تفسير راہنما جلد ۱۰

تفسير راہنما 6%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 945

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 945 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 247148 / ڈاؤنلوڈ: 3402
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱۰

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

اقدار :اقدار معنوى كا بر ترہونا ۲;اقدار معنوى كا جاودانہ ہونا ۱،۲;اقدار معنوى كاملاك۸;

الله تعالى :الله تعالى كى برترين جزائيں ۲;الله تعالى كى جزاو ں كاسبب۷;الله تعالى كى جزاو ں كى جاودانيت ۱،۲;الله تعالى كے فضل كا سبب۱۰;

جزا:جزا كے اسباب ۶;جزاكے مراتب;۴

سختى :سختى كے آثار ۸

سعادت :اخروى سعادت كا سرچشمہ ۱۰;سعادت كے عوامل ۹

صبر:صبر كى اہميّت۸;صبركے آثار ۷،۸،۹

صبر كرنے والے افراد:صبر كرنے والوں پر لطف وكرم ۵;صبركرنے والوں كا پسنديدہ عمل ۳;صبر كرنے والوں كى پاداش۳;صبركرنے والوں كے مقامات۵

عہد :عہد سے وفا كے آثار ۶

عمل :پسنديدہ عمل كى پاداش ۴;پسنديدہ عمل كے مراتب۴;عمل كى قدروقيمت۸;عمل كے آثار۱۰

لطف خدا:لطف خدا كے شامل حال افراد۵

مادى امكانات :مادى امكانات سے اعراض كا سبب ۷;مادى امكانات كى ناپائيداري۱

معنوى مقامات:معنوى مقامات كے اسباب۹،۱۰

۵۸۱

آیت ۹۷

( مَنْ عَمِلَ صَالِحاً مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُم بِأَحْسَنِ مَا كَانُواْ يَعْمَلُونَ )

جو شخص بھى نيك عمل كرے گا وہ مرد ہو يا عورت بشرطيكہ صاحب ايمان ہو ہم اسے پاكيزہ حيات عطا كريں گے اور انھيں ان اعمال سے بہتر جزا ديں گے جو وہ زندگى ميں انجام دے رہے تھے _

۱_خدا كى بارگاہ ميں عمل صالح كى اہميّت، ايمان كے ساتھ مشروط ہے _من عمل صالحاًوهومؤمن

۲_الہى پاداش سے بہرہ مند ہونے اورپاكيزہ وپسنديدہ حيات سے مستفيد ہونے ميں مرد وعورت برابر ہيں _

من عمل صالحاًمن ذكر وانثى وهومؤمن فلنحيينّه حياةًطيّبهً

۳_انسان كا پاكيزہ اور خوشحال زندگى كا حصول، ايسے عمل صالح كا مرہون منت ہے جس كا سرچشمہ ايمان ہو_

من عمل صالحا ًوهومؤمنٌفلنحيينّه حياةًطيبةً

۴_انسان كے ليے كمال اور برترين حيات تك رسائي كے ليے ايمان اور عمل صالح دو اہم سبب ہيں _

من عمل صالحاًوهومؤمن ٌفلنحيينّه حياةطيبةً

''فلنحيينّه حياةطيبةً'' جملہ سے مراد، معنوى زندگى ہے چونكہ يہ واضح سى بات ہے جو لوگ عمل صالح انجام ديتے ہيں ان كے پاس مادى زندگى ہے اور معنوى حيات سے مراد، وجود كا كمال و رشد وبلندى ہے _

۵_انسان كى دنيوى زندگى كى سلامتى اور پسنديدہ ہونے

۵۸۲

ميں ايمان اور عمل مو ثر ہيں _من عمل صالحا ًوهومؤمن فلنحيينّه حياةطيبةً

مذكورہ بالاتفسير اس نكتہ پر موقوف ہے كہ '' حياة طيبةً'' سے مراد، يہى دنيوى زندگى ہو_

۶_حقيقى اور قابل قدر زندگى ايسى زندگى ہے جو ايمان اور عمل صالح كے ساتھ ہو_من عمل وهومؤمنٌفلنحيينّه حياةً طيبةً

مذكورہ تفسير دو نكات پر موقوف ہے (الف)اس بناء پر كہ '' حياةً طيبةً'' سے مراد، دنيوى زندگى ہو (ب)دنيوى زندگى ميں مؤمن اورنيك كردار لوگوں كا زندہ ہونا اس مطلب كى طرف اشارہ ہوكہ زندگى ايمان كے بغير در حقيقت انسان كے ليے شائستہ اور اس كى شان كے خلاف ہے اور حقيقى زندگى ايمان اور عمل صالح ہے_

۷_خداوند عالم نيك كردار مؤمنين كو ان كے بہترين عمل كى بنا ء پر پاداش عطا كرنے والا ہے _

من عمل صالحاً ...وهو مؤمن لنجز ينهّم ا جر هم باحسن ما كانوا يعملون

۸_سعادت اور اخروى پاداش تك رسائي ميں عمل صالح كا اساسى اوربنيادى كردار ہے_

من عمل صالحاً وهو مؤمن ...لنجز ينّهم اجر هم باحسن ما كانوا يعملون

مذكورہ تفسير اس بناء پر ہے كہ آيت كى ابتداء ميں عمل كا موثرہونا، ايمان كے ساتھ مشروط ہے_

(ومن عمل صالحاً ...وهو مؤمن ) در حالانكہ آيت كے آخر ميں اخروى پاداش كو فقط عمل كے ساتھ مربوط قرار ديا گيا ہے اور ايمان كے بارے ميں گفتگو نہيں كى گئي_

۹_''عن النبى صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فى قوله تعالى ''فلنحيينه حياة طيبةّ'' قال : انّها القنا عة والرضا بما قسم الله (۱)

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے خداوند عالم كے اس قول ''فلنجينّہ حياة طيبة'' كے بارے ميں روايت نقل ہوئي ہے كہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا : بے شك حيات طيبہ يہ ہے كہ خداوند عالم نے جو چيز تقسيم كى ہے اس پر قانع اور راضى ہوجائيں _

اقدار:اقدار كا ملاك۱،۶

الله تعالي:الله تعالى كى جزائيں ۷; الله تعالى كے افعال۷; الله تعالى كے مقررات پر راضى ہونا ۹

ايمان:ايمان كے آثار ۱،۳،۴،۵

____________________

۱)مجمع البيان ،ج۶،ص۵۹۳،نورالثقلين ،ج۳، ص۸۴ ، ح۲۰۶_

۵۸۳

پاداش:اخروى پاداش كے اسباب ۸; پاداش سے استفادہ ۲; پاداش كے اسباب۷

تكامل:تكامل كے اسباب۴

حيات:حيات طيبہّ سے مراد ۹

زندگي:پاكيزہ زندگى كا سبب۳; زندگى ميں ايمان ۶; زندگى ميں عمل صالح ۶; سلامت زندگى كے اسباب۵; قابل قدر زندگي۶

روايت:۹

سعادت:سعادت كے عوامل۸

عورت:عورت كى پاكيزہ زندگى ۲;مرد و عورت كا مساوى ہونا ۲

عمل صالح:عمل صالح كى قدر وقيمت كے شرائط ۱; عمل صالح كے آثار ۳،۴،۵،۸

قناعت:قناعت كى اہميت ۹

مرد:مرد كى پاكيزہ زندگي۲

معنوى مقامات:معنوى مقامات كے اسباب ۴

آیت ۹۸

( فَإِذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ فَاسْتَعِذْ بِاللّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ )

لہذا جب آپ قرآن پڑھيں تو شيطان رجيم كے مقابلہ كے لئے اللہ سے پناہ طلب كريں _

۱_ قرآن كى تلاوت كے وقت شيطان كے شر سے خداوند عالم كى پناہ لينا ضرورى ہے_

۵۸۴

فإذا قرا ت القرآن فاستعذ باللّه من الشيطان الرجيم

۲_ شيطان كے شر سے محفوظ رہنے ميں استعاذہ اور خدا كى پناہ موثر ہے_فاستعذ با للّه من الشيطان الرجيم

۳_ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر نزول وحى كے ابتدائي مراحل ميں قرآن ،اسلام كى آسمانى كتاب كے ناموں سے متعارف تھا_

فإذا قرآت القرآن

۴_ تلاوت قرآن كے وقت انسان، شيطان كے حملہ و غضب كے خطرہ سے دوچار ہوتا ہے _فإذا قرا ت القرآن فاستعذ

۵_ شيطان، قرآن كى تلاوت اور انسان كا اس كى تعليمات سے آگاہ ہونے كے مخالف ہے_

فإذا قرا ت القرآن فاستعذ باالله من الشيطان الرجيم

شيطان كے شر سے انسان كى خداوند عالم كى پناہ لينا اس چيز كو بيان كررہا ہے كہ شيطان تلاوت قرآن اور اس سے آشنائي سے خوش نہيں ہے قابل ذكر ہے كہ بعد والى آيت جو كہ شيطان كے تسلط اور مؤمنين كے اس تسلط سے محفوظ رہنے كے بارے ميں ہے اس مطلب پر موّيد ہے_

۶_ شيطان ، بارگاہ الہى سے دھتكار ا ہوا ہے_من الشيطان الرجيم

۷_ بارگاہ الہيّہ سے شيطان كا دھتكار ا جانا اس بات كا سبب ہے كہ وہ انسان كے ليے شر پيدا كرتا ہے اور اس كے شر سے خدا كى پناہ لينے كے ضرورى ہونے كا فلسفہ بھى يہى ہے _فاستعذ باللّه من الشيطان الرجيم

۸_ شيطان كى ''رجيم'' كے ساتھ توصيف ، ممكن ہے علّت كو بيان كرنے كى طرف اشارہ اور پناہ لينے كے لزوم كا فلسفہ ہو_

۹_ تلاوت قرآن، عمل صالح اور خاص اہميت كى حامل ہے_من عمل صالحاً ...فاذا قرا ت القرآن فاستعذ

مذكورہ تفسير ما قبل آيت جو عمومى صورت ميں عمل صالح كے بارے ميں تھى اور مذكورہ آيت كہ جو ايك باعظمت عمل (تلاوت قرآن) كے بارے ميں ہے كے با ہمى ربط كى بناء پر ہے_

۱۰_انسان ہر نيك عمل ميں شيطان كے حملہ و وسوسہ سے دوچار اورخداوند عالم كى پناہ لينے كا محتاج ہے _

من عمل صالحاً ...فاذا قرا ت القرآن فاستعذبالله من الشيطن الرجيم

مذكورہ مطلب اس احتمال كى بناء پر ہے كہ تلاوت قرآن عمل صالح كے ايك نمونہ كے عنوان سے

۵۸۵

ذكر ہو كہ ما قبل آيت ميں اس كے بارے ميں گفتگو ہوئي تھى _

۱۱_ تمام انسان حتى كہ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھى شيطان كے شرسے خدا كى پناہ لينے كے محتاج ہيں _

فاذا قرا ت القرآن فاستعذ بالله من الشيطان الرجيم

۱۲_''عن ابى جعفر عليه‌السلام قال: فاذا قرا ت بسم الله الرحمن الرحيم فلا تبالى الا تستعيذ ...امام باقرعليه‌السلام سے روايت نقل ہوئي ہے كہ آپ نے فرمايا : جس وقت بھى تم''بسم الله الرحمن الرحيم'' كى تلاوت كرو تو ضرور استعاذہ''اعوذ بسم الله من الشيطان الرجيم '' بھى كہو_

۱۳_عن سماعة عن ابى عبدالله عليه‌السلام فى قول الله : ''واذا قرا ت القرآن فاستعذبالله من الشيطن الرجيم ''قلت كيف اقول قال: تقول : استعيذ بالله السميع العليم من الشيطن الرجيم و قال :انّ الرجيم ا خبث الشيّاطين (۱) سماعة كہتے ہيں كہ ميں نے امام صادقعليه‌السلام سے خداوند عالم كے اس قول''واذا قرا ت القرآن فاستعذ بالله من الشيطان الرجيم'' كے بارے ميں سوال كيا كہ ہم كس طرح پڑھيں توحضرت نے فرمايا كہ اس طرح كہو ''استعيذ باالله السميع العليم من الشيطان الرجيم'' ''رجيم'' خبيث ترين شيطان ہے _

۱۴_''عن على بن محمد العسكرى عليه‌السلام يقول : معنى الرجيم انه مرجوم باللعن مطرود من مواضع الخير لا يذكره مؤمن الا لعنه و ان فى علم الله السابق انه إذا خَرَجَ القائم عليه‌السلام لا يبغى مؤمن فى زمانه الا رجمه بالحجاره كما كان قبل ذلك مرجوماً باللعن (۲) امام ہاديعليه‌السلام سے ''رجيم'' كے بارے ميں روايت نقل ہوئي ہے كہ آپعليه‌السلام نے فرمايا كہ اس ''شيطان'' كو لعنت كے ساتھ رجم اور خير كے دروازے نكالاا اور دھتكارا گياہے مؤمن جب بھى اس كو ياد كرتا ہے تو اس پر لعنت بھيجتا ہے چونكہ علم الہى ميں يہ واضح تھا كہ جب حضرت قائم آل محمدعليه‌السلام خروج فرمائيں گے تو اس وقت ہر مؤمن شيطان كو پتھر كے ساتھ رجم كرے گا جيسا كہ وہ اس سے پہلے لعنت كے ذريعہ رجم ہوا تھا _

استعاذہ:

____________________

۱) عياشى ، ج ۲، ص۲۷۰ ، ح۶۷، نورالثقلين ، ج۳، ص ۸۵ ، ح۲۲۵ _

۲) معانى الاخبار ، ص۱۳۹، ح۱، نورالثقلين ، ح۳ ، ص۸۵ ، ح۲۲۷_

۵۸۶

استعاذہ كى كيفيت ۱۲;الله تعالى كى پناہ ميں جانا ۱،۹،۱۰،۱۱; الله تعالى كى پناہ ميں جانے كا فلسفہ ۷;الله تعالى كى پناہ ميں جانے كى اہميت ۱۰; الله تعالى كى پنا ہ ميں جانے كے آثار ۲; تلاوت قرآن مجيد ميں استعاذہ ۱،۱۲; شيطان سے استعاذہ ۱، ۱۰ ، ۱۱ ،۱۲; شيطان سے استعاذہ كا فلسفہ ۷

انسان:انسان كى معنوى ضروريات ۹،۱۰

بسم الله :بسم الله كے آثار ۱۱

حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى معنوى ضروريات ۱۰

خدا كے دھتكارے ہوئے :۶،۱۳

روايت:۱۱،۱۲،۱۳

شيطان:شيطان پر لعنت ۱۳; شيطان سے محفوظ رہنے كا زمينہ ۲; شيطان كا دھتكار اجانا ۶،۱۳;شيطان كى دشمنى ۴،۵; شيطان كى شرارت كے اسباب۷; شيطان كے دھتكار ے جانے كے آثار ۷; شيطان كے غضب شدہ ۴; شيطان كے وسوسہ ڈالنے كازمينہ ۹

عمل صالح:عمل صالح كے آثار ۹

قرآن:قرآن كى تلاوت كى اہميت ۸; قرآن كى تلاوت كے آداب ۱; قرآن كى تلاوت ميں استعاذہ ۱،۱۲; قرآن كے اسماء گرامى ; قرآن كے دشمن ۵; قرآن كے قاريوں كے دشمن ۴،۵

آیت ۹۹

( إِنَّهُ لَيْسَ لَهُ سُلْطَانٌ عَلَى الَّذِينَ آمَنُواْ وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ )

شيطان ہرگز ان لوگوں پر غلبہ نہيں پاسكتا جو صاحبان ايمان ہيں اور جن كا اللہ پر توكل اور اعتماد ہے _

۱_ خدا پر توكل كرنےوالے مؤمنين پر شيطان ہر قسم كے تسلط سے عاجز ہے_

۵۸۷

الشيطان الرجيم انه ليس له سلطان على الذين امنوا و على ربهم يتوكلّون

لفظ ''سلطان'' چونكہ ''تنوين'' كے ساتھ اورحرف نفى كے بعد آيا ہے لہذا مطلق نفى پر دلالت كر رہا ہے _

۲_ خدا پرتوكل كے ساتھ ايمان ، انسان پر شيطان كے ہر قسم كے تسلّط كے ليے ركاوٹ ہے _

انه ليس له سلطان على الذين ء امنوا و على ربّهم يتوكّلون

۳_ فقط ، خداوند عالم پرتوكل كرنے والے مؤمنين ،شيطان كے تسلط سے امان ميں ہيں _

انه ليس له سلطان على الذين ء امنوا وعلى ربّهم يتوكلّون

مذكورہ تفسير اس بات كوملحوظ خاطر ركھتے ہوئے ہے كہ آيت تمام انسانوں كى نسبت شيطان كے كردار كو بيان كرنے كے مقام پر ہے اور متوكلّ مؤمنين كو جملہ وصفيہ كى صورت ميں استثنا ،كرنا حصر پر دليل ہے_قابل ذكر ہے كہ بعد والى آيت''انمّا سلطانه على الذين يتولونه ...'' اسى مطلب پر مويد ہے_

۴_ خداوند عالم كى پناہ طلب كرنا، اس پر ايك قسم كا توكل كرنا اور شيطان كے تسلط سے ركاوٹ ہے_

فاستعذ بالله من الشيطن الرجيم _ انه ليس له سلطان على الذين ء امنوا و على ربّهم يتوكّلون

مذكورہ تفسير كا جملہ''انّه ليس له سلطان على الذين ...يتوكلون'' ''فاستعذ بالله '' كے ليے علت ہے سے استفادہ ہوتا ہے_

۵_ خداوند عالم پر توكل اور بھروسہ كرنے سے غافل مؤمنين، شيطانى تسلّط سے دوچار ہونے كے خطرے ميں ہيں _

انّه ليس له سلطان على الذين و امنوا وعلى ربّهم يتوكّلون

شيطان كے تسلط سے محفوظ رہنے كى بنياد دو اصول پر ہے (۱) ايمان(۲) پرودگار عالم پر توكّل اس بناء پر اگر ايمان ہو ليكن توكّل نہ ہو تو مكمل طور پر تحفظ حاصل نہيں ہوگا_

۶_ انسان ، شيطانى وسوسوں اور ساز شوں كے مقابل ميں خود مختار اور اس كى مخالفت پر قادر ہے _

انّه ليس له سلطان على الذين ء امنوا وعلى ربّهم يتوكّلون

۷_ خداوند عالم كى ربوبيت كا تقاضا ہے كہ اس كى ذات پر توكل كيا جائے _وعلى ربّهم يتوكلون

۸_''ابو بصير عن ابى عبدالله عليه‌السلام قال : قلت له: ''فاذا قرا ت القرآن فاستعذ بالله من الشيطان الرجيم انه ليس له سلطان على الذين امنوا وعلى ربّهم يتوكلون؟ فقال :

۵۸۸

يا ا با محمد يسلطّ والله من المؤمن على بدنه ولا يسلط على دينه (۱)

حضرت ابوبصير كہتے ہيں كہ ميں نے امام صادقعليه‌السلام سے خداوند عالم كے اس قول''فاذا قرا ت القرآن فاستعذ باالله من الشيطان الرجيم انّه ليس له سلطان على الذين آمنوا و على ربّهم يتوكلون '' كے بارے ميں سوال كيا تو آپعليه‌السلام فرمايا كہ اے ابو محمد خدا كى قسم شيطان، مؤمن كے بدن پر مسلّط ہوگا ليكن اس كے دين پر مسلّط نہيں ہوگا

استعاذہ:الله تعالى كى پناہ ميں جانے كے آثار ۴

الله تعالي:الله تعالى كى ربوبيت كے آثار ۷

انسان:انسان كا اختيار ۶; انسان كى قدرت ۶

ايمان:ايمان كے آثار ۲

توكل:توكل كا زمينہ ۷; توكل كے آثار ۲; توكل كے موارد۴

روايت:۸

شيطان:شيطان سے محفوظ رہنا ۱،۳،۸; شيطان كا عجز ۱; شيطان كى سازش كو دفع كرنے كا ممكن ہونا ۶; شيطان كے تسلّط كا زمينہ ۵; شيطان كے تسلط كى حدود ۱،۳،۸; شيطان كے تسّلط كے موانع ۲،۳; شيطانى وسوسوں كو دفع كرنے كا ممكن ہونا ۶

مؤمنين:غير متوكل مؤمنين ۵; مؤمنين كا محفوظ ہونا ۱،۳،۸

متوكلين:متوكلين كا محفوظ ہونا ۱،۳

۵۸۹

آیت ۱۰۰

( إِنَّمَا سُلْطَانُهُ عَلَى الَّذِينَ يَتَوَلَّوْنَهُ وَالَّذِينَ هُم بِهِ مُشْرِكُونَ )

اس كا غلبہ صرف ان لوگوں پر ہوتا ہے جو اسے سرپرست بناتے ہيں اور اللہ كے بارے ميں شرك كرنے والے ہيں _

۱_ شيطان كا تسلّط اور حكمرانى فقط دوگروہوں ، اس كى اطاعت كرنے والوں اور مشركين پر ہے_

انّما سلطانه على الذين يتولّونه والذين هم به مشركون

۲_ انسان ، شيطانى وسوسوں اورسازشوں كے مقابلہ ميں خودمختار اوراس كى مخالفت پر قادر ہے _

انّما سلطانه على الذين يتولّونه

۳_ خودانسان كا كردار و عمل شيطان كے تسلط كازمينہ فراہم كرتاہے _انّما سلطانه على الذين يتولّونه

۴_ فقط مؤمنين اورخداوند عالم پرتوكل كرنے والے شيطانى تسلط سے آزاد ہيں _

ليس له سلطان على الذين ...انما سلطانه على الذين يتولّونه والذين هم به مشركون

۵_ شيطان كى سرپرستى كو قبول اوراس كى اطاعت كرنا ، خداوند عالم كے ساتھ شرك ہے _

الذين يتولّونه ...هم به مشركون

مذكورہ مطلب اس نكتہ پر موقوف ہے كہ ''بہ'' ميں ''با'' سببيت كے ليے ہو اور اس كى ضمير ( قبول كرنے ) جو (يتولونہ) (اس كے حكم كى اطاعت كرتے ہيں ) كے معنى ميں مضمر ہے لوٹ رہى ہو_

۶_ شرك، انسان پر شيطانى تسلط اور حكمرانى كازمينہ فراہم كرتا ہے_انمّا سلطانه على ...الذين هم به مشركون

۵۹۰

مذكورہ تفسير اس بناء پر ہے كہ''بہ'' كى ضمير لفظ ''الله '' كى طرف لوٹے اس صورت ميں آيت كا معنى يہ ہو گا ، اور شيطان كا تسلط بھى ان افراد پر ہوگا جو خدا كے ساتھ شريك قرار ديتے ہيں _

۷_ شيطان ، خداوند عالم كے ساتھ شريك قرار دينے كااصلى سبب ہے _والذين هم به مشركون

مذكورہ تفسيراس احتمال كى بناء پر كہ''بہ'' كى ضمير شيطان كى طرف لوٹے اور ''با'' سببيت پر دلالت كررہى ہو_

۸_ابى بصير عن ابى عبدالله عليه‌السلام قال: قلت له ...قوله تعالى :''انّما سلطان على الذين يتوكّلون والذين هم به مشركون'' قال : الذين هم بالله مشركون يسلط على ا بدانهم و على ا ديانهم'' (۱)

ابوبصير كہتے ہيں كہ امام صادقعليه‌السلام سے الله تعالى كے اس قول:''انمّا سلطانه على الذين يتولونه والذين هم به مشركون'' كے بارے ميں سوال كيا تو حضرتعليه‌السلام نے فرمايا: وہ لوگ جنھوں نے خدا كے ساتھ شريك قرار ديا ( شيطان) ان كے بدن اوردين پر مسلطّ ہو جائے گا''

انسان:انسان كا اختيار ۲; انسان كى قدرت ۲

روايت :۸

شرك:شرك كے آثار ۶; شرك كے اسباب ۷; شرك كے موارد۵

شيطان:شيطان سے محفوظ ہونا ۴; شيطان كا كردار ۷; شيطان كى پيروى ۵; شيطان كى سازش كو دفع كرنے كا ممكن ہونا ۲; شيطان كى ولايت كو قبو ل كرنا ۵; شيطان كے پيروكار ۱،۸; شيطان كے تسلّط كا زمينہ ۳،۶; شيطان كے تسلّط كى حدود ۱،۸; شيطانى وسوسوں كو دفع كرنے كا ممكن ہونا ۲

عمل:عمل كے آثار ۳

مؤمنين:مؤمنين كا محفوظ ہونا ۴

متوكلين:متوكلين كا محفوظ ہونا ۴

مشركين:مشركين پر شيطان كا تسلّط ۱،۸

____________________

۱) كافى ، ج۸ ،ص۲۸۸، ح۴۳۳، نورالثقلين ، ج۳ ، ص۸۶، ح ۲۲۴_

۵۹۱

آیت ۱۰۱

( وَإِذَا بَدَّلْنَا آيَةً مَّكَانَ آيَةٍ وَاللّهُ أَعْلَمُ بِمَا يُنَزِّلُ قَالُواْ إِنَّمَا أَنتَ مُفْتَرٍ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لاَ يَعْلَمُونَ )

اور ہم جب ايك آيت كى جگہ پر دوسرى آيت تبديل كرتے ہيں تو اگر چہ خدا خوب جانتا ہے كہ وہ كيا نازل كر رہا ہے ليكن يہ لوگ يہى كہتے ہيں كہ محمد تم افترا كرنے والے ہو حالانكہ ان كى اكثريت كچھ نہيں جانتى ہے _

۱_قرآن مجيد كى بعض آيات كا نسخ اور ايك پيغام كو دوسرے پيغام ميں تبديل كرنے كى وجہ سے مشركين كا پيغمبر اكرم پر جھوٹ كى تہمت لگانا _واذا بدّلنا اية مكان اية قالوا انّما انت مفتر

۲_نسخ اور بعض الہى پيغامات كى تبديلى ، مشركين كے ليے پيغمبر اكرم كے ساتھ جدال اور انہيں جھوٹ سے متہم كرنے كے ليے سہارا تھا_واذا بدّلنا اية مكان آية قالوا انّما انت مفتر

۳_قرآن مجيد ميں نسخ اور بعض الہى پيغامات كى تبديلى كا خود قران مجيد كے ذريعہ موجودہونا _واذا بدّلنا ا ية مكان آية

۴_قرآنى آيات ،تدريجى اور مرور زمان كے ساتھ نازل ہوئي ہيں _واذا بدّلنا ا ية مكان آية

قرآنى پيغامات ميں تبديلى يا آيات كا نسخ ان كے تدريجى نزول كا لازمہ ہے_

۵_ قرآنى آيات كا تدريجى نزول اور بعض ميں مرورزمان كے ساتھ مضمون كے اعتبار سے تبديلى كا سر چشمہ علم الہى ہے _

و اذابدّلنا ا ية مكان آية والله اعلم بماينزل

۵۹۲

۶_نسخ وقرآنى پيغامات اور آيات كى تبديلى حكمت اور عالمانہ دليل كى بناء پر ہے _

واذا بدّلنا ء اية مكان آية والله اعلم بما ينزّل

۷_اكثر منكرين اور قرآن وپيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رسالت كى تكذيب كرنے والے،نسخ كى حقيقت اور اس كى حكمت سے جاہل ہيں _واذابدّلنا ء اية اكثرهم لا يعلمون

۸_مشركين اور پيغمبر اكرم كى تكذيب كرنے والوں ميں بعض آگاہ وخود غرض افراد كا موجود ہونا _بل اكثرهم لا يعلمون

۹_كفر وشرك اور پيغمبر اكرم كى تكذيب كى طرف ميلان كا اصلى سبب جہالت اور نادانى ہے _

قالوا انّما انت مفتر بل اكثرهم لا يعلمون

صدر اسلام كى تاريخ :۲،۸

الله تعالى :الله تعالى كا علم ۵

جہالت :جہالت كے آثار ۹

شرك:شرك كا سرچشمہ۹

قرآن:قرآن مجيد كا تدريجى نزول ۴،۵; قرآن مجيد كو جھٹلانے والوں كى جہالت ۷; قرآن مجيد ميں نسخ ۱،۳،۵; قرآن مجيد ميں نسخ كا فلسفہ ۶،۷; قرآن مجيد ميں نسخ كى حقيقت ۷; قرآن مجيد ميں نسخ كے آثار ۲

كفر:كفر كا سرچشمہ ۹

محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر كذب كى تہمت ۱،۲; حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو جھٹلانے والوں كى جہالت ۷; حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو جھٹلانے والوں كى لجاجت ۸; حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى تكذيب كا سرچشمہ ۹; حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ساتھ مبارزہ ۲

مشركين:لجوج مشركين ۸; مشركين كى بہانہ جوئي ۲; مشركين كى تہمتيں ۱،۲; مشركين كے علماء كى دشمني۸

۵۹۳

آیت ۱۰۲

( قُلْ نَزَّلَهُ رُوحُ الْقُدُسِ مِن رَّبِّكَ بِالْحَقِّ لِيُثَبِّتَ الَّذِينَ آمَنُواْ وَهُدًى وَبُشْرَى لِلْمُسْلِمِينَ )

تو آپ كہہ ديجئے كہ اس قرآن كو روح القدس جبريل نے تمھارے پروردگار كى طرف سے حق كے ساتھ نازل كيا ہے تا كہ صاحبان ايمان كو ثبات و استقلال عطا كرے اور يہ اطاعت گذاروں كے لئے ايك ہدايت اور بشارت ہے _

۱_ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا وظيفہ ہے كہ وہ وحى كى حقيقت كو واضح كرتے ہوئے مشركين كے ان اعتراضات كا جواب ديں جو قرآن كے خود ساختہ ہونے پر مبتنى ہيں _انّما انت مفتر قل نز ّله روح القدس من ربّك

۲_ ناسخ اور منسوخ تمام آيات ، پرودرگار كى طرف سے نازل ہوئي ہيں _قل نزّله روح الله القدس من ربّك

۳ _ روح القدس ( جبرائيل ) ابلاغ وحى كا واسطہ اور پرودرگار كى طرف سے منزّہ مخلوق ہے_

قل نزّله روح القدس من ربّك

اس بات كو ملحوظ خاطر ركھتے ہوئے كہ ''قدس'' كا معنى طہارت اور پاكيزگى ہے حضرت جبرائيل كا روح القدس سے ملقب ہوناممكن ہے ان كے آيات الہى ميں دخل و تصرف سے منزّہ ہونے كو بيان كرنے كے ليے ہو_

۴_قرآن ، ايك بلند و بالا حقيقت كا حامل ہے_قالوا انّما انت مفتر ...قل نز ّله روح القدس من ربّك

''نزّل'' كہ جس كا معنى او پر سے نيچے كى جانب نازل ہونا ہے كى تعبير حضرت جبرئيل كے توسط سے پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پرقرآن كو القاء كرنے كے سلسلہ ميں ممكن ہے مذكورہ نكتہ سے حكايت ہو_

۶_ قرآن مجيد ، مجسمہ حق اور باطل و بيہودہ كلام سے منزّہ كتاب ہے_قل نزّله روح القدس من ربّك بالحق

۷_قرآن مجيد كا تدريجى نزول اور اس كا ناسخ و منسوخ ہونا ،ايك برحق اور درست امر ہے_

واذا بدلّنا ء آيه مكان ايه ...قل نز ّله روح القدس من ربّك بالحقّ

۵۹۴

۸_ قرآن اور اس كى آيات كا تدريجى نزول ، مؤمنين كے ايمان كو محكم اور پختہ كرنے كا سرچشمہ ہے _

نز ّله ...ليثبّت الذين ء امنو

۹_قرآن اور اس كى آيات مسلمانوں كے ليے ہدايت اور بشارت كى حامل ہيں _وهدى ً وبشرى للمسلمين

۱۰_ نسخ اور الہى پيغامات ميں تبديلى نيز قرآنى آيات سے تدريجى نزول كا مقصد ، مؤمنين كے ايمان كو پختہ اور مسلمانوں كو ہدايت اور بشارت دينا ہے _واذا ابدلنّا اية مكان ء اية ...قل نزّله ليثبّت الذين ء امنوا وهدى و بشرى للمسلمين

۱۱_ہدايت اور قرآنى بشارت سے بہرہ مند ہونے كى شرط يہ ہے كہ انسان حق كے مقابلہ ميں تسليم كى فكر ركھتا ہو_

وهديً بشرى للمسلمين

۱۲_ مؤمنين ،حق كے مقابلہ ميں روح فرمانبردارى سے بہرہ مند ہيں _ليثبّت الذين ء امنوا وهديً و بشرى للمسلمين

مذكورہ تفسير اس نكتہ پر موقوف ہے كہ''للمسليمن'' ''الذين ء امنوا'' كے ليے دوسرى صفت ہو نہ كہ لوگوں كے دوسرے گروہ كو بيان كرنے والاہو_

۱۳_ قرآن سے لوگوں كا بہر ہ مند ہونا ، متفاوت اور مختلف مراتب كا حامل ہے _

قل نز ّله روح القدس من ربّك بالحق ليثبّت الذين ء امنوا و هديً وبشرى للمسلمين

يہ جو قرآن مجيد نے اپنے مقصد كو مؤمنين كى ثابت قدمى پيدا كرنے والا اور مسلمانوں كے ليے بشارت اور ہدايت قرار ديا ہے اور يہ دونوں گروہ متفاوت ہيں اس سے يہ استفادہ ہوتا ہے كہ قرآن سے بہرہ مند ہونے كے لحاظ سے لوگ يكساں نہيں ہيں _

۱۴_''عن ابى جعفر عليه‌السلام فى قوله ''روح القدس ''قال هو جبرئيل ، والقدس الطاهر ...'' (۱)

____________________

۱)بحار الانوار ج۹ ص ۲۲۱ ح ۱۰۶ نورالثقلين ج۳ ص ۸۶ ح ۲۲۷_

۵۹۵

امام باقرعليه‌السلام سے خدا كے كلام ميں ''روح القدس'' كے بار ے ميں روايت نقل ہوئي ہے آپ نے فرمايا : وہ جبريلعليه‌السلام ہے اور قدس كا معنى پاك و پاكيزہ ہے_

۱۵_''عن ابى عبدالله عليه‌السلام قال : ان الله تبارك و تعالى خلق روح القدس فلم يخلق خلقاً ا قرب الى الله منها وليست با كرم خلقه عليه فاذا ا راد ا مراً فا لقاه اليها فا لقاه الى النجوم فجرت به (۱)

امام صادقعليه‌السلام سے روايت نقل ہوئي ہے كہ آپ نے فرمايا كہ خداوند تبارك و تعالى نے ''روح القدس'' كو خلق كيا ہے اور كسى مخلوق كو خلق نہيں كيا كہ جو اس كى نسبت خدا كے زيادہ نزديك ہو ليكن وہ خدا كے نزديك تمام مخلوقات ميں معززّ نہيں ہے پس جب بھى خداوند تعالى الہى امر كا ارادہ كرتا ہے تو روح القدس كو اس كا القاء كرتا ہے اور پھرستاروں كو اور اس طرح وہ امر ستاروں كے ذريعہ انجام پاتا ہے_

انسان:انسانوں كى فہم كا متفاوت ہونا ۱۳

جبرئيل:جبرئيل كا تقدس ۵; جبرئيل كا كردار ۳،۱۵; جبرئيل كا منزّہ ہونا ۴;جبرئيل كى امانت داري۴;جبرئيل كے فضائل ۱۵

حق:حق كو تسليم كرنے كے آثار ۱۱

روايت:۱۴، ۱۵

روح القدس :روح القدس سے مراد ۱۴

قرآن مجيد:قرآن مجيد سے استفادہ كے مراتب ۱۳; قرآن مجيد كا كردار ۸; قرآن مجيد كا منزّہ ہونا ۶; قرآن مجيد كا وحى ہونا ۲; قرآن مجيد كو جھٹلانے والوں كو جواب ۱; قرآن مجيد كى بشارتوں سے استفادہ ۱۱; قرآن مجيد كى بشارتيں ۹; قرآن مجيد كى حقانيت ۶; قرآن مجيد كى حقيقت ۵; قرآن مجيد كى فضيلت ۵; قرآن مجيد كى منسوخ آيات ۲; قرآن مجيد كى مسنوخ آيات كى حقانيت ۷; قرآن مجيد كى ناسخ آيات ۲; قرآن مجيد كى ناسخ آيات كى حقانيت ۷; قرآن مجيد كى ہدايت كرنا ۹; قرآن مجيد كے تدريجى نزول كا فلسفہ ۱۰; قرآن مجيد كے تدريجى نزول كى حقانيت ۷; قرآن مجيد كے تدريجى نزول كے آثار ۸; قرآن مجيد ميں نسخ ۲; قرآن مجيد ميں نسخ كا فلسفہ ۱۰; نزول قرآن ۳

مؤمنين:مؤمنين كا حق قبول كرنا ۱۲; مؤمنين كا سرتسليم خم كرنا ۱۲; مؤمنين كے ايمان كى تثبيت ۱۰

____________________

۱) تفسير عياشى ، ج۲، ص۲۷۰ ، ح۷۰، نورالثقلين،ج۳، ص ۸۷، ح ۲۲۸_

۵۹۶

محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى ذمہ دارى ۱

مسلمان:مسلمانوں كو بشارت ۹،۱۰; مسلمانوں كو ہدايت ۹، ۱۰

مشركين:مشركين كى تہمتوں كا جواب ۱

ملائكہ:ملائكہ اور وحى ۳

وحي:وحى كو بيان كرنا ۱

ہدايت:ہدايت كى شرائط ۱۱

آیت ۱۰۳

( وَلَقَدْ نَعْلَمُ أَنَّهُمْ يَقُولُونَ إِنَّمَا يُعَلِّمُهُ بَشَرٌ لِّسَانُ الَّذِي يُلْحِدُونَ إِلَيْهِ أَعْجَمِيٌّ وَهَـذَا لِسَانٌ عَرَبِيٌّ مُّبِينٌ )

اور ہم خوب جانتے ہيں كہ يہ مشركين يہ كہتے ہيں كہ انھيں كوئي انسان اس قرآن كى تعليم دے رہا ہے_ حالانكہ جس كى طرف يہ نسبت ديتے ہيں وہ عجمى ہے اور يہ زبان عربى واضح و فصيح ہے _

۱_ خداوند عالم كا پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى حقانيت و قرآن كے خلاف كفار اور مشركين كى مخفيانہ سازشوں سے پردہ چاك كرنا اور ان كے بارے ميں خبر دينا_ولقد نعلم انهّم يقولون انما يعلّمه بشر

۲_ كفار اور مشركين لوگوں ميں قرآن كا اس عنوان سے تعارف كرتے تھے كہ يہ ايك عجمى انسان كى پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو سكھائي گئي تعليمات ہيں _ولقد نعلم انهم يقولون انما يعلّمه بشر ...ا عجمي

خداوند عالم كے اس جواب ميں كہ جس ميں اس نے فرمايا :''لسان الذى يلحدون اليہ اعجمى ...'' سے قرآن كے عجمى سمجھنے كا استفادہ ہوتا ہے_

۵۹۷

۳_پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر كفار و مشركين كى ايك تہمت يہ تھى كہ يہ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو بشر كا سكھا يا ہوا كلام ہے _

ولقد نعلم انهم يقولون انما يعلّمه بشر

۴_ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قرآن نامى كتاب پيش كرنے ميں كسى انسان كى مدد نہيں لى ہے_

نز ّله روح القدس من ربّك ...ولقد نعلم انهم يقولون انما يعلّمه بشر

پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے مخالفين نے ضمناً يہ اعتراف كيا كہ كوئي عرب ، قرآن جيسے مطالب لانے كى قدرت نہيں ركھتا ہے _

ولقد نعلم انهم يقولون انما يعلّمه بشر لسان الذى يلحدون اليه اعجمي

اس بات كو مد نظر ركھتے ہوئے كہ مشركين ، قرآن كو عجمى افراد كى تعليمات قرار ديتے تھے اور كہتے تھے كہ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان مطالب كو ان سے حاصل كياہے سے واضح ہوتا ہے كہ وہ قرآنى مطالب كو اپنى طاقت سے بالاتر سمجھتے تھے_

۶_ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے مخالفين كى كوشش رہى ہے كہ وہ قرآن مجيد كو غير الہى جلوہ ديں _يقولون انما يعلّمه بشر

۷_ قرآن مجيد ، فصيح و واضح عربى زبان كے قالب ميں نازل ہوا ہے_

لسان الذى يلحدون اليه اعجمى وهذا لسان عربى مبين

۸_ عربى زبان كے قالب ميں فصيح ور وشن قرآن كا بيان اس بات پر واضح ترين دليل ہے كہ يہ عجمى شخص (غير عرب) كے توسط سے پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر نازل نہيں ہوا ہے_لسان الذى يلحدون اليه اعجمى و هذا لسان عربى مبين

۹_قرآن مجيد كى اعلى ترين فصاحت اور اس كا واضح بيان كو تمام افراد حتى كہ كفار اور مشركين بھى قبول كرتے ہيں _

وهذا لسان عربى مبين

كفار كے دعوى كو رد كرنے كے ليے خداوند عالم كا استدلال اس بات پر مبتنى ہے كہ قرآن مجيد كى فصاحت كو تمام لوگ قبول كريں _

۱۰_ قرآن كو بشر كى طرف نسبت دينا، ايك ناروا اور حق سے دور نسبت ہے _لسان الذى يلحدون اليه اعجمي

''الحاد'' كے مفہوم ميں حق سے انحراف ،مضمر ہے_

الله تعالى :الله تعالى كا بھيدوں كو كھولنا ۱

حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو تعليم دينے كى تہمت ۲،۳; حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے خلاف سازش كو بے نقاب كرنا ۱;حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے مخالفين كا اقرار ۵; حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے مخالفين

۵۹۸

كى كوشش ۶

قرآن:قرآن مجيدپر افتراء باندھنا ۱۰; قرآن مجيد كا بے نظير ہونا ۵; قرآن مجيد كا عربى ہونا ۷; قرآن مجيد كا وحى ہونا ۴،۱۰; قرآن مجيد كى فصاحت ۷،۸; قرآن مجيد كے خلاف سازش كو بے نقاب كرنا ۱; قرآن مجيد كے عجمى ہونے كارد۸; قرآن مجيد كے وحى ہونے كو پنہاں كرنا۶; قرآن مجيد كے وحي ہونے كے دلائل ۸

كفار:كفار اور قرآن مجيد كى فصاحت ۹; كفار كى تہمتيں ۲،۳; كفار كى سازش كو بے نقاب كرنا ۱

مشركين:مشركين اور قرآن مجيد كى فصاحت ۹; مشركين كى تہمتيں ۲،۳; مشركين كى سازش كو افشاء كرنا ۱

آیت ۱۰۴

( إِنَّ الَّذِينَ لاَ يُؤْمِنُونَ بِآيَاتِ اللّهِ لاَ يَهْدِيهِمُ اللّهُ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ )

بيشك جو لوگ اللہ كى نشانيوں پر ايمان نہيں لاتے ہيں خدا انھيں ہدايت بھى نہيں ديتا ہے اور ان كے لئے دردناك عذاب بھى ہے _

۱_وہ لوگ جنہوں نے كفر پر اصرار اورھٹ دھرمى كى وجہ سے حق قبول نہيں كيا الہى ہدايت سے محروم ہيں _

انّ الذين لا يومنون بايات الله لا يهديهم الله

فعل مضارع''لا يومنون'' استمرار پر دلالت كرتا ہے اور اس بات كو ملحوظ خاطر ركھتے ہوئے كہ قرآن واضح اور فصيح زبان ميں نازل ہوا ہے ليكن اس كے باوجود كفار اس پر ايمان نہيں لائے ممكن ہے يہ ان كى ھٹ دھرمى اور حق قبول نہ كرنے كى فكر كو بيان كر رہا ہو_

۲_ واضح ترين الہى دلائل ، ھٹ دھرم وحق قبو ل نہ كرنے والوں كے دل پراثر انداز نہيں ہوتے _

لسان الذى يلحدون اليه اعجمى و هذا لسان عربى مبين ان الذين لا يومنون لا يهديهم الله

خداوند عالم نے ما قبل آيت ميں واضح ترين بيان كے ساتھ قرآن كى حقانيت پر استدلال كيا ہے _

اور اس آيت ميں بھى فرمايا : يہ دليل اپنى وضاحت كے ساتھ ان لوگوں كے ليے فائدہ مند نہيں ہے

۵۹۹

جنہوں نے ايمان نہ لانے كا پختہ ا رادہ كيا ہے _

۳_ ہدايت تك رسائي خود انسان كى خواہش اور اس كے ارادہ و اختيار سے وابستہ ہے _

انّ الذين لا يومنون با يات الله لا يهديهم الله

''لا يومنون'' سے يہ استفادہ ہوتا ہے كہ وہ لوگ جوايمان نہيں لا نا چاہتے الہى ہدايت و لطف سے محروم ہيں لہذ ا اس كى ہدايت او رلطف تك پہنچنا خود انسان كے ارادہ سے مشروط ہے _

۴_ وہ كفار جو ھٹ دھرمى اورعناد كى وجہ سے الہى آيات پر ايمان نہيں لاتے ان كا انجام اور سزا، دردناك عذاب ہے_

انّ الذين لا يومنون با يات الله ...لهم عذاب اليم

الہى آيات:الہى آيات كو جھٹلانے والے۴

انسان:انسان كا اختيار ۳

جبر و اختيار: ۳

حق:حق قبول نہ كرنے كے آثار۱; حق قبول نہ كرنے والوں كا ہدايت كو قبول نہ كرنا ۲; حق قبول نہ كرنے والوں كى لجاجت ۲; حق قبول نہ كرنے والوں كى محروميت ۱

عذاب:اہل عذاب۴; دردناك عذاب۴; عذاب كے اسباب ۴; عذاب كے مراتب ۴

كفار:لجوج كفار كا عذاب ۴; لجوج كفار كى سزا ۴; كفار كى محروميت ۱

كفر:كفر پر اصرار كے آثار ۱

ہدايت:ہدايت سے محروم ۱;ہدايت كا زمينہ۳

۶۰۰

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

آیت ۱۶

( وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ مَرْيَمَ إِذِ انتَبَذَتْ مِنْ أَهْلِهَا مَكَاناً شَرْقِيّاً )

اور پيغمبر اپنى كتاب ميں مريم كا ذكر كرو كہ جب وہ اپنے گھروالوں سے الگ مشرقى سمت كى طرف چلى گئيں (۱۶)

۱_ حضرت مريم(ع) كى داستان كے بارے ميں آيات پر خصوصى توجہ اور قران ميں حضرتعيسي(ع) كى ولادت كى داستان كى وضاحت، پيغمبر كے كندھوں پر ايك الہى ذمہ دارى ہے _واذكرفى الكتب مريم

( اذكر ) پيغمبر كى طرف خطاب ہے اگر چہ آپ بغير كسى حكم خاص كے بھى قران ميں نازل شدہ آيات بيان كياكرتے تھے ليكن ان آيات كے بيان پر تاكيد سے مقصود حضرت مريم كے حضرتعيسي(ع) كے حوالے سے حاملہ ہونے كے واقعہ كى اہميت اور اس چيز كے اس معاشرہ پر گہرے اثرات كا بيان تھا _

۲_ قرآن، رسول خدا (ص) كے زمانہ ميں ايك تدوين شدہ مجموعہ تھا _واذكر فى الكتب

( الكتاب ) ميں ''الف و لام'' عہد حضورى ہے اور مو جو وہ كتاب پر دلالت كررہا ہے _

۳_حضرت مريم نے اپنےگھر والوں سے جدا ہوكر مسجد الاقصى كے شرقى جانب بسيرا كرليا _

واذكر مريم إذا انتبذت من أهلها مكانا شرقيا

(انتباذ ) كا مادہ ( نبذ ہے كہ جسكا معنى دور ہونا ہے (مكاناً شرقياً ) يعنى شرق كى جانب جگہ چونكہ حضرت مريم (مسجدالاقصى ) معبد كيلئے وقف تھيں تو يہاں مسجد الاقصى كے مشرق ميں مكان مقصود ہے _

۴_ حضرت مريم كے رشتہ دار مسجد الاقصى كى مشرقى جانب سے ہٹ كر مقيم تھے _انتبذت من أهلها مكاناً شرقي

۵_ حضرت مريم حاملہ ہونے سے پہلے مسجد الاقصى كے قريب ساكن رہنے والے رشتہ داروں كے پاس آيا كرتى تھيں _

إذا انتبذت من أهلها مكاناً شرقيا

بائيسويں آيت ميں قرينہ (مكاناً قصبا ) جو كہ حضرت مريم كے دوسرے انتخاب شدہ مكان كے بارے ميں بتا رہاہے كہ معلوم ہوتا ہے كہ مسجد الاقصى كا مشرقى حصہ لوگوں كے رہائشى علاقہ كے قريب تھا _

۶_ حضرت مريم كے قانون شريعت ميں گھر كا مشرقى حصّہ يا معبد عبادت كيلئے بہتر مقام تھا _إذانتبذت من أهلها مكانا ً شرقيا ً

۶۲۱

حضرت مريم كے گوشہ نشين ہونے كى وجہ واضح نہيں ہے اور آيت ميں اس حوالے سے كوئي شاہد نہيں ديكھا گيا _ بعض كے بقول : انہوں نے مكان كا انتخاب عبادت ميں خلوت كى بناء پر كيا تھا _اور مسجد الاقصى كا مشرقى حصہ انتخاب كرنے كى وجہ مشرقى حصہ كا عبادت كے لےئے بہتر ہونا تھا بعض نے حضرت مريم كے اس اقدام كو خواتين سے متعلقہ امور سے جانا ہے كہ جس كى بنا ء پر قرآن ميں عمدا ً اس بارے ميں كچھ نہيں كہا گيا تو اس صورت ميں مشرقى جانب كا انتخاب، صرف اپنے مقاصد كے بہتر ہونے كى بناء پر تھانہ كہ شرعا ً بہتر تھا _

۷_حضرت مريم نے اپنى عبادت كيلئے اس مكان كا انتخاب كيا كہ جس كا رخ مشرق كى جانب تھا _

إذانتبذت من أهلها مكاناً شرقيا ( شرقي) يعنى مشرق كى طرف ( لسان العرب )

۸_ حضرت مريم نے اپنے وجود ميں كسى چيز كى بناء پررنجيدہ ہو كر گوشہ نشينى اور لوگوں كى نگاہوں سے دور جگہ كا انتخاب كيا _إذ انتبذت من أهله ( نبذ) يعنى كسى چيز كو بے پرواہى كى بناء پر دورپھينكنا اور ( انتباذ) يعنى اس شخص كا گوشہ نشين ہونا كہ جو لوگوں ميں اپنے آپ كو كمتر اورنا چيز سمجھے ( مفردات راغب ) بعض احتمالات كہ جو حضرت مريم كے گوشہ نشيں ہونے كى وضاحت ميں بيان ہوئے ہيں مثلاماہوارى كے ايام و غيرہ گزارنے كيلئے كہ وہ اس معنى كے ساتھ مناسب ہيں _

آنحضرت (ص) :آنحضرت(ص) كى ذمہ دارى ۱; آنحضرت(ص) كے زمانہ ميں قران ۲

ذكر :عيسي(ع) كے قصہ كا ذكر۱;مريم كے قصہ كا ذكر ۱

عبادت :عبادت كے آداب ۶;مشرق كى جانب عبادت ۷; عبادت كے مكان كا كردار۶; مشرقى مكان ميں عبادت ۶

عبادتگاہ :عبادتگاہ كے مشرقى جانب عبادت ۶

عيسى :عيسي(ع) كى ولادت ۱;عيسي(ع) كے قصہ كى وضاحت ۱

قران :قران كا جمع ہونا ۲; قران كى تاريخ ۲

مريم(ع) :مريم كى سكونت ۵; مريم كا قصہ ۳;۵;۸; مريم كى

۶۲۲

پناہ گاہ ۳; مريم كى عبادتگاہ كى سمت۷;مريم كى گوشہ نشينى كے اسباب ۸;مريم كے رشتہ داروں كى سكونت ۴;۵;مريم كے قصہ كى وضاحت ۱; مسجدالاقصى كے قريب مريم۴، ۵; مسجدالاقصي كے قريب مريم كے رشتہ دار ۴;۵

مسجد الاقصى :مسجدالاقصى كى مشرق سمت ۳

ـآیت ۱۷

( فَاتَّخَذَتْ مِن دُونِهِمْ حِجَاباً فَأَرْسَلْنَا إِلَيْهَا رُوحَنَا فَتَمَثَّلَ لَهَا بَشَراً سَوِيّاً )

اور لوگوں كى طرف پردہ ڈال ديا تو ہم نے اپنى روح كو بھيجا جو ان كے سامنے ايك اچھا خاصا آدمى بن كر پيش ہوا (۱۷)

۱_حضرت مريم نے مسجدالاقصى كى مشرقى جانب لوگوں كى نگاہوں سے دورايك مكان منتخب كيا اور خود كو لوگوں سے پنہاں كيا _فاتخذت من دونهم حجاب

حجاب سے مراد ساتر، يا ايسى چيز جو پردے كا كام د ے _ تو ( اتخذت ...حجابا ً) سے مراد پردہ ڈالنا يا ايسى جگہ جانا جو طبيعى طور پر پردے كا كام دے مثلا ديوار يا پہاڑ غيرہ كى مانند ہوں _

۲_ وہ مكان كہ جہاں مريم(ع) لوگوں كى نگاہوں سے پنہاں ہو جاتى تھيں وہ لوگوں كے رہائشى علاقہ كے قريب تھا _

من دونهم كلمہ ( دون) كبھى قريب اور كبھى حقارت كيلئے استعمال ہوتا ہے ( العين )

۳_ حضرت مريم كا شرقى سمت ايك پنہاں مكان ميں رہنے كے بعد الله تعالى نے ايك انتہائي مكرم فرشتہ انكيجانب بھيجا _

فاتخذت من دونهم حجاباً فأرسلنا إليها روحنا

بعد والى آيات ميں اس فرشتہ كى جو صفات ذكر ہوئيں ہيں انكى بناء پر يہاں ''روحنا'' سے مراداللہ تعالى كى بارگاہ ميں ايك انتہائي مكرم اور عظيم المنزمت فرشتہ ہے كہ جسے الله تعالى كى طرف نسبت دى گئي ہے وہ آيات جوحضرت جبرئيل كو'' روح الامين'' او ر''روح القدس'' كے نام سے يا د كرتى ہيں انہيں ديكھتے ہوئے ہم كہہ سكتے ہيں كہ يہ فرشتہ جبرئيل ہے _

۴_حضرت مريم كا اپنے فرزند حضرتعيسي(ع) سے حاملہ ہونے كيلئے ضرورى تھا كہ وہ لوگوں كى نگاہوں سے دور ايك خلوت والى جگہ پرہوں _فاتخذت من دونهم حجاباً فأرسلنا إليها روحنا ( فأرسلنا ) ميں ( فائ) تفريع كيلئے ہے _اور يہ بتاتى ہے كہ حضرت مريم كے گذشتہ كام انكے حضرتعيسي(ع) كى والدہ كا مقام پانے اور الہى فرشتہ كے نزول كا پيش خيمہ ہيں _

۵_حضرت مريم كا الله تعالى كى بارگاہ ميں عظيم وبلند مقام_فا رسلنا إليهاروحنا

۶۲۳

۶_عبادت كے وقت، جسمانى نمائش سے پرہيز اور اپنے آپ كو با پردہ ركھنا خواتين كى اہم خصوصيت ہے _

فاتخذت من دونهم حجابا فأرسلنا إليها روحنا

حضرت مريم ايسے مكان كى طرف جارہى تھيں جو لوگوں كى نگاہوں سے دورہو اور عبادت كے وقت انہيں نامحرم كا سامنا نہ كرنا پڑے _

۷_ حضرت جبرائيل (ع) جسما نيتسے منزہ اور شرف ومنزلت پر فائز موجود كا نام ہے_فا رسلنا إليها روحنا

( روح ) كا ( نا) كى طرف اضافہ تشريفى ہے روح كوبھيجنے كا مطلب يہ ہے كہ وہ روح ايك مستقل موجود كہ جو الله تعالى كا مطيع تھا اور سفير كے فرائض انجام دينے كى قابليت ركھتا تھااور اسے اپنى رسالت كے مفاہيم سے آشنائي تھى بشر ى صورت ميں اپنے آپ كو مجسّم كرنا اس بات كى دليل ہے كہ وہ اس كام كو انجام دينے پر قادر اور جسمانى شكل اختيار كرنے كے ليے ساز گار تھے چونكہ يہ سب خصوصيات حضرت جبرئيل(ع) پر تطبيق كررہى ہيں جسكى وجہ سے بعض مفسرين نے كہا كہ وہ فرشتہ جو حضرت مريم، پرنازل ہوا وہ حضرت جبر(ع) ئيل تھے _

۸_ الله تعالى كا خصوصى نمائندہ، ايك عا م ا نسان كى مانند تمام جسمانى خصوصيات كے ساتھ حضرت مريم كے سامنے نمودار ہوا _فتمثل لها بشراً سوي

( تمثيل ) يعنى شكل بناتا اور ايك چيز كى صورت ميں نمود ار ہونا _ يہاں ( بشراً)'' تمثل'' كے فاعل كيلئے حال ہے اس سے مراد بعد والى آيت كے قرينہ كى رو سے مردہے ( سويا ً) يعنى معتدل ( بشراً) سويا يعنى انسان معتدل جوكہ جسمانى خصوصيات ميں افراط تفريط سے منزہ ہو _

۹_الہى فرشتہ كا حضرت مريم(ع) كيلئے جو چہرہ جلوہ گر ہوا وہ انكے ليے نا آشنا اور انكے ہم و طنوں اور رشتہ داروں جيسا بھى نہ تھا _بشراً سويا

( بشراً) اسم نكرہ ہے اور كسى كے نا آشنا ہونے پر دلالت كرتاہے _

۱۰_فرشتوں كا مادى صورتيں اختيار كرنا اور ان صورتوں ميں جلوہ گر ہونا، ايك ممكن اور محقق شدہ مسئلہ ہے _

فأرسلنا إليها روحنا فتمثل لها بشراً سويا

۱۱_ فرشتوں كوديكھنا اور ان سے گفتگو كرنا، صرف پيغمبروں كے ساتھ منحصر نہيں ہے _

فأرسلنا إليها روحنا فتمثل لها بشرا ً سويا

۶۲۴

چونكہ حضرت مريم مقام نبوت پر فائز نہ تھيں ليكن اسكے با وجود انہوں نے فرشتہ كا مشاہدہ كيا اور اس سے كلام كيا اس سے ثابت ہوا كہ يہ مسئلہ صرف پيغمبر وں كے ساتھ منحصر نہيں ہے _

۱۲_ عورت ميں معنويت كے بلند ترين درجات تك پہنچنے اور فرشتوں سے گفتگو اور ملاقات كرنے كى لياقت موجود ہے _

فأرسلنا إليها روحنا فتمثل لها بشراً سويا

۱۳_عن الأصبغ بن نباتة قال علي(ع) جبرئيل من الملائكةوالروح غير جبرائيل قال ( الله ) لمريم ( فأرسلنا إليها روحنا فتمثل لها بشراًسوياً ...) (۱) اصبغ بن نبانہ سے روايت نقل ہوئي ہے كہ حضرت علي(ع) نے فرمايا : جبرئيل فرشتوں ميں سے ہے جب كہ روح جبرئيل كے علاوہ ہے الله تعالى نے

حضرت مريم كے بارے ميں فرمايا ہے :فإرسلنا إليها روحنا فتمثل لها بشراً سويا ً

۱۴_قال الباقر(ع) : إنها ( مريم) بشرت بعيسى فبيناهى فى المحراب إذ تمثل لها الروح الا مين بشراًسويا ً امام باقر (ع) نے فرمايا : حضر ت مريم(ع) كو حضرت عيسي(ع) كى ولادت كى بشادت دى گئي تھى جب وہ محراب ميں تھيں تو اچانك روح الامين انسان كا مل كى شكل ميں ان پر ظاہر ہوئے _

تربيت:حضرت عيسي(ع) كى ولادت كى بشارت ۱۴//پردہ :پردہ كى رعايت كى اہميت ۶

جبرئيل(ع) :جبرائيل سے مراد ۱۳; جبرائيل كا مجسم ہونا ۱۴ ; جبرائيل كى حقيقت ۷ ;جبرائيل كے مجسم ہونے كى خصوصيات ۸; جبرائيل كےمقامات ۷

روايت : ۱۳;۱۴

روح :روح سے مراد ۱۳//عبادت :عبادت كے آداب ۶; عبادت ميں پردہ ۶

عمل :پسنديدہ عمل ۶//عورت :عورت كا كمال ۱۲;عورت كے مقامات ۱۲

مريم 'س':

____________________

۱)الغاراتج۱ص۱۸۴،بحارالاانوار ج۴ ۹ص۵ ح ۷ _

۲)قصص الانبياء راوندى ص۲۶۴ح۳۰۳ بحارالاانوار ج۱۴ص۲۱۵ح۱۴_

۶۲۵

مريم'س' پر جبرائيل كا نزول ۳،۸; مريم'س' كا تقرب۵; مريم'س' كا قصہ ۱،۲،۳، ۴،۸، ۹ ، ۱۴ ;مريم'س' كو بشادت ۱۴; مريم'س' كى پناہ گاہ ۱،۲;مريم'س' كى گوشہ نشينى ۱،۴; مريم'س' كے حمل كا پيش خيمہ ۴ ;مريم'س' كے مقامات۵

مسجدالاقصى :مسجدالاقصى كى مشرقى سمت ۱

ملائكہ :ملائكہ سے گفتگو۱۱;۱۲;ملائكہ كا ديكھا جانا ۱۱;۱۲; ملائكہ كا مجسم ہونا ۹;۱۰

آیت ۱۸

( قَالَتْ إِنِّي أَعُوذُ بِالرَّحْمَن مِنكَ إِن كُنتَ تَقِيّاً )

انھوں نے كہا كہ اگر تو خوف خدا ركھتا ہے تو ميں تجھ سے خدا كى پناہ مانگتى ہوں (۱۸)

۱_ ايك اجنبى شخص ميں تقوى كا احساس اور خوف خدا ابھارنا يہ حضرت مريم كا اسے اپنى خلوت گاہ ميں ديكھنے كے بعد اعتراض آميز ردّ عمل تھا _قالت إنى أعوذبالرحمن منك إن كنت تقيا

جملہ ( إن كنت تقيا ً) جملہ شرطيہ كے قالب ميں تقوى كى طرف دعوت ہے آيت كا مطلب يہ ہے كہ اگر متقى ہو ،كہ ہونا چاہيے------_-- مجھ سے دور ہوجا اوراپنے آپ كو الہى غضب ميں مبتلا ء نہ كرو ميں نے اپنے آپ كو اسكى پناہ ميں ديا ہوا ہے اور تيرے ضرركا دفع اس سے چاہتى ہوں _

۲_ حضرت مريم اپنے قريب ايك اجنبى شخص كو پاكر وحشت ذرہ ہوگئيں اور خدا كى پناہ لى اور اسے الہى غضب سے ڈرايا _

قالت إنى أعوذبالرحمن منك ان كنت تقيا ً

حضرت مريم نے بجائے (اللهم إنى أعوذ بك ) كے اجنبى شخص كو مخاطب بناياتا كہ اسكے دل ميں الہى غضب كا خوف پيدا كريں _ ''تقوي'' يعنى ہر خوفناك چيز سے بچتے ہوئے اپنے آپ كو محفوظ جگہ ميں ركھنا ( مفردات راغب )'' تقياً'' يعنى خطرے سے پرہيز كرنے والا حضرت مريم كے كلام ميں قرينہ ديكھتے ہوئے كہ انہوں نے اپنے مخاطب كو الله تعالى سے ڈرايا خطرے سے مراد خداوند عالم كا غضب ہے _

۳_اللہ تعالي، مشكل اوقات ميں انسان كى پناہ گاہ ہے _إنى أعوذ بالرحمن

۴_اللہ تعالى كى وسيع رحمت، مصيبت زدہ اوربے سہار لوگوں كو پناہ دينے كا اقتضا كرتى ہے _إنى أعوذ بالرحمن منك

( رحمان ) مبالغہ كا صيغہ ہے اوراسكا مطلب بہت زيادہ مہربان ہونا ہے حضرت مريم (ع) كا الله تعالى كے تمام ناموں ميں

۶۲۶

سے صرف اس نام كا سہا را لينا خدا كے تمام اوصاف ميں سے اس وصف كى خصوصيت پردلالت كر رہا ہے اور پناہ كے مقام كے ساتھ اسكى مناسبت كوبيان كررہا ہے_

۵_مصيبتوں اور عفت كے منافى كاموں كے اسباب مہياہونے كى صورت ميں ضرورى ہے كہ الله تعالى كى پناہ لى جائي _

قالت إنى أعوذبالرحمن منك

۶_ رحمان ،اللہ تعالى كے اسماء اور اوصاف ميں سے ہے_أعوذبالرحمن

۷_ حضر ت مريم، تقوى اور پاكيزگى كے كمال پر فائز خاتون تھيں _قالت إنى أعوذ بالرحمن منك إن كنت تقيا

پاكيزہ ،مريم(ع) نے اجنبى مرد كو اپنى خلوت گاہ ميں ديكھتے ہى اسے مسلسل نصيحت كرنا اور الله تعالى كى پناہ ميں جانے كى بات شروع كى يہ ردّ عمل ان ميں پاكيزگى كے راسخ ہونے كى علامت ہے _

۸_انسان كو گناہ سے محفوظ ركھنے ميں تقوى ايك اہم ترين سبب ہے _أعوذبالرحمن منك إن كنت تقيا

۹_ عورت اور نامحرم مرد كا اكھٹا ہونا يہاں تك كہ متقى لوگوں ميں بھى ايك خطرناك جال اور گناہ كى كھائي ميں گرنے كا موجب ہے _إنى أعوذبالرحمن منك إن كنت تقيا (إن كنت )كا جواب شرط محذوف ہے بعض نے يہاں جملہ شرطيہ كو تقوى كى طرف ترغيب دلانا مرادليا ہے جبكہ بعض نے يہاں شرط حقيقى مراد ليا ہے _تو دوسرى صورت ميں آيت سے مراد يہ ہے كہ اگر تو متقى ہے تويہ مناسب ہے كہ ميں الله تعالى سے پناہ مانگوں (اور يہ كہ تو متقى نہ ہو ) لہذا يہاں نكتہ شرط يہ ہے كہ يہ صورت تو متقى لوگوں كيلئے بھى خطرنا ك ہے كہاں يہ كہ غير متقى ہوں _

۱۰_ تنہائي ميں نامحرم سے پرہيز كرنا، ضرورى ہے _قالت إنى أعوذبالرحمن منك إن كنت تقيا

حالا نكہ اجنبى شخص نے كوئي ايسى حركت نہيں كى تھى كہ جو اسكى كسى غرض كو ظاہر كرے _ ليكن حضرت مريم محض اسكے ساتھ تنہائي سے پريشان ہوئيں اور الله تعالى كى پناہ لى اور اسكے ليے زبان نصيحت كھولى تواس سے يہ نتيجہ نكلتا ہے كہ نامحرم كے ساتھ تنہائي ميں رہنا ہى تقوى كے خلاف كام ہے _

۱۱_روى عن على (ع) انه قال : علمت ان التقى ينهاه التقى عن المعصية ، حضرت على (ع) سے روايت ہوئي ہے كہ آپ نے فرمايا : حضرت مريم يہ جانتى تھيں كہ پرہيز گار انسان ، اپنے تقوى كوگناہ سے بچاتا ہے _

اسماء صفات: رحمان۶

۶۲۷

الله تعالى :الله تعالى كى رحمت كے آثار ۴

انسان :انسان كى پناہ گاہ ۳;۴

تقوى :تقوى كے آثار ۸،۱۱;تقوى كى طرف دعوت ۱

پناہ مانگنا:الله تعالى سے پناہ مانگنے كى اہميت ۵; الله تعالى سے پناہ مانگنے كا باعث ۴; الله تعالى سے پناہ مانگنا ۲;۳

ڈرانا :الله تعالى كے غضب سے ڈرانا ۲

روايت :۱۱

گناہ :گناہ سے مانع ۸،۱۱; گناہ كا باعث ۹; گناہ كا مقابلہ كرنے كى روش ۵

مريم 'س':مريم'س' كا اعتراض ۱;مريم'س' كا پناہ مانگناہ۲; مريم 'س'كا خوف ۲; مريم'س' كا قصہ ۱،۲;مريم'س' كا كى پرہيز گارى ۷; مريم'س' كى پناہ گاہ ۱; مريم'س' كى رائے ۱۱; مريم'س' كى عفت ۷; مريم'س' كے فضائل ۷

مشكل :مشكل كا مقابلہ كرنے كى صورت ۵

نامحرم:نامحرم سے تنہائي كرنے سے پرہيز۱۰ ;نامحرم سے تنہائي كرنے كے آثار ۹

آیت ۱۹

( قَالَ إِنَّمَا أَنَا رَسُولُ رَبِّكِ لِأَهَبَ لَكِ غُلَاماً زَكِيّاً )

اس نے كہا كہ ميں آپ كے رب كے فرستادہ ہوں كہ آپ كو ايك پاكيزہ فرزند عطا كردوں (۱۹)

۱_ حضرت جبرئيل نے حضرت مريم'س' كى پريشانى دور كرنے كيلئے اپناتعارف كروايا اور انہيں بتايا كہ وہ الله تعالى كى طرف سے بھيجے ہوئے ہيں _قالت إنى أعوذقال إنما أنا رسول ربك

۲_ حضرت جبرئيل نے حضرت مريم كو بچےّ كى بشارت دينے كے ساتھ ا نہيں پاك و پاكيزہ بيٹاعطاكرنے كے حوالے سے الہى نمائندہ ہونے كا تعارف كروايا_

قال إنما أنا رسول ربك لا هب لك غلماً زكيا

بيٹاعطا كرنے كى نسبت، حضرت جبرئيل كى طرف انكے اس الہى بخشش ميں وسيلہ ہونے كى بناء پرہے _ ( زكي) مادہ ''زكائ'' سے ہے اسكا معنى (صلاح) ہے'' مصباح'' '' تزكيہ '' اور ''زكاة ''طہارت '' پرورش ، بركت اور مدح كے معانى ميں

۶۲۸

استعمال ہوتے ہيں ہر اور مقام پر اسكا مناسب معنى مراد ہے بچے كى طہارت اور پاكيزگى اسكى ذاتى صلاحتيوں كے حوالے سے ہے_

۳_ حضرت مريم كو لائق اور پاكيزہ بچے كى عطا انكے رشد و كمال كا موجب اور الله تعالى كى ربوبيت كا ايك جلوہ ہے _

قال إنّما أنا رسول ربّك لا هب لك غلما زكياً ...قال ربّك هو

كلمہ'' رب ''مندرجہ بالا مطلب كو بيان كرسكتا ہے _

۴_ حضرت عيسي(ع) ،اللہ تعالى كى جانب سے حضرت مريم كيلئے خصوصى عطا تھے _إنّما أنا رسول ربّك لا هب لك غلماً زكي اگرچہ حضرت عيسى (ع) كى روح، حضرت مريم كو ديگر ذرائع سے بھى القاء كى جاسكتى تھى ليكن جبرئيل كا بھيجاجانا، مريم كو بشارت دينا اوراس عنايت كى خصوصيات شمار كرنا يہ سب كے سب اس عطاكے خصوصى ہونے پردلالت كررہے ہيں _

۵_-حضرت عيسي(ع) كى پاكيزگى اور معنوى كمال ، انكى ولادت سے قبل الله تعالى كى جانب سے ضمانت شدہ تھے----_إنما أنا رسول ربك لأهب لك غلما

۶_صالح اور پاكيزہ فرزند، الہى عنايت ہے _لأهب لك غلماً زكبا

۷_عن الباقر (ع)( فى قصة مريم ) : تمثل لها الروح الأمين قال إنما أنا رسول ربك لا هب لك غلاماً زكياً فتفل فى جيبها فحملت بعيسى (ع) (۱)

امام باقر (ع) سے حضرت مريم كى داستان كے حوالے سے نقل ہواہے كہ روح الامين ان پر ظاہر ہوئے اور كہا :'' إنما انا رسول ربك لا ہب لك غلاماً زكيا''پھراپنے منہ كا لعاب انكے گريبان ميں ڈالاتو وہ عيسي(ع) سے حاملہ ہوگئيں _

الله تعالى :الله تعالى كى ربوبيت كى علامات ۳; الله تعالى كى عطا ء ۲،۴،۶

الله تعالى كے نمائندے: ۱/تربيت:عيسى كى ولادت كى بشار ب۲

جبرئيل :جبرئيل كى بشارتيں ۲; جبرئيل كى ذمہ دارى ۲; جبرئيل كى شناخت اور مريم ۱

روايت :۷

____________________

۱)قصص الانبياء رواندى ص۲۶۴، ج۳۰۳ ، بحارالانوار ج۱۴ ص۲۱۵ح۱۴_

۶۲۹

عيسى (ع) :عيسى كا كمال ۵;عيسى كى پاكيزگى كى ضمانت ۵; عيسي(ع) كے فضائل ۵;

مريم(ع) :مريم(ع) ميں بيٹا ہونے كے آثار ۳; مريم(ع) كے كمال كے اسباب ۳; مريم(ع) كى پريشانى ۱; مريم(ع) پر جبرائيل كا نزول ۷; مريم(ع) پر نعمات ۴; مريم(ع) كا حاملہ ہونا ۷; مريم (ع) كا قصہ ۱،۴،۷

نعمت :فرزند صالح كى نعمت ۶; نعمت عيسي(ع) ۴

آیت ۲۰

( قَالَتْ أَنَّى يَكُونُ لِي غُلَامٌ وَلَمْ يَمْسَسْنِي بَشَرٌ وَلَمْ أَكُ بَغِيّاً )

انھوں نے كہا كہ ميرے يہاں فرزند كس طرح ہوگا جب كہ مجھے كسى بشر نے چھوا بھى نہيں ہے اور ميں كوئي بد كردار نہيں ہوں (۲۰)

۱_ حضرت مريم (ع) بغير كسى بشر كے لمس كے بچہ دار ہونے كى خبرسن كر حيرت زدہ ہوگئيں _

قالت أنّى يكون لى غلم ولم يمسنى بشر

( انيّ ) حرو ف استفہام ميں سے ہے اور اسكا معنى ''كيف ''يعنى كس طرح ہے يا'' من ا ين'' يعنى كہاں سے ہے دونوں صورتوں ميں تعجب كا معنى دے رہا ہے _

۲_ حضرت مريم (ع) حضرت عيسي(ع) كى بشارت سنے كے بعد زنا كى تہمت كے خوف سے پريشان تھيں _

أنيّ يكون ولم أك بغيّا

اگر چہ جملہ ( لم يمسنى بشر ) حاملہ ہونے كے معمول كے مطابق ذرائع كى نفى كيلئے كا فى تھا ليكن جملہ ( ولم أك بغياً ) بھى مريم سے صادر ہو ا ہے بعض نے اسے اس طرح قرينہ قرار ديا ہے كہ جملہ ( لم يمسنى ) ميں صرف شرعى نكاح كى بات ہوئي ہے جب كہ ( ولم اك بغيا ) ميں _غير شرعى كا م كى نفى ہوئي ہے اور احتمال يہ بھى ہے كہ جملہ ( لم يمسنى ) سے مرادمطلقاً ہمبسترى ہواور جملہ ( لم اك بغياً ) كا اضافہ اس ليے ہو كہ مريم نے سمجھا حاملہ ہونے كى صورت ميں زنا كى تہمت لگے گى تويہ سب كہہ كر انہوں نے ظاہر كرديا كہ اس تہمت كو برداشت كرنا ہمارے ليے سخت ہے _

۳_ حضرت مريم (ع) نے جبرئيل، سے چاہا كہ وہ انہيں بتائے كہ كيسے بغير باپ كے بيٹا پيدا ہوگا _قالت أنّى يكون لى غلم ولم يمسنى بشر ولم أك بغيا

۴_ حضرت مريم (ع) كا ماضى درخشاں اور تقدس و پاكيزگى كى راہ پر ہر قسم كے انحراف سے پاك تھا _

۶۳۰

قالت أنّى يكون لى غلم ولم أك بغيا

( بغى ) اس عورت كو كہا جاتا ہے كہ جو نا محرم لوگوں سے غير شرعى تعلق ركھے _

۵_ حضرت مريم (ع) ،حضرت جبرئيل كا سامنا كرتے وقت، ايك باكرہ اور غير شادى شدہ لڑكى تھيں _

قالت انيّ يكون لى غلم ولم يمسنى بشرا

۶_ حضرت مريم(ع) ، حضرت عيسي(ع) كى ولادت كى بشارت سننے كے وقت حمل كيلئے مناسب عمر اور صحيح و سالم جسم كى مالك تھيں _ولم يمسنى بشر ولم أك بغيا

حضرت مريم (ع) كے كلام ميں جو كچھ حضرت عيسي(ع) كى پيدا ئش ميں مانع بيان ہوا ہے وہ سب باپ كے نہ ہونے كے بارے ميں ہے انہوں جسمانى حوالے سے عاجزى كا اظہار نہيں كيا لہذا اس حوالے سے كوئي مشكل نہيں تھى _

۷_زنا، تمام الہى اديان ميں ايك غير شرعى اورقابل نفرت كام ہے _ولم أك بغي

۸_اللہ تعالى كے برگزيدہ لوگ، دنيا دى كاموں ميں الہى ارادہ كے متحقق ہونے كے سلسلے ميں معجزہ كے منتظر نہيں ہوتے بلكہ اسكے ليے طبيعى راہوں سے جستجو كرتے تھے _قالت أنّى يكون لى غلم ولم يمسنى بشرا

حضرت مريم (ع) اگر چہ الہى قدت پر ايمان ركھتى تھيں ليكن جب انہوں نے بچے كى خوشخبرى سنى تو طبيعى راہ كے حوالے سے كسى صورت ميں نتيجہ پر نہ پہنچى اور اس جملہ (أنّى يكون لى غلام ) كے ساتھ اس ولادت كى كيفيت پوچھى معلوم ہوا كہ اس حوالے سے طبيعى اسباب انكى نگاہوں سے دور نہيں تھے _

۹_اللہ تعالى كے برگزيدہ بندوں كاعظيم مقام، انكے الہى فرشتوں كى ذمہ داريوں ميں تعجب اور جستجواور الہى افعال كے حوالے سے مزيد معلومات حاصل كرنے ميں مانع نہيں ہے _قالت أنّى يكون لى غلم ولم يمسنى بشرا

الله تعالى :الله تعالى كے ارادہ كے جارے ہونے كے مقامات ۸

الله تعالى كے برگزيدہ :الله تعالى كے برگزيدہبندوں كا انتظار ۸; الله تعالى كے برگزيدہ بندوں كے مقامات ۹;اللہ تعالى كے برگزيدہ بندے اور فرشتوں كى ذمہ دارى ۹

جبرائيل :جبرائيل سے سوال ۳

زنا :

۶۳۱

آسمان اديان ميں زنا كى پليدگى ۷

مريم :مريم كا باكرہ ہونا ۵; مريم كا بچہ ہونے كے حوالے سے سوال ۳; مريم كا بہترين ماضى ۴; مريم كا تعجب ۱ ; مريم كا حاملہ ہونا ۶;مريم كا قصہ ۱،۲،۳،۵،۶ ; مريم كو بشارت ۱;مريم كو زنا كى تہمت لگانا ۲;مريم كى پريشانى ۲;مريم كى سلامتى ۶;مريم كى عفت ۴ ; مريم كى طلب ۳;مريم كے حاملہ ہونے كى خصوصيات ۱;مريم كے فضائل ۴

آیت ۲۱

( قَالَ كَذَلِكِ قَالَ رَبُّكِ هُوَ عَلَيَّ هَيِّنٌ وَلِنَجْعَلَهُ آيَةً لِلنَّاسِ وَرَحْمَةً مِّنَّا وَكَانَ أَمْراً مَّقْضِيّاً )

اس نے كہا كہ اسى طرح آپ كے پروردگار كا ارشاد ہے كہ ميرے لئے يہ كام آسان ہے اور اس لئے كہ ميں اسے لوگوں كے لئے نشانى بنادوں اور اپنى طرف سے رحمت قرار ديدوں اور يہ بات طے شدہ ہے (۲۱)

۱_ حضرت جبرئيل نے حضرت مريم (ع) كے تعجبكو بجاجانا اور انكى عفت و پاكيزگى پر گواہى دى _قال كذالك

(كذالك ) مبتدا محذوف كى خبر ہے اور حرف تشبيہ اور اسم اشارہ كا مركب ہے _ اسكا مشاراليہ ممكن ہے گفتار مريم ہو، اس صورت ميں آيت كا مطلب يہ ہو گا كہ اگر چہ بات وہى ہے جو آپ نے كہى ہے ليكن الله تعالى كے ليے يہ كام مشكل نہيں ہے _

۲_ حضرت جبرئيل نے حضرت مريم (ع) كے سوال اور پريشانى كے جواب ميں الہى وعدہ كے حتمى ہونے اور انكے حضرت عيسى (ع) كا حمل اٹھانے پر تاكيد فرمائي_قال كذالك

اگر ( كذالك ) كا مشاراليہ خود حضرت جبرئيل كى رسالت كا مضمون ہو تو اس صورت ميں بشارت كے حتمى واقع ہونے پر تاكيد ہے يعنى بات وہى ہے جوميں نے كہي_

۳_ بغير باپ كے بيٹے كى عطا، الله تعالى كيلئے نہايت آسان سى بات ہے _هو عليّ هيّن

(ہيّن) صفت مشبہ ہے جس كا مادہہ''ہون'' ہے يعنى آسان اور راحت _

۴_ حضرت عيسي(ع) كى ولادت غير معمولى اور معجزاتى تھي_قال ربك هو عليّ هيّن

۵_ معمول كے مطابق علل و اسباب اور طبيعى راستے الله تعالى كے ارادے اور قدرت ميں محدويت پيدا نہيں كر سكتے _

قال ربّك هو عليّ هيّن

۶۳۲

بغير باپ كے بچہ كى ولادت كے حوالے سے جو مشكل تصورہو سكتى ہے وہ بعض طبيعى اسباب كا فقدان ہے ليكن الله تعالى نے اس راہ سے ہٹ كر كام كونہايت آسان اور سادہ شمار كيا ہے تويہ مسئلہ در حقيقت الله تعالى كى طبيعى علل و اسباب پر حاكميت كو بيان كررہا ہے _

۶_كائنات ميں ہونے والے واقعات كے علل و اسباب، صرف طبيعى نہيں ہيں _قال ربّك هو عليّ هيّن

۷_ كرامات اورغير معمولى اشياء كا وقوع، صرف پيغمبروں كے ساتھ مخصوص نہيں ہے _قال ربك هو عليّ هيّن

۸_ صرف طبيعى علل واسباب پر نظر جمانا درحقيقت الہى ارادہ و منشاء پر متوجہ ہونے سے مانع ہے _أنى يكون لى غلم هو عليّ هيّن

۹_ حضرت مريم كى الله تعالى كى ربوبيت كى طرف توجہ نے انہيں حضرت عيسي(ع) كے حمل كى آسانى اور ممكن ہونے كے حوالے سے مطمئن كيا _قال ربّك

۱۰_ حضرت عيسي(ع) كى باپ اور معمول كے مطابق ذرائع كے بغير ولادت با مقصد اور بہت زيادہ فوائد پر مشتمل تھى _

هو عليّ هيّن ولنجعله ء اية للناس

احتمال ہے كہ عبارت ( لنجعلہ ) علت محذوف پر عطف ہو يعنى''خلقناه من غير أب لا غراض لا مجال لذكرها و لنجعله'' تواس حذف كا فائدہ ( ابہام ) قرار پاپا يعنى اس كا ہدف اس قدر عظيم اور وسيع ہے كہ جو كلام ميں نہيں سماسكتا ہے _

۱۱_ حضرت عيسي(ع) اور انكى بغير باپ كے ولادت ، لوگوں كے ليے الہى قدرت سے آشنا ہونے كيلئے بہت بڑى نشانى ہے _ولنجعله ء اية للناس ( لنجعلہ ) ميں مفعول كى ضمير، حضرت عيسي(ع) كى طرف لوٹ رہى ہے _ آيت ميں تنوين تفخيم كا فائدہ د ے رہى ہے يعنى اس ليے عيسي(ع) كو تجھے عطا كيا كہ اسے لوگوں كيلئے عظيم نشانى قراردو _

۱۲_حضرت عيسي(ع) ، الله تعالى كى جانب سے لوگوں كيلئے عظيم رحمت كا جلوہ ہيں _ولنجعله و رحمة منّ

( رحمة ) كے ( اية للناس ) پر عطف كے قرينہ كى بنا ء و پر مراد، لوگوں پر رحمت ہے _

۱۳_ حضرت عيسي(ع) كى بغير باپ كے ولادت اور انكا الہى قدرت و رحمت كى نشانى ہونا، الله تعالى كى طرف سے طے شدہ امور تھے كہ جن ميں كسى قسم كى تبديلى كى گنجائش نہيں تھى _كذالك و لنجعلهء اية للناس و رحمة منّا و كان أمراً مقضيا

۶۳۳

جملہ (كان أمراً مقضياً )ممكن ہے صرف حضرت عيسي(ع) كى ولادت كے بارے ميں ہو اور ممكن ہے آيت ميں مذكور تينوں موضوعات كے بارے ميں ہو ( مقضياً) مادہ ''قضا'' سے اسم مفعول ہے يعنى وہ جو حتمى ہے اور فيصلہ ہو چكاہے_ لفظ (امر) فرمان اور واقعہ كے معنى ميں استعمال ہوتا ہے يہاں كلمہ مقضيا ً دوسرے معنى كے مراد ہونے پر قرينہ ہے_

۱۴_ الہى طے شدہ امر، تبديل نہيں ہوسكتا _وكان أمراًمقضيا

الله تعالى :الله تعالى كى رحمت كى علامات ۱۲، ۱۳; الله تعالى كى قدرت كى حاكميت ۵;اللہ تعالى كى قدرت كى علامات ۱۱;اللہ تعالى كى قضا ء كا حتمى ہونا ۱۴;اللہ تعالى كے ارادہ كى حاكميت ۵;اللہ تعالى كے افعال ۳;اللہ تعالى كے طے شدہ امور ۱۳;اللہ تعالى كے وعدوں كا حتمى ہونا ۲

تربيت:حضرت عيسي(ع) كى ولادت كى بشارت ۲

حمل :بغير شوہر كے حمل ۳

جبرائيل :جبرائيل سے سوال۲; جبرائيل كى گواہى ۱

ذكر :الله تعالى كى ربوبيت كے ذكر كے آثار ۹; الله تعالى كى مشيت كے ذكر سے مانع ۸;اللہ تعالى كے ارادہ كے ذكر سے مانع ۸

طبيعى اسباب :طبيعى اسباب كا كردار ۵;۶;۸

عيسي(ع) :الله تعالى كى آيات ميں سے عيسي(ع) كا ہونا۱۱; ۱۳ ; عيسي(ع) كا رحمت ہونا ۱۲;۱۳;عيسى كى ولادت كا حتمى ہونا ۱۳; عيسي(ع) كى ولادت كا فلسفہ ۱۰;عيسى كى ولادت كا معجزہ ہونا ۴،۱۱،۱۳;عيسى كى ولادت ميں عظيم فوائد ہونا ۱۰ ;عيسى كى معجزانہ ولادت ۴; ۱۱; ۱۳

كرامات :غير انبياء كى كرامات ۷

مريم (ع) :مريم(ع) كے اطمينان كے اسباب ۹; مريم(ع) كى پريشانى ۲; مريم(ع) كا تعجب ۱; مريم(ع) كا حمل ۹; مريم(ع) كا قصہ ۱;۲;۹; مريم(ع) كى پاكيزگى پر گواہ لوگ ۱

نظام اسباب:۵;۶

واقعات :واقعات كا سرچشمہ ۷

۶۳۴

آیت ۲۲

( فَحَمَلَتْهُ فَانتَبَذَتْ بِهِ مَكَاناً قَصِيّاً )

پھر وہ حاملہ ہوگئيں اور لوگوں سے دور ايك جگہ چلى گئيں (۲۲)

۱_ حضرت مريم(ع) ، الله تعالى كے ارادہ اور حكم كى بناء پر بغير كسيسے جنسى آميزش حاملہ ہوگئيں _فحملته

۲_ حضرت مريم (ع) نے حضرت عيسى (ع) كا حمل اٹھا نے كے بعد اپنے عزيز واقرباء كے علاقہ سے الگ ہو كر دور كسى جگہ پر بسيرا كيا _فحملته فانتبذت به ومكا ناً قضيا

( انتباذ) كا مادہ ( نبذ) ہے اسكا معنى دورى اختيار كرنا ہے اور ( بہ ) ميں (با) ہمراہى يا سبب كيلئے ہے يعنى مريم حمل كے ساتھ يا اسكى وجہ سے دور گئيں ( قصى ) صفت مشبہ ہے اور اسكا معنى دور ہے _

۳_ حضرت مريم(ع) ، حمل كى وجہ سے كافى پريشانيوں ميں گھر گئيں _فحملته فانتبذت به مكاناً قصيا

محل سكونت چھو ڑكر دور كسى جگہ چلے جانا بتا تا ہے كہ مريم(ع) لوگوں كا سامنا كرنے اور انہيں جواب دينے سے پريشان تھيں ( انتباذ ) كا لغوى معنى (كسى ايسے آدمى كا گوشہ نشينى اختيار كرنا جو لوگوں ميں اپنے حاضر ہونے كى اہميت نہيں ديكھتا ) يہ معنى بھى اسى مطلب كى تائيد ميں ہے _

۴_عن الرضا (ع) قال : ليلة خمس و عشرين من ذى القعدة ولد فيها عيسي(ع) بن مريم(ع) (۱) امام رضا (ع) سے روايت نقل ہوئي ہے كہ ذى القعدہ كى پچسويں شب ميں حضرت عيسي(ع) ، كى ولادت ہوئي _

۵_عن سليمان الجعفرى قال: قال أبوالحسن الرضا (ع) : أتدرى مما حملت مريم (س) ؟ فقلت : لا الاّ ان تخبر نى فقال : من تمر الصرفان نزل بها جبرئيل ، فا طعمها فحملت (۲) سليمان جعفرى سے روايت ہوئي ہے كہ امام رضا(ع) نے فرمايا كيا تمہيں معلوم ہے كہ مريم (ع) كس چيزسے

____________________

۱) من لا يحضرہ الفقيہ ج۲ ص۵۴ ح۱۵ ، مسلسل ۲۳۸ ، بحارالاانوار ج۱۴ص۲۱۴ح۱۳

۲)محاسن برقى ج۲ص۵۳۷ب۱۱۰ح ۸۱۱ ، بحارالانوار ج۱۴ ص۲۱۷ ح۱۸_

۶۳۵

حاملہ ہوئيں ميں نے كہا نہيں ليكن آپ بتائيں تو انہوں فرمايا: صرفان(۱) كى كھجور سے جو كہ ان كيلئے حضرت جبرئيل لائے تھے وہ انہيں كھلا ئيں تو وہ حاملہ ہوئيں _

۶_عن ا بى الحسن موسى (ع) ...اليوم الذى حملت فيه مريم (س) يوم الجمعة للزوال (۲) امام كاظم (ع) سے روايت ہوئي كہ وہ دن كہ مريم حاملہ ہوئيں و ہ جمعہ كا دن زوال كے قريب وقت تھا _

۷_عن أبى عبدالله (ع) قال إنّ مريم (ع) حملته سبع ساعات (۳) امام صادق (ع) سے روايت ہوئي كہ بلاشبہ مريم سات گھنٹے تك حضرت عيسي سے حاملہ رہى ہيں _

الله تعالى :الله تعالى كى مشيت ۱; الله تعالى كے وادار۱

روايت :۴;۵;۶;۷

عيسى (ع):حضرتعيسى كى تاريخ ولادت ۴

مريم :مريم كا حمل ۲; مريم كے حمل كا سرچشمہ ۱; مريم كا قصہ ۱،۲،۷; مريم كى پريشانى كے اسباب ۳;مريم كى گوشہ نشينى ۲; مريم كے حمل كا وقت ۶;مريم كے حمل كى كيفيت ۵;مريم كے حمل كى مدت ۷;مريم كے حمل كے آثار ۳

آیت ۲۳

( فَأَجَاءهَا الْمَخَاضُ إِلَى جِذْعِ النَّخْلَةِ قَالَتْ يَا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هَذَا وَكُنتُ نَسْياً مَّنسِيّاً )

پھر وضع حمل كا وقت انھيں ايك كھجور كى شاخ كے قريب لے آيا تو انھوں نے كہا كہ اے كاش ميں اس سے پہلے ہى مرگئي ہوتى اور بالكل فراموش كردينے كے قابل ہوگئي ہوتى (۲۳)

۱_ بچے كى ولادت كا در د، حضرت مريم (س) كو كھجور كے درخت كے تنے كے پاس لے گيا _

فأجا ء ها المخاض إلى جذع النخلة كلمہ (ا جائ) فعل ( جائ) كا متعدى ہے يعنى لے گيا اور( مخاض )يعنى بچے كى ولادت كا در د _

____________________

۱)صرفان كى كھجور وہ ہے كہ جو گرميوں ميں پيدا ہوتى ہے ليكن مقوى ہونے كى بنا ء پر سرديوں ميں استعمال ہوتى ہے _

۲) كافى ج۱ص۴۸۰ح۴بحارالانوار ج۱۴ ص ۲۱۳ ح۱۱

۳) قصص الانبياء ص۲۶۶ح۳۰۵ فصل ۱ بحارالانوار ج۱۴ ص۲۱۶ح۱۷،

۶۳۶

۲_بچے كى ولادت كے وقت، حضرت مريم بغير كسى خوف كے رہا ئشى علاقہ سے دور تنہا رہ رہى تھيں _

مكاناً قصيا ً فا جاء ها المخاض إلى جذع النخلة جملہ (أجاء ها المخاض ) ميں مريم كو درخت كے پاس لانے كى نسبت دردزہ كى طرف دى گئي ہے اور بعد و الى آيات ميں بتا ياگيا ہے كہ مولود نے انہيں پانى كى طرف راہنمائي كى _ اور مريم نے كھجور كھانے كيلئے خود درخت كو ہلا يا يہ سب قرائن بتاتے ہيں كہ حضرت مريم بچے كى ولادت كے وقت تنہا تھيں _

۳_حضرت مريم(ع) كا وضع حمل ايسے علاقہ ميں ہو ا كہ جہاں آب و ہوا گرم تھى اور كھجوروں كے درخت تھے _

فأجا ء ها المخاض إلى جذع النخلة ( نخل) يعنى كھجور ايسى زمين ميں پيدا ہوتى ہے كہ جہاں آب و ہوا گرم ہو _

۴_ وہ كھجور كا درخت كہ جسكے پاس حضرت مريم نے پناہ لى ايك معين اور خشك درخت تھا _

فأجاء ها المخاض إلى جذع النخلة _ ( النخلة) معرفہ ہے اور اس پر (الف و لام ) ہو سكتا ہے عہد ذ ہنى ہو يعنى وہ عہد جو الله تعالى اور مريم كے درميان يا وہ عہد جو الله تعالى اور رسول اكرم (ص) كے درميان ہوا تھا اور يہ نہيں كہا گيا ( إلى النخلة) اس سے معلوم ہو تا ہے كہ جس درخت كے قريب حضرت مريم نے پناہ لى تھى وہ سوا ئے درخت كے تنہ كے كچھ نہيں تھا بعد والى آيات كہ جس ميں بتايا گيا كہ حضرت كو پانى كى موجود گى اور كھجور كھانے كيلئے درخت كو حركت دينے كے بارے ميں آگاہ كيا گيا يہ آيات بھى بتا تى ہيں يہاں معمول سے ہٹ كر معجزانہ طريقہ سے پانى اور كھچور حاصل ہوئي ہيں ورنہ مريم ان دونوں چيزوں كو جاننے كيلئے كسى راہنمائي كى محتاج نہيں تھيں _

۵_ حضرت مريم نے وضع حمل كے وقت آرزوكى كاش وہ حاملہ ہونے سے پہلے مرچكى ہوتى اور انكى يا دہى باقى نہ رہتى _

فأجاء ها المخاض قالت ياليتنى مت قبل هذا و كنت نسياً منسيّا

جملہ (وكنت نسياً منسيّاً ) بتاتا ہے كہ حضرت مريم كى موت كى آرزوكرنے كى وجہ لوگوں كى زبانوں كے زخموں سے بچناتھا اگر چہ (ألا تحزنى قد جعل ...) كے قرينہ سے معلوم ہوتا ہے كہ پانى اور غذا كے نہ ہونے نے بھى انہيں غمگين كيا ہوا تھا ليكن يہ سارے نتائج اسى زبان كے زخموں سے بچنے كى وجہ سے ہيں كہ ميں حاملہ ہونے سے پہلے كاش مرجاتى كہ لوگوں كى زبانوں كے زخموں سے بچنے كيلئے يوں سرگرداں نہ ہوتى _

۶_ حضرت مريم كا دكھ اورروحى پريشاني،حضرت عيسي(ع) كى ولادت كے وقت قابل بيان نہيں تھا _فا جا ء ها المخاض إلى جذع النخلة قالت ياليتنى مت ّقبل هذا و كنت نسياً منسيّا

۶۳۷

حضرت مريم (ع) جو كہ الله تعالى كى خاص عنايات كى حامل تھيں ان سے موت كى آرزو يقيناً ايسے شرائط ميں ہوئي ہوگى كہ جب حالات انكى برداشت اور طاقت سے باہر ہوگئے ہونگے_ بعد والى آيات كے قرينہ سے يہ حالت تہمت لگنے كے احتمال اور سرگردان ہونے سے اندرونى دباؤ كى بنا ء پرتھي_

۷_ حاملہ ہونے كى حالت ميں يا وضع حمل كے بعد موت حضرت مريم كى پريشانيوں كو ختم نہيں كرسكتى تھى _ياليتنى متّ قبل هذ حضرت مريم كے كلام ميں ( ہذا ) اصل حمل كيطرف اشارہ ہے _ نہ كہ سرگرداں ہونے يا وضع حمل كى تكليف اور تنہائي چونكہ يہ سب چيزيں حضرت مريم(ع) نے لوگوں كى زبانوں كے زخموں سے بچنے كى خاطر قبول كى تھيں وہ تواپنے ليے زنا كى تہمت لگنے سے حتّى ّ كہ موت كے بعد بھى خوفزدہ تھيں لہذا اس تہمت سے پچنے كى صورت انكے ليے حاملہ ہونے سے پہلے مرنے كى صورت ميں تھى _

۸_ حضرت مريم(ع) نے اپنے حاملہ ہونے كو مكمل طور پر لوگوں سے چھپا يا ہوا تھا _

مكاناً قصياً فاجا ء ها المخاض ياليتنى متّ قبل هذا و كنت نسياً مسيا

لوگوں سے دور چلے جانا اور وضع حمل كے وقت تنہائي اور بغير سرپرست كے ہونا يہ چيزبتاتا ہے كہ اس وقت تك حضرت مريم(ع) نے اپنے حاملہ ہونے كو لوگوں سے چھپا يا ہوا تھا _

۹_ بعض صورتوں ميں موت كى خواہش جائز اور پسنديدہ ہے _ياليتنى متّ قبل هذا

۱۰_انسان كى آبرو اور شخصيت، اسكى مادى زندگى سے اہم ہے ياليتنىمتّ قبل هذ

يہ جو حضرت مريم(ع) نے بغير آبرو كى زندگى كو موت پر ترجيح دى ہے اس سے مذكورہ حقيقت كا استفادہ ہوتا ہے

۱۱_حضرت مريم(ع) انسانى حالات اور احساسات كى حامل تھيں _ياليتنى متّ قبل هذا

حضرت مريم(ع) كا اپنے اندر غير عادى امور كے ظاہر ہونے سے رنجيدہ اور بھوك وپياس سے متاثر ہونا، اسى طرح ديگر طبيعى اسباب و غيرہ بتاتے ہيں كہ حضرت مريم(ع) بشرى صفات كى مالك انسان تھيں اور بعض عيسائيوں كى طرف سے انكے بارے ميں الوہيت كے خيالات كے باطل ہونے پر دليل ہے _

۱۲_حضرت مريم (س) لوگوں ميں انتہائي معروف اوراہم شخصيت كى مالك تھيں _ياليتنى كنت نسياً نسيا

۱۳_ لوگوں ميں حضرت مريم(ع) كى عفت و پاكيزگى كے حوالے سے شہرت ان ميں حضرت عيسي(ع) كى ولادت كے حوالے سے لوگوں كے ذہن ميں منفى ردعمل كے حوالے سے پريشانى بڑھارہى تھى _

۶۳۸

ياليتنى متّ قبل هذا و كنت نسياً منسيا

( نسى ) ايسى چيزہے كہ جسكى خاص اہميت نہيں ہے اگر چہ وہ الہى لوگوں كى ياد سے محو نہ ہو (مفردات راغب ) اس كلمہ كى (منسياً) سے توصيف ( يعنى فراموش شدہ ) بتارہى ہے كہ حضرت مريم نے صرف فراموش شدہ ہونے كى صلاحيت كى آرزونہيں كى بلكہ حقيقى طور پر فراموش ہونے كى آرزو كي_ حضرت مريم(ع) كى يہ آرز و بتاتى ہے وہ اس سے پہلے معاشرہ ميں ايك باعزت شخصيت تھيں چونكہ واقعہ لوگوں ميں منفى رد عمل پيدا كرسكتا تھا لہذا اس حوالے سے پريشان تھيں _

۱۴_روى عن الصاد ق(ع) فى قول مريم ( يا ليتنى متّ قبل ہذا : لا نہا لم ترفى قومہا رشيدا ً ذافراسة ينزہہا من السوء (۱)امام صادق (ع) سے حضر ت مريم(ع) كا حضرت عيسي(ع) كى ولادت كے وقت موت كى آرزو كے قول كے حوالے سے روايت نقل ہوئي ہے كہ آپ نے فرمايا : يہ اس ليے تھا كہ ان كو اپنى قوم ميں كوئي ايسا با شعور شخص نظر نہيں آتا تھا كہ جو انہيں زنا كى تہمت سے برى قرار ديتا _

۱۵_عن الصادق (ع) ( فى قصة مريم ) إن زكريا و خالتها أقبلا يقصان أثرها حتّى هجما عليها و قد وضعت ما فى بطنها و هى تقول : ''يا ليتنى متّ قبل هذا و كنت نسياً منسياً'' (۲) ( حضرت مريم(ع) كى داستان كے حوالے سے ) امام صادق (ع) سے روايت ہوئي كہ حضرت زكريا(ع) اور حضرت مريم(ع) كى خالہ انكى تلاش ميں تھے كہ ايك دم وہ مل گئيں اس حال ميں كہ حضرت عيسى (ع) دنيا ميں قدم ركھ چكے تھے اور وہ كہہ رہى تھيں _ياليتنى متّ قبل هذ

آبرو :آبرو كى اہميت ۱۰

آرزو :موت كى آرزو ۵;۱۴;۱۵; موت كى آرزو كا جائز ہونا ۹

احكام :۹//روايت :۱۴;۱۵//زندگى :زندگى كى اہميت ۱۰

عيسى (ع) :عيسى (ع) كى ولادت كے آثار ۱۳

مريم (ع) :مريم(ع) كا احترام ۱۲; مريم (ع) كا بشر ہونا ۱۱ ; مريم(ع) كا حمل چھپا نا ۸; مريم (ع) كاغم ۶ ;مريم(ع) كا قصہ ۲،۳ ،۴ ،۵ ، ۶ ، ۷ ،۸، ۱۴،۱۵;مريم (ع) كا وضع حمل ۵،۶ ; مريم(ع) كى آرزو ۵،۱۵;مريم(ع) كى آرزو كا فلسفہ ۱۴; مريم (ع) كى پريشانى ۶،۷;مريم(ع) كى پريشانى كے اسباب ۱۳;

____________________

۱ ) مجمع البيان ج۶ص۷۹۰، نور الثقلين ج۳ ص۳۳۰ح۴۶_

۲)كمال الدين صدوق ج۱ ، ص۱۵۸ ب۷ ح۱۷ ، بحارالانوار ج۱۳ص۴۴۹ح۱۰_

۶۳۹

مريم 'س'كى پناہ گاہ ۱،۲; مريم(ع) كى پناہ گاہ كى موقعيت ۳; مريم (ع) كى تنہائي ۲;مريم (ع) كى شہرت ۱۳ ; مريم(ع) كى عفت ۱۳; مريم(ع) كى فراموشى ۵; مريم (ع) كى معاشر تى موقعيت ۱۲; مريم (ع) كى دعوت۷; مريم(ع) كے احساسات ۱۱ ;مريم (ع) كے قصہ ميں كھجور كے گذشتہ آيات ميں ( فحملتہ فانتبذت بہ )

درخت كى خصوصيات ۴;مريم (ع) ے قصہ ميں نخل ۱; مريم(ع) كے وضع حمل كى خصوصيات ۲;مريم (ع) كے وضع حمل والا مقام ۳;مريم(ع) ميں وضع حمل كے درد كے آثار ۱

آیت ۲۴

( فَنَادَاهَا مِن تَحْتِهَا أَلَّا تَحْزَنِي قَدْ جَعَلَ رَبُّكِ تَحْتَكِ سَرِيّاً )

تو اس نے نيچے سے آواز دى كہ آپ پريشان نہ ہوں خدا نے آپ كے قدموں ميں چشمہ جارى كرديا ہے (۲۴)

۱_ حضرت مريم(ع) كا كھجور كے درخت كے قريب، وضع حمل ہوا اور حضرت عيسي(ع) نے دنيا ميں قدم ركھا _

فا جا ء ها المخاض إلى جذع النخلة فنادى ها

(فناداها ) ميں فاء فصيحہ ہے اور اپنے سے پہلے ايك محذوف جملہ كى حكايت كررہى ہے اور جملہ كا مطلب حضرت عيسى كى كھجور كے درخت كے قريب ولادت ہے _

۲_ حضرت عيسي(ع) نے وضع حمل كے بعد اپنى والدہ سے انكے روحى و جسمانى حوالے سے سخت ترين حالات ميں ان سے كلام كيا اور انہيں حوصلہ ديا_فحملته فنادى ها من تحتها ألاتخزني

كى ضميروں كے قرينہ سے ( نادى ) ميں فاعلى ضمير سے مراد حضرت عيسي(ع) ہيں اور فناداھا كى ضمير كى مانند ( من تحتہا ) كى ضمير سے بھى مراد حضرت مريم ہيں بعض نے ( نادى ) كا فاعل حضرت جبرئيل كو جانا اور ( من تحتہا ) كى ضمير كو نخلة يا حضرت مريم كى طرف لوٹا يا ہے ليكن جو كچھ كہا گيا ہے وہ سياق وسباق آيات سے زيادہ مناسب ہے _

۳_ حضر ت عيسي(ع) نے پيدا ہوتے ہى اپنى والدہ حضرت مريم(ع) كو غم نہ كرنے كى نصيحت كى _

فنادى ها من تحتها ألا تحزني

۴_ الله تعالى نے حضرت عيسي(ع) كى ولادت كے ساتھ ہى حضرت مريم كے ٹھہر نے كى جگہ كے نيچے سے چشمہ جارى كيا _فنادى ها من تحتها ألا تحزنى قد جعل ربّك تحتك سريا

( سري) سے مراد چھوٹا ساپانى كا نالہ اور يہ (رفيع) كے معنى ميں بھى استعمال ہوا ہے ليكن بعد والى آيات ميں جملہ'' اشربي'' '' پہلے معنى پرہى قرينہ ہے ''

۶۴۰

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809

810

811

812

813

814

815

816

817

818

819

820

821

822

823

824

825

826

827

828

829

830

831

832

833

834

835

836

837

838

839

840

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863

864

865

866

867

868

869

870

871

872

873

874

875

876

877

878

879

880

881

882

883

884

885

886

887

888

889

890

891

892

893

894

895

896

897

898

899

900

901

902

903

904

905

906

907

908

909

910

911

912

913

914

915

916

917

918

919

920

921

922

923

924

925

926

927

928

929

930

931

932

933

934

935

936

937

938

939

940

941

942

943

944

945