تفسير راہنما جلد ۱۰

تفسير راہنما 6%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 945

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 945 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 254226 / ڈاؤنلوڈ: 3523
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱۰

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

ائمہ اہل بیت علیہم السلام

ہم ائمہ اہل بیت علیہم السلام کے روبرو حاضرہیں جنھوں نے معاشرہ کی اصلاح کی دعوت دی ، وہ دنیائے عرب و اسلام میں شعور و فکر کے چراغ ہیں ،انھوں نے انسانی فکر ،اس کے ارادے ، سلوک و روش کی بنیاد ڈالی ، خالق کا ئنات اور زندگی دینے والے کے علاوہ کسی اورکی عبادت کرنے سے مخلوق خداکو نجات دی

بیشک ائمہ اہل بیت علیہم السلام شجرئہ نبوت کے روشن چراغ ہیں ،یہ اس شجرۂ طیبہ سے تعلق رکھتے ہیں جس کی اصل ثابت ہے اور اس کی شاخیں آسمان تک پھیلی ہو ئی ہیں یہ شجرہ ہر زمانہ میںحکم پروردگار سے پھل دیتا رہتا ہے،یہ حضرات رسول اعظمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیات کا ایسا جزء ہیں جن کو کبھی بھی ان سے جدا نہیں کیا جاسکتا ہے وہ رسول جنھوں نے انسان کو پستی نکال کر بلندی عطا کی اوراسے نور سے منور فرمایا۔۔۔ہم اپنی گفتگو کا آغاز اس سلسلۂ جلیلہ سید و سردار یعنی امام علی کی سوانح حیات سے کرتے ہیں:

حضرت علی علیہ السلام

آپ اپنی جود و سخا ،عدالت، زہد،جہاد اور حیرت انگیز کارنامو ں میں اس امت کی سب سے عظیم شخصیت ہیں دنیائے اسلام میں رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب میں سے کو ئی بھی آپ کے بعض صفات کا مثل نہیں ہوسکتا چہ جائیکہ وہ آپ کے بعض صفات تک کا مثل ہو ۔آپ کے فضائل و کمالات اور آپ کی شخصیت کے اثرات زمین پر بسنے والے پرتمام مسلمانوں اور غیر مسلمانوں کے زبان زد عام ہیں ، تمام مؤ رخین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ عرب یا غیرعرب کی تاریخ میں آپ کے بھائی اور ابن عم کے علاوہ آپ کا کو ئی ثانی نہیں ہے ہم ذیل میں آپ کے بعض صفات و خصوصیات کو قلمبند کررہے ہیں :

۲۱

کعبہ میں ولادت

تمام مؤرخین اورراویوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آپ کی ولادت با سعادت خانۂ کعبہ میں ہوئی۔(۱) آپ کے علاوہ کو ئی اور خانۂ کعبہ میں نہیں پیدا ہوا ،اور یہ اللہ کے نزدیک آ پ کے بلند مرتبہ اور عظیم شرف کی علامت ہے ،اسی مطلب کی طرف عبد الباقی عمری نے اس شعر میں اشارہ کیا ہے :

اَنْت العلیُّ الذی فوق العُلیٰ رُفِعا

ببطن مکة عند البیت اِذْوُضِعَا

____________________

۱۔مروج الذہب ،جلد ۲ صفحہ ۳،فصول مہمہ مؤلف ابن صبّاغ، صفحہ ۲۴۔مطالب السئول، صفحہ ۲۲۔تذکرة الخواص، صفحہ ۷۔کفایة الطالب، صفحہ ۳۷۔ نور الابصار ،صفحہ ۷۶۔نزھة المجالس ،جلد۲،صفحہ ۲۰۴۔شرح الشفا ،جلد ۲،صفحہ ۲۱۵۔غایة الاختصار ،صفحہ ۹۷۔عبقریة الامام (العقاد)، صفحہ ۳۸۔مستدرک حاکم، جلد ۳،صفحہ ۴۸۳۔اور اس میں وارد ہوا ہے کہ :''متواتر احادیث میں آیا ہے کہ امیر المو منین علی بن ابی طالب فاطمہ بنت اسد کے بطن سے کعبہ میں پیدا ہوئے ''۔

۲۲

''آپ وہ بلند و بالا شخصیت ہی ںجو تمام بلند یوں سے بلند و بالا ہیںاس لئے کہ آپ کی ولادت مکہ میں خانہ کعبہ میں ہوئی ہے ''۔

بیشک نبی کے بھائی اور ان کے باب شہر علم کی ولادت اللہ کے مقدس گھر میں ہو ئی تاکہ اس کی چوکھٹ کو جلا بخشے،اس پر پرچم توحید بلند کرے ،اس کو بت پرستی اور بتوںکی پلیدی سے پاک وصاف کرے ، اس بیت عظیم میں ابوالغرباء ،اخو الفقراء ، کمزوروں اور محروموں کے ملجأ و ماویٰ پیدا ہوئے تاکہ ان کی زندگی میں امن ،فراخدلی اور سکون و اطمینان کی روح کوفروغ دیں ، ان کی زندگی سے فقر و فاقہ کا خاتمہ کریں ،آپکے پدر بزرگوار شیخ بطحاء اور مو من قریش نے آپ کا اسم گرامی علی رکھاجو تمام اسماء میں سب سے بہترین نام ہے۔

اسی لئے آپ اپنی عظیم جود و سخا اور حیرت انگیز کارناموں میں سب سے بلند تھے اور خداوند عالم نے جو آپ کو روشن و منورعلم و فضیلت عطا فرمائی تھی اس کے لحاظ سے آپ اس عظیم بلند مرتبہ پر فائز تھے جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔

امیر بیان اور عدالت اسلامیہ کے قائد و رہبرنبی کی بعثت سے بارہ سال پہلے تیرہ رجب ۳۰ عام الفیل کو جمعہ کے دن پیدا ہوئے ۔(۱)

القاب

امیر حق نے آپ کو متعدد القاب سے نوازا جو آپ کے صفات حسنہ کی حکایت کرتے ہیں ،آپ کے القاب مندرجہ ذیل ہیں :

۱۔صدیق(۲)

آپ کو اس لقب سے اس لئے نوازا گیا کہ آپ ہی نے سب سے پہلے رسول اللہ کی مدد کی اور اللہ کی طرف سے رسول ر نازل ہونے والی چیزوں پر ایمان لائے ، مولائے کائنات خود فرماتے ہیں :

''اَناالصدیق الاکبرآمنت قبل ان یومن ابوبکرواسلمتُ قبل ان یسلّم '(۳)

''میں صدیق اکبر ہوں ابوبکر سے پہلے ایمان لایاہوں اور اس سے پہلے اسلام لایاہوں ''۔

____________________

۱۔حیاةالامام امیر المو منین ،جلد ۱،صفحہ ۳۲۔منقول از مناقب آل ابوطالب ،جلد۳،صفحہ۹۰۔

۲۔تاریخ خمیس ،جلد ۲،صفحہ ۲۷۵۔

۳۔معارف ،صفحہ ۷۳۔ذخائر ،صفحہ ۵۸۔ریاض النضرہ ،جلد ۲،صفحہ ۲۵۷۔

۲۳

۲۔وصی

آپ کو یہ لقب اس لئے عطا کیا گیا کہ آپ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے وصی ہیں اور رسول خدا نے اس لقب میں اضافہ کرتے ہوئے فرمایا: ''اِنَّ وَصِیّ،وَمَوْضِعَ سِرِّی،وَخَیْرُمَنْ اَتْرُکَ بَعْدِیْ،وَیُنْجِزُعِدَتِیْ،وَیَقْضِیْ دَیْنِیْ،عَلِیُّ بْنُ اَبِیْ طَالِبٍ'' ۔(۱)

''میرے وصی ،میرے راز داں ،میرے بعد سب سے افضل ،میرا وعدہ پورا کرنے والے اور میرے دین کی تکمیل کرنے والے ہیں ''۔

۳۔فاروق

امام کو فاروق کے لقب سے اس لئے یاد کیا گیا کہ آپ حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والے ہیں۔یہ لقب نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی احادیث سے اخذ کیا گیا ہے ،ابو ذر اور سلمان سے روایت کی گئی ہے کہ نبی نے حضرت علی کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا :''اِنّ هٰذَااَوَّلُ مَنْ آمَنَ بِیْ،وهٰذَا اَوَّلُ مَنْ یُصَافِحُنِیْ یَوْمَ القِیَامَةِ،وَهٰذَا الصِّدِّیْقُ الْاَکْبَرُ،وَهٰذَا فَارُوْقُ هٰذِهِ الاُمَّةِ یَفْرُقُ بَیْنَ الْحَقِّ وَالْبَاطِلِ'' ۔(۲)

''یہ مجھ پر سب سے پہلے ایمان لائے ،یہی قیامت کے دن سب سے پہلے مجھ سے مصافحہ کریں

گے ،یہی صدیق اکبر ہیں ،یہ فاروق ہیں اور امت کے درمیان حق و باطل میں فرق کرنے والے ہیں ''۔

۴۔یعسوب الدین

لغت میں یعسوب الدین شہد کی مکھیوں کے نَر کو کہا جاتا ہے پھر یہ قوم کے صاحب شرف سردار کیلئے بولا جا نے لگا،یہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے القاب میں سے ہے ،نبی اکر مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی کو یہ لقب دیتے ہوئے فرمایا:هٰذَا ( واشارَالی الامام ) یَعْسُوْبُ المُؤمِنِیْنَ،وَالْمَالُ یَعْسُوْبُ الظَّا لِمِیْنَ'' ۔(۳)

''یہ (امام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا)مو منین کے یعسوب ہیں اور مال ظالموں کا یعسوب ہے ''۔

____________________

۱۔کنز العمال، جلد ۶،صفحہ ۱۵۴۔

۲۔مجمع الزوائد، جلد ۹، صفحہ ۱۰۲،فیض القدیر،جلد ۴، صفحہ ۳۵۸۔کنز العمال ،جلد ۶ ،صفحہ ۱۵۶۔فضائل الصحابة، جلد ۱، صفحہ ۲۹۶۔

۳۔ مجمع الزوائد، جلد ۹،صفحہ ۱۰۲۔

۲۴

۵۔امیر المو منین

آپ کا سب سے مشہور لقب امیر المو منین ہے یہ لقب آپ کو رسول اللہ نے عطا کیا ہے روایت ہے کہ ابو نعیم نے انس سے اور انھوں نے رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا ہے :'' یاانس، ''اسْکُبْ لِیْ وَضُوء اً ''اے انس میرے وضو کرنے کے لئے پانی لائو''پھر آپ نے دورکعت نماز پڑھنے کے بعد فرمایا:'' اے انس اس دروازے سے جو بھی تمہارے پاس سب سے پہلے آئے وہ امیر المو منین ہے ، مسلمانوں کا سردار ہے ،قیامت کے دن چمکتے ہوئے چہرے والوں کا قائد اور خاتم الوصیین ہے '' ، انس کا کہنا ہے :میں یہ فکر کررہاتھا کہ وہ آنے والا شخص انصار میں سے ہو جس کو میں مخفی رکھوں ، اتنے میں حضرت علی تشریف لائے تو رسول اللہ نے سوال کیا کہ اے انس کون آیا ؟ میں (انس) نے عرض کیا : علی ۔ آپ نے مسکراتے ہوئے کھڑے ہوکر علی سے معانقہ کیا ،پھر ان کے چہرے کا پسینہ اپنے چہرے کے پسینہ سے ملایااور علی کے چہرے پر آئے ہوئے پسینہ کو اپنے چہرے پر ملا اس وقت علی نے فرمایا: ''یارسول اللہ میں نے آپ کو اس سے پہلے کبھی ایسا کرتے نہیں دیکھا؟ آنحضرت نے فرمایا:''میں ایسا کیوں نہ کروں جب تم میرے امور کے ذمہ دار،میری آواز دوسروں تک پہنچانے والے اور میرے بعد پیش آنے والے اختلافات میںصحیح رہنما ئی کرنے والے ہو ''۔(۱)

۶ حجة اللہ

آپ کا ایک عظیم لقب حجة اللہ ہے، آپ خدا کے بندوں پر اللہ کی حجت تھے اور ان کومضبوط و محکم راستہ کی ہدایت دیتے تھے ،یہ لقب آپ کو پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عطا فرمایا تھا ،نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:''میںاور علی اللہ کے بندوں پر اس کی حجت ہیں''۔(۲)

یہ آپ کے بعض القاب تھے ان کے علاوہ ہم نے آپ کے دوسرے چھ القاب امام امیر المومنین کی سوانح حیات کے پہلے حصہ میںبیان کئے ہیںجیسا کہ ہم نے آپ کی کنیت اور صفات کا تذکرہ بھی کیا ہے۔

____________________

۱۔حلیة الاولیائ، جلد ۱،صفحہ ۶۳۔

۲۔کنوز الحقائق ''المناوی''،صفحہ ۴۳۔

۲۵

آپ کی پرورش

حضرت امیر المو منین نے بچپن میں اپنے والد بزرگوار شیخ البطحاء اورمو منِ قریش حضرت ابوطالب کے زیر سایہ پرورش پائی جو ہر فضیلت ،شرف اور کرامت میں عدیم المثال تھے ،اور آپ کی تربیت جناب فاطمہ بنت اسدنے کی جو عفت ،طہارت اور اخلاق میں اپنے زمانہ کی عورتوں کی سردار تھیں انھوں نے آپ کو بلند و بالا اخلاق ،اچھی عا دتیں اور آداب کریمہ سے آراستہ و پیراستہ کیا۔

پرورش امام کے لئے نبی کی آغوش

امام کے عہد طفولیت میں نبی نے آپ کی پرورش کرنے کی ذمہ داری اس وقت لے لی تھی جب آپ بالکل بچپن کے دور سے گذر رہے تھے ،جس کا ماجرا یوں بیان کیا جاتا ہے کہ جب آنحضرت کے چچا ابوطالب کے اقتصادی حالات کچھ بہتر نہیں تھے تو نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے چچاعباس اور حمزہ کے پاس گفتگو کرنے کیلئے تشریف لے گئے اور ان سے اپنے چچا ابوطالب کے اقتصادی حالات کے سلسلہ میںگفتگو کی اور ان کا ہاتھ بٹانے کا مشورہ دیاتو انھوں نے آپ کی اس فرمائش کو قبول کرلیا ، چنانچہ جناب عباس نے طالب ، حمزہ نے جعفر اور نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی کی پرورش کی ذمہ داری اپنے اوپر لے لی، لہٰذا اس وقت سے آپ (علی) رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی آغوش تربیت میں آگئے اور آنحضرت ہی کے زیر سایہ اورانھیں کے دامن محبت و عطوفت میں پروان چڑھے ،اسی لئے آپ کی رگ و پئے اور آپ کی روح کی گہرائی میںپیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کردار اور اخلاق اور تمام صفات کریمہ اسی وقت سے سرایت کر چکے تھے اسی لئے آپ نے زندگی کے آغاز سے ہی ایمان کو سینہ سے لگائے رکھا ،اسلام کو بخوبی سمجھا اور آپ ہی پیغمبر کے سب سے زیادہ نزدیک تھے ، ان کے مزاج و اخلاق نیز آنحضرت کی رسالت کو سب سے بہتر انداز میں سمجھتے تھے ۔

۲۶

مو لائے کا ئنات نے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پرورش کے انداز اور آپ سے اپنی گہری قرابت داری کے بارے میں ارشاد فرمایا :''تم جانتے ہی ہو کہ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے قریب کی عزیز داری اور مخصوص قدر و منزلت کی وجہ سے میرا مقام اُن کے نزدیک کیا تھا ؟میں بچہ ہی تھا کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مجھے گود میں لے لیا تھا،آنحضرت مجھے اپنے سینہ سے چمٹائے رکھتے تھے، بستر میں اپنے پہلو میں جگہ دیتے تھے، اپنے جسم مبارک کو مجھ سے مس کر تے تھے اور اپنی خوشبو مجھے سونگھاتے تھے ،پہلے آپ کسی چیز کو چباتے پھر اس کے لقمے بنا کر میرے منھ میں دیتے تھے ،اُنھوں نے نہ تو میری کسی بات میں جھوٹ کا شائبہ پایا نہ میرے کسی کام میں لغزش و کمزوری دیکھی ۔۔۔ میں ان کے پیچھے پیچھے یوں لگا رہتا تھا جیسے اونٹنی کا بچہ اپنی ماں کے پیچھے رہتا ہے، آپ ہر روز میرے لئے اخلاق حسنہ کے پرچم بلند کر تے تھے اور مجھے ان کی پیروی کا حکم دیتے تھے ''۔

آپ نے نبی اور امام کے مابین بھروسہ اور قابل اعتماد رابطہ کا مشاہدہ کیااور ملاحظہ کیاکہ کس طرح نبی اکرم حضرت علی کی مہربانی اور محبت کے ساتھ تربیت فرماتے اور آپ کو بلند اخلاق سے آراستہ کرتے تھے ؟اور نبی نے کیسے حضرت علی کی لطف و مہربانی اور بلند اخلاق کے ذریعہ تربیت پا ئی ؟

نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حمایت

جب رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے عظیم انقلاب کا آغاز فرمایاجس سے جاہلیت کے افکار ، اور رسم و رواج متزلزل ہوگئے ،تو قریش آپ کی مخالفت کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے ،انھوں نے جان بوجھ کرتحریک کو خاموش کرنے کیلئے بھرپور کو شش کی اور اس کیلئے ہرممکنہ طریقۂ کاراختیارکیا ،اپنے بچوں کو نبی پر پتھروں کی بارش کرنے کے لئے بھڑکایا، اس وقت امام ہی ایک ایسے بچے تھے جو نبی کی حمایت کر رہے تھے اور ان بچوں کو ڈانٹتے اور مارتے تھے جب وہ اپنی طرف اس بچہ کو آتے ہوئے دیکھتے تھے تو ڈر کر اپنے گھروں کی طرف بھاگ جاتے تھے ۔

۲۷

اسلام کی راہ میں سبقت

تمام مو رخین اور راوی اس بات پر متفق ہیں کہ امام ہی سب سے پہلے نبی پر ایمان لائے ، آپ ہی نے نبی کی دعوت پر لبیک کہا،اور آپ ہی نے اپنے اس قول کے ذریعہ اعلا ن فرمایا کہ اس امت میں سب سے پہلے اللہ کی عبادت کرنے والا میں ہو ں :''لَقَدْ عَبَدْتُ اللّٰہَ تَعَالیٰ قَبْلَ اَنْ یَعْبُدَہُ اَحَدُ مِنْ ھٰذِہِ الاُمَّةِ ''۔ ''میں نے ہی اس امت میں سب سے پہلے اللہ کی عبادت کی ہے ''۔(۱)

اس بات پر تمام راوی متفق ہیں کہ امیر المو منین دور جا ہلیت کے بتوں کی گندگی سے پاک و پاکیزہ رہے ہیں ،اور اس کی تاریکیوں کا لباس آپ کو ڈھانک نہیں سکا،آپ ہر گز دوسروں کی طرح بتوں کے سامنے سجدہ ریز نہیں ہوئے ۔

مقریزی کا کہنا ہے :(علی بن ابی طالب ہاشمی نے ہر گز شرک نہیں کیا،اللہ نے آپ سے خیر کا ارادہ کیا تو آپ کو اپنے چچازاد بھائی سید المرسلین کی کفالت میں قرار دیدیا)۔(۲)

قابل ذکر بات یہ ہے کہ سیدہ ام المو منین خدیجہ آپ کے ساتھ ایمان لا ئیں، حضرت علی اپنے اور خدیجہ کے اسلام پر ایمان لانے کے سلسلہ میں فرماتے ہیں :''وَلَم یَجْمَعْ بَیْتُ یَومَئِذٍ واحدُ فی الاسلام غیرَرسُولِ اللّٰهِ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وَخَدِیْجَةَ وَاَنَا ثَالِثُهُمَا'' ۔(۳) ''اس دن رسول اللہ خدیجہ اور میرے علاوہ کو ئی بھی مسلمان نہیں ہوا تھا ''۔

ابن اسحاق کا کہنا ہے :اللہ اور محمد رسول اللہ پر سب سے پہلے علی ایمان لائے ''۔(۴)

حضرت علی کے اسلام لانے کے وقت آپ کی عمر سات سال یا دوسرے قول کے مطابق نو سال تھی۔(۵) مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آپ سب سے پہلے اسلام لائے ،جو آپ کیلئے بڑے ہی شرف اور فخر کی بات ہے ۔

آپ کی نبی سے محبت

آپ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سب سے زیادہ اخلاص سے پیش آتے تھے ایک شخص نے امام سے

____________________

۱۔صفوة الصفوہ، جلد ۱،صفحہ ۱۶۲۔

۲۔ امتاع الاسمائ، جلد ۱،صفحہ ۱۶۔

۳۔حیاةالامام امیر المومنین ،جلد ۱،صفحہ ۵۴۔

۴۔شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ،جلد ۴،صفحہ ۱۱۶۔

۵۔صحیح ترمذی، جلد ۲،صفحہ ۳۰۱۔طبقات ابن سعد ،جلد ۳،صفحہ ۲۱۔کنز العمال، جلد ۶،صفحہ ۴۰۰۔تاریخ طبری ،جلد ۲، صفحہ۵۵۔

۲۸

رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے محبت کے متعلق سوال کیا تو آپ نے اس سے فرمایا:''کَانَ وَاللّٰہِ احبَّ الینامِن مالناواولادِناوَامَّھَاتِنَاومِن المائِ الباردِعلیَ الظّمْأ۔۔۔''۔(۱)

''خدا کی قسم وہ مجھے میرے مال ،اولاد ،ماںاور پیا س کے وقت ٹھنڈے گوارا پانی سے بھی زیادہ محبوب تھے ''۔

حضرت علی کی نبی سے محبت کا یہ عالم تھا کہ ایک باغ آپ کے حوالہ کیا گیا ،باغ کے مالک نے آپ سے کہا :کیا آپ میرے باغ کی سینچا ئی کردیں گے میں آپ کو ہر ڈول کے عوض ایک مٹھی خرما دوںگا؟ آپ نے جلدی سے اس باغ کی سینچا ئی کر دی تو باغ کے مالک نے آپ کو خرمے دئے یہاں تک کہ آپ کی مٹھی بھرگئی آپ فوراً ان کو نبی کے پاس لیکر آئے اور انھیں کھلادئے ۔(۲)

نبی سے آپ کی محبت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ خود ان کی خدمت کرتے ، ان کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے آمادہ رہتے تھے اور ہم اس سلسلہ کے چند نمونے اپنی کتاب'' حیاة الامام امیر المومنین ''میںذکر کرچکے ہیں ۔

یوم الدار

حضرت علی کی بھر پور جوانی تھی جب سے آپ نے رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قدم بہ قدم چلنا شروع کیا،یہ وہ دور تھا جب آنحضرت نے اپنی اسلامی دعوت کا اعلان کیاتھا کیونکہ جب خداوند عالم نے آپ کو اپنے خاندان میں تبلیغ کرنے کا حکم دیا تو رسول نے علی کو بلاکر ان کی دعوت کرنے کوکہا جس میںآپ کے چچا :ابوطالب ،حمزہ ،عباس اور ابو لہب شامل تھے ،جب وہ حاضر ہوئے تو امام نے ان کے سامنے دسترخوان بچھایا،ان سب کے کھانا کھانے کے بعد بھی کھانا اسی طرح باقی رہااور اس میں کوئی کمی نہ آئی ۔

جب سب کھانا کھاچکے تو نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کھڑے ہوکر ان کو اسلام کی دعوت دی اور بتوں کی پوجاکرنے سے منع فرمایا ،ابو لہب نے آپ کا خطبہ منقطع کر دیا اور قوم سے کہنے لگا :تم نے ان کا جادو دیکھا ،

____________________

۱۔خزانة الادب، جلد ۳،صفحہ ۲۱۳۔

۲۔تاریخ طبری ،جلد ۲،صفحہ ۶۳۔تاریخ ابن اثیر، جلد ،صفحہ ۲۴۔مسند احمد بن حنبل، صفحہ ۲۶۳۔

۲۹

اور یہ نشست کسی نتیجہ کے بغیر ختم ہو گئی ،دوسرے دن پھر رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سب کو بلایا، جب سب جمع ہوگئے سب کو کھانا کھلایا اور جب سب کھانا کھا چکے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے یوں خطبہ دیا :''اے بنی عبد المطلب! خدا کی قسم میں نے قوم عرب میں کسی ایسے جوان کا مشاہدہ نہیں کیا جو قوم میں مجھ سے بہتر چیزیں لیکر آیا ہو ،میں تمہارے لئے دنیا و آخرت کی بھلا ئی لیکر آیا ہوں ،خدا وند عالم نے مجھے یہ حکم دیا ہے کہ میں تمھیں اس کی دعوت دوں، تو تم میں سے جو بھی میری اس کام میں مدد کرے گا وہ میرا بھائی ،وصی اور خلیفہ ہوگا ؟''۔

پوری قوم پر سنّاٹا چھاگیا گو یاکہ ان کے سروں پر، پرندے بیٹھے ہوں ،اس وقت امام کی نوجوا نی تھی لہٰذا آپ نے بڑے اطمینان اور جوش کے ساتھ کہا :''اے نبی اللہ!میں اس کام میں، آپ کی مدد کروں گا ''۔

نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے آپ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر قوم سے مخاطب ہو کر فرمایا : '' بیشک یہ میرے بھائی ،وصی اور تمہارے درمیان میرے خلیفہ ہیں ان کی باتیں سنو اور ان کی اطاعت کرو ''۔

یہ سن کر مضحکہ خیز آوازیں بلند ہونے لگیںاور انھوں نے مذاق اڑاتے ہوئے ابوطالب سے کہا:''تمھیں حکم دیا گیا ہے کہ تم اپنے بیٹے کی بات سنو اور اس کی اطاعت کرو ''۔(۱)

علماء کا اتفاق ہے کہ یہ حدیث واضح طور پر امیر المو منین کی امامت پر دلالت کر تی ہے ،آپ ہی نبی کے وصی ،وزیر اور خلیفہ ہیں ،اور ہم نے یہ حدیث اپنی کتاب''حیاة الامام امیرالمو منین ''کے پہلے حصہ میں مفصل طور پر بیان کی ہے ۔

شعب ابی طالب

قریش کے سر کردہ لیڈروں نے یہ طے کیا کہ نبی کو شِعب ابو طالب میں قید کردیاجائے، اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

کو وہاں رہنے پر مجبور کیاجائے تا کہ آپ کا لوگوں سے ملنا جلنا بند ہو جائے اور ان کے عقائدمیں کو ئی تبدیلی نہ ہو سکے ، اور وہ آپ کے اذہان کو جا ہلیت کے چنگل سے نہ چھڑاسکیں،لہٰذا انھوں نے بنی ہاشم کے خلاف مندرجہ ذیل معاہدے پر دستخط کئے :

____________________

۱۔تاریخ طبری ،جلد ۲، صفحہ ۶۳۔تاریخ ابن اثیر، جلد ۲،صفحہ ۲۴۔مسند احمد، صفحہ ۲۶۳۔

۳۰

۱۔وہ ہاشمیوںسے شادی بیاہ نہیں کریں گے ۔

۲۔ان میں سے کو ئی ایک بھی ہاشمی عورت سے شادی نہیں کر ے گا ۔

۳۔وہ ہاشمیوں سے خرید و فروخت نہیں کریں گے ۔انھوں نے یہ سب لکھ کر اور اس پر مہر لگا کرکعبہ کے اندر لٹکادیا ۔

پیغمبر کے ساتھ آپ پر ایمان لانے والے ہاشمی جن میں سر فہرست حضرت علی تھے سب نے اس شعب میں قیام کیا ، اور وہ مسلسل وہیں رہے اور اس سے باہر نہیں نکلے وہ بد ترین حالات میں ایک دوسرے کی مدد کرتے رہے اور ام المومنین خدیجہ نے ان کی تمام ضروریات کو پورا کیا یہاں تک کہ اسی راستہ میں ان کی عظیم دولت کام آگئی ،نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم شعب میں اپنے اہل بیت کے ساتھ دو یا دو سال سے زیادہ رہے ، یہاں تک کہ خدا نے دیمک کو قریش کے معاہدہ پر مسلط کیا جس سے وہ اس کو کھا گئیں ،اُدھر رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جناب ابوطالب کے ذریعہ یہ خبر پہنچا ئی کہ عہد نامہ کو دیمک نے کھا لیا ہے وہ جلدی سے عہد نامہ کے پاس آئے توانھوں نے اس کو ویسا ہی پایا جیسا کہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کی خبر دی تھی تو ان کے ہوش اڑگئے ، قریش کی ایک جماعت نے ان کے خلاف آواز اٹھا ئی اور ان سے نبی کو آزاد کرنے کا مطالبہ کیا جس سے انھوں نے نبی کو چھوڑ دیا نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے اہل بیت کے ساتھ قید سے نکلے جبکہ ان پر قید کی سختیوں کے آثار نمایاں تھے۔

نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے شعب سے باہر نکل کر قریش کی دھمکیوں کی پروا نہیں کی اور پھر سے دعوت توحید کا اعلان کیا ،ان کا مقابلہ کرنے میں آپ کے چچا ابو طالب ،حضرت علی اور بقیہ دوسرے افراد نے بڑی مدد کی،یہی لوگ آپ کی مضبوط و محکم قوت بن گئے ،اور ابو طالب رسالت کا حق ادا کرنے کے متعلق یہ کہہ کر آپ کی ہمت افزائی کر رہے تھے :

اذهب بنّى فماعلیک غضاضةُ

اذهب وقرّ بذاک منک عیونا

واللّٰه لَنْ یَصِلُوا الیک بِجَمْعِهِمْ

حتی اُوسد فی التراب دفینا

وَدعوتن وعلِمتُ انکّ ناصِحِ

ولقد صدقتَ وکنتَ قَبْلُ اَمِیْنا

۳۱

وَلقد علِمتُ بِاَنَّ دِینَ محمدٍ

مِنْ خیرِ اَدیانِ البریة دِیْنا

فَاصدَعْ بِاَمْرِکَ مَاعَلَیْکَ غضَاضَةُ

وَابْشِرْ بِذَاکَ وَقُرَّ عُیُوْنَا(۱)

''بیٹے جائو تمھیں کو ئی پریشانی نہیں ہے ،جائو اور اس طرح اپنی آنکھیں روشن کر و۔

خدا کی قسم وہ اپنی جماعت کے ساتھ اس وقت تک تم تک نہیں پہنچ سکتے جب تک میں دنیا سے نہ اٹھ جائوں ۔

تم نے مجھے دعوت دی اور مجھے یقین ہو گیا کہ تم میرے خیر خواہ ہو ،تم نے سچ کہا اور پہلے بھی تم امانتدار تھے ۔

مجھے یقین ہو گیا ہے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا دین دنیا کا سب سے بہترین دین ہے۔

لہٰذا اپنی دعوت کا اعلان کرو اور تمھیںذرہ برابر ملال نہ ہو ،تم خوش رہواپنی آنکھیں ٹھنڈی کرو ''۔

یہ اشعار ابوطالب کے صاحب ایمان ،اسلام کے حا می اور مسلمانوں میں پہلے مجاہد ہونے پر دلالت کر تے ہیں ،اور ان کے ہاتھ ٹوٹ جا ئیںجو ابو طالب کو صاحب ایمان نہیں سمجھتے ،اس طرح کی فکر کرنے والوں کا ٹھکانا جہنم ہے ،حالانکہ ان کو یہ علم ہے کہ ابوطالب کا بیٹا جنت و جہنم کی تقسیم کرنے والا ہے ۔

بیشک ابو طالب اسلامی عقائد کے ایک رکن ہیں ،اگر آپ ابتدا میں پیغمبر کے موافق نہ ہوتے تو اسلام کا نام اور دستور و قواعد کچھ بھی باقی نہ رہتے اور قریش ابتدا ہی میں اس کا کام تمام کردیتے ۔

امام کا نبی کے بستر پر آرام کرنا (شب ہجرت)

یہ امام کی ایسی خو بی ہے جس کا شمارآپ کے نمایاں فضائل میں ہوتا ہے یعنی آپ نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر نبی کی حفاظت کی ہے اور نبی کی محبت میںموت کا بخو شی استقبال کیاہے اسی لئے عالم اسلام میں آپ سب سے پہلے فدا ئی تھے۔

جب قریش نے رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو قتل کرنے اور ان کی زندگی کا خاتمہ کرنے کے لئے آپ کے

____________________

۱۔حیاةالامام امیر المو منین ،جلد ۱، صفحہ ۱۳۷۔

۳۲

بیت الشرف کا اپنی ننگی تلواروں سے محاصرہ کیاتو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی کو بلا بھیجا اور ان کو قوم کے ارادہ سے آگاہ کیا ، ان کو اپنے بستر پرسبزچادر اوڑھ کر سونے کا حکم دیا تاکہ کفار آپ کو نبی سمجھتے رہیں ،امام نے نبی کے حکم کا خنداں پیشانی کے ساتھ استقبال کیاگویا آپ کو ایسی قابل رشک چیزمل گئی جس کا کبھی خواب تک نہیں دیکھا تھا، نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اُن کے درمیان سے نکل گئے اور ان کو خبر بھی نہ ہو ئی اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اُن کے منحوس چہروں کی طرف ایک مٹھی خاک یہ کہتے ہوئے پھینکی:''شاھت الوجوہ ذُلّاً'' ، ''رسوائی کی بنا پر چہرے بگڑ جا ئیں ' '، اس کے بعد قرآن کریم کی اس آیت کی تلاوت فرمائی:

( وَجَعَلْنَامِنْ بَیْنِ اَیْدِیْهِمْ سَدّاً وَمِنْ خَلْفِهِمْ سَدّاً فَاَغْشَیْنَاهُمْ فَهُمْ لَایُبْصِرُوْنَ ) ۔(۱)

'' اور ہم نے ایک دیوار ان کے سامنے اور ایک دیوار ان کے پیچھے بنا دی ہے پھر انھیں عذاب سے ڈھانک دیا ہے کہ وہ کچھ دیکھنے کے قابل نہیں رہ گئے ہیں ''۔

حضرت علی کا نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بستر پر رات گذارنا آپ کے جہاد کی درخشاں تصویر اور ایسی بے مثال منقبت ہے جس کا جواب نہیں لایا جا سکتا اور خداوند عالم نے آپ کی شان میںیہ آیت نازل فرما ئی :

( وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْرِی نَفْسَهُ ابْتِغَائَ مَرْضَاتِ اللّٰهِ ) ۔(۲)

''لوگوں میں کچھ ایسے بھی ہیں جو اپنے نفس کوبیچ کر مرضی الٰہی خرید لیتے ہیں ''۔

____________________

۱۔سورئہ یس، آیت ۹۔

۲۔سورئہ بقرہ ،آیت ۲۰۷۔

۳۳

اس عزت و شرف کی اسلامی پیغام میںبڑی اہمیت ہے جس تک کو ئی بھی مسلمان نہیں پہنچ سکا ، شاعر کبیر شیخ ہاشم کعبی امام کی یوں مدح سرا ئی کرتے ہیں :

وَمَوَاقِفُ لَکَ دُوْنَ اَحْمَدَ جَاوَزَتْ

بِمَقَامِکَ التَّعْرِیْفَ وَالتَّحْدِیْدا

فَعَلیٰ الْفِرَاشِ مَبِیْتُ لَیْلِکَ وَالْعِدْ

تُهْدِیْ اِلَیْکَ بَوَارِقا ًوَرُعُوْداً

فَرْقَدْتَ مَثْلُوْ جَ الْفُؤَادِ کَاَنَّمَا

یُهْدِ الْقَرَاعُ لِسَمْعِکَ التَّغْرِیْداً

فَکَفَیْتَ لَیْلَتَهُ وَقُمْتَ مُعَارِضا

جَبَلاً اَشَمَّ وَفَارِساً صِنْدِیْدا

رَصَدُواالصَبَاحَ لِیُنْفِقُواکَنْزَالهُدیٰ

أَوَمَا دَرَوْاکَنْزَالهُدیٰ مَرْصُوداً؟

''(اے علی)حضور اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو چھوڑ کر آپ کے درجات اور مقامات تعریف و ثنا کی حد سے بالا ہیں ۔

چنانچہ آپ شب ہجرت اس عالم میں بستر رسول پر سوئے کہ دشمن شمشیروں کے ذریعہ آپ کو گھیرے ہوئے تھے ۔

پھر بھی آپ نہایت سکون کے ساتھ سوئے گویا،آپ کے گوش مبارک میں نغمہ ٔ معنویت گونج رہا تھا ۔

آپ نے اس شب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حفاظت کی اور صبح کے وقت مضبوط پہاڑاور بے مثال شہسوار کی مانند بیدار ہوئے ۔

انھوں نے مخزن ہدایت کوخرچ کرنے کے لئے صبح کا انتظار کیا جبکہ انھیں نہیں معلوم تھا کہ خود خزانہ ٔ ہدایت ان کے انتظار میں تھا''۔

۳۴

امام نے پوری رات خدا سے اس دعا میں گذاردی کہ خدا ان کی اس محنت و مشقت کے ذریعہ ان کے بھا ئی کو بچائے اور ان کو دشمنوں کے شر سے دور رکھے ۔

جب صبح نمودار ہو ئی تو سرکشوں نے ننگی تلواروں کے ساتھ نبی کے بستر پر دھاوا بول دیا تو حضرت علی ان کی طرف اپنی ننگی تلوار لئے ہوئے شیر کی مانند بڑھے جب انھوں نے علی کو دیکھا تو ان کے ہوش اُڑگئے وہ سب ڈر کر اما م سے کہنے لگے :محمد کہا ں ہیں ؟

امام نے ان کے جواب میں فرمایا:''جَعَلْتُمُوْنِیْ حَارِساًعَلَیْهِ؟''

''کیا تم نے مجھے نبی کی حفاظت کے لئے مقرر کیا تھا ؟''۔

وہ بہت ہی مایوسی ا ور ناراضگی کی حالت میں الٹے پیر پھر گئے، چونکہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان کے ہاتھ سے نکل چکے تھے وہ نبی جو ان کو آزاد ی دلانے اور اُن کے لئے عزم و ہمت کا محل تعمیر کرنے کیلئے آئے تھے ،قریش جل بھُن گئے اور آپ کو بہت ہی تیز نگاہوں سے دیکھنے لگے لیکن امام نے کو ئی پروا نہیں کی اور صبح وشام ان کا مذاق اڑاتے ہوئے رفت و آمد کرنے لگے ۔

امام کی مدینہ کی طرف ہجرت

جب رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مکہ سے مدینہ ہجرت کر گئے تو علی نے نبی کے پاس مو جودہ امانتوں کو صاحبان امانت کے حوالہ کیا، نبی جن کے مقروض تھے ان کا قرض اداکیا ،چونکہ آپ ان کے متعلق نبی سے وعدہ کر چکے تھے، آپ وہاں کچھ دیر ٹھہر کر اپنے چچازاد بھا ئی سے ملحق ہونے کیلئے مدینہ کی طرف ہجرت کر گئے، آپ کے ساتھ عورتیں اور بچے تھے ، راستہ میں سات سرکشوں نے آپ کا راستہ روکنا چاہا ،لیکن آپ نے بڑے عزم وہمت کے ساتھ ان کا مقابلہ کیا اور ان میں سے ایک کو قتل کیا اور اس کے باقی ساتھی بھاگ نکلے ۔

امام بغیر کسی چیز کے مقام بیداء پر پہنچے ،آپ صرف رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ملاقات کرنے کا شوق رکھتے تھے لہٰذا آپ مدینہ پہنچ گئے ،ایک قول یہ ہے :آپ نے مدینہ میں داخل ہونے سے پہلے مسجدقبا میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ملاقات کی ، نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آپ کی آمد سے بہت خوش ہوئے کیونکہ آپ کی ہر مشکل میں کام آنے والے مددگار آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس پہنچ گئے تھے ۔

۳۵

امام ، قرآن کی نظرمیں

حضرت علی کے متعلق قرآن کریم میں متعدد آیات نا زل ہو ئی ہیں ، قرآن نے رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد آپ کواسلام کی سب سے بڑی شخصیت کے عنوان سے پیش کیا ہے ،اللہ کی نگاہ میں آپ کی بڑی فضیلت اوربہت اہمیت ہے ۔متعدد منابع و مصادر کے مطابق آپ کی شان میں تین سو آیات نازل ہو ئی ہیں(۱) جو آپ کے فضل و ایمان کی محکم دلیل ہے۔

یہ بات شایان ذکر ہے کہ کسی بھی اسلا می شخصیت کے سلسلہ میں اتنی آیات نازل نہیں ہوئیںآپ کی شان میں نازل ہونے والی آیات کی مندرجہ ذیل قسمیں ہیں :

۱۔وہ آیات جو خاص طور سے آپ کی شان میں نازل ہوئی ہیں ۔

۲۔وہ آیات جو آپ اور آپ کے اہل بیت کی شان میں نازل ہو ئی ہیں ۔

۳۔وہ آیات جو آپ اور نیک صحابہ کی شان میں نازل ہو ئی ہیں ۔

۴۔وہ آیات جو آپ کی شان اور آپ کے دشمنوں کی مذمت میں نازل ہو ئی ہیں ۔

ہم ذیل میں ان میں سے کچھ آیات نقل کر رہے ہیں :

____________________

۱۔تاریخ بغداد، جلد ۶،صفحہ ۲۲۱۔صواعق محرقہ ،صفحہ ۲۷۶۔نورالابصار ،صفحہ ۷۶،وغیرہ ۔

۳۶

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

۱۰_گناہ گار، لوگوں كے نامہ اعمال كے دقيق آور جامع ہونے كى وجہ سے حيرت زدہ اور سخت پريشان ہو جائينگے_

ى ويلتنا مال هذا لكتاب لايغادر صغيرة ولا كبيره

۱۱_ گناہ گار لوگ اپنے، اعمال پرمشتمل كتاب كو ديكھتے ہى اپنى موت كى آرزو كريں گے _

ويقولون ى ويلتنا مال هذا الكتاب

''ويلہ'' اور'' ويل''كا معنى ''ہلاكت ''ہے اور ويلہ كامونث ہو نا مبالغہ كا فا ئدہ ديتا ہے گناہگاروں كى طرف سے اسكے ساتھ ندا دينا بتا تا ہے كہ وہ اپنے اعمال نامہ كا مشا ہدہ كرنے كے بعد انہيں اپنے ليے سوائے ہلاكت و عذاب كى راہ ديكھائي نہ دى لہذا اسكو منادى قرار ديا اور اسے طلب كيا يعنى حالت اتنى خراب اور پست ديكھى كہ اپنے ليے صرف ہلاكت كو ہى راہ حل سمجھا _

۱۲_ ہر چھوٹا و بڑا عمل، نا مہ اعمال ميں درج ہے يہاں تك انسان كا معمولى سا عمل بھى شمار كيا گيا ہے _

لا يغادر صغيرةولاكبيره الا احصيه

'' غدر'' و ''مغادرہ'' سے مراد ترك ہے اور''لايغادر ...'' يعنى نہ ہر چھوٹے بڑے كو چھو ڑا ہے اور نہ ہى چھوڑيگا _

۱۳_ انسانوں كے اعمال، فنا نہيں ہو نگے بلكہ روز قيامت انكے سا منے حا ضر اور مجسم ہو نگے _ووجدوا ما عملوا حا ضر

''ووجدوا '' كا ظاہر يہ ہے كہ يہاں تاسيس ہے نہ تا كيد يعنى پچھلے جملات سے ہٹ كر ايك نيا مطلب بيان ہوا ہے اور وہ يہ ہے كہ اعمال نامہ كے علاوہ خود اعمال بھى لوگوں كے سامنے حا ضر ہونگے _

۱۴ _ روز قيامت، گناہ گار لوگ اپنى بد كا رى اور مستحق عذاب ہونے كا اقرار كريں گے_

ى ويلتنا مال هذه الكتب ووجدوا ما عملوا حاضراً ولا يظلم ربّك احدا ً

۱۵_ آخرت ميں الہى سزائيں ، انسان كے اعمال كا نتيجہ ہيں _ووجدوا ما عملوا حاضرا

۱۶_اللہ تعالي، روزقيامت كسى پر بھى ظلم نہيں كرے گا_ولا يظلم ربّك احدا

۱۷_قيامت ميں انسانوں كے اعمال كا خود حاضر ہونا، عدالت كے اجرا ء ہونے پر تائيد اور معمولى سے بھى ظلم كى الله تعالى كى درگاہ سے نفى ہے _ووجدوا ما عملوا حاضراً ولا يظلم ربّك احدا اعمال نامہ ميں اعمال كے درج ہونے كے علاوہ اعمال كا حاضر اور مجسم ہونا يہ سب روز قيامت، احكام الہى كے دقيق ہونے اور سزاؤں كے عادلانہ ہونے پر تاكيد كررہے ہيں اوراس مطلب كو بيان كررہے ہيں كہ قيامت كے دن پيش كئے جانے والے مدارك و اسناد غير قابل انكار ہونگے_

۴۴۱

۱۸_اللہ تعالى كا ہر قسم كے ظلم اور بے عدالتى سے منزّا ہونا اسكى ربوبيت كا تقاضا ہے _

ووضع الكتاب ولا يظلم ربّك احدا

۱۹_قيامت ميں لوگوں كے اعمال كا عادلانہ طور پر حساب و كتاب اور ميزان، الله تعالى كى ربوبيت كا لازمہ ہے _

ووضع الكتاب ولايظلم ربّك احدا

۲۰_قيامت كا بر پا ہونا اور اسكا نظم و نسق الله تعالى كى عدالت كا جلوہ ہيں _ووضع الكتاب ولايظلم ربّك أحدا

قيامت سے مربوط آيات كے تذكرے كے بعد الله تعالى كے ظلم سے منزہ ہونے كى بات يہ نكتہ بھى بيان كررہى ہے كہ يہ نظام اور اسكى تمام جہات كى اساس يہ ہے كہ الله تعالى كسى پر ظلم و ستم نہيں كرتا اس نے عدالت كو قائم كرنے كے كيلئے تو قيامت كو برپا كيا ہے_

آرزو :موت كى آرزو۱۱

آسائش پسند لوگ :آسائش پسند لوگوں كا آخرت ميں ڈر ۵;قيامت ميں آسائش پسند لوگ ;

اسماوصفات :صفات جلاليہ ۱۶;۱۷;۱۸

اعمال نامہ :اعمال نامہ كا ديكھا جانا ۱،۳،۷;اعمال نامہ كا جامع ہونا ۱۰،۱۲;اعمال نامہ كو ديكھنے كے آثار ۱۱;قيامت ميں اعمال نامہ ۱

اقرار :سزا كے مستحق ہونے كا اقرار ۱۴

الله تعالى :الله تعالى اور ظلم ۱۶،۱۷;اللہ تعالى كا منزہ ہونا ۱۶;اللہ تعالى كى اخروى عدالت ۱۷; الله تعالى كى ربوبيت كے آثار ۱۸;۱۹;اللہ تعالى كى عدالت كا باعث ۱۸،۱۹;اللہ تعالى كى عدالت كى علامات ۲۰

تكبر :تكبر كے آثار ۶

جرم :جرم كے اسباب ۹;جرم كے موارد ۶//خود :خود پر اقرار ۱۴

خوف :آخرت كے خوف كا باعث ۸;آخرت كے خوف كے اسباب ۶;عمل سے خوف ۳

دنيا پرستى :دنيا پرستى كے آثار ۶

شرك :شرك كے آثار ۶

عمل :عمل كا آخرت ميں حساب كتاب ۱۹;عمل ك

۴۴۲

آخرت ميں مجسم ہونا ۱۷; عمل كا تحرير ہونا ۲; عمل كى آخرت ميں سزا ۱۵;عمل كے آخرت ميں آثار ۱۵;عمل كے مجسم ہونے كے آثار ۱۷;

قيامت :قيامت كا برپا ہونا ۲۰;قيامت كى خصوصيات ۱ ،۴،۷; قيامت ميں حساب و كتاب۱۹; قيامت ميں عمل كا مجسم ہونا ۱۳; قيامت ميں وحشت زدہ لوگ ۵

گنا ہ گارلوگ :قيامت ميں گناہ گار لوگ ۳،۵;گناہ گارلوگوں كا آخرت ميں اقرا ر ۱۴;گناہ گار لوگوں كا آخرت ميں تعجب ۱۰;گناہ گارلوگوں كا آخرت ميں چہرہ ۴;گناہ گار لوگوں كا آخرت ميں خوف ۳;گناہ گارلوگوں كى آخرت ميں آرزوہ ۱۱;گناہ گار لوگوں كى آخرت ميں پريشانى ۱۰;گناہ گارلوگوں كا اعمال نامہ ۱۰،۱۱

متقين :متقين كا اعمال نامہ ۷;قيامت ميں متقين ۷

معا د :معاد كو جھٹلا نے كے آثار ۹

آیت ۵۰

( وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ كَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ أَمْرِ رَبِّهِ أَفَتَتَّخِذُونَهُ وَذُرِّيَّتَهُ أَوْلِيَاء مِن دُونِي وَهُمْ لَكُمْ عَدُوٌّ بِئْسَ لِلظَّالِمِينَ بَدَلاً )

اور جب ہم نے ملائكہ سے كہا كہ آدم كو سجدہ كرو تو ابليس كے علاوہ سب نے سجدہ كرليا كہ وہ جناب ميں سے تھا پھر تو اس نے حكم خدا سے سرتابى كى تو كيا تم لوگ مجھے چھوڑكر شيطان اور اس كى اولاد كو اپنا سرپرست بنا رہے ہو جب كہ وہ سب تمھارے دشمن ہيں يہ تو ظالمين كے لئے بدترين بدل ہے (۵۰)

۱_ آدم كيلئے فرشتوں كے سجدے اورا بليس كى سركشى كي داستان، عبرت آموز اور قابل توجہ ہے _

واذقلنا للملئكة اسجدوالا دم

( إذ) ( إذكر ) كى مانند فعل مقدر كيلئے ظرف ہے يعنى (اس وقت كو ياد كرو الله )تعالى كا پيغمبر (ص) يا لوگوں كو آدم كيلئے سجدہ كى داستان ياد كرنے كا فرمان اس تذكرہ كے اہم اور عبرت آموز ہونے كو واضح كررہاہے _

۲_ الله تعالى نے سب فرشتوں كو حكم ديا كہ آدم كو سجدہ كريں _واذقلنا للملئكة اسجدوالأدم

( الملائكة ) ميں ''الف لام'' استغراق كيلئے ہے يعني'' سب كے سب فرشتے ''

۴۴۳

۳_ فرشتے الہى فرمان كے مطابق ،انسانى زندگى كو منظم كرنے كى خدمت ميں مشغول ہيں _قلنا للملئكة اسجدو ا لا دم فسجدوا

(سجود) كا حقيقى معني، تسليم ہونا اور جھكنا ہے ممكن ہے كہ يہاں آدم كے در مقابل سجدہ كا حكم زمين پرپيشانى ركھنے كے معنى ميں نہ ہو بلكہ اسكا معنى آدم كے ليے تسليم ہونا اسكى اطاعت كرنا اور اسكى ضروريات اور دوسرى لازمى چيزوں كو پوراكرنا ہو _

۴_ آدم، ايك عظيم اور فرشتوں سے برتر مخلوق ہے_واذقلنا للملئكة اسجدوا لادم

سجدہ كا كوئي بھى معنى بھى ہو وہ بتارہا ہے كہ آدم فرشتوں كى نسبت بلند و بالا مقام پر فائز تھے اور ايسا مقام كہ فرشتوں كو انكے مقابل سجدہ كا حكم ديا گيا_

۵_اللہ تعالى نے سب فرشتوں كے سامنے آدم كو عظمت و تكريم بخشى _وإذ قلنا للملئكة اسجدوا ل ادم فسجدوا

۶_ انسا ن، فرشتوں سے بہتر قدر و منزلت پانے كا زمينہ اور انكےليے سجود ہونے كى صلاحيت و لياقت ركھتے ہيں _

إذقلنا للملئكة اسجدوا لادم

۷_تمام فرشتوں نے بغير كسى چوں چرا اور توقف كے آدم كے سامنے سجدہ كے الہى فرمان كى اطاعت كي_

واذ قلنا للملئكة اسجدو ا لا دم فسجدوا

( فسجدوا) ميں حرف (ف) بغير كسى وفقہ كے پيچھے آنے پر دلالت كررہا ہے يعنى سجدہ كا فرمان بغير كسى تاخير كے انجام ديا گيا_

۸_ابليس كو بھى فرشتوں كى مانند، آدم كيلئے سجدہ كا حكم ديا گيا تھا _فسجدوا الاّ ابليس

۹_آدم كيلئے سجدہ كے معاملہ ميں ابليس نے الله كى اطاعت سے سركشى كى _فسجدوا الا ّابليس ففسق عن أمر ربّه

( فسق ) سے مراد شريعت كى حدودسے خارج ہونا ہے (مفردات راغب )

۱۰_ابليس، الله تعالى كے فرمان كى سركشى كرنے سے پہلے فرشتوں كے ہم پلہ اور انہى جيسى منزلت ركھتاتھا_

واذقلنا للملئكة اسجدوا لا دم فسجدوا إلّا ابليس

۱۱_ ابليس فرشتوں كى محفل ميں ہونے كے با وجود موجودات جنات كےقبيلے سے تھا _فسجدوا إلّا ابليس كان من الجنّ

۴۴۴

۱۲_فرشتوں كى ذات، خدا كے در مقابل فرمانبردار ذات و فطرتہے _واذقلنا للملئكة اسجدوا لا دم فسجدوا الاّ ابليس كان من الجنّ شيطان كى نافرمانى كے بعد اسكى حقيقت كى وضاحت، اسكے فرشتوں كے ساتھ حقيقى او ر ذاتى فرق كى طرف اشارہ ہے كہ جو مندرجہ بالا مطلب كى طرف بھى اشارہ ہوسكتى ہے_

۱۳_ الہى حكم كے مقابل، ابليس كے فسق اور سركشى كا تعلق بنيادى طور پر اسكى حقيقت و ذات سے تھا_

كان من الجنّ ففسق عن أمر ربّه

فاء تفريع يہ بتارہى ہے كہ ابليس كا جن ہونا اسكے فسق كى بنيا د بنا اور ممكن ہے كہ يہ مراد ہو كہ جن كى ذات ميں حق انتخاب ركھا گيا ہے اور وہ اطاعت پر مجبور نہيں ہے اس حوالے سے ابليس نے خود فسق كى راہ كو اختيار كيا_

۱۴_ (جن )با شعور اور اختيار ركھنے والى مخلوق ہے_كان من الجنّ ففسق عن أمر ربّه

نافرمانى اور سركشي، حق انتخا ب ركھنے كى دليل ہے اور حق انتخاب اس مخلوق كوعطا ہوتا ہے جو تشخيص كى قوت ركھتى ہو_

۱۵_۱نسان كى تخليق سے بہت پہلے جنات كى تاريخ ہے_اسجدوا ل ادم الا ابليس كان من الجنّ

۱۶_مقام ربوبيت ،فرامين كو جارى كرنے اور اطاعت چاھتے كا تقاضا كرتاہے _قلنا للملئكة اسجدوا امر ربّه

۱۷_ابليس نے الله تعالى كے فرمان كى اطاعت كرنے كے ضمن ميں مرحلہ كمال و رشد تك پہنچنے كى ضمانت كے با وجود نافرمانى كى _ففسق عن أمرربّه

كلمہ (ربّہ) بتاتا ہے كہ الہى فرمان ابليس كے ضرر ميں نہ تھا بلكہ اسكے كمال و رشد كے ليے، الله تعالى كى ربوبيت كے حوالے سے تھا _

۱۸_ ابليس اور اسكى نسل،انسانوں كى دشمن ہے _أفتتخذونه و ذريّته أوليا ء من دونى وهم لكم عدوّ

۱۹_شياطين كى انسانوں كے ساتھ عداوت كے باوجود، بعض لوگوں كى طرف سے شيطان اور اسكى نسل كى سرپرستى ميں ہونا، ايك بيہودہ ، عجيب اور لائق سرزنش كام ہے_أفتتّخذونه وذريّته أوليا ء من دونى وهم لكم عدوّ

(أفتتخذونه )ميں '' ہمزہ استفہام'' تعجب كے ساتھ انكار والے معنى ميں ہے _

۲۰_مشركين كا عقيدہ تھا كہ شياطين اور جنات كائنات كے كاموں اور انكى تدبير ميں دخالت كا حق ركھتے

ہيں _أفتتخذ ونه وذريّته أولياء من دوني

۴۴۵

بعد والى آيت كے قرينہ سے شياطين كى سرپرستى والے و ہم سے مراد يہ گمان ہے كہ وہ كائنات كے امور اور تخليق كے كا موں ميں دخل اندازى اور نظارت كرتے ہيں اس عقيدہ كى بناء پر مشركين شياطين، شرسے بچنے كى بجائے اس كى ستائش كرتے تھے _

۲۱_شياطين كى سرپرستى كے ساتھ ساتھ الله تعالى كى سرپرستى نا ممكن ہے _ا فتتّخذونه و ذرّيتّة أوليا ء من دونى

۲۲_فقط الله تعالى كى سرپرستي، قبوليت اور بھروسہ كے لائق ہے _ا فتتّخذونه و ذرّيتّه أولياء من دونى

۲۳_شيطان كا آدم كو سجدہ كرنے سے انكا ر، اسكى انسانوں كے ساتھ عداوت كو ظاہر كررہاہے _

فسجدوا الا إبليس ...وهم لكم عدوا

۲۴_انسانوں كو چاہيے كہ ہميشہ اپنے حوالے سے شياطين كے كينہ اور عداوت كى طرف توجہ ركھيں اور انكى اطاعت سے پرہيز كريں _ا فتتّخذونه و ذرّيتّه أولياء من دونى وهم لكم عدوّا

۲۵_ حقيقى اور سرپرستى كے لائق ولى كيلئے محبت اور دلسوزى كرنا ايك ضرورى امر ہے _

ا فتتّخذونه وذرّيتّه أولياء من دونى وهم لكم عدوا

الله تعالى نے شيطان كى عداوت كا تذكرہ كرتے ہوئے اسے سرپرستى كے لائق نہ جانتے ہوئے بتاياہے جس كا مطلب يہ ہے كہ رہبرى اور سرپرستى كينہ و عداوت سے پاك ہو اور محبت و شفقت كے ساتھ ہو_

۲۶_جنات، انسانوں كے ساتھ كينہ پرورى كى طاقت ركھتے ہيں _كان من الجنّ وهم لكم عدوّا

شيطان جوكہ انسانوں كے ساتھ عداوت ركھتا ہے وہ جنات كے گروہ سے ہے_ (كان من الجنّ) تو اسكا مطلب يہ ہے كہ جنات انسانوں كے ساتھ دشمنوں والا طرز عمل ركھنے پر قادر ہيں _

۲۷_شياطين اور جنات ميں اولا د و نسل كا سلسلہ چل رہا ہے _كان من الجنّ ...ا فتتّخذونه و ذرّيتّه أوليا ء من دوني

۲۸_ الله تعالى كو سرپرست ماننے كى بجائے شيطان كو سرپرست بنانا ايك ظالمانہ اور قبيح انتخاب ہے _أفتتخذونه ...بئس للظالمين بدل فعل'' بئس'' ميں ( ذم ) إبليسكے ساتھ مخصوص ابليس ہے اور'' بدلا'' اسكے ليے تميز ہے لہذا جملہ كامعنى يوں ہوگا كہ ظالموں كيلئے الله تعالى كى بجائے شيطان كا انتخاب قبيح ہے_

۲۹_ شيطان كے پيروكار اور اسے سرپرست بنانے والے ظالم ہيں _

۴۴۶

بئس للظالمين بدل

آدم (ع) :آدم(ع) كى تكريم ۵;آدم(ع) كى ملائكہ پربرترى ۴;آدم(ع) كے فضائل ۴;۵;آدم(ع) كے قصہ سے عبرت ۱;آدم(ع) كيلئے سجدہ ۱;۲ ; ۷ ; ۸ ;آدم (ع) كيلئے سجدہ كو ترك كرنا ۹;۲۳

ابليس :ابليس اور فرشتے ۱۰;ابليس سركشى سے پہلے ۱۰; ابليس كا جن ہونا ۱۱;ابليس كى جنس ۱۱; ابليس كى دشمن ۱۸; ابليس كى سركشى ۱،۹، ۱۷; ابليس كى سركشى كا سرچشمہ ۱۳;ابليس كى شرعى ذمہ دارى ۸;ابليس كى طبعت ۱۳ ابليس كى نسل كى دشمنى ۱۸; ابليس كے فسق كا سرچشمہ ۱۳

اطاعت :اطاعت كے اسباب ۱۶; شيطان كا اطاعت كرنے سے اجتناب۲۴;اللہ تعالى كى ولايت ۲۲;اللہ تعالى كى ولايت كو قبول كرنا۲۱; الله تعالى كے افعال ۵; الله تعالى كے اوامر ۲،۳; الله تعالى كے اوامر كے آثار۱۷; الله تعالى كے مختصّات۲۲

انسان :انسان كى صلاحيتيں ۶; انسان كى ضرورتوں كا پوراہونا ۳;انسان كى فرشتوں پر برترى ۶; انسان كے دشمن ۱۸، ۱۹، ۲۳; انسان كے ليے فرشتوں كا سجدہ ۶;انسانوں كى خدمت ۳; انسانوں كے ساتھ دشمنى ۲۶

جن :جن كا اختيار ۱۴;جن كا توليد مثل كرنا ۲۷; جن كا شعور ۱۴;جن كى تخليق كى تاريخ ۱۵;جن كى دشمنى ۲۶;جن كى نسل ۲۷

حق :حق كى ولايت كى نشانياں ۲۵

ذكر :آدم(ع) كے قصہ كا ذكر ۱;شياطين كى دشمنى كا ذكر ۲۴;شياطين كى عداوت كا ذكر ۲۴

ربوبيت :ربوبيت كے آثار ۶

شرك :افعال ميں شرك ۲۰

شيطان :شيطان كا توليد مثل كرنا ۲۷;شيطان كى دشمنى ۱۹;شيطان كى دشمنى كى نشانياں ۲۳;شيطان كى سركشى كے آثا ر ۲۳; شيطان كى ولايت قبول كرنا۲۱، ۲۸، ۲۹;شيطان كى ولايت قبول كرنے پر تعجب۱۹; شيطانى نسل ۲۷;

ظالم لوگ :۲۹

ظلم :ظلم كے موارد۲۸

عقيدہ :جن، كى تدبير كے بارے ميں عقيدہ ۲۰ ; شياطين كى تدبير كے بارے ميں عقيدہ ۲۰

عمل :ناپسنديدہ عمل ۱۹;۲۸

۴۴۷

فرشتے :فرشتوں كا ذمہ دارى پر عمل كرنا ۷;فرشتوں كا سجدہ ۱;۷; فرشتوں كا كردا ر۳;فرشتوں كى پيروى ۷; ۱۲ ; فرشتوں كى ذمہ داري۷; فرشتوں كى طبع ۱۲

كمال :كمال كے اسباب ۱۷

مشركين :مشركين كا عقيدہ ۲۰

موجودات :باشعور موجودات ۱۴

نافرمانى :خدا كى نافرمانى ۹;۱۷

ولايت:مقبول ولايت ۲۲;;ولايت ميں محبت ۲۵; ولايت ميں مہربانى ۲۵

ہدايت :ہدايت كے سباب ۱۶

آیت ۵۱

( مَا أَشْهَدتُّهُمْ خَلْقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلَا خَلْقَ أَنفُسِهِمْ وَمَا كُنتُ مُتَّخِذَ الْمُضِلِّينَ عَضُداً )

ہم نے ان شياطين كو نہ زمين و آسمان كى خلقت كا گواہ بنايا ہے اور نہ خود انھيں كى خلقت كا اور نہ ہم ظالمين كو اپنا قوت باز و اور مددگار بناسكتے ہيں (۵۱)

۱_شياطين، آسمانوں اور زمين كى تخليق ميں حتّى كہ اپنى تخليق ميں بھى معمولى سى نگرانى اور دخل اندازى كا حق نہيں ركھتے _ما أشهدتّهم خلق السموات والا رض ولا خلق أنفسهم

''اشہاد'' يعنى دو سروں كو شاہد قرار دنيا اور اپنے حضور بلانا _ شياطين كى آسمانوں ، زمين اور اپنى تخليق ميں شاہد ہونے كى نفي، در حقيقت اس بات سے كنايہ ہے كہ كائنات كى پرورش و تدبير ميں انہوں نے معمولى سا كردار بھى ادا نہيں كيا ،كجا يہ كہ تخليق كے موقع پر انہيں بلايا جاتا اور وہ خلقت پر شاہد ہوتے _

۲_اشياء كى تمام جہات سے آگاہى اور اطلاع ركھنا ، ولايت اور سرپرستى كيلئے ضرورى شرط ہے _

ا فتتّخذونه و ذرّيتّه أولياء من دونى ...ما أشهدتّهم خلق السموات والارض

۳_ شياطين كا كائنات كى تخليق ميں حاضر نہ ہونا اس بات كى علامت ہےكہ وہ كائنات كى ولايت و تدبير كى صلاحيت نہيں ركھتے _ا فتتّخذونه و ذرّيتّه أولياء من دونى ما اشهدتّهم خلق السموات والاض

۴۴۸

۴_ ہر چيز كا خالق ہى اس كے امور كى تدبير اور سلجھانے كيلئے ايك طاقتور اور لائق ترين ذات ہے _

ا فتتّخذونه و ذرّيتّه أولياء من دونى ما أشهدتّهم خلق السموات والارض ولا خلق أنفسهم

الله تعالى نے شياطين كے تخليق ميں كردار ادا نہ كرنے كى بناء پر انكى ولايت كى صلاحيت كورد كرتے ہوئے اسكے مقابل،تمام چيزوں كے خالق ہونے كى بنا ء پر اپنى ولايت مطلقہ كى وضاحت فرمائي ہے اس نكتہ پر توجہ مندرجہ بالا مطلب بيان كرتى ہے_

۵_ مشركين نے كائنات كى تدبير ميں ايسے موجودات كو الله تعالى كى جگہ قرار ديا جو بذات خود الله تعالى كى مخلوق ہيں اوراپنى خلقت ميں معمولى ساحصہ بھى نہيں ركھتے _ا فتتّخذونه و ذرّيتّه أوليا ء ما ا شهد تّهم خلق ا نفسهم

۶_ الله تعالي، كائنات كى تخليق كے ساتھ ساتھ اسكى تدبير اور امور چلا نے ميں بھى واحد اور بلا شريك ہے _

ا فتتّخذ ونه و ذرّيتّه أولياء من دونى ...ما اشهدتّهم خلق السموات والارض

دو آيتوں كے باہمى ربط كو ديكھتے ہوئے (أوليا ء من دونى ) كى تعبير، تدبير او رولايت ميں توحيد پر اشارہ ہے اور (ما أشهد تهم ) ميں واحدمتكلم كى ضمير، تخليق ميں توحيد كى تشريح كررہى ہے _

۷_ اسباب ووسائل گمراہى سے كائنات كى تدبير ميں مددلينا، الله تعالى كيذاتمقدسہ سے بعيدہے _و ما كنت متخذالمضلّيں عضد جملہ ''ما كنت'' ( نہ ميں ايسا تھا اور نہ ہوں ) الله تعالى كے كام كا قانون اورطريقہ كاركو بيان كررہا ہے ( مضلّ ) يعنى گمرا ہ كرنے والا اور اسكا اس آيت ميں مصداق، شياطين ہيں اور ( عضد) سے مرا د بازو ہے اور اس سے يہاں مراد كام ميں مدد اور مددگار ہے_

۸_ دلسوز و بر حق ولايت كى موجودگى ميں غير صالح طاقتوں سے مدد طلب كرنا اس سے سازگار نہيں ہے _

وما كنت متخذا المظلّين عضدا

۹_شياطين كى سب سے بڑى خصوصيت گمراہ كرنا ہے _ا فتتّخذنه و ذرّيتّه أوليا ء وما كنت متخذ المضلّين عضدا ً

۱۰_ہدايت، ترقى اور كمال، كائنات كى تخليق ميں الله تعالى كے حقيقى مقاصد ہيں _

وما كنت متّخذالمضلّين عضدا

الله تعالى كا گمراہ كرنے والى طاقتوں سے فائدہ نہ اٹھا نا، اس بات كى علامت ہے كہ گمراہى ، تخليق كے ہدف سے سازگار نہيں ہے لہذ ا تخليق كا اصلى مقصد ہدايت اور راہ دكھانا ہے _

۴۴۹

۱۱_معاشرہ كے امور كى سوچ بچار اور باگ ڈور سجھنانےكيلئے گمراہ اور گمراہ كرنے والى طاقتوں سے فائدہ اٹھانا، ايك غلط كام اور غير الہى طريقہ ہے _و ما كنت متّخذالمضلّين عضدا

آسمان :آسمانوں كى خلقت ۱

الله تعالى :الله تعالى كا منزہ ہونا ۷;اللہ تعالى كى تدبير كا طريقہ ۷

انتظام كرنا :انتظام كا طريقہ ۱۱;انتظام كى شرائط ۴

تخليق :تخليق كا فلسفہ ۱۰

توحيد :توحيد ربوبى ۶

حق :حق كى ولايت كيلئے ركاوٹيں ۸

خالق :خالق كا كردار ۴

خالقيت :خالقيت ميں توحيد ۶

زمين:زمين كى خلقت ۱

شرك:ربوبيت ميں شرك كى رد۷

شيطان :شيطان كا كردار۱;شيطان كا گمراہ كرنا ۹; شيطان كى تدبير كو ر د كرنے كے دلائل ۳; شيطان كى خصوصيات ۹;شيطان كى خلقت ۱; شيطان كى ولايت كو رد كرنے كے دلائل ۳; شيطان كے كافى نہ ہونے كى نشانياں ۳

علم :علم كے آثار ۲

عمل :ناپسنديدہ عمل ۱۱

كمال :كمال كى اہميت ۱۰

مدد طلب كرنا :گمراہ كرنے والوں سے مدد طلب كرنا ۷،۱۱; گمراہوں سے مدد طلب كرنا ۸،۱۱

مشركين :مشركين كا ربوبيت ميں شرك كرنا ۵; مشركين كا عقيدہ ۵

منتظم :

۴۵۰

بہترين منتظم ۴

نظريہ كائنات :توحيدى نظريہ كائنات۶

ولايت :ولايت كى شرائط ۲;ولايت ميں علم ۲

ہدايت :ہدايت كى اہميت ۱۰

آیت ۵۲

( وَيَوْمَ يَقُولُ نَادُوا شُرَكَائِيَ الَّذِينَ زَعَمْتُمْ فَدَعَوْهُمْ فَلَمْ يَسْتَجِيبُوا لَهُمْ وَجَعَلْنَا بَيْنَهُم مَّوْبِقاً )

اور اس دن خدا كہے گا كہ ميرے ان شريكوں كو بلاؤجن كى شركت كا تمھيں خيال تھا اور وہ پكاريں گے ليكن وہ لوگ جواب بھى نہيں ديں گے اور ہم نے توان كے درميان ہلاكت كى منزل قرار ديدى ہے (۵۲)

۱_اللہ تعالي، روز قيامت مشركين كو ايك مو قع دے گا تا كہ اپنے خيالى و خود ساختہ معبو دوں سے مد د مانگيں _

نادوا شركاءى الذين زعتم

۲_ مشركين قيامت كے دن اس خيال سے كہ انكے معبود انكى مد د پر قادر ہيں جلد ہى ان سے مدد مانگيں گے _و يوم يقول نادوا فدعوهم ( فدعوہم) ميں ''فاء تعقيب'' كام كے بغير وفقہ كے ہو نے پر دلالت كررہى ہے اور قيامت والے كام ميں فعل ماضى كا استعمال بتاتاہے كہ موقع ملتے ہى مشركين مدد مانگ ليں گے _

۳_مشركين كے خيالى معبود اور شريك خدا، قيامت كے دن انہيں مدد كے حوالے سے كوئي بھى جواب نہيں ديں گے _

فدعوهم فلم يستجيبوا لهم

۴_مشركين كا اپنے معبودوں سے مدد مانگنے كا بے ثمر ہونا، الله تعالى كى طرف سے مشركين اور شيطان كى ولايت قبول كرنے والوں كيلئے تنبيہ ہے _و يوم يقول نادوا شركاءي فلم يستجيبوالهم

۵_ مشركين كے روزقيامت، اپنے معبودوں سے مدد

۴۵۱

مانگنے كے نتيجہ كا نہ نكلنا ايك ياد ركھنے والا منظر ہے _ويوم يقول نادوا شركاء ى وفلم يسّجيبوالهم

(يوم )فعل مقدّر ( إذكروا ) كيلئے مفعول ہے يعنى اس دن كو ياد كرو كہ

۶_ روزقيامت، مشركين، اپنے خيال معبودوں سے جدا اور دور ہونگے _و يوم يقول نادوا شركاءي

( ندا ) سے مراد آواز كو بلند كرنا اور آگے بڑھ كر بولنا ہے ( مفردات راغب ) ( فعل نادوا ) بتارہاہے_ كو مشركين اور انكے معبودوں كے درميان كافى فاصلہ ہوگا _

۷_ مشركين، روزقيامت بھى اپنے معبودوں سے اميد لگائے ہونگے _فدعوهم

۸_كائنات كے آغاز سے اختتام تك غير خدا، ہر كردار اور قدرت سے فاقد ہے _

ما أشهد تّهم خلق السموات والارض ويوم يقول نادوا فدعوهم فلم يستجيبوالهم

۹_ روزقيامت مشركين كے معبودوں كا كسى كام نہ آنا اورشرك كا باطل ہونا واضح ہوجا ئيگا _فدعو هم فلم يستجيبوالهم

۱۰_شرك، ہر قسم كى حقيقى بنياد اور اساس سے خالى اور صرف گمان پر قائم ہے _شركاءى الذين زعمتم

۱۱_ مشركين كے معبودوں كے درميان، با شعور موجودات بھى ہيں _شركاءى الذين زعمتم فدعوهم

(الذين ) اور ضمير'' ہم'' جو كہ ذوى العقول كيلئے ہے كى طرف توجہ كرتے ہوئے يہ معلوم ہوتاہے كہ مشركين كے معبود، صرف بت اور شعور سے محروم ديگر موجودات نہيں ہيں بلكہ بعض با شعور موجودات مثلا فرشتے اور جن، و غيرہ بھى ہيں _

۱۲_اللہ تعالي، روزقيامت مشركين اور انكے معبودوں كے درميان ہلاك كرنے والى ايك وادى قرار دے گا اور انكے درميان ہر قسم كا رابطہ نا ممكن ہوگا_و جعلنا بينهم مو بق

(وبوق) سے مراد ہلاك ہونا ہے اور'' موبق '' اسم مكان ہے يعنى ہلاكت والا مكان اور جگہ _

۱۳_شياطين اور مشركين كے دوسرے جھوٹے خدا، روزقيامت موجودہونگے _نادوا شركاء ى وجعلنا بينهم موبقا

گذشتہآيات كے قرينہ سے معلوم ہوتا ہے كہ شركاء سے مراد ابليس اور اسكى نسل ہے_

الله تعالى :الله تعالى كى مہلتيں ۱;اللہ تعالى كے ڈراوے ۴; الله تعالى كے مختصّات ۵

باطل معبود:

۴۵۲

باطل معبودوں كا شعور ۱۱;باطل معبودوں كا عجز ۳،۹; قيامت ميں باطل معبود ۶،۹،۱۲،۱۳

تخليق :تخليق كا آغاز ۸; تخليق كا انجام ۸

توحيد:توحيد افعالى ۸

ذكر :مشركين كے مدد گار نہ ہونے كا ذكر ۵

شرك:شرك كا باطل ہونا ۹;شرك كا فضول ہونا ۱۰

شيطان :شيطان كے پير كاروں كو خبردار ۴;قيامت ميں شيطان ۱۳

عجز :غير خدا كا عجز ۸

عقيدہ :باطل عقيدہ ۱۰

قيامت :قيامت ميں حقائق كا ظاہر ہونا ۹;قيامت ميں روابط كا ٹوٹنا ۱۲;قيامت ميں مدد مانگنا۱،۲; قيامت ميں ہلاكت ميں ڈالنے والى وادى ۱۲

مدد مانگنا :باطل معبودوں سے مدد مانگنا ۱;۲;۷; باطل معبودوں سے مد د مانگنے كا بے اثر ہونا ۴،۵

مشركين :مشركين كى آخرت ميں مدد طلبى كا رد ہونا ۳; مشركين اور باطل معبود ۶،۷،۱۲ ;مشركين كا باطل عقيدہ۲;مشركين كے محدود۷;مشركين كا لاوارث ہونا ۳;مشركين كاقيامت ميں آ نا ۱، ۳، ۵، ۶، ۷، ۱۲ ; مشركين كا مدد مانگنا۲; مشركين كو خبردار ۴; مشركين كو مہلت دينا۱; مشركين كى آخرت ميں جلدى ۲

آیت ۵۳

( وَرَأَى الْمُجْرِمُونَ النَّارَ فَظَنُّوا أَنَّهُم مُّوَاقِعُوهَا وَلَمْ يَجِدُوا عَنْهَا مَصْرِفاً )

اور مجرمين جب جہنم كى آگ كو ديكھيں گے تو انھيں يہ خيال پيدا ہوگا كہ وہ اس ميں جھونكے جانے والے ہيں اور اس وقت اس آگ سے بچنے كى كوئي راہ نہ پاسكيں گے (۵۳)

۱_ روزقيامت گناہ گار لوگ جہنم كى آگ كے شعلوں كو ديكھ رہے ہونگے _

ورء ا المجرمون النار

۲_ وہ ہلاكت ميں ڈالنے والى جگہ جوكہ مشركين اور انكے خيالى معبودوں كے درميان فاصلہ قرار پائے گي، جہنم كى آگ ہے _

وجعلنا بينهم موبقا_ وراء المجرمون النار

۴۵۳

۳_گنا ہ گا ر لو گ، روز قيامت اپنے جہنمى ہونے اور اس سے فرار نہ ہونے كو سمجھ جائيں گے _

فظنوا أنّهم مو اقعوها ولم يجدوا عنها مصرفا

فعل ( ظنّ) كے ساتھ گنا ہ گاروں كے جہنم ميں داخل ہونے كا بيان، يہ بتا تا ہے كہ اس حالت ميں اپنے آپ كو جہنمى سمجھيں گے ليكن ابھى كچھ اميد چاہے بلا وجہ ہى كيوں نہ ہو نجات كے بارے ميں ركھيں گے ليكن پھر جلد ہى سمجھ جائيں گے كہ اس سے راہ فرارنہيں ہے (مصرفا) اسم مكان ہے اس سے مرا د ايسا مكان كہ جہاں وہ لائيں جائيں گے جملہ ( لم يجدوا) يعنى ايسى جگہ كہ جہاں پناہ لينے كے ليے وہ جہنم كى آگ سے نجات پا جائيں وہ ڈھونڈ نہ پائيں گے_

۴_شرك، ايك جرم اور گناہ ہے كہ جس كا نتيجہ جہنم كى آگ ہے _نادوا شركاء ى ورء ا المجرمون النار فظنّوا ا نّهم مواقعوه

گذشتہ آيت كے قرينہ سے اس آيت ميں جرم كا واضح ترين مصداق ،شرك ہے _

۵_مشركين، روزقيامت جہنم كى آگ سے اپنى نجات كے درپے ہونگے _فد عوهم فلم يستجيوا لهم ...ولم يجدوا عنها مصرفا

گذشتہآيت ميں بيان ہو اہے كہ مشركين اپنے خيالى معبودوں كو بلاكر اپنى نجات كى كوشش كريں گے اور يہ آيت، انكى كوشش كى نا كامى كى خبر دے رہى ہے _

۶_مشركين ،روزقيامت آگ سے نجا ت پانے كيلئے كوئي راہ نہ پائيں گے _فظنّوا أنّهم مواقعوها ولم يجدوا عنها مصرف

لقظ ( مواقعہ ) جنگ كے بارے ميں استعمال ہوتا ہے ( مفردات راغب ) آيت كا مطلب يہ ہے كہ مشركين اپنے آپ كو آگ سے بچانے كيلئے كوشش كريں گے ليكن بچنے كى كوئي راہ نہيں پائيں گے _

باطل معبود :قيامت باطل معبود۲

جہنم:جہنم سے نجات۳،۵،۶;جہنمي۳;جہنم كى آگ ۱; جہنم كى آگ كا كردار ۲;جہنم كے اسباب ۴

شرك :شرك كا گناہ ۴;شرك كے آثار ۴

قيامت :قيامت ميں جہنم كا ديكھا جانا ۱;قيامت ميں ہلاكت ميں ڈالنے والى وادي۲

گناہ :

۴۵۴

گناہ كے موارد ۴

گناہ گار :قيامت ميں گناہ گار ۱،۳

مشركين :قيامت ميں مشركين ۲،۵; مشركين اور باطل معبود ۲;مشركين كا اخروى عجز ۶

آیت ۵۴

( وَلَقَدْ صَرَّفْنَا فِي هَذَا القرآن لِلنَّاسِ مِن كُلِّ مَثَلٍ وَكَانَ الْإِنسَانُ أَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلاً )

اور ہم نے اس قرآن ميں لوگوں كے لئے سارى مثاليں الٹ پلٹ كر بيان كردى ہيں اور انسان تو سب سے زيادہ جھگڑا كرنے والا ہے (۵۴)

۱_اللہ تعالى نے قران ميں انسان كى ہدايت كيلئے مختلف اندا زاور بہت سى مثالوں اور نمونوں كو بيان كيا ہے_

ولقد صرّفنا فى هذالقرآن للناس من كل مثلا

( صرّفنا ) ''بيّنا'' كے معنى ميں ہے يعنى ''ہم نے بيان كيا'' ( لسان العرب ) ليكن اس حوالے سے كہ باب تفعيل كثرت بيان ...،كرنے كيلئے ہے يہاں بہت سے بيان مراد ہيں اور كيونكہ كلمہ (صرّفنا )كى اساس، تصريف اور ايك حالت سے دوسرى حالت ميں تغيير ہے اس سے ثابت ہوتا ہے كہ يہ بيانات مختلف اور متعدد ہيں _

۲_مثال اور نمونہ كو لانا، قران كے بيان كے اندا ز ميں سے ہے نيز تبليغ اور حقائق كو بيان كرنے كيلئے مناسب روشوں ميں سے ہے _ولقد صرّفنا فى هذالقرآن للناس من كلّ مثلا

( مثل )كيلئے بہت سے معانى ہيں مثلا (شبيہ نظير) اور حديث ( نئي بات )'' ضرب المثل'' اور'' صفت ''تو گذشتہ آيات ميں قرينہ (واضرب لہم مثلاً رجلين )كى مناسبت سے اس آيت ميں اس سے مقصود، شبيہ اور نظير ہے_

۳_قران كى ہدايت والى مثالوں اور نمونوں ميں سے مغرور آسائش پسند كى كہانى ،ابليس كى سركشى اور روزقيامت مشركين كے اپنے معبودوں سے مدد مانگنے كا نتيجہ كا نہ نكلنا شامل ہيں _واضرب لهم مثلا رجلين ولقد صرفنا

فى هذا القرآن للناس من كل مثلا

يہ آيت گويا پيچھے گذرنے والى آيات بتيس سے باون تك ہر ايك پر كلى نگاہ ڈال رہى ہے _

۴_قرانى ہدايت، جامع اور تمام جھات كو شامل ہے _فى هذالقرآن للناس من كل مثلا

۴۵۵

كلمة (النّاس ) بتارہاہے كہ قرانى معارف كسى خاص گروہ سے خاص نہيں ہيں اور جملہ ( من كلّ مثل ) بتارہا ہے كو ہدايت كے حوالے ہر قسم كى مثال سے فائدہ اٹھايا گيا ہے _

۵_قران ايك عواميكتاب ہے لھذا ہر ايك كيلئے قابل فہم اور عمل ہے _ولقد صرّفنا فى هذا القرآن للناس من كل مثلا

( للناس ) ميں (لام ) انتفاع كيلئے ہے يعنى ہم نے لوگوں كے فائدہ كى خاطر قران ميں بہت سى مثالوں كو بيان كيا ہے _

۶_انسان، كائنات ميں سب سے زيادہ مجادلہ كرنے والا موجود ہے_و كان الإنسان أكثر شيء جدلا

(جدل) يعنى لڑائي كے انداز ميں گفتگو اور اپنى برترى چاہنا ( مفردات راغب ) البتہ غالب طورپر اس مقام كو جدال كہا جاتاہے جہاں گفتگو كا محور، باطل اور بے اساس باتيں ہوں _

۷_انسان ايك بحث كرنے والى اور حق كو قبول كرنے كيلئے مختلف دلائل او ر بيانات كا مشاہد ہ كرنے كى محتاج، مخلو ق ہے _ولقد صرّفنا فى هذا القرآن للناس من كل مثل و كان الإنسان أكثر شى جدلا

قران كے اندرمختلف مثاليں اوربيانات كے اشارہ كے بعد، انسان كے مجادلہ كرنے كا ذكر اس نكتہ كى طرف اشارہ كررہاہے كہ اس مخلوق كيلئے بہت سى باتيں كى جائيں اور مختلف انداز اختيار كيے جائيں تا كہ وہ قانع ہوجائے اورہدايت كى راہ پر ا س كى راہنمائي ہو _

۸_قران ميں متعدد مثالوں اورنمونوں كو پيش كرنے كا فلسفہ،انسان كى مجادلہ كرنے والى روح كو قانع كرنا اوراسے راہ حق پر رام كرنا ہے _ولقد صرّفنا فى هذالقرآن و كان الإنسان أكثرشي جدلا

۹_قرآن مجيد كى واضع اور روشن آيات كے مقابلے ميں جدل و اشكال تراشى ايك مذمومفعل ہے_

ولقد صرّفنا فى هذا القرآن ...وكان الإنسان أكثر شي جدلا

كلمہ (جدل) كے استعمال كے موارداس بات پر گواہ ہيں كہ اہلجدل نے اكثر اوقات باطل مطالب سے تمسك كيا ہے تا كہ كسى بھى طرح سے حق كے ساتھ مقابلہ كريں تو يہاں آيت كا مقصود جدل كى يہى مذموم قسم مراد ہے يعنى كفاركے قرانى آيات كے در مقابلعمل كى مذمت كى جارہى ہے_

انسان :انسان كا مجادلہ كرنا ۶،۷،۸;انسان كى صفات۶،۷

۴۵۶

تبليغ :تبليغ كى روش۲

حق :حق قبول كرنے كا پيش خيمہ ۷

حقائق :حقائق كو وضاحت كرنے كى روش۲

قرآن :قرآن سے فائدہ اٹھانا ۵;قرآن كا جامع ہونا ۴;قرآن كا سارے جہان كو شامل ہونا ۵;قرآن كا واضح ہونا ۵; قرآن كا ہدايت دينا۳;قرآن كى خصوصيات ۵; قرآن كى فہم ۵;قرآن كى مثاليں ۳; قرآن كے بيان كى روش ۲;قرآن ميں مجادلہ ۹;قرآنى بيان ميں تنوع ۱;قرآنى مثالوں كا فلسفہ ۸;قرآنى مثالوں كے فوائد ۱;۲;قرآنى ہدايتوں كى خصوصيات ۴

مجادلہ :مجادلہ پر سرزنش ۹

مدد مانگنا :باطل معبودوں سے مدد مانگنے كا بے اثر ہونا۳

مشركين :مشركين كا آخرت ميں مدد مانگنے كاہونا۳

مغرور باغ والا:مغرورباغ والے كاقصہ۳

ہدايت:ہدايت كى روش ۱

آیت ۵۵

( وَمَا مَنَعَ النَّاسَ أَن يُؤْمِنُوا إِذْ جَاءهُمُ الْهُدَى وَيَسْتَغْفِرُوا رَبَّهُمْ إِلَّا أَن تَأْتِيَهُمْ سُنَّةُ الْأَوَّلِينَ أَوْ يَأْتِيَهُمُ الْعَذَابُ قُبُلاً )

اور لوگوں كے لئے ہدايت كے آجانے كے بعد كون سى شے مانع ہوگئي ہے كہ يہ ايمان نہ لائيں اور اپنے پرودرگار سے استغفار نہ كريں مگر يہ كہ ان تك بھى اگلے لوگوں كا طريقہ آجائے يا ان كے سامنے سے بھى عذاب آجائے (۵۵)

۱_ الله تعالى نے لوگوں كے قرآن پر ايمان لانے اور انكے سابقہ كردار كے حوالے سے انكى بخشش چاہنے ميں ہدايت كى تمام ركاوٹيں ختم كردى ہيں _وما منع الناس ا ن يُومنوا إذجا ء هم الهدى ويستغفروربّهم

۲_لوگوں كا قران پر ايمان لانے اور بارگاہ الہى ميں استغفار كرنے سے پرہيزان كاالہى عذاب كے انتظار ميں بيٹھنے كے مترادف ہے _وما منع الناس أن يؤمنوإلّإن تا تيهم سنّة الأوّلين

۴۵۷

(ان يؤمنوا ) اصل ميں (من ا ن يؤمنوا ) تھا او ر (أن تا تيہم ) (منع ) كيلئے فاعل ہے ليكن يہ كہ معنى كا نظم و ضبط ايسے كلمہ سے وابستہ ہے كہ جو ''إلّا '' كے بعد مقدر ہے تو كہا جائيگا كہ (ان تا تيہم ) حقيقت ميں (انتظارأن تا تيہم) كے مقدر ہونے ميں ہے _يعنى (ما منع الناس من أن يؤمنوا الاّ انتظار أن تا تيهم ) مطلب يہ ہے كہ ان لوگوں كى حالت اس شخص كى حالت كى مانند ہے كہ جو عذاب كے انتظار ميں بيٹھا ہو و رنہ انكے ايمان ميں كوئي اور مانع نہيں ہے_

۳_ الله تعالى كى ہدايت كا مشاہدہ كرنے كے باوجود لوگوں كا ايمان كى طرف ميلان نہ ہونا ايك حيرت انگيز اور الله تعالى كے نزديك مذموم چيز تھي_وما منع الناس ا ن يُو منوا إذجاء هم الهدى

۴_الہى فرامين پر ايمان لانے كے بعد گذشتہ كردار سے مغفرت كى طلب كا واجب ہونا_

وما منع الناس أن يُو منوا إذ جاء هم الهدى و يستغفروا ربّهم

۵_ الہى فرامين پر يقين نہ ركھنا اور لغزشوں پر مغفرت طلب نہ كرنا، الہى عذاب كا باعث ہے_

و ما منع الناس أن يؤمنوا و يستغفروا ربّهم الاّ أن تا تيهم سنة الاوّلين

۶_ قران،سراپا ہدايت كتاب ہے_و لقد صرّفنا فى هذا القرآن و ما منع الناس أن يؤمنوا إذ جاء هم الهدى

گذشتہآيت كے قرينہ كى مدد سے ہدايت كا واضح ترينمصداق قرآن ہے ( الھدى ) مصدر كا ايسى چيزپر اطلاق كہ جو ہدايت دينے والى ہے در اصل اسكے ہدايت دينے ميں مبالغہ كو بيان كرنا ہے_

۷_ايمان اور استغفار، ہدايت پانے والوں كى نشانيوں ميں سے ہيں _أن يؤمنوا إذ جاء هم الهدى و يستغفروا ربّهم

۸_ ايمان اور استغفار، الہى عقاب و عذاب كے نازل ہونے سے مانع ہيں _

وما منع الناس أن يؤمنوا إذجاء هم الهدى و يستغفروا ربّهم إلّا أن تا تيهم سنتّه الاوّلين

۹_ الہى ہدايت سے محرم لوگ، گمراہ او رگناہوں ميں مبتلا ہيں _إذ جاء هم الهدى ويسغفروا ربّهم

خداوند عالم يہ جو فرمارہا ہے كہ لوگ كيوں ہدايت كے آنےكے با وجود مغفرت طلب نہيں كرتے؟ يہ چيز بتارہى ہے كہ ہدايت كے آنے سے پہلے وہ خواہ ناخواہ انحرا ف اور گناہ ميں مبتلا ء تھے _

۱۰_پروردگار كى بارگاہ ميں استغفار، ايمان كى علامتوں ميں سے ہے _أن يؤمنوا إذجاء هم الهدى و يستغفرواربّهم

۱۱_اللہ تعالى كى پروردگارى اور ربوبيت كا تقاضا ہے كہ انسان اسكى بارگاہ ميں بخشش چاہنے كيلئے التجاء كرے _

ويستغفروا ربّهم

۴۵۸

۱۲_انسان كا ہدايت كے مشاہدہ اور شناخت كے باوجود ايمان سے انكار، اسكے جدال پسند جذ بات كى عكاسى ہے _

و كان الإنسان أكثر شي جدلاً و مامنع الناس أن يُو منوا إذجاء هم الهدي

۱۳_ گذشتہ تاريخ، ايمان سے رو گردانى كرنے اور استغفار سے گريز كرنے والے لوگوں پر شاہدہے _إلّا أن تا تيهم سنة الاولين يہكہ عذاب كو پہلے والوں كيلئےالہى طريقہ كاربتارہى ہے يہ پچھلى امتوں كے فروان لوگوں كى طرف اشارہ كررہى ہے كہ وہ بعثت كے زمانہ كے كفار اور مشركين كى مانند عمل كيا كرتے تھے اور انہيں عذاب ديا گيا _

۱۴_اللہ تعالى نے اپنے سنت كى بناء پر گذشتہ زمانوں كے كفار كو جو ايمان اور استغفا ر سے رو گردان تھے، ہلاكت ميں ڈالا _

إلّا ان تا تيهم سنّة الاولّين

۱۵_حق كے منكرين كو سزا دينا، الله تعالى كى پرانى سنت ہے _و ما منع الناس أن يُومنوا إلّا أن تا تيهم سنّة الاوّلين

(سنتّہ) كا اولين كى طرف مضاف ہونا مصدر كا مفعول كى طرف مضاف ہونا ہے اوريہاں گذشتہ لوگوں كے بارے ميں سنت خدا، مراد ہے _

۱۶_كفر اختيار كرنے والوں كے ہلاك ہونے كى تاريخ اور الله تعالى كى جارى سنت كى طرف توجہ ، الہى فرامين پر ايمان لانے اور گناہوں سے معافى مانگنے كا باعث ہے _وما مَنَعَ الناس ان يؤمنوا ويستغفروا ربّهم ألّا أن تا تيهم سنّة الاوّلين

۱۷_قران كے منكرين كا عذاب، ممكن ہے گذشتہ لوگوں كے عذاب سے مختلف اقسام كے ساتھ ہو _

أن تا تيهم سنة الاولين أويا تيهم العذاب قبل اگر ( قبلاً)'' قبيل'' كى جمع ہو تو مختلف اقسام اور انواع كا معنى مرادہے توآيت كى تفسير يوں ہوگى كہ لازمى نہيں ہے ان كفار كا عذاب ، گذشتہ لوگوں كے عذاب كى مانند ہو بلكہ ممكن ہے كہ وہ اور اقسام كے عذاب ميں مبتلا ء ہوں _

۱۸_ قران كے كافر،بے خبرى ميں آنے والے عذاب يا سامنے سے واضح طورپر آنے والے عذاب كے خطر ے ميں ہيں _

أن تا تيهم سنة الاوّلين أويا تيهم العذاب قبل

اگر ( قُبُلا) مفر د ہو تو اسكا معنى ''ديكھا گيا ہے'' اور'' سامنے سے ہے'' تواس صورت ميں آيت كا مطلب يہ ہے_ كہ كفار پر (قُبُلا) كے مقابل كے

۴۵۹

قرينہ كى بدولت ہوسكتا ہے گذشتہ لوگوں كى مانند بے خبرى ميں عذاب آئے ياممكن ہے كہ واضح طو ر پر انكى نگاہوں كے سامنے ان پر عذاب آئے _

۱۹_حجت تمام ہونے كے بعد گذشتہ كفارپر عذاب نازل ہوتا رہا ہے_

وما منع الناس أن يؤمنوا إذجاء هم الهدى ...أويا تيهم العذاب قبل

اتما م حجت :اتمام حجت كا كردار۱۹

استغفار :استغفاركا پيش خيمہ ۱،۱۱،۱۶;استغفار كو ترك كرنے والوں كى ہلاكت ۱۴;استغفار كو ترك كرنے والے ۱۳;استغفار كو ترك كرنے كے آثار ۲،۵،۱۴;استغفار كى اہميت ۴;استغفار كے آثار۸،۱۰

الله تعالى :الله تعالى كى ربوبيت كے آثار ۱۱;اللہ تعالى كى سرزنشيں ۳;اللہ تعالى كى سنتيں ۱۴،۱۵; الله تعالى كى طرف التجاء كا باعث ۱۱;اللہ تعالى كى ہدايت ۱،۳

الله تعالى كى سنتيں :عذاب دينے كى سنت ۸

انسان :انسان كے مجادلہ كرنے كى علامتيں ۲

ايمان:الہى تعليمات پر ايمان ۴; الله تعالى كى ہدايتوں پرايمان كا باعث ۱۶;ايمان سے دورى پر تعجب ۳; ايمان سے دورى پر سرزنش ۳;ايمان سے دورى كے آثار ۲;۵;۱۲;ايمان كى ر كادٹوں كا دور ہونا ۱; ايمان كى علامات۱۰;ايمان كے آثار۸ ; بے ايمانى كے آثار ۱۴;قران پر ايمان كا باعث ۱

پہلى امتيں :پہلى امتوں كا عذاب ۱۷;پہلى امتوں كى تاريخ ۱۳

حق :حق قبول نہ كرنے والوں كى سزا كا يقينى ہونا ۱۵

ذكر :تاريخ كے ذكر كرنے كے آثار ۱۶; كفار كى ہلاكت كے ذكر كے آثار ۱۶

سزا :سزاكے موانع ۸

عذاب :عذاب كا باعث ۲;عذاب كے اسباب ۵; عذا كے موانع ۸;ناگھانى عذاب ۱۸;واضح عذاب ۱۸

قران:قران جھٹلانے والوں كا عذاب ۱۸; قران جھٹلا نے والوں كے عذاب كا مختلف ہونا ۱۷; قران كى خصوصيات ۶; قران كا ہدايت دينا ۶; قران سے دورى كے آثار ۲

كفار :تاريخ ميں كفار ۱۳;كفار پر اتمام حجت ۱۹; كفار كا عذاب ۱۹; كفا ر كا ہلاك ہونا ۱۴; كفار كى گمراہى ۹; كفار كى لغزش ۹

۴۶۰

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809

810

811

812

813

814

815

816

817

818

819

820

821

822

823

824

825

826

827

828

829

830

831

832

833

834

835

836

837

838

839

840

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863

864

865

866

867

868

869

870

871

872

873

874

875

876

877

878

879

880

881

882

883

884

885

886

887

888

889

890

891

892

893

894

895

896

897

898

899

900

901

902

903

904

905

906

907

908

909

910

911

912

913

914

915

916

917

918

919

920

921

922

923

924

925

926

927

928

929

930

931

932

933

934

935

936

937

938

939

940

941

942

943

944

945