تفسير راہنما جلد ۱۰

تفسير راہنما 6%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 945

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 945 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 247284 / ڈاؤنلوڈ: 3404
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱۰

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

ب۔ صبر کے درجات:

بعض علماء اخلاق اور اہل معرفت نا گوار امور پر صبر کرنے ( صبر خاص )کے لئے تین درجوں کے قائل ہوئے ہیں۔

١۔ تائبین کا صبر: اوراس سے مراد ہے شکوہ کا ترک کرنا، بے تابی اور بے قراری کا ثبوت نہ دینا، اور غیر فطری اور پریشان کن رفتارنہ رکھنا۔

٢۔ زاہدین کا صبر: یعنی اول درجہ کے علاوہ جوسختیاں، درد والم انسان کے لئے مقدر ہوئی ہیں ان پر قلبی طور سے راضی ہونا۔

٣۔ صدیقین کا صبر: یعنی پہلے دودرجہ کے علاوہ نسبت اس چیز سے جو خدا وند عالم نے اس کے لئے معین کر رکھا ہے، عشق کرنا اور اسے دوست رکھنا ۔(١)

ج۔ صبر کی اہمیت:

کلمہ ''صبر ''مختلف صورتوں میں سو بار سے زیادہ قرآن کریم میں استعمال ہوا ہے کہ جس سے خود ہی اس موضوع کی اہمیت معلوم ہوتی ہے۔ قرآن کریم بعض بنی اسرائیل کی ہدایت وپیشوائی کے منصب تک پہونچنے کی علت کے بیان میںفرماتا ہے: ''اور جب انہوں نے صبر کیا اس حال میں میری آیتوں پر یقین رکھتے تھے تو ہم نے ان میں سے بعض کو پیشوا قرار دیا کہ وہ ہمارے حکم سے (لوگوں کی) ہدایت کرتے تھے''۔(٢) اور آخرت میں صابروں کی کیفیت جزا کے بارے میں ایک جگہ پر ان کے عمل سے بہتر جزا کا وعدہ دیتا ہے: ''یقینا ً جن لوگوں نے صبر کیا تو جو انہوں نے عمل کیا ہے ہم انھیں اس سے بہتر جزا دیں گے''۔ ٣)

دوسری آیت میں صابروں کی مقدار جزا کی تعیین کے بارے میں ارشاد ہو تا ہے: ''وہ لوگ کہ جنہوں نے صبر کیا اور نیکیوں سے برائی کو دور کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انھیںروزی دی ہے اس میں سے انفاق کرتے ہیں اس لئے وہ لوگ دہر ی جزا پائیں گے''۔(٤)

____________________

١۔ نراقی، جامع السعادات، ج٣ ، ص ٢٨٤۔

٢۔ سجدہ ٢٤۔

٣۔ نمل ٩٦۔

٤۔ قصص ٥٤۔

۱۶۱

دوسری جگہ پر اعلان کرتا ہے کہ صابروں کا اجر اور ان کی جزابے حد اور ناقابل شمار ہے اور وہ لوگ بے حساب جزا پائیں گے: ''بے شک صابرین اپنی جزا بے حساب پوری پوری پائیں گے''۔(١) اسی طرح خداوند عالم نے صابروں کو ہمراہی کا وعدہ دیا ہے: '' صبر کروکیونکہ خدا صابروں کے ساتھ ہے ''۔(٢ ) وہ نصرت اور کامیابی کو صرف اور صر ف صبر و شکیبائی کے سایہ ممکن جانتا ہے''۔(٣) ہدایت، درود اور رحمت پروردگار کو صابروں کے حق میں قرار دیتا ہے۔(٤) صابروں کو اپنے دوستوں اور محبوبوںکے زمرہ میں بیان کرتا ہے۔(٥) بارہا اور بارہا اپنے رسولوںاور تمام انسانوں کو صبر کی تاکید کرتا ہے۔(٦) اپنے خاص بندوں کے بارے میں نقل کرتا ہے کہ وہ لوگ ہمیشہ خداوند سبحان سے صبر و شکیبائی کی توفیق کی درخواست کرتے رہے ہیں۔(٧) اس کے علاوہ مزید اور دسیوںمورد ہیں جو اسلام کے اخلاقی نظام میںصبر کی اہمیت بیان کرتے ہیں۔ حضرت امام جعفر صادق ـ بھی فرماتے ہیں: ''صبر ایمان کے لئے وہی حیثیت رکھتا ہے جو جسم کے لئے سر کی حیثیت ہے، جس طرح سر کے نہ ہونے سے جسم کا خاتمہ ہوجاتاہے اسی طرح اگر صبر نہ ہوتوایمان بھی جاتارہے گا ''۔(٨) حضرت امام محمد باقر ـ سے صبر کی اہمیت کے بارے میں نقل ہوا ہے : '' جنت نا گواریوں سے گھری ہوئی ہے لہٰذا جو بھی دنیا میں نا گوارچیزوں پر صبر کرے وہ بہشت میں جائے گا۔ اور دوزخ نفسانی خواہشات اور لذّات میں گھری ہوئی ہے، لہٰذا جو بھی نفسانی خواہشات ولذات کی تکمیل کرے گا، وہ جہنم میںجائے گا ''۔(٩)

____________________

١۔ زمر ١٠۔

٢۔ انفعال ٤٦۔

٣۔ آل عمران ١٢٥۔

٤۔ بقرہ ١٥٧۔

٥۔ آل عمران ١٤٦۔

٦۔ احقاف ٣٥۔

٧۔ بقرہ ٢٥٠ ؛ اعراف ١٢٦۔

٨۔ کلینی، کافی ج ٢، ص٨٩، ح ٥۔

٩۔ ایضاً، ح٧۔

۱۶۲

د۔ صبر کے فوائد:

صبر کے بہت سے دینی و دنیوی فوائد شمار کئے جاسکتے ہیں، منجملہ ان کے حضرت علی ـ بعض گذشتہ امتوں کی عزت وذلت کے بارے میں اپنے ایک خطبہ میں فرماتے ہیں: ''جب خدا نے دیکھا کہ وہ کس طرح اس سے دوستی کی راہ میں اذیت و آزار پر صابر ہیں اور اس کے خوف سے نا گواریوں پر صبر و تحمل کرتے ہیں تو اس نے انھیں گرداب بلا سے نکال کر گشائش عطا کی، اور ذلت و خواری کے بعد انھیں با آبرو بنایا اور سکون و اطمینان کو خوف کا جا گزیں بنادیا۔ پھر وہ حکمراں بادشاہ اور باعظمت و شان پیشوا ہوگئے اور خدا کی کرامت ان کے حق میں یہاںتک پہنچ گئی کہ دیدۂ آرزو ان کے آخری درجہ کہ وہ اس جگہ پہونچا ان کی نگاہ اور اس کی انتہا کو نہ دیکھ سکی''۔(١)

بعض علماء اخلاق نے صبر کو مقدّرات الٰہی پر راضی رہنے کے مقام رضایت تک پہونچنے کا دروازہ قراردیا ہے، اور مقام رضا کو محبت پروردگار کی وادی تک پہونچنے کا دروازہ جانا ہے۔(٢) اس لحاظ سے صبر کے اہم فوائد میں سے اسی دنیا میں مقام '' رضا '' و'' محبت '' تک رسائی کا نام لیا جا سکتا ہے۔

''صبر '' کے لئے دیگر متعدد موضوعات بھی قابل ذکر ہیں، جیسے صبر و شکر میں مناسبتیں، صبر کے حصول کی راہیں اور اس کے مانند دوسرے موضوعات کہ اختصار کے پیش نظر ان کا ذکر نہیں کیا جارہا ہے۔

____________________

١۔ نہج البلاغہ، خطبہ ١٩٢۔

٢۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ٣، ص ٢٨٣۔

۱۶۳

تیسرا باب :

اسلام کی نظر میں اخلا قی تر بیت

پہلی فصل :

اسلام میں اخلا قی تر بیت کے طر یقے

مقدمہ:

اخلاق اسلامی کے اصول اور مفاہیم سے آشنائی کے بعد یہ بات مناسب ہے کہ اپنے آپ سے سوال کریں '' نا مطلوب موجود '' کی حالت کو کس طرح '' ناموجود مطلوب '' سے تبدیل کیا جا سکتا ہے ؟ واضح عبارت میں اخلاقی تربیت کے طریقے کیا ہیں ؟

تربیتی طریقے، کبھی خود تربیتی اپنے ( لئے تربیتی) ہیں تو دیگر تربیتی کبھی دوسرے کے( لئے تربیتی) ہیں، کبھی قولی ہیں تو کبھی عملی، کبھی سلبی ( روکنے والے ) ہیں اور کبھی ایجابی (اصلاحی )، کبھی عام( یعنی تمام سن کے مراحل کے لئے ) ہیں اور کبھی خاص۔ رفتار کے مبادی(١) کے پیش نظر ان اخلاقی تربیت کی روشوں کو جو رفتار یا اس کے مبادی یعنی ابتدائی مرحلوں سے تعلق رکھتی ہیں، تین چیزوں: شناخت، سبب اور رفتار کے اعتبار سے مورد توجہ قرار دیں گے اور تفصیل سے آئندہ مباحث کے ضمن میں ان کے بارے میں گفتگو کریں گے۔ چونکہ علوم تربیتی کی اصطلاحا ت (منجملہ اصول، روشیں، اہداف و مقاصد وغیرہ وغیرہ ) کی دقیق تعریف محل اختلا ف ہے اور ان کے سلسلہ میں مختلف نظریات پائے جاتے ہیں لہٰذا یہاںپر اس کتاب میں مورد نظر تعریف کی طرف اشارہ کریں گے۔ ''روش'' (طریقہ) سے مراد وہ کلی قوانین ہیں کہ ہر ایک جدا گانہ طور پر یا دوسری روشوں کی مدد سے مقصد تک پہنچانے کی خصوصیت کی حامل ہیں۔ ہر روش کے تحقق کیلئے ممکن ہے کہ ہر ایک کے لئے مختلف اسلوب اور متعدد فنون پائے جاتے ہوں جو روشوں کی نسبت جزئی تر قوانین کا مقصود ہیں۔

____________________

١۔گذشتہ علماء کے نظریات کے مطابق مبادی رفتار اس طرح ہیں: فائدہ کا تصوّر، اس کی تصدیق، شوق موکد۔ معاصر ماہرین نفسیات نے اس سے مشابہ ایک دوسری ترکیب پیش کی ہے ؛ وہ اس طرح ہے: شناخت، باعث اور عملی توانائی۔

۱۶۴

روشوں کے بیان میں ایک عقلی ترتیب پائی جاتی ہے کہ آسان تر دیگر تربیتی روشوں سے شروع ہوتی ہے اور مشکل تر خود تربیتی روشوں پر ختم ہوتی ہے۔ یہ عقلی ترتیب انسان کے اخلاقی اور نفسیاتی رشد سے بھی منطبق ہے اور اسلام کی تربیتی تعلیمات سے بھی ہم آہنگ ہے۔

ہر روش کو اس کی تعریف اور توضیح سے شروع ہے اور بعد کے مرحلہ میں آیات وروایات سے استفادہ کرتے ہوئے اس کا استناد اسلام سے ثابت کیا گیاہے پھراس کے بعد ( یا اس کے ضمن میں ) نفسیات کے علمی مطالعہ سے استفادہ کرتے ہوئے روش کی توضیح وتکمیل کی گئی ہے، یعنی نفسیات میں کون سے نظری اصول ومبانی کے ذریعہ اس روش کا دفاع کرسکتے ہیں اور اخلاقی تربیت میں اس کی تاثیر ثابت کی جاسکتی ہے، یہاں پر نفسیات کے اہم ترین نظریوں کے متعلق جو کہ تربیت اخلاقی سے مربوط ہیں بحث کی جارہی ہے۔

طریقے

١۔ تربیت کے لئے مناسب ماحول بنانا

انسان کی تکوین اور تغییر کا اہم ترین عامل مختلف ما حول کے حالات ہیں خواہ وہ زمانی یا مکانی یا اجتماعی ماحول ہو۔ بہت سے مقامات میں ماحول کی ترمیم واصلاح سے تربیت کے لئے مساعد اورسازگار ماحول فراہم کرکے جس کی تربیت کی جاتی ہے اس کی عادتوں، خصلتوں، افکار اور رفتار کو بدلا جا سکتا ہے اور جدیدخصوصیات کو اس کا جاگزین بنایا جا سکتا ہے، اس روش کی نفسیاتی بنیاد اس ماحول کے حالات سے انسان کے متاثر ہونے کی اصل ہے جو ماحول سازی ( بعض رفتار کی ہمراہی اور ہمنوائی بعض دیگر کے ساتھ ان کے ثابت کرنے کا باعث ہوتی ہے)، فعّال وکردار ساز ماحول سازی ( ایک ماحول میں خاص طرز عمل ورفتار پر جزا دی جاتی ہے ) یا اجتماعی تعلّم وتربیت ( رفتارکے مشاہدہ سے خاص نمونوں کی پیروی) کے نظریات کے بیان ہوتی ہے ضمن میں یہ روش خاص طور سے دوسروں کے ذریعہ اور انسان کے اولیاء کے ذریعہ بروئے کار لائی جاتی ہے، لیکن انسان خود بھی کسی حد تک موثر ہوسکتا ہے، اس روش کو وجود میں لانے کے جو طریقے لازم ہیں وہ ترتیب وار یہ ہیں:

۱۶۵

مقدمہ سازی، نمونہ سازی، ماحول کو صحیح و سالم بنانا اور حیثیت اور ماحول کو بدلنا۔

الف۔ مقدمہ سازی:

اس سے مراد یہ ہے کہ مناسب ماحول فراہم کرکے اخلاقی فضائل کے وجود میں آنے کا امکان اعلی حد تک فراہم کریں اور اس کے برعکس ایسے مقدّمات جو کہ منفی رخ رکھتے ہیں اور اخلاقی رذائل پیدا کرسکتے ہیں، ان کے وجود ہیں آنے کی روک تھام کریں، اس حصہ میں اسلام کی ہدایات قابل توجہ ہیں۔

ایک۔زوج یا زوجہ کے انتخاب میں کہ جو خاندان کا ایک رکن ہے، اس کے اخلاقی فضائل پر توجہ دینی چاہیے، انظر فی ای شی تضع ولدک فان العرق دساس(١) اس کے مقابل ایسے افراد جو غیر شائستہ گھرانے کے پروردہ ہیں، یاکم عقل اور احمق ہیں تو ایسے لوگوں سے شادی بیاہ کرنے سے اجتناب کرناچاہیے۔

حضرت امیرا لمومنین علی ـنے جومالک اشتر کو خط لکھا ہے اس میں اس کا رساز عنصر کی اس طرح تصریح فرمائی: ''ضروری ہے کہ اداری امور میں با فضیلت افراد سے استفادہ کرو ، وہی لوگ کہ جو نیک اور شریف خاندان سے ہوں اور اچھے ماضی اور نیک نامی کے ساتھ زندگی گذارچکے ہوں، جو لوگ عقل و ہوش، شجاعت و بہادری کے مالک، سخی اور بلند ہمت ہیں، وہ کرم کامرکز اور نیکی و فضیلت کا سرچشمہ ہیں''۔(٢)

لہٰذا ایسی اولاد جو شائستہ ماں اور با فضیلت باپ کی حمایت کے زیر سایہ پروان چڑھے ہیں اہم ترین مقدّمہ ساز عنصر ما حول اور تربیت کے لحاظ سے ان کا مددگار ہے۔(٣)

دو۔ اچھے نام کا انتخاب اولاد کا والدین پر جوحق ہے اور اس کی تاکید کی گئی ہے یہ ہے کہ۔''ہر انسان کی سب سے پہلے نیکی اس کے فرزند کے حق میںاس کا اچھا نام رکھنا ہے لہٰذا تم میں سے ہر ایک کو چا ہیے کہ اپنے فرزندوں کا اچھا نام رکھو''۔ ( اول ما یبر الرجل ولدہ ان یسمیہ باسم حسن فلیحسن احدکم اسم ولدہ)۔(٤)

نیک اور شائستہ نام تربیتی اور نفسیاتی اثر رکھتا ہے اور انسان کی صلاح و فلاح نیز خوبیوں کو فراہم کرنے کا مقدّمہ ہے یا پھر اسے فرو مائگی اور پستی کی سمت لے جاتا ہے۔ ( الاسم یدل علی المسمی ) ۔

____________________

١۔ فلسفی، کودک، ج ١، ص ٦٤۔ حسن الاخلاق، برہان کرم الاعراق، افراد کی اخلاقی خصلتیں خاندان کی پاکیزگی اور فضیلت کی دلیل ہیں، غرر الحکم۔٢۔ نہج البلاغہ، نا مہ ٥٣۔ ٣۔ جنٹک کے علاوہ کہ جن کا ذکر فی الحال مقصود نہیں ہے۔٤۔ وسائل الشیعہ: ج ١٥، ص ١٢٢۔

۱۶۶

٣۔ محل زندگی کا انتخاب (ملک، شہر یا دیہات، محلہ اور پڑوسی کا انتخاب) بھی مقدّمہ ساز عنا صر میں ہے۔ اسی طرح محل تحصیل، کام کاج، احباب اور معاونین سب ہی ( تربیت کی ) راہ ہموار کر نے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔(١)

ب۔ نمو نہ سازی :

کہا جا سکتا ہے کہ ہر ماحول کو بنا نے والے اس سماج اور ماحول برگزیدہ اور سر بر آور دہ افراد ہی ہوتے ہیں۔ لہٰذ ایک اچھے تر بیتی ماحول کی ایجاد کا ایک طریقہ اس ماحول میں اچھے نمونوں کو وجود میں لانا ہے اور برے نمونوں دور کر نا ہے۔ سماج میں پسندیدہ اور محبوب نمونہ خود بخود اس ماحول میں رہنے والوں کو ان کی طرف کھینچ لا تاہے اور ان کے مکارم اخلاق کو دوسرے لوگ نمونہ بنالیتے ہیں۔

آلبرٹ بنڈورا (١٩٧٨) کہ جو اجتماعی تعلّم کے نظریہ کا واضع ہے۔ تعلّم (سیکھنے) کا سب سے اہم طریقہ مشاہداتی تعلّم کو جانتا ہے کہ وہی تقلید یا نمونہ کا اختیار کرنا ہے انسان ایک نمونہ یا سر مشق کا انتخاب کرکے اس کے عمل کی تقلید کرنے لگتا ہے۔ بنڈ ور ا اس طرح کے تعلّم کو چار مر حلہ میں تو ضیح دتیا ہے: مر حلہ توجہ، حا فظہ کے حوالے کرنا، دوبارہ تخلیق اور سبب ومحرّک۔ ممتا ز صفات، عطو فت ومہر بانی کا بار، پیچید گی، برجستگی اور استعمالی اہمیت نمونہ میں اور حسّی ظرفیت، ابھارنے کی سطح، درک کرنے کی آماد گی اور گزشتہ تقویت مشا ہدہ کر نے والے کے اندر نمونہ شخص کے عمل سے منطبق نتیجۂ عمل کی مدد کرتی ہے۔(٢)

زندہ نمونوں کے علا وہ جو کہ مساعد اورسازگار تر بتیی ماحول ایجاد کر تے ہیں مر بی حضرات ماضی کے اخلاقی اور انسانی نمونوں کی شناخت کر ا کے انھیں حیات نو عطا کر سکتے ہیں اور بنڈورا کے نظریہ میں مذ کو رہ خصو صیات پر نظر کر تے ہو ئے بار عاطفی، ممتاز حالت، بر جستگی وغیرہ کے اعتبار سے ان کے متعلق تا کید اور سر مایہ گذاری کرسکتے ہیں نمونوں کے دقیق موئثر اور محبوب چہرہ کی ترسیم تربیت پانے والوں کے لئے ان کے ذہن وروح میں حسب ضرورت نمونوں کے فقدان کے خلا کو پر کرسکتی ہے اور وہ تدریجاً ان کے مثل بن سکتے ہیں۔

____________________

١۔ ہمنشینوں اور دوستوں کی تاثیر کے بارے میں اس کے بعد بحث کریں گے۔

٢۔ روانشناسی پرورشی، ص ٣١٤۔

۱۶۷

قرآن کر یم میں اس شیوہ سے بہت زیادہ استفاد ہ کیا گیا ہے، بالخصوص اکثر قرآنی نمونے جو ان اور تا ثیر گذار ہیں۔ یوسف شہوت کے مقا بل قہرمان مقا ومت، کہف کے جوان راہ خدا میں رشد و ہد ایت کیلئے ہجرت کے نمونے، اسماعیل حکم خدا کے سا منے سر اپاتسلیم کی مثال اور ابر اہیم عادت شکن اور بت شکن جوان ہیں۔ قرآن کے جوان نمو نوں کے علا وہ دیگر نمونے بھی پائے جا تے ہیں کہ ان میں سے بعض درج ذیل ہیں:

دین کی تبلیغ میں نوح پا یداری اور استقامت کا نمو نہ، مصا ئب زمانہ اور شدائد روز گا رپر ایوب صبر وتحمل کا نمونہ، طاغوت سے جنگ ومبازرہ کرنے میں داؤد شجاعت اور شہامت کا نمو نہ وغیر ہ وغیرہ، قرآن ان تما م حضرات کی شان میں فرماتا ہے: ''...... وہ لوگ(خدا کے پیغمبر ) ایسے لوگ ہیں جن کی خدا نے ہدایت کی ہے لہٰذ ان کی ہدایت کا اقتدا کرو''۔(١)

بالآخرہ پیغمبر اکرم زندگی کے تمام مراحل میں تمام عالمین کے لئے مطلق نمونہ ہیں ، '' لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوة حسنہ''(٢) کیو نکہ آپ ''خلق عظیم '' کے ما لک، ''مکارم اخلا ق کا آئینہ '' اور '' رحمة للعالمین '' ہیں۔

ماں باپ اور ان کے بعد اساتذہ اور تربیت کرنے والے بھی تربیت سیکھنے والوںکے لئے پہلا نمونہ ہیں۔ تربیت کا اہم نکتہ یہ ہے کہ اہم موقعیت وحیثیت کے مالک، زیادہ کامیاب، زیادہ علم ودانش یا معنوی بلندی کے مالک اکثر دوسروں کی نظر کو اپنی طرف جلب کرتے ہیں اور ان کے لئے نمونہ بن جاتے ہیں۔

خوش قسمتی سے طالب علموں کی نظر میں عام طور پر اساتذہ اور والدین ان خصوصیات کے یا ان میں سے بعض کے مالک ہوتے ہیں۔ لیکن بہر صورت اس برتری اور برجستگی کا نہ ہونا معنوی، علمی اور اجتماعی شعبوں میں تربیت پانے والوں کوکسی اور سمت لے جاتا ہے۔

حضرت امیر المومنین علی ـ فرماتے ہیں:'' پیغمبر اکرم ہر روز میرے لئے اپنے مکارم اخلاق میں سے ایک کو بیان کرتے تھے اور مجھے اس کی پیروی کرنے کا حکم دیتے تھے ''۔(٣) حضرت امام موسیٰ کاظم ـ فرماتے ہیں: ''بچے اپنے والدین کی خوبیوںاور صلاحیتوں سے محفوظ ہوتے ہیں ''۔(٤)

____________________

١۔ اولئک الذین ھدی اللہ فبھد یھم اقتدہ، سورئہ انعام، آیت ٩٠۔ ٢۔ سورئہ احزاب، آیت، ٢١۔٣۔ یرفع لی کل یوم علما من اخلاقہ و یامرنی با لاقتداء بہ ؛نہج البلاغہ، خ ١٩٢۔

٤۔ یحفظ الاطفال بصلاح آبائھم، بحار الانوار ج ٥، ص ١٧٨۔

۱۶۸

نمونہ سازی کے طریقہ سے استفادہ کرنے کے سلسلہ میں قرآن کریم نے کم از کم دو اخلاقی اور تربیتی نکتوں کی طرف توجہ دلائی ہے ؛ اول یہ کہ اس نے محبوب اور پسندیدہ افراد کو کلی طور پر نیز عام عنوان سے بیان کیا ہے، جیسے: تائبین، متطہّرین،متّقین، صالحین، صابرین، محسنین اور مجاہدین وغیرہ اور کبھی خاص طور سے اور نا م کے ساتھ (پیغمبروں سے متعلق) بیان کیا ہے، لیکن قابل نفرت ومذمّت افراد کا ذکر قرآن میں استثنائی موارد (جیسے ابو لہب) کے علاوہ کلی عناوین کے تحت ہوا ہے، جیسے: تجاوز کرنے والے، اسراف کرنے والے، خود پسند افراد، کفار، ظالمین اور متکبرین وغیرہ۔ اس وجہ سے ہم کو بھی چاہیے کہ قرآن کریم کی پیروی کرتے ہوئے اسی روش کا انتخاب کریں کہ اخلاقی فضائل کی شناخت کرانے میں کلی عناوین بھی اور صاحبان فضائل کے اسماء بھی بیان کریں، منفی مقامات پر اشخاص کے نام بیان کرنے سے اجتناب کریں۔

دوسرے نمونوں کا انتخاب کرنا ہے، قرآن کریم ایک ساتھ محبوب اور منفور افراد کا ذکر کرکے انسانی سماج کو علم وآگہی کے ساتھ اپنے منظور نظر نمونوں کے انتخاب کی دعوت دیتا ہے، حتیٰ کہ گذشتہ آباء اجداد کے سلسلہ میں بھی آگاہ کرتا ہے کہ بغیر علم و آگہی کے ان کی اندھی تقلید کرکے اپنی زندگی تباہ و برباد نہ کریں۔ انہوں نے کہا: ''ہم نے آباو اجداد کو ایک آئین پر پایا ہے لہٰذا ہم بھی انھیںکا اتباع کرتے ہیں ' اس (پیغمبر) نے کہا ''خواہ جس پر تم نے اپنے آباء واجداد کو پایا ہے اس سے زیادہ ہدایت کرنے والا بھی تمہارے لئے لے آؤں تب بھی ایسا کرو گے''؟(١) اس وجہ سے ہم پر لازم ہے کہ انسانوں کی آزادی کو باقی رکھتے ہوئے نیز مطلوب نمونوں اور معیاروں کا تعارف کراتے ہوئے تربیت پانے والوں کے لئے آگاہانہ انتخاب کی راہ فراہم کریں۔

ج۔ما حول کوصحیح و سالم رکھنا:

برے اور شر پسند افراد ہر ماحو ل اور سماج میںعام طور پر پائے جاتے ہیں۔ بیشک فاسد اور برے ماحول اخلاقی تربیت کے معاملہ کو دشوار بلکہ بعض اوقات نا ممکن بنا دیتا ہے، اس وجہ سے ماحول کو صحیح وسالم رکھنا کہ جو تقریبا ً امر با لمعروف اور نہی عن المنکر کے زندہ کرنے کے مساوی فریضہ ہے،سب کے لئے ایک عقلی، انسانی نیز دینی فریضہ ہے۔ اس طرز اور شیوہ سے مراد معاشرے کے تمام افراد کے اندر خوبیوں کی ایجاد اور ان کا احیاء کرنا ہے اور برے امور کو ختم کرنا ہے۔ درج ذیل نکات امر با لمعروف اور نہی عن المنکر کی اہمیت اور ان کے پہلوئوں کو کہ جو دراصل معاشرہ میں اخلاقی تربیت کو آسان کرنے والے ہیں، زیادہ واضح کرتے ہیں۔

____________________

١۔ سورئہ زخرف، آیت ٢٣، ٢٤۔

۱۶۹

١۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اس نکتہ کو واضح انداز میں اپنے دامن میں رکھتا ہے کہ دعوت ایک شناختہ شدہ شرعی اور عقلی معیار پر ہونی چاہیے۔(١) اس وجہ سے جب بھی بات شرعی واجب یا حرام کی ہوتو چاہیے کہ اس کی ثقافتی پشت پناہی ایجاد کی جائے ا ورایک معروف یامنکر کے عنوان سے اکثر لوگوں کے نزدیک متعار ف ہو۔ ایسے حالات میں امر با لمعروف اور نہی عن المنکر کو عام مقبولیت حاصل ہو گی۔ بعبارت دیگر امر با لمعروف کی دشواری اور کلی طور پر اس کاقبول نہ ہونے میں مشکل نہیں ہے بلکہ مشکل ان خاص موارد اور مصادیق میں ہے کہ جن کا معروف یا منکر ہونا کافی حد تک مستدل طور سے لوگوں کے لئے واضح نہیں کیاگیا ہے۔

٢۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سب کا فریضہ ہے، لیکن امر و نہی کرنے والے خاص شرائط کے حامل ہوں، منجملہ ان کے امر و نہی کے شرائط کی شناخت(٢) نیز خود معروف اور منکر کی پہچان ضروری ہے، اس کے علاوہ یا د دہانی اور بیان کا طریقہ اس طرح ہو کہ زیادہ سے زیادہ تاثیر کی امید ہو۔

٣۔ امر با لمعروف اور نہی عن المنکر کے موارد کو وسیع ہونا چاہئے اور خاص مصادیق میں کہ جو اس وقت سماج اور معاشرہ میں زیادہ رایج اور شائع ہے (جیسے بے حجابی) میں محصور نہ ہو۔ اخلاق کے خلاف اعمال جیسے رشوت لینا، تہمت لگانا، غیبت کرنا اور بد گوئی وغیرہ ایک عام ثقافت اور تہذیب کی صورت میں معیّن شدہ نصائح اور نہی عن المنکر کا مورد واقع ہوں، تاکہ مثال کے طور پر بے حجاب یہ خیال نہ کریں کہ نہی عن المنکر ہمیشہ انہیں کے بارے میں ہے۔

د۔ موقعیت کا تبدیل کرنا:

کسی ماحول کے حالات کی قوّت اور اس کی اثر گذاری اس حد تک ہوتی ہے کہ صرف موقعیت اور حالات کے تبدیل کرنے سے اخلاقی تربیت حاصل ہوپاتی ہے۔ اگر چہ ماحول کی تبدیلی بہت زیادہ مالی اخرجات اور نفسیاتی بوجھ کی حامل ہوتی اخراجات ہے، ایک سا ز گار تربیتی ماحول ایجاد کرنے کے لئے آخری طرز کے عنوان سے ضروری ہے۔ ''ہجرت'' منجملہ ان دستورات میں سے ہے کہ جس کی دین میں تاکید ہوئی ہے اور کبھی واجب حد تک پہونچ جاتی ہے۔ قرآن مجید کے بقول جب فرشتے کچھ لوگوں کی روح قبض کرنے آتے ہیں تووہ لوگ ماحول کے ناموافق ہونے کو اپنا عذر بیان کرتے ہیں، لیکن فرشتے کہتے ہیں ''.... کیا خدا کی زمین وسیع نہیں تھی کہ تم اس میں ہجرت کرتے ....''۔(٣)

____________________

١۔'' المعروف'' اسم لکل فعل یعرف بالعقل او الشرع حسنہ والمنکر ما ینکر ھما (المفردات ) معروف ہر اس فعل کو کہتے ہیں جسے عقل یا شرع کے ذریعہ نیک جانا جائے اور منکر ہر اس فعل کو کہتے ہیں جسے عقل یا شرع ناپسند کریں۔ ٢۔ سورئہ توبہ، آیت ٧١ اور ملاحظہ ہو: المیزان، ج ٣ ، ص ٣٧٣۔

٣۔ الم تکن ارض اللہ واسعة فتھاجروا فیھا۔۔۔ سورئہ نسا ئ، آیت ٩٧۔

۱۷۰

جو انسان ایسے گھر یا محلہ میں زندگی بسر کرتا ہے کہ وہاں کے رہنے والے اپنی یا اپنی اولاد کی شائستہ تربیت کے لئے موافق اور ساز گار ماحول نہیں رکھتے وہ اسی طریقہ سے استفادہ کرتے ہوئے جدید امکانات کو اپنے اہل وعیال اور خاندان کے افراد کے رشد و تغیرّ کے لئے فراہم کرسکتا ہے۔ اپنے یا اپنے اقرباء کے نا پسند ناموں کا تبدیل کرنا بھی اس خاص نفسیاتی ماحول کو نظر میں رکھتے ہوئے جو اسی سے پیدا ہوتا ہے تغییر موقعیت کے موارد میں شمار ہوتا ہے۔(١) ایسی نشست جس میں اخلاق کے خلاف اعمال کی روک تھام نہ ہوسکے اسے ترک کردینا چاہیے: ''مجرمین کے بارے میں وہ سوال کررہے ہوں گے: کس چیز نے تمہیں جہنم کی آگ میں جھونک دیا؟ وہ کہیں گے: ہم لوگوں کے برے کاموں میں شامل ہوجایا کرتے تھے۔(٢)

اسلام ایک مسلمان کے روزانہ کے معمول کی تعیین میں اسی طر یقہ اور روش سے مدد لیتا ہے اور اسے مذہبی مراکز جیسے مساجد میں مسلسل حاضر ہونے کی دعوت دیتا ہے یہ اسے خود ہی ایک قسم کی تغییر موقعیت ہے اگر چہ ہجرت شمار نہیں ہوتی۔ اس کے علاوہ ایک قسم کی اخلاقی تازگی اورشادابی انسان کو عطا کرتی ہے اور اسے ایک ہی طرح کے ماحول سے اور بسا اوقات روزانہ کے نا مساعد اور غیرموافق ماحول سے جدا کردیتی ہے۔

٢۔ ضرورتوں کو صحیح طریقہ سے پورا کرنا

ضرورتو ںکو صحیح طریقہ سے پورا کرنے سے مراد یہ ہے کہ ضروریات زندگی کو ایک متعادل حد تک اخلاقی تربیت دینے اور بالاتر ضرورتوں کی تکمیل کرنے سے پہلے پورا کیا جائے۔ سبب اور محّرک کے ا ثر کے پیش نظر جو کہ عمل کے اصول ومبادی میں سے ایک ہے، جب تک کہ انسان بھوک کے زیراثر یاجنسی میلان کے تحت تاثیر ہے یا کم از کم اپنی زندگی کیلئے کوئی پناہ گا ہ نہیں رکھتا، ایسا انسان اخلاق کی بلندیوں کی طرف قدم نہیں بڑھا سکتا۔

اسلامی تعلیمات میں یہ نکتہ مورد توجہ واقع ہوا ہے، سورئہ ''قریش '' میں خدا وند سبحان کی عبادت کی دعوت کا ذکر ان کی خوراک فراہم کرنے اور امنیت کے ذکر کے بعدہوتی ہے: '' لہٰذا انھیں چا ہیے کہ اس گھر کے رب کی عبادت کریں، وہی ذات کہ جس نے انھیںبھوک سے نجات دی اورنا امنی سے انھیںرہائی دلائی''۔ ''فلیعبدو ا رب ھذا البیت الذی اطعمھم من جوع وآمنھم من خوف''۔(٣ )

____________________

(١) ان رسول ا للّہ کان یغےّرا لاسماء القبیحة فی الرجال والبلدان، وسائل الشیعہ، ج ١٥، ص ١٢٤۔

(٢)یتسائَ لون عن المجرمین ما سلککم فی سقر قالوا و کنا نخوض مع الخائضین ، سورئہ مدثر، آیت ٤٠ تا٤٥ ۔

(٣) سورہ ٔقریش، آیت ٣، ٤۔

۱۷۱

مندرجہ ذیل آیات میں غور خوص کرنے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اخلاقی صفات، تقویٰ، شکر، اور عمل صالح وغیرہ انسان کی اوّلین ضرورتوں کو پورا کرنے کے بعد ذکر ہوئے ہیں:و کلوا مما رزقکم الله حلالاً طیبا واتقو الله ۔۔۔(١) ۔ اور جو کچھ خدا نے تمہیں حلال اور پاکیزہ رزق دیا ہے اس میں سے کھائو اور خدا سے درتے رہو....۔ ''یا ایا الذین آ منوا کلوا من طیبات ما رزقناکم واشکرو الله ۔۔ اے ایمان لانے والوں! جو ہم نے تمہیں پاکیزہ رزق عطا کیا ہے اس میں سے کھائو اور خدا کا شکر ادا کرو....۔(٢) ''یاایھا الرسل کلو ا من الطیبات و اعملوا صالحا۔۔۔'' اے میرے رسولو! تم پاکیزہ غذائیں کھائو اور نیک عمل انجام دو.....۔(٣) پیغمبر اکرم نے حدیث ایک شریف میں زندگی کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے اثر کے سلسلہ میں اس سے بلند تر ضرورتوں پر نظرکرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے: '' اگر روٹی نہ ہوتی توہم نماز نہیں پڑھتے، روزہ نہیں رکھتے اور پروردگار کے واجبات کو ادا نہیں کرسکتے تھے ''۔(٤) اور دوسری جگہ پر فرماتے ہیں: ''قریب ہے کہ فخرو نا داری کفر و ناشکری کا سبب بن جائے '' ۔(٥) پیغمبر اکرم اور ائمہ طاہرین (ع) کی سیرت میں بھی ہم ملاحظہ کرتے ہیں آپ حضرات عملی طور پر محرومین کی طرف توجہ دیتے اور ان کی ضرورتوں کو پورا کرتے تھے، شب کے سناٹے اور سردی اور گرمی کے موسم میں بھی ان کی ضرورتوں کو پورا کرنے کی کوشش کرتے تھے(٦) اور یہی بات انوارہدایت کے درک کرنے کے مقدمات ان کے لئے فراہم کرتی تھی۔ حتی کہ دشمنوں سے ملاقات کے موقع پر بھی صلاح وہدایت کی دعوت سے پہلے ان کی معاشی ضرورتوں کو پورا کرتے تھے۔

____________________

١۔ سورہ ٔما ئدہ، آیت ٨٨۔

٢۔سورہ ٔبقرہ ، آیت ١٧٢۔

٣۔ سورئہ مومنون، آیت ٥١۔

٤۔فلو لا الخبز ما صلینا ولا صمنا ولا ادینا فرائض ربنا عز وجل ۔ کا فی ،ج ٦، ص ٢٨٧۔

٥۔کاد الفقر ان یکون کفرا، کا فی، ج ٥، ص ٣ ٧۔

٦۔ الحیاة، ج ٣، ص ٢٣٢تا ٢٣٤ ملاحظہ ہو۔

۱۷۲

حضرت امام حسن ـکی سیرت نادان مخالفین کے ساتھ یہی انسانی روش اور سیرت تھی:

ایک شامی نے معاویہ کے ورغلانے پر ایک دن امام حسن کو گالی دی، امام نے اس سے کچھ نہیں کہا یہاں تک کہ خاموش ہو گیا، اس وقت آپ نے شیریں مسکراہٹ کے ساتھ اس کو سلام کیا اور فرمایا: '' بوڑھے آدمی! فکر کرتا ہوں کہ تو ایک پردیسی ہے اور خیال کرتا ہوں کہ تو راستہ بھول گیا ہے اگر مجھ سے رضایت طلب کرے گا تو تجھے رضایت دوں گا اور اگر کچھ ہم سے طلب کرے گا اور راہنمائی چاہے گا تو تیری راہنمائی کروں گا اور اگرتیرے دوش پر کوئی بوجھ ہے تو اسے اٹھا لوں گا اور اگر بھوکا ہے تو شکم سیر کردوںگا اور اگر محتاج ہے تو تیری ضرورت پوری کردوں گا، (خلاصہ ) جو کا م بھی ہو گا اسے انجام دیدوںگا اور اگر میرے پاس آئے گا تو بہت آرام سے رہے گا کہ مہمان نوازی کے ہر طرح کے وسائل و اسباب میرے پاس فراہم ہیں''۔

وہ شامی شرمندہ ہوگیا اور رو کر کہنے لگا: ''میں گواہی دیتا ہوں کہ روئے زمین پر آپ خدا کے جانشین ہیں، خدا بہتر جانتا ہے کہ اپنی رسالت کہاں قرار دے۔ آپ اور آپ کے والد میرے نزدیک مبغوض ترین انسان تھے لیکن اب آپ سب سے زیادہ محبوب ہیں ''بوڑھا آدمی اس دن امام حسن ـ کا مہمان ہوا اور جب وہاں سے گیاتو حضرت کی دوستی کا دم بھر نے لگا۔(١)

آبراھام مزلو ہیومینسٹ ماہر نفسیات نے آدمی کے اغراض واسباب کی طبقہ بندی کے لئے جدید طریقہ پیش کیا ہے، اس نے ضرورتوں کے ترتیب و ار سلسلہ کو پیش کیا کہ جو زندگی کی اساسی ضرورتوں سے شروع ہو تا ہے اور اس سے بالا تر سطحوں میں نفسیاتی اغراض واسباب تک پہونچ جاتا ہے وہ کہتا ہے: ''..... انسان کی با مقصد حیات میں تنظیم کی اہم اصل اساسی ضرورتوں کی ترتیب اولویت کے مراتب کے سلسلہ کی صورت میں کمتر یا بیشتر غلبہ کی قدرت کے ساتھ ہوتی ہے۔ وہ اہم محرّک جو اس تنظیم کا باعث ہوتی ہے وہ ضعیف تر ضرورتوں کا پیدا ہونا ہے جو کہ قوی تر ضرورتوںکو پورا کرنے سے ایک سالم انسان میں پائی جاتی ہے۔ جب بھی ضرورت زندگی پوری نہیں ہوتی، جسم پر غلبہ پا جاتی ہے اور تمام استعداد اور صلاحیتوں کو اپنے کنٹرول میں لے لیتی ہے اور ان صلاحیتوںکو اس طرح منظّم کرتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ ان سے استفادہ کرسکے۔ نسبی رضا مندی ان

____________________

١۔ بحار الانوار، ج، ٣ ٤، ص ٣٤٤۔

۱۷۳

ضرورتوں کو محو کردیتی ہے اور بعدکے سلسلہ میں مراتب کی ضرورتوں سے بلند مجموعہ کو موقع دیتی ہے کہ وہ ظاہر ہوں، شخصیت پر غلبہ پاکر انھیںمنظّم کریں اس طرح کہ، بھوک کا درد اٹھانے کے بجائے امن و سلامتی کے لئے پریشان ہو۔ یہ اصل سلسلہ مراتب میں ضرورتوں کے دوسرے مجموعوں یعنی محبت، احترام اور خود آگے بڑھنے اور ترقی کرنے پر بھی صادق ہے۔(١)

اسی وجہ سے محتاج سماج اوراجتماع میں علمی، ہنری اور اخلاقی تخلیق کم وجود میں آتی ہے۔

مزلوکا نظریہ ہے کہ سالم افراد بلند ضرورتوں کی طرف رخ کرتے ہیں، یعنی اپنی با لقوة استعدادوں کے عمل ہونے کے خواہشمند ہوتے ہیں اور آس پاس کی دنیا کو پہچاننا چاہتے ہیں۔ مقصد، بے نیاز کرنا، تجربہ حیات کی توسیع، سرور و شادمانی کا اضافہ اور زندہ ہونے کی تحریک ہے.... نیک اخلاقی صفات جن کو و ہ'' وجود میں اقدار ''سے تعبیر کرتا ہے اس موقعیت کی طرف رخ کرتے ہیں۔ بعض ہستی کی قدریں اس کی نظر میں یہ ہیں: حقیقت (بے اعتمادی بد گمانی اور تشکیک کے مقابل)، نیکی (نفرت کے مقابل)، کمال (ناامیدی اور بے معنی ہونے کے مقابل)، یکتائی (بے ثباتی کے مقابل)، نظم (عدم امنیت واحتیاط کے احساس کے مقابل )، خود کفائی ( ذمہ داری کو دوسروں کے حوالے کرنے کے مقابل )(٢) ۔

یہ نظریہ کہ انسان کمتر ضرورتوں کی طرف توجہ کئے بغیر یا ایک حد تک ان کی تکمیل، انسانی فضائل کی طرف قدم نہیں اٹھاتا، یہ سماج کے اکثر افراد کے بارے میں صادق آتا ہے۔

دو نکتوں کی طرف توجہ دیتے ہو ئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ '' ضرورتوں کو صحیح طور سے پورا کرنے کی روش ''اس بات کے علاوہ کہ دوسری روشوں کا مقدمہ ہے، خود اسے بھی ایک اخلاقی تربیت کی روش کے عنوان سے پیش کیا جاسکتا ہے۔پہلے یہ کہ ادنی ضرورتوںکو پورا کرنے سے بلند ترین ضرورتیں پیدا ہو تی ہیں، یعنی علّت وسبب کا جنبہ پیدا کرتی ہیں۔ عمل کے علّی اور سببی جنبہ کا وجود تر بیت اخلاقی کے ایک اہم حصہ کو منظّم کرتا ہے۔

____________________

١۔ انگیزش و ہیجان، ص ١٠١۔

۱۷۴

٢۔ اپنی جلوہ نمائی تحقق نفس تک ر سائی اور بالقوة توانائی کے لئے ذوقی تقارن خوبصورتی اور نظم تعارف، جاننا، سمجھنا، تلا ش کرنا، سنجیدگی، عزت نفس، کفایت، اجراء اور اصول تعلق و محبت کی ضرورت غیر سے وابستہ ہونا، سا لمیت کی ضرورت کی مقبولیت، امنیت کا احسا س اور خطرے سے دوری فیز یولوژیائی ضرورتیں، گرسنگی، تشنگی اور جنسی خواہشروانشناسی کمال، ص ١٢٥۔

دوسرے یہ کہ اس سے توانائیوں کو تخلیہ اورباطنی قوتوں کے اعتدال کے لئے آمادگی حاصل ہوتی ہے۔ جیسا کہ علماء اخلاق کے اخلاقی نظام میں ذکر ہوا ہے یہ نکتہ نہایت قابل توجہ اور اہمیت کا حامل ہے کہ سہ گانہ قوتیں شہوت، غضب، اور عقل، عدالت اور اعتدل کے سایہ میں ایک دوسرے کے ساتھ اکھٹا ہو جائیں۔ یہ رویہ یعنی اعتدال قوتوں کے استعمال کرنے میں تربیت اخلاقی کی ترقی میں ایک نا گزیر امر ہے۔

سید قطب الدین لکھتے ہیں: انسان کی تربیت کے لئے اسلام کے اسباب و وسائل میں ان ذمہ دارریوں سے چھٹکارا دلانا ہے جو کبھی کبھی جسم و جان میں اکھٹا ہوتی ہیں اسلام ان باروں اور ذمہ داریوں کو اکھٹا جمع نہیں کرتا مگر یہ کہ انھیں چھوڑنے کے لئے

۱۷۵

یکبارگی جمع کرے۔(١)

اس روش کے محقق ہونے کے لئے لازم طریقے یہ ہیں: معاشی نظام کی جانب توجہ، ازدواج، ورزش اور کام کاج ۔

الف ۔معاشی نظام کی طرف توجہ:

بہت سے اخلاقی جرائم کی بنیاد مال اور خوراک اور غذا کی کمی ہے۔ پہلے مرحلہ میں معاش کی فراہمی خانوادہ کے ذمہ ہے دوسرے مرحلہ میں حکومت کی ذمہ داریوں میں سے ہے نیز اس نظام کے ذمہ ہے جو سماج پر حکومت کررہا ہے اور تیسرے مرحلہ میں نیکو کا راور قدرت مند افراد کے ذمہ ہے۔ بہر صورت تربیت کرنے والوں کی تگ و دو اس مسئلہ کی نسبت تربیتی نقطہ نظر سے تربیت اخلاقی میں بہت سے موانع کو دور کرنے والی ہے۔

ب۔ ازدواج:

ازدواج کے تربیتی اور اخلاقی فوائد (جیسے خود خواہی و خود غرض سے دور ہونا، دوسروں کی خدمت کے لئے آمادگی اور ان کی طرف توجہ، عواطف و جذبات کا بار آور ہونا، محبتوں کا ثمر دینا اور ذمہ داری قبول کرنے کے لئے آمادگی وغیرہ وغیرہ ) کے علاوہ ازدواج کا اہم اور ابتدائی کردار غریزہ جنسی کی ضرورت کو فطری اور شرعی طریقہ سے صحیح طور پر پورا کرنا۔ اس نکتہ کی طرف توجہ کرنا چاہیے کہ ایسا جوان جس کا غریزہ جنسی شباب پر ہے اور ماحول کے بہت سے محرک بھی اس کے اندر اور زیادہ اس آگ کو بھڑکا رہے ہیں، وہ جوان سختی سے خود کو گناہ سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔(٢) پیغمبر نے فرمایا ہے : '' جب کوئی انسان شادی کرتا ہے تو اس کا نصف دین کامل ہو جاتا ہے لہٰذا بقیہ نصف کے سلسلہ میں اسے تقویٰ اختیار کرنا

____________________

١۔ روش تربیتی در اسلام، ص ٢٨٢۔

٢۔ مراد یہ ہے کہ جنسی غریزہ جوانوں کو زیادہ مشکلات سے دو چار کرتا ہے، نہ یہ کہ کلی طور پر تربیت اور اصلاح کا راستہ ہی بند کردے ۔

۱۷۶

چاہئے''۔(١) پیغمبر کے اس حکیمانہ ارشاد سے یہ نکتہ بھی قا بل استفادہ ہے کہ اللہ کا تقویٰ ا ور اخلاقی ورع، شادی کے بعد زیادہ آسان اور قابل حصول ہے۔

ج۔ورزش:

جسمانی ضرورتوں کو صحیح طور پر پوراکرنے میں اور جوانی کی قوتوں کی جلاء میں ورزش کا کردار قابل انکار نہیں ہے۔ اخلاقی تربیت میں ورزش کا کردار دو جہت سے قابل اہمیت ہے:

اول۔وہ جسمانی سلامتی اور فرحت کہ جو ورزش سے پیدا ہوتی ہے، روحی، ذہنی اور نفسیاتی سلامتی نیز اخلاقی فضائل کے لئے مقدمہ ہوتی ہے۔ ہماری تہذیب اور ثقافت میں قوت اورجوانمردی ہمیشہ ایک دوسرے کے شانہ بشانہ رہی ہیں۔ ورزش اخلاقی توجیہ نبی اور ائمہ (ع) کی سیرت میںآتی ہے ۔ پیغمبر اکرم ایسے مردوں سے ملاقات کے وقت جو زور آزمائی کے لئے وزن اٹھا رہے تھے، فرماتے ہیں: ''لوگوں میں سب سے زیادہ بہادر وہ انسان ہے جو خواہشات نفس پر غالب ہو''۔(٢) امیر المومنین ـ دعائے کمیل میں خدا سے جسمانی قویٰ کی تقویت کی درخواست خدمت الٰہی کے لئے کرتے ہیں،یارب.... قو علی خدمتک علی جوارحی ۔ اس کے مقابل کمزور اور پست افراد تربیت کے خلاف امور انجام دیتے ہیں۔دوسری جہت ۔ ضرورتوں سے توجہ ہٹانا ہے، بالخصوص جوانی کے زمانہ میں جنسی ضرورتیںاپنی تکمیل کا تقاضہ کرتی ہیں۔ ایسے حالات میں کہ ابھی جائز اور مشروع طریقہ سے صحیح طور پر جنسی خواہشات کی تکمیل کے امکانات فراہم نہیں ہوئے ہیں، ورزش ضرورتوں سے توجہ ہٹانے کا ایک مفید اور اہم ذریعہ ہے۔

د۔ کام:

کام کاج کے مسئلہ کو '' معاشی نظام کی طرف تو جہ '' کی بحث میں ذکر کیا جاسکتا ہے، لیکن چونکہ اس کا اسلام میں ایک خاص مرتبہ ہے، اور استاد مطہری کے بقول: کام اسلام میں ایک مقدس اور پاکیزہ شے ہے،(٣) نیز بہت سے تربیتی جہات اس میں پائے جاتے ہیں، لہٰذا ہم نے اسے جدا گانہ طور پر ذکر کیا ہے، ایک طرف کام صحیح طور پر قوتوں کی جلاء اور اضافی بار کے تخلیہ کاموجب ہوتا ہے اور دوسری طرف شخصیت کے احساس، ذہنی علاج، تمرکز خیال، ضرورتوں سے توجہ ہٹانے کا باعث ہوتا ہے، کہ یہ سب اخلاقی تربیت کے لئے معاون وسیلہ ہیں۔(۴)

____________________

١۔ اذا تزوج العبد فقد استکمل نصف الدین فلیتق اللہ فی نصف الباقی ۔ بحا ر الانوار، ج ٣ ١٠، ص ٢١٩۔''من تزوج فقد احرز نصف دینہ ، فلیتق اللہ فی النصف الباق''۔بحار الانوار ،ج١٠٣، ص٢١٩۔٢۔ اشجع الناس من غا لب ھواہ۔ میزان الحکمة، ج ١٠، ص ٣٨٧۔٣۔ تعلیم وتربیت در اسلام، ص ٤١١۔۴ ۔ ان جملوں کی طرف توجہ دینا مذکورہ بالا مطلب کی تائید میں موثر ہے: سقراط: ''دیانت کے بعد کام نیک بختی اور سعادت کا سرمایہ ہے''۔ پاسکال: '' تما م فکری اور اخلاقی برائیوں کی جڑ بے کاری ہے جو ملک بھی اس عظیم عیب کو بر طرف کرنا چاہتا ہے اسے لوگوں کو کام پر آمادہ کرنا چائیے تاکہ اس سے روحی سکون کہ جس سے معدودے چند افراد آگاہ ہیں، حاصل ہو ''۔ ساموئل اسمایلز: '' دیانت کے بعد انسان کی تربیت کے لئے کام سے بہتر کوئی مدرسہ تعمیر نہیں کیا گیا ہے ''۔ بحوالۂ تعلیم و تربیت در اسلام، ص ٤٣٠۔

۱۷۷

٣۔ ا حترام شخصیت کے طریقے

اخلاق اسلامی کی اساسی بنیاد انسان کا اپنی ذاتی کرامت اور شرافت کی طرف توجہ دینا ہے: ''یقینا ً ہم نے اولاد آدم کو کرامت سے نوازا ( انھیں عزت عطا کی ) ...اور انھیں اپنی بہت سی مخلوقات پر واضح فوقیت و برتری عطا کی۔(۱)

خود آگاہی اور اس بات کی طرف توجہ کہ انسان ایک بلند وبر ترمخلوق ہے اور اپنے اندر بے مثال اور قیمتی گوہر رکھتا ہے یہ بات اس کو (حبّ ذات کی بناپر) اپنی ذاتی کرامت کی حفاظت وپاسداری کے لئے دعوت دیتی ہے اور اخلاق کی بلند قدروں کی طرف کھینچتا ہے: ''اکرم نفسک عن کل دنےة و ان ساقتک الیٰ الرغائب فانک لن تعتاض بما تبذل من نفسک عوضا ً''(۲) اپنے نفس کو ہر طرح کی پستی سے پاکیزہ رکھو ! چاہے وہ پستی پسندیدہ اشیاء تک پہونچا ہی کیوں نہ دے کیونکہ جو اپنی عزّت نفس تم دوگے اس کی قیمت اور عوض تمہیں کبھی مل نہیں سکتا۔

'' انسان کی حقیقت'' چونکہ آسمانی قداست و پا کیزگی کی حامل ہے اور وہ علم، قدرت اور آزادی کے چشمہ سے سیراب ہوا ہے لہٰذا وہ جھوٹ، باطل، طبیعت کی اسیری، گراوٹ اور پستی و ذلت و شہوت اور جہل میں ہاتھ پاؤں مارنے کے مخالف ہے اسی وجہ سے ہوشیار انسان ہرطرح کے اخلاقی ر ذائل سے کہ جو اس کی عزت اور غیرت

____________________

۱۔لقد کرمنا بنی آدم...... و فضلناهم علی کثیرممن خلقنا تفضیلا ۔ سورئہ اسرائ، آیت ٧٠۔

۲ نہج البلاغہ، مکتوب ٣١۔

۱۷۸

سے منافات رکھتے ہیں، بیزار ہوتا ہے۔(١) اس کے مقابل ایک ایسا انسان جو ذلّت، پستی اور فرومایہ ہونے کا احساس کرے اور اپنے اندر پائی جانے والی عظیم شرافت پر یقین نہ رکھے، وہ ہر طرح کے نا پسند اخلاقی افعال کے ارتکاب سے بے پرواہ ہوتا ہے:اللئیم لا یستحی، اللئیم اذا قدر ا فحش واذا وعد اخلف، اللئیم لا یرجیٰ خیره ولا یسلم من شره ولا تؤمن غوائله، اللئیم مضاد لسائر الفضا ئل و جامع لجمیع الرذائل ۔( ٢) کمینہ شخص شرم نہیں کرتا، کمینہ جب قدرت پاتا ہے برائی کرتا ہے اور جب وعدہ کرتا ہے تو اس کے خلاف کرتا ہے، کمینہ سے خیر کی امید نہیں کی جا سکتی اور اس کے شر سے محفوظ نہیں رہا جا سکتا اور اس کے فسادوں سے بے خوف نہیں رہا جا سکتا، کمینہ تمام فضائل کا مخالف اور تمام رذائل کا حامل ہوتا ہے۔ من ھانت علیہ نفسہ فلا تامن شرہ۔(٣) جو انسان خود کو بے حیثیت سمجھتا ہو اس کے شر سے بے خوف نہ رہو۔

اس مطلب کی وضاحت نفسیاتی اعتبار سے خود انسان کے خیال واعتقاد سے ہماہنگ ہونا یا نہ ہونا ہے: اگر میں بے رحمانہ اور احمقانہ عمل کا مرتکب ہوں تو میری عزت نفس ملامت کا شکار ہوجائے گی۔ کیونکہ وہ عمل میرے ذہن کو اس امکان کی طرف متوجہ کرے گا کہ میں ایک بیوقوف اور ظالم انسان ہوں۔ سینکڑوں آزمائش کے درمیان کے عدم موافقت کے نظریہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ واضح ترین نتائج ایسے حالات میں حاصل ہوئے ہیں جو انسان کی عزت نفس سے مربوط ہیں، کیونکہ جس طرح امید کی جاتی ہے کہ جو افراد زیادہ عزت نفس کے مالک ہیں، اگر ان سے بے رحمانہ اور احمقانہ رفتار سرزد ہو جائے تو دوسروں سے زیادہ نا موافقت کا احساس کرتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی انسان معمولی عزت نفس رکھتا ہو تو کیا پیش آسکتا ہے؟ اگر ایسا انسان غیر اخلاقی اور احمقانہ عمل کا ارتکاب کرے تو زیادہ ناموافقت کا احساس نہیں کرے گا ...دوسری طرف وہ انسان جوزیادہ عزت نفس کا مالک ہے، غالباً وہ ایک برے عمل کے ارتکاب کے وسوسہ کے مقابل مقاومت کرتا ہے، اس لئے کہ بے برے کام اس کے اندر زیادہ سے زیادہ نا موافقت ایجاد کردیتا ہے۔(٤)

____________________

١۔ الصدق عزّ والکذب عجز، سچ عزت (کا سبب) ہے کتاریخ یعقوبی، ج ٢، ص ٢٤٦ ؛ الغیبة جھد العاجز، مازنی غیور قط،غیبت عاجز کی کوشش ہے، کسی غیرتمند نے کبھی زنا نہیں کیا ( نہج البلاغہ، ح ٢٩٧ ) ؛ الکذب والخیانة لیسا من اخلاق الکرام، جھوٹ اور خیانت اچھے اخلاق سے نہیں ہیں (غرر) وموت فی عز خیر من حیاة فی ذل ،عزت کی موت ذلت کی زندگی سے بہتر، (بحار الانوار، ج٤٤، ص ١٩٢)

٢۔ غرر الحکم، تیسری فصل، ص ٢٦٠۔

٣۔ بحار الانوار، ج ١٧، ص ٢١٤۔

٤۔ روانشناسی اجتماعی، ترجمہ شکرکن، ص ١٥٠ ، ١٥١ ۔

۱۷۹

اس وجہ سے اخلاقی تربیت کی ایک روش شخصیت کااحترام ہے یعنی ایسے امور کا انجام دینا کہ جن سے خود کو یقین ہو یا جس کی تربیت کی جارہی ہے اس کو اپنی قدروقیمت کا یقین حاصل ہو۔ ایڈلر، A ، y.adler جوکہ ایک فردی نفسیات کاموجد ہے اس نے احساس کمتری کو اپنے نظریہ کی اساس قرار دی ہے اور اسے علت اور تمام غیر معمولی رفتار کی علت اور سر چشمہ سمجھتا ہے۔احساس کمتری رنگین دھاگہ کے مانندجو نفسیاتی اختلال کے تمام حالات میں کھنچا ہواہے۔ ایک غصہ وریا بے صلاحیت بچہ سن رسیدہ ہوکر بھی نفسیاتی تعادل کی قوت نہیں رکھتا ہے۔ نفسیاتی مریض، مجرمین، جنسی منحرفین اور روحی بیمار سباپنی نا رسائی اور ضعف کے احساس کا رنج و الم برداشت کرتے ہیں۔ اور مسلسل شک وتردید اور گمراہی میں زندگی بسرکرتے ہیں اورایک معتمد ومستحکم مرکزتلاش کرتے ہیں...احساس کمتری طبیعی ارتقا کے لئے رکاوٹ بنتاہے(١) اور یہ اس وقت ہوتاہے کہ بچہ مکمل اس احساس میںغوطہ لگاتا ہے اور لاحاصل ہاتھ پاؤں مارنے کے باوجود خود کواس حالت سے نجات دینا چاہتا ہے، اس حالت میںبد گمانی اور وحشت احساس کمتری کی راہ کوکھول دیتی ہے اور بچہ نفسیاتی اختلال کا شکار ہوجاتا ہے، اس موقع پر ذہنی ونفسیاتی حرکت، سکو ن اور سکوت کا شکار ہوجاتی ہے ، اس معنی میں کہ بچہ پھر اپنے ضعف اور نقائص کو دور کرنے پر قادر نہیں ہوتاہے، ناچار اس کے علاوہ کوئی راہ نہیں رکھتا کہ خیالی تعادل بخشنے(جھوٹی تلافی) سے خود کو ماحول کے حوالے کردے۔(٢)

احساس کہتر نامی کتاب میں، ایڈلر کے نظریہ کی توضیح کے سلسلہ میں جو احساس کمتری سے پیدا شدہ زندگی کی روش کی اس طرح منظر کشی کرتے ہیں: احساس کمتری درجہ کیفیت اور سب سے پہلے نتیجہ کے اعتبار سے جو اس سے تجربے کے ضمن میں حاصل ہوتا ہے، انسان کے طرز زندگی کی تعیین کرتی ہے۔ یہاں پر تین اساسی ساز وسامان اور اس کے بعد تین طرز زندگی کو مشخص کیا جاسکتاہے ، طبیعی جبران کا سازو سامان، گریز وناامیدی کا ساز و سامان اور خیالی جبران کاساز وسامان۔

١۔ طبیعی تلافی:

یہ تلافی ایک نتیجہ خیز اساسی روش کے پایہ پر استوار ہے کہ جو نفسیاتی محوروں کی واقعی تعیین کرتا ہے، مثال کے طور پر ایک حادثہ کا شکار انسان کہ جو جسمی اور عضوی نقص رکھتا ہے، اسے صحیح کرنے یا مرکزی اعصبابی مشین اور دیگر اعضاء کے وسیلہ سے اسی ایک تلافی کی طرف رہنمائی کی جاتی ہے۔

____________________

١۔ ایڈلر: روانشناسی فردی، ترجمہ حسن زمانی، ص ٥٩۔

٢۔ ایضاً، ص٥٧۔

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

جملہ''قال كذلك '' يعنى ''قال الله إلامر كما وعدتك'' يا پھر''قال الله الامر كما قلت '' ہے پہلى صورت ميں خداوند عالم اپنے گذشتہ وعدہ كى تاكيد كررہاہے كہ'' اى ذكريا جيسا كے ميں نے كہا ہے ہر صورت ميں تيرے ہاں بيٹے كى ولادت ہوكر رہے گى اور دوسرى صورت ميں خدا ند عالم نے حضرت يحيي(ع) كى ولادت كى ولادت كے موانع كى تصديق كى ہے يعنى حقيقت حال اسى طرح ہے جيسا كہ تو نے كہا ہے يعنى يحيى كى ولادت كے عادى اسباب موجود نہيں ليكن تيرے پروردگار نے كہاہے كہ يہ كام ميرے ليے آسا ن ہے_

۲_ بوڑھے باپ اور بانجھ ماں سے بچے كو پيدا كرنا، خداوند كريم كے ليے انتہائي آسان كام ہے_قال ربك هو عليّ هيّن

۳_ طبعى قوانين اور عادى اسباب، خداوند عالم كى قدرت اور ارادہ كو محدود نہيں كرتے_قال كذلك قال ربك هو على هيّن

۴_ دنياوى حوادث ميں طبعى اسباب ، علت تامہ كى حيثيت نہيں ركھتے_قال كذلك قال ربك هو على هيّن

۵_ طبعى اسباب اور عوامل كو مدنظر ركھنا،خداوندعالم كے ارادہ و تقاضا كے ليے حجاب ہے_أنى يكون غلام هو على هيّن

۶_حضرت يحيى (ع) كى ولادت ايك معجزانہ اور غير معمولى بات تھي_قال كذلك قال ربك هو على هيّن

۷_حضرت زكريا (ع) كى خداوند عالم كى ربوبيت كى طرف توجہ كرنے سے انہيں يہ اطمينان حاصل ہوگيا كہ خداوند عالم كے ارادہ اور تقاضا سے ان كى بانجھ بيوى كے ہاں بچے كى ولادت ہوسكتى ہے_قال ربك هو على هيّن جملہ'' ہو عى ہين'' قال رب كے بغير بھى مكمل طور پر معنى دے رہاہے ليكن اس جملہ كا مزيد اضافہ ہوجانا اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ يہ كسى معمولى انسان كا كلام نہيں ہے كہ اس كے بارے ميں غور و فكر كرنا شروع كرديں بلكہ يہ تيرے پروردگار كا فرمان ہے جس سے تجھے اس وقت خلق كيا ہے جس وقت تو كچھ بھى نہ تھا وہ اس وقت تجھے اور مدد عطاكرنے كى بھى صلاحيت ركھتاہے_

۸_حضرت زكريا (ع) كے ساتھ خداوند عالم كى گفتگو واسطہ كے ذريعے تھى اور براہ راست نہيں تھى _قال كذلك قال ربك هو على هيّن بعض نے كہا ہے كہ ''قال كذلك '' كا فاعل فرشتہ الہى ہے اور اسم ظاہر ''ربك'' كے آنے سے يہ نظريہ سامنے آيا ہے_

۹_خداوند عالم نے حضرت زكريا (ع) كو ان كى اپنى پيدائش كى طرف متوجہ كركے انہيں يہ بتاياہے كہ ان كے اور ان كے بانجھ زوجہ كے ہاں يحيى (ع) كى پيدائش كے سلسلہ ميں مطمئن ہوجائيں _

۶۰۱

هو على هيّن و قد خلقتك من قبل و لم تك شيئا

۱۰_اس بزم ہستى ميں انسان كى پيدائش ، خداوند عالم كے ارادہ سے ہوتى ہے اور وہ پيدائش سے قبل كچھ بھى نہيں ہوتا_

و قد خلقتك من قبل و لم تك شيئا

۱۱_ انسان كى پيدائش خداوند عالم كى قدرت كا ايك كرشمہ ہے_و قد خلقتك من قبل و لم تك شيئا

۱۲_انسان كى پيدائش ميں غور و فكر كرنے سے خداوند عالم كى طبعى اسباب و عوامل پر حاكميت و ارادہ قدرت كے تمام شكوك و شبہات ختم ہوجاتے ہيں _هو على هيّن و قد خلقتك من قبل و لم تك شيئا

۱۳_ خداوند عالم كى جانب سے معدوم مطلق كو خلقت كوجود عطا كرنا اسبات كى علامت ہے كے اس كى قدرت طبعى عوامل و اسباب ميں ہى منحصر نہيں ہے_هو على هيّن و قد خلقتك من قبل و لم تك شيئا

'' لم تك شيئاً'' سے مراد، معدوم مطلق ہے اور اس كى حضرت زكريا (ع) پر تطبيق كرنا كہ جن كى پيدائش حضرت آدم (ع) كى پيدائش پر منتہى ہوتى ہے جو خاك سے معرض وجود ميں آتے ہيں يہ زمانہ كے اعتبار سے ہے يعنى پہلى مخلوق عدم سے وجود ميں آئي ہے_

۱۶_جتنے انسان بھى روئے زمين پر پيدا ہوتے ہيں انہيں گذشتہ زمانے ميں پيدا كيا گيا ہے_و قد خلقتك من قبل و لم تكن شيئ جملہ حاليہ'' و لم تك شيئاً'' ممكن ہے زمانے كى طرف ناظر ہو يعنى انسان پيدا نہيں ہوتے تھے اس صورت ميں جملہ '' خلقتك من قبل'' كا اشارہ عالم زر كى طرف ہوگا يعنى ہم نے آپ كو گذشتہ دور ميں كسى بھى عادى سبب كے خلق كيا ہے_ اب كس طرح حضرت يحيى كى بوڑھے باپ اور بانجھ ماں سے پيدائش ميں شك كررہے ہو_

انسان:_كى خلقت ۱۱; _ كى خلقت كا سرچشمہ ۱۰

بشارت:حضرت يحيي(ع) كى ولادت كى ۱

پيري:_ ميں صاحب اولاد ہونا ۲

تذكر:حضرت زكريا (ع) كى خلقت كا _۹

تفكر:خلقت انسان ميں _ كے آثار ۱۲

خدا:_ كے ارادہ كے آثار ۷; _ كى مشيت كے آثار ۷; _ كا ارادہ مطلق ۳; _ كى بشارتيں ۱; _ كے تذكرات ۹; _ كے ارادہ كى حاكميت ۱۲; _ كى مشيت كى

۶۰۲

حاكميت ۱۲; _ كى قدرت ۲; _ كى قدرت مطلق ۳; _ كى قدرت كى علامات ۱۱; _ كى مطلق قدرت كى علامات ۱۳

ذكر:ربوبيت خدا كے آثار كا _۷; ارادہ خدا كے موانع ۷

زكريا(ع) :_ كا اطمينان ۱،۹; _ كى زوجہ كا حاصلہ ہونا ۷،۹; _ كو بشارت ۱; _ كو تذكر۹;_ كے اطمينان كے اسباب ۷; _ كى خداوند عالم كے ساتھ گفتگو كى خصوصيات ۸

شبہات:رفع شبہات كے اسباب ۱۲

عالم ذرّ:_ ميں خلقت ۱۴

عوامل طبيعي:_ كا كردار ۳،۴،۵،۱۲،۱۳

نظام عليت:۴،۱۳

يحيى (ع) :_ كى ولادت كا معجزہ۶

آیت ۱۰

( قَالَ رَبِّ اجْعَل لِّي آيَةً قَالَ آيَتُكَ أَلَّا تُكَلِّمَ النَّاسَ ثَلَاثَ لَيَالٍ سَوِيّاً )

انھوں نے كہا كہ پروردگار اس ولادت كى كوئي علامت قرار ديدے ارشاد ہوا كہ تمھارى نشانى يہ ہے كہ تم تين دنوں تك برابر لوگوں سے كلام نہيں كروگے (۱۰)

۱_ حضرت زكريا (ع) نے خداوند عالم سے علامات اور نشانياں اس ليے طلب كى ہيں تا كہ بچہ دار ہونے كے ليے وہ اور ان كى زوجہ اس وقت ميں مناسب طور پر آمادہ ہوسكيں _قال رب اجعل لى ء اية

حضرت زكريا (ع) نے خداوند متعال سے جو نشانى طلب كى ہے اس ميں تين احتمالات پائے جاتے ہيں ۱) يا تو خداوند عالم كى بشارت ميں شك ركھتے تھے اور اس كو دور كرنا چاہتے تھے ۲) زوجہ كے ساتھ ہمبسترى كے ليے آداب كو ملحوظ خاطر ركھنا چاہتے تھے۳) خداوند عالم كا شكريہ بجالانا چاہتے تھے آيت ميں احتمال سوم پر كسى قسم كى كوئي دليل موجود نہيں ہے اور بعض علما نے احتمال اول كو بھى رد كيا ہے كيوں كے انبياء كرام (ع) كسى قسم كا شك نہيں ركھتے لہذا انہوں نے دوسرے احتمال كو صحيح جاتاہے_ مندرجہ بالا معنى بھى اسى احتمال كى بناء پر ہے_

۲_ حضرت زكريا (ع) نے خداوند متعال سے علامات اور نشانياں اس ليے طلب كى ہے تا كہ يقين حاصل كريں كہ حضرت يحيى (ع) كى بشارت خداوند عالم كى جانب سے ہے_قال رب اجعل لى ء اية

۶۰۳

حضرت زكريا (ع) كى جانب سے خداوند متعال سے علامت طلب كرنا ممكن ہے اس وجہ سے ہو كہ وہ اطمينان حاصل كرنا چاہتے تھے كہ جو كچھ انہوں نے دريافت كياہے وہ وحى الہى ہے نہ كہ شيطانى وسوسہ ہے اس جيسے امور ميں انبياء كرام (ع) كا شك كرنے كا امكان اس وجہ سے ہے كہ كيوں كے وہ صرف خداوند عالم كى ہے امداد سے شيطان سے محفوظ رہتے ہيں اور خداوند كريم بھى كبھى انہيں علامات و نشانياں دكھا كر اور كبھى كسى دوسرے طريقہ سے مطمئن كرتاہے_

۳_ خداوند عالم سے زيادہ اطمينان كى خاطر علامت يا نشانى طلب كرنا، شان رسالت كے ساتھ متصادم نہيں ہے_

قال رب اجعل ليء اية قال ء ايتك الاتكلم الناس

۴_حضرت زكريا (ع) نے دعا كرتے وقت ربوبيت الہى كو مدنظر ركھاہے_قال رب

۵_ حضرت زكريا (ع) كى جانب سے تين دن تك لوگوں كے ساتھ گفتگو نہ كرنا، خداوند عالم كى طرف سے اولاد كے پيدا ہونے كى بشارت كى علامت تھي_قال اء يتك ا لا تكلم الناس ثلاث ليال سويا

كلمہ ''سويّا'' يا تو '' ثلاث ليالي'' كے ليے صفت ہے يا پھر'' ألا تكلم الناس'' كے ليے حال ہے دونوں صورتوں ميں اس سے مراد تين دن اور تين راتيں ہيں اور اس بات كى دليل سورة آل عمران كى آيت نمبر ۴۰ بھى ہے_ فعل '' ألاّ تكلم'' فعل نفى ہے اور اس سے مراد يہ نہيں ہے كہ حضرت زكريا (ع) كى شرعى ذمہ دارى سكوت تھا_ بلكہ يہ اس بات كى خبر دے رہاہے كہ حضرت زكريا (ع) نے تين دن تك سكوت اختيار كيا ہے_

۶_ جس وقت حضرت زكريا (ع) لوگوں كے ساتھ گفتگو پر توانائي نہيں ركھتے تھے اس وقت وہ خداوند متعال كى عبادت و نيايش ميں مشغول رہتے تھے_ألا تكلم الناس ثلاث ليال سويّا

كلمہ '' الناس'' يہ بتارہاہے كہ حضرت زكريا (ع) صرف لوگوں كے ساتھ گفتگو كرنے ميں توانائي نہيں ركھتے تھے نہ كہ اصلاً گفتگو ہى نہيں كرسكتے تھے (يعنى عبادت و ذكر الہى كرسكتے تھے)

۷_ حضرت زكريا (ع) كى طرف سے لوگوں كے ساتھ گفتگو كى توانائي نہ ركھنا خداوند عالم كى طرف سے معجزہ تھا نہ يہ كہ وہ كوئي زبانى يا جسمانى نقص ركھتے تھے_قال اء يتك الا تكلم الناس ثلاث ليال سويا '' سوّي'' اس شخص كو كہاجاتاہے جو اخلاق اور خلقت كے لحاظ سے حداعتدال ميں ہو يعنى نہ تو اس ميں كسى چيز كى كمى ہو اور نہ ہى كسى چيز كى زيادتى ہو (مفردات راغب)

۶۰۴

اس مبنا كى بنياد پر '' سويّا'' ''تكلم'' فعل كے فاعل جو حضرت زكريا (ع) ہيں كے ليے حال ہے تو پھر آيت مباركہ كا معنى كچھ يوں ہوگا كہ تو در حالانكہ صحيح و سالم ہے پھر بھى لوگوں كے ساتھ تين دن تك گفتگو كرنے پر قادر نہيں ہے_

۸_اولاد كے ليے ا نعقاد نطفہ كرتے وقت باپ كے ليے ضرورى ہے كہ وہ تزكيہ نفس بھى كيے ہوئے ہو اور روحانى و نفسانى لحاظ سے بعى اعلى منزل پر فائز ہو_قال رب اجعل لى ء اية قال ء اتيك ألا تكلم الناس ثلاث ليال سويا

حضرت زكريا (ع) نے جو نشانياں طلب كى ہيں اگر وہ انعقاد نطفہ كے زمانہ وقت كو مشخص كرنے كے ليے تھيں تو پھر ان نشانيوں كى خاص اہميت ہے اور آپ(ع) چاہتے تھے كہ خاص مسائل كو ملحوظ خاطر ركھيں اور آداب و احترام كا خيال ركھيں اور انعقاد نطفہ كے ليے نفسانى و روحانى لحاظ سے اعلى مقام پر فائز ہوں _

۹_ حضرت زكريا (ع) نے خداوند متعال كے ساتھ گفتگو كى ہے_قال رب قال ء ايتك

۱۰_ گذشتہ اديان ميں سكوت كے روزہ كا موجود ہونا_قال ء ايتك ألا تكلم الناس ثلاث ليال

'' ألا تكلم الناس'' فعل نفى ہے بعض مفسرين نے احتمال ديا ہے كہ تكلم كى نفي، جزاكے مقام انشاء پر ہے اور تكلم و گفتگو كو ترك كرنے خداوند متعال كى طرف سے حضرت زكريا (ع) كے ليے ايك اختيارى فعل اور شرعى ذمہ دارى تھى جو روزہ ركھناہے سے كنايہ ہے_ اور اس زمانہ ميں روزہ كے صحيح ہونے كى ايك شرط سكوت تھا_

۱۱_ انبياء كرام (ع) كے ليے بھى حقائق كو روشن كرنے كے ليے معجزہ سے كام ليا جانا_ء ايتك ألا تكلم الناس ثلاث ليال

۱۲_ لوگوں كے ساتھ گفتگو قطع كرنے سے فكرى باليدگى اور جنسى طاقت ميں اضافہ ہوتاہے_ا لا تكلم الناس ثلاث ليال

حضرت زكريا (ع) نے جو نشانياں طلب كى ہيں ان كا حضرت يحيى (ع) كے انعقاد نطفہ كے ساتھ تعلق ہے كيوں كہ حضرت زكريا (ع) كو بڑھاپے كى وجہ سے ايسے كام پر قادر نہ تھے اور تين دن تك سكوت اختيار كرنا ممكن ہے فكرى باليدگى اور جنسى طاقت كو بڑھانے كى خاطر ہو _ تا كہ انعقاد نطفہ ہوسكے _

۱۳_ خداوند عالم كا ارادہ، طبعى اسباب و عوامل پرحاكم ہے_قال رب اجعل ...اء ايتك ا لا تكلم الناس ثلاث ليال

۱۴_ حضرت زكريا (ع) كى داستان ميں ايك معجزہ كو دوسرے معجزہ كے ذريعہ ثابت كيا گيا ہے_

ء ايتك ألا تكلم الناس ثلاث ليال

۶۰۵

حضرت زكريا (ع) كا تين دن تك سكوت خود معجزہ ہے جو حضرت يحيى (ع) كى ولادت كو ثابت كررہاہے وہ بھى معجزہ ہے_

آيات خدا:_كى درخواست ۱،۲،۳

اطمينان:_ كے اسباب ۳

اعداد:تين كا عدد

الله تعالي:_ كے ارادہ كى حاكميت ۱۳

انسان :_ كى خلقت كے مراحل ۸

باپ:_ كے تزكيہ كے آثار ۸

بشارت:حضرت يحيي(ع) كى ولادت كي_ ۲

حقائق:_ كو بيان كرنے كے ا سباب ۱۱

دعا:_كے آداب ۴

ذكر:_ربوبيت خدا كا ۴

روزہ:آسمانى اديان ميں سكوت كا ۱۰

ذكريا (ع) :_ كے قصہ كا معجزہ ہونا ۱۴; _ كى زوجہ كا حاملہ ہونا ۱; _ كو بشارت ۵; _ كے تقاضے ۱،۲; _ كى دعا ۴; _ كا تكلم پر قادر ہونے ميں حيرانگى ۷;_كى عبادات ۶; _ كا گفتگو كرنے سے عاجز ہونا ۵،۶; _ كا قصہ ۱،۵،۶; _كى خداوند متعال كے ساتھ گفتگو ۹; _ كے قصہ كى خصوصيات ۱۴

عزلت:_ كے آثار ۱۲

عوامل طبيعي:_ كا كردار ۱۳

غريزہ جنسي:_ كے قوى كرنے كى راہ ہموار كرنا ۱۲

فكر:_ كو تمركز كے اسباب ۱۲

معجزہ:_ كا كردار ۱۱،۱۴

نبوت:مقام _ اور خداوند عالم كى نشانياں ۳

۶۰۶

نطفہ:_ كے انعقاد كى اہميت ۸

يحيى (ع) :_ كى ولادت ميں آيات الہى ۵

آیت ۱۱

( فَخَرَجَ عَلَى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرَابِ فَأَوْحَى إِلَيْهِمْ أَن سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيّاً )

اس كے بعد زكريا محراب عبادت سے قوم كى طرف نكلے اور انھيں اشارہ كيا كہ صبح و شام اپنے پروردگار كى تسبيح كرتے ہو (۱۱)

۱_ حضرت زكريا(ع) ، اپنے فرزند يحيى كى ولادت كے حوالے سے ديئے گئے وعدہ كے پورے ہونے كے وقت عبادت گاہ ميں تھے _فخر ج على قومه من المحراب

بنى إسرائيل كى محرابيں وہى ان كى مسجد يں تھيں جن ميں وہ نماز كيلئے جمع ہوا كرتے تھے (كتاب العين)

۲_ حضرت زكريا نے جب لوگوں كے ساتھ گفتگو ميں عاجزى كا احساس كيا تو عبادت گا ہ سے نكل كر لوگوں كے پاس آگئے _فخرج على قومه من المحراب

۳_ حضرت زكريا، تين روزہ سكوت كى مدت ميں صبح وشام كى عبادت كا وقت داخل ہونے كا لوگوں كو اشارہ سے اعلان كرتے تھے _فخرج على قومه من المحراب فا وحى إليهم أن سبّحوا بكرة وعشيّا

احتمال ہے كہ لفظ بكرہ ( اور عتيّاَ ) فعل'' خرج'' اور'' اوحي'' كيلئے ظرف ہے اس صورت ميں آيت كا مطلب يہ ہوگا چونكہ حضرت ذكريا عبادت كے وقت ہونے كے اعلان كى ذمہ دارى اپنے دوش پر ليئے ہوئے تھے تو ان تين دنوں ميں جبكہ دہ لوگوں سے بات نہيں كرسكتے تھے _ صبح اور عصر ميں ''سَبحُوا'' كے فرمان كو اشارہ كے ذريعے انہيں سمجھاتے تھے _

۴_ حضرت زكريا كے زمانہ ميں لوگوں نے عبادت كيلئے ايك معين جگہ قراردى تھى _فخرج على قومه من المحراب

۵_ خاص جگہ كا عبادت كيلئے انتخاب، ايك پسنديدہ بات ہے كہ جسكے آثار گذشتہ اديان ميں بھى موجود ہيں _

فخرج على قومه من المحراب

۶_ حضرت زكريا، كے ہم مذہب لوگوں كے معبد كا نام''محراب'' تھا _فخرج على قومه من المحراب

۷_عبادت اور الله تعالى سے رازو نياز، شيطان اور الله تعالى كى راہ ميں دوسرى ركاوٹوں سے نبرد آزما ہونے كا ميدان ہے _

۶۰۷

المحراب ( محراب)كى وجہ تسميّہ يہ بيان كى گئي ہے كہ انسان وہاں شيطان سے جنگ كرتا ہے اسى طرح اپنے اند ر حضور قلب پيدا كرنے كيلئے اپنے نفس سے لڑتا ہے ( مصباح)

۸_حضرت زكريا(ع) نے عبادت گاہ سے نكلنے كے بعد اپنى قوم كو يحيى (ع) كى ولادت كى خوشخبرى كے متحقق ہونے كے وقت كو سمجھا يا _أن سبّحو ظاہر يہ ہے كہ جو كچھ حضرت زكريا(ع) اپنى قوم سے چاہا تھا وہ ہونے والے واقعات سے مربوط ہے يعنى حضرت زكريا نے مسئلہ كو انہيں سمجھا ديا اور اسے مواقع پر الله كى تسبيح اور تنزيہ كى ياد دلائي_

۹_ حضرت زكريا(ع) ،سكوت كے روزوں كے شروع ہونے كے بعد اپنى قوم كو عبادت كے متعلقہ احكام، اشارہ اور رمز كے ذريعے واضح كرتے تھے _فأوحى إليهم أن سبّحو ( ا وحى ) كا فاعل زكريا او ر( إليہم ) كى ضمير، قوم كى طرف لوٹ رہى ہے ہر وہ چيز جو سيكھنے كے قصد كے ساتھ كسى بھى صورت ميں دو سرے كيلئے القاء ہو، اسے وحى كہتے ہيں ( مصباح) اور اس آيت ميں مراد اشارہ ہے_ سورہ آل عمران كى (اكتا سويں ) آيت اسى معنى پر شاہد ہے _

۱۰_حضرت زكريا كى قوم، عبادت كيلئے انكى كى طرف سے پيش كيے جانے والے احكام پر عمل پيرا ہوتى تھى _

فأوحى إليهم أن سبّحوا

۱۱_ حضرت زكريا(ع) ، كى قوم ان سے عبادت كے متعلقہ احكام دريافت كرنے كے ليئے عبادت گاہ كے باہران كے انتظار ميں رہتى تھي_خرج على قومه أن سبّحوا

( خرج عليہ ) اور ( دخل عليہ ) اس وقت كہا جاتا ہے كہ جب كوئي شخص داخل ہوتے يانكلتے وقت كسى اور كاسامنا كرتا ہے حضر ت زكريا سے تسبيح كرنے كا فرمان صادر ہونا بتاتا ہے كہ انكى قوم، عبادت گاہ كے باہر انكے احكام سننے كيلئے آكٹھا ہوتى تھى _

۱۲_ حضرت زكريا نے اشارہ كے ساتھ اپنى قوم سے چاہا كہ وہ صبح و شام الله تعالى كى تسبيح كيا كريں _فأوحى إليهم أن سبّحوا بكرة وعشي ( بكرة ) صبح كى نماز اور سورج طلوع ہونے كے درميان كے فاصلہ كو كہا جاتا ہے ( لسان العرب) ''عشيا ''سے مراد يا تو ظہر سے غروب تك كا وقت ہے يا دن كاآخرى حصہ ہے اور بعض اہل لغت سے دوسرے معانى بھى نقل ہوئے ہيں (لسان العرب)

۱۳_ حضرت زكريا (ع) كى قوم تسبيح و عبادت كرنے والے اورالہى لوگ تھے _فخرج على قومه أن سبّحوا

۱۴_ الله تعالى كے وجود پر عقيدہ اور اسكى عبادت و تسبيح

۶۰۸

بشركى قديم تاريخ ميں گذشتہ زمانے ميں بھى تھى _قومه أن سبحوا بكرة و عشيا

۱۵_ صبح اور آخر روز الله تعالى كى تسبيح كيلئے مناسب وقت ہيں _ان سجوا بكرة وعشيا

۱۶_ الله تعالى بوڑھے والد اور بانجھ والدہ كو فرزند عطا كرنے كے حوالے سے ہر قسم كى ناتوانى سے پاك و منزہ ہے _

أن سبحوا

۱۷_حضرت زكريا (ع) كا بڑھاپے ميں بچےّ والا ہونا بتاتا ہے كہ الله تعالى ہر قسم كے نقص و عجز سے منزہ ہے _

أن سبحوا

اسماو صفات :صفات جلال ۱۶

الله تعالى :الله تعالى اور عجز ۷; الله تعالى اور نقص ۱۷;اللہ تعالى كا منزہ ہونا ۱۶; الله تعالى كى پرسش كى تاريخ ۱۳;۱۴; الله تعالى كے منزہ ہونے كى علامات ۱۷

بانجھ:بانجھ كا بچے والا ہونا ۱۶

بڑھاپا:بڑھاپے ميں بچے والا ہونا ۱۶

تربيت:حضرت يحيى كى ولادت كى بشادت ۸

تسبيح :الله تعالى كى تسبيح ۱۴; الله تعالى كى تسبيح كا وقت ۱۵; الله تعالى كى تسبيح كے آداب ۱۵;صيح ميں تسبيح ۱۲; ۱۵; عصر ميں تسبيح ۱۲;۱۵

زكريا :زكريا حضرت يحيى كى ولادت كے وقت ۱،۲; ۸;زكريا كا اشارہ ۳،۹;زكريا كا خاموشى كا روزہ ۲، ۳، ۹;زكريا كا قصہ ۱،۲،۸،۹، ۱۱، ۱۲; زكريا كا كلام كرنے سے عجز ۲; زكريا كا محراب ۶ ;زكريا كى تعليمات۱۱; زكريا كى تعليمات ۱۰ ; ۱۲; زكريا كى عبادت گاہ ۱، ۱۱;زكريا كى عبادت گاہ كانام ۶;زكريا كے بچے والے ہونے كے آثار ۱۷

زكريا كى قوم :زكريا كى قوم كى تسبيحات ۱۲; زكريا كى قوم كى خدا پرستي۱۳; زكريا كى قوم كى عبادات ۱۱، ۱۳; زكريا كى قوم كى عبادت گاہ ۴، ۶; زكريا كى قوم كى عبادت كى كيفيت ۱۰/شيطان :شيطان سے جنگ كرنے كا مقام ۷

عبادت :الله تعالى كى عبادت ۱۴; صبح ميں عبادت ۳ ; عبادت كے وقت كا اعلان ۳;عصر ميں عبادت ۳

عبادت گاہ :آسمانى اديان ميں عبادت ۵; عبادت كا كردار ۷;عبادت گاہ كى اہميت ۵; عبادت گاہ كى تاريخ ۵

عقيدہ :الله تعالى پر عقيدہ ۱۴;عقيدہ كى تاريخ ۱۳;۱۴

۶۰۹

آیت ۱۲

( يَا يَحْيَى خُذِ الْكِتَابَ بِقُوَّةٍ وَآتَيْنَاهُ الْحُكْمَ صَبِيّاً )

يحيى كتاب كو مضبوطى سے پكڑ لو اور ہم نے انھيں بچپنے ہى ميں نبوت عطا كردى (۱۲)

۱_ حضرت زكريا (ع) كيلئے خداوند عالم كى بشارت اور وعدہ جناب يحيى كى معجزہ نما ولادت كے ذريعہ وقوع پذير ہوا_

نبشرك بغلام اسمه يحيى يا يحيى خذالكتب

۲_ حضرت يحيى وحى دريافت كرنے اور الله تعالى كے نزديك ايك ممتاز شخصيت كے مالك تھے _يا يحيى خذالكتب بقوة

يہ كہ ( يا يحيى ) كى پكار كس جانب سے تھى دو احتمال ہيں ۱_ الله تعالى كى جانب سے فرشتہ وحى كے وسيلہ سے تھى ۲_ حضرت زكريا كى اپنے بيٹے يحيى كو نصيحت _آيت كا ظاہر پہلے احتمال كى تائيد كررہا ہے لہذا مندرجہ بالا مطلب اسى بنا ء پر ہے _

۳_ الله تعالى نے حضرت يحيى كو آسمانى كتاب (تورات) كى ہر طرح سے مكمل سمجھ بوجھ ركھنے اور اس پرحتمى طور پرعمل كا فرمان ديا تھا _يحيى خذالكتب بقوة

( الكتاب) پر (الف و لام ) عہدكا ہے ذور يہاں پر ممكن ہے كہ مرا د وہى توارت ہواسيلے كہ يحيى پر كوئي اور كتاب نازل ہوئي يہ معلوم نہيں ہے الله تعالى كافر مان ( خذ ) سمجھ بوجھ اور مكمل تدبر سے كنايہ ہے اور لفظ ( بقوة ) ''خذ ''كے فاعل كيلئے حال ہے اس سے مراد مقام تحصيل علم اور مقام عمل ميں ہر توانائي سے كام لينا ہے _

۴_ معارف اور الہى شريعت كى حفاظت اور اس كے احكام كا اجرا ئ، سختى اورطاقت كى كا محتاج ہے _

خذالكتب بقوة

۵_ معاشرہ كى ہدايت اور شرعى احكام كے اجراء كيلئے الہى رہبروں كى سختى اور قاطعيت كا ضروى ہونا _

يايحيى خذالكتاب بقوة

۶_ علماء اور دينى رہبروں كى آسمانى كتابوں ميں عميق فكر كرنا اور اسكے مطابق اپنے كردار كو محكم كرنے كى ضرورت ہے_يايحيى خذالكتات بقوة

۷_ حضرت يحيى كے زمانہ ميں تورات ايسى كتاب تھى جسميں تحريف نہيں ہوئي تھى بلكہ الله تعالى كى طرف سے تائيد شدہ تھى _يايحيى خذالكتب

۶۱۰

چونكہ امكان ہے كہ يہاں ( الكتاب ) سے مراد تورات ہو تو اس صورت ميں اسكے حصول كيلئے الہى فرمان اس كے مطالب پر صحت كى مہر لگانے كے مترادف ہے

۸_ درست فكر اور حق كى شناخت كى قدرت، الله تعالى كى طرف سے يحيى كو بچپن ميں حاصل ہوئي تھى _

وأتيناه الحكم صبيا

( حكم ) كے ليئے مختلف معانى ذكر ہوئے ہيں بس ايك اسكا معنى ( علم وفہم ) ہے( لسان العرب) مندرجہ بالا مطلب اسى معنى كى بنياد پرہے

۹_اللہ تعالى نے حضرت يحيي(ع) كوبچپن ميں الہى احكام كو اجراء كرنے كى قدرت عطا كى تھى _وأتيناه الحكم صبي

مندرجہ بالا مطلب ميں ( حكم ) سے مراد حاكميت اور قضاوت كا منصب ہے ( قاموس ) ميں آيا ہے كہ حاكم وہ ہے جو حكم جارى كرے _

۱۰_حضرت يحيي(ع) بچپن ميں منصب قضاوت پر فائز تھے _وأتيناه الحكم صبيا

( حكم ) اپنے مختلف معانى ميں سے ايك معنى كے مطابق مصدر اور قضاوت كرنے كے معنى ميں ہے ( لسان العرب)

۱۱_ حضرت يحيى بچپن ميں فوق العادہ استعداد كے حامل تھے _وأتيناه الحكم صبيا

۱۲_ الله تعالى كى طرف سے انسان كو حكمت اور معنوى ومعا شرتى مقام كى عطا، عمر كے كسى خاص حصے سے مشروط نہيں ہے _وأتيناه الحكم صبي

۱۳_ آسمانى كتابوں ميں غورو فكر، حكمت و علم كے حصول كيلئے ايك ضرورى شرط ہے _يا يحيى خذ الكتب بقوة وأتيناه الحكم صبي جملہ '' أتيناہ'' جملہ''خذالكتاب بقوة ''كے ساتھ مرتبط ہے بعيدمعلوم نہيں ہوتا كہ جملہ ''خذالكتاب'' كا جملہ(اتيناه الحكم) كے ليے پيش خيمہ ہو

۱۴_على بن اسباط قال : را يت أباجعفر (ع) فقال يا علّى إن الله إحتج فى الا مامة بمثل ما احتج به فى النبوة فقال : وأتيناه الحكم صبياً ...'' فقد يجوزان يؤتى الحكمة و هوصبى (۱) على بن اسباط كہتے ہيں : ميں نے امام جوادعليہ السلام كو ديكھا انہوں نے

____________________

۱) كافى ج۱ ص۳۸۴ح۷، نوراالثقلين ج۲ ص۳۲۵،ح۳۲_

۶۱۱

...مجھے فرمايا: اے على ابے شك الله تعالى نے امامت كےمقام پر ايسے ہى استدلال كيا ہے جيسے نبوت كے مسئلہ ميں استدلال فرما يا ہے : ''وأتيناه الحكم صبياً '' لہذا يہ ممكن ہے كہ حكمت ايك بچے كو بھى دى جائے _

۱۵_عن النبى (ص) فى قوله ''وأتيناه الحكم صبياً'' قال : اعطى الفهم والعبادة وهو ابن سبع سنين (۱) پيغمبر اكرم (ص) سے الله تعالى كى اس كلام'' وأتيناہ الحكم صبياً'' كے بارے ميں روايت ہوئي كہ آپ نے فرما يا انہيں سات سال كى عمر ميں فہم و عبادت عطا كى گئي _

۱۶_قال رسول الله (ص) قال الله تعالى : ''و أتيناه الحكم صبياً يعنى الزهد فى الدنيا (۲) رسول اكرم(ص) سے روايت ہوئي كہ : الله تعالى نے فرمايا ہے''وأتيناه الحكم صبياً'' يعنى دنيا ميں انہيں زہد ديا _

آسمانى كتب :آسمانى كتب كا كردار ۶; آسمانى كتب ميں تدبر كے آثار ۱۳; آسمانى كتب ميں فكر كى اہميت ۶

الله تعالى :الله تعالى كى بشارت كا محقق ہونا ۱; الله تعالى كى عطا ۸;۹; الله تعالى كے اوامر ۳

امامت :بچپن ميں امامت ۱۴

توريت :توريت كى تاريخ ۷;توريت كى تعليمات پر عمل ۳; توريت كى فہم ۳; توريت ميں تحريف ۷; يحيى كے زمانے ميں تورات ۷

حكمت :بچپن ميں حكمت ۱۴; حكمت كے عطا ء ہونے كى شرائط ۱۲;۱۳

دين :دين پر عمل ۴; دين كى حفاظت ۴

دينى رہبر :دينى رہبروں كا ہدايت دنيا ۵;دينى رہبر وں كى قاطعيت ۵; دينى رہبروں كے عمل كا معيار ۶

روايت :۱۴; ۱۵; ۱۶

زكريا :زكريا كو بشارت ۱/علم :علم كى شرائط ۳

علماء :علماء كے عمل كا معيار ۶/قدرت :قدرت كے آثار ۴

قضاوت :

____________________

۱) الدراالمنشور ج۵ص۴۸۴_

۲) مكارم الاخلاق ص۴۴۷ بحارالانوار ج۷۴ص۹۴ ح۱_

۶۱۲

بچپن ميں قضاوت ۱۰

معنوى مقامات :معنوى مقامات كى شرائط ۱۲

نبوت :بچپن ميں نبوت ۱۴

يحيى :يحيى اور احكام كا اجرا ء ۹;يحيى كا بچپن ۸ ، ۹ ، ۱۰ ، ۱۱ ، ۱۵ ،۱۶; يحيى كا زہد ۱۶; يحيى كے علم كا سرچشمہ ۸;يحيى كو وحى ۲;يحيى كى استعداد ۱۱; يحيى كى خصوصيات ۱۱;يحيى كى شرعى ذمہ دارى ۳ ; يحيى كى عبادات ۱۵;يحيى كى فہم ۱۵; يحيى كى فہم كا سرچشمہ ۸; يحيى كى قاطعيت ۳; يحيى كى قدرت ۹; يحيى كى قضاوت ۱۰; يحيى كى نبوت ۲ ; يحيى كى ولادت كا معجزہ ۱; يحيى كے فضائل ۸; يحيى كے مقامات ۲، ۹،۱۰،۱۵

آیت ۱۳

( وَحَنَاناً مِّن لَّدُنَّا وَزَكَاةً وَكَانَ تَقِيّاً )

اور اپنى طرف سے مہربانى اور پاكيزگى بھى عطا كردى اور وہ خوف خدا ركھنے والے تھے (۱۳)

۱_ الله تعالى نے يحيى كو رحمت ومحبت كى نعمت سے نوازا_ء اتيناه و حنا ناً من لدنا

( حنان ) مصدر ہے اور اسكا مطلب شفقت اور مہربانى ہے ( مصباح) اسكى تنوين تفخيم كيلئے ہے يہ كلمہ گذشتہ آيت ميں ( الحكم ) پر عطف ہے _

۲_ الله تعالي،محبت و شفقت كا منبع ہے اور اسے بعض منتخب بندوں كو عطا كرنے والا ہے _وحناناًمن لدنا

( من لدّنا ) يہ بيان كررہا ہے كہ يحيى كوعطا ہونے والى عطوفت ذات اقدس كى رحمت و عطوفت كے چشمہ سے ہوئي تھى _

۳_ انسان كا دردمند و شفقت كے احساسا ت سے مالامال ہونا اسكى عظمت كا موجب ہے _وحناناً من لدنا

۴_ حضرت يحيى (ع) اللہ تعالى كى بارگاہ ميں مقرب اور اسكے محبوب بندوں ميں سے تھے _وحناناً من لدنّا

حضرت يحيي(ع) كومحبت كے عطا ہونے ميں چار قسم كے تصور ہيں كہ (حناناً من لدنا ) كى صفت ان تمام كے ساتھ سازگا ہے _ الله تعالى يا لوگوں كى يحيى سے محبت اور حضرت يحيي(ع) كى الله تعالى يا لوگوں سے محبت _ مندرجہ بالا مطلب ميں الله تعالى كى ان سے محبت كا ذكر ہے _

۶۱۳

۵_ حضرت يحيى الله تعالى كے ارادہ كے زير سايہ لوگوں كى اپنى نسبت گہرى محبت كے حامل تھے _

وحناناً من لدنا

اس مطلب ميں ( حنانا) سے مراد، لوگوں كى يحيي(ع) كى نسبت محبت ہے _

۶_دوسرے كى نسبت گہرى محبت اور شفقت ايك ضرورى اور پسنديدہ ترين الہى رہبروں كى صفت ہے _

و حنا ناً من لدنا

يہ كہ (أتيناه الحكم ) كے بعد سب سے پہلى صفت(حنانا) آئي ہے مندجہ بالا مطلب اس سے ليا گيا ہے _

۷_ حضرت يحيى (ع) الله تعالى كى عنايات كے زير سايہ اسكے عاشق اور اسكے اشتياق سے سرشار تھے_حناناً من لدن

اس مطلب ميں ( حنانا ) كى صفت اس محبت كو بيان كررہى ہے جو الله تعالى نے يحيى كو اپنى نسبت عطا كى ہے_

۸_حضرت يحيي(ع) ، الله تعالى كى خاص عنايات كے زير سايہ خصوصى صلاحيت ، رشد اور كمال كے حامل تھے_

ئاتينه و زكوة

لفظ'' زكاة'' '' صلاحيت'' '' پاكيزگى '' ''رشد كرنا'' مبارك اور تمجيد و تعريف كے معنى ميں استعمال ہوتاہے _( لسان العرب) ہر مقام پر اسكا مناسب معنى مراد لياجائے گا _

۹_ حضرت يحيي(ع) ، ہميشہ سے باتقوى تھے _وكان تقي ( تقياً) مادہ ( وقى ) سے صفت مشبہ ہے_ يہ راسخ اور ثابت ہونے پر دلالت كرتى ہے _اور لفظ ( كان ) بھى بہت سے مقامات پر اپنے اسم كى حالت كے ثابت ہونے پر دلالت كرتا ہے لہذا ( وكان تقياً) يعنى يحيى ہميشہ پرہيز گا ر تھے_

۱۰_ حضرت يحيي(ع) كا تقوى اور پرہيزگار ى انكى حكمت ،الہى محبت اور معنوى كمال سے بہرہ مند ہونے كا پيش خيمہ تھى _وحناناً من لدنا و زكوة وكان تقيا يہ كہ ( وكان تقيا ً) كا سياق آيت (واتينا ه الحكم ) كى پہلى تعبير سے مختلف ہے كہ يہاں تقوى كو خود يحيى كى طرف نسبت دى گئي ہے حنان اورزكات كو الله تعالى كى طرف نسبت دى گئي ہے يہ چيز واضح كررہى ہے كہ يحيى كا تقوى بعنوان عمل نفسى انكے الہى عطيا ت كے حامل ہونے كا پيش خيمہ تھا _

۱۱_حضرت يحيي(ع) ( اپنى الہى كتاب پر عمل اور الہى احكام كے اجرا ء كى ذمہ دارى ميں معمولى سى كوتاہى برداشت نہيں كرتے تھے _وكان تقيا گذشتہ آيت كے قرينہ كى بناپر ( تقياً) كا متعلق وہ ذمہ دارياں ہيں جو يحيى پرعائد تھيں اور انہوں نے اپنى ذمہ دارى كو اس طرح ادا كيا كہ اپنے ليے اسے الہى عذاب سے حفاظت اور بچاؤ كا ذريعہ قرار ديا _

۶۱۴

۱۲_ الہى تقوى كى رعايت، انسان كے رشد و كمال كا پيش خيمہ ہے _زكوة و كان تقي

۱۳_ عن أبى عبدالله (ع) فى قوله تعالى : (وحناناً من لدنا ) قال :إنّه كان يحيى إذا دعاقال فى دعائة: ''يارب يا الله '' ناداه الله من السماء لبيك يا يحيى سل حاجتك (۱) امام صادق (ع) سے الله تعالى كے كلام (حنانا ً من لدنا ) كے بارے ميں روايت نقل ہوئي ہے كہ بے شك يحيي(ع) جب دعا كيا كرتے تو اپنى دعا ميں كہتے تھے _ اے پروردگار اے خدا تو خداوند عالم آسمان سے انہيں ندا ديتا تھا لبيك اے يحيى اپنى حاجت طلب كرو _

الله تعالي:الله تعالى كے اراد كے آثار ۵; الله تعالى كے عطيات ۱;۲;۸

الله تعالى كے برگزيدہ بندے :الله تعالى كے برگزيدہ بندوں كى مہربانى ۲

الله تعالى كا لطف :الله تعالى كے لطف كے شامل حال افراد۷

الله تعالى كے محب:۷الله تعالى كے محبوب :۴

اہميتں :اہميتوں كا معيار ۳

تقوى :تقوى كے آثار ۱۳

دينى رہبر :دينى رہبروں كى مہربانى ۶; دينى رہبروں كے صفات---۶

روايت :۱۳

كمال :كمال كاپيش خيمہ ۱۲

مہربانى :مہربانى كى عظمت ۳; مہربانى كاسرچشمہ۲

يحيى :يحيى سے محبت كاسرچشمہ ۵; يحيى كا اپنى ذمہ دارى پر عمل ۱۱;ييحيى كا تقرب ۴; يحيى كا كمال ۸;يحيى كى حكمت كا پيش خيمہ ۱۰; يحيى كى دعا ۱۳;يحيى كى محبت ۷; يحيى كى محبوبيت ۴ ; يحيى كى محبوبيت كا پيش خيمہ ۱۰; يحيى كى مہربانى ۱; يحيى كے احساسات ۱;يحيى كے تقوى كے آثار ۱۰;يحيى كے تقوى ميں دوام ۹;يحيى كے فضائل ۵;۸;۹

____________________

۱)محاسن برقى ج۱ص۳۵ح۳۰نورالثقلين ج۳ ص ۳۲۶ح۳۶_

۶۱۵

آیت ۱۴

( وَبَرّاً بِوَالِدَيْهِ وَلَمْ يَكُن جَبَّاراً عَصِيّاً )

اور اپنے ماں باپ كے حق ميں نيك برتاؤ كرنے والے تھے اور سركش اور نافرمان نہيں تھے (۱۴)

۱_ حضرت يحيي(ع) ، اپنے ماں باپ كى نسبت بہت زيادہ نيكى كرنے والے تھے _وبراًبوالديه

لفظ (برا) گذشتہ آيت ميں ( تقيا ً)پرعطف ہے اور كلمہ ( بار ) كا معنى ديتا ہے البتہ چو نكہ ( برّ) ميں مبالغہ ہے لہذا ( برّالوالدين ) سے مراد انكى نسبت بہت زياد ہ نيكى اور احسان كرنا ہے _ (مفردات راغب)

۲_ ماں باپ كے ساتھ نيكى اور احسان، الله تعالى كے نزديك انتہائي عظمت كا حامل ہے _و برّاًبوالديه

۳_ والدين كے ساتھ احسان كرنا، تقوى كا واضح نمونہ اور اس كا لازمہ ہے _وكان تقياً _ و برًا بوالديه

۴_ والدين كے ساتھ نيكى كرنا، انسان كے رشد اور معنوى كمال كيلئے پيش خيمہ ہے _وزكوة وبرًاً بوالديه

جس طرح جملہ (وكان تقيّاَ)جملہ (حنا ناً من لدنا ) كيلئے علت تھا جملہ (''برًا بوالديه'' بھى كان ) پر عطف ہے اور يہى مقام ركھتا ہے _

۵_ حضرت يحيي(ع) لوگوں كے ساتھ اكڑنے، بڑائي كا اظہار كرنے ، بلا وجہ رعب جمانے اور لوگوں كى حاجات سے منہ پھير نے جيسى خصلتوں سے پاك تھے_و لم يكن جباراً عصيا

''جبار''مبالغہ كا صيغہ ہے جس كے معنى اكٹر نے كے ہے كہ جس ميں انسان دوسرے كے حق كا لحاظ نہيں كرتا (لسان العرب )اور اسى طرح ماحول پر مسلّط ہونے اور جھوٹى بڑائي كا دعوى كرنے والے كے معنى ميں بھى آيا ہے_ (مفردات راغب ) ( عصي) بھى صيغہ مبالغہ ہے تو لوگوں سے مربوط'' برًا'' اور'' جبا راً'' كے قرينہ كى بناء پر عصى سے مراد لوگوں كى حاجات كو پورانہ كرنے والااور انكے مقابل ميں انكسارى سے كام نہ لينے والاہے، كلام منفى ميں صيغہ مبالغہ كا استعمال گويا نفى ميں مبالغہ كا معنى دے رہا ہے _

۶_ حضرت يحيي، اپنے والدين سے نيكى كرنے كے علاوہ كبھى انكے ساتھ زبردستى سے كام نہيں ليتے تھے اور نہ ہى انكے فرمان كے خلاف سراٹھا تے تھے _وبرابوالديه ولم يكن جباراً عصيا

چونكہ گذشتہ جملات، حضرت يحيي(ع) كے بارے ميں محبت اور شفقت كوبيان كررہے تھے اور انكے واضح صفات ميں

۶۱۶

سے انكى والدين كے ساتھ نيكى كى طرف اشارہ كيا گيا ہے لہذا احتمال ہے كہ يہاں جباريت اور عصيان كى نفى كا تعلق بھى انكے والدين كے ساتھ مربوط ہو لہذا كہا جاسكتا ہے كہ حضرت يحيى اپنے والدين كے سامنے نہايت خاضع اور ان كے فرمان كے مطيع تھے_

۷_ حضرت يحيى ، الله تعالى كے سامنے گناہ سے پاك تھے_

يہ بھى كہا جاسكتا ہے كہ جملہ''و لم يكن عصيا'' مطلق سركشى اور گناہ ( لوگوں كى حاجات كو رد كرنايا الله كے حضور معصيت ہو ) كى نفى پر دلالت كررہا ہے _

۸_ حضرت يحيى الله تعالى ، والدين اور معاشرہ كے مقابلے ميں ايك وظيفہ شناس اور ذمہ دار انسان تھے _

و كان تقياً وبرًا بوالديه ولم يكن جباراً عصيا

''تقياً'' حضرت يحيى كا خدا سے رابطہ كى نشانى ، ''براًبوالديہ'' والدين كے ساتھ اور لم يكن جباراً لوگوں اور معاشرہ كے ساتھ رابطہ كى نشانى ہے _

۹_تكبر، تسلّط كى خواہش اور سركشى جيسى صفات ، انسان كے رشد اور كمال كيلئے ركاوٹيں ہيں _

و ء اتينه ...زكوة وكان ...و لم يكن جباراً عصيا

جملہ ''لم يكن ''گذشتہ آيت ميں جملہ كان پرعطف ہے اور جملہ''أتيناه الحكم وزكاة ''كيلئے ايك اور علت بيان كررہا ہے _

۱۰_غرور اور سلطہ طلبى عصيان اور گناہ كا پيش خيمہ ہے _ولم يكن جبّاراً عصيّا

۱۱_ حضرت يحيى (ع) ، حضرت زكريا (ع) كى آرزو كے مطابق فرزند تھے كہ جنكا اخلاق و كردا ر انكى رضايت كے عين مطابق تھا _و كان تقيّا وبرًا بوالديه و لم يكن جبّاراً عصيّا

حضرت زكريا (ع) كى دعا (واجعله ربّ رضيّاً ) كے بعد حضرت يحيي(ع) كے اوصاف كا بيان ہونا حضرت يحيى كے اوصاف كى حضرت زكريا كے دعا سے مطابقت واضح كررہا ہے _

بڑائي كا اظہار :بڑائي كے اظہار كے اسباب ۹//تقوى :تقوى كى علامات ۳

تكبر :تكبر كے آثار ۱۰//زكريا (ع) :زكريا (ع) كى تمنائيں ۱۱; زكريا كے بيٹے ۱۱

۶۱۷

سلطہ طلبى :سلطہ طلبى كے آثار ۹;۱۰

عصيان:عصيان كا پيش خيمہ ۱۰; عصيان كے آثار ۹

عظمتيں :۲

كمال:كمال كا باعث ۴; كمال كيلئے ركاوئيں ۹

گناہ :گناہ كا باعث ۱۰

والدين :والدين سے نيكى ۱،۳،۶;والدين سے نيكى كى اہميت ۲; والدين سے نيكى كے آثار ۴

يحيى :يحيى كے فضائل ۵،۶،۸،۱۱;يحيى اور سلطہ طلبى ۵; يحيى اور گناہ ۷; يحيى اور والدين كے ساتھ زبردستى ۶; يحيى سے رضايت ۱۱;يحيى كا اپنى شرعى ذمہ دارى پر عمل ۸;يحيى كا ذمہ دارى لينا ۸;يحيى كى پاكيزكي۵،۷; يحيى كى عصمت ۷; يحيى كى نيكى ۱،۷;يحيى كے اخلاق ۱۱;يحيى كے مقامات ۷

آیت ۱۵

( وَسَلَامٌ عَلَيْهِ يَوْمَ وُلِدَ وَيَوْمَ يَمُوتُ وَيَوْمَ يُبْعَثُ حَيّاً )

ان پر ہمارا سلام جس دن پيدا ہوئے اور جس دن انھيں موت آئي اور جس دن وہ دوبارہ زندہ اٹھائے جائيں گے (۱۵)

۱_ حضرت يحيى (ع) اپنى ولادت ، وفات اور حشر پر الله تعالى كے خصوصى سلام ميں شامل ہيں _

وسلم عليه بوم ولد و يوم يموت ويوم يبعث حيا

۲_ حضرت يحيى (ع) اپنى ولاد ت كے موقع پر ہر قسم كے گزند اور نقص سے امان ميں تھے اور رشد و كمال كيلئے تمام ضرورى اسباب و شرائط ان ميں مہيا تھيں _وسلم عليه يوم ولد

سلام كے چند معانى ہيں ايك معنى ہرقسم كے گزند اور آفت سے سلامتى ہے _ البتہ الله تعالى كى طرف سے سلام ،تكوينى حيثيت كا ہے اورحوادث كے حوالے سے ايك خبر ہے پس (سلام عليہ ) يعنى الله تعالى كى طرف سے حضرت يحيى (ع) ہر قسم كے جسمى ضرراور عقيدہ كے حوالے سے انحراف سے ضمانت شدہ ہيں _

۳_حضرت يحيى (ع) ، اپنى موت اور روز قيامت ہر قسم كے رنج اور عذاب سے محفوظ ہيں _

وسلم عليه يوم يموت و يوم يبعث حيا ً

( ولد ) فعل ماضى ہے اور'' يموت '' فعل مضارع ہے تو سياق ميں يہ تبديلى بتاتى ہے كہ آيت كا مطلب حضرت يحيى كى

۶۱۸

زندگى كا زمانہ منعكس كررہا ہے كہ الله تعالى نے اس زمانہ ميں انكى ولادت كى عافيت كى خبردى اور انكى موت اور روز قيامت كے حشر كى بھى ضمانت اور خوشخبر ى دى ہے _

۴_حضرت يحيى (ع) ، الله تعالى كے حضور خصوصى كرامت و عظمت كے حامل تھے _وسلم عليه يوم ولد و يوم يموت ويوم يبعث حيا

۵_ انسان كے لي ے ولادت كا زمانہ ، موت كے لمحات، اور روزقيامتتين حساس اور تقدير ساز مرحلے ہيں _

وسلم عليه يوم ولد و يوم يموت و يوم يبعث حيا

۶_ انسان، موت كے لمحات ميں بھى ( ولادت اور قيامت كے زمانوں كى مانند ) الله تعالى كى جانب سے خصوصى سلامتى اور امان كا محتاج ہے_و سلم عليه يوم ولد و يوم يموت و يوم يبعث حيا

( سلام )كا نكرہ ہونا ان كے ممتاز ہونے كو بيان كررہا ہے، موت كے وقت سلامتى سے مراد وحشت اضطراب اور نااميدى جيسے رنج دينے والے اسباب كا سامنا كرنے كى صورت ميں امان ميں ہونا ہے_

۷_ تقوى ،والدين كے ساتھ احسان ، تسلطّ كى خواہش اور عصيان سے پرہيز، مكمل سلامتى اور امان سے سرشار انجام كا باعث ہيں _و كان تقياً _ وبراًبوالديه و لم يكن جباراً عصياً و سلم عليه يوم ولد ويوم يموت و يوم يبعث حيا

۸_ انسان، روز قيامت دوبارہ زندہ ہونگے _يوم يموت و يوم يبعث حيا ً

( حياً) حال ہے ( يوم يموت ) ميں انسان كى موت كے بعد اسكى بعث سے مقصود يہ ہے كہ حشر كے روز تمام انسان دوبارہ زندہ ہونگے _

۹_ حضرت يحيى كى آخرت ميں خصوصى زندگى ہوگى _و يوم يبعث حي فعل (يبعث )زندہ ہونے پر بھى دلالت كرتا ہے_ بعد ميں (حياً) كى تصريح ممكن ہے اس ليے ہو كہ ذوسرے انسانوں كے مقابلے ميں حضرت يحيى كى ايك خصوصى زندگى ہے _

۱۰_عن أبى الحسن الرضا (ع) : إن أوحش ما يكون هذا الخلق فى ثلاثه مواطن يوم ولد ويوم يموت و يوم يبعث وقد سلّم الله عزوجل على يحيى فى هذه الثلاثه المواطن وآمن روعته فقال : وسلام عليه يوم ولد ويوم يموت ويوم يبعث حياً (۱) امام رضا(ع) سے روايت نقل ہوئي ہے كہ مخلوق كيلئے تين وحشتناك ترين مقام ہيں

____________________

۱)عيون اخبار الرضا ج۱ص۲۵۷ب۲۶ح۱۱، نورالثقلين ج۳ص۳۲۷ح۳۸_

۶۱۹

:جس دن وہ پيداہواور جس دن وہ فوت ہو اور جس دن وہ اٹھا يا جائے گا اور الله تعالى نے حضرت يحيى ان تينوں مقامات كے لحاظ سے سلام بھيجا اور ان مقامات كى وحشت سے انہيں امان دى اور فرمايا :وسلام عليہ يوم ولد ويوم يموت ويوم يبعث حياً _

الله تعالي:الله تعالى كا سلام ۱

امان :امان كا باعث ۷; امان كا سرچشمہ ۶; ولادت كے وقت امان ۶

انجام :اچھے انجام كا پيش خيمہ ۷/انسان :انسان كى احتياج ۶

تقدير :تقدير ميں تاثير ركھتے والے اسباب ۵

تقوى :تقوى كے آثار ۷

روايت :۱۰

سلامتى :سلامتى كا پيش خيمہ ۷; سلامتى كا سرچشمہ ۶;/ولادت كے وقت سلامتى ۶

سلطہ طلبى :سلطہ طلبى سے بچنے كے آثار ۷/ضرورتيں :امان كى ضرورت ۶; سلامتى كى ضرورت ۶

عصيان :عصيان سے بچنے كے آثار ۷

قيامت :قيامت كے وقت امان ۶; قيامت كى اہميت ۵; قيامت كا خوف ۱۰ ; قيامت كے وقت سلامتى ۶

مردے :مردوں كاآخرت ميں زندہ ہونا ۸

موت :موت كے وقت كى اہميت ۵; موت كا خوف ۱۰

والدين :والدين سے نيكى كے آثار ۷

ولادت :ولادت كے وقت كى اہميت ۵; ولادت كا خوف ۱۰

يحيى (ع) :قيامت ميں يحيى (ع) ۱;۳;۱۰;يحيى (ع) پر سلام ۱; ۱۰ ; يحيى (ع) پر سلامتى ۱;۲;۳;يحيي(ع) كى اخروى زندگى كى خصوصيات ۹ ;يحيى (ع) كى موت ۱;۳;۱۰; يحيى (ع) كى ولادت ۱; ۲;۱۰; يحيى (ع) كے فضائل ۲;۳; ۹ ; يحيى (ع) كے كمال كا باعث ۲;يحيى (ع) كے ليے امان ۲; ۳

۶۲۰

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809

810

811

812

813

814

815

816

817

818

819

820

821

822

823

824

825

826

827

828

829

830

831

832

833

834

835

836

837

838

839

840

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863

864

865

866

867

868

869

870

871

872

873

874

875

876

877

878

879

880

881

882

883

884

885

886

887

888

889

890

891

892

893

894

895

896

897

898

899

900

901

902

903

904

905

906

907

908

909

910

911

912

913

914

915

916

917

918

919

920

921

922

923

924

925

926

927

928

929

930

931

932

933

934

935

936

937

938

939

940

941

942

943

944

945