تفسير راہنما جلد ۱۰

تفسير راہنما 8%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 945

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 945 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 247183 / ڈاؤنلوڈ: 3402
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱۰

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

آگاہ  رہو جو شخص ہمارے شیعوں میں سے اس ذمہ داری کو ادا کرے اسکی فضیلت اسلام کے تمام دشمنوں سے جنگ کرنے والے مجاہدین  سے ہزار ہزار بار زیادہ ہے چونکہ علماء ہمارے مانے والے  محبین کے دین اور عقیدے کی دفاع اور محافظت کرتے ہیں جبکہ مجاہد ین انکے بدن اور جسم  کی دفاع کرتے ہیں”  اورقیامت کے دن پروردگار عالم کی طرف سے ایک منادی ندا دے گا کہاں ہے ہیں ایتام آل محمد کی کفالت کرنے والے جو انکی غیبت کے دوران انکی کفالت کرتے تھے( يُنَادِی مُنَادِی رَبِّنَا عَزَّ وَ جَلَّ أَيُّهَا الْكَافِلُونَ لِأَيْتَامِ آلِ مُحَمَّدٍ(ص) النَّاعِشُونَ  لَهُمْ عِنْدَ انْقِطَاعِهِمْ عَنْ آبَائِهِمُ الَّذِینَ هُمْ أَئِمَّتُهُم  (1)

پس ائمہ اطہار ؑکے ان نورانی  کلمات سے معلوم ہوتا ہے کہ عصر غیبت میں فقہا ء ؛ علماء اورخصوصاً ولی امر مسلمین کے انکے نزدیک کیا حیثیت ہے اور انکا کہنا نہ  مانا انکے حق میں جفا اور امام  کے نزدیک انکے مقام کا خیال نہ رکھنا اس شخص کو کس مقام میں لا کر کھڑا کردیتا ہے اگر چہ افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہےکہ ہمارے معاشرے میں  ہم میں سے بعض  خوستہ یا ناخواستہ دشمن کے غلط پڑوپکنڈوں کی  زد میں آکر  امام زمانہ کے مطیع نمائندوں کے خلاف ناحق زبان کھولنے  اور گستاخی کرنے کی جرئت کرتے ہیں جبکہ شیطان اور پیروان  شیطان اپنی تمام تر طاقتوں سمیٹ یہ کوشش  کررہیں  ہیں کہ انھی  پڑوپکنڈوں اور افواہوں کے ذریعے مجھ جیسے کمزور  مؤمنین کو علماء سے فقہاء سے دور کیا جاۓ تاکہ  انھیں دین اور ایمان کے دائرے سے نکالنا آسان ہو جاۓ ، اور ہم خود بھی جانتے ہیں کہ جو لوگ علماء اور ولایت فقیہ سے  کٹ جاتے ہیں   حقیقت میں وہ دین  اور صراط مستقیم سے کٹ جاتے ہیں   اور گمراہ ہو جاتے ہیں-نعوذ باﷲ من ذلک  - خدا ہمیں بچا کے رکھے -

پس ان روایات سےمعلوم ہوتا ہے عصر غیبت میں منتظریں کی  ایک اور اہم ذمہ داری  علماء  ،فقہاء کی اطاعت اورفرمان برداری اور خصوصیت کے ساتھ ولی امر مسلمین کے فرمان پر لببیک کہنا اور انکے نقش قدم پر چلنا ہے ۔جو کہ حقیقت میں خط ولایت  کے ساتھ متمسک  رہنا اور صراط مستقیم پر چلنا ہے - خدایا ہمیں  ہر دور میں اپنی حجت کو تشخیص دینے اور انکی اطاعت کرنے کی توفیق عطا فرما  - آمین !ثم  آمین!

--------------

(1):- الصراطالمستقیم ج : 3 ص ۵    

۶۱

۵:  برادران ایمانی کے ساتھ ہمدردی اور معاونت

ائمہ معصومینؐ کے ارشادات کے مطابق ہر دور کے امام کو اپنے ماننے والے مؤمنین پر ایک مہربان اور فداکار باپ کی حیثیت حاصل ہے ، اور تمام مؤ منین کو انکے  فرزندی  کا شرف حاصل ہے  اور یہی وجہ ہے امام زمانہ عجل اﷲ فرجہ کے  دوران غیبت میں مؤمنین کو ایتام آل محمد سے پکارا گیا ہے، يُنَادِی مُنَادِی رَبِّنَا عَزَّ وَ جَلَّ أَيُّهَا الْكَافِلُونَ لِأَيْتَامِ آلِ مُحَمَّدٍ ص النَّاعِشُونَ لَهُمْ عِنْدَ انْقِطَاعِهِمْ عَنْ آبَائِهِمُ الَّذِینَ هُمْ أَئِمَّتُهُم  (1)   اورکسی مؤمن بھائی کے ساتھ احسان وہمدردی ، اسکے ساتھ تعاون کرنے کو امام زمانہ کے ساتھ تعاون کرنے اور انکے حق میں ہمدردی سے پیش آنے  اسی طرح کسی مؤمن  بھائی کے حق کشی ، اسکے ساتھ بے دردی وبے اعتنائی سے پیش آنے کو امام زمانہؑ پر ظلم وجفا اور انکے ساتھ بے اعتنائی  سے پیش آنے کے برابر شمار  کیا گیا ہے ۔

لہذا منتظرین کی ایک اور بہت ہی اہم ذمہ داری عصر غیبت میں ہر ممکنہ راستوں سے برادران ایمانی کے معاشتی ،سماجی ،اجتماعی اقتصادی ، معنوی اور دیگر مختلف قسم کے مشکلات اور گرفتاریوں کو حل کرنے اور انکی ضروریات پورا کرنے کے لیے  جد وجہد کرنا ہے - چنانچہ اسی اجتماعی ذمہ داری کی  اہمیت اور اس پر عمل کرنے والوں کی خدا  و رسول اور  انکے حقیقی جانشین کے نزدیک قدر ومنزلت کو بیان کرتے ہوۓ  جناب شیخ صدوق نے سورہ عصر کے تفسیر میں امام صادق        سے نقل کرتے ہیں آپ فرماتے ہیں :(والعصر انّ الإنسان لفی خسر ) میں عصر سے مراد قائم کے ظھور کا زمانہ ہے  اور(إنّ الإنسان لفی خسر) سے مراد ہمارے دشمن ہیں اور(إلاّ الذین آمنوا ) سے مراد وہ مؤمنین ہیں جنہون نے ہماری آیات کے زریعے  ایمان لائیں ہونگے  - اور ( وعملواالصالحات ) یعنی برادران دینی کے ساتھ ہمدردی  اورتعاون کرتے ہیں(وتواصوا بالحق ) یعنی امامت اور(وتواصوا بالصبر )

--------------

(1):-    مستدرکالوساةل :ج 17 ص 318

۶۲

زمانہ فترت یعنی وہی غیبت کا زمانہ ہے (جس میں امام  غائیب پر عقیدہ رکھتے ہیں اور اس راہ  مین پیش آنے والی مشکلات پر صبر کرتے ہیں )(1) یعنی اس سورہ مبارکہ میں نجات یافتہ مؤمنین سے مراد وہ مؤمنین ہیں جنھون نے دوران غیبت میں اپنے مالی ،معنوی اسطاعت کے زریعے پسماندہ ،بے کس اور ناتوان مؤمنین کےہم دم  اور فریاد رس رہے ہیں  ۔

اسی طرح کسی دوسرے حدیث میں امام صادق        اور امام کاظم          دونوں سے روایت ہے  فرماتے ہیں :ُ مَنْ لَمْ يَقْدِرْ عَلَی زِيَارَتِنَا فَلْيَزُرْ صَالِحَ إِخْوَانِهِ يُكْتَبْ لَهُ ثَوَابُ زِيَارَتِنَا وَ مَنْ لَمْ يَقْدِرْ أَنْ يَصِلَنَا فَلْيَصِلْ صَالِحَ إِخْوَانِهِ يُكْتَبْ لَهُ ثَوَابُ صِلَتِنا (2) جو شخص ہم اہل بیت سے تعاون کرنے یا صلہ کرنے سے معذور ہو اسے چاہیے ہمارے چاہنے والوں کے ساتھ نیکی اور تعاون کرے  تو اسے  ہمارے ساتھ تعاون کرنے اور نیکی کرنے کا ثواب عطا ہو گا،اسی طرح اگر ہماری زیارت سے محروم ہیں تو ہمارے دوستوں اوراللہ کے  صالح بندوں کی زیارت کریں تو  خدا    اسے ہماری زیارت کرنے کا ثواب  عطا کرے گا

 چنانچہ  اما م موسی کاظم         سے روایت ہے فرماتے ہیں :مَنْ أَتَاهُ أَخُوهُ الْمُؤْمِنُ فِی حَاجَةٍ فَإِنَّمَا هِيَ رَحْمَةٌ مِنَ اللَّهِ تَبَارَكَ وَ تَعَالَی سَاقَهَا إِلَيْهِ فَإِنْ قَبِلَ ذَلِكَ فَقَدْ وَصَلَهُ بِوَلَايَتِنَا وَ هُوَ مَوْصُولٌ بِوَلَايَةِ اللَّهِ وَ إِنْ رَدَّهُ عَنْ حَاجَتِهِ وَ هُوَ يَقْدِرُ عَلَی قَضَائِهَا سَلَّطَ اللَّهُ عَلَ کی ولایت خدا کی ولایت سے متصل ہے  )لیکن اگر اسے رد کر لے جبکہ وہ اس شخص کی حاجت پورا کرنے کی توانائی رکھتا ہو تو پروردگاريْهِ شُجَاعاً مِنْ نَارٍ يَنْهَشُهُ فِی قَبْرِهِ إِلَی يَوْمِ الْقِيَامَةِ مَغْفُوراً لَهُ أَوْ مُعَذَّباً فَإِنْ عَذَرَهُ الطَّالِبُ كَانَ أَسْوَأَ حَالا   (3) کسی کے پاس اسکا مؤمن بھائی کوئی نہ کوئی حاجت لے کر آۓ تو اسے  یہ سمجھنا چاہئے کہ یہ  خدا کی طرف سے رحمت ہے جو اس پر نازل ہوئی ہے  پس اس حالت میں اگر اسکی حاجت پوری کر دے تو اسے ہماری ولایت کے ساتھ متصل کیا ہے  اور بے شک اسے  خدا کی ولایت حاصل ہوئی ہے (چونکہ  اہل بیت اطہارؑ  کی ولایت خدا کی ولایت کا ایک حصّہ ہے لہذا جو اہل بیت ؑؑ اطہار کی ولایت کے دائرے میں داخل ہو جائے وہ خدا کی ولایت میں آگیا ہے )

--------------

(1):- صدوق : اکمال الدین:ج۲ ،ص ۶۵۶ -  

(2):- طوسی ،تہذ یب ج ۶ ،ص۱۰۴  اور کامل زیارات :ص ۳۱۹ - 

(3):- کلینی: اصول الکاف یج : 2 ص : ۶ 19 

۶۳

لیکن اگر اسے رد کر دے جبکہ وہ اس شخص کی حاجت پورا کرنے کی توانائی رکھتا ہو تو پروردگار عالم اسکے قبرمیں آگ سے  بنائے  ہوئے ایک سانپ  کو اس پر مسلط کرۓ گا جوقیامت تک اسے ڈنستا رہے گا چاہیے اسے خدا معاف کرے یا نہ کرے اور قیامت کے دن صاحب حاجت اسکا عذر قبول نہ کرے تو اسکی حالت پہلے سے بھی  زیادہ بدتر ہو جاۓ گی-

اسی طرح  متعدد روایات میں کسی مومن بھائی کی حرمت کا خیال نہ رکھنا اسکے ساتھ نیک برتاؤ سے پیش نہ آنا اور اسکے ساتھ تعاون نہ کرنا ائمہ علیہم السلام کے ساتھ تعاون نہ کرنے اور ان مقدس ذوات کی بے حرمتی کرنے کےبرابر جانا گیا ہے چنانچہ ابو ہارو ن نے چھٹے امام سے نقل کیا ہے کہتا ہے  :قَالَ قَالَ لِنَفَرٍ عِنْدَهُ وَ أَنَا حَاضِرٌ مَا لَكُمْ تَسْتَخِفُّونَ بِنَا قَالَ فَقَامَ إِلَيْهِ رَجُلٌ مِنْ خُرَاسَانَ فَقَالَ مَعَاذٌ لِوَجْهِ اللَّهِ أَنْ نَسْتَخِفَّ بِكَ أَوْ بِشَيْ‏ءٍ مِنْ أَمْرِكَ فَقَالَ بَلَی إِنَّكَ أَحَدُ مَنِ اسْتَخَفَّ بِی فَقَالَ مَعَاذٌ لِوَجْهِ اللَّهِ أَنْ أَسْتَخِفَّ بِكَ فَقَالَ لَهُ وَيْحَكَ أَ وَ لَمْ تَسْمَعْ فُلَاناً وَ نَحْنُ بِقُرْبِ الْجُحْفَةِ وَ هُوَ يَقُولُ لَكَ احْمِلْنِی قَدْرَ مِیلٍ فَقَدْ وَ اللَّهِ أَعْيَيْتُ وَ اللَّهِ مَا رَفَعْتَ بِهِ رَأْساً وَ لَقَدِ اسْتَخْفَفْتَ بِهِ وَ مَنِ اسْتَخَفَّ بِمُؤْمِنٍ فِینَا اسْتَخَفَّ وَ ضَيَّعَ حُرْمَةَ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ  ” (1) ایک دفعہ امام صادق       نے کچھ لوگ جوآپ کے   پاس بیٹھے ہوۓ تھے او رانکے ساتھ میں بھی تھا ،ان سےکہا تمھیں کیا ہو گیا ہے ہماری حرمت کا خیال نہیں رکھتے ہو ،تو اہل خراسان کا رہنے والا  ایک شخص کھڑا ہوا اور کہا خدا سے پناہ مانگتا ہوں کہ ہم آپکو سبک شمار کرے یا آپکے فرمان میں کسی چیز کی بے اعتنائی کرے ، امام نے فرمایا ہاں انھی میں سے ایک تم بھی ہو جو ہمارے  لاج نہیں رکھتے ،اس شخص نے دوبار ا    کہا میں خدا سے پناہ مانگتا ہوں کہ آپکی لاج نہ رکھوں ،فرمایا چپ ہو جاؤ   کم بخت  کیا تم نے اس شخص کی آواز نہیں سنی تھی اس وقت جب ہم جعفہ کے نزدیک تھے اور وہ تم سے کہ رہا تھا کہ مجھے صرف ایک میل تک اپنے سواری پر بٹھا کر لے چلو خدا کہ قسم میں بہت ہی تھکا ہوں ،خدا کی قسم تم نے سر اُٹھا کر  بھی اسکی طرف نہیں دیکھا اس طریقے سے تم نے اسکی بے اعتنای کی ہے اور  کوئی شخص کسی  مومن کی استخفاف  کرے اسنے ہمارے بے اعتنائی کہ ہے ،اور خدا کی حرمت ضائع کر دی ہے ۔

--------------

(1):- کلینی :روضۃ الکافی،ج۸، ص ۱۰۲ -

۶۴

اسی طرح کسی دوسرے حدیث میں جابر جعفی امام محمد باقر        سے نقل کرتے ہیں: و نحن جماعة بعد ما قضینا نسكنا، فودعناه و قلنا له أوصنا یا ابن رسول الله. فقال لیعن قویكم ضعیفكم، و لیعطف غنیكم علی فقیركم، و لینصح الرجل أخاه كنصیحته لنفسه.... ، و إذا كنتم كما أوصیناكم، لم تعدوا إلی غیره، فمات منكم میت قبل أن یخرج قائمنا كان شهیدا، و من أدرك منكم قائمنا فقتل معه كان له أجر شهیدین، و من قتل بین یدیه عدوا لنا كان له أجر عشرین شهیدا. (1) کہ ہم نے مناسک حج اکٹھے  بجھا   لا نے  کے بعد جب   امام سے الگ ہونے کو تھے آپ سے عرض کیا اے فرزند رسول    ہمارے لیے کوئی نصیحت فرمائیں تو آپ نے فرمایا تم میں سے جو قوی ہے  قدرت ومقام رکھتا ہے اسکی ذمہ داری ہے کمزور لوگوں کی مدد کرے اور جو مالدار ہے فقیروں اور بے کسوں پر ترس کریں انکی نصرت کریں ،اوراپنے  مومن بھائی کے ساتھ اس طرح خیر خواہی سے پیش آے  جس طرح اپنے نفس کے ساتھ خیر خواہ ہے .....اور اگر تم نے ہماری نصیحت پر عمل کیا  تو غیروں میں سے شمار نہیں ہوگے- اب اس حالت میں تم میں سے جو شخص  قائم آل محمدکے قیام کرنے سےپہلے مر جاۓ تووہ شہید کی موت مرا  ہے ،اور جو  اپنی زندگی میں انھیں درک کرلے اور انکے ساتھ جھاد کرے تو اسے دو شہید کا ثواب عطا کرے گا ،اور جو شخص انکے ساتھ ہوتے ہوے ہمارے کسی دشمن کو قتل کرلیں تو اسے بیس ۲۰ شہید کا اجر دیا جاۓگا- پس ان روایات سے بخوبی یہ واضح ہوتا ہے کہ منتظرین کی اپنے مومن بھائی کی نسبت کیا ذمہ داری ہے اور اس اجتماعی  ذمہ داری کی کیا اہمیت ہے کہ جس کا خیال رکھنا  ہم سب کا شرعی اور اخلا قی فریضہ ہے - 

۶: خود سازی اور دیگر سازی

منتظرین کی ایک اور اہم ذمہ داری خودسازی و اپنے جسم وروح کی تربیت کے ساتھ ساتھ دیگر سازی  اور ہم نوع کی تربیت بھی ہے ،خود سازی اور دیگر سازی ایک اہم دینی وظیفہ ہونے کے ساتھ بزرگ ترین اور عالی ترین  انسانی خدمات میں سے بھی شمار ہوتا ہے

--------------

(1):- امالی طوسی ،ص ۲۳۲ اور بحار انوار ،۵۲ ،ص ۱۲۲ ،ح ۵ - 

۶۵

اور اسلامی تعلیمات میں بھی حضرت ولی عصر ؑاور انکے جان بہ کف آصحاب  تاریخ انسانیت کے پرہیز گار ؛متقی اور صالح ترین افراد ہونگے چنانچہ انکے توصیف میں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے :وَ لَقَدْ كَتَبْنَا فىِ الزَّبُورِ مِن بَعْدِ الذِّكْرِ أَنَّ الْأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِىَ الصَّلِحُون٭  (1)   اور ہم نے ذکر کے بعد زبور میں بھی لکھ دیا ہے کہ ہماری زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہی ہوں گے۔

 اسی طرح احادیث معصومین میں بھی امام عصر ؑکے آصحاب وہ لوگ ہونگے جنھیں خدا ورسولؐ اور ائمہ معصومینؑ کی صحیح معرفت  حاصل ہوگئی ، اخلاق اسلامی سے متخلق؛ نیک کردار کے مالک ؛عملی میدان میں ثابت قدم و پائیدار ؛ دستورات دینی کے مکمل پابند اور فرامین معصومینؑ کے سامنے سر تسلم خم ہونگے ۔

چنانچہ امیر المؤمنین علی علیہ السلام نھج البلاغہ میں انکے توصیف میں فرماتے ہیں :وَ ذَلِكَ زَمَانٌ لَا يَنْجُو فِیهِ إِلَّا كُلُّ مُؤْمِنٍ نُوَمَةٍ إِنْ شَهِدَ لَمْ يُعْرَفْ وَ إِنْ غَابَ لَمْ يُفْتَقَدْ أُولَئِكَ مَصَابِیحُ الْهُدَی وَ أَعْلَامُ السُّرَی لَيْسُوا بِالْمَسَايِیحِ وَ لَا الْمَذَايِیعِ الْبُذُرِ أُولَئِكَ يَفْتَحُ اللَّهُ لَهُمْ أَبْوَابَ رَحْمَتِهِ وَ يَكْشِفُ عَنْهُمْ ضَرَّاءَ نِقْمَتِه‏. “ (2) اخری زمانہ  وہ زمانہ ایسا ہو گا جس میں صرف وہ مؤمن نجات پاسکے گا کہ جو گمنام اور بے شر ہو گا مجمع اسے  نہ پہچانے اور غائب ہو جاۓ تو کوئی اسکی  تلاش نہ کرۓ یہی لوگ ہدایت کے چراغ اور راتوں کے مسافروں کے لیۓ  نشانیان  منزل ہوں گۓ  نہ ادھر ادُھر   لگاتے پھرین گۓ  اور نہ لوگوں کے عیوب کی اشاعت کریں گے ؛ ان کے لئے اﷲ رحمت کے دروازے کھول دے گا اور ان سے عذاب کی سختیوں کو دور کردے گا

--------------

(1):- انبیاء :۱۰۵ - 

(2):- نہج البلاغ ہ،خ ۱۰۳ ،ص ۲۰۰ ،ترجمہس ید ذیشان حیدر جوادی - 

۶۶

اسی طرح صادق آل محمد  سے روایت ہے آپ فرماتے ہیں : “جو شخص چاہتا ہے کہ حضرت قائم  ؑکے اصحاب میں سے ہوں اسے چاہئے انتظار کرنے کے ساتھ ساتھ پرہیزگاری اور نیک اخلاق کو پناۓ ،پھر اگر وہ اس حالت میں انکے قیام سے پہلے مر جاۓ اور بعد میں ہمارا قائم قیام کرۓ تو اسے ایسا اجر دیا جاۓگا جیسے اس نے حضرت کو درک کیا ہو.(1) اور خود معصومینؑ کے فرمان کے مطابق مبغوض ترین فرد وہ شخص ہے جو مؤمن اور امام زمانہ کے منتظر ہونے کا دعوا کرے لیکن قول وفعل میں انکے دیے ہوۓ دستورات اور دینی قوانین کے مخالفت سمت قدم اٹھاۓ چنانچہ اسی نقطے کی طرف اشارۃکرتے ہوۓ امام ذین العابدین فرماتے ہیں :لَا حَسَبَ لِقُرَشِيٍّ وَ لَا لِعَرَبِيٍّ إِلَّا بِتَوَاضُعٍ وَ لَا كَرَمَ إِلَّا بِتَقْوَی وَ لَا عَمَلَ إِلَّا بِالنِّيَّةِ وَ لَا عِبَادَةَ إِلَّا بِالتَّفَقُّهِ أَلَا وَ إِنَّ أَبْغَضَ النَّاسِ إِلَی اللَّهِ مَنْ يَقْتَدِی بِسُنَّةِ إِمَامٍ وَ لَا يَقْتَدِی بِأَعْمَالِهِ.” (2)   کسی کو عربی اور قریشی ہونے کی بنا پر دوسروں پر کسی قسم کی فوقیت اور برتری حاصل نہیں ہے سواۓ تواضع کے اورکسی کو کوئی کرامت حاصل نہیں ہے الا  یہ  کہ تقوای اختیار کرے  اور کوئی عمل نہیں ہے سواۓ نیت کے اور کوئی عبادت نہیں ہے سواۓ تفقہ کے (یعنی عبادت درست معرفت کے ساتھ ہے ) پس ہو شار رہو!پروردگار عالم کے نزدیک مبغوض ترین شخص وہ ہے جو ہماری ملت اور مذہب پر ہو لیکن عمل میں ہماری پیروی  واقتدا ء نہ کرے۔ اسی طرح امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :إِنَّا لَا نَعُدُّ الرَّجُلَ مُؤْمِناً حَتَّی يَكُونَ لِجَمِیعِ أَمْرِنَا مُتَّبِعاً مُرِیداً أَلَا وَ إِنَّ مِنِ اتِّبَاعِ أَمْرِنَا وَ إِرَادَتِهِ الْوَرَعَ فَتَزَيَّنُوا بِهِ يَرْحَمْكُمُ اللَّهُ وَ كَبِّدُوا أَعْدَاءَنَا بِهِ يَنْعَشْكُمُ اللَّهُ  (3) ہم کسی کو مومن نہیں جانتے جب تک وہ ہماری مکمل پیروی نہ کرۓ اور یہ جان لو ہماری پیروی پرہیز کاری اور تقوای اختیار کرنے میں ہے ،پس  اپنے آپکو زہد و  تقوای کے ذریعے زینت  دو  تاکہ خدا تمھیں  غریق رحمت کرۓ ،اور اپنے تقوای کے ذریعے ہمارے دشمنوں کو سختی وتنگی میں ڈال دو تاکہ خدا تمھیں عزت کی زندگی عطا کرے-

--------------

(1):- غیبۃ نعمانی :ص   ۱۰۶ 

(2):- کلینی :روضۃ الکافی ،ص ۲۳۴ ،ح۳۱۲ - 

(3):- کلینی :اصول کاقی ،ج۲ ،ص ۷۸ ،ح۱۳ - 

۶۷

پس ان روایات اور دوسری متعدد روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ جب ہم نے ان مقدس ہستیوں کو اپنے مولا ومقتدا قبول کیا ہے تو  وہ ذوات بھی ہم سےیہ توقع رکھنے کا حق رکھتے ہیں کہ ہم عمل وکردار میں انکے  نقش قدم پر چلیں اسی لیے معصومینؑ فرماتے ہیں :کہ تم ہمارے لئے  زینت  کا باعث بن جاؤ ننگ وعار کی باعث مت بنو (1)

۷: شبہات اور بدعتوں کا مقابلہ

زمان غیبت میں ہم سب کی  خصوصاً  علماءاور بیدار طبقے کہ ایک اہم فرائض معاشرے میں خود غرض یا سادہ لوح دوستوں کے ہاتھوں مختلف قسم کےبدعتوں اور ان شبھات کا مقابلہ کرنا ہے جو امام زمان     ہ   کی غیبت کی وجہ سے انکے بارے میں وجود میں آئی ہیں چنانچہ امام صادق علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں :إِذَا رَأَيْتُمْ أَهْلَ الرَّيْبِ وَ الْبِدَعِ مِنْ بَعْدِی فَأَظْهِرُوا الْبَرَاءَةَ مِنْهُمْ وَ أَكْثِرُوا مِنْ سَبِّهِمْ وَ الْقَوْلَ فِیهِمْ وَ الْوَقِیعَةَ وَ بَاهِتُوهُمْ كَيْلَا يَطْمَعُوا فِی الْفَسَادِ فِی الْإِسْلَامِ وَ يَحْذَرَهُمُ النَّاسُ وَ لَا يَتَعَلَّمُوا مِنْ بِدَعِهِمْ يَكْتُبِ اللَّهُ لَكُمْ بِذَلِكَ الْحَسَنَاتِ وَ يَرْفَعْ لَكُمْ بِهِ الدَّرَجَاتِ فِی الْآخِرَةِ ” (2) میرے بعد اہل تریدد (یعنی جو  ائمہ کی ولایت و امامت کے متعلق شک وتردید کا اظہار کرے)اور اہل بدعت (یعنی دین میں نئی چیز ایجاد کرنے والا جسکا دین سے کوئی ربط نہ ہو)کو دیکھیں تو ان لوگوں سے اپنی برائت و بیزاری کا اظہار کرو ،اور اس طرح انکے خلاف پروپکنڈہ کرو  کہ آیند ہ کوئی اسلام میں اس طرح کی فساد پھلانے کی جرئت نہ کرۓ اور لوگ خود بخود ان سے دور ہو جائیں اور انکی بدعتوں کو نہ اپنائیں اگر ایسا کیا تو پروردگار عالم اسکے مقابلے میں تمھیں حسنہ دیا جاۓ گا اور تمھارے درجات کو بلند کر ے گا ۔

اسی طرح بعض شبھات دشمنوں نے خود امام زمانہؑ کے بارے میں  لوگوں کے  حضرت مہدی پر عقیدے کو کمزور کرنے اور اس میں خلل  پیدا کرنے کے لئے ایجاد کیا ہے جیسا کہ آج کل نٹ پر ۱۰  ہزارسے زیادہ شبھات انکے متعلق دیا گیا ہے؛   تو علماء کی ذمہ داری ہے کہ ان شبھات کا مقابلہ کریں

--------------

(1):-کلینی: کافی ،ج ۲ ، ص ۷۷ ،ح۹ - 

(2):- کلینی : اصول کافی،ج۲ ،ص ۳۷۵ ،ح ۴

۶۸

 اور بطوراحسن  جواب دیں  اور  لوگوں کو امام زمانہ  ہ      کے مقدس وجود کی طرف جذب ہونے کا زمینہ فراہم کریں لہذا ہماری اس اہم زمہ داری اور عصر غیبت میں رونما  ہونے والے شبھات کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ امام صادق          فرماتے ہیں :.....  فإیاكم و الشك و الارتیاب و انفوا عن أنفسكم الشكوك و قد حذرتكم فاحذروا أسأل الله توفیقكم و إرشادكم (1) خبردار شک وریب سے پرہیز کرنا ،(یعنی انکے غیبت اور ظہور کے بارے میں) اپنے دلوں سے شکوک وشبھات باہر نکال دو میں نے تم لوگوں کو برحزر کردیا ہے لہذا تم لوگ اس قسم کے شک وتردید سے باز رہو  (چونکہ اس  امر میں شک صراط مستقیم میں شک کے برابر ہے ) میں اﷲ تعالی سے تمھارے لئے توفیقات اور ہدایت کی دعا کروں گا-

اسی طرح رسول اکرم (ص) فرماتے ہیں:......... یا جابر إن هذا الأمر أمر من أمر الله و سر من سر الله مطوی عن عباد الله فإیاك و الشك فیه فإن الشك فی أمر الله عز و جل كفر (2) اے جابر انکی غیبت اورظہور میں شک کرنا  خدا سے کفر اختیار کرنے کے برابر ہے -

اورہم سب جانتے ہیں کی آج کا دور ایسا دور ہے جس میں ایک طرف دشمن مختلف شبہات اور غلط پروپکنڈوں کے ذریعے لوگوں کو عقیدہ انتظار اور اسکی حقیقت سے دوررکھنے اور انکے دلوں میں شک وتردید پیدا کرنے کے درپے ہیں تو دوسری طرف جعلی اور فرصت طلب افراد امام زمانہ ؑکے مقدس نام پر مؤمنین کے انکی نسبت صادقانہ عقیدے سے سؤء استفادہ کرنے اور مختلف قسم کی دکانین کھولنے کی کوشش میں لگے ہوۓ ہیں لہذا علماو اور ذمہ دار افراد کی ذمہ داری ان دونوں حدود  پر دشمن کے مقابلہ کرنا ہے

--------------

(1):- الغیبةللنعمان ی      ص     150 ،ح ۸ -    

(2):- صدوق اکمال الدین : ج ۱ ، ص ۲۸۷ - 

۶۹

۸:بے صبری سے پرہیزکرنا

اس میں کوئی شک نہیں کہ عصر غیبت مشکلات اور مصائب کے ہجوم لانے کا زمانہ ہے اور مومنین سے مختلف قسم کی سختیوں اور گرفتاریوں کے ذریعے سے امتحان لیا جاۓ گا تاکہ اس طرح نیک وبد ؛صادق و کاذب اور مومن ومنافق میں تمیز ہو جاۓ اور یہ ایک سنت الہی ہے اس امت یا اس زمان کے لوگوں تک محدود نہیں بلکہ گزشتہ امتوں سے لیا گیا ہے اور آئیند آنے والے نسلوں سے بھی تا قیامت تک مختلف ذریعوں سے امتحان لیا جاۓ گا ۔ چناچہ اسی سنت الھی کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ پروردگار عالم قرآن مجید میں فرماتا ہے :ما كانَ اللَّهُ لِيَذَرَ الْمُؤْمِنینَ عَلی‏ ما أَنْتُمْ عَلَيْهِ حَتَّی يَمیزَ الْخَبیثَ مِنَ الطَّيِّبِ.....٭  ” (1) اﷲ تعالی مومنین کو منافقین سے جس حالت میں نا مشخص ہے نہیں رکھا جاۓ گا ،یہاں تک (امتحان کےذریعے )خبیث اور طیب میں تمیز پیدا ہو جاۓ ۔ اسی طرح سورہ   عنکبوت کی آیت  نمبر۲   میں فرماتا ہے :أَ حَسِبَ النَّاسُ أَنْ يُتْرَكُوا أَنْ يَقُولُوا آمَنَّا وَ هُمْ لا يُفْتَنُونَ٭ وَ لَقَدْ فَتَنَّا الَّذینَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَلَيَعْلَمَنَّ اللَّهُ الَّذینَ صَدَقُوا وَ لَيَعْلَمَنَّ الْكاذِبینَ   (2) “کیا لوگوں نے  یہ خیال کر رکھا ہے کہ وہ صرف اس بات پر چھوڑ دۓ جائیں گے کہ وہ یہ کہے کہ ہم  ایمان لے آۓ ہیں اور انکا امتحان نہیں ہو گا ٭ بشک ہم نے ان سے پہلے والوں کا بھی امتحان لیا ہے اور اﷲ تو بہر حال یہ جاننا چاہتا ہے کہ ان میں کون لوگ سچے ہیں اور کون جھوٹے ہیں ” 

--------------

(1):- سورہآل عمران : ۱۷۹ - 

(2):- سورہعنکبوت : ۲ -۳ - 

۷۰

اورناطق قرآن علی ابن ابی طالبؑ اسی بارے میں فرماتے ہیں :.....ِ أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ اللَّهَ قَدْ أَعَاذَكُمْ مِنْ أَنْ يَجُورَ عَلَيْكُمْ وَ لَمْ يُعِذْكُمْ مِنْ أَنْ يَبْتَلِيَكُمْ وَ قَدْ قَالَ جَلَّ مِنْ قَائِلٍ إِنَّ فِی ذلِكَ لَآیاتٍ وَ إِنْ كُنَّا لَمُبْتَلِین (1)   لوگو اﷲ تعالی کسی پر ظلم نہیں کرتا لیکن کبھی یہ ضمانت نہیں دیا ہے کہ تم سے امتحا ن بھی نہیں لیا جاۓ گا ، اور خدا سب سے بڑکر سچا ہے ،یوں فرماتا ہے “ بے شک ان حوادث اور وقعات میں علامتیں اور نشانیان ہیں اور ہم اچھے اور بُرے سب بندوں سے امتحان لیتے ہیں ”-

اور انھیں نشانیوں کی طرف اشارہ کرتے ہو ۓ اما م صادق        فرماتے ہیں :ہمارے قائم کے ظھور سے پہلے مومنین کے لئے خدا  کی  جانب سے کچھ نشانیاں ہیں ،عرض ہوا  یا ابن رسول اﷲ        وہ نشانیاں کیا ہیں ؟ فرمایا وہ نشانیاں اس کلام الھی میں ذکر ہوئی ہیں اور اس آیت کی تلاوت کی“وَ لَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْ‏ءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَ الْجُوعِ وَ نَقْصٍ مِنَ الْأَمْوالِ وَ الْأَنْفُسِ وَ الثَّمَراتِ وَ بَشِّرِ الصَّابِرینَ٭  “ (2) اور یقیناً  ہم تم سے خوف، بھوک اور اموال ،نفوس اور ثمرات کی کمی سے امتحان لیا جاۓ گا اور اے پیغمبر(ص) آپ ان صبر کرنے والوں کو بشارت دیدیں ” بے شک تم سے امتحان لیا جاۓ گا یعنی حضرت قائم کے خروج سے پہلے مومنین سے سلاطین جور  سے  ترس ،منگائی ،گرانی کی وجہ سے بھوک ؛گرسنگی ،تجارت میں ورشکستگی و ناگہانی موت اورفصل وکاشت میں نقصان کے ذریعے امتحان لیا جاۓ گا ،پھر فرمایا اے محمد بن مسلم یہ ہے اس آیت کی تاویل جسکی تاویل(وَ ما يَعْلَمُ تَأْویلَهُ إِلاَّ اللَّهُ وَ الرَّاسِخُونَ فِی الْعِلْمِ يَقُولُونَ آمَنَّا بِهِ كُلٌّ مِنْ عِنْدِ رَبِّنا وَ ما يَذَّكَّرُ إِلاَّ أُولُوا الْأَلْباب‏ (3) سواۓ خدا اور راسخین  فی علم کے علاوہ کوئی نہیں جانتا ۔

--------------

(1):- نہج البلاغ ہخطب ہ ۱۰۳ اردو ترجمہس ید ذیشان حیدر - 

(2):- بقرہ: ۱۵۵ - 

(3):- آل عمران :۷ - 

۷۱

اور امام زمانہؑ کے طول غیبت کے دوران  مختلف قسم کےسختیوں ا ورمصیبتوں پر صبر کرنے والوں کی توصیف میں پیغمبر اکرم(ص)  فرماتے ہیںَّ:قَالَ(ص) طُوبَی لِلصَّابِرِینَ فِی غَيْبَتِهِ طُوبَی لِلْمُقِیمِینَ عَلَی مَحَجَّتِهِمْ أُولَئِكَ وَصَفَهُمُ اللَّهُ فِی كِتَابِهِ فَقَالَ الَّذِینَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ... (1) خوش ہیں وہ لوگ جو اس کی غیبت کے زمانہ میں صبر سے کام لیں خوش ہیں وہ لوگ جواسکی محبت پر ثابت قدم رہیں،ان ہی لوگوں کی تعریف میں اﷲ نے اپنی کتاب میں ارشاد فرمایا ہے ،اور وہ لوگ غیب پر ایمان رکھتے ہیں.اور متعدد روایات میں انکی غیبت کی وجہ سے پیش آنے والی مصیبتوں واذیتوں پر بے صبری کرنے سے منع کیا گیا ہے اور قضاء وقدر کے سامنے تسلم ہونے کا حکم دیا ہے جیسا کہ شیخ کلینی نے اپنی سند امام صادق علیہ السلام سے نقل کیا ہے حضرت نے فرمایا :

كَذَبَ الْوَقَّاتُونَ وَ هَلَكَ الْمُسْتَعْجِلُونَ وَ نَجَا الْمُسَلِّمُونَ  (2) ظہور کے وقت تعین کرنے والے ہلاکت میں ہوں گے لیکن قضاوقدر الہی کے سامنے تسلیم ہونے والے نجات پائیں گے

۹: جوانوں کی مخصوص ذمہ داری

اسلامی تعلیمات میں جوانی اور جوان طبقے کو خاص اہمیت اور مخصوص مقام حاصل ہے ،انکے ساتھ الفت ،عطوفت کے ساتھ پیش آنے اور ہمیشہ اچھی نگاہوں سے دیکھنے پر زور دیا گیا ہے جس طرح رسول اکرم  (ص)کا فرمان ہے:اوصیكم بالشباب خیراً فإنّهم ارقُّ افئدةً انّ اللّه بعثنی بالحق بشیراً و»نذیراً  فحالفنی الشباب وخالفنی الشیوخ .تمھیں وصیت کرتا ہوں ان جوانوں کے بارے میں جو پاک دل ہوتے ہیں ،جب اﷲ تعالی نے مجھے بشیرو نذیر بنا کر بھیجا تو یہ جوان تھے جنھوں نے میرے ساتھ دیا جبکہ عمر رسیدہ افراد نے میری مخالفت کی ۔

--------------

(1):- مجلسی : بحار الانوار،ج۵۲ ،ص ۱۴۳ - 

(2):- الکاف یج : 1 ص : 368

۷۲

پس کلام رسول پاک (ص) سےہمیں یہ درس ملتا ہے کہ جوانوں کو بری نگاہوں سے نہیں دیکھنا چاہیے بلکہ انکے بارے  میں نیک سوچ رکھنا چاہیے اور تاریخ اسلام اس بات پر زندہ گواہ ہے کہ جب نبی اکرم(ص) نے ذوالعشیرمیں قریش کو توحید اور دین کی طرف پہلی بار دعوت دیا تو جس شخص نے سب سے پہلے آنحضرت(ص) کی دعوت پر لبیک کہا وہ علی ابن ابی طالب ۱۰ سالہ نوجوان تھے جبکہ بزرگان قریش آخری دم تک آپ کے مخالفت کرتے رہیں ۔

جوانی کی قدر وقیمت کے لیے یہی کافی ہے کہ خود امام زمانہؑ  ظہور کریں گے تو  آپ جواں  ہونگے  جیسا کہ امیر مومنین فرماتے ہے-مہدیؐؑ  قریش کے خاندان کا  ایک دلیر ؛ شجاع اور تیز ہوش جوان ہونگے تیس یا چالیس سے کم عمر میں ظہور کریں گے - اسی طرح امام زمانہ  ؑکا خاص سفیر نفس زکیہ جنہیں رکن مقام کے درمیان شہید کیا جاۓ گا ایک جوان ہو ں گئے ـ   اما م صادق        اس بارے میں فرماتے ہیں :امام زمانہ کے ظہورکے وقت انکی طرفسے ایک جوان شخص سفیرکے عنوان سے منتخب ہونگے تاکہ امام ؑکے پیغام کو اہل مکہ تک پہنچا  ۓ اور انھیں آنحضرت کی حکومت کے پرچم تلے آنے کی دعوت دے لیکن مکہ کے حکمران اسے رکن  و مقام کے درمیان شھید کریں گے(1)   اسی طرح مختلف روایا ت میں آیا ہے کہ امام عصر کے ۳۱۳  اصحاب میں سے بہت ہی کم افراد کے سب جوان ہونگے  -چناچہ امیر مومنین        فرماتے ہیں  - امام مہدی ؑکے اصحاب سارے جوان ہونگے ان میں کوئی بھوڑے نہیں ہونگے سواۓ آنکھ میں سرمہ اور کھانےمیں نمک کی برابرکے :أصحاب المهدی شباب لا كهول فیهم إلا مثل كحل العین و الملح فی الزاد و أقل الزاد الملح (2)   اور کتنا ہی کم ہو تا ہے کھانے میں نمک  کی مقدار ۔

--------------

(1):- طوسی الغیبہ ،ص ۴۶۴ -

(2):- طوسی الغیبہ ،ص ۴۷۶  اور بحار انوار ج ۵۲ ، ص ۳۳۳ -

۷۳

 اور روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اما م زمانہؑ کے غیبی ندا پر سب سے پہلے  لبیک کہنےوالے اکثر جوان ہی ہونگے  امامؑ صادق  فرماتے ہیں: امام ؑکے ظہور کرنے کے بعد جب انکا آسمانی ندا انکے کانوں تک پہنچ جاے گی تو اس حالت میں لبیک کہیں گے کہ اپنے  اپنے چھتوں پر آرام کررہے ہونگے اور بغیر کسی آمادگی کے حرکت کریں گے اور صبح ہوتے ہوتے اپنے امامؑ کی زیارت سے شرف یاب ہونگے -  (1)

سوال نمبر 14: کیا عصر غیبت میں حضرت مھدی  سے ملاقات ممکن ہے اگر ممکن ہے تو کیسے ؟

جواب : کثرت روایات اور مستند تاریخی حوالے یہ یہ بات ثابت ہے کہ غیبت صغری میں حضرت مھدی  کے نائبین خاص کے ذریعہ آپکے مانے والے آپ سے رابطہ برقرار کیے ہوے تھے او ر ان میں سے بعض افراد امام  کے حضور میں شرف یاب بھی ہوئے ہین ۔لیکن غیبت کبری میں یہ رابطہ ختم ہو گیا ہے اور امام عصر  سے عام طور پر ملاقات کرنا عادتا ً ناممکن ہے چو نکہ بنا اور وظیفہ آپکے لوگوں کی نگاہوں سے مخفی رہنا ہے لیکن اسکے باوجود عقلاً اور شرعاً دونو ں اعتبار سے آپکی دیدار سے مشرف ہونے میں کوئی مانع نہیں ہے جسکے تقریباً تمام علماء متقدمیں اور متاخریں سب متفق ہیں ۔جیسا کہ شیخ طوسی قدس سرہ فرماتے ہیں : ہم ممکن سمجھتے ہیں کہ بہت سے اولیا اور انکی امامت کے ماننے والے حضرات انکی خدمت میں پہونچیں اور انکی ہستی سے استفادہ کریں(2)    اسی طرح سیّد ابن طاووس علیہ الرحمتہ فرماتے ہیں : امام کی زیارت کے راستے ہر اس شخص کے لیے کھلا ہوا ہے جسے خدا اپنے بے انتہا احسان اور انکی زیارت عنایت فرمائے(3) :  اور تاریخ میں بھی انتہائی باوقا ر افراد  اور عظیم الشان علماء کی امام زمانہ  سے ملاقات کے واقعات نقل ہوئے ہیں (4)

--------------

(1):- نعمانی الغیبہ :ص ۳۱۶  ،باب ۲۰ ح ۱۱-

(2):- کلمات المحقیقن :ص533

(3):- الطرائف : ص185 

(4):- دیکھئے:جنة الماویٰ،اور نجم الثاقب،محدث نوری

۷۴

یہاں ضروری ہے کہ امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی ملاقات کے بارے میں بحث کے حوالے سے درج ذیل نکات پر توجہ دی جائے:

پہلا نکتہ یہ ہے کہ امام  علیہ السلام  کی ملاقات کبھی ایسے لوگوںکی نصرت اور مدد کے لئے ہوتی ہے کہ جو پریشانیوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور تنہائی و بے کسی کا احساس کرتے ہیں۔ مثلاً جیسے کوئی حج کے سفر میں راستہ بھٹک گیا اور امام  علیہ السلام  یا ان کے اصحاب میں سے کسی صحابی نے اسے سرگردانی سے نجات دی اور امام  علیہ السلام سے اکثر ملاقاتیں اسی طرح کی ہوئی ہیں۔

لیکن بعض ملاقاتیں عام حالات میں بھی ہوئی ہیں اور ملاقات کرنے والے اپنے مخصوص روحانی مقام کی وجہ سے امام  علیہ السلام  کی ملاقات سے شرفیاب ہوئے ہیں۔لہٰذا مذکورہ نکتے کے مد نظر توجہ رہے کہ ہر کسی سے امام  علیہ السلام کی ملاقات کا دعویٰ قابل قبول نہیں ہے۔

دوسرا نکتہ یہ ہے کہ غیبت کبریٰ کے زمانہ میں خصوصاً آج کل بعض لوگ امام زمانہ  علیہ السلام  کی ملاقات کا دعویٰ کرکے اپنی دُکان چمکا کرشہرت اور دولت حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس طرح بہت سے لوگوں کو گمراہی اور عقیدہ و عمل میں انحراف کی طرف لے جاتے ہیں، بعض دعاؤں کے پڑھنے اور بعض ایسے اعمال انجام دینے کی دعوت دیتے ہیں کہ ان میں سے بہت سے اذکار اور اعمال کی کوئی اصل اور بنیاد بھی نہیں ہے۔ امام زمانہ علیہ السلام  کے دیدار کا وعدہ  دے کر ایسی محفلوں میں شرکت کی دعوت دیتے ہیں جن کے طور طریقے دین یا امام زمان علیہ السلام     کے لئے قابل قبول نہیں اوریوں وہ لوگ امام غائب کی ملاقات کو سب کے لئے ایک آسان کام قرار دیتے ہیں، جبکہ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ امام  علیہ السلام  خداوندعالم کے ارادہ کے مطابق مکمل طور پر غیبت میں ہیں اور صرف ایسے گنتی کے چند افراد ہی کی امام  علیہ السلام سے ملاقات ہوتی ہے جن کی نجات فقط لطف الٰہی کے اس مظہر یعنی اما م عصر کی براہ راست عنایت پرمنحصر ہوتی ہے۔

۷۵

تیسرا نکتہ یہ ہے کہ امام علیہ السلام  کی ملاقات صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب امام زمانہ  علیہ السلام کی نظر میں کوئی مصلحت اس ملاقات میں ہو،

لہٰذا اگرکسی عاشق امام  علیہ السلام کو اس کے تمام تر اشتیاق ورغبت اور بھرپور کوشش کے باوجودبھی امام سے ملاقات کا شرف حاصل نہ ہوسکے تو اس کوما یوسی اور ناامیدی کا شکار نہیں ہونا چاہئے اورملاقات نہ ہونے کو امام  علیہ السلام کے لطف و کرم کے نہ ہونے کی علامت قرار نہیں دینا چاہئے، جیسا کہ جو افراد امام  علیہ السلام  کی ملاقات  سے فیض یاب ہوئے ہیں ان کی ملاقات کو ان کے تقویٰ اور فضیلت کی علامت قرارنہیں دیا جا سکتا ہے۔

حاصل کلام یہ کہ اگرچہ امام زمانہ  علیہ السلام کے جمالِ پر نور کی زیارت اور دلوں کے اس محبوب سے گفتگو اور کلام کرنا واقعاً ایک بڑی سعادت ہے لیکن آئمہ  علیہم السلام خصوصاً امام عصر علیہ السلام  اپنے شیعوں سے یہ نہیں چاہتے کہ ان سے ملاقات کی کوشش میں رہیں اور اپنے اس مقصود تک پہنچنے کے لئے  چِلّہ  کاٹیں، یا جنگلوں میں مارے مارے پھریں؛ بلکہ آئمہ معصومین علیہم السلام نے بہت زیادہ تاکید کی ہے کہ ہمارے شیعوں کو ہمیشہ اپنے امام کو یاد رکھنا چاہئے اور ان کے ظہور کے لئے دعا کرنا چاہئے اور آپ کی رضایت حاصل کرنے کے لئے اپنی رفتار و کردار کی اصلاح کی کو شش کرنا چاہئے اورآپ کے عظیم مقاصد کے حصول کے راستے پر قدم بڑھانا چاہئے تاکہ جلد از جلدبشریت کی اس آخری امید کے ظہور کا راستہ ہموار ہوجائے اور کائنات ان کے وجود سے براہ راست فیضیاب ہو۔خود امام مہدی  علیہ السلام فرماتے ہیں:''اَکثِرُْوا الدعَاء َ بِتَعجِیلِ الفرجِ، فانَّ ذَلکَ فَرَجُکُم'' (1)  

--------------

(1):- کمال الدین،ج2،باب45،ح4،ص239. اس مطلب کو محور کائنات  جناب  سیفی کی کتاب سے لیا گیا ہے ۔

۷۶

سوال نمبر 15: انتظار کیا ہے ؟  اور اسکا صحیح  معنی بیان کیجہے ؟

ج : انتظار کا صحیح مفہوم :

لغت کے اعتبارسے انتظار  ایک نفسیاتی حالت جو آئندہ اور مستقبل کے لیۓ  امیدوار ہونا ہے لیکن اسلامی تعلیمات میں انتظار نہ صرف ایک نفسیاتی حالت کا نام نہیں بلکہ عقیدہ ہے عقیدہ حق وعدالت  کے طاقتوں کا ظلم وباطل کے طاقتوں پر مکمل طور پر غالب آنے ،تمام انسانی اقدار کا روۓ زمین پر برقرار ہونے اور مدینہ فاضلہ یعنی ایک آئیڈیل آفاقی معاشرے کے وجود میں لانے بلاآخر عدل الہی اور دین الہی کا اس روۓ زمین پر آخری حجت خدا کے ہاتھوں جلوہ گرہونے کا ۔

انتظار نظریہ ہے نظریہ آخری زمانہ میں منجی موعود کا ظہور کرنے اور عالم بشریت کو موجودہ حالات سے نجات دینے اور مستضعفیں کے ہاتھوں ایک آفاقی اور الھی نظام کا قائم کرنے کا ہے ۔انتظار عمل اور حرکت ہے ایسا عمل جو جس میں نفس کہ تزکیہ ہو، فردی اور اجتماعی اصلاح ہو یعنی خود سازی کے ساتھ دیگر سازی اور سماج سازی بھی ہو ،اور ایسی حرکت جو منظم اور انسانی زندگی کے تمام پہلو اور زاویوں سے  ہو، اور اس آفاقی نظام کے لیۓ  زمینہ فراہم کرۓ اور اس دور کے ساتھ ہم آہنگ اور وہم سوہوں  یہ ہے حقیقت انتظار  اسی لیے اہل بیت اطہارعلیم السلام نے واضح  الفاظ مین نظریۃانتظار کے بنیادی رکن کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ فرمایا ہے کہ انتظار صرف نفسیاتی حالت کا نام نہیں بلکہ عمل ہے اور وہ بھی بہتریں عمل ہے جیسا کہ  فریقین کی جانب سے منقول ہے رسول خدا (ص) نے فرمایاافضل اعمال امتی انتظار الفرج من اﷲ (1) -میری امت کے اﷲ تعالی کی جانب سے ظہور وآسائش کا انتظار کرنا بزرک ترین عمل ہے ۔ یاکسی اور مقام پر   آپ  یوں فرماتے  ہیں  -انتظار الفرج عبادة افضل اعمال اُمّتی انتظار فرج اﷲ عزّوجل  (2) - فرج اور آسائش کا انتظار کرنا عبادت ہیں میری امت کے اعمال میں سب کے بہتر عمل اﷲ کی طرف سے فرج وکشائش کا انتظار ہے

--------------

(1):- کمال الدین:  ج ۲ باب نمبر ۵۵ ح ۱ -

(2):- کنزل العمال : ج ۳ ص ۲۷۳ ح ۶۵۰۹ -

۷۷

اور اسی مضمون میں ائمہ معصومینؑ  سے بھی بے شمار روایتیں نقل ہوئی ہیں  جیسا کہ امیر المؤمنیں علی          فرماتے ہیں ۔انتظروا الفرج ولا تیأسو من روح اللّه ،فإنّ أحب الأعما الی اللّه عزّوجل انتظار الفرج  الآخذ بأمرنا معنا غداً فی حظیر القدس ،والمنتظر لأمرنا كالمتشحط بدمه فی سبیل اللّه (1)   آسائش اور رہائی کا انتظار کرو  خدا کی  رحمتوں سے کبھی مایوس نہ ہوجاؤ  اسلئے کہ پروردگا ر عالم کے نزدیک سب سے پسندیدہ عمل انتظار فرج ہے اور ہماری ولایت کو مضبوطی سے تھامنے والا کل جنت میں ہمارے ساتھ ہوگا  اور ہماری ولایت وامامت کے انتظار کرنے والا اس شخص کی مانند ہے  جو اﷲ کے راہ میں اپنے خون سے غلطان  ہو

د: انتظار کا غلط مفہوم اور اسکا منفی نتائیج .

ممکن ہے بسا اوقات نظریہ انتظار کو اپنے  درست اور اصلی مفہہوم  میں نہ سمجھنےبلکہ  کج فہمی  کے شکار ہونے  اور اسے غلط معنی اور مفہوم مراد لینے کی وجہ سے  یہی انتظار سازندگی وتعمیری روخ کو بدل کر تخریبی ویرانگری کا روخ اختیار کر لے اور ایک متحرک انقلابی اور پاک سرش شخص یا معاشرے کو  رکود وجمود ،مفلوج اور خباثت کی طرف دعوت دے  -

اگر آپ تاریخ  کا مطالعہ کریں تو سینکڑوں؛  ہزاروں کی تعداد میں افراد مختلف گروہوں  تنظیموں کی شکل میں نظر  آئیں گے جنہون  نے عقیدہ انتظار کو الٹا سمجھنے  اور اسے غلط مفہوم مراد لینے کی وجہ سے نہ صرف انتظار کو اپنے ترقی وسازندگی کا ذریعہ بنایا بلکہ الٹا یہی انتظار انکےمفلوج ہونے جمود کے شکار ہونے اور اپنے علاوہ سکاج کو بھی فساد اور گناہوں کی طرف دعوت دینے کا سبب بنا مثال کے طور پر (انجمن حجتیہ )نامی تنظیم جنہوں نے انقلاب اسلامی ایران سے پہلے انقلاب کے دوران او انقلاب کے بعد بھی ایران میں ملکی سطح  پر لوگوں کو فساد اور گناہوں کی طرف دعوت دیتے تھے اور انکا یہ شعار تھا کہ ہم معاشرے میں  جتنا بھی ہو سکھے گناہوں کو اور ظلم وبربریت کو عام کر دے

--------------

(1):- بحار انوار : ج ۵۲ ص ۱۲۳ ح ۷ -

۷۸

اتنا ہی امام زمانہ کی ظہور میں تعجیل کا زمینہ فراہم ہو گا اور امام جلدی ظہور کریں گے ہم یہاں پر ان گروہوں میں سے ایک دو کی طرف اشارہ کرتے ہیں تاکہ مؤمنین کے لیےاس قسم کے منحرف شدہ گروہوں کو پہچاننے اور ان سے دوری اختار کرنے میں مدد ثابت ہو جاے  ۔

پہلاگروہ ـ :1

لوگوں کے ایک گروہ کا یہ نظریہ ہے کہ عصر غیبت میں ہماری ذمہ داری صرف اور صرف حضرت حجت         کے تعجیل فرج کے لیے دعا کرنا ہے اور کسی قسم کی اصلا حی واجتماعی حرکت کو انتظار اور خدائی مصلحت کے خلاف سمجھتے ہیں انکا خیال ہے کہ دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے ہونے دو ؛ ہمیں کوئی ربط نہیں امام زمان       ہ خود تشریف فرما کر ان سب کو ٹھیک کریں گے،اسے پہلے جو بھی علم اٹھے گا باطل کا علم ہو گا اور لا محالہ دین و شریعت کے خلا ف ہو گا لہذا  اسے اصلاحی اور اجتما عی حرکت کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوتے ہیںامام خمینی قدس اﷲ (عصر حاضر کی عظیم ہستی)ا نکے رد میں فرماتے ہیں : (کچھ لوگ انتظار فرج کو صرف مسجدوں حسینیوں اور گھروں میں بیٹہ کر امام زمانہ کے ظہور کے لیے خدا کی درگاہ میں دعا کرنے میں دیکھتا ہے اور  تکلیف اور ذمداری سمجھتے ہیں ہم سے کوئی ربط نہیں دنیا میں ملتوں  پر کیا گزرے ،خود امام ظہور کریں گے تو سب کچھ ٹھیک کریں گے )یہ ان لوگوں کی منطق ہے جو حقیقت میں اپنے وظیفے پر عمل کرنے سے گریز کرتا ہے ،اسلام انکو قبول نہیں کرتا بلکہ ہماری ذمہ داری ہے کہ انکی آمد کے لیے زمینہ فراہم کر یں مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کریں انشاء اﷲ ظہور کریں گے(1)   اگر ہماری بس میں ہوتا تو پوری دنیا  سے ظلم وجور کو مٹا دیتے ہماری شرعی ذمہ داری تھی لیکن یہ ہماری بس سے باہر ہے ،اور حقیقت یہ ہے کہ حضرت حجت دنیا کو عدل وانصاف سے بھر دیں گے یہ نہیں کہ تم لوگ اپنے شرعی تکلیف سے ہاتھ اُٹھاے بیٹھے اور اپنی ذمہ داری کو انجام نہ دے(2)

--------------

(1):- مجلہم ہد ی موعود : شمارہنمبر ۱،ص ۱۶ -

(2):- مجلہم ہد ی موعود : شمارہنمبر ۱،ص۱۴ -

۷۹

 بلکہ دوران غیبت میں چونکہ احکام حکومتی اسلام جاری وساری ہیں کسی قسم کی ہرج و مرج  قابل قبول نہیں ہے ،پس حکومت اسلامی کا تشکیل دینا ہماری ذمہ داری ہے جسکا عقل حکم کرتی ہے ،تاکہ کل اگر ہم پر حملہ کرے یا ناموس مسلمین پر ہجوم لانے کی صورت میں دفاع کر سکے اور انھویں روک سکے ہم ان سے یہ سوال کرتے ہیں ،کہ کیا پیغمبر اکرم (ص)نے جن قوانین کی تبلیغ وتبین اور نشروتنفیذ کے لیے ۲۳ سال طاقت فرسا زحمتیں برداشت کی وہ قوانیں محدود مدت کے تھیں ؟ یا خدا نے ان قونیں کے اجرا کرنے کو ۲۰۰ سال تک کے لیے محدود کیا  ؟ کیا غیبت صغری کے بعد اسلام نے سب کچھ  چھوڑ دیا ؟(بے شک ) اس طرح کا عقیدہ اور اسکا اظہار کرنا اسلام کے منسوخ  ہو جانے پر عقیدہ رکھنے اور اسے اظہار کرنے سے زیادہ بدتر ہے ، کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ اب اسلامی مملکتوں کا انکے حدود اور باڈروں کا دفاع کرنا واجب نہیں ہے یا مالیات ،جزیہ ،خمس وزکواۃ  اور ٹیکس نہیں لینا چاہیے ،یا اسلام کے کیفری احکام دیات؛  قصاص سب کی چھٹی ہے(1)  

دوسرا اور بدترین گروہ

اس گروہ کا کہنا ہے کہ نہ صرف سماج سے ظلم وستم  کو ختم کرنا اور گناہوں سے پاک کرنا ہماری ذمہ داری ہے بلکہ  ہمیں چاہیے کہ لوگوں کو گناہوں کی طرف دعوت دیں اور جتنا بھی ہو سکے ظلم وبربریت کے دائرے کو بڑاھنے کی کوشش کریں تاکہ امام زمانہ کی ظہور کے لیے زمینہ فراہم ہو جاۓ ،اس گروہ   میں بعض خود غرض  افراد بھی ہوتے ہیں  جو سوچھے سمجھے فساد کی طرف دعوت دیتے  ہیں  اور بعض ایسے سادہ لوح افراد بھی ہوتے ہیں جو دوسروں کے غلط افکار کی زد میں آکر منحرف  ہوچکے ہوتے ہیں ۔انکے رد میں رہبر کبیر امام خمینی فرماتے ہیں :یہ جو کہتے  ہیں ضروریات اسلام کے خلاف ہے ،یہ کہ ہم خود بھی گناہ  انجام دیں اور معاشرے میں بھی گناہوں کو  پھلائے تاکہ حضرت حجت         جلدی ظہور کرے ،....حضرت حجت      ظہور کریں گے تو  کس لیے ظہور کریں گے ؟ اس لیے ظہور کریں گے کہ دنیا  میں عدالت پھیلانے کے لیے   ،حکومت کو تقویت دینے کے لیے ، فساد کو زمین سے ریشہ کن کرنے کے لیے ظہور کریں گے ،

--------------

(1):- مجلہم ہد ی موعود : شمارہنمبر ۱،ص۱۵ -

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

آیت ۹۱

( كَذَلِكَ وَقَدْ أَحَطْنَا بِمَا لَدَيْهِ خُبْراً )

يہ ہے ذوالقرنين كى داستان اورہميں اس كى مكمل اطلاع ہے (۹۱)

۱_ الله تعالي، ذوالقرنين كے زير ا ختيار تمام ذرائع اور قدرت پر مكمل احاطہ ركھتاتھا_وقد ا حطنا بما لديه خبرا

۲_ ذوالقرنين كے مشرق ومغرب كى طرف سفر كى داستان كوبيان كرنا، الله تعالى كے اسكى زندگى كى تمام تر جہات پر احاطہ كى علامات ميں سے ہے _كذلك وقد أحطنا بما لديه خبرا

كلمہ ''كذلك'' (يوں تھا ) ان كامقامات ميں كسى چيز كے اپنے سے شبيہ كے معنى ميں استعمال ہوتا ہے اس سے ايك طرح كا بے مثل ہونے ميں مبالغہ كا اظہا ربھى ہوتا ہے كہ اسكى مانند خود اسكے علاوہ اور كوئي نظير نہيں ہے _ جملہ حاليہ '' وقد أحطنا ...'' بتارہاہے كہ جو كچھ كہا گيا ہے اس كا سرچشمہ الله تعالى كا علمى احاطہ ہے _

۳_ ذوالقرنين كى طاقت اور ذرائع بہت زيادہ اور اعلى تھے_قد أحطنا بما لديه خبرا

آيت ميں موجود تعبير '' كہ ذوالقرنين كے پاس جو كچھ تھا اس پر الله تعالى كا احاطہ تھا ''ذوالقرنين كے پاس اعلى ذرائع سے حكايت كررہى ہے _

۴_ مشرق ومغرب كے لوگوں كے ساتھ ذوالقرنين كاسلوك يكساں تھا _وجدها تطلع على قوم ...كذلك

''كذلك '' يہ كلمہ ہو سكتا ہے پچھلى آيت ميں ''قوم '' كيلئے صفت ہواور پچھلى آيت ميں قوم كى طرف اشارہ سے مراد يہ ہے كہ جس طر ح ذوالقرنين نے مغرب ميں قوم كو پايا اور انكے بارے ميں عزم كيا اسى طرح مشرقى قوم كے بارے ميں عزم كيا _

۵_ذوالقرنين كى رفتار ،الہى نگرانى اور راہنمائي كے تحت تھى _كذلك وقد احطنا بما لديه خبرا

يہ بيان كرنا كہ ذوالقرنين سے مربوط تمام تر چيز وں سے الله تعالى آگاہ تھا يہ كنا يہ ہے اس بات سے كہ وہ الله تعالى كے حكم كے بغير كوئي كام نہيں كرتے تھے_

۵۴۱

الله تعالى :الله تعالى كا احاطہ ۱; الله تعالى كى ہدايات ۵;اللہ تعالى كے احاطہ كى علامات ۲

ذوالقرنين :ذوالقرنين كا سفر ۲;ذوالقرنين كى قدرت كي عظمت۳;ذوالقرنين كى ہدايت۵; ذوالقرنين كے ذرائع كى عظمت ۳; ذوالقرنين كے سلو ك كى روش ۴;ذوالقرنين كے فضائل ۵;ذوالقرنين كے وسائل ۱; ذوالقرنين كے قصہ كى وضاحت ۲

سرزمين :ذوالقرنين كى مشرقى سرزمين كے لوگ ۴; ذوالقرنين كى مغربى سرزمين كے لوگ ۴

آیت ۹۲

( ثُمَّ أَتْبَعَ سَبَباً )

اس كے بعد انھوں نے پھر ايك ذريعہ كو استعمال كيا (۹۲)

۱_ذوالقرنين زمين كى مختلف سمتوں ميں سفركرنے كے ليے اپنے بعض وسائل سے فائدہ اٹھاتا تھا_ثمّ أتبع سبب

پچھلى آيات كے قرينہ سے ذوالقرنين كاتيسرا سفر مشرق يا مغرب كى طرف نہيں تھا بلكہ يہ يا شمال جانب تھا يا جنوب كى طرف تھا_

۲_ذوالقرنين كا تيسرا سفرشمال كى سمت تھاثمّ أتبع سببا

اگر يا جوج اور ماجوج سے مراد مفل اور تاتارى ہوں تو ذئوالقرنين كا سفر شمال كى جانب تھا_

۳_ذوالقرنين اپنى حكومت كووسعت دينے كے ليے اپنے وسائل اور اسباب سے فائدہ اٹھانے كى صلاحيت ركھتے تھے _

ثمّ أتبع سبب

۴_ذوالقرنين زمين كى مختلف جہات كى طرف بڑہے اور ان كا سفر عالمى تھا_ثمّ أتبع سببا

ذوالقرنين:ذوالقرنين كا تيسرا سفر۲;ذوالقرنين كاسفر۱ ; ذوالقرنين كا علم ۳;ذوالقرنين كا قصہ ۱،۲،۴ ; ذوالقرنين كى حكومت كى وسعت ۳; ذوالقرنين كے سفر كى محدوديت ۴;ذوالقرنين كے فضائل ۳; ذوالقرنين كے وسائل ۱;۳; شمال ميں ذوالقرنين ۲

۵۴۲

آیت ۹۳

( حَتَّى إِذَا بَلَغَ بَيْنَ السَّدَّيْنِ وَجَدَ مِن دُونِهِمَا قَوْماً لَّا يَكَادُونَ يَفْقَهُونَ قَوْلاً )

يہاں تك كہ جب وہ دو پہاڑوں كے درميان پہنچ گئے تو ان كے قريب ايك قوم كو پايا جو كوئي بات نہيں سمجھتى تھى (۹۳)

۱_ذوالقرنين كا اپنے تيسرے سفر ميں دو پہاڑوں كے در مياں درہ تك پہنچنا _حتى إذا بلغ بين السدّين

(سدّ)سے مراد مانع وحاجز ہے كہ اسے پہاڑ بھى كہتے ہيں يہاں احتمال ہے كہ(بين السدّين ) سے مراد دو پہاڑوں كے در ميان فاصلہ ہو يہ دو نوں پہاڑ كہاں تھے اس كے بارے ميں كوئي ايك نظر يہ نہيں ہے كچھ اسے چين كے شمال ميں كہتے ہيں اور كچھ اسے آذر بايجان اور ارمنستان كى پہاڑيوں كے درمياں فاصلہ كو كہتے ہيں بہر حال كسى ايك نظريہ كے ثابت ہونے كيلئے قرينہ نہيں ہے_

۲_ذوالقرنين كا اپنے تيسرے سفر ميں ايسے لوگوں سے واسطہ پڑا كہ جو اجنبى زبانوں سے بہت كم آشنا تھے اور اسے جلد سمجھنے سے عاجز تھے_وجد من دونهما قوماًلا يكادون يفقهون قولا

ان كوہستانى لوگوں كا دوسرى زبانوں كو جلد نہ سمجھنے سے مراد يہ ہے كہ ذوالقرنين كى ان سے افہام وتفہيم بہت مشكل تھى _

۳_زمين كے مشرق ومغرب ميں رہنے والے لوگ ذوالقرنين كى زبان كے قريب تھے_لا يكادون يفقهون قولا

وہ تين گروہ جن سے ذوالقرنين كا سامنا ہوا صرف شمالى گروہ كے بارے ميں يہ تعبير ''لايكادون ...''آئي ہے جبكہ ديگر دو قوموں كے بارے ميں يہ مشكل بيان نہيں ہوئي_

۴_ذوالقرنين كے زمانہ ميں زمين كے شمال ميں رہنے والوں كا تمدن، بہت كمزور تھا _وجدمن دونهما قوماًلا يكادون يفقهون قول اگر يا جوج وماجوج سے مراد وہى مغل اور تاتارہوں تويہ آيت ذوالقرنين كى سرزمين كے شمال ميں رہنے والوں كى توصيف كررہى ہے_

۵_ذوالقرنين كے زمانہ ميں شمالى مناطق ميں رہنے والے اس زمانے كى زندہ زبانوں سے دور تھے _قوماً لا يكادون يفقهون قول باقى زبانوں كو درك نہ كرنا، اس سے حكايت

۵۴۳

كررہاہے كہ اس كوہ نشين قوم كى مادر ى زبان بہت معمولى اور غير قابل ذكر تھى _

۱_ تاتاري:تاتاريوں كا تمدن ۴

تمدن :تاريخ تمدن ۴'۵

ذوالقرنين :ذوالقرنين كا تيسرا سفر۱،۲; ذوالقرنين كا قصہ ۱،۲;ذوالقرنين كے زمانے كے لوگوں كى زبان ۳،۵

زبانين:زبانوں كا تفاوت ;۵

سرزمين :ذوالقرنين كى سرزمين كے شمال ميں رہنے والوں كا تمدن ۴،۵;ذوالقرنين كى سرزمين كے شمال ميں رہنے والوں كى زبان۵; ذوالقرنين كى سرزمين كے شمال ميں رہنے والوں كى كم فہمي۲;ذوالقرنين كى سرزمين كے مشرق ميں رہنے والوں كى زبان۳; ذوالقرنين كى سرزمين كے مغرب ميں رہنے والوں كى زبان ۳

مضل :مضلوں كا تمدن ۴

آیت ۹۴

( قَالُوا يَا ذَا الْقَرْنَيْنِ إِنَّ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ مُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ فَهَلْ نَجْعَلُ لَكَ خَرْجاً عَلَى أَن تَجْعَلَ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمْ سَدّاً )

ان لوگوں نے كسى طرح كہا كہ اے ذوالقرنين يا جوج و ماجوج زمين فساد برپا كر رہے ہيں تو كيا يہ ممكن ہے كہ ہم آپ كے لئے اخراجات فراہم كرديں اور آپ ہمارے اور ان كے درميان ايك ركاوٹ قرار ديديں (۹۴)

۱_شمال كے لوگوں نے ياجوج وماجوج نام كى فساد پھيلانے والى قوم كى ذوالقرنين كے پاس شكايت كى _قالوايا ذالقرنين إنّ يأجوج ومأجوج مفسدون

مفسرين اور مورخين نے مختلف دلائل اور آثار قديمہ كى تحريروں كى روشنى ميں يہ اسے مسلّم مانا ہے كہ ياجوج وماجوج سے مراد وہى مغل اور تاتا ر قبائل ہيں _

۵۴۴

۲_سرزمين شمال كا وسيع علاقہ، ذوالقرنين كے زمانہ ميں ياجوج وماجوج كى لوٹ ماراور فتنہ و فساد كا شكار تھا _

إنّ يأجوج ومأجوج مفسدون فى الأرض (الأرض ) پر (ال)عہدحضورى ہے اور يہ كہ (فى الارض)كى تعبير محدود اور چھوٹے مناطق كيلئے مناسب نہيں ہے لہذا يہاں مراد وسيع منطقہ ہے _

۳_ذوالقرنين كے زمانہ ميں شمالى علاقوں كے لوگوں كى سب سے بڑى مشكل ياجوج وماجوج(مغل و تاتار) كى لوٹ ماركا خطرہ اور امن و امان كاقيام تھا_أنّ يأجوج ومأجوج مفسدون فى الارض

۴_ياجوج وماجوج كا سامنا كرنے والے ، ذوالقرنين كى طاقت اور خيرخواہى پر بھروسہ ركھتے تھے_

قالوا يا ذالقرنين إنّ يأجوج ومأجوج مفسدون فى الأرض

اگرچہ ذوالقرنين وہاں كے رہنے والے نہيں تھے ليكن مختلف قرائن وشواہداوران كى عمل اور حكومتى قدرت كا ملاحظہ كرتے ہوئے لوگ يہ سمجھ گئے تھے تھے كہ دہى انكے ليے دشمنوں كے حملوں سے بچنے كيلے نا قابل شكن بندتعمير كر سكتے ہيں اور وہ ذوالقرنين كى خير خواہى اور يہ كہ وہ مادى غرض وغايت سے ان پر مسلّط نہ ہونے كو سمجھ گئے تھے_ لہذا انہوں نے يہ تجويز ان كے سامنے پيش كي_

۵_ياجوج وماجوج كا سامنا كرنے والى قوم، انكے حملوں كے مقابل بلند پہاڑيوں سے دفاعى حصار كا فائدہ ليتے تھے _

حتّى إذا بلغ بين السدّين ...إن ّيأجوج ومأجوج مفسدون

۶_دونوں بلند پہاڑوں كے درميان جگہ فقط يا جوج و ماجوج ( مغل اور تاتار ) كے اپنے ہمسايوں پر حملہ كرنے كى راہ تھى _

فهل نجعل لك خرجاًً على أن تجعل بيننا وبينهم سدا

۷_ ياجوج وماجوج كے حملوں كا شكار لوگوں نے ان دو بلند پہاڑوں كے درميان انكے حملوں سے بچنے كيلئے بند باندھنے كے حوالے سے ذوالقرنين سے مدد مانگى _قالوا ياذالقرنين ...تجعل بيننا و بينهم سدا

۸_ ياجوج وما جوج كے ہمسائے، انكے حملوں سے بچنے كيلئے خود ايك محكم اود ناقابل شكن حصارباندھنے سے عاجز تھے_

فهل نجعل لك خرجاً على أن تجعل بيننا وبينهم سدا

۹_ ياجوج وما جوج كا سامنا كرنے والى قوم نے ذوالقرنين كو بند باند ھنے كے عو ض ميں اجرت دينے كى آمادگى كا اعلان كركے انہيں عقد جعالہ كى قرار دار باند ھنے كى دعوت دى _فهل نجعل لك خرجاًً على أن تجعل بيننا وبينهم سدا

۱۰_شمال علاقہ كے لوگ مادى وسائل ركھتے تھے ليكن

۵۴۵

انكے استعمال كى حكمت عملى سے نا آشناتھے _فهل نجعل لك خرجاًً على أن تجعل بيننا وبينهم سدا

۱۱_مفسدين اور لوٹ مار كرنے والے دشمنوں سے بچنے كيلئے دفاعى طور پر مستحكم اقدامات كرنے كا وجوب_

إن يا جوج ومأجوج مفسدون فى الأرض فهل نجعل لك خرج

۱۲_عن أميرالمؤمنين (ع) : إن ذإلقرنين ...وجد ...قوما ً لا يكادون يفقهون قولاًقالوا: يا ذإلقرنين ان يأجوج ومأجوج خلف هذين الجبلين وهم يفسدون فى الأرض إذ ا كان إبان ذروعناوثمارنا خرجو ا علينا من هذين السدين فرعوا من ثمارنا وزروعنا حتّى لا يبقون منها شيئا ''فهل نجعل لك خرجاً'' نؤديه اليك فى كل عام على أن تجعل بيننا وبينهم سداً (۱)

اميرالمؤمنين سے روايت ہوئي ہے كہ بلا شبہ ذوالقرنين نے ايسى قوم كو پايا كہ جنكے ليے كوئي بات بھى سمجھنا آسان نہ تھي_ انہوں نے ذوالقرنين سے كہا اے ذوالقرنين ياجوج وماجوج ان دو پہاڑوں كے پيچھے ہيں _ اور وہ زمين پر فساد پھيلا تے ہيں _ جب ہمارى كاشت اٹھا نے اور ميوہ چننے كا وقت آتا ہے تو وہ ان پہاڑوں كى پشت سے ہم پر حملہ آور ہوتے ہيں تو ہمارى كا شت اورپھلوں كو اس قدر چرتے ہيں كہ كچھ بھى باقى نہيں رہتا ہم تمھارے ليے ايك اجرت معين كرتے ہيں جو ہر سال آپ كوديں گے آپ ہمارے اور ان كے در ميان بند باندھ ديں _

۱۳_عن حذيفه قال: سا لت رسول الله (ص) عن يأجوج ومأ جوج ؟ فقال : يا جوج أمّة وما جوج أمّة (۲)

حذيفہ سے روايت ہے كہ رسول اللہ(ص) سے ياجوج وما جوج كے بارے ميں پوچھا ؟تو انہوں نے فرمايا : ياجوج ايك قوم ہے اور ماجوج ايك اور قوم ہے _

پہاڑ :پہاڑ كے فوائد ۵تاتارى :تاتاريوں كے حملہ كا خطر ۳/دشمنوں :دشمنوں كے حملوں كا مقابلہ كرنا ۱۱

ذوالقرنين :ذوالقرنين كا بند باندھنا۷،۹،۱۲; ذوالقرنين كا قصہ ۲،۳،۴،۵،۷،۸،۱۲; ذوالقرنين كى خير خواہى ۴; ذوالقرنين كى قدرت ۴; ذوالقرنين كے ساتھ جعالہ ۹

روايت :۱۲،۱۳

____________________

۱)تفسير عياشى ج۲، ص۳۴۳ ،ح۷۹ نورالثقلين ج۳، ص۲۹۸،ح۲۱۵_

۲) الدر امنشور ج۵،ص۴۵۷، نورالثقلين ج۳ ، ص۳۰۷ ،ح۲۳۱_

۵۴۶

سرزمين :ذوالقرنين كى سرزمين كے شمالى لوگ اور بند باند ھنا ۱۲; ذوالقرنين كى سرزمين كے شمالى لوگوں كا اقرار ۴; ذوالقرنين كى سرزمين كے شمالى لوگوں كا جعالہ ۹; ذوالقرنين كى سرزمين كے شمالى لوگوں كا دفاع ۵;ذوالقرنين كى سرزمين كے شمالى لوگوں كا عجز ۸;ذوالقرنين كى سرزمين كے شمالى لوگوں كا مدد مانگنا ۷; ذوالقرنين كى سرزمين كے شمالى لوگوں كى جہالت ۱۰;ذوالقرنين كى سرزمين كے شمالى لوگوں كى شكايات ۱،۱۲;ذوالقرنين كى سرزمين كے شمالى لوگوں كى مشكلات ۳; ذوالقرنين كى سرزمين كے شمالى لوگوں كے مادى وسائل ۱۰

فوجى آمادگى :فوجى آمادگى كى اہميت ۱۱

ماجوج:ماجوج كا امت ہونا ۱۳;ماجوج كا فسادپھيلانا ۱; ماجوج كے حملہ كاخطرہ ۳; ماجوج كے حملہ كى راہيں ۶; ماجوج كے خطرہ سے بچنا ۷

مدد مانگنا :ذوالقرنين سے مددمانگنا ۷/۱۲

مضل:مضلوں كے حملوں كا خطرہ۳

مفسدين :مفسدين كے حملوں كامقابلہ كرنا ۱۱

ياجوج :ياجوج كاامت ہونا ۱۳; ياجوج كا فسادپھيلا نا ۱،۱۲; ياجوج كا قصہ ۶،۱۲; ياجوج كے حملہ كا خطرہ ۳; ياجوج كے حملہ كى راہيں ۶; ياجوج كے خطرہ سے بچنا ۷;ياجوج كے فساد كى محدويت ۲

آیت ۹۵

( قَالَ مَا مَكَّنِّي فِيهِ رَبِّي خَيْرٌ فَأَعِينُونِي بِقُوَّةٍ أَجْعَلْ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُمْ رَدْماً )

انھوں نے كہا كہ جو طاقت مجھے ميرے پروردگار نے دى ہے وہ تمھارے وسائل سے بہتر ہے اب تم لوگ قوت سے ميرى امداد كرو كہ ميں تمھارے اوران كے درميان ايك روك بنادوں (۹۵)

۱_ذوالقرنين نے ياجوج و ماجوج كے مد مقابل بند باندھنے كے حوالے سے لوگوں كے مادى تعاو ن سے بے نيازى كا اظہار كيا _فهل نجعل لك خرجاً ...قال ما مكنى فيه ربّى خيرا

۲_ ذوالقرنين، پروردگار كے الطاف كے زير سايہ بہت سے مادى وسائل سے بہرہ مند تھے _قال ما مكنى فيه ربّى خيرا

۳_ذوالقرنين، خود كو الله تعالى كا بندہ اور اسكے عطيات كو اسكے مقام ربوبيت كا فيضسمجھتے تھے _مامكنى فيه ربّي

۵۴۷

۴_ الہى لوگ طاقت وقدرت كے عروج كے زمانہ ميں بھى الله تعالى اور اپنے ولي نعمت سے غافل نہيں ہوتے _

قال مامكنى فيه ربّى خيرا

۵_ذوالقرنين، توحيد اور اپنے الہى قوانين كى تبليغ كيلئے بہترين مواقع سے فائدہ اٹھا تے تھے _قال ما مكنى فيه ربّى خير

ذوالقرنين نے اس وقت الہى ربوبيت كا تذكرہ كيا كہ جب لوگ اسكے سخت محتاج تھے اور وہ انكى صدق دل سے مشكل دور كرنے كيلئے انكے دلوں كو اپنى طرف مائل كرچكے تھے_

۶_ لوگوں كى بغير كسى اجرت اورانعام كے لالچ كے مدد كرنا، توحيد پرست انسانوں اور الله تعالى كے لائق بندوں كى خصوصيات ميں سے ہے _فهل نجعل لك خرجاً ...قال مامكنى فيه ربّى خيرا

۷_ ذوالقرنين ،توحيد پرست انسانوں كى خدمت سے سرشار اور ظالموں سے مبارزہ كرنے والى روح كے حامل تھے _

مامكنى فيه ربّى خير فا عينونى بقوة

ذوالقرنين نے اس وقت كہ جب لوگوں نے بند بنانے كے عوض ميں اسے اجرت دينے كى پيش كش كى تو اسے ٹھكراديا اور الہى وسائل اور طاقت كے بل بوتے پران مصيبت زدہ لوگوں كى بند بنانے ميں مدد كى يہ ذوالقرنين كى بزرگ روح كونماياں كرتى ہے _

۸_ ذوالقرنين بذات خود بندكى تعمير ميں اسكا نقشہ بنانے والے اسكى فنى ضروريات پرنگران اور اسے عملى جامہ پہنا نے والے تھے_فا عينونى بقوه أجعل بينكم وبينهم ردما

۹_ ذوالقرنين نے ان سے بند بنانے ميں انسانى اور جسمانى قوت كے ساتھ شريك ہونے كا مطالبہ كيا_فاعينونى بقوة

(قوة ) يعنى طاقت (فاعينونى بقوة ) يعنى ميرى اپنى طاقت كے ساتھ مدد كرو بعد كى آيات اس بات پر قرينہ ہيں كہ اس نے انسانى قوت كے ساتھ ساتھ وسائل اورمصالحہ لانے كا بھى حكم ديا لہذا جواس نے ان سے قبول نہيں كيا وہ اس كا م كى اپنى اجرت تھى _

۱۰_ذوالقرنين نے لوگوں كى خواہش سے مضبوط او ر محكم بند بنانے كا عزم كيا_تجعل بيننا وبينهم سداً ...أجعل بينكم وبينهم ردم جيساكہ مفسرين نے كہا ہے كہ ر دم يعنى وہ حصار جو عام طور پر بند سے بھى زيادہ محكم ہوتا ہے اسى سے وہ لباس جو كى لباس سے مل كر تشكيل پاتا ہے_ اسے ثوب ُمردَّم كہتے ہيں _

۵۴۸

يہاں (فأعينونى ) جملہ ...فيہ ربّى (خير) كى فرع ہے يعنى مضبوط اور مستحكم بند بنانا مضبوط اور محكم بند كا بناناذوالقرنين كے الہى بلند وسائل كے حامل ہونے كا نتيجہ ہے

۱۱_بڑے بڑے كاموں ميں لوگوں كو شريك كرنا مديريت كے اصول ميں سے ہے _فأعينونى بقوة أجعل بينكم وبينهم ردما

اس كے با وجود كہ الله تبارك و تعالى نے ذوالقرنين كو ہر كام كو صحيح طور سے انجام دينے اور اس كے تمام اسباب كى تعليم دى تھى ليكن پھر بھى وہ عوام سے مدد كا مطالبہ كرتے ہيں يہ اس بات كى علامت ہے كسى كام كو انجام دينےميں بغير كام كرنے كے جذ بے كو پيدا كے بغير كام ہو سكتا اور ايك دوسرے كى مدد كے جذبہ كے ساتھ اس كو بلندمقصد تك پہنچايا جاسكتا ہے_

۱۲_كاموں كو اسكى بہترين اورمضبوط شكل ميں انجام دينے كا ضرورى ہونا_أجعل بينكم وبينهم ردما

اگرچہ ياجوج وماجوج كا سامناكرنے والے لوگ ذوالقرنين كى حكومت كى تائيد كرنے والوں ميں شمار نہيں ہوتے تھے اور نہ وہ ايسے ترقى پسند اور سرمايہ لگانے والے لوگ تھے ليكن ذوالقرنين نے انكى خواہش سے بڑھ كر كام كيا اور ان كو دشمن كے فطرت سے محفوظ بنانے ميں بہت بڑا سرمايہ لگايا ذوالقرنين كايہ كار نامہ ترقى كى راہ ميں خدمات انجام دينے والى قوموں كے ليے نمونہ ہے_/الله تعالى :الله تعالى كى بخشش ۲،۳;اللہ تعالى كى ربوبيت كے آثار ۳;اللہ تعالى كى مالكيت۳

الله تعالى كا لطف :الله تعالى كے لطف كے شامل حال لوگ'۲

اوليا ء الله :اوليا ء الله كا ذكر ميں رہنا ۴;اوليا ء الله كى رائے ۴;اولياء الله كے فضائل ۴

توحيد :توحيد كى تبليغ۵/باہمى تعاون:لوگوں باہمى تعاون كيلئے جذب كرنا۱۱

توحيدپرست :توحيد پرستوں كا خدمت كرنا ۶;توحيدپرستوں كى خصوصيات ۶

ذوالقرنين :ذوالقرنين كا بندباندھنا ۱،۸،۹;ذوالقرنين كا بندہ ہونا ۳;ذوالقرنين كا ظلم سے مبارزہ كرنا۷; ذوالقرنين كا قصہ۱،۸،۹، ۱۰ ; ذوالقرنين كامحكم بند باندھنا۱۰;ذوالقرنين كا محتاج نہ ہونا۱; ذوالقرنين كا مدد ما نگنا ۹ ; ذوالقرنين كى انسان دوستى ۷; ذوالقرنين كى تبليغ۵;ذوالقرنين كى توحيد ۷ ; ذوالقرنين كى رائے ۳;ذوالقرنين كے فضائل۷;ذوالقرنين كے مادى ومسائل كا سرچشمہ ۲; ذوالقرنين كے وسائل كا سرچشمہ۳

عمل :عمل ميں مضبوطى ہونا ۱۲

۵۴۹

لوگ:لوگوں كى خدمت ۶

منتظم:منتظم كا طريقہ۱۱

موقع :موقع سے فائدہ اٹھانا۵

آیت ۹۶

( آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ حَتَّى إِذَا سَاوَى بَيْنَ الصَّدَفَيْنِ قَالَ انفُخُوا حَتَّى إِذَا جَعَلَهُ نَاراً قَالَ آتُونِي أُفْرِغْ عَلَيْهِ قِطْراً )

چند لوہے كى سليں لے آؤ_ يہاں تك كہ جب دونوں پہاڑوں كے برابر ڈھير ہوگيا تو كہا كہ آگ پھونكو يہاں تك كہ جب اسے بالكل آگ بنا ديا تو كہا آؤاب اس پر تا نباپگھلا كر ڈال ديں (۹۶)

۱_ذوالقرنين نے بند بنانے كيلئے لوگوں كو لو ہے كے ٹكڑے كرنے كا حكم ديا_ء اتونى زبرالحديد

(زبَر)زبرة كى جمع ہے جس كے معنى ٹكڑے كے ہيں زبرالحديديعنى لو ہے كے ٹكڑے راغب نے مفردات ميں اس سے لوہے كے بڑے ٹكڑے مراد ليے ہيں _

۲_ذوالقرنين كے بند ميں لو ہے كا اصلى اور اہم كردار تھا_ء اتونى زبرا لحد يد حتّى إذا ساوى بين الصدفين

اگر چہ بند كے تعميرى مصالحہ ميں تانبا بھى استعمال ہوا ليكن جملہ ''حتى إذا ساوى ...''سے معلوم ہوا ہے كہ دونوں پہاڑوں كے در ميان تمام خلا كوپہلے لوہے كے ٹكروں سے پر كياگيا اور تانبے سے ان ٹكڑوں كوجوڑنے كا كام ليا گيا_

۳_ذوالقرنين كے زمانہ كے لوگ پہلے سے لوہا نكالنے اور اسكوتيار كرنے كے فن كوجانتے تھے_ء اتونى زبر الحديد

ذوالقرنين كا لوہا مہيا كرنے كا حكم دينابتاتا ہے ہے كہ لو گ اس فن سے پہلے آشنا تھے اور لوہا انكے پاس تھا_

۴_ ذوالقرنين نے بند كى او نچائي كو دونوں پہاڑوں كے كناروں كے برابر كرديا _حتى إذا ساوى بين الصدفين

''صدف ''يعنى كنارہ اور''الصدفين''يعنى دونوں پہاڑوں كے كنارے كہ جو بندكے دونوں طرف تھے فعل ''ساوى ''بتارہاہے كہ بند كى اونچائي دونوں پہاڑوں كے كنارہ كے برابر تھى _

۵۵۰

۵_ذوالقرنين نے بند ميں استعمال ہونے والے لوہے كو سرخ كرنے كيلئے بند ميں ايك طرف بڑى بڑى بھٹياں بنائيں _

حتى إذا ساوى بين الصدفين قال انفخوا

''نفخ'' يعنى پھوكنابندكى ديوار ميں اسے سرخ كرنے كيلئے پھونكين كے ليے بڑى بھٹيوں كى ضرورت ہے تا كہ ضرورت كے مطابق آگ اور آكسيجن ديوار كولگتا كہ اس پرتابنے كے پانى ڈالنے كے مواقع فراہم ہوجائيں _

۶_ذوالقرنين نے بند كى ديوار ميں لگے لوہے كے ٹكڑوں كے سرخ ہونے تك بھٹيوں ميں پھونكے كا حكم ديا _

قال انفخوا حتّى إذا جعلنه نارا

۷_ذوالقرنين نے بند ميں لگے لوہے كےٹكڑوں كے درميان خلا ء كو پر كرنے كيلئے پگھلے ہوئے تانبےكا استعمال كيا _

ء اتونى أفرغ عليه قطر ''افراغ'' يعنى بر تن كوخالى كرنا اور اسكے اندر جو كچھ ہے اسے گرانا''قطراً''''پگھلا ہوا تا بنا' ' يہ ''افرغ ''كيلئے مفعول ہے اور (آتونى )كا مفعول قرينہ''قطراً''كے پيش نظر محذوف ہے _

۸_ذوالقرنين بند كى تعميرى ٹكنيك اور فلزى مواد كو پگھلانے اور تيار كرنے كے طريقہ سے اچھى طرح واقف تھے_

ء اتونى زبر الحديد ...أفرغ عليه قطرا

۹_ذوالقرنين بندكى تعمير اور اس كے تمام مراحل پر براہ راست نگران تھے _ء اتونى ...قال انفخوا ...ء اتونى أفرغ عليه قطرا

تمام ضميروں كا واحد متكلم كى صورت ميں آنا بتارہاہے كہ ذوالقرنين بذات خود بہت گہرائي سے بندكے بننے پر نگرانى كر رہے تھے_

۱۰_فلزى اشيا ء كو پگھلانے كى صنعت، ذوالقرنين كے زمانہ كے تمدن ميں موجود تھي_

قال انفخوا حتّى إذا جعله ناراًقال ء اتونى أفرغ عليه قطرا

۱۱_لوہے اور تانبے كا مركب بہت مضبوط اورناقابل شكن فلزى مادہ ہےء اتونى زبرالحديد ...أفرغ عليه قطرا

گرمى سے پگھلاہواتا بنا كا سرخ لوہے پر گرنا بتاتاہے كہ ايسا مركب بہت محكم ومضبوط فلزى شكل ميں تبديل ہوجائے گا_

بندباندھنا:لوہے كے ساتھبند باند ھنا۲

۵۵۱

تانبا :تا نبے كے فوائد۷/۱۱

تمدن :تمدن كى تاريخ۳/۱۰

ذوالقرنين :ذوالقرنين كا اہل فن ہونا۸;ذوالقرنين كابند باندھنا۵،۸، ۹;ذوالقرنين كا علم۲; ذوالقرنين كا قصہ۱ ،۲،۴، ۵،۶ ، ۷،۹ ; ذوالقرنين كى نگرانى ۹; ذوالقرنين كے احكام ۱،۶; ذوالقرنين كے بند كي

اونچائي ۴; ذوالقرنين كے بند كى خصوصيات ۲; ذوالقرنين كے بندكے مواد۱،۲،۶،۷; ذو

القرنين كے زمانہ ميں فلزى مواد كا پگھلا يا جانا ۸، ۱۰; ذوالقرنين كے زمانہ ميں لويا ۳، ۱۰ ; ذوالقرنين كے زمانہ ميں لوہے كا پگھلايا جانا۵

صنعت :صنعت كى تاريخ۱۰

فلز:فلزكے پگھلنے كى صنعت۱۰

لوہا :لوہاپگھلنے كى بھٹي۵،۶;لوہے اور تا نبے كا مركب ہونا ۱۱;لوہے كے فوائد ،۲،۱۱

آیت ۹۷

( فَمَا اسْطَاعُوا أَن يَظْهَرُوهُ وَمَا اسْتَطَاعُوا لَهُ نَقْباً )

جس كے بعد نہ وہ اس پر چڑھ سكيں اور نہ اس ميں نقب لگاسكيں (۹۷)

۱_ذوالقرنين كے نقشے، پروگرام اوربراہ راست نگرانى ميں لوہے كا بند، اپنے آخرى مرحلہ تك پہنچا _

فما اسطاعوا أن يظهروه و مإستطعواله نقبا

جملہ (فمااستطاعوا)ميں فافصيحہ ہے (جو نا كہے گے مضاميں كوبيان كرتى ہے يعنى ذوالقرنين كا پروگرام پورا ہوااور بند گيا تواسكے بعدياجوج ماجوج نہ اس پر چڑھ سكے اور نہ اسميں سوراخ كرسكے_

۲_ياجوج ماجوج ذوالقرنين كے بندپرچڑھنے اور اس ميں سوراخ كرنے سے عاجزتھے_

فما اسطاعوا أن يظهروه وما استطاعواله نقبا

(ظہور )سے مراد (علو) اور اوپر چڑ ھنا ہے (فمإسطاعوا أن يظهروه )يعنى حملہ اور اسكے اوپرنہ چڑھ سكے (نقب ) سے مراد سوراخ كرنا ہے (وما استطاعوا له نقباً )يعنى وہ بندكى ديوار ميں سوراخ يا سرنگ نہ كھودسكے_

۳_ذوالقرنين كے بند كى ديوار بلند اور كامل طور پر سيدھى اور محكم تھى _

۵۵۲

فما اسطاعوا أن يظهروه وما استطاعواله نقبا

(استطاعوا) ميں حرف تاء كے ہونے سے اور (استطاعوا )ميں حرف تا كے نہ ہونے سے كوئي فرق نہيں پڑتا بلكہ صرف لفظ كومخفف كرنے كيلئے تاكو ہٹاديتے ہيں اگرچہ بعض نے يہاں يہ كہاہے كہ چونكہ چڑھنا سوراخ كرنے كى نسبت آسان تھا لہذا يہا ں ''استطاعوا'' لفظ جو كہنے ميں آسان ہے لايا گيا _

۴_معاشرہ كومفسدين كے حملہ سے بچاناالہى رہبروں كى ذمہ دارى ہے _فمإسطاعوا أن يظهروه وما استطاعوا له نقب

۵_شيطان صفت اور ناقابل اصلاح قوموں كو دفاعى ديواروں كے پيچھے محصور كر دينا چاہيے_

فما اسطاعوا أن يظهروه وما استطاعواله نقبا

ذوالقرنين نے اگرچہ اپنے ملك كے مشرق ومغرب ميں سفر كيا مگر ياجوج و ماجوج كے علاقہ كى طرف نہيں گئے اور انكى اصلاح كيلئے كوئي قدم نہيں اٹھايا يہ عمل بتاتاہے كہ وہ ا ن قوموں كى اصلاح سے نا اميد تھے اسى ليے انكا دوسري

قوموں كى طرف آنے كا راستہ بند كرديا تا كہ دوسرے افراد ان كے شر سے محفوظ رہيں _

دينى قائدين :دينى قائدين كى ذمہ دارى ۴//ذوالقرنين :ذوالقرنين كا قصہ ۱،۲; ذوالقرنين كے بند كا مضبوط ہونا ۲،۳; ذوالقرنين كے بند كا مكمل ہونا ۱;ذوالقرنين كے بند كى بلندى ۲،۳; ذوالقرنين كے بندكى خصوصيات ۳

ماجوج :ماجوج كا عاجز ہونا ۲; ماجوج كا قصہ ۲

مفسدين :مفسدين كا محاصرہ كرنا ۵;مفسدين كو جدا كرنا ۵; مفسدين كے حملہ كو روكنا ۴

ياجوج :ياجوج كا عاجز ہونا ۲; ياجوج كا قصہ ۲

آیت ۹۸

( قَالَ هَذَا رَحْمَةٌ مِّن رَّبِّي فَإِذَا جَاء وَعْدُ رَبِّي جَعَلَهُ دَكَّاء وَكَانَ وَعْدُ رَبِّي حَقّاً )

ذوالقرنين نے كہا كہ يہ پروردگار كى ايك رحمت ہے اس كے بعد جب وعدہ الہى آجائے گا تو اس كو ريزہ ريزہ كردے گا كہ وعدہ رب بہرحال بر حق ہے (۹۸)

۱_ذوالقرنين كى نظر ميں ناقابل شكن فولاد ى بند كے تعمير كرنے پر قدرت، پروردگار كى رحمت كا ايك جلوہ تھا _

قال هذا رحمة من ربّي

يہاں ''ہذا'' كا مشار اليہ ذوالقرنين كے ہاتھوں بننے والا بند تھا _

۲_ انسان كا علم وتوانائي ركھنا اور اسے انسانى فائدوں كيلئے استعمال كرنا الله تعالى كى رحمت كا نمونہ ہے _

۵۵۳

قال هذا رحمة من ربّي ذوالقرنين نے بندكو باالفاظ ديگر وہ تمام تروسائل اور علمى ٹكنيك جو اس كو تعمير كرنے ميں صرف كى اسے رحمت پروردگاركا نمونہ جانتے تھے تويہ ايك عام اور كلى منطق ہے كہ اسكا صرف بند يا خود ذوالقرنين كے ساتھ تعلق نہيں ہے _

۳_ ذوالقرنين كے وجود ميں علمى اور فنى ٹكنيك كے ساتھ الہى اور توحيد ى فكر بھى جلوہ گر تھى _

ما مكنى فيه ربّى خير ...هذا رحمة من ربّي

۴_ ذوالقرنين ،اپنى علمى اور فنى قدرت كوثابت كرنے كے بعد اپنى توحيد فكر كا پر چار كيا كرتے تھے _

فما اسطاعوا أن يظهر وه ...قال هذا رحمة من ربّي ''هذا رحمة ... '' كى تعبير ايك قسم كى نظر ياتى تبليغ ہے كہ ذوالقرنين نے بند كے بنانے اور اپنى برترى ثابت كرنے كے بعد يہ تبليغ كى _

۵_ الله تعالى كى ربوبيت، اسكى رحمت كے ساتھ متصل ہے _رحمةمن ربّي

۶_ معاشرتى امن وامان، الہى رحمت كا روشن نمونہ ہے _هذا رحمة من ربّي

''ہذا'' كا اشارہ بند اوراسكى تمام جہات پرہے ان جہات ميں سے ايك بند بنانے كے نتائج بھى ہيں كہ ان نتائج ميں اہم ترين اس علاقہ كے لوگوں كيلئے امن وامان قائم كرنا ہے _

۷_ ذوالقرنين كا ڈيم اس زمانہ كا بہت بڑا كام تھا _هذا رحمة من ربّي الله تعالى كى رحمت كا تذكرہ كرنا، كام كى عظمت سے حكايت كررہا ہے _

۸_ ذوالقرنين نے بند كے قيامت تك باقى اور جاودانيہونے كى خبردى ہے_فإذا جاء وعد ربّى جعله دكائ

اگر '' وعد ربّى '' سے مراد قيامت ہو تو آيت سے واضح ہوگا كہ قيامت سے پہلے تك يہ بند قائم رہے گا '' دكائ'' سے مراد سيدھا اور صاف ہونا جو كہ محذوف موصوف كى صفت ہے '' جعلہ أرضا دكاء '' آيت سے مراد يہ ہے كہ جب قيامت كا وقت آئے گا تو الله اس بند كو زمين كے برابر كردے گا _

۹_يا جوج وما جوج كے اپنے ہمسايوں پر حملہ كرنے كى ركاوٹيں ، قيامت كے آتے ہى ختم ہو جائيں گى _

فإذاجاء وعد ربّى جعله دكائ

۱۰_ ذوالقرنين نے بند كے كام كى تكميل كے بعد معاد كى حقانيت اور اسكے بہر صورت بپا ہونے كا تذكر ہ كيا_

قال ...فإذا جاء وعد ربّى جعله دكاء وكان وعد ربّى حقا

۵۵۴

۱۱_ قيامت كے بپا ہونے كے وقت زمين پرموجود تمام مضبوط اشياء مٹى كے ساتھ برابرجائيں گى _

فإذاجاء وعد ربّى جعله دكائ

جو كچھ ذوالقرنين نے بندكے انجا م كے بارے ميں بتايا اس كا سرچشمہ قيامت كے بپا ہونے كے وقت جہان كے تباہ و برباد ہونے كا علم ہے اگرچہ ممكن ہے كہ اس بند كے حوالے سے بھى الله تعالى كى طرف سے كوئي خاص خبر بھى انہيں ملى ہو _

۱۲_ انسانوں كو اپنے مادى وسائل ' فنى پہاڑوں اور علم پر غرور نہيں كرناچاہئے _هذا رحمةمن ربّى فإذا جاء وعد ربّى جعله دكائ

ذوالقرنين ان حالات ميں ان صلاحيتوں كے حامل ہونے كے باوجود اپنے كام كے ثمرہ پر مغرور نہيں ہوئے بلكہ ان سب چيزوں كوالہى رحمت كے پرتوميں ديكھا اور قيامت كو اپنے سامنے مجسم كيا _

۱۳ _انسانى ہاتھوں سے بنى ہوئي محكم ترين چيزيں الہى ارادہ و قدرت كے سامنے پائيدار نہيں ہيں _

فإذاجاء وعد ربّى جعله دكائ

۱۴_ ذوالقرنين نے ياجوج وما جوج كى جانب سے ستم كيے جانے والے لوگوں كو صرف بند پر مكمل اعتماد كرنے سے منع كيا او انہيں پرودگار كى رحمت اور اس كے ارادہ كى طرف متوجہ كہا_هذا رحمة من ربّى فإذا جاء وعد ربّى جعله دكائ

۱۵_ معاد پر اعتقاد ركھنے والے موحدين كبھى بھى انسانى تہذيبكے آثار اورفنى نظريات پر مغرور نہيں ہوئے اور كائنات كى آخر كارتباہى وبربادى اور ويرانى كاملاحظہ كررہے ہيں _هذا رحمة من ربّى فإذا جاء وعد ربى جعله دكائ

۱۶_ توحيد ى نظريہ ميں مبداء اور معاد كى طرف توجہ دواہم ضابطے ہيں _مامكنى فيه ربّى خير ...وكان وعد ربّى حقا

۱۷_ ذوالقرنين، الله تعالى كے وعدوں پر ايمان ركھتے تھے اورانكے پورا ہونے پر مطمئن تھے _وكان وعد ربّى حقا

۱۸_قيامت كا برپا ہونا، الله تعالى كا حتمى وعدہ ہے _وكان وعد ربّى حقا

۱۹_ الله تعالى كے وعد ے حتمى اور يقينى ہوتے ہيں _وكان وعد ربّى حقا

۲۰_قيامت كے بپا ہونے كى نويد، الہى تربيت كيلئے پيش خيمہ ہے _وكان وعد ربّى حقا

كلمہ ''ربّ ''كى طرف توجہ مندرجہ بالا مطلب كو سامنے لارہى ہے _

الله تعالى :الله تعالى كى ربوبيت كى خصوصيات ۵; الله تعالى كى رحمت ۵; الله تعالى كى رحمت كى علامات ۱،۲;اللہ

۵۵۵

تعالى كى رحمت كے آثار ۶; الله تعا لى كى قدرت كى حاكميت ۱۳;اللہ تعالى كى معرفت كى اہميت ۱۶; الله تعالى كے ارادہ كى حاكميت ۱۳;اللہ تعالى كے وعدوں كا حتمى ہونا ۱۹;اللہ تعالى كے وعد ے ۱۷،۱۸

اعتماد :غير خدا پر اعتماد سے منع كرنا ۱۴

امن وامان :معاشرتى امن وامان كاسرچشمہ ۶

تربيت :تربيت كى روش۲۰

تربيت:قيامت كى بشارت ۲۰

ذوالقرنين :ذوالقرنين كاايمان ۱۷; ذوالقرنين كابندباندھنا ۱،۱۰;ذوالقرنين كى پشيگوئي ۸;ذوالقرنين كاقصہ ۱۰; ذوالقرنين كا نظريہ ۱،۳; ذوالقرنين كى تبليغ كى روش ۴; ذوالقرنين كى توحيد۳،۴;ذوالقرنين كى ديندارى ۳; ذوالقرنين كى فنى صلاحتيں ۳،۴; ذوالقرنين كى قدرت ۳ ;ذوالقرنين كے بند كاانجام۹; ذوالقرنين كے بند كى جاوداني۸; ذوالقرنين كے بند كى عظمت ۷; ذوالقرنين كے بند كى ويرانى ۹; ذوالقرنين كے فضائل ۳،۱۷

زمين :زمين كاانجام۵; زمين كى بتاہى ۱۱/۱۵

سرزمين :ذوالقرنين كى سرزمين كے شمالى لوگ ۱۴

علم :علم كا سرچشمہ ۲; علم سے فائدہ اٹھانا۲

قدرت :قدرت كا سرچشمہ ۲; قدرت سے فائدہ اٹھانا۲

قيامت :قيامت كا حتمى ہونا ۱۸;قيامت كى علامات ۹، ۱۱ ; قيامت ميں زمين۱۱

كائنات :كائنات كاانجام۱۵

مادى وسائل :مادى وسائل پر غرور كرنے سے پرہيز ۱۲

محكم اشيائ:انسانى محكم اشياء كا پائيدار نہ ہونا ۱۳

معاد :معاد كا حتمى ہونا ۱۰;معاد كى اہميت ۱۶

موحدين :موحدين كا ايمان ۱۵; موحدين كا متواضع ہونا ۱۵;موحدين كانظريہ ۱۵

نظريہ كائنات :توحيدى نظريہ كائنات ۱۶

يادآورى :الله تعالى كے ارادہ كييادآوري

۵۵۶

آیت ۹۹

( وَتَرَكْنَا بَعْضَهُمْ يَوْمَئِذٍ يَمُوجُ فِي بَعْضٍ وَنُفِخَ فِي الصُّورِ فَجَمَعْنَاهُمْ جَمْعاً )

اور ہم نے انھيں اس طرح چھوڑديا ہے كہ ايك دوسرے كے معاملات ميں دخل اندازى كرتے رہيں اور پھر جب صورپھونكا جائے گا تو ہم سب كو ايك جگہ اكٹھا كرليں گے (۹۹)

۱_اللہ تعالى ، قيامت كے نزديك لوگوں كوانكے حال پر چھوڑ دے گا وہ سيلاب كى مانند ايك دوسرے پر حملہ آور ہو كرعالمى جنگ شروع كرديں گے _وتركنا بعضهم يومئذيموج فى بعض

''تركنا'' كا عطف '' جعلہ دكائ'' پر ہے تواس صورت ميں ''تركنا '' كا مضمون بھى قيامت سے پہلے حادثات كے متعلق ہوگا_ اور ''يومئذ'' سے بھى اسى بناء پر قيامت كے نزديك دن مراد ہے ضمير''بعضہم '' معنوى مرجع ہے جوالناس كى طرف لوٹ رہى ہے ''يموج فى بعض'' سے مراد بعض كا بعض ميں داخل ہونا ہے شايد مراد بعض انسانى گروہوں كا ديگر گروہوں پر حملہ كرنامراد ہو _

۲_قيامت كے نزديك يا جوج وماجوج دوسرے انسانوں پر حملہ كريں گے _وتركنا بعضهم يومئذ يموج فى بعض

يہ بھى ممكن ہے كہ يہ آيات آخرى زمانہ كے بعض حادثات كى طرف اشار ہ ہو يہ عبارتيں بھى'' إذا جاء وعد ربّى '' اور''نفخ فى الصور'' بھى تما م اس معتبر قرينہ ہيں لہذا جملہ ''تركنا '' يعنى اس وقت ( كہ جب ذوالقرنين كے بند ٹوٹنا قيامت كے بعض حالات ك بيان كررہا ہے) بعض لوگ بعض كيلئے پريشانى كا سبب ہونگے يہ كہ يہ بند يا جوج وما جوج كے روكنے كيلئے تھا احتمالى يہى ہے كہ يہ پريشانى انكے حملوں كى بناء پر ہوگى _

۳_ الله تعالى نے ذوالقرنين كے بند كى خرابى كے بعد ياجوج وماجوج كے در ميان داخلى اختلاف اور جھگڑا پيدا ہونے كى خبردى ہے _فإذا جاء وعد ربّى جعله دكائ ...وتركنا بعضهم يومئذ يموج فى بعض

۵۵۷

يہ احتمال ہے كہ '' بعضہم '' ميں ضمير ياجوج وماجوج كى طرف لوٹ رہى ہے يعنى ذوالقرنين كے بند ٹوٹنے كے بعد وہ آپس ميں وسيع پيمانہ پر جھگڑوں ا ور لڑائيوں ميں جائيں گے _

۴_لڑائيوں كا ختم ہونا اور انسانوں ميں آسائش اور امن وامان كا برقرار ہونا پروردگار كيمشيت سے متعلق ہے _

وتركنا بعضهم يومئذيموج فى بعض

۵_اللہ تعالى روز قيامت صور پھونكتے ہى تمام انسانوں كواٹھاكر جمع كرلے گا _ونفخ فى الصور فجمعنهم جمعا

ممكن ہے كہ''صور'' سے مراد ان دو نوں ميں سے ايك معنى ہو :

۱)''سينگ ''اس صورت ميں مراد ايك باجے ميں پھونكنا ہوكيونكہ زمانہ قديم ميں باجے كيلئے حيوانات كے سينگ سے كام ليا جاتا تھا_

۲) ممكن ہے ''صور'' صورة كى جمع ہو تو اس صورت ميں تصويروں اور مردوں كے جسموں كو زندہ كرنے كے ليے پھونكنا مراد ہوبہت سے اہل لغت نے دوسرے احتمال پر اعتراض كيا اور اسے كلمہ ''صور'' كے قرآن ميں استعمال كے ساتھ سازگار نہيں پايا_

۶_قيامت مردہ جسموں ميں اور پچھلى صورتوں ميں دوبارہ روح پھونكنے سے برپا ہو گي_ونفخ فى الصور فجمعنهم جمعا

مندرجہ بالا مطلب اس احتمال كى بناء پرہے كہ ''صور''صورة كى جمع ہو يعنى ( جسدوں كى ) صورتوں ميں روح پھونگى جائے گي_

۷_ ذوالقرنين كے بند كيتباہى قيامت كے نزديك ہونے كى علامات ميں سے ہے _

فإذا جاء وعد ربّى جعله دكاء ...ونفخ فى الصور فجمعنهم جمعا

۸_روز قيامت لوگوں كو جمع كرنا بہت بڑا اور حيرت انگيز كام ہے _ونفخ فى الصور فجمعنهم جمعا

''جمعنا ہم '' كا ''جمعاً'' مفعول مطلق ہے اور تا كيد كيلئے ہے اور اسكا نكرہ آنا بڑائي اور حيرت كو ظاہر كر رہا ہے _

آخر الزمان :آخرالزمان ميں عالمى جنگ ۱

آسائش:آسائش كا سرچشمہ ۴/الله تعالى :الله تعالى كى مشيت كے آثار ۴; الله تعالى كے افعال۵

امن وامان :امن وامان كا سرچشمہ ۴

انسان:انسانوں كا آخرت ميں اكٹھاہونا ۸; انسانوں كا آخرت ميں حيرت انگيز طور پر اكٹھاہونا ۸; انسان ميں روح كا پھونكنا ۶

۵۵۸

ذوالقرنين :ذوالقرنين كے بند كى تباہى ۳_۷

قرآن :قرآن كى پشيگوئي ۳

قيامت :قيامت كا برپا ہونا ۶; قيامت كى علامات ۱،۲،۷; قيامت ميں مجمع ہونا۵; قيامت ميں صور پھونكا جانا ۵

ماجوج :آخرالزمان ميں ماجوج كا حملہ ۲

مردے :مردوں كاآخرت ميں زندہ ہونا ۶

معاد :معاد جسمانى ۶

يا جوج :آخرالزمان ميں يا جوج كا حملہ ۲;ياجوج وما جوج ميں جھگڑا ۳

آیت ۱۰۰

( وَعَرَضْنَا جَهَنَّمَ يَوْمَئِذٍ لِّلْكَافِرِينَ عَرْضاً )

اور اس دن جہنم كو كافرين كے سامنے باقاعدہ پيش كيا جائے گا (۱۰۰)

۱_اللہ تعالى روز قيامت جہنم كو كفار كے سامنے پيش كرے گا _وعرضنا جهنم يومئذ للكفر ين عرضا

۲_روز قيامت كفار كے سامنے جہنم كا پيش ہونا انكے ليے بہت سخت اور وحشت ناك منظر ہوگا _

وعرضنا حهنم يومئذ للكفرين عرض

''عر''تاكيد كے ساتھ ساتھ نكرہ ہونے كى بناء پرچيز كے عظيم الشان ہونے پر بھى دلالت كررہا ہے يہاں جہنم كى عظمت كفار كے وحشت زدہ ہونے كى مناسبت سے ہے _

۳_ روز قيامت ميں موجودلوگوں كيلئے جہنم كا مشاہدہ ممكن ہے _وعرضنا جهنم يومئذ للكفرين عرضا

۴_ كفر جہنم ميں مبتلا ء ہونے كا پيش خيمہ ہے _وعرضنا جهنم يومئذ للكفرين عرضا

الله تعالى :الله تعالى كے افعال ۱

جہنم :

۵۵۹

جہنم كے اسباب۴ جہنمى :۱

قيامت :قيامت كى وحشت ۲; قيامت ميں جہنم كا ديكھ

جانا۳

كفار :كفار كى اخروى مشكلات ۲; قيامت ميں كفار ۱'۲

كفر:كفر كے آثار ۴

آیت ۱۰۱

( الَّذِينَ كَانَتْ أَعْيُنُهُمْ فِي غِطَاء عَن ذِكْرِي وَكَانُوا لَا يَسْتَطِيعُونَ سَمْعاً )

وہ كافر جن كى نگاہيں ہمارے ذكر كى طرف سے پردہ ميں تمھيں اور وہ كچھ سننا بھى نہيں چاہتے تھے (۱۰۱)

۱_كفار كى واضح ترين خصوصيت يہ كہ انكا الہى آيات ديكھنے اور درك كرنے پرپردہ كا پڑ اہونا ہے

الذين كانت اعينهم فى غطاء عن ذكري

ذكر خدا كوديكھنے سے مراد اسى آيات و علامات كا مشاہدہ كرنا ہے كہ جوياد خدا ميں ڈال ديتى ہيں (مسبب كہ كر سبب كا ارادہ كرنا) آيت سے مراد يہ ہے كہ الہى آيات كا مشاہد ہ كفار كو اسكى يا د ميں نہيں ڈالتا گويا انكى آنكھوں پردہ پڑا ہوا ہے كہ ان آيات كا ديكھنا انكے ليے ممكن نہيں ہے_

۲_ياد خدا سے پردہ غفلت ميں محصور دل يہ كفار كى واضح ترين خصلت ہے _الذين كانت أعينهم فى غطاء عن ذكري

۳_ جہنم ان كفار كاانجام ہے كہ جو الہى آيات سننے كى طاقت نہيں ركھتے _وعرضنا جهنم يومئذ للكفرين ...وكانوالا يستطيعون سمعا

۴_ كفر اور حق سے دورى انسان كا الہى آيات سننے سے عجز كا باعث ہے _عن ذكرى وكانوا لا يستطيعوں سمعا

جملہ''كانوا لا يستطيعون '' ماضى استمرارى ہے يعنى كفار ہميشہ سننے سے عاجز تھے _واضح ہے كہ يہاں نہ سننے سے مرادحسى طور پر نہ سننا نہيں ہے بلكہ يہ بيان كرنا ہے كفار ان الہى آيات كے در مقابل يوں ہيں جيسے كوئي سننے كى طاقت نہيں

۵۶۰

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809

810

811

812

813

814

815

816

817

818

819

820

821

822

823

824

825

826

827

828

829

830

831

832

833

834

835

836

837

838

839

840

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863

864

865

866

867

868

869

870

871

872

873

874

875

876

877

878

879

880

881

882

883

884

885

886

887

888

889

890

891

892

893

894

895

896

897

898

899

900

901

902

903

904

905

906

907

908

909

910

911

912

913

914

915

916

917

918

919

920

921

922

923

924

925

926

927

928

929

930

931

932

933

934

935

936

937

938

939

940

941

942

943

944

945