تفسير راہنما جلد ۱۰

تفسير راہنما 4%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 945

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 945 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 247340 / ڈاؤنلوڈ: 3404
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱۰

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

۵_ حضرت عيسي(ع) نے پيدا ہوتے ہى اپنى والدہ حضرت مريم(ع) كو انكے ہاتھ كے نيچے سے چشمہ جارى ہونے كى خوشخبرى دى _فنادى ها قد جعل ربك تحتك سريا

۶_ وضع حمل كے وقت پانى كا نہ ہونا ،حضرت مريم (ع) كيلئے شديد پريشانى كا باعث تھا _ألا تحزنى قد جعل ربك تحتك سري ( قد جعل ) جملہ ( ألا تحزنى ) كيلئے علت ہے يعنى غم نہ كريں كيونكہ الله تعالى نے آپ كے ہاتھ كے نيچے سے پانى جارى كرديا ہے يہيں سے معلوم ہوتاہے كہ مريم كس قدر پانى كيلئے پريشان تھيں اور اس خوشخبرى نے انكى خوشى ميں كتنا كردار ادا كي

۷_ خواتين ،وضع حمل كے بعد بالخصوص وضع حمل كے اوائل ميں ہى پينے كے پانى ،روحانى و نفسياتى سكون اور حزن و غم كے نہ ہونے كى محتاج ہوتى ہيں _ألا تحزنى قدجعل ربك تحتك سريا حضرت مريم(ع) كو غم نہ كرنے كى نصيحت اور جو چيز انہيں خوشحال كرسكتى ہے ( جارى پانى ) اسكے فراہم كرنے كيطرف اشارہ ہے كہ وضع حمل كے بعد اطمينان و سكون خواتين كيلئے كسقدر ضرورى ہے_

۸_شائستہ اور پاكيزہ لوگوں كى امداد كو پہنچنا بالخصوص مشكل ترين حالات ميں الله تعالى كى ربوبيت كا جلوہ ہے _

قد جعل ربّك تحتك سريّا

۹_طبيعى اسباب كا عمل كرنا در حقيقت فعل خدا ہے _قد جعل ربّك تحتك سريّا چشمہ كے جارى ہونے كى نسبت الله تعالى كى طرف يہ نكتہ واضح كررہى ہے كہ چونكہ طبيعى اسباب درحقيقت الہى افعال كے جارى ہونے كے مقامات ہيں لہذا انكافعل خدا كا فعل ہے _

۱۰_ كائنات، الله تعالى كے ارادہ اور مشيت كى تسخير ميں ہے _قد جعل ربك تحتك سريّا بہ بھى ممكن ہے كہ چشمہ جارى كرنے كى نسبت اسيلئے الله تعالى كى طرف ہو كہ طبيعى اسباب سوائے الله تعالى كى اجازت كے كچھ نہيں كر سكتے _

۱۱_حضرت عيسي(ع) كے خا ص صفات انكى ولادت كے پہلے لمحہ سے ہى ظاہر ہوگئيں _فنادى ها من تحتهإلا تحزنى قد جعل ربّك تحتك سريّا كلمہ (من تحتها ) ( انكے نيچے سے ) بتارہاہے كہ حضرت عيسي(ع) نے اس وقت يہ جملہ فرمايا تھا كہ ابھى انكى والدہ نے انہيں اپنى گود ميں زمين پرليا تھا والدہ كے حالات كو سمجھنا اور انكے روحى احساسات كو درك كرنا، حضرت عيسي(ع) كى عميق صلاحتيوں كا ثبوت_

۶۴۱

۱۲_ حضرت مريم(ع) كے وضع حمل كے بعد الہى فرشتہ (جبرئيل ) نے انكے پاؤں كے نيچے سے پانى جارے ہونے كى خبر دى _فنادى ها من تحتها ألا تحزنى قد جعل ربّك تحتك سريّ احتمال ہے كہ ( فنادہا ) ميں فاعلى ضمير الہى فرشتہ كى طرف لوٹ رہى ہے _

۱۳_ ( عن أبى جعفر (ع) : ضرب عيسي(ع) بر جله فظهرت عين ماء تجرى (۱) امام باقر (ع) سے روايت نقل ہوئي ہے كہ ولادت كے وقت حضرت عيسي(ع) نے اپنے پاؤں كوزمين پر مارا تو جارى پانى كا چشمہ ظاہر ہوگيا _

۱۴_قال رسول الله (ص) :و هذا عيسي(ع) من مريم (ع) قال الله _عزوجل_ فيه ( فناداها من تحتها الا تحزنى فكلم الله وقت مولده (۲) رسول خدا(ص) سے روايت ہوئي كہ آپ نے فرمايا : يہ حضرت عيسى بن مريم(ع) تھے كہ جنكے بارے ميں الله تعالى نے فرمايا : (فناداها من تحتها ألا تحزنى ) پس عيسي(ع) نے ولادت كے وقت اپنى والدہ سے كلام كيا_

الله تعالى :الله تعالى كى امداد وں كا پيش خيمہ ۸; الله تعالى كى ربوبيت كى علامات ۸;اللہ تعالى كى مشيت كى حاكميت ۱۰; الله تعالى كے افعال ۴،۹/پاكيز ہ لوگ:پاكيزہ لوگوں كى امداد ۸

پانى :پانى كا چشمہ ۱۳/جبرئيل :جبرئيل اور مريم ۱۲/روايت :۱۳;۱۴/ضروريات :آرام كى ضرورت۷

طبيعى اسباب :طبيعى اسباب كا كردار ۷/طبيعت :طبيعت كى تسخير ۱۰

عيسى (ع) :عيسى (ع) كا حوصلہ دينا ۲; عيسي(ع) كا قصہ ۲;۳; ۱۳ ; ۱۴ ; عيسي(ع) كا معجزہ ۱۳;عيسى (ع) كا لو مولود حالت ميں بات كرنا ۲;۳;۱۴; عيسي(ع) كى بشارتيں ۵ ; عيسى (ع) كى خصوصيات ۱۱;عيسي(ع) كى ولادت ۴ ; عيسى (ع) كى ولادت كى خصوصيات ۱۱; عيسى (ع) كى نصيحتيں ۳

مريم (ع) :مريم (ع) كا غم ۳; مريم (ع) كا قصہ ۲،۳،۵، ۶ ; مريم (ع) كا وضع حمل ۱۲;مريم (ع) كو بشارت ۵;مريم (ع) كوحوصلہ ملنا ۲; مريم (ع) كو نصيحت ۳;مريم (ع) كو وحى ۱۲; مريم (ع) كى پريشانى كے اسباب ۶; مريم (ع) كے قصہ ميں پانى كي

____________________

۱) مجمع البيان ج۶ ص۷۹۰، بحارالانوار ج۱۴ص۲۲۶،

۲) روضة الواعظين ص۸۳بحارالانوارج ۱۴ ص ۲۲۰ ح۳۲

۶۴۲

نہر ۴،۵; مريم (ع) كے قصہ ميں كھجور ۱;مريم (ع) كے وضع حمل كا مكان ۱;وضع حمل كے وقت مريم(ع) كا پانى كے بغير ہونا ۶

وضع حمل :وضع حمل كے دوران آرام وسكون كى اہميت ۷; وضع حمل ميں معنوى ضروريات ۷

آیت ۲۵

( وَهُزِّي إِلَيْكِ بِجِذْعِ النَّخْلَةِ تُسَاقِطْ عَلَيْكِ رُطَباً جَنِيّاً )

اور خرمے كى شاخ كو اپنى طرف ہلائيں اس سے تازہ تازہ خرمے گرپڑيں گے (۲۵)

۱_ حضرت عيسي(ع) نے پيدا ہوتے ہى اپنى والدہ مريم(ع) كو كھجور كے درخت كوہلانے اور اسكے پھل كو تناول كرنے كے حوالے سے راہنمائي كى _وهزى إليك بجذع النخلة تساقط عليك رطباً جنيا

( ہز) يعنى دائيں بائيں ہلانا اور قرينہ (إليك) كى مدد سے يہاں كھيچنے كے معنى ميں بھى استعمال ہو اہے _ لہذا ''ھزى إليك ''يعنى درخت كو اپنى طرف كھينچيں اور دائيں بائيں ہلائيں يہ راہنمائي جيساكہ بعد والى آيات سے ظاہر ہورہا ہے كہ حضرت مريم كى غذا كے حوالے سے ضرورت پورى كرنے كيلئے تھى _

۲_ وہ كھجور كا درخت جسكے قريب حضرت مريم كا وضع حمل ہواتھا وہ بغير پھل كے تھا _

وهز ى اليك بجذع النخلة تساقط عليك رطباً جنيا

جملہ (تساقط عليك ) حضرت مريم پر احسان و عنايت كى وضاحت كررہا ہے نہ كہ معمول كے مطابق درخت كے ہلانے كے نتيجہ كى طرف اشارہ كررہا ہے _ كيونكہ ايسى صورت ميں تو راہنمائي كى ضرورت ہى نہتھى _ لہذا درخت كوہلانے كے بعد اسميں كھجور ظاہر ہوئي اور وہ نيچے گرى اس كلام ميں كلمہ جذع كا مضاف ہونا اور تساقط) كى نخلة كى طرف نسبت بتارہى ہے كہ يہ درخت خشك تھا اور كھجور كا گرنا معمول سے ہٹ كرايك معجزہ تھا _

۳_ كھجور كے درخت كا معمول سے ہٹ كر پھل دار ہونا، حضرت مريم كى كوشش اور انكے كھجور كے درخت كو ہلانے جلانے پر موقوف تھا _وهزّ ى إليك تساقط

فعل ( تساقط ) مجزوم ہے يہاں جزم كا سبب شرط مقدر ہے يعنى اگر آپ نے كھجور كے درخت كو ہلايا اور اپنى جانب كھينچا تو آپكے ليے كھجوريں گرائے گا _

۶۴۳

۴_تازہ ، پكى ہوئي اور ظاہرى طور پر سالم، حضرت مريم (ع) پر گرنے دالى كھجور وں كى خصوصيات تھيں _تساقط عليك رطباً جني ( رطب) تاز ى كھجور كو كہتے ہيں ''جنى ''جب وہ پھل كى صفت ہو _ تو اس معنى ميں ہے كہ جب پھل اپنے وقت پر درخت سے توڑا جائے ( معجم مقاييس اللعة)

۵_تازہ كھجور ( رطب) عورت كيلئے وضع حمل كے بعد مناسب ترين غذا ہے _وهزّى تساقط عليك رطباًجنيا

حضرت مريم كو درخت ہلانے اور كھجوركھانے كى نصيحت بتارہى ہے كہ يہ وضع حمل كے بعد عورتوں كيلئے مناسب ترين غذا ہے _

۶_ حضرت مريم الله تعالى كى خصوصى عنايات كى حامل اور صاحب كرامات تھيں _و هزّى إليك تساقط

۷_ درخت كافورى طور پر پھل دار ہوجانا اور حضرت مريم ميں اسكو ہلانے كى طاقت كا ہونا انكى كرامات ميں سے تھا _

وهزى إليك تساقط

۸_عن أميرالمؤمنين (ع) قال :ماتا كل الحامل من شي ولاتتداوى به أفضل من الرطب قال الله _ عزوجل _ لمريم (ع) وهزّى اليك بجذع النخلة تساقط عليك رطباًجنياً فكلى واشربى وقرى عينا ً (۱) اميرالمؤمنين(ع) سے روايت ہوئي ہے كہ آپ نے فرمايا : حاملہ عورت، تازہ كھجور سے بہتر كوئي چيز نہيں كھاتى اور نہ اس سے بہتر كسى چيز سے اپنى دوا كرسكتى ہے _ الله تعالى نے حضرت مريم كو فرمايا :وهزى إليك بجذع النخلة تساقط عليك رطباً جنياً فكلى

۹_عن أميرالمؤمنين قال : قال رسول اللّه(ص) : ليكن أول ماتا كل النفساء الرطب ، لانّ الله تعالى قال لمريم : وهزى إليك بجذع النخلة تساقط عليك رطباً جنياًً فكلى (۲) امير المؤمنين سے روايت ہوئي كہ رسول الله (ص) نے فرمايا : بہتريہى ہے كہ وضع حمل كے بعد عورت سب سے پہلے كھجور كھائے كيونكہ الله تعالى نے حضرت مريم(ع) كو فرمايا : وہزى إليك بجذع النخلة تساقط عليك رطباًجنياً فكلي

۱۰_عن أبى الحسن الرضا (ع) قال : كانت نخلة مريم العجوة، ونزلت فى كانون ونزل مع آدم (ع) من الجنة العتيق والعجوة منهماتفرّق أنواع النخل (۳) امام رضا (ع) سے

____________________

۱)حصال صدوق ص۶۳۷باب اربعمائة ح۱۰ ، نور الثقلين ج۳ ص۳۳۰ح۵۰_۲) كافى ج۶ ص۲۲ ح۴ ، نو ر الثقلين ج۳ ص۳۳۰ ح۵۱

۳) محاسن برقى ج۲ ص۵۳۰ ح۷۷۵، قصص الانبياء راوندى ص۲۶۶ ح۳۰۵

۶۴۴

روايت ہوئي ہے كہ : مريم (ع) والى كھجور، عجوہ تھى جو كہ ماہ كانون ( ايك رومى ميہنہ ) ميں نازل ہوئي حضرت آدم(ع) بہشت سے عتيق ( نر كھجور كا درخت ) اور عجوہ ( كھجور كى ايك قسم كہ جيسے لينہ كہا كيا ہے ) ليكر نازل ہوئے كہ ان دونوں سے كھجور كى مختلف اقسام پھيليں _

حاملہ :حاملہ كى غذا ۸

روايت:۸;۹;۱۰

عيسى :عيسي(ع) كا قصہ ۱; عيسي(ع) كا نو مولودى حالت ميں كلام ۱; عيسي(ع) كا ہدايت دنيا ۱

كھجور :كھجور كے فوائد ۵;۸;۹

لطف الہى :لطف الہى كے شامل حال۶

مريم'س' :مريم 'س' كا قصہ ۲،۳; مريم'س' كى قدرت ۷;مريم كى كرامات ۶، ۷ ; مريم'س' كى كوشش كے آثار ۳; مريم'س' كى ہدايت ۱ ;مريم 'س'كے قصہ ميں كھجور كا تازہ ہونا۴;مريم'س' كے قصہ ميں كھجور كا خشك ہونا ۲;مريم'س'كے قصہ ميں كھجور كى خصوصيات ۱۰;مريم 'س'كے قصہ ميں كھجوركے درخت كا پھل دار ہونا ۳ ; ۷ ; مريم'س' كے قصہ ميں كھجور كے درخت كا پھل دنيا ۳;مريم'س' كے قصہ ميں كھجور كے درخت كو يلايا جانا ۱،۷; مريم 'س' كے مقامات ۶،۷

وضع حمل :وضع حمل كرنے والى كيلئے مناسب غذا ۵;۹

آیت ۲۶

( فَكُلِي وَاشْرَبِي وَقَرِّي عَيْناً فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً فَقُولِي إِنِّي نَذَرْتُ لِلرَّحْمَنِ صَوْماً فَلَنْ أُكَلِّمَ الْيَوْمَ إِنسِيّاً )

پھر اسے كھايئےور پيجئے اور اپنى آنكھوں كو ٹھنڈى ركھئے پھر اس كے بعد كسى انسان كو ديكھئے تو كہہ ديجئے كہ ميں نے رحمان كے لئے روزہ كى نذر كرلى ہے لہذا آج ميں كسى انسان سے بات نہيں كرسكتى (۲۶)

۱_ حضرت عيسي(ع) نے پيدا ہوتے ہى اپنى والدہ حضرت مريم كو تازہ كھجور يں كھا نے اور چشمہ كے پانى پينے

۶۴۵

كى دعوت دىفنادى ها من تحتها تحتك سريّاً رطباً جنياً فكلى واشربي

۲_ تازہ كھجور، ( رطب) وضع حمل كے بعد عورت كيلئے ايك مناسب غذا ہے _فكلي حضرت مريم ،كوتازہ كھجور كھانے كى نصيحت وضع حمل كے بعد خواتيں كيلئے اس غذا كے مناسب ہونے پر دليل ہے _

۳_ حضرت عيسي(ع) كا اپنى والدہ سے تكلم كرنا اور پانى و غذا كى ضرورت معجزاتى طريقہ سے پورا ہونا حضرت مريم كى مسرت اورآنكھوں كى ٹھنڈ ك اور ساتھ ہى آيندہ آنے والے مشكلات كے دور ہونے كا باعث تھا_فناديها فكلى واشربى و قرّى عينا ( عيناً) تميز ہے اور فاعل كى حقيقى مراد كو بيان كررہا ہے ( قرّى ) مادہ (قرار) سے ہے اسكا معنى ( آرام پانا) ہے يا مادہ ( قرّ) سے ہے كہ اس كا معنى سرد ہونا ہے _ اگر پہلا معنى مراد ليں تو مطلب ہے كہ آنكھوں كے ليے پر سكون ہو اور اگردو سرا معنى ليں تو مطلب ہے آنكھوں كو ٹھنڈاكرو ( يعنى آپكى آنكھيں جلتے ہوئے آنسوؤں سے دور رہيں ) بہر حال دونوں صورتيں يہ خوشحالى اور شادمانى سے كنايہ ہيں كہ آنكھيں پريشانى اور اضطراب سے پاك ہوں اور غم و ررنج كے آنسوؤں سے دور رہيں جملہ ( قرّى عينا) كا پچھلے جملات سے رابطہ مندرجہ بالا مطلب كو بيان كررہا ہے _

۴_بچے كا پيدا ہونا، ماں كى آنكھوں كى روشنى اور دل كے سكون كا باعث ہے _وقرّى عين جملہ ( قرّى عيناً) ممكن ہے كہ ايك مستقل جملہ ہو تو اس صورت ميں يہ جملہ اپنے سياق كے مطابق بچے كى ولادت سے مربوط ہوجائے گا_

۵_ بچے كى ولادت كے بعد والدہ كو مبار ك باد اور خوشحالى كى دعا دينا،ايك پسنديدہ كام ہے _وقرّى عين

حضرت مريم كو آنكھوں كى روشن رہنے كا جملہ كہنا جس صورت ميں بھى ہو ماوؤں كو بچوں كى پيدائش كے بعد اس كے ليئے پسنديدہ ہونے پر دلالت كررہا ہے _

۶_ عورت، وضع حمل كے بعد مناسب غذا اور روحى وذہنى حوالے سے آرام وتسلى كى محتاج ہوتى ہے _

فكلى واشربى وقرّى عينا

۷_ حضرت عيسي(ع) نے لوگوں كى تہمتوں كے مقابل اپنى والدہ كے دفاع كى ذمہ داريسنبھالي_فإمّا ترينّ من البشر أحدا ً فقولى إنّى نذرت للرحمن صوما حضرت عيسي(ع) كى جانب سے اپنى والدہ كو سكوت اختيار كرنے كى نصيحت كا مطلب يہ تھا كہ وہ اپنے دفاع كے حوالے سے پريشان نہ ہوں چونكہ يہ كام خود حضرت عيسي(ع) انجام د يں گے _ اور حضرت عيسي(ع) كا ولادت كے بعد اپنى والدہ سے تكلم كرنا حضرت مريم كے ليے اطمينان كا باعث تھا كہ وہ يہ كام بخوبى كرليں گے _

۶۴۶

۸_ حضرت عيسي(ع) نے اپنى والدہ حضرت مريم كو لوگوں سے مقابلہ كرنے كى روش اور انكى تہمتوں كے مقابلہ ميں رد عمل كا طريقہ سكھايا _فإمّا ترينّ من البشرأحداً فقولي

۹_ حضرت مريم وضع حمل كے وقت اوراسكے بعد اپنى قوم كى طرف پلٹنے تك تنہا تھيں _

فحملتة فانتبذت به مكاناً قصيّاًفإمّا ترين من البشرأحدا

جملہ شرطيہ ( فإما ترين )ممكن ہے اس مطلب پر دالالت كررہا ہو كہ وضع حمل اور اسكے بعد وہاں كوئي انسان نہ تھا اگر چہ سياق وسباق كے قرينہ سے كہا جاسكتا ہے يہاں مراد عموى انسان نہيں ہيں بلكہ وہ افراد مراد ہيں كہ جنكے نزديك حضرت مريم كا بچہ دار ہونا سوال انگيز ہو بعض نے (البشر) ميں ال كو عہدى جانا اوراس سے مراد انكى قوم كو جانا ہے_

۱۰_حضرت عيسي(ع) نے اپنى والدہ حضرت مريم(ع) كو لوگوں كا سامنا كرنے كى صورت ميں سكوت كے روزہ كى نذر ماننے كى نصيحت كى _فإما ترين من البشر أحد اً فقولى إنّى نذرت للرحمن صوما

۱۱_حضرت مريم نے اپنى قوم كے سب سے پہلے فرد كا سامنا كرتے ہى سكوت كے روزہ كى نذر مان لى _

فإما ترين من البشر أحداً فقولى إنّى نذرت

( فقولى ) كا ظاہر يہ ہے كہ مريم(ع) نے اپنى نذركو زبان سے بيان كيا ہو تو اسى صورت ميں وہى جملہ ( إنّى نذرت ) صيغہ نذرتھا اور حضرت مريم (ع) كى نذر اسے كہنے سے منعقد ہوگئي _

۱۲_ حضرت مريم(ع) ، كے سكوت كا روزہ ايك دن كا تھا اور يہ وہى وقت تھا كہ جب وہ اپنى قوم كى طرف لوٹ كرگيئں تھيں _إنى نذرت للرحمن صوماً فلن أكلم اليوم إنسيّا ( اليوم ) ميں الف لام عہد حضورى ہے يعنى ''آج '' اس سے مراد وہى اور روز ہے كہ جب وہ اپنے نومولود كے ساتھ اپنى قوم ميں لو ٹ كر گئيں _

۱۳_ حضر ت مريم نے اپنے فرزند كى راہنمائي كى بناپر اپنے روزہ كو الله تعالى كى وسيع رحمت كے حامل ہونے كے ساتھ ربط كا اعلان كيا _إنى نذرت للرحمن صوما

۱۴_ الله تعالى كى وسيع رحمت سے بہرہ مند ہونے كى صورت ميں ردّ عمل كے طور پر روطہ شائستہ عمل ہے_إنى نذرت للرحمن صوم

۱۵_ ( رحمان) الله تعالى كے اسماء اور صفات ميں سے ہے _للرحمن

۱۶_ حضرت مريم(ع) كا جسم و روح الله تعالى كى خصوصى نگرانى كے تحت تھے_فنا دى ها فكلى واشربى فإماترينّ

حضرت مريم كو پكارنے والا جو بھى ہو ،چاہے حضرت عيسي(ع) ہوں يا كوئي فرشتہ، بہر حال الله تعالى

۶۴۷

كى جانب سے تھا اور اسكے فرمان كے مطابق تھا لہذا ہم كہہ سكتے ہيں كہ حضرت مريم ان تمام حالات ميں الله تعالى كى خصوصى نگرانى ميں تھيں _

۱۷_ حضرت مريم(ع) كے دين ميں نذر ،ايك پسنديدہ چيز اور انكے ہم عصر لوگوں ميں يہ معروف چيز تھى _

فإما ترينّ من البشر أحداً فقولى إنّى نذرت للرحمن

۱۸_ سكوت كے روزہ كا پسنديدہ ہونا او ر اسكے ساتھ نذركا تعلق حضرت مريم(ع) كے دينى احكام ميں سے تھا ( دين يہود )

إنى نذرت للرحمن صوما

۱۹_ روزہ كى مدت ميں انسانوں سے كلام كا ترك كرنا، حضرت مريم(ع) كے دين ميں روزہ كے احكام ميں سے تھا _إنى نذرت للرحمن صوماً فلق أكلم اليوم إنسيا وہ روزہ جو حضرت مريم(ع) نے ركھا تھا دو صورتوں ميں نقل ہوا ہے (۱) كھانے اور بات كرنے سے پرہيز _ چونكہ اس زمانہ كى شريعت ميں روزہ دار كيلئے ضرورى تھا كہ وہ كلام سے بھى اجتناب كرے(۲) سكوت كى صورت ميں روزہ كہ روزہ دار صرف كلام كرنے سے پرہيز كرتا تھا ظاہر آيت پہلى صورت كے ساتھ مناسب ہے كيونكہ انہوں نے مطلقا روزہ كرنے كى نذر كى تھى اور اسكے ضمن ميں ترك كلام كيا تھا _

۲۰_ حضرت مريم(ع) كے دين ( دين يہود ) ميں روزہ دار، انسانوں كے علاوہ دوسروں سے كلام اور ذكر خدا كر سكتا تھا _إنى نذرت للرحمن صوماً فلن أكلم اليوم إنسيا (إنسي) يعنى ايك انسان ( قاموس) جملہ (لن أكلم اليوم إنسيا ) جملہ( إنى نذرت) كى فرع ہے لہذا يعنى چونكہ ميں نے روزہ كى نذركى ہے كسى انسان سے كلام نہيں كرسكتى اس فرع سے يوں ظاہر ہوتا ہے كہ يہود كے دين ميں روزہ دار كے ليے ضرورى ہے كہ وہ كسى انسان سے تكلم نہ كرے _ ليكن ذكر كرنا، الله تعالى سے مناجات كرنا ممنوع نہيں تھا _

۲۱_ جوان عورت كا اجنبى مرد سے بات كرنا جائز ہے_فلن أكلم اليوم إنسيا اگر عورت كا نامحرم سے بات كرنا، سرے سے حرام ہوتا تو يہاں عذ ر شرعى پيدا كرنے اور خاموشى كے روزہ كى نذر كرنے كى ضرورت ہى نہ تھى _ كہا جاتا ہے كہ يہ آيت روزہ سكوت كے مورد سے ہٹ كر قابل تمسك ہے چونكہ روزہ سكوت كے نسخ پر خاص نص وارد ہوئي ہے _

۲۲_نذر كى پابندى واجب ہے _إنى نذرت للرحمن فلن أكلم اليوم إنسيا اگر مريم(ع) نذر كے با وجود بات كرنے كا حق ركھتيں انكى نذر، لوگوں كے نزديك سكوت كے حوالے قطعى عذر نہيں ہوسكتى تھي_

۲۳_وہ عورت جس كا شوہر نہ ہو وہ نذر كرنے ميں آزاد ہے _

۶۴۸

فقولى إنى نذرت

۲۴_ نذر ميں قصد قربت لازم ہے _إنى نذرت للرحمن

۲۵_قربت كى نيت معاشر تى غير مناسب رويوں سے نجات كى نيت كے ساتھ منافى نہيں ہے _إنى نذرت للرحمن صوماً فلن أكلم اليوم إنسيا حضرت مريم(ع) نے لوگوں كے نز ديك اپنے سكوت كا عذ ر پيدا كرنے كيلئے روزہ كى نذركى ليكن جملہ (إنى نذرت للرحمان ) كے ساتھ اپنى نذر كو تقرب خدا كا وسيلہ قرارديا _

۲۶_نذر كرنے والے كيلئے ضرورى ہے كہ نذر كے صيغہ كا تلفظ ادا كرے _فقولى إنى نذرت

۲۷_نذركے صيغہ ميں ضرورى ہے كہ الله تعالى كے نام كا ذكر كرے _إنى إنى نذرت للرحمن

۲۸_(رحمان ) صفت كا ذكر، نذر كے صحيح ہونے كيلئے كافى ہے _إنى نذرت للرحمن

۲۹_ نذر تبرعى ( يعنى نذر كا كسى شرط پر معلق نہ ہونام صيحح ہے _إنى نذرت للرحمن صوما

۳۰_معاشرتى مشكلات سے فرار ہونے كيلئے نذر سے فائدہ اٹھانا جائزہے _إنى نذرت فلن أكلم اليوم إنسيا

۳۱_عن أبى عبدالله (ع) قال : إن الصيام ليس من الطعام والشراب وحده قالت مريم : إنى نذرت للرحمان صوماً أى صوماً حمتاً (۱) امام صادق عليہ السلام سے روايت ہوئي كہ آپ نے فرمايا : روزہ صرف كھانے پينے سے پرہيز نہيں ہے _ مريم نے كہا تھا :''إنى نذرت للرحمان صوماً ''يعنى سكوت كا روزہ _

آرام :آرام كے اسباب۴

آنكھ كى روشنى :آنكھ كى روشنى كے اسباب ۴

احكام :۲۱;۲۲;۲۳;۲۴;۲۶;۲۷;۲۸;۲۹;۳۰

اخلاص :اخلاص اور معاشرتى مشكلات سے رہائي و نجات ۲۵

اسماء و صفات :رحمان ۱۵

الله تعالى :الله تعالى كى حمايتں ۱۶

بچہ دارہونا :بچہ دار ہونے كے آثار ۴

____________________

۱)كافى ج۴ ص۸۷ج۳، نورالثفلين ج۳ص۲ ۳۳ ح۵۸_

۶۴۹

خوشى :خوشى كے اسباب ۴

ذكر :روزہ ميں الله تعالى كا ذكر ۲

رحمت :رحمت كے شامل حال لوگوں كى ذمہ دارى ۱۴; رحمت كے شامل حال ۱۳

روايت :۳۱روزہ :روزہ كا كردا ر ۱۴; روزہ كے احكام ۱۹،۲۰; سكوت كا روزہ ۱۹;۲۰; يہوديت ميں روزہ ۱۹ ، ۲۰ ; يہوديت ميں سكوت كا روزہ ۱۸

عمل :پسنديدہ عمل ۵/عورت :عورت كى نذر ۲۳

عيسي(ع) :عيسي(ع) كا قصہ ۱;۳ك۷;۸; عيسي(ع) كا كردار ۷; عيسي(ع) كا نو مولود حالت مين تكلّم ۱;۳;۷;عيسى كا ہدايت دنيا ۱۳عيسى كى تعليمات ۸; عيسي(ع) كى نصحتيں ۱۰;/كھجور :كھجور كے فوائد ۲

مريم :مريم پر زنا كى تہمت ۷،۸;مريم كا بچہ پيدا كرنا۹; مريم كا پانى پينا ۱;مريم كا دفاع ۷; مريم كا سكوت كاروزہ ۱۰،۱۱،۱۲،۳۱; مريم كا قصہ ۱،۳، ۷، ۸،۹، ۱۰ ، ۱۱ ،۱۲،۱۶; مريم كا كھجور كھانا ۱; مريم كا معلم ۸;مريم كو ہدايت ۱۳ ; مريم كى آنكھ ميں روشنى كا باعث ۳;مريم كى پانى كى ضرورت پورى ہونا ۳;مريم كى پريشانى كے دور ہونے كے اسباب ۳; مريم كى تنہائي ۹; مريم كى حفاظت ۱۶; مريم كى غذا كى ضرورت پورى ہونا ۳; مريم كى ملاقات كے حوالے سے روش۸;مريم كى نذر ۱۰،۱۱،۳۱; مريم كے زمانہ ميں نذر ۱۷; مريم كے سرور كا باعث ۳; نصيحت مريم كو كرنا۱۰

معاشرت :معاشرت كے آداب ۵

نامحرم :نامحرم كے احكام ۲۱; نامحرم سے گفتگو۲۱

نذر:معاشر تى مشكلات سے نجات كيلئے نذر ۳۰; نذر تبرعى ۲۹; نذر سے وفا كا وجوب ۲۲;نذر كا صيغہ ۲۶،۲۷، ۲۸; نذر كى تاريخ ۱۷; نذر كے احكام ۲۲،۲۳، ۲۴،۲۶،۲۷،۲۸،۲۹ ،۳۰ ; نذر كے صحيح ہونے كے شرائط ۲۸;نذر ميں اخلاص ۲۴;نذر ميں نيت ۲۴; يہوديت ميں نذر ۱۷،۱۸

واجبات :۲۲

وضع حمل :وضع حمل كرنے والى كو حوصلہ دينا ۶; وضع حمل كرنے والى كيلئے آرام ۶; وضع حمل كے بعد مادى ضروريات ۶;وضع حمل كے بعد مباركباد ۵; وضع حمل كے بعد نفيساتى ضروريات ۶; وضع حمل كيلئے غذا ۲،۶

۶۵۰

آیت ۲۷

( فَأَتَتْ بِهِ قَوْمَهَا تَحْمِلُهُ قَالُوا يَا مَرْيَمُ لَقَدْ جِئْتِ شَيْئاً فَرِيّاً )

اس كے بعد مريم بچہ كو اٹھائے ہوئے قوم كے پاس آئيں تو لوگوں نے كہا كہ مريم يہ تم نے بہت برا كام كيا ہے (۲۷)

۱_ حضرت مريم نے اپنے نو مولود عيسي(ع) سے راہنمائي لينے كے بعد اسے اعلانيہ اپنى گود ميں ليا اور اپنى قوم كى طرف گئيں _فا تت به قومها تحمله

۲_ حضر ت مريم لوگوں كى طرف لوٹنے كے وقت ہر قسم كے خوف اور پريشانى سے خالى تھيں _

فكلى واشربى فإماتريّن من البشر فا تت به قومها تحمله

اگر چہ جملہ ( أتت بہ قومہا ) عيسي(ع) كا اپنى والدہ كے ذريعے واضح اظہار كيلئے مكمل تھا ليكن يہا ں جملہ حاليہ ( تحملہ ) كا بھى اضافہ ہوا ہے تا كہ مريم كے اپنے فرزند كو اٹھانے پر دلالت ہو گويا حضرت مريم ميں اپنے فرزند كو پنہان كرنے كا كوئي ارادہ ہى نہ رہا ہو بلكہ اعلانيہ انہيں گود ميں ليا اور لوگوں ميں چلى آئيں _

۳_لوگوں نے مريم كو اپنے بچے كے ہمراہ ديكھتے ہى بغير سوال وجواب كے ان پر زنا كى تہمت لگائي _

فا تت به قومها تحمله قالوايا مريم لقد جئت شئياً فريّا

( فريّا ) صفت شبہ ہے اس سے مراد سنگين، بڑا عجيب اورايسا كام ہے جو پہلے كبھى نہ ہوا ہو يہ لفظ مادہ ( فرى ) سے بنا ہے كہ جس كا معنى قطع يعنى توڑنا ہے يعنى ايسے عمل نے گذشتہ سنت كو توڑ ديا ہے بھرحال جنہوں نے بھى يہ لفظ كہا انكى مراد حضرت مريم پر زنا كى تہمت تھى _

۴_ حضرت مريم اپنى قوم ميں ماضى ميں بھى صحيح و سالم اورہر قسم كى بد نامى سے پاكيزہ تھيں _

قالو يا مريم لقد جئت شيئاً فريّا

( فرياً) بتا رہا ہے كہ لوگوں نے ايك فضول تصور كى بناء حضرت مريم كو خطا كا رجانا اور اس كام سے وہ حيران رہ گئے اسكو گذشتہ سنت كے مخالف جانا لہذا معلوم ہوا انكے نزديك مريم كا كردارانتہائي اچھااور پاكيزہ تھا _

۵_ حضرت مريم كے زمانہ ميں بيت المقدس كے لوگ ،اخلاقى اور جنسى انحرافات كے مقابل بہت حساس

۶۵۱

تھے _لقد جئت شياً فريّا

۶_ عن أبى جعفر (ع) قال : لما قالت العواتق لمريم لقد جئت شياً فريّا أنطق الله تعالى عيسي(ع) عند ذلك (۱)

امام باقر (ع) سے روايت ہوئي ہے كہ جب نور س كى بہنوں نے مريم سے كہا :'' لقد جئت شيئاً فرياً ''اللہ تعالى نے اسى وقتعيسى (ع) كى زبان كو گفتگو كرنے كيلئے كھول ديا _

احساسات :ماں كے احساسات ۱

روايت :۶

عيسى :عيسى كا نومولود حالت ميں بولنا ۶; عيسي(ع) كا قصہ ۱;۶

مريم :مريم پرزنا كى تہمت ۳،۶; مريم كا اچھا سابقہ ۴;مريم كا قصہ ۱،۲،۶; مريم كا لوٹنا ۱;۲ مريم كى پريشانى دور ہونا ۲;مريم كى عفت ۴; مريم كے احساسات ۱

يہود :زمانہ مريم ميں يہود اور جنسى انحرافات ۵;زما نہ مريم ميں يہود كى تہمتيں ۳; زمانہ مريم ميں يہو د كى صفات ۵

آیت ۲۸

( يَا أُخْتَ هَارُونَ مَا كَانَ أَبُوكِ امْرَأَ سَوْءٍ وَمَا كَانَتْ أُمُّكِ بَغِيّاً )

ہارون كى بہن نہ تمھارا باپ برا آدمى تھا اور نہ تمھارى ماں بدكردرا تھى (۲۸)

۱_ حضرت مريم كى قوم نے انكے والدين كى عفت و پاكيزگى بيان كرتے ہوئے انہيں بغير نكاح كے بچہ دار ہونے پر سرزنش كى _ماكان أبوك امرا سوء وماكانت أمّك بغيّا

۲_ حضرت مريم حضرت ہارون كى نسل ميں سے تھيں _يا أخت هارون

جو قبيلہ جس شخص كى نسل سے تشكيل پائے اسے اسى شخص كے نام سے پكارا جاتا ہے اور اس قبيلہ كے افراد اخ يا اخت سے ايك دوسرے پكارتے تھے لہذا يہاں حضرت مريم اخت ہارون ہيں كا اطلاق اس حوالے سے تھا كہ وہ ہارون كى نسل ميں سے تھيں _

۳_ حضرت مريم كى قوم كے درميان ہارون ايسى صالح شخصيت تھى كہ پاكيزہ افراد كو انكى طرف منسوب كيا جاتا تھا_

____________________

۱) قصص الانبياء راوندى ص۲۶۵، ح۳۰۴ ، بحارالانوار ج۱۴ ص۲۱۵ ح۱۵_

۶۵۲

يا خت هارون

بعض مفسرين نے مريم كا ہارون كى طرف منسوب كيے جانا كا مقصد نسبى تعلق نہيں جانا بلكہ ہارون چونكہ حضرت مريم كى قوم ميں ايك برجستہ ترين شخص تھے كہ زہد و تقوى كے حامل اشخاص كو لوگ انكى طرف منسوب كيا كرتے تھے لہذا ان مفسرين نے اس نسبت كو اس حوالے سے جانا ہے _

۴_ مريم كے ايك پاك سيرت بھائي ،ہارون تھے _يا خت هارون

يہ بھى امكان ہے كہ حضرت مريم كى قوم نے اس ليئے انہيں اخت ہارون كہا كہ ان كا اس نام كا ايك بھائي تھا چونكہ اس كا ذكر خير مريم كے والدين كى پاكيزہ گى كى مانند لوگوں كى زبانوں پر رہاتھا _ اس قسم كے شائستہ لوگوں سے مريم كا تعلق لوگوں كے نزديك انكے گناہ كے بدترين ہونے كى وجہ تھي_

۵_ حضرت مريم كے والدين، اپنے زمانہ كے لوگوں ميں پاكيز گى اور نيك نامى كے حوالے سے مشہور تھے _

ما كان أبوك امرأ سوء وما كانت أمّك بغيا

۶_ بيت المقدس كے لوگوں نے حضرت مريم پر زنا كى تہمت لگائي _وما كانت أمّك بغيا

( بغي) يعنى بد كار عورت ( قاموس) لوگوں نے اگرچہ مريم پر واضح طور پر زنا كى تہمت نہيں لگائي ليكن كنايہ كے ساتھ يہ سب كچھ كہا جملہ ( و ما كا نت ) تمہارى ماں بد كارنہ تھى ) يعنى تم ايسى ہو_

۷_خاندان بالخصوص باپ كا بچوں كے اخلاقى رشد يا انحطاط ميں موثر كردار ہے _ما كان أبوك امرا سوء وما كانت امك بغي وہ تعبير جو حضرت مريم كى قوم نے انكے والدكے حوالے سے استعمال كى ہے اسميں تمام برائيوں كى نفى تھى _ يہ تعبير حكايت كررہى ہے كہ والدكى برائياں جيسى بھى ہوں ،بچوں كے فاسد ہونے ميں اہم كردار ركھتى ہيں البتہ والدہ كاكردار اتنى وسعت سے موثر نہيں ہے _

۸_ دوسرے كى نسبت صالح والدين كى اولاد سے كہ جس كہ رشتہ دار بھى عظيم ہوں اگر برے افعال صادر ہوں تو وہ زيادہ مذمت اور شرم كے قابل ہيں _ياأخت هارون ماكان أبوك امرا سوء و ماكانت امك بغيا

۹_ حضرت مريم اورانكا خاندان اپنے زمانہ ميں لوگوں كے درميان مشہورومعروف تھا _

يا خت هارون ماكان أبوك امرا سوء و ماكانت أمّك بغيا

۱۰_روى عن النبى (ص) أنه قال : هارون

۶۵۳

الذى ذكروه ( فى قوله تعالى : ى أخت هارون ) هو هارون أخوموسى (ع) (۱)

رسول خدا سے روايت نقل ہوئي كہ آپ(ص) نے فرمايا : ہارون جس كا مريم كى قوم نے تذكرہ كيا تھا وہ وہى حضرت موسى (ع) كے بھائي تھے_

۱۱_عن المغيرة بن شعبه قال : بعثنى رسول الله (ص) إلى أهل نجران فقالوا: ا را يت ما تقرا ون ؟ ( ى أخت هارون ) و موسى قبل عيسي(ع) بكذا وكذا قال : فرجعت فذكرت ذلك لرسول الله (ص) فقال : ألا اخبرتهم أنهم كانوا يسمّون بالا نبياء والصالحين قبلهم (۲)

مغيرہ بن شعبہ كہتے ہيں :پيغمبر اكرم (ص) نے مجھے اہل نجران كى طرف بھيجا انہوں نے مجھ سے پوچھا ہميں بتاؤيہ جو تم كہتے ہو ( يا اخت ہارون ) اس سے مراد كيا ہے حالانكہ حضرت موسى (ع) عيسى (ع) سے مدتوں پہلے تھے ( اورہارون ان كے بھائي تھے )

مغيرہ نے كہا ميں لوٹ آيا اور سب ماجرا رسول خدا (ص) كى خدمت ميں عرض كيا :انہوں نے فرمايا : كيوں نہيں ، انہيں بتايا كہ اس زمانے والے اپنے سے پہلے انبياء اور صالحين كا نام ركھا كرتے تھے _

باپ:باپ كے كردار كى اہميت ۷

صالحين :صالحين كے بچوں كا ناپسنديدہ عمل ۸; صالحين كے رشتہ داروں كا ناپسنديدہ عمل ۸

فرزند :فرزند كے انحطاط كے اسباب ۷; فرزند كے كمال كے اسباب ۷

فيملى :فيملى كا كردار ۷

مريم :مريم كى سرزنش ۱; مريم كا قصہ ۱،۶;مريم پر زنا كى تحمت ۶; يہودميں مريم كى شخصيت ۹; مريم كے آباؤ اجداد ۳; مريم كے بھائي ۴; مريم كے والدين كا بہترين سابقہ۵;مريم كے والدين كى عفت ۱; يہود ميں مريم كے آباؤاجداد كى شخصيت ۹

ہارون :ہارون اور مريم ۱۰;۱۱; ہارون كا احترام ۲; ہارون كى طرف نسبت كا معيار ۲; ہارون كى نسل ۳;يہود ميں ہارون ۲

يہودي:مريم كے زمانہ يہوديوں كى تہمتيں ۶; مريم كے زمانہ ميں يہو ديوں كى سرزنش ۱

____________________

۱)امالى سيد مرتضى ج۴ ص۱۰۶، تفسير برہان ج۳ ص۱۰ ح۲_

۲)الدرالمنشور ج۵ ص۵۰۷، نورالثقلين ج۳ ص۳۳۳ ح۶۳_

۶۵۴

آیت ۲۹

( فَأَشَارَتْ إِلَيْهِ قَالُوا كَيْفَ نُكَلِّمُ مَن كَانَ فِي الْمَهْدِ صَبِيّاً )

انھوں نے اس بچہ كى طرف اشارہ كرديا تو قوم نے كہا كہ ہم اس سے كيسے بات كريں جو گہوارے ميں بچہ ہے (۲۹)

۱_ حضرت مريم (ع) نے اپنے نو مولو د ( حضرت عيسى (ع) ) كى طرف اشارہ كرتے ہوئے اپنے او پر لگائي تہمت كے جواب كى ذمہ دارى انكے حوالے كي_و ماكانت أمّك بغياً _ فا شارت إليه

۲_ حضرت مريم (ع) اپنى قوم كى تہمتوں كا سامناكرتے وقت روزہ سے تھيں اور بات نہيں كررہى تھيں _

فا شارت إليه

۳_ حضرت مريم (ع) اپنے نو مولود فرزند حضرت عيسى (ع) ميں كلام كرنے اور تہمتوں كو دور كرنے كى قدرت پر يقين ركھتى تھيں _فا شارت إليه

حضرت مريم (ع) كا اپنى قوم ميں آنا اور اعلانيہ طور پر اپنے فرزند كولانا او رتہمتوں كے جواب دينے كے بجائے انكى طرف اشارہ كرنا، انكے يقين كو واضح كررہا ہے_

۴_ حضرت مريم(ع) اپنے نو مولود عيسى (ع) كے ساتھ اپنى قوم كي طرف دن كے وقت لوٹ كرآئي تھيں _

فلن أكلم اليوم إنسياً فأشارت إليه

۵_ لوگوں نے جب ديكھا كہ حضرت مريم (ع) نے تہمتوں كے جواب كى ذمہ دارى اپنے نو مولود حضرت عيسي(ع) كے كندھوں پر ڈال دى ہے تو وہ حيران رہ گئے انہوں نے اس چيز كو تسليم نہ كيا _

فأشارت إليه قالو كيف نكلّم من كان فى المهد صبيا

آيت ميں استفہام انكار ہے اور اس انكار كے ہمراہ بہت سى تاكيد بھى ہے_(۱) فعل ميں استفہام كہ جو ان موارد ميں ماضى پردلالت نہيں كررہا بلكہ قرار اور ثبات كوسمجھا رہا ہے (۲) ( فى المہد) كى قيد حضرت عيسي(ع) كى ہر قسم كى حركت سے عاجزى كى علامت ہے (۳) (صبيّا) قيدكى ( فى المہد ) كے ہوتے ہوئے ضرورت نہ تھى ليكن اسے كہنے دالوں نے اپنے انكار اور تعجب ميں اضافہ كر نے كيلئے كہا _

۶_ گہوارے ميں ليٹے ہوئے بچے كا زبان كھو لنا اور اپنى

۶۵۵

ولادت كے ماجرا كى وضاحت كرنا ، حضرت مريم كى قوم كيلئے قابل تصور نہ تھا _كيف نكلم من كان فى المهد صبيا

( مہد ) گہوارہ يا ہر وہ جگہ جو چھوٹے بچوں كے آرام كيلئے ہوتى ہے _

۷_ حضرت مريم پر بہت سے لوگوں نے زناكى تہمت لگائي تھى _قالوا يا مريم قالوا كيف نكلم

۸_دين يہود ميں مرد كا اجنبى عورت سے كلام كرنا جائز تھا _قالوا يا مريم قالو كيف نكلم

وہ جو مريم كى طرف آئے اور ان سے گفتگو كى _ وہ دين دارى كا ادعا ركھتے تھے اسى وجہ سے جزيات كو ابھارتے ہوئے مريم پر اعتراض كيا واضح سى بات ہے اگر يہ چيز انكے مذہب ميں جائز نہ ہوتى تو كوئي اور راہ اختيار كرتے _

۹_ نامحرم كى باتيں سننا اور اس سے گفتگو كرنا جائز ہے _قالوا يا مريم قالوا كيف نكلّم

حضرت مريم سے انكے ہم مذہب افراد كى گفتگو اور قران كا اس چيز كو رد نہ كرنا اور اس پر اعتراض نہ كرنااسكے شرعى ہونے پر د ليل ہے _احكام :۹

عيسى :عيسي(ع) كا قصہ ۳;۵; حضرت عيى كا نومولوى حالت ميں كلام كرنا ۳;حضرت عيسي(ع) كے نو مولودى حالت ميں كلام كا عجيب و غريب ہونا ۵

مريم :حضرت مريم پرزنا كى تہمت ۱;۷; حضرت مريم سے دفاع ۱،۳;حضرت مريم كا اشارہ ۱; حضرت مريم كا روزہ سكوت ۲; حضرت كا مريم كا قصہ ۱،۲،۳،۴،۵،۷; حضرت مريم كا يقين۳;حضرت مريم كے لوٹنے كا وقت ۴

نامحرم :نامحرم سے گفتگو ۹;نامحرم كے احكام ۸،۹; يہوديت ميں نامحرم سے گفتگو ۸

نومولود:نومولود كے كلام كا عجيب ہونا ۶

يہود :حضرت مريم كے زمانہ ميں يہود كا تعجب ۵;۶

آیت ۳۰

( قَالَ إِنِّي عَبْدُ اللَّهِ آتَانِيَ الْكِتَابَ وَجَعَلَنِي نَبِيّاً )

بچہ نے آواز دى كہ ميں اللہ كا بندہ ہوں اس نے مجھے كتاب دى ہے اور مجھے نبى بنايا ہے (۳۰)

۱_حضرت مريم كے نومولود نے اپنى والدہ كے اشارہ كے ساتھ ہى لوگوں كے مجمع ميں بات كر نى شروع كى _

فأشارت إليه قال إنى عبدالله

۲_ الله تعالى كى بند گى حضرت عيسي(ع) كا پہلا اعتراف اور ان كى نگاہ ميں سب سے بڑا مقام ہے_قال إنى عبدالله

۶۵۶

نبوت اور آسمانى كتاب كے حامل ہونے پر بھى صفت بندگي، كا مقدم ہونا اس بات كى علامت ہے كہ حضرت عيسي(ع) كى نظر ميں يہ صفت، تمام مقامات سے بلند تھى _

۳_ حضرت عيسي(ع) نومولودى كے زمانہ ميں الہى كتاب اورمقام نبوت كے حامل تھے_ء اتينى الكتب و جعلنى نبيا

۴_حضرت عيسي(ع) نے بچپن ميں اپنا الله تعالى كا بندہ ہونا،آسمانى كتاب كا حامل اور الہى پيغمبر ہونے كى حيثيت سے تعارف كروايا _قال إنى عبداللّه ء اتينى الكتب وجعلنى نبيّا

۵_حضرت عيسي(ع) كا گہوارے ميں كلام كرنا اور اپنا تعارف كروانا ان كے معجزات ميں ہونے كے ساتھ ساتھ حضرت مريم كى پاكيزہ ہونے اور لوگوں كى تہمتوں سے برى الذمہ ہونے پر كفايت كرنے والى برہان تھى _

فاشارت إليه قال إنى عبداللّه

۶_ آسمانى كتاب اور مقام نبوت كى عطا، الله تعالى كے ہاتھ ميں ہے _ء اتينى الكتب و جعلنى نبيا

۷_ مقام نبوت اور آسمانى كتاب كے حامل ہونے كيلئے كسى خاص عمر كى قيد نہيں ہے _

كيف نكلم من كان فى المهد قال انى عبدالله ء اتينى الكتب و جعلنى نبيا

۸_ مقام نبوت كے اثبات كيلئے ولادت ميں پاكيزگى من جملہ شرائط ميں سے ہے _قال وجعلنى نبيا

اگر چہ حضرت عيسي(ع) كا خود بات كرنا ہى حضرت مريم كى پاكيزگى كے اثبات كيلئے معجزہ تھا _

ليكن جملات ميں ايك قسم كا استدلال موجود ہے كہ ميں چونكہ پيغمبر ہوں اور پيغمبر كى ولادت حرام سے نہيں ہوسكتى پس ميں حلال زادہ ہوں _

۹_ مقام نبوت پانے كيلئے عملى تربيت، استعداد اور صلاحيتوں كا حصول ضرورى نہيں ہے _

قال إنى عبداللّه ء ا تينى الكتب وجعلنى نبيًا

حضرت عيسي(ع) نے گہوارہ ميں اپنا پيغمبر اور حامل كتاب ہونے كى حيثيت سے تعارف كروايااس سے معلوم ہوتا ہے كہ مقام نبوت پانے كيلئے كسى صلاحيت اور شخصى زحمت كرنے كى ضرورت نہيں ہے _

۱۰_'' عن يزيد الكناس قال : سا لت ا با جعفر (ع) ا كان عيسى ابن مريم حين تكلم فى المهد حجة الله على أهل زمانه؟ فقال : كان يومئذ نبيًا حجة الله غير مرسل أما تسمع لقوله حين قال إنى عبدالله آتا نى الكتاب وجعلنى نبياً'' فلمّا بلغ عيسي(ع) سبع سنين تكلم بالنبوة

۶۵۷

والرسالة حين أوحى الله تعالى وإليه (۱)

يزيد كناسى سے روايت ہوئي كہ اس نے امام باقر (ع) سے سوال كيا كہ كيا حضرت عيسى ابن مريم جب گہوارہ ميں تھے تواسى وقت اپنے زمانہ والوں پر حجت خدا تھے؟تو آپ(ع) نے فرمايا: حضرت عيسي(ع) اسى زمانہ ميں پيغمبر اور حجت خدا تھے ليكن رسالت كى ذمہ دارى نہيں ركھتے تھے_كيا انكى بات آپ نے نہيں سنى كہ انہوں نے فرمايا :''و جعلنى نبيًا'' پس جب سات سال كے ہوئے تو نبوت و رسالت كا اظہار كيا اسى زمانہ ميں ان پر الله تعالى كى طرف سے وحى ہوئي _

۱۱_( عن رسول الله (ص) : و هذا عيسى ابن مريم (ع) حين اشارت إليه قال : إنى عبداللّه آتانى الكتاب'' ...اعطى كتاب النبوةوا وصى بالصلاة والزكاة فى ثلاثة أيام من مولده و كلمهم فى اليوم الثانى من مولده (۲) رسول اكرم(ص) _ سے روايت ہوئي ہے كہ انہوں نے فرمايا :يہ حضرت عيسى ابن مريم ہيں كہ جب مريم نے ان كے طرف اشارہ كيا تو انہوں نے كہا :''إنى عبداللّه آتا نى الكتاب '' نبوت كى كتاب انہيں دى گئي ہے اور نماز و زكوة كى تاكيد كى گئي يہ سب كچھ انكى ولادت كے تين دن بعد ہوا اور انہوں نے اپنى ولادت كے دوسرے دن لوگوں سے كلام كيا_

آسمانى كتب:آسمانى كتب كا سرچشمہ ۶;آسمانى كتب كے نازل ہونے كى شرائط ۷

الله تعالى :لله تعالى كے افعال ۶

انبياء:انبياء كا حلال زادہ ہونا ۸

روايت :۱۰;۱۱

عيسى :حضرت عيسي(ع) كا قصہ ۱،۱۱ ; حضرت عيسي(ع) كا معجزہ ۵; حضرت عيسي(ع) كے مقامات ۲،۳;حضرت عيسي(ع) كانومولود حالت ميں كلام كرنا ۱،۵،۱۱; حضرت عيسي(ع) كى نومولو د ۳،۴;حضرت عيسي(ع) كى آسمانى كتاب ۳، ۴; حضرت عيسي(ع) كى رسالت ۱۰; حضرت عيسي(ع) كى عبوديت ۲،۴;حضرت عيسي(ع) كى نبوت ۳،۴،۱۰،۱۱; حضرت عيسي(ع) كا نظرہونا ۲

مريم :حضرت مريم كا اشارہ ۱; حضرت مريم كا قصہ ۱ حضرت مريم كى پاكيزگى كے دلائل ۵ حضرت مريم كى عفت كے دلائل۵

نبوت :نبوت كا رسالت سے فرق ۱۰; بچپن ميں نبوت ۳،۴،۱۰،۱۱; نبوت كا سرچشمہ ۶; نبوت كى شرائط ۷،۸،۹

____________________

۱)كافى ج۱ ص۳۸۲ ح۱ نور الثقلين ج۳ ص۳۳۳ح۶۶_

۶۵۸

آیت ۳۱

( وَجَعَلَنِي مُبَارَكاً أَيْنَ مَا كُنتُ وَأَوْصَانِي بِالصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ مَا دُمْتُ حَيّاً )

اور جہاں بھى رہوں با بركت قرار ديا ہے اور جب تك زندہ رہوں نماز اور زكوة كى وصيت كى ہے (۳۱)

۱_ الله تعالى نے حضرت عيسي(ع) كو متبرك پيغمبر خوش قدم اور خير و بركت كابا عث قرار ديا _وجعلنى مباركاً أين ماكنت

( بركة) زيادہ ہونا اور فراوان ہونا ( مصباح) (مبارك ) بہت سے خير كا سرچشمہ (لسان العرب) اور (اين ماكنت) كى تعبير حضرت عيسي(ع) كى خوش قدمى سے حكايت كررہى ہے _ اسطرح كہ وہ جس جگہ بھى ٹھہريں اسى جگہ خير وبركت بڑھے گي_

۲_ حضرت عيسي(ع) نے بچپن ميں اپنے ميں خير و خوبى كے فراوان ہونے اور بڑھنے كو الله تعالى كى طرف سے عطا شدہ صفات شمار كيا _و جعلنى مباركاً أين ماكنت

۳_ حضرت عيسي(ع) كے وجود كى خير و بركت كسى خاص مكان يا خاص لوگوں تك محدودنہيں ہے_

وجعلنى مباركاً أين ما كنت

۴_ موجودات كو خير و بركت عطا كرنا، الله تعالى كے اختيار ميں ہے اور اسكى منشاء كے مطابق ہے _وجعلنى مبارك

۵_ سارى زندگى نماز قائم كرنا اور زكواة ادا كرنا ،اللہ تعالى كى حضرت عيسي(ع) كوانكى زندگى كے ابتدائي دنوں ميں نصيحت تھي_وا وصنى بالصلوة والزكوة مادمت حيا

۶_حضرت عيسي(ع) نے لوگوں كو اپنے تعارف كے ضمن ميں نماز اور زكواة كے حوالے سے الہى فرمان حاصل كرنا ،اپنى خصوصيات ميں سے شمار كيا ہے _وا وصنى بالصلوة والزكوة مادمت حيًا

۷_ نماز اور زكواة حضرت عيسي(ع) كى شريعت ميں دينى ذمہ داريوں ميں تھيں _وا وصنى بالصلوة والزكوة

انبياء جن تكاليف كے ليے اپنے آپ كومكلف سمجھتے ہيں اور دوسروں كے سامنے انكا اظہار كرتے ہيں سوائے چند موارد كہ جن پر دليل ہے باقى انكے پيرو كاروں كے ليے بھى ہيں ورنہ دوسروں كيلئے انہيں بيان كرنے كى ضرورت ہى نہ تھى _

۸_حضرت مريم كے زمانہ كے لوگ نماز اور زكواة كے مفاہيم سے آشنا ئي ركھتے تھے _وا وصنى بالصلوة والزكو ة حضرت عيسي(ع) نے گہوارہ ميں لوگوں كيلئے نماز اور زكواة كى بات كى لہذا معلوم ہوا كہ وہ پہلے سے ہى انكے مفاہيم سے آشناتھے_

۶۵۹

۹_ نماز اور زكواة ( بندگى كا اظہار اور انفاق ) الہى تكاليف ميں خصوصى اہميت كى حامل ہيں _وا وصنى بالصلوة والزكوة

الله تعالى كى نماز و زكواة كے بارے ميں براہ راست سفارش كرنا دونوں كے كمال تك پہنچے ميں اہم كردار او راہميت كو واضع كررہى ہے _

۱۰_ الله تعالى كى طرف حضور پيدا كرنے كے ساتھ ساتھ لوگوں كى طرف توجہ بھى لازم ہے _وا وصنى بالصلوة والزكوة مادمت حيًّا

نماز ميں صرف الله تعالى كى طرف توجہ بيان ہوئي ہے جب كہ زكواة كى بنياد يہ ہے كہ دوسروں كى مال وغيرہ سے مدد كى جائے_

۱۱_الہى تكاليف، انسان كى دنيا دى زندگى تك محدود ہيں _مادمت حيًا

۱۲_ نماز اور زكواة كسى صورت ميں بھى ترك نہيں ہونى چاہيے _وا وصنى بالصلوة والزكوة مادمت حيًا

اگرچہ ( مادمت حيًا) والا جملہ حضرت عيسي(ع) كے ساتھ مربوط ہے _ ليكن تكاليف كے مشترك ہونے كى بناء پر دوسرے مسيحى بھى اسكے مكلف ہيں اور جب بھى قرآن گذشتہ اديان سے كوئي حكم نقل كرے اوراسكے نسخ ہونے كونہ بتلائے تو مسلمانوں پر بھى وہ حكم و اجب الا تباع ہوتا ہے _

۱۳_'' عن أبى عبداللّه (ع) قال فى قول الله _ عزوجل _وجعلنى مباركاً أين ماكنت قال نفّا عاًّ؟ (۱)

امام صادق (ع) سے حضرت عيسي(ع) كى زبان سے ادا ہونے والى كلام الہى ( وجعلنى مباركاً) كے حوالے سے روايت ہوئي ہے كہ : ''مبارك ''سے مراد، بہت زيادہ نفع پہچانے والاہے _

۱۴_عن'' النبى (ص) : وجعلنى مباركاً أين ماكنت'' قال : معلماً ومو دباً (۲)

رسول خدا سے روايت ہوئي ہے كہ آپ(ص) نے فرمايا: ''جعلنى مباركاً'' يعنى الله تعالى نے مجھے تعليم دينے والا اور ادب سكھانے والابنايا ہے_

۱۵_''معاوية بن وهب قال: سا لت أبا عبداللّه (ع) عن أفضل ما يتقرّب به العباد إلى ربّهم وا حب ذلك إلى الله عزّوجلّ ما هو؟

____________________

۱) كافى ج۲ ص۱۶۵ح۱۱ نورالثقلين ج۳ ص۳۳۳ح۶۴

۲) الدر المنشور ج۵ ص۵۰۹

۶۶۰

فقال : ما ا علم شيأً بعد المعرفة ا فضل من هذه الصلاةا لا ترى أن العبد الصالح عيسى ابن مريم (ع) قال: وا وصانى بالصلاة والزكوة مادمت حياً'' (۱)

معاويہ بن وہب كہتے ہيں : ميں نے امام صادق سے پوچھا : بہترين چيز جو بندوں كے الله تعالى سے تقرب كا باعث ہو اور الله تعالى كے نزديك سب سے زيادہ محبوب ہو وہ كيا ہے ؟ فرمايا : ميں معرفت كے بعد نماز سے بہتر چيز نہيں جانتا كيا تم نہيں ديكھ رہے كہ الله تعالى كے صالح بندے عيسى ابن مريم نے كہا ہے _وا وصانى بالصلوة والزكات مادمت حيّا

۱۶_قال الصادق (ع) فى قوله ( وا صانى بالصلوة و الزكوة قال : زكاةالروؤس (۲) امام صادق (ع) نے حضرت عيسي(ع) كے كلام''وا وصانى بالصلاة والزكوة'' كے بارے ميں فرمايا : زكوة سرانہ يعنى '' فطرہ'' ہے _

احكام :۱۲

الله تعالى :الله تعالى كى بركات ۱; الله تعالى كى حيثيت ۴;اللہ تعالى كى نصحتيں ۵

انفاق :انفاق كى اہميت ۹//بركت :بركت كا سرچشمہ ۲;۴

تكليف :تكليف كى حدود۱۱//خير :خير كا سرچشمہ ۴

دنيا:دنيا كا كردار۱۱//ذكر :الله تعالى كا ذكر ۱۰

روايت :۱۳;۱۴;۱۵;۱۶

زكواة :زكواة فطرہ كى اہميت ۱۶; زكواة كى اہميت ۹ ; ۱۲ ;زكواة كى نصحيت ۵;۶;زكواة كے احكام ۱۲; مريم كے زمانہ ميں زكواة ۸عبوديت :عبوديت كى اہميت ۹

عيسى :عيسي(ع) كا تعارف ۶; عيسي(ع) كا خوش قدم ہونا ۱ ; عيسي(ع) كا قصہ ۶; عيسي(ع) كا كردار ۱۴; عيسي(ع) كو نصيحت ۵ ; عيسي(ع) كو وحى ۶;عيسى كى بركت ۱،۲، ۱۳،۱۴ ; عيسي(ع) كى بركت كى خصوصيات ۳; عيسي(ع) كى تعليمات ۱۴;عيسى كى خصوصيات ۶; عيسي(ع) كى رائے ۲;عيسى كى نومولودى ۲،۵; عيسي(ع) كے فضائل ۱،۲،۳،۱۳

لوگ :لو گوں ميں كى طرف توجہ كى اہميت ۱۰

____________________

۱) كافى ج۳ص۲۶۴ح، نورالثقلين ج۳ ص۴ ۳۳ ح۶۹

۲) تفسير قمى ج۲ ص۵۰، نورالثقلين ج۳ ص۳۳۵ح۷۰_

۶۶۱

مسيحيت :مسيحيت ميں زكواة ۷; مسيحيت ميں نماز ۷

نماز :مريم كے زمانہ ميں نماز ۸; نماز كى اہميت ۹; ۱۲ ; نماز كى فضيلت ۱۵; نماز كى نصيحت ۵;۶ ; نمازكے احكام ۱۲

آیت ۳۲

( وَبَرّاً بِوَالِدَتِي وَلَمْ يَجْعَلْنِي جَبَّاراً شَقِيّاً )

اور اپنى والدہ كے ساتھ حسن سلوك كرنے والا بنايا ہے اور ظالم و بد نصيب نہيں بنايا ہے (۳۲)

۱_والدہ كے ساتھ اچھا سلوك اور انہيں محترم جاننا ، حضرت عيسي(ع) كى ولادت كے آغاز سے ہى ان ميں الہى سيرت اور خدا دادى خصلت _وبرّاً بوالدتي

۲_ حضرت عيسي(ع) نے گہوارہ ميں اپنى والدہ حضرت مريم كے حوالے سے اپنے آپ كا حسن سلوك سے پيش آنے والا اور اچھائي كرنے ولافرزند كے عنوان سے تعارف كروايا اوراس خصوصيت كو الہى عطيہ جانا _وبرّاً بوالدتي

گذشتہ آيت كے قرينہ سے ''وبرّا بوالدتي'' يہ جملہ مقدر ہے _وجعلنى برّا بوالدتي

۳_ حضرت عيسي(ع) نے اپنى خصوصيات بتاتے ہوئے اپنى بغير باپ كے ولادت پرتاكيد كي_وبرّاً بوالدتي

حضرت عيسي(ع) نے نيكى كرنے كے حوالے سے

صرف اپنى والدہ كا تذكرہ كيا اپنے والد كا ذكر درميان ميں نہيں لائے تا كہ اپنى گفتگو ميں اس بات پر كہ انكى والدہ پاكدامن ہيں تائيد كريں _

۴_حضرت مريم گناہ وفحشا سے پاك ومنزہ اور بہت زيادہ اكرام كے لائق ہيں _لقد جئت شياً فريّاً وبرّاًبوالدتي

حضرت عيسي(ع) نے اپنے معجزہ كے ساتھ حضرت مريم كو لوگوں كى غلط تہمت سے برى الزمہّ كيا _ اور ساتھ ہى اپنے آپ كو حضرت مريم كا خدمت گزا ر پيغمبر (ع) بتلا يا اور خدمت گزارى كے بيان ميں صفت شبہ (برّاً) كوا ستعمال كيا جو كہ ثبوت ودوام پر دلالت كرتى ہے تا كہ بہت زيادہ تاكيد كرتے ہوئے حضرت مريم كے احترام كواپنى ذمہ دارى شمار كريں _

۵_ حضرت عيسي(ع) جباريت سركشى اور آمريت سے منزہ اور رنج وشكست سے دور تھے _ولم يجعلنى جباراً شقيًا

( جبار) اسے كہتے ميں جو اپنے آپ كو برتر

۶۶۲

جانتے ہوئے كسى كے ليے اپنے اوپر كسى قسم كے حق كا قائل نہ ہو ( قاموس ) اسى طرح وہ جو حق قبول كرنے سے انكار كرے اوراسى طرح جو دوسروں كو اپنے تحت لائے اسے بھى جباّر كہتے ہيں (مفردات راغب ) شقاوت ) يعنى سختى اور شدت ( قاموس ) اسى طرح سعادت ( كاميابى ) كے مقابل معنى ميں بھى استعمال ہوتا ہے _ ( مفردات راغب )

۶_ الله تعالى كى عنايات نے حضرت عيسي(ع) كوحق قبول كرنے والا ، خو ش بخت ا ور نرم مزاج والا شخص بناديا_

ولم يجعلنى جباراً شقيّ

۸_جباريت حق دشمن اور دوسروں كو غلام بنانا، شقاوت اور بدبختى كے اسباب ميں سے ہيں _ولم يجعلنى جباراً شقيً

( شقيًا)ممكن ہے ( جباّراً) كيلئے صفت توضيحى ہو يعنى جو بھى جباّرہو ا وہ شقى بن جائے گا _

۹_والدہ كے ساتھ نيكى كو ترك كرنا، بدبختى كى علامت ہے _وبرّاً بوالدتى و لم يجعلنى جبّاراً شقيًا

ممكن ہے ( لم يجعلنى ) كا گذشتہ جملے پر'' عطف '' عطف سببب بر مسبب ہو يعنى چونكہ الله تعالى نے مجھے جباراور شقى نہيں بنايااس ليے ميں اپنى والدہ كے ساتھ نيك سلوك كرنے والا ہوں لہذا جو اپنى والدہ كے ساتھ نيكى ترك كرے وہ شقى اور جباّر ہے _

۱۰ _والدہ كے ساتھ نيكى اور اپنى خواہشات كوان پر مسلّط كرنے سے پرہيز ضرورى ہے _وبرّاًبوالدتى ولم يجعلنى جبارا

جملہ ( لم يجعلنى جباراً )( الله تعالى نے مجھے جبار نہيں قرار ديا ) قرينہ ( برّا بوالدتى ) كے ساتھ يہ معنى دے رہا ہے كہ ميں اپنى والدہ كے در مقابل جباّر نہيں ہوں _

۱۱_عن أبى عبدا لله (ع) ( فى تعريف الكبائر) و منها عقوق الوالدين لانّ اللّه _ عزوجل _جعل العاقّ جباراً شقياً فى قوله حكاية، قال عيسي(ع) (ع) : و''برّاًبوالدتى ولم يجعلنى جباراً شقياً (۱) ( گناہ كبيرہ كى وضاحت ميں ) امام صادق (ع) سے روايت ہوئي ہے كہ عقوق والدين ميں سے ايك والدين كى نافرمانى بھى ہے كيونكہ الله تعالى نے اپنى كلام ميں حضرت عيسي(ع) سے نقل كرتے ہوئے عاق نافرمانى كرنے والے كو جباّر اور شقى قرار ديا ہے_جيسا كہ يہ فرمايا :

الله تعالى :الله تعالى كى عنايت كے آثار ۶

الله تعالى كے عطيات :الله تعالى كے عطيات كے شامل حال ۲

تسلط چاہنا:تسلط چاہنے سے پرہيز ۷;تسلط چاہنے كے آثار ۸

____________________

۱)عيون اخبارالرضا ج۱، ص۲۸۶،ب۲۸ح۳۳ نورالثقلين ،ج۳، ص۳۳۵، ح۷۱_

۶۶۳

جباريت :جباريت كے آثار ۸

حق :حق كے ساتھ دشمنى كے آثار ۸

روايت :۱۱

شقاوت :شقاوت سے پرہيز ۷; شقاوت كى علامات ۹; شقاوت كے اسباب ۸; شقاوت كے اسباب سے پرہيز ۷

ظلم :ظلم سے پرہيز ۷

عيسى (ع) :عيسي(ع) كا قصہ ۳ عيسي(ع) كا منزہ ہونا ۵;عيسى (ع) كانيكى كرنا ۱ ; عيسي(ع) كى تواضع ۵; عيسي(ع) كى خوش رفتارى ۲;عيسي(ع) كى خلقت كے حوالے سے خصوصيات ۳;عيسى (ع) كي رائے ۲;عيسى كى سعادت مندي۵; عيسي(ع) كا سعادت كا سرچشمہ ۶; عيسي(ع) كى سيرت۱; عيسي(ع) كى عصمت ۵; عيسي(ع) كے حق قبول كرنے كا سرچشمہ ۶; عيسي(ع) كے فضائل ۱،۲،۵،۶

گناہ كبيرہ : ۱۱

ماں :ماں پر اپنى جباّريت مسلط كرنے سے پرہيز ۱۰; ماں سے نيكى ۱;۲;ماں سے نيكى ترك كرنے كے آثار ۹; ماں سے نيكى كرنے كى اہميت ۱۰; ماں كا احترام ۱

مريم (ع) :مريم (ع) كا احترام ۴; مريم (ع) كا منزہ ہونا ۴ مريم (ع) كى عصمت ۴; مريم (ع) كى عفت ۴; مريم (ع) كے فضائل ۴

والدين :والدين كے عاق ہونے كا گناہ ۱۱

آیت ۳۳

( وَالسَّلَامُ عَلَيَّ يَوْمَ وُلِدتُّ وَيَوْمَ أَمُوتُ وَيَوْمَ أُبْعَثُ حَيّاً )

اور سلام ہے مجھ پر اس دن جس دن ميں پيدا ہوا اور جس دن مروں گا اور جس دن دوبارہ زندہ اٹھايا جاؤں گا (۳۳)

۱_ حضرت عيسي(ع) نے گہوارہ ميں اپنى ولادت موت اور حشر كے مراحل ميں اپنى سلامتى اور مكمل امن كا اعلان فرمايا _والسّلام على يوم ولدت و يوم أموت و يوم أبعث حيّا

( السّلام ) ميں ''الف و لام'' خصوصيات كے استقراق كيلئے ہے يعنى مكمل اور تمام خصوصيات كے ساتھ سلامتى اسى ليے يہ سلام حضرت يحيى كے حوالے سے سلام كے ساتھ مختلف ہے _

۶۶۴

۲_ حضرت عيسي(ع) ولادت كے زمانہ ميں صحيح و سالم اور رشد و كمال كيلئے تياّر، جسم و روح كے مالك تھے _

والسّلام على يوم ولدت

۳_ حضرت عيسي(ع) كے ليے موت كے لمحات اور روز محشرميں مكمل سلامتى او رحفاظت حضرت عيسي(ع) كيلئے ضمانت شدہ ارو ناقابل تغييّر ہے _والسّلام عليّيوم أموت ويوم أبعث حيّا

۴_حضرت عيسي(ع) نے اپنى ولادت كے مرحلہ كوہر عيب وبدى سے محفوظ كہتے ہوئے اپنى والدہ حضرت مريم (ع) كے لوگوں كے غلط الزامات سے پاك اور منزہ ہونے پر تاكيد كى _والسّلام عليّ يوم ولدت

۵_ ولادت موت اور حشر كازمانہ انسان كيلئے تين حساس اور تقدير ساز مراحل ہيں _والسّلام عليّ يوم أبعث حيّا

۶_ انسان ،صحت وسلامتى اورالہى حفاظت كامحتاج ہے حتّى كہ موت كے لمحات ميں بھى _والسّلام عليّ يوم أموت

موت كے وقت سلامتى سے مراد وحشت ، ناميدى اور اضطراب وغيرہ سے دو ر ہونا ہے كہ الله اور معاد كے منكر اسميں گرفتار ہونگے _

۷_حضرت مريم (ع) پر تہمت لگانے والے سلامتى اور امن سے بے بہرہ تھے _والسّلام عليّ

( السّلام ) يعنى مكمل سلامتى جو كہ تمام خصوصيات ليے ہوئے ہو يہ كلام جو كہ حصر اضافى كا حامل ہے ان لوگوں كے در مقابل جو حضرت مريم كو توبيخ كرنے كيلئے آئے تھے ايك قسم كى تعريض پر مشتمل ہے يعنى صرف ميں ، مكمل سلامتى ركھتا ہوں ليكن تم لوگ اسے نہيں ركھتے ہو _

۸_ حضرت عيسي(ع) دوسرے انسانوں كى طرح ولادت ،موت اور حشر كے مراحل ليے ہوئے ہيں اور خود اس چيز كا اعتراف كرتے ہيں _يوم ولدت ويوم أموت ويوم أبعث حيّا

۹_ حضرت عيسي(ع) بعض، پيش آنے والے حوادث سے آگا ہ تھے _والسّلام عليّ يوم أموت

۱۰_ اپنے سے يادوسروں سے تہمتوں كو دور كرنے كيلئے اپنى خصوصيات اور امتيازات كو شمار كرنا، نا پسنديدہ نہيں ہے _

قال إنى عبدالله ويوم أبعث حيّا

۱۱_حضرت عيسي(ع) كيلئے آخرت ميں خصوصى زندگى _ويوم أبعث حيّا

اگر چہ فعل (ا بعث ) زندہ ہونے پر دلالت كررہا ہے ليكن ( حيّا ) كے ساتھ اس كى تصريح شايد اس ليے ہو كہ دوسروں كى نسبت حضرت عيسي(ع) كو آخرت ميں خصوصى زندگى حاصل ہوگي_

۶۶۵

۱۲_ انسان، قيامت ميں دوبارہ زندہ ہونگے _يوم اموت ويوم أبعث حيّا

اپنى تعريف :اپنى تعريف كاجائز ہونا ۱۰

امن و حفاظت :موت كے وقت امن و حفاظت ۶

انسان :انسان كى ضرورتيں ۶//تقدير :تقدير ميں موثر اسباب ۵

تہمت :دوسروں سے تہمت كو دور كرنا ۱۰

حشر :حشر كى اہميت ۵

خود :خود سے تہمت كا دور كرنا ۱۰

سلامتى :موت كے وقت سلامتى ۶

ضرورتيں :امن كى ضرورت ۶; سلامتى كى ضرورت ۶

عيسى (ع) :عيسي(ع) كى اخروى امنيت ۱;۳; عيسي(ع) كى اخروى سلامتى ۱;۳; عيسي(ع) كا اقرار ۸; عيسي(ع) كا بشر ہونا ۸; عيسي(ع) كے رشد كا پيش خيمہ ۲; عيسي(ع) كے كمال كا پيش خيمہ ۲; عيسي(ع) كى تقدير ۹; عيسي(ع) كى حفاظت كا حتمى ہونا ۳; عيسي(ع) كى سلامتى كا حتمى ہونا ۳; عيسي(ع) كا حشر ۸; عيسي(ع) كے حشر كى خصوصيات ۳; عيسي(ع) كى خصوصيات ۱۱; عيسي(ع) كى موت كى خصوصيات ۳; عيسي(ع) كى ولادت كى خصوصيات ۴; عيسي(ع) كى آخرت ميں زندگى ۱۱;عيسى (ع) كى دنياوى سلامتي۱; عيسي(ع) كے امن كا سرچشمہ ۱; عيسي(ع) كى سلامتى كا سرچشمہ۱; عيسي(ع) كى سلامتى ۲;۴; عيسي(ع) كا علم غيب ۹; عيسي(ع) كا قصہ ۴; عيسي(ع) كا نومولودى ميں كلام كرنا ۱; عيسي(ع) كا منزہ ہونا ۴; عيسي(ع) كى موت ۸; عيسي(ع) كى ولادت ۲;۸

مردے:مردوں كى اخروى زندگى ۱۲

مريم (ع) :مريم (ع) پر تہمت لگانے والوں كا ناامن ہونا ۷;مريم (ع) كا قصہ ۴; مريم (ع) كا منزہ ہونا ۴

موت :موت كى اہميت ۵

نظريہ كائنات :نظريہ كائنات اور آئڈيالوجى ۱۲

ولادت :ولادت كى اہميت ۵

۶۶۶

آیت ۳۴

( ذَلِكَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ قَوْلَ الْحَقِّ الَّذِي فِيهِ يَمْتَرُونَ )

يہ ہے عيسى بن مريم كے بارے ميں قول حق جس ميں يہ لوگ شك كر رہے تھے (۳۴)

۱_قرآن، حضرت عيسي(ع) كى شخصيت اور حقيقى داستان بيان كرنے والاہے _ذلك عيسى ا بن مريم قول الحق

( ذلك ) كا اشار ہ ان اوصاف كا حامل ہے كہ جن كا گذشتہ آيات ميں ذكر ہو ا ہے اور ( قول الحق ) فعل محذوف ( اقول) كا مفعول ہے _ يعنى حقيقى بات كررہا ہوں _

۲_ حضرت عيسي(ع) مريم كے فرزند، اور بلند مقام و منزلت كے مالك ہيں _ذلك عيسى ابن مريم

( ذلك ) بعيد كيلئے اشارہ كے طور پر استعمال ہوتا ہے جب اسے نزديك كيلئے استعمال كيا جائے تو وہاں مقصود مورد اشارہ كى عظمت منزلت او ر بڑائي كا بيان ہے _

۳_ حضرت عيسي(ع) بغير والد كے تخليق ہوئے ذلك عيسى ابن مريم حضرت عيسي(ع) كى والدہ كى طرف نسبت دينا جب كہ ايسى نسبت رواج كے مطابق نہيں ہے_مندرجہ بالا نكتہ كو بيان كررہى ہے _

۴_ حضرت عيسي(ع) اللہ تعالى كے فرزند نہيں ہيں _عيسى ابن مريم

حضرت عيسي(ع) كى اپنى والدہ حضرت مريم كى طرف نسبت تعريضى ہے ان كے حوالے سے جو انہيں الله تعالى كا فرزند جانتے ہيں _ لہذا نہيں سوائے ماں كے كسى اور طرف منسوب نہيں كرنا چايئےعد والى آيت اسى نكتہ كو واضع كررہى ہے_

۵_ قرآن، تاريخى حقائق اور انكى واقعيت كوبيان كرنے والا ہے _ذلك عيسى ابن مريم قول الحق الذى فيه يمترون

۶_ حضرت عيسي(ع) اللہ تعالى كا كلمہ اور اسكے فرمان سے وجودپانے والے ہيں _

ذلك عيسى ابن مريم قول الحق

(قول) كا منصوب ہونا ممكن ہے اسكے حال ہونے كى بناء پر ہو اور يہ بھى احتمال ہے كہ فعل مدح محذوف كى وجہ سے منصوب ہو _ ان دو احتمالو ں كى بنياد پر الله تعالى كى كلام ميں ( قول الحق ) سے مراد، اسكے فرمان پر حضرت عيسي(ع) كى خلقت ہے_

۷_حضرت عيسي(ع) كى ماہيت كے بارے ميں ( انكے بشر ہونے اور بغير باپ كے وجود ميں آنے ميں ) تاريخى ادوار ميں غلط قسم كى ترديد وشك موجود ہے_ذلك عيسى ابن مريم الذى فيه يمترون

۶۶۷

( الذي) عيسي(ع) يا'' قول الحق'' كيلئے صفت بے اور (امترائ) ( ''يمترون ''كا مصدر ) شك وترديد كے معنى ميں ہے صيغہ'' يمترون'' كا غيب ذكر ہونا اس بات سے حكايت كررہاہے كہ مسلمانوں سے ہٹ كرايسے لوگ بھى تھے كہ جو حضرت عيسي(ع) كے بارے ميں ايسے عقائد ركھتے تھے كہ جو كہ يقين كى منزل پر نہيں تھے _

الله تعالى :الله تعالى كے اوامر ۶; الله تعالى كے كلمات ۶

تاريخ :تاريخ كے سرچشمہ ۵

عيسى (ع) :عيسى اور الله تعالى كا فرزندہونا ۴;عيسى (ع) كا بشر ہونا ۷; عيسي(ع) كا قصہ ۱;عيسى (ع) كى خلقت كا سرچشمہ ۶; عيسي(ع) كى خلقت كے حوالے سے خصوصيات ۳، ۷; عيسي(ع) كى ماں ۲; عيسي(ع) كے بارے ميں شك ۷; عيسي(ع) كے فضائل ۶; عيسي(ع) كے مقامات ۲

قران مجيد :قران مجيد كى تعليمات ۱;۵

مريم :مريم كا فرزند ۲

آیت ۳۵

( مَا كَانَ لِلَّهِ أَن يَتَّخِذَ مِن وَلَدٍ سُبْحَانَهُ إِذَا قَضَى أَمْراً فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُن فَيَكُونُ )

اللہ كے لئے مناسب نہيں ہے كہ وہ كسى كواپنا فرزند بنائے وہ پاك و بے نياز ہے جب كسى بات كا فيصلہ كرليتا ہے تو اس سے كہتا ہے كہ ہو جا اور وہ چيز ہوجاٹى ہے (۳۵)

۱_اللہ تعالى كا مقام اس چيز سے انتہائي بلند و برتر ہے كہ وہ اپنے ليے كوئي فرزند انتخاب كرے _ما كان لله أن يتّخذ من ولد ( ما كان ) كى تعبير اس وقت استعمال ہوتى ہے

كہ جب اسميں كوئي پائدار سنت يا كسى موجود كى ذاتى خصوصيات موجود ہوں اور ان كا وضاحت ہوں اس آيت ميں ''اتخاذ ولد'' ميں اس تعبير سے نفى كى گئي ہے يعنى اس چيز كى الله تعالى كے ساتھ كوئي نسبت نہيں ہے _ ( أن يتخذ) كى تعبير انتہائي لطيف وظريف ہے يعنى اس باطل عقيدہ ميں بھى وہى ہے جوكہ انتخاب كرنے والاہے اور اسكا انتخاب شدہ اسى سے وابستہ ہے اور اسكى مخلوق ہے_

۲_ حضرت عيسي(ع) كو الله تعالى كا فرزند بنانے كا وہم ، انكى ولادت اور معجزانہ طريقہ سے كلام كرنے كے واقعہ كے غلط

۶۶۸

تجزيہ كى بناء پر پيدا ہوا _ذلك عيسى ابن مريم ماكان الله أن يتخذ من ولد

حضرت عيسي(ع) كى ولادت كے بعد الله تعالى كے فرزند كى نفى كرنا ہو سكتا ہے اس نكتہ كو بيان كررہا ہو كہ ايك گروہ نے اس معجزانہ واقعات كو حضرت عيسي(ع) كے الله تعالى كے فرزند ہونے كى دليل جانا _

۳_ الله تعالى نے نہ تو حضرت عيسي(ع) اور نہ ہى كسى اور كو اپنا فرزند قرارديا ہے_ذلك عيسى ابن مريم ماكان للّه أن يتخذمن ولد (ولد) يہاں پر نكرہ نفى كے سياق ميں ہے جو كہ افادہ عموم كررہا ہے _

من زائدہ ہے اور تاكيد پر دلالت كررہا ہے لہذا آيت ميں عموميت تاكيد كے ساتھ مراد ہے _

۴_فرزندركھنا ،نقص اور احتياج كى علامت ہے _ما كان لله أن يتخذ من ولد سبحنه يہاں ( سبحانہ ) فعل مخذوف جيسے ( سجود ) كيلئے مفعول مطلق ہے يعنى اسے منزّہ جانيے جس طرح منزّہ جاننے كا حق ہے يہان تنزيہ كا استعمال، اس بات كى علامت ہے كہ ''اتحاد ولد''نقص اور كمى كى علامت ہے اوراللہ تعالى اس سے منزہ ہے _

۵_ الله تعالى ہر قسم كے نقص اور احتياج سے منزہ ہے_ما كان لله أن يتخذ من ولد سبحنه

۶_ الله تعالى كى ذات اقدس كا ہر قسم كے نقص و احتياج سے منزہ ہونا ضرورى ہے _سبحنه

۷_اللہ تعالى قدرت مطلقہ كا مالك ہے اور جسے وجود ميں لانا ہوتو وہ اسے لانے پر قادر ہے _إذا قضى أمراًفإنمايقول له كن فيكون

۸_ہر وجود كى خلقت، الله تعالى كے ارادہ اور اسكے پيداہونے كے فرمان كى بناء پرہے _إذاقضى أمراً فإنما يقول له كن فيكون

۹_ الله تعالى كسى چيز كو وجود ميں لانے كيلئے اسباب و وسائل كے استعمال كا محتاج نہيں ہے _إذا قضى أمراً فإنما يقول له كن فيكون

الله تعالى كا اسباب و وسائل كا محتاج نہ ہونے كا مطلب يہ نہيں ہے كہ وہ انہيں استعمال نہيں كرتا _ بلكہ اس سے مراد يہ ہے كہ اسباب و وسائل كا مقام اسكے ارادہ اور فرمان كے بعدہے لہذا اسكا ارادہ كسى وسيلہ كے ساتھ محدود نہيں ہے اور يہ سب وسائل اسكے فرمان اور اس صورت ميں عمل كرتے ہيں جيسا وہ چاہتا ہے _

۱۰_ كسى چيز كے موجود ہونے ميں الله تعالى كے فرمان كا محقّق ہونا ہى كافى ہے _إذا قضى أمراً فإنما يقول له كن فيكون

۶۶۹

( إنّما) حصر پردلالت كررہا ہے _ يعنى موجودات كے محقّق ہونے ميں سوائے الہى فرمان كے كسى اور چيز كى احتياج نہيں ہے_

۱۱_ الہى فرمان اور كسى چيز كے پيدا ہونے اور محقق ہونے ميں كوئي فاصلہ نہيں ہے _يقول له كن فيكون (فائ) كے ذريعے '' يكون'' كا عطف الله تعالى كے ارادہ اور مقصود كے متحقق ہونے ميں كسى قسم كے فاصلہ كے نہ ہونے پر دلالت كررہا ہے _

۱۲_ الله تعالى كا تمام موجودات كے ساتھ رابطہ، خالق اور مخلوق كا رابطہ ہے نہ كہ باپ اور فرزند كا ربطہماكان لله أن يتخذ من ولد سبحنه يقول له كن فيكون اگر حضرت عيسي(ع) كى ولادت كو انكے فرزند الہى ہونے كى دليل قرار ديا جائے جيسا كہ باطل فكر كرنے والے كہتے ہيں تو پھر تمام موجودات كو فرزند الہى كہنا چاہيے اس ليے كہ خداوند عالم نے تمام موجودات من جملہ ( حضرت عيسي(ع) ) كو (كن) فرمان كے ذريعے پيدا كيا ہے _

۱۳_ الله تعالى كى ہر اس چيز كے ايحاد پر قدرت كہ جسے وہ چاہے يہ اسكے فرزند انتخاب كرنے سے منزہ ہونے پر دليل ہے _

ماكان للّه أن يتخذ من ولد سبحنه إذا قضى أمراً فيكون

۱۴_ حضرت عيسي(ع) كى ولادت اور كلام كرنے كا واقعہ ، ارادہ الہى كى تمام كا ئنات پر حاكميت كا نمونہ ہے نہ كہ حضرت عيسي(ع) كے فرزند الہى ہونے كى نشاني_ما كان لله أن يتخذ من ولد إ ذا قضى أمراً فإنما يقول له كن فيكون

۱۵_ الہى قضا اور حكم، ناقبل تغيّر ہے _إذا قضى أمراً فإنما يقول له كن فيكون

۱۶_( قال الرضا (ع):ثم جعل الحروف بعد إحصا ئها وإحكام عدتها فعلاً منه كقوله _ عزّوجلّ _( كن فيكون ) و كن منه صنع وما يكون به المصنوع (۱)

امام رضا(ع) فرماتے ہيں خداوند عالم حروف كو ان كے اعداد محكم كرنے كے بعد اپنا فعل قرار ديا جيسا كہ خداوند عالم كے اس فرمان ميں آيا ہے''كن فيكون'' كلمہ ''كن'' خداوند عالم كى طرف سے ايجاد دہے اور جو بھى اس كے نتيجے ميں موجود ہوگا وہ اس كى مخلوق ہوگي_

اسماء صفات :صفات جلال ۲;۵;۶//الله تعالى :

____________________

۱) توحيد صدوق ص۴۳۶ ب۶۵ح۱ نور:الثقلين ج۴ ص۳۹۷ح۹۹_

۶۷۰

الله تعالى اور فرزند ۱،۳،۱۲،۱۳; الله تعالى اور موجودات ۱۲; الله تعالى اور محتاجى ۵،۶;اللہ تعالى اور نقص ۵،۶;اللہ تعالى كا علو۱; الله تعالى كا منزہ ہونا ۱،۳،۵;اللہ تعالى كى خالقيت ۷،۱۲; الله تعالى كى خالقيت كى خصوصيات ۹;اللہ تعالى كى قدرت ۷،۹;اللہ تعالى كى قدرت كے آثار ۱۳;اللہ تعالى كى قضاكا حتمى ہونا ۱۵;اللہ تعالى كى مخلوقات ۱۶; الله تعالى كى مشيت ۱۳; الله تعالى كے افعال ۱۶; الله تعالى كے اوامر ۸ ; الله تعالى كے اوامر كا كردار ۱۰;اللہ تعالى كے اوامر كا فورى ہونا ۱۱;اللہ تعالى كے مقد ر كرنے كے آثار ۸;اللہ تعالى كے منزّہ ہونے كى اہميت ۶;اللہ تعالى كے منزّہ ہونے كے دلائل ۱۳; الله تعالى كے مقدرات ۷ ; خداوند عالم كے ارادہ كى حاكميت كى نشانياں ۱۴ ;

جہالت :جہالت كے آثار ۲

روايت :۱۶

عقيدہ :الله تعالى كے فرزند ركھنے كے عقيد ہ كا سرچشمہ ۲; باطل عقيدے كا سرچشمہ ۲

عيسى (ع) :عيسى (ع) كا قصہ ۱۴; عيسي(ع) كا نومولودى ميں كلام كرنا ۲،۱۴; عيسي(ع) كى ولادت ۲،۱۴

فرزند ركھنا :فرزند ركھنے كے آثار ۴

محتاج :محتاجى كى علامت ۴

موجودات :موجودات كا خالق ۱۲; موجودات كى خلقت ۱۱;موجودات كى خلقت كا سرچشمہ ۸، ۱۰;

نظام اسباب :۹

نقص:نقص كى علامات ۴

آیت ۳۶

( وَإِنَّ اللَّهَ رَبِّي وَرَبُّكُمْ فَاعْبُدُوهُ هَذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِيمٌ )

اور اللہ ميرا اور تمھارا دونوں كا پروردگار ہے لہذا اس كى عبادت كرو اور يہى صراط مستقيم ہے (۳۶)

۱_حضرت عيسي(ع) نے گہوارہ ميں الله تعالى كى اپنے اور دوسرے تمام انسانوں كے پروردگار ہونے كے

۶۷۱

عنوان سے شناخت كردائي _وإن الله ربّى ربّكم

جملہ (إن الله ربى ) پچھلى آيات ميں جملہ (إنى عبدالله ...) پر عطف ہے يہ آيت بھى حضرت عيسي(ع) كى گہوارہ ميں بعض باتوں كو نقل كررہى ہے _ لہذا آيات (ذلك عيسي(ع) كن فيكون ) يہاں جملہ معترضہ ہيں اس جملہ كى سورة آل عمران اور سورہ زخرف ميں حضرت عيسي(ع) سے نقل شدہ جملات سے مشابہت مندجہ بالا نكتہ پرتاكيد كررہى ہے _

۲_ حضرت عيسي(ع) نے اپنے آپ كو دوسرے تمام لوگوں كى طرح الله تعالى كى ربوبيت كى طرف محتاج ايك مخلوق جانا اور اسكا سب كے سامنے اعلان كيا _وإن الله ربّى وربّكم

۳_ حضرت عيسي(ع) كى گہوارہ كى باتوں ميں سے تمام لوگوں كو توحيدقبول كرنے اور الله واحد كى عبادت كرنے كى دعوت _

وإن الله ربيّ و ربّكم فاعبدو

۴_ الله تعالى تمام انسانوں كے امور كى تدبير كرنے والا اور انہيں پالنے والاہے _وإن الله ربّى و ربّكم

۵_اللہ واحد كى عبادت و پرستش لازم ہے _فاعبدوه

۶_ پروردگاركےليے عبوديت كا ضرورى ہونا ايك ايسا وظيفہ ہے كہ جو كسى قسم كى دليل كا محتاج نہيں ہے _

وإن الله ربّى و ربّكم فاعبدوه

حضرت عيسي(ع) كى كلام ميں يہ موضوع كہ ( جو بھى رب ہو وہ پرسش كے لائق ہے ) ايك قبول شدہ بنيادى و اصلى بات تھى _

۷_ الله تعالى كى تمام انسانوں پر وسيع ربوبيت كى طرف توجہ، اسكے غير كى پرستش كو ترك كرنے كا باعث ہے_وإن الله ربّى وربّكم فاعبدو جملہ'' إن الله فاعبدوہ''كيلئے علت ہو سكتا ہے يعني'' اعبدو الله لأنه ربيّ وربّكم ''

۸_ الله تعالى كى ربوبيت پرعملى ايمان، عبادت ہے _وان الله ربّى و ربّكم فاعبدوه

۹_ الله واحد كى پرستش اورربوبيت ميں توحيد پراعتقاد، صراط مستقيم ہے _وإن الله ربّى وربّكم فاعبدوه هذا صراط مستقيم

۱۰_اللہ تعالى كى عبادت كا اصلى مقصد، صراط مستقيم كا راستہ پاناہے _فاعبدوه هذا صراط مستقيم

۱۱_ حضرت عيسي(ع) لوگوں كو صراط مستقيم كى طرف دعوت كرنے والے تھے _هذا صراط مستقيم

الله تعالى :

۶۷۲

الله تعالى كى تدبير۴;اللہ تعالى كى ربوبيت ۱;۴; الله تعالى كى ربوبيت قبول كرنا ۸

انسان :انسانوں كى تربيت كرنے والا ۱،۴; انسانوں كى شرعى ذمہ داري۶;انسانوں كى عبوديت كا بديہى ہونا ۶; انسانوں كے امور ميں تدبير كرنے والا ۴

توحيد:توحيد ربوبى كى طرف دعوت ۳; توحيد عبادى ۹; توحيد عبادى كى اہميت ۵; توحيد عبادى كى طرف دعوت ۳

ذكر :الله تعالى كى ربوبيت كے ذكر كے آثار ۷

صراط مستقيم :صراط مستقيم كى طرف دعوت ۱۱; صراط مستقيم كى طرف ہدايت ۱۰

ضرورتيں :الله تعالى كى ربوبيت كى ضرورت ۲

عبادت :الله تعالى كى عبادت كا بديہى ہونا ۶;اللہ تعالى كى عبادت كا زمينہ ۷;اللہ تعالى كى عبادت كا فلسفہ ۱۰; عبادت كے آثار ۸;اللہ تعالى كى عبادت كى اہميت ۵; غير خدا كى عبادت كو ترك كرنے كا زمينہ۷

عقيدہ :توحيد ربوبيت پر عقيدہ ۹

عيسى (ع) :عيسى (ع) كى دعوتيں ۳;۱۱; عيسي(ع) كا عقيدہ ۲; عيسي(ع) كا قصہ ۱; عيسي(ع) كا مربى ہونا ۱;عيسى (ع) كا نومولودى ميں كلام كرنا ۱;۳; عيسي(ع) كى معنوى ضروريات ۲

نظريہ كائنات :توحيدينظريہ كائنات ۴

آیت ۳۷

( فَاخْتَلَفَ الْأَحْزَابُ مِن بَيْنِهِمْ فَوَيْلٌ لِّلَّذِينَ كَفَرُوا مِن مَّشْهَدِ يَوْمٍ عَظِيمٍ )

پھر مختلف گروہوں نے آپس ميں اختلاف كيا اور ويل ان لوگوں كے لئے ہے جنھوں نے كفر اختيار كيا اور انھيں بڑے سخت دن كا سامنا كرنا ہوگا (۳۷)

۱_ حضرت مريم (ع) كے زمانہ ميں لوگوں كے ايك گروہ ميں حضرت عيسي(ع) كى واضح باتيں _

سننے كے باوجود اخلاف نظر اور كشمكش پيدا ہوئي _فاختلف الأحزاب من بينهم

گذشتہ آيات كے پيش نظر كہ جس ميں حضرت عيسي(ع) كے مريم كے فرزند ہونے اور الله تعالى كى طرف سے فرزند كى نفى كى بات تھى اس سے معلوم ہوتا ہے كہ ان گروہوں ميں حضرت عيسي(ع) كى ماہيت كے بارے ميں اختلاف تھا_

۶۷۳

۲_ حضرت مريم (ع) كے زمانہ ميں لوگوں كا ايك گروہ حضرت عيسي(ع) اور انكى گفتار پر ايمان لے آئے جب كہ دوسرے گروہ نے كفر اختيار كيا _فاختلف الأحزاب من بينهم فويل للذين كفروا

۳_ حضرت عيسي(ع) او ر انكى گفتار كے حوالے سے كفر اختيار كرنے والوں كيلئے قيامت، ايك سخت اور تباہ كرنے والادن ہے _فويل للذين كفروامن مشهد يوم عظيم

(ويل ) يعنى عذاب وہلاكت ( لسان العرب ) قيامت كا ہلاكت بار ہونا ، شدت عذاب سے كنايہ ہے اس طرح كہ اگر روز قيامت موت ہوئي تواس عذاب ميں گرفتار لوگ زندہ نيں رہيں گے_

۴_ وہ لوگ جو حضرت عيسي(ع) كو حضرت مريم (ع) كا فرزند ، الله تعالى كا بندہ اور رسول نہيں جانتے وہ كافر ہيں _

فاختلف الا حزاب من بينهم فويل للذين كفروا

۵_ حضرت عيسي(ع) كے بارے ميں الله تعالى كا فرزند ہونے كاعقيدہ، كفرہے _ما كان لله أن يتّخذمن ولد فويل للذين كفروامن مشهد يوم عظيم

۶_ روزقيامت، گواہ، حضرت عيسي(ع) كے الله تعالى كے بيٹے ہونے كے خيال كے باطل ہونے پر الله تعالى كيلئے گواہى ديں گے _فويل للذين كفروامن مشهد يوم عظيم

۷_ كفار كے خلاف روز قيامت گواہى كا منظر، سخت اور ہلاكت ميں ڈالنے والا ہوگا _فويل للذين كفروامن مشهد يوم عظيم ( مشہد ) ممكن ہے اسم مكان ہو يعنى گواہى كى جگہ حرف ( من ) بتارہاہے كہ وہى گواہى كى جگہ كفار كيلئے (ويل )كا سرچشمہ ہے لہذا كہيں گے كہ انكے خلاف گواہى كامنظر، موت دينے والا اور عذاب ميں ڈالنے والا ہوگا اس طرح كہ اگر روز قيامت كسى كے ليے موت ممكن ہوتى توانكا ہلاكت وتباہى كے علاوہ كچھ مقدر نہ ہوتا _

۸_ روز قيامت ايك عظيم دن اور حاضر ہونے اور گواہى دينے كا مقام ہے _من مشهد يوم عظيم

( مشہد ) اگراسم مكان ہوتو مراد، حاضر ہو نے اور گواہى دينے كا مقام ہے اور يہ بھى ممكن ہے كہ مصدر ميمى ہواور قيامت ميں گواہى اور حضور كا معنى دے رہا ہو_

عقيدہ :الله تعالى كے بيٹے ركھنے كا عقيدہ ۵;اللہ تعالى كے فرزند ركھنے كے عقيدہ كا بطلان ۶

عيسى :عيسى پرايمان لانے والے ۲;عيسى كا بشر ہونا ۴ ;

۶۷۴

عيسي(ع) كو جھٹلانے والے۲ ; عيسي(ع) كا قصہ ۲;عيسى كى عبوديت ۴;عيسى كے بارے ميں اختلاف كرنے والے ۱; قيامت ميں عيسي(ع) كو جھٹلانے والے ۳

قيامت:قيامت كى عظمت ۸; قيامت كے ہول و پريشانى ۷;قيامت ميں حقائق كا ظہور ۶ ; قيامت ميں سختى ۳;قيامت ميں گواہى ۸; قيامت ميں گواہى دينے والے ۶

كفار۴:كفاركے خلاف اخروى گواہى دينے والے ۷

كفر:كفر كے اسباب ۴;۵

مريم(ع) :مريم (ع) كے زمانہ ميں لوگوں كا اختلاف ۱; مريم (ع) كا فرزند۴

مسيحيان:مسيحيوں ميں اختلاف ۱

آیت ۳۸

( أَسْمِعْ بِهِمْ وَأَبْصِرْ يَوْمَ يَأْتُونَنَا لَكِنِ الظَّالِمُونَ الْيَوْمَ فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ )

اس دن جب ہمارے پاس آئيں گے تو خوب سنيں اور ديكھيں گے ليكن يہ ظالم آج كھلى ہوئي گمراہى ميں مبتلا ہيں (۳۸)

۱_كفار روز قيامت اور الله تعالى كى بارگاہ ميں حاضر ہونے كے وقت، حيرت انگيز بصارت و سماعت كے حامل ہونگے _

أسمع بهم و أبصر يوم يأتوننا

(اسمع بہم ) و (ابصر)تعجب كے صيغے ہيں يعنى كسى قدر بصارت اور سماعت ركھنے والے ہيں _

۲_قيامت، حقائق كے واضع اور ظہور كا دن ہے _أسمع بهم و أبصر يوم يا توننا

۳_قيامت، لوگوں كا الله تعالى كے حضور ميں آنے كا دن ہےيوم يأتوننا

۴_ حقائق كا سامنا كرنااور انہيں درك و لمس كرنا ، كفار كيلئے روز قيامت عذابوں ميں سے ايك عذاب ہے _

۶۷۵

فويل للذين كفروا من مشهد يوم عظيم_ أسمع بهم وأبصر يوم يا توننا

گذشتہ آيت س كفار كيلئے روز قيامت ميں سختى اور شدت كا تذكرہ ہو ايہاں ان سختيوں ميں سے ايك كا ذكرہے اور وہ حقائق كا درك و فہم ہے _

۵_وہ لوگ جنہوں نے حضرت عيسي(ع) كو الله تعالى كا فرزند قرار ديتے ہوئے انكى توحيدى تعليمات سے كفر اختيار كيا وہ واضح گمراہى ميں پڑے ہوئے ہيں _لكن الظلمون اليوم فى ضلل مبين

( اليوم ) ميں الف ولام ممكن ہے عہد حضور ى ہو يعنى ''آج'' تواس صورت ميں اس سے مراد دنيا وى زندگى كے آيام ہيں اور گذشتہ آيت كے قرينہ كى بناء پر ( ظالمان ) سے مرادوہ ہيں كہ جنہوں نے حضرت عيسي(ع) كى بات كا انكا ركيا اور انكے بارے ميں افراط وتفريط كى راہ اختيار كى _

۶_ الله تعالى كيلئے حضرت عيسي(ع) كے فرزند ہونے كا گمان، ايك ظالمانہ گمان اور واضح گمراہى ہے _

ما كان لله أن يتخذ من ولد لكن الظلمون اليوم فى ضلل مبين

۷_ كفا ر،ظالموں اور گمراہوں كے زمرے ميں شمار ہوتے ہيں _فويل للذين كفروا لكن الظلمون اليوم فى ضلل مبين

۸_ روز قيامت، كفار كى سماعت و بصارت انكى نجات كا باعث نہ ہوگى _أسمع بهم وأبصر يوم يا توننا لكن الظالمون اليوم فى ضلل مبين (اليوم ) ميں اگر'' ال'' عہد ذكر ى ہو تو مراد روز قيامت ہے كہ جو ( يوم يا توننا ) ميں مطرح ہو ا ہے اور( لكن ) انكے وہم نجات سے استدراك ہے كہ جملہ (أسمع بهم وأبصر ) اسے وجود ميں لايا ہے _

۹_روزقيامت، حقائق كى شناخت اور اس پرايمان نجات كا موجب نہيں ہے _أسمع بهم وأبصر لكن الظلمون اليوم فى ضلل مبين

الله تعالى :الله تعالى كے حضور ۳

ظالمين:۷

ظلم :ظلم كے موارد ۶

عقيدہ :الله تعالى كے فرزند ركھنے كے بارے ميں عقيدہ ۵،۶;باطل عقيدہ ۶

قيامت :قيامت كى خصوصيات ۲،۱۳;قيامت ميں ايمان ۹; قيامت ميں حقايق كا ظہور ۲;۴

كفار:كفار كا آخرت ميں عذاب ۴; روز قامت كفار ۱; كفار كى اخروى بصارت كے آثار ۸; كفار كى

۶۷۶

اخروى حيرت انگيز بينائي ۱; كفار كى اخروى حيرت انگيز سماعت ۱;كفار كى اخروى سماعت كے آثار ۸; كفار كى گمراہى ۵

گمراہ :۷

گمراہى :گمراہى كے موارد ۶

مشركين:مشركين كى گمراہى ۵

آیت ۳۹

( وَأَنذِرْهُمْ يَوْمَ الْحَسْرَةِ إِذْ قُضِيَ الْأَمْرُ وَهُمْ فِي غَفْلَةٍ وَهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ )

اور ان لوگوں كو اس حسرت كے دن سے ڈرايئےب قطعى فيصلہ ہوجائے گا اگر چہ يہ لوگ غفلت كے عالم ميں پڑے ہوئے ہيں اور ايمان نہيں لارہے ہيں (۳۹)

۱_ روز قيامت كے حسر ت ناك واقعات كے حوالے سے لوگوں كو ڈارانے اور خبر دار كرنے ليے پيغمبر اكر م(ص) كى ذمہ ذارى _وأنذرهم يوم الحسرة

ضمير ( ہم ) جملہ ( أنذرہم ) ميں تمام لوگوں كو شامل ہے ( الحسرة ) كے ساتھ يوم كے اضافہ سے معلوم ہوتا ہے كہ اس دن سب اپنے ماضى پرافسوس كا اظہا ر كريں گے اس ليے اس روز كو روز حسرت كہا گيا ہے_

۲_ روز قيامت، لوگوں كا دنيا ميں اپنے اعمال پر حسرت و افسوس كا دن ہے _وأنذ رهم يوم الحسرة

۳_ ''يوم الحسرة ''( روز افسوس ) قيامت كے اسماء وصفات ميں سے ہے _وأنذرهم يوم الحسرة

۴_ روز قيامت، فرصت كے تمام ہونے اور غلطيوں اور انحرافات كے جبران نہ كر سكنے كادن ہے _

وأنذرهم يوم الحسرة إذ قضى الا مر

( يوم ا لحسرة ) كے قرينہ كى بناء پر ( الأمر) سے مراد ايسى فرصتيں ہيں كہ جس كا ہاتھ سے جانا ، حسرت كا باعث ہے اور ( قضى )'' قضا'' سے ہے جس كا مطلب '''فيصلہ كرنا اور اتمام كرنا'' ہے اسطرح كہ اب جبران نہ ہوسكتا ہو (مفردات راغب )

۶۷۷

۵_ كفار اور ظالمين، روز قيامت دنيا ميں مواقع كے ضائع ہونے كى بناء پر حسرت كريں گے _وأنذرهم يوم الحسرة إذ قضى الا مر (إذ قضى الا مر ) ميں''إذ يوم الحسرة'' كو بيان كررہا ہے اس سے مراد يہ ہے كہ روز حسرت اسى وقت ہے كہ جب موضوع ہى حتم ہو چكا ہو _

۶_ روز قيامت، امور كے فيصلہ اور انسان كے حتمى مقد ر طے كرنے كا دن _اذ قضى الا مر

ممكن ہے كہ ( الا مر ) سے مراد لوگوں كے جہنمى باجنتى ہونے قطعى تعيين ہو اس صورت ميں (قضى الأمر) كا تعلق قطعى احكام كے صادر ہونے اور اس مرحلہ سے گزرنے سے ہے _

۷_ حضرت عيسي(ع) كا الله تعالى كے فرزند ہونے كا عقيدہ ،روز قيامت حسرت وافسوس كا سبب ہے _

فاختلف الا حزاب وأنذرهم يوم الحسرة

۸_ غفلت اور بے ايمان كے ساتھ موت رو ز قيامت حسرت كا باعث ہے _وأنذرهم يوم الحسرة إذ قضى الا مر وهم فى غفلة وهم لايؤمنون ضمير (ہم ) پچھلى آيت ميں ( الظالمون) كى طرف لوٹ رہى ہے اور جملہ ( ہم فى ...) حاليہ ہے پس آيت كا مطلب يہ ہے كہ دنيا ميں ظالموں كى فرصت تمام ہو چكى ہے اس حال ميں كہ وہ غافل تھے اور معاد پر ايمان نہيں لائے _

۹ _ قيامت پر ايمان نہ لانا اور اسكے حسرت زدہ كرنے سے غفلت ظلم ہے _لكن الظالمون هم فى غفلة وهم لايؤمنون

۱۰_حضر عيسي(ع) كو الله تعالى كا فرزند سمجھنے والے غفلت كى گہرائيوں ميں غرق بے ايمان لوگ ہيں _فاختلف الأحزاب وهم فى غفلة وهم لايؤمنون '' غفلة'' كا نكرہ آنا بتا تا ہے كہ اسكى حدود واضح اور معين نہيں ہيں _

۱۱_ غافلوں اور قيامت كے منكرين كو انذار اور قيامت ميں حسرت كے اسباب سے خوف دلانا پيغمبر اكرم(ع) كے وظائف ميں سے ہے_وأنذ رهم يوم الحسرة وهم فى غفلة وهم لا يؤمنون

۱۲_ لوگوں انكے اخروى انجام سے غفلت سے ڈرانے اور بيدار كرنے كا ضرورى ہونا _وأنذرهم وهم فى غفلة

۱۳_ قيامت سے غفلت، كفر اختيار كرنے اور بے ايمان ہونے كا پيش خيمہ ہے _

وأنذرهم يوم الحسرة وهم فى غفلة وهم لايؤمنون

۱۴_عن رسول الله (ص) : إذا دخل أهل الجنّةالجنّة وأهل النار النار يقال : يا أهل الجنة خلود فلا موت ويا أهل النار خلود فلا موت ثم قرا رسول الله (ص) : (وأنذ رهم يوم الحسرة إذقضى الا مروهم

۶۷۸

فى غفلة ) وأشاربيده و قال : أهل الدنيا فى غفلة (۱) رسول اكر م(ص) سے روايت ہوئي ہے جببہشتى جنت ميں اور جہنمى جہنم ميں چلے جائيں گے _ تو كہا جائيگا اے جنت والو( يہ جگہ) تمھار ے ليے جاودانى ہے اور موت نہيں ہے اے جہنّم والو (يہ جگہ ) تمھار ے ليے جاودانى ہے اور موت نہيں ہے پھررسول خدا (ص) نے اس آيت كى تلاوت فرمائي''أنذرهم يوم الحسرة إذ قضى الا مر و هم فى غفلة '' اس وقت آنحضرت نے اپنے ہاتھوں سے اشارہ كيا اور فرمايا :اہل دنيا غفلت ميں ہيں _

آنحضرت :آنحضرت كى ذمہ دارى ۱;۱۱; ; آنحضرت كے ڈراوے ۱;۱۱

انسان :انسانوں كى غفلت ۱۴//جنت :جنت ميں جاودانى ۱۴

جہنم :جہنم ميں جاودانى ۱۴//حسرت :آخرت ميں حسرت كے اسباب ۵;۷;۸

ڈراوا:اخروى انجام سے ڈرائوا ۱۲; اخروى حسرت سے ڈراوا ۱۱; قيامت سے ڈراوا ۱

روايت :۱۴

ظالمين:ظالموں كى اخروى حسرت ۵

ظلم:ظلم كے موارد۹

عقيدہ :الله تعالى كے فرزند كے بارے ميں عقيدہ ركھنے كے اخروى آثار ۷

عمل :عمل كى فرصت ۴; عمل كے اخروى آثار ۲

غافلين :غافلين كو انذار ۱۱; عافلين كوانذار كرنے كى اہميت ۱۲

غفلت :اخروى حسرت سے غفلت ۹; قيامت سے غفلت كے آثار ۱۳

فرصت :فرصت كے تباہ ہونے كے آثار ۵

قيامت :قيامت كو جھٹلانے والوں كو انذار۱۱; قيامت كى خصوصيات ۲،۴،۶ ;قيامت كے نام ۳; قيامت ميں انجام كى تعيين ۶; قيامت ميں حسرت ۱

كفار :كفار كى اخروى حسرت ۵

____________________

۱) الدرامنشور ج۵ ص۵۱۱ و۵۱۲_

۶۷۹

كفر :كفر كا پيش خيمہ ۱۳

مشركين :مشركين كى بے ايمانى ۱۰; مشركين كى غفلت ۱۰

معاد:معاد كو جھٹلانا ۹

موت :غفلت كے ساتھ مرنے كے آثار ۸; كفر كے ساتھ مرنے كے آثار ۸

يوم الحسرة :۳

آیت ۴۰

( إِنَّا نَحْنُ نَرِثُ الْأَرْضَ وَمَنْ عَلَيْهَا وَإِلَيْنَا يُرْجَعُونَ )

بيشك ہم زمين اور جو كچھ زمين پر ہے سب كے وارث ہيں اور سب ہمارى ہى طرف پلٹا كرلائے جائيں گے (۴۰)

۱_ الله تعالى سارى زمين اور زمين والوں كا تنہا وارث ہے _إنا نحن نرث الأرض ومن عليه

۲_ الله تعالى كى مالكيت كے سوا باقى تمام مالك لغو اور فناء ہوجائيں گى _إنا نحن نرث الأرض ومن عليه

الله تعالى ابھى بھى كائنات كا حقيقى مالك ہے اس ليے ورثہ پانا سے مراد حقيقت ميں مالكيت كا انتقال نہيں ہے بلكہ مراد، اس سے دنيا كى اعتبارى مالكتيوں كا فناء ہونا اور انكے ساتھ مالكوں كا بھى فنا ہونا ہے تا كہ حقيقى مالك كامل طور پر ظاہر ہو اور اسكے مقابل كوئي اعتبار نہ رہے_

۳_مال و متاع اور طاقتيں كفرو غفلت ميں پڑنے كيلئے بڑے اسباب ميں سے ہيں _وهم فى غفلة وهم لا يؤمنون إنا نحن نرث الأرض

اس آيت كى گذشتہ آيت سے ربط كى وجوہات ميں سے ايك سبب غفلت اور اسے ختم كرنے كا بيان ہے اس آيت ميں الله تعالى نے لوگوں كو اپنے اندر غفلت كے اسباب ختم كرنے پر توجہ دلاتے ہوئے دنيا كى ثروت اور اہل زمين كے فناء ہونے پر تاكيد فرمائي _

۴_ تمام انسان، الله تعالى كى طرف لوٹا ئے جائيں گے_وإلينا يرجعون

( يرجعون) كے مجہول ہونے سے معلوم ہوتا ہے كہ خواہ انسان چاہيں يا نہ چاہيں الله تعالى كى طرف لوٹا ئے جائيں گے _

۵_ زمين كى تمام مخلوقات الله تعالى كى طرف لوٹ رہى ليں _ومن عليها وإلينا يرجعون

۶۸۰

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809

810

811

812

813

814

815

816

817

818

819

820

821

822

823

824

825

826

827

828

829

830

831

832

833

834

835

836

837

838

839

840

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863

864

865

866

867

868

869

870

871

872

873

874

875

876

877

878

879

880

881

882

883

884

885

886

887

888

889

890

891

892

893

894

895

896

897

898

899

900

901

902

903

904

905

906

907

908

909

910

911

912

913

914

915

916

917

918

919

920

921

922

923

924

925

926

927

928

929

930

931

932

933

934

935

936

937

938

939

940

941

942

943

944

945