تفسير راہنما جلد ۱۰

تفسير راہنما 6%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 945

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 945 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 247192 / ڈاؤنلوڈ: 3402
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱۰

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

''المیزان'' میں مرحوم علامہ طباطبائی کا کلام الٰہی کے امتحانوں کے سلسلہ میں تربیتی عنوان سے قابل توجہ ہے: ''... اس وجہ سے انسانوں کے لئے عام الٰہی تربیت حُسن عاقبت اور سعادت اس دعوت دینے کے اعتبار سے امتحان ہے کیونکہ انسان کے لئے حالات کو مشخص و معین اور آشکار کرتی ہے کہ آیا یہ شخص کس عالم سے متعلق ہے: عالم ثواب وا جزا یا عالم عقاب و سزا۔ اس وجہ سے خداوند متعال اپنے تصرفات کو حوادث کی تشریع اور توجیہ کے عنوان سے بلائ، ابتلأ اور فتنہ نام دیتا ہے، مثال کے طور پر عام عنوان سے فرماتا ہے: (اِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَی الْاَرْضِ زِیْنَةً لَهَا لِنَبْلُوَهُمْ اَیُّهُمْ اَحْسَنُ عَمَلاً )(١) ''بے شک ہم نے روئے زمین کی ہر چیز کو زمین کی زینت قرار دیا ہے تاکہ ان لوگوں کا امتحان لیں کہ ان میں عمل کے اعتبار سے سب سے بہتر کون ہے '' یا فرماتا ہے: (وَنَبْلُوکُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَیْرِ فِتْنَةً )(٢) ''... اور ہم اچھائی اور برائی کے ذریعہ تم سب کو آزمائیں گے...'' یافرماتا ہے:(اَنَّمَا اَمْوَالُکُمْ وَاَوْلَادُکُمْ فِتْنَة )(٣) '' تمہارے اموال اور اولاد فتنہ ہیں'' وغیرہ۔

یہ آیات جیسا کہ آپ ملاحظہ کررہے ہیں انسان سے متعلق ہر مصیبت وبلا کو ''الٰہی امتحان وآزمائش'' شمار کرتی ہیں تمام امور کے لئے جیسے اس کا وجود، اس کے اجزا اور اعضاء جیسے آنکھ، کان یا اس کے وجود سے خارج چیزیں جو اُس سے مربوط ہیںجیسے اولاد بیوی، رشتہ دار، احباب، مال، جاہ و مرتبہ مقام اور وہ تمام امور کہ جن سے وہ کسی قسم کا فائدہ حاصل کرتاہے، اسی طرح ان کے مقابل امور جیسے موت اور تمام مصیبتیں ۔ ان آیات میں افراد کے اعتبار سے بھی ایک عمومیت پائی جاتی ہے یعنی مومن وکافر، نیکوکار اور گناہگار، انبیاء اور ان سے کم درجہ والے سارے افرادمعرض بلا و امتحان میں ہیں، لہٰذا یہ اﷲ کی ایک جاری وساری سنت ہے کہ کوئی اس سے الگ نہیں ہوسکتا''۔(٤)

____________________

١۔ سورہ ٔکہف آیت ٧۔

٢۔ سورۂ انبیاء آیت ٣٥۔

٣۔سورۂ تغابن آیت ١٥ ۔

٤۔ المیزان ج٤ ص٣٦۔

۲۲۱

یہ بات کہ امتحان اور ابتلاء جملہ امور میں تمام افراد کے لئیاﷲ کی بلا استثناء ایک جاری سنت ہے ، ابتلا کے تربیتی روش سے منافات نہیں رکھتی، کیونکہ اس طرح کے امور کے ساتھ ہمارے طرز عمل کو ایک تربیتی طرز کے عنوان سے مانا جاسکتا ہے یعنی مشکلات میں صبر وتحمل اور نعمات میں شکر کہ جس کی بازگشت ہمارے طرز عمل ہی کی جانب ہے، خود اخلاقی تربیت کے عوامل میں محسوب ہوسکتا ہے: اور ہم قطعی طور پر تم کو کچھ چیزوں جیسے خوف،بھوک، اموال، نفوس اور ثمرات کی کمی سے آزمائیں گے اور ان صابروں کو بشارت دیدو، (وہی لوگ) کہ جب ان پر مصیبت پڑتی ہے، کہتے ہیں: ''ہم خدا ہی کے لئے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ جائیں گے''(١)

اس کے علاوہ اگرچہ آیات میں خیر وشر، نعمت ونقمت، سختی اور سہولت سب کو امتحان اور ابتلا کے مصادیق میں شمار کیا گیا ہے حتی کہ بعض روایات میں شکر و کشادگی کی منزل میں طرز عمل کو صبر وناگواری کے وقت سے زیادہ سخت جانا گیا ہے، لیکن جو چیز امتحان کے موقع پر افراد کی توجہ کا زیادہ تر مرکز ہوتی ہے وہ ناگوار ، رنج آمیز اور اندوہگین حوادث وواقعات کا مقابلہ کرنا ہے، چنانچہ مذکورہ آیت میں تصریح کی گئی ہے کہ خوفناک اور ہولناک امور، بھوک، دلبندوں اور عزیزوں کے فقدان، اموال اور سرمایہ حیات کی نسبت آفات وحوادث وغیرہ سے (کہ جنھیں اصطلاح میں ''مصیبت'' کہا جاتا ہے) تمھیں آزمائیں گے، ان امور کا مقابلہ کرنے کے لئے آمادگی اور اُن سے ہمارا طرز مقابلہ ان میدان کو ایک تربیتی اور اصلاحی مدرسہ بناسکتا ہے۔

ابتلاء اور سختیوں سے مقابلہ کے تربیتی علائم روایات میں یوں بیان ہوئیہیں: گناہ سے پاک ہونا، باطنی خاکساری وتذلل اور خارجی سرافرازی وسربلندی، کبرونخوت کا زائل ہونا، درجہ بلند ہونا، شدائد ومشکلات کے سامنے ثابت قدمی، آخرت اور خدا کی ملاقات کا اشتیاق۔

''...یہ سب کچھ اس لئے ہے کہ خدا نے جو کچھ تمھارے دلوں میں ہے (عمل میں) آزمائش کرے اور جوکچھ تمہارے ضمیر کی حقیقت ہے اُسے آشکار کردے اور خدا سینوں کے اسرار سے آگاہ ہے''۔(٢)

____________________

١۔ سورہ ٔبقرہ آیت ١٥٥۔١٥٦۔

٢۔ (وَلِیَبْتَلِیَ اللّٰهُ مَا فِی صُدُوْرِکُمْ وَلِیُمَحِّصَ مَا فِی قُلُوبِکُم، وَاللّٰهُ عَلِیْم بِذَاتِ الصُّدُوْرِ )(سورہ ٔآل عمران آیت ١٥٤)۔

۲۲۲

حضرت امام جعفر صادق ـنے بھی فرمایا: '' وہ لوگ آزمائش کی بھٹی میں آزمائے جائیں گے، جس طرح سونے کو بھٹی میں آزمایا جاتا ہے اور خالص کئے جائیںگے جس طرح سونا کھرا اور خالص کیا جاتا ہے''۔(١)

سید قطب کی تحریر کے مطابق: تمام وسائل پر حوادث کی ایک تربیتی وسیلہ کے عنوان سے فضیلت وبرتری یہ ہے کہ ایسی خاص حالت روح میں پیدا کرتے ہیں کہ گویا اس کو پگھلادیتے ہیں۔ حادثہ روح کو کامل طور سے جھنجھوڑدیتا ہے وردّ عمل (تاثیر وتاثر) ایک حرارت اس کے باطن میں ایجاد کردیتا ہے کہ کبھی نرم کرنے کے لئے یانرم کرنے کی حد تک پہنچنے کے لئے کافی ہوتا ہے۔ یہ حالت روح میں نہ ہمیشہ پیدا ہوتی ہے اور نہ ہی نفس کے لئے آسان ہے کہ سکون واطمینان اور امن وامان یا راحت طلبی کی حالت میں اس تک پہنچ جائے۔

''... ایک مثل لوگ کہتے ہیں: جب تک لوہا گرم ہے کوٹ لو، () کیونکہ لوہے کی گرمی کے وقت اُس پر ہتھوڑا مارنا آسان ہے اور اسے جس شکل میں چاہے بدل سکتے ہیں... اس وجہ سے سختیوں اور حوادث سے استفادہ کرنا تربیت کے اہم مطالب میں سے ہے، کیونکہ نفس کے پگھلنے اور گداز ہونے کی صورت میں مربی تربیت دئے جانے والے کو ارشاد وتہذیب کے جس رنگ میں چاہے رنگ سکتا ہے وہ اس طرح کہ کبھی اس کا اثرزائل نہیں ہو گا یا کم ازکم جلدی زائل نہیں ہو گا''۔(٢)

اسی طرح سختیو ں سے استفادہ اور عیش وراحت سے دوری کو اس شیوہ کا مکمِّل (پوراکرنے والا) جانا جا سکتا ہے، سختیاں انسان کے گوہروجودکو جلابخشتی ہیں، اور اس میں نکھاراورچمک پیدا کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ وہ سختی، مقاومت کہ جوحادثوں اور سختیوں کی طوفان میں ہمیں حاصل ہو تی ہے، انسان کو نادرست اخلاقی میلانات اور رجحانات کے مقابل محفوظ رکھتی ہے اس وجہ سے روایات میں تاکیدکی گئی ہے کہ بچہ تھوڑا سا کو مشکلات اور سختیوں سے دوچارکرو۔

حضرت امام موسیٰ کاظم ـ فرماتے ہیں:

''بہترہے بچہ عہدطفولیت میںزندگی کی ناگزیرسختیوں اور مشکلوں کا سامنا کرے جو کہ حیات کا تاوان ہے تاکہ جوانی اوربڑھاپے میں بردباراورصابرہو'' ۔(٣)

____________________

١۔''یفتنون کما یفتن الذهب، یخلصون کما یخلص الذهب'' ۔(کافی ج١ص ٣٧٠۔)

٢۔ روش تربیتی اسلام، ص٢٨٧،٢٨٨۔

٣۔ وسائل الشیقہ، ج٥، ص١٢٦۔

۲۲۳

حضرت علی ـ فرماتے ہیں:

''جنگل، ہوا اور طوفان میں پرورش پانے والے درخت باغبا ن کے پر و ر دہ اور تروتازہ درختوں سے بہتر ہوتے ہیں''۔(١)

اسلام میں جہاد اسی زاویہ سے قابل تو جہ و تحقیق ہے دین کے دشمنوں سے جہاد اور مقابلہ خواہ صدر اسلام میں ہو یا بعد کے زمانوں میں ( بالخصوص آخری دفاع مقدس کے دوران) ایک تربیتی اور اخلاقی مدرسہ رہا ہے ، اور اخلاق کی بلندیوں پر فائز انسان اُس مدرسہ سے فارغ التحصیل ہوئے ہیں:

''ہم یقینا تمہیں آزمائیں گے تاکہ تم میں سے مجاہدین اور صابرین کو جان لیں اور (اس طرح) تمھارے حالات کو باقاعدہ جانچ لیں ''۔(٢)

ڈاکٹر'' ویکٹور فرانکل ''سویڈن کا ماہر نفسیات ہے اور ہیومنسٹ معالجین میں سے محسوب ہوتا ہے اور خود بھی ایک طولانی مدت تک جرمنی کے نازیوں چھائونی میں دوسری عالمی جنگ میں اسیر رہا ہے، اس نے اپنی آنکھوں سے جو انسان سوزی کی بھٹیاں دیکھیں اور بھوک، سردی، بیماری اور سخت ترین رنج والم اٹھائے لیکن اس کی جان بچ گئی۔ چھائونی سے آزاد ہونے کے بعد اُس نے اپنے معنوی علاج کے مکتب ( Logothrapy )کی بنیاد ان تین راہوں میں سے ایک راہ کے کشف وتفہیم پر رکھی:

١: ۔اچھے امور کا انجام دینا۔

٢: ۔تجربۂ اعلیٰ جیسے عشق۔

٣رنج والم برداشت کرنا۔

وہ تیسری راہ کی وضاحت میں کہتا ہے: رنج والم کابرداشت کرنا انسان کی بہترین وجودی جلوہ گاہ ہے اور جو بات اہم ہے وہ انسان کا رنج والم کے ساتھ فکر اور سلوک کا انداز ہے۔ ہدف زندگی رنج والم سے فرار کرنا نہیں ہے، بلکہ زندگی کو بامعنی بنانا ہے کہ اُسے واقعی مفہوم عطا کرے۔ ہر چیز کو ایک انسان سے لیاجاسکتا ہے مگر انسان کی آخری آزادی کو اس کی رفتار کے انتخاب میں ڈاسٹایوفسکی کے بقول: میں صرف ایک چیز سے ڈرتاہوں اور وہ یہ کہ اپنے رنج والم کی شایستگی اور لیاقت نہ رکھوں۔(٣)

____________________

١۔ نہج البلاغہ، نامہ، ٤٥۔

٢۔ سورہ ٔمحمد آیت٣١۔

٣۔ دیکٹور فرانکل: انسان درجستوی معنا۔

۲۲۴

د ۔معاشرت و مجالست:

اخلاقی ملکات کے رسوخ کے لئے ایک دوسرا عملی شیوہ صالح اور اخلاقی فضائل کے حامل افراد کے ساتھ زندگی گذارنا اور ناپاک نیز اخلاقی رذائل میں مبتلا افراد کی مجالست وہمنشینی سے اجتناب کرنا ہے، نفس شناسی کے دلائل بہت سی جہتوں سے قابل توجہ ہیں کہ جو تفصیل اور تکرار کے محتاج نہیں ہیں، منجملہ ان کے تقلید اور دوسروں کے اعمال کا مشاہدہ (باندوار کا نظریہ)،قوت بخش چیزوں کے وجود کے ساتھ ماحول سازی اور تداعی (موافقت وہماہنگی) کی ایجاد (ا سکینر کا فعال ماحول سازی کا نظریہ ، یعنی مثال کے طور پر ایک اچھے اور صالح گروہ میں اگر ایک اچھا باعمل انسان سے صادر ہو تو دیگر تمام افراد کے ذریعہ اس کی تقویت کی جائے)۔ (نظریہ تسہیل اجتماعی )(١) ہے (دوسروں کا وجود حتی غیر فعال تماشائیوں کا وجود انسان کی فعّالیت کو قوت بخشتا ہے (کیونکہ انسان کے مقصد کو بلندی عطا کرتا ہے) ۔

آیات وروایات میں نیکو کاروں کی معاشرت اخلاقی تربیت کے ایک شیوہ کے عنوان سے مورد تاکید واقع ہوئی ہے اور بزرگوں نے بھی اس سلسلہ میں مستقل کتابیں تالیف کی ہیں۔

قال الحواریون لعیسیٰ ـ: یاروح اللّٰہ مَن نجالسُ اذاً؟ قال: من یذکرکم اللّٰہ رؤیتہ ویزید فی عملکم منطقہ ویرغبکم فی الآخرة عملہ۔(٢) حواریوں نے حضرت عیسیٰ ـ سے پوچھا:

اے روح اﷲ! اس وقت ہم کس کے ساتھ ہمنشینی رکھیں؟ انھوں نے فرمایا: جس کا دیدار تمھیں اﷲ کی یاد دلائے، جس کی بات تمھارے علم میں اضافہ کرے اور جس کا عمل تمھارے اندر آخرت کے متعلق رغبت پیدا کرے۔

یا ابن مسعود، فلیکن جلساؤک الابرار واخوانک الاتقیاء والزهاد لانّ اللّٰه تعالیٰ قال فی کتابه : (الاخلاء یومئذ بعضهم لبعض عدو الّا المتقین(٣) اے ابن مسعود! تمھارے ہمنشین نیک لوگ ہونے چاہئیں اور تمھارے بھائی (دوست) متیقن وزاہدین ہونے چاہئیں اس لئے کہ تم خدائے تعالیٰ اپنی کتاب میں فرماتا ہے: ''اس دن صاحبان تقویٰ کے علاوہ تمام دوست ایک دوسرے کے دشمن ہوجائیںگے'' ۔

____________________

١۔زمینہ روانشناسی ج٢ ص٢ ٣٧۔

٢۔ بحار الانوار ج٧٧ ص١٤٧۔

٣۔ بحار الانوار ج٧٧ ص١٠٠۔

۲۲۵

امام علی ـ:جالس العلماء تزدد حلماً ۔(١) علمائے کی ہمنشینی اختیار کرو کہ ان کی ہمنشینی حلم میں اضافہ کرتی ہے۔

امام حسین ـ:مجالس الصالحین داعیة الی الصلاح ۔(٢) صالحین کی مجالس (نشست) صلاح ونیکی کی طرف دعوت دیتی ہے۔

امام علی ـ:جالس العلماء یزددعلمک ویحسن ادبک وتزکوا نفسک ۔(٣) علماء کی ہمنشینی اختیار کرو کہ اس سے تمھارے علم میں اضافہ ہوگا، تمھارا ادب اچھا ہوگا اور تمھارا نفس پاک ہوگا۔

امام علی ـ:علیک باخوان الصدق فاکثر من اکتسابهم فانّهم عدة عند الرخاء وجُنَّة عند البلائ ۔(٤) تم پر سچے (نیک) دوستوںکی ہمنشینی لازم ہے پس ان سے زیادہ زیادہ سے زیادہ کسب فیض کرو اس لئے کہ وہ آسائش کے وقت وسیلۂ دفاع ہیں اور مصیبت کے وقت سپر ہیں۔

امام علی ـ:جانبوا الاشر وجالسوا الاخیار ۔(٥) بروں سے پرہیز کرو اور نیکوں کی ہمنشینی اختیار کرو۔

حضرت امام محمد باقرـ:لاتقارن ولاتواخ اربعة: الاحمق والبخیل والجبان والکذاب ۔(٦) چار افراد سے ہمنشینی اور دوستی اختیار نہ کرو: احمق، کنجوس، ڈرپوک اور جھوٹے سے۔

امام علی ـ:مجالسة اهل الهویٰ منساة للایمان ۔(٧) خواہش پرست کی ہمنشینی ایمان کو بھلادیتی ہے۔

____________________

١۔ غرر الحکم فصل ٣ص ٤٧۔

٢۔ بحار الانوار ج٧٨ ص١٤١۔

٣۔ غرر الحکم فصل ١ص ٤٣٠۔

٤۔ بحار الانوار ج٧٤ ص١٨٧۔

٥۔ غرر الحکم

٦۔ بحار الانوار ج٧٤ ص١٨٧۔

٧۔ نہج البلاغہ ج٨٦۔

۲۲۶

۴: ۔ تشویق اور تنبیہ کا طریقہ

''تشویق ''لغت میں آرزومند کرنے، شوق دلانے اور راغب کرنے کے معنی میں ہے۔(فرہنگ معین)

یہاں پر ''تشویق'' سے مراد انسان کی درخواست سے متعلق اور مطلوب امور سے عمل انجام دینے کے بعد عمل کے اضافہ یا اس کی تثبیت کے لئے استفادہ کرناہے۔

''تنبیہ''بھی لغت میں آگاہ کرنے، بیدار کرنے، تادیب اورسزادینے کے معنی میں ہے (فرہنگ معین)۔ یہاں پر تنبیہ سے مراد انسان کے لئے تکلیف دہ اسباب ووسائل سے عمل انجام دینے کے بعد عمل کو دور یا کم کرنے کے لئے استفادہ کرناہے۔ اس وجہ سے تشویق یا تنبییہ کو خود انسان یا دوسروں کے ذریعہ عملکو کنٹرول کرنے کا ایک سسٹم جاننا چاہئے کہ پسندیدہ یا ناپسندیدہ عمل کے بعد اس عمل کی زیادتی یا کمی کے لئے ان چیزوں کو بروئے کار لایا جاتا ہے۔

تشویق یا تنبیہ کا نفسیاتی مبنیٰ، فعال ماحول سازی کے نظریہ کے مطابق، درج ذیل آزمائشوں پر استوار ہے:

١ ۔ہر جواب جو ایک قوت بخش محرک کے نتیجہ میں حاصل ہو، اس کی تکرار کی جاتی ہے ۔

٢ ۔قوت بخش محرک ایک ایسی چیز ہے کہ جواب ملنے کے احتمال کو بڑھاتا ہے۔

٣۔ان قوت بخش چیزوں جو ذاتی طور پر تقویت کرنے کی خاصیت کے حامل ہیں،اولین یا غیر شرطی قوت بخش کہتے ہیں، اوّلین مثبت قوت بخش جاندار کی جسمانی قوت ضرورتوں کو پورا کرتی ہیں جیسے: پانی، غذا، ہوا، وغیرہ۔ اوّلین منفی قوت بخش چیزیں ذاتی طور پر تکلیف دہ خاصیت رکھتی ہیں جیسے: مارپیٹ، گالم گلوج ، زیادہ حرارت اور زیادہ نور وغیرہ۔

٤ ۔ثانوی یاشرطی قوت بخش چیزیںوہ ہیں جو کلاسیک ماحول سازی (اوّلین بخش چیزوں کے ساتھ ہمراہی چیزوں کے ساتھ ہمراہی اور تداعی ) کے اصول کے مطابق تقویت کرنے کی خاصیت رکھتی ہیں جیسے: روپیہ، انعام، نمبر وغیرہ ۔

٥ ۔اگر کوئی رفتار کسی چیز کی تقویت سے بڑھ جائے اور اسے ایک مدت تک تقویت نہ کریں، تو وہ تدریجاً موقوف ہوجائے گی کہ اُسے ''خاموشی''بھی کہتے ہیں۔

٦ ۔تنبیہ، ایک نادرست اورنامطلوب رفتار کے دور کرنے کے لئیتکلیف دہ محرک وسبب کے واردکرنے کے معنی میں ہے۔

۲۲۷

٧ ۔ کبھی کبھی تقویت مسلسل تقویت سے زیادہ اثر رکھتی ہے، لہٰذا اگر مربی (تربیت دینے والا) ہر بار مطلوب اور پسندیدہ رفتار کے ظاہر ہونے کے بعد جزاوسزا دے، تو ناخواستہ طور پر اس کے وقوع کا احتمال کم ہوتا جائے گا، لیکن اگر مربی کبھی کبھی چند بار مطلوب رفتار انجام دینے کے بعد جزا دے، تو اس کے توقعکا احتمال زیادہ ہوجائے گا زیادہ موثر یہ ہے کہ تربیت کی ابتدا میں مسلسل جزا ہو اور رضایت بخش سطح تک پہنچنے کے بعد نوبت وار کبھی کبھی ہوجائے ۔

٨۔ آغاز میں اجتماعی قوت بخش (ستائش، تائید اور مسکراہٹ وغیرہ) محسوس طور پر قوت بخش چیزوں کے ساتھ استعمال کی جائے اور اس کے بعد محسوس قوت بخش چیزیں ترک کردی جائیں ، آیات وروایات میں تشویق وتنبیہ کے تربیتی کردار پر تاکید کی گئی ہے۔

حضرت امیر المومنین علی ـ مالک اشتر کو خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

''تمہارے نزدیک نیکو کار اور بدکاریکساں نہ ہوں، کیونکہ یہ امر (یکساں قرار دینا) نیکو کاروں کے نیکی ترک کرنے اور نااہلوں کی بدکاری میں اضافہ کا باعث ہوگا، لہٰذا ادب کی رعایت کے لئے ان میں سے ہر ایک کے ساتھ حالات کے مطابق برتائو رکھو''۔(١)

''نیکوکاروں کی اصلاح ان کا ادب و احترام کرنے سے ہوتی ہے اور بدکاروں کی اصلاح ان کی تادیب کرنے (سزا دینے)سے''۔(٢)

''جوکچھ آسمانوں اور جو کچھ زمین میں ہے وہ سب خدا کے لئے ہے، تاکہ جن لوگوں نے برا کیا ہے وہ ان کے کرتوت کی انھیں سزا دے اور جن لوگوں نے احسان ونیکی ہے انھیں اچھا بدلہ دے ''۔(٣)

''خداوند سبحان نے جزا اپنی اطاعت پراور سزا اپنی معصیت پر قرار دی ہے، تاکہ اپنے بندوں کو اپنے عذاب سے باز رکھے اور بہشت کی طرف روانہ کرے''۔(٤)

____________________

١۔ بحار الانوار ج٧٧ ص٤٦۔

٢۔''استطلاح الاخیار باکرامهم والاشراربتأدیبهم'' (بحار الانوار ج٧٨ ص٢٤٥)۔

٣۔ سورہ ٔنجم آیت ٣١۔

٤۔ نہج البلاغہ حکمت ٣٦٨۔

۲۲۸

ادیان الٰہی اور اسلام میں قانون عذاب وثواب کو دو اعتبارسے دیکھا جاسکتا ہے

: اول

یہ کہ ان کا اعلان کرنا انذار وتبشیر کا پہلو رکھتا ہے ، دوسرے یہ کہ ثواب وعقاب کی واقعیت عینی ہے کہ اُن میں سے بعض دنیا میں (جیسے سکون واطمینان، راحت وچین ، زندگی کی آسائش اور عیش وعشرت کو احساس ) اور درک کرتا ہے، اس لحاظ سے تشویق وتنبیہ اُن دونوں کی تطبیق واقع سے دور نہیں ہے۔ اُس کا اخروی حصہ جیسے حور وقصر ومحلات وغیرہ بھی ایمانی بصیرت (انسان کا دوسرے عالم اور وعدہ الٰہی کے قطعی ہونے اور اس بات پر اعتقاد رکھنا کہ انسان اپنے اعمال سے اس ثواب یاعقاب کو اس وقت بھی عینی تجسم بخشتا ہے ) کے اقتضا کے مطابق حاضر وموجود ہیں اور انھیں بھی تنبیہ وتشویق کے مصادیق میں شمار کرسکتے ہیں۔ اس بناپر بہشت ودوزخ اور ا ﷲ کے وعدہ و وعید سے متعلق تمام آیات ایک طرح بندوں کی تشویق اورتنبیہ کے لئے ہیں تاکہ وہ اپنی عادت اور روش کو بدل ڈالیں اور فلاح وکامیابی اور فضائل اخلاقی کے حامل ہونے کی راہ میں گامزن ہوجائیں۔ لیکن ان لوگوں کے لئے جن کا عقیدہ وایمان کمزور ہے، ان کے لئے وہ آیات انذار وتبشیر ہی کی حد میں ہوں گی ۔

دوسرانکتہ

جس کی ہمیں تاکید کرنی ہے یہ ہے کہ یہاں پر تشویق، ترغیب اور تحریض (ابھارنے) کے علاوہ ایک چیز ہے، تشویق عمل انجام دینے کے بعد کی چیز ہے، لیکن ترغیب وتحریض قبل ازعمل سے مربوط ہیں۔ تشویق وتنبیہ کے وہ طریقے جن میں ایک طرح منطقی ترتیب کا لحاظ کیا جاسکتا ہے، درج ذیل ہیں:

الف ۔ عاطفی توجہ:

محبت آمیز نگاہ ، مسکرانا، اور ہر قسم کی تائید ، مہر ومحبتاور طلف کا احساس تربیت پانے والے کو عزت نفس کے عمیق احساس میں مبتلا کردیتاہے، کیونکہ ہر انسان حُبّ ذات کے زیر اثر غیروں کی محبت اورتوجہ حاصل کرنے کا محتاج ہوتا ہے۔(١) درج ذیل آیات اس سلسلہ میں قابل توجہ ہیں: (وَاخْفِضْ جِنَاحَکَ لِمَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ المُؤمِنِیْنَ )(٢) ''اور جو صاحبان ایمان آپ کی اتباع کرلیں ان کے لئے اپنے شانوں کو جھکادیجئے''۔

____________________

١۔اس بات کی مزید توضیح ''تکریم شخصیت کی روش ''کی بحث میں گذر چکی ہے۔

٢۔ سورہ ٔشعراء آیت٢١٥۔

۲۲۹

(وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُونَ رَبَّهُمْ بِالْغَدٰواةِ وَالْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْهَهُ وَلَاتَعْدُ عَیْنَاکَ عَنْهُمْ )(١)

''اور اپنے نفس کو ان لوگوں کے ساتھ صبر آمادہ کرو جو صبح وشام اپنے پروردگار کو پکارتے ہیں اور اسی کی مرضی کے طلبگار ہیں اور خبردار تمھاری نگاہیں ان کی طرف سے نہ پھرجائیں...''۔

ان آیات میں خداوند متعال اپنے مہربان حبیب سے چاہتا ہے کہ مومنین کے لئے لطف ومرحمت کے بازو جھکادیں، ان کی طرف سے چشم محبت نہ ہٹائیں اوران کے ساتھ ہمراہی اور صبر وشکیبائی کریں دوسری آیت میں اپنے رسول کی بلند ترین ان صفات کے حامل ہونے اور مومنین کے ساتھ ایسی معاشرت رکھنے پر معاملات کرنے کی توصیف کرتا اورفخرو مباہات کرتا ہے:

''یقیناً تمھارے پاس تمھیں میں سے وہ پیغمبر آیا ہے کہ تمہاری ہر مصیبت پراس کے لئے بہت ناگوار ہے وہ تمہاری ہدایت کے بارے میں حرص رکھتا ہے اور مومنین پر دلسوز ومہربان ہے''۔(٢)

جی ہاں، وہ روح پرورنگاہ جو انسانوں پر عشق ومحبت کے ساتھ پڑتی ہے، انسان کو متحرک کرنے کے لئے کافی ہے اور بلال وسلمان کی صف میں بٹھادیتی ہے۔

ب ۔ زبانی تشویق:

تعریف وتمجید ، دعا، شکریہ ادا کرنا اور زبانی قدردانی بھی اُن عام وسائل اور اسباب میں سے ہیں کہ بلند مقاصد اور گرانمایہ اخلاقی اعمال تک رسائی کے لئے اُن سے استفادہ کیا جاسکتا ہے خداوند عالم اپنے پیغمبر سے چاہتا ہے کہ مومنین سے زکات لینے کے بعد ان کے لئے دعا کریں۔(٣)

حضرت امیر المومنین علی ـ نے بھی مالک اشتر سے خطاب کرتے ہوئے انھیں اس نکتہ کی یاد آوری کی ہے:

... ان کی پے درپے تشویق کرو اور جو انھوں نے اہم کام انجام دئے ہیں انھیں شمار کرو (اہمیت دو) کیونکہ ان کے نیک کاموں کی یاد آوری ان کے دلیروں کو زیادہ سے زیادہ حرکت کرنے پر ابھارتی ہے، اور وہ لوگ جو کام میں سستی کرتے ہیں انھیں کام کرنے کا شوق پیدا ہوگا، انشاء اﷲ ۔(٤)

____________________

١۔ سورہ ٔکہف آیت٢٨۔ ٢۔ سورہ ٔتوبہآیت ١٢٨۔٣۔ سورہ ٔتوبہ آیت ١٠٣۔ ٤۔ نہج البلا غہ نامہ ٥٣۔

۲۳۰

زبانی تشویق میں اہم نکتہ یہ ہے کہ اور موقع ومحل سے اس حد تک استفادہ ہو اور افراط وتفریط یا چاپلوسی کی حالت پیدا نہ ہو امام علی ـ نے فرمایا ہے:

جب تم تعریف وثنا کر و تو اختصار پر اکتفاکرو۔(١)

سب سے زیادہ بے عقلی اور حماقت، تعریف وستائش یا مذمت میں زیادتی کرناہے۔(٢)

''استحقاق سے زیادہ تعریف کرناچاپلوسی ہے اور اس (استحقاق) سے کم تعریف کرنا حسد یا عاجزی کی علامت ہے''۔(٣)

بہت سے افراد اپنی تعریف وتمجید ہونے سے مغرور ہوجاتے ہیں۔(٤)

ج ۔ عملی تشویق:

انعام، ہدیہ، تحفہ وغیرہ دینا، نمبر، تنخواہ یا حقوق یا مزدوری میں اضافہ کرنا، سیاحت اور تفریح کے لئے لے جانا، کھیلنے کی یا دوستوں کے ہمراہ باہر جانے کی اجازت دیناوغیرہ ، یہ سب عملی تشویق شمار ہوتی ہے کہ موقعیت کے اعتبار سے ان کا استعمال کیا جاسکتا ہے۔

پیغمبر اکرم اور ائمہ اطہار علیہم السلام کی سیرت میں ایسے متعددمقامات پائے جاتے ہیں کہ کسی ایک آدمی کے نیک عمل کا مشاہدہ کرنے کے بعد اُسے صلہ اورہدیہ دیتے ہیں حتی کبھی اپنا لباس بھی دیدیتے تھے، جیسے کمیت بن زیاداسدی کی داستان کہ حضرت امام زین العابدین ـ کی خدمت میں پہنچے اور کہا: میں نے آپ کی مدح وثنا میں کچھ اشعار کہے ہیں اور چاہتا ہوں کہ انھیں پیغمبر سے تقرب کا وسیلہ قراردوں۔پھر اپنا معردف قصیدہ آخرتک پڑھا، جب قصیدہ تمام ہو گیا، امام ـ نے فرمایا: ''ہم تمہاری جزا نہیں دے سکتے، امید ہے کہ خداوندعالم تمہیں جزادے۔''پھر اس کے بعد اپنے بعض لباس انھیں دیدیئے اوراُن کے حق میں اس طرح دعا کی: ''خدا یا! کمیت نے تیرے پیغمبر کے خاندان کی نسبت، اس حالت میں نیک فریضہ اداکیا کہ اکثرلوگوں نے اس کام سے نجل کیا اور شانہ خالی کیا ہے جوحق دوسروں نے پوشیدہ رکھا تھا اس نے آشکار کردیا۔ خدایا! اسے سعادت مندزندگی عطا کر اور اُسے شہادت نصیب کر اور اُسے نیک جزا دے کہ ہم اُس کی جزا نہیں دے سکتے جزا ور ناتواں ہیں۔

____________________

١۔ ''اذا مدحت فاختصر ''(غرر الحکم، فصل ٤ص٤٦٦)۔٢۔ ''اکبر الحمق الاغراق فی المدح والذم '' (غرر الحکم، فصل ٧ص٧٧)۔٣۔''الثناء بأکثر من الاستحقاق ملق والتقصیر عن الاستحقاق عیّ أوحسد'' (بحارالانوار ج٧٣ص ٢٩٥)۔٤۔''رُبّ مفتون بحسن القول فیه'' (بحارالانوار ج٧٣ص ٢٩٥)۔

۲۳۱

کمیت نے بعد میں کہا: ''میں ہمیشہ ان دعائوں کی برکت سے بہرہ مند رہا ہوں'' حضرت نے اس طریقہ سے کمیت کی روح شجاعت اور حق گوئی کی تشویق اور تائیدکی۔ اسی کے مشابہ داستان حضرت امام علی رضا ـ کے بارے میں بھی دعبل خز اعی کی نسبت ہے جب وہ قصیدہ پڑھ چکے تو حضرت نے وہ دس ہزار درہم کہ جن پر آپ کا نام کندہ تھا اُنھیں عطا کیا اور دعبل نے ہر درہم کو اپنی قوم کے درمیان (دس) درہم میں فروخت کیا۔(١)

درج ذیل نکات کی رعایت تشویق کی تاثیرمیں اضافہ کرتی ہے:

١۔تشویق ابھارنے اور قوت بخشنے کا ذریعہ ہے لہٰذا خودوہی ھدف نہیں بن جانا چاہئیکہ اور تربیت پانے والے کے تمام افکار داذہان کو اپنے ہی لئے سرگرم رکھے۔ تشویق کبھی کبھی کرنا، اس کا فیزیکی سطح سے اجتماعی ومعنوی بلندی کی طرف لے جانااور تشویق کا مستحق ہونا (رشوت کی حالت کا نہ رکھنا ) ایک حدتک مذکورہ اشکال واعتراض کو برطرف کردیتاہے۔

٢۔ تربیت پانے والے کو تشویق کی علت مکمل طور پرواضح اور معلوم ہونی چاہئے۔

٣۔تشویق موقع ومحل کے اعتبار سے ہو تاکہ کار آمد اور موثر ثابت ہو۔

٤۔تشویق کرتے وقت اُس کا کسی دوسرے سے مقائسہ اور موازنہ نہیں کرنا چاہئے ؛کیونکہ اُس پر بُرااثرپڑے گا۔

٥۔ مجمع میں تشویق وتحسین کرنا زیادہ اثر رکھتا ہے کیونکہ دوسروں کو بھی آمادہ کرتا ہے۔

د۔ جزاسے محرومیت اور نیکو کار کو جزادینا:

اس مرحلہ کے بعد تبنیہ کے طریقوں میںداخل ہو جائیں گے۔ مربی تربیت دئے جانے والے کی نا شائستہ حرکات وسکنات کو ختم کرنے کے لئیاسے ان بعض جزائوں اورمواہب سے محروم کردے جن کی وہ امید رکھتا ہے یایہ کہ نیکوکاروں کو جزادے کر اُسے اپنی محرومیت کی جانب متوجہ کرے اور اس کے اشتباہ وخطا کی نشاندہی کرے۔حضرت علی ـ کے گہربار اور زریں کلام میں ہے کہ آپ نے فرمایا: ''نیکو کار کو جزا دے کر بدکار کو ان کی بدکاری سے روک دو''۔(٢)

____________________

١۔عیون اخبارالرضا ـ، ج١، ص١٥٤۔

٢۔ ''از جرالمسء بثواب المحسن''بحار، ج٧٥، ص٤٤، باب ٣٦

۲۳۲

(اَفَمَنْ کَانَ مُؤمِناً کَمَنْ کَانَ فَاسِقاً لَایَسْتَوُونَ(١)

''کیا وہ شخص جو صاحب ایمان ہے اس کے مثل ہوجائے گا جو فاسق ہے؟ ہرگز نہیں ، دونوں برابر نہیں ہوسکتے''۔

(لَایَسْتَوِی اَصْحَابُ النَّاسِ وَاَصْحَابُ الْجَنََّةِ ۔۔۔)(٢)

''اصحاب جنت اور اصحاب جہنم ایک جیسے نہیں ہوسکتے''۔

(وَمَایَسْتَوِی الاعمیٰ والبصیروالّذین آمنواوعملواالصالحات ولاالمسء قلیلا ماتتذکرون(٣)

''اور یاد رکھو کہ اندھے اور نابینا برابر نہیں ہوسکتے ہیں اور جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کئے ہیں وہ بدکاروں جیسے نہیں ہوسکتے ہیں، مگر تم لوگ بہت کم نصیحت حاصل کرتے ہو''۔

خداوند عالم ان آیات میں واضح طورپر نیکوکاروں اوربدکار روں کے مسادی نہ ہو نے کا اعلان کرتا ہے، اس سے اس کا مقصود یہ ہے کہ سب جان لیں کہ اچھے لوگوں کے لئے جزا ہے اور ناشائستہ اور قبیح اعمال والوں کے لئے محرومیت کے سوا کچھ نہیں ہے۔

ہ۔جرمانہ اور تلافی:

جرمانہ نمبرکم کرنے ، پیسہ دینے، دوستوں کے لئے مٹھائی خریدنے وغیرہ کی صورتوں میں ہوتا ہے۔ تلافی جیسے اس انسان سے عذر کرنا جس کی توہین کی ہے یا جس جگہ کوئی نقصان پہنچایا ہے اس کی تعمیر کرے یا مرمت کرے جرمانہ کے سلسلہ میں توجہ رکھنا چاہئے کہ ادا کرنے یا کام کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو اوربے چارگی اوربیزاری کی حالت پیدا نہ ہو۔ جرمانہ کے شیوہ سے استفادہ کی شرط یہ ہے کہ انسان کی ایک مدت تک تقویت کی جائے تاکہ پہلے جو اُسے جزائیں دی گئی ہیں بعد میں اُس سے واپس لی جاسکیں۔

اسلام میں دیت کاقانون اس کے حقوقی جنبہ کے علاوہ تربیتی جنبہ سے بھی ایک قسم کا جرمانہ حساب ہوتا ہے۔

و۔ سرزنش وتوبیخ اور جسمانی توبیخ وتنبیہ:

توبیخ ، غیض وغضب کی نظر سے شروع ہوتی ہے اور علانیہ توبیخ تک پہنچتی ہے۔(٤)

____________________

١۔ سورئہ سجدہ، آیت ١٨۔ ٢۔ سورہ ٔحشرآیت ٢٠۔

٣۔ سورہ ٔغافر، آیت ٥٨۔ ٤۔ ایک اعتبار سے مخفی اور پوشیدہ توبیخ کو جرمانہ اور تلافی سے قبل جاننا چاہئے)۔

۲۳۳

حضرت علی ـ فرماتے ہیں: ''عقلمندوں کی سزا کنایہ اور اشارہ کی صورت میں ہوتی ہے اورنادانوں کی سزا واضح اور صریح انداز میں ہوتی ہے۔(١)

''تعریض (کنایہ میں توبیخ کرنا) عقلمند کے لئے آشکار توبیخ سے کہیں زیادہ سخت ہے''(٢)

حضرت امام جعفر صادق ـ ''شعرانی'' جوکہ پیغمبر کے چاہنے والوں میں سے تھے، خلوت میں بالواسطہ طور پر نصیحت کے ذریعہ انھیں ان کے ناپسند عمل (شرابخوری ) کی طرف متوجہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

''اچھا کام سب کے لئے اچھا ہے اور تمہارے لئے سب سے بہتر ہے اس انتساب کی وجہ سے جو تم ہم (اہل پیغمبر)سے رکھتے ہو اور برا کام سب کے لئے برا ہے لیکن تم سے سب سے زیادہ برا ہے اس انتساب کی وجہ سے کہ جو تم ہم سے رکھتے ہو''۔(٣)

جسمانی تنبیہ سب سے آخری مرحلہ میں ہے کہ گذشتہ مراحل میں ناکامی کی صورت میںخاص شرائط وحالات پائے جانے کی صورت میں اُس سے استفادہ ہوتا ہے، تنبیہی طریقہ کلی طریقے پر اور جسمانی تنبیہ خاص طور پر صاحبان نظر کے نزدیک محل اختلاف میں ہے، بعض جیسے سعدی ومولوی جسمانی تنبیہ کے طرفدار تھے، اور اس سے استفادہ کو جائز سمجھتے ہیں کہ بعض دیگر جیسے غزالی، بوعلی اور ابن خلدون نے مربی کو جسمانی تنبیہ سے تین بار سے زیادہ یا غصہ کی حالت میں روکا ہے۔(٤)

ماہرین نفسیات کے درمیان بھی بعض جیسے رین اور ہولز خاص شرائط وحالات پائے جانے کی صورت میں تنبیہ سے استفادہ کو رفتار تغییر کے معاملہ میں مفید جانتے ہیں(٥)

____________________

١۔''عقوبة العقلاء التلویح وعقوبة الجهال التصریح ''(میزان الحکمة ج١ص ٧٢)۔

٢۔''التعریض للعاقل اشد من عقابه'' (میزان الحکمة ج١ص ٧٢)۔

٣۔''یا شقر ان انّ الحسن لکل احد حسن وانه منک احسن لمکانک منّا وان القبیح لکل احدٍ قبیح وانّه منک اقبح'' (بحار الانوار ج٤٧ ص٣٤٩ باب ١١)۔

٤۔ نقش تربیت معلم، دفتر ہمکاری حوزہ ودانشگاہ۔

٥۔ ہیلگارد:روان شناسی یادگیر ص ٣٣٧۔

۲۳۴

اس کے باوجود اکثر ماہرین نفسیات رفتار کی تبدیلی اور تربیت کے لئے تنبیہ سے استفادہ کے مخالف ہیں۔

ا سکینرنہایت تاکید کے ساتھ تنبیہ سے استفادہ کو کلی طور پر خطرناک ، نامطلوب اور بے اثر شمار کرتا ہے اور متعدد دلائل بھی اپنے مدعا کے لئے پیش کرتا ہے:(١)

١ ۔تنبیہ دوسرے نامطلوب مضر آثار کا پیش خیمہ ہوتی ہے، جیسے عمومی خوف۔

٢ ۔تنبیہ اجسم کو پتہ دیتی ہے کہ کیا کام نہ کرے نہ یہ کہ کیا کام کرے۔

٣ ۔تنبیہ دوسروں کو صدمہ پہنچانے کی توجیہ کرتی ہے۔

٤۔تربیت پانے والا اگر مشابہ موقعیت میں واقع ہو جائے اور قابل تنبیہ نہ ہوتو ممکن ہے وہ اسی کام کے کرنے پر مجبور ہوجائے۔

٥ ۔تنبیہ، تنبیہ کرنے والے اور دوسروں کی نسبت پر خاش ایجاد کرتی ہے۔

٦ ۔تنبیہ عام طور پر ایک نامطلوب جواب کو دوسرے نامطلوب جواب کا جانشین بنادیتی ہے، جیسے بد نظمی کی جگہ رونا۔

ا سکینر اس کے بعد تنبیہ کے لئے بہت سی جانشین چیزوں کا ذکر کرتا ہے، جیسے ایسے مقتضیات کی تبدیلی جو نامطلوب رفتار کا باعث ہوتی ہے اور ناموافق رفتار کی نامطلوب رفتار سے تقویت ، آخر میں نتیجہ نکالتا ہے کہ نامطلوب عادات کے ختم کرنے کا بہترین طریقہ انھیں نظرانداز کرنا یا پھرخاموشی (تغافل اسی کے مانند ہے) اسلام کی نظر میں(٢) اگرتربیت نچلے درجوں اور طریقوں سے ممکن ہو تو جسمانی تنبیہ سے استفادہ جائز نہیں ہے اور اس کے علاوہ جسمانی تادیب اور تنبیہ (اس شرط کے ساتھ کہ اس حد میں نہ ہو کہ دیت لازم آجائے تو) جائز ہے انسان کے ولی کے علاوہ کی طرف سے بھی اجازت کے ساتھ ہونا چاہئے۔اس کی مقدار بھی محدود ہے (زیادہ سے زیادہ تین سے دس ضرب تک) فقہاء کے فتاویٰ بھی اسی طرح ہیں۔(٣)

____________________

١۔ ہرگنھان: روان شناسییاد گیری ص١٣٣۔

٢۔ البتہ تنبیہ کے موضوع پر اسلام کی فقہی نظر کا استخراج (حکم اولیہ اور ثانویہ کی صورت میں) مستقل فرصت کا محتاج ہے۔

٣۔ امام علی رضا ـ: ''التادیب ما بین ثلاث الی عشرةٍ''مستدرک الوسائل ج٣ص٢٤٨۔تحریر الوسیلة ج٢ص ٤٧٧۔

۲۳۵

تنبیہ کی نفی پر ا سکینرکے اعتراضات کے بارے میں کلی طور پر کہا جاسکتا ہے:

١۔ بعض ماہرین نفسیات جیسے رین اور ہولز خاص شرائط وحالات کے تحت( جیسے یہ کہ تنبیہ نامطلوب کاموں کے بعد فوراًبلافاصلہ ہو اور اس حد تک ہو کہ انسان کے لئے تکلیف دہ ہو... تنبیہ کو رفتار کی تبدیلی میں موثر جانتے ہیں اور اس سلسلہ میں آزمائشیں بھی کی ہیں۔

٢ ۔تنبیہ کے ہیجان آور نتائج (جیسے خوف یا پرخاش) کہ اسکینز جس کا ذکر کرتا ہے اس صورت میں منفی ہوجائیں گے جبکہ پہلے سے مربی اور تربیت پانے والے کے درمیان صرف ایک عاطفی ررابطہ رہا ہو کہ تنبیہ کی تاثیرکی شرط بھی اس طرح کے رابطہ موجود ہونا ہے۔

حضرت امیرالمومنین ـ کے ایک چاہئے والے نے چوری کی تو حضرت نے اُس کے ہاتھ کو قطع کردیا۔ ''ابن کوائ'' جو کہ خوارج میں سے تھا اس نے موقع غنیمت سمجھتے ہوئے اس سے سوال کیا: کس نے تمھارے ہاتھ کو قطع کردیا ہے؟ اس نے جواب دیا: میرے ہاتھ کو پیغمبروں کے اوصیاء کے سید وسردار، قیامت کے دن سرخرو حضرات کے پیشوا، مومنین کی نسبت سب سے زیادہ حقدار نے ابن کواء غصہ میں بولا: وائے ہو تم پر! وہ تمہارے ہاتھ کو قطع کرتے ہیں اور تو ان کی اس طرح مدح و ثنا کرتا ہے؟ اس نے جواب دیا: کیوںتعریف نہ کروں جبکہ ان کی محبت میرے گوشت وخون میں ملی ہوئی ہے، خدا کی قسم میرے انھوں نے ہاتھ کو صرف حق کی خاطر قطع کیا ہے تاکہ اس کے ذریعہ مجھے آخرت کی سزا سے نجات دیں۔(١)

٣ ۔تنبیہ نا پسند استعدادوں اور صلاحیتوں کے کنٹرول کرنے اور خاموش کرنے کا ذریعہ ہے۔ ان لوگوں کے لئے جن کے بارے میں نرم رویّہ نتیجہ بخش ثابت نہیں ہوتا ہے، صرف ممکن طریقہ یہ ہے کہ ایک توبیخ وسرزنش یا پھر نفسیاتی جھنجھوڑ ان کے اندر ایجاد کریں، بالخصوص اگر تسلط پسند اور طغیان آمیز طبیعت رکھتے ہوں، جس طرح انسان کے جسم میں بدبودار اور کثیف غدود کو قطع کردیتے یا جلادیتے ہیں تاکہ دیگر حصوں تک سرایت نہ کرے۔ ''البرٹ الیس ''ان ماہرین نفسیات میں ہے کہ جواپنے علاج اور مشاورہ میں ناگہانی سرزنش وتوبیخ اور اس کے مانند دوسری چیزوں سے استفادہ کرتا ہے اور ایک جھٹکا دے مشاورہ کے درمیان مراجع کو اپنی طرف متوجہ کر لیتا ہے۔

____________________

١۔ بحار الانوار ج٤٠ ص٢٨١،٢٨٢۔

۲۳۶

اسلام کا سزائی اور جزائی نظام بھی جوکہ خاص جسمانی سزائوں پر مشتمل ہے، اپنے حقوقی پہلوئوں کے علاوہ، تربیتی رخ سے بھی قابل توجہ ہے، کیونکہ انسان کو جرم کی تکرار سے روکتا ہے۔

مذکورہ نکات کے علاوہ تنبیہ کے استعمال میں درج ذیل چیزیں اس کی تربیتی تاثیر میں اضافہ کرتی ہیں:

١۔ہر قسم کی تنبیہ سے پہلے ناپسند عمل کی علت کی شناخت سے مطمئن ہوں، بسااوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ مختلف گھریلو اور روحی مسائل ومشکلات کی بنا پر جوکہ ہم پرپوشیدہ ہیں، یہ خطا سرزد ہوگئی ہو، ایسی صورت میں تنبیہ مشکلات اور پیچیدگی کواضافہ کرتی ہے۔

٢ ۔ وہ تنبیہ مؤثر ہے جو جذبۂ انتقام اور غیض وغضب کی عنوان سے نہ ہو، اس وجہ سے بے جاسرزنش اور حد سے زیادہ تحقیر وتوہین سے پرہیز کیاجانا چاہئے۔

٣ ۔تنبیہ سنجیدہ اور حسب ضرورت ہو اور میزان خطا سے آگے نہ بڑھ جائے۔ حضرت علی ـ فرماتے ہیں: ''ملامت میں زیادہ روی ضد اور ہٹ دھرمی کی آگ کو بھڑکادیتی ہے''۔(١)

٤۔تنبیہ انسان کی نامطلوب صفت یاعمل سے دقیق رابطہ رکھتی ہو اور اسے تنبیہ کی علت کی نسبت مکمل آگاہی حاصل ہو۔

٥ ۔اگر انسان اپنے عمل سے شرمندہ وپشیمان ہوگیا اور اپنی رفتار سے باز آگیا تو اسے لطف ومہربانی کے ساتھ قبول کرلینا چاہئے۔

____________________

١۔''الافراط فی الملامة یشبّ نار اللجاجة'' (غرر الحکم ،ج١،ص ٨٨)۔

۲۳۷

تیسری فصل :

اسلام میں اخلا قی تر بیت کے طر یقے

۱۔خود پر ناظر ہونا

یہ روش مکمل طور پر ''خود تربیتی'' صورت میں انجام پائے گی، اپنے آپ پر نظارت سے مراد یہ ہے کہ انسان کامل ہوشیاری اور مراقبت کے ساتھ قبول شدہ اخلاقی اقدار کی نسبت کوشش کرے کہ جو (جوارحی یا جوانحی) رفتار وکردار اخلاقی فضائل کے منافی ہیں اس کے وجود میں راستہ پیدا نہ کرنے پائیں اور اُس کے اخلاقی ملکات وقوّتوں کے زوال اور سستی کا باعث نہ بنیں۔

اپنے آپ پر روش نظارت کے نفسیاتی مبانی میں دو مرحلے قابل تفکیک ہیں: پہلا مرحلہ اس روش کے استعمال سے متعلق ہے کہ تربیت پانے والا شوق اور مقصد کے اعتبار سے باندازۂ کافی آمادگی رکھتا ہو۔(١)

یہ مرحلہ گذشتہ روشوں کی مدد سے بالخصوص اقدار کی طرف دعوت کی روش اور عقلانی توانائی کی تربیت کی روش کے ذریعہ عملی ہونا چائیے، یعنی ایک شخص اس نظریہ تک پہنچے کہ یہ اقدار اور اخلاقی مقاصد اُس کے وجود میں پائدار رہیں اور اخلاقی رذائل اُس سے مٹ جائیں دوسرا مرحلہ اس روش کی تاثیر کی کیفیت کو واضح کرنا ہے۔ نفسیاتی نظام کے صادرات اور واردات تدریجی صورت میں بیماری وجود ی شکل کی تعمیر کرتے ہیں ، اور نفس شناسی کی اصطلاح میںہمارے تزکیہ باطن اور ظاہر کو ایک تعادل پسندی کی طرف آگے بڑھاتی ہے، اس وجہ سے واردات وصادرات کی نوع کیفیت پر نظارت (کہ جو ہماری نیّات اور مقاصد کو بھی شامل ہوتی ہے)اس شکل کو جہت دینے میں کہ جو ان کا نتیجہ ہے، مؤثر بلکہ قابل تعیین ہوسکتی ہے۔

____________________

١۔ اخلاقی کتب میں اسے ''مقام یقظہ'' یعنی مقام بیداری سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

۲۳۸

(اسکینز کے )فعال ماحول سازی کے نمونہ میں یہ روش تقریبی طور پر ایک مستقل روش کے عنوان کے تحت تین مرحلہ بیان کی جاتی ہے ۔(١)

١ ۔اپنا مشاہدہ : اپنی رفتارکو دقت کے ساتھ جزئی اورکمّی (مقدار ک )لحاظ سیثبت وضبط کرتا ہے۔

٢ ۔خود سنجی: (اپنے کو تولنا) موجودہ رفتاروں آئیڈیل نمونہ کے ساتھ کمیت اور کیفیت کے اعتبار سے مقایسہ اور موازنہ کیا جاتا ہے۔

٣ ۔ خود تقویتی: (اپنے آپ کو قوت پہنچانا) ایسی رفتار جو ہدف کو زیادہ قریب کرتی ہے اور اُس سے سنخیت رکھتی ہے ، اس پر جزا دی جاتی ہے اور اس کے مدمقابل رفتار کومنفی تقویت کے ساتھ اور کبھی تنبیہ کے ذریعہ قابو اور کنٹرول میں رکھا جاتا ہے ۔

اس طرح سے رفتاری آثار ونتائج (پاداش اور تنبیہ)سے استفادہ کرنے سے اپنے آپ پر ایک دائمی نظارت اور مراقبت عمل میں آتی ہے دوسرے طریقے جو ا سکینر اپنے کنٹرول اور ضبط نفس کے لئے اس سلسلہ میں ذکر کرتا ہے، یہ ہیں: اور اسباب وشرائط کا آسان یا تنگ کرنا (مثال کے طور پر فضول خرچ انسان، اپنی جیب میں کم پیسہ رکھے)، محرومیت، عاطفی شرائط وحالات پر تسلط، تکلیف دہ محرک سے استفادہ (جیسے گھنٹی والی گھڑی) اور دوسرے امور کی انجام دہی۔

مکتب سلوکیت کا نمونہ ا سکینر کے نظریہ کے مطابق رفتار کی نظارت اور جانچ معمولی اور کم اہمیت کی حامل ہیں ، لیکن ہم اس نمونہ اور توضیح سے بالاترین سطحوں کے لئے اور اپنے آپ پر نظارت کے لئے استفادہ کرسکتے ہیںاور تیّات ، اہداف ومقاصد حتی کہ اپنی رفتار وکردار کی خوبیوں پر کنٹرول کرسکتے ہیں۔ اخلاقی کتابوں میں یہ روش بہت زیادہ مورد توجہ رہی ہے اور اس سے متعلق مستقل کتابیں بھی لکھی گئی ہیں۔(٢) ان کتابوں میں مراقبہ، محاسبہ یا مرابطہ مرز بانی]دشمن سے سرحد کی حفاظت[ کے عناوین کے تحت یہ بحث کی گئی ہے۔(٣)

____________________

.۱ Psychoegyobhelthp.۱۰۳;۱۰k

٢۔جیسے ان کے محاسبة النفس از سید ابن طائوس اور محاسبة النفس کفعمی)

٣۔اخلاقی تربیت کی روش میں عرفاء شیعہ نے آخری دوسو سال میں (ملاحسین قلی ہمدانی، میرزا علی آقا قاضی، مرحوم بہاری، حاج میرزا جواد تبریزی ، مرحوم علامہ طباطبائی اور امام خمینی تک نے )اپنے آپ پر نظارت (مراقبہ ومحاسبہ) کی روش پر بہت تاکید کی ہے اور اسے اپنے سلوک کی بنیاد قرار دیا ہے۔

۲۳۹

'' ابو حامد بندوں کے درمیان صرف صاحبان بصیرت جانتے ہیں کہ خداند عزوجل ان کا محافظ اورنگراں ہے اورمحاسبہ میں دقت سے کام لیا ہے اور ان کی نسبت بہت جزئی امور میں بھی سوال اوربازپرس کرتا ہے، لہٰذا یہ لوگ جانتے ہیں کہ ان امور سے نجات کا راستہ محاسبہ اورمراقبہ کے لزوم کے سوا کچھ نہیں ہے اور یہ کہ نفس کو حرکات اور لحظات کی نسبت جانچتے رہیں، لہٰذا جو اپنے نفس کو روز قیامت کے حساب وکتاب سے پہلے مورد محاسبہ قرار دے تو اُس دن اُس کا حساب آسان اور سوال کے وقت اُس کا جواب آمادہ ہوگا اورنتیجہ نیک اور اچھا ہوگا۔ اورجو کوئی اپنے نفس کا محاسبہ نہ کرے گا اس کی حسرت دائمی اور قیامت کے مواقف میں اُس کا توقف طولانی ہوگااور اس کی برائیاں اسے ایسی ذلت وخواری کے گڑھے میں ڈھکیل دیں گی۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ خداوندعالم کی اطاعت کے سوا کوئی اور راستہ نہیں ہے اور اُسی نے صبر مرزبانی کا حکم دیا ہے:

(یَا اَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا اصْبِرُوا وَصَابِرُوا وَرَابِطُوْا ۔۔۔)۔(١)

''اے صاحبان ایمان تم لوگ صبر کرو، صبر کی تعلیم دو اور مرابطہ یعنی دشمن سے جہاد کے لئے تیاری کرو...'' لہٰذا تم مرابطہ ومرزبانی کرو پہلے مشارطہ کے ذریعہ اس کے بعد مراقبہ کے ذریعہ پھر محاسبہ اور پھر معاقبہ (سزا دینے) کے ذریعہ پھر اس کے بعد مجاہدہ اورمعاتبہ (عتاب کرنے) کے ذریعہ ...''(٢) اس لحاظ سے ایک دوسرے رخ سے بھی اپنے آپ پر نظارت اور نگرانی کا لزوم معلوم ہوا، محاسبۂ اعمال کردار کے تولنے کے لئے موازین قسط کے قرار دینا، قیامت کے دن حساب وکتاب کرنااور ہمارے نامہ اعمال میں ان کے جزئیات کو ضبط کرنا کہ جن کو ہر شخص واضح طور پر دیکھے گا، ان سب باتوں کے قطعی ہونے کے پیش نظر محاسبہ اوراعمال پر نظارت کے لزوم کے سلسلہ میں کوئی تردید نہیں رہ جاتی اورخداوند اس سے کہیں زیادہ کریم ہے کہ اپنے بندوں سے دوبارہ حساب کا مطالبہ کرے۔ قرآنی آیات اس سلسلہ میں بہت زیادہ واضح ہیں: ''ہم عدل وانصاف کا ترازو قیامت کے دن قرار دیں گے، پس کسی نفس پر بھی کسی چیز میں ستم نہیں جائے گا، اگر( کسی کا عمل) رائی کے دانہ کے برابر بھی ہوگا اُسے ہم لے آئیں گے اور ہم سب کا حساب کرنے کے لئے کافی ہیں ''۔(٣) ''اور جب نامۂ اعمال سامنے رکھا جائے گا، اُس وقت مجرمین کو اپنے نامۂ اعمال کے مندرجات سے خوفزدہ دیکھوگے اور وہ کہیں گے : اے ہم پروائے ہو، یہ کیسا نامۂ اعمال ہے کہ جس میں کوئی ]کام[ چھوٹا ہو یابڑاچھوڑا نہیں گیاہے، بلکہ سب کو جمع کرلیاہے اور جوکچھ انھوں نے انجام دیا ہے وہ سب اس میں موجود پائیں گے اور تمہارا رب کسی پر ستم روا نہیں رکھتا''۔(٤) اپنے آپ پر نظارت کے طریقے درج ذیل ہیں:

____________________

١۔ سورہ ٔآل عمران آیت ٢٠٠۔ ٢۔ احیاء العلوم، غزالی ج٤ص ٤١٧، ٤١٨۔٣۔ سورہ ٔانبیاء آیت٤٧۔ ٤۔سورہ ٔکہف آیت٤٩۔

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

آيات كو چھپانا ۴۱

انسان :انسان كى شرعى ذمہ دارى ۱۳

ايمان:معاد پر ايمان كى اہميت ۱۳

تبليغ:تبليغ كى روش ۳۹

حقائق :حقائق كو بيان كرنے كى روش ۱۲

دين:دين كى تبليغ ۳۹

الساعة: ۱۰

صالحین:صالحين كا احترام ۴۳;صالحين كى قبروں كا مقدس ہونا ۴۳;صالحين كى قبروں كے پاس عبادت ۳۸;صالحين كے مقامات ۴۳

عبادت گاہ:عبادت گاہ كاتقدس ۴۲

عقيدہ:الله تعالى كى ربوبيت پر عقيدہ ۳۱;اللہ تعالى كے علم پر عقيدہ ۳۱;دينى عقائد ميں علم ۱۵; عقيدہ كى اساس ۱۵

قرآن:قرآن كى تشبيہات ۱۱

قرآنى تشبيہات:بيدارى كے ساتھ تشبيہ ۱۱;معاد كى تشبيہ ۱۱;موت كى تشبيہ ۱۱;نيند كے ساتھ تشبيہ ۱۱

قيامت:قيامت كا حتمى ہونا ۸، ۱۶;قيامت كى حقانيت ۸، ۱۶;قيامت كے نام ۱۰

محسوسات:محسوسات سے فائدہ اٹھانا ۱۲

مسجد:قبور پر مسجد بنانا ۳۸; مسجد كا تقدس ۳۷;مسجد كى تاريخ ۳۷;مسجد كے احكام ۳۸

مشركين :مشركين كا حق كو چھپانا ۴۱;مشركين كى روش ۴۱;مشركين كى كوشش ۴۱

معاد:معاد كا حتمى ہونا ۱۶;معاد كو جھٹلانے والوں كا شك ۳۲معاد كى حقانيت ۱۶; معاد كے بارے ميں شبھات دور كرنے كا پيش خيمہ ۹، ۱۸; معاد كے بارے ميں مؤمنين كو استحكام بخشنے والے اسباب ۴۰;معاد كے دلائل ۹

مقدس مقامات : ۴۲

موحدين:۶موحدين كو استحكام بخشنے والے اسباب ۴۰; موحدين كى تبليغ ۳۹

موقع:موقع سے فائدہ اٹھانا ۳۹

۳۶۱

آیت ۲۲

( سَيَقُولُونَ ثَلَاثَةٌ رَّابِعُهُمْ كَلْبُهُمْ وَيَقُولُونَ خَمْسَةٌ سَادِسُهُمْ كَلْبُهُمْ رَجْماً بِالْغَيْبِ وَيَقُولُونَ سَبْعَةٌ وَثَامِنُهُمْ كَلْبُهُمْ قُل رَّبِّي أَعْلَمُ بِعِدَّتِهِم مَّا يَعْلَمُهُمْ إِلَّا قَلِيلٌ فَلَا تُمَارِ فِيهِمْ إِلَّا مِرَاء ظَاهِراً وَلَا تَسْتَفْتِ فِيهِم مِّنْهُمْ أَحَداً )

عنقريب يہ لوگ كہيں كہ وہ تين تھے اور چوتھا ان كا كتّا تھا اور بعض كہيں گے كہ پانچ تھے اور چھٹا ان كا كتا تھا اور يہ سب صرف غيبى اندازے ہوں گے اور بعض تو يہ بھى كہيں گے كہ وہ سات تھے اورآٹھواں ان كا كتا تھا_ آپ كہہ ديجئے كہ خدا ان كى تعداد كو بہتر جانتا ہے اور چند افراد كے علاوہ كوئي نہيں جانتا ہے لہذا آپ ان سے ظاہرى گفتگو كے علاوہ واقعاً كوئي بحث نہ كرين اور ان كے بارے ميں كسى سے دريافت بھى نہ كريں (۲۲)

۱_پورى تاريخ ميں بہت سے لوگوں كے لئے اصحاب كہف كى تعداد كا مجہول رہنا_سيقولون ثلثة مايعلمهم الاّ قليلا

۲_قرآن مجيدميں اصحاب كہف كى داستان كا نازل ہونا باعث بنا كہ زمانہ بعثت كے لوگوں نے ان كي تعداد كے حوالے سے مختلف نظريات بيان كئے_سيقولون ...ويقولون ويقولون

''سيقولون'' ميں حرف ''س'' اس وقت كى باتيں اور بعد ميں ہونے والى باتوں كو واضح كر رہا ہے اور ''فلا تمارفيهم ...' كے قرينہ سے معلوم ہوتا ہے كہ يہ اقوال پيغمبر اكرم (ص) كى زندگى ميں ہى سامنے آچكے تھے_

۳_زمانہ بعثت كے لوگ، تين مختلف نظريات كا اظہار كرنے سے اصحاب كہف كو تين يا پانچ يا سات نفر سمجھتے تھے_

سيقولون ثلثةرابعهم كلبهم ويقولون خمسة ويقولون سبع

۴_لوگوں كى نگاہ ميں اصحاب كہف كا كتا اس گروہ كا چوتھا يا چھٹايا آٹھواں عضو تھا_

سيقولون ثلثة رابعهم كلبهم ويقولون خمسة سادسهم كلبهم ويقولون سبعة وثامنهم كلبهم

۳۶۲

۵_اصحاب كہف كا كتا ،ان كى ہمراہى كى وجہ سے ايك قابل احترام چيز شمار كى گئي ہے _رابعهم ...سادسهم ...وثامنهم كلبهم اصحاب كہف كے كتے كو اس انداز سے ذكر كرنا كہ جيسے وہ بھى ان كے ہمراہ ايك فرد تھا يہ اس كے بارے ميں خاص عنايت كو بيان كر رہا ہے_

۶_اصحاب كہف كے بارے ميں تين يا پانچ فرد ہونے كے نظريہ ايك بے بنياد نظريہ كا اظہار اور تاريكى ميں تير چلانے كے مترادف ہے_سيقولون ثلاثة رابعهم كلبهم ويقولون خمسة سادسهم كلبهم رجماً بالغيب

''بالغيب'' ميں باء تعدى كے لئے ہے اور يہاں '' غيب'' سے مراد پہلا اور دوسرا خيال ہے _ ان خيالات كو ايسے پتھر سے تشبيہ دى گئي ہے كہ جسے بغير نشانہ لئے پھينكا گيا ہو اس اميد كے ساتھ كہ شايد نشانہ پر لگ جاے تو اس ''قيد'' كا پہلے اور دوسرے نظريہ سے خاص كرنا بتا تا ہے كہ تيسرا نظريہ شايد حقيقت سے دور نہ ہو اور وہ پہلے اور دوسرے نظريوں كے زمرہ ميں نہيں ہے_

۷_اصحاب كہف كے بارے ميں سات نفر والا نظريہ قابل قبول اور قابل تائيد ہے_رجماً بالغيب ويقولون سبعة وثامنهم كلبهم تيسرے نظريہ كى دو صورتوں ميں تائيد ہوسكتى ہے :

۸_غير سنجيدہ گفتگو كرنا' اور بغير كسى معرفت و تحقيق كے نظريہ كا اظہار كرنا ايك قابل مذمت اور غلط چيز ہے_

سيقولون رجماً بالغيب

۹_الله تعالى ، پيغمبر (ص) كو لوگوں كى مختلف رائے كے مد مقابل ايك مناسب رد عمل كى تعليم دے رہا ہے_

قل ربّى أعلم بعدّتهم فلا تمار فيهم

۱۰_لوگوں كو بے اساس نظريات كے اظہار كرنے سے روكنے اور اس كا علم الله تعالى پر چھوڑنے كى نصےحت كرنا الہى رہبروں كى ذمہ دارى ہے_

سيقولون قل ربى أعلم بعدّتهم

____________________

(۱)''رجماً بالغيب'' صرف پہلے دونوں نظريوں كے ساتھ خاص ہے_

(۲)جملہ ''ثامنہم كلبہم'' ، ''سبعة'' كے لئے صفت ہے اور واو زائدہ ہے جيسا كہ زمخشرى نے بيان كيا ہے اس صفت كو ثابت كر رہى ہے _ يعنى اس بات كو يقينى بنا رہى ہے كہ كتا ان كا آٹھواں فرد تھا_

۳۶۳

۱۱_اصحاب كہف كى تعداد كا علم ركھنا، ايك غير ضرورى سى بات ہے جس كا اس داستان كى معرفت اور نصيحت آموز ى كے لحاظ سے كوئي اثر نہيں پڑتا _سيقولون ثلاثة قل ربى أعلم بعدتهم ولا تمارفيهم

اصحاب كہف كى تعداد كا علم الله تعالى پرموقوف كرنے اور اس موضوع ميں بحث و نزاع ترك كرنے كا حكم، تائيد كر رہا ہے كہ اس قسم كا علم اس داستان كو نقل كرنے كے مقصد ميں كوئي كردار ادا نہيں كرتا_

۱۲_بعض لوگ، اصحاب كہف كے اس واقعہ ميں موجود اصلى پيغام سے غافل ہوگئے اور اس كى جزئي اور كم فائدہ جہات ميں پڑگئے_سيقولون ثلاثة قل ربى أعلم بعدتهم

۱۳_اصحاب كہف كى تعداد كے معاملہ ميں خاموشى اختيار كرنا اور ا سكے علم كو الله تعالى پرموقوف كرنا، پيغمبر (ص) پر انكے رشد وكمال اور تربيت كے حوالے سے ان پر الله تعالى كى ذمہ دارى ہے_قل ربّى أعلم بعدتهم

۱۴_بے ثمر تحقيقات سے پرہيز كرنا اور اس كا علم الله تعالى پر چھور ديناضرورى ہے _قل ربى أعلم بعدتهم

۱۵_اللہ تعالى كے علم كى برترى اس كى ربوبيت كا لازمہ ہے _قل ربى أعلم بعدتهم

۱۶_زمانہ بعثت كے لوگوں ميں صرف تھوڑے سے لوگ، اصحاب كہف كى تعداد اور ان كى داستان كے مختلف زاويوں كے بارے ميں علم ركھتے تھے_مايعلمهم الاّ قليلا

چونكہ بات اصحاب كہف كى تعداد كے بارے ميں تھي، جملہ ''مايعلمہم ...'' ميں اصحاب كہف كے بارے ميں اكثر لوگوں كے علم كى نفى ہوئي ہے تو يہ مطلب بتا رہا ہے كہ اصحاب كہف كى داستان كے ديگر زوايا بھى تعداد كى مانند اكثر لوگوں كو معلوم نہ تھے_

۱۷_اصحاب كہف اور ان كى تعداد كے حوالے سے بحث كرنے كے لئے پيغمبر اكرم (ص) كو سرسري، سطحى اور تنازع سے دور بحث كرنے كى اجازت تھي_فلا تمارفيهم الاّ مراء ظاهرا

''مرائ'' اس جدال كو كہتے ہيں جو كسى بات پر اعتراض كرنے اور اسے كمزور كرنے اور كلام كرنے كى والے كى توہين كرنے كے لئے انجام ديا جائے _(مصباح) اور جب وہ طولانى اورعميق نہ ہو تو اسے ''مراء ظاہر'' كہتے ہيں _

۱۸_غير ضرورى مسائل ميں دقيق اور باريك نزاع كو ترك كرنا اور ان كے حوالے سے لفظى جنگ سے پرہيز كرنا ضرورى ہے_فلاتمارفيهم الاّ مراء ظاهر''فلاتمار ...'' ميں فا اس مطلب پر متفرغ ہے

۳۶۴

جو ''ربى اعلم '' سے ملتاہے _ يعنى اس چيز كى طرف توجہ كرتے ہوئے كہ اس قسم كے مسائل كو الله تعالى پرچھؤڑ ديناچاہيے تو گہرائي تك تنازع كرنے اور بحث كرنے كى گنجائش باقى نہيں رہتي_

۱۹_جاہلوں كے ساتھ سوائے سطحى اور مختصر بحث كے مناظرہ كرنا ناپسنديدہ اور غلط ہے _مايعلمهم الاّ قليل فلا تمار فيهم الاّ مراء ظاہر جملہ ''لاتمار '' كا جملہ''مايعلمهم '' كا حرف فاء كے ذريع متفرغ ہونا مذكورہ نكتہ كو بيان كر رہا ہے_

۲۰_پيغمبر(ص) كو اصحاب كہف كى داستان كے حوالے سے جاننے كے لئے كسى صاحب نظر كے خيال كو پوچھنے كى اجازت نہيں تھي_ولا تستفت فيهم منهم احدا

''منہم'' ميں ضمير ان لوگوں سے مربوط ہے كہ جو اصحاب كہف كى تعداد كے حوالے سے اظہار نظركرتے تھے_

۲۱_پيغمبر اكرم (ص) كا اصحاب كہف كى داستان سے واقف ہونا سوائے وحى الہى كے ممكن نہيں تھا_ولا تستفت فيهم منهم احد نہى ''لاتستفت '' كسى كے نظريہ چاہنے كے بے فائدہ ہونے كو بيان كر رہى ہے_ اور آيت كا مطلب يہ ہے كہ كسى سے توقع نہيں ہوسكتى كہ وہ آپ كے كى نظر خواہى كا صحےح جواب دے _

آنحضرت (ص) :آنحضرت(ص) اور اصحاب كہف كا قصہ ۱۷،۲۰، ۲۱ ; آنحضرت (ص) كا معلم ہونا ۹;آنحضرت (ص) كى تربيت كا پيش خيمہ۱۳;آنحضرت (ص) كى ذمہ دارى ۱۳; آنحضرت (ص) كى ذمہ دارى كيحدود ۱۷، ۲۰ ;

اختلاف:اختلاف كى صورت ميں روش ۹

اصحاب كہف:اصحاب كہف كا قصہ ۵;اصحاب كہف كا كتا ۴;اصحاب كہف كى تعداد ميں تنازع ۱۷;اصحاب كہف كى تعداد كا علم ركھنے والوں كا كم ہونا ۱۶;اصحاب كہف كى تعداد كے علم كا بے اثر ہونا ۱۱;اصحاب كہف كى تعداد ميں ابھام كافلسفہ ۱۳ ; اصحاب كہف كى تعداد ميں اختلاف ۲، ۳،۴ ; اصحاب كہف كى تعداد ۱، ۶، ۷; اصحاب كہف كے بارے ميں نظر مانگنا ۲۰;اصحاب كہف كے كتے كا احترام ۵;اصحاب كہف كے قصہ ميں تنازع ۱۷

اعداد:آٹھ كا عدد ۴;پانچ كا عدد ۳، ۶;تين كا عدد ۳، ۶;چار كا عدد ۴;چھ كاعدد ۴;سات كا عدد ۳، ۷

الله تعالى :الله تعالى كا علم ۱۵;اللہ كى تعليمات ۹;اللہ تعالى كى ربوبيت ۱۵;اللہ تعالى كے علم كا كردار ۱۰،۱۳، ۱۴

پوچھنا:بلاوجہ پوچھنے سے پرہيز ۱۴

تنازع:

۳۶۵

ناپسنديدہ تنازعہ سے پرہيز۱۸;ناپسنديدہ تنازعہ ۱۹

جہلاء :جہلاء سے گفتگو ميں تنازعہ كرنے پر سرزنش۱۹

حقائق:حقائق واضح كرنے كى اساس ۱۰

دينى رہبر:دينى رہبروں كى ذمہ دارى ۱۰

غفلت:اصحاب كہف كے قصےّ كى تعليمات سے غفلت ۱۲

كلام:بغير علم كے كلام ۸;بغير علم كے كلام كو ترك كرنا ۱۰;بے منطق كلام پر سرزنش ۸

لوگ:بعثت كے زمانہ كے لوگ اور اصحاب كہف ۲، ۱۶;بعثت كے زمانے كے لوگوں كى فكر ۲،۳،۴

معاشرت:معاشرت كے آداب ۹

وحي:وحى كا كردار ۲۱

آیت ۲۳

( وَلَا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فَاعِلٌ ذَلِكَ غَداً )

اور كسى شے كے لئے يہ نہ كہيں كہ ميں يہ كام كل كرنے والا ہوں (۲۳)

۱_الله تعالى پيغمبر (ص) كو زمانہ آئندہ ميں كسى كام كے انجام دينے كو يقينى جاننے سے روك رہاہے_

ولا تقولنّ لشايئ: إنّى فاعل ذلك غدا

۲_آنے والے معين زمانہ ميں كسى بھى كام چاہے وہ چھوٹا سا ہى كيوں نہ ہو كے يقينى اور بہرصورت انجام دينے پر اطمينان كرنا صحيح نہيں ہے_ولا تقولن لشايئ: إنّى فاعل ذلك غدا

''شي ''نكرہ ہے جو ''نہى كے قرينہ'' كے ساتھ ہر قسم كے كام خواہ چھوٹا خواہ بڑا ' دونوں كو شامل ہے_

''غداً'' ہوسكتا ہے اپنے حقيقى معنى ميں استعمال ہو رہا ہو _ يعنى كل والا معين دن كہ مندرجہ بالا مطلب بھى اس معنى ميں منعكس ہو رہا ہے اور يہ بھى ہوسكتا ہے كہ اس سے مراد مطلق آنے والا زمانہ ہو_

۳_كسى بھى كام كے آنے والے دور ميں اپنى طاقت اور وسائل پر بھروسہ ركھتے ہوئے وعدہ اور ضمانت دينا، الله تعالى كے نزديك شدت سے ممنوع ہے_ولا تقولنّ لشايئ: إنّى فاعل ذلك غدا

۳۶۶

''الاّ ان يشاء الله '' بعد والى آيت ميں بتا رہا ہے كہ''لا تقولنّ'' والى نہى اپنى طاقت پر بھروسہ كى صورت ميں ہے_

۴_ظاہرى طور پر ايك عمل كے انجام پر تمام اسباب كا مہيا ہونا، اس كے واقع ہونے پر ضمانت نہيں ہے_

ولا تقولنّ لشاي إنّى فاعل ذلك غدا

۵_آنے والے حادثات، انسان كے يقينى علم و قدرت سے خارج ہيں _ولا تقولن لشايئ: إنّى فاعل ذلك غدا

۶_دين، انسان كے كلام كرنے كى روش اور عزم كرنے كے بارے ميں پروگرام اور تعليمات پر مشتمل ہے_

ولا تقولن لشايئ: إنّى فاعل ذلك غدا

۷_عن أبى عبدالله (ع) (فى حديث) جبس الوحى عنه ا ى عن رسول الله (ص) أربعين صباحاً لأنّه قال لقريش: ''غداً ا خبركم بجواب مسائلكم'' ولم يستثن فقال الله : ''ولا تقولنّ لشي إنّى فاعل ذلك غداً إلّا أن يشاء الله ''_(۱)

امام صادق (ع) سے ايك حديث كے ضمن ميں نقل ہوا كہ : وحى پيغمبر اكرم (ص) سے چاليس دن تك قطع رہى كيونكہ آپ (ص) نے قريش كو فرمايا تھا: كل ميں تمھارے سوالوں كا جواب دونگا اور (مشيت خدا كو) استثناء نہيں كيا تھا (يعنى ان شاء الله نہ كہا تھا) تو الله تعالى نے فرمايا :ولا تقولن لشي إنّى فاعل ذلك غدإلّا أن يشاء الله _

آنحضرت (ص) :آنحضرت (ص) كو منع كرنا ۱

اطمينان:ناپسنديدہ اطمينان ۲

الله تعالى :الله تعالى كى مشيت كى اہميت ۷;اللہ تعالى كى نواہى ۱،۳

انسان :انسان اور آنے والا دور ۵;انسان كا عجز ۵; انسان كى طاقت كا محدود ہونا ۵;انسان كے علم كا محدود ہونا ۵

بات :بات كرنے كى روش ۶

پيشگوئي :پيشگوئي كى نہى ۱،۳

دين:دينى تعليمات ۶

روايت: ۷

عزم :عزم كرنے كى روش ۶

عمل:عمل كے يقينى ہونے كے اسباب ۴

يقينى سمجھنا :يقينى سمجھنے سے نہى ۱،۳،۴

۳۶۷

آیت ۲۴

( إِلَّا أَن يَشَاءَ اللَّهُ وَاذْكُر رَّبَّكَ إِذَا نَسِيتَ وَقُلْ عَسَى أَن يَهْدِيَنِ رَبِّي لِأَقْرَبَ مِنْ هَذَا رَشَداً )

مگر جب تك خدا نہ چاہے اور بھول جائيں تو خدا كو ياد كريں اور يہ كہيں كہ عنقريب ميرا خدا مجھے واقعيت سے قريب تر امر كى ہدايت كردے گا (۲۴)

۱_ہر قسم كے وعدہ اور عزم كے وقت الله تعالى كى مشيت كى طرف توجہ كرنا اور انشاء الله كہنا ضرورى ہے _

ولا تقولنّ إلّا أن يشاء الله جملہ''إلّا أن يشاء الله '' ايك مقدر كا محتاج ہے كيونكہ اس مقدر كے بغير '' لا تقولن'' نہى كى توجيہہ نہيں ہوسكتى مفسرين نے جو سب سے مناسب مقدر بيان كيا ہے وہ يہ عبارت ہے _

''الاّ ان تقرنه با ن يشاء اللّه'' تو اس صورت ميں پچھلى آيت كى طرف توجہ ركھتے ہوئے اس آيت كا معنى يہ ہوگا كہ ''اپنى گفتار ميں كسى كام كے انجام دينے كو آنے والے زمانہ ميں يقينى نہ كرو ' مگر يہ كہ اسے الله تعالى كى مشيت اور چاہت كے ہمراہ قرار دو''_

۲_امور كا متحقق ہونا، الله تعالى كى مشيت سے مربوط ہے_إلّا أن يشاء الله

۳_يقينى مستقبل ميں بغير كسى تبديلى كے حتّى انبياء كے ليئے بھى پيشگوئي نہيں ہوسكتا_

ولا تقولنّ لشايئ: إنّى فاعل ذلك غداً أن يشاء الله

۴_انسانوں كا كردار، الله تعالى كے ارادہ سے مغلوب اور اس كى نسبت خود ان كى طرف ہے _إنى فاعل إلّا أن يشاء الله چنانچہ كوئي كہے كہ الله كے ارادہ سے ميں مستقبل ميں يہ كام كروں گا تو آيت شريفہ كے مطابق يہ بات صحيح اور جائز ہے' جو زبان پر لائي گئي ہے لہذااللہ تعالى كا ارادہ كام كى انسان كى طرف نسبت دينے ميں مانع نہيں ہے_

۵_انسانوں كو چاہيے كہ وہ ہميشہ الله كى ياد ميں رہيں _واذكر ربّك إذا نسيت

۶_الله تعالى كى ياد سے ہر قسم كى غفلت اور بھول ظاہر ہونے كے بعد اس كا تدارك كرنا ضرورى ہے_

واذكر ربك إذا نسيت آيت ميں نسيان كا متعلق ذكر نہيں ہوا ليكن قرينہ ''واذكر ربك'' كے ساتھ كہا جاسكتا ہے كہ يہاں مراد الله تعالى كى ياد كو بھولنا ہے كہ جب توجہ پيدا ہو تو اس كا تدارك كياجائے _

۳۶۸

۷_وہ لوگ كہ جو ''إن شاء الله '' كہنا بھول جائيں تو انہيں چاہے كسى اور تعبير كے ساتھ ہى الله كا ذكر زبان پر ضرور لائيں _

إلّا أن يشاء الله واذكر ربّك إذا نسيت نسيان كا متعلق''الاّ أن يشاء الله '' كے قرينہ سے ممكن ہے_ ''إن شاء الله '' كہنا ہو اور جملہ ''اذكر ربك'' مطلق ہے _لہذا''إن شاء الله '' كے تدارك كے لئے ہر ايسے لفظ كا انتخاب كہ جو الله تعالى كى طرف توجہ اور اس كے ارادہ كے غلبہ كو بتا تا ہو ' ثمر بخش ہوگا_

۸_انسانوں كے امور كى الہى تدبير كے ساتھ وابستہ ہونے كى طرف توجہ، كسى كام اور حالت ميں اس كى ياد سے غافل ہونے سے كا سبب نہيں بنتي_واذكر ربك إذا نسيت

كلمہ ''ربّ'' آيت ميں مندرجہ بالا مطلب كو بتا رہا ہے_

۹_پيغمبر (ص) ، الله تعالى كے ذكر كو اپنى گفتگو ميں بھولنے اور ترك كرنے كے خطرہ ميں ہيں _واذكر ربّك إذا نسيت

۱۰_الله تعالى كا ذكر اور ياد، مقصود چيز كى ياد آورى او ربھولنے كى حالت كے ختم ہونے كا باعث ہے_

واذكر ربّك إذا نسيت ''نسيأن '' كے متعلق كو ممكن ہے عام اور ہر چيز كو شامل جانا جائے _ تو اس صورت ميں جملہ ''واذكر ...'' كا مطلب يہ ہوگا كہ ''جب بھى كوئي چيز بھول جائو تو الله تعالى كا ذكر زبان پر جارى كرو تاكہ وہ چيز ياد آئے اور تمہارى غفلت ختم ہوجائے_

۱۱_پيغمبر (ص) ، رشد اور الہى ہدايت كے حامل ہيں _وقل عسى أن يهدين ربيّ لا قرب من هذا رشدا

''رشد''''غسّي''(گمراہي) كا مد مقابل نقطہ ہے اور جس جگہ ہدايت استعمال ہو ''رشد'' بھى استعمال ہوتا ہے _ (مفردات راغب)

۱۲_رشد وہدايت كے كمترين راستہ كى درخواست اور اس تك پہنچنے كے بارے ميں اميد ركھنے كا اظہار، الله تعالى كا پيغمبر اكرم (ص) كو حكم اور نصےحت ہے_وقل عسى أن يهدين ربّى لا قرب من هذا رشدا

۱۳_رشد وہدايت كے بلند مقام تك پہنچنے كا مقصدايك الہى ہدف ہے_وقل عسى أن يهدين ربّى لا قرب من هذا رشدا

۱۴_رشد اور الله تعالى پر اميد ركھنا، اس تك پہنچنے ميں كافى كردار ادا كرتا ہے_وقل عسى أن يهدين ربّى لا قرب من هذا رشدا

۱۵_الہى ہدايتيں ، اس كى ربوبيت كا جلوہ ہيں _

۳۶۹

۱۶_ رشد و ہدايت كے مختلف درجات اور مراتب ہيں _لا قرب من هذا رشدا

۱۷_ہدايت كے تمام مراحل، الله تعالى كے اختيار ميں ہيں _عسى أن يهدين ربّى لا قرب من هذا رشدا

۱۸_الله تعالى كى ہدايتيں ، ہميشہ انسان كى مصلحت كى خاطر اور اسے درست اور صحيح راہ تك پہنچانے كے لئے ہيں _

عسى أن يهدين ربّى لا قرب من هذا رشدا

''مصباح الميز'' ميں آيا ہے ''رشد'' مصلحت ہے اور وہ صحيح اور درست مقام تك پہنچنا ہے_

۱۹_پيغمبر اكرم (ص) ، ايك كمال پانے والے اور زيادہ ہدايت تك پہنچنے كى استعداد ركھنے والے انسان ہيں _

وقل عسى أن يهدين ربّى لا قرب من هذا رشدا

۲۰_الله تعالى كے ذكر كو بھولنا، انسان كے جلد ہدايت پانے ميں ركاوٹ ہے_واذكر ربّك إذا نسيت وقل عسى أن يهدين ربّى لا قرب من هذا رشدا ''ہذا'''' بھولنے كے بعد الله كے ذكر ''كى طرف اشارہ ہے جو كہ ''اذكر ربك إذا نسيت'' سے معلوم ہوتا ہے _ ''ا قرب من ہذا رشداً'' كا مطلب يہ ہے كہ الله تعالى كى ياد كا تدارك كرنا اگر چہ رشد وہدايت كا سبب ہے مگر بغير فراموشى كے اسكا تسلسل و ہميشگى ايسى راہ ہے جو ہدايت كے زيادہ قريب ہے_

۲۱_ہميشہ الله تعالى كى ياد ميں رہنا ' ہدايت و رشد كا تيز ترين اور كمترين راستہ ہے_

واذكر ربّك إذا نسيت وقل عسى أن يهدين ربّى لا قرب من هذا رشدا

۲۲_اللہ تعالى كو ہميشہ ياد ركھنا، الله تعالى كى خصوصى توفيق اور ہدايت كا محتاج ہے_

واذكر ربّك إذا نسيت وقل عسى أن يهدين ربّى لا قرب من هذا رشدا

۲۳_كسى كام كے بھولنے كى صورت ميں الله تعالى كى ياد اور كسى كام كو بہتر طريقہ سے جاننے اور انجام دينے ميں اس كى مدد كا انتظار، ايك پسنديدہ صفت اور اس كے فرمان كے مطابق ہے_

واذكر ربّك إذا نسيت وقل عسى أن يهدين ربّى لا قرب من هذا رشدا

مندرجہ بالا مطلب ميں ''ہذا'' ، ''نسيت'' كے مفعول محذوف كى طرف اشارہ ہے اور آيت كا مطلب يوں ہے كہ جب بھى كوئي كام بھول جائو تو الله كو ياد كرو اور كہو:'' اميد ہے كہ ميرا پروردگار مجھے اس سے زيادہ مفيد كام كى طرف راہنمائي كرے گا''_

۲۴_اللہ تعالى كے ذكر كا غفلت كے بعد تدارك انسان كے جلدى رشد وہدايت پانے كى اميد كا سرمايہ ہے_واذكر ربّك إذا نسيت وقل عسى أن يهدين ربى لأ قرب من هذا رشدا

۳۷۰

''قل عسى '' كا ''اذكر ...'' سے ربط مقدمہ اور نتيجہ ہے اور اس آيت كا پيغام يہ ہے كہ ''اگر تم نے غفلت كے بعد الله تعالى كو ياد كيا تو الله تعالى كى خصوصى ہدايت كے بارے ميں اميد ركھ سكتے ہو اور كہو:عسي ''

۲۵_اللہ تعالى نے پيغمبر (ص) سے اصحاب كہف كى داستان سے زيادہ تعليمات پر مشتمل آيات دينے كا وعدہ فرمايا _

وقل عسى ا ن يهدين ربّى لا قرب من هذا رشدا ''ہذا'' ممكن ہے اصحاب كہف كى داستان كے بيان كرنے كى طرف اشارہ ہو_

۲۶_اللہ تعالى كى امدادپر اميد ركھنے كا اظہار، اس كى بارگاہ ميں دعا اور اس سے مدد مانگنے كے طريقوں ميں سے ہے_

وقل عسى أن يهدين ربّى لا قرب من هذا رشدا زبان پر اميد كا ذكر (عسى أن ...) سوائے اپنى ضرورت كے اظہار اور اس كے قبوليت كى درخواست كے علاوہ كچھ نہيں ہے_

۲۷_''عن ا بى جعفر وابى عبدالله عليهما السّلام فى قول الله عزوجل: ''واذكر ربّك إذا نسيت'' قال : إذا حلف الرجل فنسى أن يستثنى فليستثن إذا ذكر '' (۱)

امام باقر (ع) اور امام صادق (ع) سے الله تعالى كے كلام''واذكر ربك إذا نسيت'' كے بارے مےں روايت نقل ہوئي ہے كہ:'' جب بھى كوئي قسم كھائے (كوئي كام انجام دے) اور (اللہ تعالى كى مشيت كو ) بھول جائے كہ استثناء كرے (يعنى إن شاء الله كہنا بھول جائے) تو جب بھى ياد آئے اسے كہے ...''

۲۸_عن ا بى جعفر (ع) : وقد قال الله عزوجل لنبيه (ص) فى الكتاب: ''ولا تقولن لشيئ إنّى فاعل ذلك غداً إاّ أن يشاء الله '' أن لا ا فعله فتسبق مشيةالله فى ا ن لا أفعله فلا ا قدر على ان افعله قال : فلذلك قال الله عزوجل :''واذكر ربّك إذا نسيت'' ا ي: إستثن مشيئة الله فى فعلك'' _(۲) امام باقر (ع) سے روايت ہوئي بتحقيق الله تعالى نے قرآن ميں اپنے پيغمبر (ص) كو فرمايا :''ولا تقولن لشي إنى فاعل ذلك غداً إلّا أن يشاء الله '' يعنى نہ كہو كہ ميں كل كوئي كام انجام دونگا (مگر يہ اس صورت ميں كہو كہ اس كے بعد كہو) مگر كہ الله تعالى چاہے اس كو انجام نہ دوں كہ الله تعالى كا ارادہ اس كام كے ترك ميں ميرے ارادہ پر سبقت كرے گا پھر ميں اسے انجام نہيں دے سكتا اسى لئے الله تعالى نے فرمايا :''واذكر ربك إذا نسيت'' _ ''يعنى الله تعالى كى مشيت كو اپنے كام ميں استثناء كرو''_

____________________

۱) كافى ج ۷، ص ۴۴۷، ح۱_ نورالثقلين ، ج۳، ص ۲۵۳، ح ۴۸_۲) كافى ج ۷، ص ۴۴۸، ح۲_ نورالثقلين ،ج۳، ص ۲۵، ح ۴۹_

۳۷۱

آرزو:پسنديدہ آرزو ۱۳;كمال حاصل كرنے كى آرزو ۱۳ ; ہدايت كى آرزو ۱۳

آنحضرت (ص) :آنحضرت (ص) اور غفلت ۹;آنحضرت (ص) كا كمال حاصل كرنا ۱۱، ۱۹;آنحضرت(ص) كو نصيحت ۱۲ ; آنحضرت (ص) كو وعدہ ۲۵;آنحضرت (ص) كى ہدايت ۱۱; آنحضرت (ص) كى ہدايت كا زيادہ ہونا ۱۹

الله تعالى :الله تعالى كى ربوبيت كى علامات ۱۵;اللہ تعالى كى مشيت كا غلبہ ۴;اللہ تعالى كى مشيت كا كردار ۲;اللہ تعالى كى مشيت كو استثناء كرنا ۲۷، ۲۸;اللہ تعالى كى مشيت كى اہميت ۲۸; الله تعالى كى نصےحتيں ۱۲;اللہ تعالى كى ہدايتوں كى خصوصيات۱۸;اللہ تعالى كى ہدايتيں ۱۱، ۱۵، ۱۷،۲۲;اللہ تعالى كے اوامر ۲۳;اللہ تعالى كے مختصّات۱۷ ;اللہ تعالى كے وعدے ۲۵

امور:امور كى اساس ۲/اميدوار ہونا :الله تعالى كى امداد پر اميدوار ہونا ۲۶; اميدوار ہونے كے اسباب ۲۴;كمال حاصل كرنے كے بارے ميں اميدوار ہونے كے آثار ۱۴; ہدايت اميدوار ہونا ۱۲

انبياء :انبياء كے علم كى حدود۳

انسان :انسان كى ذمہ داري۵;انسان كى معنوى ضروريات ۲۲; انسانوں كے عمل كا مغلوب ہونا ۴;انسان كى ہدايت ۱۸;انسانوں كے عمل كى بنياد ۴;انسان كے لئے مصلحتيں ۱۸

بات :بات كرنے كے آداب ۷

توحيد:توحيد افعالى ۱۷//توفيقات :توفيقات كا سرچشمہ ۲۲//جبرو اختيار : ۴

دعا :دعا كے آداب ۲۶

ذكر :الله تعالى كا ذكر ۶، ۲۳;اللہ تعالى كى مشيت كے ذكر كى اہميت ۱،۲۷;اللہ تعالى كے ذكر كا سرچشمہ ۲۲;اللہ تعالى كے ذكر كو دائمى كرنا ۲۱;اللہ كے ذكر كى اہميت ۵، ۷;اللہ تعالى كے ذكر كے آثار ۱۰، ۲۴; انشاء الله كا ذكر ۷

روايت: ۲۷_۲۸

صفات :پسنديدہ صفات ۲۳

ضروريات :الله تعالى كى تدبير كى ضرورت ۸;ہدايت كى ضرورت ۲۲

۳۷۲

عزم :عز م كے اعلان كے آداب ۱

غفلت :الله تعالى سے غفلت ۹;اللہ تعالى سے غفلت كا تدارك ۶;اللہ تعالى سے غفلت كے آثار ۲۰;اللہ تعالى سے غفلت كے تدارك كے آثار ۲۴;اللہ تعالى كى مشيت سے غفلت ۷;غفلت كے موانع ۸

فراموشي:فراموشى سے موانع ۱۰

كمال حاصل كرنا:كمال حاصل كرنے كے اسباب ۴;كمال حاصل كرنے كے مراتب ۱۶

مدد طلب كرنا:الله تعالى سے مدد طلب كرنا ۲۳، ۲۶

مستقبل:مستقبل كى پيشگوئي كا محال ہونا ۳

وعدہ:وعدہ كے اعلان كے آداب ۱

ہدايت :ہدايت سے موانع ۲۰;ہدايت كا سرچشمہ ۱۷;ہدايت كى روش ۲۱;ہدايت كے درجات ۱۶;ہدايت كے لئے دعا ۱۲

آیت ۲۵

( وَلَبِثُوا فِي كَهْفِهِمْ ثَلَاثَ مِئَةٍ سِنِينَ وَازْدَادُوا تِسْعاً )

اور يہ لوگ اپنے غار ميں تين سوبرس رہے اور اس پر نو دن كا اضافہ بھى ہوگيا (۲۵)

۱_اصحاب كہف، غار ميں تين سو نوسال ٹھہرے رہے_ولبثوا فى كهفهم ثلث مائة سنين وازدادوا تسعا

يہاں ''سنين''، ''ثلاثة مائة'' كے لئے بدل ہے_ يہ كلمہ ''تين سو'' كى وضاحت كے ساتھ ساتھ اس بات كى علامت ہے كہ اصحاب كہف كي نيند پر اتنے سالوں كا گزرنا ايك حيرت انگيز چيز ہے_

۲_اصحاب كہف، اس تين سو نوسال كى سارى مدت ميں اسى غار ميں تھے كہ جس ميں انہوں نے پناہ لى تھي_

ولبثوا فى كهفهم

۳۷۳

۳_اصحاب كہف ،شمسى سالوں كے مطابق تين سو سال اور قمرى سالوں كے مطابق تين سو نوسال غار ميں رہے _

ولبثوا فى كهفهم ثلث مائة سنين وازدادوا تسعا

''ازدادو'' ميں ضمير اصحاب كہف كے ساتھ مربوط ہے _ نو سال كو تين سو سال سے جدا ذكركرنا شايد اس حوالے سے ہو كہ انہوں نے شمسى سالوں كے مطابق تين سو سال ہى آرام كيا اور ان سالوں كا قمرى سالوں كے مطابق شمار تين سو نو سال سے كچھ كم (تين ماہ سے كم ) ہے عام طور پر واقعات كے زمانہ كو مشخص كرتے وقت اتنى مدّت سے صرف نظر كيا جاتا ہے_

۴_''روى أنّ يهودياً سا ل على بن ا بى طالب (ع) عن مدّة لبثهم (ا ى لبث ا صحاب الكهف ) فا خبر بما فى القرآن فقال : ''انّا نجد فى كتابنا ثلاثمئة'' فقال : '' ذاك بسنى الشمس وهذا بسنى القمر _ (۱)

روايت نقل ہوئي ہے كہ ايك يہودى نے حضرت على (ع) سے اصحاب كہف كى غار ميں ٹھہرنے كى مدت كے بارے سوال كيا : امام (ع) نے اسے جو كچھ قرآن ميں ہے اس سے باخبر كيا_ يہودى نے كہا ہم نے اپنى كتاب ميں يہ پايا ہے كہ وہ تين سو سال رہے _ امام (ع) نے فرمايا : وہ شمسى سال كے مطابق نقل ہو ا ہے جبكہ يہ قمرى سال كے مطابق نقل ہو اہے_

اصحاب كہف:اصحاب كہف كا قصہ ۱، ۲، ۳;اصحاب كہف كى نيند كى مدت ۱،۲،۳،۴

اعداد :تين سو كا عدد ۳،۴;تين سو نو كا عدد ۱،۲،۳،۴،;نو كا عدد ۳،۴

روايت : ۴

____________________

۱)_ مجمع البيان ، ج۶، ص ۷۱۵_ نورالثقلين ج ۳، ص ۲۵۶ ، ح ۶۲_

۳۷۴

آیت ۲۶

( قُلِ اللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا لَبِثُوا لَهُ غَيْبُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ أَبْصِرْ بِهِ وَأَسْمِعْ مَا لَهُم مِّن دُونِهِ مِن وَلِيٍّ وَلَا يُشْرِكُ فِي حُكْمِهِ أَحَداً )

آپ كہہ ديجئے كہ اللہ ان كى مدّت قيام سے زيادہ باخبر ہے اسى كے لئے آسمان و زمين كا سارا غيب ہے اور اس كى سماعت و بصار كا كيا كہنا ان لوگوں كے لئے اس كے علاوہ كوئي سرپرست نہيں ہے اور نہ وہ كسى كو اپنے حكم ميں شريك كرتا ہے (۲۶)

۱_اصحاب كہف كے غار ذميں ٹھہرنے كى مدت، پيغمبر (ص) كے زمانہ كے لوگوں كے در ميان اختلاف كا شكار تھى _

قل الله أعلم جملہ''قل الله '' بتا رہا ہے كہ بعض لوگ پچھلى آيت ميں بتائي گئي مدت كے حوالے سے شك ميں پڑے ہوئے تھے اور اسكے علاوہ كوئي دوسرى نظر پيش كر رہے تھے_ پيغمبر اكرم نے ان لوگوں كے جواب ميں ، واقعات كے دقيق زمانے كے سلسلہ تا كيد فرمائي اور ان كے شك و ترديد كو رد فرماديا_

۲_الله تعالى كا اصحاب كہف كے سونے كى مدت كے بارے ميں خبردينا، اپنے برتر علم كى بناء پر ہے اور يہ دوسروں كے نظريات سے قابل مقايسہ نہيں ہے_قل الله أعلم بما لبثو

۳_لوگوں كے غلط نظريات كے اظہار كے جواب ميں الله تعالى ،پيغمبر اكرم (ص) كى راہنمائي كر تا ہے_

قل الله أعلم

۴_آسمانوں اور زمين كاغير خدا سے پنہان حقائق اور اسرار پر مشتمل ہونا _له غيب السموات والارض

۵_آسمانوں اور زمين ميں موجود پوشيدہ حقائق صرف الله تعالى كى مالكيت ہيں _له غيب السموات والارض

''لہ'' كا مقدم ہونا ،حصر پر دلالت كررہا ہے اور اس ميں حرف لام تمليك كے لئے ہے_

۶_صرف الله تعالى ہى كائنات كے تمام اسرار و رموز سے باخبر ہے_

قل اللّه ا علم بما لبثوا له غيب السموات والارض جملہ''له غيب '' ،''والله أعلم ...'' كے قرينہ سے الله تعالى كے كائنات كے اسرار پر مالكيت كے ساتھ ساتھ اس كى وسيع آگاہى پر بھى دلالت كر رہا ہے_

۷_فقط الله تعالى كى كائنات پر مالكيت، اس كے علم كا انسانوں كى طرف سے پيش كئے گئے علوم سے قابل مقائسہ نہ ہونے پر دليل ہے_قل الله ا علم بمالبثوا له غيب السموات والارض

۳۷۵

جملہ ''لہ غيب ...'' ايسى برہان ہے كہ جو ''الله أعلم ''كو ثابت كر رہى ہے_

۸_اشياء كے ظواہرپر انسانوں كى محدود معرفت، الله تعالى كى نظركے مد مقابل ان كے نظر يات كے اعتماد ہونے پر دليل ہے _الله أعلم له غيب السموات والارض

الله تعالى نے ايسے مسائل ميں كہ جہاں خود اپنى واضح رائے كا اظہار كيا ہے وہاں ابحاث كو ختم كرتے ہوئے اور انسانى اعتراضات كو ردّ كرنے كے ذريعہاس نكتہ كى طرف اشارہ كيا ہے كہ اسكے علم كا بشر كے علم سے مقائسہ نہيں ہوسكتا _ كيونكہ وہ غيب كا مالك ہے اور انسان تو ابھى ظاہر ميں بھى پھنسا ہوا ہے _

۹_كائنات ،متعدد آسمانوں پر مشتمل ہے_غيب السموات

۱۰_اصحاب كہف كى داستان، ايسا راز ہے كہ بشركيلئے اس كى جہات تك پہنچنا وحى كے علاوہ ممكن نہيں ہے_

قل الله أعلم بمالبثوا له غيب السموات والارض

۱۱_الله تعالى ، كائنات كے پنہاں حقائق كے حوالے سے گہرى نگاہ ركھنے اور بہت سننے والا ہے_

له غيب ا بصربه و ا سمع ''ا بصر بہ'' كے قرينہ سے معلوم ہوتا ہے كہ ''اسمع'' كے بعد بھى '' بہ'' مقدر ہے اور دونوں تعجب كے صيغے ہيں يعنى الله تعالى كس قدر زيادہ ديكھنے اور سننے والا ہے

۱۲_كائنات پر الله تعالى كى تنہا مالكيت، تمام ديكھنے اور سننے والى چيزوں پر اس كى عميق آگاہى كى دليل ہے_

له غيب السموات والارض ا بصر به واسمع

۱۳_ الله تعالى ،اپنى تنہا مالكيت اور عميق نگاہ وسماعت كى بناء پر گذشتہ انسانوں كى زندگى كے بارے ميں صحيح معلومات حاصل كرنے كا واحد مرجع اور منبع ہے _

۳۷۶

قل اللّه أعلم بما لبثوا له غيب ابصر به واسمع

۱۴_اصحاب كہف، كا الله تعالى كے سوا كوئي مدّبراور سرپرست نہيں تھا_مالهم من دونه من ولي

''لهم'' ميں ضمير سے مراد اصحاب كہف ہيں _

۱۵_اصحاب كہف پر فقط الله تعالى كى سرپرستى اور نگراني، ان كى داستان كى مختلف جہات پر اس كے برتر علم اور دوسروں كى بے خبرى كى دليل ہے_قل اللّه أعلم بمالبثوا مالهم من دونه من وليّ

۱۶_آسمانوں اور زمين كے موجودات، كااللہ تعالى كے علاوہ كوئي ولى اور سرپرست نہيں ہے_

له غيب السموات والارض مالهم من دونه من ولي

احتمال ہے ''لہم'' ضمير كا مرجع''السموات والارض'' كے قرينہ سے ان ميں پائے جانے والے موجودات ہوں ايسے مقامات پردوسرے عقلاء كى اہميت تحت الشعاع ہوجاتى ہے اور ان كے لئے مناسب ضمير لائي جاتى ہے_

۱۷_موجودات كى ولايت اور سرپرستى كى لياقت صرف كائنات كے باخبر اور باہوش مالك كے ليے منحصر ہے_

لہ غيب السموات والارض ا بصر بہ وا سمع مالہم من دونہ من ولي

۱۸_آسمانوں اور زمين پر حكمرانى اور بادشاہت الله تعالى ميں منحصر ہے_ولايشرك فى حكمه احدا

۱۹_الله تعالى ، كائنات پر حكمرانى ميں كسى كو اپنا شريك نہيں بناتا _ولا يشرك فى حكمه احدا

۲۰_الله تعالى كے فيصلے اور فرامين، كسى غير كى دخل اندازى سے پاك اور دوسروں كے نظريات كى تا ثير سے محفوظ ہيں _

ولا يشرك فى حكمه احدا

''حكم '' يہ ہے كہ كسى چيز كى خصوصيات كو ثابت يا نفى كرنے ميں رائے دى جائے چاہے دوسروں كو اس كے قبول كرنے پر مجبور كياجائے يا نہ كياجائے _ (مفردات راغب)

آسمان:آسمانوں كا حاكم ۱۸;آسمانوں كامتعدد ہونا ۹; آسمانوں كے اسرا۴;آسمانوں كے اسرار و غيب كا مالك ۵;آسمانوں كے موجودات پر سرپرستى ۱۶

آنحضرت (ص) :آنحضرت (ص) كا معلم ۳;آنحضرت (ص) كى ہدايت ۳

اصحاب كہف :اصحاب كہف پر سرپرستى ۱۴، ۱۵;اصحاب كہف كى تدبير كرنے والا ۱۴;اصحاب كہف كى نيند كى مدت ۲;اصحاب كہف كى نيند كى مدت ميں

۳۷۷

اختلاف ۱;اصحاب كہف كے قصہ سے آگاہى ۱۰، ۱۵

الله تعالى :الله تعالى كا سننا ۱۱;اللہ تعالى كا علم ۲; الله تعالى كا علم غيب ۶،۱۱;اللہ تعالى كى بصيرت ۱۱; الله تعالى كى بصيرت كے آثار ۱۳;اللہ تعالى كى بصيرت كے دلائل ۱۲;اللہ تعالى كى تعليمات ۳;اللہ تعالى كى حاكميت ۱۸،۱۹ ;اللہ تعالى كے فيصلوں كا منزہ ہونا ۲۰;اللہ تعالى كى مالكيت ۵;اللہ تعالى كى مالكيت كے آثار ۷،۱۲;اللہ تعالى كى ولايت كے آثار ۱۵;اللہ تعالى كى ہدايتيں ۳;اللہ تعالى كے اوامركا محفوظ ہونا ۲۰;االلہ تعالى كے باخبر كرنے كا سرچشمہ ۲;اللہ تعالى كے سننے كے آثار ۱۳;للہ تعالى كے سننے كے دلائل ۱۲;اللہ تعالى كے علم غيب كے دلائل ۱۲;اللہ تعالى كے علم كى برترى كے دلائل ۸،۱۸ ; الله تعالى كے فيصلوں كا محفوظ ہونا ۲۰; الله تعالى كے احكام كا منزہ ہونا ۲۰;اللہ تعالى كے مختصّات ۲،۶،۷،۱۳، ۱۶ ، ۱۷، ۱۸

انسان :نسان كے علم كا محدود ہونا ۸

تاريخ:تاريخ كے منابع ۱۳

توحيد:توحيد افعالى ۱۳

زمين:زمين كا حاكم ۱۸;زمين كے اسرار۴;زمين كے اسرا ركا مالك ۵

سطحى نگاہ :سطحى نگاہ كے آثار۸

علم:علم كے اعتبار كى حدود۸

كائنات:كائنات كے اسرار ۶; كائنات كا مالك۷

لوگ:زمانہ بعثت كے لوگ اور اصحاب كہف

موجودات:موجودات پر دلالت۱۶،۱۷

وحي:وحى كا كردار ۱۰

ولايت:ولايت كا معيار ۱۷

ولايت الہي:ولايت الہى كے شامل حال ۱۴، ۶

ولي:ولى كا علم ۱۷

۳۷۸

آیت ۲۷

( وَاتْلُ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِن كِتَابِ رَبِّكَ لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمَاتِهِ وَلَن تَجِدَ مِن دُونِهِ مُلْتَحَداً )

اور جو كچھ كتاب پروردگار سے وحى كے ذريعہ آپ تك پہنچايا گيا ہے آپ اسى كى تلاوت كريں كہ كوئي اس كے كلمات كو بدلنے والا نہيں ہے اور اس كو چھوڑ كر كوئي دوسرا ٹھكانا بھى نہيں ہے (۲۷)

۱_قرآنى آيات كى تلاوت، پيغمبر (ص) كے ذمے ايك الہى فريضہ تھا _واتل مإ وحى اليك من كتاب ربك

۲_لوگوں كے كانوں تك پيغام وحى پہنچانا، الہى رہبروں كى ذمہ داريوں ميں سے ہے_

واتل مإ وحى اليك من كتاب ربك

۳_قرآن ،اللہ تعالى كى طرف سے پيغمبر (ص) پر وحى شدہ كتاب ہے_واتل مإ وحى اليك من كتاب ربك

''من كتاب ربك'' ميں حرف'' من ''وضاحت كے لئے ہے اور يہ بتا رہا ہے كہ وہ جو وحى ہوا ہے وہ كتاب خدا ہى ہے_

۴_قرآن، الله تعالى كى ربوبيت كا جلوہ اور پيغمبر (ص) كى رسالت كى پيشرفت كے لئے ہے _من كتاب ربك

''ربك''ميں كلمہ '' ربّ'' بتا رہا ہے كہ قرآن، آنحضرت (ص) كے لئے الہى پيغام كے ابلاغ ميں ان كى تربيت و رشد كا سرمايہ ہے اور چونكہ الله تعالى پيغمبر (ص) كا مربى ہے اس ليے انہيں عطا كيا ہے_

۵_پيغمبر (ص) كے زمانہ ميں قرآن كا عنوان ''پروردگار كى كتاب'' تھا _كتاب ربك

۶_قرآنى آيات، الله تعالى كے پاس مكتوب اور تدوين شدہ خزانہ سے نازل ہوئي ہيں _واتل ما ا وحى اليك من كتاب ربك

اگر'' من كتاب ربك'' ميں ''من'' نشويہ ہو تو كتاب سے مراد ايسا منبع ہوگا كہ جس سے قرآنى آيات لى گئي ہيں اور جملہ '' لا مبدل لكلماتہ'' كہ كتاب كے كلمات كے تبديل نہ ہونے پر دلالت كر رہا ہے _ اس احتمال كو تقويت دے رہا ہے_

۳۷۹

۷_ فقط قرآن كے فرامين، قبول اور اطاعت كے ليے شائستہ تعليمات ہيں _واتل ما ا وحى اليك من كتاب ربك

فعل '' اتل'' ہوسكتا ہے مصدر '' تلاوة'' بمعنى قرائت سے ہو اور ہوسكتا ہے كہ اس كا مصدر ''تلو'' بمعنى تبعيت ہو تو مندرجہ بالا مطلب دوسرے معنى كى بناء پر ہے_ اس آيت ميں ''اتل'' كے مد مقابل دوسرى آيت ميں ''لاتطع'' اس احتمال كو مضبوط كر رہا ہے اور حصر پر بھى دلالت كر رہا ہے_

۸_اصحاب كہف كى داستان كے حوالے سے دوسروں كى رائے كو اہميت نہ دينا ،اللہ تعالى كا پيغمبر (ص) كو حكم تھا_

قل الله أعلم بمالبثوا واتل ما ا وحى اليك من كتاب ربّك

مذكورہ نكتہ اس احتمال كى بناء پر ہے كہ آيات وحى كى تلاوت كا حكم الہى يہ مطلب دے رہا ہے كہ چونكہ غير وحى بات كافى حدتك محكم نہيں ہوتى اور اصحاب كہف جيسے تاريخى واقعات ميں قابل اطمينان منبع صرف وحى ہے_

۹_قرآن اور الله تعالى كا كلام، دوسرى كى جعل سازى سے محفوظ اور ہر قسم كى تحريف سے پاك ہيں _

واتل مااوحى اليك لا مبدل لكلماته ''كلماتہ'' ميں ضمير '' رب'' كى طرف لوٹ رہى ہے_ ابتداء آيت كے قرينہ كے مطابق كلمات كا مد نظر مصداق'' قرآنى آيات '' ہيں _

۱۰_قرآن اور الله تعالى كے كلام ميں تبديلى لانے سے دوسروں كا عاجز ہونا، اس كے قابل قبول اور اطاعت كے شائستہ ہونے كى دليل ہے_وا تل ما ا وحى اليك لا مبدل لكلمته

۱۱_الله تعالى كا علم مطلق، اس كے كلمات كے ثابت رہنے اور تبديل نہ ہونے كى بنياد ہے_

له غيب السموات والارض لامبدل لكلماته

۱۲_ہميشگى و جاودانيت اور تحريف سے محفوظ رہنا ' پيغام وحى كى اہميت كا معيار اور اس كى تلاوت اور ابلاغ كا متقاضى ہے_وا تل ما ا وحى اليك لا مبدل لكلماته

۱۳_فقط الله تعالى ، لوگوں كے لئے ملجاء اور پناہ گاہ ہے_ولن تجدمن دونه ملتحد

''التحاد'' يعنى كسى چيز كى طرف عدول كرنا اور اس كى طرف پناہ لينا_ اور ''ملتحد'' قرينہ مقاميہ كے ساتھ ايسى جگہ ہے كہ جس كى طرف ڈرا ہوا شخص اپنے آپ كو موڑتا ہے تا كہ اس كى پناہ ميں محفوظ رہے_

۱۴_پيغمبر (ص) اور الہى رہبر، تاريخى حقائق كى پہچان اور معرفت كيلے الہى وحى كے علاوہ كسى چيز پر اعتماد نہ كريں _

۳۸۰

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809

810

811

812

813

814

815

816

817

818

819

820

821

822

823

824

825

826

827

828

829

830

831

832

833

834

835

836

837

838

839

840

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863

864

865

866

867

868

869

870

871

872

873

874

875

876

877

878

879

880

881

882

883

884

885

886

887

888

889

890

891

892

893

894

895

896

897

898

899

900

901

902

903

904

905

906

907

908

909

910

911

912

913

914

915

916

917

918

919

920

921

922

923

924

925

926

927

928

929

930

931

932

933

934

935

936

937

938

939

940

941

942

943

944

945