تفسير راہنما جلد ۱۰

تفسير راہنما 6%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 945

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 945 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 247154 / ڈاؤنلوڈ: 3402
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱۰

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

_فا رد نإ ن يبدلهما ...فا راد ربّك رحمة من ربّك ومافعلته عن ا مر ي الله تعالى نے مؤمنين،انكى اولاد اور محرومين، لوگوں كى نسبت اپنى ربوبيت كو حضرت خضر كوكشتى كو سوراخ كرنے و غيرہ ...كا حكم ديتے ہوئے متحقق كيا _

۲۰_ كائنات كے حقائق اور اسرارسے حضرت خضر (ع) كى آگاہى اور انكے بار ے ميں الله تعالى كے ارادے سے مطلع ہونا، انكے علم لدنى كا ايك نمونہ تھا _وعلّمنه من لدناً علماً ...رحمة من ربّك وما فعلته عن أمري

۲۱_حضرت موسى (ع) آخر كار حضرت خضر(ع) كے عجيب وغريب كاموں كے اسرارسے آگاہ ہوئے اور بعض واقعات كى توجيہ اور تاويل كو ان سے سيكھا _ذلك تاويل ما لم تسطع عليه صبرا

''لم تسطع'' اصل ميں'' لم تستطع '' تھا يہاں حرف تاء كوتخفيف كيلئے حذف كيا ہے_

۲۲_ حضرت خضر اورموسى (ع) كى داستان ميں حوادث كاسرچشمہ، الله تعالى كا ارادہ تھا اوريہ بہت مشكل تفسير كا حامل اوراس خاص آگاہى كا محتاج ہے جو اسكى جانب سے پہنچے _وما فعلته عن أمرى ذلك تاويل مالم تسطع عليه صبرا

۲۳_ حضرت خضر(ع) نے حضرت موسى (ع) كو اپنے كاموں كے اسرار تعليم دينے كے بعد انكے مقابلہ موسى (ع) كى بے صبرى پر نا پسنديدگى كا اظہار كيا _ذلك تا ويل ما لم تسطع عليه صبرا

۲۴_اولياء الہيكے عجيب و غريب كاموں ميں بے صبرى كا مظاہرہ كرنے اور جلد بازى سے فيصلہ كرنے سے پرہيزكرنا ضرورى ہے_ذلك تا ويل ما لم تسطع عليه صبرا

حضرت موسي(ع) اور خضر(ع) كى تمام داستان سے معلوم ہوتا ہے كہ اولياء الله كے كاموں كا اپنے كا موں سے مقائسہ نہيں كرنا چاہيے بلكہ صبر كرنا چاہيے اور زبان پرنا روا بات نہيں لانا چاہيے كيونكہ انكے اسرار سے آگاہ ہونا، ہر ايك كے بس ميں نہيں ہے _

۲۵_كا ئنات كے مصائب اور حوادث، دقيق او ر اساسى توجيہ و تفسير ركھے ہوئے ہيں _ذلك تا ويل مالم تسطع عليه صبر حضرت موسى (ع) اور خضر(ع) كى پورى داستان يہ نكتہ واضح كررہى ہے كہ ناگہانى واقعات اور مثبت يا منفى حوادث كو غير صحيح نہيں سمجھنا چاہيے بلكہ اس كام كے پشت پردہ غيبى ہاتھ ہے كہ جس نے حوادث كويہ شكل عطا كى _

۲۶_ فى المجمع فى قوله : ''وكان تحته كنزلهما '' ...وقيل : كان كنزا من الذهب والفضة ...رواه ا بوالدرد اء عن النى (ص) (۱)

____________________

۱)مجمع البيان ج۶،ص۷۵۳،نورالثقلين ج۳ ص۲۸۹،ح۱۸۴_

۵۲۱

مجمع البيان ميں الله تعالى كے اس كلام'' وكان تحته كنزلهما '' كے بارے ميں آيا ہے كہ وہ سونا اور چاندى پر مشتمل خزانہ تھا اس بات كو ابو الدرد اء نے پيغمبر اكرم سے روايت كيا ہے_

۲۷_''عن الرضا (ع) قال : كان فى الكنز الذى قال الله ''وكان تحته كنزلهما'' لوح من ذهب فيه : بسم الله الرحمن الرحيم محمد رسول الله (ص) عجبت لمن أيقن بالموت كيف يفرح و عجبت لمن أيقن بالقدر، كيف يحزن و عجبت لمن را ى الدينا وتقلبّها با هلها كيف يركن إليها وينبغى لمن عقل عن الله أن لا يتهم الله تبارك وتعالى فى قضائه ولا يستبطئه فى رزقه (۱)

امام رضا عليہ السلام سے روايت نقل ہوئي كہ آپ نے فرمايا: اس خزانہ كے درميان كہ جسكے بارے ميں الله تعالى نے فرمايا :''وكان تحتہ كنزلہما'' ايك سونے كى لوح تھى جس پرلكھا ہو ا تھا''بسم الله الرحمن الرحيم'' محمد (ص) رسول الله ہيں مجھے اس پر تعجب ہے جو موت پر يقين ركھتا ہے كيسے خوش ہو رہا ہے اور اس پر تعجب ہے كہ جو الہى تقدير پر يقين ركھتا ہے كسطرح غمگين ہو رہا ہے اور اس پر تعجب ہے كہ جو دنيا والوں كى نسبت دنيا اوراسكے تغيّر كا مشاہدہ كرنے كے باوجود دنيا پر اعتماد كيے ہوئے ہے جس نے الله تعالى سے علم و دانش ليا اس بات كى لياقت ركھتا ہے كہ اسكے بارے بد گمان نہ ہو اوراللہ تعالى كى طرف رزق پہنچانے ميں سستى كى نسبت نہ دے_/اسباب كا نظام :۱۹

الله تعالى :الله تعالى كا ارادہ ۲۹; الله تعالى كى ربوبيت كے آثار ۱۶; الله تعالى كى ربوبيت كى علامات ۱۳، ۱۵; الله تعالى كى رحمت ۱۵;اللہ تعالى كى رحمت كى علامات ۱۳; الله تعالى كے ارادہ كے آثار ۲; الله تعالى كے ارادے كا پيش خيمہ ۷;اللہ تعالى كے ارادہ كے جارى ہونے كے مقامات۱۹ ; الله تعالى كے اوامر ۱۷

الله تعالى كى حمايت :الله تعالى كى حمايت كے شامل حال ۱۳

اولياء الله :اولياء الله كے بارے ميں جلد فيصلہ كرنا ۲۴;اولياء الله كے عمل كے بارے ميں صبر كى اہميت ۲۴

باپ :باپ كى صلاحيت كے آثار ۹; صالح باپ كا كردار ۶،۷،۸

حادثات :حادثات كا سرچشمہ ۲۵

خضر (ع) :

____________________

۱)قرب الا سناد ص۳۷۵، ح۱۳۳۰،نورالثقلين ج۳،ص۲۲۸، ح۱۷۸_

۵۲۲

خضر (ع) كا حكم شرعى پر عمل ۱۷; خضر (ع) كے فضائل ۲۰; خضر(ع) كا علم غيب ۲۰;خضر(ع) كا علم لدنى ۲۰،۲۲; خضر كاقصہ۱،۲،۳،۴،۵،۱۶،۲۱،۲۳; خضر كا كردار۱۷; خضر(ع) كى اطاعت ۱۷;خضر(ع) كى تعليمات ۱۶، ۲۱، ۲۳; خضر (ع) كى سرزنش ۲۳;خضر(ع) كے عمل كا راز ۲۱، ۲۲ ; خضر(ع) كے عمل كى اساس ۱۷; خضر(ع) كے قصہ كا سرچشمہ ۲۲;خضر(ع) كے قصہ ميں خزانہ ۲۶،۲۷ ; خضر(ع) كے قصہ ميں خزانے كى حفاظت ۴،۷;خضر(ع) كے قصہ ميں ديوار كا مالك ۳;خضر(ع) كے قصہ ميں ديوار كى تعمير ۳;خضر(ع) كے قصہ ميں ديوار كى تعمير كا فلسفہ ۱ ، ۴،۶;خضر(ع) كے قصہ ميں ديوار كے مالك كا باپ ۵،۶; خضر(ع) كے قصہ ميں ديوار كے مالك كى يتيمى ۲

روايت :۲۶،۲۷

صالحين :صالحين كا احترام ۸; صالحين كے بچوں كا احترام ۸; صالحين كے بچوں كے مفادات كى حفاظت كے اسباب ۱۰; صالحين كےل لواحقين كى امداد ۱۴; صالحين كے لواحقين كے مال كى حفاظت ۱۴; صالحين كے مفادات كى حفاظت كے اسباب ۱۰

طبيعى اسباب :طبيعى اسباب كا كردار ۱۹

عمل :پسنديدہ عمل ۱۱،۱۴

عقلى بلوغ :عقلى بلوغ كے آثار ۱۲

غيبى امور :غيبى امور كا كردار ۱۰

فرزند :بچوں كى سعادت ميں مو ثر اسباب ۹; بچوں كے مستقبل كى ضرورتوں كو پورا كرنے كى اہميت ۱۱

كائنات :كائنات كا قانون كے مطابق ہونا ۲۵

مال :مال كو خرج كرنے كى شرائط ۱۲;مال كے احكام ۱۲//مصائب :مصائب كا سرچشمہ ۲۵

موسى (ع) :موسى (ع) كا سيكھنا ۲۱; موسى (ع) كا قصہ ۱،۲،۳ ،۴،۱۶ ،۱ ۲ ، ۲۳;موسى (ع) كا معلم ۲۳;موسى (ع) كو سرزنش ۲۳; موسى (ع) كو نصيحت ۱۶;موسى (ع) كى اطاعت ۱۸; موسي(ع) كى بے صبرى ۲۳; موسى (ع) كے قصہ كى بنياد ۲ ۲

يتيم :يتيم كى امداد ۱۴;يتيم كى حمايت ۱۳; يتيم كے مال كى حفاظت ۱۳،۱۴;يتيم كى مال كى حفاظت كے اسباب ۱۶

۵۲۳

آیت ۸۳

( وَيَسْأَلُونَكَ عَن ذِي الْقَرْنَيْنِ قُلْ سَأَتْلُو عَلَيْكُم مِّنْهُ ذِكْراً )

اور اے پيغمبر يہ لوگ آپ سے ذوالقرنين كے بارے ميں سوال كرتے ہيں تو آپ كہہ ديجئے كہ ميں عنقريب تمھارے سامنے ان كا تذكرہ پڑھ كر سنا دوں گا (۸۳)

۱_ پيغمبر، كے زمانہ كے لوگوں نے آنحضرت (ص) سے ذوالقرنين كے بارے ميں سوالات كيئے تھے _

ويسئلونك عن ذى القرنين

''قرن''سے مراد'' سينگ'' ہے _كہا جاتاہے كہ ذوالقرنين كى وجہ تسميہ يہ تھى كہ بالوں كى دو چٹيا دو سينگوں كى مانند ان كے سر پرتھيں يا يہ كہ انكى ٹوپى كے دو سينگ تھے البتہ ''قرن'' سے زمانے كا ايك طولانى سلسلہ بھى مراد ہے كہ جس سے لوگ زندگى بسر كرتے ہيں اسى ليے بعض نے وجہ تسميہ يہ بيان كى كہ ذوالقرنين كى حكومت كا زمانہ بہت طولانى تھا _

۲_ ''ذوالقرنين'' ايك تاريخى اورزمانہ پيغمبر(ص) ميں جانى پہچانى شخصيت تھى _ويسئلونك عن ذى القرنين

۳_ الله تعالى نے رسول اكرم(ص) كو لوگوں كے سوال كا جواب دينے كا طريقہ تعليم ديا ہے _

ويسئلونك ...قل سا تلوا عليكم

۴_ لوگوں كے آنحضرت(ص) سے سوالات، بعض آيات كے نازل ہونے اور لوگوں كيلئے بعض مطلب كى وضاحت كا باعث بنتے تھے _ويسئلونك عن ذى القرنين

۵_ الله تعالى نے قرانى آيات كے ذريعہ، ذوالقرنين كے بارے بعض مطالب پيش كرنے كا يقينى وعدہ ديا _

قل سا تلوا عليكم منه ذكرا

''منہ ''ميں ضمير ذوالقرنين كى طرف پلٹ رہى ہے اور ''من تبعيض ''كيلئے ہے يعنى اسكے بعض حالات_ ''سا تلوا ''كے قرينہ كى مدد سے ''ذكر''سے مراد قرآنى آيات ہے _

۶_ذوالقرنين كى داستان كى تفصيل ،تلاوت وحى كى بناء پرہے نہ كہ آنحضرت كى ذاتى رائے كى بناء پر ہے _

سا تلوا عليكم منه ذكرا

۷_آنحضرت(ص) كے بعض علوم اور معلومات، نزول وحيكے مرہون منت تھے _ويسئلونك ...قل سا تلو

۵۲۴

۸_عن ا بى عبدا للّه (ع) قال : ملك الأرض كلّها ا ربعة: مؤمنان وكافران فا مّا المؤمنان : فسليمان بن داود و ذوالقرنين (۱)

امام صادق (ع) سے روايت نقل ہوئي ہے كہ آپ(ص) نے فرمايا : چارافراد نے پورى زمين پر حكومت كى ہے ان ميں دوافراد مؤمن اوردو كا فر تھے_ دو مؤمن يہ تھے : سليمان بن داود اور ذوالقرنين _

۹_عن ا بى جعفر(ع) قال : إن ذإلقرنين لم يكن نبيا ولكنّه كان عبداً صالحاً ا جب الله فا حبّه الله وناصح للّه فنا صحه الله ا مر قومه بتقوى الله فضر بوه على قرنه ، فغاب عنهم زماناً ،ثم رجع اليهم ، فضر بوه على قرنه الا خر وفيكم من هو على سنّته (۲) امام باقر عليہ السلام سے روايت نقل ہوئي ہے كہ ذوالقرنين پيغمبر نہيں تھے ليكن ايك صالح بندہ تھے كہ جو الله تعالى سے محبت ركھتے تھے تو الله تعالى بھى ان سے محبت كرتا تھا الله تعالى كيلئے خالص عمل كرتے تھے پس الله بھى انكى خير چاہتا تھا وہ قوم كو الہى تقوى كى طرف حكم ديتے تھے _ توا س قوم نے انكے قرن يعنى انكے سر كى ايك طرف ضر ب لگائي تو وہ ايك زمانے تك ان سے غائب رہے پھر انكى طرف لوٹ آئے تو انہوں نے انكے دو سرے قرن پر يعنى انكے سر كى دوسرى طرف ضرب لگائي_ تم ميں سے كوئي ہے جو اسكى مانند ہوگا _

۱۰_عن ا بى جعفر (ع) قال : إن الله لم يبعث ا نبيا ء ملوكاً فى الأرض الاّ أربعة بعد نوح: اوّ لهم ذوالقرنين (۳)

امام باقر (ع) سے روايت نقل ہوئي ہے كہ آپ نے فرمايا : الله تعالى نے زمين پر انبياء كو بادشاہ نہيں بنايا سوائے چار انبياء كے جو نوح كے بعد تھے ان ميں سے پہلے ذوالقرنين تھے _

آنحضرت (ص) :آنحضرت(ص) سے سوال ۱،۴; آنحضرت(ص) كا معلم ہونا۳ ; آنحضرت(ص) كو جواب دينے كے طريقہ كى تعليم ۳;آنحضرت(ص) كو وحى ۶،۷; آنحضرت(ص) كو وعد ہ ۵; آنحضرت(ص) كے علم كا سرچشمہ ۷

اسلام :صدر اسلام كى تاريخ ۱،۴//الله تعالى :الله تعالى كى تعلميات ۳; الله تعالى كے وعدے ۵

ذوالقرنين :ذوالقرنين كا نام ۸;ذوالقرنين كى حاكميت ۸; ذوالقرنين كى حكومت ۱۰;ذوالقرنين كى نبوت ۹;ذوالقرنين كے بارے ميں سوال۱; ذوالقرنين كے فضائل ۱۰;ذوالقرنين كے قصہ كا سرچشمہ ۶;ذوالقرنين كے قصہ كى وضاحت ۵

____________________

۱)خصال ج۱ ،ص۲۵۵،ح۱۳۰،نورالثقلين ج۳ ،ص۲۹۵، ح۲۰۷_۲) كمال الدين ص۳۹۳، ح۱ ، نورالثقلين ج۳ح۲۰۲_

۳) تفسير عياشى ج۲ ص۳۴۰، ح۷۵، نورالثقلين ج۳ ،ص۲۹۵، ح۲۰۶_

۵۲۵

روايت :۸،۹،۱۰

قرآن :قرآن كے نزول كا باعث ۴

لوگ :زمانہ بعثت كے لوگ اور ذوالقرنين ۲;زمانہ بعثت كے لوگوں كا سوال ۱،۴

وحى :وحى كا كردار ۷

آیت ۸۴

( إِنَّا مَكَّنَّا لَهُ فِي الْأَرْضِ وَآتَيْنَاهُ مِن كُلِّ شَيْءٍ سَبَباً )

ہم نے ان كو زمين ميں اقتدار ديا اور ہر شے كا ساز و سامان عطا كرديا (۸۴)

۱_'' ذوالقرنين'' ايك طاقت ور اور زمين پر وسيع ذرائع كى حامل شخصيت تھى _إنّا مكّنّاله فى الأرض

''مكنّا ''يعني'' ہم نے اسے قوت دي'' ذوالقرنين اوراسكى تاريخى شخصيت اور يہ كہ وہ كون ہے مورخين اورمفسرين ميں ايك رائے موجود نہيں ہے بعض اسے تاريخ سے ماقبل كے بادشاہوں ميں سے سمجھتے ہيں اور فقط قرآن كوانكى شناخت كا ما خذ سمجھتے ہيں بعض اسے وہى سكندر سمجھتے ہيں بعض اسے ''فريدون ''اور بعض اسے يمن كے بادشاہ ہوں ميں سے سمجھتے ہيں اور بعض، علامہ طباطبائي كى مانند ''كورش'' (ہخامنشى كا بادشاہ) كى آيات كے ساتھ مناسب تطبيق ديتے ہيں اور بعض اسے چين كے بادشاہ ہوں ميں سے سمجھتے ہيں اور چين كى ديوار كو اپنے دعوى پر گواہ كے طور پر پيش كرتے ہيں _

۲_ تاريخ كے طاقتورافراد كى قدرت اورو سائل ، صرف الله تعالى كے ارادے اور حاكميت كے دائرہ كار ميں ہيں نہ كہ وہ مستقل ہيں _إنّا مكنّا له فى الأرض ذوالقرنين كى قدرت اور وسائل كو الله تعالى كى طرف نسبت دينا يہ پيغام دے رہاہے كہ يہ نہيں سمجھنا چاہيے كہ طاقتور لوگ جو كچھ ركھتے ہيں وہ انكا ذاتى تھے بلكہ ہر چيزاسكى طرف سے ہے _

۳_ ''ذوالقرنين ''ايك الہى شخصيت تھى _إنّا مكنّا له فى الأرض

يہ احتمال ہے كہ ذوالقرنين كى قدرت كو الله تعالى سے منسوب كرنے كى وجہ يہ ہو كہ الله تعالى نے انكى الہى شخصيت كى بنا ء پر اسے وسائل عطا كيے ہوں _

۴_ ذوالقرنين كے پاس اسكے ہر مقصد كو پورا كرنے

۵۲۶

كيلئے اسباب ووسائل مہيا تھے _وا تيناه من كل شى سبب

'' كل شى '' ميں عموم ،عرض عموم ہے اور''سببا'' ''أتيناه '' كيلئے دوسرا مفعول ہے كلام ميں چھپے ہوئے مضاف كى طرف توجہ كريں تو جملہ مقدريوں ہے ''وأتيناہ سبباً من أسباب كل شى ئ'' يعنى اسكے علمى اور عملى اہداف كو پوراكرنے كيلئے جوبھى وسائل در كار تھے اسكے اختيار ميں دے ديے _

۵_ علمى اور عملى كاموں كو پوراكرنے كى روش اور اسباب كاحصول،زمين پر ذوالقرنين كى قدرت اور اقتدار كاباعث تھا _

إنّا مكنّا له فى الأرض وأتيناه من كل شيء سبب

'' أتيناہ ''كا ما قبل جملہ پر عطف، سبب كامسبب پر عطف ہے يعنى اگر ''ذوالقرنين'' كازمين پر اقتدار تھا توان اسباب كى بناء پرتھا جو ہر كام كو پوراكرنے كيلئے انكے اختيار ميں تھے _

۶_ اشياء كووجود ميں لانے اور امور كومتحقق كرنے والاطبيعى نظام، علل اور اسباب كے سلسلہ پر قائم ہے _وأتيناه من كل شى ء سبب ذوالقرنين كا اپنے امور ميں كامياب ہونا، اسباب ووسائل سے فائدہ اٹھانے كى بناء پر تھا اس موضوع كا آيت ميں بيان ہونا، كائنات كے امور پر علل واسباب كے نظام كى حاكميت كى طرف اشارہ ہے_

۷_ ذوالقرنين كى قدرت وطاقت اوراپنے مقاصد كو پوراكرنے كيلئے تمام ضرورى وسائل اور ذرائع انہيں الله تعالى كى طرف سے عطا ہونے تھے_إنّا مكنّا له فى الارض وأتيناه من كل شيء سببا

۸_ الله تعالى تمام طبيعى اسباب اور علل پر حاكم ہے _وأتيناه من كل شى ء سببا

۹_عن الا صبغ بن نباتة ، عن ا مير المؤمنين(ع) أنّه قال : سئل عن ذى القرنين قال : ...وجعل عز ملكه وآية نبوّته فى قرنه ...وآتا ه الله من كل شيئ: علماً يعرف به الحق والباطل و أوحى الله إليه ...فقد طويت لك البلاد و ذلّلت لك العباد فا رهبتهم منك ...فلم يبلغ مغرب الشمس حتّى دان له أهل المشرق والمغرب قال :وذلك قول الله : إنّا مكنّا له فى الأرض وأتينا ه من كل شى سبباً (۱) اصبغ بن نباتہ سے روايت نقل ہوئي ہے كہ اميرالمؤمنين نے ذوى القرنين كے بارے ميں كيے گئے سوال كے جواب ميں فرمايا : ...اللہ تعالى نے اسكى بادشا ہى كى طاقت اور نبوت كى نشانى كو اسكے سينگ ميں قرار ديا ...اور ہر چيز كے بارے ميں الله تعالى نے اسے علم عطا كيا تا كہ اسكے ذريعہ سے حق و باطل كو پہچا ن سكے الله تعالى نے اسے وحى كى : ميں نے شہروں كو تيرے اختيار ميں دے

____________________

۱) تفسير عياشى ج۲،ص۳۴۱،ح۷۹،نورالثقلين ج۳ص۲۹۷،ح۲۱۵_

۵۲۷

ديا اور بندوں كو تيرامطيع اور انكے دلوں كوتيرے خوف سے پر كرديا ہے_تو ابھى وہ سورج كے غروب ہونے كى جگہ تك نہيں پہنچا تھا كہ دنياكے اہل مشرق ومغرب نے اسكے آگے سرتسليم خم كيا پھر اميرا لمؤمنين(ع) نے فرمايا :يہ الله تعالى كا كلام وہ كہ فرمايا ہے :انّا مكنا له فى الأرض واتينا ه من كل شي سببا

الله تعالى :الله تعالى كا ارادہ ۲; الله تعالى كى حاكميت ۲،۸;اللہ تعالى كى عطا ئيں ۷

ذوالقرنين :ذوالقرنين كى شخصيت ۳;ذوالقرنين كى قدرت ۱ ، ۴; ذوالقرنين كى قدرت كا باعث ۵; ذوالقرنين كى قدرت كا سرچشمہ ۷; ذوالقرنين كى نبوت ۹; ذوالقرنين كے ذرائع ۱،۴، ۵، ۹; ذوالقرنين كے ذرائع كا سرچشمہ ۷; ذوالقرنين كے علم كے آثار ۵; ذوالقرنين كے فضائل ۳،۹

روايت :۹

طبيعى اسباب :طبيعى اسباب كا كردار ۶،۸

قدرت :قدرت كا سرچشمہ ۲قدرت مند لوگ :قدرت مند لوگوں كے ذرائع كا سرچشمہ ۲

نظام عليت :۶

آیت ۸۵

( فَأَتْبَعَ سَبَباً )

پھرا نھوں نے ان وسائل كو استعمال كيا (۸۵)

۱_ ذوالقرنين، نے مغرب كى طرف سفر كرنے كيلئے اپنے وسيع الہى ذرائع ميں سے بعض سے فائدہ اٹھا يا _

فا تبع سببا _ حتّى إذا بلغ مغرب الشمس

۲_ ذوالقرنين، ان مادى وسائل كے ساتھ ان سے كام لينے كا علم بھى ركھتا تھا _فا تبع سببا

۳_سا ل رجل عليا ً (ع) ا رأيت ذإلقرنين كيف استطاع أن يبلغ المشرق والمغرب ؟قال: سخر الله له السحاب مد ّ له فى الأسباب وبسط له النور فكان اليل والنهار عليه سواء (۱)

ايك شخص نے حضرت على (ع) سے كہا : مجھے بتائيں كہ

____________________

۱)كمال الدين صدوق ص۳۹۳، ح۲ باب ۳۸، نورالثقلين ج۳ ص۲۹۶، ح۲۱۲_

۵۲۸

كيسے ذوالقرنين اس جہان كے مشرق ومغرب تك پہنچا؟ حضرت على (ع) نے فرمايا : الله تعالى نے بادل كو اسكے ليے مسخر كيا تھا اور اسكے وسائل اور ذارئع بڑھا ديے تھے او ر اسكے ليے نور پھيلا ديا تھا اس طرح كہ دن ورات اسكے ليے برابر تھے _

ذوالقرنين :ذوالقرنين كا علم ۲; ذوالقرنين كا قصہ ۱،۳; ذوالقرنين كا مشرق كى طرف سفر ۳; ذوالقرنين كا مغرب كى طرف سفر ۱،۳; ذوالقرنين كے فضائل ۲; ذوالقرنين كے مادى وسائل ۲; ذوالقرنين كے وسائل ۱،۳

روايت :۳

آیت ۸۶

( حَتَّى إِذَا بَلَغَ مَغْرِبَ الشَّمْسِ وَجَدَهَا تَغْرُبُ فِي عَيْنٍ حَمِئَةٍ وَوَجَدَ عِندَهَا قَوْماً قُلْنَا يَا ذَا الْقَرْنَيْنِ إِمَّا أَن تُعَذِّبَ وَإِمَّا أَن تَتَّخِذَ فِيهِمْ حُسْناً )

يہاں تك جب وہ غروب آفتاب كى منزل تك پہنچے تو ديكھا كہ وہ ايك كالى كيچڑ والے چشمہ ميں ڈوب رہا ہے اور اس چشمہ كے پاس ايك قوم كو پايا تو ہم نے كہا كہ تمھيں اختيار ہے چاہے ان پر عذاب كرو يا انكے درميان حسن سلوك كى روش اختيار كرو (۸۶)

۱_ ذوالقرنين، اپنے بعض وسائل اورفوج كى مدد سے مغرب كى طرف اپنى سرزمين ميں آگے بڑھا _

فا تبع سبباً _ حتّى إذا بلغ مغرب الشمس

۲_ ذوالقرنين،نے مغرب كى طرف خشكى كى انتہاتك پہنچنے كے بعد اپنے سامنے كيچڑوالا سياہى مائل پانى ديكھا _

حتى إذا بلغ مغرب الشمس وجدها تغرب فى عين حمئة

''حمئة ''معنى حما ''سياہى مائل بد بو دار مٹى '' كو كہتے ہيں ( كتاب العين )

۳_ مغر ب كى جانب ذوالقرنينكے سفر كى آخر، منزل پر سورج كے غروب ہونے كا منظريوں تھا كہ جيسے

۵۲۹

وہ سياہى مائل چشمہ ميں غرق ہو گيا ہے _وجد ها تغرب فى عين حمئة

''عين ''كامعنى چشمہ ہے اور ''وجدھا '' كے قرينہ (اسے يوں پايا ) سے آيت كامطلب يہ نہيں ہے كہ سورج واقعاً سياہى مائل مٹى كے چشمہ ميں غرق ہوا بلكہ ذوالقرنين نے يوں سورج كے غروب ہونے كا منظرديكھا _

۴_ ايك وسيع سمندر كے ساحل پر ذوالقرنين كے سفر كا اختتام ہوا _وجد ها تغرب فى عين حمئة

يہ احتمال ہے كہ پانى ميں سورج كے غروب كا منظر ايك وسيع سمندر كى علامت ہو يعنى اسے آگے كچھ نہيں نظر آرہا تھا لہذا اس نے تصور كيا كہ سورج سمند ر ميں ايك ابلتے ہوئے چشمہ ميں غرق ہو رہا ہے اور آگے كوئي خشكى نہيں ہے _

۵_ مغرب كى طرف ذوالقرنين كے سفر كى حد سياہ سمندر تك تھى _حتّى إذا بلغ مغرب الشمس وجدها تغرب فى عين حمئة ابن عاشور كى مانند بعض مورّخين، ذوالقرنين كا مقام حكومت چين سمجھتے ہيں اس صورت ميں اسكا مغرب كى طرف سفر سياہ سمندر تك بڑھا كہ اس نے وہاں سورج كے غروب ہونے كا منظر اسكا سياہ مٹى سے آلودہ چشمہ ميں غرق ہونے كى صورت ميں ديكھا _

۶_ ذوالقرنين نے اپنى سرزمين كے مغرب كى طرف آخرى منزل پر ايك خاص وضع وقطع اور قوم والے لوگوں كو پايا _

وجدها تغرب فى عين حمئة وجد عندها قوم

۷_ ذوالقرنين كى سرزمين كے مغرب ميں ساحل پر رہنے والے لوگ ،كا فر اور ظالم تھے _قلنا ياذالقرنين إما أن تعذّب

''تعذّب'' كى تعبير بتاتى ہے كہ وہ سزا كے مستحق تھے اسكى دليل بعد والى آيات كے قرينہ سے انكا ظلم اور كفر تھا_

۸_ ذوالقرنين كو الله تعالى كى طرف سے مغربى ساحل پر رہنے والوں كو سزا يا معافى كى صورت ميں اختيارملا_

قلنا ياذإلقرنين إما أن تعذّب و إما أن تتخذ فيهم حسنا

۹_ ذوالقرنين كى سرزمين كے مغربى مناطق ميں ساحل پر رہنے والے لوگ، ذوالقرنين كے لشكر كامقابلہ كرنے سے عاجز تھے اور اسكے عزم وارادے كے آگے كچھ نہيں كر سكتے تھے _وجد عند ها قوماً قلنا ياذالقرنين إمَّا أن تعذّب

۱۰_ ذوالقرنين كے كام، الله تعالى كى راہنمائي كے تحت انجام پاتے تھے _قلنا ياذالقرنين اما ان تعذب و اما ان تتخذ

۱۱_ ذوالقرنين انبياء ميں سے تھے اورالہى كلام دريافت كرنے كے مقام پرفائز تھے _قلنا ياذالقرنين

ظاہراً كلمہ '' قلنا'' بغير واسطہ كے خطاب ہے اگرچہ يہاں الہام يا كسى اورپيغمبر كے ذريعہ پيغام الہى پہنچانے كا احتمال بھى موجود ہے _

۵۳۰

۱۲_ ذوالقرنين كى سرزمين كے مغرب كى طرف تمدن كا وجود _وجدعندها قوماً إمّا أن تعذب

بعد والى آيات ميں ساحل نشينوں كيلئے ظلم ، ايمان ، عمل صالح اور سزا جيسے كلمات آئے ميں يہ متمدن معاشروں كى خصوصيات ميں سے ہيں

۱۳_ ذوالقرنين لوگوں كے معاشرتى نظام كو منظم كرنے ميں الہى اختيارات ركھتے تھے_

قلنا ياذالقرنين إما أن تعذب وإما أن تتخد فيهم حسن

۱۴_ منتظمين اور قائدين كوانكى ذمہ داريوں كى حدود ميں بعض اختيارات دينا ضرورى ہيں _

قلنا ياذالقرنين إما أن تعذب وإما أن تتخذفيهم حسن

الله تعالى نے مغربى اقوام كے ساتھ بر تاو ميں ذوالقرنين كو اپنے ارادے ميں اختيار ديا دوسروں كوچاہيے وہ بھى اسى روش كو اپنا ئيں _

۱۵_زمين پر سيروسياحت اور مجرم قوموں كو سزا دينا ، ايك اچھى بات ہے _حتى إذا بلغ ...إمّا أن تعذّب

ذوالقرنين پر الہى عطا ہونے كے بعد انكے سفر كے حالات سے مطلع كرنا، اسكے كاموں كے شائستہ ہونے پر دلالت كررہا ہے _

۱۶_ كفا ر كا سامنا كرنے كے بعد ان سے اچھے سلوك كا انتخاب، سختى اور غصہ سے بہتر ہے _وإمّا أن تتخذفيهم حسنا

جملہ''تتخذفيهم حسناً'' سزا كے مقابل روش كو بيان كررہاہے ذوالقرنين كو ان دو روش ميں ايك كو منتخب كرنے پر اختيار تھا _اچھا سلوك :اچھے سلوك كى اہميت ۱۶

الله تعالى :الله تعالى كى ذوالقرنين سے گفتگو ۱۱، الله تعالى كى ہدايتيں ۱۰

انتظام :انتظام كى روش۱۴

تمدن :تاريخ تمدن۱۲

چشمہ :مٹى سے آلودہ چشمہ ۲،۳

ذوالقرنين:ذوالقرنين اور امر معاشرتى نظام كا انتظام; ذوالقرنين كا قصہ ۱،۲،۴،۵ ،۶، ۸، ۹ ; ذوالقرنين كا مغرب كى طرف سفر ۲،۳; ذوالقرنين كو وحي۱۱; ذوالقرنين كو ہدايت ۱۰; ذوالقرنين كى قدرت ۹;ذوالقرنين كى مغرب كے لوگوں سے ملاقات ۶;ذوالقرنين كى نبوت ۱۱;ذوالقرنين كے اختيارات ۸; ذوالقرنين كے اختيارات كى

۵۳۱

اساس ۱۳;ذوالقرنين كے پہلے سفر كى حدود ۴،۵; ذوالقرنين كے عمل كى بنياد ۱۰;ذوالقرنين كو وحى ذوالقرنين كے فضائل ۱۳;ذوالقرنين كے قصہ ميں چشمہ كا رنگ ۲; ذوالقرنين كے مقامات ۱۱; ذوالقرنين كے وسائل ۱;سمندر كے كنارے ذوالقرنين ۴; سياہ سمندر كے كنارے ذوالقرنين ۱۳

سختى :سختى كى مذمت۱۶

سرزمين:ذوالقرنين كى سرزمين مغرب كے لوگوں كا ظلم ۷; ذوالقرنين كى سرزمين مغرب كے لوگوں كا عجز۹; ذوالقرنين كى سرزمين مغرب كے لوگوں كا كفر۷; ذوالقرنين كى سرزمين مغرب كے لوگوں كى سزا۸;ذوالقرنين كى سرزمين مغرب كے لوگوں كى معافى ۸;ذوالقرنين كى سرزمين مغرب ميں تمدن ۱۲; ذوالقرنين كى سرزمين مغرب ميں لوگوں كى قومى حالت ۶

سفر:سفركى اہميت ۱۵

ظالمين :۷

عمل :پسنديدہ عمل ۱۵

قرآن :قرآنى تشبيہات ۳

كفا ر:۷، كفار سے اچھا سلوك ۱۶; كفار سے برتاو كى روش۱۶; كفار سے سختى ۱۶

گناہ كار لوگ:گناہ كار لوگوں كوسزادينے كى اہميت ۱۵

منتظم :منتظم كو اختياربخشنا۱۴

آیت ۸۷

( قَالَ أَمَّا مَن ظَلَمَ فَسَوْفَ نُعَذِّبُهُ ثُمَّ يُرَدُّ إِلَى رَبِّهِ فَيُعَذِّبُهُ عَذَاباً نُّكْراً )

ذوالقرنين نے كہا كہ جس نے ظلم كيا ہے اس پر بہرحال عذاب كروں گا يہاں تك كہ وہ اپنے رب كى بارگاہ ميں پلٹا يا جائے گا اور وہ اسے بدترين سزا دے گا (۸۷)

۱_ ذوالقرنين نے مغربى ساحل پر رہنے والوں كى سزا سے چشم پوشى كى اور صرف ان كو سزا كى دھمكى دى كہ جو اپنے ظلم پر باقى رہ جائيں _قال أمّا من ظلم فسوف نعذّبه

۵۳۲

۲_ ايمان اور عمل صالح سے دورى اختيار كرنا، ظلم ہے _قال ا مّا من ظلم

بعد والى آيت كے قرينہ كى مدد سے جس ميں عمل صالح اختيار كرنے والے مؤمنين كوظالمين كے مقابل قراردياگيا يہاں ظلم سے مراد بے ايمانى اور نيك كردار كا ترك كرناہے_

۳_دريائي ساحل پررہنے والى قوم، مكمل طورپر ذوالقرنين كے زير تسلط آچكى تھى _قال ا مَّا من ظلم فسوف نعذّبه

۴_ ذوالقرنين، دريا كے ساحل پر رہنے والے ظالموں كے ايمان لانے اور انكے ظلم اور فساد چھوڑ نے پر اميد ركھے ہوئے تھے لہذا انكو سزا دينے ميں جلدى نہيں كررہے تھے _قال ا مّا من ظلم فسوف نعذّبه

حرف ''سوف'' آيندہ كيلئے ہے _ اوربعد والى آيت ميں ''امن'' اور ''عمل'' شرطيہ فعل اس بات پرقرينہ ہيں كہ ذوالقرنين نے ظالموں كے ايمان لانے كے احتمال كى بناء پر انكى سزا دينے ميں جلدى نہيں كى ہے _

۵_ظالموں كو قيامت ميں سخت عذاب ميں جكڑا جائيگا _فيعذّبه عذاباً نكرا

۶_ذوالقرنين كى حكومت ظلم وكفركو ختم كرنے كيلئے تھي_قال ا مّا من ظلم فسوف نعذّبه

۷_ ذوالقرنين، معاد اور ظالموں كے آخرت ميں سخت عذاب پر عقيدہ ركھتے تھے_

قال ا مّا من ظلم فسوف نعذّبه ثم يرد ّ إلى ربّه فيعذبه عذاباًنكرا

۸_ذوالقرنين نے دريا كے ساحل پر رہنے والے ظالموں كو اپنى سخت سزا كى دھمكى كے ساتھ آخرت كے سخت عذاب سے بھى ڈرايا _قال ا مَّا من ظلم فسوف نعذّبه ثم يردّالى ربّه فيعذّبه

۹_ آخرت وہ زمانہ ہے كہ جب ظالموں كافروں اور غير صالح افراد كو الله تعالى كى بارگاہ ميں لوٹا يا جائيگااور انكے اعمال كا محاسبہ كيا جائيگا_ثم يردّالى ربّه فيعذبه

۱۰_ذوالقرنين، ظالموں كے اخروى عذا ب كو انكى دنيا كى سزا سے سخت اور بدترين سمجھتے تھے _قال ...ثم يردّالى ربّه فيعذّبه عذاباًنكر '' نكر '' سے مراد''منكر''ہے كہ جو صفت مشبہ اور جہنم كے عذاب كى صفت ہے يعنى آخرت كا عذاب بہت ناگوار اوراسكى شدت قابل تعريف نہيں ہے _

۱۱_ظالموں كى اخروى سزا، الہى ربوبيت كا ايك جلوہ ہے_يردّ إلى ربّه فيعذّبه عذاباًنكرا

۱۲_ ذوالقرنين كى حكومت ايك دينى اورالہى حكومت تھي_قال ...ثم يردّ إلى ربّه فيعذبه عذاباًنكرا

ذوالقرنين نے ظالموں كى اپنے ہاتھوں سزا كو الله

۵۳۳

تعالى كے اخروى عذاب كا ايك حصّہ جانا ہے لہذاذوالقرنين كى حكومت، الہى ميزان پر تشكيل پائي ہوئي تھى _

۱۳_ جہنم كا عذاب، بہت سخت اور بڑا عذاب ہے _ثم يردّ إلى ربه فيعذبه عذاباً نكرا

''عذاباً''، '' يعذبہ ''فعل كيلئے مفعول مطلق تاكيدى ہے كہ جو الہى عذاب كى شدت پر دلالت كر رہا ہے ''نكرا'' بھى ''عذاباً'' كى صفت ہے يہ عذاب كے برے ہونے پر تاكيدہے _

۱۴_عن أميرالمؤمنين(ع) ...''ا مّا من ظلم'' ولم يؤمن بربّه ''فسو ف نعذّبه'' فى الدنيا بعذاب الدنيا ''ثم يردّ إلى ربّه '' فى مرجعه ''فيعذبه عذاباًنكراً'' (۱) اميرالمؤمنين(ع) سے روايت نقل ہوئي ہے كہ آيت سے مقصود يہ ہے كہ وہ'' جس نے ظلم كيا'' وہ اپنے پروردگار پر ايمان نہيں لايا اسے'' جلدي'' دنيا ميں عذاب دنياميں مبتلاء كريں گے پھر اسے معاد ميں پروردگار كى طرف لوٹا ياجائيگا اوراللہ تعالى اسے سخت عذاب دے گا_

الله تعالى :الله تعالى كى ربوبيت كى علامتيں ۱۱//الله تعالى كى طرف لوٹنا :۹،۱۴/جہنم :جہنم كے عذاب كى شدت ۱۳

حكومت :دينى حكومت ۱۲//ذوالقرنين :ذوالقرنين اور ظالموں كو سزا ۱،۴; ذوالقرنين كا اميدوار ہونا ۴;ذوالقرنين كا ظلم سے مقابلہ كرنا۶; ذوالقرنين كا عقيدہ ۷;ذوالقرنين كاقصہ ۱،۳،۴;ذوالقرنين كا كفرسے مقابلہ كرنا ۶; ذوالقرنين كا نظام حكومتى ۱۲; ذوالقرنين كے دور كے ظالموں كو دھمكى ۱; ذوالقرنين كى حاكميت ۳;ذوالقرنين كى حكومت كى خصوصيا ت ۶; ذوالقرنين كى دھمكياں ۱،۸; ذوالقرنين كى رائے ۱۰; ذوالقرنين قدرت ۳/ذواذوالقرنين كا عقيدہ :۷

روايت :۱۴

سرزمين:ذوالقرنين كى سرزمين كے مغربى ظالموں كا ايمان ۴; ذوالقرنين كى سرزمين كے مغربى لوگ۳; ذوالقرنين كى سرزمين كے مغربى لوگوں كى بخشش۱

ظالمين:ظالموں كا اخروى عذاب ۵; ظالموں كا دنياوى عذاب ۱۰،۱۴;ظالموں كى اخروى پوچھ كچھہ ۹ ; ظالموں كى اخروى سزا۷،۱۱;قيامت ميں ظالمين ۹

سزا:سزادينے ميں صبر۴

ظلم:ظلم كے موارد۲

____________________

۱) تفسير عياشى ج۲ص۳۴۲ح۷۹نورالثقلين ج۳ ص ۲۹۸ح۲۱۵_

۵۳۴

عذاب:اہل عذاب ۵; اخروى عذاب كى دہمكى ۸ ; اخروى عذاب كى شدت ۱۰;اخروى عذاب كے درجات ۵; سخت عذاب ۸;عذاب كے درجات ۱۳

عقيدہ:معاد پر عقيدہ۷

عمل صالح:عمل صالح كا ترك كرنا۲

فاسدين :فاسدوں كى آخرت ميں پوچھ گچھہ ۹، قيامت ميں فاسدين۹

كفار :قيامت ميں كفار ۹;كفار كى اخروى پوچھ گچھ ۹

آیت ۸۸

( وَأَمَّا مَنْ آمَنَ وَعَمِلَ صَالِحاً فَلَهُ جَزَاء الْحُسْنَى وَسَنَقُولُ لَهُ مِنْ أَمْرِنَا يُسْراً )

اور جس نے ايان اور عمل صالح اختيار كيا ہے اس كے لئے بہترين جزا ہے اور ميں بھى اس سے اپنے امور ميں آسانى كے بارے ميں كہوں (۸۸)

۱_ ذوالقرنين نے نيك كردارمؤمنين كو بہترين جزادينے كا وعدہ ديا _وا مّا من ء امن وعمل صالحاًفله جزائً الحسنى

''جزا''حال ہے اور يہ بيان كررہى ہے كہ حسن سلوك (الحسنى )شخص كے ايمان اورعمل صالح كى جزاء ہے _

۲_ذوالقرنين كا ظالم كفار كو سزا دينے ميں جلدى نہ كرنا، در حقيقت ان كو ايمان كى طرف ميلان پيدا كرنے كيلئے ايك مہلت تھى _ا مَّا من ظلم فسوف نعذّ به ...وا مّا من ء امن وعمل صالحاًفله جزاء ً الحسنى

ْمن ء امن ...'' سے مراد (جو بہى ايمان لے آئے وہ)وہ لوگ تھے جو ظلم و كفر سے نكل كر ايمان لا چكے تھے نہ كہ وہ لوگ جو ذوالقرنين كے داخل ہوتے وقت مؤمن تھے_ كيونكہ يہ كوئي بات نہيں ہے كہ وہ مؤمنين كے ساتھ سزا يا اچھا سلوك كرنے ميں مختار ہو لہذا ظالموں كو عذاب دينے ميں ذوالقرنين كا وقفہ كرنا انكے اندر تبديلى پيد ہونے كيلئے ايك موقعہ تھا _

۳_ذو القرنين كى حكومت، ايمان اور عمل صالح كى ترويج كيلئےتھي_قال و أمّا من ء امن و عمل صالحاًفله جزإلحسنى

۴_بے ايمان اور عمل صالح سے محروم لوگ ، ذوالقرنين كى رائے ميں ظالم لوگ تھے _قال ا مَا من ء امن وعمل صالحاًفله جزإلحسنى دو گروہ ''من ظلم '' او ر''ء امن '' ميں مقابلہ بتارہا ہے كہ ايمان اور عمل صالح كو ترك كرنا، ظلم ہے_

۵۳۵

۵_ايمان اور عمل كاساتھ ساتھ ہونا، بہترين جزا ء كے حصول كے ليے شرط ہے _منء ا من و عمل صالحاًفله جزاًء الحسنى

۶_ذوالقرنين نے عزم كيا كہ ان قوانين اور معاشرتى قواعد كو وضع كرلےكہ جومؤمنين كيلئے آسان اور قابل تحمّل ہوں _وسنقول له من أمرنا يسر (يسر) يعنى آسانى اور (من امورنا) يعنى ان فرامين سے جو ہم صادر كرتے ہيں _ لہذاا (وسنقول .) كا مطلب يہ كہ صالح مؤمنين كے ليے ايسے احكام جارى كريں گے كہ جنكا نفاذ دشوار نہ ہوا ور انكا سننا مؤمنين كيلے سنگين نہ ہو_

۷_ذوالقرنين نے مؤمنين كے ليےاپنے فرامين اور حكومتى تقاضوں كے ابلاغ ميں نرمى او ر اچھے سلوك كى رعايت كا وعدہ كيا _وسنقول له من ا مرنا يسرا

۸_ظالموں كے ساتھ سختى اور نيك مؤمنين كے ساتھ نرمى سے پيش آنا، ذوالقرنين كے حكومتى نظام ميں بہترين اور منتحب روش تھي_ا مّا من ظلم فسوف نعذّبه ...وا مّا من ء امن و عمل صالحا

ذوالقرنين نے مغربى ساحل پر رہنے والوں كے حوالہ سے سزايا اچھا سلوك كرنے كے حوالے سے دو تجاوز پروحى الہى كے ذريعہ سننے كے بعددوسرى راہ كو اختيار كيا اس ميں يہ انداز اپنا يا كہ ظالموں كو سزا اور مؤمنين كو بہترين پاداش دى گئي_

۹_الہى حكومتوں پر ضرورى ہے كہ وہ ظالموں سے جنگ كريں اور مؤمنين كے معاشرتى قوانين سھل بنائيں _

قال ا مّا من ظلم فسوف نعذّبه و ا مّا من ء امن ...سنقول له من ا مرنا يسرنا

۱۰_ذوالقرنين مغربى كى سرزميں ساحل نشينوں كے ليے عمل صالح اور ظلم كو ترك كرنے كے ليے مناسب زمينہ فراہم تھا_ا مّا من ظلم ...وا مّا من ء امن و عمل صالحا

۱۱_ذوالقرنين كى كوششسے الہى دين اسكى سرزمين كے مغربى حصہ كى آخريحدّ تك پھيل گيا _و ا مّا من ء امن

۱۲_جزا دينے ميں جلدى اور سزا دينے ميں تا خير كرنا ضرورى ہونا _

من ظلم فسوف نعذّبه ...من ء امن ...فله جزائًً الحسنى

(فسوف نعذّبہ) كا حروف استقبال كے ساتھ ذكر ہونا جبكہ اسكے مقابل(فله جزائًً الحسني ) كا قطعى صورت ميں بغير حروف استقبال كے ذكر ہونا،مندرجہ بالا مطلب كى طرف اشارہ ہوسكتاہے_

۵۳۶

ايمان :ايمان اور عمل صالح ۵;ايمان كا پيش خيمہ ۲ ; ايمان كى طرف حوصلہ افزائي ۳;ايمان كے آثار ۵

جزا:جزا كا وعدہ ۱;جزا كى شرائط۵;جزا ميں جلدى ۱۲

حكومت:دينى حكومت كاظلم سے مقابلہ ۹;دينى حكومت كى ذمّہ دارى ۹

ذوالقرنين:ذوالقرنين كا صبر۲;ذوالقرنين كا قصہ ۲،۶، ۱۰; ذوالقرنين كا حكومتى نظام ۸; ذوالقرنين مؤمنين كيليےاہتمام كرنا ۶،۷ ; ذوالقرنين كى حكومت ميں صالحين ۸; ذوالقرنين كى حكومت ميں ظالم لوگ۸; ذوالقرنين كى حكومت ميں مؤمنين ۸; ذوالقرنين كى حكومت كى خصوصيّات ۳; ذوالقرنين كى رائے۴;ذوالقرنين كى قانون گزارى ۶;ذوالقرنين كى كوشش۱۱; ذوالقر نين كے احكام ۷;ذوالقرنين كے زمانہ ميں دين ۱۱; ذوالقرنين كے قوانين كا سہل ہونا ۶;ذوالقرنين كے وعدے۱،۷

سرزمين :ذوالقرنين كى سرزمين كے مغربى لوگ ۱۰; ذوالقرنين كى سرزمين كے مغربى لوگوں كا اختيار ۱۰;ذوالقرنين كى سرزمين كے مغربى لوگوں كا ايمان ۱۰;ذوالقرنين كى سرزمين كے مغربى لوگوں كا دين ۱۱;ذوالقرنين كى سرزمن كے مغربى لوگوں كا عمل صالح ۱۰

سزا :سزا ميں مہلت ۱۲

صالحين :صالحين كو جزا ۱;صالحين كو وعدہ ۱

ظالمين :ظالموں پر سختى كرنا ۸;ظالموں كو مہلت دينے كا فلسفہ ۲

ظلم :ظلم كے ساتھ مقابلہ كرنے كى اہميّت ۹; ظلم كے موارد ۴

عمل صالح :عمل صالح كا ترك كرنا ۴; عمل صالح كى طرف حوصلہ افزائي ۳;عمل صالح كے آثار ۵

كفّار:كفّار كو مہلت دينے كا فلسفہ ۲

مؤمنين:مؤمنين كى جزا ۱;مؤمنين كے ساتھ مدارت كے پيش آنا۷;مؤمنين كے ساتھ وعدہ۱

معاشرتى قوانين :معاشرتى قوانين ميں سہولت كى اہميّت ۹

۵۳۷

آیت ۸۹

( ثُمَّ أَتْبَعَ سَبَباً )

اس كے بعد انھوں نے دوسرے وسائل كا پيچھا كيا (۸۹)

۱_ذوالقرنين، مغربى ساحل ميں رہنے والوں كے در ميان عادلانہ دينى نظام قائم كرنے كے بعد اپنى سرزميں كے مشرق كى طرف روانہ ہوگئے_ثمّ ا تبع سبباً _ حتّى إذا بلغ مطلع الشمس

۲_ ذوالقرنين نے اپنے سفروں ميں حكومت اور الہى دين كو پھيلانے كے ليے اپنے ذرائع سے پورا فائدہ اٹھا يا _

ثمّ أتبع سببا

۳_زمين كے مختلف نقاط كى طرف سفر اور اپنى سرگرمى كو ايك خاص منطقہ ميں محدود نہ كرنا، قرآن كى نظر ميں ايك پسنديدہ اور قابل تعريف كام ہے _ثمّ ا تبع سببا

۴_عن اميرالمؤمنين (ع) ...''ثمّ ا تبع سبباً'' ذوالقرنين من الشمس سبباً (۱)

اميرالمؤمنين سے (اس كلام خدا كى وضاحت ) (ثمّ اتبع سبباً) نقل ہوا ہے كہ: ذوالقرنين نے سورج سے ايك سبب كے طور فائدہ اٹھايا

اقدار:۳/ذوالقرنين :ذوالقرنين كا دوسرا سفر۱;ذوالقرنين كا قصہ ۱،۲،۴; ذوالقرنين كى حكومت كى وسعت ۲;ذوالقرنين كے ذرائع ۲،۴;ذوالقرنين كے زمانہ ميں دينى حكومت ۱;مشرق ميں ذوالقرنين ۱;ذوالقرنين اور سورج۴

روايت :۴

سرزميں :ذوالقرنين كى مغربى سرزمين ميں حكومت ۱

سفر :سفر كى اہميّت ۳

عمل :پسنديدہ عمل ۳

____________________

۱) تفسير عياشى ج۲ص۳۴۲;ج۷۹;نورالثقلين ج۳ص۲۹۸ج۲۱۵_

۵۳۸

آیت ۹۰

( حَتَّى إِذَا بَلَغَ مَطْلِعَ الشَّمْسِ وَجَدَهَا تَطْلُعُ عَلَى قَوْمٍ لَّمْ نَجْعَل لَّهُم مِّن دُونِهَا سِتْراً )

يہاں تك كہ جب طلوع آفتاب كى منزل تك پہنچے تو ديكھا كہ وہ ايك ايسى قوم پر طلوع كر رہا جسے كے لئے ہم نے آفتاب كے سامنے كوئي پردہ بھى نہيں ركھا تھا (۹۰)

۱_ ذوالقرنين اپنے دوسرے سفر ميں مشرق كى طرف خشكى كے آخرى نقطہ تك پہنچا تو ...تمدن سے دور صحرائي نشين لوگوں كو پايا_بلغ مطلع الشمس ...لم نجعل لهم من دونها سترا

(دونها )كى ضمير (الشمس ) كى طرف لوٹتى ہے اور جملہ (لم نجعل ...) كامطلب يہ ہے كہ وہاں كے رہنے والے سوائے سورج كے كوئي اور سترپوشى نہيں ركھتے تھے بظاہر پوشاك، ستر نہيں ركھتے تھے يعنى نہ كوئي وہاں عمارت تھى جو انكے لے سايہ اور نہ كوئي انكے تن كو ڈھاپنے كے ليے لباس تھا اسى ليے انہيں صحرائي نشين قوم سے تعبير كيا گيا _

۲_ ذوالقرنين كى سرزمين كے مشرق ميں رہنے والے لوگ تن پر لباس او رپناہ گاہ سے محروم تھے _

وجدها تطلع على قوم لم نجعل لهم من دونها سترا

۳_ ذوالقرنين نے اپنى سرزمين كے مشرق كى طرف صحرا پر رہنے والى قوم كا سامنا كيا _لم نجعل لهم من دونها سترا

''لم نجعل ''كے كلمہ سے يہ احتمال پيدا ہونا: ہے كہ ان لوگوں كا سورج كى شعاعوں كے در مقابل بے پناہ ہونا طبيعى امور كى بناء پر تھا كہ جو جعل الہى سے مربوط تھا مثلاصحرا بنجر تھا كہ يہ امر طبيعى ہے _

۴_ ذوالقرنين كے زمانہ ميں اسكى سرزمين كے دورترين مشرقى علاقے ميں لباس اور عمارت سازى كى صنعت كى كوئي خبر نہ تھى _بلغ مطلع الشمس ...لم نجعل لهم من دونها سترا

۵_ ذوالقرنين كے زمانہ ميں اسكى مغربى سرزمين كے لوگ اسكى مشرقى سرزمين كے لوگوں كى نسبت زيادہ تمدن والے اور ترقى يافتہ تھے_بلغ مغرب الشمس ...وجد عنده

۵۳۹

قوماً ...تطلع على قوم لم نجعل لهم من دونها سترا

۶_معاشروں اور اقوام كے تمدن كے حصول ميں الہى ارادہ كا كردار ہے _لم نجعل لهم من دونها سترا

۷_عن اميرالمؤمنين(ع) ...ان ذإلقرنين وردعلى قوم قدا حر قتهم الشمس وغيرت أجسا دهم وا لوانهم حتّى صيّرتهم كالظلمة (۱)

اميرا لمؤمنين سے روايت ہوئي ہے كہ بلا شبہ ذوالقرنين ايسى قوم تك پہنچے جہاں سورج كى شعاعوں نے انكو جلا ديا تھا اور انكے بدن اور جلد كو تبديل كرديا تھا اسطرح كہ وہ سياہى ميں تاريكى كا ايك حصہ بن چكے تھے _

۸_عن أبى جعفر (ع) فى قول الله ''لم نجعل لهم من دونها ستراً''كذالك قال : لم يعلموا صنعة البيوت (۲)

امام باقر (ع) سے اس كلام الہى'' لم نجعل لهم من دونها ستراً كذلك'' كے بارے ميں روايت ہوئي ہے كہ وہ قوم گھر بنانے كى صنعت كو نہيں جانتے تھے_

الله تعالى :الله تعالى كے ارادہ كے آثار ۶

برہنگى :برہنگى كى تاريخ ۲

تمدن :تمدن كا سرچشمہ ۶' تمدن كى تاريخ ۵

ذوالقرنين :ذوالقرنين كا دوسرا سفر ۱;ذوالقرنين كا قصہ ۱،۲، ۳، ۷; ذوالقرنين كے زمانہ كا تمدن ۱،۵; ذوالقرنين كے زمانہ كا لباس ۴;ذوالقرنين كے زمانہ ميں سياہ فام لوگ۷;ذوالقرنين كے زمانہ ميں عمارت سازي۴،۸;مشرق ميں ذوالقرنين ۱،۷

روايت ;۷،۸

سرزمين :ذوالقرنين كى مشرقى سرزمين كے لوگوں كا بے گھر ہونا ۲; ذوالقرنين كى مشرقى سرزمين كے لوگوں كا تمدن ۵;ذوالقرنين كى مشرقى سرزمين كے لوگوں كا صحراء نشين ہونا ۱،۳; ذوالقرنين كى مغربى سرزمين كے لوگوں كاتمدن۵;ذوالقرنين كے زمانے ميں مشرقى سرزمين كے لوگوں كا برہنہ ہونا ۲

لباس:لباس كى تاريخ۴

____________________

۱)تقسير عباشى ج۲ص۳۴۲،ح ۹،نورالثقلين ج۳ ص۲۹۸،ح۲۱۵_

۲)تفسير عباشى ج۲'ص۳۵۰، ح۸۴، نورالثقلين ج ۳ ص۳۰۶ح۲۲۲_

۵۴۰

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

آیت ۱۶

( وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ مَرْيَمَ إِذِ انتَبَذَتْ مِنْ أَهْلِهَا مَكَاناً شَرْقِيّاً )

اور پيغمبر اپنى كتاب ميں مريم كا ذكر كرو كہ جب وہ اپنے گھروالوں سے الگ مشرقى سمت كى طرف چلى گئيں (۱۶)

۱_ حضرت مريم(ع) كى داستان كے بارے ميں آيات پر خصوصى توجہ اور قران ميں حضرتعيسي(ع) كى ولادت كى داستان كى وضاحت، پيغمبر كے كندھوں پر ايك الہى ذمہ دارى ہے _واذكرفى الكتب مريم

( اذكر ) پيغمبر كى طرف خطاب ہے اگر چہ آپ بغير كسى حكم خاص كے بھى قران ميں نازل شدہ آيات بيان كياكرتے تھے ليكن ان آيات كے بيان پر تاكيد سے مقصود حضرت مريم كے حضرتعيسي(ع) كے حوالے سے حاملہ ہونے كے واقعہ كى اہميت اور اس چيز كے اس معاشرہ پر گہرے اثرات كا بيان تھا _

۲_ قرآن، رسول خدا (ص) كے زمانہ ميں ايك تدوين شدہ مجموعہ تھا _واذكر فى الكتب

( الكتاب ) ميں ''الف و لام'' عہد حضورى ہے اور مو جو وہ كتاب پر دلالت كررہا ہے _

۳_حضرت مريم نے اپنےگھر والوں سے جدا ہوكر مسجد الاقصى كے شرقى جانب بسيرا كرليا _

واذكر مريم إذا انتبذت من أهلها مكانا شرقيا

(انتباذ ) كا مادہ ( نبذ ہے كہ جسكا معنى دور ہونا ہے (مكاناً شرقياً ) يعنى شرق كى جانب جگہ چونكہ حضرت مريم (مسجدالاقصى ) معبد كيلئے وقف تھيں تو يہاں مسجد الاقصى كے مشرق ميں مكان مقصود ہے _

۴_ حضرت مريم كے رشتہ دار مسجد الاقصى كى مشرقى جانب سے ہٹ كر مقيم تھے _انتبذت من أهلها مكاناً شرقي

۵_ حضرت مريم حاملہ ہونے سے پہلے مسجد الاقصى كے قريب ساكن رہنے والے رشتہ داروں كے پاس آيا كرتى تھيں _

إذا انتبذت من أهلها مكاناً شرقيا

بائيسويں آيت ميں قرينہ (مكاناً قصبا ) جو كہ حضرت مريم كے دوسرے انتخاب شدہ مكان كے بارے ميں بتا رہاہے كہ معلوم ہوتا ہے كہ مسجد الاقصى كا مشرقى حصہ لوگوں كے رہائشى علاقہ كے قريب تھا _

۶_ حضرت مريم كے قانون شريعت ميں گھر كا مشرقى حصّہ يا معبد عبادت كيلئے بہتر مقام تھا _إذانتبذت من أهلها مكانا ً شرقيا ً

۶۲۱

حضرت مريم كے گوشہ نشين ہونے كى وجہ واضح نہيں ہے اور آيت ميں اس حوالے سے كوئي شاہد نہيں ديكھا گيا _ بعض كے بقول : انہوں نے مكان كا انتخاب عبادت ميں خلوت كى بناء پر كيا تھا _اور مسجد الاقصى كا مشرقى حصہ انتخاب كرنے كى وجہ مشرقى حصہ كا عبادت كے لےئے بہتر ہونا تھا بعض نے حضرت مريم كے اس اقدام كو خواتين سے متعلقہ امور سے جانا ہے كہ جس كى بنا ء پر قرآن ميں عمدا ً اس بارے ميں كچھ نہيں كہا گيا تو اس صورت ميں مشرقى جانب كا انتخاب، صرف اپنے مقاصد كے بہتر ہونے كى بناء پر تھانہ كہ شرعا ً بہتر تھا _

۷_حضرت مريم نے اپنى عبادت كيلئے اس مكان كا انتخاب كيا كہ جس كا رخ مشرق كى جانب تھا _

إذانتبذت من أهلها مكاناً شرقيا ( شرقي) يعنى مشرق كى طرف ( لسان العرب )

۸_ حضرت مريم نے اپنے وجود ميں كسى چيز كى بناء پررنجيدہ ہو كر گوشہ نشينى اور لوگوں كى نگاہوں سے دور جگہ كا انتخاب كيا _إذ انتبذت من أهله ( نبذ) يعنى كسى چيز كو بے پرواہى كى بناء پر دورپھينكنا اور ( انتباذ) يعنى اس شخص كا گوشہ نشين ہونا كہ جو لوگوں ميں اپنے آپ كو كمتر اورنا چيز سمجھے ( مفردات راغب ) بعض احتمالات كہ جو حضرت مريم كے گوشہ نشيں ہونے كى وضاحت ميں بيان ہوئے ہيں مثلاماہوارى كے ايام و غيرہ گزارنے كيلئے كہ وہ اس معنى كے ساتھ مناسب ہيں _

آنحضرت (ص) :آنحضرت(ص) كى ذمہ دارى ۱; آنحضرت(ص) كے زمانہ ميں قران ۲

ذكر :عيسي(ع) كے قصہ كا ذكر۱;مريم كے قصہ كا ذكر ۱

عبادت :عبادت كے آداب ۶;مشرق كى جانب عبادت ۷; عبادت كے مكان كا كردار۶; مشرقى مكان ميں عبادت ۶

عبادتگاہ :عبادتگاہ كے مشرقى جانب عبادت ۶

عيسى :عيسي(ع) كى ولادت ۱;عيسي(ع) كے قصہ كى وضاحت ۱

قران :قران كا جمع ہونا ۲; قران كى تاريخ ۲

مريم(ع) :مريم كى سكونت ۵; مريم كا قصہ ۳;۵;۸; مريم كى

۶۲۲

پناہ گاہ ۳; مريم كى عبادتگاہ كى سمت۷;مريم كى گوشہ نشينى كے اسباب ۸;مريم كے رشتہ داروں كى سكونت ۴;۵;مريم كے قصہ كى وضاحت ۱; مسجدالاقصى كے قريب مريم۴، ۵; مسجدالاقصي كے قريب مريم كے رشتہ دار ۴;۵

مسجد الاقصى :مسجدالاقصى كى مشرق سمت ۳

ـآیت ۱۷

( فَاتَّخَذَتْ مِن دُونِهِمْ حِجَاباً فَأَرْسَلْنَا إِلَيْهَا رُوحَنَا فَتَمَثَّلَ لَهَا بَشَراً سَوِيّاً )

اور لوگوں كى طرف پردہ ڈال ديا تو ہم نے اپنى روح كو بھيجا جو ان كے سامنے ايك اچھا خاصا آدمى بن كر پيش ہوا (۱۷)

۱_حضرت مريم نے مسجدالاقصى كى مشرقى جانب لوگوں كى نگاہوں سے دورايك مكان منتخب كيا اور خود كو لوگوں سے پنہاں كيا _فاتخذت من دونهم حجاب

حجاب سے مراد ساتر، يا ايسى چيز جو پردے كا كام د ے _ تو ( اتخذت ...حجابا ً) سے مراد پردہ ڈالنا يا ايسى جگہ جانا جو طبيعى طور پر پردے كا كام دے مثلا ديوار يا پہاڑ غيرہ كى مانند ہوں _

۲_ وہ مكان كہ جہاں مريم(ع) لوگوں كى نگاہوں سے پنہاں ہو جاتى تھيں وہ لوگوں كے رہائشى علاقہ كے قريب تھا _

من دونهم كلمہ ( دون) كبھى قريب اور كبھى حقارت كيلئے استعمال ہوتا ہے ( العين )

۳_ حضرت مريم كا شرقى سمت ايك پنہاں مكان ميں رہنے كے بعد الله تعالى نے ايك انتہائي مكرم فرشتہ انكيجانب بھيجا _

فاتخذت من دونهم حجاباً فأرسلنا إليها روحنا

بعد والى آيات ميں اس فرشتہ كى جو صفات ذكر ہوئيں ہيں انكى بناء پر يہاں ''روحنا'' سے مراداللہ تعالى كى بارگاہ ميں ايك انتہائي مكرم اور عظيم المنزمت فرشتہ ہے كہ جسے الله تعالى كى طرف نسبت دى گئي ہے وہ آيات جوحضرت جبرئيل كو'' روح الامين'' او ر''روح القدس'' كے نام سے يا د كرتى ہيں انہيں ديكھتے ہوئے ہم كہہ سكتے ہيں كہ يہ فرشتہ جبرئيل ہے _

۴_حضرت مريم كا اپنے فرزند حضرتعيسي(ع) سے حاملہ ہونے كيلئے ضرورى تھا كہ وہ لوگوں كى نگاہوں سے دور ايك خلوت والى جگہ پرہوں _فاتخذت من دونهم حجاباً فأرسلنا إليها روحنا ( فأرسلنا ) ميں ( فائ) تفريع كيلئے ہے _اور يہ بتاتى ہے كہ حضرت مريم كے گذشتہ كام انكے حضرتعيسي(ع) كى والدہ كا مقام پانے اور الہى فرشتہ كے نزول كا پيش خيمہ ہيں _

۵_حضرت مريم كا الله تعالى كى بارگاہ ميں عظيم وبلند مقام_فا رسلنا إليهاروحنا

۶۲۳

۶_عبادت كے وقت، جسمانى نمائش سے پرہيز اور اپنے آپ كو با پردہ ركھنا خواتين كى اہم خصوصيت ہے _

فاتخذت من دونهم حجابا فأرسلنا إليها روحنا

حضرت مريم ايسے مكان كى طرف جارہى تھيں جو لوگوں كى نگاہوں سے دورہو اور عبادت كے وقت انہيں نامحرم كا سامنا نہ كرنا پڑے _

۷_ حضرت جبرائيل (ع) جسما نيتسے منزہ اور شرف ومنزلت پر فائز موجود كا نام ہے_فا رسلنا إليها روحنا

( روح ) كا ( نا) كى طرف اضافہ تشريفى ہے روح كوبھيجنے كا مطلب يہ ہے كہ وہ روح ايك مستقل موجود كہ جو الله تعالى كا مطيع تھا اور سفير كے فرائض انجام دينے كى قابليت ركھتا تھااور اسے اپنى رسالت كے مفاہيم سے آشنائي تھى بشر ى صورت ميں اپنے آپ كو مجسّم كرنا اس بات كى دليل ہے كہ وہ اس كام كو انجام دينے پر قادر اور جسمانى شكل اختيار كرنے كے ليے ساز گار تھے چونكہ يہ سب خصوصيات حضرت جبرئيل(ع) پر تطبيق كررہى ہيں جسكى وجہ سے بعض مفسرين نے كہا كہ وہ فرشتہ جو حضرت مريم، پرنازل ہوا وہ حضرت جبر(ع) ئيل تھے _

۸_ الله تعالى كا خصوصى نمائندہ، ايك عا م ا نسان كى مانند تمام جسمانى خصوصيات كے ساتھ حضرت مريم كے سامنے نمودار ہوا _فتمثل لها بشراً سوي

( تمثيل ) يعنى شكل بناتا اور ايك چيز كى صورت ميں نمود ار ہونا _ يہاں ( بشراً)'' تمثل'' كے فاعل كيلئے حال ہے اس سے مراد بعد والى آيت كے قرينہ كى رو سے مردہے ( سويا ً) يعنى معتدل ( بشراً) سويا يعنى انسان معتدل جوكہ جسمانى خصوصيات ميں افراط تفريط سے منزہ ہو _

۹_الہى فرشتہ كا حضرت مريم(ع) كيلئے جو چہرہ جلوہ گر ہوا وہ انكے ليے نا آشنا اور انكے ہم و طنوں اور رشتہ داروں جيسا بھى نہ تھا _بشراً سويا

( بشراً) اسم نكرہ ہے اور كسى كے نا آشنا ہونے پر دلالت كرتاہے _

۱۰_فرشتوں كا مادى صورتيں اختيار كرنا اور ان صورتوں ميں جلوہ گر ہونا، ايك ممكن اور محقق شدہ مسئلہ ہے _

فأرسلنا إليها روحنا فتمثل لها بشراً سويا

۱۱_ فرشتوں كوديكھنا اور ان سے گفتگو كرنا، صرف پيغمبروں كے ساتھ منحصر نہيں ہے _

فأرسلنا إليها روحنا فتمثل لها بشرا ً سويا

۶۲۴

چونكہ حضرت مريم مقام نبوت پر فائز نہ تھيں ليكن اسكے با وجود انہوں نے فرشتہ كا مشاہدہ كيا اور اس سے كلام كيا اس سے ثابت ہوا كہ يہ مسئلہ صرف پيغمبر وں كے ساتھ منحصر نہيں ہے _

۱۲_ عورت ميں معنويت كے بلند ترين درجات تك پہنچنے اور فرشتوں سے گفتگو اور ملاقات كرنے كى لياقت موجود ہے _

فأرسلنا إليها روحنا فتمثل لها بشراً سويا

۱۳_عن الأصبغ بن نباتة قال علي(ع) جبرئيل من الملائكةوالروح غير جبرائيل قال ( الله ) لمريم ( فأرسلنا إليها روحنا فتمثل لها بشراًسوياً ...) (۱) اصبغ بن نبانہ سے روايت نقل ہوئي ہے كہ حضرت علي(ع) نے فرمايا : جبرئيل فرشتوں ميں سے ہے جب كہ روح جبرئيل كے علاوہ ہے الله تعالى نے

حضرت مريم كے بارے ميں فرمايا ہے :فإرسلنا إليها روحنا فتمثل لها بشراً سويا ً

۱۴_قال الباقر(ع) : إنها ( مريم) بشرت بعيسى فبيناهى فى المحراب إذ تمثل لها الروح الا مين بشراًسويا ً امام باقر (ع) نے فرمايا : حضر ت مريم(ع) كو حضرت عيسي(ع) كى ولادت كى بشادت دى گئي تھى جب وہ محراب ميں تھيں تو اچانك روح الامين انسان كا مل كى شكل ميں ان پر ظاہر ہوئے _

تربيت:حضرت عيسي(ع) كى ولادت كى بشارت ۱۴//پردہ :پردہ كى رعايت كى اہميت ۶

جبرئيل(ع) :جبرائيل سے مراد ۱۳; جبرائيل كا مجسم ہونا ۱۴ ; جبرائيل كى حقيقت ۷ ;جبرائيل كے مجسم ہونے كى خصوصيات ۸; جبرائيل كےمقامات ۷

روايت : ۱۳;۱۴

روح :روح سے مراد ۱۳//عبادت :عبادت كے آداب ۶; عبادت ميں پردہ ۶

عمل :پسنديدہ عمل ۶//عورت :عورت كا كمال ۱۲;عورت كے مقامات ۱۲

مريم 'س':

____________________

۱)الغاراتج۱ص۱۸۴،بحارالاانوار ج۴ ۹ص۵ ح ۷ _

۲)قصص الانبياء راوندى ص۲۶۴ح۳۰۳ بحارالاانوار ج۱۴ص۲۱۵ح۱۴_

۶۲۵

مريم'س' پر جبرائيل كا نزول ۳،۸; مريم'س' كا تقرب۵; مريم'س' كا قصہ ۱،۲،۳، ۴،۸، ۹ ، ۱۴ ;مريم'س' كو بشادت ۱۴; مريم'س' كى پناہ گاہ ۱،۲;مريم'س' كى گوشہ نشينى ۱،۴; مريم'س' كے حمل كا پيش خيمہ ۴ ;مريم'س' كے مقامات۵

مسجدالاقصى :مسجدالاقصى كى مشرقى سمت ۱

ملائكہ :ملائكہ سے گفتگو۱۱;۱۲;ملائكہ كا ديكھا جانا ۱۱;۱۲; ملائكہ كا مجسم ہونا ۹;۱۰

آیت ۱۸

( قَالَتْ إِنِّي أَعُوذُ بِالرَّحْمَن مِنكَ إِن كُنتَ تَقِيّاً )

انھوں نے كہا كہ اگر تو خوف خدا ركھتا ہے تو ميں تجھ سے خدا كى پناہ مانگتى ہوں (۱۸)

۱_ ايك اجنبى شخص ميں تقوى كا احساس اور خوف خدا ابھارنا يہ حضرت مريم كا اسے اپنى خلوت گاہ ميں ديكھنے كے بعد اعتراض آميز ردّ عمل تھا _قالت إنى أعوذبالرحمن منك إن كنت تقيا

جملہ ( إن كنت تقيا ً) جملہ شرطيہ كے قالب ميں تقوى كى طرف دعوت ہے آيت كا مطلب يہ ہے كہ اگر متقى ہو ،كہ ہونا چاہيے------_-- مجھ سے دور ہوجا اوراپنے آپ كو الہى غضب ميں مبتلا ء نہ كرو ميں نے اپنے آپ كو اسكى پناہ ميں ديا ہوا ہے اور تيرے ضرركا دفع اس سے چاہتى ہوں _

۲_ حضرت مريم اپنے قريب ايك اجنبى شخص كو پاكر وحشت ذرہ ہوگئيں اور خدا كى پناہ لى اور اسے الہى غضب سے ڈرايا _

قالت إنى أعوذبالرحمن منك ان كنت تقيا ً

حضرت مريم نے بجائے (اللهم إنى أعوذ بك ) كے اجنبى شخص كو مخاطب بناياتا كہ اسكے دل ميں الہى غضب كا خوف پيدا كريں _ ''تقوي'' يعنى ہر خوفناك چيز سے بچتے ہوئے اپنے آپ كو محفوظ جگہ ميں ركھنا ( مفردات راغب )'' تقياً'' يعنى خطرے سے پرہيز كرنے والا حضرت مريم كے كلام ميں قرينہ ديكھتے ہوئے كہ انہوں نے اپنے مخاطب كو الله تعالى سے ڈرايا خطرے سے مراد خداوند عالم كا غضب ہے _

۳_اللہ تعالي، مشكل اوقات ميں انسان كى پناہ گاہ ہے _إنى أعوذ بالرحمن

۴_اللہ تعالى كى وسيع رحمت، مصيبت زدہ اوربے سہار لوگوں كو پناہ دينے كا اقتضا كرتى ہے _إنى أعوذ بالرحمن منك

( رحمان ) مبالغہ كا صيغہ ہے اوراسكا مطلب بہت زيادہ مہربان ہونا ہے حضرت مريم (ع) كا الله تعالى كے تمام ناموں ميں

۶۲۶

سے صرف اس نام كا سہا را لينا خدا كے تمام اوصاف ميں سے اس وصف كى خصوصيت پردلالت كر رہا ہے اور پناہ كے مقام كے ساتھ اسكى مناسبت كوبيان كررہا ہے_

۵_مصيبتوں اور عفت كے منافى كاموں كے اسباب مہياہونے كى صورت ميں ضرورى ہے كہ الله تعالى كى پناہ لى جائي _

قالت إنى أعوذبالرحمن منك

۶_ رحمان ،اللہ تعالى كے اسماء اور اوصاف ميں سے ہے_أعوذبالرحمن

۷_ حضر ت مريم، تقوى اور پاكيزگى كے كمال پر فائز خاتون تھيں _قالت إنى أعوذ بالرحمن منك إن كنت تقيا

پاكيزہ ،مريم(ع) نے اجنبى مرد كو اپنى خلوت گاہ ميں ديكھتے ہى اسے مسلسل نصيحت كرنا اور الله تعالى كى پناہ ميں جانے كى بات شروع كى يہ ردّ عمل ان ميں پاكيزگى كے راسخ ہونے كى علامت ہے _

۸_انسان كو گناہ سے محفوظ ركھنے ميں تقوى ايك اہم ترين سبب ہے _أعوذبالرحمن منك إن كنت تقيا

۹_ عورت اور نامحرم مرد كا اكھٹا ہونا يہاں تك كہ متقى لوگوں ميں بھى ايك خطرناك جال اور گناہ كى كھائي ميں گرنے كا موجب ہے _إنى أعوذبالرحمن منك إن كنت تقيا (إن كنت )كا جواب شرط محذوف ہے بعض نے يہاں جملہ شرطيہ كو تقوى كى طرف ترغيب دلانا مرادليا ہے جبكہ بعض نے يہاں شرط حقيقى مراد ليا ہے _تو دوسرى صورت ميں آيت سے مراد يہ ہے كہ اگر تو متقى ہے تويہ مناسب ہے كہ ميں الله تعالى سے پناہ مانگوں (اور يہ كہ تو متقى نہ ہو ) لہذا يہاں نكتہ شرط يہ ہے كہ يہ صورت تو متقى لوگوں كيلئے بھى خطرنا ك ہے كہاں يہ كہ غير متقى ہوں _

۱۰_ تنہائي ميں نامحرم سے پرہيز كرنا، ضرورى ہے _قالت إنى أعوذبالرحمن منك إن كنت تقيا

حالا نكہ اجنبى شخص نے كوئي ايسى حركت نہيں كى تھى كہ جو اسكى كسى غرض كو ظاہر كرے _ ليكن حضرت مريم محض اسكے ساتھ تنہائي سے پريشان ہوئيں اور الله تعالى كى پناہ لى اور اسكے ليے زبان نصيحت كھولى تواس سے يہ نتيجہ نكلتا ہے كہ نامحرم كے ساتھ تنہائي ميں رہنا ہى تقوى كے خلاف كام ہے _

۱۱_روى عن على (ع) انه قال : علمت ان التقى ينهاه التقى عن المعصية ، حضرت على (ع) سے روايت ہوئي ہے كہ آپ نے فرمايا : حضرت مريم يہ جانتى تھيں كہ پرہيز گار انسان ، اپنے تقوى كوگناہ سے بچاتا ہے _

اسماء صفات: رحمان۶

۶۲۷

الله تعالى :الله تعالى كى رحمت كے آثار ۴

انسان :انسان كى پناہ گاہ ۳;۴

تقوى :تقوى كے آثار ۸،۱۱;تقوى كى طرف دعوت ۱

پناہ مانگنا:الله تعالى سے پناہ مانگنے كى اہميت ۵; الله تعالى سے پناہ مانگنے كا باعث ۴; الله تعالى سے پناہ مانگنا ۲;۳

ڈرانا :الله تعالى كے غضب سے ڈرانا ۲

روايت :۱۱

گناہ :گناہ سے مانع ۸،۱۱; گناہ كا باعث ۹; گناہ كا مقابلہ كرنے كى روش ۵

مريم 'س':مريم'س' كا اعتراض ۱;مريم'س' كا پناہ مانگناہ۲; مريم 'س'كا خوف ۲; مريم'س' كا قصہ ۱،۲;مريم'س' كا كى پرہيز گارى ۷; مريم'س' كى پناہ گاہ ۱; مريم'س' كى رائے ۱۱; مريم'س' كى عفت ۷; مريم'س' كے فضائل ۷

مشكل :مشكل كا مقابلہ كرنے كى صورت ۵

نامحرم:نامحرم سے تنہائي كرنے سے پرہيز۱۰ ;نامحرم سے تنہائي كرنے كے آثار ۹

آیت ۱۹

( قَالَ إِنَّمَا أَنَا رَسُولُ رَبِّكِ لِأَهَبَ لَكِ غُلَاماً زَكِيّاً )

اس نے كہا كہ ميں آپ كے رب كے فرستادہ ہوں كہ آپ كو ايك پاكيزہ فرزند عطا كردوں (۱۹)

۱_ حضرت جبرئيل نے حضرت مريم'س' كى پريشانى دور كرنے كيلئے اپناتعارف كروايا اور انہيں بتايا كہ وہ الله تعالى كى طرف سے بھيجے ہوئے ہيں _قالت إنى أعوذقال إنما أنا رسول ربك

۲_ حضرت جبرئيل نے حضرت مريم كو بچےّ كى بشارت دينے كے ساتھ ا نہيں پاك و پاكيزہ بيٹاعطاكرنے كے حوالے سے الہى نمائندہ ہونے كا تعارف كروايا_

قال إنما أنا رسول ربك لا هب لك غلماً زكيا

بيٹاعطا كرنے كى نسبت، حضرت جبرئيل كى طرف انكے اس الہى بخشش ميں وسيلہ ہونے كى بناء پرہے _ ( زكي) مادہ ''زكائ'' سے ہے اسكا معنى (صلاح) ہے'' مصباح'' '' تزكيہ '' اور ''زكاة ''طہارت '' پرورش ، بركت اور مدح كے معانى ميں

۶۲۸

استعمال ہوتے ہيں ہر اور مقام پر اسكا مناسب معنى مراد ہے بچے كى طہارت اور پاكيزگى اسكى ذاتى صلاحتيوں كے حوالے سے ہے_

۳_ حضرت مريم كو لائق اور پاكيزہ بچے كى عطا انكے رشد و كمال كا موجب اور الله تعالى كى ربوبيت كا ايك جلوہ ہے _

قال إنّما أنا رسول ربّك لا هب لك غلما زكياً ...قال ربّك هو

كلمہ'' رب ''مندرجہ بالا مطلب كو بيان كرسكتا ہے _

۴_ حضرت عيسي(ع) ،اللہ تعالى كى جانب سے حضرت مريم كيلئے خصوصى عطا تھے _إنّما أنا رسول ربّك لا هب لك غلماً زكي اگرچہ حضرت عيسى (ع) كى روح، حضرت مريم كو ديگر ذرائع سے بھى القاء كى جاسكتى تھى ليكن جبرئيل كا بھيجاجانا، مريم كو بشارت دينا اوراس عنايت كى خصوصيات شمار كرنا يہ سب كے سب اس عطاكے خصوصى ہونے پردلالت كررہے ہيں _

۵_-حضرت عيسي(ع) كى پاكيزگى اور معنوى كمال ، انكى ولادت سے قبل الله تعالى كى جانب سے ضمانت شدہ تھے----_إنما أنا رسول ربك لأهب لك غلما

۶_صالح اور پاكيزہ فرزند، الہى عنايت ہے _لأهب لك غلماً زكبا

۷_عن الباقر (ع)( فى قصة مريم ) : تمثل لها الروح الأمين قال إنما أنا رسول ربك لا هب لك غلاماً زكياً فتفل فى جيبها فحملت بعيسى (ع) (۱)

امام باقر (ع) سے حضرت مريم كى داستان كے حوالے سے نقل ہواہے كہ روح الامين ان پر ظاہر ہوئے اور كہا :'' إنما انا رسول ربك لا ہب لك غلاماً زكيا''پھراپنے منہ كا لعاب انكے گريبان ميں ڈالاتو وہ عيسي(ع) سے حاملہ ہوگئيں _

الله تعالى :الله تعالى كى ربوبيت كى علامات ۳; الله تعالى كى عطا ء ۲،۴،۶

الله تعالى كے نمائندے: ۱/تربيت:عيسى كى ولادت كى بشار ب۲

جبرئيل :جبرئيل كى بشارتيں ۲; جبرئيل كى ذمہ دارى ۲; جبرئيل كى شناخت اور مريم ۱

روايت :۷

____________________

۱)قصص الانبياء رواندى ص۲۶۴، ج۳۰۳ ، بحارالانوار ج۱۴ ص۲۱۵ح۱۴_

۶۲۹

عيسى (ع) :عيسى كا كمال ۵;عيسى كى پاكيزگى كى ضمانت ۵; عيسي(ع) كے فضائل ۵;

مريم(ع) :مريم(ع) ميں بيٹا ہونے كے آثار ۳; مريم(ع) كے كمال كے اسباب ۳; مريم(ع) كى پريشانى ۱; مريم(ع) پر جبرائيل كا نزول ۷; مريم(ع) پر نعمات ۴; مريم(ع) كا حاملہ ہونا ۷; مريم (ع) كا قصہ ۱،۴،۷

نعمت :فرزند صالح كى نعمت ۶; نعمت عيسي(ع) ۴

آیت ۲۰

( قَالَتْ أَنَّى يَكُونُ لِي غُلَامٌ وَلَمْ يَمْسَسْنِي بَشَرٌ وَلَمْ أَكُ بَغِيّاً )

انھوں نے كہا كہ ميرے يہاں فرزند كس طرح ہوگا جب كہ مجھے كسى بشر نے چھوا بھى نہيں ہے اور ميں كوئي بد كردار نہيں ہوں (۲۰)

۱_ حضرت مريم (ع) بغير كسى بشر كے لمس كے بچہ دار ہونے كى خبرسن كر حيرت زدہ ہوگئيں _

قالت أنّى يكون لى غلم ولم يمسنى بشر

( انيّ ) حرو ف استفہام ميں سے ہے اور اسكا معنى ''كيف ''يعنى كس طرح ہے يا'' من ا ين'' يعنى كہاں سے ہے دونوں صورتوں ميں تعجب كا معنى دے رہا ہے _

۲_ حضرت مريم (ع) حضرت عيسي(ع) كى بشارت سنے كے بعد زنا كى تہمت كے خوف سے پريشان تھيں _

أنيّ يكون ولم أك بغيّا

اگر چہ جملہ ( لم يمسنى بشر ) حاملہ ہونے كے معمول كے مطابق ذرائع كى نفى كيلئے كا فى تھا ليكن جملہ ( ولم أك بغياً ) بھى مريم سے صادر ہو ا ہے بعض نے اسے اس طرح قرينہ قرار ديا ہے كہ جملہ ( لم يمسنى ) ميں صرف شرعى نكاح كى بات ہوئي ہے جب كہ ( ولم اك بغيا ) ميں _غير شرعى كا م كى نفى ہوئي ہے اور احتمال يہ بھى ہے كہ جملہ ( لم يمسنى ) سے مرادمطلقاً ہمبسترى ہواور جملہ ( لم اك بغياً ) كا اضافہ اس ليے ہو كہ مريم نے سمجھا حاملہ ہونے كى صورت ميں زنا كى تہمت لگے گى تويہ سب كہہ كر انہوں نے ظاہر كرديا كہ اس تہمت كو برداشت كرنا ہمارے ليے سخت ہے _

۳_ حضرت مريم (ع) نے جبرئيل، سے چاہا كہ وہ انہيں بتائے كہ كيسے بغير باپ كے بيٹا پيدا ہوگا _قالت أنّى يكون لى غلم ولم يمسنى بشر ولم أك بغيا

۴_ حضرت مريم (ع) كا ماضى درخشاں اور تقدس و پاكيزگى كى راہ پر ہر قسم كے انحراف سے پاك تھا _

۶۳۰

قالت أنّى يكون لى غلم ولم أك بغيا

( بغى ) اس عورت كو كہا جاتا ہے كہ جو نا محرم لوگوں سے غير شرعى تعلق ركھے _

۵_ حضرت مريم (ع) ،حضرت جبرئيل كا سامنا كرتے وقت، ايك باكرہ اور غير شادى شدہ لڑكى تھيں _

قالت انيّ يكون لى غلم ولم يمسنى بشرا

۶_ حضرت مريم(ع) ، حضرت عيسي(ع) كى ولادت كى بشارت سننے كے وقت حمل كيلئے مناسب عمر اور صحيح و سالم جسم كى مالك تھيں _ولم يمسنى بشر ولم أك بغيا

حضرت مريم (ع) كے كلام ميں جو كچھ حضرت عيسي(ع) كى پيدا ئش ميں مانع بيان ہوا ہے وہ سب باپ كے نہ ہونے كے بارے ميں ہے انہوں جسمانى حوالے سے عاجزى كا اظہار نہيں كيا لہذا اس حوالے سے كوئي مشكل نہيں تھى _

۷_زنا، تمام الہى اديان ميں ايك غير شرعى اورقابل نفرت كام ہے _ولم أك بغي

۸_اللہ تعالى كے برگزيدہ لوگ، دنيا دى كاموں ميں الہى ارادہ كے متحقق ہونے كے سلسلے ميں معجزہ كے منتظر نہيں ہوتے بلكہ اسكے ليے طبيعى راہوں سے جستجو كرتے تھے _قالت أنّى يكون لى غلم ولم يمسنى بشرا

حضرت مريم (ع) اگر چہ الہى قدت پر ايمان ركھتى تھيں ليكن جب انہوں نے بچے كى خوشخبرى سنى تو طبيعى راہ كے حوالے سے كسى صورت ميں نتيجہ پر نہ پہنچى اور اس جملہ (أنّى يكون لى غلام ) كے ساتھ اس ولادت كى كيفيت پوچھى معلوم ہوا كہ اس حوالے سے طبيعى اسباب انكى نگاہوں سے دور نہيں تھے _

۹_اللہ تعالى كے برگزيدہ بندوں كاعظيم مقام، انكے الہى فرشتوں كى ذمہ داريوں ميں تعجب اور جستجواور الہى افعال كے حوالے سے مزيد معلومات حاصل كرنے ميں مانع نہيں ہے _قالت أنّى يكون لى غلم ولم يمسنى بشرا

الله تعالى :الله تعالى كے ارادہ كے جارے ہونے كے مقامات ۸

الله تعالى كے برگزيدہ :الله تعالى كے برگزيدہبندوں كا انتظار ۸; الله تعالى كے برگزيدہ بندوں كے مقامات ۹;اللہ تعالى كے برگزيدہ بندے اور فرشتوں كى ذمہ دارى ۹

جبرائيل :جبرائيل سے سوال ۳

زنا :

۶۳۱

آسمان اديان ميں زنا كى پليدگى ۷

مريم :مريم كا باكرہ ہونا ۵; مريم كا بچہ ہونے كے حوالے سے سوال ۳; مريم كا بہترين ماضى ۴; مريم كا تعجب ۱ ; مريم كا حاملہ ہونا ۶;مريم كا قصہ ۱،۲،۳،۵،۶ ; مريم كو بشارت ۱;مريم كو زنا كى تہمت لگانا ۲;مريم كى پريشانى ۲;مريم كى سلامتى ۶;مريم كى عفت ۴ ; مريم كى طلب ۳;مريم كے حاملہ ہونے كى خصوصيات ۱;مريم كے فضائل ۴

آیت ۲۱

( قَالَ كَذَلِكِ قَالَ رَبُّكِ هُوَ عَلَيَّ هَيِّنٌ وَلِنَجْعَلَهُ آيَةً لِلنَّاسِ وَرَحْمَةً مِّنَّا وَكَانَ أَمْراً مَّقْضِيّاً )

اس نے كہا كہ اسى طرح آپ كے پروردگار كا ارشاد ہے كہ ميرے لئے يہ كام آسان ہے اور اس لئے كہ ميں اسے لوگوں كے لئے نشانى بنادوں اور اپنى طرف سے رحمت قرار ديدوں اور يہ بات طے شدہ ہے (۲۱)

۱_ حضرت جبرئيل نے حضرت مريم (ع) كے تعجبكو بجاجانا اور انكى عفت و پاكيزگى پر گواہى دى _قال كذالك

(كذالك ) مبتدا محذوف كى خبر ہے اور حرف تشبيہ اور اسم اشارہ كا مركب ہے _ اسكا مشاراليہ ممكن ہے گفتار مريم ہو، اس صورت ميں آيت كا مطلب يہ ہو گا كہ اگر چہ بات وہى ہے جو آپ نے كہى ہے ليكن الله تعالى كے ليے يہ كام مشكل نہيں ہے _

۲_ حضرت جبرئيل نے حضرت مريم (ع) كے سوال اور پريشانى كے جواب ميں الہى وعدہ كے حتمى ہونے اور انكے حضرت عيسى (ع) كا حمل اٹھانے پر تاكيد فرمائي_قال كذالك

اگر ( كذالك ) كا مشاراليہ خود حضرت جبرئيل كى رسالت كا مضمون ہو تو اس صورت ميں بشارت كے حتمى واقع ہونے پر تاكيد ہے يعنى بات وہى ہے جوميں نے كہي_

۳_ بغير باپ كے بيٹے كى عطا، الله تعالى كيلئے نہايت آسان سى بات ہے _هو عليّ هيّن

(ہيّن) صفت مشبہ ہے جس كا مادہہ''ہون'' ہے يعنى آسان اور راحت _

۴_ حضرت عيسي(ع) كى ولادت غير معمولى اور معجزاتى تھي_قال ربك هو عليّ هيّن

۵_ معمول كے مطابق علل و اسباب اور طبيعى راستے الله تعالى كے ارادے اور قدرت ميں محدويت پيدا نہيں كر سكتے _

قال ربّك هو عليّ هيّن

۶۳۲

بغير باپ كے بچہ كى ولادت كے حوالے سے جو مشكل تصورہو سكتى ہے وہ بعض طبيعى اسباب كا فقدان ہے ليكن الله تعالى نے اس راہ سے ہٹ كر كام كونہايت آسان اور سادہ شمار كيا ہے تويہ مسئلہ در حقيقت الله تعالى كى طبيعى علل و اسباب پر حاكميت كو بيان كررہا ہے _

۶_كائنات ميں ہونے والے واقعات كے علل و اسباب، صرف طبيعى نہيں ہيں _قال ربّك هو عليّ هيّن

۷_ كرامات اورغير معمولى اشياء كا وقوع، صرف پيغمبروں كے ساتھ مخصوص نہيں ہے _قال ربك هو عليّ هيّن

۸_ صرف طبيعى علل واسباب پر نظر جمانا درحقيقت الہى ارادہ و منشاء پر متوجہ ہونے سے مانع ہے _أنى يكون لى غلم هو عليّ هيّن

۹_ حضرت مريم كى الله تعالى كى ربوبيت كى طرف توجہ نے انہيں حضرت عيسي(ع) كے حمل كى آسانى اور ممكن ہونے كے حوالے سے مطمئن كيا _قال ربّك

۱۰_ حضرت عيسي(ع) كى باپ اور معمول كے مطابق ذرائع كے بغير ولادت با مقصد اور بہت زيادہ فوائد پر مشتمل تھى _

هو عليّ هيّن ولنجعله ء اية للناس

احتمال ہے كہ عبارت ( لنجعلہ ) علت محذوف پر عطف ہو يعنى''خلقناه من غير أب لا غراض لا مجال لذكرها و لنجعله'' تواس حذف كا فائدہ ( ابہام ) قرار پاپا يعنى اس كا ہدف اس قدر عظيم اور وسيع ہے كہ جو كلام ميں نہيں سماسكتا ہے _

۱۱_ حضرت عيسي(ع) اور انكى بغير باپ كے ولادت ، لوگوں كے ليے الہى قدرت سے آشنا ہونے كيلئے بہت بڑى نشانى ہے _ولنجعله ء اية للناس ( لنجعلہ ) ميں مفعول كى ضمير، حضرت عيسي(ع) كى طرف لوٹ رہى ہے _ آيت ميں تنوين تفخيم كا فائدہ د ے رہى ہے يعنى اس ليے عيسي(ع) كو تجھے عطا كيا كہ اسے لوگوں كيلئے عظيم نشانى قراردو _

۱۲_حضرت عيسي(ع) ، الله تعالى كى جانب سے لوگوں كيلئے عظيم رحمت كا جلوہ ہيں _ولنجعله و رحمة منّ

( رحمة ) كے ( اية للناس ) پر عطف كے قرينہ كى بنا ء و پر مراد، لوگوں پر رحمت ہے _

۱۳_ حضرت عيسي(ع) كى بغير باپ كے ولادت اور انكا الہى قدرت و رحمت كى نشانى ہونا، الله تعالى كى طرف سے طے شدہ امور تھے كہ جن ميں كسى قسم كى تبديلى كى گنجائش نہيں تھى _كذالك و لنجعلهء اية للناس و رحمة منّا و كان أمراً مقضيا

۶۳۳

جملہ (كان أمراً مقضياً )ممكن ہے صرف حضرت عيسي(ع) كى ولادت كے بارے ميں ہو اور ممكن ہے آيت ميں مذكور تينوں موضوعات كے بارے ميں ہو ( مقضياً) مادہ ''قضا'' سے اسم مفعول ہے يعنى وہ جو حتمى ہے اور فيصلہ ہو چكاہے_ لفظ (امر) فرمان اور واقعہ كے معنى ميں استعمال ہوتا ہے يہاں كلمہ مقضيا ً دوسرے معنى كے مراد ہونے پر قرينہ ہے_

۱۴_ الہى طے شدہ امر، تبديل نہيں ہوسكتا _وكان أمراًمقضيا

الله تعالى :الله تعالى كى رحمت كى علامات ۱۲، ۱۳; الله تعالى كى قدرت كى حاكميت ۵;اللہ تعالى كى قدرت كى علامات ۱۱;اللہ تعالى كى قضا ء كا حتمى ہونا ۱۴;اللہ تعالى كے ارادہ كى حاكميت ۵;اللہ تعالى كے افعال ۳;اللہ تعالى كے طے شدہ امور ۱۳;اللہ تعالى كے وعدوں كا حتمى ہونا ۲

تربيت:حضرت عيسي(ع) كى ولادت كى بشارت ۲

حمل :بغير شوہر كے حمل ۳

جبرائيل :جبرائيل سے سوال۲; جبرائيل كى گواہى ۱

ذكر :الله تعالى كى ربوبيت كے ذكر كے آثار ۹; الله تعالى كى مشيت كے ذكر سے مانع ۸;اللہ تعالى كے ارادہ كے ذكر سے مانع ۸

طبيعى اسباب :طبيعى اسباب كا كردار ۵;۶;۸

عيسي(ع) :الله تعالى كى آيات ميں سے عيسي(ع) كا ہونا۱۱; ۱۳ ; عيسي(ع) كا رحمت ہونا ۱۲;۱۳;عيسى كى ولادت كا حتمى ہونا ۱۳; عيسي(ع) كى ولادت كا فلسفہ ۱۰;عيسى كى ولادت كا معجزہ ہونا ۴،۱۱،۱۳;عيسى كى ولادت ميں عظيم فوائد ہونا ۱۰ ;عيسى كى معجزانہ ولادت ۴; ۱۱; ۱۳

كرامات :غير انبياء كى كرامات ۷

مريم (ع) :مريم(ع) كے اطمينان كے اسباب ۹; مريم(ع) كى پريشانى ۲; مريم(ع) كا تعجب ۱; مريم(ع) كا حمل ۹; مريم(ع) كا قصہ ۱;۲;۹; مريم(ع) كى پاكيزگى پر گواہ لوگ ۱

نظام اسباب:۵;۶

واقعات :واقعات كا سرچشمہ ۷

۶۳۴

آیت ۲۲

( فَحَمَلَتْهُ فَانتَبَذَتْ بِهِ مَكَاناً قَصِيّاً )

پھر وہ حاملہ ہوگئيں اور لوگوں سے دور ايك جگہ چلى گئيں (۲۲)

۱_ حضرت مريم(ع) ، الله تعالى كے ارادہ اور حكم كى بناء پر بغير كسيسے جنسى آميزش حاملہ ہوگئيں _فحملته

۲_ حضرت مريم (ع) نے حضرت عيسى (ع) كا حمل اٹھا نے كے بعد اپنے عزيز واقرباء كے علاقہ سے الگ ہو كر دور كسى جگہ پر بسيرا كيا _فحملته فانتبذت به ومكا ناً قضيا

( انتباذ) كا مادہ ( نبذ) ہے اسكا معنى دورى اختيار كرنا ہے اور ( بہ ) ميں (با) ہمراہى يا سبب كيلئے ہے يعنى مريم حمل كے ساتھ يا اسكى وجہ سے دور گئيں ( قصى ) صفت مشبہ ہے اور اسكا معنى دور ہے _

۳_ حضرت مريم(ع) ، حمل كى وجہ سے كافى پريشانيوں ميں گھر گئيں _فحملته فانتبذت به مكاناً قصيا

محل سكونت چھو ڑكر دور كسى جگہ چلے جانا بتا تا ہے كہ مريم(ع) لوگوں كا سامنا كرنے اور انہيں جواب دينے سے پريشان تھيں ( انتباذ ) كا لغوى معنى (كسى ايسے آدمى كا گوشہ نشينى اختيار كرنا جو لوگوں ميں اپنے حاضر ہونے كى اہميت نہيں ديكھتا ) يہ معنى بھى اسى مطلب كى تائيد ميں ہے _

۴_عن الرضا (ع) قال : ليلة خمس و عشرين من ذى القعدة ولد فيها عيسي(ع) بن مريم(ع) (۱) امام رضا (ع) سے روايت نقل ہوئي ہے كہ ذى القعدہ كى پچسويں شب ميں حضرت عيسي(ع) ، كى ولادت ہوئي _

۵_عن سليمان الجعفرى قال: قال أبوالحسن الرضا (ع) : أتدرى مما حملت مريم (س) ؟ فقلت : لا الاّ ان تخبر نى فقال : من تمر الصرفان نزل بها جبرئيل ، فا طعمها فحملت (۲) سليمان جعفرى سے روايت ہوئي ہے كہ امام رضا(ع) نے فرمايا كيا تمہيں معلوم ہے كہ مريم (ع) كس چيزسے

____________________

۱) من لا يحضرہ الفقيہ ج۲ ص۵۴ ح۱۵ ، مسلسل ۲۳۸ ، بحارالاانوار ج۱۴ص۲۱۴ح۱۳

۲)محاسن برقى ج۲ص۵۳۷ب۱۱۰ح ۸۱۱ ، بحارالانوار ج۱۴ ص۲۱۷ ح۱۸_

۶۳۵

حاملہ ہوئيں ميں نے كہا نہيں ليكن آپ بتائيں تو انہوں فرمايا: صرفان(۱) كى كھجور سے جو كہ ان كيلئے حضرت جبرئيل لائے تھے وہ انہيں كھلا ئيں تو وہ حاملہ ہوئيں _

۶_عن ا بى الحسن موسى (ع) ...اليوم الذى حملت فيه مريم (س) يوم الجمعة للزوال (۲) امام كاظم (ع) سے روايت ہوئي كہ وہ دن كہ مريم حاملہ ہوئيں و ہ جمعہ كا دن زوال كے قريب وقت تھا _

۷_عن أبى عبدالله (ع) قال إنّ مريم (ع) حملته سبع ساعات (۳) امام صادق (ع) سے روايت ہوئي كہ بلاشبہ مريم سات گھنٹے تك حضرت عيسي سے حاملہ رہى ہيں _

الله تعالى :الله تعالى كى مشيت ۱; الله تعالى كے وادار۱

روايت :۴;۵;۶;۷

عيسى (ع):حضرتعيسى كى تاريخ ولادت ۴

مريم :مريم كا حمل ۲; مريم كے حمل كا سرچشمہ ۱; مريم كا قصہ ۱،۲،۷; مريم كى پريشانى كے اسباب ۳;مريم كى گوشہ نشينى ۲; مريم كے حمل كا وقت ۶;مريم كے حمل كى كيفيت ۵;مريم كے حمل كى مدت ۷;مريم كے حمل كے آثار ۳

آیت ۲۳

( فَأَجَاءهَا الْمَخَاضُ إِلَى جِذْعِ النَّخْلَةِ قَالَتْ يَا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هَذَا وَكُنتُ نَسْياً مَّنسِيّاً )

پھر وضع حمل كا وقت انھيں ايك كھجور كى شاخ كے قريب لے آيا تو انھوں نے كہا كہ اے كاش ميں اس سے پہلے ہى مرگئي ہوتى اور بالكل فراموش كردينے كے قابل ہوگئي ہوتى (۲۳)

۱_ بچے كى ولادت كا در د، حضرت مريم (س) كو كھجور كے درخت كے تنے كے پاس لے گيا _

فأجا ء ها المخاض إلى جذع النخلة كلمہ (ا جائ) فعل ( جائ) كا متعدى ہے يعنى لے گيا اور( مخاض )يعنى بچے كى ولادت كا در د _

____________________

۱)صرفان كى كھجور وہ ہے كہ جو گرميوں ميں پيدا ہوتى ہے ليكن مقوى ہونے كى بنا ء پر سرديوں ميں استعمال ہوتى ہے _

۲) كافى ج۱ص۴۸۰ح۴بحارالانوار ج۱۴ ص ۲۱۳ ح۱۱

۳) قصص الانبياء ص۲۶۶ح۳۰۵ فصل ۱ بحارالانوار ج۱۴ ص۲۱۶ح۱۷،

۶۳۶

۲_بچے كى ولادت كے وقت، حضرت مريم بغير كسى خوف كے رہا ئشى علاقہ سے دور تنہا رہ رہى تھيں _

مكاناً قصيا ً فا جاء ها المخاض إلى جذع النخلة جملہ (أجاء ها المخاض ) ميں مريم كو درخت كے پاس لانے كى نسبت دردزہ كى طرف دى گئي ہے اور بعد و الى آيات ميں بتا ياگيا ہے كہ مولود نے انہيں پانى كى طرف راہنمائي كى _ اور مريم نے كھجور كھانے كيلئے خود درخت كو ہلا يا يہ سب قرائن بتاتے ہيں كہ حضرت مريم بچے كى ولادت كے وقت تنہا تھيں _

۳_حضرت مريم(ع) كا وضع حمل ايسے علاقہ ميں ہو ا كہ جہاں آب و ہوا گرم تھى اور كھجوروں كے درخت تھے _

فأجا ء ها المخاض إلى جذع النخلة ( نخل) يعنى كھجور ايسى زمين ميں پيدا ہوتى ہے كہ جہاں آب و ہوا گرم ہو _

۴_ وہ كھجور كا درخت كہ جسكے پاس حضرت مريم نے پناہ لى ايك معين اور خشك درخت تھا _

فأجاء ها المخاض إلى جذع النخلة _ ( النخلة) معرفہ ہے اور اس پر (الف و لام ) ہو سكتا ہے عہد ذ ہنى ہو يعنى وہ عہد جو الله تعالى اور مريم كے درميان يا وہ عہد جو الله تعالى اور رسول اكرم (ص) كے درميان ہوا تھا اور يہ نہيں كہا گيا ( إلى النخلة) اس سے معلوم ہو تا ہے كہ جس درخت كے قريب حضرت مريم نے پناہ لى تھى وہ سوا ئے درخت كے تنہ كے كچھ نہيں تھا بعد والى آيات كہ جس ميں بتايا گيا كہ حضرت كو پانى كى موجود گى اور كھجور كھانے كيلئے درخت كو حركت دينے كے بارے ميں آگاہ كيا گيا يہ آيات بھى بتا تى ہيں يہاں معمول سے ہٹ كر معجزانہ طريقہ سے پانى اور كھچور حاصل ہوئي ہيں ورنہ مريم ان دونوں چيزوں كو جاننے كيلئے كسى راہنمائي كى محتاج نہيں تھيں _

۵_ حضرت مريم نے وضع حمل كے وقت آرزوكى كاش وہ حاملہ ہونے سے پہلے مرچكى ہوتى اور انكى يا دہى باقى نہ رہتى _

فأجاء ها المخاض قالت ياليتنى مت قبل هذا و كنت نسياً منسيّا

جملہ (وكنت نسياً منسيّاً ) بتاتا ہے كہ حضرت مريم كى موت كى آرزوكرنے كى وجہ لوگوں كى زبانوں كے زخموں سے بچناتھا اگر چہ (ألا تحزنى قد جعل ...) كے قرينہ سے معلوم ہوتا ہے كہ پانى اور غذا كے نہ ہونے نے بھى انہيں غمگين كيا ہوا تھا ليكن يہ سارے نتائج اسى زبان كے زخموں سے بچنے كى وجہ سے ہيں كہ ميں حاملہ ہونے سے پہلے كاش مرجاتى كہ لوگوں كى زبانوں كے زخموں سے بچنے كيلئے يوں سرگرداں نہ ہوتى _

۶_ حضرت مريم كا دكھ اورروحى پريشاني،حضرت عيسي(ع) كى ولادت كے وقت قابل بيان نہيں تھا _فا جا ء ها المخاض إلى جذع النخلة قالت ياليتنى مت ّقبل هذا و كنت نسياً منسيّا

۶۳۷

حضرت مريم (ع) جو كہ الله تعالى كى خاص عنايات كى حامل تھيں ان سے موت كى آرزو يقيناً ايسے شرائط ميں ہوئي ہوگى كہ جب حالات انكى برداشت اور طاقت سے باہر ہوگئے ہونگے_ بعد والى آيات كے قرينہ سے يہ حالت تہمت لگنے كے احتمال اور سرگردان ہونے سے اندرونى دباؤ كى بنا ء پرتھي_

۷_ حاملہ ہونے كى حالت ميں يا وضع حمل كے بعد موت حضرت مريم كى پريشانيوں كو ختم نہيں كرسكتى تھى _ياليتنى متّ قبل هذ حضرت مريم كے كلام ميں ( ہذا ) اصل حمل كيطرف اشارہ ہے _ نہ كہ سرگرداں ہونے يا وضع حمل كى تكليف اور تنہائي چونكہ يہ سب چيزيں حضرت مريم(ع) نے لوگوں كى زبانوں كے زخموں سے بچنے كى خاطر قبول كى تھيں وہ تواپنے ليے زنا كى تہمت لگنے سے حتّى ّ كہ موت كے بعد بھى خوفزدہ تھيں لہذا اس تہمت سے پچنے كى صورت انكے ليے حاملہ ہونے سے پہلے مرنے كى صورت ميں تھى _

۸_ حضرت مريم(ع) نے اپنے حاملہ ہونے كو مكمل طور پر لوگوں سے چھپا يا ہوا تھا _

مكاناً قصياً فاجا ء ها المخاض ياليتنى متّ قبل هذا و كنت نسياً مسيا

لوگوں سے دور چلے جانا اور وضع حمل كے وقت تنہائي اور بغير سرپرست كے ہونا يہ چيزبتاتا ہے كہ اس وقت تك حضرت مريم(ع) نے اپنے حاملہ ہونے كو لوگوں سے چھپا يا ہوا تھا _

۹_ بعض صورتوں ميں موت كى خواہش جائز اور پسنديدہ ہے _ياليتنى متّ قبل هذا

۱۰_انسان كى آبرو اور شخصيت، اسكى مادى زندگى سے اہم ہے ياليتنىمتّ قبل هذ

يہ جو حضرت مريم(ع) نے بغير آبرو كى زندگى كو موت پر ترجيح دى ہے اس سے مذكورہ حقيقت كا استفادہ ہوتا ہے

۱۱_حضرت مريم(ع) انسانى حالات اور احساسات كى حامل تھيں _ياليتنى متّ قبل هذا

حضرت مريم(ع) كا اپنے اندر غير عادى امور كے ظاہر ہونے سے رنجيدہ اور بھوك وپياس سے متاثر ہونا، اسى طرح ديگر طبيعى اسباب و غيرہ بتاتے ہيں كہ حضرت مريم(ع) بشرى صفات كى مالك انسان تھيں اور بعض عيسائيوں كى طرف سے انكے بارے ميں الوہيت كے خيالات كے باطل ہونے پر دليل ہے _

۱۲_حضرت مريم (س) لوگوں ميں انتہائي معروف اوراہم شخصيت كى مالك تھيں _ياليتنى كنت نسياً نسيا

۱۳_ لوگوں ميں حضرت مريم(ع) كى عفت و پاكيزگى كے حوالے سے شہرت ان ميں حضرت عيسي(ع) كى ولادت كے حوالے سے لوگوں كے ذہن ميں منفى ردعمل كے حوالے سے پريشانى بڑھارہى تھى _

۶۳۸

ياليتنى متّ قبل هذا و كنت نسياً منسيا

( نسى ) ايسى چيزہے كہ جسكى خاص اہميت نہيں ہے اگر چہ وہ الہى لوگوں كى ياد سے محو نہ ہو (مفردات راغب ) اس كلمہ كى (منسياً) سے توصيف ( يعنى فراموش شدہ ) بتارہى ہے كہ حضرت مريم نے صرف فراموش شدہ ہونے كى صلاحيت كى آرزونہيں كى بلكہ حقيقى طور پر فراموش ہونے كى آرزو كي_ حضرت مريم(ع) كى يہ آرز و بتاتى ہے وہ اس سے پہلے معاشرہ ميں ايك باعزت شخصيت تھيں چونكہ واقعہ لوگوں ميں منفى رد عمل پيدا كرسكتا تھا لہذا اس حوالے سے پريشان تھيں _

۱۴_روى عن الصاد ق(ع) فى قول مريم ( يا ليتنى متّ قبل ہذا : لا نہا لم ترفى قومہا رشيدا ً ذافراسة ينزہہا من السوء (۱)امام صادق (ع) سے حضر ت مريم(ع) كا حضرت عيسي(ع) كى ولادت كے وقت موت كى آرزو كے قول كے حوالے سے روايت نقل ہوئي ہے كہ آپ نے فرمايا : يہ اس ليے تھا كہ ان كو اپنى قوم ميں كوئي ايسا با شعور شخص نظر نہيں آتا تھا كہ جو انہيں زنا كى تہمت سے برى قرار ديتا _

۱۵_عن الصادق (ع) ( فى قصة مريم ) إن زكريا و خالتها أقبلا يقصان أثرها حتّى هجما عليها و قد وضعت ما فى بطنها و هى تقول : ''يا ليتنى متّ قبل هذا و كنت نسياً منسياً'' (۲) ( حضرت مريم(ع) كى داستان كے حوالے سے ) امام صادق (ع) سے روايت ہوئي كہ حضرت زكريا(ع) اور حضرت مريم(ع) كى خالہ انكى تلاش ميں تھے كہ ايك دم وہ مل گئيں اس حال ميں كہ حضرت عيسى (ع) دنيا ميں قدم ركھ چكے تھے اور وہ كہہ رہى تھيں _ياليتنى متّ قبل هذ

آبرو :آبرو كى اہميت ۱۰

آرزو :موت كى آرزو ۵;۱۴;۱۵; موت كى آرزو كا جائز ہونا ۹

احكام :۹//روايت :۱۴;۱۵//زندگى :زندگى كى اہميت ۱۰

عيسى (ع) :عيسى (ع) كى ولادت كے آثار ۱۳

مريم (ع) :مريم(ع) كا احترام ۱۲; مريم (ع) كا بشر ہونا ۱۱ ; مريم(ع) كا حمل چھپا نا ۸; مريم (ع) كاغم ۶ ;مريم(ع) كا قصہ ۲،۳ ،۴ ،۵ ، ۶ ، ۷ ،۸، ۱۴،۱۵;مريم (ع) كا وضع حمل ۵،۶ ; مريم(ع) كى آرزو ۵،۱۵;مريم(ع) كى آرزو كا فلسفہ ۱۴; مريم (ع) كى پريشانى ۶،۷;مريم(ع) كى پريشانى كے اسباب ۱۳;

____________________

۱ ) مجمع البيان ج۶ص۷۹۰، نور الثقلين ج۳ ص۳۳۰ح۴۶_

۲)كمال الدين صدوق ج۱ ، ص۱۵۸ ب۷ ح۱۷ ، بحارالانوار ج۱۳ص۴۴۹ح۱۰_

۶۳۹

مريم 'س'كى پناہ گاہ ۱،۲; مريم(ع) كى پناہ گاہ كى موقعيت ۳; مريم (ع) كى تنہائي ۲;مريم (ع) كى شہرت ۱۳ ; مريم(ع) كى عفت ۱۳; مريم(ع) كى فراموشى ۵; مريم (ع) كى معاشر تى موقعيت ۱۲; مريم (ع) كى دعوت۷; مريم(ع) كے احساسات ۱۱ ;مريم (ع) كے قصہ ميں كھجور كے گذشتہ آيات ميں ( فحملتہ فانتبذت بہ )

درخت كى خصوصيات ۴;مريم (ع) ے قصہ ميں نخل ۱; مريم(ع) كے وضع حمل كى خصوصيات ۲;مريم (ع) كے وضع حمل والا مقام ۳;مريم(ع) ميں وضع حمل كے درد كے آثار ۱

آیت ۲۴

( فَنَادَاهَا مِن تَحْتِهَا أَلَّا تَحْزَنِي قَدْ جَعَلَ رَبُّكِ تَحْتَكِ سَرِيّاً )

تو اس نے نيچے سے آواز دى كہ آپ پريشان نہ ہوں خدا نے آپ كے قدموں ميں چشمہ جارى كرديا ہے (۲۴)

۱_ حضرت مريم(ع) كا كھجور كے درخت كے قريب، وضع حمل ہوا اور حضرت عيسي(ع) نے دنيا ميں قدم ركھا _

فا جا ء ها المخاض إلى جذع النخلة فنادى ها

(فناداها ) ميں فاء فصيحہ ہے اور اپنے سے پہلے ايك محذوف جملہ كى حكايت كررہى ہے اور جملہ كا مطلب حضرت عيسى كى كھجور كے درخت كے قريب ولادت ہے _

۲_ حضرت عيسي(ع) نے وضع حمل كے بعد اپنى والدہ سے انكے روحى و جسمانى حوالے سے سخت ترين حالات ميں ان سے كلام كيا اور انہيں حوصلہ ديا_فحملته فنادى ها من تحتها ألاتخزني

كى ضميروں كے قرينہ سے ( نادى ) ميں فاعلى ضمير سے مراد حضرت عيسي(ع) ہيں اور فناداھا كى ضمير كى مانند ( من تحتہا ) كى ضمير سے بھى مراد حضرت مريم ہيں بعض نے ( نادى ) كا فاعل حضرت جبرئيل كو جانا اور ( من تحتہا ) كى ضمير كو نخلة يا حضرت مريم كى طرف لوٹا يا ہے ليكن جو كچھ كہا گيا ہے وہ سياق وسباق آيات سے زيادہ مناسب ہے _

۳_ حضر ت عيسي(ع) نے پيدا ہوتے ہى اپنى والدہ حضرت مريم(ع) كو غم نہ كرنے كى نصيحت كى _

فنادى ها من تحتها ألا تحزني

۴_ الله تعالى نے حضرت عيسي(ع) كى ولادت كے ساتھ ہى حضرت مريم كے ٹھہر نے كى جگہ كے نيچے سے چشمہ جارى كيا _فنادى ها من تحتها ألا تحزنى قد جعل ربّك تحتك سريا

( سري) سے مراد چھوٹا ساپانى كا نالہ اور يہ (رفيع) كے معنى ميں بھى استعمال ہوا ہے ليكن بعد والى آيات ميں جملہ'' اشربي'' '' پہلے معنى پرہى قرينہ ہے ''

۶۴۰

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809

810

811

812

813

814

815

816

817

818

819

820

821

822

823

824

825

826

827

828

829

830

831

832

833

834

835

836

837

838

839

840

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863

864

865

866

867

868

869

870

871

872

873

874

875

876

877

878

879

880

881

882

883

884

885

886

887

888

889

890

891

892

893

894

895

896

897

898

899

900

901

902

903

904

905

906

907

908

909

910

911

912

913

914

915

916

917

918

919

920

921

922

923

924

925

926

927

928

929

930

931

932

933

934

935

936

937

938

939

940

941

942

943

944

945