تفسير راہنما جلد ۱۰

تفسير راہنما 6%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 945

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 945 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 254017 / ڈاؤنلوڈ: 3517
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱۰

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

آیت ۳۳

( كِلْتَا الْجنّاتيْنِ آتَتْ أُكُلَهَا وَلَمْ تَظْلِمْ مِنْهُ شَيْئاً وَفَجَّرْنَا خِلَالَهُمَا نَهَراً )

پھر دونوں باغات نے خوب پھل دئے اور كسى طرح كى كمى نہيں كى اور ہم نے ان كے درميان نہر بھى جارى كردى (۳۳)

۱_آسودہ حال مغرور طبقہ كا نمونہ شخص، پھلوں سے بھرے ہوئے ' آفات سے بچے ہوئے اور پانى سے سرشار باغوں كا مالك تھا _كلتا الجنّاتين ء اتت أكلها ولم تظلم منه شيئاً وفجّرنا خللهما نهرا

''اتت اكلھا'' اور ''لم تظلم '' باغوں كے پھلوں سے بھرے ہونے اور ہر آفت سے محفوظ ہونے پر دلالت كر رہے ہيں _

۲_باغ اور كھيتى كے درميان سے پانى كى نہر كا جارى ہونا، ايك دل كو بھانے والا اور ديكھنے والا منظر ہے _

كلتا الجنتين ء اتت أكلها ولم تظلم منه شيئاً وفجّرنا خللهما نهرا

۳_ آبى نالوں اورنہروں كا جارى ہونا، الله تعالى كے ارادہ كى بناء پر ہے_وفجّرنا خللهانهرا

۴_پھلوں كا پكنا اور ان ميں (آفت يا كسى اور سبب كى بناء پر ) كمى نہ آنا ايك آئيڈيل باغ كى علامت ہيں _

كلتا الجنتين ء اتت أكلها ولم تظلم منه شيئ

''ا كُل'' كے معانى ميں سے ايك درختوں كا پھل ہے_ لہذا جملہ''ء اتت ا كُلها'' يعنى پھل ديا اور ''لم تظلم'' سے مراد'' لم تنقص'' ہے كم اور تباہ نہ ہونا زراعت كى اصطلاح ميں آئيڈيل باغ اسے كہتے ہيں كہ جو پھلوں اور كسى حوالے سےكسى قسم كى مشكلات نہ ركھتاہو_

الله تعالى :الله تعالى كے ارادہ كے آثار ۳

باغ:باغوں كى خوبصورتى ۲;مثالى باغ كا پھل دينا ۴;مثالى باغ كى علامات ۴

۴۰۱

طبيعت :طبيعت كى خوبصورتياں ۲

كھيتياں :كھيتيوں كى خوبصورتى ۲

مغرور باغ والا :مغرور باغ والے كا قصہ ۱;مغرور باغ والے كے باغ ۱

نہريں :پانى كى نہروں كى خوبصورتى ۲;نہروں كے جارى ہونے كا سرچشمہ ۳

آیت ۳۴

( وَكَانَ لَهُ ثَمَرٌ فَقَالَ لِصَاحِبِهِ وَهُوَ يُحَاوِرُهُ أَنَا أَكْثَرُ مِنكَ مَالاً وَأَعَزُّ نَفَراً )

اور اس كے پاس پھل بھى تھے تو اس نے اپنے غريب ساتھى سے بات كرتے ہوئے كہا كہ ميں تم سے مال كے اعتبار سے بڑھا ہوا ہوں اور افراد كے اعتبار سے بھى زيادہ باعزت ہوں (۳۴)

۱_مغرور آسودہ حال طبقہ كا نمونہ، بہت عظےم مال كا اكيلا مالك تھا_وكان له ثمر

جيسا كہ قاموس ميں آيا ہے ''ثمر'' مال كى اقسام كو كہتے ہيں _ چونكہ ما قبل آيت ميں باغوں اور پھلوں كے بارے ميں بات ہوچكى ہے لہذا تكرار سے بچتے ہوئے مناسب يہ ہے كہ اس آيت ميں ثمر سے مراد، مطلقاً مال ہونہ كہ باغ كے پھل جات اور ''ثمر'' كا نكرہ ہونا اس مال كى عظمت پر دلالت كر رہا ہے_

۲_مغرور مالدار شخص كى فخريہ اور تكبر كے ساتھ اپنے ساتھى سے گفتگو، اپنے نظريات كو ثابت كرنے كے لئے تھي_

فقال لصاحبه وهو يحاوره أنا أكثر منك مالاً وأعزّ نفرا

انسان كے قبيلہ اور ايسے گروہ كہ جو اس كے كام ميں اس كى مدد كريں ان پر نفر كا اطلاق ہوتا ہے_ (لسان العرب) قرينہ ''أنا أقل منك مالاً وولداً'' آيت ۳۹ كے مطابق اس بات كرنے والے شخص كے نزديك واضح ترين مصداق، ا سكے بيٹے تھے_

۴_مال كى كثرت اور اس سے حاصل ہونے والى

۴۰۲

معاشرتى عزت، دنيا پرستوں كے نزديك انتہائي اہميت كى حامل ہے_فقال لصاحبه وهو يحاوره أنا أكثر منك مالاً وأعزّ نفرا

۵_مال واولاد كى فراواني، انسان كى لغزش اور غرور كا پيش خيمہ ہے _

لأحد هما جنّاتين ...فقال لصاحبه و هو يحاوره أنا أكثر منك مالاً وأعزّ نفرا

۶_آسودہ حالى اور فراوان نعمتوں كا پاس ہونا، اپنى بڑائي اور دوسروں كو حقارت كى نگاہ سے ديكھنے كا موجب ہے_

فقال لصاحبه وهو يحاوره أنا أكثر منك مالاً وأعزّ نفرا

۷_مالدار طبقہ كى طرف سے دوسروں سے حقارت آميز سلوك اور ان كے سامنے اپنے مال كى كثرت كو بيان كرنا ايك مذموم اور ناپسنديدہ كام ہے_أنا أكثر منك مالاً وأعزّ نفرا

آسودگي:آسودگى كے آثار ۶

اعتماد:اولادپر اعتماد ۳;رشتہ داروں پر اعتماد ۳; مال پر اعتماد ۳

انسان :انسان كى خطائيں ۵

اولاد:اولاد كى كثرت كے آثار ۵

حقارت آميز سلوك:دوسروں سے حقارت آميز سلوك پر سرزنش ۷; دوسروں سے حقارت آميز سلوك كا باعث۶

دنيا پرست:دنيا پرست اور مال ۴;دنيا پرست اورمعاشرتى مقام ۴;دنيا پرستوں كى رائے ۴;دنيا پرستوں كے نزديك اہميت كا معيار ۴

عمل:ناپسنديدہ عمل ۷

غرور :غرور كا باعث ۵،۶

فخر كا اظہار كرنا:مال پر فخر كے اظہار پر سرزنش ۷

لغزش:لغزش كا باعث ۵

مال و دولت:مال و دولت كے آثار ۵

مغرور باغ والا :مغرور باغ والے كا اعتماد ۳;مغرور باغ والے كا عقيدہ ۲; مغرور باغ والے كا فخر كرنا ۲; مغرور باغ والے كا قصہ ۱،۳;مغرور باغ والے كى گفتگو ۲;مغرور باغ والے كے اموال ۱

۴۰۳

آیت ۳۵

( وَدَخَلَ جنّاتهُ وَهُوَ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهِ قَالَ مَا أَظُنُّ أَن تَبِيدَ هَذِهِ أَبَداً )

وہ اسى عالم ميں كہ اپنے نفس پر ظلم كر رہا تھا اپنے باغ ميں داخل ہوا اور كہنے لگا ميں تو خيال نہيں كرتا ہوں كہ يہ كبھى تباہ بھى ہوسكتا ہے (۳۵)

۱_مال دار آدمى نے دل ميں اپنے مال پر ناز كرتے ہوئے نعمتوں سے بھرے ہوئے اپنے باغ ميں قدم ركھا_

ودخل جنّاته و هو ظالم لنفسه قال

۲_اپنے آپ كو برتر سمجھنا، اور دوسروں كو حقارت كى نگاہ سے ديكھنا اپنے آپ پر ظلم ہے _

أنا أكثر منك مالاً وأعزّ نفراً ودخل جنّاته و هو ظالم لنفسه

۳_دنيا كے مادى جلووں پر فريفتہ ہونا، انسان كا اپنے اوپر ستم ہے_أكثر منك مالاً وأعزّ نفراً و هو ظالم لنفسه

۴_مادى نعمتوں كى بہتات ہونا انسان ميں تكبر اور اس كى روحي، نفسياتى اور اخلاقى پستى كاپيش خيمہ ہے_

ودخل جنّاته و هو ظالم لنفسه

۵_مالدار لوگ، الہى نعمتوں كے مد مقابل ناشكرى كے ضررو نقصان كى لپيٹ ميں خود ہى آجاتے ہيں _

فقال أنا أكثر منك مالاً وأعزّ نفراً و هو ظالم لنفسه

۶_فقراء اور مال ومنال سے محروم لوگوں سے حقارت آميز سلوك اور مال ومتال اور دنياوى وسائل پر غرور ومستى درحقيقت اپنے آپ كو تباہ كرنا اور گرانا ہے _

فقال أنا أكثر منك مالاً وأعزّ نفراً و هو ظالم لنفسه

۷_مغرور مالدار شخص ،اپنے باغ اور نعمات كو لازوال اور جاودانى سمجھتا تھا_

قال مإ ظنّ أن تبيد هذه أبدا

''تبيد'' ''بيد'' سے ہے _ اس كا معنى ہلاكت اور نابودى ہے_

۸_انسان كو چاہئے كہ وہ مادى نعمتوں كے زوال پذير ہونے پر توجہ ركھے اور ان پر غرور نہ كرے_

فقال أنا أكثر منك مالاً وأعزّ نفراً و هو ظالم لنفسه قال مإظنّ أن تبيد هذه أبدا

۴۰۴

۹_ثروت وطاقت كے مالك لوگ، دنيا ميں نعمتوں كے جاودانى ہونے كے وہم ميں گرفتار ہونے كے خطرہ سے دوچار ہيں _أنا أكثر منك مالا قال مإظنّ أن تبيد هذه أبدا

آيت ميں مذكور داستان خواہ حقيقى ہو خواہ بطور ايك نمونہ، بہرحال انسان كے مختلف حالات ميں خصلتوں اور اس كے رد عمل كى طرف اشارہ كر رہى ہے_ ان خصلتوں ميں سے ايك خصلت يہ ہے كہ جب وہ آسائش وآسودگى كے عروج پر پہنچتا ہے اور اپنے ارد گرد اپنى دولت وسرمايہ كا مشاہدہ كرتا ہے تو وہ يوں سمجھتا ہے كہ ميرے ارد گرد يہ سب نعمتيں ہميشہ كے لئے ہيں _

۱۰_غرور اور بڑائي كى طلب، عقيدہ ميں انحراف پيدا كرنے والى اور حقيقى شناخت ميں ركاوٹ ڈالنے والى ہے _

أنا أكثر منك مالاً قال مإظنّ أن تبيد هذه أبدا

آسائش پسندي:آسائش پسندى كے آثار۴

انسان :انسان كى خطائيں ۹

بڑائي كى طلب:بڑائي كى طلب كے آثار ۱۰

پستي:پستى كا باعث ۶;پستى كے اسباب ۶

تكبر :تكبر كا باعث ۴;تكبر كى حقيقت ۲;تكبر كے آثار ۶،۱۰

ثروت مند افراد:ثروت مند لوگوں كو خبردار ۹;ثروت مندوں كى فكر ۹;ثروت مندوں كا نقصان كرنا ۵

حقارت آميز سلوك :دوسروں سے حقارت آميز سلوك ۲

خود:خود پر ظلم ۲،۳;خود كو نقصان پہنچانا ۵

دنيا پرستى :دنيا پرستى كى حقيقت ۳

ذكر :مادى وسائل كے زوال پذير ہونے كا ذكر۸

شخصيت :شخصيت كو خطرہ ميں ڈالنے والى چيزوں كى شناخت ۴،۶

شناخت: شناخت كے لئے ركاوٹ ۱۰

طاقت كے مالك لوگ:طاقت كے مالك لوگوں كا نظريہ ۹

فقرائ:فقراء سے حقارت آميز سلوك كرنے كے آثار ۶

۴۰۵

گمراہى :گمراہى كا باعث ۱۰

مغرور باغ والا :مغرور باغ والے كى فكر۷;مغرور باغ والے كا قصہ ۱،۷;مغرور باغ والے كے باغ ۱،۷

ناشكري:نعمت كى ناشكرى كا نقصان ۵

نعمت:نعمت كے ہميشہ رہنے كا وہم ۷، ۹

آیت ۳۶

( وَمَا أَظُنُّ السَّاعَةَ قَائِمَةً وَلَئِن رُّدِدتُّ إِلَى رَبِّي لَأَجِدَنَّ خَيْراً مِّنْهَا مُنقَلَباً )

اور ميرا گمان بھى نہيں ہے كہ كبھى قيامت قائم ہوگى اور پھر اگر ميں پروردگار كى بارگاہ ميں واپس بھى گيا تو اس سے بہتر منزل حاصل كرلوں گا (۳۶)

۱_مالدار شخص كا غرور اور دنيا پرستي، قيامت اور مرنے كے بعد دوبارہ زندہ ہونے كے بارے ميں شك اور ترديد پر ختم ہوئي_ومإ ظنّ الساعة قائمة

۲_مالدار شخص كے خيال ميں جو چيز اس كے باغوں اور كھيتى كو تباہ كرسكتى تھى وہ قيامت تھي_

مإ ظنّ أن تبيد هذه أبداً ومإ ظنّ الساعة قائمة

گذشتہ آيت كے آخر اور اس آيت كے شروع كى مناسبت كو اسى انداز سے بيان كيا جاسكتا ہے كہ

مالدار شخص اپنے مال ومتاع كى بربادى كا گمان بھى نہيں كرتا تھا اور قيامت كے يقينى نہ ہونے كا جواب اس سوال كے بارے ميں تھا كہ قيامت كے بارے ميں كيا كرے گا ؟كہ وہ توہر چيز كو درہم وبرہم كردے گى تو وہ اس مشكل كا جواب يہ ڈھونڈتا تھا كہ''مإ ظنّ الساعة قائمة''

۳_معاد سے غفلت اور اس كے بارے ميں شك كا شكار ہونا، دنيا سے شديد قلبى لگائو كا نتيجہ ہے _

أنا أكثر منك مالاً قال مإ ظنّ أن تبيد هذه أبداً_ ومإ ظنّ الساعة قائمة

۴_انسان كا مال ومتاع اور اقتصادى حالت، اس كے اخلاق اور نظريہ كائنات كا خاكہ بناتى ہے _

أنا أكثر منك مالاً وهو ظالم لنفسه قال مإ ظنّ أن تبيد هذه أبداً_ ومإ ظنّ الساعة قائمة

مالدار شخص سے آيات ميں دو قسم كے رويے ظاہر ہوئے ہيں :

۱_اخلاقى حوالے سے ''فخر كرنا'' (أنا أكثر منك مالاً )

۴۰۶

۲_عقائد كے حوالے سے قيامت كے بارے ميں شك كيا تو مالدار شخص كا باغ ميں داخل ہوكر ان تمام نعمتوں كو ديكھ كر غرور اور بدمستى ميں مبتلا ہونا يہ سب كچھ بيان كر كے ثروت ومال كا اس قسم كے خيالات كے پيدا كرنے ميں كردار بتايا جارہا ہے_

۵_انسان كے اخلاق اور عقائد ميں ايك قسم كا رابطہ موجود ہے_أنا أكثر منك مالاً وما أظن الساعة قائمة

''أنا أكثر ...'' كى تعبير اپنے آپ كو بلند ديكھنے اور بڑائي كى طلب جيسے روحى خيالات كو بتا رہى ہے اور ''ما اظن الساعة ...'' كى تعبير اس قسم كے روحى خےالات سے بننے والے عقيدہ كو واضح كر رہى ہے _

۶_شك او ربعيد سمجھنے كى بناء پر معاد كا انكار، ہر قسم كى يقينى دليل سے خالى ہے_وما ا ظنّ الساعة قائمة

فعل '' ماا ظنّ ...'' كے ذريعے قيامت كے انكار كا بيان، اس چيز كى طرف اشارہ ہے كہ معاد كاانكار صرف بعيد سمجھنے كى بناء پر تھا، نہ كہ معاد كے منكرين كو اس پر يقين تھا_

۷_''الساعة'' قيامت كے ناموں ميں سے ہے_ومإ ظنّ الساعة قائمة

۸_ معاد پر عقيدہ، دنيا پرستى كے ساتھ سازگار نہيں ہے اور نہ ہى دنياپرستوں كے لئے قابل قبول ہے_ا نّا أكثر منك مالاً ومإ ظنّ الساعة قائمة مالدار شخص اپنے مال ومنال پر فخر كرنے اور اسے جاودانہ سمجھنے كے بعد قيامت كا انكار كر بيٹھااس سے معلوم ہوتا ہے كہ ان دونوں ميں ربط، سبب اور نيتجہ كى صورت ميں ہو يعنى وہ چيز جو كل قيامت كے انكار كا باعث تھى وہ دنيا پرستى اور دنيا پر فريفتہ ہونا ہے فعل مجہول ''رددت'' (لوٹايا گيا) كہ جبر كى حكايت كر رہا ہے يہ مندرجہ بالا نكتہ كو واضح كر رہا ہے_

۹_مغرور آسودہ حال، قيامت كے برپاہونے كى صورت ميں اچھى عاقبت اوراس سے بڑى نعمتوں كے حصول پر مطمئن تھا_ولئن رددت إلى ربيّ لا جدنّ خيراً منها منقلب

۱۰_آسودہ حال مغرور شخص، الله كے نزديك اپنى محبوبيت پر مطمئن تھا_ولئن رددت إلى ربّى لا جدنّ خيراًمنها منقلب

''ربّ'' كا ضمير متكلم كى طرف مضاف ہونا بتا رہا ہے كہ كہنے والا اپنے آپ كو الله كے نزديك سمجھتا تھا كيونكہ وہ اسے اپنا پروردگار سمجھتا تھا اور معنوى حوالے سے اپنے اور الله تعالى كے درميان كوئي

۴۰۷

فاصلہ نہيں سمجھتا تھا يہ نكتہ اور آخرت ميں اپنے نيك انجام پر اطمينان، بتا تا ہے كہ مالدار شخص اپنے آپ كو الله كا محبوب سمجھتا تھا_

۱۱_دنيا پرستوں كى رائے ميں ، مال دنيا، انسان كا الله تعالى كے نزديك زيادہ محبوب ہونے كى نشانى ہے_

ولئن رددت إلى ربّى لا جدنّ خيراً منها منقلب

اخلاق:اخلاق كا پيش خيمہ ۴

اساعة:۷

ثروت :ثروت كا كردار ۴، ۱۱

دنيا پرست:دنيا پرست اور معاد ۸;دنيا پرستوں كا نظريہ۱۱;

دنيا پرستي:دنيا پرستى كے آثار ۳;دنيا پرستى كے مانع ۸

دين :دين كو لاحق خطرات كى معرفت ۳

عقيدہ :عقيدہ كا اخلاق سے رابطہ ۵;معاد پر عقيدہ كے آثار ۸

غفلت :معاد سے غفلت كے اسباب ۳

قرب:قرب كى نشانياں ۱۱

قيامت :قيامت كے بر پا ہونے كے آثار ۲; قيامت كے نام ۷;قيامت ميں شك كا پيش خيمہ ۱;قيامت ميں شك كے اسباب ۳

مال:مال كا كردار ۴

معاد :معاد كو بعيد شمار كرنے كا بے منطق ہونا ۷;معاد كو جھٹلانے كا بے منطق ہونا ۶

مغرور باغ والا :مغرور باغ والا اور اخروى نعمات ۹;مغرور باغ والا اور تقرّب ۱۰;مغرور باغ والے كا انجام ۹;مغرور باغ والے كا اطمينان ۹، ۱۰; مغرور باغ والے كا قصہ ۱، ۹;مغرور باغ والے كى دنيا پرستى كے آثار ۱;مغرور باغ والے كى رائے ۲، ۹،۱۰;مغرور باغ والے كے باغوں كى نابودى ۲;مغرور باغ والے كے تكبر كے آثار ۱

نظريہ كائنات :نظريہ كائنات كا پيش خيمہ ۴

۴۰۸

آیت ۳۷

( قَالَ لَهُ صَاحِبُهُ وَهُوَ يُحَاوِرُهُ أَكَفَرْتَ بِالَّذِي خَلَقَكَ مِن تُرَابٍ ثُمَّ مِن نُّطْفَةٍ ثُمَّ سَوَّاكَ رَجُلاً )

اس كے ساتھى نے گفتگو كرتے ہوئے كہا كہ تونے اس كا انكار كيا ہے جس نے تجھے خاك سے پيدا كيا ہے پھر نطفہ سے گذارا ہے اور پھر ايك با قاعد انسان بناديا ہے (۳۷)

۱_مغرور مالدار شخص كے ساتھ ايك مؤمن شخص (ايمان كا نمونہ) كى ہمراہى ،اس كے ساتھ گفتگو كرنے اور ہدايت كرنے كے لئے تھي_قال له صاحبه وهو يحاوره

''محاورہ'' يعنى كلام كا تبادلہ اور ايك دوسرے كو جواب دينا ہے_(لسان العرب) جملہ حاليہ كى صورت ميں وضاحت ''وہو ےحاورہ'' ہمراہى كا مقصد بيان كر رہى ہے كہ يہ وہى معاد كے منكر شخص كى كفريہ باتوں كا جواب ہو_

۲_معاد كا انكار اور اس ميں شك اور دنيا وى زندگى پر ناز، ايك كفريہ عقيدہ اور خيال ہے_

وما ا ظنّ الساعة قائمة قال له صاحبه وهو يحاوره ا كفرت بالذى خلقك

۳_دنيا كے ساتھ شدت سے قلبى لگائو اور خلقت اور نعمتوں كے عطا كرنے ميں الہى كردار سے غفلت، كفر كى نشانى ہے_

وكان له ثمر فقال ا نّا أكثر منك مالاً ما ا ظنّ أن تبيد هذه قال له صاحبه ا كفرت بالذى خلقك

مالدار شخص كى گفتگو ' غرور كے اظہار اور نعمتوں كے لازوال ہونے كے خيال كے بعد مؤمن شخص كا ''اكفرت ...'' سوال سے گفتگو كرنا تبا تا ہے كہ مالدار شخص كے خےالات اور گفتگو ميں كفر كا اظہار موجود تھا_

۴_منحرف خےالات كے مالك لوگوں پر اعتراض اور ان كى اصلاح كى خاطر بحث و گفتگو كرنا، الله تعالى كے نزديك پسنديدہ اورقابل قبول شيوہ ہے_

۴۰۹

وما ا ظنّ الساعة قائمةولئن رددت ا كفرت بالذى خلقك

۵_كفار كے ساتھ ان كى راہنمائي اور ہدايت كى خاطر بيٹھنا اور رفاقت، ممنوع نہيں ہے_

قال له صاحبه وهو يحاوره ا كفرت

۶_انسان كى خاك سے تخليق پھر نطفہ بننا اور پھر اس كا كامل انسان كى صورت ميں مكمل ہونا' انسانى پيدائش كا سفر ہے _

بالذى خلقك من تراب ثم من نطفة ثم سوىك رجل

جملہ '' خلقك من تراب'' اس حوالے سے ہے كہ الله تعالى نے حضرت آدم كو مٹى سے پيدا كيا لہذا تمام انسانوں كى اصل خاك ہے يا يہ كہ نطفہ غذائوں سے تشكيل پاتا ہے لہذا يہ بھى خاك سے ہے _

۷_خاك كى پستى سے مكمل اعضاء بننے تك انسان كى كامل پر تخليق سفر اور ايك مرد (انسان ) كى فعاليت يہ سب الله تعالى كى طرف توجہ پيدا كرنے كا باعث ہے_ا كفرت بالذى خلقك من تراب ثم من نطفه ثم سوىك رجل

''تسويہ'' سے مراد اعتدال ہے_ (تاج العروس ) ''سوّاك رجلاً'' يعنى تجھے ايك مرد كى شكل ميں معتدل بنايا _

۸_انسان كا ماں كے رحم ميں مجسم ہونے سے پہلے اپنى پستى اور حقارت سے غفلت ' اس كے غرور اور اپنے آپ كو برتر سمجھنے كا باعث ہے_أنا أكثر منك مالاً وأعزّنفراً ا كفرت بالذى خلقك من تراب ثم من نطفة

۹_انسان كى خاك سے تخليق، نطفہ اور معتدل حالت ميں بناوٹ، قيامت كے بر پا ہونے اور اس كو بعيد سمجھنے كے شبھہ كے دور ہونے پر روشن اور كفايت كى حد تك دلائل ہيں _وما ا ظنّ الساعة قائمة ا كفرت بالذى خلقك من تراب

مرد مؤمن كا مالدار شخص كو جملہ ''ا كفرت بالذي '' كے ساتھ جواب، اس چيز سے حكايت كر رہا ہے كہ اس كى طرف سے ''وماا ظن ...'' كے ذريعہ معاد كا انكار ہوا تھا وہ اس حوالے سے تھا كہ وہ موت كے بعد زندگى كو بعيد سمجھتا تھا _ لہذا مرد مؤمن، الله كى قدرت كوبيان كرنے اور انسان كى پچھلى حالت خاك اور نطفہ ہونے كو بيان كرنے كے ساتھ اس شبھہ كو دور كر رہا ہے اور الله كى قدرت و طاقت كو بيان كر رہا ہے_

الله تعالى :الله تعالى كى قدرت كے دلائل ۹

انسان :انسان كى خلقت ۹;انسان كى خلقت كے مراحل ۶،۷;خاك سے انسان ۶، ۹;نطفہ سے انسان ۶، ۹

تكبر:_تكبر كے آثار ۲;تكبر كے اسباب ۸

۴۱۰

دنيا پرستي:دنيا پرستى كے آثار ۲، ۳

ذكر :الله تعالى كے ذكر كا پيش خيمہ ۷

عقيدہ :پسنديدہ عمل ۴

غفلت :الله سے غفلت كے آثار ۳;غفلت كے آثار ۸; نعمت كے سرچشمہ سے غفلت ۳

كافر :كفر كا باعث ۲;كفر كى نشانياں ۳

گمراہ افراد:گمراہوں پر اعتراض ۴;گمراہوں سے گفتگو ۴;گمراہوں كو ہدايت كى روش ۴

معاد :معاد كو جھٹلانے كے آثار ۲;معاد كے دلائل ۹;معاد ميں شك كے آثار ۲

مغرور باغ والا :مغرور باغ والے كا ہم نشين ۱;مغرور باغ والے كى ہدايت ۱;مغرور باغ والے كے ساتھ گفتگو ۱;مغرور باغ والے كے ساتھ ہم نشينى ۱

ہم نشينى :ہم نشينى كے احكام ۵

آیت ۳۸

( لَّكِنَّا هُوَ اللَّهُ رَبِّي وَلَا أُشْرِكُ بِرَبِّي أَحَداً )

ليكن ميرا ايمان يہ ہے كہ اللہ ميرا رب ہے اور ميں كسى كو اس كا شريك نہيں بناسكتا ہوں (۳۸)

۱_مؤمن شخص (نمونہ ايمان) نے دنيا پرست مالدار شخص كے كافرانہ عقيدہ اور خيال سے بيزارى كا اظہار كيا _

لكنّا هو الله ربّي

۲_مؤمن شخص نے الله واحد كى ربوبيت كا اعتراف اور شرك سے بےزارى كا اظہار كرتے ہوئے مالدار

مغرور شخص كے منحرف خيالات سے اپنا عقيدہ، ممتاز كيا_لكنّا هوالله ربى ولا ا شرك بربّى احدا

''لكنّا'' اصل ميں ''لكن ا نا '' تھاتو ''ا نا ''كے ہمزہ كے حذف ہونے كے بعددونوں نون كے مدغم ہونے بعد، دونوں كلموں كو ايك كلمہ كى صورت ميں لكھا گيا _

۳_مؤمن شخص اپنے عقيدہ ميں ثابت قدم او رمستحكم ہے جبكہ كافر، شك وترديد اور تزلزل كا شكار ہے_

مإظنّ ومإظنّ لكنّا هوالله ربّي

دنيا پرست اور نمونہ كافر كى آيت ميں كلام ترديد كے ساتھ ہے لہذااس كى بات كے نقل كرنے ميں دو مرتبہ كلمہ'' ظنّ'' او رايك

۴۱۱

مرتبہ'' لئن ''استعمال ہوا ہے جبكہ نمونہ مرد مؤمن نے محكم انداز سے اپنے عقيدہ كو بيان كيا ہے اور اپنا عملى راستہ واضح كيا ہے_

۴_الله تعالى ، انسان اور كائنات كا تنہا، مالك اور مدبّر ہے _لكنّاهو الله ربي

۵_توحيد كالازمہ يہ ہے كہ الله تعالى كى ربوبيت ميں ہرقسم كے شرك كرنے سے پرہيز كيا جائے _

لكناّ هوالله ربى وألا شرك بربّى احدا

۶_دنياوى نعمتوں كو زوال پذير نہ جاننا اور ان كى تخليق اور زوال ميں الہى كردار كو نظر انداز كرنا ربوبيت ميں شرك كا باعث ہے_لكنّا هو الله ربى ولا أشرك بربّى احدا

۷_الہى ربوبيت كى طرف توجہ اور اس كا ديوار وجود پر نقوش كى تخليق كرنا ايك اہم كردار كى حامل ہونے كے ساتھ ساتھ توحيد كى طرف ميلان بھى پيدا كرتى ہے_لكنا هوالله ربى ولا أشرك بربّى احدا

آيت ميں ''ربّ'' كا تكرار، مؤمن شخص كى الله تعالى كى ربوبيت پر گہرى توجہ كو بتا رہى ہے اور اس تكرار سے معلوم ہوتا ہے كہ دوسرى الہى صفات ميں ربوبيت كى صفت پر توجہ، شرك سے پرہيز ميں خاص اثر ركھتى ہے_

۸_دنياوى مسائل سے آسائش اور بدمستى ميں پڑنے كا سب سے بڑا خطرہ، شرك اور الله تعالى كى ربوبيت سے غفلت ہے _لكنّا هوالله ربّى ولا أشرك بربّى احدا

مؤمن شخص نے مغرور مالدار شخص سے اپنے آپ كو جدا كرنے كے لئے دو نكتوں

كى طرف اشارہ كيا :

۱_الله كى ربوبيت

۲_شرك كانہ ہون

تو اس تعبير كے ساتھ، مغرور مالدار شخص كو الله سے غفلت اور شرك ميں مبتلا ہونے پر خبردار كيا ہے_

۹_دوسروں پر بھروسہ ، دنيا پرستى اور اسى بنا پر نظريہ قائم كرنا، شرك ہے_

أنّا أكثر منك مالاً وأعزّ نفراً لكنّا هوالله ربى ولا أشرك بربى احدا

آسائش:آسائش كے نقصانات ۸

اسماء و صفات الله : ۴/اقرار:توحيدكا اقرار ۲

۴۱۲

الله تعالى :الله تعالى كى ربوبيت ۸،۴;اللہ تعالى كى مالكيت ۴;اللہ تعالى كے مختصّات۴;

انسان:انسان كا مالك ۴;انسانوں كا مربى ۴

ايمان :توحيد پر ايمان كا پيش خيمہ

بھروسہ :غير خدا پر بھروسہ ۹

بيزارى :شرك سے بيزارى ۲;مغرور باغ والے سے بيزارى ۱

تخليق:تخليق كا مالك ۴;تخليق كا مربى ۴

توحيد:توحيد كے آثار ۵;توحيد ربوبى ۴

دنيا پرستى :دنيا پرستى كے آثار ۹;دنيا پرستى كے نقصانات ۸

ذكر :الله تعالى كى ربوبيت كے ذكر كے آثار ۷;كائنات كے مربى كے ذكر كے آثار ۷

شرك:شرك ربوبى سے پرہيز ۵;شرك ربوبى كا پيش خيمہ ۶، ۸;شرك ربوبى كے موارد ۹

غفلت :الله سے غفلت كا پيش خيمہ ۸;اللہ سے غفلت كے آثار ۶

كفار :كفار كا تزلزل ۳;كفار كا شك ۳;كفار كى صفات ۳

مغرور باغ والا :مغرور باغ والے كا عقيدہ ۱;مغرور باغ والے كا كفر ۱;مغرور باغ والے كا قصہ ۱،۲;مغرور باغ والے كے ہم نشين كا اقرار ۲;مغرور باغ والے كے ہم نشين كى بيزارى ۱،۲;مغرور باغ والے كے ہم نشينى كى توحيد ۲

مؤمنين :مؤمنين كى ثابت قدمى ۳;مؤمنين كى صفات ۳

نظريہ كائنات :توحيد كے حوالے سے نظريہ كائنات ۴

نعمت :دنياوى نعمتوں كى جاودانگى ۶;نعمت كا سرچشمہ ۶

۴۱۳

آیت ۳۹

( وَلَوْلَا إِذْ دَخَلْتَ جنّاتكَ قُلْتَ مَا شَاء اللَّهُ لَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ إِن تُرَنِ أَنَا أَقَلَّ مِنكَ مَالاً وَوَلَداً )

اور ايسا كيوں نہ ہوا كہ جب تو اپنے باغ ميں داخل ہوتا تو كہتا ما شاء اللہ اس كے علاوہ كسى كے پاس كوئي قوت نہيں ہے اگر تو يہ ديكھ رہا ہے كہ ميں مال اور اولاد كے اعتبار سے تجھ سے كم تر ہوں (۳۹)

۱_مغرور مالدار شخص،كاموں ميں الله تعالى كى مشيت كے بنيادى كردار پر توجہ نہ كرنے پر، مؤمن شخص كى سرزنش كا مستحق ٹھہرا _ولولا قلت ماشاء الله

۲_نعمت كے حاملين افراد، خلقت نعمت كے واحد سرچشمہ كى طرف توجہ ركھيں اور نعمتوں سے قلبى لگائو اور الله كى ياد سے غفلت سے پرہيز كريں _ولولا إذ دخلت جنّاتك قلت ماشاء الله لا قوة إلّا بالله

۳_اللہ تعالى جو چاہے ، وہى ہوگا _ماشاء الله ''ماشاء الله '' ميں ''ما'' موصولہ اور مبتداء ہے اس كى خبر'' كائن''يا اس سے ملتى جلتى چيز ہے تو جملہ كامطلب يوں ہوگا كہ : جو الله نے چاہاتھا وہى ہوگا_

۴_تمام طاقتيں الله تعالى كے ساتھ وابستہ ہيں _لاقوّة إلّا بالله ''لا قوة إلّا بالله '' كا جملہ ''لا'' نفى جنس اور حرف ''إلّا'' كے ساتھ حصر كا فائدہ دے رہا ہے يعنى الله تعالى كى طاقت كے علاوہ كوئي طاقت وجود نہيں پاسكتى _

۵_مظاہر طبيعت كى تخليق اور فعاليت، الہى مشيت اور طاقت كى بناء پر ہے_

ولولا إذ دخلت جنّاتك قلت ماشاء الله لاقوة إلّا بالله

۶_تمام تر كائنات الله واحد كى مرضي، كنٹرول اور

۴۱۴

طاقت كے تحت ہے_ماشاء الله لاقوة الاّ بالله

۷_الله تعالى كى مطلق طاقت اور قدرت ،تمام كائنات پر اس كے ارادہ كے غلبہ كى تائيد كرتى ہے _

ماشاء الله لاقوة الاّ بالله ''لاقوة ...'' كا بيان ،علت كى مانند ہے چونكہ كائنات ميں سوائے پروردگار كى طاقت كے كوئي اور طاقت نہيں ہے_ پس اس كى مشيّتكے علاوہ كوئي اور ارادہ ،كائنات پر حاكم نہيں ہے_

۸_صرف قلبى عقيدہ پر اكتفاء نہ كرتے ہوئے زبان پر توحيدى عقائد كا جارى كرنا ضرورى ہے _

لولا قلت ماشاء الله لاقوة الاّ بالله

۹_الله تعالى كى نفوذ پيدا كرنے والى مشيت اور غالب طاقت پر توجہ، انسان كو دنياوى اموال پر غرور كرنے اور انہيں ابدى سمجھنے سے روكتى ہے_ولولا إذ دخلت جنّاتك قلت ماشاء الله لاقوة الاّ بالله

۱۰_نعمتوں كا مشاہدہ كرتے ہوئے'' ماشاء الله لا قوّة الاّ بالله'' كہنا ايك شائستہ اور ضرورى كام ہے _

ولولا إذ دخلت جنّاتك قلت ماشاء الله لاقوة الاّ بالله

۱۱_مال و اولاد كى كمى كى بناء پر، مؤمن شخص ميں احساس شكست اور احساس كمترى پيدا نہيں ہوا_إن ترن أنا اقلّ منك مالاً وولد بعد والى آيت ميں جملہ ''فعسى ربيّ '' شرط كا جواب اور مؤمن شخص كى الله تعالى كى عنايت پر اميد ركھنے سے حكايت كر رہا ہے_

۱۲_تمام چيزوں كا الله تعالى كى مشيت اور قدرت كے مطابق جارى وسارى ہونے پر توجہ، مال و اولاد پر فخر اور دوسروں سے حقارت آميز سلوك كرنے سے منع كرتى ہے_ولولا إذ دخلت جنّاتك قلت ماشاء الله لاقوة الاّ بالله إن ترن أنا _قل منك مالاً وولدا

۱۳_مؤمنين، الله تعالى كى مشيت اور طاقت پر اعتماد كرتے ہيں نہ كہ مال اور اولاد پر _

لولا ...قلت ماشاء الله لاقوة إلّا بالله إن ترن أنا أقل منك مالاً وولدا

اقرار :توحيد كا اقرار كرنے كى اہميت ۸

الله تعالى :الله تعالى كى قدرت كے آثار ۵،۶،۷ ;اللہ تعالى كى مشيت ۳;اللہ تعالى كى مشيت كا غلبہ ۷;اللہ تعالى كى مشيت كے آثار ۵،۶ تكبر:تكبر كے موانع ۹

توحيد:

۴۱۵

توحيد افعالى ۴;توحيد ربوبى ۶

توكل :الله تعالى كى قدرت پر توكل ۱۳;اللہ تعالى كى مشيت پر توكل ۱۳توكل كرنے والے : ۱۳

دنيا پرستى :دنيا پرستى سے پرہيز ۲;دنيا پرستى سے مانع ۹

ذكر:الله تعالى كى حاكميت كے ذكر كے آثار ۱۲; الله تعالى كى مشيت كے ذكر كے آثار ۹; قدرت خدا كے ذكر كے آثار ۹;منعم كے ذكر كى اہميت ۲; ماشاء الله ۱۰;نعمت كے ذكر كے آداب ۱۰

طبيعت :طبيعت كى تخليق ۵

غفلت:غفلت سے پرہيز ۲;اللہ تعالى كى مشيت سے غفلت ۱

فخر كرنا :فخر كرنے سے مانع ۱۲

كائنات:كائنات كى تدبير كا سرچشمہ۶

قدرت :قدرت كا سرچشمہ ۴

مادى وسائل :مادى وسائل كى جاودانگى ۹

مغرور باغ والا:مغرور باغ والے كا قصہ ۱،۱۳;مغرور باغ والے كو سرزنش۱;مغرور باغ والے كى غفلت ۱;مغرور باغ والے كے ہم نشين كا توكل ۱۳; مغرور باغ والے كے ہم نشين كى شخصيت ۱۱ ; مغرور باغ والے ہم نشين كى غربت ۱۱; مغرور باغ والے كے ہم نشين كى مذمتيں ۱

موجودات :موجودات كى خلقت ۳

نظريہ كائنات :توحيدى نظريہ كائنات ۴،۶;نظريہ كائنات اور آئيڈيالوجى ۳

نعمت :نعمت كے شامل حال لوگوں كى ذمہ داري

۴۱۶

آیت ۴۰

( فَعَسَى رَبِّي أَن يُؤْتِيَنِ خَيْراً مِّن جنّاتكَ وَيُرْسِلَ عَلَيْهَا حُسْبَاناً مِّنَ السَّمَاءِ فَتُصْبِحَ صَعِيداً زَلَقاً )

تو اميدوار ہوں كہ ميرا پروردگار مجھے بھى تيرے باغات سے بہتر باغات عنايت كردے اور ان باغات پر آسمان سے ايسى آفت نازل كردے جو سب كو خاك كردے اور چيٹل ميدان بنادے (۴۰)

۱_مرد مؤمن نے اپنے پروردگار پر اميد ركھتے ہوئے مغرور مالدار كے باغ سے بڑھ كر نعمت كى آرزو كى _

فعسى ربّى أن يوتين خيراً من جنّاتك

۲_دنيا پرستوں كے مادى وسائل كى نسبت، مؤمن اچھے مستقبل اور عاقبت كے بارے ميں پر اميد تھا_

فعسى ربّى أن يوتين خيرا

مرد مؤمن كى''عسى ربيّ'' سے مراد ،ممكن ہے آخرت كے ثواب كا انتظار ہو ' زيادہ اولاد كى آرزو نہ كرنا اور جملہ ''ہنالك الولاية للّہ '' اورعبارت ''خير عقباً'' جو كہ ۴۴ آيت ميں ہے اس معنى كا احتمال دے رہى ہے _

۳_پروردگار كى ربوبيت كا تقاضا ہے كہ دنيا سے قلبى لگائو ركھنے والے مغرور اور مشركين سے نعمت كو سلب كياجائے اور موحدين كو ان سے بڑھ كر نعمت عطا كى جائے_فعسى ربّى أن يوتين خيراً من جنّاتك ويرسل عليها حسباناً من السمائ

۴_انسان كا الہى نعمتوں كو پانا، الله تعالى كى مرضى كى بناء پر ہے نہ كہ كسى كا ذاتى استحقاق _

فعسى ربّى ان يوتين خيراً من جنّاتك

كلمہ ''عسى '' اميد ركھنے كو بتا رہا ہے اور يہ اميد ركھنے كا اظہار مغرور ومالدار كے اپنى لياقت اور استحقاق پر يقين كے مد مقابل ہے كہ جس نے كہا تھا'' لئن رددت إلى ربّى لا جدنّ خيراً''

۵_دنيا كے مادى وسائل، ناپايدار زوال پذيراور تباہ وبرباد ہونے كے خطرہ ميں ہيں _

۴۱۷

فعسى ربّى أن يرسل عليها حسباناً من السمائ

۶_ايك خوبصورت اور زرخيز باغ كا كفر اور دوسروں پر فخر وغرور كرنے كے نتيجہ ميں الہى عذاب كے ذريعے ايك لاحاصل چٹيل ميدان ميں تبديل جانا، ممكن امر ہے_فعسى ربّى ...يرسل عليها حسباناً من السماء فتصبح صعيداً زلقا

''صعيد'' يعنى سطح زمين اور ''زلق'' يعنى بغير نباتات كے ہونا

۷_مادى نعمتوں كے زوال كا امكان، مغرور دنيا پرستوں كے لئے خطرے كا اعلان ہے_

يرسل عليها حسباناً من السماء فتصبح صعيداً زلقا

۸_الہى عذاب، حساب وكتاب كے ساتھ نازل ہوتا ہے_يرسل عليها حسباناً من السمائ

''حسبان'' حساب كے معنى اور آگ وعذاب كے معنى ميں آيا ہے_ اگر حساب كے معنى ہو تو آيت ميں عذاب سے كنايہ ہوگا_ كلمہ ''حسبان'' كا عذاب سے كنايہ كے طور پر استعمال ہونا، ہوسكتا ہے كہ الله تعالى كى طرف عذاب كے حساب اور دقت كے ساتھ ہونے كو بيان كررہا ہو_

۹_وہ كفار جو مؤمنين پر اپنے فخرو غرور كا اظہار كرتے ہوں ان سے نعمت كے سلب كى آرزو ، ايك پسنديدہ اور درست آرزو ہے _فعسى ربيّ أن يرسل عليهاحسبانا

۱۰_زمين كا سرسبز ہونا يا لاحاصل ہونا الله تعالى كى مرضى اور ارادہ كى بناء پر ہے_فعسى ربى أن يرسل عليها حسبانا

آرزو:پسنديدہ آرزو ۹;فخر كرنے والوں سے سلب نعمت كى آرزو ۹;كفار سے سلب نعمت كى آرزو ۹;نعمت كى آرزو ۱

الله تعالى :الله تعالى كى ربوبيت كے آثار ۲;اللہ تعالى كى مشيت كے آثار ۴،۱۰;اللہ تعالى كے ارادہ كے آثار ۱۰;اللہ تعالى كے عذاب ۶;اللہ تعالى كے عذابوں كا قانون كے مطابق ہونا ۸

اميد ركھنا :اچھے انجام پر اميد ركھنا ۲

باغات:باغات كا ويرانوں ميں تبديل ہونا ۷

تكبر كرنے والے:تكبر كرنے والوں كو خبردار كياجانا ۷

دنيا پرست لوگ :دنيا پرست لوگوں كو خبردار كياجانا ۷

زمين :زمين كے سرسبز ہونے كا سرچشمہ ۱۰; زمين كے لاحاصل ہونے كا سرچشمہ ۱۰

۴۱۸

فخر كرنا :فخر كرنے كے آثار ۶

فخر كرنے والے :فخر كرنے والوں كى محروميت ۳

كفر:كفر كے آثار ۶

مشركين :مشركين كى دنيا پرستي۳;مشركين كى محروميت ۳

مغرور باغ والا :مغرور باغ والے كا قصہ ۱;مغرور باغ والے كے ہم نشين كا اميد ركھنا۱

موحدين:موحدين پر نعمت كا زيادہ ہونا ۳

مؤمنين :مؤمنين كا اميد ركھنا ۲

نعمت :دنياوى نعمتوں كى ناپائيدارى ۵;نعمت سے محروم افراد ۳;نعمت كا معيار ۴;نعمت كے سلب كا امكان ۶، ۷;نعمت كے شامل حال افراد ۳

آیت ۴۱

( يُصْبِحَ مَاؤُهَا غَوْراً فَلَن تَسْتَطِيعَ لَهُ طَلَباً )

يا ان باغات كا پانى خشك ہوجائے اور تو اس كے طلب كرنے پر بھى قادر نہ ہو (۴۱)

۱_مرد مؤمن نے مغرور مالدار شخص كو اس كے باغ اور كھيتى ميں پانى كے زمين ميں اتر جانے اور عذاب الہى سے ان كے خشك ہوجانے كے خطرہ سے خبردار كيا _أو يصبح ماؤها غورا

''غور'' مصدر اور معنى ''غائر'' (نيچے اترجانے والا) دے رہا ہے_ مصدر كو اسم فاعل كے مقام پر استعمال كرنا عربى زبان ميں مبالغہ كے ليے ہے_

۲_طبيعت كے مظاہر ،اللہ تعالى كے ارادہ كے مد مقابل، مغلوب ہيں _فتصبح صعيداً زلقاً _ أو يصبح ماؤ ها غورا

باغ اور كھيتى كا بنجر زمين ميں تبديل ہوجانا اور عذاب الہى كے نازل ہونے سے پانى كا نيچے اترجانا، اس حقيقت كو واضح كر رہا ہے كہ تمام طبيعى اسباب اور علل الله تعالى كے ارادہ كے مد مقابل، مغلوب اور مستقل نہيں ہيں _

۳_سطح زمين پر پانى كا جارى اور مہيا ہونا، الله تعالى كى نعمات ميں سے ہے اور زمين كے آباد ہونے كے اہم اسباب ميں سے ہے_او يصبح ماؤ ها غوراً فلن تستطيع له طلب

۴۱۹

۴_مرد مؤمن نے مغرور مالدار شخص كو نيچے اترے ہوئے پانى تك اس كے پہنچنے كى عاجزى كو بيان كرتے ہوئے اسے نعمتوں كے الله تعالى كى مشيت سے تعلق ركھنے سے آگاہ كيا _لولا قلت ماشاء الله اويصبح ماؤها غوراً فلن تستطيع له طلب

۵_انسان، الله تعالى كے ارادہ كے مد مقابل عاجز ہے_فتصبح صعيداً زلقاً أو يصبح ماؤها غوراً فلن تستطيع له طلبا

''لن'' ہميشہ كے لئے نفى كرنے كى آتا ہے _ جملہ'' لن تستطيع له طلباً'' يعنى اگر الله تعالى چاہے كہ پانى كو نيچے اتار دے تو كوئي اسے تلاش كرتے ہوئے نہيں پاسكتا_

۶_پانى اور پانى كے منابع كا نيچے چلا جانا، ان كفار كے لئے الہى عذابوں ميں سے ہے كہ جو خود پر غرور كرتے ہيں اور دوسرے كے سامنے فخر كا اظہار كرتے ہيں _او يصبح ماؤها غوراً فلن تستطيع له طلبا

''يصبح ، ''فتصبح'' پر عطف ہے اور''يرسل عليها حسباناً'' كا ايك اور نتيجہ ہے _ ''من السمائ'' كى قيد ايسے عذاب كے حوالے سے كہ جہاں پانى نيچے اتر جاتا ہے اس كے الہى ہونے كو بيان كر رہى ہے نہ كہ آسمان سے نازل ہونے كو بيان كر رہى ہے_

آباد كرنا :آباد كرنے كے اسباب ۳

الله تعالى :الله تعالى كا ارادہ ۵;اللہ تعالى كى سزائيں ۶; الله تعالى كى مشيت كے آثار ۴; الله تعالى كى نعمات ۳;اللہ تعالى كے ارادہ كا غلبہ ۲;اللہ تعالى كے عذاب ۱

انسان :انسان كا عجز ۵//پاني:پانى كے فوائد ۳;پانى كے منابع كا خشك ہونا ۶

زمين :زمين ميں پانى كا اتر جانا ۱//طبيعت :طبيعت كا مغلوب ہونا ۲

فخر كرنا :فخر كرنے كى سزا ۶

كفار:مغرور كفار كى سزا ۶

مغرور باغ والا :مغرور باغ والے كا عجز ۴;مغرور باغ والے كا قصہ ۱، ۴;مغرور باغ والے كو خبردار كرنا ۱; مغرور باغ والے كے ہم نشين كا خبردار كرنا۱;مغرور باغ والے كے ہم نشين كى تعليمات ۴

نعمت :پانى كى نعمت ۳;نعمت كا سرچشمہ ۴

۴۲۰

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

جملہ''قال كذلك '' يعنى ''قال الله إلامر كما وعدتك'' يا پھر''قال الله الامر كما قلت '' ہے پہلى صورت ميں خداوند عالم اپنے گذشتہ وعدہ كى تاكيد كررہاہے كہ'' اى ذكريا جيسا كے ميں نے كہا ہے ہر صورت ميں تيرے ہاں بيٹے كى ولادت ہوكر رہے گى اور دوسرى صورت ميں خدا ند عالم نے حضرت يحيي(ع) كى ولادت كى ولادت كے موانع كى تصديق كى ہے يعنى حقيقت حال اسى طرح ہے جيسا كہ تو نے كہا ہے يعنى يحيى كى ولادت كے عادى اسباب موجود نہيں ليكن تيرے پروردگار نے كہاہے كہ يہ كام ميرے ليے آسا ن ہے_

۲_ بوڑھے باپ اور بانجھ ماں سے بچے كو پيدا كرنا، خداوند كريم كے ليے انتہائي آسان كام ہے_قال ربك هو عليّ هيّن

۳_ طبعى قوانين اور عادى اسباب، خداوند عالم كى قدرت اور ارادہ كو محدود نہيں كرتے_قال كذلك قال ربك هو على هيّن

۴_ دنياوى حوادث ميں طبعى اسباب ، علت تامہ كى حيثيت نہيں ركھتے_قال كذلك قال ربك هو على هيّن

۵_ طبعى اسباب اور عوامل كو مدنظر ركھنا،خداوندعالم كے ارادہ و تقاضا كے ليے حجاب ہے_أنى يكون غلام هو على هيّن

۶_حضرت يحيى (ع) كى ولادت ايك معجزانہ اور غير معمولى بات تھي_قال كذلك قال ربك هو على هيّن

۷_حضرت زكريا (ع) كى خداوند عالم كى ربوبيت كى طرف توجہ كرنے سے انہيں يہ اطمينان حاصل ہوگيا كہ خداوند عالم كے ارادہ اور تقاضا سے ان كى بانجھ بيوى كے ہاں بچے كى ولادت ہوسكتى ہے_قال ربك هو على هيّن جملہ'' ہو عى ہين'' قال رب كے بغير بھى مكمل طور پر معنى دے رہاہے ليكن اس جملہ كا مزيد اضافہ ہوجانا اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ يہ كسى معمولى انسان كا كلام نہيں ہے كہ اس كے بارے ميں غور و فكر كرنا شروع كرديں بلكہ يہ تيرے پروردگار كا فرمان ہے جس سے تجھے اس وقت خلق كيا ہے جس وقت تو كچھ بھى نہ تھا وہ اس وقت تجھے اور مدد عطاكرنے كى بھى صلاحيت ركھتاہے_

۸_حضرت زكريا (ع) كے ساتھ خداوند عالم كى گفتگو واسطہ كے ذريعے تھى اور براہ راست نہيں تھى _قال كذلك قال ربك هو على هيّن بعض نے كہا ہے كہ ''قال كذلك '' كا فاعل فرشتہ الہى ہے اور اسم ظاہر ''ربك'' كے آنے سے يہ نظريہ سامنے آيا ہے_

۹_خداوند عالم نے حضرت زكريا (ع) كو ان كى اپنى پيدائش كى طرف متوجہ كركے انہيں يہ بتاياہے كہ ان كے اور ان كے بانجھ زوجہ كے ہاں يحيى (ع) كى پيدائش كے سلسلہ ميں مطمئن ہوجائيں _

۶۰۱

هو على هيّن و قد خلقتك من قبل و لم تك شيئا

۱۰_اس بزم ہستى ميں انسان كى پيدائش ، خداوند عالم كے ارادہ سے ہوتى ہے اور وہ پيدائش سے قبل كچھ بھى نہيں ہوتا_

و قد خلقتك من قبل و لم تك شيئا

۱۱_ انسان كى پيدائش خداوند عالم كى قدرت كا ايك كرشمہ ہے_و قد خلقتك من قبل و لم تك شيئا

۱۲_انسان كى پيدائش ميں غور و فكر كرنے سے خداوند عالم كى طبعى اسباب و عوامل پر حاكميت و ارادہ قدرت كے تمام شكوك و شبہات ختم ہوجاتے ہيں _هو على هيّن و قد خلقتك من قبل و لم تك شيئا

۱۳_ خداوند عالم كى جانب سے معدوم مطلق كو خلقت كوجود عطا كرنا اسبات كى علامت ہے كے اس كى قدرت طبعى عوامل و اسباب ميں ہى منحصر نہيں ہے_هو على هيّن و قد خلقتك من قبل و لم تك شيئا

'' لم تك شيئاً'' سے مراد، معدوم مطلق ہے اور اس كى حضرت زكريا (ع) پر تطبيق كرنا كہ جن كى پيدائش حضرت آدم (ع) كى پيدائش پر منتہى ہوتى ہے جو خاك سے معرض وجود ميں آتے ہيں يہ زمانہ كے اعتبار سے ہے يعنى پہلى مخلوق عدم سے وجود ميں آئي ہے_

۱۶_جتنے انسان بھى روئے زمين پر پيدا ہوتے ہيں انہيں گذشتہ زمانے ميں پيدا كيا گيا ہے_و قد خلقتك من قبل و لم تكن شيئ جملہ حاليہ'' و لم تك شيئاً'' ممكن ہے زمانے كى طرف ناظر ہو يعنى انسان پيدا نہيں ہوتے تھے اس صورت ميں جملہ '' خلقتك من قبل'' كا اشارہ عالم زر كى طرف ہوگا يعنى ہم نے آپ كو گذشتہ دور ميں كسى بھى عادى سبب كے خلق كيا ہے_ اب كس طرح حضرت يحيى كى بوڑھے باپ اور بانجھ ماں سے پيدائش ميں شك كررہے ہو_

انسان:_كى خلقت ۱۱; _ كى خلقت كا سرچشمہ ۱۰

بشارت:حضرت يحيي(ع) كى ولادت كى ۱

پيري:_ ميں صاحب اولاد ہونا ۲

تذكر:حضرت زكريا (ع) كى خلقت كا _۹

تفكر:خلقت انسان ميں _ كے آثار ۱۲

خدا:_ كے ارادہ كے آثار ۷; _ كى مشيت كے آثار ۷; _ كا ارادہ مطلق ۳; _ كى بشارتيں ۱; _ كے تذكرات ۹; _ كے ارادہ كى حاكميت ۱۲; _ كى مشيت كى

۶۰۲

حاكميت ۱۲; _ كى قدرت ۲; _ كى قدرت مطلق ۳; _ كى قدرت كى علامات ۱۱; _ كى مطلق قدرت كى علامات ۱۳

ذكر:ربوبيت خدا كے آثار كا _۷; ارادہ خدا كے موانع ۷

زكريا(ع) :_ كا اطمينان ۱،۹; _ كى زوجہ كا حاصلہ ہونا ۷،۹; _ كو بشارت ۱; _ كو تذكر۹;_ كے اطمينان كے اسباب ۷; _ كى خداوند عالم كے ساتھ گفتگو كى خصوصيات ۸

شبہات:رفع شبہات كے اسباب ۱۲

عالم ذرّ:_ ميں خلقت ۱۴

عوامل طبيعي:_ كا كردار ۳،۴،۵،۱۲،۱۳

نظام عليت:۴،۱۳

يحيى (ع) :_ كى ولادت كا معجزہ۶

آیت ۱۰

( قَالَ رَبِّ اجْعَل لِّي آيَةً قَالَ آيَتُكَ أَلَّا تُكَلِّمَ النَّاسَ ثَلَاثَ لَيَالٍ سَوِيّاً )

انھوں نے كہا كہ پروردگار اس ولادت كى كوئي علامت قرار ديدے ارشاد ہوا كہ تمھارى نشانى يہ ہے كہ تم تين دنوں تك برابر لوگوں سے كلام نہيں كروگے (۱۰)

۱_ حضرت زكريا (ع) نے خداوند عالم سے علامات اور نشانياں اس ليے طلب كى ہيں تا كہ بچہ دار ہونے كے ليے وہ اور ان كى زوجہ اس وقت ميں مناسب طور پر آمادہ ہوسكيں _قال رب اجعل لى ء اية

حضرت زكريا (ع) نے خداوند متعال سے جو نشانى طلب كى ہے اس ميں تين احتمالات پائے جاتے ہيں ۱) يا تو خداوند عالم كى بشارت ميں شك ركھتے تھے اور اس كو دور كرنا چاہتے تھے ۲) زوجہ كے ساتھ ہمبسترى كے ليے آداب كو ملحوظ خاطر ركھنا چاہتے تھے۳) خداوند عالم كا شكريہ بجالانا چاہتے تھے آيت ميں احتمال سوم پر كسى قسم كى كوئي دليل موجود نہيں ہے اور بعض علما نے احتمال اول كو بھى رد كيا ہے كيوں كے انبياء كرام (ع) كسى قسم كا شك نہيں ركھتے لہذا انہوں نے دوسرے احتمال كو صحيح جاتاہے_ مندرجہ بالا معنى بھى اسى احتمال كى بناء پر ہے_

۲_ حضرت زكريا (ع) نے خداوند متعال سے علامات اور نشانياں اس ليے طلب كى ہے تا كہ يقين حاصل كريں كہ حضرت يحيى (ع) كى بشارت خداوند عالم كى جانب سے ہے_قال رب اجعل لى ء اية

۶۰۳

حضرت زكريا (ع) كى جانب سے خداوند متعال سے علامت طلب كرنا ممكن ہے اس وجہ سے ہو كہ وہ اطمينان حاصل كرنا چاہتے تھے كہ جو كچھ انہوں نے دريافت كياہے وہ وحى الہى ہے نہ كہ شيطانى وسوسہ ہے اس جيسے امور ميں انبياء كرام (ع) كا شك كرنے كا امكان اس وجہ سے ہے كہ كيوں كے وہ صرف خداوند عالم كى ہے امداد سے شيطان سے محفوظ رہتے ہيں اور خداوند كريم بھى كبھى انہيں علامات و نشانياں دكھا كر اور كبھى كسى دوسرے طريقہ سے مطمئن كرتاہے_

۳_ خداوند عالم سے زيادہ اطمينان كى خاطر علامت يا نشانى طلب كرنا، شان رسالت كے ساتھ متصادم نہيں ہے_

قال رب اجعل ليء اية قال ء ايتك الاتكلم الناس

۴_حضرت زكريا (ع) نے دعا كرتے وقت ربوبيت الہى كو مدنظر ركھاہے_قال رب

۵_ حضرت زكريا (ع) كى جانب سے تين دن تك لوگوں كے ساتھ گفتگو نہ كرنا، خداوند عالم كى طرف سے اولاد كے پيدا ہونے كى بشارت كى علامت تھي_قال اء يتك ا لا تكلم الناس ثلاث ليال سويا

كلمہ ''سويّا'' يا تو '' ثلاث ليالي'' كے ليے صفت ہے يا پھر'' ألا تكلم الناس'' كے ليے حال ہے دونوں صورتوں ميں اس سے مراد تين دن اور تين راتيں ہيں اور اس بات كى دليل سورة آل عمران كى آيت نمبر ۴۰ بھى ہے_ فعل '' ألاّ تكلم'' فعل نفى ہے اور اس سے مراد يہ نہيں ہے كہ حضرت زكريا (ع) كى شرعى ذمہ دارى سكوت تھا_ بلكہ يہ اس بات كى خبر دے رہاہے كہ حضرت زكريا (ع) نے تين دن تك سكوت اختيار كيا ہے_

۶_ جس وقت حضرت زكريا (ع) لوگوں كے ساتھ گفتگو پر توانائي نہيں ركھتے تھے اس وقت وہ خداوند متعال كى عبادت و نيايش ميں مشغول رہتے تھے_ألا تكلم الناس ثلاث ليال سويّا

كلمہ '' الناس'' يہ بتارہاہے كہ حضرت زكريا (ع) صرف لوگوں كے ساتھ گفتگو كرنے ميں توانائي نہيں ركھتے تھے نہ كہ اصلاً گفتگو ہى نہيں كرسكتے تھے (يعنى عبادت و ذكر الہى كرسكتے تھے)

۷_ حضرت زكريا (ع) كى طرف سے لوگوں كے ساتھ گفتگو كى توانائي نہ ركھنا خداوند عالم كى طرف سے معجزہ تھا نہ يہ كہ وہ كوئي زبانى يا جسمانى نقص ركھتے تھے_قال اء يتك الا تكلم الناس ثلاث ليال سويا '' سوّي'' اس شخص كو كہاجاتاہے جو اخلاق اور خلقت كے لحاظ سے حداعتدال ميں ہو يعنى نہ تو اس ميں كسى چيز كى كمى ہو اور نہ ہى كسى چيز كى زيادتى ہو (مفردات راغب)

۶۰۴

اس مبنا كى بنياد پر '' سويّا'' ''تكلم'' فعل كے فاعل جو حضرت زكريا (ع) ہيں كے ليے حال ہے تو پھر آيت مباركہ كا معنى كچھ يوں ہوگا كہ تو در حالانكہ صحيح و سالم ہے پھر بھى لوگوں كے ساتھ تين دن تك گفتگو كرنے پر قادر نہيں ہے_

۸_اولاد كے ليے ا نعقاد نطفہ كرتے وقت باپ كے ليے ضرورى ہے كہ وہ تزكيہ نفس بھى كيے ہوئے ہو اور روحانى و نفسانى لحاظ سے بعى اعلى منزل پر فائز ہو_قال رب اجعل لى ء اية قال ء اتيك ألا تكلم الناس ثلاث ليال سويا

حضرت زكريا (ع) نے جو نشانياں طلب كى ہيں اگر وہ انعقاد نطفہ كے زمانہ وقت كو مشخص كرنے كے ليے تھيں تو پھر ان نشانيوں كى خاص اہميت ہے اور آپ(ع) چاہتے تھے كہ خاص مسائل كو ملحوظ خاطر ركھيں اور آداب و احترام كا خيال ركھيں اور انعقاد نطفہ كے ليے نفسانى و روحانى لحاظ سے اعلى مقام پر فائز ہوں _

۹_ حضرت زكريا (ع) نے خداوند متعال كے ساتھ گفتگو كى ہے_قال رب قال ء ايتك

۱۰_ گذشتہ اديان ميں سكوت كے روزہ كا موجود ہونا_قال ء ايتك ألا تكلم الناس ثلاث ليال

'' ألا تكلم الناس'' فعل نفى ہے بعض مفسرين نے احتمال ديا ہے كہ تكلم كى نفي، جزاكے مقام انشاء پر ہے اور تكلم و گفتگو كو ترك كرنے خداوند متعال كى طرف سے حضرت زكريا (ع) كے ليے ايك اختيارى فعل اور شرعى ذمہ دارى تھى جو روزہ ركھناہے سے كنايہ ہے_ اور اس زمانہ ميں روزہ كے صحيح ہونے كى ايك شرط سكوت تھا_

۱۱_ انبياء كرام (ع) كے ليے بھى حقائق كو روشن كرنے كے ليے معجزہ سے كام ليا جانا_ء ايتك ألا تكلم الناس ثلاث ليال

۱۲_ لوگوں كے ساتھ گفتگو قطع كرنے سے فكرى باليدگى اور جنسى طاقت ميں اضافہ ہوتاہے_ا لا تكلم الناس ثلاث ليال

حضرت زكريا (ع) نے جو نشانياں طلب كى ہيں ان كا حضرت يحيى (ع) كے انعقاد نطفہ كے ساتھ تعلق ہے كيوں كہ حضرت زكريا (ع) كو بڑھاپے كى وجہ سے ايسے كام پر قادر نہ تھے اور تين دن تك سكوت اختيار كرنا ممكن ہے فكرى باليدگى اور جنسى طاقت كو بڑھانے كى خاطر ہو _ تا كہ انعقاد نطفہ ہوسكے _

۱۳_ خداوند عالم كا ارادہ، طبعى اسباب و عوامل پرحاكم ہے_قال رب اجعل ...اء ايتك ا لا تكلم الناس ثلاث ليال

۱۴_ حضرت زكريا (ع) كى داستان ميں ايك معجزہ كو دوسرے معجزہ كے ذريعہ ثابت كيا گيا ہے_

ء ايتك ألا تكلم الناس ثلاث ليال

۶۰۵

حضرت زكريا (ع) كا تين دن تك سكوت خود معجزہ ہے جو حضرت يحيى (ع) كى ولادت كو ثابت كررہاہے وہ بھى معجزہ ہے_

آيات خدا:_كى درخواست ۱،۲،۳

اطمينان:_ كے اسباب ۳

اعداد:تين كا عدد

الله تعالي:_ كے ارادہ كى حاكميت ۱۳

انسان :_ كى خلقت كے مراحل ۸

باپ:_ كے تزكيہ كے آثار ۸

بشارت:حضرت يحيي(ع) كى ولادت كي_ ۲

حقائق:_ كو بيان كرنے كے ا سباب ۱۱

دعا:_كے آداب ۴

ذكر:_ربوبيت خدا كا ۴

روزہ:آسمانى اديان ميں سكوت كا ۱۰

ذكريا (ع) :_ كے قصہ كا معجزہ ہونا ۱۴; _ كى زوجہ كا حاملہ ہونا ۱; _ كو بشارت ۵; _ كے تقاضے ۱،۲; _ كى دعا ۴; _ كا تكلم پر قادر ہونے ميں حيرانگى ۷;_كى عبادات ۶; _ كا گفتگو كرنے سے عاجز ہونا ۵،۶; _ كا قصہ ۱،۵،۶; _كى خداوند متعال كے ساتھ گفتگو ۹; _ كے قصہ كى خصوصيات ۱۴

عزلت:_ كے آثار ۱۲

عوامل طبيعي:_ كا كردار ۱۳

غريزہ جنسي:_ كے قوى كرنے كى راہ ہموار كرنا ۱۲

فكر:_ كو تمركز كے اسباب ۱۲

معجزہ:_ كا كردار ۱۱،۱۴

نبوت:مقام _ اور خداوند عالم كى نشانياں ۳

۶۰۶

نطفہ:_ كے انعقاد كى اہميت ۸

يحيى (ع) :_ كى ولادت ميں آيات الہى ۵

آیت ۱۱

( فَخَرَجَ عَلَى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرَابِ فَأَوْحَى إِلَيْهِمْ أَن سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيّاً )

اس كے بعد زكريا محراب عبادت سے قوم كى طرف نكلے اور انھيں اشارہ كيا كہ صبح و شام اپنے پروردگار كى تسبيح كرتے ہو (۱۱)

۱_ حضرت زكريا(ع) ، اپنے فرزند يحيى كى ولادت كے حوالے سے ديئے گئے وعدہ كے پورے ہونے كے وقت عبادت گاہ ميں تھے _فخر ج على قومه من المحراب

بنى إسرائيل كى محرابيں وہى ان كى مسجد يں تھيں جن ميں وہ نماز كيلئے جمع ہوا كرتے تھے (كتاب العين)

۲_ حضرت زكريا نے جب لوگوں كے ساتھ گفتگو ميں عاجزى كا احساس كيا تو عبادت گا ہ سے نكل كر لوگوں كے پاس آگئے _فخرج على قومه من المحراب

۳_ حضرت زكريا، تين روزہ سكوت كى مدت ميں صبح وشام كى عبادت كا وقت داخل ہونے كا لوگوں كو اشارہ سے اعلان كرتے تھے _فخرج على قومه من المحراب فا وحى إليهم أن سبّحوا بكرة وعشيّا

احتمال ہے كہ لفظ بكرہ ( اور عتيّاَ ) فعل'' خرج'' اور'' اوحي'' كيلئے ظرف ہے اس صورت ميں آيت كا مطلب يہ ہوگا چونكہ حضرت ذكريا عبادت كے وقت ہونے كے اعلان كى ذمہ دارى اپنے دوش پر ليئے ہوئے تھے تو ان تين دنوں ميں جبكہ دہ لوگوں سے بات نہيں كرسكتے تھے _ صبح اور عصر ميں ''سَبحُوا'' كے فرمان كو اشارہ كے ذريعے انہيں سمجھاتے تھے _

۴_ حضرت زكريا كے زمانہ ميں لوگوں نے عبادت كيلئے ايك معين جگہ قراردى تھى _فخرج على قومه من المحراب

۵_ خاص جگہ كا عبادت كيلئے انتخاب، ايك پسنديدہ بات ہے كہ جسكے آثار گذشتہ اديان ميں بھى موجود ہيں _

فخرج على قومه من المحراب

۶_ حضرت زكريا، كے ہم مذہب لوگوں كے معبد كا نام''محراب'' تھا _فخرج على قومه من المحراب

۷_عبادت اور الله تعالى سے رازو نياز، شيطان اور الله تعالى كى راہ ميں دوسرى ركاوٹوں سے نبرد آزما ہونے كا ميدان ہے _

۶۰۷

المحراب ( محراب)كى وجہ تسميّہ يہ بيان كى گئي ہے كہ انسان وہاں شيطان سے جنگ كرتا ہے اسى طرح اپنے اند ر حضور قلب پيدا كرنے كيلئے اپنے نفس سے لڑتا ہے ( مصباح)

۸_حضرت زكريا(ع) نے عبادت گاہ سے نكلنے كے بعد اپنى قوم كو يحيى (ع) كى ولادت كى خوشخبرى كے متحقق ہونے كے وقت كو سمجھا يا _أن سبّحو ظاہر يہ ہے كہ جو كچھ حضرت زكريا(ع) اپنى قوم سے چاہا تھا وہ ہونے والے واقعات سے مربوط ہے يعنى حضرت زكريا نے مسئلہ كو انہيں سمجھا ديا اور اسے مواقع پر الله كى تسبيح اور تنزيہ كى ياد دلائي_

۹_ حضرت زكريا(ع) ،سكوت كے روزوں كے شروع ہونے كے بعد اپنى قوم كو عبادت كے متعلقہ احكام، اشارہ اور رمز كے ذريعے واضح كرتے تھے _فأوحى إليهم أن سبّحو ( ا وحى ) كا فاعل زكريا او ر( إليہم ) كى ضمير، قوم كى طرف لوٹ رہى ہے ہر وہ چيز جو سيكھنے كے قصد كے ساتھ كسى بھى صورت ميں دو سرے كيلئے القاء ہو، اسے وحى كہتے ہيں ( مصباح) اور اس آيت ميں مراد اشارہ ہے_ سورہ آل عمران كى (اكتا سويں ) آيت اسى معنى پر شاہد ہے _

۱۰_حضرت زكريا كى قوم، عبادت كيلئے انكى كى طرف سے پيش كيے جانے والے احكام پر عمل پيرا ہوتى تھى _

فأوحى إليهم أن سبّحوا

۱۱_ حضرت زكريا(ع) ، كى قوم ان سے عبادت كے متعلقہ احكام دريافت كرنے كے ليئے عبادت گاہ كے باہران كے انتظار ميں رہتى تھي_خرج على قومه أن سبّحوا

( خرج عليہ ) اور ( دخل عليہ ) اس وقت كہا جاتا ہے كہ جب كوئي شخص داخل ہوتے يانكلتے وقت كسى اور كاسامنا كرتا ہے حضر ت زكريا سے تسبيح كرنے كا فرمان صادر ہونا بتاتا ہے كہ انكى قوم، عبادت گاہ كے باہر انكے احكام سننے كيلئے آكٹھا ہوتى تھى _

۱۲_ حضرت زكريا نے اشارہ كے ساتھ اپنى قوم سے چاہا كہ وہ صبح و شام الله تعالى كى تسبيح كيا كريں _فأوحى إليهم أن سبّحوا بكرة وعشي ( بكرة ) صبح كى نماز اور سورج طلوع ہونے كے درميان كے فاصلہ كو كہا جاتا ہے ( لسان العرب) ''عشيا ''سے مراد يا تو ظہر سے غروب تك كا وقت ہے يا دن كاآخرى حصہ ہے اور بعض اہل لغت سے دوسرے معانى بھى نقل ہوئے ہيں (لسان العرب)

۱۳_ حضرت زكريا (ع) كى قوم تسبيح و عبادت كرنے والے اورالہى لوگ تھے _فخرج على قومه أن سبّحوا

۱۴_ الله تعالى كے وجود پر عقيدہ اور اسكى عبادت و تسبيح

۶۰۸

بشركى قديم تاريخ ميں گذشتہ زمانے ميں بھى تھى _قومه أن سبحوا بكرة و عشيا

۱۵_ صبح اور آخر روز الله تعالى كى تسبيح كيلئے مناسب وقت ہيں _ان سجوا بكرة وعشيا

۱۶_ الله تعالى بوڑھے والد اور بانجھ والدہ كو فرزند عطا كرنے كے حوالے سے ہر قسم كى ناتوانى سے پاك و منزہ ہے _

أن سبحوا

۱۷_حضرت زكريا (ع) كا بڑھاپے ميں بچےّ والا ہونا بتاتا ہے كہ الله تعالى ہر قسم كے نقص و عجز سے منزہ ہے _

أن سبحوا

اسماو صفات :صفات جلال ۱۶

الله تعالى :الله تعالى اور عجز ۷; الله تعالى اور نقص ۱۷;اللہ تعالى كا منزہ ہونا ۱۶; الله تعالى كى پرسش كى تاريخ ۱۳;۱۴; الله تعالى كے منزہ ہونے كى علامات ۱۷

بانجھ:بانجھ كا بچے والا ہونا ۱۶

بڑھاپا:بڑھاپے ميں بچے والا ہونا ۱۶

تربيت:حضرت يحيى كى ولادت كى بشادت ۸

تسبيح :الله تعالى كى تسبيح ۱۴; الله تعالى كى تسبيح كا وقت ۱۵; الله تعالى كى تسبيح كے آداب ۱۵;صيح ميں تسبيح ۱۲; ۱۵; عصر ميں تسبيح ۱۲;۱۵

زكريا :زكريا حضرت يحيى كى ولادت كے وقت ۱،۲; ۸;زكريا كا اشارہ ۳،۹;زكريا كا خاموشى كا روزہ ۲، ۳، ۹;زكريا كا قصہ ۱،۲،۸،۹، ۱۱، ۱۲; زكريا كا كلام كرنے سے عجز ۲; زكريا كا محراب ۶ ;زكريا كى تعليمات۱۱; زكريا كى تعليمات ۱۰ ; ۱۲; زكريا كى عبادت گاہ ۱، ۱۱;زكريا كى عبادت گاہ كانام ۶;زكريا كے بچے والے ہونے كے آثار ۱۷

زكريا كى قوم :زكريا كى قوم كى تسبيحات ۱۲; زكريا كى قوم كى خدا پرستي۱۳; زكريا كى قوم كى عبادات ۱۱، ۱۳; زكريا كى قوم كى عبادت گاہ ۴، ۶; زكريا كى قوم كى عبادت كى كيفيت ۱۰/شيطان :شيطان سے جنگ كرنے كا مقام ۷

عبادت :الله تعالى كى عبادت ۱۴; صبح ميں عبادت ۳ ; عبادت كے وقت كا اعلان ۳;عصر ميں عبادت ۳

عبادت گاہ :آسمانى اديان ميں عبادت ۵; عبادت كا كردار ۷;عبادت گاہ كى اہميت ۵; عبادت گاہ كى تاريخ ۵

عقيدہ :الله تعالى پر عقيدہ ۱۴;عقيدہ كى تاريخ ۱۳;۱۴

۶۰۹

آیت ۱۲

( يَا يَحْيَى خُذِ الْكِتَابَ بِقُوَّةٍ وَآتَيْنَاهُ الْحُكْمَ صَبِيّاً )

يحيى كتاب كو مضبوطى سے پكڑ لو اور ہم نے انھيں بچپنے ہى ميں نبوت عطا كردى (۱۲)

۱_ حضرت زكريا (ع) كيلئے خداوند عالم كى بشارت اور وعدہ جناب يحيى كى معجزہ نما ولادت كے ذريعہ وقوع پذير ہوا_

نبشرك بغلام اسمه يحيى يا يحيى خذالكتب

۲_ حضرت يحيى وحى دريافت كرنے اور الله تعالى كے نزديك ايك ممتاز شخصيت كے مالك تھے _يا يحيى خذالكتب بقوة

يہ كہ ( يا يحيى ) كى پكار كس جانب سے تھى دو احتمال ہيں ۱_ الله تعالى كى جانب سے فرشتہ وحى كے وسيلہ سے تھى ۲_ حضرت زكريا كى اپنے بيٹے يحيى كو نصيحت _آيت كا ظاہر پہلے احتمال كى تائيد كررہا ہے لہذا مندرجہ بالا مطلب اسى بنا ء پر ہے _

۳_ الله تعالى نے حضرت يحيى كو آسمانى كتاب (تورات) كى ہر طرح سے مكمل سمجھ بوجھ ركھنے اور اس پرحتمى طور پرعمل كا فرمان ديا تھا _يحيى خذالكتب بقوة

( الكتاب) پر (الف و لام ) عہدكا ہے ذور يہاں پر ممكن ہے كہ مرا د وہى توارت ہواسيلے كہ يحيى پر كوئي اور كتاب نازل ہوئي يہ معلوم نہيں ہے الله تعالى كافر مان ( خذ ) سمجھ بوجھ اور مكمل تدبر سے كنايہ ہے اور لفظ ( بقوة ) ''خذ ''كے فاعل كيلئے حال ہے اس سے مراد مقام تحصيل علم اور مقام عمل ميں ہر توانائي سے كام لينا ہے _

۴_ معارف اور الہى شريعت كى حفاظت اور اس كے احكام كا اجرا ئ، سختى اورطاقت كى كا محتاج ہے _

خذالكتب بقوة

۵_ معاشرہ كى ہدايت اور شرعى احكام كے اجراء كيلئے الہى رہبروں كى سختى اور قاطعيت كا ضروى ہونا _

يايحيى خذالكتاب بقوة

۶_ علماء اور دينى رہبروں كى آسمانى كتابوں ميں عميق فكر كرنا اور اسكے مطابق اپنے كردار كو محكم كرنے كى ضرورت ہے_يايحيى خذالكتات بقوة

۷_ حضرت يحيى كے زمانہ ميں تورات ايسى كتاب تھى جسميں تحريف نہيں ہوئي تھى بلكہ الله تعالى كى طرف سے تائيد شدہ تھى _يايحيى خذالكتب

۶۱۰

چونكہ امكان ہے كہ يہاں ( الكتاب ) سے مراد تورات ہو تو اس صورت ميں اسكے حصول كيلئے الہى فرمان اس كے مطالب پر صحت كى مہر لگانے كے مترادف ہے

۸_ درست فكر اور حق كى شناخت كى قدرت، الله تعالى كى طرف سے يحيى كو بچپن ميں حاصل ہوئي تھى _

وأتيناه الحكم صبيا

( حكم ) كے ليئے مختلف معانى ذكر ہوئے ہيں بس ايك اسكا معنى ( علم وفہم ) ہے( لسان العرب) مندرجہ بالا مطلب اسى معنى كى بنياد پرہے

۹_اللہ تعالى نے حضرت يحيي(ع) كوبچپن ميں الہى احكام كو اجراء كرنے كى قدرت عطا كى تھى _وأتيناه الحكم صبي

مندرجہ بالا مطلب ميں ( حكم ) سے مراد حاكميت اور قضاوت كا منصب ہے ( قاموس ) ميں آيا ہے كہ حاكم وہ ہے جو حكم جارى كرے _

۱۰_حضرت يحيي(ع) بچپن ميں منصب قضاوت پر فائز تھے _وأتيناه الحكم صبيا

( حكم ) اپنے مختلف معانى ميں سے ايك معنى كے مطابق مصدر اور قضاوت كرنے كے معنى ميں ہے ( لسان العرب)

۱۱_ حضرت يحيى بچپن ميں فوق العادہ استعداد كے حامل تھے _وأتيناه الحكم صبيا

۱۲_ الله تعالى كى طرف سے انسان كو حكمت اور معنوى ومعا شرتى مقام كى عطا، عمر كے كسى خاص حصے سے مشروط نہيں ہے _وأتيناه الحكم صبي

۱۳_ آسمانى كتابوں ميں غورو فكر، حكمت و علم كے حصول كيلئے ايك ضرورى شرط ہے _يا يحيى خذ الكتب بقوة وأتيناه الحكم صبي جملہ '' أتيناہ'' جملہ''خذالكتاب بقوة ''كے ساتھ مرتبط ہے بعيدمعلوم نہيں ہوتا كہ جملہ ''خذالكتاب'' كا جملہ(اتيناه الحكم) كے ليے پيش خيمہ ہو

۱۴_على بن اسباط قال : را يت أباجعفر (ع) فقال يا علّى إن الله إحتج فى الا مامة بمثل ما احتج به فى النبوة فقال : وأتيناه الحكم صبياً ...'' فقد يجوزان يؤتى الحكمة و هوصبى (۱) على بن اسباط كہتے ہيں : ميں نے امام جوادعليہ السلام كو ديكھا انہوں نے

____________________

۱) كافى ج۱ ص۳۸۴ح۷، نوراالثقلين ج۲ ص۳۲۵،ح۳۲_

۶۱۱

...مجھے فرمايا: اے على ابے شك الله تعالى نے امامت كےمقام پر ايسے ہى استدلال كيا ہے جيسے نبوت كے مسئلہ ميں استدلال فرما يا ہے : ''وأتيناه الحكم صبياً '' لہذا يہ ممكن ہے كہ حكمت ايك بچے كو بھى دى جائے _

۱۵_عن النبى (ص) فى قوله ''وأتيناه الحكم صبياً'' قال : اعطى الفهم والعبادة وهو ابن سبع سنين (۱) پيغمبر اكرم (ص) سے الله تعالى كى اس كلام'' وأتيناہ الحكم صبياً'' كے بارے ميں روايت ہوئي كہ آپ نے فرما يا انہيں سات سال كى عمر ميں فہم و عبادت عطا كى گئي _

۱۶_قال رسول الله (ص) قال الله تعالى : ''و أتيناه الحكم صبياً يعنى الزهد فى الدنيا (۲) رسول اكرم(ص) سے روايت ہوئي كہ : الله تعالى نے فرمايا ہے''وأتيناه الحكم صبياً'' يعنى دنيا ميں انہيں زہد ديا _

آسمانى كتب :آسمانى كتب كا كردار ۶; آسمانى كتب ميں تدبر كے آثار ۱۳; آسمانى كتب ميں فكر كى اہميت ۶

الله تعالى :الله تعالى كى بشارت كا محقق ہونا ۱; الله تعالى كى عطا ۸;۹; الله تعالى كے اوامر ۳

امامت :بچپن ميں امامت ۱۴

توريت :توريت كى تاريخ ۷;توريت كى تعليمات پر عمل ۳; توريت كى فہم ۳; توريت ميں تحريف ۷; يحيى كے زمانے ميں تورات ۷

حكمت :بچپن ميں حكمت ۱۴; حكمت كے عطا ء ہونے كى شرائط ۱۲;۱۳

دين :دين پر عمل ۴; دين كى حفاظت ۴

دينى رہبر :دينى رہبروں كا ہدايت دنيا ۵;دينى رہبر وں كى قاطعيت ۵; دينى رہبروں كے عمل كا معيار ۶

روايت :۱۴; ۱۵; ۱۶

زكريا :زكريا كو بشارت ۱/علم :علم كى شرائط ۳

علماء :علماء كے عمل كا معيار ۶/قدرت :قدرت كے آثار ۴

قضاوت :

____________________

۱) الدراالمنشور ج۵ص۴۸۴_

۲) مكارم الاخلاق ص۴۴۷ بحارالانوار ج۷۴ص۹۴ ح۱_

۶۱۲

بچپن ميں قضاوت ۱۰

معنوى مقامات :معنوى مقامات كى شرائط ۱۲

نبوت :بچپن ميں نبوت ۱۴

يحيى :يحيى اور احكام كا اجرا ء ۹;يحيى كا بچپن ۸ ، ۹ ، ۱۰ ، ۱۱ ، ۱۵ ،۱۶; يحيى كا زہد ۱۶; يحيى كے علم كا سرچشمہ ۸;يحيى كو وحى ۲;يحيى كى استعداد ۱۱; يحيى كى خصوصيات ۱۱;يحيى كى شرعى ذمہ دارى ۳ ; يحيى كى عبادات ۱۵;يحيى كى فہم ۱۵; يحيى كى فہم كا سرچشمہ ۸; يحيى كى قاطعيت ۳; يحيى كى قدرت ۹; يحيى كى قضاوت ۱۰; يحيى كى نبوت ۲ ; يحيى كى ولادت كا معجزہ ۱; يحيى كے فضائل ۸; يحيى كے مقامات ۲، ۹،۱۰،۱۵

آیت ۱۳

( وَحَنَاناً مِّن لَّدُنَّا وَزَكَاةً وَكَانَ تَقِيّاً )

اور اپنى طرف سے مہربانى اور پاكيزگى بھى عطا كردى اور وہ خوف خدا ركھنے والے تھے (۱۳)

۱_ الله تعالى نے يحيى كو رحمت ومحبت كى نعمت سے نوازا_ء اتيناه و حنا ناً من لدنا

( حنان ) مصدر ہے اور اسكا مطلب شفقت اور مہربانى ہے ( مصباح) اسكى تنوين تفخيم كيلئے ہے يہ كلمہ گذشتہ آيت ميں ( الحكم ) پر عطف ہے _

۲_ الله تعالي،محبت و شفقت كا منبع ہے اور اسے بعض منتخب بندوں كو عطا كرنے والا ہے _وحناناًمن لدنا

( من لدّنا ) يہ بيان كررہا ہے كہ يحيى كوعطا ہونے والى عطوفت ذات اقدس كى رحمت و عطوفت كے چشمہ سے ہوئي تھى _

۳_ انسان كا دردمند و شفقت كے احساسا ت سے مالامال ہونا اسكى عظمت كا موجب ہے _وحناناً من لدنا

۴_ حضرت يحيى (ع) اللہ تعالى كى بارگاہ ميں مقرب اور اسكے محبوب بندوں ميں سے تھے _وحناناً من لدنّا

حضرت يحيي(ع) كومحبت كے عطا ہونے ميں چار قسم كے تصور ہيں كہ (حناناً من لدنا ) كى صفت ان تمام كے ساتھ سازگا ہے _ الله تعالى يا لوگوں كى يحيى سے محبت اور حضرت يحيي(ع) كى الله تعالى يا لوگوں سے محبت _ مندرجہ بالا مطلب ميں الله تعالى كى ان سے محبت كا ذكر ہے _

۶۱۳

۵_ حضرت يحيى الله تعالى كے ارادہ كے زير سايہ لوگوں كى اپنى نسبت گہرى محبت كے حامل تھے _

وحناناً من لدنا

اس مطلب ميں ( حنانا) سے مراد، لوگوں كى يحيي(ع) كى نسبت محبت ہے _

۶_دوسرے كى نسبت گہرى محبت اور شفقت ايك ضرورى اور پسنديدہ ترين الہى رہبروں كى صفت ہے _

و حنا ناً من لدنا

يہ كہ (أتيناه الحكم ) كے بعد سب سے پہلى صفت(حنانا) آئي ہے مندجہ بالا مطلب اس سے ليا گيا ہے _

۷_ حضرت يحيى (ع) الله تعالى كى عنايات كے زير سايہ اسكے عاشق اور اسكے اشتياق سے سرشار تھے_حناناً من لدن

اس مطلب ميں ( حنانا ) كى صفت اس محبت كو بيان كررہى ہے جو الله تعالى نے يحيى كو اپنى نسبت عطا كى ہے_

۸_حضرت يحيي(ع) ، الله تعالى كى خاص عنايات كے زير سايہ خصوصى صلاحيت ، رشد اور كمال كے حامل تھے_

ئاتينه و زكوة

لفظ'' زكاة'' '' صلاحيت'' '' پاكيزگى '' ''رشد كرنا'' مبارك اور تمجيد و تعريف كے معنى ميں استعمال ہوتاہے _( لسان العرب) ہر مقام پر اسكا مناسب معنى مراد لياجائے گا _

۹_ حضرت يحيي(ع) ، ہميشہ سے باتقوى تھے _وكان تقي ( تقياً) مادہ ( وقى ) سے صفت مشبہ ہے_ يہ راسخ اور ثابت ہونے پر دلالت كرتى ہے _اور لفظ ( كان ) بھى بہت سے مقامات پر اپنے اسم كى حالت كے ثابت ہونے پر دلالت كرتا ہے لہذا ( وكان تقياً) يعنى يحيى ہميشہ پرہيز گا ر تھے_

۱۰_ حضرت يحيي(ع) كا تقوى اور پرہيزگار ى انكى حكمت ،الہى محبت اور معنوى كمال سے بہرہ مند ہونے كا پيش خيمہ تھى _وحناناً من لدنا و زكوة وكان تقيا يہ كہ ( وكان تقيا ً) كا سياق آيت (واتينا ه الحكم ) كى پہلى تعبير سے مختلف ہے كہ يہاں تقوى كو خود يحيى كى طرف نسبت دى گئي ہے حنان اورزكات كو الله تعالى كى طرف نسبت دى گئي ہے يہ چيز واضح كررہى ہے كہ يحيى كا تقوى بعنوان عمل نفسى انكے الہى عطيا ت كے حامل ہونے كا پيش خيمہ تھا _

۱۱_حضرت يحيي(ع) ( اپنى الہى كتاب پر عمل اور الہى احكام كے اجرا ء كى ذمہ دارى ميں معمولى سى كوتاہى برداشت نہيں كرتے تھے _وكان تقيا گذشتہ آيت كے قرينہ كى بناپر ( تقياً) كا متعلق وہ ذمہ دارياں ہيں جو يحيى پرعائد تھيں اور انہوں نے اپنى ذمہ دارى كو اس طرح ادا كيا كہ اپنے ليے اسے الہى عذاب سے حفاظت اور بچاؤ كا ذريعہ قرار ديا _

۶۱۴

۱۲_ الہى تقوى كى رعايت، انسان كے رشد و كمال كا پيش خيمہ ہے _زكوة و كان تقي

۱۳_ عن أبى عبدالله (ع) فى قوله تعالى : (وحناناً من لدنا ) قال :إنّه كان يحيى إذا دعاقال فى دعائة: ''يارب يا الله '' ناداه الله من السماء لبيك يا يحيى سل حاجتك (۱) امام صادق (ع) سے الله تعالى كے كلام (حنانا ً من لدنا ) كے بارے ميں روايت نقل ہوئي ہے كہ بے شك يحيي(ع) جب دعا كيا كرتے تو اپنى دعا ميں كہتے تھے _ اے پروردگار اے خدا تو خداوند عالم آسمان سے انہيں ندا ديتا تھا لبيك اے يحيى اپنى حاجت طلب كرو _

الله تعالي:الله تعالى كے اراد كے آثار ۵; الله تعالى كے عطيات ۱;۲;۸

الله تعالى كے برگزيدہ بندے :الله تعالى كے برگزيدہ بندوں كى مہربانى ۲

الله تعالى كا لطف :الله تعالى كے لطف كے شامل حال افراد۷

الله تعالى كے محب:۷الله تعالى كے محبوب :۴

اہميتں :اہميتوں كا معيار ۳

تقوى :تقوى كے آثار ۱۳

دينى رہبر :دينى رہبروں كى مہربانى ۶; دينى رہبروں كے صفات---۶

روايت :۱۳

كمال :كمال كاپيش خيمہ ۱۲

مہربانى :مہربانى كى عظمت ۳; مہربانى كاسرچشمہ۲

يحيى :يحيى سے محبت كاسرچشمہ ۵; يحيى كا اپنى ذمہ دارى پر عمل ۱۱;ييحيى كا تقرب ۴; يحيى كا كمال ۸;يحيى كى حكمت كا پيش خيمہ ۱۰; يحيى كى دعا ۱۳;يحيى كى محبت ۷; يحيى كى محبوبيت ۴ ; يحيى كى محبوبيت كا پيش خيمہ ۱۰; يحيى كى مہربانى ۱; يحيى كے احساسات ۱;يحيى كے تقوى كے آثار ۱۰;يحيى كے تقوى ميں دوام ۹;يحيى كے فضائل ۵;۸;۹

____________________

۱)محاسن برقى ج۱ص۳۵ح۳۰نورالثقلين ج۳ ص ۳۲۶ح۳۶_

۶۱۵

آیت ۱۴

( وَبَرّاً بِوَالِدَيْهِ وَلَمْ يَكُن جَبَّاراً عَصِيّاً )

اور اپنے ماں باپ كے حق ميں نيك برتاؤ كرنے والے تھے اور سركش اور نافرمان نہيں تھے (۱۴)

۱_ حضرت يحيي(ع) ، اپنے ماں باپ كى نسبت بہت زيادہ نيكى كرنے والے تھے _وبراًبوالديه

لفظ (برا) گذشتہ آيت ميں ( تقيا ً)پرعطف ہے اور كلمہ ( بار ) كا معنى ديتا ہے البتہ چو نكہ ( برّ) ميں مبالغہ ہے لہذا ( برّالوالدين ) سے مراد انكى نسبت بہت زياد ہ نيكى اور احسان كرنا ہے _ (مفردات راغب)

۲_ ماں باپ كے ساتھ نيكى اور احسان، الله تعالى كے نزديك انتہائي عظمت كا حامل ہے _و برّاًبوالديه

۳_ والدين كے ساتھ احسان كرنا، تقوى كا واضح نمونہ اور اس كا لازمہ ہے _وكان تقياً _ و برًا بوالديه

۴_ والدين كے ساتھ نيكى كرنا، انسان كے رشد اور معنوى كمال كيلئے پيش خيمہ ہے _وزكوة وبرًاً بوالديه

جس طرح جملہ (وكان تقيّاَ)جملہ (حنا ناً من لدنا ) كيلئے علت تھا جملہ (''برًا بوالديه'' بھى كان ) پر عطف ہے اور يہى مقام ركھتا ہے _

۵_ حضرت يحيي(ع) لوگوں كے ساتھ اكڑنے، بڑائي كا اظہار كرنے ، بلا وجہ رعب جمانے اور لوگوں كى حاجات سے منہ پھير نے جيسى خصلتوں سے پاك تھے_و لم يكن جباراً عصيا

''جبار''مبالغہ كا صيغہ ہے جس كے معنى اكٹر نے كے ہے كہ جس ميں انسان دوسرے كے حق كا لحاظ نہيں كرتا (لسان العرب )اور اسى طرح ماحول پر مسلّط ہونے اور جھوٹى بڑائي كا دعوى كرنے والے كے معنى ميں بھى آيا ہے_ (مفردات راغب ) ( عصي) بھى صيغہ مبالغہ ہے تو لوگوں سے مربوط'' برًا'' اور'' جبا راً'' كے قرينہ كى بناء پر عصى سے مراد لوگوں كى حاجات كو پورانہ كرنے والااور انكے مقابل ميں انكسارى سے كام نہ لينے والاہے، كلام منفى ميں صيغہ مبالغہ كا استعمال گويا نفى ميں مبالغہ كا معنى دے رہا ہے _

۶_ حضرت يحيي، اپنے والدين سے نيكى كرنے كے علاوہ كبھى انكے ساتھ زبردستى سے كام نہيں ليتے تھے اور نہ ہى انكے فرمان كے خلاف سراٹھا تے تھے _وبرابوالديه ولم يكن جباراً عصيا

چونكہ گذشتہ جملات، حضرت يحيي(ع) كے بارے ميں محبت اور شفقت كوبيان كررہے تھے اور انكے واضح صفات ميں

۶۱۶

سے انكى والدين كے ساتھ نيكى كى طرف اشارہ كيا گيا ہے لہذا احتمال ہے كہ يہاں جباريت اور عصيان كى نفى كا تعلق بھى انكے والدين كے ساتھ مربوط ہو لہذا كہا جاسكتا ہے كہ حضرت يحيى اپنے والدين كے سامنے نہايت خاضع اور ان كے فرمان كے مطيع تھے_

۷_ حضرت يحيى ، الله تعالى كے سامنے گناہ سے پاك تھے_

يہ بھى كہا جاسكتا ہے كہ جملہ''و لم يكن عصيا'' مطلق سركشى اور گناہ ( لوگوں كى حاجات كو رد كرنايا الله كے حضور معصيت ہو ) كى نفى پر دلالت كررہا ہے _

۸_ حضرت يحيى الله تعالى ، والدين اور معاشرہ كے مقابلے ميں ايك وظيفہ شناس اور ذمہ دار انسان تھے _

و كان تقياً وبرًا بوالديه ولم يكن جباراً عصيا

''تقياً'' حضرت يحيى كا خدا سے رابطہ كى نشانى ، ''براًبوالديہ'' والدين كے ساتھ اور لم يكن جباراً لوگوں اور معاشرہ كے ساتھ رابطہ كى نشانى ہے _

۹_تكبر، تسلّط كى خواہش اور سركشى جيسى صفات ، انسان كے رشد اور كمال كيلئے ركاوٹيں ہيں _

و ء اتينه ...زكوة وكان ...و لم يكن جباراً عصيا

جملہ ''لم يكن ''گذشتہ آيت ميں جملہ كان پرعطف ہے اور جملہ''أتيناه الحكم وزكاة ''كيلئے ايك اور علت بيان كررہا ہے _

۱۰_غرور اور سلطہ طلبى عصيان اور گناہ كا پيش خيمہ ہے _ولم يكن جبّاراً عصيّا

۱۱_ حضرت يحيى (ع) ، حضرت زكريا (ع) كى آرزو كے مطابق فرزند تھے كہ جنكا اخلاق و كردا ر انكى رضايت كے عين مطابق تھا _و كان تقيّا وبرًا بوالديه و لم يكن جبّاراً عصيّا

حضرت زكريا (ع) كى دعا (واجعله ربّ رضيّاً ) كے بعد حضرت يحيي(ع) كے اوصاف كا بيان ہونا حضرت يحيى كے اوصاف كى حضرت زكريا كے دعا سے مطابقت واضح كررہا ہے _

بڑائي كا اظہار :بڑائي كے اظہار كے اسباب ۹//تقوى :تقوى كى علامات ۳

تكبر :تكبر كے آثار ۱۰//زكريا (ع) :زكريا (ع) كى تمنائيں ۱۱; زكريا كے بيٹے ۱۱

۶۱۷

سلطہ طلبى :سلطہ طلبى كے آثار ۹;۱۰

عصيان:عصيان كا پيش خيمہ ۱۰; عصيان كے آثار ۹

عظمتيں :۲

كمال:كمال كا باعث ۴; كمال كيلئے ركاوئيں ۹

گناہ :گناہ كا باعث ۱۰

والدين :والدين سے نيكى ۱،۳،۶;والدين سے نيكى كى اہميت ۲; والدين سے نيكى كے آثار ۴

يحيى :يحيى كے فضائل ۵،۶،۸،۱۱;يحيى اور سلطہ طلبى ۵; يحيى اور گناہ ۷; يحيى اور والدين كے ساتھ زبردستى ۶; يحيى سے رضايت ۱۱;يحيى كا اپنى شرعى ذمہ دارى پر عمل ۸;يحيى كا ذمہ دارى لينا ۸;يحيى كى پاكيزكي۵،۷; يحيى كى عصمت ۷; يحيى كى نيكى ۱،۷;يحيى كے اخلاق ۱۱;يحيى كے مقامات ۷

آیت ۱۵

( وَسَلَامٌ عَلَيْهِ يَوْمَ وُلِدَ وَيَوْمَ يَمُوتُ وَيَوْمَ يُبْعَثُ حَيّاً )

ان پر ہمارا سلام جس دن پيدا ہوئے اور جس دن انھيں موت آئي اور جس دن وہ دوبارہ زندہ اٹھائے جائيں گے (۱۵)

۱_ حضرت يحيى (ع) اپنى ولادت ، وفات اور حشر پر الله تعالى كے خصوصى سلام ميں شامل ہيں _

وسلم عليه بوم ولد و يوم يموت ويوم يبعث حيا

۲_ حضرت يحيى (ع) اپنى ولاد ت كے موقع پر ہر قسم كے گزند اور نقص سے امان ميں تھے اور رشد و كمال كيلئے تمام ضرورى اسباب و شرائط ان ميں مہيا تھيں _وسلم عليه يوم ولد

سلام كے چند معانى ہيں ايك معنى ہرقسم كے گزند اور آفت سے سلامتى ہے _ البتہ الله تعالى كى طرف سے سلام ،تكوينى حيثيت كا ہے اورحوادث كے حوالے سے ايك خبر ہے پس (سلام عليہ ) يعنى الله تعالى كى طرف سے حضرت يحيى (ع) ہر قسم كے جسمى ضرراور عقيدہ كے حوالے سے انحراف سے ضمانت شدہ ہيں _

۳_حضرت يحيى (ع) ، اپنى موت اور روز قيامت ہر قسم كے رنج اور عذاب سے محفوظ ہيں _

وسلم عليه يوم يموت و يوم يبعث حيا ً

( ولد ) فعل ماضى ہے اور'' يموت '' فعل مضارع ہے تو سياق ميں يہ تبديلى بتاتى ہے كہ آيت كا مطلب حضرت يحيى كى

۶۱۸

زندگى كا زمانہ منعكس كررہا ہے كہ الله تعالى نے اس زمانہ ميں انكى ولادت كى عافيت كى خبردى اور انكى موت اور روز قيامت كے حشر كى بھى ضمانت اور خوشخبر ى دى ہے _

۴_حضرت يحيى (ع) ، الله تعالى كے حضور خصوصى كرامت و عظمت كے حامل تھے _وسلم عليه يوم ولد و يوم يموت ويوم يبعث حيا

۵_ انسان كے لي ے ولادت كا زمانہ ، موت كے لمحات، اور روزقيامتتين حساس اور تقدير ساز مرحلے ہيں _

وسلم عليه يوم ولد و يوم يموت و يوم يبعث حيا

۶_ انسان، موت كے لمحات ميں بھى ( ولادت اور قيامت كے زمانوں كى مانند ) الله تعالى كى جانب سے خصوصى سلامتى اور امان كا محتاج ہے_و سلم عليه يوم ولد و يوم يموت و يوم يبعث حيا

( سلام )كا نكرہ ہونا ان كے ممتاز ہونے كو بيان كررہا ہے، موت كے وقت سلامتى سے مراد وحشت اضطراب اور نااميدى جيسے رنج دينے والے اسباب كا سامنا كرنے كى صورت ميں امان ميں ہونا ہے_

۷_ تقوى ،والدين كے ساتھ احسان ، تسلطّ كى خواہش اور عصيان سے پرہيز، مكمل سلامتى اور امان سے سرشار انجام كا باعث ہيں _و كان تقياً _ وبراًبوالديه و لم يكن جباراً عصياً و سلم عليه يوم ولد ويوم يموت و يوم يبعث حيا

۸_ انسان، روز قيامت دوبارہ زندہ ہونگے _يوم يموت و يوم يبعث حيا ً

( حياً) حال ہے ( يوم يموت ) ميں انسان كى موت كے بعد اسكى بعث سے مقصود يہ ہے كہ حشر كے روز تمام انسان دوبارہ زندہ ہونگے _

۹_ حضرت يحيى كى آخرت ميں خصوصى زندگى ہوگى _و يوم يبعث حي فعل (يبعث )زندہ ہونے پر بھى دلالت كرتا ہے_ بعد ميں (حياً) كى تصريح ممكن ہے اس ليے ہو كہ ذوسرے انسانوں كے مقابلے ميں حضرت يحيى كى ايك خصوصى زندگى ہے _

۱۰_عن أبى الحسن الرضا (ع) : إن أوحش ما يكون هذا الخلق فى ثلاثه مواطن يوم ولد ويوم يموت و يوم يبعث وقد سلّم الله عزوجل على يحيى فى هذه الثلاثه المواطن وآمن روعته فقال : وسلام عليه يوم ولد ويوم يموت ويوم يبعث حياً (۱) امام رضا(ع) سے روايت نقل ہوئي ہے كہ مخلوق كيلئے تين وحشتناك ترين مقام ہيں

____________________

۱)عيون اخبار الرضا ج۱ص۲۵۷ب۲۶ح۱۱، نورالثقلين ج۳ص۳۲۷ح۳۸_

۶۱۹

:جس دن وہ پيداہواور جس دن وہ فوت ہو اور جس دن وہ اٹھا يا جائے گا اور الله تعالى نے حضرت يحيى ان تينوں مقامات كے لحاظ سے سلام بھيجا اور ان مقامات كى وحشت سے انہيں امان دى اور فرمايا :وسلام عليہ يوم ولد ويوم يموت ويوم يبعث حياً _

الله تعالي:الله تعالى كا سلام ۱

امان :امان كا باعث ۷; امان كا سرچشمہ ۶; ولادت كے وقت امان ۶

انجام :اچھے انجام كا پيش خيمہ ۷/انسان :انسان كى احتياج ۶

تقدير :تقدير ميں تاثير ركھتے والے اسباب ۵

تقوى :تقوى كے آثار ۷

روايت :۱۰

سلامتى :سلامتى كا پيش خيمہ ۷; سلامتى كا سرچشمہ ۶;/ولادت كے وقت سلامتى ۶

سلطہ طلبى :سلطہ طلبى سے بچنے كے آثار ۷/ضرورتيں :امان كى ضرورت ۶; سلامتى كى ضرورت ۶

عصيان :عصيان سے بچنے كے آثار ۷

قيامت :قيامت كے وقت امان ۶; قيامت كى اہميت ۵; قيامت كا خوف ۱۰ ; قيامت كے وقت سلامتى ۶

مردے :مردوں كاآخرت ميں زندہ ہونا ۸

موت :موت كے وقت كى اہميت ۵; موت كا خوف ۱۰

والدين :والدين سے نيكى كے آثار ۷

ولادت :ولادت كے وقت كى اہميت ۵; ولادت كا خوف ۱۰

يحيى (ع) :قيامت ميں يحيى (ع) ۱;۳;۱۰;يحيى (ع) پر سلام ۱; ۱۰ ; يحيى (ع) پر سلامتى ۱;۲;۳;يحيي(ع) كى اخروى زندگى كى خصوصيات ۹ ;يحيى (ع) كى موت ۱;۳;۱۰; يحيى (ع) كى ولادت ۱; ۲;۱۰; يحيى (ع) كے فضائل ۲;۳; ۹ ; يحيى (ع) كے كمال كا باعث ۲;يحيى (ع) كے ليے امان ۲; ۳

۶۲۰

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809

810

811

812

813

814

815

816

817

818

819

820

821

822

823

824

825

826

827

828

829

830

831

832

833

834

835

836

837

838

839

840

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863

864

865

866

867

868

869

870

871

872

873

874

875

876

877

878

879

880

881

882

883

884

885

886

887

888

889

890

891

892

893

894

895

896

897

898

899

900

901

902

903

904

905

906

907

908

909

910

911

912

913

914

915

916

917

918

919

920

921

922

923

924

925

926

927

928

929

930

931

932

933

934

935

936

937

938

939

940

941

942

943

944

945