تفسير راہنما جلد ۱۰

تفسير راہنما 6%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 945

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 945 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 247268 / ڈاؤنلوڈ: 3404
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱۰

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

آیت ۴۲

( وَأُحِيطَ بِثَمَرِهِ فَأَصْبَحَ يُقَلِّبُ كَفَّيْهِ عَلَى مَا أَنفَقَ فِيهَا وَهِيَ خَاوِيَةٌ عَلَى عُرُوشِهَا وَيَقُولُ يَا لَيْتَنِي لَمْ أُشْرِكْ بِرَبِّي أَحَداً )

اور پھر اس كے باغ كے پھل آفت ميں گھيردئے گئے تو وہ ان اخراجات پر ہاتھ ملنے لگا جو اس نے باغ كى تيارى پر صرف كئے تھے جب كہ باغ اپنى شاخوں كے بھل الٹا پڑا ہوا تھا اور وہ كہہ دہا تھا كہ اے كاش ميں كسى كو اپنے پروردگار كا شريك نہ بناتا (۴۲)

۱_مغرور مالدار شخص كے ذرائع، الله تعالى كے وسيع عذاب كے نازل ہونے سے تباہ ہوگئے اور باغ وكھيتى كى تمام پيداوار ختم ہوگئي _وا حيط بثمره

'' أحيط بثمره'' محذوف پر عطف ہے يعنى ''وقع العذاب '' اور احاطہ ہونا تباہ ہونے سے كنايہ ہے اور ثمرہ سے مراد مالدار شخص كى باغ اور كھيتى كى تمام تر پيداوار ہے_

۲_تكبر و غرور ميں مبتلاء مالدار شخص پر مؤمن شخص كى نصيحتوں نے اثر نہ كيا تھا _و أحيط بثمره

واضح ہے كہ اگر مالدار شخص، مؤمن شخص كى نصيحتوں كو سنتا تو اس كا مال اور سرمايہ تباہ و برباد نہ ہوتا_

۳_مغرور مالدار شخص كے ذرائع معاش كے تباہ ہونے كے ساتھ ہى مؤمن شخص كى اميد اور آرزو پورى ہوگئي _

فعسى ربّى أن وا ُحيط بثمره

۴_مالدار شخص اپنے باغ كو چھتوں پر گرا پڑا اور تمام پيداوار اور اپنا سرمايہ تباہ شدہ ديكھ كر شديد حسرت كھانے لگا_

و أحيط بثمره فا صبح يقلّب كفيه و هى خاوية على عروشه

''كفّ'' سے مراد ايك ہاتھ اور ''كفيّة '' ا س كا تثنيہ يعنى اس كے دو نوں ہاتھ ''يقلب كفية'' يعنى اپنے دونوں ہاتھ كو ملنے لگا (يعنى كبھى ايك ہتھيلى كو دوسرے ہاتھ كى پشت پر پھيرتا ' كبھى دوسرى ہتھيلى كو پہلے ہاتھ كى پشت پر پھيرتا تھا _ يہحركت انسان كى شديد حسرت اور رنج كا رد عمل ہے_ ''خاوية'' يعنى گرجانا ''عروش'' يعنى چھتيں يا چھترياں كہ جوبعض اوقات پھل دار درختوں پر دى جاتى ہيں _ ''خاوية على عروشھا'' يعنى درخت يا باغ كى عمارتيں اپنى چھتوں پر گر گئيں _

۵_خود پسند مالدار شخص نے ٹھيك پھل اٹھانے اور پيداوار لينے كے وقت اپنے باغ كى تباہى كا سامنا كيا_

۴۲۱

ا حيط بثمره ''احيط بثمره '' اور''ما ا نفق'' كى تعبيرات بتاتى ہيں كہ ابتدائي كام ہوچكا تھا ضرورى حدتك سرمايہ خرچ ہوچكا تھا اور ٹھيك عذاب اسى وقت نازل ہوا كہ جب وہ باغ كا پھل لينے كے لئے تيار ہوا تھا_

۶_اپنے آپ ميں گم اور بدمست مالداروں كے خوشى والے لمحات ميں الہى عذاب، ان كے شكار ميں ہوتا ہے_

وا حيط بثمره فا صبح يقلّب كفيه على مإ نفق فيه

''احےط بثمرہ'' كى تعبير بتا تى ہے كہ پھل چننے اور نتيجہ تك پہنچنے كا زمانہ، تھا كہ يہ زمانہ سرمايہ لگانے والے شخص كا بہت اہم اور بہت پر لطف زمانہ ہوتا ہے_

۷_تمام سرمايہ گذارى اور مادى وسائل تباہ وبرباد ہونے كے خطرہ ميں ہيں _واحيط بثمره فأصبح يقلّب كفّيه على ما أنفق فيه

چنانچہ اگر باغوں كى مثاليں بطور نمونہہوں تو مغرور مالدار شخص ان لوگوں كا نمونہ ہے كہ جو مادى اہداف كے ساتھدنيااور ا س كے مال كو مد نظر ركھتے ہوئے كوشش كرتے ہيں ليكن آخر كار اپنى زحمت اور تكاليف پر افسوس كرتے ہيں چونكہ آخر ميں يہ سب كچھ تباہ وبرباد ہوجاتا ہے_

۸_خود پرست مالدار شخص، اپنے مال و منال كى نابودى كے بعد ہوش ميں آيا اور اپنے شرك آلود اعتقادات پر اظہار افسوس كرنے لگا _ياليتنى لم أشرك بربى احدا

۹_مادى بدمستي، انسان كے اپنے عمل اور عقيدہ كے ٹيڑھے پن كو سمجھنے ميں ايك اہم ركاوٹ ہے_

وا ُحيط بثمره يقول ياليتنى لم ا شرك بربّى احدا

آيت ميں موضوع بحث مالدار مغرور شخص ہے جب اس كا تمام تر مال ومتاع تباہ ہوگيا تو اپنے ٹيڑھے پن كو سمجھا اور اس پر ندامت كا اظہار كيا ليكن اس سے پہلے جو كچھ اس كے پاس تھا اس ميں بدمست تھا_

۱۰_ دنياوى سزائيں ، غافل لوگوں كو بيدار كرنے كے لئے ہيں _و أحيط بثمره يقول ياليتنى لم ا شرك بربّى ا حدا

۱۱_غير خدا پر اعتماد كرنا، شرك اور پشيمان كرنے

۴۲۲

والے انجام كا حاصل ہے_ا كثر منك مالاً ياليتنى لم أشرك بربّى احدا

۱۲_دنيا پرستوں كى الله تعالى كى طرف توجہ، اپنے مادى فائدوں اور طمع كى خاطر ہے _

و أحيط بثمره وهى خاوية على عروشها ويقول يا ليتنى لم ا ُشرك بربّى احدا

يہ بھى احتمال ہے كہ مغرور سرمايہ دار شخص كا اپنے شرك پر افسوس اس لئے نہ ہو كہ اس نے شركت كى حقيقى قباحت كو درك كيا ہو بلكہ اس لئے ہو كہ اس نے كيوں شرك كيا كہ اس كا مال ومتاع اور سرمايہ تباہ و برباد ہوا_

اعتماد :غير خدا پر اعتماد كا انجام ۱۱;غير خدا پر اعتماد كرنے كے آثار ۱۱;غير خدا پر اعتماد كى ندامت ۱۱

الله تعالى :الله تعالى كى سزائيں ۶

دنيا پرست :دنيا پرستوں كا نظريہ ۱۲; دنيا پرستوں كى عبادت كى كيفيت ۱۲;دنيا پرستوں كى مفاد پرستى ۱۲

دنيا پرستى :دنيا پرستى كے آثار ۹

سرمايہ لگانا :مادى سرمايہ لگانے كا پايدار نہ ہونا ۷

سزائيں :دنياوى سزائوں سے عبرت ۱۰;دنياوى سزائوں كے آثار ۱۰

شرك :شرك كے موارد ۱۱

عبرت :عبرت كے اسباب ۱۰

عذاب :عذاب كے اہل ۱

غافلين :غافلين كو متوجہ كرنے كے اسباب ۱۰

مالدار لوگ :مغرور مالدار لوگوں كو سزا ۶

مغرور باغ والے :مغرور باغ والے كا شرك ۸; مغرور باغ والے كا غفلت ميں شكار ہونا ۵; مغرور باغ والے كا قصہ ۱،۲،۳،۴،۵،۸ ;مغرور باغ والے كو عذاب ۱;مغرور باغ والے كى بيدارى ۸;مغرور باغ والے كى حسرت ۴;مغرور باغ والے كى دولت كى نابودى ۳; مغرور باغ والے كے اموال كى نابودى ۸; مغرور باغ والے كے باغ كى تباہى ۴;مغرور باغ والے كے باغ كى نابودى ۱،۵;مغرور باغ والے كے ہم نشين كے آرزو كا پورا ہونا۳;مغرور باغ والے كے ہم نشين كى نصيحتوں كا بے اثر ہونا ۲//ہدايت :ہدايت سے ركاوٹيں ۹

۴۲۳

آیت ۴۳

( وَلَمْ تَكُن لَّهُ فِئَةٌ يَنصُرُونَهُ مِن دُونِ اللَّهِ وَمَا كَانَ مُنتَصِراً )

اور اب اس كے پاس وہ گروہ بھى نہيں تھا جو خدا كے مقابلہ ميں اس كى مدد كرتا اور وہ بدلہ بھى نہيں لے سكتا تھا (۴۳)

۱_ساتھيوں كى كثرت پرمغروروالا سرمايہ دار، عذاب كے ذريعے اپنے سرمايہ كى تباہى كے وقت اكيلا اور بے يارو مددگار تھا_

ا نا أكثر منك مالاً وا عزّ نفراً لم تكن له فئة ينصرونه من دون اللّه

۲_اموال اور ساتھيوں كى تعداد كا الله تعالى كے عذاب اور سزا كو روكنے كے حوالے سے كوئي زور اور اثر نہيں ہوتا ہے_

وهى خاوية على عروشها و لم تكن له فئة ينصرونه من دون الله

۳_الہى عذاب كے نزول كے وقت صرف الله تعالى ہى اسے روكنے پر قادر ہے_ولم تكن له فئة ينصرونه من دون الله

۴_غير خداپر بھروسہ اور اعتماد كرنے كاانجام شكست اور محروميت ہے _

أنا أكثر منك مالاً أو أعزّنفراً ولم تكن له فئة ينصرونه من دون الله

''فئة '' سے مراد لوگوں كا ايك گروہ اور جماعت ہے جملہ '' ولم تكن ...'' مال اور ساتھيوں پر غرور كرنے ولا مالدار شخص كے خيالات كاجواب ہے جو پچھلى آيت ميں بيان ہواتھا_ اس آيت ميں ايسى اعتماد والى جگہوں كے الله تعالى كے ارادہ كے مد مقابل بے فيض ہونے پرتاكيد كى گئي ہے_

۵_آسائش اور قدرت كے زمانہ كے دوست ،مشكل اور فقر كے زمانہ ميں غائب ہوجاتے ہيں _

و أحيط بثمره ولم تكن له فئة ينصرونه من دون الله

آيت ميں مالدار شخص كے ساتھيوں كے نابود ہونے كى بات نہيں آئي ' اسى لئے ممكن ہے كہ عبارت ''لم تكن لہ فئة'' كا يہ معنى ہو كہ اس كے ساتھى اپنے مالك كے اموال كى تباہى ديكھ كر اس سے دور ہوگئے تھے اور انہوں نے اسكى مدد نہ كى _

۴۲۴

۶_مشرك شخص، اپنے سے عذاب دور كرنے ميں عاجز تھا_وماكان منتصرا

''انتصار'' سے مراد'' ظلم و تجاوز ميں اپنى حفاظت'' ہے_ (لسان العرب)اس آيت ميں مراد عذاب سے اپنے آپ كو محفوظ كرنا ہے_ يعنى مغرور مالدار شخص جس مشكل ميں پھنس گيا تھا اس سے چھٹكارے اور عذاب كو دور كرنے ميں كوئي راہ نہيں پا رہا تھا _

آسائش پسند :آسائش پسند دوستوں كى بے وفائي ۵

اعتماد:غير خدا پر اعتماد كا انجام ۵

الله تعالى :الله تعالى كى قدرت ۳;اللہ تعالى كے ساتھ خاص ۳

تعداد :تعداد كى كثرت كا كردار ۲

شكست:شكست كے اسباب ۴

عذاب :عذاب سے نجات ۲;عذاب كو روكنے سے عاجزى ۶;عذاب كو روكنے كا سرچشمہ ۳

فقر:فقر كے آثار ۵//مال :مال كا كردار ۲

مغرور باغ والا :مغرور باغ والے كا بے يارو مددگار ہونا ۱; مغرور باغ والے كا عجز ۶;مغرور باغ والے كا عذاب ۱;مغرور باغ والے كا قصہ ۱،۶ ; مغرور باغ والے كے اموال كى نابودى ۱

آیت ۴۴

( هُنَالِكَ الْوَلَايَةُ لِلَّهِ الْحَقِّ هُوَ خَيْرٌ ثَوَاباً وَخَيْرٌ عُقْباً )

اس وقت ثابت ہوا كہ قيامت كى نصرت صرف خدائے برحق كے لئے ہے وہى بہترين ثواب دينے والا ہے اور وہى انجام بخير كرنے والا ہے (۴۴)

۱_انسان، مشكلات كى گھڑى ميں انجام امور پر خداوند عالم كى ولايت قدرت مطلق كى طرف متوجہ ہو جاتا ہے_ولم تكن له فئة ينصرونه ...هنالك الولاية للّه الحق

اس ميں كسى قسم كے شك كى گنجائش نہيں ہے كہ خداوند عالم كى ولايت ( خواہ حاكميت و تدبير كے معنى ميں ہو يا نفر ت كے معنى ميں ہو) حاكم اور نافذ ہے لہذا ''ہنالك'' كے ساتھ كسى خاص مكان و واقعہ كى طرف اشارہ اس ليے ہے كہ انسان

۴۲۵

اس موقع ہر اس نكلتہ كى طرف متوجہ ہوجاتا ہے_

۲_جب سارے ظاہرى اسباب در ميان سے ختم ہو جائيں تو صرف خداوند عالم كى ہى ذلت ہے جو امداد پہنچانے پر قادر ہے_هنالك الولاية لله الحق

اہل لغت نے ''ولايت'' كے مابين فرق كو بيان كيا ہے ''ولايت '' كا معنى نصرت اور''ولايت'' كا معنى سرپرستى اور تدبير ہے اگر چہ بعض مفسرين نے اس فرق كا انكار كيا ہے_(ر_ك الميزان)

ليكن اسى قسم كى ددسرى آيات اور ما قبل آيت جو كہ نصرت كے معنى ميں ہے كى طرف توجہ كرتے ہوتے ايسى معنى بيان بھى معلوم ہوتا ہے_

۳_ خداوند عالم كى جملہ خصوصيات ميں سے حقانيت اور ثبات ہيں _لله الحق

۴_ عذاب اور مشكلات كے وقت،قابل بھروسہ مددگا ر صرف خدواند عالم ہى ہے _هنالك الولاية لله الحق

'' أحيط بثمرہ'' كى دلالت كى وجہ سے ''ہنالك'' كا اشارہ عذاب كے زمانہ كى طرف ہے اس ليے يہاں يہ مراد ہے كہ نزول عذاب كے وقت انسان كے تمام اسباب منقطع ہو جاتے ہيں اور صرف اميد كى كرن خدا'' وحدہ لا شريك'' كى نصرت ہوتى ہے_

۵_ بزم ہستى ميں شرك كا عقيدہ ،كسى قسم كا مددگار نہيں ركھتا_يا ليتنى لم اشرك بربّى احداً ...هنالك الولاية لله الحق

گذشتہ آيات ميں شرك كرنے كے سنگين انجام كو بيان كرنے كے بعد ''اللہ '' كو ''الحق'' كے ساتھ بيان كرنا ، اس نكتے كى طرف اشارہ ہے كہ شرك اپنى تمام تر انواع واقسام سميت حقانيّت سے خالى ہے اور وہ ہستى جو كہ حقّ محض ہے اور واقعيّت و حقيقت ركھتى ہے وہ صرف ذات الہى ہے_

۶_ الله تعالي، بہترين جزائيں اور بلند ترين عاقبت عطا كرنے والا ہے _هو خير ثواباً و خير عقبا

ثواب سے مراد'' اجر اور جزا'' ہے جبكہ (عقب ) يعنى عاقبت اور انجام ہے_

۷_ الله تعالى كى ولايت اور حقانيت، بہترين جزا ؤں اور عاقبتوں كے عطا كرنے كى ضامن ہے _

هنالك الولاية للّه الحقّ هو خير ثواباً و خير عقبا

۸_ فضول، لا حاصل اوربر ا انجام، شرك اور دنيا پرستى كا نتيجہ ہے _

ولم تكن له فئة ينصرونه من دون الله هو خير ثواباً وخير عقبا

۴۲۶

مالدا ر شخص كى كہا نى كا بيان اور اسكا خسارت ولاحاصل انجام اور پھريہ ياد دلانا كر الله تعالى بندوں كو بہترين جزاء اور نيك عاقبت عطا كرنے والا ہے سے يہ نتيجہ نكلتا ہے كہ دنيا پرستى اور شرك كا نتيجہ بد عاقبتى اور لاحاصلى ہے _

۹_اشياء كى قدرو قيمت ميں ، اہم معيار اچھى عاقبت اور بہترين انجام ہے _خير عقب

اعتماد :الله پر اعتماد ۴

انجام :اچھے انجام كا سرچشمہ ۶;اچھے انجام كى قدر و قيمت ۹;اچھے انجام كے اسباب۷;برے انجام كے اسباب ۸; بہترين انجام ۶،۷

انسان:انسانوں كا مدد گار ۲

الله تعالى :الله تعالى كى جزائيں ۶; الله تعالى كى حاكميت ۱; الله تعالى كى حقانيت ۳; الله تعالى كى حقانيت كے آثار ۷;اللہ تعالى كى ولايت ۱; الله تعالى كى ولايت كے آثار ۷; الله تعالى كے عطيات ۶; الله تعالى كے ساتھ خاص ۲

جزاء :بہترين جزاء ۶; ۷; جزاء كا سرچشمہ ۶; جزاء كى ضمانت ۷

دنيا پرستى :دنيا پرستى كا انجام ۸; دنيا پرستى كا فضول ہونا ۸

سختى :سختى كے آثار ۱; سختى ميں امداد ۲

شرك :شرك كا انجام ۸; شرك كاباطل ہونا ۵،۸

عذاب:عذا ب ميں مبتلا كے مدد گار ۴

علم :علم كا پيش خيمہ ۱

قدرو قيمت :قدرو قيمت كا معيار ۹

نظر يہ كا ئنات :توحيدى نظريہ كائنات ۲

۴۲۷

آیت ۴۵

( وَاضْرِبْ لَهُم مَّثَلَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا كَمَاء أَنزَلْنَاهُ مِنَ السَّمَاءِ فَاخْتَلَطَ بِهِ نَبَاتُ الْأَرْضِ فَأَصْبَحَ هَشِيماً تَذْرُوهُ الرِّيَاحُ وَكَانَ اللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ مُّقْتَدِراً )

اور انھيں زندگانى دنيا كى مثال اس پانى كى بتايئےسے ہم نے آسمان سے نازل كيا تو زمين كى روئيدگى اس سے مل جل گئي پھر آخر ميں وہ ريزہ ريزہ ہوگئي جسے ہوائيں اڑاديتى ہيں اور اللہ ہر شے پرقدرت ركھنے والا ہے (۴۵)

۱_ پيغمبر پردنياوى زندگى كى حقيقت اور اسكى نا پا ئيد ا ر ى كو بيان كرنے كيلئے مثال سے استفادہ كرنے كى ذمہ دارى ڈالى گئي _واضرب لهم مثل الحياة الدنيا

۲_ تبليغ ميں مثال دينے سے استفادہ كرنا، اور لوگوں كيلئے اہم ترين مفاہيم كو محسوس شكل ميں بيان كرنا، قران ميں استعمال شدہ روشوں ميں سے ہے _واضرب لهم مثل الحياة الدنيا كمائ

۳_ آسمان ( بادل )، زمين كيلئے پانى پيداكرنے كا منبع ہے _كماء ا نزلنا ه من السمائ

۴_ بارش زمين ميں نباتات كى زندگى كے اصلى عناصر ميں سے ہے _كما ا نزلنا ه من السماء فاختلط به نبات الأرض

اگرجملہ ( فاختلط بہ ) ميں باء متعدى كى ہو توجملہ (فاختلط به نبات الارض ) مبالغہ والا معنى دے گا يعنى پانى كا كردار اتنا اہم ہے كہ كہنا چاہيے كہ زمين كى نباتات پانى سے مخلوط ہو چكى ہيں _

۵_ طبيعى اسباب و عوامل الله تعالى كے ارادہ كے تحت ہيں _كماء ا نزلنا ه من السمائ

۶_ دنيا وى زندگي، اس بارش كى مانندہے كہ جو زمين پر بہت سى نباتات كے اگنے كا باعث ہوتى ہے ليكن وہ جلد ہى خشك اور خاك ميں بدل جاتى ہے اور جب بھى ہو اچلے توبكھرجاتى ہيں _

واضرب لهم مثل الحياة الدنيا كماء ا نزلناه من السمائ هشيماً تذروه الريح

( ہشيم ) يعنى و ہ نباتات جو خشك ہو كر ٹوٹ پھوٹ جائيں اور(ذروہ) (تذروہ) كيلئے مصدر ہے يعنيبكھرنا اور پراكندہ كرنا (تذروہ الرياح ) يعنى ہوائيں انہيں بكھير ديتى ہيں _ اور جدا جدا كرديتى ہيں جملہ (فاختلط بہ نبات الارض) اگر باء استعانت كيلئے ہو تو معنى يہ ہوگا كہ بارش كى وجہ سےبناتات در ہم بر ہم ہو جاتے ہيں اور اور شاخيں باہم مخلوط ہو جاتے ہيں _

۴۲۸

۷_ بارش كے نازل ہونے سے كثرت كے ساتھ نباتات كى نشو ونما اور موسم خزاں كے آنے سے انكا جلدہى زوال، دنياوى زندگى كى ناپائيدار جہات كا نمونہ ہے _

مثل الحياة الدنيا كماء ا نزلنا من السماء فاختلط به نبا ت ال ارض فا صبح هشيماً تذروه الريح

۸_ دنيا كى زندگى كے جلدزوال پذير ہونے كى طرف توجہ، آسائش پسندو ں اور دنيا پرستوں كيلئے تنبيہ اور عبرت ہے _

واضرب لهم مثل الحياة الدنيا كما ء ا نزلنه تذروه الريح

اس آيت كا پچھلى آيات جو كہ مغرور آسائش پسندوں كى افكار اور ان كے برے انجام و بيان كرنے كے اسباب كے بارے ميں تھيں كے ساتھ ربط سے مذكورہ نكتہ واضح ہوتا ہے_

۹_ دنياوى اور مادى زندگي، ہوا كى راہ ميں پڑى خس و خاشاك كى مانند ہے_مثل الحياة الدنيا فا صبح هشيماً تذروه الريح

۱۰_كائنات ميں فكر موجودات كى زندگى كى خصوصيات كو سمجھنے كا باعث بنتى ہے _

واضرب لهم مثل الحياة الدنيا كماء ا نزلنه من السمائ

۱۱_ مادى اور محسوس جہان و عالم طبيعت ميں موجودات كے اسرا ر اور مجہول مقامات كو جاننے كيلئے علامات موجود ہيں _

مثل الحياة الدنيا كما ء ا نزلنا ه فا صبح هشيماً تذروه الريح

بعض حقائق كا درك مثلا موت ، زندگى اور انكى حقيقتچونكہ كافى حدتك انسان كيلئے محسوسات ميں سے نہيں ہے لہذا وہ انہيں سمجھنے كيلئے محتاج ہے كہ عالم محسوس سے مثاليں اسكے لئے پيشجائيں تو الله تعالى نے نباتات كے اگنے اور ختم ہونےسے عالم طبيعت كو ايسى رہنما وں پر مشتمل قرار ديا ہے _

۱۲_دنياوى زندگي، ناقابل اعتماد اور ہميشہ حادثات كے خطرے ميں ہے _كما ء ا نزلناه من السماء فا صبح

۴۲۹

هشيماتذرو ة الريح

۱۳_ ا لله تعالي، ہر چيز و كام پر لا زوال حكومت اور تسلط ركھتا ہے _وكان الله على كلّ شي مقتدرا

الله تعالى كےبارے ہيں ( مقتدر) اور (قدر) كا ايك معنى ہے (مفردات راغب)

۱۴_زمين پر زندگى كا نمودار ہونا، الله تعالى كى لا زوال قدرت كا ايك جلوہ ہے _

واضرب لهم مثل الحياة الدنيا وكان الله على كلّ شي مقتدرا

۱۵_كائنا ت ميں تغيرو تبدل اور دنيا وى زندگى كا زوال، الله تعالى كى مطلق قدرت كا ايك جلوہ ہے_

مثل الحياة الدنيا كماء ا نزلناه تذروه الريح و كان الله على كلّ شي مقتدرا

آسائش مندلوگ :آسائش مند لوگو ں كيلئے عبرت ۸

آنحضرت :انحضرت كى ذمہ دارى ۱

الله تعالى :الله تعالى كى حاكميت كى ہميشگى ۱۳; الله تعالى كى قدرت كى علامات ۱۴; الله تعالى كى قدرت كى ہميشگى ۱۳،۱۴;اللہ تعالى كے اردہ كى حكومت ۵; الله تعالى كے مختصّات ۱۳

بادل :بادلوں كا كردار ۳

بارش :بارش كے فوائد ۴،۷

پانى :پانى كے منابع ۳

حقائق :حقائق كى و ضاحت كى روش ۱

دنيا :دنيا كى خصوصيات ۷; دنيا كى ناپائيدارى ۱

دنيا پرست :دنيا پرست لوگوں كيلئے عبرت ۸

ذكر :ذكر كے آثار۸;دنياوى زندگى كى ناپائيدارى كا ذكر۸

زندگى :دنياوى زندگى كى خصوصيات ۷; دنياوى زندگى كى خلقت ۱۴;دنياوى زندگى كى ناپائيدارى ۷، ۸ ، ۱۲، ۱۵

طبيعى اسباب :طبيعى اسباب كا مسخر ہونا۵

عبرت :عبرت كے اسباب ۸

قرآن :قرآنى تعليمات كى روش ۲; قرآنى مثالوں كے فوائد ۲; قرآنى مثاليں ۶،۹

۴۳۰

قرآنى تشبيہات :محسوست كے ساتھ تشبيہ دنيا ۲

قرآنى مثاليں :خاك كے غباركے ساتھ مثال ۹;دنياوى زندگى كى مثال ۱، ۶،۹

كائنا ت :كائنات كے اسرار كو جاننے كا باعث۱۱; كائنات كے تغير و تبدل ۱۵;كائنات ميں مطالعہ كے آثار ۱۰

مثال :مثال كے فوائد ۱

موجودات :موجودات كى زندگى كو جاننے كا پيش خيمہ ۱۰

نباتات :نباتات كا پيداہونا ۷;نباتات كى خزان ۷; نباتات كے پيداہونے كے اسباب ۴

آیت ۴۶

( الْمَالُ وَالْبَنُونَ زِينَةُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَالْبَاقِيَاتُ الصَّالِحَاتُ خَيْرٌ عِندَ رَبِّكَ ثَوَاباً وَخَيْرٌ أَمَلاً )

مال اور اولاد زندگانى دنيا كى زينت ہيں اور باقى رہ جانے والى نيكياں پروردگار كے نزديك ثواب اور اميددونوں كے اعتبار سے بہتر ہيں (۴۶)

۱_ مال اور اولاد، دنيا كى ناپائيد زندگى كا جلوہ اور زينت ہيںالمال و البنون زينة الحياة الدنيا (بنون) اگر چہ ( ابن ) كى جمع ہے ليكن غالب طور پر مذكر و مونث ہر دو جنس كو شامل ہونگے جيسا بنى آدم اور انكى مانند كلمات سے صرف مذكر اولاد آدم مقصود نہيں ہے بلكہ تمام اولاد مراد ہے _

۲_ مال اور اولاد، دنياوى زندگى كى محكم كشش ركھنے واليچيزيں ہيں _المال و البنون زينة الحياة الدنيا

۳_اچھے كاموں كو بقا ء اور استحكام حاصل ہے _والباقيات الصالحات خير

طبعاً ( الباقيات ) كلمہ ( الصاحات ) كيلئے صفت ہو ناچاہيے كيونكہ اعمال صالحہ ايسے اعمال ہيں كہ جہنيں بقاء حاصل ہے ليكن يہاں تعبير مختلف ہے اسكى و جہ پچھلى آيات كے مطالب سے مناسبت اور دنياوى زندگى اور اسكى زينتوں كے زوال كے مدّ مقابل اعمال صالحہ كى بقاء پر اعتماد كرنا ہے_

۴_ باقى رہنے والے اعمال صالحہ، الله تعالى كے نزديك بہت اہميت كے حامل ہيں _

والباقيات الصالحات خير عند ربّك

۴۳۱

۵_ہميشہ رہے والے اعمال صالحہ كے مدّمقابل ، مال اولاد اور دنياوى زندگى كى اہميت بہت كم اور محدود ہے_

المال والبنوں زينة الحياة الدنيا والباقيات الصالحات خير

۶_ الله تعالى كى طرف سے عمل صالحہ كى جزاء كى ضمانت دى گئي ہے _والباقيات الصاحات خير عند ربّك

۷_ باقى رہنے والى معنوى اقداراور نتيجہ ميں ملنے والى الہى جزائيں ، اس لائق ہيں كہ انسان ان سے دل باندھے اور اميد ركھے _خير عند ربّك ثواباً وخير املا

۸_ نيك كردار كے مقابل الہى جزائ، اسكى ربوبيت كا ايك جلوہ ہے _والباقيت الصالحات خير عندربّك ثواب

۹_ہدايت اور تربيت كيلئے اميد اور آرزو كے انگيزہ سے فائدہ لينا، قرآنى روشوں ميں سے ايك روش ہے _

والباقيات الصالحا ت خير عند ربّك ثواباً و خير ا ملا

( ا مل ) سے مراد آرزو اور اميد ہے جبكہ (ا ملاً) خير كيلئے تميز ہے يعنى ''الباقيات الصالحات'' كے نتيجہ كے حوالے سے اميد ركھنا دنيا كى زندگى اور اسكى زينتوں سے اميد ركھنے سے بہتر ہے_

۱۰_مال اور اولاد كے بارے ميں اميدركھنا، فضول اور بے نتيجہ ہے _المال والبنوں زينة ولباقيات الصالحات خيرا ملا

۱۱_عن رسول الله (ص) (انه قال: ) يا ابن مسعود عليك بذكر الله والعمل الصالح; فانّ الله تعالى يقول : (والباقيات الصالحات خير عند ربّك ثواباً وخير املاً ) (۱)

رسول خدا(ص) سے نقل ہوا كہ آپ(ص) نے فرمايا : اے ابن مسعود تم پر ضرورى ہے ذكر خدا اور عمل صالحہ انجام دو كيونكہ الله تعالى نے فرمايا ہےوالباقيات الصالحات خير

۱۲_عن إدريس القمى قال : سا لت ا باعبدالله عن الباقيات الصالحات ؟فقال:هى الصلاة (۲) ادريس قمى كہتے ہيں كہ ميں نے امام صادق (ع) سے'' الباقيات الصالحات'' كامعنى پوچھا تو انہوں نے فرمايا: (وہ نمازہے)_

____________________

۱) مكارم الاخلاق ص۴۵۷ 'بحارالانوارج ۷۴ ص ۱۰۸ح ۱

۲)تفسير عياشى ج۲ ص۳۲۷ح۳۱ تفسير برہان ج۲ص۴۷۰ج ۴

۴۳۲

عن أبى عبدالله (أنه قال ) يا حصين لا تستصخرَنّ مودتنا فانها من الباقيات الصالحات ; امام صادق (ع) سے روايت ہوئي كہ آپ نے ''حصين بن عبدالرحمان ''سے فرمايا : اے حصين كبھى بھى ہم ( اہل بيت ) كى دوستى كو معمولى نہ سمجھ كيونكہ يہ باقيات صالحات ہے _

آرزو:آرزوكے آثار۹

اقدار۴،۵

الله تعالى :الله تعالى كى جزائيں ۶،۸;اللہ تعالى كى ربوبيت كى علاما ت ۸

اميد ركھنا :اميد كا كردار ۹;بے جااميد ركھنا ۱۰ ; فرزند پر اميد ركھنا ۱۰;مال پراميدركھنا۰ ۱;معنوى چيزوں پر اميد ركھنا ۷

اولاد:اولاد كى بے وقصتي۵; اولاد ى كشش۲; اولاد كى زينت۱

اہل بيت :اہل بيت كے ساتھ دوستى ۱۳

باقيات الصالحات :باقيات الصالحات سے مراد ۱۱،۱۲،۱۳

تربيت :تربيت كى روش ۹

جزاء:جزائكے اسباب۷;جزاء كى ضمانت۶

ذكر :الله كے ذكر كى اہميت۱۱

روايت : ۱۱،۱۲،۱۳

روش :روش كى بنياديں ۹

زندگى :دنياوى زندگى كا غير اہم ہونا ۵; دنياوى زندگى كى زينتيں ۱;دنياوى زندگى كى كشش ۲; دنيا و ى زندگى كى ناپائيدارى ۱

عمل صالح :عمل صالح كى اہميت ۱۱; عمل صالح كى جزاء ۶،۸; عمل صالح كى قدرو قيمت ۴;عمل صالح كى ہميشگى ۳

قرآن :قرآن كا ہدايت كرنا ۹

مال :مال كا غير اہم ہونا ۵;مال كى زينت ۱;مال كى كشش۲

معنويات :معنويات كى جزاء ۷;معنويات كا ہميشہ ہونا ۷

نماز :نماز كى اہميت ۱۲

۴۳۳

آیت ۴۷

( وَيَوْمَ نُسَيِّرُ الْجِبَالَ وَتَرَى الْأَرْضَ بَارِزَةً وَحَشَرْنَاهُمْ فَلَمْ نُغَادِرْ مِنْهُمْ أَحَداً )

اور قيامت كا دن وہ ہوگا جب ہم پہاڑوں كو حركت ميں لائيں گے اور تم زمين كو بالكل كھلا ہوا ديكھوگے اور ہم سب كو اس طرح جمع كريں گے كہ كسى ايك كو بھى نہيں چھوڑيں گے (۴۷)

۱_دنيا كى ناپائيدار زندگى سے دل نہ باندھنے كيلئے آخرت كے مسائل كى ياد دپانى ضرورى ہيں _

المال و البنون زينة الحياة الدينا و يوم نسيّر الجبال

( يوم ) فعل مقدر (اذكر ) كا مفعول ہے يعنى اس دن كو يا د كرو كہ

۲_قيامت كے دن، پہاڑ جگہ تبديل كريں گے اور سطح زمين ہموار ہو جائيگى _ويو م نسيّر الجبال و ترى الأرض بارزة

(نسيّر) ( سير ) كے ما دہ سے ہے يعنى ہم چلا ئے گئے اور ''بارزة ''سے مرادظاہرور واضح ہونا ہے چونكہ قيامت كے دن پہاڑ اپنى جگہ سے اكھاڑ ديئےائيں گے زمين كى نا ہموارى ختم ہو جائيگى اور اسكى تمام جگہ ديكھى جائيگى اور آنكھوں كے سامنے كوئي ركارٹ نہ ہو گى _

۳_ روزقيامت اور انسان كے محشور ہونے كے وقت زمين كى زندگى كا اور جغرافيائي نظام تبديل ہو جائيگا_

و يوم نسيّر الجبال و ترى الا رض بارزة و حشرناهم

ظاہر ہے كہ پہاڑوں كے چلنے اور زمين كى سطح ہموار ہونے سے نئي حالت پيدا ہو جائے گى اور پرانى حالت ختم ہو جائيگى _

۴_روزقيامت سب انسان الله تعالى كے ارادہ سے جمع اور اكھٹے ہو نگے _و حشر نا هم

(حشر) يعنى روزقيامت لوگوں كا جمع كرنا ہے ( لسان العرب ) اور ( حشرنا ) كو ماضى ميں لانا (حشر ) كے يقينى ہونے كو بتارہاہے _

۵_ميدان قيامت ميں كسى كو پيشى سے معافى نہيں ہوگي_

و حشرنهم فلم نغادر منهم احدا

''عذر'' كا معني'' ترك كرنا ''ہے_

۶_ بغير كسى استثناء كے سب انسانوں كا محشور ہونا، مشركين اور دنيا پرستوں كو خبردار كرناہے_وحشرنهم فلم نغادر منهم احد

۴۳۴

ما قبل آيات جو كہ مشرك صفت دنيا پرستوں كے بارے ميں تھيں كو مدّ نظر ركھتے ہوئے حشر سے كسى كا استثناء نہ ہونا ان لوگوں كيلئے تصريح ہے جنہوں نے دنيا سے دل لگا پائے اور آخرت كو اہميت نہيں ديتے_

الله تعالى :الله تعالى كے ارادے كے آثار ۴

انسان :انسانوں كا حشر ۵،۶; انسانوں كے حشر كا سرچشمہ ۴

پہاڑ :پہاڑوں كا حركت كرنا ۲

حشر :حشر كا عام ہونا ۵،۶

دنيا پرست :دنيا پرستوں كو خبرداركرنا ۶

دنيا پرستى :دنيا پرستى كے ليے ركاوئيں ۱

ذكر:قيامت كے ذكر كى اہميت ۱

زمين :زمين كا ہموار ہونا ۲

قيامت :قيامت كى علامتيں ۲; ۳قيامت ميں پہاڑ ۲; قيامت ميں جمع ہونا ۴; قيامت ميں زمين ۲; ۳

مشركين :مشركين كو خبردار كيا جانا ۶

آیت ۴۸

( وَعُرِضُوا عَلَى رَبِّكَ صَفّاً لَّقَدْ جِئْتُمُونَا كَمَا خَلَقْنَاكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ بَلْ زَعَمْتُمْ أَلَّن نَّجْعَلَ لَكُم مَّوْعِداً )

اور سب تمھارے پروردگار كے سامنے صف بستہ پيش كئے جائيں گے اور ارشاد ہوگا كہ تم آج اسى طرح آئے ہوجس طرح ہم نے پہلى مرتبہ تمھيں پيدا كيا تھا ليكن تمھارا خيال تھا كہ ہم تمھارے لئے كوئي وعدہ گا نہيں قرار ديں گے (۴۸)

۱_قيامت كے دن تمام انسان_ خواہ وہ نہ بھى چاہيں _ الله تعالى كے حضو رپيش ہونگے _

وعرضوا على ربك صف

( عُرضوا) كا مجہول آنا بتاتاہے كہ انسانوں كا الله تعالى كے حضور پيشہونا ناگزير ہے اوروہ اپنا كوئي اختيار نہيں ركھتے _

۲_قيامت كے دن انسان، منظم و مرتّب صف باندھے حاضر ہونگے_و عرضواعلى ربّك صفا

كلمہ ( صفاً ) فعل (عرضو ا) كے نائب فاعل كا حال ہے (مصفوفين) يعنى انسان صف باندھے حاضر ہونگے اس سے معلوم

۴۳۵

ہوتا ہے كہ لوگوں ميں نظم اور طبقہ بندى ہوگى _ البتہ دوسرى آيات كے قرينہ سے واضح ہوتا ہے كہ ان صفوں ميں اكھٹے لوگ مخلوط نہيں ہونگے بلكہ ہر گروہ اور ہر مكتب كے پيروكا رجدا جدا شكل ميں ميدان قيامت ميں حاضر ہونگے_

۳_ روز قيامت، انسانوں كے دنيا وى مراتب اور امتيازات ختم ہوجائينگے _وعرضو ا على ربّك صفا

اگر ( صفاً) سے يہ مراد ہو كہ سب كے سب ايك صف ميں محشور ہونگے تو جملہ (عرضوا)كہ اس بات كى طرف اشارہ ہے اسكے با وجو كہ دنيا دالے مال و متاع اور دوسرے مادى دنيا كے معيارات كو امتياز سمجھا كرتے تھے ليكن اسوقت ايك صف ميں محشور ہونگے مالدار شحص اور اسكے ساتھى كى داستان والى آيات كى طرف توجہ كرنے سے يہ نكتہ بخوبى واضح ہوجاتاہے _

۴_لوگوں كا محشور ہونا اور پروردگار كے حضور پيش ہونا، ربوبيت الہى كا تقاضا ہے _و حشرنا هم و عرضواعلى ربّك صف

۵_مشرك اور دنيا پرست لوگ قيامت ميں الله تعالى كے لطف و رحمت كى نظر سے محروم ہونگے _

و عرضوا على ربّك صفا

اگر ( عرضوا) كا نائب فاعل مشرك اوردنيا پرست ہوں كہ پچھلى آيات ميں انكا تذكرہ رہا ہے تو اس فعل كا مجہول آنا اور ''ربّك '' كى جگہ'' ربّك'' كا انا جو كہ پيغمبر كو خطاب ہے ان كے حقير ہونے كو بتارہاہے _

۶_ميدان قيامت اور مشركين كے محشور ہونے كے بارے ميں الله تعالى كى خبر دينا، انكى سركشى اور دنيا پرستى كےمقابلے ميں پيغمبر(ص) كو تسلى اور حوصلہ دينا ہے_والباقيات الصالحات خير عندربّك ...وترى الارض ...على ربّك

( ربّك ) اور( ترى )ميں خطاب پيغمبر(ص) كو ہے مشركين كى قيامت سے متعلق آيات ميں اس طرح كا خطاب انكى سركشى كے مقابلے ميں پيغمبر كو ايك تسلى دينا ہے _

۷_قيامت كے ر وز انسان، زمانہ پيدائش كى مانند مال و اولااور ہر قسم كےعنوان و امتياز سےعاريپيش ہونگے _

لقد جئتمونا كما خلقنا كم ا وّل مرّة

انسانوں كے روز قيامت حاضر ہونے كو انكے زمانہ پيدائش سے مشابہ قرار دينے كى وجہ ممكن ہے يہہو كہ انكے پاس كوئي مادى وسائل نہ ہونگے اور وہ ہر قسم كے امتياز اور معيار سے خالى ہونگے _

۸_اللہ تعالى كے ہا تھوں انسانوں كى سب سے پہلى خلقت، موت كے بعد انكى دوبارہ خلقت پر الله تعالى كے قادر ہونے كى دليل ہے_لقد جئتمونا كما خلقنكم أول مرّة

۴۳۶

لوگوں كے قيامت ميں حاضر ہونے كو انكى دنياوى پيدائش سے تشبيہ دينے كى وجہ شائد معاد كو بعيد شمار كرنے كے شبہہ كو دور كرنا اور مشركين كى معاد كے انكارپرسرزنش ہويعنى وہ پہلى خلقت آيا معاد كو قبول كرنے اور اس پر الله تعالى كے قادر ہونے كيلئے كافى ووافى دليل نہيں تھى ؟

۹_ انسان كى معاد، جسمانى معاد اور اسكے دنياوى بدن والى خصوصيات ركھتى ہے _لقد جئتمونا كما خلقنكم أول مرّة

انسانوں كے روز قيامت پيش ہونے كو انكى دنيا ميں پہلى خلقت سے تشبيہ دينے كاتقاضا ہے كہ اہم خصوصيات مثلا حسبمانى ہونا ميں يہ دونوں مشابہہ ہيں _

۱۰_ قيامت سے غفلت اور اسكے بر پا نہ ہونے كا تصور، ايسى آفت ہے كہ جس نے تمام مشركوں كو اپنے گھيرے ميں ليا ہو اہے _بل زعمتم ا لن نجعل لكم موعدا

۱۱_معاد كى نفى ،محض ايك گمان ہے كہ جو علمى حيثيت اور يقين سے خالى ہے _بل زعمتم ا لن نجعل لكم موعدا

( زعم) ايسا عقيدہ يابات ہے كہ جو گمان پر قائم ہو ( مو عداً) اسم زمان ہے جو مقرر شدہ وقت كو كہتے ہيں اس آيت ميں (د وعداً) سے مراد قيامت ہے_

۱۲_معاد كے منكرين، ميدان قيامت ميں اپنے آپ كو موجود يكھ كر اپنے زعم باطل كى غلطى كو گہرائي سے درك كريں گے _بل زعمتم ا لن نجعل لكم موعد (بل زعمتم )كى تعبير در حقيقت ايسے شخص كى حالت كو بيان كررہى ہے جو اپنے يقين كے بر عكساپنے آپ كو ميدان قيامت ميں ديكھتا ہے اور اس حوالے سے شرمندہ ہے _

۱۳_دنياوى زندگى كا ايك انجام اور مقصد ہے جو آخرت ميں متحقق ہوگا _بل زعمتم ا لن نجعل لكم موعدا

۱۴_قيامت، الله تعالى كے وعدوں كے پورے ہونے كا زمانہ ہے _بل زعمتم ا لن نجعل لكم موعدا

۱۵_قيامت، الله تعالى كى قدرت اور اسكے ارادہ كے ساتھ برپا ہوگى _بل زعمتم ا لن نجعل لكم موعدا

۱۶_دنياوى زندگى سے دل باندھنے كى نسبت معاد كا انكا ر، بدتر اور شرك پيدا ہونے ميں موثر ترين كردا ر كرنے والاہے _

لقد جئتمونا كما خلقنا كم أول مرّة بل زعمتم ا لن نجعل لكم موعدا

حر ف (بل) اضراب كيلئے اور ما قبل و ما بعد كے مساوى نہ ہونے كو بتانے كيلئے آتا ہے _ تو اس مطلب ميں (كما خلقنا كم ) كى تشبيہ كى وجہ انسان كا آغاز خلقت اور معاد كے وقت مال اور

۴۳۷

اولادكانہ ہونا ہے _

آنحضرت (ص) :انحضرت(ص) كو جھٹلانے والے ۶; آنحضرت(ص) كى حوصلہ افزائي كرنا ۶

الله تعالى :الله تعالى كى اخروى رحمت سے محروم لوگ ۵; الله تعالى كى ربوبيت كے آثار ۴; الله تعالى كى قدرت كى دليليں ۸;اللہ تعالى كے ارادہ كے آثار ۱۵;اللہ تعالى كے اخروى لطف سے محروم لوگ ۵ ;اللہ تعالى كے وعدوں ۱۵; كے پورے ہونے كا زمانہ ۱۴

انسان :آغاز خلقت ميں انسان ۷; انسان كى خلقت كے آثار ۸;انسانوں كا حشر ۱،۲،۴;قيامت ميں انسان ۱،۲

حشر:حشر كا پيش خيمہ ۴; حشر كا عام ہونا ; حشر كا يقينى ہونا ۱; حشر كى خصوصيات ۲

دنيا پرست :قيامت ميں دنيا پرست ۵

دنيا پرستى :دنيا پرستى كى مذمت ۱۶

زندگى :دنياوى زندگى كا انجام ۱۳

شرك :شرك كے اسباب ۱۶

قرآن :قران كى تشبيہات ۷

قرآنى تشبيہات :آغاز خلقت سے تشبيہ ۷;ولادت سے تشبيہ ۷; معادكى تشبيہ ۷;

قيامت :قيامت سے غافل لوگ ۱۰;قيامت كى خصوصيا ت ۳;۱۴;قيامت كے برپا ہونے كا سرچشمہ ۱۵; قيامت ميں حقائق كا ظاہر ہونا ۱۲; قيامت ميں دنياوى امتيازات ۳

مشركين :مشركين كا حشر ۶;مشركين كا عقيدہ ۱۰; مشركين كى دنيا پرستى ۶; مشركين كى غفلت ۱; قيامت ميں مشركين ۵،۶

معاد :جسمانى معاد ۹;روزقيامت معاد كے جھٹلا نے والے ۱۲; معاد كو جھٹلا نے پر سرزنش ۱۶; معاد كو جھٹلا نے كا غير منطقى ہونا ۱۲;معاد كو جھٹلانے كے آثار ۱۶;معاد كى خصوصيا ت ۹; معاد كے دلائل ۸; معاد كے ردكا غير منطقى ہونا ۱۱

۴۳۸

آیت ۴۹

( وَوُضِعَ الْكِتَابُ فَتَرَى الْمُجْرِمِينَ مُشْفِقِينَ مِمَّا فِيهِ وَيَقُولُونَ يَا وَيْلَتَنَا مَالِ هَذَا الْكِتَابِ لَا يُغَادِرُ صَغِيرَةً وَلَا كَبِيرَةً إِلَّا أَحْصَاهَا وَوَجَدُوا مَا عَمِلُوا حَاضِراً وَلَا يَظْلِمُ رَبُّكَ أَحَداً )

اور جب نامہ اعمال سامنے ركھا جائے گا تو ديكھو گے كہ مجرمين اس كے مندرجات كو ديكھ كر خوفزدہ ہوں گے او ركہيں گے كہ ہائے افسوس اس كتاب نے تو چھوٹا بڑا كچھ نہيں چھوڑا ہے اور سب كو جمع كرليا ہے اور سب اپنے اعمال كو بالكل حاضر پائيں گے اور تمھارا پروردگار كسى ايك پر بھى ظلم نہيں كرتا ہے (۴۹)

۱_ روز قيامت، ہر شخص كا نامہ اعمال اسكى آنكھوں كے سامنے ركھا جائيگا اور وہ اسكا مشاہدہ كرے گا _

ووضع الكتاب ويقولون ى ويلتنا مال هذا الكتاب

بعدو الے جملات كے قرينہ كى بناء پر (الكتاب) سے مراد وہ نوشتہ ہے كہ جس ميں لوگوں كے تمام ا عمال تحرير ہوئے ہيں (وضع الكتاب ) ميں (الف و لا) كا حرف افراد كے حوالے سے عموميت پر دلالت كرتا ہے يعنى ''كل كتاب''كہ تمام كتابيں ہرہر فرد كے سامنے ركھى جائيں گى اورہر شخص اپنى اپنى كتاب كا مشاہدہ كرے گا _

۲_ تمام انسانوں كے اعمال، ايك جامع كتاب ميں درج ہوتے ہيں _

ووضع الكتاب فترى المجرمين مشفقين ممّا فيه

اگر ( الكتاب ) سے مراد كتاب كى جنس و ماہيت ہو تو ممكن ہے كہ ( وضع الكتاب ) كا جملہ دلالت كررہا ہے كہ لوگوں كے تمام تر اعمال ايك كتاب ميں درج ہونگے اور روز قيامت انكو دكھائي جائيگى مندرجہ بالا مطلب اس احتمال كى بناء پرہے _

۳_ روزقيامت گنا ہ كار، نامہ اعمال كا مشاہدہ كرتے وقت اپنے كردار سے وحشت اور خو فزدہ ہو جائينگے_

فترى المجرمين مشفقين ممّافيه

۴۳۹

۴_روز قيامت، گناہ گاروں كے چہرے پر خوف و ہراس اور وحشت واضح طور پر دكھائي دے گي_

فترى المجرمين مشفيقن ممّا فيه

''اشفاق'' ايسى توجہ كو كہتے ميں كہ جو خوف كے ساتھ ملى جلى ہو او رجب ( من) كے ساتھ متعدى ہو تو اس سے مراد واضح طور پر خوف اور وحشت ہے ( مفردات راغب) تو عبارت ( مشفقين ممّافيہ) دلالت كررہى كہ جب گناہ گار لوگ اپنے نامہ اعمال كو ديكھيں گے تو خوف و وحشت ميں مبتلا ہو جائيں گے اورفعل'' تري'' كے قرينہ سے خوف انكے چہرے پرنماياں ہوگا _

۵_دنيا كے آسائشمند او ر جرى گناہ گا ر، روز قيامت وحشت زدہ ہونگے _فترى المجرمين مشفقين ممّافيه

اس چيز پر تو جہ كرتے ہونے كہگذشتہآيات مغرور آسائش مند شخص كے بارے ميں تھيں توخوف زدہ مجرمين كا واضح مصداق ان آيات ميں مغرور دنيا پرست ہوگا _

۶_شرك، دنيا پرستى اور مال و اولاد پر مغرور ہو نا ، آخرت ميں خوف و ہرا س اور وحشت كى صورت ميں سا منے آئيگا_

فترى المجرمين مشفقين مما فيه

پچھلى آيات ، دنيا پرستي، اور شرك كے بار ے ميں تھيں لہذا گناہگاروں كا مقصود مصداق يہاں دنيا وى سہوليت ميں مست مشرك ہيں _

۷_ جرم و گناہ سے پرہيز كرنے والے روز قيا مت اپنا اعمال نامہ ديكھتے وقت كوئي خوف وہراس محسوس نہيں كريں گے _

ووضع الكتاب فترى المجرمين مشفقين مما فيه

جملہ'' وضع الكتاب ''كتاب كے ركھنے اور مشاہدہ كوصرف گناہ گاروں سے خاص نہيں كرر ہا ليكن جملہ ''فترى المجرمين'' فقط گناہ گاروں كے خوف كو بتا رہا ہے لہذا دوسرے لوگ اپنے اعمال نامہ كو ديكھتے وقت يہ اضطرابى كيفيت نہيں پائيگے_

۸_گناہ، انسان كے روز قيامت ڈرنے اور پريشان ہونے كا با عث ہے _فترى المجرمين مشفقين مما فيه

۹_ معاد پر عقيدہ نہ ركھنا، گناہ كرنے كا اہم سبب اور سب سے بڑى بنياد ہے _

وعرضوا على ربك ...و وضع الكتاب فترى المجرمين

(وضع الكتاب ) پچھلى آيت ميں ''عرضوا'' پر عطف ہے تو ان دونوں آيتوں ميں ربط بتا رہا ہے كہ يہاں گناہگاروں سے مراد وہى منكرين معاد ہيں كہ جنكا پچھلى آيت ميں تذكرہ ہوا ہے _

۴۴۰

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

:''فوكزه العالم ، فقتله_ فقال له موسى (ع) : ا قتلت نفساً زكية بغير نفس لقد جئت شيئاً نكراً؟ ''قال :'' فا دخل العالم يده فاقتلع كتفه فا إذا عليه مكتوب : كافر مطبوع'' (۱)

امام صادق (ع) سے روايت نقل ہوئي ہے ...اس وقت كہ عالم ( خضر (ع) ) موسى (ع) كے ہمراہ جارہے تھے يكدم ايك لڑكے سے ملے كہ جو كھيل رہا تھا_ امام(ع) فرماتے ہيں كہ اس عالم نے اسے گھونسا ما را اور اسے قتل كرديا موسى (ع) نے اسے كہا :ا قتلت نفساً ذكية بغير نفس ...؟ امام فرماتے ہيں : اسكے بعد عالم نے ہاتھ بڑھا يا اور لڑكے كا كندھا نكالا كہ جس پر لكھا ہوا تھا كافر مطبوع ( يعنى وہ كافر كہ جس پر كفر كى مہرلگى ہو )

۱۲_عن أبى عبداللّه(ع) : ...وخرجا (موسي(ع) وخضر(ع) ) على ساحل البحر فإذا غلام يلعب مع غلمان ...فتورّ كه العالم فذبحه (۲)

امام صادق(ع) سے روايت نقل ہوئي ہے ...وہ دونوں (موسي(ع) اورخضر(ع) ) دريا كے ساحل پر كشتى سے نكلے يكدم ايك لڑكے سے ملے كہ جو دوسرے چندلڑكوں سے كھيل رہاتھا ...پس اس عالم (خضر(ع) ) نے اسے ۱پنے زانو پر ڈالا اور ذبح كرديا //اوليا ء الله :اوليا ء الله كا عفو كرنا۳;اوليا ء الله كى صفات۳/بے گناہ لوگ:بے گناہ لوگوں كے قتل كا ناپسنديدہ ہونا ۱۰//خضر (ع) :خضر(ع) پر اعتراض ۵،۱۱; خضر(ع) كا سفر ۱;خضر(ع) كا قصہ ۱،۲،۴،۵،۱۱،۱۲;خضر(ع) كى نوجوان سے ملاقات ۲; خضر(ع) كے قصہ ميں نوجوان كاقتل ۴،۱۱،۱۲;خضر(ع) كے قصّہ ميں نوجوان كے قتل كا فلسفہ ۱۱;خضر(ع) كے قصّہ ميں نوجوانوں كى بے گناہى ۵

خطاكار لوگ:خطاكارلوگوں كومعاف كرنا۳;خطاكار لوگوں كى معذرت قبول كرنا۳

روايت :۱۱،۱۲//عمل :ناپسنديدہ عمل۱۰

قانون برائت :۶قصاص:قصاص كے احكام۹;يہوديت ميں قصاص۹

موسي(ع):موسي(ع) كا اعتراض ۵،۱۱; موسى (ع) كادينى تعصّب۸ ; موسي(ع) كاسفر۱ ; موسي(ع) كاعلم غيب ۷; موسي(ع) كا قصہ ۱،۲،۴ ،۵،۱۱ ،۱۲;موسي(ع) كى خضر كے ساتھ ہمراہى ۱;موسي(ع) كى فكر ۵; موسي(ع) كى معذرت قبول ہونا۱;موسي(ع) كى نوجوان كے ساتھ ملاقات ۲

____________________

۱) تفسير عياشى ج۲ص۳۳۵ج۵۳ ، نورالثقلين ج۳ص۲۸۶،ح۱۶۷_

۲) تفسير عياشى ج۲ ص۳۳۳ح۴۷ ،نورالثقلين ج۳ص۱۵۱۶_

۵۰۱

آیت ۷۵

( قَالَ أَلَمْ أَقُل لَّكَ إِنَّكَ لَن تَسْتَطِيعَ مَعِي صَبْراً )

بندہ صالح نے كہا كہ ميں نے كہا تھا كہ آپ ميرے ساتھ صبر نہيں كرسكتے ہيں (۷۵)

۱_حضرت خضر(ع) نے دوسرى بار اور بڑے واضح انداز ميں حضرت موسى كى بے صبرى او ر بلاوجہ سوالات پر انہيں تنبيہ اور خبر دار كيا _لقد جئت شيئاً نكراً _ قال ا لم أقل لك

حضرت خضر(ع) كى دوسرى تنبيہ ميں كلمہ '' لك '' آيا ہے اس كلمہ كے اضافہ ہونا اور يہ وضاحت كہ حضرت موسي(ع) كے بارے ميں يہ كلام آيا ہے، انكے سوال كے صحيح نہ ہونے پر تاكيد ہے _

۲_ حضرت خضر(ع) نے يہ كہ موسي(ع) انكے كاموں پر صبر نہيں كر سكتے تيسرى بار تاكيد كى ہے _

قال ا لم ا قل لك إنّك لن تستيطع معى صبرا

حضرت خضر(ع) نے ايك دفعہ حضرت موسى (ع) كے ساتھ ملاقات كى ابتداء ميں اور دوسرى دفعہ كشتى والے واقعہ كے بعد ايسااور تيسرى مرتبہ نوجوان كے قتل كے بعد جملہ بيان كيا كہ جس ميں عربى عبارت كے حوالے سے چند مرتبہ تاكيد موجود ہے''إنّك لن تستيطع معى ...''

۳_حضرت خضر(ع) كى اپنے كاموں كے مقابل حضرت موسى كى بے صبرى كے حوالے سے پيشگوئي حقيقت كے مطابق تھى _لقد جئت شيئاً نكراً_ قال ا لم ا قل لك إنك لن تستيطع معى صبرا

۴_نوجوان كے قتل كرنے كى غرض كے حوالے سے حضرت موسي(ع) كى لا علمى كى طرف حضرت خضر (ع) نے اشارہ كرتے ہوئے انكے اعتراض كو غلط جانا اوراس كوان ميں تحمل و صبر كے كم ہونے كے سلسلہ ميں اپنى شناخت كے درست ہونے پر علامت كے قرار ديا _لقد جئت شيئاً نكراً _ قال ا لم ا قل لك إنّك لن تستيطع معى صبرا

۵_ الله تعالى كے خاص اولياء اور علوم الہى كے حامل لوگوں كى صحبت سے فيض اٹھانے كيلئے صبراور تحمل، ضرورى شرط ہے _

۵۰۲

قال ا لم ا قل لك إنك لن تستيطع معى صبرا

اولياء الله :اولياء الله سے فائدہ اٹھانے كى شرائط ۵;اولياء الله ہم نشينى كے آداب۵; اولياء الله كى ہم نشينى ميں صبر ۵

خضر (ع) :خضر(ع) كا قصہ ۱،۲،۳،۴;خضر(ع) كى پشيكوئي كا پور ا ہونا ۳; خضر(ع) كى تشبہات ۱; خضر(ع) كے قصہ ميں نوجوان كا قتل ۴

علماء :علماء سے فائدہ اٹھانے كى شرائط ۵; علماء كے ساتھ ہم نشينى كے آداب ۵;علماء كے ساتھ ہم نشينى ميں صبر ۵

موسى (ع) :موسي(ع) كا اعتراض رد ہونا ۴; موسي(ع) كا عجز ۲;موسي(ع) كا قصہ ۱،۲،۳،۴;موسي(ع) كو خبردار كيا جانا ۱;موسى (ع) كى بے صبرى ۱،۲،۳،۴

آیت ۷۵

( قَالَ إِن سَأَلْتُكَ عَن شَيْءٍ بَعْدَهَا فَلَا تُصَاحِبْنِي قَدْ بَلَغْتَ مِن لَّدُنِّي عُذْراً )

موسى نے كہا كہ اس كے بعد ميں كسى بات كا سوال كروں تو آپ مجھے اپنے ساتھ نہ ركھيں كہ آپ ميرى طرف سے منزل عذ رتك پہنچ چكے ہيں (۷۶)

۱_حضرت موسى (ع) نے حضرت خضر(ع) سے انكے غير معمولى كا موں كے مقابلہ ميں اپنے صبر كرنے كے حوالے سے آخرى مہلت مانگى _قال إن سا لتك عن شى بعد ها فلا تصاحبنى

۲_ حضرت موسى (ع) نے اپنے آپ كو دوبارہ سوال كرنے (تيسرى دفعہ خلاف ورزى كرنے ) كى صورت ميں حضرت خضر(ع) كى مصاحبت سے محروميت كا لائق سمجھا_قال إن سا لتك عن شى بعد ها فلا تصاحبني

۳_ خطا كرنے والوں اور بھول جانے والوں كو تين بار، مہلت دينا مناسب ہے _

قال إن سا لتك عن شى بعد فلا تصاحبني

حضرت موسى (ع) نے تيسرى دفعہ اپنى بے صبرى كا مظاہرہ كرنے اور حضرت خضر(ع) كے حكم كى خلاف ورزى كرنے كى صورت ميں اپنے آپ كو حضرت خضر(ع) كى مصاحبت سے جدائي اور محروميت كا لائق

۵۰۳

سمجھا لہذا كہہ سكتے ہيں كہ لوگوں كو تين مرتبہ مہلت دينا ،قابل قبول ہے _

۴_ حضرت موسى (ع) نے حضرت خضر(ع) كے كردار كو تحمل كرنے اور ان كى ہمراہى سے عاجزى كا اعتراف كرليا_

قال قد بلغت من لدنى عذرا

۵_ حضرت موسى (ع) نے يہ اعتراف كرليا كہ حضرت خضر كے كاموں كے مقابلہ ميں ان كے خاموش رہنے كى خلاف و رزى كے نتيجہ ميں ميں ان سے جدائيكے سلسلہ ہيں حضرت خضر(ع) معذور ہيں _

قال ان سألتك قد بلغت من لدنى عذرا

جملہ''قد بلغت من لدنى عذراً'' يعنى ميرى نظر ميں آپكے پاس مصاحبت چھوڑنے پر قابل قبول عذرہے يہ جملہ '' قد '' كے قرينہ كے مطابق ''إن سا لتك '' سے مربوط نہيں ہے بلكہ حضرت موسي(ع) كا اعتراف ہے كہ آپ ہمراہى چھوڑ نے كا حق ركھتے ہيں ليكن ميں ايك اور مہلت چاہتا ہوں _

۶_اپنے اوپر تنقيد اور اپنے حوالے سے فيصلہ كرنے ميں انصاف كرنا اور اپنے اعمال كى ذمہ دارى قبول كرنا، بلند اور شائستہ صفات ہيں _إن سا لتك عن شى بعد ها فلا تصاحبنى قد بلغت من لدنى عذرا

اسكے باوجود كہ حضرت موسى (ع) نے پہلے مرحلہ ميں بھول جانے كے عذر كو بيان كيا ليكن اس مرحلہ ميں سب سے پہلے اپنے عمل كى ذمہ دارى كو قبول

كيا اور دوسرايہ كہ اپنے حوالے سے انصاف سے فيصلہ صادر كيا اور حضرت خضر(ع) كو اپنے سے جدا ہونےكے سلسلہ ميں بر حق جانا_بھول جانے والے :بھول جانے والوں كو مہلت ۳

خضر (ع) :خضر(ع) كى ہمراہى سے محروميت كے اسباب ۲; خضر(ع) كا عذر ۵; خضر (ع) كا قصہ ۱،۲،۴،۵;خضر(ع) كى طرف سے مہلت طلب كرنا ۱//خطا كا ر لوگ :خطا كاڑ لوگوں كو مہلت ۳

خود :خود پر تنقيد ۶//ذمہ دارى لينا :۶

صفات :اچھى صفات ۶

فيصلہ كرنا :فيصلہ كرنے ميں عدالت ۶

موسى (ع) :موسي(ع) كا اقرار ۴،۵; موسي(ع) كا عجز ۴; موسي(ع) كا قصہ ۱،۲،۴،۵;موسي(ع) كا مہلت لينا ۱;موسي(ع) كى بے صبرى ۵; موسي(ع) كى رائے ۲; موسي(ع) كى عہد شكنى ۵;موسي(ع) كے سوالوں كے آثار ۲

۵۰۴

آیت ۷۷

( فَانطَلَقَا حَتَّى إِذَا أَتَيَا أَهْلَ قَرْيَةٍ اسْتَطْعَمَا أَهْلَهَا فَأَبَوْا أَن يُضَيِّفُوهُمَا فَوَجَدَا فِيهَا جِدَاراً يُرِيدُ أَنْ يَنقَضَّ فَأَقَامَهُ قَالَ لَوْ شِئْتَ لَاتَّخَذْتَ عَلَيْهِ أَجْراً )

پھر دونوں آگے چلتے رہے يہاں تك كہ ايك قريہ والوں تك پہنچے اور ان سے كھانا طلب كيا ان لوگوں نے مہمان بنانے سے انكار كرديا پھر دونوں نے ايك ديوار ديكھى جو قريب تھا كہ گر پڑتى بندہ صالح نے اسے سيدھا كرديا تو موسى نے كہا كہ آپ چاہتے تو اس كى اجرت لے سكتے تھے (۷۷)

۱_ حضرت خضر(ع) نے حضرت موسي(ع) كى مہلت كى درخواست قبول كى اور انہيں تيسرى بار اپنى ہمراہى كا موقع ديا _

إن سا لتك عن شيئ: بعد ها فلا تصاحبني فا نطلقا

۲_ حضرت موسى (ع) اور خضر(ع) اپنے سفر اور حركت كرنے كى راہ ميں ايك آبادى تك پہنچے اور وہاں كے لوگوں سے ملاقات كى _فانطلقا حتّى إذا ا تيا أهل قرية

يہ كہ كون سى آبادى انكى راہ ميں آئي بہت سے احتمالات ہيں ان ميں ايك احتمال يہ ہے كہ وہ شہرناصرہ ہے جو كہ ساحل دريا پر واقع تھا اس كو مجمع البيان نے امام صادق عليہ السلام سے روايت كيا ہے _

۳_حضرت موسى (ع) اورخضر(ع) نے بھوك محسوس كرتے ہوئے شہروالوں ، سے غذا اور خوراك كا تقاضا كيا _

استطعما أهله''يضيّفوهما '' كے قرنيہ كى بناء پر '' استطعام '' سے مرادسفر كو جارى ركھنے كيلئے غذامہيا نہيں چاہى تھى بلكہ حضرت موسى (ع) اور حضرت خضر(ع) اس وقت بھوكے تھے _

۴_شہر والوں ميں سے كوئي بھي، حضرت موسى (ع) اور خضر(ع) كى ميزبانى اورانہيں كھانا كھلانے كيلئے تيار نہيں ہوا_

استطعمإهلها فا بوا أن يضيّفوهم

''ابائ'' سے مراد'' انكا ر كرنا اور نہ كرنا'' ہے _

۵_ جس شہر ميں حضرت موسي(ع) اور حضرت خضر(ع) داخل ہوئے تھے وہاں كے لوگ مہمان كى خدمت اور غريب نوازى جيسى صفات سے عارى تھے _فا بوا ا ن يضيّفوهم

۵۰۵

۶_ مسافروں كى ميزبانى اور راستے كى مشكلات كا شكار ہونے والوں كو كھانا كھلانا، ايك پسنديدہ كام ہے _

استطعما أهلها فا بو ا ا ن يضيّفوهم

حضرت موسى (ع) اور خضر(ع) نے صرف كھانا مانگا ليكن قرآن شہروالوں كى يہ توصيف كررہا ہے كہ انہوں نے مہمان كى خدمت كرنے سے انكار كيا يعنى چاہيے يہ تھا كہ لوگ ان دونوں كو اپنا مہمان بناتے اور غذاكے علاوہ كو ئي بھى چيز دينے سے دريغ نہ كرتے_

۷_پيغمبرى كے مقام پر فائز ہوتے ہوئے بھى لوگوں سے اپنى مادى احتياج كا تقاضا،غير مناسب نہيں ہے _

استطعما ا هله حضرت موسى (ع) اور خضر(ع) نبى تھے پھر بھى انہوں نے لوگوں كے سامنے اپنى احتياج كا اظہار كيا پس معلوم ہوا كہ اس قسم كى درخواست، پيغمبر وں اور اولياء كيلئے نامناسب نہيں ہے _

۸_ حضرت موسى (ع) اور خضر(ع) نے اس آبادى ميں ايك ايسى ديوار كو ديكھا جوگرنے اور خراب ہونے والى تھى _

فوجدا فيها جداراً يريد ان ينقض ''انقضاض'' مادہ'' قضض'' سے ہے اسكا معنى ''بكھر نا'' ہے (قاموس ) فعل ''يريد'' كا استعمال كہ جو عام طور پر با اختيار موجودات كيلئے استعمال ہوتا ہے يہاں بطور استعارہ ہے يعنى ديوار اس حدتك گرنے كے خطرہ ميں تھى كہ گويا خودگرنے اورخراب ہو كر بكھرنے كا عزم كر چكى ہو_

۹_حضرت خضر(ع) نے گر نے والى ديوار كو درست اور تعمير كيا _يريد ا ن ينقضّ فا قامه

۱۰_گرنے والى ديوار كى حضرت خضر(ع) كے ہاتھوں تعمير، شہر كے لوگوں كى نگاہوں كے سامنے انجام پائي _

حتى إذا ا تيا ا هل قرية ...فا قامه

شہر ميں داخل ہو نا اور شہر ميں ديوار كا پايا جانا، جيسا كہ آيت ميں ''فوجدا فيھا جداراً'' كى تعبير سے معلوم ہوتا ہے ممكن ہے اس طرف اشارہ ہو كہ لو گ حضرت خضر(ع) كے افعال كى طرف متوجہ تھے _

۱۱_ حضر ت خضر(ع) نے ديوار كى تعمير اور اسكے كھڑا كرنے ميں حضرت موسي(ع) سے مدد نہيں مانگى _

فأقامه

''أقامه '' كا مفرد آنا ممكن ہے اس حوالے سے ہو كہ ديوار كى تعمير صرف حضرت خضر(ع) كے ہاتھوں انجام پائي اگر چہ اس سے پہلے '' استطعما'' تثنيہ كى صورت ميں آيا ہے يعنى دونوں كے غذا مانگنے كو بيان كيا گيا ہے _

۵۰۶

۱۲_ حضرت خضر(ع) نے ديوار كى تعمير كى اجرت دريافت كرنے كے امكان كے باوجود كوئي چيز دريافت نہيں كى _

قال لو شئت لتخذت عليه أجرا

حضرت موسي(ع) كى طرف سے اجرت دريافت كرنے كى بات اسى صورت ميں درست ہے جب اسكے لينے كا امكان موجود ہو _

۱۳_ با جود اسكے كہ غذا كے حصول كيلئے اجرت كى احتياج تھي، حضر ت خضر (ع) كے اپنے كا م كے مقابلہ اجرت نہ چاہنے پر حضرت موسي(ع) ناراض اور شاكى تھے _استطعما ا هلها ...قالو شئت لتّخذت عليه أجرا

حضرت خضر(ع) اور حضرت موسى (ع) نے لوگوں سے مفت غذاكا مطالبہ كيا چونكہ خريدنے كيلئے انكے پاس رقم نہ تھى لہذا حضرت موسى (ع) نے ديوار كا كام مكمل ہونے پر اجرت كى بات كى تا كہ اس ذريعہ سے غذا خريدى جائے _

۱۴_ حضرت موسى (ع) كے زمانے ميں كام كى اجرت دينے كے نظام كا موجود ہونا_قال لو شئت لتّخذت عليه أجرا

۱۵_ كام كے انجام دينے كے بعد اجرت كى مقدار كا معين كرنا، صحيحاور قابل اجرائہے _لو شئت لتخذت عليه أجرا

۱۶_ كام لينے والے كى در خواست كے بغير انجام ديتے گئے كاموں كے مقابلہ ميں اجرت لينا جائز ہے _لو شئت لتّخذت عليه أجر لوگوں كى بد فطرتى اور پستي، انسان كو كا ر خير اور ذمہ دارى ادا كرنے سے نہ روكے _استطعما ا هلها فا بوا ...فا قامه اگر چہ شہر والے،بد فطرت اور برے تھے ليكن اسى حالت ميں حضرت خضر(ع) نے بغير كسى ناگوار ى كے اپنى ذمہ دارى ادا كى _لوگوں كا سرد رويہ آپكے كام ميں سستى اور دير كا باعث نہ بنا _

۱۸_اجرت حاصل نہ كرنے كے حوالے سے حضرت موسى (ع) كى حضرت خضر(ع) سے شكايت آميز بات اپنے عہد سے تيسرى مخالفت تھى _قال لوشئت لتّخذت عليه أجرا

۱۹_عن جعفر بن محمد (ع) ...''فانطلقا حتّى إذا ا تيإ هل قرية '' وهى الناصرة (۱) امام صادق(ع) سے روايت ہوئي ہے كہ آيت شريفہ ميں قرية سے مراد قريہ ناصرہ ہے _

۲۰_عن جعفر بن محمد (ع)''فوجدا فيها جداراً يريد أن ينقضّ'' فوضع الخضر يده عليه فا قامه (۲)

____________________

۱) علل الشرايع ص۶۱،ب۵۴، بحارالانوار ،ج ۱۳ ،ص۲۸۷،ح۴_

۲)علل الشرايع ص۶۱ ،ب۵۴،ح۱،بحارالا نوار جلد۱۳،ص۲۸۷،ح۴_

۵۰۷

امام صادق(ع) سے روايت نقل ہوئي ہے كہ حضرت خضر(ع) اور حضرت موسى (ع) نے ايك ديوار كو پايا جو گرنے والى تھى حضرت خضر(ع) نے اس پراپنا ہاتھ ركھا اور اسے سيدھا كرديا _

۲۱_عن ا بى عبدالله (ع) : ...فوجدافيها جداراً يريد ا ن ينقضّ فا قامه قال : لوشئت لتّخذت عليه ا جراً خبزاً نا كله فقد جُعنا (۱) امام صادق(ع) سے روايت نقل ہوئي ہے كہ ...حضرت خضر(ع) اور موسي(ع) نے اس آبادى ميں ايك ديوار ديكھى كہ جوگرنے والى تھى تو حضرت خضر(ع) نے اسے سيدھا كيا موسي(ع) نے كہا: اگر آپ چاہتے تو اس كام كى اجرت لے ليتے يعنى روٹى لے ليتے تاكہ ہم كھاليں كيونكہ ہم بھوكے ہيں _

ابن سبيل :ابن سبيل كو كھانا كھلانا۶//اجرت :اجرت كے احكام ۱۵،۱۶

انبياء :انبياء كى مادى ضروريات ۷//پستى :پستى كے آثار ۱۷

خضر (ع) :خضر(ع) سے شكوہ ۱۳;خضر(ع) كا سفر ۲; خضر(ع) كا قصہ۱،۲، ۳، ۴ ،۵،۸،۹،۱۰،۱،۲ ۱،۱۳،۱۸،۱۹،۲۰، ۲۱; خضر(ع) كى اہل ناصرہ سے ملاقات ۲خضر(ع) كى بھوك ۳; خضر(ع) كى غذا كيلئے در خواست ۳; خضر(ع) كى غذا كيلئے در خواست كا رد ہونا ۴;خضر(ع) كے ساتھ عہد شكنى ۱۸; خضر(ع) كے قصہ ميں ديوار كى تعمير ۹،۱۰،۱۱،۲۰;خضر(ع) كے قصہ ميں ديوار كى تعمير كى اجرت ۱۲،۱۳،۲۱;خضر(ع) كے قصہ ميں ديوار كى خرابى ۸;خضر(ع) كے قصہ ميں شہر ۲،۵; خضر(ع) كے قصہ ميں شہر والے ۴; ناصرہ ميں خضر(ع) ۱۹

ذمہ دارى :ذمہ دارى كوپورا كرنے كى اہميت ۱۷

روايت :۱۹،۲۰،۲۱//عمل:پسنديدہ عمل ۶

عمل صالح :عمل صالح كى اہميت ۱۷//كام :كام كى اجرت ۱۵،۱۶

كام لينے والے :كام لينے والوں كا كردار ۱۶//مسافرين :مسافرين كى پذيرائي ۶

موسى (ع) :موسي(ع) كا سفر ۲; موسى (ع) كا شكوہ ۱۳،۱۸;موسى (ع) كا قصہ ۱،۲،۳،۴،۵،۸،۹،۱۰ ،۱۱،۱۲، ۱۳ ، ۱۸ ، ۱۹ ، ۲۰،۲۱;موسى كى اہل ناصرہ سے ملاقات ۲۰; مو سى (ع)

____________________

۱) تفسير عياشيج۲ص،۳۳۳،ح۴۷،نوارالثقلين ، ج ۳،ص۲۷۸،ح۱۵۱_

۵۰۸

كى بھوك ۳; موسى (ع) كى عہد شكنى ۱۸; موسي(ع) كى غذا كيلئے در خواست كا رد ہونا ۴; موسي(ع) كى غذا كيلئے در خواست كرنا ۳; موسى (ع) كى طرف سے مہلت مانگے جانے كا قبول كيا جانا ۸; موسى (ع) كے زمانہ ميں كام كى اجرت ۱۴; موسى (ع) ناصرہ ميں ۱۹

ناصرہ :ناصرہ كے رہنے والوں كى خصلتيں ۵

آیت ۷۸

( قَالَ هَذَا فِرَاقُ بَيْنِي وَبَيْنِكَ سَأُنَبِّئُكَ بِتَأْوِيلِ مَا لَمْ تَسْتَطِع عَّلَيْهِ صَبْراً )

بندہ صالح نے كہا كہ يہ ميرے اور تمھارے درميان جدائي كا موقع ہے عنقريب ميں تمھيں ان تمام باتوں كى تاويل بتادوں گا جن پر صبر تم نہيں كرسكے (۷۸)

۱_ حضرت موسي(ع) كى حضرت خضر(ع) سے كيئے ہوئے عہد كى تيسرى با رمخالفت ( اجرت لينے كى بات كرنا )، دونوں كى آپس ميں جدائي شروع ہونے كا باعث بنى _قال لو شئت لتخذت ...قال هذا فراق بينى و بينك

يہ كہ'' ہذا ''كس چيزطرف اشارہ ہے بہت سے احتمالات ہيں ان ميں سے ايك احتمال يہ بھى ہے كہ يہ حضرت موسى (ع) كى بات كى طرف اشارہ ہو يعني''هذا القول سبب فراق بيننا''

۲_ حضرت خضر(ع) كے كاموں كو تحمل كرنے كے حوالے سے حضرت موسى (ع) كى عاجزي، انكے تيسرے سوال اور اعتراض پر ثابت ہوگئي _قال هذا فراق بينى وبينك سا نبّئك بتا ويل ما لم تستطع عليه صبرا

۳_ حضرت خضر(ع) حضرت موسى (ع) كى آخرى غلطى پر ان سے جدا ہونے كيلئے محكم دليل اور قابل قبول عذر ركھتے تھے _قد بلغت من لدنّى عذراً ...قال لوشئت لتخذت عليه أجراً_ قال هذا فراق بينى و بينك

مندرجہ بالا مطلب كى بناء يہ ہے كہ پچھلى آيت ميں ''قد بلغت '' كى عبارت''ان سا لتك '' كا نتيجہ ہو _

۴_ حضرت خضر(ع) نے حضرت موسى (ع) كو اطمينان دلا يا كہ جدا ہونے سے پہلے انہيں اپنے عجيب وغريب كاموں كے اسرار سے آگاہ كريں گے_سا نبّئك بتاويل مالم تستطع عليه صبرا

۵_ انبياء اور اولياء كے تحمل اور افعال كى نوعيت آپس ميں مختلف ہوتى ہے _سا لنبّئك بتاويل مالم تستطع عليه صبرا

۶_ حضرت خضر كے ظاہر ى طور پر ناقابلقبول كام ، باطن اور صحيح حقيقت پر مشتمل تھے _

۵۰۹

سا نبّئك بتا ويل مالم تستطع عليه صبرا

''تا ويل '' كى بناء ''ا ول ''يعنى '' پلٹا نا'' ہے آيت ميں '' مآل '' كے معنى ميں ہے يعنى وہ حقائق اور مصلحتيں جن كى بناء پر حضرت خضر(ع) كے كام انجام پائيں تو ضرورى ہے كہ ظاہرى طور پر حضرت خضر كے نا گوار كاموں كو انہى مصلحتوں كى طرف لوٹا يا جائے _

۷_ وہ علم جو حضرت موسى (ع) ، حضرت خضر(ع) سے سيكھنا چاہتے تھے وہ واقعات كى تاويل اورتحليل كا علم اور واقعات كے پس پردہ حقائق كى پہچان، كا علم تھا _هل ا تّبعك على أن تعلّمن ممّا علمت سا نبّئك بتاويل ما لم تسطيع عليه صبرا

۸_ حوادث كے رموز كو جاننے كے علم اوركائنات ميں پيدا ہونے والے مسائل كے حقيقى اسباب كو جاننے كى روش، ايك تجرباتى اور عملى روش ہے_سا نبّئك بتا ويل ما لم تستطع عليه صبرا

۹_ حضرت موسى (ع) حواد ث كى تاويل كے علم كو سيكھنے كى روش پر صبر نہيں كر سكتے تھے _

سا نبّئك بتاويل ما لم تستطع عليه صبرا

۱۰_ حوادث كى تاويل او رتحليل كے علم كو حاصل كرنے اور خضر(ع) جيسے علما ء كيصحبت اختيار كرنے كيلئے حضرت موسى (ع) كے صبر سے زيادہ صبر اور ان سے بڑھ كر قوت وتحمل كى ضرورت ہے _سا نبّئك بتا ويل مالم تستطع عليه صبرا

انبياء :انبياء كا صبر۵;انبياء كے درجات ۵//اولياء الله :اولياء الله كا صبر ۵;اوليا ء الله كے درجات ۵

حوادث:حوادث كى تحليل كے علم كا حصول ۷، حوادث كى تحليلكے علم كوحاصل كرنے كى روش ۸، حوادث كى تحليل كے علم كو حاصل كرنے كى شرائط ۱۰//خضر :خضر(ع) پر اعتراض ۲; خضر(ع) سے سيكھنا ۷;خضر(ع) كا عذر ۳; خضر(ع) كا قصہ ۱،۲،۳،۴; خضر(ع) كى ہم نشينى كى شرائط ۱۰; خضر(ع) كى ہم نشينى ميں صبر ۱۰; خضر(ع) كے ساتھ عہد شكنى ۱;خضر(ع) كے عمل كا راز۴،۶//علماء :علماء كى ہم نشينى كى شرائط ۱۰; علماء كى ہم نشينى ميں صبر ۱۰

موسى (ع) :موسى (ع) اور حوادثكى تحليل كا علم ۹;موسى (ع) اور خضر كى جدائي ۱،۳;موسى (ع) كا اعتراض ۲;موسى (ع) كا عجز ۲; موسى (ع) كا علم غيب ۷ ; موسى (ع) كا قصہ ۱،۲، ۳، ۴; موسى (ع) كى بے صبر ى ۲،۹; موسى (ع) كى خواہشات ۷; موسى (ع) كى عہد شكنى ۱

۵۱۰

آیت ۷۹

( أَمَّا السَّفِينَةُ فَكَانَتْ لِمَسَاكِينَ يَعْمَلُونَ فِي الْبَحْرِ فَأَرَدتُّ أَنْ أَعِيبَهَا وَكَانَ وَرَاءهُم مَّلِكٌ يَأْخُذُ كُلَّ سَفِينَةٍ غَصْباً )

يہ كشتى چند مساكين كى تھى جو سمندر ميں باربرداردى كا كام كرتے تھے ميں نے چاہا كہ اسے عيب دار بنادوں كہ ان كے پيچھے ايك بادشاہ تھا جو ہر كشتى كو غصب كرليا كرتا تھا (۷۹)

۱_ كشتى كو عيب دار بنانے سے حضرت خضر(ع) كا مقصد يہ تھا كہ اسے غاصب بادشاہ كے لوٹنے سے نجات دلائي جائے_

أما السفينة ...فا ردت ا ن أعيبها ...يأخذ كلّ سفينة غصبا

اگر چہ يہ كافى تھا كہ حضرت خضر(ع) كہتے كہ ميں نے اسے عيب دار بنايا ليكن انہوں نے كہا ہے كہ ميں نے پختہ ارادہ كيا كہ اسے عيب دار بناؤں تا كہ يہ نكتہ بيان كريں كہ جو كچھ كيا توجہ كے ساتھ اور اسكو غصب سے بچانے كيلئے كيا _

۲_ حضرت خضر(ع) كے ہاتھوں سوراخ ہونے والى كشتى ايكمسكين گروہ كى ملكيت ميں تھى اور انكے حصول رزق كا فقط يہى وسيلہ تھا _فكانت لمساكين يعملون فى البحر

۳_ حضرت موسى (ع) كے زمانہ ميں كشتى اور دريائي حمل ونقل در آمد كے ذارئع تھے _فكانت لمساكين يعملون فى البحر

۴_ قرار دا د كے ساتھ باہم شراكت جائز ہے اور گذشتہ اديان ميں بھى يہ چيز موجود تھى _فكانت لمساكين يعملون فى البحر

۵_ محروم لوگوں كى آخرى حد تك پشت پناہى اور انكے فائدہ كيلئے مخفيانہ كوشش، حضرت خضر(ع) كى ذمہ داريوں ميں سے تھى _فا ردت ا ن اعيبها وكان وراء هم ملك يا خذ كل سفينة غصبا

۶_كام اور در آمد كا ہونا، محروم لوگوں پر'' مسكين ''كا عنوان ،صادق آنے سے مانع نہيں ہے _وامَّا السفينةفكانت لمساكين

اگرچہ كشتى والوں كے پاس كشتى اور در آمد تھى ليكن ان پر لفظ ''مسكين '' كا اطلاق ہوا ہے لہذا كسى طرح كا كام اور در آمدكانہ ہونا، عنوان ''مسكين '' كے صادق آنے سے تعلق نہيں ركھتا ہے _

۷_ حضرت موسى (ع) اور خضر(ع) كى داستان كے زمانہ ميں ايك ظالم اور غاصب حكومت موجود تھي_وكان وراء هم ملك يا خذ كل سفينة غصبا ''ورائ'' ہر پوشيدہ جگہ كو كہتے ميں خواہ وہ سامنے ہى كيوں نہ ہو ( قاموس )اس بناء پر غاصب سلطان، مساكين اور كشتى والوں كے پيچھے لگا ہوا تھا يا ان كے آگے تھا اورانہوں نے دوران سفراس كاسامنا كرنا تھا_

۵۱۱

۸_ حضرت موسى (ع) اور خضر(ع) كى داستان كے زمانہ ميں ايك بادشاہ، تمام صحيح وسالم كشتيوں كو اس علاقہ ميں قبضہ ميں لے ليتا تھا _وكان وراء هم ملك يا خذ كل سفينة غصبا

''ا ن اعيبہا '' كے قرينہ سے يہاں '' كل سفينة'' سے مراد ''كل سفينة صالحة'' ( پر صحيح و سالم كشتى )ہے _

۹_ لوگوں كے مال و متاع پر قبضہ كرنا، چاہے حاكموں كى طرف سے ہى كيوں نہ ہو ايك غلط چيز ہے _

وكان وراء هم ملك يا خذ كل سفينة غصبا

۱۰_ حضرت خضر(ع) اورموسى (ع) كو سوار كرنے والى كشتى كا معيوب ہونا موجب بنا كہ بادشاہ اسے قبضہ ميں لينے سے باز رہا _فا ردت ا ن ا عيبها وكان وراء هم ملك يا خذ كل سفينة غصبا

۱۱_ ايك بڑے اور يقينى نقصان سے بچانے كيلئے كسى كے مال كو ضرر پہنچانا جائز ہے _

فا ردت ا ن ا عيبها وكان وراء هم ملك يا خذ كل سفينة غصبا

۱۲_ الله تعالى كے خاص اوليائ، غاصب حاكموں كو ناكام بنانے اور محروم لوگوں كے حقوق كى حفاظت ميں كو شان ہوتے ہيں _فا دت ا ن ا عيبها وكان وراء هم ملك يا خذكل سفينة غصبا

۱۳_ كشتى كے حوالے سے حضرت خضر(ع) كا عمل، اس قانون كا ايك مصداق اورنمونہ ہے كہ جس ميں مہم چيز كے ساتھ ٹكراؤ ميں اہم چيز كو ترجيح دى جاتى ہے_وامَّا السفينة فكانت لمساكين ...يا خذ كل سفينة غصبا

۱۴_ حضرت خضر(ع) بعض پيش آنے والے حادثات سے آگاہ تھے اور انكے مقابلہ ميں احساس ذمہ دارى ركھتے تھے _

وكان وراء هم ملك يا خذ كل سفينة غصبا

احكام :۴اولياء الله :

۵۱۲

اولياء الله كى ذمہ دارى ۱۲; اولياء الله كى ظلم سے جنگ ۱۲

حمل و نقل :حمل ونقل كى تاريخ ۳

خضر (ع) :خضر(ع) كا ذمہ دارى قبول كرنا۱۴; خضر(ع) كا علم غيب ۱۴; خضر(ع) كى ذمہ دارى ۵;خضر(ع) كا قصہ ۱، ۸،۱۳;خضر(ع) كے زمانہ ميں حكومت ۷;خضر(ع) كے زمانہ ميں كشتيوں كا قبضہ ميں ليا جانا ۸; خضر (ع) كے قصہ ميں بادشاہ كا ظلم ۷،۸;خضر(ع) كے قصہ ميں بادشاہ كا لوٹ مار كرنا ۱;خضر(ع) كے قصہ ميں كشتى كے مالكوں كا فقير ہونا ۲; خضر(ع) كے قصہ ميں كشتى كے مالكوں كا محروم ہونا ۲; خضر(ع) كے قصہ ميں كشتى كے قبضہ ميں ليے جانے سے مانع ۱۰;خضر(ع) كے قصہ ميں كشتى ميں سوارخ كا فلسفہ ۱،۱۳;خضر(ع) كے قصہ ميں كشتى ميں سوارخ كرنے كے آثار ۱۰

شراكت :شراكت كے معاملہ كا جائز ہونا ۴; اديان ميں شراكت كا معاملہ ۴; شراكت كے معاملہ كى تاريخ ۴; شراكت كے معاملہ كے احكام ۴

غصب :غصب كا ناپسنديدہ ہونا ۹

مساكين :مساكين سے مراد ۶;مساكين كا كام ۶; مساكين كى حمايت ۵; مساكين كى در آمد ۶; مساكين كے مال و متاع كى حفاظت ۱۲

معيار :معيار ميں مقابلہ ۱۳

موسى (ع) :موسى (ع) كا قصہ ۸; موسى (ع) كے زمانہ ميں حكومت ۷; موسى (ع) كے زمانہ ميں حمل ونقل كے ذارئع ۳; موسى (ع) كے زمانہ ميں كسب كے زرائع ۳; موسى (ع) كے زمانہ ميں كشتيوں كا غصب ۸; موسى (ع) كے زمانہ ميں كشتى رانى ۳

آیت ۸۰

( وَأَمَّا الْغُلَامُ فَكَانَ أَبَوَاهُ مُؤْمِنَيْنِ فَخَشِينَا أَن يُرْهِقَهُمَا طُغْيَاناً وَكُفْراً )

اور يہ بچّہ _ اس كے ماں باپ مومن تھے اور مجھے خوف معلوم ہوا كہ بہ بڑا ہوكر اپنى سركشى اور كفر كى بناپر ان پر سختياں كرے گا (۸۰)

۱_ حضرت خضر(ع) كا لڑكے كو قتل كرنے كا مقصد، اسكے والدين كو كفر و طغيان سے بچانا تھا _

۵۱۳

وا مَّا الغلام ...فخشينا أن يرهقهما طغياناً وكفرا

''إرہاق'' سے مراد كسى كو ايسے كام پرآمادہ كرنا كہ جو اسكے ليے انجام دينا انتہائي مشكل و سخت ہو (قاموس )

۲_حضرت خضر (ع) كے ہاتھوں ، قتل ہونے والے نوجوان كے والدين، مؤمن و سر كشى اور نافرمانى سے دور لوگ تھے _فخشينا ا ن يرهقهما طغياناً وكفرا

''طغيان '' بہت زيادہ نافرمانى كى راہ ميں آگے نكل جانا ( مفرادت راغب )

۳_ وہ نوجوان كہ جسے حضرت خضر(ع) نے قتل كيا وہ كا فر تھا_وا مَّا الغلام فكان ا بواه مؤمنين

نوجوان كے والدين كے ساتھ فقط مؤمن كا لفظ آنا بتاتا ہے كہ وہ كا فر تھا اوريہ كہ وہ والدين كو كفر كى طرف مائل كرنے ميں اثر انداز ہو سكتا تھا يہ بھى اسكے كفر كى تائيد كر رہا ہے _

۴_ مقتول نوجوان كے والدين ،اپنے بيٹے كے زندہ رہنے كى صورت ميں اس كے ہاتھوں متاثر ہو كر نہ چاہتے ہوئے بھى سركشى اوركفر كى طرف چلے جاتے _فكان ا بواه مؤمنين فخشينا ا ن يرهقهم

۵_ مؤمنين كے ايما ن كى حفاظت اور انہيں كمزورى اورنابودى سے محفوظ ركھنے كى كوشش كرنا، حضرت خضر(ع) كى ذمہ داريوں ميں سے تھا _فخشينا ا ن يرهقهماطغياناً و كفرا

۶_ ايمان، انتہائي قيمتى گوہر ہے كہ كوئي چيز اسكا مقابلہ نہيں كرسكتى _فكان ا بواه مؤمنين فخشينا ا ن يرهقهما طغياناً وكفر الله تعالى نے والدين كے ايمان كى حفاظت كيلئے انكے عزيز فرزند كوان سے جدا كردياتاكہ انكاايمان محفوظ رہے ايسا ايمان ايك قيمتى متاع ہے كہ جس پر بيٹے كى قربانى آسان ہے _

۷_ الله تعالى كى پوشيدہ حماتيوں كے حامل مؤمنين، كفر اور معصيت سے دور ہيں _فكان ا بواه مؤمنين فخشينا ا ن يرهقهم

۸_ حضرت خضر، الہى احكام پر عمل كرنے والے تھے نہ كہ اپنى ذاتى خواہشات كو پورا كرتے تھے _فخشينا ا ن يرهقهم

''خشينا '' ميں ضمير ''نا '' مندرجہ بالا مطلب پر اشارہ ہوسكتى ہے _ بعد والى آيات ميں جملہ ''وما فعلتہ عن ا مرى '' بھى اسى نكتہ كى وضاحت كررہا ہے _

۹_ اولاد كا صالح نہ ہونا، والدين كے كفر اور سركشى كى طرف ميلان كا باعث ہو سكتا ہے _

فكان ا بواه مؤمنين فخشينا ا ن يرهقهما طغياناً وكفرا

۱۰_ انسان كے جبلى احساسات، اسكے معنوى اور ايمانى ميلانات ميں اہم اثر ركھتے ہيں _

۵۱۴

فكان ا بواه مؤمنين فخشينا ا ن يرهقهما طغياناً وكفرا

حضرت خضر(ع) بيٹے كو والدين سے لے ليتے ہيں تا كہ وہ اپنے فطرى تعلقات اور احساسات كى وجہ سے كفر اور سركشى كى طرف مائل نہ ہوں _ يہ نكتہ بتارہاہے كر ميلانان_ احساسات سے متاثر ہوتے ہيں _

۱۱_كفر اور سر كشيميں اضافہ كے اسباب سے مقابلہ كرنا اور انہيں آگے بڑ ھنےسے رو كنا ضرورى ہے_فخشينا ا ن ير هقهما طغياناً و كفرا اگر چہ حضرت خضر(ع) كا كام غيب اور اسرار سے آگاہ ہونے كى بناء پر تھا ليكن يہ كفر كو بڑھنے سے روكنے اور اسكے سبب كو ختم كرنے كى ضرورت كوبتا رہا ہے _

۱۲_ سر كشى اور الہى حدود سے تجاوز، انسان كے كفر كى طرف مائل ہونے كا باعث ہے _ير هقهما طغياناً و كفرا

احتمال يہ ہے كہ طغيان كو كفر پر مقدم كرنے كى وجہ يہ ہوكہ طغيان ميں مبتلا ء ہونا، كفر كى طرف جانے كى وجہ ہے_

۱۳_ الله تعالى كا والدين كے ايما ن كى حفاظت كرنا ، انكے بچوں كيلئے بعض ناگوار حادثات پيدا ہونے كا باعث ہے _

فكان ا بواه مؤمنين فخشينا ا ن يرهقهما طغياناً وكفرا

۱۴_ مؤمن كا بعض مشكلات اورنقائص ميں مبتلا ہونا اسكے ايمان كے محفو ظ رہنے كا فلسفہ ہے _

فكان ا بواه مؤمنين فخشينا ا ن يرهقهم

احساسات :احساسات كے آثار ۱۰

الله تعالى كى حدود :الله تعالى كى حدود سے تجاوز كرنے كے آثار ۱۲

الله تعالى كى حمايتيں :الله تعالى كى حمايتوں كے شامل حال لوگ ۷الله تعالى كے كام كرنے والے :۸

اقدار:۶

ايمان :ايمان كا باعث ۱۰;ايمان كى قدرو قيمت ۶

خضر (ع) :خضر(ع) كا كردار ۸; خضر(ع) كا كفر سے مقابلہ كرنا ۱;خضر(ع) كا قصہ ۱،۴;خضر(ع) كى ذمہ دارى ۵; خضر(ع) كے قصہ ميں نوجوان كا كفر ۳; خضر(ع) كے قصہ ميں نوجوان كا كردار ۴;خضر(ع) كے قصہ ميں نوجوان كے قتل كا فلسفہ ۱;خضر(ع) كے قصہ ميں نوجوان كے والدين كا ايمان ۲;خضر(ع) كے قصہ ميں نوجوان كے والدين ۱،۴; خضر(ع) كے قصہ ميں نوجوان كے والدين كا مطيع ہونا ۲

سركشى :سر كشى سے مقابلہ كرنے كى اہميت ۱۱; سركشى كا پيش خيمہ ۹ ;سر كشى كے آثار ۱۲

۵۱۵

فرزند :خراب فرزند كا كردار ۹;فرزند كى مشكلات كا باعث ۱۳

كفر :كفر سے مقابلہ كرنے كى اہميت ۱۱; كفر كا پيش خيمہ ۹،۱۲

مؤمنين :مؤمنين اور كفر ۷; مؤمنين اورگناہ ۷; مؤمنين كا محفوظ ہونا ۷،۱۴;مؤمنين كى حمايت۵; مؤمنين كے امتحان كا فلسفہ ۱۴; مؤمنين كے فضائل۷

ميلانات :معنوى ميلانات كا باعث ۱۰

والدين :والدين كے ايمان كى حفاظت ۱۳

آیت ۸۱

( فَأَرَدْنَا أَن يُبْدِلَهُمَا رَبُّهُمَا خَيْراً مِّنْهُ زَكَاةً وَأَقْرَبَ رُحْماً )

تو ميں نے چاہا كہ ان كا پرورگار انھيں اس كے بدلے ايسا فرزند ديدے جو پاكيزگى ميں اس سے بہتر ہو اور صلہ رحم ميں بھى (۸۱)

۱_ نوجوان كو قتل كرنے سے حضرت خضر(ع) كا مقصد اسكے والدين كيلئے پرہيز گار اور مہربان بيٹے كو حاصل كرنے كى فضاتيار كرنا تھا _فا ردنا ا ن يبدلهما ربّهما خيراً منه ذكوة وا قرب رحما

آيت ميں ''زكاة'' سے مراد طہارت اور گناہوں سے پاكيزگى ہے ''رحم'' اور ''رحمت'' كا ايك معنى ہے_ اگر چہ حضرت خضر نے اپنى اس كلام ميں مقتول نوجوان كيلئے پاكيزگى اور مہربان ہونے كا انكار نہيں كيا ليكن ممكن ہے حضرت موسى (ع) كى بات سے متناسب كہ انہوں نے مقتول نوجوان كو ''نفس ذكيہ '' كا عنوان ديا اپنى كلام كو انہوں نے اسم تفضيل كے قالب مين بيان كيا تھے ليكن حقيقت ميں مقتول نوجوان رحمت و پاكيزگى سے عارى تھا يااس كا انجام آخر گناہ اور بے رحمى تھا_

۲_ حضرت خضر (ع) اور انكے مانند دوسرے لوگ، الله تعالى كے ارادہ كو عملى جامہ پہنانے والے ہيں _

فا ردنا أن يبد لهما ربّهم ''أردنا '' والى كلام ميں اگر چہ كہنے والے صرف حضرت خضر(ع) تھے _ ليكن ضمير، جمع كى لائي گئي ہے اس سے معلوم ہوتا ہے كہ حضرت خضر(ع) چاہتے تھے يہ نكتہ سمجھا ئيں كہ وہ اس عزم ميں تنہا نہيں تھے بلكہ انكے كام كے پيچھے الہى ارادہ كا ر فرما تھا دو سرے طرف ''ربّ'' كو ''يبدل '' كيلئے فاعل ذكر كيا تا كہ اس واقعہ كے حقيقى كردار كو واضح كريں اور اپنے ارادہ كو الله تعالى كے ارادہ كے تحت ہونے كو بيان كريں _

۵۱۶

۳_ غير صالح فرزند كواٹھا كر اسكى جگہ صالح فرزند عطا كرنا ،مؤمن والدين كيلئے الله تعالى كى ربوبيت كا ايك جلوہ ہے _

يبد لهما ربّهما خيراً منه

۴_ صالح اور مہربان فرزند كى عطا، ايك الہى نعمت ہے _يبد لهما ربّهما خيراً منه زكوة وا قرب رحما

۵_ بعض مصيبتوں اورناگوار حادثات ميں مؤمن كيلئے مصلحت اور خير ہوتى ہے _

وا مّا الغلام ...فا ردنا ا ن يبد لهما ربّهما خيراً منه زكوة وا قرب رحما

۶_ ايك شائستہ فرزند كى خصوصيات ميں سے اسكا پاك و صالح اور والدين كى نسبت بہت محبت كرنے والاہونا ہے _

يبد لهما ربّهما خيراً منه زكوة وا قرب رحما

۷_ الله تعالي، مؤمن كا پشت پناہ اور اسكى خيرو مصلحت كافيصلہ كرنے والا ہے _

فكان ا بواه مؤمنين ...فا ردنا أن يبد لهما ربّهما خيراً منه زكوة

۸_عن أبى عبدالله (ع) فى قول الله :''فا ردنا أن يبد لهما ربّهما خيراً منه ...''قال ا نه ولدت لهما جاريةفولدت غلاماً فكان نبياً (۱) امام صادق (ع) ، الله تعالى كى اس كلام ''فا ردنا أن يبدلہما ربّہما خيراً منہ ...''كے بارے ميں فرماتے ہيں كہ بے شك مقتول كے والدين كے ہاں ايك بيٹى پيدا ہوئي اور اس بيٹى سے ايك بيٹا پيدا ہوا كہ جو مقام نبوت پر فائز ہوا _

۹_عن ا بى عبدالله (ع): ...''فى قول الله عزوجل : فا ردنا أن يبد لهما ربّهما خيراً منه زكاة وا قرب رحماً '': ا بدلهما الله به جارية ولدت سبعين نبيا ...'' (۲)

امام صادق عليہ السلام سے الله تعالى كى اس كلام''فأردنا أن يبد لهما ربّهما خيرا ً منه زكوة'' كے بار ے ميں روايت ہوئي كہ الله تعالى نے مقتول كے والدين كو اسكى جگہ ايك بيٹى عطا كى جس كى نسل سے ستر انبياء پيدا ہوئے ...''

الله تعالى :الله تعالى كى خير خواہى ۷; الله تعالى كى ربوبيت كى علامات ۳; الله تعالى كى نعمات ۴;اللہ تعالى كے ارادہ كے تحت چلنے والے ۲//الله تعالى كى پشتى پناہى :الله تعالى كى پشت پناہى كے شامل حال لوگ ۷

انبياء :انبياء كا كردار ۲

خضر (ع) :خضر(ع) كا كردار ۲;خضر(ع) كا قصہ ۱،۸،۹; خضر(ع) كے قصہ ميں نوجوان كے قتل كا فلسفہ ۱; خضر(ع) كے قصہ ميں نوجوان كے والدين ۱;خضر(ع) كے قصہ ميں نوجوان كے والدين كى نسل ۸،۹

____________________

۱)تفسير عياشى ج۲ ، ص۳۳۶، ح۵۹، نورالثقلين ج۳ ، ص۲۸۶، ح۱۷۰_۲) كافى ج۶ ،ص۷ ،ح۱۱،نورالثقلين ج۳ ، ص۲۸۶، ح ۱۷۴_

۵۱۷

روايت :۸،۹

فرزند :صالح فرزند كا پاك ہونا ۶; صالح فرزند كا جگہ لينا ۳; صالح فرزند كى صفات۶; صالح فرزند كي

مہربانى ۶; فاسد فرزند كى ہلاكت ۳

مصيبتں :مصيبتوں كا خير ہونا ۵; مصيبتوں كا فلسفہ ۵

مؤمنين :مؤمنين كا پشت پناہ ۷;مؤمنين كى مصلحتيں ۵، ۷; مؤمنين كيلئے خيرخواہ ہونا ۷

نعمت :صالح فرزند كى نعمت ۴; مہربان فرزند كى نعمت ۴

والدين :والدين كے ساتھ مہربانى ۶

آیت ۸۲

( وَأَمَّا الْجِدَارُ فَكَانَ لِغُلَامَيْنِ يَتِيمَيْنِ فِي الْمَدِينَةِ وَكَانَ تَحْتَهُ كَنزٌ لَّهُمَا وَكَانَ أَبُوهُمَا صَالِحاً فَأَرَادَ رَبُّكَ أَنْ يَبْلُغَا أَشُدَّهُمَا وَيَسْتَخْرِجَا كَنزَهُمَا رَحْمَةً مِّن رَّبِّكَ وَمَا فَعَلْتُهُ عَنْ أَمْرِي ذَلِكَ تَأْوِيلُ مَا لَمْ تَسْطِع عَّلَيْهِ صَبْراً )

اور يہ ديوار شہر كے در يتيم بچّوں كى تھى اور اس كے نيچے ان كا خزانہ دفن تھا اور ان كا باپ ايك نيك بندہ تھا تو آپ كے پروردگار نے چاہا كہ يہ دونوں طاقت و توانائي كى عمر تك پہنچ جائيں اوراپنے خزانے كو نكال ليں _ يہ سب آپ كے پروردگار كى رحمت ہے اور ميں نے اپنى طرف س كچھ نہيں كيا ہے اور يہ ان باتوں كى تاويل ہے جن پر آپ صبر نہيں كرسكے ہيں (۸۲)

۱_ حضرت خضر(ع) نے حضرت موسى (ع) كيلئے پرانى ديوار كو تعمير كرنے كى وجہ بيان كى _وا مَّا الجدار ...ما فعلته عن أمري

۲_ حضرت خضر(ع) كے ہاتھوں ، تعمير ہونے والى ديوار دو يتيم لڑكو ں كى ملكيت ميں تھى _وا مَّإلجدار فكان لغلمين يتيمين

۳_ باوجود اسكے كہ ديوار كے مالك اس آبادى ميں نہيں تھے حضرت خضر(ع) نے ديوار كى تعمير كى _

فكان لغلمين يتيمين فى المدينة

يہ احتمال بے كہ اس آيت ميں پچھلى آيات كى مانند ''القرى ة '' آنے كى بجائے ''المدينہ '' آنا شايد اس جہت كيلئے ہو كہ وہ دونوں يتيم لڑكے اس آبادى ميں نہيں تھے بلكہ كسى اور شہر ميں تھے اور وہ شہر جيسا كہ '' المدينہ '' الف و لام سے معلوم ہوتا ہے كہ حضرت خضر(ع) اور موسى (ع) كيلئے جانا پہچانا تھا _

۵۱۸

۴_ديوار كو تعمير كرنے سے حضرت خضر(ع) كا مقصد يہ تھا كہ شہرميں رہنے والے دونوں لڑكوں كا خزانہ اسكے نيچے محفوظ رہے _وا مَّا الجدار فكان لغلمين يتيمين فى المدينه وكان تحته كنزلهم

۵_ حضرت خضر(ع) ديوار كے مالكوں كے والد كے بارے ميں جانتے تھے اوراسكى زندگى كى اچھائيوں اوراعمال صالح سے با خبر تھے _وكان ا بوهما صلح

۶_ باپ كا صالح ہونا، حضرت خضر كے ان يتيم بچوں كےمفادات كى حمايت كرنے كا سبب بنا _وا مَّا الجدار فكان لغلامين يتيمين ...وكان أبوهماصالح جملہ '' وكان أبوہما صالحاً'' ديواركو تعمير كرنے كى علت ہے_

۷_ يتيموں كے باپ كا نيك اور صالح ہونا،ان دونوں كا بڑ ے ہوكر اپنے پوشيدہ خزانے كو پانے كے الہى ارادے كا سرچشمہ تھا_و كان أبوهما صالحا ً فا راد ربّك أن يبلغاً أشدّ هما و يستخرجا كنزهم

كلمہ ''اشد'' جمع كے ہم وزن مفرد ہے يا ايسى جمع ہے كہ جسكا مفرد نہيں ہے اسميں اہل لغت كا اختلاف ہے بعض اسے ''شدة'' كى جمع سمجھتے ہيں (لسان العرب) بہر صورت اس سے مراد ، جسمانى اور عقلى بلوغ اور استحكام ہے _

۸_ صالح افرادكے بچوں كے ساتھ انكے والدين كى اچھائي كى بناء پر مناسب رويہ ضرورى ہے _

و كان ا بوهماصالحاً فا رادربّك

۹_ باپ كا صالح اور شائستہ ہونا، بچوں كے سعادت مند اور نيك بخت ہونے ميں مو ثر ہے _

كان ا بوهما صالحاً فا راد ربّك أن يبلغاً ا شدهما ويستخرجا كنزهم

۱۰_صالح افراداور انكے بچوں كے مفادات كى حفاظت ميں اللہ تعالى كے غيبى اسباب، دخالت ركھتے ہيں _

فا راد ربّك أن يبلغا أ شدّ هما ويستخرجا كنزهمارحمةمن ربّك

ديوار كى تعمير اور يتيموں كے مفادات كى حفاظت اگرچہ ايك خاص واقعہ ہے ليكن آيت ميں عمومى پيغام ہے اوروہ يہ كہ والدين كے اعمال صالحہ كى بناء پر بچوں كے مفادات كى بھى حفاظت ہوگى _

۱۱_ضرورت مند بچوں كے مستقبل كى خاطر كچھ مال و متاع، بچا كر ركھنا ايك شائستہ كام ہے _

وكان تحته كنزلهماوكان أبوهماصالحا

اس مطلب ميں فرض يہ ہوا ہے كہ يتيموں كے باپ نے اپنے بچوں كے مستقبل كى خاطر كچھ مال ديوار كے نيچے چھپا ياہے اسكے صالح ہونے كے اعتبار سے تعريف، يہ نكتہ دے رہى ہے كہ اسكى دور انديشى بھى بہت مناسب تھى اور حضرت

۵۱۹

خضر(ع) كا اس پوشيدہ خزانے كى حفاظت كرنا اوراس واقعہ كى خصوصيات كا قران ميں آنا اس شخص كى اچھى تدبير سے حكايت كررہاہے _

۱۲_استحكام اور عقلى بلوغ، اموال ميں تصرف كے جائز ہونے كى شرط ہے _فا راد ربّك ا ن يبلغا ا شدّهما ويستخرجا كنزهم

۱۳_اللہ تعالى كى طرف سے صالح باپ كے يتيم بچوں كى پشت پناہى اور انكے اموال كى حفاظت، اسكى رحمت وربوبيت كا ايك جلوہ تھى _فا رادربّك رحمة من ربّك '' رحمة''فعل ''ا راد'' كيلئے مفعول لہ ہے يعنى يتيم بچوں كے خزانے كے باقى رہنے كے سلسلہ الله تعالى كا ارادہ، اسكى رحمت كى بناء پر تھا_

۱۴_يتيموں اورصالح افراد كے لواحقين كى مددكرنا اور انكے اموال كى حفاظت، الله تعالى كے نزديك پسنديدہ كام ہے _

فا رادربّك ...رحمة من ربّك

۱۵_ الله تعالى كى رحمت، اسكى ربوبيت كا جلوہ ہے _رحمة من ربّك

۱۶_ حضرت خضر(ع) نے حضر ت موسى (ع) كو وسيع الہى تدبير كى طرف توجہ كرتے ہوئے، يتيموں كے اموال كى حفاظت كا سرچشمہ الله تعالى كى وسيع ربوبيت كوقرار ديا_فا راد ربّك

حضر ت خضر(ع) نے '' ربّ'' كوضمير خطاب كى طرف (ربّك) مضاف كرتے ہوئے حضرت موسى (ع) كے ليے يہ نكتہ بيان كيا كہ اگرچہ ديوار كى تعمير نے آپكوغذا فراہم كرنے اور جسمانى تربيت ميں كوئي مدد نہيں كى ليكن آپكا مالك ومدبر ، يتيموں كا مالك و مدبر بھى ہے _

۱۷_حضرت خضر(ع) نے سب عجيب وغريب كام، الله تعالى كے حكم كى بناء پر انجام ديئےن ميں انكى كوئي ذاتى رائے شامل نہيں تھى _رحمة من ربّك وما فعلته عن ا مري

''مافعلتہ'' ميں مفعول كى ضمير ،آيت كے ذيل كے قرينہ كى مددسے ان تمام كا موں كے جامع كى طرف لوٹ جاتى ہے مثلاً'' جوكچھ تونے ديكھا'' ''ياوہ جوميں نے انجام ديا''_

۱۸_حضرت خضر(ع) ، الله تعالى كے فرمان كے سامنے سرتسليم خم كيے ہوئے تھے _رحمة من ربّك وما فعلته عن ا مري حضرت خضر(ع) نے موسي(ع) كوقانع كرنے كيلئے اپنے تمام كاموں كواللہ تعالى كے فرمان كى طرف نسبت دى _

۱۹_اللہ تعالى اپنے ارادہ كو پايہ تكميل تك پہنچا نے اور اس كودائر ہ عمل ميں لانے كيلئے اسباب وعلل سے كام ليتاہے

۵۲۰

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809

810

811

812

813

814

815

816

817

818

819

820

821

822

823

824

825

826

827

828

829

830

831

832

833

834

835

836

837

838

839

840

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863

864

865

866

867

868

869

870

871

872

873

874

875

876

877

878

879

880

881

882

883

884

885

886

887

888

889

890

891

892

893

894

895

896

897

898

899

900

901

902

903

904

905

906

907

908

909

910

911

912

913

914

915

916

917

918

919

920

921

922

923

924

925

926

927

928

929

930

931

932

933

934

935

936

937

938

939

940

941

942

943

944

945