تفسير راہنما جلد ۱۰

تفسير راہنما 4%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 945

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 945 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 247230 / ڈاؤنلوڈ: 3404
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱۰

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

۵_كوئي بھى انسان كسى دوسرے كے عمل كا بوجھ اپنے كندھوں پر نہيں اٹھائے گا _ولا تزرو وازرة وزر أخرى

''وزر'' سے مراد بھارى چيز ہے اور يہ يہاں گناہ سے كنايہ ہے_

۶_گناہ ،انسان كے كندھوں پر بھارى بوجھ ہے_ولاتزروازرة وزرأخرى

''وزر'' لغت ميں بھارى چيز كو كہتے ہيں (لسان العرب) اور اس لئے گناہ كو ''وزر'' كہا گيا ہے كہ اس كے نتائج بھى بھارى ہوتے ہيں _

۷_اعمال كى جزا كے نظام پرالہى عدل حاكم ہے_ولاتزر وازرة وزر ا خرى

۸_رسولوں كو بھيجنے اور اتمام حجت سے قبل لوگوں كو سزا نہ دينا ايك سنت الہى ہے_وماكنا معذبين حتّى نبعث رسولا

۹_انبياء كى بعثت كے اہداف ميں سے ايك ہدف لوگوں پر حجت تمام كرنا ہے_وما كنا معذبين حتّى نبعث رسولا

۱۰_كسى بھى عمل كى بدى اور ناجائز ہونے كے بيان سے پہلے اس عمل كى وجہ سے عقاب وعذاب دينا قبيح ہے_

وما كنّا معذبين حتّى نبعث رسولا

يہ كہ الله تعالى نے فرمايا ہے كہ '' ہم جب تك حقايق بيان كرنے كے لئے لوگوں كى طرف رسول نہيں بھيجتے انہيں عذاب وعقاب نہيں كرتے''_ يہاں احتمال يہ ہے كہ يہ قانون اس عقلى فيصلے كے مطابق ہو كہ ''بغير بيان كے عقاب قبيح اور ناپسند ہے''_

۱۱_گناہ گار امتوں پر اتمام حجت اور رسول كے بھيجنے كے بعد دنياوى عذاب كا نازل ہونا _

وماكنا معذبين حتّى نبعث رسولا

جملہ''ماكنا معذّبين حتّى نبعث رسولاً'' مطلق ہے كہ جو دنياوى عذاب كو بھى شامل ہے_

الله تعالى :الله تعالى كى جزائيں ۷;اللہ تعالى كى حاكميت وعدالت ۷;اللہ تعالى كى سنتيں ۸; الله تعالى كے عذابوں كى شرائط ۸;۱للہ تعالى كے عذاب ۷ ; الله تعالى كے عذابوں كا قانون كے مطابق ہونا ۱۱; الہى حجت كا اتمام ہونے كا كردار ۸، ۱۱

الله تعالى كى آيات:

۴۱

كائنات ميں الله تعالى كى نشانياں ۴;اللہ تعالى كى آيات واضح كرنے كافلسفہ ۴

الله تعالى كے رسول :الله تعالى كے رسولوں كا كردار ۸

اتمام حجت:اتمام حجت كى اہميت ۹

امتيں :گناہ گار امتوں كا دنياوى عذاب ۱۱

انبياء :انبياء كے ذريعے اتمام حجت ۱۱;انبياء كى بعثت كا فلسفہ ۹;انبياء كا كردار ۱۱

انسان :انسان كا اختيار ۳

جبر واختيار :۳

جزا كا مقام : ۷

خود:خود كو نقصان ۱

عمل :عمل كى ذمہ دارى ۵;ناپسند عمل ۱۰

فقہى قواعد :بلابيان عذاب كاقانون ۱۰

گمراہى :گمراہى اختيار ۳;گمراہى كا نقصان ۱ ، ۲

گناہ:دوسروں كے گناہوں كو تحمل كرنا ۵;گناہ كا بوجھ ۶

نصےحت :اعمال كے آخرت ميں محاسبہ كى نصيحت ۴

ہدايت:ہدايت ميں اختيار ۳;ہدايت كا پيش خيمہ ۴; ہدايت كے فوائد ۱ ، ۲

آیت ۱۶

( وَإِذَا أَرَدْنَا أَن نُّهْلِكَ قَرْيَةً أَمَرْنَا مُتْرَفِيهَا فَفَسَقُواْ فِيهَا فَحَقَّ عَلَيْهَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنَاهَا تَدْمِيراً )

اور ہم نے جب بھى كسى قريہ كو ہلاك كرنا چاہا تو اس كے ثروت مندوں پر احكام نافذ كردئے اور انھوں نے ان كى نافرمانى كى تو ہمارى بات ثابت ہوگئي اور ہم نے اسے مكمل طور پر تباہ كرديا (۱۶)

۱_كسى بھى معاشرہ كے امراء اور ثروت مند طبقہ كافسق وفجور اس معاشرہ كى تباہ بربادى كا سبب بنتا ہے_

وإذا ا ردنا ا ن نهلك قرية ا مرنا مترفيها ففسقوا فيه

''مترف'' مادہ ''ترفہ'' سے ليا گيا ہے اور ''ترفہ'' سے مراد بہت زيادہ رزق ونعمت ہے (مفردات راغب)

۴۲

۲_تاريخ اور انسانى معاشروں كے حوادث ،الہى ارادہ كے تحت ہيں _

وإذا ا ردنا ا ن نهلك قرية ا مرنا مترفيها ففسقوا فيها فدمرّنه

۳_آسائش وثروت سے مالا مال ہونا فسق فجور كى طرف ميلان كى پيش خيمہ ہے _أمرنا مترفيها ففسقوا فيه

معاشرہ كے تمام طبقات ميں سے فاسق و فاجر ہونے كے لئے ثروت مند طبقے كا ذكر ہونا حالانكہ فسق وفجور تمام لوگوں سے ہوسكتا ہے اس كا كسى خاص طبقہ سے تعلق نہيں ہے 'شايد اسى مندرجہ بالا نكتہ كى بنا پر ہے_

۴_ثروت مند اور صاحبان مال ومتاع دوسروں كى نسبت زيادہ نافرمانى خدا اور مخالفت حق كا شكارہيں _

ا مرنا مترفيها ففسقوا فيه مندرجہ بالا نتيجہ اس بناء پر ليا گيا ہے كہ ''ا مرنا'' كا مفعول ''بالطاعة'' كى مانندكوئي لفظ محذوف ہو تو اس صورت ميں آيت كا معنى يوں ہوگا كہ ہم معاشرہ كے ثروت مند طبقہ كو اطاعت وبندگى كا حكم ديتے ہيں _ ليكن وہ توقع كے بر خلاف فسق وفجور كى راہ كو اختيار كرتے ہيں _

۵_ارادہ الہى اسباب و مسببات كے تحت انجام پاتاہے_وإذا ا ردنا ففسقوا فيها فحقّ عليها القول

۶_كسى معاشرہ ميں فاسق وفاجر مالدار لوگوں كى تعداد كا بڑھنا پروردگار كى سنتوں كے مطابق اس معاشرہ كى تباہى كے اسباب ميں سے ہے_وإذا ا ردنا ا ن نهلك قرية ا مرنا مترفيها ففسقوا فيه

بعض كا خيال ہے كہ ''ا مرنا'' كثرنا كے معنى پر ہے _ (ہم نے مزيد بڑھايا ) (مفردات راغب) تو اس صورت ميں ''ا مرنا مترفيھا'' سے مراد ثروت مند طبقہ كا بڑھنا ہے _

۷_مالدار طبقہ كا فسق وفجور دوسرے طبقات كى گناہ و بربادى كى طرف رغبت ميں مؤثر اور اہم كردار ادا كرتا ہے_

ا مرنا مترفيها ففسقوا فيه

تمام طبقات ميں سے بالخصوص ثروت مند طبقے كا ذكر ہونا اس بات كو واضح كرتا ہے كہ دوسرے طبقات كى نسبت اس طبقہ كا گناہ ميں آلودہ ہونا ، معاشرہ كے بگڑنے اور تباہ ہونے ميں زيادہ مؤثر اور اہم كردار اداكرتا ہے_

۸_كوئي بھى معاشرہ اور اس كا تغير وتبدل واضح سنت وقانون كے مطابق ہے _وإذا ا ردنا ا ن نهلك ففسقوا فيها فدمّرنه

''قرية'' لغت ميں انسانوں كے مجموعہ كوكہتے ہيں (مفردات راغب) يہ كہ الله تعالى فرماتا ہے :

۴۳

جب معاشرہ كے مالدار لوگ فاسق ہوجاتے ہيں تو ان كے بارے ميں ہمارى بات يقينى ہوجاتى ہے '' فحقّ عليھا القول '' يہ اس بات كو بيان كررہاہے كہ معاشرہ كے تغيّرات واضح قانون كے حامل ہيں _

۹_انسانوں كے اعمال ان كى تباہى وبربادى ميں واضح كردار ادا كرتے ہيں _

وإذا ا ردنا ان نهلك قرية ففسقوا فيها فحق عليها القول فدمّرنه

۱۰_معاشرتى سطح پر نافرمانى الہى يقينى طور پر عذاب الہى كے نزول كا موجب ہے _فسقوا فيها فحقّ عليها القول

۱۱_نافرمان معاشرہ كا عذاب اس قدر شديد ہے كہ اس كى مكمل تباہى ونابودى كا سبب بنتا ہے_

ففسقوا فيها فحقّ عليها القول فدمّرنها تدميرا

۱۲_''عن أبى جعفر(ع) فى قول الله : ''إذا ا ردنا ا ن نهلك قرية ا مرنا مترفيها '' قال: تفسيرها ا مرنا ا كابرها'' (۱) امام باقر (ع) سے الله تعالى كى اس كلام :''ا ردنا ا ن نهلك قرية ا مرنا مترفيها'' كے حوالے سے روايت ہوئي ہے كہ آپ(ع) نے فرمايا : اس آيت كى تفسير يہ ہے كہ ہم اس علاقہ كہ بڑوں كو حكم كرتے ہيں ''_

آسائش پسند لوگ:آسائش پسند لوگوں سے مراد ۱۲; آسائش پسند لوگوں كا حق قبول نہ كرنا ۴;بدكار آسائش پسند طبقے كا كردار ۶/اسباب كا نظام : ۵

الله تعالى :الله تعالى كے احكام ۱۲;اللہ تعالى كى سنتيں ۶;الہى ارادہ كے جارى ہونے كى مقامات ۵; الہى ارادہ كى اہميت۲

تاريخ :تاريخ تبديليوں كا سرچشمہ ۲

حق:حق قبول نہ كرنے كا خطرہ ۴/عذاب:عذاب كے اسباب ۱۰;عذاب كے درجات ۱۱

عمل :عمل كے نتائج ۹/طبيعى اسباب:طبيعى اسباب كے اثرات۵

فساد:فساد كے معاشرتى نتائج ۷;فساد پھيلنے كے نتائج ۱۰

فسق:فسق كا پيش خيمہ۳;فسق كے معاشرتى نتائج ۷

گناہ:گناہ كا پيش خيمہ ۳

____________________

۱) تفيسر عياشي، ج ۲، ص ۲۸۴، ح ۳۵، نورالثقلين ج۳، ص ۱۴۴، ح ۱۰۹_

۴۴

مال :مال كے نتائج ۳

مالدار لوگ:فاسق مالدار لوگوں كا كردار ۶;مالدار لوگوں كا حق سے اعراض كرنا ۴;مالدار لوگوں كے فسق كے نتائج ۱;مالدار لوگوں كے فساد كے نتائج ۷;مالدار لوگوں كے گناہوں كے نتائج ۱

معاشرہ:معاشرہ كى تباہى كے اسباب ۱،۶; معاشرتى مشكلات كى پہچان ۱،۶، ۷; معاشرتى فساد كا پيش

خيمہ ۷;معاشرتى سنتيں ۸; فاسد معاشرہ كا عذاب ۱۱; معاشرتى تبديليوں كا قانون كے مطابق ہونا ۸;معاشرہ كا قانون كے مطابق ہونا ۸; معاشرتى فاسد كے نتائج ۱۱; فساد معاشروں كى ہلاكت ۱۱

ہلاكت :ہلاكت كے اسباب ۹

آیت ۱۷

( وَكَمْ أَهْلَكْنَا مِنَ الْقُرُونِ مِن بَعْدِ نُوحٍ وَكَفَى بِرَبِّكَ بِذُنُوبِ عِبَادِهِ خَبِيرَاً بَصِيراً )

اور ہم نے نوح كے بعد بھى كتنى امتوں كو ہلاك كرديا ہے اور تمھارا پروردگار بندوں كے گناہوں كا بہترين جاننے والا اور ديكھنے والا ہے (۱۷)

۱_زمانہ حضرت نوح(ع) كے بعد بہت سى امتيں اور اقوام اپنے فسق وفجور كى وجہ سے پروردگار كى مرضى ومنشاء كے ساتھ تباہ وبرباد ہوگئيں _ففسقوا وكم ا هلكنا من القرون

''قرن'' (قرون كا واحد) سے مراد وہ قوم ہے جو تقريباً ايك ہى زمانہ زندگى بسر كرے (مفردات راغب)

۲_حضرت نوح(ع) سے پہلے انسان وسيع اور عمومى تباہى كے عذاب سے دوچار نہيں ہوئے تھے_

وكم أهلكنا من القرون من بعد نوح

پروردگار نے پچھلى آيت ميں كافر اور بد كار اقوام كو ہلاك كرنے كے حوالے سے اپنى سنت كا ذكر فرمايا پھر اس حقيقت كو ثابت كرنے كے لئے قوم نوح(ع) اور اس كے بعد دوسرى اقوام كى ہلاكت كا ذكر كيا تو حضرت نوح (ع) كى داستان اور ان كے بعد كى اقوام كے واقعات سے معلوم ہوتا ہے كہ حضرت نوح(ع) سے پہلے كسى قوم كو مجموعى طور پر عذاب الہى سے دوچار نہيں ہونا پڑا_

۳_حضرت نوح (ع) سے پہلے لوگوں ميں وسيع اور عمومى فسق وفجور نہ تھا _وماكنا معذبين حتّى نبعث رسولاً_ وإذا ا ردنا ا ن نهلك قرية ا مرنا مترفيها ففسقوا وكم ا هلكنا من القرون من بعد نوح

۴۵

۴_انسانى تاريخ ميں عمومى فسق وفجور اور بڑے بڑے انحراف زمانہ نوح _ كے بعد واقع ہوئے_وكم أهلكنا من بعد نوح

۵_حضرت نوح(ع) كے بعد بہت سے معاشرے اور اقوام اپنے درميان موجود فاسق و فاسد آسائش پسند طبقہ كى بناء پر تباہى وبربادى سے دوچار ہوئيں _وإذا ا ردنا ا ن نهلك قرية ا مرنا مترفيها ففسقوا فيها وكم أهلكنا من القرون من بعد نوح

۶_حضرت نوح(ع) كے بعد انسان كى گروہى اور اجتماعى زندگى كے نئے دور كا آغاز_من القرون من بعد نوح

پروردگار نے پچھلى آيت ميں فرمايا'' بہت سے انسانى معاشروں كو آسائش پسند طبقہ كى بدكاريوں كے باعث ہم نے تباہ كيا'' اور اس آيت ميں حضرت نوح _ كے بعد والى اقوام كى ہلاكت كا تذكرہ ہوا ہے تو ان دونوں آيات سے معلوم ہوا كہ حضرت نوح (ع) سے پہلے معاشرتى زندگى ايسى نہ تھى كہ آسائش پسند مالدار لوگ موجود ہوں يا معاشرہ پر تسلط ركھتے ہوں ورنہ وہ اقوام بھى عذاب الہى سے دوچار ہوتيں _ پس حضرت نوح(ع) كے بعد اقوام كا عذاب سے دوچار ہونا بتلاتا ہے كہ ان كى اجتماعى زندگى ايسى تھى كہ عذاب سے دوچار ہونے كے بعد معاشرتى زندگى كا ايك نيادور شروع ہوچكا تھا_

۷_اللہ تعالى ،اپنے بندوں كے تمام گناہوں سے باخبر اور ان پر نگاہ ركھے ہوئے ہے_

وكفى بربّك بذنوب عباده خبيراً بصيرا

۸_بندوں كو عذاب سے دوچار كرنے كے ليے الله تعالى كا بندوں كے ظاہرى اور باطنى گناہوں سے باخبر ہونا ہى كافى ہے اس كومزيد كسى گواہ كى ضرورت نہيں ہے_وكفى بربّك بذنوب عباده خبيراً بصيرا

مندرجہ بالا نكتہ كلمہ ''خبير'' اور''بصير'' كے درميان فرق سے پيدا ہوا ہے چونكہ كلمہ ''خبير'' سے مراد افكار اور چيزوں كے باطن سے آگاہى ہے (مفردات راغب) اور ''بصير'' كردار واعمال سے مطلع ہونا ہے_

۹_گناہ گار لوگوں كو الله تعالى كى دھمكي_وكفى بربّك بذنو ب عباده خبيراً بصيرا

''كفى بربّك بذنوب عبادہ'' كے بعد خبير وبصير كا ذكر گناہ گاروں كے لئے دھمكى ہے _

۱۰_انسانى معاشروں كى بربادى كا حقيقى سبب گناہ ہے _كم أهلكنا من القرون وكفى بربّك بذنوب عباده خبيراً بصير

۱۱_سركش معاشروں كى نابودي، پروردگار كے ذريعہ از روئے علم و بصيرت ہے _وكم أهلكنا وكفى بربّك خبيراً بصير

۴۶

۱۲_فاسد اور سركش معاشروں كى از روئے علم وبصيرت تباہى الله تعالى كى ربوبيت كا تقاضا ہے_

وكم ا هلكنا وكفى بربّك بذنوب عباده خبيراً بصير

اسماء وصفات:بصير ۷ ; خبير ۷

الله تعالى :الله تعالى كا ارادہ ۱;اللہ تعالى كے افعال ۱۱;اللہ تعالى كى بصيرت ۱۱;اللہ تعالى كا ڈرانا ۹;اللہ تعالى كا علم ۱۲;اللہ تعالى كا علم غيب ۷، ۸; الله تعالى كے عذابوں كا قانون كے مطابق ہونا۱۱;اللہ تعالى كى ربوبيت كے نتائج ۱۲;اللہ تعالى كا نگاہ ركھنا ۷

امتيں :حضرت نوح(ع) كے بعد كى امتيں ۱; حضرت نوح (ع) سے پہلے كى امتيں ۲; حضرت نوح (ع) سے پہلے كى امتيں اور فساد ۳; حضرت نوح (ع) سے پہلے كى امتيں اور فسق ۳; حضرت نوح (ع) كے بعد كى امتوں كا فساد ۴;حضرت نوح (ع) كے بعد كى امتوں كا فسق ۴

انسان:انسانوں كے گناہ ۷;انسان كى معاشرتى زندگى ۶

پہلى امتيں :پہلى امتوں كے آسائش پسند ۵;پہلى امتوں كى تاريخ ۱، ۲، ۳، ۴، ۵; پہلى امتوں كے عذاب ۲;پہلى امتوں كے فاسق وفاجر ۵;پہلى امتوں كے فسق كے نتائج ۱;پہلى امتوں كے گناہ كے نتائج ۱;پہلى امتوں كى تباہى ۱، ۲، ۵

عذاب:عمومى عذاب ۲

گناہ :پوشيدہ گناہ ۸ ;گناہ كے نتائج ۱;گناہ كے معاشرتى نتائج ۱۰;واضح گناہ ۸

گناہ گار:گناہ گاروں كو ڈرانا ۹

معاشرہ:معاشروں كى ہلاكت كے اسباب ۱،۵; معاشرتى مشكلات كى پہچان ۵، ۱۰;سركش معاشروں كے عذاب كاپيش خيمہ ۱۲; فاسد معاشروں كے عذاب كا پيش خيمہ ۱۲;سركش معاشروں كى تباہى ۱۱

نوح (ع) :نوح (ع) كے بعد كا زمانہ ۶

۴۷

آیت ۱۸

( مَّن كَانَ يُرِيدُ الْعَاجِلَةَ عَجَّلْنَا لَهُ فِيهَا مَا نَشَاء لِمَن نُّرِيدُ ثُمَّ جَعَلْنَا لَهُ جَهَنَّمَ يَصْلاهَا مَذْمُوماً مَّدْحُوراً )

جو شخص بھى دنيا كا طلب گار ہے اور اس كے لئے جلدى جو چاہتے ہيں دے ديتے ہيں پھر اس كے بعد اس كے لئے جہنّم ہے جس ميں وہ ذلّت و رسوائي كے سا تھ داخل ہوگا (۱۸)

۱_دنيا كى طلب، انسان كے جہنم كى آگ ميں جانے كا سبب ہے _من كان يريد العاجلة جعلنا له جهنم

۲_نقد مانگنا، جلد بازى كرنا اور دور انديشى سے بے بہرہ ہونا ' دنيا طلبى اور آخرت سے غفلت كى بنياد ہے_

من كان يريد العاجلة

كلمہ ''عاجلہ'' جو كہ مادہ عجلہ (كسى چيز كو جلد بازى سے چاہنا) سے ہے كا ''الدنيا '' كى جگہ استعمال ہونا بتاتا ہے كہ مال دنيا كا نقد ہونا اور اس كا سريع حصول دنيا كے طلبگاروں كے ليے اس كے حصول ميں بہترين كردار ادا كرتا ہے_

۳_طبيعى اسباب الله تعالى كى مشيت وارادہ كے تحت ہيں _من كان يريد العاجلة عجلّنا له فيها ما نشائ

دنيا كے طالب اپنى خواہشات كو طبيعى اسباب كے ذريعے حاصل كرتے ہيں اور الله تعالى نے ان كے لئے دنياوى فائدوں كے حصول كو اپنى طرف نسبت دى ہے يہ نسبت بتاتى ہے كہ طبيعى اسباب الله تعالى كے تحت ہيں _

۴_الله تعالى دنيا كے طالب لوگوں كى بعض خواہشات كودنيا ميں پورا كرتا ہے اور انہيں ان سے فائدہ اٹھانے كى اجازت ديتا ہے _من كان يريد العاجلة عجلّنا له فيه

۵_دنيا كے طالب صرف اپنى بعض دنياوى خواہشات كو پاتے ہيں نہ كہ تمام خواہشات كو_

من كان يريد العاجلة عجلّنا فيها ما نشاء

الله تعالى نے دنيا كے طالب لوگوں كا اپنى آرزؤں كے پانا كو اپنى مشيت سے نسبت دى ہے'' مانشائ'' يہ بتا تا ہے كہ وہ لوگ اپنى تمام تر خواہشات كو نہيں پورا كرسكتے مگر اس قدر پورا كرسكتے ہيں كہ جتنا پروردگار چاہتا ہے_

۶_تمام دنيا كے طالب لوگ دنياوى فائدوں كو حاصل نہيں كرسكتے _من كان يريد العاجلة عجلّنا له لمن نريد

۷_بعض دنيا كے طالب لوگ دنيا وآخرت دونوں سے محروم ہيں _من كان يريد العاجله عجلّنا لمن نريد ثم جعلنا له جهنّم

۴۸

''جعلنا لہ جھنم'' ميں ''لہ'' كى ضمير ''من كان ...'' ميں ''من'' كى طرف لوٹ رہى ہے يعنى جو بھى دنيا كے پيچھے بھاگتاہے_ ان كا ٹھكانہ دوزخ ہے اگر چہ بعض دنياوى آرزؤں كو مشيت خدا سے پاليسى يا ان ميں ناكام رہيں _لہذا جو بھى اگر چہ اپنى دنياوى خواہشات كو پورا نہ كرسكيں آخرت ميں جہنمى وہ ہيں اور دنيا و آخرت دونوں سے محروم ہيں _

۸_دنيا كے طالب لوگ آخرت ميں جسمانى عذاب كے علاوہ روحى عذاب ميں بھى مبتلاء ہونگے_

ثم جعلنا له جهنم يصلها مذموماً مدحورا

''يصلاھا'' (جہنم كى آگ ميں جلے گا) يہ عذاب جسمانى كى طرف اشارہ كر رہا ہے_ ''مذموماً مدحوراً'' (مذمت شدہ اور راندہ ہوئے) يہ عذاب روحى كى طرف اشارہ ہے_

۹_دنيا كے طالب، آخرت ميں قابل مذمت ہونگے اور رحمت خدا سے محروم اور دھتكارے ہوئے ہونگے_

من كان يريد العاجلة ثم جعلنا له جهنم يصلها مذموماً مدحوراً_

۱۰_''عن إبن عباس ا ن النبي(ص) قال: معنى الا ية من كان يريد ثواب الدنيا بعمله الذى افترضه الله عليه لا يريد به وجه الله والدار الا خر عجّل له فيها ما يشاء الله من عرض الدنيا وليس له ثواب فى الا خرة وذالك ان اللّه سبحانه وتعالى يؤتيه ذلك ليستعين به على الطاعة فيستعمله فى معصية اللّه فيعا قبه اللّه عليه (۱) ابن عباس سے راويت ہوئي ہے كہ رسول الله (ص) نے فرمايا كہ آيت''من كان يريد العاجلة عجّلنا له فيها ما يشائ'' كا معنى يہ ہے كہ جو ان اعمال كے انجام دينے سے كہ جنہيں الله تعالى نے اس پرواجب كيا ہے الله كا تقرب اور آخرت نہ چاہے بلكہ دنياوى فائدے مانگے تو دنيا ميں جو الله تعالى چاہے گا اسے دنياوى نعمتيں دے گا اور آخرت ميں اس كا كوئي حصہ نہيں ہے كيونكہ الله تعالى نے جو كچھ اسے ديا تھا اس لئے كہ اطاعت الہى ميں اس كى مدد ہو ليكن اس نے اسے الله كى معصيت ميں استعمال كيا اس لئے الله تعالى اسے عذاب دے گا_

آخرت:

____________________

۱)مجمع ابيان ج ۶ ص ۶۲۷نورالثقلين ج۳ ص ۱۴۵ح ۱۱۴

۴۹

آخرت سے محروم لوگ ۷

الله تعالى :الله تعالى كے ارادہ كى حاكميت ۳ ;اللہ تعالى كى مشيت كى حاكميت ۳

الله تعالى كى درگاہ سے راندے ہوئے : ۹

جزا:اخروى جزا سے محروميت ۱۰

جہنم:جہنم جانے كے اسباب ۱

جلد بازي:جلد بازى كے نتائج ۲

دنيا:دنيا سے محروم لوگ ۷

دنيا كے طالب لوگ:دنيا كے طالب لوگوں كى آخرت سے محروميت ۹;دنيا كے طالب لوگوں كى اخروى مذمت ۹;دنيا كے طالب لوگوں كا آخرت ميں عذاب ۸;دنيا كے طالب لوگوں كى آرزؤں كاپورا ہونا ۴_۵; دنيا كے طالب لوگوں كى دنياوى سہولتيں ۶;دنياكے طالب لوگوں كا روحى عذاب ۸; دنيا كے طالب لوگوں كى محروميت ۷; دنيا كے طالب لوگوں كے فائدے ۶

دنيا كى طلب:دنياوى طلب كى بنياد ۲;دنيا كى طلب كے نتائج ۱

رحمت:رحمت سے محروم لوگ ۹

روايت : ۱۰

طبيعى اسباب:طبيعى اسباب كا مسخرہونا ۳

عذاب:عذاب كے اہل لوگ ۸

عمل :عمل كى دنياوى جزا ۱۰

غفلت :آخرت سے غفلت كى بنياد

نافرماني:نافرمانى كا عذاب ۱۰

۵۰

آیت ۱۹

( وَمَنْ أَرَادَ الآخِرَةَ وَسَعَى لَهَا سَعْيَهَا وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولَئِكَ كَانَ سَعْيُهُم مَّشْكُوراً )

اور جو شخص آخرت كا چاہنے والا ہے اور اس كے لئے ويسى ہى سعى بھى كرتا ہے اور صاحب ايمان بھى ہے تو اس كى سعى يقينا مقبول قرار دى جائے گى (۱۹)

۱_آخرت كاطالب وہ مؤمنين جو اپنے اخروى مقاصد كے لئے سنجيدگى سے كوشش كرے تو وہ اپنى اس كوشش كے قيمتى نتائج پاليں گے_و من ا راد الا خرة كان سعيهم مشكورا

۲_اخروى فائدوں اور نعمتوں كا حصول اس راہ ميں انسان كى وافر جد و جہد وكوشش سے مشروط ہے_

ومن ا راد الا خرة وسعى لها سعيها وهو مؤمن فا ولئك كان سعيهم مشكوراً _

يہ عبارت ''وسعى لھا سعيھا'' جملہ ''من ا راد الا خرة''كے لئے شرط كى مانند ہے يعنى اگر كوئي طالب آخرت ہے بشرطيكہ اس كے لئے كافى زحمت كى ہو تو وہ آخرت سے بہرہ مند ہوگا_

۳_آخرت كے لئے كوشش ايمان كى صورت ميں فائدہ مند ہے_

ومن ا راد الا خرة وسعى لها سعيها وهو مؤمن فا ولئك كان سعيهم مشكورا

و جملہ ''وہو مؤمن'' سعى كى ضميركے لئے حال ہے جو درحقيقت آخرت كى طلب اور اسكے لئے كوشش كى شرط بيان كر رہا ہے_

۴_انسان كى اپنى چاہت اور كوشش اس كى اخروى سعادت اور بدبختى ميں فيصلہ كن كردار ادا كرتى ہے_

من كان يريد العاجلة جعلنا له جهنّم ومن ا راد الأخرة وسعى لها سعيها فا ولئك كان سعيهم مشكور

۵_دنيا كے طالب لوگوں كى ممكنہ شكست اور ناكامى كے برخلاف آخرت كے طالب لوگوں كے اخروى فائدے يقينى اور ضمانت شدہ ہيں _ومن يريد العاجلة مانشاء لمن نريد ومن أراد الأخرة كان سعيهم مشكورا

۶_آخرت كى زندگى دنيا سے برتر زندگى ہے اور اس كا حصول تمام مؤمنين كا مقصد ہونا چاہئے_

من كان يريد العاجلة ومن أراد الأخرة كان سعيهم مشكورا

دنيا كے طالب لوگوں كے مدمقابل آخرت كے طالب لوگوں كى كوشش اور زحمت كا الله تعالى كى طرف سے قدردانى

۵۱

مندرجہ بالا حقيقت كى وضاحت كر رہى ہے_

۷_نيك كام كا شكريہ اور قدردانى پروردگار كا شيوہ ہے_ومن أراد الا خرة فا ولئك كان سعيهم مشكورا

۸_فقط وہ زحمت وكوشش ہى اہميت كى حامل اور قابل تعريف ہے جو آخرت كى طلب اور عظےم زندگى كے حصول كى راہ ميں كى جائے_من كان يريد العاجلة ومن ا راد الأخرة كان سعيهم مشكورا

يہ كہ الله تعالى نے انسانوں ميں دنيا كى طلب اور آخرت كى طلب كا ذكر كرنے كے بعد آخرت كے طالب لوگوں كى زحمت وكوشش كا شكريہ اور تعريف كى ہے اس سے معلوم ہواكہ صرف وہ زحمت وكوشش ہى قدردانى اور تعريف كے قابل ہے كہ جو عظيم اخروى زندگى كے حصول كى راہ ميں ہو نہ كہ ہر قسم كى كوشش اور زحمت _

آخرت:آخرت كے لئے كوشش ۳

آخرت كے طالب لوگ:آخرت كے طالب لوگوں كى جزا ۱; آخرت كے طالب لوگوں كى جزا كا يقينى ہونا ۵

آخرت كى چاہت :آخرت كى چاہت كى اہميت ۶، ۸

ارادہ :ارادہ كے نتائج ۴

اہمتيں :اہميتوں كامعيار ۸

ايمان :ايمان كے نتائج ۲

دنيا كے طالب لوگ:دنيا كے طالب لوگوں كى شكست ۵

زندگي:اخروى زندگى كى اہميت ۸;اخروى زندگى كى قدروقيمت۶;دنياوى زندگى كى قدرو قيمت ۶

سعادت :اخروى سعادت كے اسباب ۴

شقاوت :اخروى شقاوت كے اسباب ۴

شكريہ :شكريہ كى اہميت ۷

عمل:پسنديدہ عمل ۷

۵۲

كوشش:كوشش كى اہميت ۸; كوشش كى جزاء ۳; كوشش كے نتائج ۱،۲، ۴

مؤمنين :مؤمنين كى جزاء ۱;مؤمنين كا مقصد ۶

نعمت:نعمت كے حصول كى شرائط ۲;اخروى نعمات كے حصول كى شرائط ۲

آیت ۲۰

( كُلاًّ نُّمِدُّ هَـؤُلاء وَهَـؤُلاء مِنْ عَطَاء رَبِّكَ وَمَا كَانَ عَطَاء رَبِّكَ مَحْظُوراً )

ہم آپ كے پروردگار كى عطا و بخشش سے ان كى اور ان كى سب كى مدد كرتے ہيں اور آپ كے پروردگار كى عطا كسى پر بند نہيں ہے (۲۰)

۱_تمام انسانوں (خواہ دنيا كے طالب ہوں ياآخرت كے طالب ) كا دنياوى نعمتوں اور فائدوں سے مسلسل بہرہ مند ہونا سنت الہى ہے_كلاً نمدّ و هؤلاء من عطاء ربّك

''امداد'' (نمدّ كا مصدر) كا معنى مددكرنا ہے اور فعل مضارع نمدّ استمرار زمان پر دلالت كرتا ہے_

۲_دنيا ميں الله تعالى كے الطاف اور بخشش كے احاطہ ميں تمام انسانوں ، مؤمن ،كافر ،نيك اور بدكار كا شامل ہونا _

كلاً نمدّ و هؤلاء من عطاء ربّك

۳_دنياوى نعمتوں كا ميّسر ہونا ايمان اور آخرت كي چاہت كے ساتھ منافات نہيں ركھتا_

ومن أراد الأخرة كلاً نمد و هؤلاء و هؤلاء من عطاء ربّك

يہ جو الله تعالى نے فرمايا : ''آخرت كى طلب ركھنے والوں كو اپنى بخشش (دنياوى نعمتوں ) سے بہرہ مند كرتے ہيں '' سے معلوم ہوتا ہے كہ آخرت كى طلب اور اخروى زندگى كى خاطر كوشش كرنا دنياوى نعمتوں كے ميّسر ہونے سے منافات نہيں ركھتا_

۴_نعمتيں اور مادى سہولتيں الله تعالى كے الطاف اور بخشش ہيں اور يہ سب كچھ انسانوں كى مدد كرنے كے لئے ہيں _

كلاً نمدّ من عطاء ربّك

۵_انسانوں پر مسلسل بخشش اور فيض ،اللہ كے مقام

۵۳

ربوبيت كا تقاضا ہے _كلاً نمدّ هو لائ وهو لائ من عطاء ربك

۶_الله تعالى انسانوں كى طرف بخشش كے حوالے سے كوئي محدوديت ركھتاہے اور نہ كوئي ركاوٹ_

وماكان عطاء ربّك محظورا

۷_تمام انسان خواہ وہ نيك ہوں يا بدكار خواہ مؤمن ہوں يا كافر سب كو الله تعالى كى طرف سے بخشش اور دنياوى سہولتيں ميّسر ہونا اس كے ابدى و ازلى فيض كى بنياد پر ہے_كلاً نمدّ هؤلائ وهؤلائ من عطائ ربك وماكان عطاء ربك محظورا

جملہ ''وماكان عطاء ربك محظوراً'' اس آيت ميں گذشتہ جملے كى علت بيان كر رہا ہے _ يعنى چونكہ الله تعالى اپنى بخشش سے كسى كو منع نہيں كرتا _ لہذا نيك و بداور مؤمن و كافر سب اس سے بہرہ مند ہوتے ہيں _

آخرت كے طالب لوگ:آخرت كے طالب لوگوں كى نعمتيں ۱

آخرت كى طلب :آخرت كى طلب اور دنياوى نعمتيں ۳

الله تعالى :الله تعالى كى سنتيں ۱;اللہ تعالى كے لطف كا عام ہونا ۲;الله تعالى كى بخشش كا مسلسل ہونا ۵;اللہ تعالى كا لطف ۴;اللہ تعالى كا مدد كرنا ۴; الله تعالى كى ربوبيت كے نتائج ۵;اللہ تعالى كے فيض كے نتائج ۷;اللہ تعالى كى بخشش كا وسيع ہونا ۶

الله تعالى كا لطف:الله تعالى كے لطف كے شامل حال لوگ ۴

ايمان:ايمان اور دنياوى نعمتيں ۳

دنيا كے طالب لوگ:دنيا كے طالب لوگوں كى نعمتيں ۱

نعمت :نعمت كے شامل حال لوگ ۱، ۲،۳;نعمت كى بنياد ۷

آیت ۲۱

( انظُرْ كَيْفَ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ وَلَلآخِرَةُ أَكْبَرُ دَرَجَاتٍ وَأَكْبَرُ تَفْضِيلاً )

آپ ديكھئے كہ ہم نے كس طرح بعض كو بعض پر فضيلت دى ہے اور پھر آخرت كے درجات اور وہاں كى فضيلتيں تو اور زيادہ بزرگ و برتر ہيں (۲۱)

۱_الله تعالى كى طرف سے انسانوں كے دنياوي

درجوں ميں فرق كى طرف غوروفكر كرنے اور درس عبرت لينے كى دعوت _انظر كيف فضّلنا بعضهم على بعض

۵۴

۲_بعض انسانوں كى بعض پر مرتبہ ميں برترى اور ان كے مادى درجوں ميں فرق الله تعالى كے ارادہ كے تحت ہے_

فضّلنا بعضهم على بعض

۳_تمام انسانوں كو الله تعالى كا فيض اور عطا ايك جيسى نہيں ہے _

كلاً نمدّ هؤلائ وهؤلائ من عطاء ربّك انظر كيف فضّلنا بعضهم على بعض

۴_اخروى مراتب و فضائل دنياوى درجات سے كہيں زيادہ برتر اور بلند ہيں _وللا خرة ا كبر درجات وأكبر تفضيلا

۵_انسانوں ميں دنياوى نعمتوں اور سہولتوں كے حوالے سے فرق ان كے اخروى درجات كے تفاوت كى عكاسى كررہاہے_انظر كيف فضّلنا بعضهم وللا خرة أكبر درجات

۶_اخروى درجات اور امتيازات كے فرق كے حوالے سے انسان كى كوشش ايك واضح كردار اداكرتى ہے_

من كان يريد العاجلة ومن ا راد الا خرة و سعى لها فضّلنا بعضهم على بعض وللا خرة أكبر درجات وا كبرتفضيلا

يہ كہ الله تعالى نے پچھلى آيات ميں فرمايا : ''آخرت كے طالب لوگوں كو ان كى آخرت كى چاہت كے حوالے سے كوشش كے مطابق جزا دى جائے گى '' اور اس آيت ميں فرما رہا ہے كہ آخرت كے درجات دنيا كى نسبت وسيع اور عظيم ہيں _ اس سے معلوم ہوتا ہے كہ آخرت كے بلند وبالا درجات كے حصول كے لئے ا سكے مطابق كوشش ضرورى ہے _

۷_آخرت كے مراتب كى عظمت پر توجہ اس كى بلند و بالا قدروقيمت كى طرف ميلان كى بناء پر ہے _

انظر وللا خرة اكبر درجات واكبر تفضيلا

الله تعالى كى انسانوں كو بلند ترين اخروى درجات ميں غوروفكر كى دعوت اس حوالے سے بھى ہوسكتى ہے كہ انسانوں ميں آخرت كى طلب اور اس كے عالى ترين درجات كے حصول كا انگيزہ پيدا ہو_

۸_قيامت كے دن آخرت كے طالب مؤمنين بہت عظےم مقام پر فائز اور عالى ترين درجات كے حامل ہونگے_

ومن ا راد الا خرة وسعى لها سعيها وهو مؤمن وللا خره ا كبر درجات وأكبرتفضيلا

۹_''عن النبى (ص) قال:''مامن عبد يريد ا ن يرتفع فى الدنيا درجة فارتفع إلّاوضعه اللّه فى الا خرة درجة ا كبر منها وا طول ثم قرء : وللا خرة ا كبر درجات وا كبر تفضيلاً _(۱)

____________________

۱) الدرالمنشور ج ۵ ص ۲۵۷_

۵۵

پيغمبر اسلام (ص) سے روات ہوئي ہے كہ آپ (ص) نے فرمايا :'' كوئي شخص ايسا نہيں ہے كہ جو چاہے كہ دنيا ميں كسى درجہ كے اعتبار سے ترقى كرے اور اسے حاصل بھى كرے مگر يہ كہ الله تعالى نے جو ا س كے لئے آخرت ميں دنياوى درجہ سے بڑھ كر اور وسيع درجہ قرار دياہے اس سے محروم كرے گا_ پھر آپ (ص) نے اس آيت كى تلاوت فرمائي :''وللا خرة أكبر درجات وا كبر تفضيلاً''

۱۰_''عن ا بوعمرو الزبيرى عن أبى عبدالله (ع) قال: قلت له : ''إن للايمان درجات و منازل ...؟ قال نعم، قلت له: صفه لي قال: ثم ذكر ما فضّل اللّه عزّوجلّ به أوليائه بعضهم على بعض فقال عزّوجلّ ''انظر كيف فضّلنا بعضهم على بعض وللأخرة أكبر درجات و أكبر تفضيلاً'' فهذا ذكر درجات الايمان ومنازله عنداللّه عزّوجلّ _(۱)

ابو عمر زبيرى كہتے ہيں كہ ميں نے امام صادق (ع) كى خدمت ميں عرض كيا: كيا ايمان كے بھى مراتب اور منزليں ہيں ؟ حضرت (ع) نے فرمايا : ہاں تو ميں نے عرض كيا مجھے بتائيں تو فرمايا : پس (قرآن نے) وہ چيز كہ جس كے ذريعے الله تعالى نے اپنے بعض اولياء كو بعض پربرترى دى ہے اسے بيان كيا اور فرمايا :'' انظر كيف فضّلنا بعضهم على بعض وللا خرة أكبر درجات وأكبر تفضيلاً '' پس يہ الله تعالى كے نزديك ايمان كے مراتب ومنازل ہيں _

آخرت كے طالب لوگ:آخرت كے طالب لوگوں كے اخروى مقامات ۸

الله تعالى :الله تعالى كا ارادہ ۲;اللہ تعالى كى دعوتيں ۱

الله تعالى كا لطف:الله تعالى كے لطف كے شامل حال لوگوں ميں فرق ۳

انسان:انسانوں ميں اقتصادى فرق ۲، ۵; انسانوں ميں اخروى مراتب ۷;انسانوں ميں فرق كى بنياد ۲;انسانوں ميں فرق سے عبرت ۱; انسانوں كے فرق ميں مطالعہ ۱; انسانوں كے اخروى اختلافات كى نشانياں ۵

اہميتيں :اخروى مقامات كى اہميت ۴;دنياوى مقامات كى اہميت ۴

ايمان :ايمان كے مراتب ۱۰

تدبّر:تدبّر كى اہميت ۱//ذكر:آخرت كے ذكر كے نتائج ۷

روايت:۹ ،۱۰//عبرت:عبرت كے اسباب ۱;عبرت كى اہميت ۱

____________________

۱) كافى ج ۲، ص ۴۱، ح۱، بحارالانوار ج ۲۲، ص ۳۰۹، ح ۹_

۵۶

كوشش:كوشش كى اہميت ۶; كوشش كے نتائج ۶

مقامات:اخروى مقامات۹;اخروى مقامات ميں مؤثر اسباب ۶;دنياوى مقامات كے نتائج ۹

مؤمنين :مؤمنين كے اخروى مقامات ۸;مؤمنين كے مقامات كے درجات ۱۰

ميلانات :اہميتوں كى طرف ميلان كا سرچشمہ ۷

نعمت:نعمت كے شامل حال لوگوں ميں فرق ۳

آیت ۲۲

( لاَّ تَجْعَل مَعَ اللّهِ إِلَـهاً آخَرَ فَتَقْعُدَ مَذْمُوماً مَّخْذُولاً )

خبردار اپنے پروردگار كے ساتھ كوئي دوسرا خدا قرار نہ دينا كہ اس طرح قابل مذمّت اور لاوارث بيٹھے رہ جاؤ گے اور كوئي خدا كام نہ آئے گا (۲۲)

۱_الله تعالى كا انسانوں كو الله كے سوا كسى اورمعبود پر عقيدہ ركھنے اور اسے الله تعالى كے ساتھ شريك ومؤثر ماننے پر خبردار كرنا_لا تجعل مع اللّه إلهاً ء اخر

۲_انسانوں كى تخليق ، جزا، سزا اور نعمتوں كے عطا كرنے ميں الله تعالى كى وحدانيت كا تقاضا ہے كہ عقيدہ وعمل ميں ہر قسم كے شرك سے پرہيز كياجائے_وجعلنا الّيل والنهار وكلّ انسان ا لزمناه طائره لاتجعل مع اللّه إلهاً ء اخر

مندرجہ بالا مطلب دو نكات كى طرف توجہ سے حاصل ہوا :_

۱_ جملہ''لاتجعل مع اللّه إلهاً ...'' پچھلى آيات كے لئے نتيجہ كى مانند ہے اور ان آيات كے اصلى پيغام جو تين مرحلوں ميں آيا ہے مندرجہ بالا نتيجہ سے اخذ كيا جاسكتاہے اور ان كے ساتھ مربوط ہے_

۲_ ''لاتجعل'' كا كلمہ مطلق ہے جو ہر قسم كے شرك سے نہى كررہاہے _

۳_اللہ تعالى كے وجود اور افعال ميں وحدانيت كے عقيدہ كا ضرورى ہونا _لاتجعل مع اللّه إلهاً ء اخر

۴_قابل مذمت اور بے يارومددگار ہونا شرك كا يقينى انجام ہے_

۵۷

لاتجعل مع اللّه فتقعد مذموماً مخذولا

۵_تمام لوگوں كے لئے شرك كا خطرہ ہے_لاتجعل مع اللّه الهاً ء اخر

مندرجہ بالا مطلب كى بنياد يہ ہے كہ ''لاتجعل'' پيغمبر اسلام (ص) كى طرف بھى خطاب ہے چونكہ پيغمبر اسلام (ص) كوبھى اس خطرے سے خبردار كيا گيا ہے _ اس سے معلوم ہوتا ہے كہ شرك ميں مبتلا ہونے كا خطرہ سب كے لئے موجود ہے_

الله تعالى :الله تعالى كى جزائيں ۲;اللہ تعالى كے عذاب ۲;اللہ تعالى كے ممنوعات ۱

خالقيت :خالقيت ميں توحيد ۲

شرك:شرك كا پيش خيمہ ۵;شرك سے اجتناب كا پيش خيمہ ۲;شرك كا خطرہ ۵;شرك سے نہى ۱

عقيدہ :توحيد افعالى كا عقيدہ ۳;توحيد ذاتى كا عقيدہ ۳

مشركين :مشركين كا برا انجام ۴;مشركين كابے يارومددگار ہونا ۴;مشركين كو سرزنش ۴

نظريہ كائنات :نظريہ كائنات توحيدى ۳

آیت ۲۳

( وَقَضَى رَبُّكَ أَلاَّ تَعْبُدُواْ إِلاَّ إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَاناً إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِندَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلاَهُمَا فَلاَ تَقُل لَّهُمَا أُفٍّ وَلاَ تَنْهَرْهُمَا وَقُل لَّهُمَا قَوْلاً كَرِيماً )

اور آپ كے پروردگار كا فيصلہ ہے كہ تم سب اس كے علاوہ كسى كى عبادت نہ كرنا اور ماں باپ كے ساتھ اچھا برتاؤ كرنا اور اگر تمھارے سامنے ان دونوں ميں سے كوئي ايك يا دونوں بوڑھے ہوجائيں تو خبردار ان سے اف بھى نہ كہنا اور انھيں جھڑكنا بھى نہيں اور ان سے ہميشہ شريفانہ گفتگو كرتے رہنا (۲۳)

۱_الله تعالى كا اپنى وحدہ لا شريك ذات كے سوا كسي موجود كى پرستش سے خبردار كرنا_

وقضى ربك ا لا تعبدوا إلّا إيّاه

۲_عبادت ميں شرك سے اجتناب كا حكم قطعى ہے اور تجديد نظر كى قابليت نہيں ركھتا _وقضى ربك ا لاّ تعبدوا إلّا إيّاه

كلمہ''قضى '' سے مراد ايسا حكم اور فرمان ہے كہ جو قطعى ہو اور تجديد نظر كے بھى قابل بھى نہ ہو

۵۸

۳_عبادت ميں توحید كا حكم الہى درحقيقت انسانوں كى ترقى اور كمال كے حوالے سے حكم ہے_

وقضى ربّك ا لّا تعبدوا إلّا إيّاه

''ربّ'' كا در حقيقت معنى تربيت ہے (مفردات راغب) پروردگار كى دوسرى صفات كى بجائے يہ صفت كا آنا ممكن ہے_ مندرجہ بالا مطلب كى طرف اشارہ كر رہا ہے_

۴_ہر ايك پر واجب ہے كہ اپنے ماں باپ كے ساتھ نيكى كرے_وقضى ربّك بالولدين إحسان

''إحسانا'' ميں تنوين تعظيم كے لئے ہے اور ''والدين ''ميں الف لام افراد ميں استغراق (عموميت) بيان كررہاہے_ لہذا يہ حكم ہر مكلف كے والدين كے لئے ہے_

۵_الله تعالى كى پرستش كے بعد ماں باپ كے ساتھ نيكى بہت اہميت كى حامل ہے_

وقضى ربّك إلّا تعبدوا إلّا إيّاه وبالوالدين إحسانا

يہ كہ الله تعالى نے اپنى خالصانہ عبادت كے بعد ماں باپ كے ساتھ نيكى كا حكم قرار ديا ہے_ مندرجہ بالا مطلب اس سے حاصل ہوتا ہے_

۶_انسانوں كے ايك دوسرے پر تمام حقوق ميں سب سے بڑا اور اہم ترين حق والدين كا حق ہے_

وقضى ربّك الاّ تعبدوا إلّا إيّا وبالوالدين إحسانا

۸_انسان كى پرورش اور تربيت كرنے والے اس كى گردن پر حق ركھتے ہيں _

وقضى ربّك إلّا تعبدوا إلّا إيّاه وبالوالدين إحسانا

ذات واحد كى ربوبيت كے بعد والدين كے ساتھ نيكى كا ذكر كرنا (وقضى ربّك ...) ہوسكتا ہے اس لئے ہو كہ وہ انسان كى پرورش اور تربيت ميں تا ثير ركھتے ہيں _

۹_ماں باپ سے نيكى كا بہر صورت شائبہ شرك سے خالى ہونا_وقضى ربّك الاّ تعبدوا إلّا إيّاه وبالوالدين إحسانا

توحيد اور شرك سے پرہيز كے حكم كے بعد والدين سے نيكى كا حكم ہوسكتا ہے كہ اس بات كو بيان كر رہاہو كہ والدين سے حد سے زيادہ محبت واحسان ممكن ہے انسان كو شرك كى طرف لے جائے اس لئے ضرورى ہے كہ يہ محبت واحسان شائبہ شرك سے خالى ہو_

۱۰_والدين كا بڑھاپا اولاد پر انكے حوالے سے ذمہ

۵۹

داريوں كو بڑھانے كا سبب بنتا ہے_إما يبلغّن عندك الكبر ا حدهما ا و كلاهما فلا تقل لهما ا ف ولا تنهر هما وقل لهما قولاً كريم

۱۱_بوڑھے والدين كا خيال ركھنا اولاد كى ذمہ دارى ہے_وبالوالدين إحساناً إما يبلغنّ عندك الكبر فلا تقل لهمإ فّ مندرجہ بالا نكتہ اس لئے ہے كہ اس آيت كى مخاطب''اولاد''ہے اسى طرح ''عندك'' (تمہارے پاس) ظرف واضح كررہاہے كہ اولاد اس طرح اپنے والدين كا خيال ركھے كہ گويا ان كے ہاں رہ رہے ہيں اور قريب سے ان كا خےال ركھے ہوئے ہيں _

۱۲_والدين كا اولاد كے پاس ہونا اولاد كى ذمہ دارى بڑھاتاہے_إمّا يبلغنّ عندك الكبر

''عندك الكبر'' سے ممكن ہے يہ حقيقت بيان ہو رہى ہو كہ اگر والدين بچوں كے پاس رہ رہے ہوں تو ان كے خيال كى ذمہ دارى بڑھ جاتى ہے اور اس وقت ان كى ہر قسم كى بے احترامى حتّى كہ كلمہ ''اف''كہنے سے بھى پرہيز كيا جائے_

۱۳_ماں باپ بڑھاپے كى حالت ميں بچوں كى طرف سے بے احترامى كے خطرے ميں ہيں _

إمّا يبلغنّ عندك الكبر فلا تقل لهما ا فّ ولا تنهرهما وقل لهما قولاً كريما

والدين كے ساتھ نيكى كا حكم مطلق ہے_ تمام والدين خواہ كسى سن وسال ميں ہوں ان كو شامل ہے_ جملہ ''إمّا يبلغنّ عندك الكبر'' ممكن ہے اسى مندرجہ بالانكتہ كى طرف اشارہ كر رہا ہو _

۱۴_والدين كے ساتھ ہر قسم كا جھگڑا اور اہانت حتّى كہ ''أف'' كہنے كى حد تك ممنوع ہے_فلا تقل لهما ا ُفّ

۱۵_اولاد كى ذمہ دارى ہے كہ اپنے بوڑھے ماں باپ كى ضرورتوں كا مثبت جواب ديں اور ان كى ضرورتوں كو پورا كرنے سے كبھى بھى دريغ نہ كريں _ولا تنهر هم

''نہر'' سے مراد منع كرنا ہے اور روكنا ہے (لسان العرب)

۱۶_اولاد كى ذمہ دارى ہے كہ والدين كے ساتھ ملائمت اور مودبانہ انداز ميں برتائو كريں اور ان سے بات كرتے وقت ان كے احترام كا خيال ركھيں _ولا تقل لهما ا فّ وقل لهما قولاً كريما

۱۷_بوڑھے والدين ميں سے كسى ايك يا دونوں كا اولاد كے پاس ہونا ان كے احترام كى مقدار ميں كوئي تا ثير نہيں ركھتا بلكہ دونوں برابر حقوق كے مالك ہيں _وبالولدين احساناً إمّا يبلغنّ عندك الكبر ا حدهما ا وكلاهم

۱۸_''عن إبن عباس قال: لمّا انصرف أميرالمؤمنين من صفين قام إليه شيخ فقال: يا أميرالمؤمنين ا خبرنا عن مسيرن هذا ا بقضاء من اللّه وقدر؟

۶۰

قال أميرالمؤمنين الا مرمن اللّه والحكم ثم تلا هذه الآية: وقضى ربّك ألاّ تعبدوا إلّا إيّاه وبالوالدين إحساناً (۱)

ابن عباس سے روايت ہوئي ہے كہ جب اميرالمؤمنين (ع) جنگ صفين سے واپس پلٹے توايك بوڑھا شخص ان كے پاس اٹھ كھڑا ہوا اور ا س نے كہا : اے اميرالمؤمنين ہم نے جو سفر كيا اس كے بارے ميں بتائيں آيا وہ قضا وقدر الہى كى وجہ سے تھا؟ اميرالمؤمنين (ع) نے فرمايا :

فرمان و حكم الله تعالى كى طرف سے تھا پھر يہ آيت :''وقضى ربك إاّ تعبدوا إلّا إيّاه وبالوالدين إحساناً'' كى تلاوت فرمائي_

۱۹_''عن أبى جعفر(ع) بعث اللّه عزّوجلّ محمداً(ص) وهو بمكة عشر سنين فلم يمت بمكة فى تلك العشرسنين ا حديشهد ا ن لا إله إلّا اللّه وا ن محمد (ص) رسول اللّه إلّا ا دخله اللّه الجنة باقراره وهو إيمان التصديق ولم يعذب اللّه ا حداً إلّا من أشرك بالرحمن وتصديق ذلك ان اللّه عزّوجلّ ا نزل عليه فى سورة بنى إسرائيل بمكة ''وقضى ربّك ا لاّ تعبدوا إلّا إيّاه ...'' أدب وعظة وتعليم ونهى خفيف ولم يعد عليه ولم يتواعد على اجتراح شيء ممّا نهى عنه (۲)

امام باقر(ع) سے روايت ہوئي ہے كہ الله تعالى نے حضرت محمد (ص) كو مبعوث كيا اور وہ دس سال مكہ ميں رہے مكہ ميں ان دس سالوں ميں كوئي بھى نہ تھا كہ جو مرگيا ہو اور الله تعالى كى وحدانيت اور محمد رسول الله (ص) كى نبوت كى گواہى دى ہو مگر يہ كہ الله تعالى نے اسے اس كے اقرار كى وجہ سے جنت ميں داخل كيا ہو اور يہ ايمان تصديق ہے اور الله تعالى كسى كو عذاب نہيں كرتا مگر يہ كہ اس نے الله كے حوالے سے شرك كياہو اور اس بات كى گواہ خود سورہ بنى إسرائيل ہے كيونكہ اس كى آيات كو خدا نے مكہ ميں قلب پيغمبر پر نازل كيا ہے : ''وقضى ربّك الاّ تعبدوا إلّا إيّاہ ...'' اس آيت ميں ادب كرنا، موعظہ، تعليم اور خفيف نہى ہے_ جزا كا وعدہ اور جن چيزوں سے منع كيا گيا ہے ان كے ارتكاب كى صورت ميں عذاب كا بيان نہيں ہوا ہے_

۲۰_وقال الصادق (ع) قوله تعالى : ''وبالوالدين إحساناً'' قال: الوالد محمد (ص) وعلى (ع) _(۱) امام صادق (ع) نے الله تعالى كے اس كلام : ''وبالوالدين إحساناً'' كے حوالے سے فرمايا : والد سے مراد محمد(ص) اور على (ع) ہيں _

۲۱_عن أبى ولاد الحناط قال : سا لت أبا عبداللّه (ع) عن قوله اللّه عزّوجلّ ''وبالوالدين إحساناً'' ما هذا الإحسان؟ فقال : الإ حسان ا ن تحسن صحبتهما وا ن لا تكلفهما ا ن يسا لاك شيئاً ممّا يحتاجان إليه وإن كانا مستغنيين وا مّا

____________________

۱) توحید صدوق ص ۳۸۲، ح ۲۸ ، ب ۶۰، نورالثقلين ج ۳ ، ص ۱۴۸، ح ۱۲۸_۲) كافى ج ۲ ، ص ۲۹، ح ۱، بحارالانوار ج ۶۶، ص ۸۶ ، ح ۳۰_

۶۱

قول اللّه عزّوجلّ :''إمّا يبلغنّ عندك الكبر ا حدهما ا و كلاهما فلا تقل لهما ا فّ ولاتنهرهما '' قال : إن ا ضجراك فلا تقل لهما ا فّ ولا تنهر هما إن ضرباك قال: وقل لهما قولاً كريماً قال: إن ضرباك فقل لهما: غفرالله لكما فذلك منك قول كريم (۲)

ابى ولاد حناط كہتے ہيں كہ امام صادق (ع) سے الله تعالى كے اس كلام ''وبالوالدين احساناً'' كے بارے ميں پوچھا كہ اس آيت ميں احسان سے مراد كيا ہے؟ تو انہوں نے فرمايا : احسان سے مراد ان سے حسن سلوك ہے اور يہ كہ جس كى انہيں ضرورت ہو اس كے بارے ميں تمہيں كہنے كى انہيں زحمت نہ ہو اگرچہ مالى اعتبار سے وہ غنى ہى كيوں نہ ہوں ''_ اس آيت''إمّا يبلغنّ عندك الكبر ا حدهما ا و وكلاهما فلا تقل لهما ا فّ ولا تنهر هما'' كے بارے ميں حضرت نے فرمايا: ''اگر وہ تمہيں پريشان كريں تو انہيں اف نہ كہو اور ان پر نہ چيخو وچلائو اور كسى قسم كى اہانت نہ كرو چاہے وہ تمہيں ماربھى ليں _ الله تعالى نے فرمايا :''وقل لهما قولاً كريما'' تو حضرت فرماتے ہيں اگر وہ تمہيں ماريں تو انہيں كہو الله تمہيں بخشے يہ بات تمہارى طرف سے قول كريم شمار ہوگي''_

احسان:احكام احسان ۴

احكام:۴، ۱۴، ۱۶احكام كا فلسفہ :۳

الله تعالى :الله تعالى كے اوامر ۳;اللہ تعالى كى نواہى ۱، ۲، ۱۹

امام على (ع) :امام على (ع) كا والد ہونا ۲۰

تربيت:تربيت كى اہميت ۸/ترقي:ترقى كا پيش خيمہ ۳/توحيد :توحيد عبادى كى اہميت ۳;توحيد كا فلسفہ ۳

روايت : ۱۸، ۱۹، ۲۰، ۲۱

شرك:شرك سے اجتناب ۹;شرك سے نہى ۱۹; شرك عبادى سے نہى ۱، ۲

عبادت :الله تعالى كى عبادت كى اہميت ۵; الله تعالى كى عبادت كى قدروقيمت۵

فرزند: فرزند كى ذمہ دارى ميں مو ثر اسباب ۱۲; فرزند كى ذمہ دارى ۱۰، ۱۱، ۱۵

____________________

۱) روضة الواعظےن (ابن الفارسى قتال نيشابوري، ص ۱۰۵ نورالثقلين ج۳، ص ۱۵۰ ، ح ۱۳۵_

۲) كافى ج ۲، ص ۱۵۷، ح ۱، نورالثقلين ج ۳، ص ۱۴۸، ح ۱۲۹_

۶۲

قضا وقدر: ۱۸

محرمات : ۱۴

محمد -(ص) :محمد (ص) كا والد ہونا ۲۰

مربي:مربى كے حقوق ۸

معاشرت :معاشرت كے آداب ۱۶

موحدين:موحدين كا احسان ۷;موحدين كى علامتيں ۷

واجبات: ۴، ۶

والدين:والدين سے گفتگو كے آداب ۱۶;والدين كا احترام ۱۶;والدين سے احسان ۴،۷ ،۲۰ ; والدين كے احترام كى اہميت ۱۴، ۱۵، ۱۶; والدين كے ساتھ احسان كى اہميت ۵ ;والدين كے حقوق كى اہميت ۶; والدين كے حقوق كا برابر ہونا ۱۷; والدين كا بوڑھا ہونا ۱۵;والدين كى ضرورتوں كا پورا ہونا ۱۵;والدين كى توہين كا حرام ہونا ۱۴ ; والدين كى بے احترامى كا خطرہ ۱۴;والدين كے ساتھ نيكى كے شرائط ۹; والدين سے احسان كى قدروقيمت ۵; والدين سے نيكى كا مطلب ۲۱; والدين كے بڑھاپے كے نتائج ۱۰، ۱۳;والدين كے ساتھ زندگى گزارنے كے نتائج ۱۲; والدين كى نگہبانى ۱۱

آیت ۲۴

( وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُل رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيراً )

اور ان كے لئے خاكسارى كے ساتھ اپنے كاندھوں كو جھكادينا اور ان كے حق ميں دعا كرتے رہنا كہ پروردگار ان دونوں پر اسى طرح رحمت نازل فرما جس طرح كہ انھوں نے بچينے ميں مجھے پالا ہے (۲۴)

۱_اولاد كو چاہيے كہ اپنے والدين كے مد مقابل مہربانى اور ترحم سے پورى پورى عاجزى اور انكسارى كا اظہار كريں _

واخفض لهما جناح الذلّ من الرحمة

''من الرحمة'' ميں ''من'' نشويہ ہے_ يعنى ان كے مدمقابل تواضع وعاجزى كا منشاء ،رحمت ومہربانى ہو_

۲_ماں باپ كا بڑھاپا اور ضعف،اولاد كا سركشى ونافرمانى ميں مبتلا ہونے كا پيش خيمہ ہے _

إمّا يبلغنّ عندك الكبر واخفض لهما جناح الذلّ

۶۳

والدين كى بڑھاپے ميں خيال ركھنے كى الہى نصيحت شايد اس لئے ہو كہ والدين كے اس زمانہ زندگى ميں بچوں كى لغزش وسركشى ميں پڑنے كى فضا سازگار ہوتى ہے_

۳_والدين سے مہربانى اور تواضع سے پيش آنا اولاد كى ذمہ دارى ہے_واخفض لهما جناح الذلّ من الرحمة

۴_والدين كے لئے مہربانى اور قلبى محبت كے ساتھ تواضع ،قدروقيمت كى حامل ہے نہ كسى اور انگيزہ كے ساتھ تواضع _

واخفض لهما جناح الذلّ من الرحمة

۵_والدين كے لئے الله تعالى سے دعا اور بے پنا ہ رحمت كى طلب اولاد كى ذمہ دارى ہے_

قل ربّ ارحمهما كما ربيّانى صغيرا

''كما'' ہوسكتا ہے اس حقيقت كى طرف اشارہ ہو رہاہو كہ چونكہ بچوں كے لئے والدين كى رحمت بے پناہ ہوتى ہے پس بچوں كو بھى چاہيے مد مقابل اسى طرح والدين كے لئے رحمت طلب كريں _

۶_ماں باپ كے ذريعے اولاد كى تربيت ،رحمت ومحبت كى بناء پر ہے _ربّ ارحمهما كما ربيّانى صغيرا

''كما ربياني'' مصدر مقدر( رحمت) كى صفت ہے_ اس طرح عبارت يوں ہوگي: ''رب ارحمھما مثل رحمتھما وتربيتھما لي'' (اے پروردگار جس طرح انہوں نے مجھ پر رحم كيا تو بھى ان پر رحم كر)

۷_والدين نے پرورش كے حوالے سے جو مشقتيں برداشت كيں بچے ہميشہ ان پر توجہ ركھيں _

وقل ربّ ارحمهما كما ربيّانى صغيرا

دعاكے وقت والدين كى زحمتوں كو ياد كرنے كا الہى حكم، ہوسكتا ہے مندرجہ بالا حقيقت كى تعليم كى وجہ سے ہو_

۸_انسان كى ا س كے بچپن كے زمانہ ميں والدين كى خدمت اور زحمت كى طرف توجہ كرنے سے ان كے حوالے سے ا س كے احساسات ابھرتے ہيں _وقل ربّ ارحمهما كما ربيّانى صغيرا

۹_الله تعالى سے والدين كے لئے رحمت كى درخواست كرنا ان كى بے پناہ زحمتوں كے كچھ حصے كا حق ادا كرنا ہے_

وقل ربّ ارحمهما كما ربيّانى صغيرا

''كما'' حرف تشبيہ مجازى ہے اور ''لما'' كے معنى ميں ہے يعنى اے پروردگار ان پر رحم كر جس طرح انہوں نے اپنى زحمتوں كے ساتھ ميرى پرورش كي_

۱۰_انسان كو چاہيے اپنے مربّى كى قدردانى كرے اور اس كے لئے الله تعالى سے رحمت طلب كرے _

۶۴

ربّ ارحمهما كما ربيّانى صغيرا

۱۱_ مقام دعا اور مناجات ميں پروردگار كى ربوبيت سے تمسك كرنا ايك بہترين اور پسنديدہ انداز ہے_

قل رب ارحمهما كما ربيّانى صغيرا

۱۲_والدين كے لئے دعا نہايت مو ثر اور الله تعالى كى خصوصى توجہ كا مركز ہے اور يہ دعا كى قبوليت كا مقام ہے_

وقل ربّ ارحمهم

كيوں كہ الله تعالى نے خاص الفاظ كى صورت ميں والدين كے لئے دعا كا حكم ديا ہے _ اس سے معلوم ہوتا ہے الله تعالى كى اس دعا پر خاص عنايت ہے_ لہذا اس ميں قبوليت كا احتمال زيادہ ہے _

۱۳_ماں باپ كے محبت سے معمور دامن ميں اولاد كى تربيت ايك عظےم قابل قدر نعمت ہے اور ان كے بچوں كى طرف سے انكے حق ميں ہر قسم كا احسان واحترام كے استحقاق كى باعث ہے_

وبالوالدين إحساناً واخفض لهما جناح الذلّ من الرحمة وقل رب ارحمهما كما ربيّانى صغيرا

مندرجہ بالا مطلب اس نكتہ سے ليا گيا ہے كہ الله تعالى نے بچوں كو والدين كے حق ميں انداز دعا سكھانے ميں والدين كى تربيت كا مسئلہ ياد ديدياہے(كما ربيانى صغيراً )

۱۴_عن ا بى ولاد الحناط قال: سا لت أباعبدالله (ع) عن قوله الله عزّوجلّ ...''واخفض لهما جناح الذلّ من الرحمة'' قال لا تملا عينيك من النظر إليهما الاُ برحمة ورقة ولا ترفع صوتك فوق ا صواتهما ولا يدك فوق ا يديهما ولا تقدم قد امهما _(۱)

ابى ولاد حناط كہتے ہيں كہ امام صادق _ سے الله تعالى كے اس كلام'' واخفض لهما جناح الذلّ من الرحمة'' كے بارے ميں پوچھا تو حضرت (ع) نے فرمايا : والدين كى طرف سوائے محبت وپيار كے نہ ديكھ اور اپنى آواز ان كى آواز سے بلند نہ كر اور اپنے ہاتھ كو ان كے ہاتھوں سے بلند نہ كر اور (راہ چلتے ہوئے) ان سے سبقت نہ كر_

احساسات:فيملى كے احساسات ۸/ابھارنا:ابھارنے كے اسباب ۸

اہميتيں : ۴تربيت :تربيت كا انداز ۶/توسل :الله تعالى كى ربوبيت سے توسل ۱۱

دعا :دعا كے آداب ۱۱;دعا كى قبوليت كا پيش خيمہ ۱۲

____________________

۱) كافى ج ۲، ص ۱۵۸، ح۱، نورالثقلين ج۳، ص ۱۴۸، ح ۱۲۹_

۶۵

ذكر:والدين كى زحمتوں كا ذكر ۷، ۸;بچپن كى ضرورتوں كا ذكر ۸

روايت: ۱۴شكر:نعمت كا شكر ۱۳عمل :پسنديدہ عمل ۱۱

فرزند:فرزند كى سركشى كا پيش خيمہ ۲;فرزند كے غرور كا پيش خيمہ ۲;فرزند كى ذمہ دارى ۱، ۳، ۵، ۷، ۱۳;فرزند كى تربيت ميں مہربانى ۶; فرزند كى تربيت كے نتائج ۱۳;فرزند كى دعا كے نتائج ۱۲

مربي:مربى كے لئے رحمت كى درخواست ۱۰; مربى كے لئے دعا ۱۰;مربى كا شكريہ ۱۰

معاشرت:معاشرت كے آداب ۱۰

نعمت:نعمت كے موارد ۱۳

نفسيات :تربيتى نفسيات ۶

والدين:والدين كااحترام ۱، ۳، ۱۴;والدين كے احترام كى اہميت ۱۳;والدين كے ساتھ احسان كى اہميت ۱۳;والدين كے لئے تواضع ۱;والدين كے لئے احساسات كا پيش خيمہ۸;والدين كے لئے رحمت كى درخواست۵;والدين كے لئے دعا ۵، ۹، ۱۲; والدين كى زحمتوں كا شكريہ ۹; والدين كا شكريہ۷; والدين سے ميل جول كا طريقہ ۱۴;والدين كے احترام كى قدرو قيمت ۴; والدين كے لئے تواضع كى قدرو قيمت ۴;والدين كے ساتھ مہربانى كى قدروقيمت ۴;والدين كے ساتھ مہربانى ۱، ۳، ۱۴;والدين كے بڑھاپے كے نتائج ۲

آیت ۲۵

( رَّبُّكُمْ أَعْلَمُ بِمَا فِي نُفُوسِكُمْ إِن تَكُونُواْ صَالِحِينَ فَإِنَّهُ كَانَ لِلأَوَّابِينَ غَفُوراً )

تمھارا پروردگار تمھارے دلوں كے حالات سے خوب باخبر ہے اور اگر تم صالح اور نيك كردار ہو تو وہ توبہ كرنے والوں كے لئے بہت بخشنے والا بھى ہے (۲۵)

۱_پروردگار انسانوں كے باطن سے مكمل آگاہى ركھتاہے_ربكم أعلم بما فى نفوسكم

۲_پروردگار كى ربوبيت كا تقاضا ہے كہ وہ انسانوں كے باطنى حالات سے مكمل آگاہى اور علم ركھے_ربكم أعلم بما فى نفوسكم

۳_عبادت اور والدين كے ساتھ احسان ميں انسان كى نيتوں ، انگيزوں اور اس كے خيالات پر الله تعالى كى مكمل نگرانى ہے_وقضى ربّك ا لاّ تعبدوا إلّا إيّاه وبالوالدين إحساناً واخفض لهما جناح الذلّ ربّكم أعلم بما فى نفوسكم

۶۶

۴_خود انسان كى نسبت اس كے باطنى حالات اور خيالات سے الله تعالى زيادہ آگاہ ہے_ربكمأعلم بما فى نفوسكم

مندرجہ بالا مطلب كى بناء يہ ہے كہ ''أعلم'' كا مفضل عليہ ''منكم'' ہے يعنى الله تعالى كى تمہارے باطن سے آگاہى خود تم سے زيادہ ہے_

۵_انسانى عمل كے پركھنے ميں اس كى نيت واضح كردار كى حامل ہے _ربكم إعلم بما فى نفوسكم _انسان كے دل ميں سوائے اس كى نيتوں ' خيالات اور اس كے تخيلّات وغيرہ كے علاوہ كچھ نہيں ہوتا الله تعالى نے صالحين كى توبہ قبول كرنے كى خوشخبرى دينے سے پہلے انسان كے باطنى انگيزوں كى اہميت اور اس كى قبوليت توبہ ميں واضح كردار كى طرف اشارہ كيا ہے_

۶_اصلاح ايك باطنى اور قلبى چيز ہے نہ كہ ظاہرى اور دعوى كى حد تكربكم ا علم بما فى نفوسكم إن تكونوا صالحين

''صلاح''گويا قبوليت توبہ كى ايك شرط بن رہى ہے_يہاں صلاح وتوبہ كے بيان سے پہلے خبردار كيا گيا ہے كہ الله تعالى تمہارے باطن سے آگاہى ركھتا ہے_ اس طرح كہ تنبيہ ممكن ہے اس نكتہ كى طرف اشارہ كر رہى ہو كہ اصلاح ايك باطنى چيز ہے_

۷_الله تعالى بچوں كى والدين كے حق ميں قلبى انكسارى اور مہربانى چاہتا ہے نہ صرف ظاہرى حد تك _

واخفض لهما جناح الذلّ من الرحمة ربّكم أعلم بمافى نفوسكم _

الله تعالى نے پچھلى آيات ميں حكم ديا ہے كہ والدين كے ساتھ احسان اور انكسارى سے برتائو كريں اور اس آيت ميں فرما رہا ہے كہ تمہارى باطنى نيتوں سے آگاہ ہوں _ پچھلے حكم كے بعد نيتوں سے آگاہى والى بات ممكن ہے اس لئے ہو كہ ان كے ساتھ قلبى طور پر انكسارى ہو نہ كہ ظاہرى حد تك_

۸_اصلاح اورگناہوں سے توبہ كرنا بخشے جانے اور معاف ہونے كا پيش خيمہ ہے _إن تكونوا صالحين فإنه كان للا وّ بين غفورا

۹_الله تعالى كے عفو اور بخشش كى ضرورى شرائط ميں سے ہے كہ پہلے صالح ہو _إن تكونوا صالحين فإنه كان للاوّ بين غفورا

۱۰_انسان بلكہ صالحين بھى والدين كے حقوق كے حوالے سے غلطى اور كوتاہى كے خطرے ميں ہيں

۶۷

_واخفض لهما جناح الذلّ ربّكم ا علم ...إن تكونوا صالحين فإنه كان للاوّبين غفورا

۱۱_توبہ كرنے والے اور وہ جو غلطيوں كو چھوڑ كر الله تعالى كى طرف لوٹ آئے پروردگار كى بخشش اور معافى كے حامل ہيں _فإنه كان لا وّبين غفورا

۱۲_اللہ تعالى ،صالح انسانوں كو ان كى والدين كے حقوق كے حوالے سے نہ چاہتے ہوئے غلطيوں كى بخشش كى خوشخبرى دينے والاہے _ربّكم أعلم بما فى نفوسكم إن تكونوا صالحين فإنه كان للاوّإبين غفورا

۱۳_والدين كى اہانت اور انكے حقوق كى مراعات ميں كوتاہى كا گناہ ،توبہ كا محتاج ہے _واخفض لهما فإنه كان للاوّبين غفور

۱۴_گناہوں سے لوٹنے اور توبہ پر ڈٹے رہنا الله تعالى كى بخشش كو حاصل كرنے كے اسباب ميں سے ہے_

فانه كان للاوّبين غفورا

''اوّاب'' مبالغہ كا صيغہ ہے اور اس سے مراد بہت توبہ كرنے والا شخص ہے _ لہذا تائب كى جگہ يہ صيغہ آنا، ممكن ہے مندرجہ بالا مطلب كى طرف اشارہ ہو_

۱۵_اللہ تعالى كى طرف سے گناہ گار توبہ كرنے والوں كى بخشش انكى تربيت وتكامل كے حوالے سے ہے_ربكم كان للاوّبين غفورا مندرجہ بالا مطلب ميں ''رب'' سے مراد تربيت كرنے والا ليا گيا ہے جو كہ اس كا اصل معنى ہے (مفردات راغب) يعنى گناہ گاروں كى بخشش الله تعالى كے مقام مربى وربوبيت كا تقاضا ہے_

۱۶_صالحین ،توبہ كى صلاحيت كے حامل ہيں _إن تكونوا صالحين فإنه كان للاوّبين غفورا

شرط كے جواب ميں جملہ ''انہ كان صالحین'' كى جگہ''إنه كان للاوّبين'' آيا ہے_ يعنى ''الاوّبين'' ''صالحین ''كى جگہ پر آيا ہے_ اس سے مندرجہ بالا معنى پيدا ہو رہا ہے_

۱۷_الله تعالى ''غفور'' (بہت زيادہ معاف كرنے والا) ہے _فإنه كان غفورا

۱۸_عن أبى بصير قال: سمعت ا با عبدالله (ع) يقول فى قوله تعالى :''إنه كان للاوّبين غفوراً''قال: هم التوابون المتعبدون'' _(۱) ابى بصير كہتے ہيں كہ امام صادق _ سے سنا كہ آپ الله تعالى كے اس كلام:''إنه كان للاوّبين'' كے حوالے سے فرمارہے تھے كہ توبہ كرنے والوں سے مراد متعبد (تقرب الہى كى چاہت ركھنے والے) ہيں _

اسما وصفات:غفور ۱۷

۶۸

الله تعالى :الله تعالى اور نيتيں ۳;اللہ تعالى كے احكام ۷; الله تعالى كى بخشش ۹; الله تعالى كى بشارتيں ۱۲;اللہ تعالى كے عفو كى شرائط ۹; الله تعالى كا علم غيب ۱، ۲، ۴ ;اللہ تعالى كى ربوبيت كے نتائج ۲;اللہ تعالى كى نگرانى ۳

انسان:انسان كے انگيزے ۳;انسان كے باطنى حالات ۲،۴;انسان كے خيالات ۳، ۴;انسانوں كے راز ۱;انسان كى عبادت ۳;انسان كى غلطياں ۱۰

بخشش :بخشش كے اسباب ۱۴;بخشش كا پيش خيمہ ۸; بخشش كے شامل حال ۱۱;بخشش كى شرائط ۹

بشارت:بخشش كى بشارت ۱۲

تربيت:تربيت كا پيش خيمہ ۱۵

تكامل :تكامل كا پيش خيمہ ۱۵

توبہ:توبہ پر ڈٹے رہنے كے نتائج ۱۴

توبہ كرنے والے :توبہ كرنے والوں كى بخشش ۱۱، ۱۵، ۱۸;توبہ كرنے

والوں كى بخشش كا پيش خيمہ ۸

روايت : ۱۸

صالحین :صالحین كو بشارت ۱۲;صالحين كى بخشش كا پيش خيمہ ۸;صالحين كى غلطى كا پيش خيمہ ۱۰; صالحين كى توبہ ۱۶

صالح ہونا:صالح ہونے كى حقيقت ۶;صالح ہونے كے نتائج ۹

عمل:عمل كے تجزيہ كا معيار ۵

فرزند:فرزند كى ذمہ دارى ۷

گناہ:گناہ كے موارد ۱۳

نيت :نيت كے نتائج ۵

والدين :والدين كے لئے انكسارى ۷;والدين كى بے احترامى سے توبہ ۱۳;والدين كے حقوق ميں كوتاہى ۱۰;والدين كى بے احترامى كا گناہ ۱۳; والدين سے مہربانى ۷

____________________

۱) تفسير عياشي، ج ۲، ص ۳۲۸۶،ح ۴۲_ نورالثقلين ج۳، ص ۱۵۳، ح ۱۵۱

۶۹

آیت ۲۶

( وَآتِ ذَا الْقُرْبَى حَقَّهُ وَالْمِسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَلاَ تُبَذِّرْ تَبْذِيراً )

اورديكھو قرابتداروں كو اور مسكين كو اور مسافر غربت زدہ كو اس كا حق دے اور خبردار اسراف سے كام نہ لينا(۲۶)

۱_رشتہ داروں كا حق ادا كرنا واجب اور لازم ہے_وء ات ذإلقربى حقّه

۲_پيغمبر (ص) پر فضول خرچى سے بچتے ہوئے اعتدال كے ساتھ''رشتہ داروں '' مساكين اور مسافروں كا حق ادا كرنے كى ذمہ دارى ہے_وء ات ذإلقربى حقّه والمسكين وابن السبيل ولاتبذّر تبذيرا

مندرجہ بالا مطلب كى بنياديہ ہے كہ اس آيت ميں مخاطب پيغمبر (ص) ہيں _ اگرچہ يہ حكم دوسروں كو بھى شامل ہے_

۳_رشتہ دارى كا تعلق انسانوں ميں خاص قسم كے حقوق پيدا كرنے كا موجب ہے_وء ات ذإلقربى حقّه

۴_والدين كے حقوق كى ادائيگى كے بعد رشتہ داروں كے حقوق كى رعايت ديگر معاشرتى حقوق پر ترجيح ركھتى ہے_

وبالوالدين إحساناً وء ات ذإلقربى حقهّ والمسكين

آيت ميں ''ذاالقربي'' اور دوسرے دونوں بعد والے مقامات كے درميان ''حقہ'' كا فاصلہ پھر اس كا ان دونوں پر تقدم ممكن ہے''ذى القربى '' دونوں پر امتياز اور الويت ركھتاہو_

۵_دوسروں كے حقوق ادا كرنے كے حوالے سے دين كے احكام انسان كے طبيعى احساسات كے ساتھ سازگار ہيں _

وبالوالدين إحساناً وء ات ذى القربى حقّه

والدين اور رشتہ داروں كے حقوق كو ترجيح دينا اور انكى مشكلات ميں انكى مدد كرنا، انسان كے طبيعى ميلانات ميں سے ہے اور الله تعالى نے بھى اسى كى تائيد كى ہے_

۶_مساكين اور مسافرين كے حقوق كى ادائيگى واجب اور لازم ہے_

وء ات والمسكين وابن السبيل

۷_فقر اور مسافر ہونا ، فقراء اور مسافروں كے لئے خاص قسم كے حقوق پيدا كرنے كا موجب ہے _

وء ات والمسكين وابن السبيل

۸_مسلمان اپنے معاشرے كے مسائل اور ضروريات كے مد مقابل ذمہ دار ہيں _وء ات والمسكين وابن السبيل

۷۰

۹_رشتہ داروں كى مشكلات دور كرنا اگر چہ وہ فقراء يا مسافروں كے زمرہ ميں نہ ہى آتے ہوں ' لازم اور واجب ہيں _

وء ات ذإلقربى حقّه والمسكين وابن السبيل ''ذاالقربى '' كا جدا ذكر ہونا ہوسكتا ہے مندرجہ بالا مطلب كى طرف اشارہ ہو _

۱۰_فضول خرچى (بے جا خرچ كرنا) حرام ہے اوراللہ تعالى كى طرف سے منع كيا گيا ہے _ولا تبذّر تبذيرا

اہل لغت نے اسراف اور تبذير ميں يہ فرق بيان كيا ہے كہ تبذير سے مراد مال كسى ايسى جگہ خرچ كرنا ہے كہ جہاں خرچ نہيں كرنا چاہئے تھا_(فروق اللغة)

۱۱_انسان اپنے اموال كے خرچ كرنے ميں مطلق آزاد نہيں ہے بلكہ محدوديت ركھتاہے_وء ات ولا تبذّر تبذيرا

۱۲_انفاق ميں زيادتى سے پرہيز اور اعتدال ركھنا ضرورى اور واجب ہے _وء ات ولا تبذّر تبذيرا

مندرجہ بالا مطلب كى بناء يہ ہے كہ يہاں ''تبذير'' سے مراد آيت كے موضوع كے مطابق ''رشتہ داروں اور مساكين پر انفاق ميں زيادہ روي'' ہے_ جيسا كہ ذاتى اموال كے خرچ كے حوالے اور دوسروں پر انفاق كے حوالے سے آيت ۲۹ ميں بھى ايسا حكم صادر ہوا ہے _

۱۳_''عن أبى عبدالله (ع) : ...''وء ات ذا القربى حقّه '' فكان على (ع) وكان حقّه الوصية التى جعلت له والإسم الأكبر وميراث العلم وآثار علم النبوة'' (۱)

الله تعالى كے اس كلام''وء ات ذاالقربى حقّہ'' كے بارے ميں امام صادق(ع) سے روايت ہوئي ہے كہ آپ (ع) نے فرمايا : ذاالقربى سے مراد على (ع) ہيں اور ان كے حق سے مراد ان كى پيغمبر اسلام (ص) كى جانشينى ہے كہ جو انكے لئے تقرر ہوئي تھى اور علم كى ميراث اور علم نبوت كے نتائج ہيں _

۱۴_''عن على بن الحسين (ع) فى قوله تعالي: '' وء ات ذإلقربى حقّه '' قال : نحن أولئك الذين ا مرالله ''عزّوجلّ'' نبيه (ص) ا ن يو تيهم حقّهم ...'' _(۲)

امام سجاد(ع) سے اس كلام الہى ''وء ات ذاالقربى حقّہ'' كے بارے ميں روايت ہوئي ہے كہ آپ (ع) نے فرمايا : ''ہم اہل بيت (ع) وہى ہيں كہ جن كے

____________________

۱) كافى ج ۱، ص ۲۹۴، ح ۳_ نورالثقلين ج ۳،ص ۱۵۳، ح ۱۵۷_

۲) احتجاج طبرسى ، ج۲، ص ۳۳، نورالثقلين ج۳، ص ۱۵۵، ح ۱۶۰_

۷۱

بارے ميں الله تعالى نے اپنے پيغمبر اكرم (ص) كو حكم ديا كہ ان كا حق ان كو دو''_

۱۵_''عن أبى الحسن موسى (ع) : ان الله تبارك وتعالى لمّا فتح على نبيه (ص) فدك ...فا نزل الله على نبيه (ص) ''وء ات ذا القربى حقّه'' فلم يدر رسول الله (ص) من هم فا وحى الله إليه ا ن ادفع فدك إلى فاطمة (ع) ..(۱)

ابوالحسن موسى بن جعفر (ع) سے روايت ہوئي ہے كہ جب الله تعالى نے فدك كو پيغمبر اكرم (ص) كے لئے فتح فرمايا تھا تو اس وقت ا س كے لئے يہ آيت نازل ہوئي ''و ا ت ذاالقربى حقّہ'' تو رسول الله (ص) نہيں جانتے تھے كہ انكے اقرباء كون ہيں تو الله تعالى نے انہيں وحى كى كہ فدك كو حضرت فاطمہ س كے حوالے كرديں _

۱۶_'' عبدالرحمان بن الحجاج قال: سا لت أبا عبدالله (ع) عن قوله : ''ولا تبذّر تبذيراً'' قال : من ا نفق شيئاً فى غير طاعة الله فهو مبذر .(۲)

عبدالرحمن بن حجاج كہتا ہے كہ امام صادق (ع) سے اس كلام الہى ''ولاتبذّر تبذيراً'' كے بارے ميں سوال كيا تو حضرت (ع) نے فرمايا : جو بھى كوئي چيز غير خدا كى اطاعت ميں خرچ كرتا ہے وہ اسراف كرنے والا ہے _

۱۷_أبى بصير قال : سا لت أبا عبدالله (ع) فى قوله''ولاتبذّر تبذيراً'' قال : بذل الرجل ماله ويقعده ليس له مال قال : فيكون تبذير فى حلال؟ قال : نعم _(۳)

ابوبصير كہتے ہيں كہ امام صادق(ع) سے كلام الہي:'' ولاتبذّرتبذيراً'' كے بارے ميں سوال كيا تو حضرت نے جواب ميں فرمايا: كہ كسى كا يوں مال كا انفاق كرنا كہ اس كے لئے كچھ نہ بچے اور وہ خانہ نشين ہوجائے_ تو سوال كرنے والے نے پوچھا: پس حلال كے خرچ ميں بھى اسراف ہے؟ تو حضرت (ع) نے جواب ديا : ہاں

ابن السبيل:ابن السبيل كے حقوق كى ادائيگى ۲، ۶;ابن سبيل كے حقوق كا سرچشمہ ۷

احكام: ۱، ۶، ۹ ، ۱۰، ۱۲اسراف:اسراف كے احكام ۱۰;اسراف سے پرہيز ۲;اسراف كا حرام ہونا ۱۰;اسراف سے مراد ۱۷;اسراف سے نہى ۱۰اسراف كرنے والے : ۱۶

الله تعالى :الله تعالى كى طرف سے ممنوعات ۱۰

امام على (ع) :امام على (ع) كے فضائل ۱۳

____________________

۱) كافى ج ۱، ۵۴۳، ح ۵_ نورالثقلين ج ۳، ص ۱۵۴، ح ۱۵۸_۲و۳) تفسير عياشى ج ۲، ص ۲۸۸، ح ۵۴_نورالثقلين ج ۳، ص ۱۵۶، ح ۱۶۹_

۷۲

انسان :انسان كے اختيارات كے حدود ۱۱

انفاق :انفاق كے احكام ۱۲;انفاق ميں ميانہ روى ۱۲

اہل بيت (ع) :اہل بيت(ع) كے فضايل ۱۴

حرام چيزيں : ۱۰

حقوق :حقو كى ادائيگى ميں احساسات ۵;حقوق كى ادائيگى ميں اعتدال ۲;حقوق ميں ترجيحات ۴;حقوق كے پيدائش كا سرچشمہ ۳

دين :دين اور احساسات ۵;دينى تعليمات كى خصوصيات ۵

رشتہ دار:رشہ داروں كے حقوق كى ادئيگى ۱، ۲;رشتہ داروں كے حقوق كى اہميت ۴;رشتہ داروں كى مشكلات دور كرنا ۹

رشتہ داري:رشتہ دارى كے حقوق ۳;رشتہ دارى كے اثرات۳

روايت : ۱۳، ۱۴، ۱۵، ۱۶ ، ۱۷

غربت:غربت كے نتائج ۷

غربائ:غرباء كے حقوق كا سرچشمہ ۷

فدك:قصہ فدك ۱۵

مال:مال ميں تصرف كاحدود ۱۱

محمد (ص) :محمد (ص) كے رشتہ داروں كے حقوق ۲، ۱۵;محمد (ص) كى ذمہ دارى ۲;محمد (ص) كے رشتہ داروں سے مراد ۱۳، ۱۴

مساكين :مساكين كے حقوق كى ادائيگى ۲، ۶

مسلمان :مسلمانوں كى معاشرتى ذمہ دارى ۸

معاشرہ:معاشرہ كى ضرورتوں كو پورا كرنا۸

واجبات : ۱، ۶، ۹، ۱۲

والدين :والدين كے حقوق كى اہميت ۴

۷۳

آیت ۲۷

( إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُواْ إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِرَبِّهِ كَفُوراً )

اسراف كرنے والے شياطين كے بھائي بند ہيں اور شيطان تو اپنے پروردگار كا بہت بڑا انكار كرنے والا ہے (۲۷)

۱_فضول خرچى كرنے والے( الله تعالى كى نعمتوں اور وسائل كو ضايع كرنے والے) شياطين كے بھائي ہيں _

إنّ المبذرين كانوا إخوان الشياطين

۲_وسائل كو ضائع كرنا شيطانى كام ہے_إنّ المنذرّين كانوا إخوان الشياطين

۳_شيطان الله تعالى كى نعمتوں كا انكار كرنے والا ہے _وكان الشيطان لربّه كفورا

۴_شيطان، الہى نعمتوں كے اسراف كا مظہر ہے_إن المبذرين كانوا إخوان الشيطين وكان الشيطان لربّه كفورا

۵_فضول خرچى (وسائل كو ضائع كرنا) الہى نعمتوں كى ناشكرى ہے_

إنّ المبذرين كانوا إخوان الشياطين وكان الشيطان لربّه كفورا

۶_الله تعالى كى نعمتوں ميں فضول خرچى اور ناشكرى ايك مذموم اور ناپسنديدہ عمل ہے_إنّ المبذرين لربّه كفورا

۷_پروردگار كے الطاف كے مد مقابل ناشكرى ،شيطانى روش ہے _وكان الشيطان لربّه كفورا

شيطان:شيطان كے بھائي۱;شيطان كى فضول خرچى ۴;شيطان كى ناشكرى ۳

عمل :شيطانى عمل ۲، ۷;ناپسنديدہ عمل ۶

فضول خرچى :فضول خرچى كى حقيقت ۵;فضول خرچى كى مذمت ۲ ، ۶;فضول خرچى كرنے والے ۱، ۴

۷۴

ناشكري:نعمتوں كى ناشكرى پر سرزنش ۷;پروردگار كي نسبت ناشكرى ۷;نعمتوں كى ناشكرى ۳، ۵ ، ۷

ناشكرى كرنے والے : ۳

آیت ۲۸

( وَإِمَّا تُعْرِضَنَّ عَنْهُمُ ابْتِغَاء رَحْمَةٍ مِّن رَّبِّكَ تَرْجُوهَا فَقُل لَّهُمْ قَوْلاً مَّيْسُوراً )

اگر تم كو اپنے رب كى رحمت كے انتظار ميں جس كے تم اميدوار ہو ان افراد سے كنارہ كش بھى ہونا پڑے تو ان سے نرم انداز سے گفتگو كرنا(۲۸)

۱_پيغمبر اسلام (ص) كى ذمہ دارى ہے كہ جب ان سے رشتہ دار، مساكين اور مسافر كسى مال كى درخواست كريں تو مال كے نہ ہونے كى وجہ سے نہ دے سكيں تو ان سے نرم اور جاذب انداز سے رويّہ كا مظاہرہ كريں _

وء ات ذإلقربى حقّه وإمّا تعرضنّ عنهم ابتغاء رحمة من ربك ترجوه

عبادت''ابتغا رحمة من ربك'' (اپنے پروردگار كى رحمت چاہتے ہو ) اور تاريخى شواہد حاكى ہيں كہ پيغمبر اسلام (ص) كا ان (مندرجہ بالا افرادكى مدد نہ كرنے كى وجہ انكے پاس مال كا نہ ہونا تھا_

۲_اپنى مالى كمزورى كى بناء پر ضرورت مندوں كى مدد نہ كرنے كى صورت ميں نرمى اور مناسب معذرت خواہانہ رويّہ اختيار كرنا چايئےإما تعرضنَّ عنهم فقل لهم قولاً ميسورا

۳_جو لوگ كسى اہم كام مثلاً عبادت كى وجہ سے ضرورت مندوں كى امدادنہ كرسكيں تو ضرورى ہے كہ ان سے نرم لہجہ سے بات كريں اور معذرت كريں _وإما تعرضنّ عنهم ابتغاء رحمة من ربّك ترجوها فقل لهم قولاً ميسورا

مندرجہ بالا مطلب كى بناء يہ احتمال ہے كہ پروردگار كى رحمت كى طلب سے مراد اس كى بارگاہ ميں عبادت ہو _ اس صورت ميں آيت كا معنى يوں ہوگا:''اگر ضرورت مندوں كى مدد عبادت كى وجہ سے نہ كرسكو تو ان سے معذرت كرو اور انہيں مناسب جواب دو_

۴_جب رشتہ داروں ، مساكين اور مسافروں كا حق ادا نہ كرسكو تو ان سے نرم و جاذب انداز ميں بات كرتے ہوئے احسن طريقے سے معذرت كرليں _وء ات ذإلقربى وإمّا تعرضنّ عنهم فقل لهم قولاً ميسورا

۵_پروردگار كى طلب رحمت جيسے اہم كام ميں مصروفيت كى بناء پر مستحقين كى امداد سے معذرت كے ساتھ كنارہ كشى جائز

۷۵

ہے_إمّا تعرضنّ عنهم ابتغاء رحمة من ربّك ترجوها فقل لهم قولاً ميسورا

۶_مؤمن ،رشتہ داروں اور معاشرہ كے مستحقين كى مدد كے ليے وسائل كا آرزومند ہے_

وإمّا تعرضنَّ عنهم ابتغاء رحمة من ربّك ترجوه

۷_رشتہ داروں اور مساكين كے حق ميں مالى ضعف اور مناسب وسائل نہ ہونے كى بناپر انفاق كا ترك كرنا صحےح اور قابل قبول عذر ہے_وء ات ذإلقربى حقّه وإمّا تعرضنّ عنهم ابتغاء رحمة من ربّك ترجوه

۸_پروردگار كى رحمت پر اميد ، محنت وسعى كے ساتھ ہونى چاہئے_ابتغاء رحمة من ربّك ترجوه

''ابتغائ'' سے مراد اپنى آرزئوں كو پانے كےلئے محنت وكوشش كرنا ہے _ (مفردات راغب)

۹_الطاف الہى پر ضرور اميد ركھنا اور صرف اپنى زحمت وكوشش پر اكتفاء نہ كرنا _ابتغاء رحمة من ربّك ترجوه

''ابتغائ'' كا ''ترجوھا'' كے ہمراہ آنا بتارہا ہے كہ انسان كے اپنے ضرورى وسائل كو پانے كے لئے يہ دونوں عناصر ہونا چاہئے نہ كوشش كے بغير اميد اور نہ اميد كے بغير كوشش _

۱۰_مادى وسائل ،اللہ كى رحمت ہيں _وإماتعرضنّ عنهم ابتغاء رحمة من ربّك

۱۱_مادى وسائل اور الہى نعمتيں الله كى ربوبيت كا مظہر اور انسانى ترقى وكمال كے لئے ہيں _ابتغاء رحمة من ربك ترجوه

۱۲_مؤمنين كو چايئےہ وہ دنياوى وسائل اور نعمتوں كو پروردگار كى جانب سے رحمت سمجھيں _

وإمّا تعرضنّ عنهم ابتغاء رحمة من ربّك ترجوه

پيغمبر اسلام (ص) يا مؤمنين كرام كو مستحقين كى مدد كے امكان نہ ہونے كى صورت ميں ان سے اچھے انداز سے رويّہ ركھنے كى نصےحت جو كہ''ابتغاء رحمة من ربك ترجوها'' كى تعبير كے ساتھ آئي ہے' ہوسكتا ہے يہ نكتہ بيان كر رہى ہو كہ مؤمنين ہميشہ وسائل كو الله كى طرف سے سمجھيں _

۱۳_رشتہ داروں اور مساكين كے احساسات كى طرف توجہ اور انہيں رنجيدہ كرنے سے پرہيز ايك ضر ورى اور مناسب اخلاق ہے_وإمّا تعرضنّ فقل لهم قولاً ميسورا

۱۴_جو لوگ مالى ضعف كى بناپر رشتہ داروں ، مساكين

۷۶

اور مسافروں كى مدد نہيں كرسكتے تو انہيں اس طرح وعدہ يا اميد بھى نہيں دلانى چايئےہ پھر مشكل سے دوچارہوں _

وإما تعرضن ابتغاء رحمة من ربك ترجوها فقل لهم قولاً ميسورا

مندرجہ بالا مطلب كى بنياد يہ ہے كہ يہ جملہ'' قل لهم قولاً ميسوراً'' سے مراد يہ ہے كہ اب جب تم انكى ضرورت كو پورا نہيں كرسكتے تو انہيں ايسا وعدہ دو كہ پھر تمہارے لئے مشكل اور پريشانى نہ كھڑى ہو_

آرزو:مادى وسائل كى آرزو ۶

آنحضرت (ص) :آنحضرت (ص) كى ذمہ د ارى ۱;آنحضرت (ص) اور رشتہ دار ۱;آنحضرت (ص) كا ضعف مالى ۱; آنحضرت(ص) ا ورمسافر۱;آنحضرت(ص) اور مسا كين ۱

احكام : ۷الله تعالى :الله تعالى كى رحمت كى اہميت ۵;اللہ كى رحمت چاہنا ۵; الله تعالى كى رحمت ۱۲; الله تعالى كى رحمت كے موارد ۱۰; الله تعالى كى نعمتيں ۱۲; الله تعالى كى ربوبيت كے نتائج ۱۱

اميد ركھنا:اميد ركھنے كى اہميت ۹;اللہ تعالى كى رحمت پر اميد ركھنا ۹;اللہ تعالى كى رحمت پر اميد ركھنے كى شرائط ۸;اميد ركھنے ميں كوشش ۸

انفاق:انفاق كے احكام ۷

رشتہ دار:رشتہ داروں كى امداد۶;رشتہ داروں پر انفاق ۱۴;رشتہ داروں كے احساسات كى طرف توجہ كى اہميت ۱۳;رشتہ داروں كى ضرورت پورى كرنے سے پرہيز ۷;رشتہ داروں سے ملنے كى طريقہ كا طريقہ ۴;رشتہ داروں سے معذرت ۴

عبادت كرنے والے:عبادت كرنے والوں كى ذمہ دارى ۳

عذر:قابل قبول عذر ۷

فقر:فقر كے نتائج ۷

فقرائ:فقراء كى امداد ۶;فقراء پر انفاق ۱۴; فقراء كے جذبات كى رعايت كى اہميت ۱۳ ; فقراء كى ضرورت پورى كرنے سے اعراض ۱، ۲، ۵ ، ۷;فقراء سے رويّہ كا طريقہ ۲، ۳، ۵;فقراء سے معذرت خواہى ۲،۳، ۵

كمال :كمال كا پيش خيمہ ۱۱

كوشش:كوشش كى اہميت ۸

مادى وسايل :مادى وسائل كا سرچشمہ۱۰ ،۱۱،۱۲

۷۷

مسافر :مسافر پر انفاق ۱۴;مسافر سے اپنانے كا انداز ۱، ۴;مسافر سے معذرت خواہى ۴

مساكين :مساكين سے اپنانے كا انداز ۴;مساكين سے معذرت خواہى ۴

معاشرت:معاشرت كے آداب

مؤمنين :مؤمنين كى آرزو ۶;مؤمنين كى ذمہ دارى ۱۲

نعمت:نعمت كا سرچشمہ ۱۱

آیت ۲۹

( وَلاَ تَجْعَلْ يَدَكَ مَغْلُولَةً إِلَى عُنُقِكَ وَلاَ تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُوماً مَّحْسُوراً )

اور خبر دار نہ اپنے ہاتھوں كو گردنوں سے بندھا ہوا قرار دو اور نہ بالكل پھيلادو كہ آخر ميں قابل ملامت ور خالى ہاتھ بيٹھے رہ جاؤ(۲۹)

۱_مؤمنين كا وظيفہ ہے كہ وہ دوسروں پر انفاق اور اپنى ذاتى زندگى ميں مال ومتاع كے استعمال ميں اعتدال اور ميانہ روى اختيار كريں _ولا تجعل يدك مغلولة إلى عنقك ولا تبسطلها كلّ السبط

۲_مؤمنين كوچاہئے كہ وہ بخل،رشتہ داروں اور مساكين كے حقوق كى عدم ادئيگى سے پرہيز كرےں _

وء ات ذإلقربى حقّه ولاتجعل يدك مغلولة إلى عنقك

۳_كنجوس انسان اس شخص كى مانند ہے كہ جسكے ہاتھ گردن سے بندھے ہوئے ہوں _ولا تجعل يدك مغلولة إلى عنقك

''ولا تجعل يدك مغلولةإلى عنقك'' انفاق سے پرہيز يعنى كنجوسى سے كنايہ ہے يعنى ''كنجوسى تمہارے ہاتھوں كو گردن سے نہ باندھ دے''_ كى تعبير سے معلوم ہوتا ہے كہ كنجوس شخص ہاتھ بندھے ہوئے شخص كى مانند ہے_

۴_پيغمبر اسلام (ص) اپنى ذاتى زندگى ميں انفاق كے حوالے سے اعتدال كى رعايت اور حد سے زيادہ دينے سے پرہيز كرنے ميں ذمہ دارہيں _ولا تجعل يدك مغلولة إلى عنقك ولا تبسطها كل السبط فتقعدملوماً محسورا

مندرجہ بالا مطلب كى بناء يہ ہے كہ آيت كا مخاطب پيغمبر اسلام (ص) ہوں اگر چہ دوسرے لوگوں كو بھى شامل ہے_

۵_انفاق ميں حد سے زيادہ بڑھنے سے انسان اپنے ضرورى كاموں سے رہ جاتا ہے _ فتقعد ملوماً محسوراً آيت ميں مادہ ''قعود'' كا استعمال ہونا ہوسكتا ہے اسى مطلب كى طرف اشارہ ہو كہ اپنے كاموں سے پيچھے رہ جاتا ہے تو اس صورت حال ميں انسان كى دوسرے ملامت بھى كرتے ہيں اور وہ حسرت زدہ بھى ہوجاتا ہے _

۷۸

۶_كنجوسى ،ملامت كى باعث ہے اور انفاق ميں حد سے بڑھنا انسان كى زندگى ميں ضعف وحسرت كا باعث ہے_

ولاتجعل يدك ولا تبسطها كلّ البسط فتقعد ملوماً محسوراً _

مندرجہ بالا مطلب كى بناء يہ ہے كہ''ملوماً'' كا تعلق'' لا تجعل يدك مغلولة ''اور''محسوراً'' كا تعلق '' لاتبسطہا'' سے ہے _ اور اس حوالے سے بھى كہ ''محسورا'' كا معنى يہ ہے كہ انسان اپنے وسائل سے يوں جدا ہوجائے كہ وہ اس كى حسرت كا باعث ہوں _

۷_اقتصادى محورپراور زندگى كى ضروريات پورى كرنے ميں اعتدال كى رعايت اور افراط وتفريط سے پرہيز كرنا ايك ضرورى اور پسنديدہ چيز ہے_لاتجعل يدك مغلولة ولا تبسطها كل البسط

۸_انسان كو ايسے عمل كا مرتكب نہيں ہونا چاہئے كہ جس پر اس كى مذمت ہو اور وہ اپنے كئے پر پشيمان ہو اور حسرت كرے _ولا تجعل يدك فتقعد ملوماًمحسورا

۹_ہاتھوں سے گئي چيزوں پر سرزنش اور حسرت كرنا ان چيزوں ميں سے ہيں كہ جو انسانوں كو رنج ديتى ہيں اور ان كى طبع سے ناساز گار ہيں _فتقعد ملوماً محسورا

يہ كہ الله تعالى نے انفاق ميں افراط و تفريط كے انجام پر مذمت اور حسرت كرنے كا ذكر فرمايا ہے تاكہ انسان ايسے انجام سے بچنے كےلئے افراط و تفريط سے پرہيز كرے _ اس سے ثابت ہوتا ہے كہ يہ حالتيں انسان كےلئے رنجيدگى كا باعث ہيں _

۱۰_انسان كے ناپسنديدہ عمل كے ناگوار انجام پر توجہ دينا بذات خود اس كے ارتكاب سے روكنے والے اسباب ميں سے ہے_ولا تجعل يدك مغلولة إلى عنقك ولاتبسطها كل السبط فتقعد ملوماً محسوراً _

يہ كہ الله تعالى نے انفاق ميں افراط وتفريط سے روكتے ہوئے اس كا ناگوار انجام بھى ذكر كيا ہے_ اس سے مندرجہ بالا مطلب ثابت ہوتا ہے_

۱۱_انسانى زندگى كے راستہ كو صحيح طريقہ سے منظم كرنے ميں ''آئندہ حالات كو پيش نظر ركھنا اور تدبير سے كام لينا'' اہم قوانين ہيں _

ولاتجعل يدك مغلولة ولا تبسطها فتقعد ملوماً محسوراً_

جملہ ''فتقعد ملوماً محسوراً ميں چونكہ ''فا'' نتيجہ اور انجام بتانے كے لئے ہے تو اس سے مدد ليتے ہوئے ہم ديكھتے ہيں كہ الله تعالى ،

۷۹

آئندہ حالات كو پيش نظر ركھنے كے قانون كى بناء پر انسان كو انفاق ميں افراط و تفريط سے منع فرمارہاہے_

۱۲_عن أبى عبدالله (ع) ...علم الله عزّوجلّ نبيّه كيف ينفق، وذلك انه كانت عنده ا وقية من الذهب فكره ا ن يبيت عنده فتصدق بها فا صبح وليس عنده شي وجاء ه من يسا له فلم يكن عنده ما يعطيه فلامه السائل وا غتم هو حيث لم يكن عنده ما يعطيه وكان رحيماً رقيقاً فا دب الله تعالى نبيّه (ص )، با مره فقال: ولاتجعل يدك مغلولة إلى عنقك ولاتبسطها كلّ البسط فتقعد ملوماً محسوراً '' يقول : إن الناس قد يسا لونك ولا يعذرونك فإذا ا عطيت جميع ما عندك من المال كنت قد حسرت من المال (۱)

امام صادق (ع) سے روايت نقل ہوئي ہے كہ آپ(ع) نے فرمايا : الله تعالى نے اپنے پيغمبر اكرم (ص) كو سكھايا ہے كہ كس طرح انفاق كرنا چاہئے _ اور واقعہ اس طرح سے ہے كہ حضرت (ص) كے پاس كچھ سونا تھا آپ (ص) اسے صبح تك اپنے پاس نہيں ركھنا چاہتے تھے تو آپ (ص) نے اسے انفاق كيا اور صبح آپ (ص) كے پاس كوئي چيز نہ رہى ايك شخص آپ (ص) كے پاس آيا اور آپ(ص) سے كچھ مانگا' آپ (ص) كے پاس بھى اسے دينے كے لئے كچھ نہ تھا تو اس شخص نے آپ (ص) پر ملامت كى اور آپ (ص) بھى كچھ نہ ہونے كى بناء پر كہ اسے دے سكيں غمگين ہوئے چونكہ آپ (ص) بہت مہربان اور دل كے انتہائي نرم تھے تو الله تعالى نے اپنے پيغمبر (ص) كو ايك فرمان كے ساتھ تعليم دى اور فرمايا :''ولا تجعل يدك مغلولة إلى عنقك ولا تبسطها كل البسط فتقعد ملوماً محسوراً '' يعنى الله تعالى فرما رہا ہے : لوگ تجھ سے مانگتے ہيں اور تمھارا عذرقبول نہيں كرتے تو اگر سب كچھ انفاق كردو گے تو تنگى ميں پڑوگے_

۱۳_عن ا بى عبدالله (ع) ، فى قول الله عزّوجلّ ''فتقعد ملوماً محسوراً'' قال : الإحسار الفاقة (۱)

امام صادق (ع) سے اس كلام الہى''فتقعد ملوماً محسوراً'' كے بارے ميں روايت ہوئي ہے كہ آپ (ع) نے فرمايا : يہاں ''احسار'' سے مراد فقر اور تنگدستى ہے_

۱۴_فقال الصادق (ع) : المحسور العريان (۲) امام صادق (ع) سے روايت ہوئي ہے كہ محسور سے مراد عريان ہے _

____________________

۱) كافى ج ۵، ص ۶۷، ح ۱_ نورالثقلين ج ۳، ص ۱۵۸ ، ح ۱۷۸_

۲) كافى ج ۴، ص۵۵، ح۶_ نورالثقلين ج ۳، ص ۱۵۷ ، ح ۱۷۵_

۳) تفسير قمى ج ۲، ص ۱۹_

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809

810

811

812

813

814

815

816

817

818

819

820

821

822

823

824

825

826

827

828

829

830

831

832

833

834

835

836

837

838

839

840

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863

864

865

866

867

868

869

870

871

872

873

874

875

876

877

878

879

880

881

882

883

884

885

886

887

888

889

890

891

892

893

894

895

896

897

898

899

900

901

902

903

904

905

906

907

908

909

910

911

912

913

914

915

916

917

918

919

920

921

922

923

924

925

926

927

928

929

930

931

932

933

934

935

936

937

938

939

940

941

942

943

944

945