تفسير راہنما جلد ۱۰

تفسير راہنما 8%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 945

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 945 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 247322 / ڈاؤنلوڈ: 3404
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱۰

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

حدیث نمبر ٧:

عن مسعدة بن صدقة، عن ابی عبد الله ، عن آبائه ، عن علیّ انّه قال له علیٰ منبر الکوفة:

اللهم انّه لا بُدّ لأرضک من حجة لک علیٰ خلقک ، یهدیهم الیٰ دینک ، ویعلّمهم علمک لئلّا تبکطُل حجتُک ، ولا یضلّ أتباعُ اولیائک بعد اذ هدایتهم به ، امّا ظاهرٌ لیس بالمطاع ،أومکُتَتَمٌ مترقّبٌ ان غاب عن النّاس شخصه فی حالٍ هدایتهم، فأنَّ علمه و آدابه فی قلب المومنین مبثبتة ، فهم بها عاملون (۱)

مسعدہ بن صدقہ کہتے ہیں : حضرت امام صادق ؑاپنے اجداد طاہرین حضرت امیر المؤمنین علی ؑسے نقل فرماتے ہیں :

حضرت امیرالمؤمنین علی ؑنے مسجد کوفہ کے منبر سے ارشاد فرمایا:

پروردگارا! تیری ، زمین تیری حجّت سے خالی نہیں اور امام تیری طرف سے لوگوں کی ہدایت کرتا ہے تاکہ آپ کی دلیل اور برہان باطل نہ ہو جائے اور تیرے ولی کی اطاعت کرنے والے ایسے ہدایت یافتہ ہیں جو کبھی بھی گمراہ نہیں ہونگے۔

٭ معارف اور احکام کا علم دین خدا کے علوم میں سے ہے جو خدا کے فرستادہ بندوں کے ذریعے لوگوں تک پہنچایا جاتا ہے۔

٭ خداوند عالم قیامت کے دن اپنے بندوں سے سوال نہیں کرے گا مگر یہ کہ ان تعلیمات کو حجت خدا کے ذریعے واضح اور روشن طریقے سے ان تک پہنچا یا ہو۔

٭ قرآن مجید اور تاریخ بشریت اس بات کی گواہ ہے کہ ہر زمانے میں لوگوں کی قلیل تعداد نے پیغمبروں اور اماموں کی اطاعت اور پیروی کی ہے۔

٭ حضرت امام عجل اللہ تعلیٰ فرجہہ الشریف( انّا هدیناه السّبیل امّا شاکراً وامّا کفوراً ) کی بنیاد پر خدا کی طرف سے لوگوں کی ہدایت کے لئے مأمور ہیں اس دوران اگر کوئی ہدایت یافتہ ہو گیا تو بقول حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام'' بنا اہتدیتم '' ہمارے توسط سے ہدایت یافتہ ہوا ہے، یقیناً ہادی اور رہنما(نوراً الله الذی لا یطفؤا ) ہیں جوکہ خاتم الاوصیاء، حضرت امام زمان عجل اللہ تعالیٰ فرجہہ الشریف کی ذات گرامی ہے۔

____________________

(۱) کمالالدین صدوق ٣٠٢

۱۰۱

حدیث نمبر ٨:

عن ابی الحسن اللّیثی قال: حدّثنی جعفر بن محمد ، عن آبائه علیهم السلام أن النّبیّ(صلی الله علیه وآله وسلّم) قال:

انّ فی کلّ خلفٍ من اُمّتی عد لاً من أهل بیتی ینفی عن هذا الذین تحریف العالمین و أنتعالَ المبطلین و تأویل المجاهلین ، وانّ أئمّتکم قادتکم الی الله عزّوجلّ ، فانظروا بهنّ تقتدون فی دینکم وصلاتکم (۱)

ابو الحسن لیثی کہتے ہیں : حضرت امام صادق ؑاپنے اجداد طاہرین ؑ سے فرداً فرداً نقل فرماتے ہیں :کہ پیغمبر اکرم ؐ نے فرمایا:

میری امت کے ہر آنے والی نسل میں ہم اہلبیتؑ میں سے ایک امام عادل ضرور ہو گا تحریف کرنے والوں نے اہل باطل اور غلط لوگوں سے مختلف غلط اقوال اور جھوٹی باتیں دین میں شامل کر لی ہیں ۔

٭ ادیان الہی ہمیشہ دنیا پرستوں کے ذریعے تحریف کا شکار ہو تے رہے ہیں دنیا پرست اپنے خیال خام میں دین کی ہر روز ایک نئی تعبیر و تشریح کرتے رہتے ہیں اور اسی عنوان کے تحت اپنے مقصد اور ہدف کے لئے آیات قرآن کی تفسیر کرتے ہیں (تفسیر بالرائے) بحر حال آیات الٰہی کا علم صرف اور صرف امام زمان ؑکے پاس ہے۔

____________________

(۱) کمال الدین صدوق٢٢١

۱۰۲

حدیث نمبر ٩:

عن غیاث بن ابراهیم ، عن الصادق جعفر بن محمد عن أبیه محمد بن علی ، عن ابیه علی بن الحسین ، عن أبیه الحسین بن علی علیهم السلام قال:

سئل امیر المؤمنین صلوٰت الله علیه ، عن معنیٰ قول رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم انّی نخلّفٌ فیکم الثّقلین کتاب الله وعترتی؛ من العترة؟

فقال: أنا والحسن والحسین والأئمّة التسعة من وُلد الحسین ، تاسعهم مهدیّهم وقائمهم ، لا یُفارقون کتاب الله ، ولا یُفارقهم حتّیٰ یردُوا علیٰ رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم حوضه (۱)

غیاث بن ابراہیم کہتے ہیں : حضرت امام جعفر صادق ؑاپنے آباء و اجداد طاہرین سے نقل فرماتے ہیں :

حضرت امیر المؤمنین ؑسے حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان :

(انّی تارکم فیکم الثقلین......) میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جارہا ہوں اللہ کی کتاب اورعترت'' کے بارے میں پوچھا گیا،عترت کون لوگ ہیں ؟

حضرت امیر المؤمنین ؑنے فرمایا'' میں ،حسنؑ ، حسین ؑ نو ٩ امام معصوم علیہم السلام جو امام حسین ؑکی نسل سے ہیں کہ ان میں نویں ان کے مھدی اور قائم ہیں یہ لوگ کتاب خداسے اور کتاب خداان سے ہرگز جدا نہیں ہونگے یہاں تک کہ پیغمبر اکرم ؐ کے پاس حوض کوثر تک پہنچ جائیں ۔

٭ حضرت امام زمان مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہہ الشریف پیغمبر اکرم ؐ کی باقی ماندہ عترت میں سے ہیں ۔

٭ یہ عظیم شخصیت قرآن سے ہرگز جدا نہیں ہو گی اور نہ ہی قرآن ان سے جدا ہوگا۔ وہ در حقیقت قرآن ناطق ہیں ۔

٭ خداوند منان نے ہمارے لئے جو کچھ امر فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ قرآن کی پیروی کریں حضرت امام زمان عجل اللہ تعالیٰ فرجہہ الشریف کی امامت کے ساتھ ،تنہا قرآن کی پیروی کا حکم نہیں دیا۔

٭ قرآن ہرگز امام زمان عجل اللہ تعالیٰ فرجہہ الشریف سے جدا نہیں ہے پس وہ لوگ جو امام زمان ؑکے بغیر قرآن کی پیروی کرتے ہیں وہ ہدایت کے راستے سے ہٹ چکے ہیں اور ایک قسم کی گمراہی میں گرفتار ہیں ۔

____________________

(۱) کمال الدین صدوق٢٤٠

۱۰۳

حدیث نمبر ١٠:

عن أبی بصیر ، عن الصّادق جعفر بن محمد آبائه علیهم السلام قال: قال رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم: المهدیُّ من وُلدی ، اسمه اسمی ، وکنیته کنیتی ، أشبه النّاس بی خلقاً ، وخلقاً ، تکون له غیبة و حیرة حتّیٰ تضلّ الخلق عن أدیانهم ، فعن ذٰ لک یقبل کالشّهابِ الثّاقب فیملأها قسطاً وعد لاً کما ملئت ظلماً وجوراً ۔(۱)

ابو بصیر کہتے ہیں :حضرت امام جعفر صادق ؑنے اپنے والد گرامی سے نقل کیا ہے حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:مہدی منتظر میرے فرزندوں میں سے ہیں ان کا نام میرا نام اور انکی کنیت میری کنیت ہو گی وہ خَلق وخُلق میں تمام لوگوں کی نسبت مجھ سے زیادہ مشابہ ہيں۔ اس کی غیبت اس قدر حیرت آور ہو گی کہ لوگ دین سے باہر نکل جائیں گے اس وقت مہدیؑ چمکتے ہوئے ستارے کی طرح ظہور فرمائیں گے ، پھر وہ زمین کو عدل وانصاف سے اس طرح پُر کریں گے جس طرح وہ ظلم و جور سے بھر چکی ہو گی۔

____________________

(۱) کمال الدین صدوق

۱۰۴

حدیث نمبر ١١:

عن اسحاق بن عمّار قال: قال ابو عبدالله علیهم السلام: للقائم غیبتان: احدهما قصیرة الأخریٰ طویلة:الغیبة

الأولیٰ لا یعلمُ بمکانه فیها الّا خاصّة شیعته،

ولأخریٰ لا یعلم بمکانه فیها الّا خاصّة موالیه (۱)

اسحاق بن عمّار نے کہا: حضرت امام جعفر صادق ؑنے فرمایا:

حضرت قائم آل محمد عجل اللہ تعالیٰ فرجہہ الشریف کے لئے دو غیبتیں ہیں ١۔ غیبت صغریٰ

٢۔ غیبت کبریٰ

ایک مختصر،دوسری طولانی ۔پہلی غیبت میں ان کے خاص شیعوں کے علاوہ لوگ ان کی جگہ اور قیام گاہ کو نہیں جانتے تھے، اور دوسری غیبت میں ان کی قیام گاہ کو کوئی نہیں جانتا ہے۔

٭ خوش قسمت ہیں وہ حضرات جو حضرت قائم امام زمان ؑکی قیام گاہ ،وحی کے نزول کی جگہ اور فرشتوں کے آمدورفت کے مقام سے آگاہ ہیں ۔

این سعادت بزور بازو نیست

تا نہ بخشد خدائ بخشندہ

____________________

(۱) اصول کافی ج١ ، ص ٣٤٠

۱۰۵

حدیث نمبر ١٢:

عن أبی هاشم داؤد بن القاسم الجعفری قال: سمعت أبا الحسن صاحب العسکری یقول:الخلف من بعدی ، أبنیّ الحسن ، فکیف لکم بالخلف من بعد الخلف؟

فقلت: ولِمَ ، جعلنی الله فداک؟

فقال: لأنّکم لا ترون شخصه ولا یحلُّ لکم ذکرُه باسمه ،

قلت: فکیف تذکره؟

قال: قولوا: الحجّة من آل محمد صلی الله علیه وآله وسلم(۱)

داؤد بن قاسم کہتے ہیں : حضرت ابو الحسن الہادی ؑسے سنا کہ آپ ؑ نے فرمایا میرا جانشین میرے بعد میرے بیٹے حسنؑ ہیں میرے جانشین کے جانشین کے ساتھ کیا کریں گے؟

میں نے عرض کیا ! میری جان آپؑ پر قربان ہو جائے ! یہ کیسا سوال ہے؟

آپؑ نے فرمایا ! تم ان کو نہیں دیکھ سکو گے اور تمہارے لئے ان کے خاص نام لیکر یاد کرنا جائز نہیں !

عرض کی! مولا ! پھر کیسے ان کو یاد کریں ؟

آپؑ نے فرمایا: کہو ! حجّت آل محمدؐ۔

٭ ہم آج حضرت امام زمان ، حجت ابن الحسن المہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہہ الشریف کے ساتھ کیسا سلوک روا رکھیں ، جبکہ ہم آپؑ کو نہیں دیکھتے اور ہمیں حق حاصل نہیں ہے کہ ہم انہیں ان کے مقدس نام جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمنام ہیں سےپکاریں ۔

____________________

(۱) کمال الدین صدوق٣٨١

۱۰۶

حدیث نمبر ١٣:

عن عبد السلام بن صالح هروی قال:سمعت دعبل بن علی الخزاعی یقول: أنشدت مولای الرضا علی بن موسیٰ قصیدتی الّتی أوّلها:

مدارس آیاتٍ خلّت من تلاوة

ومنزل و حیٍ مقفر العرصات

فلمّا انتهیت الیٰ قولی !

خروج امام لا محالة خارجٌ

یقوم علی اسم الله ولبرکات

یمیّز فینا کلّ حقٍّ و باطلٌ

ویجزی علی النّعماء ولنّقمات

بکی الرّضا بُکائً شدیداً، ثمّ رفع رأسه الیّ فقال لی:

یا خزاعیُّ نطق روح القدس علیٰ لسانک بهذین البیتین ، فهل تدری من هذا الأمام ومتیٰ یقوم ؟ فقلت:لا یا مولای الّا انّی سمعت بخروجٍ امامٍ منکم یطهر الأرض من الفساد و یملأها عدلاً(کما ملئت جوراً)

فقال: یا دعبل الأمام بعدی محمدٌ ابن ، وبعد محمدٍ ابنه علیّ ٌ ، وبعد علیٌّ ابنه الحسن ، وبعدالحسن ابنه الحجة القائم المنتظر فی غیبته ، المطاع فی ظهوره ، لو لم یبق من الدّنیا الّا یومٌ واحدٌ لطوّ ل الله عزّوجل ذٰالک الیوم حتّیٰ یخرج فیملأ الأرض عدلاًکما ملئت جوراً (۱)

عبد اللہ بن صالح ہروی کہتے ہیں : میں نے دعبل خزاعی سے سنا کہ انہوں نے کہا :میں نے مولا و آقا حضرت ابولحسن الرضا علیہ آلاف التحیة والثنا کی شان میں ایک قصیدہ کہا ہے جس کا پہلا مصرع یہ تھا:۔

____________________

(۱) کمال الدین باب ٣٥ حدیث ٦

۱۰۷

مدارس آیاتٍ خلَت من تلاوة

ومنزل و حیٍ مقفر العرصات

'' اہل بیت پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا گھر جو محل تدریس آیات الٰہی تھا۔ ابھی تلاوت سے خالی پڑا ہوا ہے۔ جہاں پر مرکز وحی تھا ابھی وہ عبادت و ہدایت سے خالی ہے۔

جب ان دو مصرعوں پر پہنچا۔

خروج امام لا محالة خارجٌ

یقوم علی اسم الله ولبرکات

یمیّز فینا کلّ حقٍّ و باطل

ویجزی علی النّعماء ولنّقمات

جو کچھ میرے لئے سرمایہ امیدہے وہ اس امام کا قیام ہے جو حتماً قیام کریں گے۔ خدا کے نام کے ساتھ بہت سی خیر وبرکت لائیں گے۔ لوگوں کے درمیان سے حق کو باطل سے جدا کریں گے اورلوگوں کو نعمت و نقمت کے تحت جزا و سزا دیں گے۔

حضرت امام رضا ؑشدت سے گریہ کرنے لگے اس کے بعد آپؑ نے اپنا سر مبارک اٹھایا اور میری طرف دیکھ کر فرمایا:

اے دعبل خزاعی ان دو ابیات کو روح قدس نے تمہاری زبان پر جاری کیاہے۔ کیا جس امام کے بارے میں شعر کہاگیاہے اسے جانتے ہووہ کون ہیں اور کس وقت قیام فرمائیں گے؟

عرض کیا: نہیں مولا! میں نے آپ لوگوں کی زبان مبارک سے سنا ہے کہ وہ قیام کریں گے، زمین کو تباہی و بربادی سے بچائیں گے اور اسے یوں عدل وانصاف سے بھر دیں گے جس طرح سے وہ ظلم و جور سے بھر چکی ہو گی۔

حضرت امام رضا ؑنے فرمایا:

اے دعبل! میرے بعد میرے فرزند محمد ؑ امام ہیں اور محمدؑ کے بعد ان کے فرزند علیؑ، علیؑ کے بعد ان کے فرزند حسنؑ اور حسنؑ کے بعد ان کے فرزند حجت قائمؑ ہیں کہ ان کی غیبت کے دوران لوگ ان کا انتظار کریں گے اور انکے ظہور پر ان کی اطاعت کریں گے۔

اگر دنیا کی عمر ایک دن کے برابر باقی رہے تو اس دن کو خداوند عالم اس قدر طولانی کرے گا کہ حضرت حجتؑ ظہور فرمائیں گے، زمین کو عدل و انصاف سے اس طرح پُر کریں گے جس طرح سے وہ ظلم و جور سے بھر چکی ہو گی۔

٭ قیام قائم آل محمد خداوند عالم کے حتمی وعدوں میں سے ہے اور خداوند رب العزت کبھی وعدہ خلافی نہیں کرتا۔

۱۰۸

حدیث نمبر١٤:

عن محمد بن عثمان العمری قال:سمعته یقول:والله انّ صاحب هذا اأمر لیحضر الموسم کلّ سنة فیر ی النّاس ویعرفهم ویرونه ۔(۱)

محمد بن عثمان عمری کہتے ہیں : میں نے امام زمان عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے نائب خاص محمد بن عثمان عمری سے سنا کہ فرمایا:

خدا کی قسم! یہ صاحب الامر ہر سال حج کے موسم میں حج کے مراسم میں شریک ہوتے ہیں اور لوگوں کو دیکھتے ہیں مگر لوگ آپؑ کو نہیں دیکھتے ہیں اور نہیں پہچانتے ہیں ۔

٭ وجود نازنین امام زمان ؑحجت خدا ہیں اور روئے زمین پر خلق خدا کے درمیان موجود ہیں لیکن لوگ ان کی شناخت و پہچان کی قدرت نہیں رکھتے ۔ البتہ جو نشانیاں اور علامات کتابوں میں درج ہیں ان کے مطابق وہ امام کو اپنے نزدیک حس کریں گے۔

____________________

(۱) کمال الدین صدوق٤٤٠

۱۰۹

حدیث نمبر١٥:

عن محمد بن مسلم قال: سمعت أبا عبد اللهیقول:انّ بلغکم عن صاحب هذا الأمر غیبة فلا تنکروها ۔(۱)

محمد بن مسلم کہتے ہیں : حضرت امام صادق ؑسے سنا ہے کہ آپؑ نے فرمایا: اگر صاحب الامر کی غیبت پہنچ جائے تو تم لوگ اس کاانکار مت کرنا.

٭ ابھی وہی زمانہ ہے اور ہم غیبت امام زمان حضرت مہدی ؑمیں زندگی گزار رہے ہیں آپؑ کی طولانی غیبت سے ہمارے عقیدوں میں کوئی لغزش پیدا نہ ہوجائے۔

٭ غیبت کے زمانے میں کسی کو اجاذت نہیں ہے کہ وہ آپؑ کی امامت اور ولایت سے انکار کر بیٹھے۔

____________________

(۱) اصول کافی ج ١ ،ص ٣٣٨

۱۱۰

حدیث نمبر١٦:

عن ابان بن تغلب قال:قال ابو عبد الله: اذا قام القائملم یقم بین یدیه احدٌ من خلق الرّحمٰن الّا عرفه صالحٌ هو أم طالحٌ ؟ لأنّ فیه آیة للمتوسّمین وهی بسبیلٍ مقیمٌ ۔(۱)

ابان بن تغلب کہتے ہیں : حضرت امام صادق ؑفرماتے ہیں :

جب قائم قیام فرمائیں گے تو مخلوقات خدا میں سے کوئی بھی ایسا آپ کے سامنے نہ ہوگا جس کو آپ نہ پہچانتے ہونگے کہ ان میں سے کون اچھے ہیں اور کون بُرے؟ کیونکہ خداوند متعال فرماتاہے:

یہ علامتیں ہوشیار لوگوں کے لئے ہیں اور وہ سیدھے راستے پر ثابت اور استوار ہیں ۔

٭ حضرت امام زمانؑ خدا کے خلیفہ اور تمام مخلوقات کے درمیان امین اللہ ہیں وہ خدا کے علاوہ تمام چیزوں پر احاطہ رکھتے ہيں اور تمام مخلوقات کو اچھی طرح جانتے اور پہچانتے ہيں ۔ کوئی یہ گمان نہ کرے کہ وہ دوسرے حکمرانوں کے طرح ایک حکمران ہيں جو اپنے اطرافیوں کو پہچاننے سے عاجز ہيں ۔ وہ کسی سے فریب نہیں کھائیں گے۔ وہ خداوند عالم کے عطا کردہ علم پر عمل کریں گے۔

____________________

(۱) کمال الدین صدوق٦٧١(قرآن سورہ حجر آیۃ ، ٧٥ ، ٧٦)

۱۱۱

حدیث نمبر١٧:

عن ابان بن تغلب قال: قال ابوعبد الله علیه السلام:

أوّل من یبایع القائمجبرئیل ، ینزل فی صورة الطیر أبیض فیبایعه ، ثمّ یضع رجلاً علیٰ بیت الله الحرام ورجلاً علیٰ بیت المقدس ثّم ینادی بصوت طلقٍ تسمعه الخلائق: أتیٰ امر الله فلا تستعجلوه (۱)

ابان بن تغلب کہتے ہیں کہ حضرت امام جعفر صادق ؑفرماتے ہیں :

سب سے پہلے قائم آل محمد کے مبارک ہاتھوں میں بیعت کرنے والا جبریلؑ امین ہو گا جو سفید پرندے کی شکل میں آسمان سے نازل ہو کر حضرت کے دست مبارک پر بیعت کریں گے اس کے بعد جبریلؑ اپنا ایک پاؤں بیت اللہ پر اور دوسرا پاؤں بیت المقدس پر رکھتے ہوئے آواز دیں گے جو تمام مخلوق خداوندی سن لے گی۔اللہ کا حکم آیا ہے پس اس کی طرف دوڑیں ۔

____________________

(۱) قرآن :سورۃ نمل، آیۃ ١(کمال الدین صدوق ؛ ص ٦٧١)

۱۱۲

حدیث نمبر١٨:

عن هشام بن سالم ، عن أبی عبد الله قال:یقوم القائم ولیس لأحدٍ فی عنقه أحدٌ ولا عقدٌ ولا بیعة (۱)

ہشام بن سالم کہتے ہیں : حضرت امام جعفر صادق ؑفرماتے ہیں :

قائم قیام فرمائیں گے جبکہ اس کے گردن پر نہ کوئی قرارداد ہوگی ، نہ عہد و پیمان اور نہ ہی کوئی بیعت ہوگی۔

٭ حضرت امام مہدی عجل اللہ تعالیٰ ظہورہ کے ظہور کے موقع پر کوئی بھی عدل وانصاف کو لاگو کرنے میں رکاوٹ نہیں ہوگا وہ مشرکوں ،کافروں ،منافقوں اور ستم گروں کو مکمل طور پر سرکوب اور نابود کریں گے۔

____________________

(۱) اصول کافی، ج ١ ، ص ٣٤٢

۱۱۳

حدیث نمبر١٩:

عن أبی بصیر ، عن أبی عبد الله قال:

تنکسف الشمس لخمسٍ مضَین من شهر رمضان قبل قیام القائم (۱)

ابو بصیر کہتے ہیں : حضرت امام جعفر صادق ؑفرماتے ہیں :

قائم آل محمد کے قیام سے پہلے ماہ رمضان کی پانچ تاریخ کو سورج گرہن ہوگا۔

____________________

(۱) کمال الدین صدوق٦٥٥

۱۱۴

حدیث نمبر٢٠:

عن غیاث بن ابراهیم ، عن الصادق جعفر بن محمد ، عن أبیه ، عن آبائه علیهم السلام قال: مَن انکر القائمَ مِن وُلدی فقد انکرنی ۔(۱)

غیاث بن ابراہیم کہتے ہیں : حضرت امام جعفر صادق ؑاپنے آباء واجداد سے یکے بعد دیگرے یہ حدیث نقل کرتے ہیں کہ:حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

جو کوئی میرے فرزند قائم کا انکار کرے گا گویا اس نے میرا انکار کیا ہے۔

٭ امام زمان ؑکا انکار کرنا پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انکار کرنے کے برابر ہے۔ امامت اور ولایت کے منکر درحقیقت اسلام و قرآن و نبوت کے منکر ہیں ۔

____________________

(۱) کمال الدین صدوق، ص٤١٢

۱۱۵

امام مہدی ؑکے بارے میں کچھ اشعار

خورشیدو زہرہ

مرھم بر زخم ھجران ، بین کہ دل ویرانہ شد

از غم ہجر تو ای لیلای من دیوانہ شد

باد ہ ی حزن فراحت، بند بندم را گرفت

آتشم بر دل زد ودل ، شعلہ ی مستانہ شد

بہترین معنی ی عشق ای سراپا سرو ناز

ناز تو دُردِ ہلاک ِ پیر ہر میخانہ شد

زہرہ در آغوش خورشید آمدای جان جہان!

نقطہ ای خال ِ رخ مہ پارہ ی افسانہ شد

ذرہ ای ھستم و تو سراپا جام نور

دل اسیر نرگسِ خورشید آن یک دانہ شد

خاطرات تو دُرون لحظہ لحظہ بودنم

لعل دروؔیشم ربود و شہد در پیمانہ شد(۱)

____________________

(۱) حضرت آیت اللہ سید ناصر حسین درویش میبدی کرمان شاہی (اسیر عشق)

۱۱۶

آثار انقلاب

ہے کون جس کی دونوں جہان کو ہے جستجو

ہے کس کا نام مہر ِ نبوّ ت کی آبرو

کس کے وجود سے ہے دو عالم میں ھا و ھو

بہتی ہے کس کے اذن سے سانسوں آب جو

غیبت کسے ملی ہے خدا سے قریب کی ؟

خیرات کون بانٹ رہا ہے نصیب کی؟

یہ رات ہے نجات ِ بشر کی نوید بھی

یہ رات ہے بہشت بریں کی کلید بھی

یہ رات سعد بھی ہے ، سراج سعید بھی

یہ رات رات بھی ہےمگر'' صبح عید بھی''

اس رات میں رواں ہے سمندر خیال کا

آ تذکرہ کریں ذرا نرگس کے لعل کا

اے فخر ابن مریم و سلطان فقر خو

تیرے کرم کا اَبر بھرستا ہے چار سو

تیرے لئے ہوائیں بھٹکتی ہیں کو بہ کو

تیرے لئے ہی چاند اترتا ہے جو بہ جو

پانی تیرے لئے ہے صدا ارتعاش میں

سورج ہے تیرے نقش قدم کی تلاش میں

۱۱۷

اے آسمان فکر بشر ، وجہ ذو الجلال

اے منزل خرد کا نشان ، سرحد خیال

اے حسن لا یزال کی تزئین لا زوال

رکھتا ہے مضطرب مجھے اکثر یہی سوال

جب تو زمین و اہل زمین کا نکھار ہے

عیسٰیؑ کو کیوں فلک پہ تیرا انتظار ہے

تو مرکز جہاں بھی شہہ جبرئیل بھی

دنیا کا محتسب بھی ہمارا وکیل بھی

تو عقل بھی ، جنوں بھی ، جمال و جمیل بھی

پردے میں ہے وجودِ خدا کی دلیل بھی

دنیا تیری مزاجِ سماعت کا نام ہے

محشر تیرے ظہور کی ساعت کا نام ہے

۱۱۸

اے باغ عسکری کےمقدس ترین پھول

اے کعبۀ فروع ِ نظر ، قبلۀ اصول

آ ہم سے کر خراجِ دل و جاں کبھی وصول

تیرے بغیر ہم کو قیامت نہیں قبول

دنیا ، نہ مال و زر ، نہ وزارت کے واسطے!

ہم جی رہےہیں،تیری زیارت کے واسطے!

اے آفتاب مطلع ہستی اُبھر کبھی

اے چہرۀ مزاجِ دو عالم نکھر کبھی

اے عکس حق ، فلک سے ادھر بھی اتر کبھی

اے رونق ِ نمو ، لے ہماری خبر کبھی

قسمت کی سر نوش کو ٹوکے ہوئے ہیں ہم

تیرے لئے تو موت کو روکے ہوئے ہیں ہم

۱۱۹

اب بڑھ چلاہےذہن ودل وجان میں اضطراب

پیدا ہیں شش جہات میں آثارِ انقلاب

اب ماند پڑ رہی ہے زمانے کی آب و تاب

اپنے رخ ِ حسین سے اٹھا تو بھی اب نقاب

ہر سو یزیدیت کی کدورت ہے ان دنوں

مولاؑ تیری شدید ضرورت ہے ان دنوں

نسل ستم ہے در پہ آزار ، اب تو آ

پھر رہیں ہیں ظلم کے دربار ، اب تو آ

پھر آگ پھر وہی در و دیوار ، اب تو آ

کعبے پہ پھر ہے ظلم کی یلغار ، اب تو آ

دن ڈھل رہا ہے ، وقت کو تازہ اڑان دے

آ ، ''اے امام عصر '' حرم میں ''آذان'' دے(۱)

____________________

(۱) شہید محسن نقویؔ فرات فکر؛ ص، ۱۱۲تا۱۲۰

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

مددسے يہاں پروردگار سے ملاقات سے مراد اس كى رضايت اور جزا كا سامنا كرنا ہے_

۱۲_ الله تعالى كى رضا اور اس كے اجر و ثواب تك پہنچنے كا واحد راستہ اعمال صالحہ اور اس كى خلوص كے ساتھ عبادت ہے_فمن كان يرجوالقاء ربّه فليعمل عملاًصالحاًولا يشرك بعبادة ربّه أحدا

۱۳_گمان و اميدكى حدتك قيامت پرايمان ، عمل صالح كى طرف ميلان اور شرك ورياسے دورى اختيار كرنے مين بہتر كردار ادا كرتا ہے_فمن كان يرجوا لقاء ربّه فليعمل عملاًصالحا و لا يشرك بعبادة ربّه أحدا

۱۴_ايمان اورعقيدہ عمل كى صورت ميں ظاہر ہوتا ہے _فمن كان يرجوا لقاء ربّه فليعمل عملاًصالحا

۱۵_الہى فكر ميں مبدا اور معاد پر ايمان كھبى بھى عمل صالح سے جدا نہيں ہوسكتے _

إلهكم إله واحد فمن كان يرجوالقاء ربّه فليعمل عملا ً صالحا

حرف ''فا'' كے ذريعے اس آيت كے جملوں كا ربط يہ معنى دے رہا ہے كہ ان مراتب ميں سے ہر مربتہ پچھلى مرتبہ سے كسى صورت ميں جدا نہيں ہے يعنى توحيد پرست كو چاہئے كہ ہميشہ پروردگار كى ملاقات كا اميد وار رہے اور جو بھى ايسا ہے اسے چاہيے عمل صالح اختيار كرے _

۱۶_بلند مستقبل كيلئے اميداوار ہونا صحت مند زندگى كے منظم ہونے ا ور انسان كے عقائد و عمل كے صحيح ہونے ميں اہم كردار ادا كرتا ہے _فمن كان يرجوالقاء ربّه فليعمل عملاً صالحا ً ولا يشرك بعبادة ربّه أحدا ً

۱۷_ كوئي موجود حتّى كہ انبياء بھى الله تعالى كے شريك ہونے كى صلاحيت نہيں ركھتے _

قل إنما أنا بشر مثلكم ...الهكم اله واحد ...ولا يشرك بعبادة ربّه أحدا

۱۸_ عمل كا درست ہونا صرف خلوص اور شرك كے معمولى سے تصور سے پاك ہونے كى صورت ميں ميسّر ہے_

فليعمل عملاً صالحاً ولا يشرك بعبادة ربّه أحد جملہ '' ولا يشرك '' ہوسكتا ہے اس جملہ ''فليعمل ...'' كى تفسير ہو _

۱۹_اللہ تعالى كى واحد نيت پر اعتقاد ( توحيد نظرى ) ضرورى ہے كہ خالصا نہ عبادت اوراسكے غير كى پرستش كى ترك ( توحيد عملى ) كے ساتھ ہو _إلهكم إله واحد فمن كان ...ولا يشرك بعبادة ربّه أحدا

۲۰_اللہ تعالى كى ربوبيت كى طرف توجہ انسان كو خالصانہ عبادت اور شرك سے پر ہيزكرنے پر ابھارتى ہے _

ولا يشرك بعبادة ربّه أحدا

۲۱_ توحيد، نبوت، قيامت اور عمل صالح كے انجام دينے كى طرف دعوت پيغمبر اسلام (ص) كى دعوت كا خلاصہ ہے _

۵۸۱

قل إنما أنا بشر ...ولا يشرك بعبادة ربّه أحدا

جملہ ''يوحى إليّ ...'' نبوت كو اور ''أنّما الہكم ...'' توحيد كو اور 'يرجوالقائ ...'' معاد كو اور ''عملا صالحا'' عمل صالح كو بيان كر رہا ہے

۲۲_عن أبى عبدا لله (ع) فى قوله :'' ...ولا يشرك بعبادة ربّه أحداً'': فهذا الشرك شرك رياء (۱)

اما صادق (ع) سے الله تعالى كے اس كلام''ولا يشرك بعبادة ربّه احدا'' كے بارے ميں روايت ہوئي كہ يہ شرك ريا والا شرك ہے _

۲۳_ الحسن بن على الوشاء قال : دخلت على الرضا(ع) وبين يديه إبريق يريد ان يتهيا منه للصلاة فد نوت منه لأصت عليه فا بى ذلك وقال : ...اما سمعت الله عزوجل يقول : ''من كان يرجو القاء ربّه فليعمل علملاً صالحاً ولا يشرك بعبادة ربّه أحداً ''وها أنا ذإ توضا للصلاة وهى العبادة فا كره أن يشركنى فيها أحداً (۲)

حسن بن على وشاد كہتے ميں كہ ميں : امام رضا عليہ السلام كى خدمت ميں حاضر ہوا انكے در مقابل ايك پانى كا برتن ركھاہوا تھا اور آپ اس سے وضو كرنا چاہتے تھے تا كہ نماز كيلئے تيارى كريں توميں قريب ہوا كہ پانى انكے ہاتھوں پر ڈالوں امام نے قبول نہيں كيا اور فرمايا :كيا تم نے يہ نہيں سنا كہ الله تعالى نے فرمايا:'' ...ولا يشرك بعبادة ربّہ احداً ...'' ميں چاہتا ہوں نماز كيلئے وضو كروں اور وہ عبادت ہے ميں پسند نہيں كرتا كسى كو اسميں شريك كروں _

آنحضرت :آنحضرت اور خرافات ۲; آنحضرت كا بشر ہونا ۳; آنحضرت كى دعوت ۲۱; آنحضرت كى رسالت ۱; آنحضرت كى طرف وحى ۳،۴،۸ ; آنحضرت كے بشر ہونے كا اعلان كرنا ۱; آنحضرت كے علم كا سرچشمہ ۴; آنحضرت كے علم كى حدود ۵

اخلاص :اخلاص كے آثار ۸

الله تعالى :الله تعالى كا بے نظير ہونا ۱۷;اللہ تعالى كى رضايت كى اہميت ۹; الله تعالى كى رضايت كے اسباب ۱۲; الله تعالى كى رضايت لينا ۹

اميدوار ہونا :اميدوار ہونے كے آثار ۱۶; قيامت كے بارے ميں اميدوار ہونے كے آثار ۱۲

انسان :انسانوں كا حشر ۱۰//انگيزہ :انگيزہ كے اسباب ۱۶/۲۰

____________________

۱) تفسير قمى ج۲ص۴۷ ' تفسير برہان ج۲ ص۴۹۶ ج۱_۲) كاپنى ج۳ ص۶۹ ح۱ ' نورالثقلين ج۳ ص۳۱۶ ح ۲۷۶_

۵۸۲

ايمان:الله پر ايمان ۱۵; ايمان اور عمل صالح ۱۵; ايمان كى طرف دعوت ۲۱;بے جا توقعات ;۵ ايمان كے آثار ۱۴; توحيد پر ايمان ۲۱; قيامت پرايمان ۲۱; قيامت پر ايمان كے آثار ۱۳; نبوت پر ايمان ۲۰

توحيد :توحيد عبادى ۷; توحيد كى اہميت ۸; توحيد كے آثار ۱۰

توحيد پرستان :توحيد پرستوں كى ذمہ دارى ۹

جزا :جز اكے اسباب ۱۲

خرافات :خرافات كا مقابلہ كرنا ۲

دينى رہبر :دينى رہبروں كى ذمہ دارى ۶

ذكر :الله تعالى كى ربوبيت كے ذكر كے آثار ۲۰

روايت :۲۲،۲۳

ريا:ريا سے مانع ۱۳;ريا كے آثار ۲۲

شرك :شرك سے اجتناب كرنے كے اسباب ۲۰; شرك

سے اعراض ۱۹; شرك سے موانع ۱۳; شرك عبادى ۲۲;شرك كا رد۱۷،۲۳

عبادت :عبادت ميں اخلاص ۱۹; عبادت ميں اخلاص كى اہميت ۱۲;عبادت ميں اخلاص كے اسباب ۲۰

عقيدہ :توحيد ميں عقيدہ ۱۹;عقيدہ كے صحيح ہونے كے اسباب ۱۶

عمل :عمل كے صحيح ہونے كے اسباب ۱۶

عمل صالح :عمل صالح كا پيش خيمہ ۱۳،۱۴،۱۸;عمل صالح كى اہميت ۱۲; عمل صالح كى طرف دعوت ۲۱

غلو :غلو سے مقابلہ كرنا ۶

قيامت :قيامت كا برپا ہونا ۱۰; قيامت كى خصوصيات ۱۱; قيامت ميں حقائق كا ظاہر ہونا ۱۱; قيامت ميں لقاء الله ۱۱

نظريہ كائنات :توحيدينظريہ كائنات ۷

وحي:وحى كا كردار ۴;وحى كى تعليمات ۸

۵۸۳

۱۹-سوره مريم

آیت ۱

( بسم الله الرحمن الرحیم )

( كهيعص )

بنام خدائے رحمان و رحيم

۱_ كہيعص ، قرآنى رموز ميں سے ہے _كهيعص

۲_عن جعفر بن محمد (ع) قال ...و (كهيعص ) معنا ه أنا الكافى ' الهادى ' الولى العالم ' الصادق الوعد (۱) امام جعفر صادق(ع) سے روايت ہوئي كہ آپ نے فرمايا : كہيعص كامعنى يہ ہے كہ ميں كافى ' ہادى ' ولى ' عالم اور صادق الوعد ہوں _

۳_عن امام على (ع) أنه دعا فقال : اللهم سا لتك يا كهيعص (۲) حضرت على (ع) سے روايت ہوئي كہ حضرت نے دعا كى اور فرمايا : اے خدا تجھ سے چاہتا ہوں اے كہيعص

اسماء صفات :۲،۳

حروف مقطعات:۱،۲،۳

روايت :۲/۳

قرآن :قرآنى رموز ۱

۵۸۴

آیت ۲

( ذِكْرُ رَحْمَةِ رَبِّكَ عَبْدَهُ زَكَرِيَّا )

يہ زكريا كے ساتھ تمھارے پروردگار كى مہربانى كا ذكر ہے (۲)

۱_زكريا(ع) اللہ تعالى كےنيك بندے اور اسكى خاص رحمت كے حامل تھے _ذكر رحمت ربّك عبده ذكريا

۲_ سورہ مريم زكريا (ع) پراللہ تعالى كى رحمت اور الطاف كوبيان كرنے والى ہے _ذكر رحمت ربّك عبده زكريا

''زكريا '' تو خبر ہے كہ اسكا مبتدا محذوف اسم اشارہ ہے يعنى '' ہذا '' ''المتلوّ ''ذكر، كہ اس سے مراد سورہ مريم ہے يا يہ كہ وہ مبتدا تھا اوراسكى خبر محذوف ہے يعني:''ذكر رحمت فيما يتلى عليك''

۳_ الله تعالى كاكى بندوں پر لطف و رحمت كا تذكرہ ذكر كرنے كے لائق ہے _ذكر رحمت ربّك عبده زكريا

۴_اللہ تعالى كى بارگاہ ميں عبادت اور بندگى اسكى رحمت كو متوجہ كرنے كا وسيلہ ہے _رحمت ربّك عبده

''عبدہ '' ''رحمت '' كيلئے مفعول ہے اسكا زكرياكے نام پر مقدم كيا جانا اور اسے عبوديت كے ذريعے توصيف كيا جانا، اسكے الہى رحمتوں كومتوجہ كرنے كے كردار پر اشارہ ہے _

۵_اللہ تعالى كى رحمت اسكى ربوبيت كا جلوہ ہے _رحمت ربّك

۶_ الله تعالى كى بندہ نوازى اورمحبت، پيغمبر(ص) پراسكى تربيتوں اور الطاف كے حامل ہونے كے ساتھ ہے_

ذكر رحمت ربّك عبده

يہ كہ الله تعالى نے اپنے بندہ زكر يا پر رحمت كو ''ربّك '' كى تعبير كے ساتھ پيغمبر ''كو خطاب '' كرتے ہوئے بيان كيا اس نكتہ كى طرف اشارہ ہے كہ اس نے آنحضرت كى تربيت ميں بھى اپنى بندہ نوازى والى رحمت سے دريغ نہ كيا _

____________________

۱)معانى الا خبار ص۲۲، ح۱ نورالثقلين ج۳ ، ص۳۲۰ح۴_

۲) تفسيرتبيان ج۷، ص۱۰۳ ، مجمع البيان ج۶ ص ۷۷۵_

۵۸۵

۷_ كہيعص، حضرت زكرياكے حق ميں الہى لطف كى سرگذشت كے رموز ميں سے ہے _

كهيعص، ذكر رحمت ربّك عبده ذكريا

كہا گيا ہے : كہيعص ہو سكتا ہے كہ مبتدا ہو اور ذكر اسكى خبر تواس صورت ميں خود كہيعص ايك قسم كا الله تعالى كى زكرياپر رحمت كے رموز كے تذكرہ ميں سے ہوگا _

آنحضر ت :آنحضرت كى تربيت ۶

الله تعالى :الله تعالى كى خاص رحمت ۱; الله تعالى كى ربوبيت كى علامات ۵ الله تعالى كى رحمت كا پيش خيمہ ۴;اللہ تعالى كى رحمت كے آثار ۵،۶

الله تعالى كا لطف :الله تعالى كے لطف كے شامل حال ۶،۷بندگا ن خدا ;۱

حروف مقطہ :۷

ذكر :الله تعالى كى رحمت كاذكر ۳

رحمت :رحمت كے شامل حال ۱،۲

زكريا(ع) :زكريا(ع) كا قصہ ۷;زكريا(ع) كى عبوديت ۱; زكريا(ع) كے فضائل ۱،۲،۷

سورہ مريم :سورہ مريم كى تعليمات ۲

عبادت :الله تعالى كى عبادت كے آثار ۴

عبوديت :عبوديت كے آثار ۴

قران :قران كے رموز۷

آیت ۳

( إِذْ نَادَى رَبَّهُ نِدَاء خَفِيّاً )

جب انھوں نے اپنے پروردگار كو دھيمى آواز سے پكارا (۳)

۱_ حضرت زكريانے لوگوں كى نگاہوں سے دور الله تعالى كو بلند آواز سے پكارااور اس سے حاجت طلب كي_

ا ذ نادى ربّه نداء ًخفيا

''ندائ'' يعنى كسى كو بلند آواز كے ساتھ پكارنا ''ذكر خفى '' كہ ذكركرنے اسے لوگوں سے چھپائے

۵۸۶

(لسا ن العرب)بعدوالى آيات يہ بيان كررہى ہيں كہ حضرت زكريا نے فرزند كى در خواست كے حوالے سے پكاراتھا_

۲_ حضرت زكرياكى الله تعالى كى بارگاہ ميں دعا اور مخفيانہ راز ونياز انكے خاص الہى رحمت شامل حال ہونے كا موجب تھا_

رحمت ربّك ...زكريا إذ نادى ربّه ندائً خفيا

''اذنادي'' كلمات''رحمت ربّك'' كيلئے ظرف ہے اس تركيب سے مراد يہ كہ حضرت زكرياپر اس وقت الله تعالى كى رحمت نازل ہوئي تھى كہ جب وہ الله تعالى كے ساتھ مخفيانہ مناجات كيا كرتے تھے_

۳_ انبياء بھى اپنى مشكلات كو حل كرنے كيلئے دعا كيا كرتے تھے_عبده زكريا_ إذنادى ربّه نداء ً

۴_ دعا ميں آواز كے بلند كرنے كا جواز _اذنادى ربّه ندائا

۵_ دعاكا پوشيدہ اور لوگوں كى نگاہوں سے دور ہونا دعا كے آداب ميں سے ہے _نادى ربّه نداء ً خفيا

حضرت زكرياكى پوشيدہ دعا كا تذكرہ اور بعد والى آيات ميں انكى دعا كى قبوليت كاذكر ،ممكن ہے مخفيانہ دعا كے پسنديدہ ہونے كى طرف اشارہ ہو_

۶_ حضرت زكريا كا لوگوں كے نزديك اپنى دعا كے مضمون كے ظاہر ہونے كا خوف _نادى ربّه ندائا خفيا

(بعد والى آيات ميں )''إنّى خفت الموالي'' كے قرينہ سے لفظ'' خفياً '' ہو سكتاہے حضرت زكريا كى لوگوں كا انكے دعا سے واقف ہونے كى پريشانى كى طرف اشارہ ہو_

۷_اللہ تعالى كا مقام ربوبيت بندوں كى درخواست كے قبول ہونے كا مقام ہے _إذنادى ربّه

۸_ دعا اور الله تعالى كى بارگاہ ميں التجاء كا انسانى زندگى كے تغيير وتبديل اور اسكى ضرورتوں كے پورا ہونے ميں اہم كردار ہے_ذكر رحمت ربّك عبده زكريا إذنادى ربّه

الله تعالى :الله تعالى كى خاص رحمت ۲: الله تعالى كى ربوبيت۷;اللہ تعالى كى رحمت كا پيش خيمہ۲

انبياء :انبياء كى دعا ۳; انبياء كى مشكلات ۳

انسان :انسان كى زندگى ميں مو ثر اسباب۸;انسان كى ضرورتوں كے پوراہونے ميں مو ثر اسباب ۸

دعا :دعا كى قبوليت كا سرچشمہ۷;دعا كے آثار ۳;۸; دعا كے آداب ۵;دعا كے احكام ۴; دعا ميں فرياد ۴ ;مخفيانہ دعا۱

۵۸۷

رحمت:رحمت كے شامل حال۲

زكريا(ع) :حضرت زكريا (ع) كا خوف ۶; حضرت زكريا(ع) كى دعا۱ ; حضرت زكريا(ع) كى دعاكاظاہر ہونا۶; حضرت زكريا(ع) كى دعا كے آثار ۲; حضرت زكريا(ع) كى مناجات كے آثار ۲

مشكلات:مشكلات كے دور ہونے كا موجب ۳

آیت ۴

( قَالَ رَبِّ إِنِّي وَهَنَ الْعَظْمُ مِنِّي وَاشْتَعَلَ الرَّأْسُ شَيْباً وَلَمْ أَكُن بِدُعَائِكَ رَبِّ شَقِيّاً )

كہا كہ پروردگار ميرى ہڈياں كمزور ہوگئي ہيں اور ميرا سر بڑھا پے كى آگ سے بھڑك اٹھا ہے اور ميں تجھے پكارنے سے كبھى محروم نہيں رہا ہوں (۴)

۱_ حضرت زكريابہت زيادہ بوڑھے اور ہذيوں كے كمزوراور سركے بالوں كے سفيد ہونے كى حالت ميں الله تعالى سے فرزند كے طالب تھے _قال ربّ إنّى وهن العظم منّى واشتعل الرا س شيبا

''عظم ''كے معنى ہڈى كے ہيں ''وهن العظم منّى ''يعنى ميرى ہڈياں كمزور ہوگئيں كلمہ ''شيباً'' تمييز ہے اور اس سے مراد بالوں كا سفيد ہوناہے ''اشتعال'' يعنى آگ لگنا(لسان العرب) جملہ ''اشتعل '' يعنى سرميں سفيد بال بھڑك اٹھے ہيں ممكن ہے ''شيبا:'' سے يہ مراد ہواور يہ بھى ممكن ہے كہ''اشتعل'' مادہ شع سے مشتق ہو (گھوڑ ے كى دم اور پيشانى كا سفيد ہونا)تو اس صورت ميں جملہ '' اشتعل '' يعنى سر كے بال سفيد ہوگئے _

۲_ حضرت زكريا(ع) نے اپنى دعا ميں الله تعالى كى ربوبيت كو وسيلہ قرارديا_قال ربّ إنّى وهن العظم ولم ا كن بدعائك ربّ شقيا

۳_ الله تعالى كى ربوبيت سے توسل اورا سكا بار بارذكر ، دعاكے آداب ميں سے ہے_قال ربّ ...لم أكن بدعائك رب ّ_

۴_حضرت زكريا(ع) نبى كى ہڈياں بڑ ھاپے كى وجہ سے كمزورہو گئي تھيں _إنى وهن العظم منّيا

۵_حضرت زكريا (ع) كے سركے بال بڑھاپے كى بنا پر سفيد ہو چكے تھے_واشتعل الرا س شيبا

۶_كمزوريوں اور نقائص كاشمار كرنا اور خواہشات كے تكميل اور ضرورتوں كو پوراكر نے ميں اپنى عاجزى كا اظہار دعا اورمناجا ت كے آداب ميں سے ہے_قال ربّ انّى وهن العظم منّى واشتعل الرا س شيبا

۵۸۸

۷_حضرت زكريا اپنى مشكلات دور كرنے كيلئے ہميشہ دعا كا سہاراليتے تھے _ولم أكن بدعا ئك ربّ شقيا

''بدعائك'' ميں ''با'' سببيہ يا '' فى '' كے معنى ميں ہے آيت سے مراد يہ ہے كہ ميں اپنى پہلى دعاوں ميں بھى كبھى محروم نہيں ہوا اور انكى وجہ سے سعادت مند رہا_

۸_ الله تعالى كى بارگاہ ميں دعا اور مناجات مشكلات كو ختم كرنے والى اور انسان كے دام شقاوت ميں گرفتار ہونے سے مانع ہيں _ولم أكن بدعائك ربّ شقيا

''سعادت ''كے در مقابل ''شقاوت '' ہے (مفردات راغب)سختى اور زحمت كے معنى ميں بھى آتا ہے_

۹_حضرت زكريا اپنى پورى زندگى ميں مستجاب الدعوة شخص تھے _ولم أكن بدعا ئك ربّ شقيا

۱۰_حضرت زكريا(ع) كا الله تعالى كے بارے ميں اپنى دعا كى قبوليت كے حوالے سے اميد وار ہونا _

ولم اكن بدعائك ربّ شقيا

۱۱_حضرت زكريا اپنى سعادت مندانہ زندگى كو الله تعالى كى بارگاہ ميں راز ونياز اور دعا كے مرہون منّت سمجھتے تھے_

ولم أكن بدعائك ربّ شقيا

۱۲_الہى لطف ورحمت كو متوجہ كرنے كيلئے اپنى پورى عمرميں اللہ تعالى كى باربار كى عنايت اور الطاف كاشمار كرنادعا كے آداب ميں سے ہے_قال ربّ ...لم أكن بدعائك ربّ شقيا

الله تعالى :الله تعالى كى رحمت كا پيش خيمہ ۱۲; الله تعالى كے لطف كاپيش خيمہ ۱۲

توسل :الله تعالى كى ربوبيت كے ساتھ توسل كرنا ۲;۳

دعا :دعا كے آثار ۷;۸;۱۱;دعا كے آداب ۳;۶;۱۲; دعا ميں اميدوار ہونا۱۰;دعاميں توسل ۳دعا ميں ضعف كااظہار۶

ذكر:الله تعالى كے لطف كا ذكر ۱۲

رفتار :رفتار كے انگيزے۸

زكريا (ع) : زكريا(ع) كا اميدوار ہونا ۱۰;زكريا(ع) كا بڑھاپا۱; زكريا(ع) كا توسل ۲; زكريا(ع) كاعقيدہ ۱۱;زكريا(ع) كا قصہ ۱;زكريا(ع) كى دعا۱;۲;۷;زكريا(ع) كى دعا كى قبوليت ۹;زكريا (ع) كى سعادت مندى ۱۱;زكريا(ع) كى سيرت ۷; زكريا(ع) كى مشكلات

۵۸۹

كادور كرنا۷; زكريا(ع) كى ہڈيوں كى كمزوري۱;۴;زكريا(ع) كے بالوں كاسفيد ہونا ۱;زكريا(ع) كے بڑھاپے كے آثار ۴،۵;زكريا(ع) كے فضائل ۹

سعادت:سعادت كے اسباب ۱//شقاوت :شقاوت كے موانع۸

فرزند:فرزند كى درخواست ۱//مستجاب الدعوة:۹

آیت ۵

( وَإِنِّي خِفْتُ الْمَوَالِيَ مِن وَرَائِي وَكَانَتِ امْرَأَتِي عَاقِراً فَهَبْ لِي مِن لَّدُنكَ وَلِيّاً )

اور مجھے اپنے بعد اپنے خاندان والوں سے خطرہ ہے اور ميرى بيوى بانجھ ہے تو اب مجھے ايك ايسا ولى اور وارث عطا فرما دے (۵)

۱_حضرت زكريا(ع) ان لوگوں كے بيجا تسلط سے پريشان تھے كہ جہنوں نے انكى وفات كے بعد انكى ذمہ داريوں كى باگ دوڑ سنبھالنى تھي_وإنّى خفت الموالى من ورائي

''مولى '' اور '' ولى '' كا ايك معنى ہے _يعنى وہ جو كسى شخص كے بعد اسكے متعلقہ امور كى سرپرستى كرتا ہے ( تاج العروس ) اگر چہ اسكے ساتھ رشتہ دارى نہ بھى ہو _

۲_ حضرت زكريا(ع) كى نگاہوں ميں انكے اقربا انكے مادى معاشر تى امور كو سنبھالنےكى صلاحيت نہيں ركھتے تھے_

وإنى خفت الموالى من ورائي

''موالى '' كے معانى ميں سے چچا زاد، بھانجا و غير جسے رشتہ دار مراد ہيں ( تاج العروس )

۳_ حضرت زكريا(ع) پشين گوئي كر رہے تھے كہ انكے بعد بہت سے ہاتھ انكى كوششوں كے ثمرہ كواڑاليں گے اور انكى زحمتيں بے نتيجہ رہ جائيں گى _وأنى خفت الموالى من ورائي

وہ چيز جسكے بارے ميں حضرت زكريا اپنے بعد ضائع ہونے يا منحرف ہونے ميں پريشان تھے نبوت نہ تھى _ كيونكہ الله تعالى صرف صالحين كو مقام نبوت پر پہنچا تا ہے بلكہ وہ انكى لوگوں كے درميان دينى اور معاشرتى شخصيت اور مقام تھى ياوہ مال تھا كہ جس ميں تصرف كا حق انہيں حاصل تھا بعد والى آيت ميں '' يرثنى و يرث '' كى توصيف دوسرے احتمال كو ترجيح دے رہى ہے _

۴_ انبياء اورالہى رہبر اپنى محصول اور كوششوں كے ثمرات كے معاملہ ميں دور انديش اور حساس ہوتے ہيں _

۵۹۰

وإنى خفت الموالى من ورائي

۵_ حضرت زكريا كى اہليہ بانجھ تھيں _وكانت امرا تى عاقر ''عاقراً'' سے مراد وہ مرد يا عورت ہے كہ جس سے بچہ نہيں ہو سكتا ( مفردات راغب )

۶_حضرت زكريا (ع) كى اہليہ بانجھ ہونے كے ساتھ ساتھ بوڑھى اور يائسہ بھى تھيں _وكانت امرا تى عاقر '' كانت '' كا فعل ممكن ہے يہ معنى بھى بيان كرے كہ حضرت زكريا كى اہليہ بچہ پيدا كرنے كے حوالے سے دو قسم كى مشكل ميں تھى (۱) بہت زيادہ عمر كا ہونا (۲) جوانى سے ہى بانجھ ہونا _

۷_ حضرت زكريا (ع) نے اپنى بانجھ اہليہ سے بچہ پيدا ہونے كے حوالے سے نااميد ہونے كے باوجود سالہا سال اسكے ساتھ اپنى ازدواجى زندگى گزارى _وكانت امرا تى عاقرا

۸_ حضرت زكريا (ع) صالح فرزند اور اپنى نسل ميں جانشين كے حاجت مند تھے _فهب لى من لدنك ولي لفظ ''وليا ''سے حضرت زكريا (ع) كى مراد بعد والى آيت ميں '' يرثنى ...'' قرينہ سے فرزند تھي_

۹_ حضرت زكريا اپنے بارے ميں معمول كے مطابق طبيعى اسباب كے ساتھ فرزند كى پيدائش كے حوالے سے مايوس ہو چكے تھے _وكانت امرا تى عاقراً فهب لى من لدنك وليا

۱۰ بيٹے كى پيدائش كے حوالے سے حضرت زكريا كى اميد كا محور ،صرف الہى رحمت و لطف تھافهب لى من لد نك ولي

۱۱_ صالح فرزند اور نيك وارث ،الہى عنايت ہے _فهب لى من لدنك وليا

۱۲_ الہى لوگوں كے دلوں ميں مطلقا يا لوسى اور ناميدى نا مناسب ترين حالات ميں بھى پيدا نہيں ہوتى _وكانت امرا تى عاقراً فهب لى من لدنك وليا حضرت زكريا(ع) اپنى اور بيوى كے بڑھاپے اور اسكے بانجھ ہونے كے باوجود الله تعالى كے رحمت پر اميد وار تھے اور حصول مقصد كيلئے كو شاں تھے _

۱۳_ سچے توحيد پرستو ں كى نظر ميں الہى ارادہ ،طبيعى اسباب پر حاكم ہے _وكانت امرا تى عاقراً فهب لى من لدنك وليا

۱۴_عن أبى جعفر (ع) ( فى قوله تعالى ) : ''وانى خفت الموالي'' قال هم العمومة وبنوالعم (۱) وإنى خفت الموالى '' كے بارے ميں امام باقر(ع) سے نقل ہوا كہ آپ نے فرمايا : موالى سے مراد چچا اورچچا زاد بھائي ہيں _

____________________

۱)مجمع البيان ج۶ 'ص۷۷۶'نورالثقلين ج۳' ص۳۲۳ 'ح۲۱_

۵۹۱

الله تعالى :الله تعالى كے ارادہ كى حاكميت ۱۳; الله تعالى كى نعمات ۱۱

اميداوار ہونا :الله تعالى كى رحمت پر اميد وار ہونا ۱۰;اللہ تعالى كے لطف پر اميد وار ہونا ۱۰

انبياء :انبياء كى دور انديشى ۴

دينى رہبر :دينى رہبروں كى دورانديشى ۴

روايت :۱۴

زكريا :زكريا كا اميدوار ہونا ۱۰; زكريا كى اہليہ كا بانجھ ہونا۵/۶/۷; زكريا كى پريشانى ۱; زكريا كى اہليہ كا بوڑہا ہونا ۶; زكريا كى توحيد ۱۰; زكريا كے جانشين ۱; زكريا كى خواہشات ۸; زكريا كے ماحصل كى نسبت خيانت ۳; زكريا كى دور انديشى ۱'۳; زكريا كے رشتہ دار ۱۴; زكريا كا عقيدہ ۲; زكريا كى گھر زندگى ۷; زكريا كے رشتہ داروں كا لائق نہ ہونا ۲; زكريا كى مايوسى ۹

طبيعى اسباب :طبيعى اسباب كا كردار ۹'۱۳

فرزند :فرزند صالح كى در خواست ۸

موحدين :موحدين كا اميد وار ہونا ۱۲; موحدين كا عقيدہ ۱۳; موحدين كے فضائل ۱۲

نعمت :فرزند كى نعمت ۱۱

ـآیت ۶

( يَرِثُنِي وَيَرِثُ مِنْ آلِ يَعْقُوبَ وَاجْعَلْهُ رَبِّ رَضِيّاً )

جو ميرا اور آل يعقوب كا وارث ہو اور پروردگار اسے اپنا پسنديدہ بھى قرار ديدے (۶)

۱_ حضرت زكريا(ع) نے الله تعالى كى بارگاہ ميں اپنے اور حضرت يعقوب(ع) كے خاندان كيلئے ايك وارث كي تمنا كى _

يرثنى ويرث من ء ال يعقوب

اگر چہ بعض نے يعقوب(ع) كو زكريا(ع) كى اہليہ اور جناب مريم (ع) كے چچا يعقوب بن ما ثان پر تطبيق دى ہے ليكن اكثر مفسرين انھيں وہى يعقوب بن اسحاق بن ابراہيم(ع) سمجھتے ہيں _

۲_ حضرت زكريا(ع) اپنى اوراپنى اہليہ كى ميراث كے نااہل افراد كے ہاتھ ميں جانے كے حوالے سے پريشان تھے _

فهب لى من لدنك ولياً _ يرثنى ويرث من ء ال يعقوب

۵۹۲

۳_حضرت زكريا(ع) كى اہليہ حضرت يعقوب(ع) نبى كى نسل سے تھيں _يرثنى ويرث من ء ال يعقوب

''يرثنى '' كے مقابل جملہ ' 'يرث من ء ال يعقوب'' شايد اس ليے ہو كہ انكى اہليہ خاندان يعقو ب سے تھيں اور وہ مال جو انہيں خاندان يعقوب(ع) سے ملا تھا وہ انكے بعد ان كے فرزند كے اختيار ميں جائے _

۴_حضرت زكريا(ع) ، حضرت يعقوب(ع) نبى كى نسل ميں سے تھے_يرثنى ويرث منء ال يعقوب

شايد جملہ ''يرث من ء ال يعقوب '' اس ميراث كى طرف اشارہ كررہاہو جويعقوب(ع) كى اولاد سے حضرت زكريا تك پہنچى اگر چہ لفظ تھى ''يرثني'' بھى اس ميراث كوشامل ہے ليكن حضرت زكريا (ع) كا اسكى حفاظت كيلئے اہتمام موجب بنا كہ اسكا عليحدہ تذكرہو_

۵_بچے كا ماں باپ سے وراثت پانا، حضرت زكريا (ع) كے زمانہ ميں رائج اور قبول شدہ چيز تھي_

فهب لى من لدنك وليّا_ يرثنى ويرث من ء ال يعقوب

۶_حضرت زكريا (ع) اور يحيى (ع) كى زندگى ميں خصوصى مالكيت كا وجود _فهب لى من لدنك ولياً_ يرثنى وير ث من ء ال يعقو ب

۷_ حضرت زكريا(ع) كااپنے آبادواجداد سے باقى رہى ہوئي يادگاروں كى حفاظت كااہتمام كرنا _

فهب لى من لدنك ولياً _ يرثنى ويرث من ء ال يعقوب

۸_حضرت زكريا (ع) نے الله تعالى سے دعا كى كہ انكا فرزند انكى اور انكى اہليہ كى زندگى ميں انتقال نہ كرے _

فهب لى من لدنك ولياً_ يرثنى ويرث من ء ال يعقوب

۹_حضرت زكريا (ع) نے اپنے فرزند كى معنوى صلاحيت اور لياقت كيلئے دعا كى _يرثني ...واجعله ربّ رضيّا

۱۰_حضرت زكريا(ع) نے الله تعالى سے ايسا فرزند مانگا كہ جوہر لحاظ سے تيرى رضايت كا سبب ہو_واجعله ربّ رضيا

لفظ ''رضياً' ' صفت مشبہ ہے جو مصدر ''رضا'' سے مشتق ہے ''رضي'' اس وقت استعمال ہوتاہے كہ جب صفت، موصوف ميں راسخ ہوچكى ہو لہذاكہا جاسكتاہے ''رضى '' يعنى وہ شخص جوہر حوالے سے مورد رضايت ہو_

۱۱_فرزند كے نيك ہونے كيلئے دعا كا ضرورى ہونا اگر

۵۹۳

چہ ابھى نطفہ منعقد نہ ہواہو _واجعله ربّ رضيا

۱۲_حضرت زكريا، فرزند مانگنے كى دعاكے وقت اس دعا كى قبوليت پر مطمئن تھے _

فهب لى من لدنك ولياً _ يرثنى ويرث ...واجعله ربّ رضيا

حضرت زكريا(ع) ،اگرچہ دعا مانگنے كى حالت ميں ہيں ليكن اسطرح بات كررہے ہيں كہ گوياانكى دعا قبول ہو چكى ہو اورجملہ '' واجعلہ ربّ رضياً'' كامطلب يہ ہے كہ اے الله تو جو مجھے فرزند عطاكرے گاوہ ہرلحاظ سے مورد رضايت بھى ہو _

۱۳_حضرت زكريا، الله تعالى كى بارگاہ ميں دعاكے ذريعہ اپنے بچے كيلئے اپنى اور خاندان يعقوب نبى (ع) كى ميراث سے صحيح مصرف كے حوالے سے مكمل توفيق كے طالب ہيں _يرثنى ويرث من ء ال يعقوب واجعله ربّ رضيا

۱۴_صالح اور شائستہ فرزند،بہت بڑى نعمت اور قيمتى گوہر ہے_يرثنى ...واجعله ربّ رضيا

۱۵_بچوں كاصالح اور شائستہ ہونا، الله تعالى كے ہاتھ ميں ہے اور يہ اسكى ربوبيت كى شان ميں سے ہے_

يرثنى و اجعلى رب رضيا

۱۶_ الہى لوگ، اپنے مادى مقاصد ميں بھى معنوى عظمتوں كى طرف متوجہ ہوتے ہيں _

فهب لى من لدنك ولياَ يرثنى واجعله رب رضيّا

۱۷_ ( ربّ) كے مقدس نام كے ساتھ توسل، دعا كے آداب ميں سے ہے _واجعله ربّ رضيا

۱۸_عن أبى عبدالله (ع) قال رسول الله (ص) ميراث الله _ عزّوجل _ من عبده المؤمن من ولد يعبد ه من بعده ثم تلا أبو عبدالله (ع) آية زكريا(ع) ( ربّ) هب لى من لدنك ولياً_ يرثنى و يرث من آل يعقوب واجعله رب رضيا (۱) امام صادق (ع) سے روايت ہوئي ہے كہ رسول خدا (ص) نے فرما يا : الله تعالى كى اپنے مؤمن بندہ سے ميراث، ايسا فرزند ہے كہ جو اس مؤمن كى وفات كے بعد الله تعالى كى عبادت كرے پھر امام صادق (ع) نے حضرت زكريا كى آيت تلاوت فرماتىرب هب لى من لدنك وليا يرثنى ويرث من آل يعقو ب واجعله رب رضيّا

آل يعقوب :۳;۴

ارث :ارث كى تاريخ ۵//الله تعالى :الله تعالى كى ربوبيت كے آثار ۱۵; الله تعالى كے افعال ۱۵

____________________

۱) كافى ج۶ص۳ح۱۲، نورالثقلين ج۳ ص۳۲۳ح۲۵

۵۹۴

توسل :الله تعالى كى ربوبيت كے ساتھ توسل ۱۷

خصوصى مالكيت :۶

دعا :دعا كے آداب

روايت : ۱۸

زكريا :زكريا كا اطمينان ۱۲; زكريا كا قصہ ۱،۲،۸،۹،۱۲ ،۱۳ ; زكريا كا نسب ۴;زكريا كا يادگارى كى حفاظت كيلئے اہتمام ۷;زكريا كى آرزو۱ ; زكريا كى پريشانى ۲; زكريا كى دعا ۸،۹،-۱۰، ۱۲ ; زكريا كى دعا كى قبوليت ۱۲;زكريا كى زوجہ كا نسب ۳;زكريا كى مالكيت ۶;زكريا كے خونى احساسات ۷; زكريا كے زمانہ ميں ارث ۵

فرزند :فرزند صالح كى اہميت ۱۸; فرزند صالح كيلئے درخواست ۱۰; فرزند كى اصلاح كا سرچشمہ ۱۵ ; فرزندكى توفيق كيلئے دعا ۱۳; فرزند كيلئے در خواست ۱۲;فرزند كيلئے دعا ۹; فرزند كيلئے دعا كى اہميت ۱۱

موحدين :موحدين كا معنويات كے حوالے سے اہتمام ۱۶; موحدين كى حاجات ۱۶;

ميراث :بہترين ميراث ۱۸

نعمت :نعمت كے درجات ۱۴; نعمت كے صالح وارث ۱۴

وارث :برے وارث كى حوالے سے پريشانى ۲; صالح وارث كى اہميت ۱; صالح وارث كى قدرو قيمت ۱۴

يحيى :يحيى كى مالكيت ۶

آیت ۷

( يَا زَكَرِيَّا إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلَامٍ اسْمُهُ يَحْيَى لَمْ نَجْعَل لَّهُ مِن قَبْلُ سَمِيّاً )

زكريا ہم تم كو ايك فرزند كى بشارت ديتے ہيں جس كا نام يحيى ہے اور ہم نے اس سے پہلے ان كا ہمنام كوئي نہيں بنايا ہے (۷)

۱_ حضرت زكريا (ع) كى صالح وارث كى خواہش كے حوالے سے دعا مستجاب ہوگئي _يا زكريا انا نبشرك بغلام

۲_ الله تعالى نے زكريا (ع) كو بشارت دى كہ ا نہيں ايك بيٹ عطا كرے گا _يا زكريا إنا نبشرك بغلام

۳_ حضرت زكريا(ع) ، نبوت اور القائے وحى كے مقام پر فائز تھے _يا زكريا إنا نبشرك بغلام

۵۹۵

اس آيت كا ظاہر يہ ہے كہ زكريا (ع) نے بذا ت خود اس الہى پيغا م كو وصول كيا نہ يہ كہ الہى پيغا م كو كسى اور نبى (ص) نے وصول كركے زكريا تك پہنچايا ہو_

۴_يحيى (ع) ايسا نام ہے جو الله تعالى كى طرف سے زكريا كے فرزند كيلئے معين ہوا _اسمعه يحيى لم نجعل له من قبل سميّا

۵_ نام اور نام ركھنے والے كى اہميت او راسكا بچے كى شخصيت ميں اثر _اسمه يحيى لم نجعل له من قبل سميّا

( اسمہ يحيى ) كى تعبير اس حوالے سے مورد وضاحت قرار پائي كہ اسكى تعيين الله تعالى كى طرف سے بدات خود ايك عظيم شرف اور قابل غور ہے_

۶_ حضرت زكريا (ع) كے زمانے سے قبل'' يحيي(ع) '' نام لوگوں كے در ميان نہيں تھا_اسمه يحيى لم نجعل له من قبل سميّا

( سميّ ) يعنى ہم نام ( تاج العروس ) اور جملہ ( لم نجعل )سے مراد يہ ہے كہ زكريا (ع) كے فرزند سے پہلے كسى كا يحيى نام نہيں ركھا گيا تھا _

۷_ يحيي(ع) كى معنوى شخصيت بے مثل تھى اوران سے پہلے كوئي اس مقام تك نہيں پہنچا تھا _لم نجعل له من قبل سميّ

( سمى ) كے ذكر شدہ معنى ميں سے ، نظير اور مثل بھى ہے ( مفردات راغب ) تو اس صورت ميں مراد يہ ہے كہ ماضى ميں كوئي بھى يحيى جيسى خصوصيات نہيں ركھتا تھا _

۸_ حضرت يحيى (ع) ،جناب زكريا (ع) اور خاندان يعقوب (ع) كے وارث تھے _

ير ثنى ويرث من ء ال يعقوب يا زكريا إنّا نبشرك بغلم اسمه يحىي

۹_ حضرت يحيى (ع) ايك الہى شخصيت اور الله تعالى كى خاص عنايت كے حامل تھے _لم نجعل له من قبل سميّا

۱۰_بوڑھے والد اور بانجھ والدہ كو فرزند عطا كرنے ميں الہى قدرت كا جلوہ _و كانت إمراتى عاقرا َ يا زكريا إنا نبشرك بغلام

۱۱_ تمام انسانوں كے ناموں كو الله تعالى معين فرماتا ہے_لم نجعل له من قبل سميّا

جملہ( لم نجعل ...) سے يہ مراد يہ نہيں ہے كہ وہ نام جنہيں الله تعالى نے بلا واسطہ معين كيا ان ميں ''يحيي'' نام نہيں تھا بلكہ مراد يہ ہے كہ اس زمانہ ميں يہ نام نہيں تھا _ تو اس كى فعل ( لم

۵۹۶

نجعل ) ميں الله تعالى كى طرف نسبت يہ بتا رہى ہے كہ باقى نا م بھى الله تعالى كے بنائے ہوئے ہيں اگرچہ اس ربط كوہر ايك نہيں جانتا _

۱۲_عن أبى جعفر (ع) قال : إنما ولد يحيى بعد البشارة له من الله بخمس سنين (۱) امام باقر (ع) سے روايت ہوئي كہ يقينا حضرت زكريا (ع) كو بشارت دينے كے پانچ سا ل بعد يحيى (ع) پيدا ہوئے_

آل يعقوب :آل يعقوب كے وارث ۸

الله تعالى :الله تعالى كى بشارتيں ۲; الله تعالى كى قدرت كى علامات ۱۰

بچہ :بچہ كى نفسيات ۵

بڑھايا :بڑھاپے ہے ميں بچے والاہونا ۱۰

روايت : ۱۲

زكريا :زكريا كا بيٹا ۲; زكريا كا فرزندوالا ہونا ۲; زكريا كا وارث ۸;زكريا كو بشارت ۲;ذكر يا كى دعا كى قبوليت ۱; زكريا كى نبوت ۳; ذكريا كے بيٹے كا نام ركھاجانا ۴;زكريا كے درجات ۳

شخصيت:شخصيت كى تشكيل ميں اسباب ۵

نام :نام كى اہميت ۵; زكريا كے زما نہ ميں يحيى ۶; يحيى نام كى تحليق۶

نام ركھاجانا :نام ركھے جانے كا سرچشمہ ۱۱

ورثا :صالح ورثاء كى درخواست ۱

يحيى (ع) :يحيى (ع) كى تا ريخ ولادت ۱۲; يحيى (ع) كى شخصيت ۹; يحيى (ع) كى معنوى شخصيت ۷;يحيي(ع) كى وراثت ۸; يحيى (ع) كے درجات ۹; يحيى (ع) نام ركھے جانے كا سرچشمہ ۴

____________________

۱) مجمع البيان ج۶ص۷۸۰، بحارالانوارج۱۴ ص۱۷۶

۵۹۷

آیت ۸

( قَالَ رَبِّ أَنَّى يَكُونُ لِي غُلَامٌ وَكَانَتِ امْرَأَتِي عَاقِراً وَقَدْ بَلَغْتُ مِنَ الْكِبَرِ عِتِيّاً )

زكريا نے عرض كى پروردگار ميرے فرزند كس طرح ہوگا جب كہ ميرى بيوى بانجھ ہے اور ميں بھى بڑھاپے كى آخرى حد كو پہنچ گيا ہوں (۸)

۱_ حضرت زكريا (ع) كو انتہائي بڑھاپے اور اہليہ كے بانجھ ہونے كى حالت ميں بيٹے كى خوشخبرى ملنا، ان كے ليے حيرت انگيز نويد ثابت ہوئي _أنى يكون لى غلم و كانت امرا تى عاقراًوقد بلغت من الكبر عتيّا

( ا نيّ ) يعنى كيسے اور كس طرح سے ( مصباح ) (عتيا) يہ '' عات'' كى جمع ہے اور مادہ ( عتو) سے مشتق ہے _يعني( حد سے گزرنا) جملہ ( قد بلغت ...) كا مطلب يہ ہے كہ ميں بڑھاپے ميں ان لوگوں كى مانند ہوگيا ہوں جوبڑھاپے ميں انتہا تك پہنچ گئے ہيں بعض اہل لغت نے ( عتيّاَ) كو مصد ر ليا ہے كہ جسكا مطلب ہڈيوں اور جو ڑوں كا خشك ہوجانا ہے ( الكشاف) اس صورت ميں جملہ يہ ہے كہ بڑھاپے كى وجہ سے ميرے بدن كے اعضاء خشك ہوچكے ہيں _

۲_ حضرت زكريا (ع) جاننا چاہتے تھے كہ وہ طبيعى شرائط كے ناسازگار ہونے كے با وجود كيسے صاحب فرزند ہونگے _

أنى يكون لى غلم و قد بلغت من الكبرعتيّا

(أنى ّيكون لى غلا م )كى تعبير بيان كررہى ہے كہ حضرت زكريا يہ جاننے كے مشتاق تھے كہ كس طرح يہ الہى وعدہ محقق ہوگا نہ كہ وہ اس معاملے ميں قدرت پروردگا ر پر شك كررہے تھے كيونكہ انہوں نے موجودہ موانع كا ملاحظہ كرتے ہوئے درخواست كى تھى _

۳_ حضرت زكريا، فرزندكى عنايت كو اپنے حق ميں الله تعالى كى ربوبيت كا جلوہ سمجھتے تھے _قال رب أنى يكون لى غلام

۴_ انبياء كا دانش وعلم محدود ہے _قال رب أنى يكون لى غلام

۵_ الہى افعال كے بارے ميں سوال اور اس پر تعجب ، الله تعالى كے برگزيدہ بندوں كے بلند مقامات كے منافى نہيں ہے _قال رب أنى يكون لى غلام

۶_ اوليا ء اللہ، اپنى حاجات كى قبوليت كيلئے ہميشہ معجزہ اور خارق العادہ چيزوں كے منتظر نہيں ہيں _

قال رب أنى يكون لى غلام

۵۹۸

حضرت زكريا(ع) ، اگر چہ الله تعالى كى قدرت مطلقہ پر ايمان ركھتے تھے _ ليكن انہيں اپنى دعا كى قبوليت كى قابل قبول وجہ سمجھ ميں نہيں رہى تھى اسى ليے انہوں نے اپنى حيرت كا جملہ (أنى يكون لى غلم )كہہ كر اظہار كيا _ اس سے معلوم ہوتا ہے كہ وہ ايسى توجيہ تلاش كررہے تھے كہ جو عادى اسباب اور علل كے ساتھ سازگار ہو _ ورنہ وہ ہر چيز كو الله تعالى كى قدرت كے ساتھ ممكن سمجھتے تھے_

۷_ حضرت زكريا(ع) كوجس وقت يحيى كى ولادت كى خوشخبرى ملى تو اس زمانہ ميں انكى اہليہ بوڑھى ہو چكى تھيں اور وہ شروع ميں بانجھ تھيں _وكانت إمراء تى عاقرا

بانجھ پن كے قديمى ہونے كے بيان كے ساتھ آيت ميں فعل''كانت'' اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ حمل كا زمانہ گذر چكا تھا_

۸_ حضرت زكريا، جناب يحيى كى ولادت كى خوشخبرى كے زمانہ ميں انتہائي بوڑھے اور انكى جنسى اور شہوانى قوت بھى ختم ہونے والى تھى _وقد بلغت من الكبر عتاي

۹_ حضرت زكريا(ع) ، الله تعالى كے ساتھ گفتگو كرتے وقت انتہائي مودبانہ انداز سے گفتگو كرتے تھے _

قد بلغت من الكبر عتي جملہ ( قد بلغت) جنسى طاقت نہ ركھنے سے كنايہ ہے _

۱۰_ الله تعالى كے ساتھ گفتگو ميں ادب كى رعايت ضرورى ہے _وقد بلغت من الكبر عتيا

۱۱_ حضرت زكريا(ع) ، اپنى اور اپنى اہليہ كى جوانى كے زمانہ ميں بچوں سے محروميت كى وجہ اپنى اہليہ كا بانجھ ہونا، سمجھتے تھے _وكانت إمراتى عاقراً و قد بلغت من الكبر عتيا

حضرت زكريا ،كى اہليہ كے ساتھ بانجھ ہونے كى صفت كا خصوصى ذكر مندرجہ بالا مطلب كوواضح كررہا ہے _

الله تعالى :الله تعالى كے ساتھ گفتگو كے آداب ۹;۱۰; الله تعالى كے افعال پر تعجب ۵; الله تعالى كے افعال كے بارے ميں سوال كرنا ۵; الله تعالى كى ربوبيت كى علامات ۳

انسان:انسان كى خلقت كے مراحل ۸

باپ :باپ كے تزكيہ كے آثار ۸

بشارت:

۵۹۹

يحيى كى ولادت كى بشارت ۲

جنسى غريزہ:جنسى غريزہ كى تقويت كيلئے پيش خيمہ ۱۲

حقائق :حقائق بيان كرنے كے اسباب ۱۱

دعا :دعا كے آداب ۴

ذكر :الله تعالى كى ربوبيت كا ذكر ۴

روزہ :آسمانى اديان ميں چپ كا روزہ ۱۰

زكريا كا قصہ ۱;۵;۶;۷زكريا كا قصہ ۱،۵،۶; زكريا كا گفتگو سے عاجزہونا ۵،۶;زكريا كوبشارت ۵;زكريا كى الله تعالى سے گفتگو ۹;زكريا كى اہليہ كا حاملہ ہونا ۱; زكريا كى خواہشات ۱،۲; زكريا كى دعا ۴; زكريا كى عبادات ۶;زكريا كے قصہ كى صفات ۱۴; زكريا كے قصہ ميں معجزہ ۱۴;زكريا كے گفتگو سے عاجزى پر تعجب ۷

طبيعى اسباب :طبيعى اسباب كا كردار ۱۳

فكر :فكر كے ارتكا زكا پيش خيمہ ۱۲

گوشہ نشينى :گوشہ نشينى كے آثار ۱۲

معجزہ :معجزہ كا كردار ۱۱;۱۴

نبوت :مقام نبوت اور الہى آيات ۳

نطفہ :نطفہ كے انعقاد كى اہميت ۸

يحيى :يحيى كى ولادت ميں الہى آيات ۵

آیت ۹

( قَالَ كَذَلِكَ قَالَ رَبُّكَ هُوَ عَلَيَّ هَيِّنٌ وَقَدْ خَلَقْتُكَ مِن قَبْلُ وَلَمْ تَكُ شَيْئاً )

ارشاد ہوا اسى طرح تمھارے پروردگار كا فرمان ہے كہ يہ بات ميرے لئے بہت آسان ہے اور ميں نے اس سے پہلے خود تمھيں بھى پيدا كيا ہے جب كہ تم كچھ نہيں تھے (۹)

۱_ خداوند عالم نے حضرت زكريا (ع) كے بڑھاپے اور ان كي زوجہ كے بانجھ پن كے باوجود حضرت يحيي(ع) كى ولادت كے بارے ميں مطمئن كيا _قال كذلك

۶۰۰

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809

810

811

812

813

814

815

816

817

818

819

820

821

822

823

824

825

826

827

828

829

830

831

832

833

834

835

836

837

838

839

840

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863

864

865

866

867

868

869

870

871

872

873

874

875

876

877

878

879

880

881

882

883

884

885

886

887

888

889

890

891

892

893

894

895

896

897

898

899

900

901

902

903

904

905

906

907

908

909

910

911

912

913

914

915

916

917

918

919

920

921

922

923

924

925

926

927

928

929

930

931

932

933

934

935

936

937

938

939

940

941

942

943

944

945