليه‌السلام ، حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں كے مال تجارت كو واپس لوٹا كر ان ميں حق شناسى اور شكرگزارى كى حس ايجاد كرنا چاہتے اورانہيں دوبارہ لوٹنے كاشوق و ترغيب دلانا چاہتے تھے_اجعلوابضاعتهم فى رحالهم لعلهم يعرفونها لعلهم يرجعون مذكورہ بالا معنى دوسرے احتمال كو بتاتا ہے جسكى وضاحت پہلے ذكر ہوچكى ہے_

۷_ حضرت يوسفعليه‌السلام ،بھائيوں كو ڈرانے دھمكانے اور شوق و رغبت نيز ان كے ليے واپس لوٹنے كے تمام اسباب مہيّا كرنے كے باو جودان كے واپس لوٹنے پر اطمينان نہيں ركھتے تھے اور يعقوب(ع) كا بنيامين كو سفر پر نہ بھيجنے كا بھى احتمال ديتے تھے _لعلهم يرجعون

۸_ حضرت يوسف(ع) اپنے بھائي بنيامين كے مصر آنے كا بہت اشتياق اور اميدركھتے تھے_

اجعلوا بضاعتهم فى رحالهم لعلهم يرجعون

۹_حضرت يوسف(ع) كا بنيامين كو كنعان سے مصر كى طرف سفر كرانے كى منصوبہ بندى كرنا،

فان لم تأتونى به فلا كيل لكم ...اجعلوا بضاعتهم فى رحالهم لعلهم يرجعون

۱۰_ حضرت يعقوبعليه‌السلام اور ان كے بيٹے زيادہ مال و منال نہيں ركھتے تھے بلكہ مالى لحاظ سے بہت ہى محدود تھے_

اجعلوا بضاعتهم فى رحالهم لعلهم يرجعون

حضرت يوسف كا اپنے بھائيوں كو سرمايہ لوٹانے كے احتمالات ميں سے ايك احتمال يہ بھى ہوسكتا ہے كہ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے خاندان ميں مال و متاع كى كمى تھى _ اور آيت شريفہ ۶۵ ميں ( ما نبغى ہذہ بضاعتنا نمير اہلنا ) كا جملہ اس پر مؤيد ہے_

۱۱_ حضرت يوسفعليه‌السلام غلات كى تقسيم اور انبار شدہ خورا ك كے سلسلہ ميں مخصوص اختيارات ركھتے تھے_

قال لفتيانه اجعلوا بضاعتهم فى رحالهم

۵۴۵

حضرت يوسفعليه‌السلام كا حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں كو خوراك كے حصے سے منع كرنا كہ جب وہ آنے والى نوبت ميں بنيامين كو نہ لائے تو كچھ نہيں ملے گا اس سے مذكورہ بات سامنے آتى ہے اوران كے مال كو انہيں واپس لوٹا دينا يہ ان كے مخصوص اختيارات كى طرف اشارہ ہے_

۱۲_ بحرانى حالات ميں خوراك كى مقدار وسہم معيّنكرنا اور جو سامان ديا جائے اس كے بدلے ميں عوض لينا، بيت المال كى حفاظت و نگہدارى اور اقتصادى امور سے آگاہى كا تقاضا كرتى ہے_اجعلنى على خزائن الارض انى حفيظ عليم اجعلوا بضاعتهم فى رحالهم حضرت يوسفعليه‌السلام كا خزانے كا سر براہ ہونے كے حوالے سے اجناس كى راشن بندى كرنا جب كہ اس كى كمى تھى يہ بات حفيظ اور عليم سے س سمجھى جا رہى ہے _

۱۳_ بحرانى حالا ت اور راشن بندى كے اياّم ميں حكومت كى طرف سے لوگوں كو مفت مال دينا كوئي پسنديدہ سياست نہيں ہے_قال لفتيانه اجعلوا بضاعتهم فى رحالهم

اقتصاد :اقتصادى بحران ميں سياست ۱۲; ناپسنديدہ اقتصادى سياست۱۳

برادران يوسفعليه‌السلام :برادران يوسف(ع) كا فقر ۱۰; برادران يوسف(ع) كو تشويق دلوانا ۷; برادران يوسف(ع) كوڈرانا ۷; برادران يوسف(ع) كے تجارت كے مال كو واپس لوٹانا ۲، ۳، ۵، ۶;برادران يوسف(ع) ميں تشكر كرنے كے مقدمات كو اجاگر كرنا ۶;برادران يوسف(ع) ميں حق و حقيقت كى پہچان كو ابھارنا ۶;برادران يوسفعليه‌السلام ميں مصر آنے كا انگيزہ ايجاد كرنا۶

بيت المال :بيت المال كى حفاظت كا طريقہ ۱۲

خوراك كى راشن بندى :خوراك كى راشن بندى كى اہميت ۱۲

لوگ :لوگوں كو خورد و نوش كا سامان مفت عطا كرنا ۱۳

يعقوب(ع) :يعقوبعليه‌السلام كا فقر ۱۰

يوسفعليه‌السلام :يوسف اور بنيامين كا سفر ۷، ۸،۹;يوسف اور غلات كى تقسيم ۱۱;يوسف اور غلات كى فروخت ۱ ; يوسف كا اقتصادى پروگرام ۱;يوسف(ع) كا اميدوار ہونا ۸; يوسف كا بنيامين سے محبت كرنا ۸ ; يوسف(ع) كا پروگرام ۹; يوسفعليه‌السلام كا ڈرانا ۷;يوسف كا قصہ ۱، ۲، ۳، ۵، ۶،۷، ۱۱;يوسفعليه‌السلام كى تشويق دلوانا ۷;

۵۴۶

يوسفعليه‌السلام كى توقعات ۵; يوسفعليه‌السلام كى نصيحتيں ۳ ; يوسفعليه‌السلام كے اختيارات ۱۱;يوسفعليه‌السلام كے اوامر ۲; يوسف كے پيش آنے كا طريقہ ۶;يوسف كے كارندوں كا كردار ۴; يوسف(ع) كے مقاصد ۶

آیت ۶۳

( فَلَمَّا رَجِعُوا إِلَى أَبِيهِمْ قَالُواْ يَا أَبَانَا مُنِعَ مِنَّا الْكَيْلُ فَأَرْسِلْ مَعَنَا أَخَانَا نَكْتَلْ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ )

اب جو پلٹ كر باپ كى خدمت ميں آئے اور كہا كہ بابا جان آئندہ ہميں غلہ سے روك ديا گيا ہے لہذا ہمارے ساتھ ہمارے بھائي كو بھى بھيج ديجئے تا كہ ہم غلہ حاصل كرليں اور اب ہم اس كى حفاظت كے ذمہ دار ہيں (۶۳)

۱_ حضرت يعقوب كے بيٹوں نے مصر سے واپس لوٹنے كے بعد انہيں اپنے سفر كى رپورٹ دى اور اسكى وضاحت ، بيان كى _فلما رجعوا الى ابيهم قالوا

۲_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں نے اپنے والد گرامى كو يہ رپورٹ دى كہ اگر ہم بنيامين كے بغير گئے تو ہميں اپنے راشن كا حصہ نہيں ملے گا _فان لم تاتونى به فلا كيل لكم فلما رجعوا الى ابيهم قالوا يا ا بانا منع منا الكيل

۳_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں نے اظہار محبت كرتے ہوئے اپنے والد گرامى سے درخواست كى كہ بنيامين كو ہمارے ساتھ مصر روانہ كريں _فأرسل معنا آخان

حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں كا بنيامين كا نام نہ لينا بلكہ اسے ( آخانا ) (ہمارے بھائي) كے جملے سے يادكرنا، اس كے ساتھ اپنى محبت كے اظہار كے ليے ہے_

۴_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں نے مصر كے سفر ميں بنيامين كى حفاظت كرنے كا عہد كيا اور اس پر تاكيد كى _

فأرسل معنا آخانا نكتل و انا له لحافظون

۵_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں كے نزديك، خوراك

۵۴۷

كے معين سہم كا بنيامين كو ہمراہ نہ لانے كى صورت ميں بند ہونا ،ايك اہم بات تھى _ىأبانا منع منا الكيل

حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں كا ساز و سامان سفر كو كھولنے سے پہلے جو عموماً كاروانوں اور مسافرين كا گھر پہنچنے كے بعد پہلا اقدام ہوتا ہے اپنے والد بزرگوار كو خوراك كے راشن كے بند ہونے كى خبر دينا اور اس خبر دينے ميں جلدى كرنا ان كے نزديك اس كى اہميت كو بتاتا ہے _

۶_ حضرت يوسفعليه‌السلام كے زمانہ ميں كنعان ميں جو سات سال قحط و خشكسالى كے تھے اس ميں غلّہ اور خورد و خوراك كا سامان ناياب تھا_قالوا ىأبانا منع منا الكيل فأرسل معنا اخانا نكتل

۷_حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں كے پاس قحط كے سالوں ميں اپنى خوراك مہيا كرنے كے ليے مصر ميں حضرت يوسف كے ہاں حاضر ہونے كے علاوہ اور كوئي راستہ نہيں تھا_ىأبانا منع منا الكيل فأرسل معنا اخان

حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں كے ليے مصر جا نے كے علاوہ كوئي راستہ نہيں تھا ورنہ حضرتعليه‌السلام اپنے بيٹوں كووہ راستہ بتاتے تا كہ بنيامين كو ان كے ساتھ بھيجنے پر مجبور نہ ہوتے_

۸_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كى بنيامين كو سفر سے منع كرنے كى وجہ يہ تھى كہ وہ اس كے ليے خطرہ محسوس كرتے تھے_

سنراود عنه آباه فأرسل معنا اخانا نكتل و انا له لحافظون

(سنراود عنہ آباہ ...) كے جملے سے معلوم ہوتا ہے كہ حضرت يعقوب(ع) ہميشہ بنيامين كو سفر كرنے سے روكتے تھے ( انا لہ لحافظون ) كا جملہ بتاتا ہے كہ اس كى دليل يہ تھى كہ وہ ان كے ليے خطرہ محسوس كرتے تھے_

۹_ بنيامين ،اپنے والد گرامى حضرت يعقوبعليه‌السلام كى اجازت كے بغير سفر نہيں كرتے تھے_فأرسل معنا اخان

يہ كہ حضرت يوسفعليه‌السلام كے بھائيوں نے بنيامين كو مصر لے جانے كے ليے حضرت يعقوبعليه‌السلام سے بات كى كہ اسكو ہمارے ساتھ مصر جانے كى اجازت ديں (فأرسل معنا اخانا ) كے جملے سے معلوم ہوتا ہے كہ بنيامين اپنے والد گرامى كى اجازت كے بغير سفر نہيں كرتے تھے_

۱۰_حضرت يعقوبعليه‌السلام كا اپنے بيٹوں اور اہل خانہ پر مكمل تسلطّ تھا _يأبانا منع منا الكيل فارسل معنا اخان

۱۱_ والدين، اپنے بيٹوں پر امر و نہى كرنے كا حق ركھتے ہيں _فأرسل معنا اخان

۵۴۸

۱۲_ بيٹوں كے ليے والدين كا كہنا ماننا اور ان كے كہنے پر عمل كرنا، اولاد كى ذمہ دارى اور ان كے ساتھ معاشرت و زندگى كرنے كے آداب ميں سے ہے_فأرسل معنا اخان

اطاعت :والد كى اطاعت ۱۱، ۱۲

اہل خانہ :اہل خانہ كى سرپرستى ۱۰

برادران يوسف(ع) :برادران يوسفعليه‌السلام اور بنيامين كا سفر ۲، ۳، ۴، ۵; برادران يوسف(ع) اور يعقوبعليه‌السلام ۳; برادران يوسف(ع) قحط كے دوران ۷;برادران يوسف(ع) كا زندگى كو چلانے كا طريقہ ۷;برادران يوسف(ع) كا لوٹنا ۱ ; برادران يوسف(ع) كا وعدہ ۴;برادران يوسف(ع) كو غلات سے منع كرنا ۲، ۵;برادران يوسف(ع) كى حضرت يعقوبعليه‌السلام كو رپوٹ دينا ۱، ۲;برادران يوسف(ع) كى خواہشات ۳; برادران يوسف(ع) كے پيش آنے كا طريقہ ۳

بنيامين :بنيامين اور حضرت يعقوب(ع) كى رضايت ۹بنيامين سے محبت ۳;بنيامين كا حضرت يعقوبعليه‌السلام كا احترام كرنا ۹; بنيامين كى حفاظت ۴;بنيامين كے ليے خطرے كا احساس ۸

سرزمين :كنعان كى سرزمين حضرت يوسف كے زمانے ميں ۶;كنعان كى سرزمين كى تاريخ ۶; كنعان كى سرزمين ميں قحط ۶

عواطف :برادرى كى عطوفت

فرزند :فرزند پر حق ۱۱; فرزند كى ذمہ دارى ۱۲

معاشرت :معاشرت كے آداب ۱۲

والد :والد ہ سے پيش آنے كا طريقہ ۱۲;والد كا احترام ۹; والد كے حقوق ۱۱، ۱۲

يعقوب :حضرت يعقوب اور بنيامين كا سفر كرنا ۸;حضرت يعقوب كى سرپرستى ۱۰

يوسف :حضرت يوسف كا قصہ ۱، ۲، ۳، ۴، ۵، ۷، ۸

۵۴۹

آیت ۶۴

( قَالَ هَلْ آمَنُكُمْ عَلَيْهِ إِلاَّ كَمَا أَمِنتُكُمْ عَلَى أَخِيهِ مِن قَبْلُ فَاللّهُ خَيْرٌ حَافِظاً وَهُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ )

يعقوب نے كہا كہ ہم اس كے بارے ميں تمھارے اوپر اسى طرح بھروسہ كريں جس طرح پہلے اس كى بھائي يوسف كے بارے ميں كيا تھا _خير خدا بہترين حفاظت كرنے والا ہے اور وہى سب سے زيادہ رحم كرنے والا ہے (۶۴)

۱_ حضرت يعقوبعليه‌السلام نے اپنے بيٹوں كے مشورے كو قبول نہيں كيا اور بنيامين كو مصر بھيجنے كى مخالفت كى _

قال هل ء امنكم عليه الا كما امنتكم على اخيه من قبل

۲_ حضرت يعقوب، بنيامين كى حفاظت كے ليے اپنے بيٹوں كى تاكيد اور وعدے پر مطمئن نہيں تھے_

قال هل ء امنكم عليه الا كما امنتكم على اخيه من قبل

(ہل ء امنكم ...) ميں استفہام ،انكارى ہے جو نفى كے معنى ميں ہے_'' ا مَنَ '' (ء امن)كا مصدر ہے_ جو اطمينان كرنے اور امين سمجھنے كے معنى ميں ہے _ پس (هل ء امنكم .) كا معنى يہ ہوا كہ ميں تم كو بنيامين كے بارے ميں امين نہيں سمجھتا ہوں اور تمہارے وعدوں پر مجھے اطمينان نہيں ہے_

۳_ برادران يوسف(ع) كى آنحضرتعليه‌السلام كى حفاظت كے سلسلہ ميں بدعہدى كى وجہ سے حضرت يعقوب(ع) كو ۱پنے بيٹوں كى بنيامين كى حفاظت كے سلسلہ ميں عہد پر عدم اطمينان تھا_هل ء امنكم عليه الا كما امنتكم على اخيه من قبل

حضرت يعقوبعليه‌السلام نے بنيامين كى حفاظت كے بارے ميں اپنے بيٹوں كے وعدوں پر اعتماد و اطمينان كو حضرت يوسفعليه‌السلام كى حفاظت كے ساتھ تشبيہ دى _ اس ميں وجہ شبہہ بے فائدہ اور بے نتيجہ ہونا ہے _ پس اس صورت ميں '' ہل امنكم عليہ الا ...'' كا معنى يہ ہوگا كہ ميرا اعتماد آپ لوگوں پر( اگر ميں اعتماد كروں بھى سہي) تو بے ثمر و بے فائدہ ہے _ جس طرح ميں نے يوسفعليه‌السلام كے بارے ميں آپ پر اعتماد كيا تھا_

۵۵۰

۴_حضرت يعقوب(ع) كا بنيامين كو بيٹوں كے ہمراہ نہ بھيجنے كا سبب يہ تھا كہ كہيں يہ بھى يوسف(ع) جيسى مصيبت سے دوچارنہ ہو جائے_الّا كما امنتكم على اخيه من قبل

حضرت يعقوب(ع) نے حضرت يوسفعليه‌السلام كا نام لينے كى بجائے بنيامين كے بھائي كے عنوان سے ان كو ياد كر كے ايك لطيف نكتہ كى طرف اشارہ كيا كہ ان دونوں كا آپس ميں بھائي ہونے كے رشتے نے مجھے ان كى ايك سرنوشت (يعنى باپ سے جدائي اور فراق) كى وجہ سے پريشانى كرديا ہے_

۵_افراد كو ذمہ دارى سونپنے سے پہلے افراد كے سابقہ اعتماد پر توجہ ركھنا ضرورى ہے_

هل ء امنكم عليه الا كما امنتكم على اخيه من قبل

۶_ كسى فرد كا برا ماضى ہى اس بات كيلئے كا فى ہے كہ اس فرد سے احتياط كى جائے اور اس كے قول و قرار پر يقين نہ كيا جائے_هل ء أمنكم عليه الا كما امنتكم على اخيه من قبل

۷_ افراد كے سوء سابقہ كى انہيں يادآورى كرانا اور اس پر اثر مرتب كرناجائزہے تا كہ مستقبل ميں ايسے واقعات كى روك تھام كى جاسكے_هل ء امنكم عليه الا كما امنتكم على اخيه من قبل

۸_ گذرے ہوئے حوادث سے عبرت حاصل كرنا ضروى ہے تا كہ آئندہ اس جيسے واقعات سے محفوظ رہا جائے_

هل ء امنكم عليه الا كما امنتكم على اخيه من قبل

۹_حضرت يعقوبعليه‌السلام نے اپنے بيٹوں كے اس وعدے پر كہ وہ حضرت يوسفعليه‌السلام كے حفاظت كريں گے ان پر اطمينان كيا اور ان كى حفاظت كرنے كے سلسلہ ميں دل كو سہارا ديا _كما امنتكم على اخيه من قبل

۱۰_ افراد كو كسى شے يا چيزكى حفاظت كرنے ميں مؤثر جاننا ، شرك كا موجب نہيں بنتا اور يہ توكل الہى اور مقام نبوت كے منافى نہيں ہے_كما امنتكم على اخيه من قبل

اس سورہ ميں آيت كريمہ(۳۸) (ما كان لنا ان نشرك بالله من شيء ) كى دليل كى وجہ سے حضرت يعقوب(ع) ذرہ برابر بھى شرك كى طرف ميلان نہيں ركھتے تھے(كما امنتكم على اخيه ) كا جملہ بتاتا ہے كہ حضرت يعقوبعليه‌السلام اپنے بيٹوں كو امين خيال كرتے تھے اسى وجہ سے يوسفعليه‌السلام كى حفاظت ان كے سپردكردى پس اس سے معلوم ہوا كہ اشخاص كو كسى شے كى حفاظت ميں مؤثر سمجھنا، شرك نہيں اور نبوت كے مقام كے ساتھ بھى ناسازگار نہيں ہے_

۵۵۱

۱۱_ خداوند متعال، بہترين محافظ اور نگہبان ہے _فالله خير حافظ

۱۲_ خداوند متعال، ارحم الراحمين ( تمام مہربانوں سے بہتر مہربان ) ہے _فالله خير حافظاً و هو ارحم الراحمين

۱۳_ خداوند متعال كا اپنے بندوں كى حفاظت و نگہبانى كرنا، اسكى وسيع تر رحمت كى وجہ سے ہے _

فالله خير حافظاً و هو ارحم الراحمين

خداوند عالم كو بہترين حافظ ياد كرنے كے بعد خداوند متعال كى توصيف ( ارحم الراحمين ) سے كرنا گويا اس بات كو بتاتا ہے كہ ان دو صفتوں كے درميان ارتباط ہے _ يعنى كيونكہ وہ ارحم الراحمين ہے اسى وجہ سے بہترين محافظ بھى ہے_

۱۴_ انسانوں كى امانتدارى كرنا اور اس امانت كى حفاظت پر پورا اترناان كے رحم ودلسوزى كے ساتھ مربوط ہے _

فالله خير حافظاً و هو ارحم الراحمين

۱۵_ رحم و دلسوزى كا نہ ہونا، لوگوں سے خيانت كرنے كا سبب بنتا ہے _

قال هل ء امنكم عليه فالله خير حافظاً و هو ارحم الراحمين

۱۶_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كى اپنے بيٹوں سے دورى كرنے كى وجہ يہ تھى كہ ان ميں رحم ودلسوزى نہيں تھى اور وہ حضرت يوسف(ع) اور بنيامينسے مہربانى سے پيش نہيں آتے تھے_

هل ء امنكم عليه الا كما امنتكم على اخيه من قبل فالله خير حافظاً و هو ارحم الراحمين

احتياط:احتياط كرنے كے ضرورى موارد ۶

اسماء و صفات :ارحم الراحمين ۱۲

اعتماد :بے اعتمادى كے اسباب ۶

اللہ تعالى :اللہ تعالى كا محافظ و نگہبان ہونا ۱۱;اللہ تعالى كى رحمت كے آثار ۱۳; اللہ تعالى كے مختصّات ۱۱

امانتدارى :امانتدارى كا پيش خيمہ ۱۴

انسان :انسانوں كى محافظت ۱۳

برادارن يوسفعليه‌السلام :برادران يوسف(ع) اور بنيامين ۱۶; برادران يوسف(ع) اور يوسفعليه‌السلام ۳، ۹، ۱۶; برادران يوسف(ع) پر اعتماد

۵۵۲

۹;برادران يوسف(ع) پر بے اعتمادى ۲، ۳; برادران يوسف(ع) كے مشورے كو رد كرنا ۱

بنيامين :بنيامين كى محافظت ۳; بنيامين كے انجام سے پريشانى ۴

بے رحمى :بے رحمى كے آثار ۱۵

تاريخ :تاريخ سے عبرت حاصل كرنے كى اہميت ۸

توكل:توكل كرنے كى حقيقت ۱۰//حافظ :بہترين حفاظت كرنے والا ۱۱

حوادث :ناگوار حوادث سے بچنے كا طريقہ ۸; ناگوار حوادث كے تكراركے موانع ۷

خيانت :خيانت كا پيش خيمہ ۱۵

ذمہ دارى :ذمہ داريوں كى تقسيم ميں مؤثر عوامل ۵

سابقہ :بُرے سابقہ كے آثار ۶

شرك :شرك كى حقيقت ۱۰

عبرت :عبرت كے اسباب۸

لوگ :لوگوں پر اعتماد اور توكل ۱۰; لوگوں پر اعتماد اور شرك ۱۰; لوگوں كے سابقہ كى اہميت ۵

مہربانى :مہربانى كے آثار ۱۴

يادآورى :بُرے سابقہ كى يادآورى كرنے كا جواز ۷

يعقوبعليه‌السلام :يعقوب(ع) اور برادران يوسف(ع) كا عہد و پيمان ۲; يعقوبعليه‌السلام اور برادران يوسف(ع) كى بے رحمى ۱۶; يعقوبعليه‌السلام اور بنيامين ۴;يعقوب(ع) اور بنيامين كا سفر كرنا ۱ ; يعقوب(ع) كا اعتماد ۹; يعقوب(ع) كا شك ۲;يعقوب(ع) كى بے اعتمادى كے دلائل ۳;يعقوب(ع) كى پريشانى كے اسباب ۴; يعقوب(ع) كى مخالفت اور برادران يوسف(ع) ۱

يوسف :يوسف كا قصہ ۱، ۲، ۳، ۴، ۹، ۱۶; يوسف كى حفاظت۹

آیت ۶۵

( وَلَمَّا فَتَحُواْ مَتَاعَهُمْ وَجَدُواْ بِضَاعَتَهُمْ رُدَّتْ إِلَيْهِمْ قَالُواْ يَا أَبَانَا مَا نَبْغِي هَـذِهِ بِضَاعَتُنَا رُدَّتْ إِلَيْنَا وَنَمِيرُ أَهْلَنَا وَنَحْفَظُ أَخَانَا وَنَزْدَادُ كَيْلَ بَعِيرٍ ذَلِكَ كَيْلٌ يَسِيرٌ )

۵۵۳

پھر جب ان لوگوں نے اپنا سامان كھولا تو ديكھا كہ ان كى بضاعت (قيمت)واپس كردى گئي ہے تو كہنے لگا بابا جان اب ہم كيا چاہتے ہيں يہ ہمارى پونجى بھى واپس كردى گئي ہے اب ہم اپنے گھر والوں كے لئے غلہ ضرور لائيں گے اور اپنے بھائي كى حفاظت بھى كريں گے اور ايك اونٹ كا بار اور بڑھواليں گے كہ يہ بات اس كى موجودگى ميں آسان ہے (۶۵)

۱_ حضرت يعقوب(ع) كے بيٹوں نے سفر كى رپورٹ دينے كے بعد، مصر سے خريدارى كيئے ہوئے سامان كو كھولنا شروع كر ديا _و لما فتحوا متاعهم

۲_حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں نے جب اپنے سامان كو كھولا تو مصر سے خريدارى كيئے ہوئے غلات كے درميان اسكى قيمت كو پايا_و لما فتحوا متاعهم وجدوا بضاعتهم ردت اليهم

۳_حضرت يعقوب(ع) كے بيٹوں نے جب اداشدہ قيمت كو واپس پايا تو خوش ہوگئے اور حضرت يعقوب كو رپوٹ دى _

قالوا ىأبانا ما نبغى هذه بضاعتنا ردّت الينا

(ما نبغي) ميں (ما) استفہاميہ اور نبغى كا مفعول ہے _ (بغي) كا معنى چاہنا اور طلب كرنا ہے (ما نبغى ) يعنى اس سے زيادہ ہم كيا چاہتے ہيں ؟

۴_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹے اس بات پر اطمينان ركھتے

تھے كہ ان كے سرمايہ كو جان بوجھ كر واپس لوٹا ديا گيا ہے اور اس سلسلہ ميں يوسفعليه‌السلام كے كارمندوں نے كوئي بھول نہيں كيوجدوا بضاعتهم ردّت اليهم ...هذه بضاعتنا ردّت الينا

(ردّت الينا )كا جملہ اس بات پر دلالت كرتا ہے كہ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹے مطمئن تھے كہ ان كى پونجى ان كى طرف لوٹا دى گئي ہے _ يعنى يہ گمان بھى نہيں تھا كہ انہوں نے غلطى سے ركھ ديا ہو تا كہ اسكو واپس لوٹا نے كواپنے ليئے ضرورى سمجھيں _

۵۵۴

۵_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں نے ان كو اس بات كى يقين دہانى كرائي كہ عزيز مصر (يوسفعليه‌السلام ) نے ان كى پونجى كو بغير كسى كمترين منت و سماجت اور ہميں خبر ديئےغير واپس لوٹا دياہے _هذه بضاعتنا ردّت الينا

(ردّت) كے فعل كو مجہول لانا اورفاعل كاذكر نہ كرنا ، اس معنى كو بتا رہا ہے كہ مال كا كا واپس لوٹانا اس طرح تھا كہ ہميں كوئي خبر نہ ہوتا كہ ہميں كسى قسم كى شرمندگى كا احساس نہ ہو _

۶_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹے اپنے باپ كے ساتھ اور ان كى سرپرستى ميں زندگى بسر كرتے تھے _

و لما فتحوا متاعهم ...قالوا يابانا ما نبغى هذه بضاعتنا ردّت الينا

۷_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں نے جب اپنے سرمايہ كو واپس اپنے پاس ديكھا تو دوبارہ كوشش شروع كردى تا كہ والد بزگوار كو راضى كريں كہ وہ بنيامين كو ہمارے ساتھ روانہ كريں _

قال هل أمنكم ىأ بانا ما نبغى هذه بضاعتنا ردّت الينا و نمير اهلنا و نحفظ أخانا

حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں كا يہ جملہ ( ما نبغى ہذہ بضاعتنا ...) كوقرينہ مخاطب (يابانا) كے ساتھ ديكھيں تو كہ ان كا مقصود حضرتعليه‌السلام كى رضايت كو جلب كرنا ہے تا كہ وہ بنيامين كو ہمارے ساتھ بھيجيں _

۸_ حضرت يوسفعليه‌السلام كا يہ اندازہ (اپنے بھائيوں كو ان كى پونجى واپس لوٹا ديں تو دوبارہ مصر آنے ميں ميلان پيدا كريں گے) اور ان كا حدس لگانا مناسب و صحيح تھا_

لعلهم يعرفونها لعلهم يرجعون ما نبغى هذه بضاعتنا ردّت الينا و نمير اهلنا

۹_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں كے ليے اپنے خاندان كے نان و نفقہ كو مہيا كرنے كے ليے تنہا راستہ مصر كا سفر تھا _

و نمير اهلنا

(ميرة ) طعام كے معنى ميں ہے اور (مير)'' نمير'' كا مصدر ہے جسكا معنى طعام كو فراہم اور مہيا كرنا ہے _

۱۰_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں كى بنيامين كو مصر ہمراہ لے جانے كے ليے باپ كى رضايت كو جلب كرنے كے دلائل ميں سے خورد و خوراك كے مہيا كرنے كى ضرورت اور اسكو آمادہ كرنے كے ليے سرمايہ كا ضرورى نہ ہونا اور دربار مصر كى فرزندان يعقوب(ع) پر خاص عنايت و غيرہ تھے _

ما نبغى هذه بضاعتنا ردّت الينا و نمير اهلنا

۵۵۵

حضرت يعقوب(ع) كے بيٹوں كا يہ جملہ (يا ابانا هذه ...) بنيامين كو سفر ميں ہمراہ لے جانے ميں حضرتعليه‌السلام كى رضايت كو جلب كرنا مقصود ہے _ اور ان كا ہر جملہ ان ميں سے ايك دليل ہے كہ ان كو سفر پر بھيجنا ضرورى ہے _ اور حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹے (ما نبغى ...) كے جملے سے يہ بيان كرنا چاہتے ہيں كہ ہم پر عزيز مصر نے بہت لطف و مہربانى كى ہے اسى وجہ سے ہمارے ليے مناسب نہيں ہے كہ انكى اس خواہش (بنيامين كو ہمراہ لائيں ) كو پورا نہ كريں انہوں نے جملہ (نمير اہلنا ) كو ايك مقدر جملہ مثل (نستظہر بہا ) (يعنى اس لوٹائي ہؤئي پونچى سے مدد حاصل كريں گے ) پر عطف كيا ہے _ اس سے يہ بيان كرنا چاہتے ہيں كہ خوراك كو خريدنے ميں كسى مشكل سے دوچار نہيں ہيں اور (نحفظ اخانا) كا جملہ اس بات كو بتارہا ہے كہ عزيز مصر كے مثبت جواب اور خوراك كے حصول كے ليے اپنے بھائي كى حفاظت لازمى كريں گے اور (ذلك كيل يسير) اس كو بتارہا ہے كہ ہم طعام لانے كے ليے بہت محتاج ہيں _

۱۱_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں نے بنيامين كو مصر كے سفر پر لے جانے كے ليے دوبارہ محبت بھرا عہد كيا _

نمير اهلنا و نحفظ اخانا

۱۲_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كو بنيامين كے ہمراہ بھيجنے كے ليے جو دلائل دے گے ان ميں خوراك كے حصّے كى ممنوعيت كاختم ہونا، اور ايك اونٹ كے سامان كا زيادہ ہونا شامل تھا _و نزداد كيل بعير ذلك كيل يسير

(ازدياد) (نزداد ) كا مصدر ہے جو كہ باب افتعال سے ہے جسكا معنى زيادہ اور اضافہ كى درخواست كرنا ہے _ (كيل بعير) سے مراد اتنا وزن ہے جو ايك اونٹ اٹھا سكتا ہے اور جملہ (فان لم تأتونى بہ فلاكيل لكم ...) اور جملہ (منع منا الكيل ) اس بات پر دلالت كرتا ہے كہ حضرت يوسفعليه‌السلام نے حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں كے ليے ان كى خوراك كے حصے پر پابندى لگادى جب تك وہ بنيامين كو ہمراہ نہيں لائيں گے اسى وجہ سے ( نزاد كيل بعير) سے مراد يہ ہے كہ بنيامين كو ساتھ لے جائيں گے تو خوراك كى پابندى ختم ہونے كے ساتھ ساتھ ہم ايك اونٹ كے وزن كى اضافى خوراك كا بھى تقاضا كريں گے _

۱۳_ حضرت يوسفعليه‌السلام نے قحط كے سات سال ميں غلات كى تقسيم كے ليے راشن بندى كا ايك قانون بنايا _

نزداد كيل بعير

كيونكہ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں كے ساتھ بنيامين كے آنے سے ايك اونٹ كے وزن كى اضافى خوراك ان كو مل جاتى اس بات سے چند

۵۵۶

نكات كا اشارہ ملتا ہے : ۱_ خوراك كا حصہ ہر ايك كے ليے مخصوص تھا _۲_ اور يہ خوراك كا حصہ ہر ايك اونٹ كا وزن تھا اس سے زيادہ نہيں تھا_

۱۴_ حضرت يوسف(ع) ہر مرحلہ ميں ہر شخص كے ليے ايك اونٹ كے وزن كا غلّہ فروخت كرتے تھے_

نزداد كيل بعير

۱۵_ حضرت يوسفعليه‌السلام كى طرف سے قحط كے سات سالوں ميں غلات كى تقسيم كے ليے يہ قانون تھا كہ جو شخص غلّہ كا تقاضا كر تا سہميہ بھى اسى كوديا جاتا_نزداد كيل بعير

اگر كوئي شخص دوسرے كا حصّہ لے سكتا تو (نزاد كيل بعير ) (بنيامين كے آنے سے ايك اونٹ كے وزن كى خوراك كو دريافت كرسكتے ہيں ) يہ بات بنيامين كو مصر لے جانے كے ليے ايك مستقل دليل كے عنوان سےبيان نہ كى جاتى _

۱۶_ اونٹ ،مصر اور قديمى كنعان ميں سامان منتقل كرنے كے سلسلہ ميں ايك رائج وسيلہ تھا _و نزداد كيل بعير

۱۷_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں نے پہلے سفر ميں جو غلّہ حاصل كيا تھا اسے قحط كے ليے كافى نہيں سمجھتے تھے لہذا وہ دوسرے حصے كو حاصل كرنے كے ليے مصر كى طرف سفر كرنے كو ضرورى سمجھتے تھے _ذلك كيل يسير

(ذلك) كا اشارہ متاع اور خوراك كى طرف ہے جسكو حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں نے پہلے سفر ميں حاصل كيا تھا اور ''يسير'' كا معنى كم اور تھوڑا ہے_ يہ بات واضح ہے كہ قحط كے سالوں كے ليے يہ بہت ہى كم تھا_

۱۸_ خوراك مہيا كرنا ضرورى ہے اور اپنى معاش و زندگى كو چلانے ميں سستى و غفلت سے پرہيز كرنا چاہيے_

نمير اهلنا ...ذلك كيل يسير

۱۹_ قحط اور خوراك كى كمى كے دوران اپنى ذاتى ضرورت كے ليے خوراك كو ذخيرہ كرنے كا جائز ہونا_

نمير اهلنا ...ذلك كيل يسير

آل يعقوب:آل يعقوب كا معاش مہيا كرنا ۹

احكام : ۹

برادران يوسفعليه‌السلام :برادران يوسفعليه‌السلام اور بنيامين كا سفر ۷، ۱۰، ۱۱، ۱۲;برادران يوسفعليه‌السلام اور حضرت يعقوبعليه‌السلام ۵، ۶، ۷ ; برادران يوسفعليه‌السلام اور حضرت يعقوبعليه‌السلام كى رضايت ۱۰، ۱۲;برادران يوسفعليه‌السلام اور غلات كى كمى ۱۷; برادران يوسفعليه‌السلام اور مصر كا سفر ۱۷;برادران يوسفعليه‌السلام كا اطمينان ۴;برادران يوسفعليه‌السلام كا عہد و پيمان ۱۱;

۵۵۷

برادران يوسفعليه‌السلام كا كردار ۹;برادران يوسفعليه‌السلام كا مال تجارت ۱;برادران يوسفعليه‌السلام كى خوشحالى ۳;برادران يوسفعليه‌السلام كى زندگى كرنے كى جگہ ۶; برادران يوسفعليه‌السلام كى كوشش ۷; برادران يوسفعليه‌السلام كے تجارت كے مال كا واپس ہونا ۲، ۳، ۴، ۵، ۷;برادران يوسفعليه‌السلام كے سفر كرنے كے دلائل ۱۰، ۱۲

بنيامين :بنيامين كى محافظت۱۱//شتر :شتر كے فوائد ۱۶

غلّات :حضرت يوسفعليه‌السلام كے زمانے ميں غلات كا سہم معين ہونا ۱۳، ۱۴، ۱۵

قحط :قحط كے دوران ميں خوراك كا ذخيرہ كرنا ۱۹

قديمى مصر:قديمى مصر ميں اونٹ ۱۶; قديمى مصر ميں سامان كو حمل و نقل كرنے كے و سائل ۱۶

معاش:معاش كو مہيا كرنے كى اہميت ۱۸

يعقوبعليه‌السلام :يعقوبعليه‌السلام كو راضى كرنے كا پيش خيمہ۷

يوسف(ع) :حضرت يوسفعليه‌السلام كا قصہ ۱، ۲، ۳، ۴، ۷، ۸، ۱۱، ۱۲، ۱۳ ، ۱۷; حضرت يوسفعليه‌السلام اور منت سماجت ۵; حضرت يوسف(ع) كى اقتصادى سياست ۱۳ ، ۱۴ ،۱۵;حضرت يوسف(ع) كى دورانديشى كا متحقق ہونا۸

آیت ۶۶

( قَالَ لَنْ أُرْسِلَهُ مَعَكُمْ حَتَّى تُؤْتُونِ مَوْثِقاً مِّنَ اللّهِ لَتَأْتُنَّنِي بِهِ إِلاَّ أَن يُحَاطَ بِكُمْ فَلَمَّا آتَوْهُ مَوْثِقَهُمْ قَالَ اللّهُ عَلَى مَا نَقُولُ وَكِيلٌ )

يعقوب نے كہا كہ ميں اسے ہر گر تمھارے ساتھ نہ بھيجوں گا جب تك كہ خدا كى طرف سے عہد نہ كرو گے كہ اسے واپس ضرور لائو گے مگر يہ كہ تمھيں كو گھير ليا جائے _اس كے بعد جب ان لوگوں نے عہد كرليا تو يعقوب نے كہا كہ اللہ ہم لوگوں كے قول و قرار كا نگراں اور ضامن ہے (۶۶)

۱_ حضرت يعقوبعليه‌السلام بالآخر بنيامين كو اپنے بيٹوں كے ہمراہ مصر بھيجنے پر رضامند ہوگئے _

قال لن ارسله معكم حتى تؤتون موثقا

۲_ حضرت يعقوب(ع) نے اپنے بيٹوں كے ہمراہ بنيامين كو مصر بھيجنے كے ليے خدا متعال كے ساتھ عہد و پيمان باندھنے كے ساتھ مشروط كرديا ( خداوند متعال كے ساتھ عہد و پيمان باندھيں اور اس كے نام كى قسم اٹھائيں )

لن ارسله معكم حتّى تؤتون موثقاً من الله

۵۵۸

(موثق) كا معنى عہد و پيمان ہے (لام) جو (لتأتنّنى ) پر داخل ہوا ہے يہ لام قسم ہے يعنى ايسا وعدہ جو قسم خداوندى كے ساتھ ہو (من الله ) كا جملہ اس بات كو بتاتا ہے كہ قسم بھى خداوند متعال كے نام سے اور عہد و پيمان بھى اسى كے ساتھ ہو (حتى تؤتون موثقا ) يعنى قسم اٹھانا اور وعدہ كرنا_

۳_ حضرت يعقوبعليه‌السلام نے بنيامين كى حفاظت كے سلسلہ ميں اپنے بيٹوں كو تاكيد كى كہ ان سے كوئي عذر و حيلہ قبول نہيں كيا جائے گا مگر يہ كہ تم پر كوئي غالب آجائے اور تم بے بس ہوجاؤ_حتى تؤتون موثقا من الله لتأتنّنى به الّا ان يحاط بكم

۴_ حضرت يعقوبعليه‌السلام بنيامين اور اس كى سلامتى سے بہت زيادہ محبت كرتے تھے اس كى جدائي ان كے ليے رنج و دكھ كا موجب تھى _لتأتنّنى به

جملہ(انا له لحافظون ) اورگذشتہ آيت ميں (فالله خير حافظاً ) اس بات پر دلالت كرتے ہيں كہ حضرت يعقوبعليه‌السلام ،بنيامين كو كسى دكھ و مصيبت ميں نہيں ديكھنا چاہتے تھے _ اور جملہ (لتأتنّنى بہ) (اسكو ميرے پاس لاؤ) اس بات كى حكايت كرتا ہے كہ اسكى جدائي حضرتعليه‌السلام كے ليے مشكل تھى اور وہ اسكو اپنے پاس ہى ديكھنا چاہتے تھے_

۵_ حضرت يعقوبعليه‌السلام اپنے بيٹوں سے اس بات كى توقع نہيں ركھتے تھےكہ وہ بنيامين كى حفاظت كے سلسلہ ميں اپنے آپ كو خطرے ميں ڈاليں اور اسكو واپس لوٹا نے ميں كوشش كريں _الّا ان يحاط بكم

احاطة (يحاط) كا مصدر ہے جو كسى شے كو اس كے تمام اطراف سے گرفت ميں لينے كو كہتے ہيں _ آيت شريفہ ميں مغلوب ہونے كے معنى كے ليے كناية استعمال ہوا ہے _ يعنى تمام راستوں اور اميدوں كا ختم ہوجانا _

۶_ حضرت يعقوبعليه‌السلام نے اپنے بيٹوں سے كہا كہ بنيامين كى حفاظت اور واپس لوٹانے كى قسم سے ناتوانى اور عذر كو مستثنى قرار ديں _لتأتنّنى به الّا ان يحاط بكم

ظاہر عبارت يہ ہے كہ جملہ (الّا ان يحاط بكم ) قسم (لتأتنّنى بہ ) سے استثناء ہے اسى وجہ حضرت يعقوبعليه‌السلام اپنے بيٹوں كو تاكيد كر رہے تھے كہ قسم اٹھاتے وقت مجبورى اور عذر كو استثناء كريں اور اس طرح كہيں (والله لناتينك بہ الّا ان يحاط بنا) (خدا كى قسم بنيامين كو آپ كى

۵۵۹

طرف واپس لائيں گے مگر يہ كہ ہم مجبور و مغلوب ہوجائيں اور تمام راستے ہمارے ليے بند ہوجائيں ) _

۷_ خدا كى قسم اٹھاتے وقت اور اس سے عہد و پيمان كرتے وقت مناسب يہ ہے كہ اپنى ناتوانى كو اس سے استثناء كيا جائے _لتأتنّنى به الّا ان يحاط بكم

۸_ عذر اور ناتوانى كى وجہ سے عہد و قسم كو پورا نہ كرنے كى صورت ميں (عقوبت و كفارہ) ضرورى نہيں ہوتاہے_

لتأتنّنى به الّا ان يحاط بكم قال الله على ما نقول وكيل

۹_ الہى ذمہ داريوں و قسم اور عہد كو پورا كرنے كى شرط ، استطاعت ہے _الّا ان يحاط بكم

۱۰_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے آئين اور ان كے خاندان كے نزديك ،خدا كى قسم اٹھانا اور اس سے عہد و پيمان كى خاص اہميت تھي_حتى تؤتون موثقاً من اللّه ...الاّ ان يحاط بكم

۱۲_ عہد و قسم كى پابندى اور اس كے تقاضے كے مطابق عمل كرنا ضرورى ہوتاہے _حتى توتون موثقاً من الله لتاتنّنى به

۱۳_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں نے قسم اٹھائي اور خداوند متعال سے عہد و پيمان باندھا كہ جتنا بھى ممكن ہو بنيامين كى حفاظت كريں گے اور اسكو باپ كے پاس واپس لوٹا ئيں گے_حتى توتون موثقا فلما اتوه موثقهم

۱۴_ حضرت يعقوب(ع) نے خداوند متعال كو اپنے بيٹوں كے قول و قرار پر اپنا وكيل قرار ديا _

قال الله على ما نقول وكيل

۱۵_حضرت يعقوبعليه‌السلام نے اپنے بيٹوں كو قسم اور اپنے عہد و پيمان كے توڑنے پر خدا كے عذاب سے ڈرايا_

قال الله على ما نقول وكيل

سياق آيت دلالت كرتى ہے كہحضرت يعقوبعليه‌السلام كااپنے بيٹوں كے قول و قرار پر خداوند متعال كو وكيل قرار دينے كا مقصد يہ تھا كہ وہ ان كو عذاب الہى سے ڈرائے_

۱۶_خداوند متعال كى قسم كو توڑنا اور اس كے عہد و پيمان پر عمل نہ كرنا، خداوند متعال كے عذاب كا سبب بنتاہے_

الله على ما نقول وكيل

۱۷_ حضرت يعقوبعليه‌السلام نے اپنے بيٹوں كو قسم اور عہد و پيمان پر عمل كرنے كے ليے انہيں خداوند متعال كى نظارت اور گواہى كى طرف متوجہ كيا _الله على ما نقول وكيل

(اللہ ...) والے جملے كو اگر جملہ خبرى فرض كريں تو مذكورہ معنى حاصل ہوتاہے _

۵۶۰

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809

810

811

812

813

814

815

816

817

818

819

820

821

822

823

824

825

826

827

828

829

830

831

832

833

834

835

836

837

838

839

840

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863

864

865

866

867

868

869

870

871

872

873

874

875

876

877

878

879

880

881

882

883

884

885

886

887

888

889

890

891

892

893

894

895

896

897

898

899

900

901

902

903

904

905

906

907

908

909

910

911

912

913

914

915

916

917

918

919

920

921

922

923

924

925

926

927

928

929

930

931

932

933

934

935

936

937

938

939

940

941

942

943

944

945