تفسير راہنما جلد ۱۰

تفسير راہنما 4%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 945

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 945 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 247345 / ڈاؤنلوڈ: 3404
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱۰

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

آیت ۱۶

( وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ مَرْيَمَ إِذِ انتَبَذَتْ مِنْ أَهْلِهَا مَكَاناً شَرْقِيّاً )

اور پيغمبر اپنى كتاب ميں مريم كا ذكر كرو كہ جب وہ اپنے گھروالوں سے الگ مشرقى سمت كى طرف چلى گئيں (۱۶)

۱_ حضرت مريم(ع) كى داستان كے بارے ميں آيات پر خصوصى توجہ اور قران ميں حضرتعيسي(ع) كى ولادت كى داستان كى وضاحت، پيغمبر كے كندھوں پر ايك الہى ذمہ دارى ہے _واذكرفى الكتب مريم

( اذكر ) پيغمبر كى طرف خطاب ہے اگر چہ آپ بغير كسى حكم خاص كے بھى قران ميں نازل شدہ آيات بيان كياكرتے تھے ليكن ان آيات كے بيان پر تاكيد سے مقصود حضرت مريم كے حضرتعيسي(ع) كے حوالے سے حاملہ ہونے كے واقعہ كى اہميت اور اس چيز كے اس معاشرہ پر گہرے اثرات كا بيان تھا _

۲_ قرآن، رسول خدا (ص) كے زمانہ ميں ايك تدوين شدہ مجموعہ تھا _واذكر فى الكتب

( الكتاب ) ميں ''الف و لام'' عہد حضورى ہے اور مو جو وہ كتاب پر دلالت كررہا ہے _

۳_حضرت مريم نے اپنےگھر والوں سے جدا ہوكر مسجد الاقصى كے شرقى جانب بسيرا كرليا _

واذكر مريم إذا انتبذت من أهلها مكانا شرقيا

(انتباذ ) كا مادہ ( نبذ ہے كہ جسكا معنى دور ہونا ہے (مكاناً شرقياً ) يعنى شرق كى جانب جگہ چونكہ حضرت مريم (مسجدالاقصى ) معبد كيلئے وقف تھيں تو يہاں مسجد الاقصى كے مشرق ميں مكان مقصود ہے _

۴_ حضرت مريم كے رشتہ دار مسجد الاقصى كى مشرقى جانب سے ہٹ كر مقيم تھے _انتبذت من أهلها مكاناً شرقي

۵_ حضرت مريم حاملہ ہونے سے پہلے مسجد الاقصى كے قريب ساكن رہنے والے رشتہ داروں كے پاس آيا كرتى تھيں _

إذا انتبذت من أهلها مكاناً شرقيا

بائيسويں آيت ميں قرينہ (مكاناً قصبا ) جو كہ حضرت مريم كے دوسرے انتخاب شدہ مكان كے بارے ميں بتا رہاہے كہ معلوم ہوتا ہے كہ مسجد الاقصى كا مشرقى حصہ لوگوں كے رہائشى علاقہ كے قريب تھا _

۶_ حضرت مريم كے قانون شريعت ميں گھر كا مشرقى حصّہ يا معبد عبادت كيلئے بہتر مقام تھا _إذانتبذت من أهلها مكانا ً شرقيا ً

۶۲۱

حضرت مريم كے گوشہ نشين ہونے كى وجہ واضح نہيں ہے اور آيت ميں اس حوالے سے كوئي شاہد نہيں ديكھا گيا _ بعض كے بقول : انہوں نے مكان كا انتخاب عبادت ميں خلوت كى بناء پر كيا تھا _اور مسجد الاقصى كا مشرقى حصہ انتخاب كرنے كى وجہ مشرقى حصہ كا عبادت كے لےئے بہتر ہونا تھا بعض نے حضرت مريم كے اس اقدام كو خواتين سے متعلقہ امور سے جانا ہے كہ جس كى بنا ء پر قرآن ميں عمدا ً اس بارے ميں كچھ نہيں كہا گيا تو اس صورت ميں مشرقى جانب كا انتخاب، صرف اپنے مقاصد كے بہتر ہونے كى بناء پر تھانہ كہ شرعا ً بہتر تھا _

۷_حضرت مريم نے اپنى عبادت كيلئے اس مكان كا انتخاب كيا كہ جس كا رخ مشرق كى جانب تھا _

إذانتبذت من أهلها مكاناً شرقيا ( شرقي) يعنى مشرق كى طرف ( لسان العرب )

۸_ حضرت مريم نے اپنے وجود ميں كسى چيز كى بناء پررنجيدہ ہو كر گوشہ نشينى اور لوگوں كى نگاہوں سے دور جگہ كا انتخاب كيا _إذ انتبذت من أهله ( نبذ) يعنى كسى چيز كو بے پرواہى كى بناء پر دورپھينكنا اور ( انتباذ) يعنى اس شخص كا گوشہ نشين ہونا كہ جو لوگوں ميں اپنے آپ كو كمتر اورنا چيز سمجھے ( مفردات راغب ) بعض احتمالات كہ جو حضرت مريم كے گوشہ نشيں ہونے كى وضاحت ميں بيان ہوئے ہيں مثلاماہوارى كے ايام و غيرہ گزارنے كيلئے كہ وہ اس معنى كے ساتھ مناسب ہيں _

آنحضرت (ص) :آنحضرت(ص) كى ذمہ دارى ۱; آنحضرت(ص) كے زمانہ ميں قران ۲

ذكر :عيسي(ع) كے قصہ كا ذكر۱;مريم كے قصہ كا ذكر ۱

عبادت :عبادت كے آداب ۶;مشرق كى جانب عبادت ۷; عبادت كے مكان كا كردار۶; مشرقى مكان ميں عبادت ۶

عبادتگاہ :عبادتگاہ كے مشرقى جانب عبادت ۶

عيسى :عيسي(ع) كى ولادت ۱;عيسي(ع) كے قصہ كى وضاحت ۱

قران :قران كا جمع ہونا ۲; قران كى تاريخ ۲

مريم(ع) :مريم كى سكونت ۵; مريم كا قصہ ۳;۵;۸; مريم كى

۶۲۲

پناہ گاہ ۳; مريم كى عبادتگاہ كى سمت۷;مريم كى گوشہ نشينى كے اسباب ۸;مريم كے رشتہ داروں كى سكونت ۴;۵;مريم كے قصہ كى وضاحت ۱; مسجدالاقصى كے قريب مريم۴، ۵; مسجدالاقصي كے قريب مريم كے رشتہ دار ۴;۵

مسجد الاقصى :مسجدالاقصى كى مشرق سمت ۳

ـآیت ۱۷

( فَاتَّخَذَتْ مِن دُونِهِمْ حِجَاباً فَأَرْسَلْنَا إِلَيْهَا رُوحَنَا فَتَمَثَّلَ لَهَا بَشَراً سَوِيّاً )

اور لوگوں كى طرف پردہ ڈال ديا تو ہم نے اپنى روح كو بھيجا جو ان كے سامنے ايك اچھا خاصا آدمى بن كر پيش ہوا (۱۷)

۱_حضرت مريم نے مسجدالاقصى كى مشرقى جانب لوگوں كى نگاہوں سے دورايك مكان منتخب كيا اور خود كو لوگوں سے پنہاں كيا _فاتخذت من دونهم حجاب

حجاب سے مراد ساتر، يا ايسى چيز جو پردے كا كام د ے _ تو ( اتخذت ...حجابا ً) سے مراد پردہ ڈالنا يا ايسى جگہ جانا جو طبيعى طور پر پردے كا كام دے مثلا ديوار يا پہاڑ غيرہ كى مانند ہوں _

۲_ وہ مكان كہ جہاں مريم(ع) لوگوں كى نگاہوں سے پنہاں ہو جاتى تھيں وہ لوگوں كے رہائشى علاقہ كے قريب تھا _

من دونهم كلمہ ( دون) كبھى قريب اور كبھى حقارت كيلئے استعمال ہوتا ہے ( العين )

۳_ حضرت مريم كا شرقى سمت ايك پنہاں مكان ميں رہنے كے بعد الله تعالى نے ايك انتہائي مكرم فرشتہ انكيجانب بھيجا _

فاتخذت من دونهم حجاباً فأرسلنا إليها روحنا

بعد والى آيات ميں اس فرشتہ كى جو صفات ذكر ہوئيں ہيں انكى بناء پر يہاں ''روحنا'' سے مراداللہ تعالى كى بارگاہ ميں ايك انتہائي مكرم اور عظيم المنزمت فرشتہ ہے كہ جسے الله تعالى كى طرف نسبت دى گئي ہے وہ آيات جوحضرت جبرئيل كو'' روح الامين'' او ر''روح القدس'' كے نام سے يا د كرتى ہيں انہيں ديكھتے ہوئے ہم كہہ سكتے ہيں كہ يہ فرشتہ جبرئيل ہے _

۴_حضرت مريم كا اپنے فرزند حضرتعيسي(ع) سے حاملہ ہونے كيلئے ضرورى تھا كہ وہ لوگوں كى نگاہوں سے دور ايك خلوت والى جگہ پرہوں _فاتخذت من دونهم حجاباً فأرسلنا إليها روحنا ( فأرسلنا ) ميں ( فائ) تفريع كيلئے ہے _اور يہ بتاتى ہے كہ حضرت مريم كے گذشتہ كام انكے حضرتعيسي(ع) كى والدہ كا مقام پانے اور الہى فرشتہ كے نزول كا پيش خيمہ ہيں _

۵_حضرت مريم كا الله تعالى كى بارگاہ ميں عظيم وبلند مقام_فا رسلنا إليهاروحنا

۶۲۳

۶_عبادت كے وقت، جسمانى نمائش سے پرہيز اور اپنے آپ كو با پردہ ركھنا خواتين كى اہم خصوصيت ہے _

فاتخذت من دونهم حجابا فأرسلنا إليها روحنا

حضرت مريم ايسے مكان كى طرف جارہى تھيں جو لوگوں كى نگاہوں سے دورہو اور عبادت كے وقت انہيں نامحرم كا سامنا نہ كرنا پڑے _

۷_ حضرت جبرائيل (ع) جسما نيتسے منزہ اور شرف ومنزلت پر فائز موجود كا نام ہے_فا رسلنا إليها روحنا

( روح ) كا ( نا) كى طرف اضافہ تشريفى ہے روح كوبھيجنے كا مطلب يہ ہے كہ وہ روح ايك مستقل موجود كہ جو الله تعالى كا مطيع تھا اور سفير كے فرائض انجام دينے كى قابليت ركھتا تھااور اسے اپنى رسالت كے مفاہيم سے آشنائي تھى بشر ى صورت ميں اپنے آپ كو مجسّم كرنا اس بات كى دليل ہے كہ وہ اس كام كو انجام دينے پر قادر اور جسمانى شكل اختيار كرنے كے ليے ساز گار تھے چونكہ يہ سب خصوصيات حضرت جبرئيل(ع) پر تطبيق كررہى ہيں جسكى وجہ سے بعض مفسرين نے كہا كہ وہ فرشتہ جو حضرت مريم، پرنازل ہوا وہ حضرت جبر(ع) ئيل تھے _

۸_ الله تعالى كا خصوصى نمائندہ، ايك عا م ا نسان كى مانند تمام جسمانى خصوصيات كے ساتھ حضرت مريم كے سامنے نمودار ہوا _فتمثل لها بشراً سوي

( تمثيل ) يعنى شكل بناتا اور ايك چيز كى صورت ميں نمود ار ہونا _ يہاں ( بشراً)'' تمثل'' كے فاعل كيلئے حال ہے اس سے مراد بعد والى آيت كے قرينہ كى رو سے مردہے ( سويا ً) يعنى معتدل ( بشراً) سويا يعنى انسان معتدل جوكہ جسمانى خصوصيات ميں افراط تفريط سے منزہ ہو _

۹_الہى فرشتہ كا حضرت مريم(ع) كيلئے جو چہرہ جلوہ گر ہوا وہ انكے ليے نا آشنا اور انكے ہم و طنوں اور رشتہ داروں جيسا بھى نہ تھا _بشراً سويا

( بشراً) اسم نكرہ ہے اور كسى كے نا آشنا ہونے پر دلالت كرتاہے _

۱۰_فرشتوں كا مادى صورتيں اختيار كرنا اور ان صورتوں ميں جلوہ گر ہونا، ايك ممكن اور محقق شدہ مسئلہ ہے _

فأرسلنا إليها روحنا فتمثل لها بشراً سويا

۱۱_ فرشتوں كوديكھنا اور ان سے گفتگو كرنا، صرف پيغمبروں كے ساتھ منحصر نہيں ہے _

فأرسلنا إليها روحنا فتمثل لها بشرا ً سويا

۶۲۴

چونكہ حضرت مريم مقام نبوت پر فائز نہ تھيں ليكن اسكے با وجود انہوں نے فرشتہ كا مشاہدہ كيا اور اس سے كلام كيا اس سے ثابت ہوا كہ يہ مسئلہ صرف پيغمبر وں كے ساتھ منحصر نہيں ہے _

۱۲_ عورت ميں معنويت كے بلند ترين درجات تك پہنچنے اور فرشتوں سے گفتگو اور ملاقات كرنے كى لياقت موجود ہے _

فأرسلنا إليها روحنا فتمثل لها بشراً سويا

۱۳_عن الأصبغ بن نباتة قال علي(ع) جبرئيل من الملائكةوالروح غير جبرائيل قال ( الله ) لمريم ( فأرسلنا إليها روحنا فتمثل لها بشراًسوياً ...) (۱) اصبغ بن نبانہ سے روايت نقل ہوئي ہے كہ حضرت علي(ع) نے فرمايا : جبرئيل فرشتوں ميں سے ہے جب كہ روح جبرئيل كے علاوہ ہے الله تعالى نے

حضرت مريم كے بارے ميں فرمايا ہے :فإرسلنا إليها روحنا فتمثل لها بشراً سويا ً

۱۴_قال الباقر(ع) : إنها ( مريم) بشرت بعيسى فبيناهى فى المحراب إذ تمثل لها الروح الا مين بشراًسويا ً امام باقر (ع) نے فرمايا : حضر ت مريم(ع) كو حضرت عيسي(ع) كى ولادت كى بشادت دى گئي تھى جب وہ محراب ميں تھيں تو اچانك روح الامين انسان كا مل كى شكل ميں ان پر ظاہر ہوئے _

تربيت:حضرت عيسي(ع) كى ولادت كى بشارت ۱۴//پردہ :پردہ كى رعايت كى اہميت ۶

جبرئيل(ع) :جبرائيل سے مراد ۱۳; جبرائيل كا مجسم ہونا ۱۴ ; جبرائيل كى حقيقت ۷ ;جبرائيل كے مجسم ہونے كى خصوصيات ۸; جبرائيل كےمقامات ۷

روايت : ۱۳;۱۴

روح :روح سے مراد ۱۳//عبادت :عبادت كے آداب ۶; عبادت ميں پردہ ۶

عمل :پسنديدہ عمل ۶//عورت :عورت كا كمال ۱۲;عورت كے مقامات ۱۲

مريم 'س':

____________________

۱)الغاراتج۱ص۱۸۴،بحارالاانوار ج۴ ۹ص۵ ح ۷ _

۲)قصص الانبياء راوندى ص۲۶۴ح۳۰۳ بحارالاانوار ج۱۴ص۲۱۵ح۱۴_

۶۲۵

مريم'س' پر جبرائيل كا نزول ۳،۸; مريم'س' كا تقرب۵; مريم'س' كا قصہ ۱،۲،۳، ۴،۸، ۹ ، ۱۴ ;مريم'س' كو بشادت ۱۴; مريم'س' كى پناہ گاہ ۱،۲;مريم'س' كى گوشہ نشينى ۱،۴; مريم'س' كے حمل كا پيش خيمہ ۴ ;مريم'س' كے مقامات۵

مسجدالاقصى :مسجدالاقصى كى مشرقى سمت ۱

ملائكہ :ملائكہ سے گفتگو۱۱;۱۲;ملائكہ كا ديكھا جانا ۱۱;۱۲; ملائكہ كا مجسم ہونا ۹;۱۰

آیت ۱۸

( قَالَتْ إِنِّي أَعُوذُ بِالرَّحْمَن مِنكَ إِن كُنتَ تَقِيّاً )

انھوں نے كہا كہ اگر تو خوف خدا ركھتا ہے تو ميں تجھ سے خدا كى پناہ مانگتى ہوں (۱۸)

۱_ ايك اجنبى شخص ميں تقوى كا احساس اور خوف خدا ابھارنا يہ حضرت مريم كا اسے اپنى خلوت گاہ ميں ديكھنے كے بعد اعتراض آميز ردّ عمل تھا _قالت إنى أعوذبالرحمن منك إن كنت تقيا

جملہ ( إن كنت تقيا ً) جملہ شرطيہ كے قالب ميں تقوى كى طرف دعوت ہے آيت كا مطلب يہ ہے كہ اگر متقى ہو ،كہ ہونا چاہيے------_-- مجھ سے دور ہوجا اوراپنے آپ كو الہى غضب ميں مبتلا ء نہ كرو ميں نے اپنے آپ كو اسكى پناہ ميں ديا ہوا ہے اور تيرے ضرركا دفع اس سے چاہتى ہوں _

۲_ حضرت مريم اپنے قريب ايك اجنبى شخص كو پاكر وحشت ذرہ ہوگئيں اور خدا كى پناہ لى اور اسے الہى غضب سے ڈرايا _

قالت إنى أعوذبالرحمن منك ان كنت تقيا ً

حضرت مريم نے بجائے (اللهم إنى أعوذ بك ) كے اجنبى شخص كو مخاطب بناياتا كہ اسكے دل ميں الہى غضب كا خوف پيدا كريں _ ''تقوي'' يعنى ہر خوفناك چيز سے بچتے ہوئے اپنے آپ كو محفوظ جگہ ميں ركھنا ( مفردات راغب )'' تقياً'' يعنى خطرے سے پرہيز كرنے والا حضرت مريم كے كلام ميں قرينہ ديكھتے ہوئے كہ انہوں نے اپنے مخاطب كو الله تعالى سے ڈرايا خطرے سے مراد خداوند عالم كا غضب ہے _

۳_اللہ تعالي، مشكل اوقات ميں انسان كى پناہ گاہ ہے _إنى أعوذ بالرحمن

۴_اللہ تعالى كى وسيع رحمت، مصيبت زدہ اوربے سہار لوگوں كو پناہ دينے كا اقتضا كرتى ہے _إنى أعوذ بالرحمن منك

( رحمان ) مبالغہ كا صيغہ ہے اوراسكا مطلب بہت زيادہ مہربان ہونا ہے حضرت مريم (ع) كا الله تعالى كے تمام ناموں ميں

۶۲۶

سے صرف اس نام كا سہا را لينا خدا كے تمام اوصاف ميں سے اس وصف كى خصوصيت پردلالت كر رہا ہے اور پناہ كے مقام كے ساتھ اسكى مناسبت كوبيان كررہا ہے_

۵_مصيبتوں اور عفت كے منافى كاموں كے اسباب مہياہونے كى صورت ميں ضرورى ہے كہ الله تعالى كى پناہ لى جائي _

قالت إنى أعوذبالرحمن منك

۶_ رحمان ،اللہ تعالى كے اسماء اور اوصاف ميں سے ہے_أعوذبالرحمن

۷_ حضر ت مريم، تقوى اور پاكيزگى كے كمال پر فائز خاتون تھيں _قالت إنى أعوذ بالرحمن منك إن كنت تقيا

پاكيزہ ،مريم(ع) نے اجنبى مرد كو اپنى خلوت گاہ ميں ديكھتے ہى اسے مسلسل نصيحت كرنا اور الله تعالى كى پناہ ميں جانے كى بات شروع كى يہ ردّ عمل ان ميں پاكيزگى كے راسخ ہونے كى علامت ہے _

۸_انسان كو گناہ سے محفوظ ركھنے ميں تقوى ايك اہم ترين سبب ہے _أعوذبالرحمن منك إن كنت تقيا

۹_ عورت اور نامحرم مرد كا اكھٹا ہونا يہاں تك كہ متقى لوگوں ميں بھى ايك خطرناك جال اور گناہ كى كھائي ميں گرنے كا موجب ہے _إنى أعوذبالرحمن منك إن كنت تقيا (إن كنت )كا جواب شرط محذوف ہے بعض نے يہاں جملہ شرطيہ كو تقوى كى طرف ترغيب دلانا مرادليا ہے جبكہ بعض نے يہاں شرط حقيقى مراد ليا ہے _تو دوسرى صورت ميں آيت سے مراد يہ ہے كہ اگر تو متقى ہے تويہ مناسب ہے كہ ميں الله تعالى سے پناہ مانگوں (اور يہ كہ تو متقى نہ ہو ) لہذا يہاں نكتہ شرط يہ ہے كہ يہ صورت تو متقى لوگوں كيلئے بھى خطرنا ك ہے كہاں يہ كہ غير متقى ہوں _

۱۰_ تنہائي ميں نامحرم سے پرہيز كرنا، ضرورى ہے _قالت إنى أعوذبالرحمن منك إن كنت تقيا

حالا نكہ اجنبى شخص نے كوئي ايسى حركت نہيں كى تھى كہ جو اسكى كسى غرض كو ظاہر كرے _ ليكن حضرت مريم محض اسكے ساتھ تنہائي سے پريشان ہوئيں اور الله تعالى كى پناہ لى اور اسكے ليے زبان نصيحت كھولى تواس سے يہ نتيجہ نكلتا ہے كہ نامحرم كے ساتھ تنہائي ميں رہنا ہى تقوى كے خلاف كام ہے _

۱۱_روى عن على (ع) انه قال : علمت ان التقى ينهاه التقى عن المعصية ، حضرت على (ع) سے روايت ہوئي ہے كہ آپ نے فرمايا : حضرت مريم يہ جانتى تھيں كہ پرہيز گار انسان ، اپنے تقوى كوگناہ سے بچاتا ہے _

اسماء صفات: رحمان۶

۶۲۷

الله تعالى :الله تعالى كى رحمت كے آثار ۴

انسان :انسان كى پناہ گاہ ۳;۴

تقوى :تقوى كے آثار ۸،۱۱;تقوى كى طرف دعوت ۱

پناہ مانگنا:الله تعالى سے پناہ مانگنے كى اہميت ۵; الله تعالى سے پناہ مانگنے كا باعث ۴; الله تعالى سے پناہ مانگنا ۲;۳

ڈرانا :الله تعالى كے غضب سے ڈرانا ۲

روايت :۱۱

گناہ :گناہ سے مانع ۸،۱۱; گناہ كا باعث ۹; گناہ كا مقابلہ كرنے كى روش ۵

مريم 'س':مريم'س' كا اعتراض ۱;مريم'س' كا پناہ مانگناہ۲; مريم 'س'كا خوف ۲; مريم'س' كا قصہ ۱،۲;مريم'س' كا كى پرہيز گارى ۷; مريم'س' كى پناہ گاہ ۱; مريم'س' كى رائے ۱۱; مريم'س' كى عفت ۷; مريم'س' كے فضائل ۷

مشكل :مشكل كا مقابلہ كرنے كى صورت ۵

نامحرم:نامحرم سے تنہائي كرنے سے پرہيز۱۰ ;نامحرم سے تنہائي كرنے كے آثار ۹

آیت ۱۹

( قَالَ إِنَّمَا أَنَا رَسُولُ رَبِّكِ لِأَهَبَ لَكِ غُلَاماً زَكِيّاً )

اس نے كہا كہ ميں آپ كے رب كے فرستادہ ہوں كہ آپ كو ايك پاكيزہ فرزند عطا كردوں (۱۹)

۱_ حضرت جبرئيل نے حضرت مريم'س' كى پريشانى دور كرنے كيلئے اپناتعارف كروايا اور انہيں بتايا كہ وہ الله تعالى كى طرف سے بھيجے ہوئے ہيں _قالت إنى أعوذقال إنما أنا رسول ربك

۲_ حضرت جبرئيل نے حضرت مريم كو بچےّ كى بشارت دينے كے ساتھ ا نہيں پاك و پاكيزہ بيٹاعطاكرنے كے حوالے سے الہى نمائندہ ہونے كا تعارف كروايا_

قال إنما أنا رسول ربك لا هب لك غلماً زكيا

بيٹاعطا كرنے كى نسبت، حضرت جبرئيل كى طرف انكے اس الہى بخشش ميں وسيلہ ہونے كى بناء پرہے _ ( زكي) مادہ ''زكائ'' سے ہے اسكا معنى (صلاح) ہے'' مصباح'' '' تزكيہ '' اور ''زكاة ''طہارت '' پرورش ، بركت اور مدح كے معانى ميں

۶۲۸

استعمال ہوتے ہيں ہر اور مقام پر اسكا مناسب معنى مراد ہے بچے كى طہارت اور پاكيزگى اسكى ذاتى صلاحتيوں كے حوالے سے ہے_

۳_ حضرت مريم كو لائق اور پاكيزہ بچے كى عطا انكے رشد و كمال كا موجب اور الله تعالى كى ربوبيت كا ايك جلوہ ہے _

قال إنّما أنا رسول ربّك لا هب لك غلما زكياً ...قال ربّك هو

كلمہ'' رب ''مندرجہ بالا مطلب كو بيان كرسكتا ہے _

۴_ حضرت عيسي(ع) ،اللہ تعالى كى جانب سے حضرت مريم كيلئے خصوصى عطا تھے _إنّما أنا رسول ربّك لا هب لك غلماً زكي اگرچہ حضرت عيسى (ع) كى روح، حضرت مريم كو ديگر ذرائع سے بھى القاء كى جاسكتى تھى ليكن جبرئيل كا بھيجاجانا، مريم كو بشارت دينا اوراس عنايت كى خصوصيات شمار كرنا يہ سب كے سب اس عطاكے خصوصى ہونے پردلالت كررہے ہيں _

۵_-حضرت عيسي(ع) كى پاكيزگى اور معنوى كمال ، انكى ولادت سے قبل الله تعالى كى جانب سے ضمانت شدہ تھے----_إنما أنا رسول ربك لأهب لك غلما

۶_صالح اور پاكيزہ فرزند، الہى عنايت ہے _لأهب لك غلماً زكبا

۷_عن الباقر (ع)( فى قصة مريم ) : تمثل لها الروح الأمين قال إنما أنا رسول ربك لا هب لك غلاماً زكياً فتفل فى جيبها فحملت بعيسى (ع) (۱)

امام باقر (ع) سے حضرت مريم كى داستان كے حوالے سے نقل ہواہے كہ روح الامين ان پر ظاہر ہوئے اور كہا :'' إنما انا رسول ربك لا ہب لك غلاماً زكيا''پھراپنے منہ كا لعاب انكے گريبان ميں ڈالاتو وہ عيسي(ع) سے حاملہ ہوگئيں _

الله تعالى :الله تعالى كى ربوبيت كى علامات ۳; الله تعالى كى عطا ء ۲،۴،۶

الله تعالى كے نمائندے: ۱/تربيت:عيسى كى ولادت كى بشار ب۲

جبرئيل :جبرئيل كى بشارتيں ۲; جبرئيل كى ذمہ دارى ۲; جبرئيل كى شناخت اور مريم ۱

روايت :۷

____________________

۱)قصص الانبياء رواندى ص۲۶۴، ج۳۰۳ ، بحارالانوار ج۱۴ ص۲۱۵ح۱۴_

۶۲۹

عيسى (ع) :عيسى كا كمال ۵;عيسى كى پاكيزگى كى ضمانت ۵; عيسي(ع) كے فضائل ۵;

مريم(ع) :مريم(ع) ميں بيٹا ہونے كے آثار ۳; مريم(ع) كے كمال كے اسباب ۳; مريم(ع) كى پريشانى ۱; مريم(ع) پر جبرائيل كا نزول ۷; مريم(ع) پر نعمات ۴; مريم(ع) كا حاملہ ہونا ۷; مريم (ع) كا قصہ ۱،۴،۷

نعمت :فرزند صالح كى نعمت ۶; نعمت عيسي(ع) ۴

آیت ۲۰

( قَالَتْ أَنَّى يَكُونُ لِي غُلَامٌ وَلَمْ يَمْسَسْنِي بَشَرٌ وَلَمْ أَكُ بَغِيّاً )

انھوں نے كہا كہ ميرے يہاں فرزند كس طرح ہوگا جب كہ مجھے كسى بشر نے چھوا بھى نہيں ہے اور ميں كوئي بد كردار نہيں ہوں (۲۰)

۱_ حضرت مريم (ع) بغير كسى بشر كے لمس كے بچہ دار ہونے كى خبرسن كر حيرت زدہ ہوگئيں _

قالت أنّى يكون لى غلم ولم يمسنى بشر

( انيّ ) حرو ف استفہام ميں سے ہے اور اسكا معنى ''كيف ''يعنى كس طرح ہے يا'' من ا ين'' يعنى كہاں سے ہے دونوں صورتوں ميں تعجب كا معنى دے رہا ہے _

۲_ حضرت مريم (ع) حضرت عيسي(ع) كى بشارت سنے كے بعد زنا كى تہمت كے خوف سے پريشان تھيں _

أنيّ يكون ولم أك بغيّا

اگر چہ جملہ ( لم يمسنى بشر ) حاملہ ہونے كے معمول كے مطابق ذرائع كى نفى كيلئے كا فى تھا ليكن جملہ ( ولم أك بغياً ) بھى مريم سے صادر ہو ا ہے بعض نے اسے اس طرح قرينہ قرار ديا ہے كہ جملہ ( لم يمسنى ) ميں صرف شرعى نكاح كى بات ہوئي ہے جب كہ ( ولم اك بغيا ) ميں _غير شرعى كا م كى نفى ہوئي ہے اور احتمال يہ بھى ہے كہ جملہ ( لم يمسنى ) سے مرادمطلقاً ہمبسترى ہواور جملہ ( لم اك بغياً ) كا اضافہ اس ليے ہو كہ مريم نے سمجھا حاملہ ہونے كى صورت ميں زنا كى تہمت لگے گى تويہ سب كہہ كر انہوں نے ظاہر كرديا كہ اس تہمت كو برداشت كرنا ہمارے ليے سخت ہے _

۳_ حضرت مريم (ع) نے جبرئيل، سے چاہا كہ وہ انہيں بتائے كہ كيسے بغير باپ كے بيٹا پيدا ہوگا _قالت أنّى يكون لى غلم ولم يمسنى بشر ولم أك بغيا

۴_ حضرت مريم (ع) كا ماضى درخشاں اور تقدس و پاكيزگى كى راہ پر ہر قسم كے انحراف سے پاك تھا _

۶۳۰

قالت أنّى يكون لى غلم ولم أك بغيا

( بغى ) اس عورت كو كہا جاتا ہے كہ جو نا محرم لوگوں سے غير شرعى تعلق ركھے _

۵_ حضرت مريم (ع) ،حضرت جبرئيل كا سامنا كرتے وقت، ايك باكرہ اور غير شادى شدہ لڑكى تھيں _

قالت انيّ يكون لى غلم ولم يمسنى بشرا

۶_ حضرت مريم(ع) ، حضرت عيسي(ع) كى ولادت كى بشارت سننے كے وقت حمل كيلئے مناسب عمر اور صحيح و سالم جسم كى مالك تھيں _ولم يمسنى بشر ولم أك بغيا

حضرت مريم (ع) كے كلام ميں جو كچھ حضرت عيسي(ع) كى پيدا ئش ميں مانع بيان ہوا ہے وہ سب باپ كے نہ ہونے كے بارے ميں ہے انہوں جسمانى حوالے سے عاجزى كا اظہار نہيں كيا لہذا اس حوالے سے كوئي مشكل نہيں تھى _

۷_زنا، تمام الہى اديان ميں ايك غير شرعى اورقابل نفرت كام ہے _ولم أك بغي

۸_اللہ تعالى كے برگزيدہ لوگ، دنيا دى كاموں ميں الہى ارادہ كے متحقق ہونے كے سلسلے ميں معجزہ كے منتظر نہيں ہوتے بلكہ اسكے ليے طبيعى راہوں سے جستجو كرتے تھے _قالت أنّى يكون لى غلم ولم يمسنى بشرا

حضرت مريم (ع) اگر چہ الہى قدت پر ايمان ركھتى تھيں ليكن جب انہوں نے بچے كى خوشخبرى سنى تو طبيعى راہ كے حوالے سے كسى صورت ميں نتيجہ پر نہ پہنچى اور اس جملہ (أنّى يكون لى غلام ) كے ساتھ اس ولادت كى كيفيت پوچھى معلوم ہوا كہ اس حوالے سے طبيعى اسباب انكى نگاہوں سے دور نہيں تھے _

۹_اللہ تعالى كے برگزيدہ بندوں كاعظيم مقام، انكے الہى فرشتوں كى ذمہ داريوں ميں تعجب اور جستجواور الہى افعال كے حوالے سے مزيد معلومات حاصل كرنے ميں مانع نہيں ہے _قالت أنّى يكون لى غلم ولم يمسنى بشرا

الله تعالى :الله تعالى كے ارادہ كے جارے ہونے كے مقامات ۸

الله تعالى كے برگزيدہ :الله تعالى كے برگزيدہبندوں كا انتظار ۸; الله تعالى كے برگزيدہ بندوں كے مقامات ۹;اللہ تعالى كے برگزيدہ بندے اور فرشتوں كى ذمہ دارى ۹

جبرائيل :جبرائيل سے سوال ۳

زنا :

۶۳۱

آسمان اديان ميں زنا كى پليدگى ۷

مريم :مريم كا باكرہ ہونا ۵; مريم كا بچہ ہونے كے حوالے سے سوال ۳; مريم كا بہترين ماضى ۴; مريم كا تعجب ۱ ; مريم كا حاملہ ہونا ۶;مريم كا قصہ ۱،۲،۳،۵،۶ ; مريم كو بشارت ۱;مريم كو زنا كى تہمت لگانا ۲;مريم كى پريشانى ۲;مريم كى سلامتى ۶;مريم كى عفت ۴ ; مريم كى طلب ۳;مريم كے حاملہ ہونے كى خصوصيات ۱;مريم كے فضائل ۴

آیت ۲۱

( قَالَ كَذَلِكِ قَالَ رَبُّكِ هُوَ عَلَيَّ هَيِّنٌ وَلِنَجْعَلَهُ آيَةً لِلنَّاسِ وَرَحْمَةً مِّنَّا وَكَانَ أَمْراً مَّقْضِيّاً )

اس نے كہا كہ اسى طرح آپ كے پروردگار كا ارشاد ہے كہ ميرے لئے يہ كام آسان ہے اور اس لئے كہ ميں اسے لوگوں كے لئے نشانى بنادوں اور اپنى طرف سے رحمت قرار ديدوں اور يہ بات طے شدہ ہے (۲۱)

۱_ حضرت جبرئيل نے حضرت مريم (ع) كے تعجبكو بجاجانا اور انكى عفت و پاكيزگى پر گواہى دى _قال كذالك

(كذالك ) مبتدا محذوف كى خبر ہے اور حرف تشبيہ اور اسم اشارہ كا مركب ہے _ اسكا مشاراليہ ممكن ہے گفتار مريم ہو، اس صورت ميں آيت كا مطلب يہ ہو گا كہ اگر چہ بات وہى ہے جو آپ نے كہى ہے ليكن الله تعالى كے ليے يہ كام مشكل نہيں ہے _

۲_ حضرت جبرئيل نے حضرت مريم (ع) كے سوال اور پريشانى كے جواب ميں الہى وعدہ كے حتمى ہونے اور انكے حضرت عيسى (ع) كا حمل اٹھانے پر تاكيد فرمائي_قال كذالك

اگر ( كذالك ) كا مشاراليہ خود حضرت جبرئيل كى رسالت كا مضمون ہو تو اس صورت ميں بشارت كے حتمى واقع ہونے پر تاكيد ہے يعنى بات وہى ہے جوميں نے كہي_

۳_ بغير باپ كے بيٹے كى عطا، الله تعالى كيلئے نہايت آسان سى بات ہے _هو عليّ هيّن

(ہيّن) صفت مشبہ ہے جس كا مادہہ''ہون'' ہے يعنى آسان اور راحت _

۴_ حضرت عيسي(ع) كى ولادت غير معمولى اور معجزاتى تھي_قال ربك هو عليّ هيّن

۵_ معمول كے مطابق علل و اسباب اور طبيعى راستے الله تعالى كے ارادے اور قدرت ميں محدويت پيدا نہيں كر سكتے _

قال ربّك هو عليّ هيّن

۶۳۲

بغير باپ كے بچہ كى ولادت كے حوالے سے جو مشكل تصورہو سكتى ہے وہ بعض طبيعى اسباب كا فقدان ہے ليكن الله تعالى نے اس راہ سے ہٹ كر كام كونہايت آسان اور سادہ شمار كيا ہے تويہ مسئلہ در حقيقت الله تعالى كى طبيعى علل و اسباب پر حاكميت كو بيان كررہا ہے _

۶_كائنات ميں ہونے والے واقعات كے علل و اسباب، صرف طبيعى نہيں ہيں _قال ربّك هو عليّ هيّن

۷_ كرامات اورغير معمولى اشياء كا وقوع، صرف پيغمبروں كے ساتھ مخصوص نہيں ہے _قال ربك هو عليّ هيّن

۸_ صرف طبيعى علل واسباب پر نظر جمانا درحقيقت الہى ارادہ و منشاء پر متوجہ ہونے سے مانع ہے _أنى يكون لى غلم هو عليّ هيّن

۹_ حضرت مريم كى الله تعالى كى ربوبيت كى طرف توجہ نے انہيں حضرت عيسي(ع) كے حمل كى آسانى اور ممكن ہونے كے حوالے سے مطمئن كيا _قال ربّك

۱۰_ حضرت عيسي(ع) كى باپ اور معمول كے مطابق ذرائع كے بغير ولادت با مقصد اور بہت زيادہ فوائد پر مشتمل تھى _

هو عليّ هيّن ولنجعله ء اية للناس

احتمال ہے كہ عبارت ( لنجعلہ ) علت محذوف پر عطف ہو يعنى''خلقناه من غير أب لا غراض لا مجال لذكرها و لنجعله'' تواس حذف كا فائدہ ( ابہام ) قرار پاپا يعنى اس كا ہدف اس قدر عظيم اور وسيع ہے كہ جو كلام ميں نہيں سماسكتا ہے _

۱۱_ حضرت عيسي(ع) اور انكى بغير باپ كے ولادت ، لوگوں كے ليے الہى قدرت سے آشنا ہونے كيلئے بہت بڑى نشانى ہے _ولنجعله ء اية للناس ( لنجعلہ ) ميں مفعول كى ضمير، حضرت عيسي(ع) كى طرف لوٹ رہى ہے _ آيت ميں تنوين تفخيم كا فائدہ د ے رہى ہے يعنى اس ليے عيسي(ع) كو تجھے عطا كيا كہ اسے لوگوں كيلئے عظيم نشانى قراردو _

۱۲_حضرت عيسي(ع) ، الله تعالى كى جانب سے لوگوں كيلئے عظيم رحمت كا جلوہ ہيں _ولنجعله و رحمة منّ

( رحمة ) كے ( اية للناس ) پر عطف كے قرينہ كى بنا ء و پر مراد، لوگوں پر رحمت ہے _

۱۳_ حضرت عيسي(ع) كى بغير باپ كے ولادت اور انكا الہى قدرت و رحمت كى نشانى ہونا، الله تعالى كى طرف سے طے شدہ امور تھے كہ جن ميں كسى قسم كى تبديلى كى گنجائش نہيں تھى _كذالك و لنجعلهء اية للناس و رحمة منّا و كان أمراً مقضيا

۶۳۳

جملہ (كان أمراً مقضياً )ممكن ہے صرف حضرت عيسي(ع) كى ولادت كے بارے ميں ہو اور ممكن ہے آيت ميں مذكور تينوں موضوعات كے بارے ميں ہو ( مقضياً) مادہ ''قضا'' سے اسم مفعول ہے يعنى وہ جو حتمى ہے اور فيصلہ ہو چكاہے_ لفظ (امر) فرمان اور واقعہ كے معنى ميں استعمال ہوتا ہے يہاں كلمہ مقضيا ً دوسرے معنى كے مراد ہونے پر قرينہ ہے_

۱۴_ الہى طے شدہ امر، تبديل نہيں ہوسكتا _وكان أمراًمقضيا

الله تعالى :الله تعالى كى رحمت كى علامات ۱۲، ۱۳; الله تعالى كى قدرت كى حاكميت ۵;اللہ تعالى كى قدرت كى علامات ۱۱;اللہ تعالى كى قضا ء كا حتمى ہونا ۱۴;اللہ تعالى كے ارادہ كى حاكميت ۵;اللہ تعالى كے افعال ۳;اللہ تعالى كے طے شدہ امور ۱۳;اللہ تعالى كے وعدوں كا حتمى ہونا ۲

تربيت:حضرت عيسي(ع) كى ولادت كى بشارت ۲

حمل :بغير شوہر كے حمل ۳

جبرائيل :جبرائيل سے سوال۲; جبرائيل كى گواہى ۱

ذكر :الله تعالى كى ربوبيت كے ذكر كے آثار ۹; الله تعالى كى مشيت كے ذكر سے مانع ۸;اللہ تعالى كے ارادہ كے ذكر سے مانع ۸

طبيعى اسباب :طبيعى اسباب كا كردار ۵;۶;۸

عيسي(ع) :الله تعالى كى آيات ميں سے عيسي(ع) كا ہونا۱۱; ۱۳ ; عيسي(ع) كا رحمت ہونا ۱۲;۱۳;عيسى كى ولادت كا حتمى ہونا ۱۳; عيسي(ع) كى ولادت كا فلسفہ ۱۰;عيسى كى ولادت كا معجزہ ہونا ۴،۱۱،۱۳;عيسى كى ولادت ميں عظيم فوائد ہونا ۱۰ ;عيسى كى معجزانہ ولادت ۴; ۱۱; ۱۳

كرامات :غير انبياء كى كرامات ۷

مريم (ع) :مريم(ع) كے اطمينان كے اسباب ۹; مريم(ع) كى پريشانى ۲; مريم(ع) كا تعجب ۱; مريم(ع) كا حمل ۹; مريم(ع) كا قصہ ۱;۲;۹; مريم(ع) كى پاكيزگى پر گواہ لوگ ۱

نظام اسباب:۵;۶

واقعات :واقعات كا سرچشمہ ۷

۶۳۴

آیت ۲۲

( فَحَمَلَتْهُ فَانتَبَذَتْ بِهِ مَكَاناً قَصِيّاً )

پھر وہ حاملہ ہوگئيں اور لوگوں سے دور ايك جگہ چلى گئيں (۲۲)

۱_ حضرت مريم(ع) ، الله تعالى كے ارادہ اور حكم كى بناء پر بغير كسيسے جنسى آميزش حاملہ ہوگئيں _فحملته

۲_ حضرت مريم (ع) نے حضرت عيسى (ع) كا حمل اٹھا نے كے بعد اپنے عزيز واقرباء كے علاقہ سے الگ ہو كر دور كسى جگہ پر بسيرا كيا _فحملته فانتبذت به ومكا ناً قضيا

( انتباذ) كا مادہ ( نبذ) ہے اسكا معنى دورى اختيار كرنا ہے اور ( بہ ) ميں (با) ہمراہى يا سبب كيلئے ہے يعنى مريم حمل كے ساتھ يا اسكى وجہ سے دور گئيں ( قصى ) صفت مشبہ ہے اور اسكا معنى دور ہے _

۳_ حضرت مريم(ع) ، حمل كى وجہ سے كافى پريشانيوں ميں گھر گئيں _فحملته فانتبذت به مكاناً قصيا

محل سكونت چھو ڑكر دور كسى جگہ چلے جانا بتا تا ہے كہ مريم(ع) لوگوں كا سامنا كرنے اور انہيں جواب دينے سے پريشان تھيں ( انتباذ ) كا لغوى معنى (كسى ايسے آدمى كا گوشہ نشينى اختيار كرنا جو لوگوں ميں اپنے حاضر ہونے كى اہميت نہيں ديكھتا ) يہ معنى بھى اسى مطلب كى تائيد ميں ہے _

۴_عن الرضا (ع) قال : ليلة خمس و عشرين من ذى القعدة ولد فيها عيسي(ع) بن مريم(ع) (۱) امام رضا (ع) سے روايت نقل ہوئي ہے كہ ذى القعدہ كى پچسويں شب ميں حضرت عيسي(ع) ، كى ولادت ہوئي _

۵_عن سليمان الجعفرى قال: قال أبوالحسن الرضا (ع) : أتدرى مما حملت مريم (س) ؟ فقلت : لا الاّ ان تخبر نى فقال : من تمر الصرفان نزل بها جبرئيل ، فا طعمها فحملت (۲) سليمان جعفرى سے روايت ہوئي ہے كہ امام رضا(ع) نے فرمايا كيا تمہيں معلوم ہے كہ مريم (ع) كس چيزسے

____________________

۱) من لا يحضرہ الفقيہ ج۲ ص۵۴ ح۱۵ ، مسلسل ۲۳۸ ، بحارالاانوار ج۱۴ص۲۱۴ح۱۳

۲)محاسن برقى ج۲ص۵۳۷ب۱۱۰ح ۸۱۱ ، بحارالانوار ج۱۴ ص۲۱۷ ح۱۸_

۶۳۵

حاملہ ہوئيں ميں نے كہا نہيں ليكن آپ بتائيں تو انہوں فرمايا: صرفان(۱) كى كھجور سے جو كہ ان كيلئے حضرت جبرئيل لائے تھے وہ انہيں كھلا ئيں تو وہ حاملہ ہوئيں _

۶_عن ا بى الحسن موسى (ع) ...اليوم الذى حملت فيه مريم (س) يوم الجمعة للزوال (۲) امام كاظم (ع) سے روايت ہوئي كہ وہ دن كہ مريم حاملہ ہوئيں و ہ جمعہ كا دن زوال كے قريب وقت تھا _

۷_عن أبى عبدالله (ع) قال إنّ مريم (ع) حملته سبع ساعات (۳) امام صادق (ع) سے روايت ہوئي كہ بلاشبہ مريم سات گھنٹے تك حضرت عيسي سے حاملہ رہى ہيں _

الله تعالى :الله تعالى كى مشيت ۱; الله تعالى كے وادار۱

روايت :۴;۵;۶;۷

عيسى (ع):حضرتعيسى كى تاريخ ولادت ۴

مريم :مريم كا حمل ۲; مريم كے حمل كا سرچشمہ ۱; مريم كا قصہ ۱،۲،۷; مريم كى پريشانى كے اسباب ۳;مريم كى گوشہ نشينى ۲; مريم كے حمل كا وقت ۶;مريم كے حمل كى كيفيت ۵;مريم كے حمل كى مدت ۷;مريم كے حمل كے آثار ۳

آیت ۲۳

( فَأَجَاءهَا الْمَخَاضُ إِلَى جِذْعِ النَّخْلَةِ قَالَتْ يَا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هَذَا وَكُنتُ نَسْياً مَّنسِيّاً )

پھر وضع حمل كا وقت انھيں ايك كھجور كى شاخ كے قريب لے آيا تو انھوں نے كہا كہ اے كاش ميں اس سے پہلے ہى مرگئي ہوتى اور بالكل فراموش كردينے كے قابل ہوگئي ہوتى (۲۳)

۱_ بچے كى ولادت كا در د، حضرت مريم (س) كو كھجور كے درخت كے تنے كے پاس لے گيا _

فأجا ء ها المخاض إلى جذع النخلة كلمہ (ا جائ) فعل ( جائ) كا متعدى ہے يعنى لے گيا اور( مخاض )يعنى بچے كى ولادت كا در د _

____________________

۱)صرفان كى كھجور وہ ہے كہ جو گرميوں ميں پيدا ہوتى ہے ليكن مقوى ہونے كى بنا ء پر سرديوں ميں استعمال ہوتى ہے _

۲) كافى ج۱ص۴۸۰ح۴بحارالانوار ج۱۴ ص ۲۱۳ ح۱۱

۳) قصص الانبياء ص۲۶۶ح۳۰۵ فصل ۱ بحارالانوار ج۱۴ ص۲۱۶ح۱۷،

۶۳۶

۲_بچے كى ولادت كے وقت، حضرت مريم بغير كسى خوف كے رہا ئشى علاقہ سے دور تنہا رہ رہى تھيں _

مكاناً قصيا ً فا جاء ها المخاض إلى جذع النخلة جملہ (أجاء ها المخاض ) ميں مريم كو درخت كے پاس لانے كى نسبت دردزہ كى طرف دى گئي ہے اور بعد و الى آيات ميں بتا ياگيا ہے كہ مولود نے انہيں پانى كى طرف راہنمائي كى _ اور مريم نے كھجور كھانے كيلئے خود درخت كو ہلا يا يہ سب قرائن بتاتے ہيں كہ حضرت مريم بچے كى ولادت كے وقت تنہا تھيں _

۳_حضرت مريم(ع) كا وضع حمل ايسے علاقہ ميں ہو ا كہ جہاں آب و ہوا گرم تھى اور كھجوروں كے درخت تھے _

فأجا ء ها المخاض إلى جذع النخلة ( نخل) يعنى كھجور ايسى زمين ميں پيدا ہوتى ہے كہ جہاں آب و ہوا گرم ہو _

۴_ وہ كھجور كا درخت كہ جسكے پاس حضرت مريم نے پناہ لى ايك معين اور خشك درخت تھا _

فأجاء ها المخاض إلى جذع النخلة _ ( النخلة) معرفہ ہے اور اس پر (الف و لام ) ہو سكتا ہے عہد ذ ہنى ہو يعنى وہ عہد جو الله تعالى اور مريم كے درميان يا وہ عہد جو الله تعالى اور رسول اكرم (ص) كے درميان ہوا تھا اور يہ نہيں كہا گيا ( إلى النخلة) اس سے معلوم ہو تا ہے كہ جس درخت كے قريب حضرت مريم نے پناہ لى تھى وہ سوا ئے درخت كے تنہ كے كچھ نہيں تھا بعد والى آيات كہ جس ميں بتايا گيا كہ حضرت كو پانى كى موجود گى اور كھجور كھانے كيلئے درخت كو حركت دينے كے بارے ميں آگاہ كيا گيا يہ آيات بھى بتا تى ہيں يہاں معمول سے ہٹ كر معجزانہ طريقہ سے پانى اور كھچور حاصل ہوئي ہيں ورنہ مريم ان دونوں چيزوں كو جاننے كيلئے كسى راہنمائي كى محتاج نہيں تھيں _

۵_ حضرت مريم نے وضع حمل كے وقت آرزوكى كاش وہ حاملہ ہونے سے پہلے مرچكى ہوتى اور انكى يا دہى باقى نہ رہتى _

فأجاء ها المخاض قالت ياليتنى مت قبل هذا و كنت نسياً منسيّا

جملہ (وكنت نسياً منسيّاً ) بتاتا ہے كہ حضرت مريم كى موت كى آرزوكرنے كى وجہ لوگوں كى زبانوں كے زخموں سے بچناتھا اگر چہ (ألا تحزنى قد جعل ...) كے قرينہ سے معلوم ہوتا ہے كہ پانى اور غذا كے نہ ہونے نے بھى انہيں غمگين كيا ہوا تھا ليكن يہ سارے نتائج اسى زبان كے زخموں سے بچنے كى وجہ سے ہيں كہ ميں حاملہ ہونے سے پہلے كاش مرجاتى كہ لوگوں كى زبانوں كے زخموں سے بچنے كيلئے يوں سرگرداں نہ ہوتى _

۶_ حضرت مريم كا دكھ اورروحى پريشاني،حضرت عيسي(ع) كى ولادت كے وقت قابل بيان نہيں تھا _فا جا ء ها المخاض إلى جذع النخلة قالت ياليتنى مت ّقبل هذا و كنت نسياً منسيّا

۶۳۷

حضرت مريم (ع) جو كہ الله تعالى كى خاص عنايات كى حامل تھيں ان سے موت كى آرزو يقيناً ايسے شرائط ميں ہوئي ہوگى كہ جب حالات انكى برداشت اور طاقت سے باہر ہوگئے ہونگے_ بعد والى آيات كے قرينہ سے يہ حالت تہمت لگنے كے احتمال اور سرگردان ہونے سے اندرونى دباؤ كى بنا ء پرتھي_

۷_ حاملہ ہونے كى حالت ميں يا وضع حمل كے بعد موت حضرت مريم كى پريشانيوں كو ختم نہيں كرسكتى تھى _ياليتنى متّ قبل هذ حضرت مريم كے كلام ميں ( ہذا ) اصل حمل كيطرف اشارہ ہے _ نہ كہ سرگرداں ہونے يا وضع حمل كى تكليف اور تنہائي چونكہ يہ سب چيزيں حضرت مريم(ع) نے لوگوں كى زبانوں كے زخموں سے بچنے كى خاطر قبول كى تھيں وہ تواپنے ليے زنا كى تہمت لگنے سے حتّى ّ كہ موت كے بعد بھى خوفزدہ تھيں لہذا اس تہمت سے پچنے كى صورت انكے ليے حاملہ ہونے سے پہلے مرنے كى صورت ميں تھى _

۸_ حضرت مريم(ع) نے اپنے حاملہ ہونے كو مكمل طور پر لوگوں سے چھپا يا ہوا تھا _

مكاناً قصياً فاجا ء ها المخاض ياليتنى متّ قبل هذا و كنت نسياً مسيا

لوگوں سے دور چلے جانا اور وضع حمل كے وقت تنہائي اور بغير سرپرست كے ہونا يہ چيزبتاتا ہے كہ اس وقت تك حضرت مريم(ع) نے اپنے حاملہ ہونے كو لوگوں سے چھپا يا ہوا تھا _

۹_ بعض صورتوں ميں موت كى خواہش جائز اور پسنديدہ ہے _ياليتنى متّ قبل هذا

۱۰_انسان كى آبرو اور شخصيت، اسكى مادى زندگى سے اہم ہے ياليتنىمتّ قبل هذ

يہ جو حضرت مريم(ع) نے بغير آبرو كى زندگى كو موت پر ترجيح دى ہے اس سے مذكورہ حقيقت كا استفادہ ہوتا ہے

۱۱_حضرت مريم(ع) انسانى حالات اور احساسات كى حامل تھيں _ياليتنى متّ قبل هذا

حضرت مريم(ع) كا اپنے اندر غير عادى امور كے ظاہر ہونے سے رنجيدہ اور بھوك وپياس سے متاثر ہونا، اسى طرح ديگر طبيعى اسباب و غيرہ بتاتے ہيں كہ حضرت مريم(ع) بشرى صفات كى مالك انسان تھيں اور بعض عيسائيوں كى طرف سے انكے بارے ميں الوہيت كے خيالات كے باطل ہونے پر دليل ہے _

۱۲_حضرت مريم (س) لوگوں ميں انتہائي معروف اوراہم شخصيت كى مالك تھيں _ياليتنى كنت نسياً نسيا

۱۳_ لوگوں ميں حضرت مريم(ع) كى عفت و پاكيزگى كے حوالے سے شہرت ان ميں حضرت عيسي(ع) كى ولادت كے حوالے سے لوگوں كے ذہن ميں منفى ردعمل كے حوالے سے پريشانى بڑھارہى تھى _

۶۳۸

ياليتنى متّ قبل هذا و كنت نسياً منسيا

( نسى ) ايسى چيزہے كہ جسكى خاص اہميت نہيں ہے اگر چہ وہ الہى لوگوں كى ياد سے محو نہ ہو (مفردات راغب ) اس كلمہ كى (منسياً) سے توصيف ( يعنى فراموش شدہ ) بتارہى ہے كہ حضرت مريم نے صرف فراموش شدہ ہونے كى صلاحيت كى آرزونہيں كى بلكہ حقيقى طور پر فراموش ہونے كى آرزو كي_ حضرت مريم(ع) كى يہ آرز و بتاتى ہے وہ اس سے پہلے معاشرہ ميں ايك باعزت شخصيت تھيں چونكہ واقعہ لوگوں ميں منفى رد عمل پيدا كرسكتا تھا لہذا اس حوالے سے پريشان تھيں _

۱۴_روى عن الصاد ق(ع) فى قول مريم ( يا ليتنى متّ قبل ہذا : لا نہا لم ترفى قومہا رشيدا ً ذافراسة ينزہہا من السوء (۱)امام صادق (ع) سے حضر ت مريم(ع) كا حضرت عيسي(ع) كى ولادت كے وقت موت كى آرزو كے قول كے حوالے سے روايت نقل ہوئي ہے كہ آپ نے فرمايا : يہ اس ليے تھا كہ ان كو اپنى قوم ميں كوئي ايسا با شعور شخص نظر نہيں آتا تھا كہ جو انہيں زنا كى تہمت سے برى قرار ديتا _

۱۵_عن الصادق (ع) ( فى قصة مريم ) إن زكريا و خالتها أقبلا يقصان أثرها حتّى هجما عليها و قد وضعت ما فى بطنها و هى تقول : ''يا ليتنى متّ قبل هذا و كنت نسياً منسياً'' (۲) ( حضرت مريم(ع) كى داستان كے حوالے سے ) امام صادق (ع) سے روايت ہوئي كہ حضرت زكريا(ع) اور حضرت مريم(ع) كى خالہ انكى تلاش ميں تھے كہ ايك دم وہ مل گئيں اس حال ميں كہ حضرت عيسى (ع) دنيا ميں قدم ركھ چكے تھے اور وہ كہہ رہى تھيں _ياليتنى متّ قبل هذ

آبرو :آبرو كى اہميت ۱۰

آرزو :موت كى آرزو ۵;۱۴;۱۵; موت كى آرزو كا جائز ہونا ۹

احكام :۹//روايت :۱۴;۱۵//زندگى :زندگى كى اہميت ۱۰

عيسى (ع) :عيسى (ع) كى ولادت كے آثار ۱۳

مريم (ع) :مريم(ع) كا احترام ۱۲; مريم (ع) كا بشر ہونا ۱۱ ; مريم(ع) كا حمل چھپا نا ۸; مريم (ع) كاغم ۶ ;مريم(ع) كا قصہ ۲،۳ ،۴ ،۵ ، ۶ ، ۷ ،۸، ۱۴،۱۵;مريم (ع) كا وضع حمل ۵،۶ ; مريم(ع) كى آرزو ۵،۱۵;مريم(ع) كى آرزو كا فلسفہ ۱۴; مريم (ع) كى پريشانى ۶،۷;مريم(ع) كى پريشانى كے اسباب ۱۳;

____________________

۱ ) مجمع البيان ج۶ص۷۹۰، نور الثقلين ج۳ ص۳۳۰ح۴۶_

۲)كمال الدين صدوق ج۱ ، ص۱۵۸ ب۷ ح۱۷ ، بحارالانوار ج۱۳ص۴۴۹ح۱۰_

۶۳۹

مريم 'س'كى پناہ گاہ ۱،۲; مريم(ع) كى پناہ گاہ كى موقعيت ۳; مريم (ع) كى تنہائي ۲;مريم (ع) كى شہرت ۱۳ ; مريم(ع) كى عفت ۱۳; مريم(ع) كى فراموشى ۵; مريم (ع) كى معاشر تى موقعيت ۱۲; مريم (ع) كى دعوت۷; مريم(ع) كے احساسات ۱۱ ;مريم (ع) كے قصہ ميں كھجور كے گذشتہ آيات ميں ( فحملتہ فانتبذت بہ )

درخت كى خصوصيات ۴;مريم (ع) ے قصہ ميں نخل ۱; مريم(ع) كے وضع حمل كى خصوصيات ۲;مريم (ع) كے وضع حمل والا مقام ۳;مريم(ع) ميں وضع حمل كے درد كے آثار ۱

آیت ۲۴

( فَنَادَاهَا مِن تَحْتِهَا أَلَّا تَحْزَنِي قَدْ جَعَلَ رَبُّكِ تَحْتَكِ سَرِيّاً )

تو اس نے نيچے سے آواز دى كہ آپ پريشان نہ ہوں خدا نے آپ كے قدموں ميں چشمہ جارى كرديا ہے (۲۴)

۱_ حضرت مريم(ع) كا كھجور كے درخت كے قريب، وضع حمل ہوا اور حضرت عيسي(ع) نے دنيا ميں قدم ركھا _

فا جا ء ها المخاض إلى جذع النخلة فنادى ها

(فناداها ) ميں فاء فصيحہ ہے اور اپنے سے پہلے ايك محذوف جملہ كى حكايت كررہى ہے اور جملہ كا مطلب حضرت عيسى كى كھجور كے درخت كے قريب ولادت ہے _

۲_ حضرت عيسي(ع) نے وضع حمل كے بعد اپنى والدہ سے انكے روحى و جسمانى حوالے سے سخت ترين حالات ميں ان سے كلام كيا اور انہيں حوصلہ ديا_فحملته فنادى ها من تحتها ألاتخزني

كى ضميروں كے قرينہ سے ( نادى ) ميں فاعلى ضمير سے مراد حضرت عيسي(ع) ہيں اور فناداھا كى ضمير كى مانند ( من تحتہا ) كى ضمير سے بھى مراد حضرت مريم ہيں بعض نے ( نادى ) كا فاعل حضرت جبرئيل كو جانا اور ( من تحتہا ) كى ضمير كو نخلة يا حضرت مريم كى طرف لوٹا يا ہے ليكن جو كچھ كہا گيا ہے وہ سياق وسباق آيات سے زيادہ مناسب ہے _

۳_ حضر ت عيسي(ع) نے پيدا ہوتے ہى اپنى والدہ حضرت مريم(ع) كو غم نہ كرنے كى نصيحت كى _

فنادى ها من تحتها ألا تحزني

۴_ الله تعالى نے حضرت عيسي(ع) كى ولادت كے ساتھ ہى حضرت مريم كے ٹھہر نے كى جگہ كے نيچے سے چشمہ جارى كيا _فنادى ها من تحتها ألا تحزنى قد جعل ربّك تحتك سريا

( سري) سے مراد چھوٹا ساپانى كا نالہ اور يہ (رفيع) كے معنى ميں بھى استعمال ہوا ہے ليكن بعد والى آيات ميں جملہ'' اشربي'' '' پہلے معنى پرہى قرينہ ہے ''

۶۴۰

۵_ حضرت عيسي(ع) نے پيدا ہوتے ہى اپنى والدہ حضرت مريم(ع) كو انكے ہاتھ كے نيچے سے چشمہ جارى ہونے كى خوشخبرى دى _فنادى ها قد جعل ربك تحتك سريا

۶_ وضع حمل كے وقت پانى كا نہ ہونا ،حضرت مريم (ع) كيلئے شديد پريشانى كا باعث تھا _ألا تحزنى قد جعل ربك تحتك سري ( قد جعل ) جملہ ( ألا تحزنى ) كيلئے علت ہے يعنى غم نہ كريں كيونكہ الله تعالى نے آپ كے ہاتھ كے نيچے سے پانى جارى كرديا ہے يہيں سے معلوم ہوتاہے كہ مريم كس قدر پانى كيلئے پريشان تھيں اور اس خوشخبرى نے انكى خوشى ميں كتنا كردار ادا كي

۷_ خواتين ،وضع حمل كے بعد بالخصوص وضع حمل كے اوائل ميں ہى پينے كے پانى ،روحانى و نفسياتى سكون اور حزن و غم كے نہ ہونے كى محتاج ہوتى ہيں _ألا تحزنى قدجعل ربك تحتك سريا حضرت مريم(ع) كو غم نہ كرنے كى نصيحت اور جو چيز انہيں خوشحال كرسكتى ہے ( جارى پانى ) اسكے فراہم كرنے كيطرف اشارہ ہے كہ وضع حمل كے بعد اطمينان و سكون خواتين كيلئے كسقدر ضرورى ہے_

۸_شائستہ اور پاكيزہ لوگوں كى امداد كو پہنچنا بالخصوص مشكل ترين حالات ميں الله تعالى كى ربوبيت كا جلوہ ہے _

قد جعل ربّك تحتك سريّا

۹_طبيعى اسباب كا عمل كرنا در حقيقت فعل خدا ہے _قد جعل ربّك تحتك سريّا چشمہ كے جارى ہونے كى نسبت الله تعالى كى طرف يہ نكتہ واضح كررہى ہے كہ چونكہ طبيعى اسباب درحقيقت الہى افعال كے جارى ہونے كے مقامات ہيں لہذا انكافعل خدا كا فعل ہے _

۱۰_ كائنات، الله تعالى كے ارادہ اور مشيت كى تسخير ميں ہے _قد جعل ربك تحتك سريّا بہ بھى ممكن ہے كہ چشمہ جارى كرنے كى نسبت اسيلئے الله تعالى كى طرف ہو كہ طبيعى اسباب سوائے الله تعالى كى اجازت كے كچھ نہيں كر سكتے _

۱۱_حضرت عيسي(ع) كے خا ص صفات انكى ولادت كے پہلے لمحہ سے ہى ظاہر ہوگئيں _فنادى ها من تحتهإلا تحزنى قد جعل ربّك تحتك سريّا كلمہ (من تحتها ) ( انكے نيچے سے ) بتارہاہے كہ حضرت عيسي(ع) نے اس وقت يہ جملہ فرمايا تھا كہ ابھى انكى والدہ نے انہيں اپنى گود ميں زمين پرليا تھا والدہ كے حالات كو سمجھنا اور انكے روحى احساسات كو درك كرنا، حضرت عيسي(ع) كى عميق صلاحتيوں كا ثبوت_

۶۴۱

۱۲_ حضرت مريم(ع) كے وضع حمل كے بعد الہى فرشتہ (جبرئيل ) نے انكے پاؤں كے نيچے سے پانى جارے ہونے كى خبر دى _فنادى ها من تحتها ألا تحزنى قد جعل ربّك تحتك سريّ احتمال ہے كہ ( فنادہا ) ميں فاعلى ضمير الہى فرشتہ كى طرف لوٹ رہى ہے _

۱۳_ ( عن أبى جعفر (ع) : ضرب عيسي(ع) بر جله فظهرت عين ماء تجرى (۱) امام باقر (ع) سے روايت نقل ہوئي ہے كہ ولادت كے وقت حضرت عيسي(ع) نے اپنے پاؤں كوزمين پر مارا تو جارى پانى كا چشمہ ظاہر ہوگيا _

۱۴_قال رسول الله (ص) :و هذا عيسي(ع) من مريم (ع) قال الله _عزوجل_ فيه ( فناداها من تحتها الا تحزنى فكلم الله وقت مولده (۲) رسول خدا(ص) سے روايت ہوئي كہ آپ نے فرمايا : يہ حضرت عيسى بن مريم(ع) تھے كہ جنكے بارے ميں الله تعالى نے فرمايا : (فناداها من تحتها ألا تحزنى ) پس عيسي(ع) نے ولادت كے وقت اپنى والدہ سے كلام كيا_

الله تعالى :الله تعالى كى امداد وں كا پيش خيمہ ۸; الله تعالى كى ربوبيت كى علامات ۸;اللہ تعالى كى مشيت كى حاكميت ۱۰; الله تعالى كے افعال ۴،۹/پاكيز ہ لوگ:پاكيزہ لوگوں كى امداد ۸

پانى :پانى كا چشمہ ۱۳/جبرئيل :جبرئيل اور مريم ۱۲/روايت :۱۳;۱۴/ضروريات :آرام كى ضرورت۷

طبيعى اسباب :طبيعى اسباب كا كردار ۷/طبيعت :طبيعت كى تسخير ۱۰

عيسى (ع) :عيسى (ع) كا حوصلہ دينا ۲; عيسي(ع) كا قصہ ۲;۳; ۱۳ ; ۱۴ ; عيسي(ع) كا معجزہ ۱۳;عيسى (ع) كا لو مولود حالت ميں بات كرنا ۲;۳;۱۴; عيسي(ع) كى بشارتيں ۵ ; عيسى (ع) كى خصوصيات ۱۱;عيسي(ع) كى ولادت ۴ ; عيسى (ع) كى ولادت كى خصوصيات ۱۱; عيسى (ع) كى نصيحتيں ۳

مريم (ع) :مريم (ع) كا غم ۳; مريم (ع) كا قصہ ۲،۳،۵، ۶ ; مريم (ع) كا وضع حمل ۱۲;مريم (ع) كو بشارت ۵;مريم (ع) كوحوصلہ ملنا ۲; مريم (ع) كو نصيحت ۳;مريم (ع) كو وحى ۱۲; مريم (ع) كى پريشانى كے اسباب ۶; مريم (ع) كے قصہ ميں پانى كي

____________________

۱) مجمع البيان ج۶ ص۷۹۰، بحارالانوار ج۱۴ص۲۲۶،

۲) روضة الواعظين ص۸۳بحارالانوارج ۱۴ ص ۲۲۰ ح۳۲

۶۴۲

نہر ۴،۵; مريم (ع) كے قصہ ميں كھجور ۱;مريم (ع) كے وضع حمل كا مكان ۱;وضع حمل كے وقت مريم(ع) كا پانى كے بغير ہونا ۶

وضع حمل :وضع حمل كے دوران آرام وسكون كى اہميت ۷; وضع حمل ميں معنوى ضروريات ۷

آیت ۲۵

( وَهُزِّي إِلَيْكِ بِجِذْعِ النَّخْلَةِ تُسَاقِطْ عَلَيْكِ رُطَباً جَنِيّاً )

اور خرمے كى شاخ كو اپنى طرف ہلائيں اس سے تازہ تازہ خرمے گرپڑيں گے (۲۵)

۱_ حضرت عيسي(ع) نے پيدا ہوتے ہى اپنى والدہ مريم(ع) كو كھجور كے درخت كوہلانے اور اسكے پھل كو تناول كرنے كے حوالے سے راہنمائي كى _وهزى إليك بجذع النخلة تساقط عليك رطباً جنيا

( ہز) يعنى دائيں بائيں ہلانا اور قرينہ (إليك) كى مدد سے يہاں كھيچنے كے معنى ميں بھى استعمال ہو اہے _ لہذا ''ھزى إليك ''يعنى درخت كو اپنى طرف كھينچيں اور دائيں بائيں ہلائيں يہ راہنمائي جيساكہ بعد والى آيات سے ظاہر ہورہا ہے كہ حضرت مريم كى غذا كے حوالے سے ضرورت پورى كرنے كيلئے تھى _

۲_ وہ كھجور كا درخت جسكے قريب حضرت مريم كا وضع حمل ہواتھا وہ بغير پھل كے تھا _

وهز ى اليك بجذع النخلة تساقط عليك رطباً جنيا

جملہ (تساقط عليك ) حضرت مريم پر احسان و عنايت كى وضاحت كررہا ہے نہ كہ معمول كے مطابق درخت كے ہلانے كے نتيجہ كى طرف اشارہ كررہا ہے _ كيونكہ ايسى صورت ميں تو راہنمائي كى ضرورت ہى نہتھى _ لہذا درخت كوہلانے كے بعد اسميں كھجور ظاہر ہوئي اور وہ نيچے گرى اس كلام ميں كلمہ جذع كا مضاف ہونا اور تساقط) كى نخلة كى طرف نسبت بتارہى ہے كہ يہ درخت خشك تھا اور كھجور كا گرنا معمول سے ہٹ كرايك معجزہ تھا _

۳_ كھجور كے درخت كا معمول سے ہٹ كر پھل دار ہونا، حضرت مريم كى كوشش اور انكے كھجور كے درخت كو ہلانے جلانے پر موقوف تھا _وهزّ ى إليك تساقط

فعل ( تساقط ) مجزوم ہے يہاں جزم كا سبب شرط مقدر ہے يعنى اگر آپ نے كھجور كے درخت كو ہلايا اور اپنى جانب كھينچا تو آپكے ليے كھجوريں گرائے گا _

۶۴۳

۴_تازہ ، پكى ہوئي اور ظاہرى طور پر سالم، حضرت مريم (ع) پر گرنے دالى كھجور وں كى خصوصيات تھيں _تساقط عليك رطباً جني ( رطب) تاز ى كھجور كو كہتے ہيں ''جنى ''جب وہ پھل كى صفت ہو _ تو اس معنى ميں ہے كہ جب پھل اپنے وقت پر درخت سے توڑا جائے ( معجم مقاييس اللعة)

۵_تازہ كھجور ( رطب) عورت كيلئے وضع حمل كے بعد مناسب ترين غذا ہے _وهزّى تساقط عليك رطباًجنيا

حضرت مريم كو درخت ہلانے اور كھجوركھانے كى نصيحت بتارہى ہے كہ يہ وضع حمل كے بعد عورتوں كيلئے مناسب ترين غذا ہے _

۶_ حضرت مريم الله تعالى كى خصوصى عنايات كى حامل اور صاحب كرامات تھيں _و هزّى إليك تساقط

۷_ درخت كافورى طور پر پھل دار ہوجانا اور حضرت مريم ميں اسكو ہلانے كى طاقت كا ہونا انكى كرامات ميں سے تھا _

وهزى إليك تساقط

۸_عن أميرالمؤمنين (ع) قال :ماتا كل الحامل من شي ولاتتداوى به أفضل من الرطب قال الله _ عزوجل _ لمريم (ع) وهزّى اليك بجذع النخلة تساقط عليك رطباًجنياً فكلى واشربى وقرى عينا ً (۱) اميرالمؤمنين(ع) سے روايت ہوئي ہے كہ آپ نے فرمايا : حاملہ عورت، تازہ كھجور سے بہتر كوئي چيز نہيں كھاتى اور نہ اس سے بہتر كسى چيز سے اپنى دوا كرسكتى ہے _ الله تعالى نے حضرت مريم كو فرمايا :وهزى إليك بجذع النخلة تساقط عليك رطباً جنياً فكلى

۹_عن أميرالمؤمنين قال : قال رسول اللّه(ص) : ليكن أول ماتا كل النفساء الرطب ، لانّ الله تعالى قال لمريم : وهزى إليك بجذع النخلة تساقط عليك رطباً جنياًً فكلى (۲) امير المؤمنين سے روايت ہوئي كہ رسول الله (ص) نے فرمايا : بہتريہى ہے كہ وضع حمل كے بعد عورت سب سے پہلے كھجور كھائے كيونكہ الله تعالى نے حضرت مريم(ع) كو فرمايا : وہزى إليك بجذع النخلة تساقط عليك رطباًجنياً فكلي

۱۰_عن أبى الحسن الرضا (ع) قال : كانت نخلة مريم العجوة، ونزلت فى كانون ونزل مع آدم (ع) من الجنة العتيق والعجوة منهماتفرّق أنواع النخل (۳) امام رضا (ع) سے

____________________

۱)حصال صدوق ص۶۳۷باب اربعمائة ح۱۰ ، نور الثقلين ج۳ ص۳۳۰ح۵۰_۲) كافى ج۶ ص۲۲ ح۴ ، نو ر الثقلين ج۳ ص۳۳۰ ح۵۱

۳) محاسن برقى ج۲ ص۵۳۰ ح۷۷۵، قصص الانبياء راوندى ص۲۶۶ ح۳۰۵

۶۴۴

روايت ہوئي ہے كہ : مريم (ع) والى كھجور، عجوہ تھى جو كہ ماہ كانون ( ايك رومى ميہنہ ) ميں نازل ہوئي حضرت آدم(ع) بہشت سے عتيق ( نر كھجور كا درخت ) اور عجوہ ( كھجور كى ايك قسم كہ جيسے لينہ كہا كيا ہے ) ليكر نازل ہوئے كہ ان دونوں سے كھجور كى مختلف اقسام پھيليں _

حاملہ :حاملہ كى غذا ۸

روايت:۸;۹;۱۰

عيسى :عيسي(ع) كا قصہ ۱; عيسي(ع) كا نو مولودى حالت ميں كلام ۱; عيسي(ع) كا ہدايت دنيا ۱

كھجور :كھجور كے فوائد ۵;۸;۹

لطف الہى :لطف الہى كے شامل حال۶

مريم'س' :مريم 'س' كا قصہ ۲،۳; مريم'س' كى قدرت ۷;مريم كى كرامات ۶، ۷ ; مريم'س' كى كوشش كے آثار ۳; مريم'س' كى ہدايت ۱ ;مريم 'س'كے قصہ ميں كھجور كا تازہ ہونا۴;مريم'س' كے قصہ ميں كھجور كا خشك ہونا ۲;مريم'س'كے قصہ ميں كھجور كى خصوصيات ۱۰;مريم 'س'كے قصہ ميں كھجوركے درخت كا پھل دار ہونا ۳ ; ۷ ; مريم'س' كے قصہ ميں كھجور كے درخت كا پھل دنيا ۳;مريم'س' كے قصہ ميں كھجور كے درخت كو يلايا جانا ۱،۷; مريم 'س' كے مقامات ۶،۷

وضع حمل :وضع حمل كرنے والى كيلئے مناسب غذا ۵;۹

آیت ۲۶

( فَكُلِي وَاشْرَبِي وَقَرِّي عَيْناً فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً فَقُولِي إِنِّي نَذَرْتُ لِلرَّحْمَنِ صَوْماً فَلَنْ أُكَلِّمَ الْيَوْمَ إِنسِيّاً )

پھر اسے كھايئےور پيجئے اور اپنى آنكھوں كو ٹھنڈى ركھئے پھر اس كے بعد كسى انسان كو ديكھئے تو كہہ ديجئے كہ ميں نے رحمان كے لئے روزہ كى نذر كرلى ہے لہذا آج ميں كسى انسان سے بات نہيں كرسكتى (۲۶)

۱_ حضرت عيسي(ع) نے پيدا ہوتے ہى اپنى والدہ حضرت مريم كو تازہ كھجور يں كھا نے اور چشمہ كے پانى پينے

۶۴۵

كى دعوت دىفنادى ها من تحتها تحتك سريّاً رطباً جنياً فكلى واشربي

۲_ تازہ كھجور، ( رطب) وضع حمل كے بعد عورت كيلئے ايك مناسب غذا ہے _فكلي حضرت مريم ،كوتازہ كھجور كھانے كى نصيحت وضع حمل كے بعد خواتيں كيلئے اس غذا كے مناسب ہونے پر دليل ہے _

۳_ حضرت عيسي(ع) كا اپنى والدہ سے تكلم كرنا اور پانى و غذا كى ضرورت معجزاتى طريقہ سے پورا ہونا حضرت مريم كى مسرت اورآنكھوں كى ٹھنڈ ك اور ساتھ ہى آيندہ آنے والے مشكلات كے دور ہونے كا باعث تھا_فناديها فكلى واشربى و قرّى عينا ( عيناً) تميز ہے اور فاعل كى حقيقى مراد كو بيان كررہا ہے ( قرّى ) مادہ (قرار) سے ہے اسكا معنى ( آرام پانا) ہے يا مادہ ( قرّ) سے ہے كہ اس كا معنى سرد ہونا ہے _ اگر پہلا معنى مراد ليں تو مطلب ہے كہ آنكھوں كے ليے پر سكون ہو اور اگردو سرا معنى ليں تو مطلب ہے آنكھوں كو ٹھنڈاكرو ( يعنى آپكى آنكھيں جلتے ہوئے آنسوؤں سے دور رہيں ) بہر حال دونوں صورتيں يہ خوشحالى اور شادمانى سے كنايہ ہيں كہ آنكھيں پريشانى اور اضطراب سے پاك ہوں اور غم و ررنج كے آنسوؤں سے دور رہيں جملہ ( قرّى عينا) كا پچھلے جملات سے رابطہ مندرجہ بالا مطلب كو بيان كررہا ہے _

۴_بچے كا پيدا ہونا، ماں كى آنكھوں كى روشنى اور دل كے سكون كا باعث ہے _وقرّى عين جملہ ( قرّى عيناً) ممكن ہے كہ ايك مستقل جملہ ہو تو اس صورت ميں يہ جملہ اپنے سياق كے مطابق بچے كى ولادت سے مربوط ہوجائے گا_

۵_ بچے كى ولادت كے بعد والدہ كو مبار ك باد اور خوشحالى كى دعا دينا،ايك پسنديدہ كام ہے _وقرّى عين

حضرت مريم كو آنكھوں كى روشن رہنے كا جملہ كہنا جس صورت ميں بھى ہو ماوؤں كو بچوں كى پيدائش كے بعد اس كے ليئے پسنديدہ ہونے پر دلالت كررہا ہے _

۶_ عورت، وضع حمل كے بعد مناسب غذا اور روحى وذہنى حوالے سے آرام وتسلى كى محتاج ہوتى ہے _

فكلى واشربى وقرّى عينا

۷_ حضرت عيسي(ع) نے لوگوں كى تہمتوں كے مقابل اپنى والدہ كے دفاع كى ذمہ داريسنبھالي_فإمّا ترينّ من البشر أحدا ً فقولى إنّى نذرت للرحمن صوما حضرت عيسي(ع) كى جانب سے اپنى والدہ كو سكوت اختيار كرنے كى نصيحت كا مطلب يہ تھا كہ وہ اپنے دفاع كے حوالے سے پريشان نہ ہوں چونكہ يہ كام خود حضرت عيسي(ع) انجام د يں گے _ اور حضرت عيسي(ع) كا ولادت كے بعد اپنى والدہ سے تكلم كرنا حضرت مريم كے ليے اطمينان كا باعث تھا كہ وہ يہ كام بخوبى كرليں گے _

۶۴۶

۸_ حضرت عيسي(ع) نے اپنى والدہ حضرت مريم كو لوگوں سے مقابلہ كرنے كى روش اور انكى تہمتوں كے مقابلہ ميں رد عمل كا طريقہ سكھايا _فإمّا ترينّ من البشرأحداً فقولي

۹_ حضرت مريم وضع حمل كے وقت اوراسكے بعد اپنى قوم كى طرف پلٹنے تك تنہا تھيں _

فحملتة فانتبذت به مكاناً قصيّاًفإمّا ترين من البشرأحدا

جملہ شرطيہ ( فإما ترين )ممكن ہے اس مطلب پر دالالت كررہا ہو كہ وضع حمل اور اسكے بعد وہاں كوئي انسان نہ تھا اگر چہ سياق وسباق كے قرينہ سے كہا جاسكتا ہے يہاں مراد عموى انسان نہيں ہيں بلكہ وہ افراد مراد ہيں كہ جنكے نزديك حضرت مريم كا بچہ دار ہونا سوال انگيز ہو بعض نے (البشر) ميں ال كو عہدى جانا اوراس سے مراد انكى قوم كو جانا ہے_

۱۰_حضرت عيسي(ع) نے اپنى والدہ حضرت مريم(ع) كو لوگوں كا سامنا كرنے كى صورت ميں سكوت كے روزہ كى نذر ماننے كى نصيحت كى _فإما ترين من البشر أحد اً فقولى إنّى نذرت للرحمن صوما

۱۱_حضرت مريم نے اپنى قوم كے سب سے پہلے فرد كا سامنا كرتے ہى سكوت كے روزہ كى نذر مان لى _

فإما ترين من البشر أحداً فقولى إنّى نذرت

( فقولى ) كا ظاہر يہ ہے كہ مريم(ع) نے اپنى نذركو زبان سے بيان كيا ہو تو اسى صورت ميں وہى جملہ ( إنّى نذرت ) صيغہ نذرتھا اور حضرت مريم (ع) كى نذر اسے كہنے سے منعقد ہوگئي _

۱۲_ حضرت مريم(ع) ، كے سكوت كا روزہ ايك دن كا تھا اور يہ وہى وقت تھا كہ جب وہ اپنى قوم كى طرف لوٹ كرگيئں تھيں _إنى نذرت للرحمن صوماً فلن أكلم اليوم إنسيّا ( اليوم ) ميں الف لام عہد حضورى ہے يعنى ''آج '' اس سے مراد وہى اور روز ہے كہ جب وہ اپنے نومولود كے ساتھ اپنى قوم ميں لو ٹ كر گئيں _

۱۳_ حضر ت مريم نے اپنے فرزند كى راہنمائي كى بناپر اپنے روزہ كو الله تعالى كى وسيع رحمت كے حامل ہونے كے ساتھ ربط كا اعلان كيا _إنى نذرت للرحمن صوما

۱۴_ الله تعالى كى وسيع رحمت سے بہرہ مند ہونے كى صورت ميں ردّ عمل كے طور پر روطہ شائستہ عمل ہے_إنى نذرت للرحمن صوم

۱۵_ ( رحمان) الله تعالى كے اسماء اور صفات ميں سے ہے _للرحمن

۱۶_ حضرت مريم(ع) كا جسم و روح الله تعالى كى خصوصى نگرانى كے تحت تھے_فنا دى ها فكلى واشربى فإماترينّ

حضرت مريم كو پكارنے والا جو بھى ہو ،چاہے حضرت عيسي(ع) ہوں يا كوئي فرشتہ، بہر حال الله تعالى

۶۴۷

كى جانب سے تھا اور اسكے فرمان كے مطابق تھا لہذا ہم كہہ سكتے ہيں كہ حضرت مريم ان تمام حالات ميں الله تعالى كى خصوصى نگرانى ميں تھيں _

۱۷_ حضرت مريم(ع) كے دين ميں نذر ،ايك پسنديدہ چيز اور انكے ہم عصر لوگوں ميں يہ معروف چيز تھى _

فإما ترينّ من البشر أحداً فقولى إنّى نذرت للرحمن

۱۸_ سكوت كے روزہ كا پسنديدہ ہونا او ر اسكے ساتھ نذركا تعلق حضرت مريم(ع) كے دينى احكام ميں سے تھا ( دين يہود )

إنى نذرت للرحمن صوما

۱۹_ روزہ كى مدت ميں انسانوں سے كلام كا ترك كرنا، حضرت مريم(ع) كے دين ميں روزہ كے احكام ميں سے تھا _إنى نذرت للرحمن صوماً فلق أكلم اليوم إنسيا وہ روزہ جو حضرت مريم(ع) نے ركھا تھا دو صورتوں ميں نقل ہوا ہے (۱) كھانے اور بات كرنے سے پرہيز _ چونكہ اس زمانہ كى شريعت ميں روزہ دار كيلئے ضرورى تھا كہ وہ كلام سے بھى اجتناب كرے(۲) سكوت كى صورت ميں روزہ كہ روزہ دار صرف كلام كرنے سے پرہيز كرتا تھا ظاہر آيت پہلى صورت كے ساتھ مناسب ہے كيونكہ انہوں نے مطلقا روزہ كرنے كى نذر كى تھى اور اسكے ضمن ميں ترك كلام كيا تھا _

۲۰_ حضرت مريم(ع) كے دين ( دين يہود ) ميں روزہ دار، انسانوں كے علاوہ دوسروں سے كلام اور ذكر خدا كر سكتا تھا _إنى نذرت للرحمن صوماً فلن أكلم اليوم إنسيا (إنسي) يعنى ايك انسان ( قاموس) جملہ (لن أكلم اليوم إنسيا ) جملہ( إنى نذرت) كى فرع ہے لہذا يعنى چونكہ ميں نے روزہ كى نذركى ہے كسى انسان سے كلام نہيں كرسكتى اس فرع سے يوں ظاہر ہوتا ہے كہ يہود كے دين ميں روزہ دار كے ليے ضرورى ہے كہ وہ كسى انسان سے تكلم نہ كرے _ ليكن ذكر كرنا، الله تعالى سے مناجات كرنا ممنوع نہيں تھا _

۲۱_ جوان عورت كا اجنبى مرد سے بات كرنا جائز ہے_فلن أكلم اليوم إنسيا اگر عورت كا نامحرم سے بات كرنا، سرے سے حرام ہوتا تو يہاں عذ ر شرعى پيدا كرنے اور خاموشى كے روزہ كى نذر كرنے كى ضرورت ہى نہ تھى _ كہا جاتا ہے كہ يہ آيت روزہ سكوت كے مورد سے ہٹ كر قابل تمسك ہے چونكہ روزہ سكوت كے نسخ پر خاص نص وارد ہوئي ہے _

۲۲_نذر كى پابندى واجب ہے _إنى نذرت للرحمن فلن أكلم اليوم إنسيا اگر مريم(ع) نذر كے با وجود بات كرنے كا حق ركھتيں انكى نذر، لوگوں كے نزديك سكوت كے حوالے قطعى عذر نہيں ہوسكتى تھي_

۲۳_وہ عورت جس كا شوہر نہ ہو وہ نذر كرنے ميں آزاد ہے _

۶۴۸

فقولى إنى نذرت

۲۴_ نذر ميں قصد قربت لازم ہے _إنى نذرت للرحمن

۲۵_قربت كى نيت معاشر تى غير مناسب رويوں سے نجات كى نيت كے ساتھ منافى نہيں ہے _إنى نذرت للرحمن صوماً فلن أكلم اليوم إنسيا حضرت مريم(ع) نے لوگوں كے نز ديك اپنے سكوت كا عذ ر پيدا كرنے كيلئے روزہ كى نذركى ليكن جملہ (إنى نذرت للرحمان ) كے ساتھ اپنى نذر كو تقرب خدا كا وسيلہ قرارديا _

۲۶_نذر كرنے والے كيلئے ضرورى ہے كہ نذر كے صيغہ كا تلفظ ادا كرے _فقولى إنى نذرت

۲۷_نذركے صيغہ ميں ضرورى ہے كہ الله تعالى كے نام كا ذكر كرے _إنى إنى نذرت للرحمن

۲۸_(رحمان ) صفت كا ذكر، نذر كے صحيح ہونے كيلئے كافى ہے _إنى نذرت للرحمن

۲۹_ نذر تبرعى ( يعنى نذر كا كسى شرط پر معلق نہ ہونام صيحح ہے _إنى نذرت للرحمن صوما

۳۰_معاشرتى مشكلات سے فرار ہونے كيلئے نذر سے فائدہ اٹھانا جائزہے _إنى نذرت فلن أكلم اليوم إنسيا

۳۱_عن أبى عبدالله (ع) قال : إن الصيام ليس من الطعام والشراب وحده قالت مريم : إنى نذرت للرحمان صوماً أى صوماً حمتاً (۱) امام صادق عليہ السلام سے روايت ہوئي كہ آپ نے فرمايا : روزہ صرف كھانے پينے سے پرہيز نہيں ہے _ مريم نے كہا تھا :''إنى نذرت للرحمان صوماً ''يعنى سكوت كا روزہ _

آرام :آرام كے اسباب۴

آنكھ كى روشنى :آنكھ كى روشنى كے اسباب ۴

احكام :۲۱;۲۲;۲۳;۲۴;۲۶;۲۷;۲۸;۲۹;۳۰

اخلاص :اخلاص اور معاشرتى مشكلات سے رہائي و نجات ۲۵

اسماء و صفات :رحمان ۱۵

الله تعالى :الله تعالى كى حمايتں ۱۶

بچہ دارہونا :بچہ دار ہونے كے آثار ۴

____________________

۱)كافى ج۴ ص۸۷ج۳، نورالثفلين ج۳ص۲ ۳۳ ح۵۸_

۶۴۹

خوشى :خوشى كے اسباب ۴

ذكر :روزہ ميں الله تعالى كا ذكر ۲

رحمت :رحمت كے شامل حال لوگوں كى ذمہ دارى ۱۴; رحمت كے شامل حال ۱۳

روايت :۳۱روزہ :روزہ كا كردا ر ۱۴; روزہ كے احكام ۱۹،۲۰; سكوت كا روزہ ۱۹;۲۰; يہوديت ميں روزہ ۱۹ ، ۲۰ ; يہوديت ميں سكوت كا روزہ ۱۸

عمل :پسنديدہ عمل ۵/عورت :عورت كى نذر ۲۳

عيسي(ع) :عيسي(ع) كا قصہ ۱;۳ك۷;۸; عيسي(ع) كا كردار ۷; عيسي(ع) كا نو مولود حالت مين تكلّم ۱;۳;۷;عيسى كا ہدايت دنيا ۱۳عيسى كى تعليمات ۸; عيسي(ع) كى نصحتيں ۱۰;/كھجور :كھجور كے فوائد ۲

مريم :مريم پر زنا كى تہمت ۷،۸;مريم كا بچہ پيدا كرنا۹; مريم كا پانى پينا ۱;مريم كا دفاع ۷; مريم كا سكوت كاروزہ ۱۰،۱۱،۱۲،۳۱; مريم كا قصہ ۱،۳، ۷، ۸،۹، ۱۰ ، ۱۱ ،۱۲،۱۶; مريم كا كھجور كھانا ۱; مريم كا معلم ۸;مريم كو ہدايت ۱۳ ; مريم كى آنكھ ميں روشنى كا باعث ۳;مريم كى پانى كى ضرورت پورى ہونا ۳;مريم كى پريشانى كے دور ہونے كے اسباب ۳; مريم كى تنہائي ۹; مريم كى حفاظت ۱۶; مريم كى غذا كى ضرورت پورى ہونا ۳; مريم كى ملاقات كے حوالے سے روش۸;مريم كى نذر ۱۰،۱۱،۳۱; مريم كے زمانہ ميں نذر ۱۷; مريم كے سرور كا باعث ۳; نصيحت مريم كو كرنا۱۰

معاشرت :معاشرت كے آداب ۵

نامحرم :نامحرم كے احكام ۲۱; نامحرم سے گفتگو۲۱

نذر:معاشر تى مشكلات سے نجات كيلئے نذر ۳۰; نذر تبرعى ۲۹; نذر سے وفا كا وجوب ۲۲;نذر كا صيغہ ۲۶،۲۷، ۲۸; نذر كى تاريخ ۱۷; نذر كے احكام ۲۲،۲۳، ۲۴،۲۶،۲۷،۲۸،۲۹ ،۳۰ ; نذر كے صحيح ہونے كے شرائط ۲۸;نذر ميں اخلاص ۲۴;نذر ميں نيت ۲۴; يہوديت ميں نذر ۱۷،۱۸

واجبات :۲۲

وضع حمل :وضع حمل كرنے والى كو حوصلہ دينا ۶; وضع حمل كرنے والى كيلئے آرام ۶; وضع حمل كے بعد مادى ضروريات ۶;وضع حمل كے بعد مباركباد ۵; وضع حمل كے بعد نفيساتى ضروريات ۶; وضع حمل كيلئے غذا ۲،۶

۶۵۰

آیت ۲۷

( فَأَتَتْ بِهِ قَوْمَهَا تَحْمِلُهُ قَالُوا يَا مَرْيَمُ لَقَدْ جِئْتِ شَيْئاً فَرِيّاً )

اس كے بعد مريم بچہ كو اٹھائے ہوئے قوم كے پاس آئيں تو لوگوں نے كہا كہ مريم يہ تم نے بہت برا كام كيا ہے (۲۷)

۱_ حضرت مريم نے اپنے نو مولود عيسي(ع) سے راہنمائي لينے كے بعد اسے اعلانيہ اپنى گود ميں ليا اور اپنى قوم كى طرف گئيں _فا تت به قومها تحمله

۲_ حضر ت مريم لوگوں كى طرف لوٹنے كے وقت ہر قسم كے خوف اور پريشانى سے خالى تھيں _

فكلى واشربى فإماتريّن من البشر فا تت به قومها تحمله

اگر چہ جملہ ( أتت بہ قومہا ) عيسي(ع) كا اپنى والدہ كے ذريعے واضح اظہار كيلئے مكمل تھا ليكن يہا ں جملہ حاليہ ( تحملہ ) كا بھى اضافہ ہوا ہے تا كہ مريم كے اپنے فرزند كو اٹھانے پر دلالت ہو گويا حضرت مريم ميں اپنے فرزند كو پنہان كرنے كا كوئي ارادہ ہى نہ رہا ہو بلكہ اعلانيہ انہيں گود ميں ليا اور لوگوں ميں چلى آئيں _

۳_لوگوں نے مريم كو اپنے بچے كے ہمراہ ديكھتے ہى بغير سوال وجواب كے ان پر زنا كى تہمت لگائي _

فا تت به قومها تحمله قالوايا مريم لقد جئت شئياً فريّا

( فريّا ) صفت شبہ ہے اس سے مراد سنگين، بڑا عجيب اورايسا كام ہے جو پہلے كبھى نہ ہوا ہو يہ لفظ مادہ ( فرى ) سے بنا ہے كہ جس كا معنى قطع يعنى توڑنا ہے يعنى ايسے عمل نے گذشتہ سنت كو توڑ ديا ہے بھرحال جنہوں نے بھى يہ لفظ كہا انكى مراد حضرت مريم پر زنا كى تہمت تھى _

۴_ حضرت مريم اپنى قوم ميں ماضى ميں بھى صحيح و سالم اورہر قسم كى بد نامى سے پاكيزہ تھيں _

قالو يا مريم لقد جئت شيئاً فريّا

( فرياً) بتا رہا ہے كہ لوگوں نے ايك فضول تصور كى بناء حضرت مريم كو خطا كا رجانا اور اس كام سے وہ حيران رہ گئے اسكو گذشتہ سنت كے مخالف جانا لہذا معلوم ہوا انكے نزديك مريم كا كردارانتہائي اچھااور پاكيزہ تھا _

۵_ حضرت مريم كے زمانہ ميں بيت المقدس كے لوگ ،اخلاقى اور جنسى انحرافات كے مقابل بہت حساس

۶۵۱

تھے _لقد جئت شياً فريّا

۶_ عن أبى جعفر (ع) قال : لما قالت العواتق لمريم لقد جئت شياً فريّا أنطق الله تعالى عيسي(ع) عند ذلك (۱)

امام باقر (ع) سے روايت ہوئي ہے كہ جب نور س كى بہنوں نے مريم سے كہا :'' لقد جئت شيئاً فرياً ''اللہ تعالى نے اسى وقتعيسى (ع) كى زبان كو گفتگو كرنے كيلئے كھول ديا _

احساسات :ماں كے احساسات ۱

روايت :۶

عيسى :عيسى كا نومولود حالت ميں بولنا ۶; عيسي(ع) كا قصہ ۱;۶

مريم :مريم پرزنا كى تہمت ۳،۶; مريم كا اچھا سابقہ ۴;مريم كا قصہ ۱،۲،۶; مريم كا لوٹنا ۱;۲ مريم كى پريشانى دور ہونا ۲;مريم كى عفت ۴; مريم كے احساسات ۱

يہود :زمانہ مريم ميں يہود اور جنسى انحرافات ۵;زما نہ مريم ميں يہود كى تہمتيں ۳; زمانہ مريم ميں يہو د كى صفات ۵

آیت ۲۸

( يَا أُخْتَ هَارُونَ مَا كَانَ أَبُوكِ امْرَأَ سَوْءٍ وَمَا كَانَتْ أُمُّكِ بَغِيّاً )

ہارون كى بہن نہ تمھارا باپ برا آدمى تھا اور نہ تمھارى ماں بدكردرا تھى (۲۸)

۱_ حضرت مريم كى قوم نے انكے والدين كى عفت و پاكيزگى بيان كرتے ہوئے انہيں بغير نكاح كے بچہ دار ہونے پر سرزنش كى _ماكان أبوك امرا سوء وماكانت أمّك بغيّا

۲_ حضرت مريم حضرت ہارون كى نسل ميں سے تھيں _يا أخت هارون

جو قبيلہ جس شخص كى نسل سے تشكيل پائے اسے اسى شخص كے نام سے پكارا جاتا ہے اور اس قبيلہ كے افراد اخ يا اخت سے ايك دوسرے پكارتے تھے لہذا يہاں حضرت مريم اخت ہارون ہيں كا اطلاق اس حوالے سے تھا كہ وہ ہارون كى نسل ميں سے تھيں _

۳_ حضرت مريم كى قوم كے درميان ہارون ايسى صالح شخصيت تھى كہ پاكيزہ افراد كو انكى طرف منسوب كيا جاتا تھا_

____________________

۱) قصص الانبياء راوندى ص۲۶۵، ح۳۰۴ ، بحارالانوار ج۱۴ ص۲۱۵ ح۱۵_

۶۵۲

يا خت هارون

بعض مفسرين نے مريم كا ہارون كى طرف منسوب كيے جانا كا مقصد نسبى تعلق نہيں جانا بلكہ ہارون چونكہ حضرت مريم كى قوم ميں ايك برجستہ ترين شخص تھے كہ زہد و تقوى كے حامل اشخاص كو لوگ انكى طرف منسوب كيا كرتے تھے لہذا ان مفسرين نے اس نسبت كو اس حوالے سے جانا ہے _

۴_ مريم كے ايك پاك سيرت بھائي ،ہارون تھے _يا خت هارون

يہ بھى امكان ہے كہ حضرت مريم كى قوم نے اس ليئے انہيں اخت ہارون كہا كہ ان كا اس نام كا ايك بھائي تھا چونكہ اس كا ذكر خير مريم كے والدين كى پاكيزہ گى كى مانند لوگوں كى زبانوں پر رہاتھا _ اس قسم كے شائستہ لوگوں سے مريم كا تعلق لوگوں كے نزديك انكے گناہ كے بدترين ہونے كى وجہ تھي_

۵_ حضرت مريم كے والدين، اپنے زمانہ كے لوگوں ميں پاكيز گى اور نيك نامى كے حوالے سے مشہور تھے _

ما كان أبوك امرأ سوء وما كانت أمّك بغيا

۶_ بيت المقدس كے لوگوں نے حضرت مريم پر زنا كى تہمت لگائي _وما كانت أمّك بغيا

( بغي) يعنى بد كار عورت ( قاموس) لوگوں نے اگرچہ مريم پر واضح طور پر زنا كى تہمت نہيں لگائي ليكن كنايہ كے ساتھ يہ سب كچھ كہا جملہ ( و ما كا نت ) تمہارى ماں بد كارنہ تھى ) يعنى تم ايسى ہو_

۷_خاندان بالخصوص باپ كا بچوں كے اخلاقى رشد يا انحطاط ميں موثر كردار ہے _ما كان أبوك امرا سوء وما كانت امك بغي وہ تعبير جو حضرت مريم كى قوم نے انكے والدكے حوالے سے استعمال كى ہے اسميں تمام برائيوں كى نفى تھى _ يہ تعبير حكايت كررہى ہے كہ والدكى برائياں جيسى بھى ہوں ،بچوں كے فاسد ہونے ميں اہم كردار ركھتى ہيں البتہ والدہ كاكردار اتنى وسعت سے موثر نہيں ہے _

۸_ دوسرے كى نسبت صالح والدين كى اولاد سے كہ جس كہ رشتہ دار بھى عظيم ہوں اگر برے افعال صادر ہوں تو وہ زيادہ مذمت اور شرم كے قابل ہيں _ياأخت هارون ماكان أبوك امرا سوء و ماكانت امك بغيا

۹_ حضرت مريم اورانكا خاندان اپنے زمانہ ميں لوگوں كے درميان مشہورومعروف تھا _

يا خت هارون ماكان أبوك امرا سوء و ماكانت أمّك بغيا

۱۰_روى عن النبى (ص) أنه قال : هارون

۶۵۳

الذى ذكروه ( فى قوله تعالى : ى أخت هارون ) هو هارون أخوموسى (ع) (۱)

رسول خدا سے روايت نقل ہوئي كہ آپ(ص) نے فرمايا : ہارون جس كا مريم كى قوم نے تذكرہ كيا تھا وہ وہى حضرت موسى (ع) كے بھائي تھے_

۱۱_عن المغيرة بن شعبه قال : بعثنى رسول الله (ص) إلى أهل نجران فقالوا: ا را يت ما تقرا ون ؟ ( ى أخت هارون ) و موسى قبل عيسي(ع) بكذا وكذا قال : فرجعت فذكرت ذلك لرسول الله (ص) فقال : ألا اخبرتهم أنهم كانوا يسمّون بالا نبياء والصالحين قبلهم (۲)

مغيرہ بن شعبہ كہتے ہيں :پيغمبر اكرم (ص) نے مجھے اہل نجران كى طرف بھيجا انہوں نے مجھ سے پوچھا ہميں بتاؤيہ جو تم كہتے ہو ( يا اخت ہارون ) اس سے مراد كيا ہے حالانكہ حضرت موسى (ع) عيسى (ع) سے مدتوں پہلے تھے ( اورہارون ان كے بھائي تھے )

مغيرہ نے كہا ميں لوٹ آيا اور سب ماجرا رسول خدا (ص) كى خدمت ميں عرض كيا :انہوں نے فرمايا : كيوں نہيں ، انہيں بتايا كہ اس زمانے والے اپنے سے پہلے انبياء اور صالحين كا نام ركھا كرتے تھے _

باپ:باپ كے كردار كى اہميت ۷

صالحين :صالحين كے بچوں كا ناپسنديدہ عمل ۸; صالحين كے رشتہ داروں كا ناپسنديدہ عمل ۸

فرزند :فرزند كے انحطاط كے اسباب ۷; فرزند كے كمال كے اسباب ۷

فيملى :فيملى كا كردار ۷

مريم :مريم كى سرزنش ۱; مريم كا قصہ ۱،۶;مريم پر زنا كى تحمت ۶; يہودميں مريم كى شخصيت ۹; مريم كے آباؤ اجداد ۳; مريم كے بھائي ۴; مريم كے والدين كا بہترين سابقہ۵;مريم كے والدين كى عفت ۱; يہود ميں مريم كے آباؤاجداد كى شخصيت ۹

ہارون :ہارون اور مريم ۱۰;۱۱; ہارون كا احترام ۲; ہارون كى طرف نسبت كا معيار ۲; ہارون كى نسل ۳;يہود ميں ہارون ۲

يہودي:مريم كے زمانہ يہوديوں كى تہمتيں ۶; مريم كے زمانہ ميں يہو ديوں كى سرزنش ۱

____________________

۱)امالى سيد مرتضى ج۴ ص۱۰۶، تفسير برہان ج۳ ص۱۰ ح۲_

۲)الدرالمنشور ج۵ ص۵۰۷، نورالثقلين ج۳ ص۳۳۳ ح۶۳_

۶۵۴

آیت ۲۹

( فَأَشَارَتْ إِلَيْهِ قَالُوا كَيْفَ نُكَلِّمُ مَن كَانَ فِي الْمَهْدِ صَبِيّاً )

انھوں نے اس بچہ كى طرف اشارہ كرديا تو قوم نے كہا كہ ہم اس سے كيسے بات كريں جو گہوارے ميں بچہ ہے (۲۹)

۱_ حضرت مريم (ع) نے اپنے نو مولو د ( حضرت عيسى (ع) ) كى طرف اشارہ كرتے ہوئے اپنے او پر لگائي تہمت كے جواب كى ذمہ دارى انكے حوالے كي_و ماكانت أمّك بغياً _ فا شارت إليه

۲_ حضرت مريم (ع) اپنى قوم كى تہمتوں كا سامناكرتے وقت روزہ سے تھيں اور بات نہيں كررہى تھيں _

فا شارت إليه

۳_ حضرت مريم (ع) اپنے نو مولود فرزند حضرت عيسى (ع) ميں كلام كرنے اور تہمتوں كو دور كرنے كى قدرت پر يقين ركھتى تھيں _فا شارت إليه

حضرت مريم (ع) كا اپنى قوم ميں آنا اور اعلانيہ طور پر اپنے فرزند كولانا او رتہمتوں كے جواب دينے كے بجائے انكى طرف اشارہ كرنا، انكے يقين كو واضح كررہا ہے_

۴_ حضرت مريم(ع) اپنے نو مولود عيسى (ع) كے ساتھ اپنى قوم كي طرف دن كے وقت لوٹ كرآئي تھيں _

فلن أكلم اليوم إنسياً فأشارت إليه

۵_ لوگوں نے جب ديكھا كہ حضرت مريم (ع) نے تہمتوں كے جواب كى ذمہ دارى اپنے نو مولود حضرت عيسي(ع) كے كندھوں پر ڈال دى ہے تو وہ حيران رہ گئے انہوں نے اس چيز كو تسليم نہ كيا _

فأشارت إليه قالو كيف نكلّم من كان فى المهد صبيا

آيت ميں استفہام انكار ہے اور اس انكار كے ہمراہ بہت سى تاكيد بھى ہے_(۱) فعل ميں استفہام كہ جو ان موارد ميں ماضى پردلالت نہيں كررہا بلكہ قرار اور ثبات كوسمجھا رہا ہے (۲) ( فى المہد) كى قيد حضرت عيسي(ع) كى ہر قسم كى حركت سے عاجزى كى علامت ہے (۳) (صبيّا) قيدكى ( فى المہد ) كے ہوتے ہوئے ضرورت نہ تھى ليكن اسے كہنے دالوں نے اپنے انكار اور تعجب ميں اضافہ كر نے كيلئے كہا _

۶_ گہوارے ميں ليٹے ہوئے بچے كا زبان كھو لنا اور اپنى

۶۵۵

ولادت كے ماجرا كى وضاحت كرنا ، حضرت مريم كى قوم كيلئے قابل تصور نہ تھا _كيف نكلم من كان فى المهد صبيا

( مہد ) گہوارہ يا ہر وہ جگہ جو چھوٹے بچوں كے آرام كيلئے ہوتى ہے _

۷_ حضرت مريم پر بہت سے لوگوں نے زناكى تہمت لگائي تھى _قالوا يا مريم قالوا كيف نكلم

۸_دين يہود ميں مرد كا اجنبى عورت سے كلام كرنا جائز تھا _قالوا يا مريم قالو كيف نكلم

وہ جو مريم كى طرف آئے اور ان سے گفتگو كى _ وہ دين دارى كا ادعا ركھتے تھے اسى وجہ سے جزيات كو ابھارتے ہوئے مريم پر اعتراض كيا واضح سى بات ہے اگر يہ چيز انكے مذہب ميں جائز نہ ہوتى تو كوئي اور راہ اختيار كرتے _

۹_ نامحرم كى باتيں سننا اور اس سے گفتگو كرنا جائز ہے _قالوا يا مريم قالوا كيف نكلّم

حضرت مريم سے انكے ہم مذہب افراد كى گفتگو اور قران كا اس چيز كو رد نہ كرنا اور اس پر اعتراض نہ كرنااسكے شرعى ہونے پر د ليل ہے _احكام :۹

عيسى :عيسي(ع) كا قصہ ۳;۵; حضرت عيى كا نومولوى حالت ميں كلام كرنا ۳;حضرت عيسي(ع) كے نو مولودى حالت ميں كلام كا عجيب و غريب ہونا ۵

مريم :حضرت مريم پرزنا كى تہمت ۱;۷; حضرت مريم سے دفاع ۱،۳;حضرت مريم كا اشارہ ۱; حضرت مريم كا روزہ سكوت ۲; حضرت كا مريم كا قصہ ۱،۲،۳،۴،۵،۷; حضرت مريم كا يقين۳;حضرت مريم كے لوٹنے كا وقت ۴

نامحرم :نامحرم سے گفتگو ۹;نامحرم كے احكام ۸،۹; يہوديت ميں نامحرم سے گفتگو ۸

نومولود:نومولود كے كلام كا عجيب ہونا ۶

يہود :حضرت مريم كے زمانہ ميں يہود كا تعجب ۵;۶

آیت ۳۰

( قَالَ إِنِّي عَبْدُ اللَّهِ آتَانِيَ الْكِتَابَ وَجَعَلَنِي نَبِيّاً )

بچہ نے آواز دى كہ ميں اللہ كا بندہ ہوں اس نے مجھے كتاب دى ہے اور مجھے نبى بنايا ہے (۳۰)

۱_حضرت مريم كے نومولود نے اپنى والدہ كے اشارہ كے ساتھ ہى لوگوں كے مجمع ميں بات كر نى شروع كى _

فأشارت إليه قال إنى عبدالله

۲_ الله تعالى كى بند گى حضرت عيسي(ع) كا پہلا اعتراف اور ان كى نگاہ ميں سب سے بڑا مقام ہے_قال إنى عبدالله

۶۵۶

نبوت اور آسمانى كتاب كے حامل ہونے پر بھى صفت بندگي، كا مقدم ہونا اس بات كى علامت ہے كہ حضرت عيسي(ع) كى نظر ميں يہ صفت، تمام مقامات سے بلند تھى _

۳_ حضرت عيسي(ع) نومولودى كے زمانہ ميں الہى كتاب اورمقام نبوت كے حامل تھے_ء اتينى الكتب و جعلنى نبيا

۴_حضرت عيسي(ع) نے بچپن ميں اپنا الله تعالى كا بندہ ہونا،آسمانى كتاب كا حامل اور الہى پيغمبر ہونے كى حيثيت سے تعارف كروايا _قال إنى عبداللّه ء اتينى الكتب وجعلنى نبيّا

۵_حضرت عيسي(ع) كا گہوارے ميں كلام كرنا اور اپنا تعارف كروانا ان كے معجزات ميں ہونے كے ساتھ ساتھ حضرت مريم كى پاكيزہ ہونے اور لوگوں كى تہمتوں سے برى الذمہ ہونے پر كفايت كرنے والى برہان تھى _

فاشارت إليه قال إنى عبداللّه

۶_ آسمانى كتاب اور مقام نبوت كى عطا، الله تعالى كے ہاتھ ميں ہے _ء اتينى الكتب و جعلنى نبيا

۷_ مقام نبوت اور آسمانى كتاب كے حامل ہونے كيلئے كسى خاص عمر كى قيد نہيں ہے _

كيف نكلم من كان فى المهد قال انى عبدالله ء اتينى الكتب و جعلنى نبيا

۸_ مقام نبوت كے اثبات كيلئے ولادت ميں پاكيزگى من جملہ شرائط ميں سے ہے _قال وجعلنى نبيا

اگر چہ حضرت عيسي(ع) كا خود بات كرنا ہى حضرت مريم كى پاكيزگى كے اثبات كيلئے معجزہ تھا _

ليكن جملات ميں ايك قسم كا استدلال موجود ہے كہ ميں چونكہ پيغمبر ہوں اور پيغمبر كى ولادت حرام سے نہيں ہوسكتى پس ميں حلال زادہ ہوں _

۹_ مقام نبوت پانے كيلئے عملى تربيت، استعداد اور صلاحيتوں كا حصول ضرورى نہيں ہے _

قال إنى عبداللّه ء ا تينى الكتب وجعلنى نبيًا

حضرت عيسي(ع) نے گہوارہ ميں اپنا پيغمبر اور حامل كتاب ہونے كى حيثيت سے تعارف كروايااس سے معلوم ہوتا ہے كہ مقام نبوت پانے كيلئے كسى صلاحيت اور شخصى زحمت كرنے كى ضرورت نہيں ہے _

۱۰_'' عن يزيد الكناس قال : سا لت ا با جعفر (ع) ا كان عيسى ابن مريم حين تكلم فى المهد حجة الله على أهل زمانه؟ فقال : كان يومئذ نبيًا حجة الله غير مرسل أما تسمع لقوله حين قال إنى عبدالله آتا نى الكتاب وجعلنى نبياً'' فلمّا بلغ عيسي(ع) سبع سنين تكلم بالنبوة

۶۵۷

والرسالة حين أوحى الله تعالى وإليه (۱)

يزيد كناسى سے روايت ہوئي كہ اس نے امام باقر (ع) سے سوال كيا كہ كيا حضرت عيسى ابن مريم جب گہوارہ ميں تھے تواسى وقت اپنے زمانہ والوں پر حجت خدا تھے؟تو آپ(ع) نے فرمايا: حضرت عيسي(ع) اسى زمانہ ميں پيغمبر اور حجت خدا تھے ليكن رسالت كى ذمہ دارى نہيں ركھتے تھے_كيا انكى بات آپ نے نہيں سنى كہ انہوں نے فرمايا :''و جعلنى نبيًا'' پس جب سات سال كے ہوئے تو نبوت و رسالت كا اظہار كيا اسى زمانہ ميں ان پر الله تعالى كى طرف سے وحى ہوئي _

۱۱_( عن رسول الله (ص) : و هذا عيسى ابن مريم (ع) حين اشارت إليه قال : إنى عبداللّه آتانى الكتاب'' ...اعطى كتاب النبوةوا وصى بالصلاة والزكاة فى ثلاثة أيام من مولده و كلمهم فى اليوم الثانى من مولده (۲) رسول اكرم(ص) _ سے روايت ہوئي ہے كہ انہوں نے فرمايا :يہ حضرت عيسى ابن مريم ہيں كہ جب مريم نے ان كے طرف اشارہ كيا تو انہوں نے كہا :''إنى عبداللّه آتا نى الكتاب '' نبوت كى كتاب انہيں دى گئي ہے اور نماز و زكوة كى تاكيد كى گئي يہ سب كچھ انكى ولادت كے تين دن بعد ہوا اور انہوں نے اپنى ولادت كے دوسرے دن لوگوں سے كلام كيا_

آسمانى كتب:آسمانى كتب كا سرچشمہ ۶;آسمانى كتب كے نازل ہونے كى شرائط ۷

الله تعالى :لله تعالى كے افعال ۶

انبياء:انبياء كا حلال زادہ ہونا ۸

روايت :۱۰;۱۱

عيسى :حضرت عيسي(ع) كا قصہ ۱،۱۱ ; حضرت عيسي(ع) كا معجزہ ۵; حضرت عيسي(ع) كے مقامات ۲،۳;حضرت عيسي(ع) كانومولود حالت ميں كلام كرنا ۱،۵،۱۱; حضرت عيسي(ع) كى نومولو د ۳،۴;حضرت عيسي(ع) كى آسمانى كتاب ۳، ۴; حضرت عيسي(ع) كى رسالت ۱۰; حضرت عيسي(ع) كى عبوديت ۲،۴;حضرت عيسي(ع) كى نبوت ۳،۴،۱۰،۱۱; حضرت عيسي(ع) كا نظرہونا ۲

مريم :حضرت مريم كا اشارہ ۱; حضرت مريم كا قصہ ۱ حضرت مريم كى پاكيزگى كے دلائل ۵ حضرت مريم كى عفت كے دلائل۵

نبوت :نبوت كا رسالت سے فرق ۱۰; بچپن ميں نبوت ۳،۴،۱۰،۱۱; نبوت كا سرچشمہ ۶; نبوت كى شرائط ۷،۸،۹

____________________

۱)كافى ج۱ ص۳۸۲ ح۱ نور الثقلين ج۳ ص۳۳۳ح۶۶_

۶۵۸

آیت ۳۱

( وَجَعَلَنِي مُبَارَكاً أَيْنَ مَا كُنتُ وَأَوْصَانِي بِالصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ مَا دُمْتُ حَيّاً )

اور جہاں بھى رہوں با بركت قرار ديا ہے اور جب تك زندہ رہوں نماز اور زكوة كى وصيت كى ہے (۳۱)

۱_ الله تعالى نے حضرت عيسي(ع) كو متبرك پيغمبر خوش قدم اور خير و بركت كابا عث قرار ديا _وجعلنى مباركاً أين ماكنت

( بركة) زيادہ ہونا اور فراوان ہونا ( مصباح) (مبارك ) بہت سے خير كا سرچشمہ (لسان العرب) اور (اين ماكنت) كى تعبير حضرت عيسي(ع) كى خوش قدمى سے حكايت كررہى ہے _ اسطرح كہ وہ جس جگہ بھى ٹھہريں اسى جگہ خير وبركت بڑھے گي_

۲_ حضرت عيسي(ع) نے بچپن ميں اپنے ميں خير و خوبى كے فراوان ہونے اور بڑھنے كو الله تعالى كى طرف سے عطا شدہ صفات شمار كيا _و جعلنى مباركاً أين ماكنت

۳_ حضرت عيسي(ع) كے وجود كى خير و بركت كسى خاص مكان يا خاص لوگوں تك محدودنہيں ہے_

وجعلنى مباركاً أين ما كنت

۴_ موجودات كو خير و بركت عطا كرنا، الله تعالى كے اختيار ميں ہے اور اسكى منشاء كے مطابق ہے _وجعلنى مبارك

۵_ سارى زندگى نماز قائم كرنا اور زكواة ادا كرنا ،اللہ تعالى كى حضرت عيسي(ع) كوانكى زندگى كے ابتدائي دنوں ميں نصيحت تھي_وا وصنى بالصلوة والزكوة مادمت حيا

۶_حضرت عيسي(ع) نے لوگوں كو اپنے تعارف كے ضمن ميں نماز اور زكواة كے حوالے سے الہى فرمان حاصل كرنا ،اپنى خصوصيات ميں سے شمار كيا ہے _وا وصنى بالصلوة والزكوة مادمت حيًا

۷_ نماز اور زكواة حضرت عيسي(ع) كى شريعت ميں دينى ذمہ داريوں ميں تھيں _وا وصنى بالصلوة والزكوة

انبياء جن تكاليف كے ليے اپنے آپ كومكلف سمجھتے ہيں اور دوسروں كے سامنے انكا اظہار كرتے ہيں سوائے چند موارد كہ جن پر دليل ہے باقى انكے پيرو كاروں كے ليے بھى ہيں ورنہ دوسروں كيلئے انہيں بيان كرنے كى ضرورت ہى نہ تھى _

۸_حضرت مريم كے زمانہ كے لوگ نماز اور زكواة كے مفاہيم سے آشنا ئي ركھتے تھے _وا وصنى بالصلوة والزكو ة حضرت عيسي(ع) نے گہوارہ ميں لوگوں كيلئے نماز اور زكواة كى بات كى لہذا معلوم ہوا كہ وہ پہلے سے ہى انكے مفاہيم سے آشناتھے_

۶۵۹

۹_ نماز اور زكواة ( بندگى كا اظہار اور انفاق ) الہى تكاليف ميں خصوصى اہميت كى حامل ہيں _وا وصنى بالصلوة والزكوة

الله تعالى كى نماز و زكواة كے بارے ميں براہ راست سفارش كرنا دونوں كے كمال تك پہنچے ميں اہم كردار او راہميت كو واضع كررہى ہے _

۱۰_ الله تعالى كى طرف حضور پيدا كرنے كے ساتھ ساتھ لوگوں كى طرف توجہ بھى لازم ہے _وا وصنى بالصلوة والزكوة مادمت حيًّا

نماز ميں صرف الله تعالى كى طرف توجہ بيان ہوئي ہے جب كہ زكواة كى بنياد يہ ہے كہ دوسروں كى مال وغيرہ سے مدد كى جائے_

۱۱_الہى تكاليف، انسان كى دنيا دى زندگى تك محدود ہيں _مادمت حيًا

۱۲_ نماز اور زكواة كسى صورت ميں بھى ترك نہيں ہونى چاہيے _وا وصنى بالصلوة والزكوة مادمت حيًا

اگرچہ ( مادمت حيًا) والا جملہ حضرت عيسي(ع) كے ساتھ مربوط ہے _ ليكن تكاليف كے مشترك ہونے كى بناء پر دوسرے مسيحى بھى اسكے مكلف ہيں اور جب بھى قرآن گذشتہ اديان سے كوئي حكم نقل كرے اوراسكے نسخ ہونے كونہ بتلائے تو مسلمانوں پر بھى وہ حكم و اجب الا تباع ہوتا ہے _

۱۳_'' عن أبى عبداللّه (ع) قال فى قول الله _ عزوجل _وجعلنى مباركاً أين ماكنت قال نفّا عاًّ؟ (۱)

امام صادق (ع) سے حضرت عيسي(ع) كى زبان سے ادا ہونے والى كلام الہى ( وجعلنى مباركاً) كے حوالے سے روايت ہوئي ہے كہ : ''مبارك ''سے مراد، بہت زيادہ نفع پہچانے والاہے _

۱۴_عن'' النبى (ص) : وجعلنى مباركاً أين ماكنت'' قال : معلماً ومو دباً (۲)

رسول خدا سے روايت ہوئي ہے كہ آپ(ص) نے فرمايا: ''جعلنى مباركاً'' يعنى الله تعالى نے مجھے تعليم دينے والا اور ادب سكھانے والابنايا ہے_

۱۵_''معاوية بن وهب قال: سا لت أبا عبداللّه (ع) عن أفضل ما يتقرّب به العباد إلى ربّهم وا حب ذلك إلى الله عزّوجلّ ما هو؟

____________________

۱) كافى ج۲ ص۱۶۵ح۱۱ نورالثقلين ج۳ ص۳۳۳ح۶۴

۲) الدر المنشور ج۵ ص۵۰۹

۶۶۰

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809

810

811

812

813

814

815

816

817

818

819

820

821

822

823

824

825

826

827

828

829

830

831

832

833

834

835

836

837

838

839

840

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863

864

865

866

867

868

869

870

871

872

873

874

875

876

877

878

879

880

881

882

883

884

885

886

887

888

889

890

891

892

893

894

895

896

897

898

899

900

901

902

903

904

905

906

907

908

909

910

911

912

913

914

915

916

917

918

919

920

921

922

923

924

925

926

927

928

929

930

931

932

933

934

935

936

937

938

939

940

941

942

943

944

945