تفسير راہنما جلد ۱۰

تفسير راہنما 6%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 945

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 945 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 247250 / ڈاؤنلوڈ: 3404
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱۰

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

امیر المؤمنین علیہ السلام نے سفید اون سے بنی ہوئی ایک تھیلی نکالی اور اسے دے دی اور اس سے فرمایا:یہ تمہارا حق ہے۔

پیغمبر اکرم(ص) نے اس شخص سے فرمایا:یہ لے لو اور میرے فرزندوں میں سے جو بھی تمہارے پاس آئے اور تم سے کوئی چیز مانگے تو اسے دے دو ۔اب تمہارا فقر باقی نہیں رہے گا اور کبھی محتاج نہیں ہو گے۔

 اس شخص نے کہا:جب میں بیدار ہوا تو پیسوں کی وہی تھیلی میرے ہاتھ میں تھی ۔میںنے اپنی بیوی کو جگایا اور اس سے کہا:چراغ جلاؤ۔اس نے چراغ جلایا۔میںنے وہ تھیلی کھولی اورجب میں نے ان پیسوں کو گناتومیں نے دیکھا کہ اس تھیلی میں ہزار اشرفیاں ہیں۔

میری بیوی نے مجھ سے کہا:خدا سے ڈرو!خدانخواستہ کہیں تم نے فقر کی وجہ سے لوگوں کو دھوکا دہینا تو شروع نہیں کردیا اور کسی تاجر کو دھوکا دے کر اس کا مال تو نہیں لے آئے؟

میںنے اس سے کہا:نہیں خدا کی قسم !ایسا نہیں ہے اور پھر میںنے اس سے اپنے خواب کاواقعہ بیان کیا۔پھر میں نے اپنے حساب کی کاپی کھول کر دیکھی تو میںنے اس میں دیکھا کہ امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام کے حساب میں ہزار اشرفی لکھی ہوئی ہے نہ اس سے کم  اور نہ ہی زیادہ۔(1)

اسی مناسبت سے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے ایک بہت بہترین روایت ذکر کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:

''مَنْ أَعٰانَ فَقِیْرَنٰا،کٰانَ مُکٰافٰاتُهُ عَلٰی جَدِّنٰا مُحَمَّد '' (2)

جو کوئی ہم میں سے کسی فقیر کی مدد کرے اس کا اجر ہمارے جدّ محمد(ص) پر ہے۔

وہ کوفی شخص خاندان پیغمبر علیھم السلام سے سچی محبت کرتا تھا اور آنحضرت (ص) کے حکم سے اسے اس کا دنیاوی اجر مل گیا۔

--------------

[1]۔ فوائد الرضویہ:311

[2]۔ بحار الانوار:ج۱۰۰ص۱۲۴

۲۰۱

 جھوٹی محبتیں

کچھ لوگ خاندان وحی ونبوت علیھم السلام سے محبت و دوستی کا اظہار کرتے ہیں اور اس بارے میں خود کو اتنا سچا پیش کرتے ہیں کہ اس میں جھوٹ کا شائہ تک نہیں پایا جاتا۔اور ان کا وجود محبت اہلبیت علیھم السلام سے سرشار ہے؛ لیکن جب ہم ان کے رفتار و کردار کے بارے میںسوچتے ہیں اور ان کے کردار کی خاندان  نبوت ورسالت علیھم السلام کے دستورات سیملاتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کا اہلبیت علیھم السلام سے دوستی و محبت کا اظہار خالصانہ اور سچانہیں ہے۔

بہت سے لوگ خود کو امام زمانہ عجل  اللہ فرجہ الشریف کا عاشق اور جاںنثار سمجھتے ہیں لیکن عملاً ان کا سہم (یعنی خمس ،جوکہ ان کے اپنے لئے خدا کی نعمتوں  کے نزول کاذریعہ ہے) ان کی آل کو ادا کرنے سے اجتناب کرتے ہیں!

جو شخص امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف مقدس اہداف کی راہ میں مال خرچ کرنے سے گریز کرے کیاوہ امام کے ظہور کے زمانے میں آپ پر اپنی جان نثار کرسکتا ہے؟

لیکن کیا حضرت امام زمانہ  عجل اللہ فرجہ الشریف نے اپنی توقیع میں یہ نہیں فرمایا:

''لَعْنَةُ اللّٰهِ وَ الْمَلاٰئِکَةِ وَالنّٰاسِ أَجْمَعِیْنَ لِیْ مَنِ اسْتَحَلَّ مِنْ أَمْوٰالِنٰا دِرْهَماً'' (1)

اس شخص پر خدا،ملائکہ اور تمام لوگوں کی لعنت ہو جو ہمارے مال میں سے ایک درہم کو بھی اپنے لئے حلال جانے۔

--------------

[1]۔ بحار الانوار:ج۵۳ص۱۸۳، کمال الدین: ج۲ص۲۰۱، الصحیفة المبارکة المہدیة:282

۲۰۲

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے اہلبیت علیھم السلام سے محبت کا دعویٰ کرنے والوں کے بارے میں جابر سے فرمایا:

''یٰا جٰابِرُ، أَ یَکْتَفِْ مَنْ یَنْتَحِلُ التَّشَیُّعَ أَنْ یَقُوْلَ بِحُبِّنٰا أَهْلِ الْبَیْتِ ؟فَوَاللّٰهِ مٰا شِیْعَتُنٰا اِلاّٰ مَنِ اتَّقَی اللّٰهَ وَ أَطٰاعَهُ''(2)

اے جابر!کیا خود کو شیعہ کے طور پر دکھانا کافی ہے اور کہے کہ میں اہلبیت علیھم السلام سے محبت کرتا ہوں ۔خدا کی قسم !ہمارا شیعہ وہی ہے جو تقویٰ الٰہی رکھتا ہو اور اس کی اطاعت کرتا ہو۔

اس فرمان سے یوں استفادہ ہوتا ہے کہ:جو کوئی با تقویٰ نہیں اور خداکا مطیع نہیںاسے صرف محبت کے اظہار پر ہی اکتفا نہیں کرنا چاہئے۔

--------------

[2]۔ بحار الانوار:ج۷۰ص۹۷

۲۰۳

 نتیجۂ بحث

 محبت آپ کے دردو غم کے لئے اکسیر ہے ۔محبت کی کشش و جاذبہ انسان کو اس کے محبوب کی طرف کھینچتی ہے اور اس کے صفات و حالات محب میں ایجاد کرتی ہے اور اسے تقویت دیتی ہے۔محبت جتنی زیادہ ہو ،محب میں محبوب کے روحانی حالات اتنے ہی زیادہ ہو جاتے ہیں کہ جس سے اسے  محبوب کا تقرب حاصل ہو جائے۔یہی مودت کا معنی ہیجوہر انسان کو خاندان وحی علیھم ا لسلام سے ہونی چاہئے۔کیونکہ اجر رسالت ، اہلبیت اطہار علیھم السلام کی محبت  ہے۔

اس بناء پر اہلبیت علیھم السلام سے محبت و مودت کے ذریعے اپنی روح کو پروان چڑھائیں اور اس خاندان کے آستانۂ ولایت سے تقرب حاصل کریں تا کہ آپ کا وجود ولایت کے تابناک انوار سے سرشار ہو جائے اور آپ کے وجود سے برائیاں پاک ہو جائیں۔

 ان ہستیوں کے تقرب کا لازمہ یہ ہے کہ ان کے احکامات کی پیروی کی جائے اور ان کے دشمنوں سے  برات اور دوری کی جائے۔

 یہ ہے سچی محبت جسے آپ اپنے اور اپنے نزدیکی افراد کے دل کی گہرائیوں میں ایجاد کریں۔

جمعی کہ دم از مھر و ارادت دارند

در بام شرف ،کوس سیادت دارند

چون دست بہ دامان سعادت زدہ اند

پا بر سر نام و ننگِ عادت زدہ اند

۲۰۴

آٹھواں  باب

انتظار

حضرت امیر المو منین  علی  علیہ  السلام  فرماتے ہیں :

''أَفْضَلُ عِبٰادَةِ الْمُؤْمِنِ اِنْتِظٰارُ فَرَجِ اللّٰهِ  ''

مومن کی سب سے افضل عبادت یہ ہے کہ وہ اللہ کی طرف سے (سختی اورغم سے)  نجات کے انتظار میں رہے۔

    انتظار کی اہمیت    انتظار کے عوامل    امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کے مقام و منزلت کی معرفت

    انتظار کے آثارسے واقفیت

    1۔ مایوسی اور ناامیدی سے کنارہ کشی

    2۔ روحانی تکامل

    مرحوم شیخ انصاری امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کے شریعت کدہ پر    کامیابیوں کی کلید اور محرومیوں کے اسباب

    3۔ مقام ولایت کی معرفت    4۔ مہدویت کے دعویداروں کی پہچان

    امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کے تکامل یافتہ منتظرین یا آپ کے عظیم اصحاب کی معرفت

    اصحاب با صفا کی طاقت و قدرت کا سر سری جائزہ

    ظہور کے زمانے کی معرفت

    1۔ باطنی تطہیر

    2 ۔ زمانۂ ظہور میں عقلوں کا کامل ہونا

    3 ۔ دنیا میں عظیم تبدیلی

    نتیجۂ بحث

۲۰۵

 انتظار کی اہمیت

انتظار ان با عظمت افراد کا خاصہ ہے جو کامیابی اور کامرانی کے راستے پر پوری طرح گامزن ہیں۔چونکہ غیبت کے دوران خاندان عصمت علیھم السلام کے دامن اطہر سے جاری عظیم شخصیتوں سے متعلق روایتیں نیز مستحکم اور مظبوط اقوال زریں ہو ئے ہیں ۔آنحضرت  کے ظہور کا انتظار کرنے والے ہر زمانے کے انسان سے افضل ہیں ۔

اسی لئے ایک گروہ انتظار کی  سختیوں کو دنیا میں کامیابی کی اہم کلید سمجھتا ہے ۔  ان کا عقیدہ یہ ہے کہ انسان انتظار کے اسباب اور اس کے کمال کی معرفت اور وسیلہ سے حقیقت کے بحر سے کامیابی کے جواہر حاصل کر سکتا ہے نیز سماجی مشکلوں اور مادی رکاوٹوں سے بھی نجات پا سکتا ہے ۔انتظار صحیح معنی میں دشوار گزار حالت ہوتی ہے گویا کہ اسرار کے بھنور نے اس کا احاطہ کر رکھا ہے اور بہت ہی کم لوگوں نے حسب دلخواہ اس کے کمال کی راہ نکالی ہے اور دشمن کی مکاریوں کی مخالفت کی ہے چونکہ انتظار اپنے آخری اور بلند ترین مرحلہ میں امام زمان  عجل اللہ فرجہ الشریف  کی ملکوتی حکومت میں آسمانی نظام کے رائج کرنے اور اس کی خدمت کرنے میں آمادگی اور مدد کے معنوں میں آتا ہے کہ جسے غیر عادی اور غیر معمولی قدرت کے ذریعہ حاصل کیا جاتا ہے اور ایسا انتظار امام زمانہ  عجل اللہ فرجہ الشریف کے خاص اصحاب میں موجود ہے ۔[1]

--------------

[1] ۔ ہ لوگ جو امام زمانہ کی یاد اور توسل کے ساتھ انتظار کے مراسم برپا کرتے ہیں ان کی تعداد بہت زیادہ ہے ۔ اس قسم کی مجالس و محافل الحمد للہ وسیع پیمانے پر منعقد ہو رہی ہیں اور ہماری مراد اس طرح کی مجالس کی نفی اور اس طرح کے افراد کے اندر حالت انتظار کی عدم موجودگی نہیں ہے ۔ کیونکہ انتظار میں درجات و مراتب پائے جاتے ہیں ۔ اور وہ افراد جو اس کے کمال اور عالی ترین مراتب تک پہنچے ہیں اگر چہ ان کی تعداد کم ہے لیکن انھیں افراد میں سے اٹھے ہیں ۔ اور سخت جاں فشانی اور جد و جہد اور سختیوں اور مشکلات کے تحمل کرنے کے ساتھ اس عظیم مقام کہ جس پر وہ فائز ہوئے ہیں کو حاصل کیا ہے ۔

۲۰۶

 انتظار جس مرحلے میں بھی ہو یہ عالم غیب سے غیبی مدد اور خدا سے تقرب کا راستہ  ہے  اور اگراس میں دوام ہو اوراگر یہ تکامل حاصل کرلے تو وقت گزر نے کے ساتھ ساتھ انسان کے وجود میں نفس اور ضمیر سے نا آگاہی کی وجہ سے پیدا ہونے والی کشیدگی اور کھنچائو کو نیست و نابود کر دیتا ہے اور  انسان کے باطن میںنور اور آشنائی کے دریچے کھول دیتاہے اور اسی طرح سے انسان کے لئے تکامل کی راہ کھول دیتاہے کیونکہ انتظار تمام تر ضروری اور لازم مدارج میں آمادگی کی حالت کو کہتے ہیں ۔

 باطنی توجہ کو دنیا سے خلوص ، حقیقت اور نورانیت کی طرف جذب کرتیہے ۔ وہ جہان جس  سے تمام تر شیطانی اور طاغوتی قوتیں اور طاقتیں نابود ہو جائیں اس دنیائے انسانیت کی جان میں انوار الٰہی کی چمک جگمگا اٹھتی ہے ۔

اس حقیقت کی  طرف غور کرنے کے بعد ہم کہتے ہیں کہ ایسا شخص ہی انتظار کے عظیم مراحل کو طے کر سکتا ہے کہ جو غیر معمولی طاقت اور قوت کا حامل ہو ۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ امام عصرعجل اللہ فرجہ الشریف  کی حکومت ایکغیر معمولی حکومت ہوگی جس کا درک کرنا ہماری ہمت ، طاقت اور سوچ سے کہیں بالا تر ہے ۔ اور سب کے لئے ضروری ہے کہ مدد گار افراد حضرت بقیة اللہ عجل اللہ فرجہ الشریف کے ارد گرد جمع ہو جائیں اور پہلی صف میں آپ کی مدد کریں تاکہ اللہ کے نیک لوگوں میں شمار ہوں اور آپ کے فرمان اور حکم کی اطاعت کرنے کی طاقت کو حاصل کریں جس کو حاصل کرنے کے لئے غیر عادی قدرت کا ہونا ضروری ہے ۔(1)

امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کے تین سو تیرہ ممتاز ساتھیوں کے اوصاف اور خواص کو بیان کرنے   والی روایات ان کے بارے میں روحانی اور غیر عادی طاقتوں کے موجود ہونے کا پتا دیتی ہیں یہاں تک کہ غیبت کے زمانے میں بھی ۔

--------------

[1] ۔ بے شمار روایت میں امام عصر  کی حکومت کے اندر غیر معمولی طاقتوں سے استفادہ کی تصریح کی گئی ہے ۔

۲۰۷

 انتظار کے عوامل

 ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم انتظار کے حقیقی معنی سے آشنائی حاصل کرنے کی کوشش کریں اور  اپنے اور دوسروں کے اندر بھییہ حالت پیدا کریں ۔

 حالت انتظار کو حاصل کرنے ، سیکھنے اور اسے دوسروں تک آگے پہنچانے کے لئے مختلف راستے موجود ہیں جن سے استفادہ کرتے ہوئے ہم معاشرے میں انتظار کی حالت پیدا کر سکتے ہیں اور ان کے وجود کی گہرائیوں میں انتظار کے بیچ کوبا ثمر بنا سکتے ہیں اور درج ذیل بعض مہم ترین راہوں کے ذریعہ سے معاشرہ ، مسئلہ انتظار کی طرف مائل ہو سکتا ہے ۔

 1۔ ولایت کے عظیم مقام سے آشنائی اور عظمت امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کی شناخت ۔

2 ۔ انتظار کے حیران کن آثار کے ساتھ اس کے صحیح اور کامل معنی اور اس کے عظیم مراحل سے  آشنائی ۔

3۔ امام عصر کے اصحاب کے اوصاف و خصوصیات سے آشنائی جو انتظار کے عالی ترین مرتبہ تک پہنچے اور عظیم روحانی قوت سے ہمکنار ہوئے جو امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف  کے فرمان کو انجام دیتے ہیں ۔

4۔ انسان اور آئندہ زمانے کے لوگوں کی زندگی میںظہور کے زمانے میں واقع ہونے والے عظیم تحولات اور اہم ترین تغیرات سے آشنائی  ۔(1)

--------------

[1] ۔ ان کے علاوہ دوسرے راستے بھی موجود ہیں جو انسان کو انتظار کی طرف بلاتے ہیں ان میں سے بعض کی وضاحت ہم نے کتاب اسرار موفقیت میں ذکر کی ہے جیسے ۔ اخلاص ، معارف سے آشنائی محبت اہل بیت  خود سازی اور .......۔

۲۰۸

امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کے مرتبہ کی معرفت، آپ کے محبین اور ساتھیوں کی شناخت اور عقل    اورفہم و ادراک کی تکمیل ، غیبت اور عالم نا مرئی سے ربطہ ، ناشناختہ موجودات کی شناخت ، دور دراز فضائوں اور آسمانوں کے سفر اور اسی قسم کے دوسرے مسائل لوگوں کو مسئلہ ظہور امام کی طرف متوجہ کرتے ہیں ۔

 نیزجو آنحضرت  کی عظیم الشان ار آفاقیحکومت کے لئے آمادگی پیدا کرتے ہیں یہ تمام حقائق ، پاک طینت افراد میں علم و آگہی اور جنون و عشق کا سرور پیدا کرتے ہیں اوراس طرح یہ افراد اس عظیم الشان زمانے کے دلدادہ ہو جاتے ہیں ۔ معاشرے اور سماج میں انتظار اور ظہور کی حالت پیدا کریں جو ہر انسان کی مسلم ذمہ داری ہے۔ اب اس کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں ۔

 امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کے مقام و منزلت کی معرفت

امام کا باعظمت وجود اپنی نورانی خصوصیتوں کے سبب انتظار کی کیفیت کے لئے کلیدی حیثیت رکھتا ہے ۔ کیونکہ دنیا میں آپ  کے علاوہ کو ئی بھی رہبری ،امامت اور کائنات کی اصلاح کے لا ئق نہیں ہے یہ اسباب انسان کو آپ کی طرف جذب کرتے ہیں نیز آپ  خداکی آخری نشانی ہیں آپ ہی آخری راہنما اور ہادی ہیں جیسا کہ آپ سے متعلق حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام فر ماتے ہیں :

 ''عِلْمُ الْاَنْبِیٰاء فِی عِلْمِهِمْ وَسِرُّ الْاَوْصِیٰاء فِیْ سِرِّهِمْ وَ عَزُّالْاَوْلِیٰاءِ فِیْ عِزِّهِمْ ، کَالْقَطْرَةِ فِی الْبَحْرِ وَ الذَّرَّةِ فِی الْقَفْرِ'' (1)

--------------

[1]۔ بحار الانوار ،: ج۲۵ص۱۷۳

۲۰۹

  تمام نبیوں کا علم ،تمام اوصیاء کے راز،تمام اولیاء کی عزتیں آپ کے علم ،راز اور عزت کے مقابلے میں ایسے ہی ہے جیسے سمندر میں ایک قطرہ یا ریگستان میں ایک ذرہ ۔

 چونکہ ہم خاندان عصمت و طہارت  علیھم السلام کے آخری فرد کے دور میںزندگی گزار  رہے ہیں اسی لئے ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم آپ کے زریں فرامین واقوال کے سائے میں رہتے ہو ئے تباہی اور بربادی کے طوفان سے بچیں اور آنحضرت  کے ظہور کے لئے راہ ہموار کریں نیز آپ  کی حکومت کے   انتظار میں ہرایک لمحہ شمار کرتے رہیں تا کہ آپ پرچم ہدایت وعدالت افلاک عدل و انصاف پر نصب فرما دیں ۔

 اگر کو ئی اس زمانے میں امام علیہ السلام کو پہچان لے اور زمانہ ٔغیبت میں امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کی اس امداد سے آگاہی رکھتا ہو اور آپ کے ذریعے  زمانہ ٔ  ظہور میں دنیا اور انسانوں میں ایجاد ہونے والی تبدیلیوں سے بھی آشنا ہو تو وہ ہمیشہ آپ  کی یاد میں رہے گا اور اس طرح جیسا کہ حکم ہوا ہے(1) آفتاب ولایت کے طلوع کے انتظار میں زندگی بسر کرے گا ۔

 معرفت ؛ایسے انسان کے دل سے غلاظت اور زنگ کو پاک اور صاف کرکے اس کی جگہ پا کیزگی خلوص اور نورانیت کو جایگزین کرے گی۔ اب ایک نہا یت ہی پر کشش روایت کی طرف توجہ کریںجس سے امام  عجل اللہ فرجہ الشریف کے زمانہ ٔغیبت میں آپ  کی طرف سے غیبی امداد کا پتہ چلتاہے جابر جعفی حضرت جابر بن عبداللہ انصاری سے اور وہ حضور اکرم (ص) سے نقل کرتے ہیں کہ آپ  نے فر مایا :

--------------

[1]۔ بحار لانوار:ج52ص145

۲۱۰

 ''....ذٰاکَ الَّذِی یَفْتَحُ اللّٰهُ تَعٰالٰی ذِکْرُهُ عَلٰی یَدَیْهِ مَشٰارِقَ الْاَرْضِ وَ مَغٰارِبَهٰا ، ذٰاکَ الَّذِیْ یَغِیْبُ عَنْ شِیْعَتِهِ وَ اَوْلِیٰا ئِهِ غَیْبَةً لاٰ یَثْبُتُ فِیْهٰا عَلَی الْقَوْلِ بِاِمٰامَتِهِ اِلاّٰ مَنْ اِمْتَحَنَ اللّٰهُ قَلْبَهُ بِالْاِیْمٰانِ ''''قٰالَ :فَقٰالَ جٰابِرُ :یٰا رَسُوْلَ اللّٰهِ فَهَلْ یَنْتَفِعُ الشِّیْعَةُ بِهِ فِیْ غَیْبَتِهِ ؟

فَقٰالَ : ای وَالَّذِیْ بَعْثَنِیْ بِالنُّبُوَّةِ أَنَّهُمْ لَیَنْتَفِعُوْنَ بِهِ وَ یَسْتَضِیْئُونَ بِنُوْرِ وِلاٰیَتِهِ فِی غَیْبَتِهِ کَانْتِفٰاعِ النّٰاسِ بِالشَّمْسِ ،وَاِنْ جَلَّلَهَا السِّحٰابُ ، یٰا جٰابِرُ ،هٰذٰا مَکْنُوْنُ سِرِّ اللّٰهِ وَ مَخْزُوْنُ عِلْمِهِ فَاکْتُمْهُ اِلاّٰ عَنْ أَهْلِهِ ''(1)

 وہ (امام زمانہ  عجل اللہ فرجہ الشریف) جن کے ذکر کو خداوند کریم زمین کے تمام گوشہ و کنار میں آپ  ہی کے ذریعہ پہنچائے گا وہ اپنے شیعوں اور محبوں  سے غائب رہیں گے اس طرح کہ بعض آپ  کی امامت کے منکر ہو جا ئیں گے سوائے ان افراد کے جن کے ایمان کا خداوند کریم نے امتحان لے رکھا ہو ۔

 جابر جعفی کہتے ہیں :جابر بن عباللہ انصاری نے پیغمبر اکرم(ص) کی خدمت میں عرض کی : یا رسو ل(ص) اللہ! کیا شیعہ ان کی غیبت کے زمانے میں ان سے بہرہ مند ہو سکیں گے ؟

 پیغمبر اکرم(ص) نے جواب میں فرمایا :

'' اس خدا کی قسم کہ جس نے مجھے رسالت پر مبعوث کیا وہ افراد آپ  کے وسیلہ سے بہرہ مند ہوں گے ان کی غیبت کے زمانے میں ان کے نور ولایت سے روشنی حاصل کریں گے ،جس طرح لوگ سورج سے بہرہ مند ہو تے ہیں اگر چہ بادل اسے ڈھانکے ہوئے ہوں۔اے جابر!وہ خدا کے مخفی رازوں اور اس کے علم کے خزانو ں میں سے ہے ۔لہٰذا اسے مخفی رکھو مگر اس کے اہل سے''.

--------------

[1]۔ کمال الدین :146اور 147، بحارالانوار:ج36ص250

۲۱۱

جیسا کہ آپ  نے ملا حظہ فرمایا کہ پیغمبر اکرم (ص) نے اس حدیث میں تاکید کے ساتھ قسم کھائی ہے کہ شیعہ امام عصر ارواحناہ فداہ کے زمانہ غیبت میں آپ  کے نور ولایت سے روشنی حاصل کریں گے ۔

کیست بی پردہ بہ خور شید ،نظر باز کند      چشم پوشیدۂ ما،علت پیدائی توست

از لطافت نتوان یافت ،کجا می باشی               جای رحم است بر آن کس کہ تماشایی تست

 اگر چہ امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف اس زمانے میں غائب ہیں مگر حقیقت میں پردۂ غیبت ہمارے دلوں پر ہے ور نہ امام اس شخص کے لئے چمکتا ہوا نور ہیں جس کا دل آئینہ کی طرح پاک اور صاف ہو خواہ ظاہراً نابینا ہو ۔(1)

 اس حقیقت کی طرف توجہ انسان کی منزل ولایت اور آپ  کے علم اور قدرت کی طرف راہنمائی کرتی ہے اوردلوں کو امام زمانہ  عجل اللہ فرجہ الشریفکی محبت سے سرشار اور آنحضرت  کی آئندہ آنے والی حکومت   کے انتظار کو ایجاد کرتی ہے ۔

--------------

[1] ۔ اس مطلب کی وضاحت کے لئے کتاب اسرار موفقیت ج  2 کے صفحہ نمبر 50سے ابو بصیر کی روایت میں امام باقر  علیہ السلام  کے غائب  ہونے کے واقعہ کی طرف رجوع فرمائیں ۔

۲۱۲

  انتظار کے آثارسے واقفیت

 1۔ مایوسی اور ناامیدی سے کنارہ کشی

 ایسے معاشرے میں جہاںدین کا نام و نشان بھینہ ہو اور لوگ بہتر مستقبل کی فکر میں نہ ہوں تو ویاںقتل وغارت ، خوں ریزی ، خود کشی اور اسی طرح کی دوسری برائیاںوجود میں آتی ہیں ۔ چونکہ لوگ '' منفی عوامل '' جیسے فقر ، تنگدستی ، ظلم و ستم ، تجاوز ، قانون شکنی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور بے اعتنائی جیسے حالات سے دو چار ہوتے ہیں اور ان سے نبرد آزمائی کے حربوں سے ناواقفیت کی وجہ سے گھر ، سماج اور معاشرے کی تباہی دیکھتے ہی مایوسی و ناامیدی میں مبتلا ہو جاتے ہیں ۔

 چونکہ اس کی غیبی طاقت سے مایوس ہو جاتے ہیں لہٰذا ان مشکلوں سے بچنے کے لئے خود کشی کرنے کا ارادہ کرتے ہیں ۔ پھر اس ظلم اور بربریت کو اختیار کرکے صرف اپنی دنیا و آخرت ہی نہیں بلکہ اپنے اہل و عیال نیز رشتہ داروں تک کوبھی اس بھیانک تباہی میں مبتلا کر دیتے ہیں ۔

 وہ شخص جس کے دل میں انظار کی کیفیت موجزن ہے اور ہمہ وقت دنیا کے اندر نورولایت کے چمکنے کی امید میں ہے ، کبھی ایسا ظلم نہیں کر سکتا جو ا اپنے ساتھ پورے معاشرے کی تباہی کا سبب بنے ۔

۲۱۳

 چونکہ وہ انتظار کے مسائل سے واقف ہے اور نا امیدی ومایوسی سے کنارہ کش ہے ۔یہ روایت اسی حقیقت پر دلالت کرتی ہے ۔

'' عَنِ الْحَسَنِ بْنِ الْجَهْمِ قٰالَ سَأَلْتُ أَبَا الْحَسَنِ عَنْ شَیْئٍ مِنَ الْفَرَجِ ، فَقٰالَ : اَوَ لَسْتَ تَعْلَمُ أَنَّ اِنْتِظٰارِ الْفَرَجِ مِنَ الْفَرَجِ ؟ قُلْتُ لاٰ اَدْرِیْ اِلاّٰ اَنْ تُعَلِّمَنِیْ  فَقٰالَ نَعَمْ ، اِنْتِظٰارُ الْفَرَجِ مِنَ الْفَرَجِ '' (1)

حسین بن جہم کہتے ہیں :  میں نے حضرت موسیٰ بن جعفر علیہ السلام سے فرج کے بارے میں دریافت کیا تو امام نے فرمایا : کیا تم نہیں جانتے کہ فرج کا انتظار کشادگی اور وسعت میں ہے ۔ میں نے عرض کیا آپ نے جتنا مجھے بتایا ہے مجھے اس کے سوا نہیں معلوم ۔ امام نے فرمایا: ہاں! فرج کا انتظار کشادگی اور آسائش سے ہے ۔

2۔ روحانی تکامل

 انسان اپنے اندر انتظار کامل کے ایجاد کرنے کے ساتھ کچھ حد تک ظہور امام  کے زمانے کے لوگوں کے جیسے حالات ( تطہیر قلب) پیدا کر کے ،امید وانتظار کے وسیلہ سے اپنے آپ کو نا امیدی و تباہی سے نجات دلاسکتا ہے ۔

--------------

[1] ۔ بحارالانوار :ج۵۲ ص۱۳۰

۲۱۴

 اسی سے متعلق امام صادق علیہ السلام اپنے آباؤ اجداد سے اور اسی طرح  حضرت امیر المومنین  علی ابن ابیطالب علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں کہ آنحضرت  نے فر مایا :

 ''أَفْضَلُ عِبٰادَةِ الْمُؤْمِنِ اِنْتِظٰارُ فَرَجِ اللّٰهِ ''  (1)

''مومن کی سب سے بہترین عبادت یہ ہے کہ وہ خدا سے فرج کا انتظار رکھتا ہو ''

اسی بنا پر انتظار کےذریعہ انسان ظہور امام عجل اللہ فرجہ الشریف  کے بعض آثار تکامل کو اپنے اندر ایجاد کرسکتا ہے ۔ ابوخالد کی اس بات کی وضاحت امام سجاد علیہ السلام کے اس فر مان سے ہو تی ہے :

 ''عَنْ اَبِیْ خٰالِدِ الْکٰابُلِی عَنْ عَلِیِّ بْنِ الْحُسِیْنِ تَمْتَدُّ الْغَیْبَةُ بِوَلِیِّ اللّهِ الثّٰانِی عَشَرَ مِنْ اَوْصِیٰائِ رَسُوْلِ اللّٰهِ وَ الْأَئِمَّةِ بَعْدِهِ ،یٰا أَبٰاخٰالِدٍ ،اِنَّ أَهْلِ زَمٰانِ غَیْبَتِهِ ،اَلْقٰائِلُوْنَ بِاِمٰامَتِهِ ،اَلْمُنْتَظِرُوْنَ لِظُهُوْرِهِ ،أَفْضَلُ أَهْلِ کُلِّ زَمٰانٍ ،لِاَنَّ اللّٰهَ تَعٰالٰی ذِکْرُهُ أَعْطٰاهُمْ مِنَ الْعُقُوْلِ وَالْاَفْهٰامِ وَالْمَعْرِفَةِ مٰا صٰارَت بِهِ الْغَیْبَةُ عِنْدَ هُمْ بِمَنْزِلَةِ الْمُشٰاهَدَ ِة ،وَ جَعَلَهُمْ فِی ذٰلِکَ الزَّمٰانِ بِمَنْزِلَةِ الْمُجٰاهِدِیْنَ بَیْنَ یَدَیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ بِالسَّیْفِ ،اُوْلٰئِکَ الْمُخْلِصُوْنَ حَقّاً،وَ شِیْعَتُنٰا صِدْقاً ،وَالدُّعٰاةُ اِلٰی دِیْنِ اللّٰهِ سِرّاً وَ جَهْراً وَٰقالَ  : اِنْتِظٰارُ الْفَرَجِ مِنْ أَعْظَمِ الْفَرَجِ '' (2)

ابو خالد کابلی حضرت علی بن الحسین علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں کہ آنحضرت  نے فرمایا :

ولی خدا جو پیغمبر اکرم (ص) کے اوصیاء میں سے بارہویں (خلیفہ ) اور آپ  کے بعد آئمہ اطہار علیھم السلام میں سے ہیں کی غیبت طولانی ہو گی اے ابو خالد!بے شک ان کے زمانۂ غیبت  کے لوگ ، ان کی امامت پر عقیدہ رکھنے والے اور ان ظہور کے منتظر لوگ ہر زمانے کے لو گوں سے افضل ہیں ۔

--------------

[1]۔ بحارالانوار:ج53 ص131

[2]۔ بحار الانوار: ج ۵۲ص۱۲۲

۲۱۵

 کیونکہ خداوند کریم عقلوں کوان کا ذکراس قدر عطا کرے گا کہ ان کے نزدیک غیبت مشاہد ے کی طرح ہو گی اور ان کو اس زمانے میں ان مجاہدین کی طرح قرار دیا جائے گا کہ جنہوں نے پیغمبر اکرم(ص)کے دور میں تلوار سے جہاد کیا ہو حقیقت میں وہی با اخلاص ہیں اور وہ ہمارے سچے شیعہ ہیں اور لوگوں کو ظاہری اور مخفی طور سے بھی دین خدا کی طرف بلاتے ہیں ۔

اس کے بعد امام سجاد  علیہ السلام نے فر مایا : ''ظہور کا  انتظار عظیم ترین فرج میں  سے ہے ۔''

دوست نزدیک تر از من ،بہ من است

وین عجیبتر کہ من از وی دورم

این سخن با کہ توان گفت کہ دوست

در کنار من و من مہجورم

 انتظار کی راہ تکامل تک پہنچنے والیسچے منتظرین اپنے آپ کو حکومت خدا کی غیبی قدرت سے پوری دنیا پر حکومت کے لئے آمادہ کرنے کے اثر سے غیبت کے زمانے میں بعض زمانۂ ظہور کے فردی خواص اور خصوصیات جیسے تطہیر قلب وغیرہ تک رسائی حاصل کرتے ہیں اس حد تک کہ غیبت کا زمانہ ان کے لئے روز روشن کی طرح عیاں ہے اگران کے اندر اس طرح کے اثرات نہ ہو ں تو کس طرح فرج اعظم کا انتظار فرج ہے ؟وہ حالت انتظار کے ساتھ غیبت اور زمانۂ ظہور کے در میان رابطہ قائم کرتے ہیںاور اس زمانے کے بعض حالات کوغیبت کے زمانے میں پا لیتے ہیں ۔(1)

--------------

 [1] ۔ جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں کہ  مرحوم بحر العلوم اور مرتضی ٰ شیخ انصاری  جیسے بہت کم افراد  ایسے حالات تک رسائی حاصل کرتے ہیں ۔

۲۱۶

 مرحوم شیخ انصاری امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کے شریعت کدہ پر

 دلوں کو منور کرنے والا واقعہ دنیا ئے تشیع کی اس عظیم شخصیت کا ذکر ہے جس نے ظاہری اور باطنی دونوں محاذوں  پر غیبی امداد اور قوت سے دین مبین کی حفاظت کی ۔

 شیخ انصار ی کے ایک شاگرد ، آپ کے امام  علیہ السلام سے تعلق اور امام  علیہ السلام کے شریعت کدہ پر شرفیابی کو یوں بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ میں حضرت امام حسین علیہ السلام کی زیارت کی غرض سے کربلا پہنچا۔ انہی ایام میں ایک بار میں آدھی رات کے وقت حمام جا نے کے لئے گھر سے باہر آیا ، چونکہ گلیوں میں کیچڑ و غیرہ زیادہ تھا لہذا میں نے اپنے ساتھ ایک شمع بھی لے لی اور میں  اس کی مدہم روشنی میں چلنے لگا ۔ کچھ فاصلے پر ایک شخص نظر آیا میں نے محسوس کیا جیسے شیخ انصاری ہو ں ۔  راستہ طے کرکے جیسے ہی قریب ہوا تو یقین ہو گیا آپ ہی ہیں ۔میں نے سو چا یہ حضور اس تاریکی میں کہاں تشریف لے جا رہے ہیں جب کہ آپ کی بینا ئی بھی کمزور ہے ۔میں نے سو چا کہیں کو ئی آپ کا تعاقب نہ کر رہا ہو کہ جو آپ کو نقصان پہنچا ئے لہٰذا خاموشی سے آپ کے پیچھے چلنے لگا ۔کچھ دور چلنے کے بعد وہ ایک پرا نی ساخت کے مکان کے دروازے پر کھڑے ہو ئے اور خلو ص نیت کے ساتھ زیارت جامعہ پڑھنے لگے ۔

زیارت سے فارغ ہو تے ہی اس مکان میں داخل ہو ئے ۔پھر میں نے کچھ نہیں دیکھا صرف آپ کی آواز آرہی تھی ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ آپ کسی سے ہم کلام ہیں ۔میں وہاں سے پلٹا پھر حمام گیا اور اس کے بعد حرم مطہر گیا وہاں میں نے شیخ  کو دیکھا ۔

۲۱۷

 اس سفر سے واپس آکر میں نجف اشرف میں شیخ کی خدمت میں پہنچا اور اس رات والے واقعہ کو دہرایا اور اس کی تفصیل پو چھی ،پہلے تو شیخ نے انکار کیا لیکن مزید اصرار پر آپ  نے فر مایا :

جب امام  سے ملاقات کی خواہش ہوتی ہے تو میں اس گھر کے دروازے پر چلا جاتا ہوں ،جسے تم اب کبھی نہیں دیکھ پا ؤگے ،زیارت جامعہ پڑھنے کے بعد اذن طلب کرتا ہوں ۔اگر اجازت مل جاتی ہے تو آنحضرت  کی خدمت میں فیضیاب ہو تا ہوں ۔جو مسائل میری سمجھ سے بالا ہوتے ہیں آپ  اسے بطور احسن حل فر ماتے ہیں ۔

پھر شیخ  نے فرمایا:اور سنو جب تک میں زندہ ہوں اس واقعہ کو چھپا ئے رکھنا ۔ہرگز کسی کے سامنے بیان نہ کرنا ۔(1)

 اسی طرح اور دوسری بزرگ شخصیتیں بھی ہیں جنہوں نے امام  سے بارہا ملاقات کی ہے اور اپنے آپ کو حضرت  کے ظہور کے لئے ہمہ وقت آمادہ رکھتے تھے ان لوگوں کی طرح نہیں کہ جو قرآنی آیتوں کی تأ ویل اور توجیہ کریں گے نیز آنحضرت  کے ساتھ جنگ بھی کریں گے ۔

کلید گنج سعادت فتد بہ دست کسی

کہ نخل ہستی اورا بود بَرِ ہنری

چو مستعد نظر نیستی ،وصال مجوی

کہ جام جم ندہد سود ،وقت بی بصری

--------------

[1] ۔ زندگانی و شخصیت شیخ انصاری  : 106

۲۱۸

  کامیابیوں کی کلید اور محرومیوں کے اسباب

 یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے :کس طرح ہر دفعہ شیخ اجازت حاصل کر لیتے تھے اور امام  عجل اللہ فرجہ الشریف  کے شریعت کدہ میں زیارت جامعہ کے پڑھتے اور اجازت لے کر ساتھ بیت الشرف میں داخل ہوتے اور اپنے مہربان امام  عجل اللہ فرجہ الشریف کے ساتھ گفتگو کرتے ؟

 انہوں نے کس طرح یہ مرتبہ حاصل کیا تھا ؟نیز ان کے شاگردنے بھی امام عصر عجل اللہ فرجہ الشریف کے بیت الشرف کو دیکھا اس کے باوجودیہ افتخار نہیں رکھتے تھے چونکہ مرحوم شیخ   نے ان سے فر مادیا تھا کہ اس کے بعد تم اس بیت الشرف کو کبھی نہیں دیکھ پا ؤگے ۔

 یہ سوال اہم ہے اور اس کا اطمینان بخش  جواب دینا بھی ضروری  ہے ۔  افسوس کی بات ہے کہ بعض افراد اس طرح کے سوالات کے لئے پہلے سے تیار شدہ جواب رکھتے ہیں اور مقابل کو فوراً جواب دیتے ہیں :خدا نے اسی طرح چا ہا ہو گا یا خدا ان میں سے (نعوذ باللہ ) بعض افراد کے ساتھ رشتہ داری  اور ان کے قوم و قبیلہ سے اپنا ئیت رکھتا ہے اور کسی قسم کا ارتباط پیدا کرنے  کے لئے دوسرے لوگوں کے طلب کرنے کی ضرورت نہیں ہے !

 اس قسم کے جوابات عموما ً ذمہ داریوں سیجان چھڑانے کا طریقہ ہیںلیکنیہ صحیح نہیں ہے ۔ کیونکہ نہ ہی جوابات قانع کنندہ ہیں اور نہ ہی ان سے کبھی کسی کو راہ  تکامل کی طرف راہنمائی کرسکتے ہیں ہم اس سوال کا جواب خاندان وحی علیھم السلام کے فرا مین کی روشنی  میں دیں گے ۔

۲۱۹

خداوند عالم نے تمام انسانوں کو رو حانی کمال اور معنویت حاصل کرنے کا حکم دیا ہے اور اپنی عمومی دعوت میں جو کوئی بھی اس راہ میں قدم بڑھائے اجر اور بدلہ عنایت کیاہے اسی طرح کہ جیسے میزبان اپنے مہمانوں کو دعوت کرتا ہے اور سب کی شرکت کی صورت میں خدمت اور پذیرائی کرتا ہے،نیزخداوند کریم نے بھی کمال و ارتقاء کا زمینہ ہر انسان کے لئے فرا ہم کیا ہے ۔اور اسی طرح ان کو  تکامل کی طرف دعوت دی ہے اور قرآن مجید میں صریحاً فر مایا ہے :

 (وَالَّذِیْنَ جٰاهَدُوْا فِیْنٰا لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلُنٰا ) (1)

''جو بھی ہماری راہ میں کو شش کرے ہم ضرور اسے اپنی راہ میں ہدایت کریں گے ''

 مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ خدا کی دعوت کا جواب دیں اور روحانی کمال اور معنوی کارتقاء کی راہ میں  قدم بڑھائیں ۔لہٰذایہ بات مسلم ہے کہ انسان کے اندر ارتقاء کا مادہ موجود ہے اور وہ اس قدرت سے بہرہ مند بھی ہے، لیکن اس سے استفادہ نہیں کرتا جیسے تنگ نظر  اور چحوٹی سوچ کے مالک دولت مند افراد ہمیشہ بینک اکاؤنٹ پر کرنے میں لگے رہتے ہیں اور اس سے خوشحال رہتے ہیں ، انہیں کبھی بھی اس مال و دولت سے استفادہ کرنے کی توفیق نہیں ہوتی ۔کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ موجودہ قوتوں اور توانائیوں سے استفادہ کیا جائے  تاکہ اپنے خسارے اور گھاٹے کا جبران ہو سکے اور عظیم مقاصد تک رسائی حاصل ہو سکے ۔بہت سارے لوگ روحانی اور معنوی کمال تک پہنچنے کی ذاتی طور پر بہت زیادہ آمادگی اور توانائی رکھتے ہیں چونکہ ان امور کے ساتھ ان کا کوئی کام نہیں ہوتا لہٰذا اس قسم کی تمام تر توانائیوں سے کوئی فائدہ حاصل نہیں کرتے یہاں تک کہ دنیا کو خیر آباد کہہ دیتے ہیں اور ان توانائیوں کو اپنے ساتھ زیر خاک لے جاتے یتے ہیں

--------------

[1]۔ سورۂ عنکبوت ، آیت: 69

۲۲۰

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

كفر :الہى تعليمات كا كفر ۵

گمراہ لوگ۹

مؤمنين :مؤمنين كا استغفار ۴

ہدايت :ہدايت كا پيش خيمہ ۱

ہدايت پانے والے :ہدايت پانے والوں كا استغفار ۷; ہدايت پانے والوں كا ايمان ۷;ہدايت پانے والوں كے صفات ۷

آیت ۵۶

( وَمَا نُرْسِلُ الْمُرْسَلِينَ إِلَّا مُبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ وَيُجَادِلُ الَّذِينَ كَفَرُوا بِالْبَاطِلِ لِيُدْحِضُوا بِهِ الْحَقَّ وَاتَّخَذُوا آيَاتِي وَمَا أُنذِرُوا هُزُواً )

اور ہم تو رسولوں كو صرف بشارت دينے والا اور عذاب سے ڈرانے والا بناكر بھيجتے ہيں اور كفار باطل كے ذريعہ جھگڑا كرتے ہيں كہ اس كے ذريعہ حق كو برباد كرديں اور انھوں نے ہمارى نشانيوں كو اور جس بات سے ڈرائے گئے تھے سب كو ايك مذاق بناليا ہے (۵۶)

۱_اللہ تعالى كے پيغمبروں كا وظيفہ ،صرف لوگوں كو بشارت دينا اور ڈرانا ہے اور انہيں كفر و ايمان كے نتيجہ سے آگاہ كرنا ہے _وما نرسل المرسلين إلّا مبشرين و منذرين

۲_لوگوں كو ايمان اور استغفا ر پر مجبور كرنا، پيغمبر وں كى ذمہ دارى نہيں ہے _

وما منع الناس أن يو منوا وما نرسل المرسلين إلّا مبشّرين و منذرين

ما قبل آيت لوگوں كے ايمان نہ لانے اور استغفار نہ كرنے كے بارے ميں تھى اور يہ آيت اس سوال كے جواب ميں ہے كہ لوگوں كى ہدايت كے حوالے سے پيغمبروں كى ذمہ دارى كيا ہے آيت جواب دے رہى ہے كہ پيغمبروں كى يہ ذمہ دارى نہيں ہے كہ لوگوں كو ايمان اور استغفار پر مجبور كريں وہ فقط بشارت دينے اور ڈرانے كيلئے آئے ہيں _

۳_اللہ تعالي، پيغمبروں كى رسالت كى حدود معين كرنے والا ہے _و ما نرسل إلّا مبشّرين و منذرين

۴_ بشارت، انذار اور خوف و اميد كا پيدا كرنا ،تبليغ كے دو اہم ذرائع نيز انسانوں كى ہدايت ميں دو ضرورى عنصر ہيں _

وما نرسل المرسلين إلّا مبشّرين و منذرين

۴۶۱

۵_ الہى رہبروں كا انذار اور بشارت جيسے وظائفكو لوگوں كے كفر كے در مقابل انجام دينے كے بعد كوئي اور ذمہ دارى نہ ركھنے كى طرف توجہ ،موجب بنتى ہے كہ وہ اپنے وظيفہ كى ادائيگى ميں كمزورى اور شكست كا احساس نہ كريں _

و ما منع الناس ا ن يو منوا و ما نرسل المرسلين الا مبشرين و منذرين

۶_ مجادلہ و اشكال تراشى يا باطل طريقہ كار اور جھوٹى اسناد كو استعمال ميں لانا، حق سے مقابلہ كر نے والے كفار كا شيوہ ہے _و يجادل الذين كفروا بالباطل ليدحضو ا به الحقّ

۷_ الہى پيغمبروں كا انكا ر، باطل پر قائم ايك نظريہ ہے جو حقيقت سے جنگ كرنے كے حوالے سے پيد ا ہوتا ہے _

ويجادل الذين كفروابالباطل ليدحضوا به الحقّ

۸_كفر اختيا ر كرنے والوں كے پرو پيگنڈاكے طريقہ كارميں سے ايك حق كو منظر عام سے ہٹانا اور اسے باطل صورت ميں پيش كرنا ہے _و يجادل الذين كفروا بالباطل ليدحضوا به الحقّ

( احاض ) سے مراد'' باطل'' كرنا اور'' زائل '' كرنا ہے ( ليدحضوا بہ الحقّ)'' يعنى كفر اختيار كرنے والے، باطل انداز سے مجادلہ كرتے ہوئے حق كو باطل كرنے اور زائل كرنے كى كوشش ميں ہيں '' يہ بات واضح ہے كہ حق، باطل نہيں ہو سكتا تو اسى ليے (منظر عام سے ہٹانا او رباطل صورت ميں پيش كرنے كى تعبير، مندرجہ بالا مطلب ميں بيان كى گئي _

۹_ پيغمبروں كو ديے گئے معارف اور احكام، سب كے سب حق ہيں _و ما نر سل المرسلين ويجادل ليدحضوا يه الحقّ

پيغمبروں كے پروگرام اور انكى بشارت و انذار كو حق كے ساتھ توصيف كرنا يہ بتاتاہے كہ وہ جو كچھ بھى كہتے ہيں وہ سب كا سب حق او ر كائنات كے حقائق كے عين مطابق ہے _

۱۰_ پورى تاريخ ميں پيغمبر وں كے منكرين ،اللہ تعالى كى آيات اور الہى پيغمبروں (ص) كے انذار كو مذاق او ر تمسخر كے عنوان سے ديكھتےتھے _و ما نرسل المرسلين و اتخذوا ا ى تى و ما أنذروا هزوًا

۱۱_ الہى آيات اور پيغمبر (ص) كے انذار كا مذاق اڑانا ،باطل كى جدالى روشوں ميں سے تھا _و يجادل الذين كفروا بالباطل ليدحضوا به الحقّ واتخذوا ء اى تى وما أنذروا هزوا ً

۱۲_عقائد اور فكرى مسائل ميں باطل كے ذريعے جدال اور مذاق و تمسخر اڑانا، نا پسنديدہ روش ہے _

۴۶۲

و يجادل الذين كفرو ابالباطل ليدحضوا به الحقّ واتخذ وا ء اى تى وما ا نذروا هزوا

آنحضرت (ع) :آنحضرت (ع) كے انذار كا مذاق اڑانا ۱۱

الله تعالى :الله تعالى كے افعال ۳

الله تعالى كى آيات :الله تعالى كى آيات كا مذاق ۱۱;اللہ تعالى كى آيات كا مذاق اڑانے والے ۱۰

انبياء (ع) :انبياء (ع) كا جھٹلانا ۷; انبياء (ع) كا مذاق اڑانے والے ْ'۱۰;انبياء (ع) كو جھٹلا نے والوں كا حق سے جنگ كرنا ۷;انبياء (ع) كى بشارتيں ۱; انبياء (ع) كى تعليمات كا حق ہونا ۹; انبياء (ع) كى ذمہ دارى كى حدود ۱;۲;انبياء (ع) كى رسالت معين كرنے كا سرچشمہ ۳; انبيا ء (ع) كے جھٹلانے والوں كا مذاق ۱۰; انبياء (ع) كے ڈراوے ۱; انبياء (ع) كے ڈراووں كا مذاق ۱۰

تربيت:ايمان كى عاقبت كى بشارت ۱; بشارت كے آثار ۴;

تبليغ :تبليغ كے وسائل ۴;تبليغ ميں بشارت ۴; تبليغ ميں ڈراوا ۴

حق :حق سے جنگ كى روش ۷;حق كو باطل صورت ميں پيش كرنا۸

دين:دين كى حقانيت ۹; دين ميں جبر كا نہ ہونا ۲

دينى رہبر :دينى ر ہبروں كى بشارتوں كے آثار ۵; دينى رہبروں كے ڈراووں كے آثار ۵; دينى رہبروں ميں ضعف كا احساس پيدا ہونےكے موانع ۵

ڈراوا :ڈراوے كے آثار ۴; كفر كے انجام كا ڈراوا ۱

ذكر :دينى رہبروں كى ذمہ دارى م كے حدود كا ذكر ۵

شرعى ذمہ دارى :شرعى ذمہ دارى پر عمل كرنے ميں ضعف موانع ۵

عقيدہ :باطل عقيدہ كے در مقابل روش ۱۲

عمل :ناپسنديدہ عمل ۱۲

فكر:فكر كے در مقابل روش ۱۲

۴۶۳

كفار :كفار كا حق سے جنگ كرنا ۸; كفار كا مجادلہ ۶ ; كفار كى تبليغ كى روش ۸; كفار كى حق سے جنگ كرنے كى روش ۶

مجادلہ :باطل مجادلہ ۱۱; باطل مجادلہ كا ناپسند يدہ ہونا ۱۲

مذاق تمسخر:مذاق و تمسخر كا ناپسنديدہ ہونا ۱۲

ہدايت :ہدايت كے وسائل ۴

آیت ۵۷

( وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن ذُكِّرَ بِآيَاتِ رَبِّهِ فَأَعْرَضَ عَنْهَا وَنَسِيَ مَا قَدَّمَتْ يَدَاهُ إِنَّا جَعَلْنَا عَلَى قُلُوبِهِمْ أَكِنَّةً أَن يَفْقَهُوهُ وَفِي آذَانِهِمْ وَقْراً وَإِن تَدْعُهُمْ إِلَى الْهُدَى فَلَن يَهْتَدُوا إِذاً أَبَداً )

اور اس سے بڑا ظالم كون ہوگا جسے آيات الہيہ كى ياد دلائي جائے اور پھر اس سے اعراض كرے اور اپنے سابقہ اعمال كو بھول جائے ہم نے ان كے دلوں پر پردے ڈال دئے ہيں كہ يہ حق كو سمجھ سكيں اور ان كے كانوں ميں بہر اپن ہے اور اگر آپ انھيں ہدايت كى طرف بلائيں گے بھى تو يہ ہرگز ہدايت حاصل نہ كريں گے (۵۷)

۱_ پروردگا ركى آيات سے نصيحت پانے اور ان سے آگاہ ہونے كے بعد ان سے منہ پھيرنا، بہت بڑا ظلم ہے _

و من ا ظلم ممّن ذكّربايات ربّه فا عرض عنه

( ذكر ) يعنى وہ شناخت كہ جو حافظہ ميں موجود ہو (مفردات راغب سے ليا گيا )

۲_ الہى آيات (قرآن مجيد) ميں غور نہ كرنا اور بغير كسى تا مّل اور سوچ كے ان سے گذ رجانا ، ان پر ظلم كرنا ہے _

و من ا ظلم ممّن ذكّر بايات ربّه فا عرض عنه

( أعرض ) كا حرف ( فاء ) كے وسيلہ سے عطف بتارہا ہے كہ بعض افراد آيات كے كا نوں ميں پڑنے كے بعد بغير كسى تا مل اور وقفہ كے اس سے روگردانى كرليتے ہيں اور يہى چيز انكے ظالموں كے گروہ ميں داخل ہونے كا موجب ہے_

۳_انسانى تاريخ ميں رو نما ہونے والے تمام بڑے ظلم اور جرائم كى اساس، الہى آيات كے انكار اور اعمال كى سزا سے غفلت كرنے ميں ہے_ومن ا ظلم ممّن ذكّر بايات ربّه فأعرض عنها ونسى ما قدمت يداه

مندرجہ بالا مطلب كى بنائ، يہ احتمال ہے كہ ''من أظلم''ميں ظلم سے مراد، صرف اپنے آپ پرظلم نہ ہو بلكہ اسكے علاوہ غير پرظلم بھى مراد ہواور جملہ '' نسى ما قدمت يداہ ''كردا ر كے نتائج اور عمل كى بقاء پرعقيدہ نہ ہونے سے كنايہ ہے_

۴۶۴

۴_ انسان كے كمال اور بلندى كيلئے آيات كا پيش كيا جانا، الہى ربوبيت كا تقاضا ہے _ذكّر بايات ربّه

۵_ غلط اعمال اور افعال اورگذشتہگناہوں كوبھول جانا ، انسان كا اپنے اورپربہت بڑ ا ظلم ہے_

يجادل ...ومن أظلم ...ونسى ما قدمت يداه

''سنى ما قدّمت يداه'' يعنى اپنے گذشتہ كردار كو بھول گيايہاں گذشتہ آيت كے قرينہ سے ''ما' ' سے مراد،حق كے در مقابل باطل كے ذريعہ مجادلہ كرنا اور الہى آيات كا مذاق اڑانا ہے_

۶_انسان پرضرورى ہے كہ ہميشہ اپنے گذشتہ اعمال پرتوجہ ركھے اور ان پرتنقيد وتجزيہ جارى ركھے _

ومن أظلم ممّن ...نسى ماقدّمت يداه

۷_ الہى آيات پرايمان لانے والوں كو چايئےہہميشہ اپنے گذشتہ اعمال پرپريشان اور انكى اصلاح اور جبران كيلئے كوشاں رہيں _ومن أظلم ممن ذكّر بايات ربّه فا عرض عنهاونسى ما قدّمت يداه

۸_ انسان كے اعمال، خود ا س كے اختيار كيے گئے اور ا س كے ہاتھوں انجام پانے والے ہيں _ما قدّمت يداه

۹_ حق كے درمقابل باطل كے ذريعہ مجادلہ كرنا اور الہى آيات كا مذاق اڑانا در حقيقت ان سے دورى او رالہى فرامين كے بے اثر ہونے كا باعث ہيں _ويجادل الذين كفروا بالباطل ليدحضوا به الحق ...ومن أظلم ممن ذكّر بايات ربّه فا عرض عنه

موردبحث آيت كاگذشتہ آيت سے ربط كى يوں تصوير كشى ...ہو سكتى ہے كہ الہى آيات سے منہ موڑنے والے در حقيقت وہى مجادلہ كرنے والے ہيں كہ جوآيات الہى كے ساتھ باطل انداز ميں مجادلہ اور ا ن كا مذاق اڑاتے ہوئے انكے فيض سے محروم ہوگئے _

۱۰_اللہ تعالى نے قران كے مخالفين كو ا س كے نكات سمجھنے اور اس پرتوجہ پيدا كرنے سے محروم ركھنے كے لئے انكے دلوں پرمتعددحجاب اور ان كے كانوں كو بہرا بناديا_

إنّا جعلنا على قلوبهم ا كنّة أن يفقهوه و فى ء اذانهم وقرا

''أكنّہ'' ''كنان ''كى جمع ہے جس كاطلب پردہ اور حجاب ہے اور ''وقر''سے مراد بھارى پن ہے كانوں ميں بھارى پن دراصل الہى آيات پردل سے توجہ نہ كر نے اور انكے در مقابل بہرے لوگوں كا انداز اختيار كرنے سے كنايہ ہے''يفقهوه'' كى ضمير

۴۶۵

آيات كى طرف لوٹ رہى ہے چونكہ يہاں آيات سے مراد قران ہے لہذا ضمير مذكرآئي ہے اور'' ان يفقهو ه '' سے مراد''لئلايفقهوه'' يا''كراهةأن يفقهوه ''ہے_

۱۱_بعض لوگ، قرآنى آيات كے در مقابل يوں ہوتے ميں كہ جيسے ان كے كان بھارى ہوں اور ان كے سمجھنے سے قاصرہوں _انّا جعلنا على قلوبهم ا كنّة أن يفقهوه و فى ء اذانهم وقرا

''على قلوبهم اكنّة'' اور''فى ء اذانهم وقراً'' يہ دونوں تعبيريں كنايہ ہيں نہ كہ واقعاًانكے دل اور كان ميں كوئي خلل پيدا ہو گيا ہے _

۱۲_اللہ تعالى كى آيات سے بے اعتنائي اور گناہوں سے غفلت ميں پڑنے كا انجام، قران كے پيغامات كى سمجھ بوجھ سے محروميت ہے_ذكّر بايات ربّه فا عرض عنها ...إنّا جعلناعلى قلوبهم ا كنّة أن يفقهوه

۱۳_ حق كے منكرين كاالہى آيات پرغور اور توجہ سے محروميت ان كے اپنے اعمال كاردعمل ہے _

فا عرض عنها ...إنّا جعلنا ...فى ء اذانهم وقرا

۱۴_كفار اوراللہ تعالى كے منكروں كا حق سے فرار ، الہى قدرت كى سلطنت ميں ہے اور اسى كے ارادہ كے تحت ہے _

إنّا جعلنا على قلوبهم ا كنّة ''إنّا جعلنا '' كے ذريعہ الله تعالى كى اپنى حاكميت اورپر تا كيد ا س ليے ہے كہ يہ گمان نہ پيدا ہو كہ كفار اور الله تعالى كے منكرين كاكفر، الہى قدرت كى سلطنت سے باہر ہے اور وہ الله تعالى كے در مقابل ايك اورقدرت كى صورت ميں آئے ہيں _

۱۵_كان، شناخت كا ذريعہ اور قلب ودل فہم ودرك كے مقام ہيں _إنّا جعلناعلى قلوبهم اكنّة ان يفقهوه وفى ا ذانهم وقرا

۱۶_ايسے لوگوں كا ہدايت پانا، نا ممكن ہے كے جن كے دلوں پرپردہ پڑاہوا ہے اور ان كے كانو ں پربھارى پن موجودہے_

وإن تدعهم إلى الهدى فلن يهتدوا إذاً أبدا

''لن ''ہميشہ كى نفى كيلئے ہے اور اس آيات ميں كلمہ ''أبداً'' كے ساتھ اس نفى پرمزيد تا كيد ہوئي ہے يعنى ايسے افراد كبھى بھى اور كسى مقام پربھى ہدايت نہ پائيں گے ان سے مايوس ہونا چا يئے

۱۷_بعض انسانوں كے دل اور افكار، حتّى ّ كہ پيغمبر(ص) جيسے شخص كے ہدايت دينے سے بھى متا ثر نہيں ہوتے_

وإن تدعهم إلى الهدى فلن يهتدوا إذإبدا

۴۶۶

۱۸_بعض لوگوں كى حق كے در مقابل ھٹ دھرى سے رہبروں اور مبلغين كوپريشان اور مايوس نہيں ہونا چايئے

وإن تدعهم إلى الهدى فلن يهتدوا إذإبدا

آنحضرت (ع) :آنحضرت كى ہدايت دينے كے نتائج۱۷

الله تعالى :الله تعالى كى ربوبيت كے آثار۴;اللہ تعالى كى قدرت كى سلطنت ۱۴;اللہ تعالى كى ہدايتوں كے بے اثر ہونے كا باعث ۹;اللہ تعالى كے ارادہ كى سلطنت ۱۴

الله تعالى كى آيات:الله تعالى كى آيات سے دور ى كا انجام۱۲;اللہ تعالى كى آيات سے دورى كا ظلم ۱; الله تعالى كى آيات كا فلسفہ ۴;اللہ تعالى كى آيات كامذاق اڑانے كے آثار ۹;اللہ تعالى كى آيات كو جھٹلانے كے آثار ۳;اللہ تعالى كى آيات كو درك كرنے سے محروميت كے آثار ۱۶;اللہ تعالى كى آيات كى شناخت ۱;اللہ تعالى كى آيات كے- نازل ہونے كے اسباب ۴

انسان :انسان كا اختيار ۸; انسان كا عمل ۸;انسانوں كے كمال كے اسباب ۴

تبليغ:تبليغ ميں مصائب كى پہچان۱۸

حق :حق سے دورى كا باعث ۹;حق قبول نہ كرنے والوں كاكردار۱۸;حق قبول نہ كرنے والوں كے عمل كے آثار ۱۳;حق قبول نہ كرنے والوں كے كانوں كا بھارى ہونا۱۳

خود:خودپرظلم۵;خودكا حساب لينے كى اہميت ۶

دل:دل پرحجاب كے آثار۱۶;دل كا كردار۱۵

ذكر:عمل كے ذكركى اہميت ۶

شناخت:شناخت كے ذرائع ۱۵

ظلم:سب سے بڑا ظلم ۱،۵;سب سے بڑے ظلم كى اساس ۳;ظلم كے مراتب ۱;ظلم كے موارد۲

عمل :عمل كا حساب كرنے كى اہميت۶;عمل كى اصلاح كى اہميت۷;عمل كے آثار ۱۳;گذشتہ عمل پرپريشاني۷;ناپسنديدہ عمل كوبھولنا ۵

غفلت:انجام سے غفلت كے آثار ۳

فكر:آيات الہى ميں فكرنہ كرنا۲

فہم:فہم كا مقام ۱۵

۴۶۷

قرآن:قرآن كوجھٹلانے والوں كے كانوں كا بھارى پڑنا ۱۱;قرآن كے دشمنوں كے دل پرحجاب ۱۰ ; قرآن كے دشمنوں كے كانوں كا بھارى پڑنا ۱۰ ; قرآن كے فہم سے محروميت كے اسباب ۱۲; قرآن ميں فكرنہ كرنا۲

كان:كان كا كردار۱۵;كان كے بھارى پڑنے كے آثار ۱۶ ;

كفار:كفار كا حق قبول نہ كرنا۱۴

گمراہ لوگ:گمراہ لوگوں كا ہدايت نہ لينا۱۷

گناہ:گناہ بھولنے كا انجام ۱۲;گناہ كوبھولنا۵

مبلغين:مبلغين كى ذمہ داري۱۸

مؤمنين :مؤمنين كى شرعى ذمہ دارى ۷

مجادلہ:باطل مجادلہ كے آثار۹

نصيحت :الله تعالى كى آيات سے نصيحت۱

ہدايت:ہدايت نہ لينے كے اسباب ۱۶

ہدايت قبول نہ كرنے والے:۱۶;۱۷

آیت ۵۸

( وَرَبُّكَ الْغَفُورُ ذُو الرَّحْمَةِ لَوْ يُؤَاخِذُهُم بِمَا كَسَبُوا لَعَجَّلَ لَهُمُ الْعَذَابَ بَل لَّهُم مَّوْعِدٌ لَّن يَجِدُوا مِن دُونِهِ مَوْئِلاً )

آپ كا پروردگار بڑا بشخنے والا اور صاحب رحمت ہے وہ اگر ان كے اعمال كا مواخذہ كرليتا تو فوراً ہى عذاب نازل كرديتا ليكن اس نے ان كے لئے ايك وقت مقرر كرديا ہے جس وقت اس كے علاوہ يہ كوئي پناہ نہ پائيں گے (۵۸)

۱_ الله تعالى بہت بخشے والا اور وسيع رحمت كا مالك ہے _وربّك الغفور ذوالرحمة ''غفور'' مبالغہ كا صيغہ ہے اور ''الرحمة'' ميں ''الف لام'' كمال (صفات كى وسعت ميں )پردلالت كررہاہے لہذا ''ذوالرحمة'' يعني'' رحمت كا مل كا مالك'' يہ الله تعالى كى وسيع رحمت سے حكايت ہے_

۲_ الله تعالى كى بخشش اور رحمت اسكے مقام ربوبيت كا جلوہ ہيں _وربّك الغفورذوالرحمة''الغفور'' ہوسكتاہے ''ربّك'' كيلئے خبريا صفت ہو_

۴۶۸

۳_الہى آيات سے دور ى اختيار كرنے والوں كے اعمال، ان پرعذاب ميں تعجيل اور جلدى كاتقاضا كر رہے ہيں _

لويو اخذهم بما كسبوا لعجّل لهم العذاب _

اگرچاہيں كہ جملہ شرطيہ كے مضمون كويوں بيان كيا جائے كہ گذشتہ حالت كے علاوہ آيندہ كى حالت بھى بيان ہو، تو جملہ شرطيہ كى شر ط يا جزاء ميں سے ايك كومضارع اور دوسرے كو ماضى لے آئيں لہذا يہاں بھي''لو يو خذ و ا ھم ...لعجّل'' بيان كررہاہے كہ گذشتہ زمانے ميں اس طرح تھا اور آئندہ بھى يہى ہوگا_

۴_اللہ تعالى كى وسيع بخشش اور رحمت، ہدايت نہ پانے والے كفار كے جلد مواخذہ اور عذاب سے مانع ہے_

وربّك الغفور ذوالرحمةلويو اخذ هم بماكسبوالعجّل لهم العذاب

''يو ا خذہم'' ميں ضمير ''ہم'' كا مرجع گذشتہ آيت ميں '' من ذكّر'' ہے يعنى وہ جہنوں نے الہى آيات سے دورى اختيار كى اور ہميشہ كيلئے ہدايت نہ پانے كى ہلاكت ميں جا پڑے ہيں _

۵_ انسانوں پرالہى لطف اور رحمت، ہميشہ اس كے غضب پرمقدّم رہى ہے _

وربّك الغفور ذوالرحمةلويؤاخذهم بماكسبوا لعجّل لهم العذاب

جملہ''وربّك الغفور '' ''لويوا خذ ہم'' ميں مانع كى علت و سبب كے بہ منزلہ ہے يعنى اگر بعض كفارسے مواخذہ اوران پرعذاب ميں جلدى نہيں كى جاتى تو يہ پروردگار كى وسيع رحمت اور بخشش كى بناء پرہے اسى بناء بر الله تعالى كى بخشش ورحمت كا شامل حال ہونا ا س كے غضب اور عقاب كے شامل حال ہونے پر مقدم ہے يعنى اصل اوّلى يہاں رحمت كا شامل حال ہوناہے_

۶_گناہ گاروں كا مہلت پانا اور انكى سزاميں تا خير كا يہ مطلب نہيں ہے كہ وہ ہميشہ كيلئے عقوبت سے محفوظ ہوگئے ہيں _

لويو اخذهم ...بل لهم موعد لن يجدوا من دونه موئلا

۷_گناہ كاروں كوتوبہ كى طرف لانے كيلئے ،انہيں الله تعالى كى طرف سے مہلت كا عطاہونا، الہى ربوبيت كا ايك جلوہ ہے _

وربّك الغفور ذوالرحمة لويو اخذهم بماكسبوا لعجّل لهم العذاب بل لهم موعد

وہ آيات كہ جن ميں ہدايت قبول نہ كرنے والوں كى حالت اورا ن كے يقينى عذاب كى بات كى جارہى ہے انہى كے ضمن ميں اللہ تعالى كى رحمت وبخشش كا تذكر ہ، يہ پيغام اپنے دامن ميں ليے ہوئے ہے كہ بہر حال واپسى كا راستہ بند نہيں ہوا گناہ گا ر، ابھى ا س كى طرف لوٹ سكتاہے _

۴۶۹

۸_ انسان كے اعمال اسى كے ہاتھوں سے انجام پائے گئے افعال ہيں اور ا ن كا ردعمل اور نتيجہ بھى اسى كو ملے گا _

لويو اخذهم بماكسبو

۹_ آيات حق كے در مقابل مجادلہ كرنا اور ان سے دورى اختيار كرنا اور گناہوں سے غفلت يہ سب يقينى سزا كے موجب ہيں _ذكّر بايات ربّه فا عرض عنها بل لهم موعد

۱۰_بعثت كے زمانہ كے كفار كيلئے الله تعالى كى طرف سے عقوبت كانظام، ايك واضح نظام تھا كہ جس ميں زمانہ كے اعتبار سے ايك قطعى اور ناقابل تغيير وقت مقر ر تھا _بل لهم موعد لن يجدوا من دونه موئلا

بعد والى آيت كے قرينہ كى مدد سے ''لويؤأخذہم ' 'ميں مواخذ ہ سے مراد، دنيا ميں موا خذہ ہے اور جملہ ''بل لہم موعد'' اس وعدہ كے عملى صورت ميں متحقق كے ظہوركى طرف اشارہ ہے جو كہ بعثت كے كفّار پر صادق آتا ہے_

۱۱_گناہ كاروں كيلئے مہلت كے ختم ہونے اور عذاب كے واقع ہونے كے مقرّر شدہ وقتكے آنے پر، معمولى سى بھى پناہگاہ نہيں ہے _بل لهم موعدلن يجدوامن دونه موئلا

''موئل '' اسم مكان بمعنى ملجاء اور پناہ گاہ ہے '' من دونہ'' ميں ضمير ''موعد'' كى طرف لوٹ رہى ہے اور اس سے مراد، يہ ہے كہ كفار سوائے عذاب كے معين شدہ وقت كى طرف حركت كے اور كوئي راہ نجات نہيں پائيں گے ''موئلا'' كا نكرہ ہونا، نفى كى عموميت پر دلا لت كر رہا ہے يعنى گناہ گاروں كے لئے معمولى سى بھى پناگاہ نہيں ہوگي_

اسماء وصفات:ذوالرحمة۱;غفور۱

الله تعالى :الله تعالى كا غضب۵;اللہ تعالى كى بخشش ۱،۴;اللہ تعالى كى بخشش كے آثار۴;اللہ تعالى كى ربوبيت كى علامتيں ۲،۷;اللہ تعالى كى رحمت۱،۲;اللہ تعالى كى رحمت كا مقدم ہونا ۵;اللہ تعالى كى رحمت كے آثار ۴;اللہ تعالى كى سزائيں ۱۰;اللہ تعالى كى مہلتيں ۷/الله تعالى كى آيات :الله تعالى كى آيات سے دور ہونے والوں كو عذاب ۳;اللہ تعالى كى آيات سے دورى اختياركرنے والوں كى سزا ۹;اللہ تعالى كى آيات سے دورى كے آثار ۳; الله تعالى كى آيات سے مجادلہ كرنے والوں كى سزا۹

سزا:سزاكے اسبا ب ۹;سزاسے بچنا ۶

سزاكا نظام:

۴۷۰

صدر اسلام ميں سزاكانظام ۱۰

عذاب:عذاب ميں جلدى كے اسباب ۳

عمل :عمل كے آثار ۸;عمل كے ذمہ دار ۸

غفلت :كفار :صدر اسلام كے كفاركى سزا ۱۰; كفار كے عذاب ميں تعجيل سے مانع۴

گناہكا ر:گناہكاروں كا بے پناہ ہونا۱۱;گناہگاروں كو مہلت ملنا ۶،۷;گناہگاروں كى سزاميں تاخير ۶; گناہگاروں كے عذاب كا حتمى ہونا ۱۱

آیت ۵۹

( وَتِلْكَ الْقُرَى أَهْلَكْنَاهُمْ لَمَّا ظَلَمُوا وَجَعَلْنَا لِمَهْلِكِهِم مَّوْعِداً )

اور يہ وہ بستياں ہيں جنھيں ہم نے ان كے ظلم كى بنا پر ہلاك كرديا ہے اور ان كى ہلاكت كا ايك وقت مقرر كرديا تھا (۵۹)

۱_ الله تعالى نے گذشتہ امتوں كى بہت سى آباديوں كو ويران كيا اور ان ميں رہنے والے لوگوں كو ہلاك كرديا _

وتلك القرى اهلكنهم

۲_بعض گذشتہ امتوں كا ظلم اور كفر، الله تعالى كے تباہ وبر باد كرنے والے عذاب كے ساتھ انكى ہلاكت كا باعث بنا _

ا هلكنهم لمّا ظلموا

'' ظلموا '' ميں ظلم سے مراد گذشتہ آيات كے قرينہ كے ساتھ، الہى آيات سے دورى ہے _

گناہ سے غفلت كى سزا۹

۳_ كفر اور ظلم، امتوں كى تباہى اور ہلاكت كا باعث ہے_وتلك القرى ا هلكنهم لمّا ظلموا

۴_ انسانى معاشر وں كو انكے گناہ اور ظلم كى بناء پر تباہ و برباد كرنا، الله تعالى كا ظالموں كو سزا دينےكاپر ا نہ طريقہ كا رہے_

وتلك القرى اهلكنهم لمّا ظلموا

۵_ الہى آيات سے دورى اختيار كرنا ' انہيں سنى ان سنى كرنا اور اپنے گذشتہ گناہوں سے غفلت، ظلم اور امتوں كے زوال اور وبربادى كا موجب ہے _

۴۷۱

ومن ا ظلم ...وتلك القرى ا هلكنهم لمّا ظلموا

''لمّا ظلموا'' ميں ظلم سے مراد، اس آيت كے گذشتہ آيات سے ربط كى بناء پر وہى امور ہيں كہ جوآيت نمبر ۵۷ميں بيان ہوئے ہيں _

۶_ ہلاكت ميں ڈالنے والے عذاب كى لپيٹ ميں آنا، الله تعالى كى طرف سے زمانہ بعثت كے گناہ گاروں ، كفار اور ظالموں كو دھمكى تھى _وتلك القرى اهلكنهم لمّا ظلموا جعلنا لمهلكهم موعد

۷_ گذشتہ تباہ شدہ امتوں كے آثار قديمہ، زمانہ بعثت كے لوگوں كى پہنچ اور مشاہد ے ميں تھے _وتلك القرى اهلكنهم

كلمہ ''تلك '' اشارہ كيلئے ہے اور يہ بتارہا ہے كہ مخاطب، مشاراليہ كو جانتا ہے يا اسے جاننے كيلئے اس تك پہنچ سكتا ہے _

۸_ظالم امتوں كو دنياوى سزا دينے كيلئے الله تعالى كا سزا كا نظام طے شدہ اور ناقابل تغير مقررہ وقت ركھتا ہے _

وجعلنا لمهلكهم موعد

''مہلك ''مصدرميمى اور'' موعد ''اسم زمان ہے يعنى ظالموں كو ہلاك كرنے كيلئے ايك معين زمانہ طے كيا گيا ہے _

۹_ملتوں كى ہلاكت، ان كے ظلم وستم كے دائمى ہونے اور مہلتوں سے فائدہ نہ اٹھانے كا نتيجہ ہے _

تلك القرى اهلكنهم لمّا ظلموا وجعلنا لمهلكهم موعد

۱۰_ ظالم امتوں كى تباہى وبربادى والى تاريخ اور سر نوشت، آنے والوں كيلئے درس عبرت ہے _

وتلك القرى اهلكنهم لمّا ظلموا وجعلنا لمهكلهم موعد

۱۱_ تاريخى تبديلياں اورتہذيبوں اور معاشر وں كا زوال ،الہى ارادہ كى بناء پر ہے _القرى اهلكنهم ...وجعلنا لمهلكهم

الله تعالى :الله تعالى كى سزا ؤں كا قانون مطابق، ہونا ۸;اللہ تعالى كى سنتيں ۴; الله تعالى كے ارادہ كى حكومت ۱۱; الله تعالى كے انذار۶; الله تعالى كے عذاب ۱

الله تعالى كى آيات :الله تعالى كى آيات سے دورى اختياركرنے كے آثار ۵

الله تعالى كى سنتيں :عذاب كى سنت ۴

امتيں :امتوں كى بربا دى ۴;امتوں كى بربادى كے اسباب ۳،۵،۹;امتوں كى تاريخ ۱; امتوں كے زوال كے اسباب ۵; امتوں كے ظلم كے آثار ۹; تباہ شدہ امتوں سے عبرت ۱۰; تباہ شدہ امتوں كے آثار ۷

تاريخ :تاريخ سے عبرت ۱۰;تاريخى تبديليوں كا سرچشمہ ۱۱//تہذيبيں : تہذيبوں كے زوال كا سرچشمہ ۱۱

ڈراوا :عذاب سے ڈراوا ۶

۴۷۲

ظالمين:صدراسلام كے ظالمين كو ڈراوا ۶;ظالمين كو دى گئي مہلت كا بے اثر ہونا ۹; ظالمين كى سزا كا يقينى ہونا ۸

ظلم :ظلم كے آثار ۲،۳،۴; ظلم كے موارد ۵; ظلم ميں ہميشگى كے آثار ۹

عبرت :عبرت كے اسباب ۱۰//عذاب:دنياوى عذابوں كے اسباب ۲،۳،۴

غفلت :گذشتہ گناہوں سے غفلت كے آثار ۵

كفار :صدراسلام كے كفار كو ڈراوا ۶/كفر :كفر كے آثار ۲،۳

گذشتہ اتيں :صدراسلام ميں گذشتہ امتوں كے آثار قديمہ ۷; گذشتہ امتوں كى ہلاكت ۱; گذشتہ امتوں كى ہلاكت كے اسباب ۲; گذشتہ امتوں كے شہروں كى ويرانى ۱،۲;گذشتہ امتوں كے ظلم كے آثار ۲; گذشتہ امتوں كے كفر كے آثار ۲

گناہ :گناہ كے آثار ۴/گناہ گار :صدراسلام كے گناہ گاروں كو ڈراوا ۶

معاشرہ :معاشرتى ضرر كى پہچان۵

آیت ۶۰

( وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِفَتَاهُ لَا أَبْرَحُ حَتَّى أَبْلُغَ مَجْمَعَ الْبَحْرَيْنِ أَوْ أَمْضِيَ حُقُباً )

اور اس وقت كو ياد كرو جب موسى نے اپنے جوان سے كہا كہ ميں چلنے سے باز نہ آؤں گا يہاں تك كہ دو درياؤں كے ملنے كى جگہ پر پہنچ جاؤں يا يوں ہى برسوں چلتا رہوں (۶۰)

۱_ حضرت موسى (ع) نے حضرت خضر عليہ السلام كو پانے كيلئے راسخ عزم كے ساتھ، مجمع البحرين تك پہنچنے كيلئے سفر كا آغاز كيا _لا ا برح حتّى ا بلغ مجمع البحرين ''لا ا برح '' 'برح'' سے صيغہ متكلم ہے اس كا مطلب ہے''پيچھے نہيں ہٹوں گا'' يہ كسى كام كو انجام دينے ميں تا كيد پيدا كرنے كيلئے ہے _

۲_ حضرت موسى (ع) جناب خضر كو پانے كيلئے اپنے تحقيقى سفر ميں اپنے خادم حضرت يوشع (ع) كے ساتھ تھے _واذقال موسى لفتى ه لا ا برح ''فتي''سے مراد، جوان ہے اور قرآنى تعبيرات ميں اس سے مراد، غلام اور خادم بھى ليا گيا ہے_ تو يہاں ضرورى ہے كہ ذكر كريں كہ بعض منقولہ روايات كے مطابق حضرت موسى (ع) كے ہمراہ اور ہمسفر جناب يوشع بن نون(ع) تھے جو ا ن كے وصى تھے _

۳_حضرت موسى (ع) كى حضرت خضر (ع) سے ملاقات ميں درس آموز حقائق موجود ہيں _واذقال موسى لفتيه لا ا برح

۴۷۳

وہ عالم جن سے حضرت موسى (ع) نے ملاقات كى تھى روايات كے مطابق وہ حضرت خضر(ع) تھے اور حضرت موسى (ع) سے مراد،يہاں وہى معروف ومشہور پيغمبر(ص) ہے اگر چہ اس سلسلہ ميں يہاں اور بھى آراء سامنے آئي ہيں ليكن علامہ طباطبائي (رہ) كے بقول اس كى يہ دليل ہے كہ قران ميں حضرت موسى (ع) كا بہت ذكركياگيا ہے اگر يہاں كوئي اور موسى (ع) مراد ہوتا تو شبہ كو دور كرنے كيلئے قرينہ بھى موجود ہوتا _

۴_ حضرت موسى (ع) كا حضرت خضر (ع) كو تلاش كرنا، ايك قابل غور اورتوجہ كے لائق ،واقعہ ہے _

واذقال موسى لفتى ه لا ا برح ''اذ'' يہاں''اذكر'' فعل مقدر كا مفعول ہے _

۵_ حضرت موسى (ع) نے اپنے ہمسفر كو اپنے سفر كے طولانى ہونے كا احتمال ديا اور آدھى راہ سے پلٹنے كے احتمال كى نفى كى _واذقال موسى لفتى ه لا ا برح ...اوأمضى حقبا

۶_ حضرت موسى (ع) دودر ياؤ ں كے ملنے جگہ پر حضرت خضر كو پانے كے امكان سے آگاہ تھے _

لا ا برح حتّى أبلغ مجمع البحرين

۷_ اپنے اطاعت گزاروں اور ہمراہوں كو سفر كى آخرى منزل اور راستے كى احتمالى مشكلات سے آگاہ كرنا، سفر كے آداب ميں سے ہے _واذقال موسى لفتى ه لا ا برح حتّى أبلغ حضرت موسى (ع) نے اپنے ہمراہى كيلئے اپنى منزل اور وہاں تك پہنچے كيلئے اپنى ہمت وعزم كى مقدار بيان كى اور اانبياء(ع) كے كاموں كا قرآن ميں نقل ہونا، دو سروں كيلئے نصيحت ہوتى ہے اسى ليے مندرجہ بالا مطلب سامنے آيا ہے _

۸_حضرت موسى (ع) ، حضرت خضر (ع) سے ملاقات كو اتنا اہم اور قابل قدر سمجھتے تھے كہ ا س كى خاطر، طولانى مدت كى جستجو كيلئے تيار تھے _لا ا برح حتّى ...او أمضى حقب ''حقب'' يعنى لمباز مانہ اور مدت اہل لغت نے ا س كى مقدار، ۸۰سال تك بتائي ہے يہاں حقب چلنے سے مراد، وہى مجمع البحرين تك چلنا ہے يعنى عبارت يوں ہوگي'' حتّى أبلغ مجمع البحرين بسير قريب اوأسيرأزمان طويله''

۹_ مجمع البحرين كامقام، حضرت موسى (ع) كے رہنے كى جگہ سے بہت دور واقع تھا_لإبرح حتّى أبلغ مجمع البحرين أو أمضى حقب حضرت موسى (ع) كى تاكيد كہ منزل مقصود تك پہنچنے سے پہلے وہ سفر سے پيچھے نہيں ہٹيں گے چاہے كتنى ہى عمر،اس مقصد ميں خرچ ہو، يہ چيز بتارہى ہے كہ حضرت موسى (ع) كو اس مقام تك پہنچنے كيلئے لمبى راہ، دركا رتھى _

۴۷۴

۱۰_قيمتى اور بلند مقاصد كے حصول كيلئے پائدارى كى ضرورت ہو تى ہے_وإذقال موسى فتى ه لا ا برح ...أو أمضى حقبا

۱۱_ حضرت موسى (ع) اور حضرت خضر(ع) كى داستان، لوگوں كى ہدايت كى خاطر، قرآن كى مثالوں كے نمونوں ميں سے ہے _ولقد صرّفنا فى هذا الاقرآن للناس من كل مثل وإذقال موسى لفتيه لا ا برح

۱۲_عن أبى جعفر(ع) كان وصّى موسى بن عمران 'يوشع بن نون وهو فتاه الذى ذكر الله فى كتابه (۱)

امام باقر (ع) سے روايت ہوئي ہے كہ حضرت موسى (ع) بن عمران(ع) كے جانشين، حضرت يوشع بن نون(ع) تھے اور وہ وہى حضر ت موسى (ع) كے ہمراہ جوان تھے كہ جن كا الله تعالى نے قرآن ميں تذكرہ فرمايا ہے_

استقامت :مقدس ہدف كى خاطر استقامت ۱۰

خضر (ع) :خضر(ع) (ع) سے ملاقات ۳; خضر(ع) كا قصہ ۱،۶،۱۱; خضر(ع) كى خاطر جستجو ۱،۲،۴;خضر(ع) كے قصہ ميں تعليمات ۳

ذكر :خضر (ع) كے قصہ كا ذكر (ع) موسي(ع) كے قصہ كا ذكر ۴

روايت :۱۲

سفر :سفر كے آداب ۷

قرآن :قرآنى بيان كا مختلف ہونا ۱۱; قرآن كا ہدايت دينا ۱۱;قرآنى مثاليں ۱۱

مجمع البحرين :مجمع البحرين كا جغرافيائي محل وقوع ۹

موسى (ع) :خضر(ع) كے ساتھ موسي(ع) كى ملاقات كى اہميت ۸; موسى (ع) اور يوشع(ع) ۲; موسى (ع) كا راسخ عزم ۱; موسى (ع) كاسفر ۶;موسى (ع) كا قصہ ۱،۲،۵،۶،۱۱; موسى (ع) كا مجمع البحرين تك سفر ۱;موسى (ع) كى تلاش ۴; موسى (ع) كى خضر(ع) سے ملاقات ۳; موسى (ع) كى خضر(ع) سے ملاقات كا مقام ۶;موسى (ع) كى رائے ۸;موسى (ع) كے جانشين ۱۲; موسى (ع) كے خادم ۲; موسى (ع) كے سفر كا حتمى ہونا ۵; موسى (ع) كے قصہ ميں تعليمات ۳;موسى (ع) كے ہمسفر ۲،۵، ۱۲

____________________

۱) تفسير عياشى ج۲ ص۳۳۰ح۴۲، نورالثقلين ج۳ ص۲۷۲ ،ح۱۳۰_

۴۷۵

ہمسفر :ہمسفر كو منزل سے آگاہ كرنا ۷

يوشع :يوشع كا قصہ ۵;يوشع كى جانشينى ۱۲

آیت ۶۱

( فَلَمَّا بَلَغَا مَجْمَعَ بَيْنِهِمَا نَسِيَا حُوتَهُمَا فَاتَّخَذَ سَبِيلَهُ فِي الْبَحْرِ سَرَباً )

پھر جب دونوں مجمع البحرين تك پہنچ گئے تو اپنى مچھلى چھوڑ گئے اور اس نے سمندر ميں سرنگ بناكر اپنا راستہ نكال ليا (۶۱)

۱_ حضرت موسى (ع) اورانكے ہمسفردونوں درياؤں كے ملنے كى جگہ پر پہنچے اوروہاں انہوں نے قيام فرمايا _فلمّا بلغا مجمع بينهم

۲_ حضرت موسى '(ع) اور انكے ہمسفر مجمع البحرين تك پہنچتے وقت ايك مچھلى ،اپنے ہمراہ غذا كے طور پر ركھے ہوئے تھے _فلمّا بلغا مجمع بينهما نسيا حو تهما

''حوت '' يعنى ''مچھلي'' بعض نے اس سے مراد بڑى مچھلى لى ہے( ر،ك _ لسان العرب) بعد والى آيت ميں '' غذاء نا '' كے قرينہ سے معلوم ہوتا ہے كہ يہ مچھلى غذا كے ليے مہيا كى گئي تھي_

۳_ حضرت موسى (ع) ا ور انكے ہمراہى دونوں د رياوؤں كے ملنے جگہ پر پہنچتے وقت اپنے ساتھ ركھى ہوئي مچھلى سے غافل ہو گئے_فلما بلغا مجمع بينهما نسيا حو تهما

۴_ پيغمبروں كيلئے ممكن ہے كہ روز مرّہ كے امور ميں كسي چيز كو بھول جاہيں _نسيا حوتهما

۵_حضرت موسى (ع) كے ہمراہ بے جان مچھلي، مجمع البحرين ميں زندہ ہوگئي اور سرنگ كى مانند راستے سے گزرتى ہوئي دريا كے پانى ميں جاگرى _نسيا حوتهما فاتخذ سبيله فى البحر سربا

''اتخذ'' كا فاعل وہ ضمير ہے كہ جو ''حوت ''كى طرف لوٹ رہى ہے فعل كو مچھلى سے نسبت دينا بتارہا ہے كہ بے جان مچھلى نے جان پائي تھى ''سرب'' يعنى سوراخ ''سربا'' اس آيت ميں '' سبيل '' كيلئے حال ہے يعنى سرنگ كى مانند دريا ميں راستہ نكال ليا _

۶_عن أبى عبدالله (ع) قال : ...ا رسل ( اى موسى ) إلى يوشع إنى قد ابتليت خاضع لنا زاد اً وانطلق بنا ' واشترى حوتاً ...ثم شواه ثم حمله فى مكتل فقطرت قطرة من السّماء فى المكتل فاضطرب

۴۷۶

الحوت ثم جعل يثب من المكتل إلى البحر قال : وهو قول: واتخذسبيله فى البحر سرباً (۱)

امام صادق (ع) سے روايت ہوئي ہے كہ آپ نے فرمايا: حضرت موسى (ع) نے حضرت يوشع كو پيغام بھجوايا: كہ ميں آزمائش ميں مبتلا ء كيا گيا ہوں ہمارے ليے توشہ راہ فراہم كروا ور ہمارے ہمراہ چلو _ يوشع نے ايك مچھلى خريدى اور اسے بھونا اور زنبيل ميں ركھا پھر آسمان سے پانى كا ايك قطرہ زنبيل ميں ٹپكا ، جس سے مچھلى ميں حركت پيدا ہوئي اور وہ زنبيل سے اچھل كر دريا ميں جا گرى يہ الله تعالى كا كلام ہے كہ فرمارہا ہے _واتخذسبيلہ فى البحر سرب

انبياء (ع) :انبياء(ع) كا بھولنا ۴//روايت :۶

موسى (ع) :موسى (ع) كا بھولنا ۳; موسى (ع) كا سفر ۶; موسى (ع) كا طعام ۲،۳;موسى (ع) كا قصہ ۱،۲،۳،۶; موسى (ع) كى داستان ميں مچھلى كا زندہ ہونا ۵'،۶;موسى (ع) كى مچھلى كا قصہ ۳; موسى (ع) كے قصہ كى مچھلى كا فرار ہونا ۵،۶; موسى (ع) مجمع البحرين ميں ۱،۲،۳

يوشع :يوشع كا بھولنا ۳; يوشع كا سفر ۶; يوشع كا طعام ۲،۳; يوشع كا قصہ ۱،۲،۳; يوشع مجمع البحرين ميں ۱،۲،۳

آیت ۶۲

( فَلَمَّا جَاوَزَا قَالَ لِفَتَاهُ آتِنَا غَدَاءنَا لَقَدْ لَقِينَا مِن سَفَرِنَا هَذَا نَصَباً )

پھر جب دونوں مجمع البحرين سے آگے بڑھ گئے تو موسى نے اپنے جوان صالح سے كہا كہ اب ہمارا كھانا لاؤ كہ ہم نے اس سفر ميں بہت تكان برداشت كى ہے (۶۲)

۱_ موسى اورانكے ہمسفر مجمع البحرين ميں ٹھہرنے كے بعد حضرت خضر(ع) كى تلاش ميں دوبارہ چل پڑے اوراس جگہ كو پيچھے چھوڑديا _فلما بلغا مجمع بينهما ...فلّما جاوزا

حضرت موسى (ع) نے يوشع كے ساتھ اپنى گفتگوميں مجمع البحرين كواپنى آخرى منزل بتا يا تھا ليكن وہاں پہنچے كے بعد اس جگہ كو بھى عبور كرليا يہ عبور كرنا اور بعد والى آيات ميں حضرت موسى (ع) سے نقل ہونے والى گفتگو سے معلوم ہوتا ہے كہ وہ دونوں نہيں جانتے تھے كہ موسى (ع) كى مورد نظر منزل پر پہنچ چكے ہيں _

____________________

۱) تفسير عياشى ج۲ص۳۳۲ح۴۷، نورالثقلين ج۳ ص۲۷۷ ح۱۵۱_

۴۷۷

۲_حضرت موسى (ع) نے مجمع البحرين سے عبور كرنے اور اسے اپنے پيچھے چھوڑنے كے بعداپنے اور اپنے ہمراہى ميں شديد بھوك اور تھكاوٹ محسوس كى _ء اتنا غداء نا لقد لقينامن سفرنا هذا نصبا

''نصب'' سے مراد رنج اور سختى ہے _

۳_ موسى (ع) اور يوشع نے مجمع البحرين عبور كرنے كے بعد ،رات اور صبح سوير ے تك حضرت خضر(ع) كو پانے كيلئے لمباراستہ طے كيا _ءاتنا غداء نا

اس احتمال كے ساتھ كہ صبح كو حضرت موسى (ع) كو بھوك اور تھكاوٹ، رات كے لمبے سفر كى بناء پر محسوس ہو رہى تھى _

۴_ حضرت موسى (ع) ، حضرت خضر(ع) كے ديدار اور ملاقات كا بے حد اشتياق ركھتے تھے_

لا ا برح حتّى ...ء اتنا غداء نا لقد لقينا من سفر نا هذا نصبا

۵_ حضرت موسى (ع) نے مجمع البحرين سے گذزنے كے بعد دن كے آغاز ميں ہى اپنے ہمراہى سے چاشت كى غذ ا مہيا كرنے كى درخواست كى _ء اتنا غداء نا لقد لقينا من سفرنا هذا نصبا

''غدائ''سے مراد، وہ كھانا ہے جو دن كى پہلى ساعات ميں كھا يا جائے _

۶_ حضرت موسى (ع) كاہمراہي، عذا كے اٹھانے اور اسكے مہيّا كرنے كا ذمہ دار تھا _قال لفتى ه ء اتنا غداء نا

۷_ حضرت موسى (ع) اورانكے ہمراہ خدمتگزار نوجوان، اكٹھے ايك جيسى غذا كھا تے تھے _

ء اتنا غدا ء نا لقد لقينا من سفر نا هذا نصبا

پورى آيت ميں جمع والى ضمير يں بتارہى ہيں كہ ان كى اپنے ہم سفر سے تمام امور يہاں تك كہ كھانے ميں بھى ہم آہنگى اور يكجہتى تھى اگر ايسا نہ ہوتا تو پھر بعض ضمير يں مفرد آتيں ہيں مثلا يوں كہتے'' اتنى غدائي ''

۸_ كھانے ميں خادموں كے ساتھ شركت اور ان كے كوشش اور تھكاوٹ كو مد نظر ركھنا ضرورى ہے _

قال لفتى ه ء اتنا غداء نا لقد لقينا من سفرنا هذا نصبا

۹_ پيغمبر،جسمانى لحاظ سے اور مادى جہت سے دوسروں كى مانند، اوصاف ركھتے ہيں _

ء اتنا غدا ء نا لقد لقينا من سفر نا هذا نصبا

۱۰_ مقاصد كا حصول، كوشش كا محتاج ہے چا ہے پيغمبرہى كيوں نہ ہوں _لقد لقينا من سفرنا هذا نصبا

۴۷۸

آرزو:آرزوكے پورے ہونے كا پيش خيمہ ۱۰

انبياء:انبياء كا بشر ہونا ۹;انبيا ء كى آرزو ۱۰; انبياء كى مادى ضروريات ۹

خادم:خادم سے سلوك كا انداز ۸;خادم كى كوشش كو مد نظر ركھنا ۸

خضر(ع) :خضر كا قصہ ۴;خضر(ع) كى جستجو ۱;۳

كوشش :كوشش كے آثار ۱۰

معاشرت :معاشرت كے آداب ۸

موسى (ع) :موسي(ع) كا خادم ۷; موسي(ع) كا سفر ۱;۳;موسي(ع) كا طعام ۷;موسي(ع) مجمع البحرين ۱; موسي(ع) كا قصہ ۱،۲، ۳، ۴، ۵، ۶، ۷; موسي(ع) كا ہم سفر ۲;موسي(ع) كى بھوك ۲;موسي(ع) كى تھكاوٹ۲;موسي(ع) كى خضر سے ملاقات ۴،۱۴;موسي(ع) كا خواہشات ۵; موسي(ع) كى كوشش ۳; موسي(ع) كى محبتيں ۴;موسي(ع) كے طعام كا ذمہ دار۶;موسى (ع) كے ہم سفر كا كردار۶

يوشع(ع) :مجمع البحرين ميں يوشع ۱;يوشع سے ناشتے كى درخواست۵;يوشع كا سفر ۱; يوشع كا طعام ۷; يوشع كا قصہ ۱'،۲،۳،۵،۷;يوشع كاكردار ۶ ; يوشع كى بھوك ۲;يوشع كى تھكاوٹ ۲; يوشع كى كوشش ۳

آیت ۶۳

( قَالَ أَرَأَيْتَ إِذْ أَوَيْنَا إِلَى الصَّخْرَةِ فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَمَا أَنسَانِيهُ إِلَّا الشَّيْطَانُ أَنْ أَذْكُرَهُ وَاتَّخَذَ سَبِيلَهُ فِي الْبَحْرِ عَجَباً )

اس جوان نے كہا كہ كيا آپ نے يہ ديكھا ہے كہ جب ہم پتھر كے پاس ٹھہرے تھے تو ميں نے مچھلى وہيں چھوڑدى تھى اور شيطان نے اس كے ذكر كرنے سے بھى غافل كرديا تھا اور اس نے دريا ميں عجيب طرح سے راستہ بناليا تھا (۶۳)

۱_ حضرت موسى (ع) اور انكے ہم سفر نے مجمع البحرين ميں ايك بڑے ٹيلے كے قريب آرام كيا _

إذا ا وينا إلى الصخرة

۲_حضرت موسى (ع) اور يوشع كے ہمراہ موجود مچھلى دريا كے پانى ميں گھل مل گئي اور ان كے ہاتھوں سے نكل گئي _

واتخذ سبيله فى البحر عجب

۳_بے جامچھلى كا دريا كى جانب حركت كرنا اور ا س ميں گر جانا حضرت موسى (ع) كى آنكھ سے مخفى رہا ليكن ان كے خادم نے اسے ديكھ ليا تھا _ارء يت إذا أوينا إلى الصخرة فانى نسيت الحوت ...ان اذكره

۴۷۹

''أن أذكره'' ''ما إنسانيه'' كى ضمير مفعول سے بدل ہے لہذا جملہ كا مفاديہ ہے كہ مچھلى كا واقعہ آپ كيلئے بتانا شيطان نے مجھے بھلا ديا اس سے معلوم ہوا كہ جناب يوشع مچھلى كے قصہ سے با خبر تھے ليكن حضرت موسى (ع) اس سے بے خبر تھے _

۴_ حضرت موسى (ع) كے ہم سفر نے مجمع البحرين ميں آرام كرتے وقت حضرت موسى (ع) كو مچھلى كا قصہ بتانے ميں غفلت كى _قال ارء يت إذ ا وينا إلى الصخرة فإنّى نسيت الحوت

''صخرہ'' سے مراد بڑى چٹان ہے '' ا وينا إلى الصخرة '' يعنى ہم نے آرام كرنے كيلئے اس چٹان كے قريب جگہ منتخب كى _

۵_ حضرت موسى كے ہم سفر كو صبح سويرے حضرت موسى كے چاشت كى غذا مانگنے كے وقت، مچھلى كے دريا ميں جانے كا واقعہ ياد آيا _ء اتنا غداء نا ...'' قال ا رء يت ...فإنّى نسيت الحوت

۶_ حضرت موسى (ع) كے خادم نے حضرت موسى (ع) كو مچھلى كے قصہ سنانے ميں اپنى غفلت كى وجہ كو شيطانى تسلط قرار ديا _وما ا نسينه الا الشيطان أن أذكره

۷_ شيطان نے حضرت موسى (ع) اور حضرت خضر(ع) ميں ملاقات نہ ہونے كى كوشش كى _

فانّى نسيت ...وما انسينه إلّا الشيطان أن أذكره

حضرت موسى (ع) كے ہم سفر نے حروف حصر كواستعمال كرتے ہوئے اپنے بھولنے كوشيطان سے منسوب كيايعنى اسكے علاوہ كوئي اور وجہ نہ تھى تو اس سے يہ نتيجہ نكلا كہ شيطان پورى كوشش كررہا تھا كہ كسى بھى طرح حضرت موسى (ع) اور خضر(ع) ميں ملاقات نہ ہونے پائے _

۸_شيطان، انسان كے ذہن سے اہم ترين واقعات كو مٹانے كى قوت ركھتاہے _وما انسينه إلّا الشيطان ا ن أذكره

مچھلى كے زندہ ہونے كا واقعہ، بقول حضرت موسى (ع) كے ہم سفر كے ايك عجيب چيز تھى ليكن شيطان كے دخل دينے سے بھول گيا تو اس سے معلوم ہوا كہ شيطان، انسان پر بہت گہرا تسلط ركھتا ہے _

۹_حضرت موسى كا خادم،(يوشع )شيطان كى شرارت اوراسكے انسانى ذہن پر تسلط سے آگاہ تھا _ما انسينه إلّا الشيطان أن أذكره

۱۰_مچھلى كا پانى ميں مل جل كر حركت كرنا، حضرت موسى (ع) كے ہم سفر كى نظر ميں عادت سے ہٹ كر عجيب چيز

۴۸۰

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809

810

811

812

813

814

815

816

817

818

819

820

821

822

823

824

825

826

827

828

829

830

831

832

833

834

835

836

837

838

839

840

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863

864

865

866

867

868

869

870

871

872

873

874

875

876

877

878

879

880

881

882

883

884

885

886

887

888

889

890

891

892

893

894

895

896

897

898

899

900

901

902

903

904

905

906

907

908

909

910

911

912

913

914

915

916

917

918

919

920

921

922

923

924

925

926

927

928

929

930

931

932

933

934

935

936

937

938

939

940

941

942

943

944

945