تفسير راہنما جلد ۱۰

تفسير راہنما 6%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 945

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 945 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 247334 / ڈاؤنلوڈ: 3404
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱۰

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

خداوند سبحان کی یاد انسان کو غفلت اور نسیان سے نکال دیتی ہے اور اخلاقی تربیت کی راہ ہموار کرتی ہے، کیونکہ اخلاقی انحراف اور برے افعال کے اسباب وعلل غفلت اور نسیان ہیں:

'' اس انسان کی اطاعت نہ کرو جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا ہے اور اس نے اپنی ہوا وہوس کی پیروی کی ہے اوراس کے کام کی بنیاد زیادہ روی پر ہے''۔(١)

''در حقیقت جو لوگ صاحبان تقویٰ ہیں، جب شیطان کی جانب سے انھیں وسوسہ ہوتا ہے تو ]خداکو[ یاد کرتے ہیں اور حقائق کو دیکھنے لگتے ہیں''۔(٢)

حضرت علی ـ فرماتے ہیں: ''خداوند سبحان نے اپنی یاد کو دلوں کے لئے روشنی قرار دیا ہے، قلوب اس وسیلہ سے بہر ے پن کے بعد سننے والے، نابینائی کے بعد بینا اور سرکشی و طغیانی کے بعد مطیع وفرمانبردار ہوجاتے ہیں''۔(٣)

آیات ورایات میں ذکر کثرت ومداومت کی تاکید کی گئی ہے: ''اے صاحبان ایمان! خدا کو بہت زیادہ کرو''۔(٤)

ذکر الٰہی کی مداومت قلب کی اصلاح اور اخلاقی فضائل سے کہ جو بالیدگی وحیات نو کا سبب ہے:''جو انسان اپنے دل کو ذکر کی مداومت سے آباد کرے تو اس کا کردار ظاہر وباطن دونوں صورتوں میں نیک ہوجائے گا''۔(٥)

''قلب کی اصلاح کی بنیاد، انسان کا ذکر خداوندی میں مشغول ہونا ہے''۔(٦)

ذکر کی روش میںذکر خداوندی کے علاوہ خدا کی نعمتوں کا یاد کرنا بھی منعم ]نعمت دینے والے[ کے احترام کے عنوان سے انسان کو خداوندعالم کی بے نظیر اور لاثانی ذات کے سامنے سراپا تسلیم ہونے اور اس کی تعظیم کرنے پر آمادہ کرتا ہے، بالخصوص جس قدر نعمت عظیم اور اس کا منعم بے غرض ہوگا، اس کا احترام فطرت کی نظر میں اتنا ہی زیادہ لازم ہوگا:''اے لوگو! اپنے اوپر خداوند سبحان کی نعمت کو یاد کرو، آیاخدا کے علاوہ کوئی خالق ہے کہ تمہیں زمین وآسمان سے رزق دے ''۔(٧)

____________________

١۔ سورہ ٔکہف آیت٢٨۔ ٢۔ سورہ ٔاعراف آیت٢٠١۔٣۔ نہج البلاغہ خطبہ ٢٢٢۔ ٤۔ سورۂ احزاب آیت٤١۔المیزان ج١ ص٣٤٠۔

٥۔ غرر الحکم۔ ٦۔ غرر الحکم۔ ٧۔ سورہ ٔفاطر آیت ٣۔

۲۶۱

چونکہ قرآن کریم خود کو ذکر اور حامل ذکر کے عنوان سے تعارف کراتا ہیلہٰذا تلاوت قرآن بھی ذکر کی حالت انسان کے اندر پیدا کیااور ایمان کی پرورش کا باعث ہوتی ہے:

(اِنْ هُوَ الّا ذِکْر لِلْعَالَمِیْن )(١)

''یہ عالمین کے لئے صرف ذکر (نصیحت) کا سامان ہے''۔

(ص، والقرآن ذی الذکر )(٢)

''ص ذکر (نصیحت) والے قرآن کی قسم''۔

(وَاِذَا تَلِیَتْ عَلَیْهِم آیَاتِهِ زَادَتْهُمْ اِیْمَاناً )(٣)

''اور جب ان کے سامنے آیات الٰہی کی تلاوت کی جاتی ہے تو ان کے ایمان میں اضافہ ہوجاتا ہے''۔

ذکر کی بحث میں آخری نکتہ ''موت کی یاد'' سے متعلق ہے، اس بات کی طرف توجہ دیتے ہوئے کہ آخرت پر ایمان رکھنا اخلاقی تربیت میں اہم کردار ادا کرتا ہے، موت کا تذکرہ اور اس کا ]ذہن میں[حضور ایمان کی پرورش اور اخلاقی آثار کے مجسم ہونے کا باعث ہوتا ہے ۔ اس کے علاوہ موت کی یاد، دنیا کی دوستی اور محبت کو ختم کرنے میںجوکہ بہت سے اخلاقی رذائل کا سرچشمہ ہے، اہم کردار اداکرتی ہے:

(کلّ نفس ذائقة الموت، وانّما توفون اجورکم یوم القیامة فمن زحزح عن النار وادخل الجنة فقد فاز وما الحیاة الدنیا الّا متاع الغرور )(٤)

''ہرنفس موت کامزہ چکھنے والا ہے اور تمھارا مکمل بدلہ تو صرف قیامت کے دن ملے گا اس وقت جسے جہنم سے بچالیا گیا اور جنت میں داخل کردیا گیا وہ کامیاب ہے اور زندگانی دنیا تو صرف دھوکہ کا سرمایہ ہے''۔

ائمہ اطہار علیہم السلام کے بیانات میں بھی موت کی یاد کا تربیتی اثر ملتا ہے:

''جو شخص ]مرنے کے بعد[ سفر کی دوری کو یاد کرے گا وہ آمادہ سفر ہوجائے گا''۔(٥)

''جو انسان موت کی آمد کا انتظار کرے گا وہ نیک کاموں میں جلدی کرے گا''۔(٦)

____________________

١۔ سورہ ٔتکویر آیت٢٧۔ ٢۔ سورہ ٔصآیت١۔٣۔ سورہ ٔانفالآیت ٢۔ ٤۔ سورہ ٔآل عمران آیت١٨٥۔

٥۔ غرر الحکم ٦۔ غرر الحکم۔

۲۶۲

موت کی یاد نفسانی خواہشات اور شہوات کو مار دیتی ہے ، غفلت کی جڑوں کو اکھاڑ دیتی ہے، دل کو خداوند سبحان کے وعدوں سے قوی اور مضبوط بنا دیتی ہے ، انسان کے وجود کو لطیف ونرم کرتی ہے اور ہوا وہوس کی نشانیوں کو درہم وبرہم کردیتی ہے اورحرص وطمع کی آگ کو خاموش کردیتی ہے اور دنیاکوانسان کی نظر میں بے وقعت اور ذلیل وخوار کردیتی ہے۔(١)

راہ آخرت کے سالکین نے اپنے شاگردوں کو ہمیشہ قبرستان میں جانے کی تاکید کی ہے کہ کم از کم ہفتہ میں ایک بار جائیں اور اہل قبور کی زیارت کریں اور موت کی یاد سے اپنے آپ کو تقویت کریں۔(٢)

ج۔دعا :

دعا در اصل عالم کے غیر مادی مرکز کی جانب روح کی کشتی کا نام ہے عام طور سے عام طور سے دعا سے مراد تضرع وزاری، اضطراب اور نالہ وشیون، استعانت اور مددطلبی ۔ اور کبھی ایک روشن کشف وشہود کی حالت جو تمام محسوسات کی دنیا سے دورمستمر اور باطنی آرام ہے۔ بعبارت دیگر کہا جاسکتا ہے کہ دعاخدا کی سمت پروازِ روح کا نام ہے یا عاشقانہ پر ستش کی حالت ہے اس مبدأ کی نسبت جس سے معجزہ حیات صادر ہوا ہے اور بالآخر دعاانسان کی کوشش ہے اس نامرئی اور ناقابل دید وجود سے ارتباط کے لئے جو تمام ہستی کا خالق ، عقل کل، قدرت مطلق اورخیر مطلق ہے۔ خاص اورادکے نقل سے صرف تطر کرتے ہوئے، حقیقت دعا سوزو گذار سے بھری ایک عرفانی حالت کو مجسم کرتی کہ دل اس میں خدا سے جذب ہوجاتا ہے ۔(٣)

راز ونیاز ،دعا و مناجات بھی پرورش ایمان کا ایک طریقہ ہے۔دعا احتیاج کا اظہار ہے بلکہ دعایہ ہے کہ انسان یکسر احتیاج بن جائے ۔دعا اشتیاق کا اظہار ہے ، بلکہ انسان کی تمام احتیاج یہی شوق و اشتیاق ہے۔دعا سنوار نے اور تربیت دینے کا ایک عامل ہے کہ نہ صرف انسان کو اس کی کمیوں سے متعلق ہوشیار کرتی ہے بلکہ اس کی تمام کوششوں اور توانائیوں کو اس کے مطلوب کے حصول کی خاطر صرف کردیتی ہے۔

____________________

١۔ المحجة البیضا ج٨ص ٢٤٢۔

٢۔ ہم بالخصوص ملا حسین قلی ہمدانی ، بہاری ہمدانی اور میرزا جواد انصاری ہمدانی کی وصیتوں میں ملاحظہ کرتے ہیں۔

٣۔ الکسین کارل: نیایش، ص ٥١۔

۲۶۳

جب کوئی بیمار درد وسوز سے پیچ وتاب کھاتا ہے اور ڈاکٹر سے مدد مانگتا ہے خود ہی ابتدائی کاموں کو انجام دیتا ہے تاکہ معالجہ کی راہ ہموار ہوجائے پس یہی بات ہے کہ دعا اور طلب اپنے حقیقی معنی کو پالیتی ہے اور نتیجہ کے طور پر اجابت اور قبولیت سے ہمکنار ہوتی ہے:

(وَاِذَا سَئَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّی فَاِنِّی قَرِیْبُ، اُجِیْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ فَلْیَسْتَجِیْبُوا لِی وَلْیُؤمِنُوا بِیْ لَعَلَّهُم یَرْشُدُونَ )(١)

''اور اے پیغمبر! اگر میرے بندے تم سے میرے بارے میں سوال کریں تو میں ان سے قریب ہوں، پکارنے

والے کی آواز سنتا ہوں جب بھی پکارتا ہے لہٰذا مجھ سے طلب کرو قبولیت کریں اور مجھ ہی ایمان واعتماد رکھیں کہ شاید اس طرح راہِ راست پر آجائیں''۔

ابھی دعا کے عینی آثار ]حاجتوں کی برآوری اور قبولیت واجابت [ مورد نظر نہیں ہیں، بلکہ ان کے علاوہ دعا ومناجات ہے، معبود سے باتیں کرنا اورراز ونیاز کا اظہار کرنا ہے، اس وجہ سے محبوب کے حضور کو دعا کرنے والے کے دل وجان میں تقویت کرتی ہے، کیونکہ دعا ومناجات حاضر مخاطب سے بات کرنے کے سوا کچھ نہیں ہے، اسی وجہ سے کہ دعا عارفوں کے روح کی غذااور مومنین کے لئے خالص شراب ہے۔ خداوند سبحان نے اپنی توجہ وعنایت کو دعا وعبادت میں قراردیا ہے: ''کہو: اگر تمہاری دعا نہ ہو تو تمہارا رب تمہاری کوئی اعتنا نہیں کرتا''۔(٢)

حضرت علی ـ فرماتے ہیں: ''دعا ]مراد تک [پہنچنے کا خزانہ اور کامیابی کا چراغ ہے۔''(٣)

خداوند رحیم وکریم نے کشائش ، اور آسمانوں کے فتح باب اور معلومات ]فضائل ومکارم اخلاق[کے راستہ کو اپنی بارگاہ میں درخواست اور دعا کرنا قرار دیا ہے۔

حضرت امام جعفر صادق ـ فرماتے ہیں: زیادہ سے زیادہ دعا کرو کیونکہ وہ رحمت رحمت اور حاجت پوری ہونے کا ذریعہ ہے اور جو کچھ خدا کے پاس ہے وہ صرف دعا کے ذریعہ حاصل کرسکتے ہو...۔(٤)

____________________

١۔ سورہ ٔبقرہآیت ١٨٦۔

٢۔ سورہ ٔفرقان آیت ٧٧۔

٣۔ بحار الانوار ج٩٣ص٣٤١۔

٤۔ بحار الانوار ج٩٣ص٢٩٥۔

۲۶۴

استجابت وقبولیت دعا کے شرائط میں حضور قلب اور رقت کی شرط کی گئی ہے، کیونکہ جو چیزسوز ونیاز کے ساتھ ہوتی ہے وہ حقیقت میں ارزش وقیمت رکھتی ہے اور ایک حقیقت کو اپنے اندر پروان چڑھاتی ہے:جان لو کہ خداوندسبحان دعا کو غافل اور بے خبر دل سے قبول نہیں کرتا۔(١)

''دعا کو رقت قلب کے وقت غنیمت سمجھو اس لئے کہ وہ نزولِ رحمت کی نشانی ہے''۔(٢)

ائمہ معصومین (ع) کی دعائوں اور مناجاتوں میں ایسے عارفانہ مضامین ہیں کہ ائمہ معصومین (ع) نے محبوب ازلی کے ساتھ اپنی خلوتوں میں ان کو انشأ فرمایا ہے اورراز ونیاز کیا ہے۔ ان دعا ئو ں کے بعض فقرات کو حفظ کرکے اور مناسب مواقع پر ان کی تکرار کرکے تربیتی مکتب میں طرز دعا کو ہم سیکھ سکتے ہیں۔ البتہ صرف اسی پر اکتفا نہیں کرنا چاہئے بلکہ راز ونیاز، دعا ومناجات سوز دل کے ساتھ ہونی چاہئے اور دل کی گہرائی سے نکلنی چاہئے، اس لحاظ سے ہمیں سعی وکوشش کرنی چاہئے کہ اپنی زبان سے بھی دلوں کے محبوب سے راز ونیاز کریں اور اس سے شفیق و مہربان دوست اور اپنی خلوتوں کا مونس وغمخوار جانیں:''یَارَفِیقَ مَنْ لَا رَفِیقَ لَهُ، یَا اَنِیْسَ مَن لَا اَنِیْسَ لَهُ '' اے اس کا رفیق جوکوئی رفیق نہیں رکھتا، اے اس کا انیس جو کوئی انیس نہیں رکھتا۔

اس کے علاوہ بعض دعائیں ( بالخصوص صحیفۂ سجادیہ کی دعائیں) ہمیں باطنی دردوں اور بیرونی خطائوں سے آشنا کرتی ہیں کہ ہم ان دعائوں کے مضامین سے بھی استفادہ کرتے ہوئے اپنی اخلاقی تربیت کے بارے میں کوشش کریں۔

حضرت امام زین العابدین ـکی دعائے مکارم الاخلاق خاص اہمیت کی حامل ہے:

خدایا! میں تیری پناہ چاہتا ہوںحرص وطمع کی طغیانی سے، غیض وغضب کی تندی سے ، حسد کے غلبہ سے، صبر کی کمی اور قناعت کی کمی سے، بداخلاقی سے، شہوت افراط سے، تعصب کے غلبہ سے، نفسانی خواہشات کی پیروی سے، درستگی اورہدایت کی مخالفت سے، خواب غفلت سے، (دنیا کے) کاموں پر سخت راضی ہونے سے، حق پر باطل کے انتخاب سے، گناہوں پر اصرار سے، گناہوں کو معمولی اورکم سمجھنے سے اورعبادت و اطاعت کو عظیم خیال کرنے سے ۔(٣)

____________________

١۔ بحار الانوار ج٧٧ص١٧٣۔

٢۔ بحار الانوار ج٩٣ص٣١٣۔

٣۔ صحیفہ سجادیہ دعائے مکارم اخلاق۔

۲۶۵

د۔اولیائے خدا سے محبت:

جو کسی شخص کوانسان کامل سمجھے اور اس کے اخلاق ومعنویات کا سخت دلدادہ ہو تو اس کے تحت تاثیر واقع ہوجاتا ہے ۔

استاد مطہری اس سلسلہ میں فرماتے ہیں:

محبت مشابہت ومشاکلت کی طرف کھینچتی ہے اور اس کی قدرت باعث ہوتی ہے کہ محب محبوب کی شکل اختیار

کرلے۔ محبت الکٹریک تار کی طرح ہے کہ جو محبوب کے وجود سے وصل ہوتا ہے اور اُس میں محبوب کے صفات کو منتقل کرتا ہے۔(١)

تہذیب اخلاق میں محبت کی تربیتی تاثیر کے بارے میںفرماتے ہیں:

اہل عرفان اورصاحبان سیر وسلوک راہ عقل واستدلال سے کام لینے کے بجائے محبت وعقیدت کی تاکید اور پیشکش کرتے ہیں]اور[ کہتے ہیں: کسی کامل کو تلاش کرو اور اس کی محبت وعقیدت کے رشتہ کو گردن دل میں آویزاں کرلو کہ راہ عقل واستدلال سے بھی زیادہ بے خطر ہے اور سریع تر ہے۔ محبت اور عقیدت کی قوت کی تاثیر دل سے اخلاقی رذائل کو زائل کرنے میں لوہے پر کیمیکل مواد ڈالنے کے مانند ہے، مثال کے طورپر ایک اچھے چھاپے کی ]پھولدار[ پلیٹ بنانے والا تیزاب کے ذریعہ حروف کے اطراف کو مٹادیتاہے، نہ کہ ناخن سے اور نہ ہی چاقو کی نوک سے۔ لیکن عقلی توانائی کا اثر اُس انسان کے کام کے مانند ہے جو لوہے کے ذرّوں کو ہاتھ کے ذریعہ خاک سے جدا کرنا چاہتا ہے، اس میں کس قدر زحمت ومشقت ہے؟ اگر ایک قوی ومضبوط آہن ربا ]مقناطیس[ ہاتھ میں ہو، ممکن ہے کہ ایک گردش میں اُن سب کو جدا کردے، عقیدت ومحبت کی طاقت آہن ربا کے مانند صفات رذیلہ کو جمع کرکے دورپھینک دیتی ہے۔ صاحبان عرفان کے عقیدہ کے مطابق پاک و پاکیزہ اور کامل واکمل افراد کی محبت وعقیدت ایک ایٹومیٹک مشین کے مانند ہے جو خود بخود رذائل کو جمع کرکے باہر پھینک دیتی ہے(٢)

____________________

١۔ جاذبہ ودافعہ علی ـ ، ص٧٣۔

٢۔ جاذبہ و دافعہ علی ـ ص٧٧۔٧٨۔

۲۶۶

ان لوگوں کے نمونے جو صدر اسلام میں اس جذب وانجذاب کے تحت تاثیر واقع ہوئے ہیں اور حضرت رسول اکرم کے شیفتہ اور دلدادہ ہوگئے ہیںابوذر غفاری، بلال حبشی ،اویس قرنی اورسلمان فارسی ہیں اس محبت نے ایک عظیم اکسیر کے مانند انھیں بے مثال گوہر کے مثل کرامت انسانیمیں تبدیل کردیا، اُس کے بعد بھی پوری تاریخ میں ایسے نمونے ]شدت وضعف[کے ساتھ کثرت سے پائے جاتے ہیں جلال الدین محمد رومی جو ''مولوی''کے نام سے معروف ہیں اس مسیر کے بارزترین نمونوں میں سے ایک نمونہ ہیں۔ جب وہ ایک کمسن بچہ تھے اور اپنے والد کے ہمراہ نیشاپور سے گذر رہے تھے تو نیشاپور کے بزرگ شیخ عطار نے بہاء الدولہ بچہ کو عام انسانوں سے زیادہ افضل بچہ پایا اور کسی تردید اور تأمل کے بغیر، بہاء الدولہ کو مبارک باد دی کہ عنقریب یہ بچہ سوختگان عالم میںآگ روشن کردے گا اوررہروان طریقت کے درمیان ایک اورشور وغوغا مچادے گا۔(١)

اس واقعہ کو گذرے ہوئے چند عشرے بھی نہ گذرے تھے کہ یہ پیشینگوئی مولانا کی شمس تبریزی سے ملاقات اور اُن سے عشق وعقیدت میں ظاہر ہوئی۔اسلام میں یہ محبت اور شیفتگی ''ولایت ''کے عنوان سے معصومین علیہم السلام کی نسبت مکمل طور پر ظاہر ہوتی ہے کیونکہ ان اولیائے الٰہی کی محبت کہ جو حق کے مکمل آئینہ دار اور اس کی تجلی کی کاملجلوہ گاہ ہیں، انسان کو خدا پر ایمان اورعقیدت کی طرف منتقل کرتی ہے، اور اسی وجہ سے دعائوں میں اس محبت کو ہم خدا سے طلب کرتے ہیں:

خدایا! میرے نفس کو اپنی قدر سے ہماری جان کو قدرسے مطمئن اور اپنی قضا سے راضی قرار دے اور اپنے ذکر ودعا کا مشتاق اور حریص قرار دے اور اپنے خاص الخاص اولیاء کا دوستدار قرار دے اورزمین وآسمان کے درمیان محبوب قرار دے... ۔(٢)

آیات وروایات میں عام طور سے ائمہ ہدیٰ (ع) کی محبت اورمودت عمومی اورخالص طور پر امیر المومنین ـ کی محبت ومودت قابل توجہ و تاکید قرار پائی ہے:

(قُلْ لَا اَسْئَلُکُم عَلَیهِ اَجْراً اِلّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبیٰ )(٣) ''اے پیغمبر ! آپ کہہ دیجئے کہ میں تم سے اس تبلیغ کا کوئی اجر نہیں چاہتا علاوہ اس کے کہ میرے اقربا سے محبت کرو''۔

____________________

١۔ عبد الحسین، زرین کوب، پلہ پلہ تا ملاقات خداص٥٠۔

٢۔ مفاتیح الجنان ،شیخ عباس قمی، زیارت امین اللہ۔

٣۔سورہ ٔشوریٰ آیت٢٣۔

۲۶۷

اس آیت کے ذیل میں بہت سی احادیث شیعہ اور سنی سے نقل ہوئی ہیں کہ ''پیغمبر کے قربیٰ'' سے مراد ا

١س آیت میں علی، فاطمہ، اور آپ کے دونوں فرزند]حسن وحسین[ (ع) ہیں۔(١)

اس بناپر پیغمبر اور ائمہ اطہار (ع) کی محبت و ولایت کہ جو کامل انسان ہیں جس قدر بھی زیادہ ہوگی ، یہ درحقیقت مکارم اخلاق اور فضائل سے عشق ہے اور یہ عشق خدا کی محبت سے جدا نہیں ہوسکتا۔

اولیائے خداوندی سے قلبی طور پر محبت آمیز رابطہ اور توسل اسی وجہ سے پرورش ایمان کا باعث ہے۔

ہمیں توجہ رکھنی چاہئے کہ انسان کی خصوصیات میں ہے کہ وہ صرف یہ نہیں چاہتا کہ دوسروں کی توجہ کا مرکز رہے، بلکہ اس کی خواہش ہوتی ہے کہ کوئی ایسا ہو جس سے اظہار محبت کرے اور عشق رکھے جیساکہ مزلو ذکر کرتا ہے: ''... اسی طرح ہمیں اس حقیقت سے غافل نہیں ہونا چاہئے کہ محبت کی ضرورتیں دونوں ضرورتوں کو یعنی محبت کرنے اور محبت دیکھنے کو شامل ہیں''۔(٢)

اس بناپر اگر محبت کا متعلَّق ]ظرف[، اولیائے الٰہی اورانسان کامل کی محبت ہوں، تویہ سرگرداں قوّت مجازی عشقوں اوربے قیمت محبتوں میں صرف نہیں ہوگی، بلکہ کمال انسانیت کے اعلیٰ مقصد میں پھولے پھلے گی۔

سعدی اگر عاشقی کنی وجوانی

عشق محمد بس است وآل محمد

اے سعدی! اگر تم عاشقی اور جواں مردی کرو تواس کے لئے عشق محمد وآل محمد (ع) کافی ہے۔

اس موضوع میں آخری نکتہ ''زیارت'' ہے ائمہ اطہار (ع) کے مشاہد مشرفہ کی زیارت ان امور میں سے ہے جو ان کی محبت اور ولایت کو تقویت کرتی ہے اور باغ ایمان کو سر سبز وشاداب بنا دیتی ہے۔ متعدد روایات میں یہ نکتہ بیان ہوا ہے، نمونہ کے طور پر چند حدیث کی جانب ہم اشارہ کررہے ہیں:

''کسی قبر کی زیارت کے لئے سامان سفر آمادہ مت کرو، جز ہماری قبروں کی زیارت کے۔ جان لو کہ میں زہر سے شہید کیا جائوں گا اور پردیس اور عالم غربت میں دفن کیا جائوں گا۔ جو شخص میری زیارت کو آئے گا اس کی دعا مقبول ومستجاب ہے اور اس کا گناہ معاف ہے۔(٣)

____________________

١ ۔منجملہ تفسیر فخر رازیج٢٧ ص١٦٦۔بحارالانوار ج٢٧ ص١٣۔٢۔ روانشناسی شخصیت سالم ص١٥٤۔٣۔ عیون اخبار الرضا ـ ج١ ص٢٨٥۔

۲۶۸

محبت کے عنوان سے برادران دینی وایمانی کی زیارت بھی قلوب کی حیات کا باعث، ایمان اور محبت میں رشد

و اضافہ کا موجب ہے، بالخصوص صالح انسان اور ربانی علماء کی زیارت جو کہ دوگنا اخلاقی تاثیر رکھتی ہے:

''تم لوگ ایک دوسرے کی زیارت اور ملاقات کو جائو کہ یہ تمہارے دلوں کی حیات کا باعث ہے اورہماری باتیں بھی ذکر ہوں اورہماری احادیث تمہارے درمیان رابطہ برقرار کرتی ہیں، لہٰذا اگر ان سے تمسک اختیار کرو گے تو تمہارے رشد اورنجات کا باعث ہے''۔(١)

''زیارت دلوں میں دوستی اورمحبت ایجاد کرتی ہے''۔(٢)

نیک اور صالح افراد سے ملاقات کرنا قلب کی اصلاح کا باعث ہے۔(٣)

____________________

١۔بحارالانوارج٧٤ ص٢٥٨۔

٢۔ بحارالانوارج٧٤ ص٣٥٥۔

٣۔ بحارالانوارج٧٧ ص٢٠٨۔

۲۶۹

منابع

١۔ قرآن مجید

٢۔ نہج البلاغہ

٣۔آدلر، آ لفرد، روان شناسی فردی، ترجمہ حسن زمانی شرفشاہی، تصویر، ١٣٧٥۔

٤۔آمدی، عبدالواحد، غررالحکم ودرالکلیم، تہران، محمد علی الانصاری القمی، ١٣٣٧۔

٥۔ آندرہ، پی تیر، مارکسومارکسیم، ترجمہ شجاع الدین ضیائیان، تہران انتشارات دانشگاہ تہران، ، ١٤٠٢۔

٦۔ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ٢٠ جلد، بیروت، دار احیاء التراث، ١٣٨٥ ق۔

٧۔ ابن اثیر، مبارک بن محمد، نہایہ، قم، اسماعیلیان، ١٤٠٨ ق۔

٨۔ ابن شعبہ حرّانی، تحف العقول، قم، مؤسسہ النشرالاسلامی، ١٤٠٤ ق۔

٩۔ابن طاووس، علی ابن موسی، الملاحم و الفتن، قم، مؤسسہ صاحب الامر (عج ) ، ١٤١٦ ق۔

١٠۔ ابن فارس، معجم مقاییس اللغة، مصر، مطبعة المصطفی، ١٣٨٩۔

١١۔ ابن فہد حلّی، عدّة الداعی، قم، مکتبة الو جدانی، (تاریخ طبع مشخص نہیں ہے)۔

١٢۔ابن مسکویہ، تہذیب الاخلاق و تطہیر الاعراق، قم، بیدار، ١٣٧١ ش۔

١٣۔ ابن منظور، لسان العرب، بیروت، دار صار، ١٤١٥ق۔

١٤۔ اتکینسون، رتیال، زمینئہ روان شناسی، ترجمہ محمد تقی براہنی اور دیگر افراد، تہران، رشد، ١٣٦٦۔

١٥۔ اتکینسون، فلسفئہ اخلاق، ترجمہ سہراب علوی نیا، تہران، مرکز ترجمہ و نشر کتاب، ١٣٧٥۔

١٦۔ احمد بن ابی یعقوب، تاریخ الیعقوبی، قم، مؤسسہ ونشر فرھنگ اہل بیت، (تاریخ طبع مشخص نہیں ہے)۔

١٧۔ احمدی سید احمد، اصول و روشہای تربیت در اسلام، تہران، جہاد دانشگاہی، ١٣٦٤۔

١٨۔ ادگاردپش، اندیشہ ہای فروید، ترجمہ غلام علی توسّلی، تہران، انتشارات کتاب فروشی ابن سینا، ١٣٣٢۔

١٩۔ اربلی، ابوالفتح، کشف الغمہ، بیروت، دارالکتاب الاسلامی، ١٤٥١ ق۔

٢٠۔ ارسطو، اخلاق نیکو ماخس، ترجمہ سید ابو القاسم پور حسینی، تہران، انتشاردانشگاہ تہران، ١٣٦٨۔

٢١۔ ارون سون، الیوت، روان شناسی اجتماعی، ترجمہ حسین شکر کن، تہران، رشد، ١٣٦٦۔

٢٢۔ اسکانی، محمد بن ہمام، التمحیص، قم، مدرسہ امام مہدی (عج) ، ١٤٥٤ق۔

۲۷۰

٢٣۔اشعث کوفی، جعفریات، تہران، مکتبة نینوی الحدیثة، (تاریخ طبع مشخص نہیں ہے)۔

٢٤۔ الراغب اصفہانی، الحسین بن محمد، المفردات فی غریب القرآن، تہران، المکتبة المرتضویة لاحیاء آثار لمرتضویة۔

٢٥۔ المظفر، محمد رضا، المنطق، قم، اسماعیلیان، ١٣٦٦۔

٢٦۔ امام خمینی ، تحریر الوسیلہ، تہران، المکتبة العلمیة الاسلامیة، (تاریخ طبع مشخص نہیں ہے)۔

٢٧۔ امام خمینی ، چہل حدیث، تہران، مرکز نشر دانشگاہی رجائ، ١٣٦٨۔

٢٨۔ حضرت امام جعفر صادق ـ ، مصباح الشریعة۔

٢٩۔ حضرت امام جعفر صادق ـ، نہج الفصاحہ۔

٣٠۔ باب الحوائجی، نصر اﷲ، فروید چہ می گوید، تہران، انتشارات دریا، ١٣٤٧۔

٣١۔ باقری، خسرو، مبانی شیوہ ہای تربیت اخلاقی، تہران، سازمان تبلیغات اسلامی، مرکز چاپ و نشر، ١٣٧٧۔

٣٢۔ باقری، خسرو، نگاہی دوبارہ بہ تربیت اسلامی، تہران، وزارت آموزش وپرورش، ١٣٦٨۔

٣٣۔برقی، محمد بن خالد، محاسن، قم مجمع جہانی اہل بیت (ع)، ١٤١٣ ق۔

٣٤۔ بلاکہام، ھ۔ج، شش متفکر اگز یستانسیا لیست، ترجمہ محسن حکیمی، تہران، نشر مرکز، ١٣٧٢۔

٣٥۔ بی ناس، جان، تاریخ جامع ادیان، تہران، شرکت انتشارات علمی فرہنگی، ١٣٧٣۔

٣٦۔ بیہقی، احمد بن الحسین، شعب الایمان، بیروت، دارالکتب العلمیة، ١٤١٥ ق۔

٣٧۔ پاپکین و استرول، کلیات فلسفہ، ترجمہ جلال الدین مجتبوی، تہران، حکمت، ١٣٧٥ ش۔

٣٨۔ پروین، لارنس، روان شناسی شخصیت: نظر یہ وتحقیق، ترجمہ محمد جعفر جوادی، تہران، رسا، ١٣٧٢۔

٣٩۔ پیاژہ، ژان، تربیت بہ کجا می سپرد، ترجمہ دادستان و منصور، تہران، دانشگاہتہران، ١٣٦٩۔

٤٠۔ پیاژہ، ژان، دیدگاہ پیاژہ در گسترہ تحول روانی، ترجمہ وگردآوری ازمنصور، محمود وپریرخ دادستان، تہران، نشرژرف، ١٣٦٧۔

٤١۔ تفتازنی، سعد الدین، شرح مقاصد، قم، انتشارات شریف رضی، ١٣٧٥۔

٤٢۔ ثقفی، ابراہیم بن محمد، الغارات، تہران، انجمن آثار ملّی، ١٣٩٥ ق۔

٤٣۔ جرجانی، سید شریف، شرح المواقف، قم، انتشارات شریف رضی، ١٣٧٥۔

۲۷۱

٤٤۔ جعفری، محمد تقی، بررسی و نقد افکار راسل، تہران، امیر کبیر، ١٣٧٥۔

٤٥۔ جوادی، محسن، مسلہ باید و ہست، قم، تبلیغات اسلامی، ١٣٧٥۔

٤٦۔ جوادی، محسن، نظریہ ایمان درعرصہ کلام وقرآن، قم، معاونت امور اساتیدو دروس معارف اسلامی، ١٣٧٦۔

٤٧۔ جونز ارنست ودالبی یزو، اصول روانکاوی، ترجمہ ہاشم رضی، تہران، کاوہ، ١٣٤٢۔

٤٨۔ جوہری، اسماعیل بن حمّاد، صحاح اللّغة، بیروت دارالعلم للملایین، ١٩٩٠ م۔

٤٩جیمز، ویلیام، دین وروان، ترجمہ مہدی قائنی، قم، دارالفکر، ١٣٦٧۔

٥٠۔ حسینی، سید مہدی، مشاورہ وراہنمائی در تعلیم و تربیت اسلامی۔

٥١۔ حکیمی، محمد رضا، الحیاة، تہران، دفتر نشر فرہنگ اسلامی، ١٤٥٩ ق۔

٥٢۔ حمصی رازی، سدیدالدین محمود، المنقذ من التقلید، قم، مؤسسہ النشر الاسلامی، (تاریخ طبع مشخص نہیں ہے)۔

٥٣۔ خراسانی، محمد کاظم، کفایة الاصول، قم، مؤسسہ آل البیت (ع) لاحیاء التراث، ١٤١٧ ق۔

٥٤۔ خزّاز القمی، کفایة الاثر، قم، بیدار، ١٤٥١ ق۔

٥٥۔ خطیب بغدادی، تاریخ بغداد، مدینہ منوّرہ، مکتب سلفیّہ، (تاریخ طبع مشخص نہیں ہے)۔

٥٦۔ دفتر ہمکاری حوزہ و دانشگاہ، روان شناسی رشد با نگرش بہ منابع اسلامی، تہران، سمت، ١٣٧٤۔

٥٧۔ دفتر ہمکاری حوزہ و دانشگاہ، مکتب ہای روان شناسی و نقد آن، ٢ جلد، تہران، سمت، ١٣٦٩۔

٥٨۔ دفتر ہمکاری حوزہ و دانشگاہ، نقش تربیتی معلم۔

٥٩۔ دیلمی، حسن بن ابی الحسن، ارشاد القلوب ٢ جلد، قم، مؤسسہ آل البیت(ع) ا١٤١٣ ق۔

٦٠۔ دیلمی، حسن بن ابی الحسن، اعلام الدین، قم، مؤسسہ آل البیت(ع) ١٤٥٨ ق۔

٦١۔ راسل برتر اند، تاریخ فلسفہ غرب، ٢جلد، ترجمہ نجف دریابندی، تہران، شرکت سہامی کتاب داری جیبی، ١٣٥١۔

٦٢۔ راسل برتر اند، زناشویی واخلاق، ترجمہ مہدی افشار، تہران، کاویان، ١٣٥٥۔

٦٣۔ راوندی، قطب الدین، دعوات، قم، مؤسسہ الامام المہدی (عج) ، ١٤٥٧ ق۔

٦٤۔ روحانی، شہر یار، خانودہ موعود مارکسیم، تہران، قلم، ١٣٦٤۔

۲۷۲

٦٥۔ زبیدی، سید محمد بن محمد، تاج العروس، بیروت، دارالفکر، ١٤١٤ ق۔

٦٦۔ زرین کوب، عبد الحسین، پلہ پلہ تا ملاقات خدا، مولانا جلال الدین رومی کی زندگی اور ان کی فکر کے بارے میں، تہران، علمی، ١٣٧٢۔

٦٧۔ سبحانی، جعفر، حسن و قبح عقلی، پایہ ہای جاودان اخلاق، تہران، پژوہشگاہ علوم انسانی و مطالعات فرہنگی، ١٣٧٧۔

٦٨۔ سید ابن طاووس، مسکن الفوائد، قم، مؤسسہ آل البیت(ع) ١٤١٢ ق۔

٦٩۔ سیف، علی اکبر، تغییر رفتار و رفتار درمانی (نظریہ ہا وروش ہا) ، تہران، دانا، ١٣٧٣۔

٧٠۔ سیف، علی اکبر، روان شناسی پرورشی (روان شناسی یاد گیری و آموزش ) ، تہران، آگاہ، ١٣٦٨۔

٧١۔ شالہ، فیلیسین، فروید و فروید یسم، ترجمہ اسحاق وکیلی، تہران، بنگاہ مطبو عاتی قائم مقام، ١٣٤١۔

٧٢۔ شعیر سبزواری، جامع الاخبار، قم، مؤسسہ آل البیت(ع)، ٤١٤ ق۔

٧٣۔ شیخ صدوق، اعتقادات، قم، کنفرانس جہانی ہزارہ شیخ مفید، ١٤١٣ ق۔

٧٤۔ شیخ صدوق، توحید، قم، مؤسسہ نشر اسلامی، (تاریخ طبع مشخص نہیں ہے)۔

٧٥۔شیخ صدوق، خصال، قم، مؤسسہ نشر اسلامی، ١٤٥٣۔

٧٦۔ شیخ صدوق، صفات الشیعہ، قم، مؤسسہ الامام المہدی (عج) ١٤١٥۔

٧٧۔شیخ صدوق، علل الشرایع، بیروت، دار احیاء التراث، ١٣٨٥ ق۔

٧٨۔شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا ـ ، تہران، مکتبة جہان، (تاریخ طبع مشخص نہیں ہے)۔

٧٩۔ شیخ صدوق، مقنع، قم، مؤسسہ ا مام ہادی ـ، ١٤١٥ ق۔

٨٠۔ شیخ صدوق، تومن لا یحضر الفقیہ، قم، مؤسسہ نشر اسلامی، (تاریخ طبع مشخص نہیں ہے)۔

٨١۔ شیخ طوسی، امالی، قم، مؤسسہ البعثة، دارالثقافة، ١٤١٤ ق۔

٨٢۔ شیخ طوسی، محمد بن حسن، تہذیب الاحکام، بیروت، دارالتعارف و دار صعب، ١٤٥١ ق۔

٨٣۔ شیخ مفید، ارشاد، قم، مؤسسہ آل البیت(ع)، ١٤١٣ ق۔

٨٤۔شیخ مفید، اوائل المقالات، قم، کنگرہ جہانی شیخ مفید، ١٤١٣ ق۔

۲۷۳

٨٥۔ شیرازی، صدرالدین، تفسیر القرآن، قم، بیدار، (تاریخ طبع مشخص نہیں ہے)۔

٨٦۔صبور اردو باری، احمد، معمای عادت۔

٨٧۔ صحیفہ سجادیہ، الکاملة، دمشق، رایزنی فرہنگی جمہوری اسلامی ایران، (تاریخ طبع مشخص نہیں ہے)۔

٨٨۔ صدرا لدین شیرازی، الاسفار الاربعة، قم، مصطفوی، (تاریخ طبع مشخص نہیں ہے)۔

٨٩۔ صدر، سید محمد باقر، فلسفتنا (نظریہ المعرفة) ، قم، دارالکتاب الاسلامی، ١٤٥١ ق۔

٩٠۔ صدر، محمد باقر، بحث فی علم الاصول (تقریر سید محمود ہاشمی ) ، ٧جلد، قم، مکتب الاعلام اسلامی، ١٤٠٥ ق۔

٩١۔ صدر، محمد باقر، دروس فی علم الاصول، ٣حلقہ، بیروت، دارالکتاب اللبنانی، قاہرہ، دارالکتاب المصری، ١٩٨٧۔

٩٢۔ صدوق، عیون اخبارالرضا ـ تعلیق حسین اعلمی، بیروت، مؤسسہالاعلمی للمطبوعات، ١٤٠٤۔

٩٣۔ طبرسی، حسن بن فضل، مکارم الاخلاق، قم، مؤسسہ النشر الاسلامی، ١٤١٤ ق۔

٩٤۔ طریحی، فخرالدین، مجمع البحرین، قم، مؤسسہ البعثہ، ١٤١٥ ق۔

٩٥۔ طوسی، خواجہ نصیر الدین، اخلاق ناصری، شیراز انتشارات علمیہ اسلامیہ، (تاریخ طبع مشخص نہیں ہے)۔

٩٦۔ عاملی، شیخ حر، وسائل الشیعہ، ٢٠ جلد، تہران، کتاب فروشی اسلامیہ، ١٤٠٣ ق۔

٩٧۔ عبد الباقی، محمد فواد، المعجم لالفاظ القرآن الکریم، قاہرہ، مطبعہ دارالکتب المصریہ، ١٣٦٤ ق۔

٩٨۔ عدة من الرواة، اصول ستہ عشر، قم، دارالشبستری، ١٤٠٥ ق۔

٩٩۔ عسکری، ابو ہلال و جزایری، سید نور الدین، معجم الفروق اللغویہ، قم، مکتبہ بصیرتی، ١٣٥٣۔

١٠٠۔ علامہ امینی، احمد، الغدیر، بیروت، دارالکتاب العربی، ١٤٠٢ ق۔

١٠١۔علامہ حلی، کشف المراد، قم، مؤسسہ النشر الاسلامی، ١٤١٣ ق۔

١٠٢۔ علامہ طبا طبائی، سید محمد حسین، المیزان فی تفسیر القران، ٢٠ جلد، قم، جامعةالمدرسین، مؤسسہ نشر اسلامی۔

١٠٣۔ علامہ طبا طبائی، سید محمد حسین، رسائل سبعہ، قم، نمایش گاہ ونشر کتاب، ١٣٦٢۔

١٠٤۔ علم الہدی، سید مرتضی، الذخیرہ، قم، مؤسسہ نشر اسلامی، ١٤١١ ق۔

١٠٥۔ عیاشی، محمد بن مسعود، تفسیر عیاشی، تہران، المکتبہ العلمیہ الاسلامیہ، ١٣٨٠ ق۔

۲۷۴

١٠٦۔ غزالی، ابو حامد محمد، احیاء علوم الدین، بیروت، دارالعلم، (تاریخ طبع مشخص نہیں ہے)۔

١٠٧۔ فرانکل، ویکتور، انسان در جستجوی معنا، ترجمہ نہضت صالحیان ومیلانی، درسا، ١٣٧٣۔

١٠٨۔ فرانکنا، فلسفہ اخلاق، ترجمہ ہادی صادقی، قم، مؤسسہ فرہنگی طہ، ١٣٧٦۔

١٠٩۔ فقہ الرضا ( فقہ منسوب بہ امام رضا ـ) ، مشہد، کنفرانس جہانی امام رضا ـ ١٤٠٦ ق۔

١١٠۔ فلسفی، محمد تقی، اخلاق، تہران، نشر معارف اسلامی، (تاریخ طبع مشخص نہیں ہے)۔

١١١۔ فلسفی، محمد تقی، کودک ازنظر وراثت و تربیت، تہران، ، نشر معارف اسلامی، (تاریخ طبع مشخص نہیں ہے)۔

١١٢۔ فیض کاشانی، محسن، المحجة البیضائ، قم، دفتر انتشارات اسلامی، (تاریخ طبع مشخص نہیں ہے)۔

١١٣۔ فیض کاشانی، ملا محسن، المحجة البیضا فی تہذیب الاحیائ، ٨ جلد، بیروت، مؤسسہ اعلمی مطبوعات، ١٤٠٣ ق۔

١١٤۔ قطب محمد، روش تربیتی در اسلام، ترجمہ محمد مہدی جعفری، تہران، انجام کتاب، ١٣٦٢۔

١١٥۔ قمی، شیخ عباس، کلیات مفاتیح الجنان، بہ خط طاہرہ خوشنویس، تہران، کتابچی، ١٣٧٠۔

١١٦۔قمی، علی بن ابر ا ہیم، تفسیر قمی، قم، دارالکتاب، ١٤٠٤ ق۔

١١٧۔ کارل الکسیس، نیایش، ترجمہ علی شریعتی، تہران، حسینیہ ارشاد، ١٣٥٨۔

١١٨۔ کانت، ایمانوئل، بنیاد ما بعد الطبیعہ اخلاق، ترجمہ حمید عنایت و علی قیصری، تہران، شرکت سہامی انتشار خوارزمی، ١٣٦٩۔

١١٩۔کتاب مقدس، ترجمہ فارسی، قطع جیبی، (تاریخ طبع مشخص نہیں ہے)۔

١٢٠۔ کراجکی، محمد بن علی، کنز الفوائد، قم، دارالذخائر، ١٤١٠ ق۔

١٢١۔ کریستیانی، ترزاس، روان شناسی مشاورہ، ترجمہ رضا فلاحی و حاجی لو، مؤسسہ رشد، ١٣٧٤۔

١٢٢۔ کلینی، محمد بن یعقوب، اصول کافی، ٢جلد، بیروت، دارالاضوائ، ١٤١٤ ق۔

١٢٣۔ مارستون، انتفانی، معجزئہ تشویق، ترجمہ توراندخت تمدن (مالکی ) ، تہران، علمی، ١٣٧٥۔

١٢٤۔ مثولتز، دوان، روان شناسی کمال، ترجمہ گیتی خوش دل، تہران، نشر نو، ١٣٦٢۔

١٢٥۔ مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ١١١ جلد، بیروت، دارالاضوائ، ١٤١٣ ق۔

۲۷۵

١٢٦۔ محمد قاسمی، حمید، اخلاق جنسی اسلام کی نظر میں، تہران، سازمان تبلیغات اسلامی، ١٣٧٣۔

١٢٧۔ محمدی ری شہری، محمد، میزان الحکمہ، ١٠ جلد، قم، حوزہ علمیہ قم، دفتر تبلیغات اسلامی، ١٣٦٢۔

١٢٨۔ مزلو، آبراہام، روان شناسی شخصیت سالم، ترجمہ شیوا روی گردان، تہران، ہدف، ١٣٦٧۔

١٢٩۔ مزلو، آبراہام، انگیزش و شخصیت، ترجمہ احمد رضوانی، مشہد، آستانہ قدس رضوی، ١٣٦٧۔

١٣٠۔ مشکور، محمد جواد، خلاصئہ ادیان، تہران، شرق، ١٣٧٢۔

١٣١۔ مصباح یزدی، محمد تقی، اخلاق در قرآن، تہران، امیر کبیر، ١٣٧٢۔

١٣٢۔ مصباح یزدی، محمد تقی، دروس فلسفہ اخلاق، تہران، اطلاعات، ١٣٦٧۔

١٣٣۔ مطہری، مرتضی، آشنایی با علوم اسلامی ( حکمت عملی) ، قم، صدرا، (تاریخ طبع مشخص نہیں ہے)۔

١٣٤۔ مطہری، مرتضی، آشنایی با علوم اسلامی ( عرفان) ، قم، صدرا، ١٣٧١۔

١٣٥۔ مطہری، مرتضی، اخلاق جنسی در اسلام و جہان غرب، قم، صدرا، (تاریخ طبع مشخص نہیں ہے)۔

١٣٦۔ مطہری، مرتضی، اسلام و مقتضیات زمان، ٢جلد، قم، صدرا، ١٣٧٤۔

١٣٧۔ مطہری، مرتضی، تعلیم وتربیت در اسلام، تہران، ، صدرا، ١٣٦٧۔

١٣٨۔ مطہری، مرتضی، جاذبہ ودافعہ علی ـ ، تہران، ، صدرا، ١٣٦٨۔

١٣٩۔ مطہری، مرتضی، جاودانگی اخلاق، (چاپ شدہ در یاد نامہ استاد مطہری، ج١) ، تہران، سازمان انتشارات و آموزش انقلاب اسلامی، ٦٠ ١٣۔

١٤٠۔ مطہری، مرتضی، سیر ی در سیرئہ نبوی، قم، صدرا، ١٣٧٦۔

١٤١۔ مطہری، مرتضی، مسلہ حجاب، قم، صدرا، (تاریخ طبع مشخص نہیں ہے)۔

١٤٢۔ مطہری، مرتضی، مسلہ شناخت، قم، صدرا، ١٣٧٤۔

١٤٣۔ مطہری، مرتضی، مقدمہ ای بر جہان بینی اسلامی (انسان در قرآن) ، قم، صدرا، (تاریخ طبع مشخص نہیں ہے)۔

١٤٤۔ مطہری، مرتضی، نظام حقوق زن در اسلام، قم، صدرا، ١٣٧٥۔

١٤٥۔ مطہری، مرتضی، نقدی بر مارکسیسم، قم، صدرا، ١٣٦٢۔

۲۷۶

١٤٦۔ معین، محمد، فرہنگ فارسی( متوسط) ، ٦جلد، تہران، امیر کبیر، ١٣٧١۔

١٤٧۔ مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دارالکتب الاسلامےة، ١٣٧٢۔

١٤٨۔ مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، ٢٧ جلد، تہران، دارالکتب الاسلامےة، ١٣٧١۔

١٤٩۔ملکی تبریزی، میرزا جواد آغا، رسالئہ لقاء اﷲ، ترجمہ ومقدمہ واضافات سید احمد فہری، نہضت زنان مسلمان، ١٣٦٠۔

١٥٠۔منصور، محمود، احساس کہتری، تہران، دانشگاہ تہران، مؤسسہ انتشارات وچاپ، ١٣٦٩۔

١٥١۔ منصور، محمود، روان شناسی ژنتیک: تحول روانی از کودکی تا پیری، تہران، ترمہ، (تاریخ طبع مشخص نہیں ہے)۔

١٥٢۔ مہرین، مہراد، فلسفہ شرق، تہران، مؤسسہ مطبو عاتی، عطائی، ١٣٥٧۔

١٥٣۔ نائینی، میرزا محمد حسین، فوائد الاصول ( تقریر محمد علی کاظمی ) ، ٤جلد، قم، مؤسسہ النشر الاسلامی، ١٤٠٤ ق۔

١٥٤۔ ناطق، ناصح، بحثی دربارئہ زندگی مانی وپیام او، تہران، امیر کبیر، ١٣٥٧۔

١٥٥نراقی، ملا احمد، معراج السعادہ، تہران، رشیدی، ١٣٦٢۔

١٥٦۔ نراقی، ملا مہدی، جامع السعادات، قم، اسماعیلیان، (تاریخ طبع مشخص نہیں ہے)۔

١٥٧۔ نعمانی، محمد بن ابراہیم، الغیبہ، تہران، مکتبة الصدوق، (تاریخ طبع مشخص نہیں ہے)۔

١٥٨۔ نوری، میرزا حسین، مستدرک الوسائل، قم، مؤسسہ آل البیت، ١٤٠٧ ق۔

١٥٩۔ نوری، میرزا حسین، مستدرک الوسائل ومستنبط المسایل، بیروت، مؤسسہ آل البیت لاحیاء التراث، ١٤٠٨ ق۔

١٦٠۔ ورام بن ابی فراس، تنبیہ الخواطر، ٢ جلد، بیروت، دارالتعارف ودار صعب، (تاریخ طبع مشخص نہیں ہے)۔

١٦١۔ ویل دورانت، تاریخ تمدّن، ترجمہ گروہی ازمترجمین، تہران، اقبال، (تاریخ طبع مشخص نہیں ہے)۔

١٦٢۔ ویل دورانت، لذات فلسفہ، تہران، شرکت سہامی انتشار اندیشہ، ١٣٥٤۔

١٦٣۔ہرگنہان، بی۔ آر۔ مقدمہ ای بر نظریہ ہای یاد گیری، ترجمہ علی اکبر سیف، تہران، دانا، ١٣٧٤۔

١٦٤۔ ہرمان الدنبورک، فروغ خاور، ترجمہ بدر الدین کتابی، اصفہانی، انتشارات کتاب فروشی تیید، ١٣٤٠۔

١٦٥۔ ہیلگارد، ارنست، نظریہ ہای یاد گیری، ترجمہ محمد نقی براہنی، تہران، ستاد انقلاب فرہنگی مرکز نشر دانشگاہی، ١٣٧٦۔

١٦٦۔یونگ، روان شناسی ضمیر نا خود آگاہ، ترجمہ محمد علی امیری، تہران، انتشارات آموزش و انقلاب اسلامی، ١٣٧٢۔

۱۶۷- The Psychology of Healthe ,M.Robin Dimatteo, colifornia,۱۹۹۱

۲۷۷

فہرست

پہلا باب : اخلاق کے اصول ۴

پہلی فصل: کلّیات ۴

الف۔ علم اخلاق سے واقفیت ۴

١۔ لفظ اخلاق کا لغوی مفہوم ۴

٢۔علم اخلاق کی تعریف ۵

٣۔ اخلاق کا فلسلفہ ۶

٤۔ اخلاقی تربیت ۷

ب۔ علم اخلاق اور دوسرے علوم ۸

١۔ علم اخلاق اور فقہ ۸

٢۔ علم اخلاق اور حقوق ۹

٣۔ علم اخلاق اورعرفان عملی ۹

٤۔علم اخلاق اور تربیتی علوم ۱۰

ج۔ اخلاق سے متعلق نظریات ۱۱

١۔فیلسوفوں کا نظریۂ اخلاق ۱۱

٢۔ عارفوں کا نظریۂ اخلاق ۱۱

٣۔اخلاق نقلی(٣) ۱۳

د: اخلاق اسلامی کے مباحث کی تقسیم ۱۶

١۔اخلاق کی بعض بنیادی اور فلسفی بحثیں ۱۶

٢۔اخلاقی خوبیوںاوربرائیوں کی توصیف ۱۶

۲۷۸

٣۔اخلاق تربیتی ۱۶

دوسری فصل : اخلاق کی جاودانی ۱۷

مقدمہ ۱۷

١۔مسئلہ کی وضاحت: ۱۷

٢۔ بحث کی تاریخ: ۱۷

٣۔ موضوع کی دینی اہمیت: ۱۸

٤۔اطلاق اور نسبیت کا مفہوم: ۱۸

الف۔ اخلاقی نسبیت پسندی کے نتیجے: ۲۰

١۔ ذمہ داری کا سلب ہونا: ۲۰

٢۔اخلاقی احکام کا بے ثمر ہونا: ۲۱

٣۔ دین کے مکمل اور جاودانی ہونے کی نفی: ۲۱

٤۔ اخلاقی شکّاکیت : ۲۱

٥۔خادموں اور خائنوں کا یکساں ہونا: ۲۲

ب۔ ا خلاق میں مطلق پسندی اور اس کی دلیلیں ۲۲

١۔پائدار اخلاق کی نشاندہی کی ضرورت: ۲۲

٢۔ اخلاق کے جاودانی اصولوں کو بیان کرنا: ۲۲

ج۔ سو ا لا ت اور جوابات ۲۵

پہلاسوال: ۲۵

پہلا جواب: ۲۵

دوسرا جواب: ۲۵

۲۷۹

تیسرا جواب: ۲۶

چوتھا سوال: ۲۸

جواب: ۲۸

تیسری فصل: اخلا قی عمل ۲۹

عناوین ۲۹

١لف ۔اخلاقی عمل کے قیمتی عناصر ۳۰

١ ۔فاعلی عناصر ۳۰

ایک: فاعل کی آزادی اور اس کا اختیار ۳۱

١۔فلسفی جبر: ۳۲

٢۔ اخلاقی جبر: ۳۲

٣۔ حقوقی جبر: ۳۲

٤۔ نفسیاتی جبر: ۳۲

٥۔سماجی جبر: ۳۳

دو: فاعل کی نیت اورمقصد ۳۴

١۔مقصدکی عقلی اہمیت: ۳۵

نیت کے مراتب: ۳۶

مقصد اور ایمان کارشتہ: ۳۷

ایمان اورعمل کا رشتہ : ۳۹

کافروں کے نیک اعمال: ۴۰

٢۔فعلی اور عینی عنصر ۴۱

۲۸۰

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

فقال : ما ا علم شيأً بعد المعرفة ا فضل من هذه الصلاةا لا ترى أن العبد الصالح عيسى ابن مريم (ع) قال: وا وصانى بالصلاة والزكوة مادمت حياً'' (۱)

معاويہ بن وہب كہتے ہيں : ميں نے امام صادق سے پوچھا : بہترين چيز جو بندوں كے الله تعالى سے تقرب كا باعث ہو اور الله تعالى كے نزديك سب سے زيادہ محبوب ہو وہ كيا ہے ؟ فرمايا : ميں معرفت كے بعد نماز سے بہتر چيز نہيں جانتا كيا تم نہيں ديكھ رہے كہ الله تعالى كے صالح بندے عيسى ابن مريم نے كہا ہے _وا وصانى بالصلوة والزكات مادمت حيّا

۱۶_قال الصادق (ع) فى قوله ( وا صانى بالصلوة و الزكوة قال : زكاةالروؤس (۲) امام صادق (ع) نے حضرت عيسي(ع) كے كلام''وا وصانى بالصلاة والزكوة'' كے بارے ميں فرمايا : زكوة سرانہ يعنى '' فطرہ'' ہے _

احكام :۱۲

الله تعالى :الله تعالى كى بركات ۱; الله تعالى كى حيثيت ۴;اللہ تعالى كى نصحتيں ۵

انفاق :انفاق كى اہميت ۹//بركت :بركت كا سرچشمہ ۲;۴

تكليف :تكليف كى حدود۱۱//خير :خير كا سرچشمہ ۴

دنيا:دنيا كا كردار۱۱//ذكر :الله تعالى كا ذكر ۱۰

روايت :۱۳;۱۴;۱۵;۱۶

زكواة :زكواة فطرہ كى اہميت ۱۶; زكواة كى اہميت ۹ ; ۱۲ ;زكواة كى نصحيت ۵;۶;زكواة كے احكام ۱۲; مريم كے زمانہ ميں زكواة ۸عبوديت :عبوديت كى اہميت ۹

عيسى :عيسي(ع) كا تعارف ۶; عيسي(ع) كا خوش قدم ہونا ۱ ; عيسي(ع) كا قصہ ۶; عيسي(ع) كا كردار ۱۴; عيسي(ع) كو نصيحت ۵ ; عيسي(ع) كو وحى ۶;عيسى كى بركت ۱،۲، ۱۳،۱۴ ; عيسي(ع) كى بركت كى خصوصيات ۳; عيسي(ع) كى تعليمات ۱۴;عيسى كى خصوصيات ۶; عيسي(ع) كى رائے ۲;عيسى كى نومولودى ۲،۵; عيسي(ع) كے فضائل ۱،۲،۳،۱۳

لوگ :لو گوں ميں كى طرف توجہ كى اہميت ۱۰

____________________

۱) كافى ج۳ص۲۶۴ح، نورالثقلين ج۳ ص۴ ۳۳ ح۶۹

۲) تفسير قمى ج۲ ص۵۰، نورالثقلين ج۳ ص۳۳۵ح۷۰_

۶۶۱

مسيحيت :مسيحيت ميں زكواة ۷; مسيحيت ميں نماز ۷

نماز :مريم كے زمانہ ميں نماز ۸; نماز كى اہميت ۹; ۱۲ ; نماز كى فضيلت ۱۵; نماز كى نصيحت ۵;۶ ; نمازكے احكام ۱۲

آیت ۳۲

( وَبَرّاً بِوَالِدَتِي وَلَمْ يَجْعَلْنِي جَبَّاراً شَقِيّاً )

اور اپنى والدہ كے ساتھ حسن سلوك كرنے والا بنايا ہے اور ظالم و بد نصيب نہيں بنايا ہے (۳۲)

۱_والدہ كے ساتھ اچھا سلوك اور انہيں محترم جاننا ، حضرت عيسي(ع) كى ولادت كے آغاز سے ہى ان ميں الہى سيرت اور خدا دادى خصلت _وبرّاً بوالدتي

۲_ حضرت عيسي(ع) نے گہوارہ ميں اپنى والدہ حضرت مريم كے حوالے سے اپنے آپ كا حسن سلوك سے پيش آنے والا اور اچھائي كرنے ولافرزند كے عنوان سے تعارف كروايا اوراس خصوصيت كو الہى عطيہ جانا _وبرّاً بوالدتي

گذشتہ آيت كے قرينہ سے ''وبرّا بوالدتي'' يہ جملہ مقدر ہے _وجعلنى برّا بوالدتي

۳_ حضرت عيسي(ع) نے اپنى خصوصيات بتاتے ہوئے اپنى بغير باپ كے ولادت پرتاكيد كي_وبرّاً بوالدتي

حضرت عيسي(ع) نے نيكى كرنے كے حوالے سے

صرف اپنى والدہ كا تذكرہ كيا اپنے والد كا ذكر درميان ميں نہيں لائے تا كہ اپنى گفتگو ميں اس بات پر كہ انكى والدہ پاكدامن ہيں تائيد كريں _

۴_حضرت مريم گناہ وفحشا سے پاك ومنزہ اور بہت زيادہ اكرام كے لائق ہيں _لقد جئت شياً فريّاً وبرّاًبوالدتي

حضرت عيسي(ع) نے اپنے معجزہ كے ساتھ حضرت مريم كو لوگوں كى غلط تہمت سے برى الزمہّ كيا _ اور ساتھ ہى اپنے آپ كو حضرت مريم كا خدمت گزا ر پيغمبر (ع) بتلا يا اور خدمت گزارى كے بيان ميں صفت شبہ (برّاً) كوا ستعمال كيا جو كہ ثبوت ودوام پر دلالت كرتى ہے تا كہ بہت زيادہ تاكيد كرتے ہوئے حضرت مريم كے احترام كواپنى ذمہ دارى شمار كريں _

۵_ حضرت عيسي(ع) جباريت سركشى اور آمريت سے منزہ اور رنج وشكست سے دور تھے _ولم يجعلنى جباراً شقيًا

( جبار) اسے كہتے ميں جو اپنے آپ كو برتر

۶۶۲

جانتے ہوئے كسى كے ليے اپنے اوپر كسى قسم كے حق كا قائل نہ ہو ( قاموس ) اسى طرح وہ جو حق قبول كرنے سے انكار كرے اوراسى طرح جو دوسروں كو اپنے تحت لائے اسے بھى جباّر كہتے ہيں (مفردات راغب ) شقاوت ) يعنى سختى اور شدت ( قاموس ) اسى طرح سعادت ( كاميابى ) كے مقابل معنى ميں بھى استعمال ہوتا ہے _ ( مفردات راغب )

۶_ الله تعالى كى عنايات نے حضرت عيسي(ع) كوحق قبول كرنے والا ، خو ش بخت ا ور نرم مزاج والا شخص بناديا_

ولم يجعلنى جباراً شقيّ

۸_جباريت حق دشمن اور دوسروں كو غلام بنانا، شقاوت اور بدبختى كے اسباب ميں سے ہيں _ولم يجعلنى جباراً شقيً

( شقيًا)ممكن ہے ( جباّراً) كيلئے صفت توضيحى ہو يعنى جو بھى جباّرہو ا وہ شقى بن جائے گا _

۹_والدہ كے ساتھ نيكى كو ترك كرنا، بدبختى كى علامت ہے _وبرّاً بوالدتى و لم يجعلنى جبّاراً شقيًا

ممكن ہے ( لم يجعلنى ) كا گذشتہ جملے پر'' عطف '' عطف سببب بر مسبب ہو يعنى چونكہ الله تعالى نے مجھے جباراور شقى نہيں بنايااس ليے ميں اپنى والدہ كے ساتھ نيك سلوك كرنے والا ہوں لہذا جو اپنى والدہ كے ساتھ نيكى ترك كرے وہ شقى اور جباّر ہے _

۱۰ _والدہ كے ساتھ نيكى اور اپنى خواہشات كوان پر مسلّط كرنے سے پرہيز ضرورى ہے _وبرّاًبوالدتى ولم يجعلنى جبارا

جملہ ( لم يجعلنى جباراً )( الله تعالى نے مجھے جبار نہيں قرار ديا ) قرينہ ( برّا بوالدتى ) كے ساتھ يہ معنى دے رہا ہے كہ ميں اپنى والدہ كے در مقابل جباّر نہيں ہوں _

۱۱_عن أبى عبدا لله (ع) ( فى تعريف الكبائر) و منها عقوق الوالدين لانّ اللّه _ عزوجل _جعل العاقّ جباراً شقياً فى قوله حكاية، قال عيسي(ع) (ع) : و''برّاًبوالدتى ولم يجعلنى جباراً شقياً (۱) ( گناہ كبيرہ كى وضاحت ميں ) امام صادق (ع) سے روايت ہوئي ہے كہ عقوق والدين ميں سے ايك والدين كى نافرمانى بھى ہے كيونكہ الله تعالى نے اپنى كلام ميں حضرت عيسي(ع) سے نقل كرتے ہوئے عاق نافرمانى كرنے والے كو جباّر اور شقى قرار ديا ہے_جيسا كہ يہ فرمايا :

الله تعالى :الله تعالى كى عنايت كے آثار ۶

الله تعالى كے عطيات :الله تعالى كے عطيات كے شامل حال ۲

تسلط چاہنا:تسلط چاہنے سے پرہيز ۷;تسلط چاہنے كے آثار ۸

____________________

۱)عيون اخبارالرضا ج۱، ص۲۸۶،ب۲۸ح۳۳ نورالثقلين ،ج۳، ص۳۳۵، ح۷۱_

۶۶۳

جباريت :جباريت كے آثار ۸

حق :حق كے ساتھ دشمنى كے آثار ۸

روايت :۱۱

شقاوت :شقاوت سے پرہيز ۷; شقاوت كى علامات ۹; شقاوت كے اسباب ۸; شقاوت كے اسباب سے پرہيز ۷

ظلم :ظلم سے پرہيز ۷

عيسى (ع) :عيسي(ع) كا قصہ ۳ عيسي(ع) كا منزہ ہونا ۵;عيسى (ع) كانيكى كرنا ۱ ; عيسي(ع) كى تواضع ۵; عيسي(ع) كى خوش رفتارى ۲;عيسي(ع) كى خلقت كے حوالے سے خصوصيات ۳;عيسى (ع) كي رائے ۲;عيسى كى سعادت مندي۵; عيسي(ع) كا سعادت كا سرچشمہ ۶; عيسي(ع) كى سيرت۱; عيسي(ع) كى عصمت ۵; عيسي(ع) كے حق قبول كرنے كا سرچشمہ ۶; عيسي(ع) كے فضائل ۱،۲،۵،۶

گناہ كبيرہ : ۱۱

ماں :ماں پر اپنى جباّريت مسلط كرنے سے پرہيز ۱۰; ماں سے نيكى ۱;۲;ماں سے نيكى ترك كرنے كے آثار ۹; ماں سے نيكى كرنے كى اہميت ۱۰; ماں كا احترام ۱

مريم (ع) :مريم (ع) كا احترام ۴; مريم (ع) كا منزہ ہونا ۴ مريم (ع) كى عصمت ۴; مريم (ع) كى عفت ۴; مريم (ع) كے فضائل ۴

والدين :والدين كے عاق ہونے كا گناہ ۱۱

آیت ۳۳

( وَالسَّلَامُ عَلَيَّ يَوْمَ وُلِدتُّ وَيَوْمَ أَمُوتُ وَيَوْمَ أُبْعَثُ حَيّاً )

اور سلام ہے مجھ پر اس دن جس دن ميں پيدا ہوا اور جس دن مروں گا اور جس دن دوبارہ زندہ اٹھايا جاؤں گا (۳۳)

۱_ حضرت عيسي(ع) نے گہوارہ ميں اپنى ولادت موت اور حشر كے مراحل ميں اپنى سلامتى اور مكمل امن كا اعلان فرمايا _والسّلام على يوم ولدت و يوم أموت و يوم أبعث حيّا

( السّلام ) ميں ''الف و لام'' خصوصيات كے استقراق كيلئے ہے يعنى مكمل اور تمام خصوصيات كے ساتھ سلامتى اسى ليے يہ سلام حضرت يحيى كے حوالے سے سلام كے ساتھ مختلف ہے _

۶۶۴

۲_ حضرت عيسي(ع) ولادت كے زمانہ ميں صحيح و سالم اور رشد و كمال كيلئے تياّر، جسم و روح كے مالك تھے _

والسّلام على يوم ولدت

۳_ حضرت عيسي(ع) كے ليے موت كے لمحات اور روز محشرميں مكمل سلامتى او رحفاظت حضرت عيسي(ع) كيلئے ضمانت شدہ ارو ناقابل تغييّر ہے _والسّلام عليّيوم أموت ويوم أبعث حيّا

۴_حضرت عيسي(ع) نے اپنى ولادت كے مرحلہ كوہر عيب وبدى سے محفوظ كہتے ہوئے اپنى والدہ حضرت مريم (ع) كے لوگوں كے غلط الزامات سے پاك اور منزہ ہونے پر تاكيد كى _والسّلام عليّ يوم ولدت

۵_ ولادت موت اور حشر كازمانہ انسان كيلئے تين حساس اور تقدير ساز مراحل ہيں _والسّلام عليّ يوم أبعث حيّا

۶_ انسان ،صحت وسلامتى اورالہى حفاظت كامحتاج ہے حتّى كہ موت كے لمحات ميں بھى _والسّلام عليّ يوم أموت

موت كے وقت سلامتى سے مراد وحشت ، ناميدى اور اضطراب وغيرہ سے دو ر ہونا ہے كہ الله اور معاد كے منكر اسميں گرفتار ہونگے _

۷_حضرت مريم (ع) پر تہمت لگانے والے سلامتى اور امن سے بے بہرہ تھے _والسّلام عليّ

( السّلام ) يعنى مكمل سلامتى جو كہ تمام خصوصيات ليے ہوئے ہو يہ كلام جو كہ حصر اضافى كا حامل ہے ان لوگوں كے در مقابل جو حضرت مريم كو توبيخ كرنے كيلئے آئے تھے ايك قسم كى تعريض پر مشتمل ہے يعنى صرف ميں ، مكمل سلامتى ركھتا ہوں ليكن تم لوگ اسے نہيں ركھتے ہو _

۸_ حضرت عيسي(ع) دوسرے انسانوں كى طرح ولادت ،موت اور حشر كے مراحل ليے ہوئے ہيں اور خود اس چيز كا اعتراف كرتے ہيں _يوم ولدت ويوم أموت ويوم أبعث حيّا

۹_ حضرت عيسي(ع) بعض، پيش آنے والے حوادث سے آگا ہ تھے _والسّلام عليّ يوم أموت

۱۰_ اپنے سے يادوسروں سے تہمتوں كو دور كرنے كيلئے اپنى خصوصيات اور امتيازات كو شمار كرنا، نا پسنديدہ نہيں ہے _

قال إنى عبدالله ويوم أبعث حيّا

۱۱_حضرت عيسي(ع) كيلئے آخرت ميں خصوصى زندگى _ويوم أبعث حيّا

اگر چہ فعل (ا بعث ) زندہ ہونے پر دلالت كررہا ہے ليكن ( حيّا ) كے ساتھ اس كى تصريح شايد اس ليے ہو كہ دوسروں كى نسبت حضرت عيسي(ع) كو آخرت ميں خصوصى زندگى حاصل ہوگي_

۶۶۵

۱۲_ انسان، قيامت ميں دوبارہ زندہ ہونگے _يوم اموت ويوم أبعث حيّا

اپنى تعريف :اپنى تعريف كاجائز ہونا ۱۰

امن و حفاظت :موت كے وقت امن و حفاظت ۶

انسان :انسان كى ضرورتيں ۶//تقدير :تقدير ميں موثر اسباب ۵

تہمت :دوسروں سے تہمت كو دور كرنا ۱۰

حشر :حشر كى اہميت ۵

خود :خود سے تہمت كا دور كرنا ۱۰

سلامتى :موت كے وقت سلامتى ۶

ضرورتيں :امن كى ضرورت ۶; سلامتى كى ضرورت ۶

عيسى (ع) :عيسي(ع) كى اخروى امنيت ۱;۳; عيسي(ع) كى اخروى سلامتى ۱;۳; عيسي(ع) كا اقرار ۸; عيسي(ع) كا بشر ہونا ۸; عيسي(ع) كے رشد كا پيش خيمہ ۲; عيسي(ع) كے كمال كا پيش خيمہ ۲; عيسي(ع) كى تقدير ۹; عيسي(ع) كى حفاظت كا حتمى ہونا ۳; عيسي(ع) كى سلامتى كا حتمى ہونا ۳; عيسي(ع) كا حشر ۸; عيسي(ع) كے حشر كى خصوصيات ۳; عيسي(ع) كى خصوصيات ۱۱; عيسي(ع) كى موت كى خصوصيات ۳; عيسي(ع) كى ولادت كى خصوصيات ۴; عيسي(ع) كى آخرت ميں زندگى ۱۱;عيسى (ع) كى دنياوى سلامتي۱; عيسي(ع) كے امن كا سرچشمہ ۱; عيسي(ع) كى سلامتى كا سرچشمہ۱; عيسي(ع) كى سلامتى ۲;۴; عيسي(ع) كا علم غيب ۹; عيسي(ع) كا قصہ ۴; عيسي(ع) كا نومولودى ميں كلام كرنا ۱; عيسي(ع) كا منزہ ہونا ۴; عيسي(ع) كى موت ۸; عيسي(ع) كى ولادت ۲;۸

مردے:مردوں كى اخروى زندگى ۱۲

مريم (ع) :مريم (ع) پر تہمت لگانے والوں كا ناامن ہونا ۷;مريم (ع) كا قصہ ۴; مريم (ع) كا منزہ ہونا ۴

موت :موت كى اہميت ۵

نظريہ كائنات :نظريہ كائنات اور آئڈيالوجى ۱۲

ولادت :ولادت كى اہميت ۵

۶۶۶

آیت ۳۴

( ذَلِكَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ قَوْلَ الْحَقِّ الَّذِي فِيهِ يَمْتَرُونَ )

يہ ہے عيسى بن مريم كے بارے ميں قول حق جس ميں يہ لوگ شك كر رہے تھے (۳۴)

۱_قرآن، حضرت عيسي(ع) كى شخصيت اور حقيقى داستان بيان كرنے والاہے _ذلك عيسى ا بن مريم قول الحق

( ذلك ) كا اشار ہ ان اوصاف كا حامل ہے كہ جن كا گذشتہ آيات ميں ذكر ہو ا ہے اور ( قول الحق ) فعل محذوف ( اقول) كا مفعول ہے _ يعنى حقيقى بات كررہا ہوں _

۲_ حضرت عيسي(ع) مريم كے فرزند، اور بلند مقام و منزلت كے مالك ہيں _ذلك عيسى ابن مريم

( ذلك ) بعيد كيلئے اشارہ كے طور پر استعمال ہوتا ہے جب اسے نزديك كيلئے استعمال كيا جائے تو وہاں مقصود مورد اشارہ كى عظمت منزلت او ر بڑائي كا بيان ہے _

۳_ حضرت عيسي(ع) بغير والد كے تخليق ہوئے ذلك عيسى ابن مريم حضرت عيسي(ع) كى والدہ كى طرف نسبت دينا جب كہ ايسى نسبت رواج كے مطابق نہيں ہے_مندرجہ بالا نكتہ كو بيان كررہى ہے _

۴_ حضرت عيسي(ع) اللہ تعالى كے فرزند نہيں ہيں _عيسى ابن مريم

حضرت عيسي(ع) كى اپنى والدہ حضرت مريم كى طرف نسبت تعريضى ہے ان كے حوالے سے جو انہيں الله تعالى كا فرزند جانتے ہيں _ لہذا نہيں سوائے ماں كے كسى اور طرف منسوب نہيں كرنا چايئےعد والى آيت اسى نكتہ كو واضع كررہى ہے_

۵_ قرآن، تاريخى حقائق اور انكى واقعيت كوبيان كرنے والا ہے _ذلك عيسى ابن مريم قول الحق الذى فيه يمترون

۶_ حضرت عيسي(ع) اللہ تعالى كا كلمہ اور اسكے فرمان سے وجودپانے والے ہيں _

ذلك عيسى ابن مريم قول الحق

(قول) كا منصوب ہونا ممكن ہے اسكے حال ہونے كى بناء پر ہو اور يہ بھى احتمال ہے كہ فعل مدح محذوف كى وجہ سے منصوب ہو _ ان دو احتمالو ں كى بنياد پر الله تعالى كى كلام ميں ( قول الحق ) سے مراد، اسكے فرمان پر حضرت عيسي(ع) كى خلقت ہے_

۷_حضرت عيسي(ع) كى ماہيت كے بارے ميں ( انكے بشر ہونے اور بغير باپ كے وجود ميں آنے ميں ) تاريخى ادوار ميں غلط قسم كى ترديد وشك موجود ہے_ذلك عيسى ابن مريم الذى فيه يمترون

۶۶۷

( الذي) عيسي(ع) يا'' قول الحق'' كيلئے صفت بے اور (امترائ) ( ''يمترون ''كا مصدر ) شك وترديد كے معنى ميں ہے صيغہ'' يمترون'' كا غيب ذكر ہونا اس بات سے حكايت كررہاہے كہ مسلمانوں سے ہٹ كرايسے لوگ بھى تھے كہ جو حضرت عيسي(ع) كے بارے ميں ايسے عقائد ركھتے تھے كہ جو كہ يقين كى منزل پر نہيں تھے _

الله تعالى :الله تعالى كے اوامر ۶; الله تعالى كے كلمات ۶

تاريخ :تاريخ كے سرچشمہ ۵

عيسى (ع) :عيسى اور الله تعالى كا فرزندہونا ۴;عيسى (ع) كا بشر ہونا ۷; عيسي(ع) كا قصہ ۱;عيسى (ع) كى خلقت كا سرچشمہ ۶; عيسي(ع) كى خلقت كے حوالے سے خصوصيات ۳، ۷; عيسي(ع) كى ماں ۲; عيسي(ع) كے بارے ميں شك ۷; عيسي(ع) كے فضائل ۶; عيسي(ع) كے مقامات ۲

قران مجيد :قران مجيد كى تعليمات ۱;۵

مريم :مريم كا فرزند ۲

آیت ۳۵

( مَا كَانَ لِلَّهِ أَن يَتَّخِذَ مِن وَلَدٍ سُبْحَانَهُ إِذَا قَضَى أَمْراً فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُن فَيَكُونُ )

اللہ كے لئے مناسب نہيں ہے كہ وہ كسى كواپنا فرزند بنائے وہ پاك و بے نياز ہے جب كسى بات كا فيصلہ كرليتا ہے تو اس سے كہتا ہے كہ ہو جا اور وہ چيز ہوجاٹى ہے (۳۵)

۱_اللہ تعالى كا مقام اس چيز سے انتہائي بلند و برتر ہے كہ وہ اپنے ليے كوئي فرزند انتخاب كرے _ما كان لله أن يتّخذ من ولد ( ما كان ) كى تعبير اس وقت استعمال ہوتى ہے

كہ جب اسميں كوئي پائدار سنت يا كسى موجود كى ذاتى خصوصيات موجود ہوں اور ان كا وضاحت ہوں اس آيت ميں ''اتخاذ ولد'' ميں اس تعبير سے نفى كى گئي ہے يعنى اس چيز كى الله تعالى كے ساتھ كوئي نسبت نہيں ہے _ ( أن يتخذ) كى تعبير انتہائي لطيف وظريف ہے يعنى اس باطل عقيدہ ميں بھى وہى ہے جوكہ انتخاب كرنے والاہے اور اسكا انتخاب شدہ اسى سے وابستہ ہے اور اسكى مخلوق ہے_

۲_ حضرت عيسي(ع) كو الله تعالى كا فرزند بنانے كا وہم ، انكى ولادت اور معجزانہ طريقہ سے كلام كرنے كے واقعہ كے غلط

۶۶۸

تجزيہ كى بناء پر پيدا ہوا _ذلك عيسى ابن مريم ماكان الله أن يتخذ من ولد

حضرت عيسي(ع) كى ولادت كے بعد الله تعالى كے فرزند كى نفى كرنا ہو سكتا ہے اس نكتہ كو بيان كررہا ہو كہ ايك گروہ نے اس معجزانہ واقعات كو حضرت عيسي(ع) كے الله تعالى كے فرزند ہونے كى دليل جانا _

۳_ الله تعالى نے نہ تو حضرت عيسي(ع) اور نہ ہى كسى اور كو اپنا فرزند قرارديا ہے_ذلك عيسى ابن مريم ماكان للّه أن يتخذمن ولد (ولد) يہاں پر نكرہ نفى كے سياق ميں ہے جو كہ افادہ عموم كررہا ہے _

من زائدہ ہے اور تاكيد پر دلالت كررہا ہے لہذا آيت ميں عموميت تاكيد كے ساتھ مراد ہے _

۴_فرزندركھنا ،نقص اور احتياج كى علامت ہے _ما كان لله أن يتخذ من ولد سبحنه يہاں ( سبحانہ ) فعل مخذوف جيسے ( سجود ) كيلئے مفعول مطلق ہے يعنى اسے منزّہ جانيے جس طرح منزّہ جاننے كا حق ہے يہان تنزيہ كا استعمال، اس بات كى علامت ہے كہ ''اتحاد ولد''نقص اور كمى كى علامت ہے اوراللہ تعالى اس سے منزہ ہے _

۵_ الله تعالى ہر قسم كے نقص اور احتياج سے منزہ ہے_ما كان لله أن يتخذ من ولد سبحنه

۶_ الله تعالى كى ذات اقدس كا ہر قسم كے نقص و احتياج سے منزہ ہونا ضرورى ہے _سبحنه

۷_اللہ تعالى قدرت مطلقہ كا مالك ہے اور جسے وجود ميں لانا ہوتو وہ اسے لانے پر قادر ہے _إذا قضى أمراًفإنمايقول له كن فيكون

۸_ہر وجود كى خلقت، الله تعالى كے ارادہ اور اسكے پيداہونے كے فرمان كى بناء پرہے _إذاقضى أمراً فإنما يقول له كن فيكون

۹_ الله تعالى كسى چيز كو وجود ميں لانے كيلئے اسباب و وسائل كے استعمال كا محتاج نہيں ہے _إذا قضى أمراً فإنما يقول له كن فيكون

الله تعالى كا اسباب و وسائل كا محتاج نہ ہونے كا مطلب يہ نہيں ہے كہ وہ انہيں استعمال نہيں كرتا _ بلكہ اس سے مراد يہ ہے كہ اسباب و وسائل كا مقام اسكے ارادہ اور فرمان كے بعدہے لہذا اسكا ارادہ كسى وسيلہ كے ساتھ محدود نہيں ہے اور يہ سب وسائل اسكے فرمان اور اس صورت ميں عمل كرتے ہيں جيسا وہ چاہتا ہے _

۱۰_ كسى چيز كے موجود ہونے ميں الله تعالى كے فرمان كا محقّق ہونا ہى كافى ہے _إذا قضى أمراً فإنما يقول له كن فيكون

۶۶۹

( إنّما) حصر پردلالت كررہا ہے _ يعنى موجودات كے محقّق ہونے ميں سوائے الہى فرمان كے كسى اور چيز كى احتياج نہيں ہے_

۱۱_ الہى فرمان اور كسى چيز كے پيدا ہونے اور محقق ہونے ميں كوئي فاصلہ نہيں ہے _يقول له كن فيكون (فائ) كے ذريعے '' يكون'' كا عطف الله تعالى كے ارادہ اور مقصود كے متحقق ہونے ميں كسى قسم كے فاصلہ كے نہ ہونے پر دلالت كررہا ہے _

۱۲_ الله تعالى كا تمام موجودات كے ساتھ رابطہ، خالق اور مخلوق كا رابطہ ہے نہ كہ باپ اور فرزند كا ربطہماكان لله أن يتخذ من ولد سبحنه يقول له كن فيكون اگر حضرت عيسي(ع) كى ولادت كو انكے فرزند الہى ہونے كى دليل قرار ديا جائے جيسا كہ باطل فكر كرنے والے كہتے ہيں تو پھر تمام موجودات كو فرزند الہى كہنا چاہيے اس ليے كہ خداوند عالم نے تمام موجودات من جملہ ( حضرت عيسي(ع) ) كو (كن) فرمان كے ذريعے پيدا كيا ہے _

۱۳_ الله تعالى كى ہر اس چيز كے ايحاد پر قدرت كہ جسے وہ چاہے يہ اسكے فرزند انتخاب كرنے سے منزہ ہونے پر دليل ہے _

ماكان للّه أن يتخذ من ولد سبحنه إذا قضى أمراً فيكون

۱۴_ حضرت عيسي(ع) كى ولادت اور كلام كرنے كا واقعہ ، ارادہ الہى كى تمام كا ئنات پر حاكميت كا نمونہ ہے نہ كہ حضرت عيسي(ع) كے فرزند الہى ہونے كى نشاني_ما كان لله أن يتخذ من ولد إ ذا قضى أمراً فإنما يقول له كن فيكون

۱۵_ الہى قضا اور حكم، ناقبل تغيّر ہے _إذا قضى أمراً فإنما يقول له كن فيكون

۱۶_( قال الرضا (ع):ثم جعل الحروف بعد إحصا ئها وإحكام عدتها فعلاً منه كقوله _ عزّوجلّ _( كن فيكون ) و كن منه صنع وما يكون به المصنوع (۱)

امام رضا(ع) فرماتے ہيں خداوند عالم حروف كو ان كے اعداد محكم كرنے كے بعد اپنا فعل قرار ديا جيسا كہ خداوند عالم كے اس فرمان ميں آيا ہے''كن فيكون'' كلمہ ''كن'' خداوند عالم كى طرف سے ايجاد دہے اور جو بھى اس كے نتيجے ميں موجود ہوگا وہ اس كى مخلوق ہوگي_

اسماء صفات :صفات جلال ۲;۵;۶//الله تعالى :

____________________

۱) توحيد صدوق ص۴۳۶ ب۶۵ح۱ نور:الثقلين ج۴ ص۳۹۷ح۹۹_

۶۷۰

الله تعالى اور فرزند ۱،۳،۱۲،۱۳; الله تعالى اور موجودات ۱۲; الله تعالى اور محتاجى ۵،۶;اللہ تعالى اور نقص ۵،۶;اللہ تعالى كا علو۱; الله تعالى كا منزہ ہونا ۱،۳،۵;اللہ تعالى كى خالقيت ۷،۱۲; الله تعالى كى خالقيت كى خصوصيات ۹;اللہ تعالى كى قدرت ۷،۹;اللہ تعالى كى قدرت كے آثار ۱۳;اللہ تعالى كى قضاكا حتمى ہونا ۱۵;اللہ تعالى كى مخلوقات ۱۶; الله تعالى كى مشيت ۱۳; الله تعالى كے افعال ۱۶; الله تعالى كے اوامر ۸ ; الله تعالى كے اوامر كا كردار ۱۰;اللہ تعالى كے اوامر كا فورى ہونا ۱۱;اللہ تعالى كے مقد ر كرنے كے آثار ۸;اللہ تعالى كے منزّہ ہونے كى اہميت ۶;اللہ تعالى كے منزّہ ہونے كے دلائل ۱۳; الله تعالى كے مقدرات ۷ ; خداوند عالم كے ارادہ كى حاكميت كى نشانياں ۱۴ ;

جہالت :جہالت كے آثار ۲

روايت :۱۶

عقيدہ :الله تعالى كے فرزند ركھنے كے عقيد ہ كا سرچشمہ ۲; باطل عقيدے كا سرچشمہ ۲

عيسى (ع) :عيسى (ع) كا قصہ ۱۴; عيسي(ع) كا نومولودى ميں كلام كرنا ۲،۱۴; عيسي(ع) كى ولادت ۲،۱۴

فرزند ركھنا :فرزند ركھنے كے آثار ۴

محتاج :محتاجى كى علامت ۴

موجودات :موجودات كا خالق ۱۲; موجودات كى خلقت ۱۱;موجودات كى خلقت كا سرچشمہ ۸، ۱۰;

نظام اسباب :۹

نقص:نقص كى علامات ۴

آیت ۳۶

( وَإِنَّ اللَّهَ رَبِّي وَرَبُّكُمْ فَاعْبُدُوهُ هَذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِيمٌ )

اور اللہ ميرا اور تمھارا دونوں كا پروردگار ہے لہذا اس كى عبادت كرو اور يہى صراط مستقيم ہے (۳۶)

۱_حضرت عيسي(ع) نے گہوارہ ميں الله تعالى كى اپنے اور دوسرے تمام انسانوں كے پروردگار ہونے كے

۶۷۱

عنوان سے شناخت كردائي _وإن الله ربّى ربّكم

جملہ (إن الله ربى ) پچھلى آيات ميں جملہ (إنى عبدالله ...) پر عطف ہے يہ آيت بھى حضرت عيسي(ع) كى گہوارہ ميں بعض باتوں كو نقل كررہى ہے _ لہذا آيات (ذلك عيسي(ع) كن فيكون ) يہاں جملہ معترضہ ہيں اس جملہ كى سورة آل عمران اور سورہ زخرف ميں حضرت عيسي(ع) سے نقل شدہ جملات سے مشابہت مندجہ بالا نكتہ پرتاكيد كررہى ہے _

۲_ حضرت عيسي(ع) نے اپنے آپ كو دوسرے تمام لوگوں كى طرح الله تعالى كى ربوبيت كى طرف محتاج ايك مخلوق جانا اور اسكا سب كے سامنے اعلان كيا _وإن الله ربّى وربّكم

۳_ حضرت عيسي(ع) كى گہوارہ كى باتوں ميں سے تمام لوگوں كو توحيدقبول كرنے اور الله واحد كى عبادت كرنے كى دعوت _

وإن الله ربيّ و ربّكم فاعبدو

۴_ الله تعالى تمام انسانوں كے امور كى تدبير كرنے والا اور انہيں پالنے والاہے _وإن الله ربّى و ربّكم

۵_اللہ واحد كى عبادت و پرستش لازم ہے _فاعبدوه

۶_ پروردگاركےليے عبوديت كا ضرورى ہونا ايك ايسا وظيفہ ہے كہ جو كسى قسم كى دليل كا محتاج نہيں ہے _

وإن الله ربّى و ربّكم فاعبدوه

حضرت عيسي(ع) كى كلام ميں يہ موضوع كہ ( جو بھى رب ہو وہ پرسش كے لائق ہے ) ايك قبول شدہ بنيادى و اصلى بات تھى _

۷_ الله تعالى كى تمام انسانوں پر وسيع ربوبيت كى طرف توجہ، اسكے غير كى پرستش كو ترك كرنے كا باعث ہے_وإن الله ربّى وربّكم فاعبدو جملہ'' إن الله فاعبدوہ''كيلئے علت ہو سكتا ہے يعني'' اعبدو الله لأنه ربيّ وربّكم ''

۸_ الله تعالى كى ربوبيت پرعملى ايمان، عبادت ہے _وان الله ربّى و ربّكم فاعبدوه

۹_ الله واحد كى پرستش اورربوبيت ميں توحيد پراعتقاد، صراط مستقيم ہے _وإن الله ربّى وربّكم فاعبدوه هذا صراط مستقيم

۱۰_اللہ تعالى كى عبادت كا اصلى مقصد، صراط مستقيم كا راستہ پاناہے _فاعبدوه هذا صراط مستقيم

۱۱_ حضرت عيسي(ع) لوگوں كو صراط مستقيم كى طرف دعوت كرنے والے تھے _هذا صراط مستقيم

الله تعالى :

۶۷۲

الله تعالى كى تدبير۴;اللہ تعالى كى ربوبيت ۱;۴; الله تعالى كى ربوبيت قبول كرنا ۸

انسان :انسانوں كى تربيت كرنے والا ۱،۴; انسانوں كى شرعى ذمہ داري۶;انسانوں كى عبوديت كا بديہى ہونا ۶; انسانوں كے امور ميں تدبير كرنے والا ۴

توحيد:توحيد ربوبى كى طرف دعوت ۳; توحيد عبادى ۹; توحيد عبادى كى اہميت ۵; توحيد عبادى كى طرف دعوت ۳

ذكر :الله تعالى كى ربوبيت كے ذكر كے آثار ۷

صراط مستقيم :صراط مستقيم كى طرف دعوت ۱۱; صراط مستقيم كى طرف ہدايت ۱۰

ضرورتيں :الله تعالى كى ربوبيت كى ضرورت ۲

عبادت :الله تعالى كى عبادت كا بديہى ہونا ۶;اللہ تعالى كى عبادت كا زمينہ ۷;اللہ تعالى كى عبادت كا فلسفہ ۱۰; عبادت كے آثار ۸;اللہ تعالى كى عبادت كى اہميت ۵; غير خدا كى عبادت كو ترك كرنے كا زمينہ۷

عقيدہ :توحيد ربوبيت پر عقيدہ ۹

عيسى (ع) :عيسى (ع) كى دعوتيں ۳;۱۱; عيسي(ع) كا عقيدہ ۲; عيسي(ع) كا قصہ ۱; عيسي(ع) كا مربى ہونا ۱;عيسى (ع) كا نومولودى ميں كلام كرنا ۱;۳; عيسي(ع) كى معنوى ضروريات ۲

نظريہ كائنات :توحيدينظريہ كائنات ۴

آیت ۳۷

( فَاخْتَلَفَ الْأَحْزَابُ مِن بَيْنِهِمْ فَوَيْلٌ لِّلَّذِينَ كَفَرُوا مِن مَّشْهَدِ يَوْمٍ عَظِيمٍ )

پھر مختلف گروہوں نے آپس ميں اختلاف كيا اور ويل ان لوگوں كے لئے ہے جنھوں نے كفر اختيار كيا اور انھيں بڑے سخت دن كا سامنا كرنا ہوگا (۳۷)

۱_ حضرت مريم (ع) كے زمانہ ميں لوگوں كے ايك گروہ ميں حضرت عيسي(ع) كى واضح باتيں _

سننے كے باوجود اخلاف نظر اور كشمكش پيدا ہوئي _فاختلف الأحزاب من بينهم

گذشتہ آيات كے پيش نظر كہ جس ميں حضرت عيسي(ع) كے مريم كے فرزند ہونے اور الله تعالى كى طرف سے فرزند كى نفى كى بات تھى اس سے معلوم ہوتا ہے كہ ان گروہوں ميں حضرت عيسي(ع) كى ماہيت كے بارے ميں اختلاف تھا_

۶۷۳

۲_ حضرت مريم (ع) كے زمانہ ميں لوگوں كا ايك گروہ حضرت عيسي(ع) اور انكى گفتار پر ايمان لے آئے جب كہ دوسرے گروہ نے كفر اختيار كيا _فاختلف الأحزاب من بينهم فويل للذين كفروا

۳_ حضرت عيسي(ع) او ر انكى گفتار كے حوالے سے كفر اختيار كرنے والوں كيلئے قيامت، ايك سخت اور تباہ كرنے والادن ہے _فويل للذين كفروامن مشهد يوم عظيم

(ويل ) يعنى عذاب وہلاكت ( لسان العرب ) قيامت كا ہلاكت بار ہونا ، شدت عذاب سے كنايہ ہے اس طرح كہ اگر روز قيامت موت ہوئي تواس عذاب ميں گرفتار لوگ زندہ نيں رہيں گے_

۴_ وہ لوگ جو حضرت عيسي(ع) كو حضرت مريم (ع) كا فرزند ، الله تعالى كا بندہ اور رسول نہيں جانتے وہ كافر ہيں _

فاختلف الا حزاب من بينهم فويل للذين كفروا

۵_ حضرت عيسي(ع) كے بارے ميں الله تعالى كا فرزند ہونے كاعقيدہ، كفرہے _ما كان لله أن يتّخذمن ولد فويل للذين كفروامن مشهد يوم عظيم

۶_ روزقيامت، گواہ، حضرت عيسي(ع) كے الله تعالى كے بيٹے ہونے كے خيال كے باطل ہونے پر الله تعالى كيلئے گواہى ديں گے _فويل للذين كفروامن مشهد يوم عظيم

۷_ كفار كے خلاف روز قيامت گواہى كا منظر، سخت اور ہلاكت ميں ڈالنے والا ہوگا _فويل للذين كفروامن مشهد يوم عظيم ( مشہد ) ممكن ہے اسم مكان ہو يعنى گواہى كى جگہ حرف ( من ) بتارہاہے كہ وہى گواہى كى جگہ كفار كيلئے (ويل )كا سرچشمہ ہے لہذا كہيں گے كہ انكے خلاف گواہى كامنظر، موت دينے والا اور عذاب ميں ڈالنے والا ہوگا اس طرح كہ اگر روز قيامت كسى كے ليے موت ممكن ہوتى توانكا ہلاكت وتباہى كے علاوہ كچھ مقدر نہ ہوتا _

۸_ روز قيامت ايك عظيم دن اور حاضر ہونے اور گواہى دينے كا مقام ہے _من مشهد يوم عظيم

( مشہد ) اگراسم مكان ہوتو مراد، حاضر ہو نے اور گواہى دينے كا مقام ہے اور يہ بھى ممكن ہے كہ مصدر ميمى ہواور قيامت ميں گواہى اور حضور كا معنى دے رہا ہو_

عقيدہ :الله تعالى كے بيٹے ركھنے كا عقيدہ ۵;اللہ تعالى كے فرزند ركھنے كے عقيدہ كا بطلان ۶

عيسى :عيسى پرايمان لانے والے ۲;عيسى كا بشر ہونا ۴ ;

۶۷۴

عيسي(ع) كو جھٹلانے والے۲ ; عيسي(ع) كا قصہ ۲;عيسى كى عبوديت ۴;عيسى كے بارے ميں اختلاف كرنے والے ۱; قيامت ميں عيسي(ع) كو جھٹلانے والے ۳

قيامت:قيامت كى عظمت ۸; قيامت كے ہول و پريشانى ۷;قيامت ميں حقائق كا ظہور ۶ ; قيامت ميں سختى ۳;قيامت ميں گواہى ۸; قيامت ميں گواہى دينے والے ۶

كفار۴:كفاركے خلاف اخروى گواہى دينے والے ۷

كفر:كفر كے اسباب ۴;۵

مريم(ع) :مريم (ع) كے زمانہ ميں لوگوں كا اختلاف ۱; مريم (ع) كا فرزند۴

مسيحيان:مسيحيوں ميں اختلاف ۱

آیت ۳۸

( أَسْمِعْ بِهِمْ وَأَبْصِرْ يَوْمَ يَأْتُونَنَا لَكِنِ الظَّالِمُونَ الْيَوْمَ فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ )

اس دن جب ہمارے پاس آئيں گے تو خوب سنيں اور ديكھيں گے ليكن يہ ظالم آج كھلى ہوئي گمراہى ميں مبتلا ہيں (۳۸)

۱_كفار روز قيامت اور الله تعالى كى بارگاہ ميں حاضر ہونے كے وقت، حيرت انگيز بصارت و سماعت كے حامل ہونگے _

أسمع بهم و أبصر يوم يأتوننا

(اسمع بہم ) و (ابصر)تعجب كے صيغے ہيں يعنى كسى قدر بصارت اور سماعت ركھنے والے ہيں _

۲_قيامت، حقائق كے واضع اور ظہور كا دن ہے _أسمع بهم و أبصر يوم يا توننا

۳_قيامت، لوگوں كا الله تعالى كے حضور ميں آنے كا دن ہےيوم يأتوننا

۴_ حقائق كا سامنا كرنااور انہيں درك و لمس كرنا ، كفار كيلئے روز قيامت عذابوں ميں سے ايك عذاب ہے _

۶۷۵

فويل للذين كفروا من مشهد يوم عظيم_ أسمع بهم وأبصر يوم يا توننا

گذشتہ آيت س كفار كيلئے روز قيامت ميں سختى اور شدت كا تذكرہ ہو ايہاں ان سختيوں ميں سے ايك كا ذكرہے اور وہ حقائق كا درك و فہم ہے _

۵_وہ لوگ جنہوں نے حضرت عيسي(ع) كو الله تعالى كا فرزند قرار ديتے ہوئے انكى توحيدى تعليمات سے كفر اختيار كيا وہ واضح گمراہى ميں پڑے ہوئے ہيں _لكن الظلمون اليوم فى ضلل مبين

( اليوم ) ميں الف ولام ممكن ہے عہد حضور ى ہو يعنى ''آج'' تواس صورت ميں اس سے مراد دنيا وى زندگى كے آيام ہيں اور گذشتہ آيت كے قرينہ كى بناء پر ( ظالمان ) سے مرادوہ ہيں كہ جنہوں نے حضرت عيسي(ع) كى بات كا انكا ركيا اور انكے بارے ميں افراط وتفريط كى راہ اختيار كى _

۶_ الله تعالى كيلئے حضرت عيسي(ع) كے فرزند ہونے كا گمان، ايك ظالمانہ گمان اور واضح گمراہى ہے _

ما كان لله أن يتخذ من ولد لكن الظلمون اليوم فى ضلل مبين

۷_ كفا ر،ظالموں اور گمراہوں كے زمرے ميں شمار ہوتے ہيں _فويل للذين كفروا لكن الظلمون اليوم فى ضلل مبين

۸_ روز قيامت، كفار كى سماعت و بصارت انكى نجات كا باعث نہ ہوگى _أسمع بهم وأبصر يوم يا توننا لكن الظالمون اليوم فى ضلل مبين (اليوم ) ميں اگر'' ال'' عہد ذكر ى ہو تو مراد روز قيامت ہے كہ جو ( يوم يا توننا ) ميں مطرح ہو ا ہے اور( لكن ) انكے وہم نجات سے استدراك ہے كہ جملہ (أسمع بهم وأبصر ) اسے وجود ميں لايا ہے _

۹_روزقيامت، حقائق كى شناخت اور اس پرايمان نجات كا موجب نہيں ہے _أسمع بهم وأبصر لكن الظلمون اليوم فى ضلل مبين

الله تعالى :الله تعالى كے حضور ۳

ظالمين:۷

ظلم :ظلم كے موارد ۶

عقيدہ :الله تعالى كے فرزند ركھنے كے بارے ميں عقيدہ ۵،۶;باطل عقيدہ ۶

قيامت :قيامت كى خصوصيات ۲،۱۳;قيامت ميں ايمان ۹; قيامت ميں حقايق كا ظہور ۲;۴

كفار:كفار كا آخرت ميں عذاب ۴; روز قامت كفار ۱; كفار كى اخروى بصارت كے آثار ۸; كفار كى

۶۷۶

اخروى حيرت انگيز بينائي ۱; كفار كى اخروى حيرت انگيز سماعت ۱;كفار كى اخروى سماعت كے آثار ۸; كفار كى گمراہى ۵

گمراہ :۷

گمراہى :گمراہى كے موارد ۶

مشركين:مشركين كى گمراہى ۵

آیت ۳۹

( وَأَنذِرْهُمْ يَوْمَ الْحَسْرَةِ إِذْ قُضِيَ الْأَمْرُ وَهُمْ فِي غَفْلَةٍ وَهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ )

اور ان لوگوں كو اس حسرت كے دن سے ڈرايئےب قطعى فيصلہ ہوجائے گا اگر چہ يہ لوگ غفلت كے عالم ميں پڑے ہوئے ہيں اور ايمان نہيں لارہے ہيں (۳۹)

۱_ روز قيامت كے حسر ت ناك واقعات كے حوالے سے لوگوں كو ڈارانے اور خبر دار كرنے ليے پيغمبر اكر م(ص) كى ذمہ ذارى _وأنذرهم يوم الحسرة

ضمير ( ہم ) جملہ ( أنذرہم ) ميں تمام لوگوں كو شامل ہے ( الحسرة ) كے ساتھ يوم كے اضافہ سے معلوم ہوتا ہے كہ اس دن سب اپنے ماضى پرافسوس كا اظہا ر كريں گے اس ليے اس روز كو روز حسرت كہا گيا ہے_

۲_ روز قيامت، لوگوں كا دنيا ميں اپنے اعمال پر حسرت و افسوس كا دن ہے _وأنذ رهم يوم الحسرة

۳_ ''يوم الحسرة ''( روز افسوس ) قيامت كے اسماء وصفات ميں سے ہے _وأنذرهم يوم الحسرة

۴_ روز قيامت، فرصت كے تمام ہونے اور غلطيوں اور انحرافات كے جبران نہ كر سكنے كادن ہے _

وأنذرهم يوم الحسرة إذ قضى الا مر

( يوم ا لحسرة ) كے قرينہ كى بناء پر ( الأمر) سے مراد ايسى فرصتيں ہيں كہ جس كا ہاتھ سے جانا ، حسرت كا باعث ہے اور ( قضى )'' قضا'' سے ہے جس كا مطلب '''فيصلہ كرنا اور اتمام كرنا'' ہے اسطرح كہ اب جبران نہ ہوسكتا ہو (مفردات راغب )

۶۷۷

۵_ كفار اور ظالمين، روز قيامت دنيا ميں مواقع كے ضائع ہونے كى بناء پر حسرت كريں گے _وأنذرهم يوم الحسرة إذ قضى الا مر (إذ قضى الا مر ) ميں''إذ يوم الحسرة'' كو بيان كررہا ہے اس سے مراد يہ ہے كہ روز حسرت اسى وقت ہے كہ جب موضوع ہى حتم ہو چكا ہو _

۶_ روز قيامت، امور كے فيصلہ اور انسان كے حتمى مقد ر طے كرنے كا دن _اذ قضى الا مر

ممكن ہے كہ ( الا مر ) سے مراد لوگوں كے جہنمى باجنتى ہونے قطعى تعيين ہو اس صورت ميں (قضى الأمر) كا تعلق قطعى احكام كے صادر ہونے اور اس مرحلہ سے گزرنے سے ہے _

۷_ حضرت عيسي(ع) كا الله تعالى كے فرزند ہونے كا عقيدہ ،روز قيامت حسرت وافسوس كا سبب ہے _

فاختلف الا حزاب وأنذرهم يوم الحسرة

۸_ غفلت اور بے ايمان كے ساتھ موت رو ز قيامت حسرت كا باعث ہے _وأنذرهم يوم الحسرة إذ قضى الا مر وهم فى غفلة وهم لايؤمنون ضمير (ہم ) پچھلى آيت ميں ( الظالمون) كى طرف لوٹ رہى ہے اور جملہ ( ہم فى ...) حاليہ ہے پس آيت كا مطلب يہ ہے كہ دنيا ميں ظالموں كى فرصت تمام ہو چكى ہے اس حال ميں كہ وہ غافل تھے اور معاد پر ايمان نہيں لائے _

۹ _ قيامت پر ايمان نہ لانا اور اسكے حسرت زدہ كرنے سے غفلت ظلم ہے _لكن الظالمون هم فى غفلة وهم لايؤمنون

۱۰_حضر عيسي(ع) كو الله تعالى كا فرزند سمجھنے والے غفلت كى گہرائيوں ميں غرق بے ايمان لوگ ہيں _فاختلف الأحزاب وهم فى غفلة وهم لايؤمنون '' غفلة'' كا نكرہ آنا بتا تا ہے كہ اسكى حدود واضح اور معين نہيں ہيں _

۱۱_ غافلوں اور قيامت كے منكرين كو انذار اور قيامت ميں حسرت كے اسباب سے خوف دلانا پيغمبر اكرم(ع) كے وظائف ميں سے ہے_وأنذ رهم يوم الحسرة وهم فى غفلة وهم لا يؤمنون

۱۲_ لوگوں انكے اخروى انجام سے غفلت سے ڈرانے اور بيدار كرنے كا ضرورى ہونا _وأنذرهم وهم فى غفلة

۱۳_ قيامت سے غفلت، كفر اختيار كرنے اور بے ايمان ہونے كا پيش خيمہ ہے _

وأنذرهم يوم الحسرة وهم فى غفلة وهم لايؤمنون

۱۴_عن رسول الله (ص) : إذا دخل أهل الجنّةالجنّة وأهل النار النار يقال : يا أهل الجنة خلود فلا موت ويا أهل النار خلود فلا موت ثم قرا رسول الله (ص) : (وأنذ رهم يوم الحسرة إذقضى الا مروهم

۶۷۸

فى غفلة ) وأشاربيده و قال : أهل الدنيا فى غفلة (۱) رسول اكر م(ص) سے روايت ہوئي ہے جببہشتى جنت ميں اور جہنمى جہنم ميں چلے جائيں گے _ تو كہا جائيگا اے جنت والو( يہ جگہ) تمھار ے ليے جاودانى ہے اور موت نہيں ہے اے جہنّم والو (يہ جگہ ) تمھار ے ليے جاودانى ہے اور موت نہيں ہے پھررسول خدا (ص) نے اس آيت كى تلاوت فرمائي''أنذرهم يوم الحسرة إذ قضى الا مر و هم فى غفلة '' اس وقت آنحضرت نے اپنے ہاتھوں سے اشارہ كيا اور فرمايا :اہل دنيا غفلت ميں ہيں _

آنحضرت :آنحضرت كى ذمہ دارى ۱;۱۱; ; آنحضرت كے ڈراوے ۱;۱۱

انسان :انسانوں كى غفلت ۱۴//جنت :جنت ميں جاودانى ۱۴

جہنم :جہنم ميں جاودانى ۱۴//حسرت :آخرت ميں حسرت كے اسباب ۵;۷;۸

ڈراوا:اخروى انجام سے ڈرائوا ۱۲; اخروى حسرت سے ڈراوا ۱۱; قيامت سے ڈراوا ۱

روايت :۱۴

ظالمين:ظالموں كى اخروى حسرت ۵

ظلم:ظلم كے موارد۹

عقيدہ :الله تعالى كے فرزند كے بارے ميں عقيدہ ركھنے كے اخروى آثار ۷

عمل :عمل كى فرصت ۴; عمل كے اخروى آثار ۲

غافلين :غافلين كو انذار ۱۱; عافلين كوانذار كرنے كى اہميت ۱۲

غفلت :اخروى حسرت سے غفلت ۹; قيامت سے غفلت كے آثار ۱۳

فرصت :فرصت كے تباہ ہونے كے آثار ۵

قيامت :قيامت كو جھٹلانے والوں كو انذار۱۱; قيامت كى خصوصيات ۲،۴،۶ ;قيامت كے نام ۳; قيامت ميں انجام كى تعيين ۶; قيامت ميں حسرت ۱

كفار :كفار كى اخروى حسرت ۵

____________________

۱) الدرامنشور ج۵ ص۵۱۱ و۵۱۲_

۶۷۹

كفر :كفر كا پيش خيمہ ۱۳

مشركين :مشركين كى بے ايمانى ۱۰; مشركين كى غفلت ۱۰

معاد:معاد كو جھٹلانا ۹

موت :غفلت كے ساتھ مرنے كے آثار ۸; كفر كے ساتھ مرنے كے آثار ۸

يوم الحسرة :۳

آیت ۴۰

( إِنَّا نَحْنُ نَرِثُ الْأَرْضَ وَمَنْ عَلَيْهَا وَإِلَيْنَا يُرْجَعُونَ )

بيشك ہم زمين اور جو كچھ زمين پر ہے سب كے وارث ہيں اور سب ہمارى ہى طرف پلٹا كرلائے جائيں گے (۴۰)

۱_ الله تعالى سارى زمين اور زمين والوں كا تنہا وارث ہے _إنا نحن نرث الأرض ومن عليه

۲_ الله تعالى كى مالكيت كے سوا باقى تمام مالك لغو اور فناء ہوجائيں گى _إنا نحن نرث الأرض ومن عليه

الله تعالى ابھى بھى كائنات كا حقيقى مالك ہے اس ليے ورثہ پانا سے مراد حقيقت ميں مالكيت كا انتقال نہيں ہے بلكہ مراد، اس سے دنيا كى اعتبارى مالكتيوں كا فناء ہونا اور انكے ساتھ مالكوں كا بھى فنا ہونا ہے تا كہ حقيقى مالك كامل طور پر ظاہر ہو اور اسكے مقابل كوئي اعتبار نہ رہے_

۳_مال و متاع اور طاقتيں كفرو غفلت ميں پڑنے كيلئے بڑے اسباب ميں سے ہيں _وهم فى غفلة وهم لا يؤمنون إنا نحن نرث الأرض

اس آيت كى گذشتہ آيت سے ربط كى وجوہات ميں سے ايك سبب غفلت اور اسے ختم كرنے كا بيان ہے اس آيت ميں الله تعالى نے لوگوں كو اپنے اندر غفلت كے اسباب ختم كرنے پر توجہ دلاتے ہوئے دنيا كى ثروت اور اہل زمين كے فناء ہونے پر تاكيد فرمائي _

۴_ تمام انسان، الله تعالى كى طرف لوٹا ئے جائيں گے_وإلينا يرجعون

( يرجعون) كے مجہول ہونے سے معلوم ہوتا ہے كہ خواہ انسان چاہيں يا نہ چاہيں الله تعالى كى طرف لوٹا ئے جائيں گے _

۵_ زمين كى تمام مخلوقات الله تعالى كى طرف لوٹ رہى ليں _ومن عليها وإلينا يرجعون

۶۸۰

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809

810

811

812

813

814

815

816

817

818

819

820

821

822

823

824

825

826

827

828

829

830

831

832

833

834

835

836

837

838

839

840

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863

864

865

866

867

868

869

870

871

872

873

874

875

876

877

878

879

880

881

882

883

884

885

886

887

888

889

890

891

892

893

894

895

896

897

898

899

900

901

902

903

904

905

906

907

908

909

910

911

912

913

914

915

916

917

918

919

920

921

922

923

924

925

926

927

928

929

930

931

932

933

934

935

936

937

938

939

940

941

942

943

944

945