تفسير راہنما جلد ۱۰

تفسير راہنما 6%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 945

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 945 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 247160 / ڈاؤنلوڈ: 3402
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱۰

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

يہاں يہ اس بات كى حكايت كرتا ہے كہ برادران يوسف اس كلام كے مضمون پر اطمينان ركھتے تھے_

احكام :۴برادران يوسف :برادران يوسف اور يعقوبعليه‌السلام ۱، ۲، ۷، ۸; برادران يوسف كا اطمينان ۸;برادران يوسف كا اقرار۵; برادران يوسف كا توجيہ كرنا ۳;برادران يوسف كا جھوٹ بولنا ۱، ۲، ۳، ۸;برادران يوسف كا دعوي ۶;برادران يوسف كا عذر لانا ۳;برادران يوسف كى تہمتيں ۷; برادران يوسف كى سازش ۱، ۲، ۵، ۸

مقابلہ :مقابلے كے احكام ۴

يعقوبعليه‌السلام :يعقوبعليه‌السلام اور برادران يوسف ۶;يعقوب(ع) پر تہمت ۷; يعقوبعليه‌السلام كے دين ميں مقابلے۴

يوسفعليه‌السلام :يوسفعليه‌السلام كا بھيڑيئے كا لقمہ بننا ۳، ۵، ۶; يوسفعليه‌السلام كا قصّہ ۱، ۲، ۳، ۵، ۶، ۸;يوسف(ع) كى محافظت ميں كمى كرنا۵

آیت ۱۸

( وَجَآؤُوا عَلَى قَمِيصِهِ بِدَمٍ كَذِبٍ قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ أَنفُسُكُمْ أَمْراً فَصَبْرٌ جَمِيلٌ وَاللّهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَى مَا تَصِفُونَ )

اور يوسف كے كرتے پر جھوٹا خون لگا كرلے آئے _يعقوب نے كہا كہ يہ بات صرف تمھارے دل نہ گڑھى ہے لہذا ميرا راستہ صبر جميل كاہے اور اللہ تمھارے بيان كے مقابلہ ميں ميرا مددگار ہے (۱۸)

۱_ يوسفعليه‌السلام كے بھائيوں نے اسكو كنويں ميں ركھنے سے پہلے اس كے بدن سے قميص كو اتار ليا _

و جاء و على قميصه بدم كذب

۲_ برادران يوسف(ع) نے جھوٹ كے خون ( جو اسكا خون نہيں تھا) سے اسكى قميص كو رنگين كرديا_

وجاء و على قميصه بدم كذب

۳_ برادران يوسف(ع) ، يعقوب(ع) كو خون والى قميص دكھاكر اپنےمن گھڑت دعوى كو ثابت كرنا چاہتے تھے_

وجاء و على قميصه بدم كذب

۴_ يوسفعليه‌السلام كى قميص كا خونى ہونا يہ واضح و روشن دليل تھى كہ يوسفعليه‌السلام بھيڑے كا لقمہ نہيں بنے _

وجاء و على قميصه بدم كذب

(بدم ) كا لفظ ( جاءو ) كے ليے مفعول ہے اور ( على قميصہ ) لفظ ( دم ) كے ليے حال ہے _ لہذا (جاوء ...) كا معنى يہ ہوگا كہ وہ جھوٹے خون كو لائے تھے

۴۰۱

حالانكہ وہ خون قميص كے سامنے والے حصہ پر تھا حالانكہ عموماً زخمى ہونے والے كے لباس كا اندر اور استروالا حصہ خونى ہوتا ہے _ ليكن يوسفعليه‌السلام كے لباس كا اوپر والا حصہ خونى تھا اس سے يعقوب عليہ السلام بھانپ گئے كہ انكا بيٹا بھيڑے كا لقمہ نہيں بنے ہيں _

۵_ برادران يوسف نے يوسف(ع) كى قميص كو جس خون سے رنگين كيا تھا اس خون سے بخوبى معلوم ہوتا تھا كہ يہ جناب يوسف(ع) كا خون نہيں ہے _وجاء و على قميصه بدم كذب

(كذب) مصدر ہے ليكن آيت شريفہ ميں اسم فاعل ( كاذب) كے معنى ميں آيا ہے _ جب مصدر كو اسم فاعل كے معنى ميں استعمال كيا جائے تو مبالغہ كا فائدہ ديتا ہے _ تو ( دم كذب) كا معنى يہ ہوگا كہ ايسے جھوٹ كا خون كہ اسكا جھوٹا ہونا واضح اور وشن تھا_

۶_ برادران يوسف نے ان كى قميص جو كہيں سے بھى پھٹيہوئي نہيں تھى كو دكھا ياتو ان كا جھوٹا دعوى ( كہ يوسفعليه‌السلام كوبھيڑيا كھا گيا ہے ) واضح ہوگيا _وجاء و على قميصه بدم كذب

معمولاً جو شخص درندوں كا لقمہ بنتا ہے اسكا لباس صحيح و سالم نہيں رہتا _ اور زيادہ پھٹنے كى وجہ سے وہ لباس كى ماہيت سے خارج ہوجاتا ہے لہذا (قميص) كالفظ آيت ميں ذكر ہوا جسكو برادران يوسف نے يعقوبعليه‌السلام كو دكھا يا يہ اس بات كى طرف اشارہ كرتا ہے كہ يا تو لباس مكمل طور پرصحيح و سالم تھا يا نسبتاً سالم تھا يہ دوسرى دليل ہوئي كہ برادران يوسف اپنے دعوى ميں سچے نہيں ہيں _

۷_ يعقوب عليہ السلام اپنے بيٹوں كى اس قصّہ بيانى كو قبول نہيں كيا اور اس كے جھوٹے ہونے پر مطمئن ہوگئے _

فأكله الذئب قال بل سؤلت لكم انفسكم امر

(تسويل) ''سوّلت ''كا مصدر ہے جو آسان كرنے كے معنى ميں آتا ہے نيز ناپسند شے كو زينت دينا تا كہ اچھى معلوم ہو يہاں ( امر ) سے مراد يوسفعليه‌السلام كے خلاف مكر وفريب ہے اسى وجہ سے (بل سوّلت ...) كا معنى يوں ہوگا جو بات كہہ رہے ہو وہ درست نہيں ہے _ بلكہ تمہارے نفس نے ناپسند شے كو تمہارے ليےاچھا جلوہ ديا ہے اور اسكا مرتكب ہونا تمہارے ليے آسان ہے _

۸_ يعقوب عليہ السلام كو يوسفعليه‌السلام كے خلاف اپنے بيٹوں كى طرف سے سازش كرنے پر اطمينان تھا _بل سؤلت لكم انفسكم امر

۴۰۲

كلمہ (بل) اس بات كو بتاتا ہے كہ يعقوب عليہ السلام نے اپنے بيٹوں كى بات كو قبول نہيں كيا اور (سوّلت لكم ) كا جملہ بتاتا ہے كہ و ہ يوسف عليہ السلام كے خلاف ان كى سازش كو بھانپ گئے تھے_

۹_ يعقوب عليہ السلام حضرت يوسف(ع) كے خلاف اپنے بيٹوں كى سازش كا سبب ان كے نفس كا فريب اور نفسانيمكاريوں كا جلوہ سمجھتے تھے_بل سوّلت لكم انفسكم أمر

۱۰_ انسان كا نفس، بُرے و نامناسب كاموں كو زيبا ديكھانے اور ان كے انجام دلوانے پر قدرت ركھتا ہے _

بل سوّلت لكم انفسكم امر

۱۱_ يعقوب عليہ السلام نے اس بات كا فيصلہ كرليا كہ وہ اپنے بيٹوں كى اس خيانت پر جو يوسفعليه‌السلام كے بارے ميں تھى پر سكوت اختيار كريں اور اسكى چھان بين نہ كريں _بل سوّلت لكم و الله المستعان على ما تصفون

۱۲_ يعقوبعليه‌السلام نے يوسفعليه‌السلام كى جدائي اور اپنے بيٹوں كى غلط رفتار پر صبر و بردبار رہنے كا فيصلہ كرليا _فصبر جميل

ما قبل جملات كے قرينہ كى بناء پر(صبر ) كا متعلق يوسفعليه‌السلام كى جدائي اور ان كے بيٹوں كا جھوٹے قصّوں كى مناظر كشى اور غلط كام ہيں _

۱۳_ مشكلات اور تلخ ترين واقعات ميں صبر و حوصلہ سے كام لينا اچھى اور قابل تعريف خصلت ہے _ /فصبر جميل

مذكورہ تفسير اس صورت ميں ہے كہ جب لفظ (صبر) مبتدا اور (جميل) اسكى خبر ہے _

۱۴_ يعقوب عليہ السلام كا فراق يوسفعليه‌السلام ميں صبر و حوصلہ كرنا، قابل تعريف و تحسين تھا_فصبر جميل

كيونكہ ( جميل) (صبر) كے ليے صفت ہے تو يہاں مبتدا كو محذوف ليا جائے گا ( صبرى صبر جميل) يا خبر كو محذوف ليا جائے گا ( صبر جميل احسن) مذكورہ معنى اسى احتمال كى صورت ميں ہے _

۱۵_حضرت يعقوب(ع) نے حضرت يوسف(ع) كے بارے ميں اپنے بيٹوں كے اظہار نظر كى حقيقت كو معلوم كرنے كے ليئے خداوند عالم سے مدد طلب كي_والله المستعان على ما تصفون

(وصف) ''تصفون ''كا مصدر ہے جو بيان كرنے كے معنى ميں آتا ہے _ لفظ( ما ) سے مراديوسف(ع) كے بھائيوں كى يوسفعليه‌السلام كے بارے ميں جھوٹى باتيں ہيں ان كى غلط اور غير حقيقت باتوں كے بارے ميں خداوند متعال سے مدد طلب كرنے كا معنى يہ ہے كہ ان باتوں كى حقيقت ظاہر ہوجائے _

۴۰۳

۱۶_ يعقوبعليه‌السلام بہت زيادہ صابر اور موحد شخصيت تھے جو صرف خداوند وحدہ لاشريك كو مدد دينے پر قادر سمجھتے تھے _

والله المستعان على ما تصفون

۱۷_ اپنے امور ميں ضرورى ہے كہ صرف خداوند متعال پر توكل كيا جائے اور اس سے مددحاصل كى جائے_

والله المستعان على ما تصفون

(والله المستعان ) كى مثل جملات ميں مبتداء معرفہ اور اسكى خبر الف لام كے ساتھ غير عہدى ہے اور وہ حصر پر دلالت كرتى ہے _

۱۸_ خداوند متعال پر توكل كرنے والے بہت زيادہ صبر اور مقاومت كرنے والے انسان ہيں _

فصبر جميل والله المستعان على تصفون

۱۹_'' عن ا بى عبدالله عليه‌السلام '' قال لما ا وتى بقميص يوسف الى يعقوب كان به نضح من دم (۱)

ترجمہ : امام صادق(ع) سے روايت ہے كہ جب يعقوبعليه‌السلام كے ليے يوسف(ع) كى قميص لائي گئي تو اس پر خون كے چھينٹے گرائے گئے تھے_

۲۰_'' عن ا بى جعفر عليه‌السلام فى قوله '''' و جاؤ وا على قميصه بدم كذب'' قال: انهم ذبحوا جدياً على قميصه _ (۲)

امام باقرعليه‌السلام سے الله تعالى كے اس قول (جاؤ وا ...) كے بارے ميں روايت ہے : آپعليه‌السلام نے فرمايا كہ انہوں نے بكرى كے بچے كو انكى قميص پر ذبح كيا تھا_

۲۱_'' عن على بن الحسين عليه‌السلام ... قال (يعقوب لهم ) بل سوّلت لكم ا نفسكم ا مراً و ما كان الله ليطعم لحم يوسف الذئب من قبل ا ن ا رى تا ويل رؤياه الصادقة (۳)

امام سجادعليه‌السلام سے روايت ہے يعقوبعليه‌السلام نے برادران يوسف(ع) سے كہا '' بل سوّلت لكم انفسكم امراً'' اور ايسا نہيں ہوسكتا كہ خداوند متعال يوسف عليہ السلام كے گوشت كو بھيڑے كى خوراك بنا دےقبل اس كے كہميں اسكى خواب كى صحيح تعبير و تاويل ديكھ نہ لوں _

۲۲_ '' عن الصادق عليه‌السلام فى قوله عزّوجل فى قول يعقوب '' فصبر جميل '' قال : بلا شكوى (۴)

____________________

۱) تفسير عياشى ، ج ۲، ص۱۷۱، ح۹، نورالثقلين ، ج۲ ص۴۱۷، ج۲۸_۲) تفسير قمى ، ج۱، ص۳۴۱، نورالثقلين ، ج۲، ص۴۱۷، ح۲۷_

۳) تفسير عياشى ، ج۲، ص۱۶۹، ح۵، تفسير برهان ، ج ۲ص ۲۴۷، ح۵_۴) امالى شيخ طوسى ، ج۱، ص۳۰۰، نور الثقلين ، ج۲، ص ۴۵۲، ح۱۴۷_

۴۰۴

امام صادقعليه‌السلام سے حضرت يعقوبعليه‌السلام كے قول كے بارے ميں خداوند عالم كے اس فرمان (فصبر جميل) كے بارے ميں روايت ہے: اس سے مرادايسا صبر جسميں شكوہ نہ ہو _

الله تعالى :الله تعالى كى مختصّات ۱۶; الله تعالى كى امداد ۱۶

برادران يوسفعليه‌السلام :برادران يوسفعليه‌السلام اور يعقوبعليه‌السلام ۳;برادران يوسف(ع) اور يوسفعليه‌السلام كى قميص۱، ۳;برادران يوسف(ع) كا جھوٹ بولنا ۷; برادران يوسف كا ناپسند عمل ۱۲; برادران يوسف(ع) كى سازش ۱، ۲، ۳، ۵، ۱۵، ۲۰، ۲۱ ; برادران يوسف كى سازش كے عوامل ۹; برادران يوسف كى ہوا و ہوس ۹، ۱۲;برادران يوسف كے جھوٹ بولنے كى وجوہات ۴، ۵، ۶;

توكلّ:الله تعالى پر توكل كى اہميت ۱۷

روايت : ۱۹، ۲۰، ۲۱، ۲۲/شدّت :شدّت ميں صبر۱۳

صابرين :۱۶، ۱۸/صبر:صبر كى اہميت ۱۳; صبر جميل۱۳; صبر جميل سے مراد۲۲

عمل :ناپسنديدہ عمل كا سبب ، ۱۰; ناپسنديدہ عمل كو خوبصورت پيش كرنے كى وجہ ۱۰

متوكلين :متوكلين كا صبر ۱۸; متوكلين كى خصوصيات ۱۸

موحدين : ۱۶/ہوا و ہوس:ہوا و ہوس كے آثار ۹، ۱۰

يعقوبعليه‌السلام :يعقوب(ع) اور برادران يوسف ۷; يعقوب(ع) اور برادرا ن يوسف كى سازش ۸، ۱۱;يعقوبعليه‌السلام اور حقائق كا ظاہر ہونا ۱۵;يعقوبعليه‌السلام كا اطمينان ۷، ۸; يعقوبعليه‌السلام كا صبر ۱۲، ۱۶، ۲۲; يعقوبعليه‌السلام كا عقيدہ ۱۶;يعقوبعليه‌السلام كا قصّہ ۱۱، ۱۲; يعقوبعليه‌السلام كا فيصلہ ۱۱، ۱۲; يعقوبعليه‌السلام كا مدد طلب كرنا ۱۵;يعقوبعليه‌السلام كى توحيد افعالى ۱۶;يعقوبعليه‌السلام كى سوچ ۹;يعقوبعليه‌السلام كى شخصيت ۱۶;يعقوبعليه‌السلام كے صبر كى تعريف ۱۴; يعقوبعليه‌السلام كے فضائل ۱۶

يوسفعليه‌السلام :

يوسفعليه‌السلام كا بھيڑے كا لقمہ بننا ۴،۶; يوسفعليه‌السلام كا قصّہ ۱، ۲، ۳، ۴، ۵، ۶، ۷، ۸، ۹، ۱۱، ۱۹، ۲۰، ۲۱; يوسف(ع) كى جدائي ميں صبر ۱۲، ۱۴;يوسف(ع) كى قميص ۶; يوسفعليه‌السلام كى قميص كا خون ۲، ۴، ۵، ۱۹، ۲۰;يوسفعليه‌السلام خلاف سازش ۸،۹

۴۰۵

آیت ۱۹

( وَجَاءتْ سَيَّارَةٌ فَأَرْسَلُواْ وَارِدَهُمْ فَأَدْلَى دَلْوَهُ قَالَ يَا بُشْرَى هَـذَا غُلاَمٌ وَأَسَرُّوهُ بِضَاعَةً وَاللّهُ عَلِيمٌ بِمَا يَعْمَلُونَ )

اور وہاں ايك قافلہ آيا جس كے پانى نكالنے والے نے اپنا ڈول كنويں ميں ڈالا تو آواز دى ارے واہ يہ تو بچہ ہے اور اسے ايك قيمتى سرمايہ سمجھ كر چھپاليا اور اللہ ان كے اعمال سے خوب باخبر ہے (۱۹)

۱_ جس كنويں ميں حضرت يوسفعليه‌السلام تھے اس كے اطراف ميں ايك قافلے نے پڑاؤ ڈالا اور جو پانى لانے پر مامور تھا انہوں نے اسے كنويں كى طرف روانہ كيا_و جاء ت سيّارة فا رسلوا واردهم

'' وارد '' اس شخص كو كہتے ہيں جو كنويں ، نہر اور اس طرح كى جگہوں سے پانيلينےآتا ہے _

۲_ قافلے كا پانى لانے والے نے جب پانى لينے كے ليے كنعان كے كنويں ميں اپنا ڈول ڈالاتو خلاف توقع اس نے ايك بچے كو باہر نكالا_فأدلى دلوه قال يا بشرى هذا غلام

( أدلا ) ا دلى كا مصدر ہے جو ڈول ڈالنے كے معنى ميں آتا ہے _اور ''غلام '' چھوٹے بچے كو كہا جاتا ہے _( مصباح الميز )

۳_ يوسفعليه‌السلام نے قافلہ كے پانى لانے والے كى رسّى و ڈول سے چمٹكراپنے آپ كو كنويں سے نجات دى _

فأرسلوا و اردهم فأدنى دلوه قال يا بشرى هذا غلام

۴_ قافلے كاپانى لانے والا، حضرت يوسفعليه‌السلام كوپاكر بہت متعجب اور خوشحال ہوا اور اپنے ساتھيوں كواسكى خوشخبرى دي_قال يا بشرى هذا غلام

۵_ يوسفعليه‌السلام كو پانے والا قافلہ حضرت يوسف(ع) كو بطور تجارتى سامان اپنے ساتھ لے گيا_و اسرّوه بضعة

(بضاعة) اس مال و اجناس كو كہتے ہيں جو تجارت

۴۰۶

كے ليے ہو تا ہے_

۶_حضرت يوسف(ع) كو پانے والے قافلہ نے ان كو تجارتى سامان قرار دہتے كى وجہ سے چھپانے كى بہرپور كوشش كي_

و اسرّوه بضعة

(اسرّوا) (پوشيدہ و مخفى ركھنا) كے معنى ميں (قرار ينے كا مضى متضمن ہے) اسى وجہ سے لفظ (بضاعة) كو مفعول دوم كے طور پر منصوب كيا گيا ہے_ تو جملے كا معنى يوں ہوگا كہ يوسفعليه‌السلام كو تجارتى سامان بنا كر انكو مخفى ركھا گيا_

۷_ يوسفعليه‌السلام كا كنويں سے نجات پانا، ان كى غلامى كا آغاز تھا_و اسّروه بضعة

انسان كو ( بضاعت) تجارتى سامان قرار دينا ،اس كے غلام ہونے يا غلام خيال كرنے كے مترادف ہے_

۸_حضرت يعقوبعليه‌السلام كے زمانے ميں انسانوں كو غلام كے طور پر خريد و فروخت كا رواج تھا_و أسرّوه بضعة

۹_ خداوند متعال، انسانوں كے اعمال و كردار سے آگاہ ہے_و اللّه عليم بما يعملون

۱۰_ اہل قافلہ، يوسفعليه‌السلام كو غلام بنانے كو غير شرعى اور غير قانونى كام سمجھتے تھے_و أسرّوه بضاعة و اللّه عليم بمايعملون

حالانكہ وہ بچہ جو لا وارث ملا ہو اسكو غلامى ميں لانا اور قابل فروخت قرار دينا جائز اور قانونى كام تھا_لہذايوسفعليه‌السلام كو مخفى ركھنا،معقول نہيں تھا _(ا سرّوه بضاعة)

۱۱_ يوسفعليه‌السلام كو پانے والا قافلہ، ان كو ( خريد و فروخت كا) سامان قرار دينے پر گنہگار اور عذاب الہى كا مستحق قرار پايا_

و أسرّوه بضاعة و اللّه عليم بما يعملون

اس چيز كى ياد آورى كہخداوند متعال، بندوں كے اعمال سے آگاہ ہے ممكن ہے اس كے عذاب دينے كى طرف اشارہ ہو_

۱۲_ يعقوبعليه‌السلام كے زمانہ ميں راستہ سے ملنے والے انسان كى خريد و فروخت، نامناسب اور غير قانونى كام تھا_

و أسرّوه بضاعة

۱۳_ كنعان كے كنويں كے اطراف ميں اہل قافلہ كا كچھ دير كے ليے پڑاؤ ڈالنا اور كنويں سے يوسفعليه‌السلام كو نجات دينا اور اپنے ساتھ لے جانا، مشيت الہى كے مطابق اور اسكى دقيق نظارت ميں انجام پايا _

و جاء ت سيّارة و اللّه عليم بما يعملون

(ما يعملون) ميں ''ما'' سے مراد ممكن ہے يوسف (ع)

۴۰۷

كو خريد و فروخت كا ساما ن قرار دينا ہو (أسرّوه بضاعة ) اور نيز يہ بھى احتمال ہے كہ قافلہ كى تمام داستان جو يوسف(ع) كے بارے ميں ہے وہ مراد ہو_ پہلے احتمال كى بناء پرالله كا علم ان كے اعمال و رفتار كے بارے ميں ( خريد و فروخت كاسامان قرار دينا) انكو سزا دينے كے بارے ميں كنايہ ہے_دوسرے معنى كى صورت ميں علم خدا، اس كى تقدير و تدبير سے كنايہ ہے _ يعنى تمام امور جو يوسفعليه‌السلام كو كنويں سے نجات دينے كاسبب ہوئے ( كنعان كے اطراف ميں قافلے كا گزرنا ، كنويں كے قريب پڑاؤ ڈالنا ...) تمام كے تمام امورالله تعالى كى نظارت و نگرانى ميں واقع ہوئے_

الله تعالى :الله تعالى كا علم غيب ۹; الله تعالى كى تقدير ۱۳; الله تعالى كى نظارت ۱۳

اسماء و صفات :عليم ۹

غلامى كا نظام :غلامى كے نظام كى تاريخ ۸; يعقوبعليه‌السلام كے زمانے ميں غلامى كا نظام ۸

گمشدہ (انسان ) كى دريافت :گمشدہ انسان كى تجارت كا ناپسنديدہ ہونا ۱۲; يعقوبعليه‌السلام زمانہ ميں گمشدہ انسان كى تجارت ۱۲

يوسفعليه‌السلام كو پانے والا قافلہ:يوسفعليه‌السلام كو پالينے والا قافلہ اور يوسفعليه‌السلام ۵، ۶، ۱۰، ۱۱;يوسفعليه‌السلام كو پانے والے قافلے كا پڑاؤ ۱۳; يوسفعليه‌السلام كو پانے والے قافلے كاساقى ۱; يوسفعليه‌السلام كو پانے والے قافلے كو بشارت۴;يوسفعليه‌السلام كو پانے والے قافلے كے ساقى كى بشارت ۴; يوسفعليه‌السلام كو پالينے والے قافلے كى سزا،۱۱;يوسف(ع) كو پالينے والے قافلے كے ساقى كى خوشى ۴; يوسفعليه‌السلام كے پانے والے قافلے كى فكر ۱۰

يوسفعليه‌السلام :يوسفعليه‌السلام كا چھپانا ۶; يوسفعليه‌السلام كا قصّہ ۱، ۲، ۳، ۴، ۵، ۶ ، ۷، ۱۳; يوسفعليه‌السلام كى غلامى ۷، ۱۰;يوسفعليه‌السلام كى كنويں سے نجات ۲، ۳، ۷، ۱۳;يوسفعليه‌السلام كے كنويں كا قصّہ ۱

۴۰۸

آیت ۲۰

( وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ دَرَاهِمَ مَعْدُودَةٍ وَكَانُواْ فِيهِ مِنَ الزَّاهِدِينَ )

اور ان لوگوں نے يوسف كو معمولى قيمت پر بيچ ڈالا چند درہم كے عوض اور وہ لوگ تو ان سے بيزار تھے ہي(۲۰)

۱_ يوسفعليه‌السلام كو اہل قافلہ نے بہت ہى ناچيز اور كم درہموں ميں فروخت كرديا_و شروه بثمن بخس دراهم معدودة

(شرائ) (شروا) كا مصدر ہے فروخت كرنے كے معنى ميں آتا ہے_ اور (شروہ) ميں فاعل كى ضمير (سيّارة) كى طرف لوٹتى ہے (بخس ) مصدر ہے جو اسم مفعول كے معنى ميں ہے_( مبخوس _ ناقص اور ناچيز)كے معنى ميں ہے ( ثمن بخس) يعنى جس قيمت سے خريدارى كى گئي ہے وہ شے ارزش كے اعتبار سے اس سے زيادہ ہو (معدودة) كا معنى شمار كيا گيا ہےيہاں بہت كم ہونے سے كنايہ ہے_

۲_ تمام اہل قافلہ خود كو يوسفعليه‌السلام كى نسبت صاحب نفع خيال كرتے تھے اور اپنے آپ كو اسكا مالك سمجھتے تھے_

اسرّوه بضاعة و شروه بثمن

يوسفعليه‌السلام كو تجارتى سامان قرار دينے اور انہيں فروخت كرنے كى نسبت قافلہ كيطرف دى گئي ہے اس سے مذكورہ تفسير كا استفادہ ہو تاہے_

۳_ اہل قافلہ جنہوں نے يوسفعليه‌السلام كوپاياتھا ان كو اپنے پاس ركھنے ميں كوئي دلچسپى نہيں ركھتے تھے_

شروه و كانوا فيه من الزاهدين

(زہد) كسى شے كو بے فائدہ سمجھ كر اسكى طرف رغبت نہ ركھنے كو كہتے ہيں _ شايد اہل قافلہ كو خوف تھاكہ لا وارث انسان كو غلام بناناايك نامناسب رويہ ہے اور يہ لوگوں پر فاش نہ ہوجائے_ اس وجہ سے انہوں نے اس كے ليے بہت ہى كم قيمت قراردى تا كہ جلدى ہى فروخت ہوجائے_

۴_ اہل قافلہ كا يوسفعليه‌السلام كى فروخت ميں جلدى كرنا اور ان كى نگہداشت ميں بے توجہى كا اظہار كرنا، انكو كم قيمت فروخت كرنے كا سبب تھا_و شروه بثمن بخس و كانوا فيه من الزاهدين

۴۰۹

(و كانوا ) كا جملہ (شروه بثمن بخس ) كے جملے كى تعليل كے مقام پرہے _ يعنى يوسفعليه‌السلام كو اپنے پاس ركھنے ميں ان كى دلچسپى نہ لينا ، ان كو كم قيمت فروخت كرنے كا موجب تھي_

۵_ يوسفعليه‌السلام كے بھائيوں نے اسكو بہت ہى كم درہم اور ناچيز سى قيمت اہل قافلہ كو فروخت كرديا_

و شروه بثمن بخس

مذكورہ تفسير اس صورت ميں ہوسكتى ہے كہ(شروہ) كے فاعل كى ضمير سے مراد برادران يوسف ہوں اس بناء پر يوسفعليه‌السلام كے بھائي فروخت كرنے والے اور اہل قافلہ اس كے خريدارتھے_ عبارت(الذى اشتراہ من مصر)بعد والى آيت ميں ممكن ہے اس بات كى تائيد كرتى ہوچونكہ مصر ميں يوسفعليه‌السلام كى خريد و فروخت سے پہلے بھى ان كى ايك مرتبہ خريد و فروخت ہوچكى ہے_

۶_ يوسف(ع) ، اپنے بھائيوں كى نظر ميں بے قيمت اور كم ارزش تھے_و كانوا فيه من الزاهدين

(كانوا) كى ضمير مذكورہ معنى كى صورت ميں برادران يوسفعليه‌السلام كى طرف لوٹ رہى ہے _

۷_ يعقوبعليه‌السلام كے زمانے ميں انسانوں كى غلامى كا اور انكى خريد و فروخت كا كام رائج تھا_و شروه بثمن بخس

۸_ يعقوبعليه‌السلام كے زمانے ميں درہم ( چاندى كا سكہ) رائج كرنسى تھي_دراهم معدودة

۹_'' عن على ابن الحسين عليه‌السلام : فلما ا خرجوه ا قبل إليهم إخوة يوسف فقالوا هذا عبدنا ا منكم من يشترى هذا العبد؟ فاشتراه رجل منهم بعشرين درهماً و كان اخوته فيه من الزاهدين (۱)

امام سجادعليه‌السلام سے روايت ہے كہ جب قافلے والوں نے يوسفعليه‌السلام كوكنويں سے باہر نكالا تو اس كے بھائي ان كے قريب گئے اور ان سے كہا : كہ يہ ہمارا غلام ہے كيا كوئي تم ميں سے ايسا ہے جو اسكو خريدے؟ تو اس وقت ايك شخص نے ان سے بيس درہم ميں خريد ليا اور حضرتعليه‌السلام كے بھائي ان ميں كوئي دلچسپى نہيں لے رہے تھے_

برادران يوسف(ع) :برادران يوسف(ع) اور يوسفعليه‌السلام ۵، ۶; برادران يوسف(ع) كى فكر ۶

درہم :يعقوبعليه‌السلام كے زمانے ميں درہم كا ہونا ۸

____________________

۱)علل الشرائع ، ص ۴۸، ح ۱ ، ب ۴۱; نور الثقلين ، ج ۲، ص ۴۱۳، ح ۱۷_

۴۱۰

روايت : ۹

غلام ركھنا :غلام ركھنے كى تاريخ ۷; يعقوبعليه‌السلام كے زمانے ميں غلام كا ركھنا ۷

كرنسى :كرنسى كى تاريخ ۸; يعقوبعليه‌السلام كے زمانے ميں رائج كرنسى ۸

يوسفعليه‌السلام كو پانے والا قافلہ :يوسفعليه‌السلام كو پانے والا قافلہ اور يوسفعليه‌السلام ۱، ۲، ۳، ۴; يوسفعليه‌السلام كو پانے والے قافلہ كا دعوى ۲

يوسفعليه‌السلام :يوسفعليه‌السلام سے بے توجہى ۳، ۴، ۹; يوسفعليه‌السلام كا قصّہ ۱، ۲، ۳، ۴، ۵، ۶، ۹;يوسفعليه‌السلام كى فروخت ۱، ۴، ۵، ۹; يوسفعليه‌السلام كى ملكيت كا دعوى ۲

آیت ۲۱

( وَقَالَ الَّذِي اشْتَرَاهُ مِن مِّصْرَ لاِمْرَأَتِهِ أَكْرِمِي مَثْوَاهُ عَسَى أَن يَنفَعَنَا أَوْ نَتَّخِذَهُ وَلَداً وَكَذَلِكَ مَكَّنِّا لِيُوسُفَ فِي الأَرْضِ وَلِنُعَلِّمَهُ مِن تَأْوِيلِ الأَحَادِيثِ وَاللّهُ غَالِبٌ عَلَى أَمْرِهِ وَلَـكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لاَ يَعْلَمُونَ )

اور مصر كے جس شخص نے انھيں ۱_خريد اتھا اس نے اپنى بيوى سے كہا كہ اسے عزت و احترام كے ساتھ ركھو شايد يہ ہميں كوئي فائدہ پہنچائے يا ہم اسے اپنا فرزند بناليں اور اس طرح ہم نے يوسف كو زمين ميں اقتدار ديا اور تا كہ اس طرح انھيں خوابوں كى تعبير كا علم سكھائيں اور اللہ اپنے كام پر غلبہ ركھنے والا ہے يہ اور بات ہے كہ اكثر لوگوں كو اس كا علم نہيں ہے (۲۱)

۱_ يوسفعليه‌السلام كو پانے والا قافلہ مصر ميں داخل ہوا اور اسى ہى ديار ميں اسكو فروخت كرديا_

و شروه بثمن و قال الذى اشترىه من مصر

۲_ عزيز مصر نے مصر ميں قافلے والوں سے يوسفعليه‌السلام كو خريدليا _و قال الذى اشترىه من مصر

(من مصر)كے بارے ميں احتمال ہے كہ(اشتراہ ) كے متعلق ہو اور يہ بھى احتمال ہے كہ ( الذى اشتراہ ) كے ليے حال ہو _ ليكن مذكورہ بالا تفسير احتمال اول كى صورت ميں ممكن ہے اور بعد ميں آنے والى آيات اس بات كو بيان كر رہى ہيں كہ (الذى اشتراہ ) سے مراد عزيز مصر ہے_

۴۱۱

۳_ يوسفعليه‌السلام كا خريدار (زليخا كا شوہر) مصرى شہرى تھا_و قال الذى اشترى ه من مصر

مذكورہ تفسير اس صورت ميں ہے كہ جب (من مصر) كا متعلق محذوف ہواورجملہ ( الذى اشتراہ ) كے ليے صفت ہو يعنى جملہ يوں ہو گا _ (قال الذى اشتراہ و ہو من اہل مصر ) اس نے كہا جس نے اسكو خريدا درحالا نكہ وہ اہل مصر ميں سے تھا_

۴_ زليخا كا شوہر، يوسفعليه‌السلام كو خريدتے وقت ( عزيزى ) كے مرتبے پر نہيں تھا_و قال الذى اشترىه من مصر

خريدار يوسفعليه‌السلام كو عزيز مصر كے( قرآن مجيد) عنوان سے ياد نہ كرنا،ممكن ہے مذكورہ تفسير كى طرف اشارہ ہو_

۵_ عزيز مصر ،نے يوسفعليه‌السلام كو خريدتے وقت ان كى بلند شخصيت اور مقام والاسے اطمينان حاصل كرليا _

لا مرأته أكرمى مثوىه عسى أن ينفعن

۶_ عزيز مصر چاہتا تھا كہ يوسفعليه‌السلام سے اپنے كاموں كے ليے استفادہ كرے يا اسكو اپنے اور اپنى بيوى كى فرزندى ميں لے آئے_قال الذى أكرمى مثوى ه عسى أن ينفعنا أو نتخذه ولد

۷_ عزيز مصر نے يوسفعليه‌السلام كى مدد اور اسكو اپنى فرزندى ميں لانے كا سبب اپنى اور اپنى بيوى زليخا كى اس سے محبت كو قرارديا_أكرمى مثوى ه عسى أن ينفعنا أو نتخذه ولد

جملہ ( عسى ) جملہ ( اكرمى مثواہ) كے ليے علت ہے _ تو جملے كا معنى يوں ہوگا _ كہ ميں تم سے يہ چاہتا ہوں كہ تم اسكا احترام كرو تا كہ وہ ہم سے محبت كرنے لگے تا كہ اسكى مدد سے ہم اپنے دل كو بہلائيں يا يہ كہ اسكو منہ بولا بيٹا بنا نے ميں كامياب ہوجائيں _

۸_ عزيز مصر نے يوسفعليه‌السلام كے كاموں كو اپنى بيوى زليخا كے سپرد كيا اور اس سے كہا كہ انكا احترام كرے اور ان كے مقام و مرتبے كا خيال ركھے_لا مرأته أكرمى مثوىه

(مثوى ) اسم مكان ہے جو گھر يا رہائش گاہ كے معنى ميں آتا ہے _( اكرمى مثواہ ) يعنى اس كى منزل ومقام كا احترام كرو_ گھر اور رہائش گاہ كے مناسب و اچھے ہونے پر تاكيد بتاتى ہے كہ اصل ميں اس شخص كى تعظيم ہے جو اس جگہ رہائش پذير ہے_

۹_ عزيز مصر اور اسكى بيوى زليخااولاد كى نعمت سے محروم تھے_أو نتخذه ولد

معمولاً وہ لوگ جو اولاد نہيں ركھتے، وہى كسى كو اپنى اولاد قرار ديتے ہيں اوراسوجہ سے جملہ ( نتخذہ ولداً) مذكورہ بالا معنى كى

۴۱۲

طرف ممكن ہے اشارہ ہو اور يوسفعليه‌السلام كو اپنى فرزندى ميں لانے كا بيان كلمہ (عسى ) سے ظاہر ہوتا ہے جو اس احتمال پر تاكيد كررہا ہے_

۱۰_ كسى شخص كو فرزند (منہ بولا بيٹے) كے طور پر انتخاب كرنا، يوسفعليه‌السلام كے زمانے ميں متداول امر تھا اور قديم مصر ميں اسكى قانونى حيثيت تھى _أو نتخذه ولد

۱۱_ خداوند متعال نے يوسفعليه‌السلام كو عزيز مصر كے گھرانے ميں داخل كر كے يوسفعليه‌السلام كے ليے اس سرزمين مصر ميں بانفوذ اور قدرتمند ہونے كے راستہ كو ہموار كيا_و كذلك مكّنا ليوسف فى الأرض

(الأرض) سے مراد مصر كى سرزمين ہے_ ''تمكين '' ''مكنّا ''كا مصدر ہے جو مكان و جگہ دينے كے معنى ميں آتا ہے _ نيز قدرت اور سلطنت عطا كرنے كے معنى ميں آتا ہے (فى الأرض)كى قيد اس بات كو بتاتى ہے كہ آيت شريفہ ميں (مكنّا) سے دوسرا معنى مراد ہے_

۱۲_ عزيز مصر كے گھر، يوسفعليه‌السلام آرام و آسائش ميں تھے_كذّلك مكنّا ليوسف فى الأرض

۱۴_ يوسفعليه‌السلام كا عزيز مصر كے گھر ميں داخل ہونا، خداوند متعال كے انكے بارے ميں وعدوں كے پورا ہونے كا پيش خيمہ تھا_و كذلك مكّنا ليوسف فى الا رض و لنعلّمه من تا ويل الاحاديث

(لنعلّمہ) كا ايك مقدر كلام پر عطف ہے يعنى''مكنّاليوسف لنفعل كذا و لنعلّمه '' لنفعل كذا سے مراد وہ امور تھے جنكو حضرت يوسفعليه‌السلام كے قصے كے شروع ميں خداوند عالم نے بيان فرمايا تھا مثلا (رأيتهم لى ساجدين ) و(كذلك يجتبيك ربك ...)

۱۵_ خداوند متعال، يوسفعليه‌السلام كو خوابوں كى تعبير اور واقعات كى تفسير و تحليل كا سكھانے والا ہے_

و لنعلّمه من تأويل الاحاديث

۱۶_ خوابوں كيتعبير اور واقعات كى تفسير وتحليل كى تعليم ، يوسفعليه‌السلام كو عزيز مصر كے گھر ميں لے جانے كى تقدير الہى كى خاطر تھا_كذلك مكنا ليوسف فى الا رض و لنعلّمه من تا ويل الأحاديث

(لام)'' لنعلمہ'' ميں غايت كے ليے ہے اور متعلق كى غرض و ہدف كو بيان كرتا تھا_

۱۷_ تعبير خواب كا علم اور آنے والے واقعات كى تحليل كرنے پرقدرت، خداوند متعال كى نعمتوں ميں سے ہے_

۴۱۳

كذلك و لنعلّمه من تأويل الاحاديث

۱۸_آنے والے واقعات كى تاريخ اور انكا انجام پذير ہونا ، تقدير الہى اور اس كے قدرت اور اختيار ميں ہے_

و قال الذى اشترىه و كذلك مكّنا ليوسف فى الأرض

۱۹_ حضرت يوسفعليه‌السلام كى تعبير و تا ويل خواب اور آنے والے حالات كى تحليل كا علم ،مطلق و لا محدود علم تھا_و لنعلّمه من تأويل الاحاديث/ مذكورہ بالا تفسير كا حرف (من) جو كہ تبعيض كے ليے ہے سے استفادہ ہوتا ہے _ لہذا( ولنعلّمہ ...) كا معنى يوں ہوگا _ كچھ آنے والے حوادث و واقعات كى تحليل اور تاويل يا كچھ خوابوں كى تعبير كو ان كو سكھا ئيں _

۲۰_ آنے والے حالات اور آئندہ كے ماجروں كى تحليل و تاويل اور خوابوں كى تعبير كا علم ،بہت اہميت والا اور قيمتى ہے_و كذلك مكنا ليوسف فى الارض و لنعلّمه من تأويل الاحاديث

۲۱_ خداوند متعال اپنى مشيت اور ارادوں كو انجام دينے پر قادر ہے _والله غالب على ا مره

(أمرہ ) كى ضمير ( الله ) كى طرف لوٹنى ہے _ امر الہى سے مراد وہ كام ہيں كہ جن سے ارادہ الہى اور مشيت خداوند ى اس كے تحقق اور انجام دينے كے ساتھ تعلق ركھتى ہے _

۲۲_ كوئي شے اور كوئي ذات،ارادہ الہى كو روكنے كى طاقت نہيں ركھتى _والله غالب على أمره

۲۳_ يوسفعليه‌السلام كى زندگى كے حوادث و واقعات فرمان و تدبر الہى سے وجود ميں آئے ہيں _

و كذلك مكنّا ليوسف فى الا رض والله غالب على ا مره

(أمرہ ) كے مصاديق ( كذلك مكنّا ليوسف) كے جملے كے قرينے سے يوسفعليه‌السلام كے امور كى تدبير ہے _ بعض مفسّرين نے (أمرہ ) كى ضمير كو يوسفعليه‌السلام كى طرف پلٹايا ہے اس صورت ميں جملہ ( والله غالب على امرہ) كا معنى يہ ہوگا ( كہ خداوند متعال يوسفعليه‌السلام كے امور پر غالب ہے اور اس كے امور كے نظم و ترتيب ميں اسى كا اختيار ہے ) _ مذكورہ بالاتفسير ميں كچھ زيادہ ہى وضاحت ہے_

۲۴_ لوگوں كى اكثريت اس بات سے ناگاہ ہے كہ تمام امور، خداوند عالم كى تدبير كے مطابق انجام پاتے ہيں اور وہ اپنى مشيت كے تحقق پر قادر ہے نيز تمام افراد اس كے مقابلہ ميں عاجز و ناتواں ہيں _

والله غالب على ا مره و لكنّ ا كثر النّاس لا يعلمون

۴۱۴

اكثريت:اكثريت كا جہل ۲۴

الله تعالى :الله تعالى كا ارادہ حتمى ہونا ۲۲;الله تعالى كى تعليمات ۱۵، ۱۶;الله تعالى كى تقدير و مقدرات ۱۶ ، ۱۸; الله تعالى كى ربوبيت ۲۳، ۲۴;الله تعالى كى ربوبيت كے آثار ۱۸;الله تعالى كى قدرت ۲۱، ۲۴ ; الله تعالى كى مشيت ۲۱، ۲۴;الله تعالى كى مشيت كا حتمى ہونا ۲۲;الله تعالى كى نعمتيں ۱۳، ۱۷ ; الله تعالى كے ارادے كے تحقق كا پيش خيمہ ۱۴;الله تعالى كے افعال ۱۱، الله تعالى كے اوامر ۲۳

انسان :انسانوں كا عجز ۲۴//تاريخ :تاريخ ميں تبديلى كا سبب ۱۸//زليخا:زليخا اور يوسفعليه‌السلام ۷، ۸ ; زليخا كالاولد ہونا ۹

عزيز مصر :عزيز مصر اور يوسفعليه‌السلام ۲، ۶،۸;عزيز مصر اور يوسفعليه‌السلام كے درجات ۵; عزيز مصر كا بے اولاد ہونا ۹;عزيز مصر كى خواہشات ۸;عزيز مصركى قوميت ۳;عزيز مصر يوسفعليه‌السلام كى خريدارى كے وقت ۴

علم و دانش :آئندہ واقعات كى تحليل كے علم و دانش كى اہميت ۲۰;خوابوں كى تعبيركے علم و دانش كى اہميت ۲۰; علم و دانش كى قيمتى ہونا۲۰

قديمى و تاريخى مصر :قديمى و تاريخى مصر ميں منہ بولا بيٹا۱۰

منہ بولا بيٹا:منہ بولا بيٹا بنانے كى تاريخ ۱۰; منہ بولا بيٹا يوسفعليه‌السلام كے زمانے ميں ۱۰

موجودات:موجودات كا عاجز ہونا ۲۲

نعمت :آسائش كى نعمت ۱۳;آئندہ كے واقعات كى تحليل كے علم كى نعمت ۱۷; تعبير خواب كے علم كى نعمت ۱۷; قدرت كى نعمت ۱۳

يوسفعليه‌السلام :يوسف(ع) ، عزيز مصر كے گھر ميں ۱۲، ۱۴، ۱۶; يوسفعليه‌السلام كا احترام ۸;يوسفعليه‌السلام كا خريدار ۲; يوسفعليه‌السلام كا علم محدود ہونا ۱۹;يوسفعليه‌السلام كا قصّہ ۱، ۲، ۳، ۶، ۷، ۸، ۱۱، ۱۲، ۱۴ ;يوسفعليه‌السلام كا مدبّر ۲۳; يوسفعليه‌السلام كا معلّم ۱۵، ۱۶; يوسفعليه‌السلام كو آئندہ كے واقعات كى تحليل كا علم ۱۵، ۱۶ ، ۱۹;يوسفعليه‌السلام كو خوابوں كى تعبير كا علم ۱۵، ۱۶، ۱۹; يوسفعليه‌السلام كو منہ بولابيٹا بنانا ۶،۷;يوسفعليه‌السلام كى آسائش ۱۲; يوسفعليه‌السلام كى حكومت كا پيش خيمہ ۱۱; يوسفعليه‌السلام كى فروخت ۱;يوسفعليه‌السلام كے اقتدار كا پيش خيمہ ۱۱; يوسفعليه‌السلام كے چناؤ كا سبب ۱۴;يوسف(ع) كے خريدار كى قوميت ۳;يوسفعليه‌السلام مصر ميں ۱، ۲، ۱۱

۴۱۵

آیت ۲۲

( وَلَمَّا بَلَغَ أَشُدَّهُ آتَيْنَاهُ حُكْماً وَعِلْماً وَكَذَلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ )

اور جب يوسف اپنى جوانى كى عمر كو پہنچے تو ہم نے انھيں حكم اور علم عطا كرديا كہ ہم اسى طرح نيك عمل كرنے والوں كو جزا ديا كرتے ہيں (۲۲)

۱_ يوسفعليه‌السلام نے اپنے بچپن اور نوجوانى كے ايّام، عزيز مصر كے گھر ميں گذارے يہاں تك كہ جوان ہوئے اور جسمانى اور عقلى بلوغ تك پہنچے_

كلمہ (اشدّ) جسطرح لسان العرب نے سبويہ سے نقلكيا ہے (شدّة)كى جمع ہے جو (طاقت و قدرت ) كے معنى ميں ہےلہذا (أشدّ) سے مراد مختلف طاقتيں ہيں جو مقام كى مناسبت سے جسمانى و عقلى طاقت كو شامل ہيں _

۲_ يوسفعليه‌السلام جب جوانى كى عمر ميں پہنچے تو جسمانى و ذہنى ترقى كے ساتھ ساتھ بلند حكمت اور وسيع علم كے حامل ہوگئے_

ولّما بلغ أشدّه اتيناه حكماً و علما

(حكماً) اور (علماً ) كے الفاظ كا نكرہ استعمال كرنا، اس حكمت و علم كى عظمت كو بتاتا ہے جو خداوند عالم نے حضرت يوسفعليه‌السلام كو عطاكى تھي_ اور (اتي) فعلكو (نا ) كى ضمير متكلم كى طرف اسناد دينا، اس حقيقت كى تائيد كرتى ہے اور يہ جو خداوند متعال نے زليخا كى يوسف(ع) كے ساتھ مكارى كى داستان كو بيان كرنے سے پہلے ان كے علم و حكمت كو بيان كياہے اس سے معلوم ہوتا ہے كہ يوسفعليه‌السلام زمانہ جوانى ميں علم و حكمت كے مالك تھے_اسى وجہ سے يہ احتمال نہيں ديا جاسكتا كہ زليخا كى يوسف(ع) سے داستان جوانى كے گزرنے كے بعد ہوئي ہو يعنى حضرت اسوقت مثلا تئيس يا چاليس سال كے ہوں _

۳_ خداوند متعال ہى يوسفعليه‌السلام كوحكمت و علم كا عطا كرنے والا ہے _أتيناه حكماً و علما

۴_ حضرت يوسفعليه‌السلام جوانى ہى ميں لوگوں كے درميان فيصلہ اور قضاوت كرنے كى قدرت ركھتے تھے _

ولّما بلغ أشدّه أتيناه حكماً و علم

۴۱۶

بعض مفسرين نے (حكم ) سے مراد معارف الہى كا علم، احكام شريعت،حكمت،اور لوگوں كے درميان قضاوت كا معنى بيان كيا ہے اور (علم ) سے مراد تعبير خواب سے آگاہى ، آئندہ حوادث و واقعات كى تحليل اورمصالح و مفاسد كى شناخت قرار دياہے _

۵_ يوسفعليه‌السلام كا سن رشد ميں پہنچنا، علم و حكمت كے حامل ہونے كا سبب تھا_ولّما بلغ أشدّه اتيناه حكماً و علما

۶_ يوسفعليه‌السلام جوانى كى عمراور رشدكے مقام پر پہنچنے كے بعد مقام نبوت پر فائز ہوئے_ولّما بلغ أشدّه اتيناه حكماً و علما

مذكورہ معنى اس صورت ميں ہے كہ بعض مفسرين نے (حكم ) سے مراد مقام نبوت اور (علم ) سے مراد شريعت كا علم بيانكيا ہے _

۷_ مقام نبوت تك پہنچنے كے ليے اسكى صلاحيت اور سبب كى ضرورت ہوتى ہے _ولّما بلغ أشدّه اتيناه حكماً و علم

۸_ يوسفعليه‌السلام نيك لوگوں كا واضح و روشن نمونہ تھے _و كذلك نجزى المحسنين

۹_ يوسف(ع) كا حكمت اور علم سے بہرہ مند ہونا، خداوند متعال كى طرف سے انكے نيك كاموں كى جزاء تھي_

(جزاء) (نجزى ) كا مصدر ہے _ جسكا معنى جزاء و سزا ہے _

۱۰_ حضرت يوسفعليه‌السلام كے نيك كام، ان كے مقام نبوت پر فائز ہونے كا سبب بنے _

أتيناه حكماً و علماً و كذلك نجزى المحسنين

۱۱_ احسان او ر نيكى كرنا، علم و حكمت سے بہرمند ہونے كاسبب ہے_أتيناه حكماً و علماً و كذلك نجزى المحسنين

۱۲_ نيك لوگوں كوجزاء عطا كرنا اور ان كو علم و حكمت سے بہرہ مند كرنا، سنت الہى ہے _

أتيناه حكماً و علماً و كذلك نجزى المحسنين

( كذلك نجزى المحسنين) ميں (نجزي)فعل مضارع ہے جواستمرار سے حكايت كرتا ہے _ اور تفسير ميں اس سے سنت كا معنى كيا گيا ہے _

۱۳_ نيك لوگوں كو الله تعالى دنيا ميں بھى جزاء ديتا ہے _أتيناه حكماً و علماً و كذلك نجزى المحسنين

احسان :احسان كے آثار ۱۱; احسان كى اہميت ۱۰، ۱۱، ۱۲

الله تعالى :الله تعالى كى جزاء ۹، ۱۳; الله تعالى كى سنت ۱۲; الله تعالى كى عطا ۳

۴۱۷

الله تعالى كى سنتيں :جزاء دينے كى سنت ۱۲; سزا دينے كى سنت ۱۲

حكمت :حكمت كا سبب ۱۱//صلاحيتيں :صلاحيتوكا فائدہ ۷//علم :علم كا سبب۱۱

محسنين :محسنين كا علم ۱۲; محسنين كى جزاء ۹، ۱۲; محسنين كى حكمت ۱۲;محسنين كى دنيا ميں جزاء ۱۳

نبوت :نبوت كا جوانى ميں عطا ہونا ۶;نبوت كے شرائط ۷

يوسفعليه‌السلام :يوسفعليه‌السلام پر احسان كے آثار ۱۰; يوسفعليه‌السلام كا بچپنا ۱;يوسفعليه‌السلام كا رشد ۱، ۲، ۶; يوسفعليه‌السلام كا عزيز مصر كے گھر ميں ہونا ۱;يوسفعليه‌السلام كا علم ۲،۹ ; يوسفعليه‌السلام كا قصّہ ۱، ۲، ۴;يوسفعليه‌السلام كا محسنين سے ہونا ۸;يوسفعليه‌السلام كواحسان كى جزاء ۹;يوسفعليه‌السلام كى جوانى ۲، ۴، ۶; يوسفعليه‌السلام كى حكمت ۲، ۹;يوسفعليه‌السلام كى حكمت كا سبب ۵ ; يوسفعليه‌السلام كى حكمت كا سبب ۳;يوسفعليه‌السلام كى زندگى كے مراحل ۱;يوسفعليه‌السلام كى قضاوت ۴;يوسفعليه‌السلام كى نبوت ۶;يوسفعليه‌السلام كى نبوت كے اسباب ۱۰;يوسفعليه‌السلام كى نوجوانى ۱;يوسفعليه‌السلام كے علم كا سبب ۱ ;يوسفعليه‌السلام كے فضائل ۲، ۴ ;يوسفعليه‌السلام كے مقامات ۶; يوسفعليه‌السلام ميں رشد كے آثار ۵; يوسفعليه‌السلام ميں علم كا سبب ۵

آیت ۲۳

( وَرَاوَدَتْهُ الَّتِي هُوَ فِي بَيْتِهَا عَن نَّفْسِهِ وَغَلَّقَتِ الأَبْوَابَ وَقَالَتْ هَيْتَ لَكَ قَالَ مَعَاذَ اللّهِ إِنَّهُ رَبِّي أَحْسَنَ مَثْوَايَ إِنَّهُ لاَ يُفْلِحُ الظَّالِمُونَ )

اور اس نے ان سے اظہار محبت كيا جس كے گھر ميں يوسف رہتے تھے اور دروازے بند كردئے ۱_اور كہنے لگى لوآئو يوسف نے كہا كہ معاذ اللہ وہ ميرا مالك ہے اس نے مجھے اچھى طرح ركھا ہے اور ظلم كرنے والے كبھى كامياب نہيں ہوتے (۲۳)

۱_ زليخا ،حضرت يوسف(ع) كى عاشق ہوگئي _و راودته التى هو فى بيتها و غلّقت الابواب

۲_ زليخا، حضرت يوسفعليه‌السلام سے اپنے عشق و محبت كا اظہار كر كے انہيں اپنے ساتھ وصال كى دعوت ديتى تھي_و راودته التى هو فى بيتهاعن نفسه

(مراودة ) (راودت) كا مصدر ہے _ جسكا معنى نرم لہجے ميں درخواست كرنا ہے (عن نفسہ) درخواست كے موردكو بتاتا ہےاسى وجہ سے (راودتہ ...) كا معنى يوں ہوا كہ زليخا نے بہت ہى نرم لہجے ميں يوسفعليه‌السلام سے اپنى محبت و عشق كا اظہار كركے اس سے خواہش كى كہ اپنے آپ كو ميرے اختيار ميں دے دے_ يہ ملنے اور وصال كرنے كے تقاضا سے كنايہ ہے

۴۱۸

۳_ زليخا اپنے مقصد كے حصول كے ليے حضرت يوسف(ع) كو ہميشہ اپنا ہم فكربنانےكے ليے مسلسل كوشش و سعيكرتى رہى _وراودته التى هو فى بيتها عن نفسه

مذكورہ بالا معنى اس صورت ميں ہے كہ جب (راد يرود) ( كہ مراود بھى اسى سے ہے) كے ساتھ جيسا كہ بعض اہل لضت نے كہا ہے اپنے مطلوب تك پہنچے كے ليے مسلسل كوشش و سعى كرنے كى قيد بھى ہو_

۴_ حضر ت يوسف(ع) مسلسل زليخا كى اس خواہش (وصال اور ہمبسترى كرنے) سے اجتناب كرتے رہے _

وراودته التى هو فى بيتها عن نفسه

بعض اہل لغت نے (مراودة) كے معنى ميں دو طرف كى كشمكش اور جھگڑے كو قيد قرارد ديا ہے_ اور انہوں نے كہا ہے كہ ( مراودة) كا معنى يہ ہے كہ دوميں سے ايك كسى شے كو چاہتا ہو اوردوسرا كسى اور شے كو چاہتا ہو _مذكورہ معنى بھى اسى صورت ميں كيا گيا ہے _

۵_ زليخا ،حضرت يوسفعليه‌السلام پر ظاہرى تسلط كواپنى خواہشات پورے كرنے كے ليے انہيں آمادہ كرنے كے ليے كارآمد سمجھتى تھى _

قرآن مجيد نے زليخا كو اس طرح بيان كيا ہے (التى ہو فى بيتہا ) وہ عورت كہ جس كے گھر ميں يوسفعليه‌السلام رہتے تھے) اس طرح سے زليخا كى صفت بيان كرنا يوسفعليه‌السلام پر زليخا كے تسلط كو بتا رہا ہے_

۶_ زليخا، نے حضرت يوسف(ع) سے كام لينے اور اس كے ساتھ وصال كرنے كے ليے اپنے محل كے دروازوں كو تالہ لگاديا اور انہيں اپنے پاس بلايا _راودته وغلّقت الا بواب و قالت هيت لك

(تغليق) ''غلّقت'' كا مصدر ہے _ تالہ لگانے كے معنى ميں آتا ہے (ہيت لك ) اسم فعل امر ہے _ جو (تم آؤ) كے معنى ميں آتا ہے _

۷_ زليخا كا محل ، مجلل اور شأن والا تھا اور اسميں بہت زيادہ دروازے تھے_و غلّقت الا بواب

(غلّقت الابواب ) باب تفعيل ہے دروازوں كے بند كرنے كے لئے بات تفعيل كو ذكر كرنا ممكن ہے شدّت مبالغہ كو بتاتا ہو _ يعنى دروازوں كو تالہ لگايا ور ان كے اندر والے حصوں كو محكم طريقے

۴۱۹

سے بند كيا اور يہ بات ممكن ہے دروازوں كى كثرت پر دلالت كرے_ مذكورہ بالا تفسير اسى دوسرے معنى كى صورت ميں ہے _

۸_ زليخا، نے حضرت يوسفعليه‌السلام سے اپنا كام حاصل كرنے كے ليے سہولتيں اور تمام شرائط كوفراہم كيا تھا_

روادته و غلّقت الابواب وقالت هيت لك

۹_ حضرت يوسف(ع) ، نے زليخا كے ظاہرى تسلط اور تمام شرائط مہيا ہونے كے باوجود بھى اسكى خواہش كو قبول نہيں كيا اور اس كے سامنے تسليم نہيں ہوئے_راودته وقالت هيت لك قال معاذ الله

(معاذ) مصدر اور مفعول مطلق ہے فعلمقدر كے ليے جو ''اعوذ'' ہے يعنى (أعوذ بالله معاذ)_

۱۰_ يوسف عليہ السلام شہوت رانى كے تمام وسائل فراہم ہونے كے باوجود ( يعنى زليخا كى خواہش اور اسكا اپنى مرضى كا اظہار كرنا ،محل كا خالى اوردروازوں كا بند ہونا ) بھى خدا كى پناہ مانگى _قال معاذا لله

۱۱_ خداوند متعال كى طرف توجہ اور اسكى پناہ طلب كرنا ، شہوت رانى كے برے انجام سے محفوظ رہنے كا راستہ ہے _

قال معاذا لله

۱۲_ گناہ كے گرداب اور لغزش سے نجات كے ليے ضرورى ہے كہ خداوند متعال كى پناہ لى جائے_قال معاذا لله

۱۳_ شادى شدہ عورتوں سے دوستى اور جنسى روابط ركھنا حرام ہے _قالت هيت لك قال معاذالله

( استعاذہ) اور خدا كى پناہ ميں جانا، گناہ اور شر پھيلانے والے مسئلہ ميں ہوتا ہے _

۱۴_ يوسفعليه‌السلام كى پاكدامنى تعجب آوراور انكى عصمت شگفت انگيز تھي_

و روادته التى و غلّقت الا بواب و قالت هيت لك قال معاذالله

۱۵_ يوسفعليه‌السلام جوانى كى اوج ميں ہى انسان موحد اور خداوند متعال كا فرمانبرداراور پرہيزو تقوى كى معراج پر تھے_

معاذا لله انه ربّى احسن مثواي

۱۶_ يوسفعليه‌السلام كا حقيقى توحيد پرست، اطاعت الہى ميں مخلص ہونا اور ان كا تقوى و پرہيزگارى ،اس علم و حكمت كا جلوہ تھا جو خداوند متعال ان كو عطا فرما ئي تھي_أتيناه حكاً و علماً قال معاذالله انه ربّى أحسن مثواي

۱۷_ خداوند متعال كى طرف توجہ ، انسان كو گناہ سے روكتى ہے _قال معاذا لله

۴۲۰

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

آیت ۱۶

( وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ مَرْيَمَ إِذِ انتَبَذَتْ مِنْ أَهْلِهَا مَكَاناً شَرْقِيّاً )

اور پيغمبر اپنى كتاب ميں مريم كا ذكر كرو كہ جب وہ اپنے گھروالوں سے الگ مشرقى سمت كى طرف چلى گئيں (۱۶)

۱_ حضرت مريم(ع) كى داستان كے بارے ميں آيات پر خصوصى توجہ اور قران ميں حضرتعيسي(ع) كى ولادت كى داستان كى وضاحت، پيغمبر كے كندھوں پر ايك الہى ذمہ دارى ہے _واذكرفى الكتب مريم

( اذكر ) پيغمبر كى طرف خطاب ہے اگر چہ آپ بغير كسى حكم خاص كے بھى قران ميں نازل شدہ آيات بيان كياكرتے تھے ليكن ان آيات كے بيان پر تاكيد سے مقصود حضرت مريم كے حضرتعيسي(ع) كے حوالے سے حاملہ ہونے كے واقعہ كى اہميت اور اس چيز كے اس معاشرہ پر گہرے اثرات كا بيان تھا _

۲_ قرآن، رسول خدا (ص) كے زمانہ ميں ايك تدوين شدہ مجموعہ تھا _واذكر فى الكتب

( الكتاب ) ميں ''الف و لام'' عہد حضورى ہے اور مو جو وہ كتاب پر دلالت كررہا ہے _

۳_حضرت مريم نے اپنےگھر والوں سے جدا ہوكر مسجد الاقصى كے شرقى جانب بسيرا كرليا _

واذكر مريم إذا انتبذت من أهلها مكانا شرقيا

(انتباذ ) كا مادہ ( نبذ ہے كہ جسكا معنى دور ہونا ہے (مكاناً شرقياً ) يعنى شرق كى جانب جگہ چونكہ حضرت مريم (مسجدالاقصى ) معبد كيلئے وقف تھيں تو يہاں مسجد الاقصى كے مشرق ميں مكان مقصود ہے _

۴_ حضرت مريم كے رشتہ دار مسجد الاقصى كى مشرقى جانب سے ہٹ كر مقيم تھے _انتبذت من أهلها مكاناً شرقي

۵_ حضرت مريم حاملہ ہونے سے پہلے مسجد الاقصى كے قريب ساكن رہنے والے رشتہ داروں كے پاس آيا كرتى تھيں _

إذا انتبذت من أهلها مكاناً شرقيا

بائيسويں آيت ميں قرينہ (مكاناً قصبا ) جو كہ حضرت مريم كے دوسرے انتخاب شدہ مكان كے بارے ميں بتا رہاہے كہ معلوم ہوتا ہے كہ مسجد الاقصى كا مشرقى حصہ لوگوں كے رہائشى علاقہ كے قريب تھا _

۶_ حضرت مريم كے قانون شريعت ميں گھر كا مشرقى حصّہ يا معبد عبادت كيلئے بہتر مقام تھا _إذانتبذت من أهلها مكانا ً شرقيا ً

۶۲۱

حضرت مريم كے گوشہ نشين ہونے كى وجہ واضح نہيں ہے اور آيت ميں اس حوالے سے كوئي شاہد نہيں ديكھا گيا _ بعض كے بقول : انہوں نے مكان كا انتخاب عبادت ميں خلوت كى بناء پر كيا تھا _اور مسجد الاقصى كا مشرقى حصہ انتخاب كرنے كى وجہ مشرقى حصہ كا عبادت كے لےئے بہتر ہونا تھا بعض نے حضرت مريم كے اس اقدام كو خواتين سے متعلقہ امور سے جانا ہے كہ جس كى بنا ء پر قرآن ميں عمدا ً اس بارے ميں كچھ نہيں كہا گيا تو اس صورت ميں مشرقى جانب كا انتخاب، صرف اپنے مقاصد كے بہتر ہونے كى بناء پر تھانہ كہ شرعا ً بہتر تھا _

۷_حضرت مريم نے اپنى عبادت كيلئے اس مكان كا انتخاب كيا كہ جس كا رخ مشرق كى جانب تھا _

إذانتبذت من أهلها مكاناً شرقيا ( شرقي) يعنى مشرق كى طرف ( لسان العرب )

۸_ حضرت مريم نے اپنے وجود ميں كسى چيز كى بناء پررنجيدہ ہو كر گوشہ نشينى اور لوگوں كى نگاہوں سے دور جگہ كا انتخاب كيا _إذ انتبذت من أهله ( نبذ) يعنى كسى چيز كو بے پرواہى كى بناء پر دورپھينكنا اور ( انتباذ) يعنى اس شخص كا گوشہ نشين ہونا كہ جو لوگوں ميں اپنے آپ كو كمتر اورنا چيز سمجھے ( مفردات راغب ) بعض احتمالات كہ جو حضرت مريم كے گوشہ نشيں ہونے كى وضاحت ميں بيان ہوئے ہيں مثلاماہوارى كے ايام و غيرہ گزارنے كيلئے كہ وہ اس معنى كے ساتھ مناسب ہيں _

آنحضرت (ص) :آنحضرت(ص) كى ذمہ دارى ۱; آنحضرت(ص) كے زمانہ ميں قران ۲

ذكر :عيسي(ع) كے قصہ كا ذكر۱;مريم كے قصہ كا ذكر ۱

عبادت :عبادت كے آداب ۶;مشرق كى جانب عبادت ۷; عبادت كے مكان كا كردار۶; مشرقى مكان ميں عبادت ۶

عبادتگاہ :عبادتگاہ كے مشرقى جانب عبادت ۶

عيسى :عيسي(ع) كى ولادت ۱;عيسي(ع) كے قصہ كى وضاحت ۱

قران :قران كا جمع ہونا ۲; قران كى تاريخ ۲

مريم(ع) :مريم كى سكونت ۵; مريم كا قصہ ۳;۵;۸; مريم كى

۶۲۲

پناہ گاہ ۳; مريم كى عبادتگاہ كى سمت۷;مريم كى گوشہ نشينى كے اسباب ۸;مريم كے رشتہ داروں كى سكونت ۴;۵;مريم كے قصہ كى وضاحت ۱; مسجدالاقصى كے قريب مريم۴، ۵; مسجدالاقصي كے قريب مريم كے رشتہ دار ۴;۵

مسجد الاقصى :مسجدالاقصى كى مشرق سمت ۳

ـآیت ۱۷

( فَاتَّخَذَتْ مِن دُونِهِمْ حِجَاباً فَأَرْسَلْنَا إِلَيْهَا رُوحَنَا فَتَمَثَّلَ لَهَا بَشَراً سَوِيّاً )

اور لوگوں كى طرف پردہ ڈال ديا تو ہم نے اپنى روح كو بھيجا جو ان كے سامنے ايك اچھا خاصا آدمى بن كر پيش ہوا (۱۷)

۱_حضرت مريم نے مسجدالاقصى كى مشرقى جانب لوگوں كى نگاہوں سے دورايك مكان منتخب كيا اور خود كو لوگوں سے پنہاں كيا _فاتخذت من دونهم حجاب

حجاب سے مراد ساتر، يا ايسى چيز جو پردے كا كام د ے _ تو ( اتخذت ...حجابا ً) سے مراد پردہ ڈالنا يا ايسى جگہ جانا جو طبيعى طور پر پردے كا كام دے مثلا ديوار يا پہاڑ غيرہ كى مانند ہوں _

۲_ وہ مكان كہ جہاں مريم(ع) لوگوں كى نگاہوں سے پنہاں ہو جاتى تھيں وہ لوگوں كے رہائشى علاقہ كے قريب تھا _

من دونهم كلمہ ( دون) كبھى قريب اور كبھى حقارت كيلئے استعمال ہوتا ہے ( العين )

۳_ حضرت مريم كا شرقى سمت ايك پنہاں مكان ميں رہنے كے بعد الله تعالى نے ايك انتہائي مكرم فرشتہ انكيجانب بھيجا _

فاتخذت من دونهم حجاباً فأرسلنا إليها روحنا

بعد والى آيات ميں اس فرشتہ كى جو صفات ذكر ہوئيں ہيں انكى بناء پر يہاں ''روحنا'' سے مراداللہ تعالى كى بارگاہ ميں ايك انتہائي مكرم اور عظيم المنزمت فرشتہ ہے كہ جسے الله تعالى كى طرف نسبت دى گئي ہے وہ آيات جوحضرت جبرئيل كو'' روح الامين'' او ر''روح القدس'' كے نام سے يا د كرتى ہيں انہيں ديكھتے ہوئے ہم كہہ سكتے ہيں كہ يہ فرشتہ جبرئيل ہے _

۴_حضرت مريم كا اپنے فرزند حضرتعيسي(ع) سے حاملہ ہونے كيلئے ضرورى تھا كہ وہ لوگوں كى نگاہوں سے دور ايك خلوت والى جگہ پرہوں _فاتخذت من دونهم حجاباً فأرسلنا إليها روحنا ( فأرسلنا ) ميں ( فائ) تفريع كيلئے ہے _اور يہ بتاتى ہے كہ حضرت مريم كے گذشتہ كام انكے حضرتعيسي(ع) كى والدہ كا مقام پانے اور الہى فرشتہ كے نزول كا پيش خيمہ ہيں _

۵_حضرت مريم كا الله تعالى كى بارگاہ ميں عظيم وبلند مقام_فا رسلنا إليهاروحنا

۶۲۳

۶_عبادت كے وقت، جسمانى نمائش سے پرہيز اور اپنے آپ كو با پردہ ركھنا خواتين كى اہم خصوصيت ہے _

فاتخذت من دونهم حجابا فأرسلنا إليها روحنا

حضرت مريم ايسے مكان كى طرف جارہى تھيں جو لوگوں كى نگاہوں سے دورہو اور عبادت كے وقت انہيں نامحرم كا سامنا نہ كرنا پڑے _

۷_ حضرت جبرائيل (ع) جسما نيتسے منزہ اور شرف ومنزلت پر فائز موجود كا نام ہے_فا رسلنا إليها روحنا

( روح ) كا ( نا) كى طرف اضافہ تشريفى ہے روح كوبھيجنے كا مطلب يہ ہے كہ وہ روح ايك مستقل موجود كہ جو الله تعالى كا مطيع تھا اور سفير كے فرائض انجام دينے كى قابليت ركھتا تھااور اسے اپنى رسالت كے مفاہيم سے آشنائي تھى بشر ى صورت ميں اپنے آپ كو مجسّم كرنا اس بات كى دليل ہے كہ وہ اس كام كو انجام دينے پر قادر اور جسمانى شكل اختيار كرنے كے ليے ساز گار تھے چونكہ يہ سب خصوصيات حضرت جبرئيل(ع) پر تطبيق كررہى ہيں جسكى وجہ سے بعض مفسرين نے كہا كہ وہ فرشتہ جو حضرت مريم، پرنازل ہوا وہ حضرت جبر(ع) ئيل تھے _

۸_ الله تعالى كا خصوصى نمائندہ، ايك عا م ا نسان كى مانند تمام جسمانى خصوصيات كے ساتھ حضرت مريم كے سامنے نمودار ہوا _فتمثل لها بشراً سوي

( تمثيل ) يعنى شكل بناتا اور ايك چيز كى صورت ميں نمود ار ہونا _ يہاں ( بشراً)'' تمثل'' كے فاعل كيلئے حال ہے اس سے مراد بعد والى آيت كے قرينہ كى رو سے مردہے ( سويا ً) يعنى معتدل ( بشراً) سويا يعنى انسان معتدل جوكہ جسمانى خصوصيات ميں افراط تفريط سے منزہ ہو _

۹_الہى فرشتہ كا حضرت مريم(ع) كيلئے جو چہرہ جلوہ گر ہوا وہ انكے ليے نا آشنا اور انكے ہم و طنوں اور رشتہ داروں جيسا بھى نہ تھا _بشراً سويا

( بشراً) اسم نكرہ ہے اور كسى كے نا آشنا ہونے پر دلالت كرتاہے _

۱۰_فرشتوں كا مادى صورتيں اختيار كرنا اور ان صورتوں ميں جلوہ گر ہونا، ايك ممكن اور محقق شدہ مسئلہ ہے _

فأرسلنا إليها روحنا فتمثل لها بشراً سويا

۱۱_ فرشتوں كوديكھنا اور ان سے گفتگو كرنا، صرف پيغمبروں كے ساتھ منحصر نہيں ہے _

فأرسلنا إليها روحنا فتمثل لها بشرا ً سويا

۶۲۴

چونكہ حضرت مريم مقام نبوت پر فائز نہ تھيں ليكن اسكے با وجود انہوں نے فرشتہ كا مشاہدہ كيا اور اس سے كلام كيا اس سے ثابت ہوا كہ يہ مسئلہ صرف پيغمبر وں كے ساتھ منحصر نہيں ہے _

۱۲_ عورت ميں معنويت كے بلند ترين درجات تك پہنچنے اور فرشتوں سے گفتگو اور ملاقات كرنے كى لياقت موجود ہے _

فأرسلنا إليها روحنا فتمثل لها بشراً سويا

۱۳_عن الأصبغ بن نباتة قال علي(ع) جبرئيل من الملائكةوالروح غير جبرائيل قال ( الله ) لمريم ( فأرسلنا إليها روحنا فتمثل لها بشراًسوياً ...) (۱) اصبغ بن نبانہ سے روايت نقل ہوئي ہے كہ حضرت علي(ع) نے فرمايا : جبرئيل فرشتوں ميں سے ہے جب كہ روح جبرئيل كے علاوہ ہے الله تعالى نے

حضرت مريم كے بارے ميں فرمايا ہے :فإرسلنا إليها روحنا فتمثل لها بشراً سويا ً

۱۴_قال الباقر(ع) : إنها ( مريم) بشرت بعيسى فبيناهى فى المحراب إذ تمثل لها الروح الا مين بشراًسويا ً امام باقر (ع) نے فرمايا : حضر ت مريم(ع) كو حضرت عيسي(ع) كى ولادت كى بشادت دى گئي تھى جب وہ محراب ميں تھيں تو اچانك روح الامين انسان كا مل كى شكل ميں ان پر ظاہر ہوئے _

تربيت:حضرت عيسي(ع) كى ولادت كى بشارت ۱۴//پردہ :پردہ كى رعايت كى اہميت ۶

جبرئيل(ع) :جبرائيل سے مراد ۱۳; جبرائيل كا مجسم ہونا ۱۴ ; جبرائيل كى حقيقت ۷ ;جبرائيل كے مجسم ہونے كى خصوصيات ۸; جبرائيل كےمقامات ۷

روايت : ۱۳;۱۴

روح :روح سے مراد ۱۳//عبادت :عبادت كے آداب ۶; عبادت ميں پردہ ۶

عمل :پسنديدہ عمل ۶//عورت :عورت كا كمال ۱۲;عورت كے مقامات ۱۲

مريم 'س':

____________________

۱)الغاراتج۱ص۱۸۴،بحارالاانوار ج۴ ۹ص۵ ح ۷ _

۲)قصص الانبياء راوندى ص۲۶۴ح۳۰۳ بحارالاانوار ج۱۴ص۲۱۵ح۱۴_

۶۲۵

مريم'س' پر جبرائيل كا نزول ۳،۸; مريم'س' كا تقرب۵; مريم'س' كا قصہ ۱،۲،۳، ۴،۸، ۹ ، ۱۴ ;مريم'س' كو بشادت ۱۴; مريم'س' كى پناہ گاہ ۱،۲;مريم'س' كى گوشہ نشينى ۱،۴; مريم'س' كے حمل كا پيش خيمہ ۴ ;مريم'س' كے مقامات۵

مسجدالاقصى :مسجدالاقصى كى مشرقى سمت ۱

ملائكہ :ملائكہ سے گفتگو۱۱;۱۲;ملائكہ كا ديكھا جانا ۱۱;۱۲; ملائكہ كا مجسم ہونا ۹;۱۰

آیت ۱۸

( قَالَتْ إِنِّي أَعُوذُ بِالرَّحْمَن مِنكَ إِن كُنتَ تَقِيّاً )

انھوں نے كہا كہ اگر تو خوف خدا ركھتا ہے تو ميں تجھ سے خدا كى پناہ مانگتى ہوں (۱۸)

۱_ ايك اجنبى شخص ميں تقوى كا احساس اور خوف خدا ابھارنا يہ حضرت مريم كا اسے اپنى خلوت گاہ ميں ديكھنے كے بعد اعتراض آميز ردّ عمل تھا _قالت إنى أعوذبالرحمن منك إن كنت تقيا

جملہ ( إن كنت تقيا ً) جملہ شرطيہ كے قالب ميں تقوى كى طرف دعوت ہے آيت كا مطلب يہ ہے كہ اگر متقى ہو ،كہ ہونا چاہيے------_-- مجھ سے دور ہوجا اوراپنے آپ كو الہى غضب ميں مبتلا ء نہ كرو ميں نے اپنے آپ كو اسكى پناہ ميں ديا ہوا ہے اور تيرے ضرركا دفع اس سے چاہتى ہوں _

۲_ حضرت مريم اپنے قريب ايك اجنبى شخص كو پاكر وحشت ذرہ ہوگئيں اور خدا كى پناہ لى اور اسے الہى غضب سے ڈرايا _

قالت إنى أعوذبالرحمن منك ان كنت تقيا ً

حضرت مريم نے بجائے (اللهم إنى أعوذ بك ) كے اجنبى شخص كو مخاطب بناياتا كہ اسكے دل ميں الہى غضب كا خوف پيدا كريں _ ''تقوي'' يعنى ہر خوفناك چيز سے بچتے ہوئے اپنے آپ كو محفوظ جگہ ميں ركھنا ( مفردات راغب )'' تقياً'' يعنى خطرے سے پرہيز كرنے والا حضرت مريم كے كلام ميں قرينہ ديكھتے ہوئے كہ انہوں نے اپنے مخاطب كو الله تعالى سے ڈرايا خطرے سے مراد خداوند عالم كا غضب ہے _

۳_اللہ تعالي، مشكل اوقات ميں انسان كى پناہ گاہ ہے _إنى أعوذ بالرحمن

۴_اللہ تعالى كى وسيع رحمت، مصيبت زدہ اوربے سہار لوگوں كو پناہ دينے كا اقتضا كرتى ہے _إنى أعوذ بالرحمن منك

( رحمان ) مبالغہ كا صيغہ ہے اوراسكا مطلب بہت زيادہ مہربان ہونا ہے حضرت مريم (ع) كا الله تعالى كے تمام ناموں ميں

۶۲۶

سے صرف اس نام كا سہا را لينا خدا كے تمام اوصاف ميں سے اس وصف كى خصوصيت پردلالت كر رہا ہے اور پناہ كے مقام كے ساتھ اسكى مناسبت كوبيان كررہا ہے_

۵_مصيبتوں اور عفت كے منافى كاموں كے اسباب مہياہونے كى صورت ميں ضرورى ہے كہ الله تعالى كى پناہ لى جائي _

قالت إنى أعوذبالرحمن منك

۶_ رحمان ،اللہ تعالى كے اسماء اور اوصاف ميں سے ہے_أعوذبالرحمن

۷_ حضر ت مريم، تقوى اور پاكيزگى كے كمال پر فائز خاتون تھيں _قالت إنى أعوذ بالرحمن منك إن كنت تقيا

پاكيزہ ،مريم(ع) نے اجنبى مرد كو اپنى خلوت گاہ ميں ديكھتے ہى اسے مسلسل نصيحت كرنا اور الله تعالى كى پناہ ميں جانے كى بات شروع كى يہ ردّ عمل ان ميں پاكيزگى كے راسخ ہونے كى علامت ہے _

۸_انسان كو گناہ سے محفوظ ركھنے ميں تقوى ايك اہم ترين سبب ہے _أعوذبالرحمن منك إن كنت تقيا

۹_ عورت اور نامحرم مرد كا اكھٹا ہونا يہاں تك كہ متقى لوگوں ميں بھى ايك خطرناك جال اور گناہ كى كھائي ميں گرنے كا موجب ہے _إنى أعوذبالرحمن منك إن كنت تقيا (إن كنت )كا جواب شرط محذوف ہے بعض نے يہاں جملہ شرطيہ كو تقوى كى طرف ترغيب دلانا مرادليا ہے جبكہ بعض نے يہاں شرط حقيقى مراد ليا ہے _تو دوسرى صورت ميں آيت سے مراد يہ ہے كہ اگر تو متقى ہے تويہ مناسب ہے كہ ميں الله تعالى سے پناہ مانگوں (اور يہ كہ تو متقى نہ ہو ) لہذا يہاں نكتہ شرط يہ ہے كہ يہ صورت تو متقى لوگوں كيلئے بھى خطرنا ك ہے كہاں يہ كہ غير متقى ہوں _

۱۰_ تنہائي ميں نامحرم سے پرہيز كرنا، ضرورى ہے _قالت إنى أعوذبالرحمن منك إن كنت تقيا

حالا نكہ اجنبى شخص نے كوئي ايسى حركت نہيں كى تھى كہ جو اسكى كسى غرض كو ظاہر كرے _ ليكن حضرت مريم محض اسكے ساتھ تنہائي سے پريشان ہوئيں اور الله تعالى كى پناہ لى اور اسكے ليے زبان نصيحت كھولى تواس سے يہ نتيجہ نكلتا ہے كہ نامحرم كے ساتھ تنہائي ميں رہنا ہى تقوى كے خلاف كام ہے _

۱۱_روى عن على (ع) انه قال : علمت ان التقى ينهاه التقى عن المعصية ، حضرت على (ع) سے روايت ہوئي ہے كہ آپ نے فرمايا : حضرت مريم يہ جانتى تھيں كہ پرہيز گار انسان ، اپنے تقوى كوگناہ سے بچاتا ہے _

اسماء صفات: رحمان۶

۶۲۷

الله تعالى :الله تعالى كى رحمت كے آثار ۴

انسان :انسان كى پناہ گاہ ۳;۴

تقوى :تقوى كے آثار ۸،۱۱;تقوى كى طرف دعوت ۱

پناہ مانگنا:الله تعالى سے پناہ مانگنے كى اہميت ۵; الله تعالى سے پناہ مانگنے كا باعث ۴; الله تعالى سے پناہ مانگنا ۲;۳

ڈرانا :الله تعالى كے غضب سے ڈرانا ۲

روايت :۱۱

گناہ :گناہ سے مانع ۸،۱۱; گناہ كا باعث ۹; گناہ كا مقابلہ كرنے كى روش ۵

مريم 'س':مريم'س' كا اعتراض ۱;مريم'س' كا پناہ مانگناہ۲; مريم 'س'كا خوف ۲; مريم'س' كا قصہ ۱،۲;مريم'س' كا كى پرہيز گارى ۷; مريم'س' كى پناہ گاہ ۱; مريم'س' كى رائے ۱۱; مريم'س' كى عفت ۷; مريم'س' كے فضائل ۷

مشكل :مشكل كا مقابلہ كرنے كى صورت ۵

نامحرم:نامحرم سے تنہائي كرنے سے پرہيز۱۰ ;نامحرم سے تنہائي كرنے كے آثار ۹

آیت ۱۹

( قَالَ إِنَّمَا أَنَا رَسُولُ رَبِّكِ لِأَهَبَ لَكِ غُلَاماً زَكِيّاً )

اس نے كہا كہ ميں آپ كے رب كے فرستادہ ہوں كہ آپ كو ايك پاكيزہ فرزند عطا كردوں (۱۹)

۱_ حضرت جبرئيل نے حضرت مريم'س' كى پريشانى دور كرنے كيلئے اپناتعارف كروايا اور انہيں بتايا كہ وہ الله تعالى كى طرف سے بھيجے ہوئے ہيں _قالت إنى أعوذقال إنما أنا رسول ربك

۲_ حضرت جبرئيل نے حضرت مريم كو بچےّ كى بشارت دينے كے ساتھ ا نہيں پاك و پاكيزہ بيٹاعطاكرنے كے حوالے سے الہى نمائندہ ہونے كا تعارف كروايا_

قال إنما أنا رسول ربك لا هب لك غلماً زكيا

بيٹاعطا كرنے كى نسبت، حضرت جبرئيل كى طرف انكے اس الہى بخشش ميں وسيلہ ہونے كى بناء پرہے _ ( زكي) مادہ ''زكائ'' سے ہے اسكا معنى (صلاح) ہے'' مصباح'' '' تزكيہ '' اور ''زكاة ''طہارت '' پرورش ، بركت اور مدح كے معانى ميں

۶۲۸

استعمال ہوتے ہيں ہر اور مقام پر اسكا مناسب معنى مراد ہے بچے كى طہارت اور پاكيزگى اسكى ذاتى صلاحتيوں كے حوالے سے ہے_

۳_ حضرت مريم كو لائق اور پاكيزہ بچے كى عطا انكے رشد و كمال كا موجب اور الله تعالى كى ربوبيت كا ايك جلوہ ہے _

قال إنّما أنا رسول ربّك لا هب لك غلما زكياً ...قال ربّك هو

كلمہ'' رب ''مندرجہ بالا مطلب كو بيان كرسكتا ہے _

۴_ حضرت عيسي(ع) ،اللہ تعالى كى جانب سے حضرت مريم كيلئے خصوصى عطا تھے _إنّما أنا رسول ربّك لا هب لك غلماً زكي اگرچہ حضرت عيسى (ع) كى روح، حضرت مريم كو ديگر ذرائع سے بھى القاء كى جاسكتى تھى ليكن جبرئيل كا بھيجاجانا، مريم كو بشارت دينا اوراس عنايت كى خصوصيات شمار كرنا يہ سب كے سب اس عطاكے خصوصى ہونے پردلالت كررہے ہيں _

۵_-حضرت عيسي(ع) كى پاكيزگى اور معنوى كمال ، انكى ولادت سے قبل الله تعالى كى جانب سے ضمانت شدہ تھے----_إنما أنا رسول ربك لأهب لك غلما

۶_صالح اور پاكيزہ فرزند، الہى عنايت ہے _لأهب لك غلماً زكبا

۷_عن الباقر (ع)( فى قصة مريم ) : تمثل لها الروح الأمين قال إنما أنا رسول ربك لا هب لك غلاماً زكياً فتفل فى جيبها فحملت بعيسى (ع) (۱)

امام باقر (ع) سے حضرت مريم كى داستان كے حوالے سے نقل ہواہے كہ روح الامين ان پر ظاہر ہوئے اور كہا :'' إنما انا رسول ربك لا ہب لك غلاماً زكيا''پھراپنے منہ كا لعاب انكے گريبان ميں ڈالاتو وہ عيسي(ع) سے حاملہ ہوگئيں _

الله تعالى :الله تعالى كى ربوبيت كى علامات ۳; الله تعالى كى عطا ء ۲،۴،۶

الله تعالى كے نمائندے: ۱/تربيت:عيسى كى ولادت كى بشار ب۲

جبرئيل :جبرئيل كى بشارتيں ۲; جبرئيل كى ذمہ دارى ۲; جبرئيل كى شناخت اور مريم ۱

روايت :۷

____________________

۱)قصص الانبياء رواندى ص۲۶۴، ج۳۰۳ ، بحارالانوار ج۱۴ ص۲۱۵ح۱۴_

۶۲۹

عيسى (ع) :عيسى كا كمال ۵;عيسى كى پاكيزگى كى ضمانت ۵; عيسي(ع) كے فضائل ۵;

مريم(ع) :مريم(ع) ميں بيٹا ہونے كے آثار ۳; مريم(ع) كے كمال كے اسباب ۳; مريم(ع) كى پريشانى ۱; مريم(ع) پر جبرائيل كا نزول ۷; مريم(ع) پر نعمات ۴; مريم(ع) كا حاملہ ہونا ۷; مريم (ع) كا قصہ ۱،۴،۷

نعمت :فرزند صالح كى نعمت ۶; نعمت عيسي(ع) ۴

آیت ۲۰

( قَالَتْ أَنَّى يَكُونُ لِي غُلَامٌ وَلَمْ يَمْسَسْنِي بَشَرٌ وَلَمْ أَكُ بَغِيّاً )

انھوں نے كہا كہ ميرے يہاں فرزند كس طرح ہوگا جب كہ مجھے كسى بشر نے چھوا بھى نہيں ہے اور ميں كوئي بد كردار نہيں ہوں (۲۰)

۱_ حضرت مريم (ع) بغير كسى بشر كے لمس كے بچہ دار ہونے كى خبرسن كر حيرت زدہ ہوگئيں _

قالت أنّى يكون لى غلم ولم يمسنى بشر

( انيّ ) حرو ف استفہام ميں سے ہے اور اسكا معنى ''كيف ''يعنى كس طرح ہے يا'' من ا ين'' يعنى كہاں سے ہے دونوں صورتوں ميں تعجب كا معنى دے رہا ہے _

۲_ حضرت مريم (ع) حضرت عيسي(ع) كى بشارت سنے كے بعد زنا كى تہمت كے خوف سے پريشان تھيں _

أنيّ يكون ولم أك بغيّا

اگر چہ جملہ ( لم يمسنى بشر ) حاملہ ہونے كے معمول كے مطابق ذرائع كى نفى كيلئے كا فى تھا ليكن جملہ ( ولم أك بغياً ) بھى مريم سے صادر ہو ا ہے بعض نے اسے اس طرح قرينہ قرار ديا ہے كہ جملہ ( لم يمسنى ) ميں صرف شرعى نكاح كى بات ہوئي ہے جب كہ ( ولم اك بغيا ) ميں _غير شرعى كا م كى نفى ہوئي ہے اور احتمال يہ بھى ہے كہ جملہ ( لم يمسنى ) سے مرادمطلقاً ہمبسترى ہواور جملہ ( لم اك بغياً ) كا اضافہ اس ليے ہو كہ مريم نے سمجھا حاملہ ہونے كى صورت ميں زنا كى تہمت لگے گى تويہ سب كہہ كر انہوں نے ظاہر كرديا كہ اس تہمت كو برداشت كرنا ہمارے ليے سخت ہے _

۳_ حضرت مريم (ع) نے جبرئيل، سے چاہا كہ وہ انہيں بتائے كہ كيسے بغير باپ كے بيٹا پيدا ہوگا _قالت أنّى يكون لى غلم ولم يمسنى بشر ولم أك بغيا

۴_ حضرت مريم (ع) كا ماضى درخشاں اور تقدس و پاكيزگى كى راہ پر ہر قسم كے انحراف سے پاك تھا _

۶۳۰

قالت أنّى يكون لى غلم ولم أك بغيا

( بغى ) اس عورت كو كہا جاتا ہے كہ جو نا محرم لوگوں سے غير شرعى تعلق ركھے _

۵_ حضرت مريم (ع) ،حضرت جبرئيل كا سامنا كرتے وقت، ايك باكرہ اور غير شادى شدہ لڑكى تھيں _

قالت انيّ يكون لى غلم ولم يمسنى بشرا

۶_ حضرت مريم(ع) ، حضرت عيسي(ع) كى ولادت كى بشارت سننے كے وقت حمل كيلئے مناسب عمر اور صحيح و سالم جسم كى مالك تھيں _ولم يمسنى بشر ولم أك بغيا

حضرت مريم (ع) كے كلام ميں جو كچھ حضرت عيسي(ع) كى پيدا ئش ميں مانع بيان ہوا ہے وہ سب باپ كے نہ ہونے كے بارے ميں ہے انہوں جسمانى حوالے سے عاجزى كا اظہار نہيں كيا لہذا اس حوالے سے كوئي مشكل نہيں تھى _

۷_زنا، تمام الہى اديان ميں ايك غير شرعى اورقابل نفرت كام ہے _ولم أك بغي

۸_اللہ تعالى كے برگزيدہ لوگ، دنيا دى كاموں ميں الہى ارادہ كے متحقق ہونے كے سلسلے ميں معجزہ كے منتظر نہيں ہوتے بلكہ اسكے ليے طبيعى راہوں سے جستجو كرتے تھے _قالت أنّى يكون لى غلم ولم يمسنى بشرا

حضرت مريم (ع) اگر چہ الہى قدت پر ايمان ركھتى تھيں ليكن جب انہوں نے بچے كى خوشخبرى سنى تو طبيعى راہ كے حوالے سے كسى صورت ميں نتيجہ پر نہ پہنچى اور اس جملہ (أنّى يكون لى غلام ) كے ساتھ اس ولادت كى كيفيت پوچھى معلوم ہوا كہ اس حوالے سے طبيعى اسباب انكى نگاہوں سے دور نہيں تھے _

۹_اللہ تعالى كے برگزيدہ بندوں كاعظيم مقام، انكے الہى فرشتوں كى ذمہ داريوں ميں تعجب اور جستجواور الہى افعال كے حوالے سے مزيد معلومات حاصل كرنے ميں مانع نہيں ہے _قالت أنّى يكون لى غلم ولم يمسنى بشرا

الله تعالى :الله تعالى كے ارادہ كے جارے ہونے كے مقامات ۸

الله تعالى كے برگزيدہ :الله تعالى كے برگزيدہبندوں كا انتظار ۸; الله تعالى كے برگزيدہ بندوں كے مقامات ۹;اللہ تعالى كے برگزيدہ بندے اور فرشتوں كى ذمہ دارى ۹

جبرائيل :جبرائيل سے سوال ۳

زنا :

۶۳۱

آسمان اديان ميں زنا كى پليدگى ۷

مريم :مريم كا باكرہ ہونا ۵; مريم كا بچہ ہونے كے حوالے سے سوال ۳; مريم كا بہترين ماضى ۴; مريم كا تعجب ۱ ; مريم كا حاملہ ہونا ۶;مريم كا قصہ ۱،۲،۳،۵،۶ ; مريم كو بشارت ۱;مريم كو زنا كى تہمت لگانا ۲;مريم كى پريشانى ۲;مريم كى سلامتى ۶;مريم كى عفت ۴ ; مريم كى طلب ۳;مريم كے حاملہ ہونے كى خصوصيات ۱;مريم كے فضائل ۴

آیت ۲۱

( قَالَ كَذَلِكِ قَالَ رَبُّكِ هُوَ عَلَيَّ هَيِّنٌ وَلِنَجْعَلَهُ آيَةً لِلنَّاسِ وَرَحْمَةً مِّنَّا وَكَانَ أَمْراً مَّقْضِيّاً )

اس نے كہا كہ اسى طرح آپ كے پروردگار كا ارشاد ہے كہ ميرے لئے يہ كام آسان ہے اور اس لئے كہ ميں اسے لوگوں كے لئے نشانى بنادوں اور اپنى طرف سے رحمت قرار ديدوں اور يہ بات طے شدہ ہے (۲۱)

۱_ حضرت جبرئيل نے حضرت مريم (ع) كے تعجبكو بجاجانا اور انكى عفت و پاكيزگى پر گواہى دى _قال كذالك

(كذالك ) مبتدا محذوف كى خبر ہے اور حرف تشبيہ اور اسم اشارہ كا مركب ہے _ اسكا مشاراليہ ممكن ہے گفتار مريم ہو، اس صورت ميں آيت كا مطلب يہ ہو گا كہ اگر چہ بات وہى ہے جو آپ نے كہى ہے ليكن الله تعالى كے ليے يہ كام مشكل نہيں ہے _

۲_ حضرت جبرئيل نے حضرت مريم (ع) كے سوال اور پريشانى كے جواب ميں الہى وعدہ كے حتمى ہونے اور انكے حضرت عيسى (ع) كا حمل اٹھانے پر تاكيد فرمائي_قال كذالك

اگر ( كذالك ) كا مشاراليہ خود حضرت جبرئيل كى رسالت كا مضمون ہو تو اس صورت ميں بشارت كے حتمى واقع ہونے پر تاكيد ہے يعنى بات وہى ہے جوميں نے كہي_

۳_ بغير باپ كے بيٹے كى عطا، الله تعالى كيلئے نہايت آسان سى بات ہے _هو عليّ هيّن

(ہيّن) صفت مشبہ ہے جس كا مادہہ''ہون'' ہے يعنى آسان اور راحت _

۴_ حضرت عيسي(ع) كى ولادت غير معمولى اور معجزاتى تھي_قال ربك هو عليّ هيّن

۵_ معمول كے مطابق علل و اسباب اور طبيعى راستے الله تعالى كے ارادے اور قدرت ميں محدويت پيدا نہيں كر سكتے _

قال ربّك هو عليّ هيّن

۶۳۲

بغير باپ كے بچہ كى ولادت كے حوالے سے جو مشكل تصورہو سكتى ہے وہ بعض طبيعى اسباب كا فقدان ہے ليكن الله تعالى نے اس راہ سے ہٹ كر كام كونہايت آسان اور سادہ شمار كيا ہے تويہ مسئلہ در حقيقت الله تعالى كى طبيعى علل و اسباب پر حاكميت كو بيان كررہا ہے _

۶_كائنات ميں ہونے والے واقعات كے علل و اسباب، صرف طبيعى نہيں ہيں _قال ربّك هو عليّ هيّن

۷_ كرامات اورغير معمولى اشياء كا وقوع، صرف پيغمبروں كے ساتھ مخصوص نہيں ہے _قال ربك هو عليّ هيّن

۸_ صرف طبيعى علل واسباب پر نظر جمانا درحقيقت الہى ارادہ و منشاء پر متوجہ ہونے سے مانع ہے _أنى يكون لى غلم هو عليّ هيّن

۹_ حضرت مريم كى الله تعالى كى ربوبيت كى طرف توجہ نے انہيں حضرت عيسي(ع) كے حمل كى آسانى اور ممكن ہونے كے حوالے سے مطمئن كيا _قال ربّك

۱۰_ حضرت عيسي(ع) كى باپ اور معمول كے مطابق ذرائع كے بغير ولادت با مقصد اور بہت زيادہ فوائد پر مشتمل تھى _

هو عليّ هيّن ولنجعله ء اية للناس

احتمال ہے كہ عبارت ( لنجعلہ ) علت محذوف پر عطف ہو يعنى''خلقناه من غير أب لا غراض لا مجال لذكرها و لنجعله'' تواس حذف كا فائدہ ( ابہام ) قرار پاپا يعنى اس كا ہدف اس قدر عظيم اور وسيع ہے كہ جو كلام ميں نہيں سماسكتا ہے _

۱۱_ حضرت عيسي(ع) اور انكى بغير باپ كے ولادت ، لوگوں كے ليے الہى قدرت سے آشنا ہونے كيلئے بہت بڑى نشانى ہے _ولنجعله ء اية للناس ( لنجعلہ ) ميں مفعول كى ضمير، حضرت عيسي(ع) كى طرف لوٹ رہى ہے _ آيت ميں تنوين تفخيم كا فائدہ د ے رہى ہے يعنى اس ليے عيسي(ع) كو تجھے عطا كيا كہ اسے لوگوں كيلئے عظيم نشانى قراردو _

۱۲_حضرت عيسي(ع) ، الله تعالى كى جانب سے لوگوں كيلئے عظيم رحمت كا جلوہ ہيں _ولنجعله و رحمة منّ

( رحمة ) كے ( اية للناس ) پر عطف كے قرينہ كى بنا ء و پر مراد، لوگوں پر رحمت ہے _

۱۳_ حضرت عيسي(ع) كى بغير باپ كے ولادت اور انكا الہى قدرت و رحمت كى نشانى ہونا، الله تعالى كى طرف سے طے شدہ امور تھے كہ جن ميں كسى قسم كى تبديلى كى گنجائش نہيں تھى _كذالك و لنجعلهء اية للناس و رحمة منّا و كان أمراً مقضيا

۶۳۳

جملہ (كان أمراً مقضياً )ممكن ہے صرف حضرت عيسي(ع) كى ولادت كے بارے ميں ہو اور ممكن ہے آيت ميں مذكور تينوں موضوعات كے بارے ميں ہو ( مقضياً) مادہ ''قضا'' سے اسم مفعول ہے يعنى وہ جو حتمى ہے اور فيصلہ ہو چكاہے_ لفظ (امر) فرمان اور واقعہ كے معنى ميں استعمال ہوتا ہے يہاں كلمہ مقضيا ً دوسرے معنى كے مراد ہونے پر قرينہ ہے_

۱۴_ الہى طے شدہ امر، تبديل نہيں ہوسكتا _وكان أمراًمقضيا

الله تعالى :الله تعالى كى رحمت كى علامات ۱۲، ۱۳; الله تعالى كى قدرت كى حاكميت ۵;اللہ تعالى كى قدرت كى علامات ۱۱;اللہ تعالى كى قضا ء كا حتمى ہونا ۱۴;اللہ تعالى كے ارادہ كى حاكميت ۵;اللہ تعالى كے افعال ۳;اللہ تعالى كے طے شدہ امور ۱۳;اللہ تعالى كے وعدوں كا حتمى ہونا ۲

تربيت:حضرت عيسي(ع) كى ولادت كى بشارت ۲

حمل :بغير شوہر كے حمل ۳

جبرائيل :جبرائيل سے سوال۲; جبرائيل كى گواہى ۱

ذكر :الله تعالى كى ربوبيت كے ذكر كے آثار ۹; الله تعالى كى مشيت كے ذكر سے مانع ۸;اللہ تعالى كے ارادہ كے ذكر سے مانع ۸

طبيعى اسباب :طبيعى اسباب كا كردار ۵;۶;۸

عيسي(ع) :الله تعالى كى آيات ميں سے عيسي(ع) كا ہونا۱۱; ۱۳ ; عيسي(ع) كا رحمت ہونا ۱۲;۱۳;عيسى كى ولادت كا حتمى ہونا ۱۳; عيسي(ع) كى ولادت كا فلسفہ ۱۰;عيسى كى ولادت كا معجزہ ہونا ۴،۱۱،۱۳;عيسى كى ولادت ميں عظيم فوائد ہونا ۱۰ ;عيسى كى معجزانہ ولادت ۴; ۱۱; ۱۳

كرامات :غير انبياء كى كرامات ۷

مريم (ع) :مريم(ع) كے اطمينان كے اسباب ۹; مريم(ع) كى پريشانى ۲; مريم(ع) كا تعجب ۱; مريم(ع) كا حمل ۹; مريم(ع) كا قصہ ۱;۲;۹; مريم(ع) كى پاكيزگى پر گواہ لوگ ۱

نظام اسباب:۵;۶

واقعات :واقعات كا سرچشمہ ۷

۶۳۴

آیت ۲۲

( فَحَمَلَتْهُ فَانتَبَذَتْ بِهِ مَكَاناً قَصِيّاً )

پھر وہ حاملہ ہوگئيں اور لوگوں سے دور ايك جگہ چلى گئيں (۲۲)

۱_ حضرت مريم(ع) ، الله تعالى كے ارادہ اور حكم كى بناء پر بغير كسيسے جنسى آميزش حاملہ ہوگئيں _فحملته

۲_ حضرت مريم (ع) نے حضرت عيسى (ع) كا حمل اٹھا نے كے بعد اپنے عزيز واقرباء كے علاقہ سے الگ ہو كر دور كسى جگہ پر بسيرا كيا _فحملته فانتبذت به ومكا ناً قضيا

( انتباذ) كا مادہ ( نبذ) ہے اسكا معنى دورى اختيار كرنا ہے اور ( بہ ) ميں (با) ہمراہى يا سبب كيلئے ہے يعنى مريم حمل كے ساتھ يا اسكى وجہ سے دور گئيں ( قصى ) صفت مشبہ ہے اور اسكا معنى دور ہے _

۳_ حضرت مريم(ع) ، حمل كى وجہ سے كافى پريشانيوں ميں گھر گئيں _فحملته فانتبذت به مكاناً قصيا

محل سكونت چھو ڑكر دور كسى جگہ چلے جانا بتا تا ہے كہ مريم(ع) لوگوں كا سامنا كرنے اور انہيں جواب دينے سے پريشان تھيں ( انتباذ ) كا لغوى معنى (كسى ايسے آدمى كا گوشہ نشينى اختيار كرنا جو لوگوں ميں اپنے حاضر ہونے كى اہميت نہيں ديكھتا ) يہ معنى بھى اسى مطلب كى تائيد ميں ہے _

۴_عن الرضا (ع) قال : ليلة خمس و عشرين من ذى القعدة ولد فيها عيسي(ع) بن مريم(ع) (۱) امام رضا (ع) سے روايت نقل ہوئي ہے كہ ذى القعدہ كى پچسويں شب ميں حضرت عيسي(ع) ، كى ولادت ہوئي _

۵_عن سليمان الجعفرى قال: قال أبوالحسن الرضا (ع) : أتدرى مما حملت مريم (س) ؟ فقلت : لا الاّ ان تخبر نى فقال : من تمر الصرفان نزل بها جبرئيل ، فا طعمها فحملت (۲) سليمان جعفرى سے روايت ہوئي ہے كہ امام رضا(ع) نے فرمايا كيا تمہيں معلوم ہے كہ مريم (ع) كس چيزسے

____________________

۱) من لا يحضرہ الفقيہ ج۲ ص۵۴ ح۱۵ ، مسلسل ۲۳۸ ، بحارالاانوار ج۱۴ص۲۱۴ح۱۳

۲)محاسن برقى ج۲ص۵۳۷ب۱۱۰ح ۸۱۱ ، بحارالانوار ج۱۴ ص۲۱۷ ح۱۸_

۶۳۵

حاملہ ہوئيں ميں نے كہا نہيں ليكن آپ بتائيں تو انہوں فرمايا: صرفان(۱) كى كھجور سے جو كہ ان كيلئے حضرت جبرئيل لائے تھے وہ انہيں كھلا ئيں تو وہ حاملہ ہوئيں _

۶_عن ا بى الحسن موسى (ع) ...اليوم الذى حملت فيه مريم (س) يوم الجمعة للزوال (۲) امام كاظم (ع) سے روايت ہوئي كہ وہ دن كہ مريم حاملہ ہوئيں و ہ جمعہ كا دن زوال كے قريب وقت تھا _

۷_عن أبى عبدالله (ع) قال إنّ مريم (ع) حملته سبع ساعات (۳) امام صادق (ع) سے روايت ہوئي كہ بلاشبہ مريم سات گھنٹے تك حضرت عيسي سے حاملہ رہى ہيں _

الله تعالى :الله تعالى كى مشيت ۱; الله تعالى كے وادار۱

روايت :۴;۵;۶;۷

عيسى (ع):حضرتعيسى كى تاريخ ولادت ۴

مريم :مريم كا حمل ۲; مريم كے حمل كا سرچشمہ ۱; مريم كا قصہ ۱،۲،۷; مريم كى پريشانى كے اسباب ۳;مريم كى گوشہ نشينى ۲; مريم كے حمل كا وقت ۶;مريم كے حمل كى كيفيت ۵;مريم كے حمل كى مدت ۷;مريم كے حمل كے آثار ۳

آیت ۲۳

( فَأَجَاءهَا الْمَخَاضُ إِلَى جِذْعِ النَّخْلَةِ قَالَتْ يَا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هَذَا وَكُنتُ نَسْياً مَّنسِيّاً )

پھر وضع حمل كا وقت انھيں ايك كھجور كى شاخ كے قريب لے آيا تو انھوں نے كہا كہ اے كاش ميں اس سے پہلے ہى مرگئي ہوتى اور بالكل فراموش كردينے كے قابل ہوگئي ہوتى (۲۳)

۱_ بچے كى ولادت كا در د، حضرت مريم (س) كو كھجور كے درخت كے تنے كے پاس لے گيا _

فأجا ء ها المخاض إلى جذع النخلة كلمہ (ا جائ) فعل ( جائ) كا متعدى ہے يعنى لے گيا اور( مخاض )يعنى بچے كى ولادت كا در د _

____________________

۱)صرفان كى كھجور وہ ہے كہ جو گرميوں ميں پيدا ہوتى ہے ليكن مقوى ہونے كى بنا ء پر سرديوں ميں استعمال ہوتى ہے _

۲) كافى ج۱ص۴۸۰ح۴بحارالانوار ج۱۴ ص ۲۱۳ ح۱۱

۳) قصص الانبياء ص۲۶۶ح۳۰۵ فصل ۱ بحارالانوار ج۱۴ ص۲۱۶ح۱۷،

۶۳۶

۲_بچے كى ولادت كے وقت، حضرت مريم بغير كسى خوف كے رہا ئشى علاقہ سے دور تنہا رہ رہى تھيں _

مكاناً قصيا ً فا جاء ها المخاض إلى جذع النخلة جملہ (أجاء ها المخاض ) ميں مريم كو درخت كے پاس لانے كى نسبت دردزہ كى طرف دى گئي ہے اور بعد و الى آيات ميں بتا ياگيا ہے كہ مولود نے انہيں پانى كى طرف راہنمائي كى _ اور مريم نے كھجور كھانے كيلئے خود درخت كو ہلا يا يہ سب قرائن بتاتے ہيں كہ حضرت مريم بچے كى ولادت كے وقت تنہا تھيں _

۳_حضرت مريم(ع) كا وضع حمل ايسے علاقہ ميں ہو ا كہ جہاں آب و ہوا گرم تھى اور كھجوروں كے درخت تھے _

فأجا ء ها المخاض إلى جذع النخلة ( نخل) يعنى كھجور ايسى زمين ميں پيدا ہوتى ہے كہ جہاں آب و ہوا گرم ہو _

۴_ وہ كھجور كا درخت كہ جسكے پاس حضرت مريم نے پناہ لى ايك معين اور خشك درخت تھا _

فأجاء ها المخاض إلى جذع النخلة _ ( النخلة) معرفہ ہے اور اس پر (الف و لام ) ہو سكتا ہے عہد ذ ہنى ہو يعنى وہ عہد جو الله تعالى اور مريم كے درميان يا وہ عہد جو الله تعالى اور رسول اكرم (ص) كے درميان ہوا تھا اور يہ نہيں كہا گيا ( إلى النخلة) اس سے معلوم ہو تا ہے كہ جس درخت كے قريب حضرت مريم نے پناہ لى تھى وہ سوا ئے درخت كے تنہ كے كچھ نہيں تھا بعد والى آيات كہ جس ميں بتايا گيا كہ حضرت كو پانى كى موجود گى اور كھجور كھانے كيلئے درخت كو حركت دينے كے بارے ميں آگاہ كيا گيا يہ آيات بھى بتا تى ہيں يہاں معمول سے ہٹ كر معجزانہ طريقہ سے پانى اور كھچور حاصل ہوئي ہيں ورنہ مريم ان دونوں چيزوں كو جاننے كيلئے كسى راہنمائي كى محتاج نہيں تھيں _

۵_ حضرت مريم نے وضع حمل كے وقت آرزوكى كاش وہ حاملہ ہونے سے پہلے مرچكى ہوتى اور انكى يا دہى باقى نہ رہتى _

فأجاء ها المخاض قالت ياليتنى مت قبل هذا و كنت نسياً منسيّا

جملہ (وكنت نسياً منسيّاً ) بتاتا ہے كہ حضرت مريم كى موت كى آرزوكرنے كى وجہ لوگوں كى زبانوں كے زخموں سے بچناتھا اگر چہ (ألا تحزنى قد جعل ...) كے قرينہ سے معلوم ہوتا ہے كہ پانى اور غذا كے نہ ہونے نے بھى انہيں غمگين كيا ہوا تھا ليكن يہ سارے نتائج اسى زبان كے زخموں سے بچنے كى وجہ سے ہيں كہ ميں حاملہ ہونے سے پہلے كاش مرجاتى كہ لوگوں كى زبانوں كے زخموں سے بچنے كيلئے يوں سرگرداں نہ ہوتى _

۶_ حضرت مريم كا دكھ اورروحى پريشاني،حضرت عيسي(ع) كى ولادت كے وقت قابل بيان نہيں تھا _فا جا ء ها المخاض إلى جذع النخلة قالت ياليتنى مت ّقبل هذا و كنت نسياً منسيّا

۶۳۷

حضرت مريم (ع) جو كہ الله تعالى كى خاص عنايات كى حامل تھيں ان سے موت كى آرزو يقيناً ايسے شرائط ميں ہوئي ہوگى كہ جب حالات انكى برداشت اور طاقت سے باہر ہوگئے ہونگے_ بعد والى آيات كے قرينہ سے يہ حالت تہمت لگنے كے احتمال اور سرگردان ہونے سے اندرونى دباؤ كى بنا ء پرتھي_

۷_ حاملہ ہونے كى حالت ميں يا وضع حمل كے بعد موت حضرت مريم كى پريشانيوں كو ختم نہيں كرسكتى تھى _ياليتنى متّ قبل هذ حضرت مريم كے كلام ميں ( ہذا ) اصل حمل كيطرف اشارہ ہے _ نہ كہ سرگرداں ہونے يا وضع حمل كى تكليف اور تنہائي چونكہ يہ سب چيزيں حضرت مريم(ع) نے لوگوں كى زبانوں كے زخموں سے بچنے كى خاطر قبول كى تھيں وہ تواپنے ليے زنا كى تہمت لگنے سے حتّى ّ كہ موت كے بعد بھى خوفزدہ تھيں لہذا اس تہمت سے پچنے كى صورت انكے ليے حاملہ ہونے سے پہلے مرنے كى صورت ميں تھى _

۸_ حضرت مريم(ع) نے اپنے حاملہ ہونے كو مكمل طور پر لوگوں سے چھپا يا ہوا تھا _

مكاناً قصياً فاجا ء ها المخاض ياليتنى متّ قبل هذا و كنت نسياً مسيا

لوگوں سے دور چلے جانا اور وضع حمل كے وقت تنہائي اور بغير سرپرست كے ہونا يہ چيزبتاتا ہے كہ اس وقت تك حضرت مريم(ع) نے اپنے حاملہ ہونے كو لوگوں سے چھپا يا ہوا تھا _

۹_ بعض صورتوں ميں موت كى خواہش جائز اور پسنديدہ ہے _ياليتنى متّ قبل هذا

۱۰_انسان كى آبرو اور شخصيت، اسكى مادى زندگى سے اہم ہے ياليتنىمتّ قبل هذ

يہ جو حضرت مريم(ع) نے بغير آبرو كى زندگى كو موت پر ترجيح دى ہے اس سے مذكورہ حقيقت كا استفادہ ہوتا ہے

۱۱_حضرت مريم(ع) انسانى حالات اور احساسات كى حامل تھيں _ياليتنى متّ قبل هذا

حضرت مريم(ع) كا اپنے اندر غير عادى امور كے ظاہر ہونے سے رنجيدہ اور بھوك وپياس سے متاثر ہونا، اسى طرح ديگر طبيعى اسباب و غيرہ بتاتے ہيں كہ حضرت مريم(ع) بشرى صفات كى مالك انسان تھيں اور بعض عيسائيوں كى طرف سے انكے بارے ميں الوہيت كے خيالات كے باطل ہونے پر دليل ہے _

۱۲_حضرت مريم (س) لوگوں ميں انتہائي معروف اوراہم شخصيت كى مالك تھيں _ياليتنى كنت نسياً نسيا

۱۳_ لوگوں ميں حضرت مريم(ع) كى عفت و پاكيزگى كے حوالے سے شہرت ان ميں حضرت عيسي(ع) كى ولادت كے حوالے سے لوگوں كے ذہن ميں منفى ردعمل كے حوالے سے پريشانى بڑھارہى تھى _

۶۳۸

ياليتنى متّ قبل هذا و كنت نسياً منسيا

( نسى ) ايسى چيزہے كہ جسكى خاص اہميت نہيں ہے اگر چہ وہ الہى لوگوں كى ياد سے محو نہ ہو (مفردات راغب ) اس كلمہ كى (منسياً) سے توصيف ( يعنى فراموش شدہ ) بتارہى ہے كہ حضرت مريم نے صرف فراموش شدہ ہونے كى صلاحيت كى آرزونہيں كى بلكہ حقيقى طور پر فراموش ہونے كى آرزو كي_ حضرت مريم(ع) كى يہ آرز و بتاتى ہے وہ اس سے پہلے معاشرہ ميں ايك باعزت شخصيت تھيں چونكہ واقعہ لوگوں ميں منفى رد عمل پيدا كرسكتا تھا لہذا اس حوالے سے پريشان تھيں _

۱۴_روى عن الصاد ق(ع) فى قول مريم ( يا ليتنى متّ قبل ہذا : لا نہا لم ترفى قومہا رشيدا ً ذافراسة ينزہہا من السوء (۱)امام صادق (ع) سے حضر ت مريم(ع) كا حضرت عيسي(ع) كى ولادت كے وقت موت كى آرزو كے قول كے حوالے سے روايت نقل ہوئي ہے كہ آپ نے فرمايا : يہ اس ليے تھا كہ ان كو اپنى قوم ميں كوئي ايسا با شعور شخص نظر نہيں آتا تھا كہ جو انہيں زنا كى تہمت سے برى قرار ديتا _

۱۵_عن الصادق (ع) ( فى قصة مريم ) إن زكريا و خالتها أقبلا يقصان أثرها حتّى هجما عليها و قد وضعت ما فى بطنها و هى تقول : ''يا ليتنى متّ قبل هذا و كنت نسياً منسياً'' (۲) ( حضرت مريم(ع) كى داستان كے حوالے سے ) امام صادق (ع) سے روايت ہوئي كہ حضرت زكريا(ع) اور حضرت مريم(ع) كى خالہ انكى تلاش ميں تھے كہ ايك دم وہ مل گئيں اس حال ميں كہ حضرت عيسى (ع) دنيا ميں قدم ركھ چكے تھے اور وہ كہہ رہى تھيں _ياليتنى متّ قبل هذ

آبرو :آبرو كى اہميت ۱۰

آرزو :موت كى آرزو ۵;۱۴;۱۵; موت كى آرزو كا جائز ہونا ۹

احكام :۹//روايت :۱۴;۱۵//زندگى :زندگى كى اہميت ۱۰

عيسى (ع) :عيسى (ع) كى ولادت كے آثار ۱۳

مريم (ع) :مريم(ع) كا احترام ۱۲; مريم (ع) كا بشر ہونا ۱۱ ; مريم(ع) كا حمل چھپا نا ۸; مريم (ع) كاغم ۶ ;مريم(ع) كا قصہ ۲،۳ ،۴ ،۵ ، ۶ ، ۷ ،۸، ۱۴،۱۵;مريم (ع) كا وضع حمل ۵،۶ ; مريم(ع) كى آرزو ۵،۱۵;مريم(ع) كى آرزو كا فلسفہ ۱۴; مريم (ع) كى پريشانى ۶،۷;مريم(ع) كى پريشانى كے اسباب ۱۳;

____________________

۱ ) مجمع البيان ج۶ص۷۹۰، نور الثقلين ج۳ ص۳۳۰ح۴۶_

۲)كمال الدين صدوق ج۱ ، ص۱۵۸ ب۷ ح۱۷ ، بحارالانوار ج۱۳ص۴۴۹ح۱۰_

۶۳۹

مريم 'س'كى پناہ گاہ ۱،۲; مريم(ع) كى پناہ گاہ كى موقعيت ۳; مريم (ع) كى تنہائي ۲;مريم (ع) كى شہرت ۱۳ ; مريم(ع) كى عفت ۱۳; مريم(ع) كى فراموشى ۵; مريم (ع) كى معاشر تى موقعيت ۱۲; مريم (ع) كى دعوت۷; مريم(ع) كے احساسات ۱۱ ;مريم (ع) كے قصہ ميں كھجور كے گذشتہ آيات ميں ( فحملتہ فانتبذت بہ )

درخت كى خصوصيات ۴;مريم (ع) ے قصہ ميں نخل ۱; مريم(ع) كے وضع حمل كى خصوصيات ۲;مريم (ع) كے وضع حمل والا مقام ۳;مريم(ع) ميں وضع حمل كے درد كے آثار ۱

آیت ۲۴

( فَنَادَاهَا مِن تَحْتِهَا أَلَّا تَحْزَنِي قَدْ جَعَلَ رَبُّكِ تَحْتَكِ سَرِيّاً )

تو اس نے نيچے سے آواز دى كہ آپ پريشان نہ ہوں خدا نے آپ كے قدموں ميں چشمہ جارى كرديا ہے (۲۴)

۱_ حضرت مريم(ع) كا كھجور كے درخت كے قريب، وضع حمل ہوا اور حضرت عيسي(ع) نے دنيا ميں قدم ركھا _

فا جا ء ها المخاض إلى جذع النخلة فنادى ها

(فناداها ) ميں فاء فصيحہ ہے اور اپنے سے پہلے ايك محذوف جملہ كى حكايت كررہى ہے اور جملہ كا مطلب حضرت عيسى كى كھجور كے درخت كے قريب ولادت ہے _

۲_ حضرت عيسي(ع) نے وضع حمل كے بعد اپنى والدہ سے انكے روحى و جسمانى حوالے سے سخت ترين حالات ميں ان سے كلام كيا اور انہيں حوصلہ ديا_فحملته فنادى ها من تحتها ألاتخزني

كى ضميروں كے قرينہ سے ( نادى ) ميں فاعلى ضمير سے مراد حضرت عيسي(ع) ہيں اور فناداھا كى ضمير كى مانند ( من تحتہا ) كى ضمير سے بھى مراد حضرت مريم ہيں بعض نے ( نادى ) كا فاعل حضرت جبرئيل كو جانا اور ( من تحتہا ) كى ضمير كو نخلة يا حضرت مريم كى طرف لوٹا يا ہے ليكن جو كچھ كہا گيا ہے وہ سياق وسباق آيات سے زيادہ مناسب ہے _

۳_ حضر ت عيسي(ع) نے پيدا ہوتے ہى اپنى والدہ حضرت مريم(ع) كو غم نہ كرنے كى نصيحت كى _

فنادى ها من تحتها ألا تحزني

۴_ الله تعالى نے حضرت عيسي(ع) كى ولادت كے ساتھ ہى حضرت مريم كے ٹھہر نے كى جگہ كے نيچے سے چشمہ جارى كيا _فنادى ها من تحتها ألا تحزنى قد جعل ربّك تحتك سريا

( سري) سے مراد چھوٹا ساپانى كا نالہ اور يہ (رفيع) كے معنى ميں بھى استعمال ہوا ہے ليكن بعد والى آيات ميں جملہ'' اشربي'' '' پہلے معنى پرہى قرينہ ہے ''

۶۴۰

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809

810

811

812

813

814

815

816

817

818

819

820

821

822

823

824

825

826

827

828

829

830

831

832

833

834

835

836

837

838

839

840

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863

864

865

866

867

868

869

870

871

872

873

874

875

876

877

878

879

880

881

882

883

884

885

886

887

888

889

890

891

892

893

894

895

896

897

898

899

900

901

902

903

904

905

906

907

908

909

910

911

912

913

914

915

916

917

918

919

920

921

922

923

924

925

926

927

928

929

930

931

932

933

934

935

936

937

938

939

940

941

942

943

944

945