تفسير راہنما جلد ۱۰

تفسير راہنما 6%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 945

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 945 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 254040 / ڈاؤنلوڈ: 3517
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱۰

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

اخروى سعادت ۲; اخروى سعادت كى راہ فراہم ہونا ۴، ۶;اخروى سعادت كى شرائط ۱۵; اخروى سعادت كے عوامل ۲۱; دنيوى سعادت كى راہ فراہم ہونا ۵، ۶ ; دنيوى سعادت كى شرائط ۱۵; دنيوى سعادت كے عوامل ۲۱

شرك:شرك سے اجتناب كرنے والے ۱۳

عذاب:عذاب كے مشمولين ۷;عذاب سے نجات كے اسباب ۱۷

گناہ:مغفرت گناہ كے اثرات ۶

متقين:متقين كے فضائل ۱۳

مشركين:مشركين كى سزا ۱۸

مشمولين رحمت:خدا كى رحمت خاص كے مشمولين ۱۳

موحدين:موحدين كا محفوظ ہونا ۱۷

موسىعليه‌السلام :موسىعليه‌السلام كو بشارت ۱۵;موسىعليه‌السلام كى توبہ ۳، ۴ ;موسىعليه‌السلام كى خواہشات ،۱;موسىعليه‌السلام كى داستان ۸، ۹;موسىعليه‌السلام كى دعا كى اجابت ۱۵; موسىعليه‌السلام كى دلجوئي ۹;ميقات ميں موسىعليه‌السلام كى دعا،۱

موسىعليه‌السلام كے منتخبين :موسىعليه‌السلام كے منتخبين كى توبہ ۳،۴;موسىعليه‌السلام كے منتخبين كى مغفرت كى شرائط ۱۹

واجبات: ۲۰

يہوديت:دين يہوديت كى تعليمات ۲۰، ۲۱;دين يہوديت ميں واجبات ۲۰;يہوديت ميں زكات ۲۰

۳۰۱

آیت ۱۵۷

( الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوباً عِندَهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَالإِنْجِيلِ يَأْمُرُهُم بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَآئِثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالأَغْلاَلَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ فَالَّذِينَ آمَنُواْ بِهِ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُواْ النُّورَ الَّذِيَ أُنزِلَ مَعَهُ أُوْلَـئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ )

جولوگ كہ رسورل نبى امّى كا اتباع كرتے ہيں جس كا ذكر اپنے پاس توريت اور انجيل ميں لكھا ہوا پاتے ہيں كہ وہ نيكيوں كا حكم ديتا ہے اور برائی وں سے روكتا ہے اور پاكيزہ چيزوں كو حلال قرار ديتا ہے اور خبيث چيزوں كو حرام قرار ديتا ہے اور ان پر سے احكام كے سنگين بوجھ اور قيد و بند كو اٹھا ديتا ہے پس جو لوگ اس پر ايمان لائے اس كا احترام كيا اس كى امداد كى اور اس نور كا اتباع كيا جو اس كے ساتھ نازل ہوا ہے وہى در حقيقت فلاح يافتہ اور كامياب ہيں (۱۵۷)

۱_ رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى پيروى كرنے والے ، خدا كى رحمت خاص سے بہرہ مند ہيں _

فسا كتبها ...والذين هم بايا تنا يؤمنون _ الذين يتبعون الرسول

''الذين يتبعون'' گزشتہ آيت ميں مذكور ''الذين ھم ...'' كيلئے عطف بيان يا بدل ہے،بنابراين جملہ ''سا كتبھا'' كے ذريعے دى گئي رحمت كى بشارت ، پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى بعثت كے بعد آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى پيروى كرنے والوں كيلئے ہوگي_

۲_ قيامت كے دن خدا كى رحمت خاص، پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى پيروى كرنے والوں كيلئے ہوگي_

فسا كتبها للذين ...الذين يتبعون الرسول

فوق الذكر مفہوم اس اساس پر اخذ كيا گيا ہے كہ

۳۰۲

جب جملہ ''فسا كتبھا'' جہان آخرت ميں رحمت الہى كے متحقق ہونے كو بيان كرنے كيلئے لايا گيا ہو_

۳_ رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى پيروى ،آيات الہى پر ايمان لانے كا اظہار ہے_الذين هم بايا تنا يؤمنون الذين يتبعون الرسول

۴_ صرف پرہيزگار اور زكات ادا كرنے والے ہى پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے حقيقى پيروكار ہيں _

للذين يتقون و يؤتون الزكوة ...الذين يتبعون الرسول

۵_ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رسالت كا انكار كرنے والے اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے فرامين سے سرپيچى كرنے والے عذاب الہى ميں گرفتار ہونے كے خطرے سے دوچار ہيں _عذابى ا صيب به من ا شاء ...فسا كتبها للذين يتقون ...الذين يتبعون الرسول

جملہ ''الذين يتبعون ...'' گزشتہ آيت ميں مذكور''الذين يتقون ...'' كيلئے ايك واضح مصداق ہے، بنابراين جس طرح ''يتقون و ...'' كا مفہوم مخالف ''من ا شاء'' كے بعض مصاديق كو بيان كرتا تھا اسى طرح ''يتبعون ...'' كا مفہوم بھى ''من ا شاء'' كا ايك واضح مصداق ہوگا_

۶_ پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ،خدا كے ايك ايسے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تھے كہ جنہوں نے كبھى بھى لكھنے كى تعليم حاصل نہيں كي_

الرسول النبى الاُميّ

''امي'' ايسے شخص كو كہتے ہيں كہ جس نے لكھنا نہ سيكھا ہو، بعض اہل لغت كتاب نہ پڑھنے كو بھى امى كا معنى شمار كرتے ہيں _

۷_ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى بعثت، تورات اور انجيل كى بشارتوں اور غيبى خبروں ميں سے ہے_

الرسول النبى الا ميّ الذين يجدونه مكتوبا عندهم فى التورة والانجيل

۸_ تورات اور انجيل ميں رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے بارے ميں نشانيوں كا موجود ہونا_

الذين يجدونه مكتوبا عندهم فى التورة والانجيل

۹_ پيغمبر موعودصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو مقام نبوت كے علاوہ مقام رسالت حاصل ہونے كے بارے ميں تورات اور انجيل ميں صراحت موجود تھي_الرسول النبى الامى الذى يجدونه مكتوبا عندهم فى التورة والانجيل

۱۱_ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا امّى ہونا، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رسالت كى حقانيت پر دليل اور اہل كتاب كيلئے آپعليه‌السلام كى نبوت و رسالت كو پہچاننے كى (پہلے سے بيان كى گئي ) ايك علامت تھي_الرسول النبى الا مّى الذين يجدونه مكتوبا عندهم

۳۰۳

جملہ ''يجدونہ ...'' يہ معنى فراہم كرتاہے كہ آيت كريمہ ميں ذكر شدہ صفات، ايسى علامات ہيں كہ جنہيں خداوند متعال نے اہل كتاب كيلئے ذكر كيا تا كہ ان كے ذريعہ پيغمبر موعودصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو پہچان سكيں _

۱۲_ پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر تورات و انجيل ميں موجود پيغمبر موعودصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى علامات كے پورا اترنے ميں يہود و نصارى كيلئے كسى شك و شبہہ كى گنجاءش نہ تھي_الذى يجدونه مكتوبا عندهم تورات و انجيل ميں تو پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى علامات كا تذكرہ تھا ليكن خداوند متعال نے جملہ ''يجدونہ ...'' كے ذريعے يہ بيان كيا كہ اہل كتاب خود پيغمبر اسلام كو تورات و انجيل ميں موجود پاتے ہيں اس تعبير ميں يہ نكتہ مضمر ہے كہ تورات و انجيل ميں موجود علامات كى تطبيق ،پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر اس طرح واضح تھى كہ جس كے بعد بنى اسرائیل كيلئے كسى قسم كے شك و شبہہ كى گنجاءش باقى نہ تھي_

۱۳_ انجيل كا نزول، خدا كى طرف سے موسىعليه‌السلام كو دى جانے والى غيبى خبروں اور بشارتوں ميں سے تھا_

يجدونه مكتوبا عندهم فى التورة والانجيل

ظاہر يہ ہے كہ بظاہر مذكورہ آيت ايسے حقائق پر مشتمل ہے كہ جنہيں خدا نے موسىعليه‌السلام كيلئے بيان كيا، بنابراين انجيل كا تذكرہ ايك غيبى خبر ہے كہ جس كے بارے ميں خدا نے موسىعليه‌السلام كو بشارت دى تھي_

۱۴_ شاءستہ كاموں كا حكم اور ناروا كاموں كى ممانعت (امر بالمعروف و نھى عن المنكر) پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے بنيادى فرائض اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رسالت كے مقاصد ميں سے ہيں _يا مرهم بالمعروف و ينههم عن المنكر

۱۵_ شاءستہ كاموں كو انجام دينا اور ناشاءستہ كاموں سے اجتناب كرنا ضرورى ہے_يا مرهم بالمعروف و ينههم عن المنكر

۱۶_ تمام پاكيزہ چيزوں كى حليّت اور تمام ناپاك چيزوں كى حرمت كا حكم دينا پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے فرائض اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رسالت كے مقاصد ميں سے ہے_و يحل لهم الطيبت و يحرم عليهم الخبئث

۱۷_ ہر پاك و طيب چيز حلال اور ہر خبيث و ناپاك چيز حرام ہے_و يحل لهم الطيبت و يحرم عليهم الخبئث

۱۸_ امر بالمعروف و نھى عن المنكر، نيز پاكيزہ چيزوں كو حلال جاننا اور ناپاك چيزوں كو حرام شمار كرنا ، تورات و انجيل ميں موجود پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى شناختى علامات ميں سے ہيں _

الذين يجدونه يا مرهم بالمعروف ...و يحل لهم الطيبت و يحرم عليهم الخبئث

''يا مرهم و '' فعل ''يجدونه '' كى مفعولى ضمير كيلئے حال ہے، لہذا يہ مطلب فراہم كرتاہے كہ ان جملات كا مفاد پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى صفات

۳۰۴

كے عنوان سے تورات و انجيل ميں بيان ہوا ہے اس بناپر كہا جاسكتاہے كہ ان خصوصيات كو تورات و انجيل ميں بيان كرنے كا مقصد اہل كتاب كى ان امور كى طرف راہنمائی ہے كہ جو پيغمبر موعودصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى پہچان حاصل كرنے ميں مدنظر ركھے جانے چاہيئے_

۱۹_ اسلام سے پہلے يہود و نصارى ناپاك چيزوں سے استفادہ اور بعض پاكيزہ چيزوں سے اجتناب كرنے ميں مبتلا تھے_

يحل لهم الطيبت و يحرم عليهم الخبئث

''التورى ة والانجيل'' كے قرينے كى روشنى ميں ''لھم'' اور ''عليھم'' كى ضمير ''ھم'' سے مراد يہود و نصارى ہيں _

۲۰_ سخت احكام كو اٹھانا نيز جہالت اور خرافات كى زنجيروں كو توڑنا اور دينى بدعتوں كو ختم كرنا، پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رسالت كے فرائض ميں سے تھا_و يضع عنهم إصرهم و الا غلل التى كانت عليهم

كلمہ ''إصر'' مشكل عہد و پيمان كے معنى ميں ہے اور ہر دشوار اورطاقت فرسا چيز كو بھى كہا جاتاہے، اس لحاظ سے كہ آيت كريمہ تشريع احكام كو بيان كررہى ہے لہذا اس ميں اصر سے مراد وہ سخت احكام ہيں كہ جن كى گزشتہ اقوام پابند تھيں _ ''غُلّ'' (اغلال كا مفرد) طوق و زنجير كے معنى ميں ہے كہ جو گردن يا ہاتھوں ميں ڈالے جاتے ہيں يہاں اس سے مراد جہالت خرافات اور بدعت وغيرہ ہيں _ اور ہر دشوار اورطاقت فرسا چيز كو بھى كہا جاتاہے، اس لحاظ سے كہ آيت كريمہ تشريع احكام كو بيان كررہى ہے لہذا اس ميں اصر سے مراد وہ سخت احكام ہيں كہ جن كى گزشتہ اقوام پابند تھيں _ ''غُلّ'' (اغلال كا مفرد) طوق و زنجير كے معنى ميں ہے كہ جو گردن يا ہاتھوں ميں ڈالے جاتے ہيں يہاں اس سے مراد جہالت خرافات اور بدعت وغيرہ ہيں _

۲۱_ لوگوں (يعنى يہود و نصارى و غيرہ) كو سخت احكام كے بوجھ اور خرافات سے نجات دلانا، تورات و انجيل ميں موجود پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى شناختى علامات ميں سے ہے_الذى يجدونه ...يضع عنهم إصرهم و الا غلل التى كانت عليهم

۲۲_ اسلام سے قبل يہود و نصارى دشوار احكام ميں مبتلا اور بہت سى دينى بدعتوں اور خرافات كا شكار تھے_

و يضع عنهم إصرهم و الا غلل التى كانت عليهم

كلمہ ''اغلال'' كو بصورت جمع لانے ميں ان بدعتوں اور خرافات كى وسعت اور زيادہ ہونے كى طرف اشارہ پايا جاتاہے_

۲۳_ اسلام اقدار كو زندہ كرنے والا، پاكيزگيوں كى نشاندہى كرنے والا نيز دشوار احكام اور خرافات سے منزہ دين ہے_

يحلّ لهم الطيبت و يحرم ...و يضع عنهم إصرهم و الا غلل التى كانت عليهم

۳۰۵

۲۴_ سب لوگوں (حتى كہ يہود و نصارى )كى فلاح پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ايمان لانے ، دشمنوں كے مقابلے ان كا دفاع كرنے اور ان كى رسالت كى تقويت كے سائے ميں ميسر ہے_فالذين ء امنوا به و عزروه و نصروه ا ولئك هم المفلحون كلمہ ''تعزيز'' سے مراد ، تلوار كے ذريعے مدد كرنا ہے، بنابراين ''الذين ...عزّ روہ'' سے مراد وہ لوگ ہيں كہ جو دشمنوں كے مقابلے ميں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا دفاع كرتے ہيں ، كلمہ ''نصر'' مطلق مدد كرنے كے معنى ميں آتاہے ليكن چونكہ كلمہ ''نصر'' كلمہ ''عزروہ'' كے مقابلے ميں استعمال ہوا ہے لہذا اس سے مراد غير دفاعى مسائل ميں مدد كرنا ہے_

۲۵_ قرآن سراسر نور ہے اور فلاح كى راہ كو روشن كرتاہے_فالذين ...اتبعوا النور الذى ا نزل معه ا ولئك هم المفلحون

۲۶_ قرآن ہميشہ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رسالت كے دوران آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ہمراہ رہا ہے_و اتبعوا النور الذى ا نزل معه

كلمہ ''معہ'' فعل ''انزل'' كے نائب فاعل كيلئے حال ہے بنابراين ''الذى انزل معہ'' كا معنى يہ ہوگا كہ نازل ہونے والا قرآن ،ہميشہ پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ساتھ رہا_

۲۷_ انسان كى فلاح، قرآن كى پيروى كرے ميں ہى ہے_فالذين ...اتبعوا النور الذى ا نزل معه ا ولئك هم المفلحون

۲۸_عن ابى عبدالله عليه‌السلام : كان مما منّ الله عزوجل به على نبيه صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم إنه كان ا مّيا لا يكتب و يقرء الكتاب (۱)

حضرت امام صادقعليه‌السلام سے مروى ہے كہ آپعليه‌السلام نے فرمايا خدا نے جو نعمات اپنے پيغمبر كو عطا كيں ان ميں سے ايك يہ تھى كہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم امى تھے، خود نہيں لكھتے تھے ليكن لكھے ہوئے كو پڑھتے تھے_

۲۹_عن ابى جعفر عليه‌السلام : ...''يجدونه'' يعنى اليهود والنصارى ''مكتوبا'' يعنى صفة محمد صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و اسمه ''عندهم فى التوراة والإنجيل'' ...(۲)

حضرت امام باقرعليه‌السلام سے آيت ''الذى يجدونہ مكتوبا ...'' كے بارے ميں منقول ہے كہ جس ميں آپعليه‌السلام نے فرمايا: يہود و نصارى ، حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا نام اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے اوصاف تورات و انجيل ميں پاتے تھے

____________________

۱)علل الشرايع ، ص ۱۲۶، ح۷ ب ۱۰۵ نورالثقلين ج۲ ص ۷۹ ح ۳۹۳_

۲)كمال الدين صدوق ص ۲۱۷ ح ۲ ب ۲۲ ، بحارالانوار ج۱۱ ص ۴۸ ح ۴۹_

۳۰۶

احكام:تشريع احكام ۱۶

اسلام:اسلام اور حقداروں كا احياء ۲۳;اسلام اور خرافات ۲۳ ;اسلام اور طيبات ۲۳;اسلام كا سہل ہونا ۲۰، ۲۱، ۲۳

اللہ تعالى :اللہ تعالى كى بشارتيں ۱۳; اللہ تعالى كى غيبى خبريں ۱۳; اللہ تعالى كے عذاب ۵

امر بالمعروف:امر بالمعروف كى اہميت ۱۴، ۱۸

انجيل:نزول انجيل كى بشارت ۱۳;انجيل كى بشارتيں ۷، ۱۲

اہل كتاب:اہل كتاب اور حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ،۱۱

ايمان:آيات خدا پر ايمان ۳;ايمان كى علامت ۳; حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ايمان ۱۰; حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ايمان كے آثار ۲۴

بدعت:بدعت كے ساتھ مبارزہ ۲۰

تورات:تورات كى بشارتيں ۷، ۱۲

جہالت:جہالت كے خلاف مبارزہ ۲۰

حلال اشياء: ۱۷

خباءث:خباءث كى تحريم ۱۶، ۱۸;خباءث كى حرمت ۱۷

خدا كے رسول: ۶

خرافات:خرافات كے ساتھ مبارزہ ۲۰، ۲۱

زكات:زكات ادا كرنے والوں كے فضائل ۴

طيبات:طيبات كا حلال ہونا ۱۶ ،۱۷،۱۸

عذاب:عذاب كے اسباب ۵

عمل:پسنديدہ عمل كى اہميت ۱۵;ناپسنديدہ عمل سے اجتناب ۱۵

فريضہ:

۳۰۷

دشوار فرائض كو اٹھانا ۲۰،۲۱

فلاح:فلا ح كے عوامل ۲۴،۲۵،۲۷

قرآن:قرآن كا حقائق روشن كرنا ۲۵;قرآن كى اطاعت كے آثار ۲۷; قرآن كى نورانيت ۲۵

معاشرتى نظم و ضبط: ۱۴

متقين:متقين كے فضائل ۴

محرمات: ۱۶

محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :انجيل ميں محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ۷، ۸، ۹، ۱۰، ۱۲، ۱۸، ۲۱ ;تورات ميں محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے مقامات ۹;محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا امى ہونا ۶، ۱۱ ;محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا انكار كرنے والوں كا عذاب ۵;محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا دفاع كرنے كى اہميت ۲۴;محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا كردار ۲۰;محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى اطاعت ۳، ۱۰; محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى بعثت ۷;محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى حقانيت كى علامات ۱۱;محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رسالت كا فلسفہ ۱۴، ۱۶ ; محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رسالت ۹;محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى نافرماني۵;محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى نبوت ۶، ۹ ;محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى صفات ۱۸

مسلمين:قيامت كے دن مسلمين ۲;مسلمين كے فضائل ۱، ۲

مسيحي:اسلام سے قبل كے مسيحى ۲۲; خباءث سے مسيحيوں كا استفادہ ۱۶;طيبات سے مسيحيوں كا اجتناب ۱۹; مسيحى اور محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ۱۰;مسيحيوں كى فلاح كى شرائط ۲۴;مسيحيوں كى مسؤوليت ۱۰;مسيحيوں ميں بدعت ۲۲;مسيحيوں ميں خرافات ۲۱، ۲۲ ; مسيحيوں كے دشوار احكام ۲۲

مشمولين رحمت:خدا كى رحمت خاص كے مشمولين ۱، ۲

موسىعليه‌السلام :موسىعليه‌السلام كو بشارت ۱۳

نافرمان:نافرمانوں كا عذاب ۵

نھى عن المنكر:نھى عن المنكركى اہميت ۱۴، ۱۸

يہود:اسلام سے قبل كے يہود ۲۲;خباءث سے يہود كا استفادہ ۱۹;طيبات سے يہود كا اجتناب ۱۹; يہود اور محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ۱۰;يہود كى فلاح كى شرائط ۲۴; يہود كى مسؤوليت ۱۰; يہود ميں بدعت ۲۲; يہود ميں خرافات ۲۱، ۲۲;يہود كے دشوار احكام ۲۲

۳۰۸

آیت ۱۵۸

( قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعاً الَّذِي لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ لا إِلَـهَ إِلاَّ هُوَ يُحْيِـي وَيُمِيتُ فَآمِنُواْ بِاللّهِ وَرَسُولِهِ النَّبِيِّ الأُمِّيِّ الَّذِي يُؤْمِنُ بِاللّهِ وَكَلِمَاتِهِ وَاتَّبِعُوهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ )

پيغمبر كہہ دو كہ ميں تم سب كى طرف اس اللہ كا رسول اور نمائندہ ہوں جس كے لئے زمين و آسمان كى مملكت ہے ں اس كے علاوہ كوئي خدا نہيں ہے_ وہى حيات ديتا ہے اور وہى موت ديتا ہے لہذا اللہ اور اس كے پيغمبر امّى پر ايمان لے آؤ جو اللہ اور اس كے كلمات پر ايمان ركھتا ہے اور اسى كا اتباع كرو كہ شايد اسى طرح ہدايت يافتہ ہوجاؤ(۱۵۸)

۱_ حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، تمام انسانوں كيلئے خدا كى جانب سے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تھے_قل يا ايها الناس إنى رسول الله إليكم جميعا

۲_ اسلام، تمام انسانوں كيلئے ائین حيات ہے_إنى رسول الله إليكم جميعا

۳_ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، تمام اہل جہاں تك اپنا پيغام ابلاغ كرنے اور سب لوگوں پر اپنى رسالت كے شمول كو بيان كرنے كے ذمہ دار تھے_قل يا ا يها الناس إنى رسول الله إليكم جميعا

۴_ آسمانوں اور زمين كى حاكميت، خدا كيلئے مختص ہے_الذى له ملك السموات والا رض

۵_ تشريع دين اور ارسال رسل، جہان ہستى پر خدا كى حاكميت كے ساتھ مربوط ہے_

إنى رسول الله إليكم جميعا الذى له ملك السموات والا رض

۶_ كائنات پر خدا كى حاكميت كا اعتقاد، بعثت انبياء كے متعلق ہر قسم كى بے يقينى كے خاتمے كا باعث ہے_إنى رسول الله ...الذى له ملك السموات والا رض

۷_ جہان ہستى پر خدا كى على الاطلاق حاكميت كى طرف توجہ، پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى عالمگير رسالت كے متعلق ہر قسم كے شك و شبہہ كے خاتمے كا باعث بنتى ہے_إنى رسول الله إليكم جميعا الذى له ملك السموات والا رض

رسالت پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور اس كے عالمگير ہونے كے بيان كے بعد كائنات پر خدا كى حاكميت كو بيان كرنے ميں در حقيقت ايسى رسالت كے امكان پر ايك استدلال كرنا مراد ہے_

۸_ عالم خلقت، متعدد آسمانوں پر مشتمل ہے_له ملك السموات

۹_ خدائے يكتا كے سوا كوئي موجود، پرستش كے لائق نہيں _لا إله إلا هو

۳۰۹

۱۰_ صرف كائنات كا فرمانروا ہى پرستش و عبادت كے لائق ہے_الذى له ملك السموت والا رض لا إله إلا هو

خداكے ساتھ حاكميت ہستى كے مختص ہونے كو بيان كرنے كے بعد اس حقيقت كو بيان كرنا كہ صرف وہى لائق پرستش ہے، مندرجہ بالا مفہوم فراہم كرتاہے_

۱۱_ كائنات پر صرف خدا كى حاكميت كے بارے ميں يقين، اس كے سوا كسى اور قابل پرستش معبود كے نہ ہونے پر ايمان كاباعث ہے_الذى له ملك السموات والا رض لا إله إلا هو

۱۲_ پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رسالت نيز آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رسالت كا تمام اہل جہاں كو شامل ہونا، كائنات پر خدا كى فرمانروائی اور اس كے سوا ہر معبود كى نفى ہى كا ايك جلوہ ہے_إنى رسول الله ...الذى له ملك السموات والارض لا إله إلا هو

پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم الله ہونے كى وضاحت اور پھر اس كے بعد جہان ہستى كى حاكميت كے ذريعے خدا كى توصيف ميں يہ مطلب پايا جاتاہے كہ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رسالت آيت كريمہ ميں مذكور خدا كے اوصاف كى متقاضى ہے_

۱۳_ ہر شخص كى زندگى اور موت فقط خداوند كے اختيار ميں ہے _يحيى و يميت

۱۴_ جہان ہستى پر خدا كى على الاطلاق حاكميت موجودات كو زندہ كرنے اور انہيں مار نے پر اس كے اقتدار كى دليل ہے_

الذى له ملك السموات والا رض ...يحيى و يميت

جہان ہستى پر خدا كى حاكميت مطلق كو بيان كرنے اور پھر زندگى اور موت كے اسى كے ہاتھ ميں ہونے كو ذكر كرنے ميں اس مطلب كى طرف اشارہ پايا جاسكتاہے كہ امور عالم چونكہ اسى كے اختيار ميں ہيں لہذا موجودات كى موت و حيات بھى اسى كے اختيار ميں ہوگي_ بنابراين ''لہ ملك ...'' ميں ''يحيى و يميت'' پر استدلال پايا جاسكتاہے_

۱۵_ تمام انسانوں (حتى كہ يہود و نصارى ) كو چاہيے كہ خدا اور اس كے پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ايمان لائیں _

قل ى ا يها الناس ...فا منوا بالله و رسوله

گزشتہ آيات (كہ جن ميں پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے اوصاف، تورات و انجيل ميں ثبت ہونے كى وضاحت كى گئي ہے) كى روشنى ميں كلمہ ''الناس'' كا مطلوبہ مصداق، يہود و نصارى ہيں ، بنابراين يہود و نصارى ''فا منوا ...'' كے مخاطبين ميں سے ہيں _

۳۱۰

۱۶_ حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بغير پڑھے لكھے، خداوند كى جانب سے مقام رسالت كے حامل پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تھے_

فا منوا بالله و رسوله النبى الا ميّ

۱۷_ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا اُمّى ہونا، ادعائے رسالت ميں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى صداقت كى علامت ہے_

فامنوا بالله و رسوله النبى الامي

يہ اس احتمال كى بنياد پر كہ جب پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى امّى ہونے كے ساتھ توصيف آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى حقانيت پر استدلال كيلئے كى گئي ہو__

۱۸_ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، اپنى زندگى ميں خدا اور اس كے تمام كلمات پر ايمان ركھتے تھے_رسوله ...الذى يؤمن بالله و كلمته

۱۹_ انبيائے الہى كا خدا اور اپنى رسالت كے پيغام پر اعتقاد اور ايمان، ادعائے نبوت ميں ان كى صداقت كى علامت ہے_رسوله ...الذى يؤمن بالله و كلمته

پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا يہ وصف بيان كيا جانا كہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنى رسالت كى حقيقت پر ايمان ركھتے تھے ہوسكتاہے كہ يہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رسالت كى سچائی پر دليل كے طور پر ہو_

۲۰_ سب كو (حتى كہ يہود و نصارى كو بھي) چاہيے كہ پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى پيروى كريں _و اتبعوه

۲۱_ ہدايت تك رسائی ، خدا پر ايمان لانے اور رسالت پيغمبر كو قبول كرنے اور اس كى پيروى كرنے كى صورت ميں ہى ممكن ہے_فا منوا بالله و رسله ...و اتبعوه لعلكم تهتدون

۲۲_ راہ فلاح كى شناخت اور اس كا حصول، پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ايمان لانے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى پيروى كرنے ميں ہى منحصر ہے_فا منوا بالله و رسوله ...و اتبعوه لعلكم تهتدون

گزشتہ آيت ميں مذكور جملہ ''ا ولئك هم المفلحون'' كى روشنى ميں فعل ''تھتدون'' كا متعلق، فلاح ہے_

۲۳_ خدا اور پيغمبراكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ايمان، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے فرامين كى پيروى كئے بغير ،ہدايت اور فلاح كا باعث نہيں بن سكتا_

فا منو بالله و رسوله ...و اتبعوه لعلكم تهتدون

۳۱۱

آسمان:آسمانوں كا حاكم ۴;آسمانوں كا متعدد ہونا ۸

آفرينش:حاكم آفرينش ۵، ۶، ۷، ۱۰، ۱۱، ۱۲، ۱۴

اسلام:اسلام كا عالمگير ہونا ۲

انبياء:انبياء پر ايمان ۱۶;انبياء كى تعليمات ۱۶;حقانيت انبياء كى علامات ۱۹;رسالت انبياء كا منشاء ۵

انسان:انسان كى مسؤوليت ۱۵

ايمان:ايمان كے آثار ۶، ۱۱، ۲۱، ۲۲، ۲۳;حاكميت خدا پر ايمان ۶;خدا پر ايمان ۱۱، ۱۵، ۱۸، ۱۹، ۲۱، ۲۲، ۲۳

محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ايمان ۱۵، ۲۱، ۲۲، ۲۳

توحيد:توحيد عبادى ۹، ۱۰; توحيد عبادى كے اسباب ۱۱;توحيد كے دلائل ۱۲

حيات:حيات كا منشاء ۱۳

اللہ تعالى :اللہ تعالى سے مختص امور ۴، ۹، ۱۴;اللہ تعالى كى حاكميت ۴، ۵، ۷، ۱۱، ۱۲;اللہ تعالى كى حاكميت كے مظاہر ۱۲;اللہ تعالى كى قدرت ۱۳، ۱۴

خدا كے رسول: ۱،۶ ۱

دين:تشريع دين كا منشاء ۵

ذكر:ذكر كے اثرات ۷

زمين:زمين كا حاكم۴

شك:شك كے موانع ۷

فلاح :فلاح كے اسباب ۲۲;فلاح كے عوامل ۲۳

كفر:انبياء كے بارے ميں كفر كے موانع ۶

محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم : رسالت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا عالمگير ہونا ۱، ۳، ۷، ۱۲ ;محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ايمان ۱۸; محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا امّى ہونا ۱۶، ۱۷ ;محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى اطاعت ۲۰;محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى اطاعت كى اہميت ۲۳;محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى اطاعت كے آثار ۲۱، ۲۲; محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى حقانيت كى علامات ۱۷;محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رسالت كا داءرہ ۳، ۷ ;محمد كى مسؤوليت ۳;محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے مقامات ۱۶

۳۱۲

موت:موت كا سبب ۱۳

مسيحي:مسيحيوں كى مسؤوليت ۱۵، ۲۰

موجودات:موجودات كى حيات كا سرچشمہ۱۴;موجودات كى موت كا سبب ۱۴

ہدايت:ہدايت كے اسباب ۲۱، ۲۳

يہود:يہود كى مسؤوليت ۱۵، ۲۰

آیت ۱۵۹

( وَمِن قَوْمِ مُوسَى أُمَّةٌ يَهْدُونَ بِالْحَقِّ وَبِهِ يَعْدِلُونَ )

اور موسى كى قوم ميں سے ايك ايسى جماعت بھى ہے جو حق كے ساتھ ہدايت كرتى ہے اور معاملات ميں حق و انصاف كے ساتھ كام كرتى ہے(۱۵۹)

۱_ قوم موسىعليه‌السلام كے كچھ لوگ ہدايت كرنے والے اور عدالت پيشہ تھے_

و من قوم موسى امة يهدون بالحق و به يعدلون

۲_ قوم موسىعليه‌السلام كے ہدايت كرنے والے لوگ خود بھى ہميشہ حق و حقيقت كے ہمراہ رہتے تھے_يهدون بالحق

فوق الذكر مفہوم اس بناء پر اخذ كيا گيا ہے كہ جب ''بالحق'' كى ''باء'' مصاحبت كيلئے ہو كہ اس صورت ميں ''بالحق'' فعل''يهدون'' كیفاعل كيلئے حال ہوگا، يعني: ''يھدون مصاحبين الحق''

۳_ قوم موسىعليه‌السلام كے ہدايت كرنے والے باطل اسباب كے ذريعے نہيں بلكہ موازين حق كا سہارہ ليتے ہوئے لوگوں كى ہدايت كرتے تھے_يهدون بالحق

فوق الذكر مفہوم كى اساس يہ ہے كہ ''بالحق'' كى ''باء'' استعانت كيلئے ہو_

۴_ ہدايت كرنے والوں كو خود بھى حق كے ساتھ ہونا چاہيئے اور حق كى ہى پيروى كرنى چاہيئے _يهدون بالحق

۵_ قوم موسىعليه‌السلام كے عدالت پيشہ لوگ ،اپنے فيصلوں كا معيار ہميشہ حق كو قرار ديتے ہوئے اسى كى بنياد پر قضاوت كرتے تھے_و به يعدلون كلمہ ''بہ'' فعل''يعدلون'' كے متعلق ہے اور اس ميں حرف ''باء'' استعانت كيلئے ہے_

۶_ ہدايت كرنا اور عدالت كو اپنانا، سب پر فرض ہے_يهدون بالحق و به يعدلون

۳۱۳

۷_ انسانى معاشروں اور اقوام كے طرز عمل كى تصوير كشى كيلئے قرآن كى ايك روش يہ ہے كہ وہ ہر قوم كے ناپسنديدہ كرداروں پر تنقيد كرنے كے ساتھ ساتھ اس كے اچھے كرداروں كو بھى بيان كرتاہے_

و من قوم موسى ا مة يهدون

۸_ اقوام كے چہروں كو نماياں كرنے كيلئے انصاف كى مراعات كرنا ،ايك پسنديدہ امر ہے_*

و من قوم موسى اُمة يهدون بالحق

قوم موسى كى برائی اور اس كے بُرے افراد كا حال بيان كرنے كے بعد اس قوم كے عدالت پيشہ اور ہدايت كرنے والے گروہ كا تذكرہ كرنے كا ايك مقصد ہوسكتاہے يہ ہو كہ اس روش كى تعليم دى جائیے كہ كسى معاشرے كے بارے ميں تحليل كرنے اور اس كى خبر دينے ميں اس معاشرے كى خوبيوں سے صرف نظر كرتے ہوئے انہيں بھول نہيں جانا چاہيے_

۹_عن امير المؤمنين عليه‌السلام : ...لقد افترقت (بنو اسرائيل بعد موسي) على احدى و سبعين فرقة كلها فى النار الا واحدة فان الله يقول ''و من قوم موسى امة يهدون بالحق و به يعدلون'' فهذه التى تنجو (۱)

حضرت امير المؤمنينعليه‌السلام سے مروى ہے كہ: حضرت موسىعليه‌السلام كے بعد بنى اسرائیل ۷۱ فرقوں ميں بٹ گئے كہ ان ميں سے ايك كے سوا سب كے سب جہنمى ہيں ، خدا نے فرمايا ''قوم موسى كا ايك گروہ لوگوں كى حق كے ساتھ راہنمائی كرتاہے اور حق كے ساتھ قضاوت كرتاہے'' صرف يہى لوگ اہل نجات ہيں _

اچھے لوگ:اچھے لوگوں كا تعارف ۷

اقوام:اقوام كے تعارف ميں انصاف كى رعايت ۸

برے لوگ:برے لوگوں پر تنقيد ۷

بنى اسرائی ل:بنى اسرائیل كى اقليت۱ ;بنى اسرائیل كى تاريخ ۱، ۲، ۵ ;بنى اسرائیل كے عادل لوگ ۱;بنى اسرائیل كے عادلوں كى قضاوت ۵;بنى اسرائیل كے ہدايت كرنے والے ۱، ۲، ۳

____________________

۱) تفسير عياشى ج/۲ ص ۳۲ ح ۹۱ نورالثقلين ج/۲ ص ۸۵ ح ۳۰۷_

۳۱۴

عدالت:عدالت كى اہميت ۶

ذمہ داري:سب كى ذمہ دارى ۶

نمونہ :پسنديدہ نمونے ۷;ناپسنديدہ نمونے ۷

ہدايت:ہدايت كى اہميت ۶;روش ہدايت ۳، ۷

ہدايت كرنے والے:ہدايت كرنے والوں كى ذمہ دارى ۴;ہدايت كرنے والے اور حق ۴

آیت ۱۶۰

( وَقَطَّعْنَاهُمُ اثْنَتَيْ عَشْرَةَ أَسْبَاطاً أُمَماً وَأَوْحَيْنَا إِلَى مُوسَى إِذِ اسْتَسْقَاهُ قَوْمُهُ أَنِ اضْرِب بِّعَصَاكَ الْحَجَرَ فَانبَجَسَتْ مِنْهُ اثْنَتَا عَشْرَةَ عَيْناً قَدْ عَلِمَ كُلُّ أُنَاسٍ مَّشْرَبَهُمْ وَظَلَّلْنَا عَلَيْهِمُ الْغَمَامَ وَأَنزَلْنَا عَلَيْهِمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوَى كُلُواْ مِن طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ وَمَا ظَلَمُونَا وَلَـكِن كَانُواْ أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ )

اور ہم نے بنى اسرائیل كو يعقوب كى بارہ اولاد كے بارہ حصول پر تقسيم كرديا اور موسى كى طرف وحى كى جب ان كى قوم نے انى كا مطالبہ كيا كہ زمين پر عصا ماردو_ انھوں نے عصا مارا تو بارہ چشمے جارى ہوگئے اس طرح كہ ہر گروہ نے اپنے گھاٹكو پہچان ليا اور ہم نے ان كے سروں پر ابر كا سايہ كيا اور ان پر من و سلوى جيسى نعمت نازل كى كہ ہمارے ديئے ہوئے پاكيزہ رزق كو كھاؤ اور ان لوگوں نے مخالفت كر كے ہمارے اوپر ظلم نہيں كيا بلكہ يہ اپنے ہى نفس پر ظلم كر رہے تھے(۱۶۰)

۱_ خداوند متعال نے بنى اسرائیل كو بارہ قبيلوں ميں تقسيم كيا_و قطّعنهم اثنتى عشرة أسباطا أمما

''اثنتى عشرة'' كى تمييز كلمہ''فرقة'' كى طرح

۳۱۵

كا كوئي مفرد مؤنث كلمہ ہے كہ جو واضح ہونے كى وجہ سے كلام ميں نہيں لايا گيا ''اسباط، سبط'' (قبيلہ طاءفہ) كى جمع ہے اور ''اثنتى عشرة'' كيلئے بدل ہے_

۲_ بنى اسرائیل كے بارہ طاءفوں ميں سے ہر ايك دوسرے كے مقابلے ميں ايك مستقل گروہ تھا_

و قطّعنهم اثنتى عشرة أسباطا أمما

امت كى جمع ''أمما'' كلمہ ''أسباطا'' كيلئے حال ہے، يعنى ايسے قبائل كہ جن ميں ہر كوئي ايك امت تھا_

۳_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں ميں سے ہر ايك كى طرف بنى اسرائیل كا انتساب ہى ان كى گروہ بندى كى اساس تھا_

و قطّعنهم اثنتى عشرة أسباطا أمما

''أسباط'' لغت ميں اولاد كى اولاد كے معنى ميں استعمال ہوتاہے چنانچہ بنى اسرائیل كے بارہ طاءفوں كيلئے اسى كلمہ كے استعمال ميں اس مطلب كى طرف اشارہ پايا جاتاہے كہ ان قبائل كى اساس (كہ سب حضرت يعقوبعليه‌السلام كى اولاد كى اولاد ہيں ) حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بارہ فرزند ہيں _

۴_ بنى اسرائیل كى بارہ گرہوں ميں تقسيم ان كيلئے ايك نعمت الہى تھى اور يہ تقسيم ان كے اجتماعى امور كى تنظيم كے سلسلہ ميں تھي_قطّعنهم اثنتى عشرة أسباطا أمما ...قد علم كل أناس مشربهم

چونكہ آيت كے بعد كے حصوں ميں بنى اسرائیل كو عطا كى جانے والى نعمات كا تذكرہ ہے لھذا اس سے معلوم ہوتاہے كہ ان كى بارہ گروہوں ميں تقسيم بھى نعمات الہى ميں سے ہے چنانچہ جملہ ''قد علم ...'' كہ جو اس تقسيم كے فائدہ كو بيان كرتاہے بھى اس تقسيم كے نعمت ہونے كى تائی د كرتاہے_

۵_ عصر موسى ميں بنى اسرائیل كى زندگى ايك قبائلى زندگى تھي_و قطّعنهم اثنتى عشرة أسباطا أمما

۶_ سمندر عبور كرنے كے بعد قوم موسى آب و غذا كى كمى سے دوچار ہوگئي_إذا ستسقه قومه ...و أنزلنا عليهم المن والسلوي

۷_ بنى اسرائیل نے حضرت موسىعليه‌السلام كى طرف رجوع كرتے ہوئے اُن سے پانى كى قلت كو برطرف كرنے كا مطالبہ كيا_

إذ استسقه قومه

۸_ مشكلات سے نجات حاصل كرنے كيلئے انبياءعليه‌السلام سے متوسل ہونے كا جواز_إذ استسقه قومه

۹_ حضرت موسىعليه‌السلام كو خدا كى طرف سے حكم ملا كہ پانى

۳۱۶

حاصل كرنے كيلئے اپنا عصا پتھر پر مارو_و أوحينا الى موسى ...ا ن اضرب بعصاك الحجر

كلمہ ''الحجر'' كا ''ال'' جنس كيلئے بھى ہوسكتاہے كہ اس صورت ميں ''الحجر'' سے مراد دوسرى اشياء كے مقابلے ميں كوئي بھى پتھر ہوسكتاہے چنانچہ ''ال'' عہد حضورى يا ذہنى كيلئے بھى ہوسكتاہے كہ اس صورت ميں ''الحجر'' سے مراد ايك خاص پتھر ہوگا_

۱۰_ حضرت موسىعليه‌السلام نے خدا كا حكم ملنے پر كسى تاخير كے بغير اپنا عصا(پانى حاصل كرنے كيلئے) پتھر پر مار ديا_

أن اضرب بعصاك الحجر فانبجست منه اثنتا عشرة عينا

''فانبجست'' ميں حرف ''فاء'' فائے فصيحہ ہے، يعنى ايك مقدر معطوف عليہ كو بيان كرنے كيلئے ہے اور وہ مقدر معطوف عليہ آيت كے پہلے حصّے كى روشنى ميں ''فضرب بعصاہ الحجر'' ہے گويا اس جملے كے محذوف ہونے ميں يہ معنى پايا جاتاہے كہ فرمان الہى (اضرب) ملتے ہى موسىعليه‌السلام نے اپنا عصا پتھر پر دے مارا_

۱۱_ پتھر پر عصامارنے كے بارے ميں خدا كا حكم موسىعليه‌السلام كو وحى كے ذريعے موصول ہوا_

و أوحينا إلى موسى ...أن اضرب بعصاك الحجر

۱۲_ پتھر پر عصائے موسى كے لگتے ہى اس سے پانى كے بارہ چشمے پھوٹ پڑے_

أن اضرب بعصاك الحجر فانبجست منه اثنتا عشرة عينا

فعل ''انبجست'' كا مصدر ''انبجاس'' جوش مارنے اور پھوٹنے كے معنى ميں استعمال ہوتاہے_

۱۳_ پتھر سے پھوٹنے والے بارہ چشموں ميں سے ہر ايك بنى اسرائیل كے بارہ قبيلوں ميں سے ايك قبيلے كے ساتھ مخصوص تھا_قد علم كل أناس مشربهم

''أناس'' كلمہ ''انس'' (لوگ) كى جمع ہے اور يہاں اس سے مراد بنى اسرائیل كے بارہ قبيلے ہيں _ ''مشرب'' پينے كے پانى يا اس جگہ كو كہتے ہيں كہ جہاں سے پانى ليا جاتاہے (گھاٹ) اور يہاں اس سے مراد وہى پتھر سے پھوٹنے والے چشمے ہيں _

۱۴_ پتھر سے پھوٹنے والے بارہ چشموں ميں سے ہر ايك چشمہ بنى اسرائیل كے ايك قبيلے كے ساتھ مخصوص ہونے كى علامت ركھتا تھا_قد علم كل أناس مشربهم

۱۵_ بنى اسرائیل كے قبيلوں ميں سے ہر قبيلہ اپنے مخصوص چشمے سے آگاہ تھا_قد علم كل أناس مشربهم

۳۱۷

۱۶_ قوم موسى كو سمندر عبور كرنے كے بعد سورج كى سخت گرمى كا سامنا كرنا پڑا_و ظلّلنا عليهم الغمم

۱۷_ خداوند متعال نے قوم موسىعليه‌السلام پر ابر كا سايہ كركے انہيں سورج كى جھلسا دينے والى گرمى سے نجات عطا كي_

و ظلّلنا عليهم الغمم

''غمامہ'' يعنى بادل اور اس كى جمع غمام ہے (لسان العرب) بعض اہل لغت كا كہنا ہے كہ غمام يعنى سفيد بادل''ظلّلنا'' كا مصدر ''تظليل'' سايہ قرار دينے كے معنى ميں آتاہے_

۱۸_ خداوند متعال نے قوم موسى پر گرم صحرا كو عبور كرنے كے دوران ، مَنّ و سلوى نازل كيا_

و أنزلنا عليهم المن والسلوي لغت ميں كلمہ ''مَنّ'' كا معنى ترنجبين اور شہد كى طرح كا ميٹھا شربت ذكر كيا گيا ہے اور ''سلوى '' كے معنى كے بارے ميں كہا گيا ہے كہ اس سے مراد بٹير كى طرح كا ايك سفيد رنگ كا پرندہ ہے اور بعض كا كہنا ہے كہ ''سلوى '' وہى بيٹر ہے_

۱۹_ ''منّ'' و ''سلوى '' بنى اسرائیل كو عطا كيا جانے والا رزق ايك پاك و پاكيزہ خوراك تھي_

و أنزلنا عليهم المن و السلوى كلوا من طيبت ما رزقنكم

۲۰_ قوم موسى كے اوپر ابر كا نمودار ہونا باعث بنا كہ ان پر من و سلوى نازل ہو *

و ظلّلنا عليهم ألغمم و أنزلنا عليهم المن و السلوي

جملہ ''ظلّلنا ...'' پر جملہ ''انزلنا ...'' كے معطوف ہونے ميں ابر كے چھانے اور من و سلوى كے نازل ہونے كے درميان ارتباط كا سراغ مل سكتاہے_

۲۱_ سمندر عبور كرنے كے بعد قوم موسى كو حلال اور حرام غذاؤں تك رسائی حاصل ہوگئي تھي_

كلوا من طيبت ما رزقنكم

۲۲_ َمنّ و سلوى اور پاك و پاكيزہ رزق سے استفادہ كرنے كے بارے ميں بنى اسرائیل كو خدا كى ہدايتكلوا من طيبت ما رزقنكم فوق الذكر مفہوم فعل امر ''كلوا'' كو مد نظر ركھتے ہوئے اخذ كيا گيا ہے_

۲۳_ خداوند متعال ،اپنے بندوں كو رزق عطا كرتاہے_ما رزقنكم

۲۴_ پاك و پاكيزہ نعمات سے استفادہ كرنے كے بارے ميں بندوں كو خدا كى ہدايت_كلوا من طيبت ما رزقنكم

۲۵_ جہان ہستى خدا كے اختيار ميں ہے اور اس ميں رونما

۳۱۸

ہونے والى تبديلياں بھى اسى كے دست قدرت ميں ہيں _فانبجست منه ...ظلّلنا عليهم الغمم و ا نزلنا عليهم المن و السلوى

۲۶_ سمندر كو عبور كرنے كے بعد قوم موسى كيلئے متعدد معجزات (پاني، سايہ اور منّ و سوى كا نزول) ظاہر ہوئے_

فانبجست ...و ظلّلنا عليهم الغمم و أنزلنا عليهم المنّ و السلوي

۲۷_ قوم موسى نے ناپاك خوراكوں سے استفادہ كرتے ہوئے خدا كى نافرمانى كي_كلوا من طيبت ما رزقنكم و ما ظلمونا و لكن كانوا ا نفسهم يظلمون اگر قوم موسى پر ظالم ہونے كا اطلاق (كانوا ا نفسهم يظلمون ) جملہ ''كلوا من طيبت ...'' كے ساتھ مربوط ہو تو اس صورت ميں ان كے ظلم سے مراد حرام اور ناپاك غذاؤں سے ان كا استفادہ ہے ليكن اگر جملہ ''و ما ظلمونا و لكن ...'' آيت ميں مذكور متعدد نعمات كے ساتھ مرتبط ہو تو اس صورت ميں ان كے ظلم سے مراد نعمات كے مقابلے ميں ناسپاسى ہے مندرجہ بالا مفہوم پہلے احتمال كى بناء پر اخذ كيا گيا ہے_

۲۸_ قوم موسى ، عطا كى جانے والى نعمات (پانى كے چشموں و غيرہ) كے مقابلے ميں شكر گزارنہ تھي_

و ما ظلمونا و لكن كانوا ا نفسهم يظلمون

فوق الذكر مفہوم اس بناء پر اخذ كيا گيا ہے كے جب جملہ ''و ما ظلمونا و لكن ...'' آيت كہ ان تمام حصوں كے ساتھ مرتبط ہو كہ جن ميں نعمات الہى كا تذكرہ ہے_

۲۹_ قوم موسى نے خدا كى ناشكرى اور نافرمانى كركے ذات حق كو كچھ نقصان نہيں پہنچايا_و ما ظلمونا

۳۰_ قوم موسى كى ناشكرى اور خدا كے حكم سے ان كى نافرماني، ايسا ستم تھا كہ جو انہوں نے خود اپنے اوپر ڈھايا_

و قطّعنهم ...و ما ظلمونا و لكن كانوا أنفسهم يظلمون

۳۱_ حكم خدا كى نافرمانى اور نعمات الہى كے مقابلے ميں ناشكرى ايسے ظلم ہيں كہ جو انسان كى طرف سے خود انسان ہى كوپہنچتے ہيں _و لكن كانوا أنفسهم يظلمون

۳۲_ گناہ كا نقصان خودگناہ كار كو پہنچتاہے نہ كہ خدا كو_و ما ظلمونا و لكن انفسهم يظلمون

آفرينش:آفرينش ميں تبديليوں كا سبب ۲۵;حاكم آفرينش ۲۵

۳۱۹

اعداد:بارہ كا عدد، ۱، ۲، ۴، ۱۲، ۱۳، ۱۴

اجتماعى امور:اجتماعى امور كى تنظيم ۴

انبياء:رسالت انبياء كا داءرہ ۹

بادل:بادل كا كردار ۱۷، ۲۰

بنى اسرائی ل:بنى اسرائیل اور موسىعليه‌السلام ۷; بنى اسرائیل پر ابر كا سايہ ۱۷، ۲۰، ۲۶ ; بنى اسرائیل كا طعام ۲۱; بنى اسرائیل كا ظلم ۳۰; بنى اسرائیل كا عصيان ۲۷، ۲۹، ۳۰ ; بنى اسرائیل كا كفران ۳۰، ۲۹، ۲۵ ; بنى اسرائیل كا گرمى كى مشكل ميں مبتلا ہونا ۱۶، ۱۷ ; بنى اسرائیل كى اجتماعى زندگى ۵; بنى اسرائیل كى تاريخ ۱، ۲، ۳، ۶، ۷، ۱۲، ۱۳، ۱۵، ۱۶، ۱۷، ۱۸، ۱۹، ۲۱، ۲۶، ۲۷، ۲۸ ; بنى اسرائیل كى حرامخورى ۲۷; بنى اسرائیل كى خواہشات ۷; بنى اسرائیل كى خوراك ۱۸; بنى اسرائیل كى روزى ۱۹; بنى اسرائیل كى مشكل ۶; بنى اسرائیل كى مشكلات ۱۶، ۷، ۶ ; بنى اسرائیل كى نسل ۳; بنى اسرائیل كى نعمات ۴، ۱۸، ۱۹، ۲۰، ۲۱، ۲۶، ۲۸ ; بنى اسرائیل كے اسباط ۱، ۲، ۴ ; بنى اسرائیل كے اسباط كے چشمے ۱۳، ۱۴، ۱۵ ; بنى اسرائیل كے بارہ چشمے ۱۲، ۱۳، ۱۴ ; بنى اسرائیل كے گروہ ۳;بنى اسرائیل ميں پانى كى كمى ۶، ۷، ۹ ; بنى اسرائیل ميں غذا كى كمى ۶; بنى اسرائیل ميں قحط ۶; سمندر سے بنى اسرائیل كا عبور ۱۶، ۲۱، ۲۶ ; عصر موسى ميں بنى اسرائیل كى زندگى ۵;گرمى سے بنى اسرائیل كى نجات ۱۷

پانى :پانى كے چشمے ۲۸

توسل:انبياء سے توسل ۸;توسل كا جواز ۸;توسل كے احكام ۸

چشمہ:پتھر ميں چشمہ ۱۲، ۱۳، ۱۴

اللہ تعالى :اللہ تعالى كو نقصان پہنچانا ۲۹، ۳۲; اللہ تعالى كى رزاقيت ۲۳; اللہ تعالى كى قدرت ۲۵; اللہ تعالى كى نافرمانى ۲۷،۲۹، ۳۰،۳۱;اللہ تعالى كى نعمات ۴; اللہ تعالى كى ہدايت ۲۲،۲۴; اللہ تعالى كے عطايا ۱۹

خود:خود پر ظلم ۳۰، ۳۱

روزي:طيّب روزى ۲۲

سلوي:سلوى كى نعمات سے استفادہ ۲۲;سلوى كى نعمت ۱۸، ۱۹، ۲۶;سلوى كى نعمت كا باعث ۲۰

۳۲۰

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

فقال : ما ا علم شيأً بعد المعرفة ا فضل من هذه الصلاةا لا ترى أن العبد الصالح عيسى ابن مريم (ع) قال: وا وصانى بالصلاة والزكوة مادمت حياً'' (۱)

معاويہ بن وہب كہتے ہيں : ميں نے امام صادق سے پوچھا : بہترين چيز جو بندوں كے الله تعالى سے تقرب كا باعث ہو اور الله تعالى كے نزديك سب سے زيادہ محبوب ہو وہ كيا ہے ؟ فرمايا : ميں معرفت كے بعد نماز سے بہتر چيز نہيں جانتا كيا تم نہيں ديكھ رہے كہ الله تعالى كے صالح بندے عيسى ابن مريم نے كہا ہے _وا وصانى بالصلوة والزكات مادمت حيّا

۱۶_قال الصادق (ع) فى قوله ( وا صانى بالصلوة و الزكوة قال : زكاةالروؤس (۲) امام صادق (ع) نے حضرت عيسي(ع) كے كلام''وا وصانى بالصلاة والزكوة'' كے بارے ميں فرمايا : زكوة سرانہ يعنى '' فطرہ'' ہے _

احكام :۱۲

الله تعالى :الله تعالى كى بركات ۱; الله تعالى كى حيثيت ۴;اللہ تعالى كى نصحتيں ۵

انفاق :انفاق كى اہميت ۹//بركت :بركت كا سرچشمہ ۲;۴

تكليف :تكليف كى حدود۱۱//خير :خير كا سرچشمہ ۴

دنيا:دنيا كا كردار۱۱//ذكر :الله تعالى كا ذكر ۱۰

روايت :۱۳;۱۴;۱۵;۱۶

زكواة :زكواة فطرہ كى اہميت ۱۶; زكواة كى اہميت ۹ ; ۱۲ ;زكواة كى نصحيت ۵;۶;زكواة كے احكام ۱۲; مريم كے زمانہ ميں زكواة ۸عبوديت :عبوديت كى اہميت ۹

عيسى :عيسي(ع) كا تعارف ۶; عيسي(ع) كا خوش قدم ہونا ۱ ; عيسي(ع) كا قصہ ۶; عيسي(ع) كا كردار ۱۴; عيسي(ع) كو نصيحت ۵ ; عيسي(ع) كو وحى ۶;عيسى كى بركت ۱،۲، ۱۳،۱۴ ; عيسي(ع) كى بركت كى خصوصيات ۳; عيسي(ع) كى تعليمات ۱۴;عيسى كى خصوصيات ۶; عيسي(ع) كى رائے ۲;عيسى كى نومولودى ۲،۵; عيسي(ع) كے فضائل ۱،۲،۳،۱۳

لوگ :لو گوں ميں كى طرف توجہ كى اہميت ۱۰

____________________

۱) كافى ج۳ص۲۶۴ح، نورالثقلين ج۳ ص۴ ۳۳ ح۶۹

۲) تفسير قمى ج۲ ص۵۰، نورالثقلين ج۳ ص۳۳۵ح۷۰_

۶۶۱

مسيحيت :مسيحيت ميں زكواة ۷; مسيحيت ميں نماز ۷

نماز :مريم كے زمانہ ميں نماز ۸; نماز كى اہميت ۹; ۱۲ ; نماز كى فضيلت ۱۵; نماز كى نصيحت ۵;۶ ; نمازكے احكام ۱۲

آیت ۳۲

( وَبَرّاً بِوَالِدَتِي وَلَمْ يَجْعَلْنِي جَبَّاراً شَقِيّاً )

اور اپنى والدہ كے ساتھ حسن سلوك كرنے والا بنايا ہے اور ظالم و بد نصيب نہيں بنايا ہے (۳۲)

۱_والدہ كے ساتھ اچھا سلوك اور انہيں محترم جاننا ، حضرت عيسي(ع) كى ولادت كے آغاز سے ہى ان ميں الہى سيرت اور خدا دادى خصلت _وبرّاً بوالدتي

۲_ حضرت عيسي(ع) نے گہوارہ ميں اپنى والدہ حضرت مريم كے حوالے سے اپنے آپ كا حسن سلوك سے پيش آنے والا اور اچھائي كرنے ولافرزند كے عنوان سے تعارف كروايا اوراس خصوصيت كو الہى عطيہ جانا _وبرّاً بوالدتي

گذشتہ آيت كے قرينہ سے ''وبرّا بوالدتي'' يہ جملہ مقدر ہے _وجعلنى برّا بوالدتي

۳_ حضرت عيسي(ع) نے اپنى خصوصيات بتاتے ہوئے اپنى بغير باپ كے ولادت پرتاكيد كي_وبرّاً بوالدتي

حضرت عيسي(ع) نے نيكى كرنے كے حوالے سے

صرف اپنى والدہ كا تذكرہ كيا اپنے والد كا ذكر درميان ميں نہيں لائے تا كہ اپنى گفتگو ميں اس بات پر كہ انكى والدہ پاكدامن ہيں تائيد كريں _

۴_حضرت مريم گناہ وفحشا سے پاك ومنزہ اور بہت زيادہ اكرام كے لائق ہيں _لقد جئت شياً فريّاً وبرّاًبوالدتي

حضرت عيسي(ع) نے اپنے معجزہ كے ساتھ حضرت مريم كو لوگوں كى غلط تہمت سے برى الزمہّ كيا _ اور ساتھ ہى اپنے آپ كو حضرت مريم كا خدمت گزا ر پيغمبر (ع) بتلا يا اور خدمت گزارى كے بيان ميں صفت شبہ (برّاً) كوا ستعمال كيا جو كہ ثبوت ودوام پر دلالت كرتى ہے تا كہ بہت زيادہ تاكيد كرتے ہوئے حضرت مريم كے احترام كواپنى ذمہ دارى شمار كريں _

۵_ حضرت عيسي(ع) جباريت سركشى اور آمريت سے منزہ اور رنج وشكست سے دور تھے _ولم يجعلنى جباراً شقيًا

( جبار) اسے كہتے ميں جو اپنے آپ كو برتر

۶۶۲

جانتے ہوئے كسى كے ليے اپنے اوپر كسى قسم كے حق كا قائل نہ ہو ( قاموس ) اسى طرح وہ جو حق قبول كرنے سے انكار كرے اوراسى طرح جو دوسروں كو اپنے تحت لائے اسے بھى جباّر كہتے ہيں (مفردات راغب ) شقاوت ) يعنى سختى اور شدت ( قاموس ) اسى طرح سعادت ( كاميابى ) كے مقابل معنى ميں بھى استعمال ہوتا ہے _ ( مفردات راغب )

۶_ الله تعالى كى عنايات نے حضرت عيسي(ع) كوحق قبول كرنے والا ، خو ش بخت ا ور نرم مزاج والا شخص بناديا_

ولم يجعلنى جباراً شقيّ

۸_جباريت حق دشمن اور دوسروں كو غلام بنانا، شقاوت اور بدبختى كے اسباب ميں سے ہيں _ولم يجعلنى جباراً شقيً

( شقيًا)ممكن ہے ( جباّراً) كيلئے صفت توضيحى ہو يعنى جو بھى جباّرہو ا وہ شقى بن جائے گا _

۹_والدہ كے ساتھ نيكى كو ترك كرنا، بدبختى كى علامت ہے _وبرّاً بوالدتى و لم يجعلنى جبّاراً شقيًا

ممكن ہے ( لم يجعلنى ) كا گذشتہ جملے پر'' عطف '' عطف سببب بر مسبب ہو يعنى چونكہ الله تعالى نے مجھے جباراور شقى نہيں بنايااس ليے ميں اپنى والدہ كے ساتھ نيك سلوك كرنے والا ہوں لہذا جو اپنى والدہ كے ساتھ نيكى ترك كرے وہ شقى اور جباّر ہے _

۱۰ _والدہ كے ساتھ نيكى اور اپنى خواہشات كوان پر مسلّط كرنے سے پرہيز ضرورى ہے _وبرّاًبوالدتى ولم يجعلنى جبارا

جملہ ( لم يجعلنى جباراً )( الله تعالى نے مجھے جبار نہيں قرار ديا ) قرينہ ( برّا بوالدتى ) كے ساتھ يہ معنى دے رہا ہے كہ ميں اپنى والدہ كے در مقابل جباّر نہيں ہوں _

۱۱_عن أبى عبدا لله (ع) ( فى تعريف الكبائر) و منها عقوق الوالدين لانّ اللّه _ عزوجل _جعل العاقّ جباراً شقياً فى قوله حكاية، قال عيسي(ع) (ع) : و''برّاًبوالدتى ولم يجعلنى جباراً شقياً (۱) ( گناہ كبيرہ كى وضاحت ميں ) امام صادق (ع) سے روايت ہوئي ہے كہ عقوق والدين ميں سے ايك والدين كى نافرمانى بھى ہے كيونكہ الله تعالى نے اپنى كلام ميں حضرت عيسي(ع) سے نقل كرتے ہوئے عاق نافرمانى كرنے والے كو جباّر اور شقى قرار ديا ہے_جيسا كہ يہ فرمايا :

الله تعالى :الله تعالى كى عنايت كے آثار ۶

الله تعالى كے عطيات :الله تعالى كے عطيات كے شامل حال ۲

تسلط چاہنا:تسلط چاہنے سے پرہيز ۷;تسلط چاہنے كے آثار ۸

____________________

۱)عيون اخبارالرضا ج۱، ص۲۸۶،ب۲۸ح۳۳ نورالثقلين ،ج۳، ص۳۳۵، ح۷۱_

۶۶۳

جباريت :جباريت كے آثار ۸

حق :حق كے ساتھ دشمنى كے آثار ۸

روايت :۱۱

شقاوت :شقاوت سے پرہيز ۷; شقاوت كى علامات ۹; شقاوت كے اسباب ۸; شقاوت كے اسباب سے پرہيز ۷

ظلم :ظلم سے پرہيز ۷

عيسى (ع) :عيسي(ع) كا قصہ ۳ عيسي(ع) كا منزہ ہونا ۵;عيسى (ع) كانيكى كرنا ۱ ; عيسي(ع) كى تواضع ۵; عيسي(ع) كى خوش رفتارى ۲;عيسي(ع) كى خلقت كے حوالے سے خصوصيات ۳;عيسى (ع) كي رائے ۲;عيسى كى سعادت مندي۵; عيسي(ع) كا سعادت كا سرچشمہ ۶; عيسي(ع) كى سيرت۱; عيسي(ع) كى عصمت ۵; عيسي(ع) كے حق قبول كرنے كا سرچشمہ ۶; عيسي(ع) كے فضائل ۱،۲،۵،۶

گناہ كبيرہ : ۱۱

ماں :ماں پر اپنى جباّريت مسلط كرنے سے پرہيز ۱۰; ماں سے نيكى ۱;۲;ماں سے نيكى ترك كرنے كے آثار ۹; ماں سے نيكى كرنے كى اہميت ۱۰; ماں كا احترام ۱

مريم (ع) :مريم (ع) كا احترام ۴; مريم (ع) كا منزہ ہونا ۴ مريم (ع) كى عصمت ۴; مريم (ع) كى عفت ۴; مريم (ع) كے فضائل ۴

والدين :والدين كے عاق ہونے كا گناہ ۱۱

آیت ۳۳

( وَالسَّلَامُ عَلَيَّ يَوْمَ وُلِدتُّ وَيَوْمَ أَمُوتُ وَيَوْمَ أُبْعَثُ حَيّاً )

اور سلام ہے مجھ پر اس دن جس دن ميں پيدا ہوا اور جس دن مروں گا اور جس دن دوبارہ زندہ اٹھايا جاؤں گا (۳۳)

۱_ حضرت عيسي(ع) نے گہوارہ ميں اپنى ولادت موت اور حشر كے مراحل ميں اپنى سلامتى اور مكمل امن كا اعلان فرمايا _والسّلام على يوم ولدت و يوم أموت و يوم أبعث حيّا

( السّلام ) ميں ''الف و لام'' خصوصيات كے استقراق كيلئے ہے يعنى مكمل اور تمام خصوصيات كے ساتھ سلامتى اسى ليے يہ سلام حضرت يحيى كے حوالے سے سلام كے ساتھ مختلف ہے _

۶۶۴

۲_ حضرت عيسي(ع) ولادت كے زمانہ ميں صحيح و سالم اور رشد و كمال كيلئے تياّر، جسم و روح كے مالك تھے _

والسّلام على يوم ولدت

۳_ حضرت عيسي(ع) كے ليے موت كے لمحات اور روز محشرميں مكمل سلامتى او رحفاظت حضرت عيسي(ع) كيلئے ضمانت شدہ ارو ناقابل تغييّر ہے _والسّلام عليّيوم أموت ويوم أبعث حيّا

۴_حضرت عيسي(ع) نے اپنى ولادت كے مرحلہ كوہر عيب وبدى سے محفوظ كہتے ہوئے اپنى والدہ حضرت مريم (ع) كے لوگوں كے غلط الزامات سے پاك اور منزہ ہونے پر تاكيد كى _والسّلام عليّ يوم ولدت

۵_ ولادت موت اور حشر كازمانہ انسان كيلئے تين حساس اور تقدير ساز مراحل ہيں _والسّلام عليّ يوم أبعث حيّا

۶_ انسان ،صحت وسلامتى اورالہى حفاظت كامحتاج ہے حتّى كہ موت كے لمحات ميں بھى _والسّلام عليّ يوم أموت

موت كے وقت سلامتى سے مراد وحشت ، ناميدى اور اضطراب وغيرہ سے دو ر ہونا ہے كہ الله اور معاد كے منكر اسميں گرفتار ہونگے _

۷_حضرت مريم (ع) پر تہمت لگانے والے سلامتى اور امن سے بے بہرہ تھے _والسّلام عليّ

( السّلام ) يعنى مكمل سلامتى جو كہ تمام خصوصيات ليے ہوئے ہو يہ كلام جو كہ حصر اضافى كا حامل ہے ان لوگوں كے در مقابل جو حضرت مريم كو توبيخ كرنے كيلئے آئے تھے ايك قسم كى تعريض پر مشتمل ہے يعنى صرف ميں ، مكمل سلامتى ركھتا ہوں ليكن تم لوگ اسے نہيں ركھتے ہو _

۸_ حضرت عيسي(ع) دوسرے انسانوں كى طرح ولادت ،موت اور حشر كے مراحل ليے ہوئے ہيں اور خود اس چيز كا اعتراف كرتے ہيں _يوم ولدت ويوم أموت ويوم أبعث حيّا

۹_ حضرت عيسي(ع) بعض، پيش آنے والے حوادث سے آگا ہ تھے _والسّلام عليّ يوم أموت

۱۰_ اپنے سے يادوسروں سے تہمتوں كو دور كرنے كيلئے اپنى خصوصيات اور امتيازات كو شمار كرنا، نا پسنديدہ نہيں ہے _

قال إنى عبدالله ويوم أبعث حيّا

۱۱_حضرت عيسي(ع) كيلئے آخرت ميں خصوصى زندگى _ويوم أبعث حيّا

اگر چہ فعل (ا بعث ) زندہ ہونے پر دلالت كررہا ہے ليكن ( حيّا ) كے ساتھ اس كى تصريح شايد اس ليے ہو كہ دوسروں كى نسبت حضرت عيسي(ع) كو آخرت ميں خصوصى زندگى حاصل ہوگي_

۶۶۵

۱۲_ انسان، قيامت ميں دوبارہ زندہ ہونگے _يوم اموت ويوم أبعث حيّا

اپنى تعريف :اپنى تعريف كاجائز ہونا ۱۰

امن و حفاظت :موت كے وقت امن و حفاظت ۶

انسان :انسان كى ضرورتيں ۶//تقدير :تقدير ميں موثر اسباب ۵

تہمت :دوسروں سے تہمت كو دور كرنا ۱۰

حشر :حشر كى اہميت ۵

خود :خود سے تہمت كا دور كرنا ۱۰

سلامتى :موت كے وقت سلامتى ۶

ضرورتيں :امن كى ضرورت ۶; سلامتى كى ضرورت ۶

عيسى (ع) :عيسي(ع) كى اخروى امنيت ۱;۳; عيسي(ع) كى اخروى سلامتى ۱;۳; عيسي(ع) كا اقرار ۸; عيسي(ع) كا بشر ہونا ۸; عيسي(ع) كے رشد كا پيش خيمہ ۲; عيسي(ع) كے كمال كا پيش خيمہ ۲; عيسي(ع) كى تقدير ۹; عيسي(ع) كى حفاظت كا حتمى ہونا ۳; عيسي(ع) كى سلامتى كا حتمى ہونا ۳; عيسي(ع) كا حشر ۸; عيسي(ع) كے حشر كى خصوصيات ۳; عيسي(ع) كى خصوصيات ۱۱; عيسي(ع) كى موت كى خصوصيات ۳; عيسي(ع) كى ولادت كى خصوصيات ۴; عيسي(ع) كى آخرت ميں زندگى ۱۱;عيسى (ع) كى دنياوى سلامتي۱; عيسي(ع) كے امن كا سرچشمہ ۱; عيسي(ع) كى سلامتى كا سرچشمہ۱; عيسي(ع) كى سلامتى ۲;۴; عيسي(ع) كا علم غيب ۹; عيسي(ع) كا قصہ ۴; عيسي(ع) كا نومولودى ميں كلام كرنا ۱; عيسي(ع) كا منزہ ہونا ۴; عيسي(ع) كى موت ۸; عيسي(ع) كى ولادت ۲;۸

مردے:مردوں كى اخروى زندگى ۱۲

مريم (ع) :مريم (ع) پر تہمت لگانے والوں كا ناامن ہونا ۷;مريم (ع) كا قصہ ۴; مريم (ع) كا منزہ ہونا ۴

موت :موت كى اہميت ۵

نظريہ كائنات :نظريہ كائنات اور آئڈيالوجى ۱۲

ولادت :ولادت كى اہميت ۵

۶۶۶

آیت ۳۴

( ذَلِكَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ قَوْلَ الْحَقِّ الَّذِي فِيهِ يَمْتَرُونَ )

يہ ہے عيسى بن مريم كے بارے ميں قول حق جس ميں يہ لوگ شك كر رہے تھے (۳۴)

۱_قرآن، حضرت عيسي(ع) كى شخصيت اور حقيقى داستان بيان كرنے والاہے _ذلك عيسى ا بن مريم قول الحق

( ذلك ) كا اشار ہ ان اوصاف كا حامل ہے كہ جن كا گذشتہ آيات ميں ذكر ہو ا ہے اور ( قول الحق ) فعل محذوف ( اقول) كا مفعول ہے _ يعنى حقيقى بات كررہا ہوں _

۲_ حضرت عيسي(ع) مريم كے فرزند، اور بلند مقام و منزلت كے مالك ہيں _ذلك عيسى ابن مريم

( ذلك ) بعيد كيلئے اشارہ كے طور پر استعمال ہوتا ہے جب اسے نزديك كيلئے استعمال كيا جائے تو وہاں مقصود مورد اشارہ كى عظمت منزلت او ر بڑائي كا بيان ہے _

۳_ حضرت عيسي(ع) بغير والد كے تخليق ہوئے ذلك عيسى ابن مريم حضرت عيسي(ع) كى والدہ كى طرف نسبت دينا جب كہ ايسى نسبت رواج كے مطابق نہيں ہے_مندرجہ بالا نكتہ كو بيان كررہى ہے _

۴_ حضرت عيسي(ع) اللہ تعالى كے فرزند نہيں ہيں _عيسى ابن مريم

حضرت عيسي(ع) كى اپنى والدہ حضرت مريم كى طرف نسبت تعريضى ہے ان كے حوالے سے جو انہيں الله تعالى كا فرزند جانتے ہيں _ لہذا نہيں سوائے ماں كے كسى اور طرف منسوب نہيں كرنا چايئےعد والى آيت اسى نكتہ كو واضع كررہى ہے_

۵_ قرآن، تاريخى حقائق اور انكى واقعيت كوبيان كرنے والا ہے _ذلك عيسى ابن مريم قول الحق الذى فيه يمترون

۶_ حضرت عيسي(ع) اللہ تعالى كا كلمہ اور اسكے فرمان سے وجودپانے والے ہيں _

ذلك عيسى ابن مريم قول الحق

(قول) كا منصوب ہونا ممكن ہے اسكے حال ہونے كى بناء پر ہو اور يہ بھى احتمال ہے كہ فعل مدح محذوف كى وجہ سے منصوب ہو _ ان دو احتمالو ں كى بنياد پر الله تعالى كى كلام ميں ( قول الحق ) سے مراد، اسكے فرمان پر حضرت عيسي(ع) كى خلقت ہے_

۷_حضرت عيسي(ع) كى ماہيت كے بارے ميں ( انكے بشر ہونے اور بغير باپ كے وجود ميں آنے ميں ) تاريخى ادوار ميں غلط قسم كى ترديد وشك موجود ہے_ذلك عيسى ابن مريم الذى فيه يمترون

۶۶۷

( الذي) عيسي(ع) يا'' قول الحق'' كيلئے صفت بے اور (امترائ) ( ''يمترون ''كا مصدر ) شك وترديد كے معنى ميں ہے صيغہ'' يمترون'' كا غيب ذكر ہونا اس بات سے حكايت كررہاہے كہ مسلمانوں سے ہٹ كرايسے لوگ بھى تھے كہ جو حضرت عيسي(ع) كے بارے ميں ايسے عقائد ركھتے تھے كہ جو كہ يقين كى منزل پر نہيں تھے _

الله تعالى :الله تعالى كے اوامر ۶; الله تعالى كے كلمات ۶

تاريخ :تاريخ كے سرچشمہ ۵

عيسى (ع) :عيسى اور الله تعالى كا فرزندہونا ۴;عيسى (ع) كا بشر ہونا ۷; عيسي(ع) كا قصہ ۱;عيسى (ع) كى خلقت كا سرچشمہ ۶; عيسي(ع) كى خلقت كے حوالے سے خصوصيات ۳، ۷; عيسي(ع) كى ماں ۲; عيسي(ع) كے بارے ميں شك ۷; عيسي(ع) كے فضائل ۶; عيسي(ع) كے مقامات ۲

قران مجيد :قران مجيد كى تعليمات ۱;۵

مريم :مريم كا فرزند ۲

آیت ۳۵

( مَا كَانَ لِلَّهِ أَن يَتَّخِذَ مِن وَلَدٍ سُبْحَانَهُ إِذَا قَضَى أَمْراً فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُن فَيَكُونُ )

اللہ كے لئے مناسب نہيں ہے كہ وہ كسى كواپنا فرزند بنائے وہ پاك و بے نياز ہے جب كسى بات كا فيصلہ كرليتا ہے تو اس سے كہتا ہے كہ ہو جا اور وہ چيز ہوجاٹى ہے (۳۵)

۱_اللہ تعالى كا مقام اس چيز سے انتہائي بلند و برتر ہے كہ وہ اپنے ليے كوئي فرزند انتخاب كرے _ما كان لله أن يتّخذ من ولد ( ما كان ) كى تعبير اس وقت استعمال ہوتى ہے

كہ جب اسميں كوئي پائدار سنت يا كسى موجود كى ذاتى خصوصيات موجود ہوں اور ان كا وضاحت ہوں اس آيت ميں ''اتخاذ ولد'' ميں اس تعبير سے نفى كى گئي ہے يعنى اس چيز كى الله تعالى كے ساتھ كوئي نسبت نہيں ہے _ ( أن يتخذ) كى تعبير انتہائي لطيف وظريف ہے يعنى اس باطل عقيدہ ميں بھى وہى ہے جوكہ انتخاب كرنے والاہے اور اسكا انتخاب شدہ اسى سے وابستہ ہے اور اسكى مخلوق ہے_

۲_ حضرت عيسي(ع) كو الله تعالى كا فرزند بنانے كا وہم ، انكى ولادت اور معجزانہ طريقہ سے كلام كرنے كے واقعہ كے غلط

۶۶۸

تجزيہ كى بناء پر پيدا ہوا _ذلك عيسى ابن مريم ماكان الله أن يتخذ من ولد

حضرت عيسي(ع) كى ولادت كے بعد الله تعالى كے فرزند كى نفى كرنا ہو سكتا ہے اس نكتہ كو بيان كررہا ہو كہ ايك گروہ نے اس معجزانہ واقعات كو حضرت عيسي(ع) كے الله تعالى كے فرزند ہونے كى دليل جانا _

۳_ الله تعالى نے نہ تو حضرت عيسي(ع) اور نہ ہى كسى اور كو اپنا فرزند قرارديا ہے_ذلك عيسى ابن مريم ماكان للّه أن يتخذمن ولد (ولد) يہاں پر نكرہ نفى كے سياق ميں ہے جو كہ افادہ عموم كررہا ہے _

من زائدہ ہے اور تاكيد پر دلالت كررہا ہے لہذا آيت ميں عموميت تاكيد كے ساتھ مراد ہے _

۴_فرزندركھنا ،نقص اور احتياج كى علامت ہے _ما كان لله أن يتخذ من ولد سبحنه يہاں ( سبحانہ ) فعل مخذوف جيسے ( سجود ) كيلئے مفعول مطلق ہے يعنى اسے منزّہ جانيے جس طرح منزّہ جاننے كا حق ہے يہان تنزيہ كا استعمال، اس بات كى علامت ہے كہ ''اتحاد ولد''نقص اور كمى كى علامت ہے اوراللہ تعالى اس سے منزہ ہے _

۵_ الله تعالى ہر قسم كے نقص اور احتياج سے منزہ ہے_ما كان لله أن يتخذ من ولد سبحنه

۶_ الله تعالى كى ذات اقدس كا ہر قسم كے نقص و احتياج سے منزہ ہونا ضرورى ہے _سبحنه

۷_اللہ تعالى قدرت مطلقہ كا مالك ہے اور جسے وجود ميں لانا ہوتو وہ اسے لانے پر قادر ہے _إذا قضى أمراًفإنمايقول له كن فيكون

۸_ہر وجود كى خلقت، الله تعالى كے ارادہ اور اسكے پيداہونے كے فرمان كى بناء پرہے _إذاقضى أمراً فإنما يقول له كن فيكون

۹_ الله تعالى كسى چيز كو وجود ميں لانے كيلئے اسباب و وسائل كے استعمال كا محتاج نہيں ہے _إذا قضى أمراً فإنما يقول له كن فيكون

الله تعالى كا اسباب و وسائل كا محتاج نہ ہونے كا مطلب يہ نہيں ہے كہ وہ انہيں استعمال نہيں كرتا _ بلكہ اس سے مراد يہ ہے كہ اسباب و وسائل كا مقام اسكے ارادہ اور فرمان كے بعدہے لہذا اسكا ارادہ كسى وسيلہ كے ساتھ محدود نہيں ہے اور يہ سب وسائل اسكے فرمان اور اس صورت ميں عمل كرتے ہيں جيسا وہ چاہتا ہے _

۱۰_ كسى چيز كے موجود ہونے ميں الله تعالى كے فرمان كا محقّق ہونا ہى كافى ہے _إذا قضى أمراً فإنما يقول له كن فيكون

۶۶۹

( إنّما) حصر پردلالت كررہا ہے _ يعنى موجودات كے محقّق ہونے ميں سوائے الہى فرمان كے كسى اور چيز كى احتياج نہيں ہے_

۱۱_ الہى فرمان اور كسى چيز كے پيدا ہونے اور محقق ہونے ميں كوئي فاصلہ نہيں ہے _يقول له كن فيكون (فائ) كے ذريعے '' يكون'' كا عطف الله تعالى كے ارادہ اور مقصود كے متحقق ہونے ميں كسى قسم كے فاصلہ كے نہ ہونے پر دلالت كررہا ہے _

۱۲_ الله تعالى كا تمام موجودات كے ساتھ رابطہ، خالق اور مخلوق كا رابطہ ہے نہ كہ باپ اور فرزند كا ربطہماكان لله أن يتخذ من ولد سبحنه يقول له كن فيكون اگر حضرت عيسي(ع) كى ولادت كو انكے فرزند الہى ہونے كى دليل قرار ديا جائے جيسا كہ باطل فكر كرنے والے كہتے ہيں تو پھر تمام موجودات كو فرزند الہى كہنا چاہيے اس ليے كہ خداوند عالم نے تمام موجودات من جملہ ( حضرت عيسي(ع) ) كو (كن) فرمان كے ذريعے پيدا كيا ہے _

۱۳_ الله تعالى كى ہر اس چيز كے ايحاد پر قدرت كہ جسے وہ چاہے يہ اسكے فرزند انتخاب كرنے سے منزہ ہونے پر دليل ہے _

ماكان للّه أن يتخذ من ولد سبحنه إذا قضى أمراً فيكون

۱۴_ حضرت عيسي(ع) كى ولادت اور كلام كرنے كا واقعہ ، ارادہ الہى كى تمام كا ئنات پر حاكميت كا نمونہ ہے نہ كہ حضرت عيسي(ع) كے فرزند الہى ہونے كى نشاني_ما كان لله أن يتخذ من ولد إ ذا قضى أمراً فإنما يقول له كن فيكون

۱۵_ الہى قضا اور حكم، ناقبل تغيّر ہے _إذا قضى أمراً فإنما يقول له كن فيكون

۱۶_( قال الرضا (ع):ثم جعل الحروف بعد إحصا ئها وإحكام عدتها فعلاً منه كقوله _ عزّوجلّ _( كن فيكون ) و كن منه صنع وما يكون به المصنوع (۱)

امام رضا(ع) فرماتے ہيں خداوند عالم حروف كو ان كے اعداد محكم كرنے كے بعد اپنا فعل قرار ديا جيسا كہ خداوند عالم كے اس فرمان ميں آيا ہے''كن فيكون'' كلمہ ''كن'' خداوند عالم كى طرف سے ايجاد دہے اور جو بھى اس كے نتيجے ميں موجود ہوگا وہ اس كى مخلوق ہوگي_

اسماء صفات :صفات جلال ۲;۵;۶//الله تعالى :

____________________

۱) توحيد صدوق ص۴۳۶ ب۶۵ح۱ نور:الثقلين ج۴ ص۳۹۷ح۹۹_

۶۷۰

الله تعالى اور فرزند ۱،۳،۱۲،۱۳; الله تعالى اور موجودات ۱۲; الله تعالى اور محتاجى ۵،۶;اللہ تعالى اور نقص ۵،۶;اللہ تعالى كا علو۱; الله تعالى كا منزہ ہونا ۱،۳،۵;اللہ تعالى كى خالقيت ۷،۱۲; الله تعالى كى خالقيت كى خصوصيات ۹;اللہ تعالى كى قدرت ۷،۹;اللہ تعالى كى قدرت كے آثار ۱۳;اللہ تعالى كى قضاكا حتمى ہونا ۱۵;اللہ تعالى كى مخلوقات ۱۶; الله تعالى كى مشيت ۱۳; الله تعالى كے افعال ۱۶; الله تعالى كے اوامر ۸ ; الله تعالى كے اوامر كا كردار ۱۰;اللہ تعالى كے اوامر كا فورى ہونا ۱۱;اللہ تعالى كے مقد ر كرنے كے آثار ۸;اللہ تعالى كے منزّہ ہونے كى اہميت ۶;اللہ تعالى كے منزّہ ہونے كے دلائل ۱۳; الله تعالى كے مقدرات ۷ ; خداوند عالم كے ارادہ كى حاكميت كى نشانياں ۱۴ ;

جہالت :جہالت كے آثار ۲

روايت :۱۶

عقيدہ :الله تعالى كے فرزند ركھنے كے عقيد ہ كا سرچشمہ ۲; باطل عقيدے كا سرچشمہ ۲

عيسى (ع) :عيسى (ع) كا قصہ ۱۴; عيسي(ع) كا نومولودى ميں كلام كرنا ۲،۱۴; عيسي(ع) كى ولادت ۲،۱۴

فرزند ركھنا :فرزند ركھنے كے آثار ۴

محتاج :محتاجى كى علامت ۴

موجودات :موجودات كا خالق ۱۲; موجودات كى خلقت ۱۱;موجودات كى خلقت كا سرچشمہ ۸، ۱۰;

نظام اسباب :۹

نقص:نقص كى علامات ۴

آیت ۳۶

( وَإِنَّ اللَّهَ رَبِّي وَرَبُّكُمْ فَاعْبُدُوهُ هَذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِيمٌ )

اور اللہ ميرا اور تمھارا دونوں كا پروردگار ہے لہذا اس كى عبادت كرو اور يہى صراط مستقيم ہے (۳۶)

۱_حضرت عيسي(ع) نے گہوارہ ميں الله تعالى كى اپنے اور دوسرے تمام انسانوں كے پروردگار ہونے كے

۶۷۱

عنوان سے شناخت كردائي _وإن الله ربّى ربّكم

جملہ (إن الله ربى ) پچھلى آيات ميں جملہ (إنى عبدالله ...) پر عطف ہے يہ آيت بھى حضرت عيسي(ع) كى گہوارہ ميں بعض باتوں كو نقل كررہى ہے _ لہذا آيات (ذلك عيسي(ع) كن فيكون ) يہاں جملہ معترضہ ہيں اس جملہ كى سورة آل عمران اور سورہ زخرف ميں حضرت عيسي(ع) سے نقل شدہ جملات سے مشابہت مندجہ بالا نكتہ پرتاكيد كررہى ہے _

۲_ حضرت عيسي(ع) نے اپنے آپ كو دوسرے تمام لوگوں كى طرح الله تعالى كى ربوبيت كى طرف محتاج ايك مخلوق جانا اور اسكا سب كے سامنے اعلان كيا _وإن الله ربّى وربّكم

۳_ حضرت عيسي(ع) كى گہوارہ كى باتوں ميں سے تمام لوگوں كو توحيدقبول كرنے اور الله واحد كى عبادت كرنے كى دعوت _

وإن الله ربيّ و ربّكم فاعبدو

۴_ الله تعالى تمام انسانوں كے امور كى تدبير كرنے والا اور انہيں پالنے والاہے _وإن الله ربّى و ربّكم

۵_اللہ واحد كى عبادت و پرستش لازم ہے _فاعبدوه

۶_ پروردگاركےليے عبوديت كا ضرورى ہونا ايك ايسا وظيفہ ہے كہ جو كسى قسم كى دليل كا محتاج نہيں ہے _

وإن الله ربّى و ربّكم فاعبدوه

حضرت عيسي(ع) كى كلام ميں يہ موضوع كہ ( جو بھى رب ہو وہ پرسش كے لائق ہے ) ايك قبول شدہ بنيادى و اصلى بات تھى _

۷_ الله تعالى كى تمام انسانوں پر وسيع ربوبيت كى طرف توجہ، اسكے غير كى پرستش كو ترك كرنے كا باعث ہے_وإن الله ربّى وربّكم فاعبدو جملہ'' إن الله فاعبدوہ''كيلئے علت ہو سكتا ہے يعني'' اعبدو الله لأنه ربيّ وربّكم ''

۸_ الله تعالى كى ربوبيت پرعملى ايمان، عبادت ہے _وان الله ربّى و ربّكم فاعبدوه

۹_ الله واحد كى پرستش اورربوبيت ميں توحيد پراعتقاد، صراط مستقيم ہے _وإن الله ربّى وربّكم فاعبدوه هذا صراط مستقيم

۱۰_اللہ تعالى كى عبادت كا اصلى مقصد، صراط مستقيم كا راستہ پاناہے _فاعبدوه هذا صراط مستقيم

۱۱_ حضرت عيسي(ع) لوگوں كو صراط مستقيم كى طرف دعوت كرنے والے تھے _هذا صراط مستقيم

الله تعالى :

۶۷۲

الله تعالى كى تدبير۴;اللہ تعالى كى ربوبيت ۱;۴; الله تعالى كى ربوبيت قبول كرنا ۸

انسان :انسانوں كى تربيت كرنے والا ۱،۴; انسانوں كى شرعى ذمہ داري۶;انسانوں كى عبوديت كا بديہى ہونا ۶; انسانوں كے امور ميں تدبير كرنے والا ۴

توحيد:توحيد ربوبى كى طرف دعوت ۳; توحيد عبادى ۹; توحيد عبادى كى اہميت ۵; توحيد عبادى كى طرف دعوت ۳

ذكر :الله تعالى كى ربوبيت كے ذكر كے آثار ۷

صراط مستقيم :صراط مستقيم كى طرف دعوت ۱۱; صراط مستقيم كى طرف ہدايت ۱۰

ضرورتيں :الله تعالى كى ربوبيت كى ضرورت ۲

عبادت :الله تعالى كى عبادت كا بديہى ہونا ۶;اللہ تعالى كى عبادت كا زمينہ ۷;اللہ تعالى كى عبادت كا فلسفہ ۱۰; عبادت كے آثار ۸;اللہ تعالى كى عبادت كى اہميت ۵; غير خدا كى عبادت كو ترك كرنے كا زمينہ۷

عقيدہ :توحيد ربوبيت پر عقيدہ ۹

عيسى (ع) :عيسى (ع) كى دعوتيں ۳;۱۱; عيسي(ع) كا عقيدہ ۲; عيسي(ع) كا قصہ ۱; عيسي(ع) كا مربى ہونا ۱;عيسى (ع) كا نومولودى ميں كلام كرنا ۱;۳; عيسي(ع) كى معنوى ضروريات ۲

نظريہ كائنات :توحيدينظريہ كائنات ۴

آیت ۳۷

( فَاخْتَلَفَ الْأَحْزَابُ مِن بَيْنِهِمْ فَوَيْلٌ لِّلَّذِينَ كَفَرُوا مِن مَّشْهَدِ يَوْمٍ عَظِيمٍ )

پھر مختلف گروہوں نے آپس ميں اختلاف كيا اور ويل ان لوگوں كے لئے ہے جنھوں نے كفر اختيار كيا اور انھيں بڑے سخت دن كا سامنا كرنا ہوگا (۳۷)

۱_ حضرت مريم (ع) كے زمانہ ميں لوگوں كے ايك گروہ ميں حضرت عيسي(ع) كى واضح باتيں _

سننے كے باوجود اخلاف نظر اور كشمكش پيدا ہوئي _فاختلف الأحزاب من بينهم

گذشتہ آيات كے پيش نظر كہ جس ميں حضرت عيسي(ع) كے مريم كے فرزند ہونے اور الله تعالى كى طرف سے فرزند كى نفى كى بات تھى اس سے معلوم ہوتا ہے كہ ان گروہوں ميں حضرت عيسي(ع) كى ماہيت كے بارے ميں اختلاف تھا_

۶۷۳

۲_ حضرت مريم (ع) كے زمانہ ميں لوگوں كا ايك گروہ حضرت عيسي(ع) اور انكى گفتار پر ايمان لے آئے جب كہ دوسرے گروہ نے كفر اختيار كيا _فاختلف الأحزاب من بينهم فويل للذين كفروا

۳_ حضرت عيسي(ع) او ر انكى گفتار كے حوالے سے كفر اختيار كرنے والوں كيلئے قيامت، ايك سخت اور تباہ كرنے والادن ہے _فويل للذين كفروامن مشهد يوم عظيم

(ويل ) يعنى عذاب وہلاكت ( لسان العرب ) قيامت كا ہلاكت بار ہونا ، شدت عذاب سے كنايہ ہے اس طرح كہ اگر روز قيامت موت ہوئي تواس عذاب ميں گرفتار لوگ زندہ نيں رہيں گے_

۴_ وہ لوگ جو حضرت عيسي(ع) كو حضرت مريم (ع) كا فرزند ، الله تعالى كا بندہ اور رسول نہيں جانتے وہ كافر ہيں _

فاختلف الا حزاب من بينهم فويل للذين كفروا

۵_ حضرت عيسي(ع) كے بارے ميں الله تعالى كا فرزند ہونے كاعقيدہ، كفرہے _ما كان لله أن يتّخذمن ولد فويل للذين كفروامن مشهد يوم عظيم

۶_ روزقيامت، گواہ، حضرت عيسي(ع) كے الله تعالى كے بيٹے ہونے كے خيال كے باطل ہونے پر الله تعالى كيلئے گواہى ديں گے _فويل للذين كفروامن مشهد يوم عظيم

۷_ كفار كے خلاف روز قيامت گواہى كا منظر، سخت اور ہلاكت ميں ڈالنے والا ہوگا _فويل للذين كفروامن مشهد يوم عظيم ( مشہد ) ممكن ہے اسم مكان ہو يعنى گواہى كى جگہ حرف ( من ) بتارہاہے كہ وہى گواہى كى جگہ كفار كيلئے (ويل )كا سرچشمہ ہے لہذا كہيں گے كہ انكے خلاف گواہى كامنظر، موت دينے والا اور عذاب ميں ڈالنے والا ہوگا اس طرح كہ اگر روز قيامت كسى كے ليے موت ممكن ہوتى توانكا ہلاكت وتباہى كے علاوہ كچھ مقدر نہ ہوتا _

۸_ روز قيامت ايك عظيم دن اور حاضر ہونے اور گواہى دينے كا مقام ہے _من مشهد يوم عظيم

( مشہد ) اگراسم مكان ہوتو مراد، حاضر ہو نے اور گواہى دينے كا مقام ہے اور يہ بھى ممكن ہے كہ مصدر ميمى ہواور قيامت ميں گواہى اور حضور كا معنى دے رہا ہو_

عقيدہ :الله تعالى كے بيٹے ركھنے كا عقيدہ ۵;اللہ تعالى كے فرزند ركھنے كے عقيدہ كا بطلان ۶

عيسى :عيسى پرايمان لانے والے ۲;عيسى كا بشر ہونا ۴ ;

۶۷۴

عيسي(ع) كو جھٹلانے والے۲ ; عيسي(ع) كا قصہ ۲;عيسى كى عبوديت ۴;عيسى كے بارے ميں اختلاف كرنے والے ۱; قيامت ميں عيسي(ع) كو جھٹلانے والے ۳

قيامت:قيامت كى عظمت ۸; قيامت كے ہول و پريشانى ۷;قيامت ميں حقائق كا ظہور ۶ ; قيامت ميں سختى ۳;قيامت ميں گواہى ۸; قيامت ميں گواہى دينے والے ۶

كفار۴:كفاركے خلاف اخروى گواہى دينے والے ۷

كفر:كفر كے اسباب ۴;۵

مريم(ع) :مريم (ع) كے زمانہ ميں لوگوں كا اختلاف ۱; مريم (ع) كا فرزند۴

مسيحيان:مسيحيوں ميں اختلاف ۱

آیت ۳۸

( أَسْمِعْ بِهِمْ وَأَبْصِرْ يَوْمَ يَأْتُونَنَا لَكِنِ الظَّالِمُونَ الْيَوْمَ فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ )

اس دن جب ہمارے پاس آئيں گے تو خوب سنيں اور ديكھيں گے ليكن يہ ظالم آج كھلى ہوئي گمراہى ميں مبتلا ہيں (۳۸)

۱_كفار روز قيامت اور الله تعالى كى بارگاہ ميں حاضر ہونے كے وقت، حيرت انگيز بصارت و سماعت كے حامل ہونگے _

أسمع بهم و أبصر يوم يأتوننا

(اسمع بہم ) و (ابصر)تعجب كے صيغے ہيں يعنى كسى قدر بصارت اور سماعت ركھنے والے ہيں _

۲_قيامت، حقائق كے واضع اور ظہور كا دن ہے _أسمع بهم و أبصر يوم يا توننا

۳_قيامت، لوگوں كا الله تعالى كے حضور ميں آنے كا دن ہےيوم يأتوننا

۴_ حقائق كا سامنا كرنااور انہيں درك و لمس كرنا ، كفار كيلئے روز قيامت عذابوں ميں سے ايك عذاب ہے _

۶۷۵

فويل للذين كفروا من مشهد يوم عظيم_ أسمع بهم وأبصر يوم يا توننا

گذشتہ آيت س كفار كيلئے روز قيامت ميں سختى اور شدت كا تذكرہ ہو ايہاں ان سختيوں ميں سے ايك كا ذكرہے اور وہ حقائق كا درك و فہم ہے _

۵_وہ لوگ جنہوں نے حضرت عيسي(ع) كو الله تعالى كا فرزند قرار ديتے ہوئے انكى توحيدى تعليمات سے كفر اختيار كيا وہ واضح گمراہى ميں پڑے ہوئے ہيں _لكن الظلمون اليوم فى ضلل مبين

( اليوم ) ميں الف ولام ممكن ہے عہد حضور ى ہو يعنى ''آج'' تواس صورت ميں اس سے مراد دنيا وى زندگى كے آيام ہيں اور گذشتہ آيت كے قرينہ كى بناء پر ( ظالمان ) سے مرادوہ ہيں كہ جنہوں نے حضرت عيسي(ع) كى بات كا انكا ركيا اور انكے بارے ميں افراط وتفريط كى راہ اختيار كى _

۶_ الله تعالى كيلئے حضرت عيسي(ع) كے فرزند ہونے كا گمان، ايك ظالمانہ گمان اور واضح گمراہى ہے _

ما كان لله أن يتخذ من ولد لكن الظلمون اليوم فى ضلل مبين

۷_ كفا ر،ظالموں اور گمراہوں كے زمرے ميں شمار ہوتے ہيں _فويل للذين كفروا لكن الظلمون اليوم فى ضلل مبين

۸_ روز قيامت، كفار كى سماعت و بصارت انكى نجات كا باعث نہ ہوگى _أسمع بهم وأبصر يوم يا توننا لكن الظالمون اليوم فى ضلل مبين (اليوم ) ميں اگر'' ال'' عہد ذكر ى ہو تو مراد روز قيامت ہے كہ جو ( يوم يا توننا ) ميں مطرح ہو ا ہے اور( لكن ) انكے وہم نجات سے استدراك ہے كہ جملہ (أسمع بهم وأبصر ) اسے وجود ميں لايا ہے _

۹_روزقيامت، حقائق كى شناخت اور اس پرايمان نجات كا موجب نہيں ہے _أسمع بهم وأبصر لكن الظلمون اليوم فى ضلل مبين

الله تعالى :الله تعالى كے حضور ۳

ظالمين:۷

ظلم :ظلم كے موارد ۶

عقيدہ :الله تعالى كے فرزند ركھنے كے بارے ميں عقيدہ ۵،۶;باطل عقيدہ ۶

قيامت :قيامت كى خصوصيات ۲،۱۳;قيامت ميں ايمان ۹; قيامت ميں حقايق كا ظہور ۲;۴

كفار:كفار كا آخرت ميں عذاب ۴; روز قامت كفار ۱; كفار كى اخروى بصارت كے آثار ۸; كفار كى

۶۷۶

اخروى حيرت انگيز بينائي ۱; كفار كى اخروى حيرت انگيز سماعت ۱;كفار كى اخروى سماعت كے آثار ۸; كفار كى گمراہى ۵

گمراہ :۷

گمراہى :گمراہى كے موارد ۶

مشركين:مشركين كى گمراہى ۵

آیت ۳۹

( وَأَنذِرْهُمْ يَوْمَ الْحَسْرَةِ إِذْ قُضِيَ الْأَمْرُ وَهُمْ فِي غَفْلَةٍ وَهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ )

اور ان لوگوں كو اس حسرت كے دن سے ڈرايئےب قطعى فيصلہ ہوجائے گا اگر چہ يہ لوگ غفلت كے عالم ميں پڑے ہوئے ہيں اور ايمان نہيں لارہے ہيں (۳۹)

۱_ روز قيامت كے حسر ت ناك واقعات كے حوالے سے لوگوں كو ڈارانے اور خبر دار كرنے ليے پيغمبر اكر م(ص) كى ذمہ ذارى _وأنذرهم يوم الحسرة

ضمير ( ہم ) جملہ ( أنذرہم ) ميں تمام لوگوں كو شامل ہے ( الحسرة ) كے ساتھ يوم كے اضافہ سے معلوم ہوتا ہے كہ اس دن سب اپنے ماضى پرافسوس كا اظہا ر كريں گے اس ليے اس روز كو روز حسرت كہا گيا ہے_

۲_ روز قيامت، لوگوں كا دنيا ميں اپنے اعمال پر حسرت و افسوس كا دن ہے _وأنذ رهم يوم الحسرة

۳_ ''يوم الحسرة ''( روز افسوس ) قيامت كے اسماء وصفات ميں سے ہے _وأنذرهم يوم الحسرة

۴_ روز قيامت، فرصت كے تمام ہونے اور غلطيوں اور انحرافات كے جبران نہ كر سكنے كادن ہے _

وأنذرهم يوم الحسرة إذ قضى الا مر

( يوم ا لحسرة ) كے قرينہ كى بناء پر ( الأمر) سے مراد ايسى فرصتيں ہيں كہ جس كا ہاتھ سے جانا ، حسرت كا باعث ہے اور ( قضى )'' قضا'' سے ہے جس كا مطلب '''فيصلہ كرنا اور اتمام كرنا'' ہے اسطرح كہ اب جبران نہ ہوسكتا ہو (مفردات راغب )

۶۷۷

۵_ كفار اور ظالمين، روز قيامت دنيا ميں مواقع كے ضائع ہونے كى بناء پر حسرت كريں گے _وأنذرهم يوم الحسرة إذ قضى الا مر (إذ قضى الا مر ) ميں''إذ يوم الحسرة'' كو بيان كررہا ہے اس سے مراد يہ ہے كہ روز حسرت اسى وقت ہے كہ جب موضوع ہى حتم ہو چكا ہو _

۶_ روز قيامت، امور كے فيصلہ اور انسان كے حتمى مقد ر طے كرنے كا دن _اذ قضى الا مر

ممكن ہے كہ ( الا مر ) سے مراد لوگوں كے جہنمى باجنتى ہونے قطعى تعيين ہو اس صورت ميں (قضى الأمر) كا تعلق قطعى احكام كے صادر ہونے اور اس مرحلہ سے گزرنے سے ہے _

۷_ حضرت عيسي(ع) كا الله تعالى كے فرزند ہونے كا عقيدہ ،روز قيامت حسرت وافسوس كا سبب ہے _

فاختلف الا حزاب وأنذرهم يوم الحسرة

۸_ غفلت اور بے ايمان كے ساتھ موت رو ز قيامت حسرت كا باعث ہے _وأنذرهم يوم الحسرة إذ قضى الا مر وهم فى غفلة وهم لايؤمنون ضمير (ہم ) پچھلى آيت ميں ( الظالمون) كى طرف لوٹ رہى ہے اور جملہ ( ہم فى ...) حاليہ ہے پس آيت كا مطلب يہ ہے كہ دنيا ميں ظالموں كى فرصت تمام ہو چكى ہے اس حال ميں كہ وہ غافل تھے اور معاد پر ايمان نہيں لائے _

۹ _ قيامت پر ايمان نہ لانا اور اسكے حسرت زدہ كرنے سے غفلت ظلم ہے _لكن الظالمون هم فى غفلة وهم لايؤمنون

۱۰_حضر عيسي(ع) كو الله تعالى كا فرزند سمجھنے والے غفلت كى گہرائيوں ميں غرق بے ايمان لوگ ہيں _فاختلف الأحزاب وهم فى غفلة وهم لايؤمنون '' غفلة'' كا نكرہ آنا بتا تا ہے كہ اسكى حدود واضح اور معين نہيں ہيں _

۱۱_ غافلوں اور قيامت كے منكرين كو انذار اور قيامت ميں حسرت كے اسباب سے خوف دلانا پيغمبر اكرم(ع) كے وظائف ميں سے ہے_وأنذ رهم يوم الحسرة وهم فى غفلة وهم لا يؤمنون

۱۲_ لوگوں انكے اخروى انجام سے غفلت سے ڈرانے اور بيدار كرنے كا ضرورى ہونا _وأنذرهم وهم فى غفلة

۱۳_ قيامت سے غفلت، كفر اختيار كرنے اور بے ايمان ہونے كا پيش خيمہ ہے _

وأنذرهم يوم الحسرة وهم فى غفلة وهم لايؤمنون

۱۴_عن رسول الله (ص) : إذا دخل أهل الجنّةالجنّة وأهل النار النار يقال : يا أهل الجنة خلود فلا موت ويا أهل النار خلود فلا موت ثم قرا رسول الله (ص) : (وأنذ رهم يوم الحسرة إذقضى الا مروهم

۶۷۸

فى غفلة ) وأشاربيده و قال : أهل الدنيا فى غفلة (۱) رسول اكر م(ص) سے روايت ہوئي ہے جببہشتى جنت ميں اور جہنمى جہنم ميں چلے جائيں گے _ تو كہا جائيگا اے جنت والو( يہ جگہ) تمھار ے ليے جاودانى ہے اور موت نہيں ہے اے جہنّم والو (يہ جگہ ) تمھار ے ليے جاودانى ہے اور موت نہيں ہے پھررسول خدا (ص) نے اس آيت كى تلاوت فرمائي''أنذرهم يوم الحسرة إذ قضى الا مر و هم فى غفلة '' اس وقت آنحضرت نے اپنے ہاتھوں سے اشارہ كيا اور فرمايا :اہل دنيا غفلت ميں ہيں _

آنحضرت :آنحضرت كى ذمہ دارى ۱;۱۱; ; آنحضرت كے ڈراوے ۱;۱۱

انسان :انسانوں كى غفلت ۱۴//جنت :جنت ميں جاودانى ۱۴

جہنم :جہنم ميں جاودانى ۱۴//حسرت :آخرت ميں حسرت كے اسباب ۵;۷;۸

ڈراوا:اخروى انجام سے ڈرائوا ۱۲; اخروى حسرت سے ڈراوا ۱۱; قيامت سے ڈراوا ۱

روايت :۱۴

ظالمين:ظالموں كى اخروى حسرت ۵

ظلم:ظلم كے موارد۹

عقيدہ :الله تعالى كے فرزند كے بارے ميں عقيدہ ركھنے كے اخروى آثار ۷

عمل :عمل كى فرصت ۴; عمل كے اخروى آثار ۲

غافلين :غافلين كو انذار ۱۱; عافلين كوانذار كرنے كى اہميت ۱۲

غفلت :اخروى حسرت سے غفلت ۹; قيامت سے غفلت كے آثار ۱۳

فرصت :فرصت كے تباہ ہونے كے آثار ۵

قيامت :قيامت كو جھٹلانے والوں كو انذار۱۱; قيامت كى خصوصيات ۲،۴،۶ ;قيامت كے نام ۳; قيامت ميں انجام كى تعيين ۶; قيامت ميں حسرت ۱

كفار :كفار كى اخروى حسرت ۵

____________________

۱) الدرامنشور ج۵ ص۵۱۱ و۵۱۲_

۶۷۹

كفر :كفر كا پيش خيمہ ۱۳

مشركين :مشركين كى بے ايمانى ۱۰; مشركين كى غفلت ۱۰

معاد:معاد كو جھٹلانا ۹

موت :غفلت كے ساتھ مرنے كے آثار ۸; كفر كے ساتھ مرنے كے آثار ۸

يوم الحسرة :۳

آیت ۴۰

( إِنَّا نَحْنُ نَرِثُ الْأَرْضَ وَمَنْ عَلَيْهَا وَإِلَيْنَا يُرْجَعُونَ )

بيشك ہم زمين اور جو كچھ زمين پر ہے سب كے وارث ہيں اور سب ہمارى ہى طرف پلٹا كرلائے جائيں گے (۴۰)

۱_ الله تعالى سارى زمين اور زمين والوں كا تنہا وارث ہے _إنا نحن نرث الأرض ومن عليه

۲_ الله تعالى كى مالكيت كے سوا باقى تمام مالك لغو اور فناء ہوجائيں گى _إنا نحن نرث الأرض ومن عليه

الله تعالى ابھى بھى كائنات كا حقيقى مالك ہے اس ليے ورثہ پانا سے مراد حقيقت ميں مالكيت كا انتقال نہيں ہے بلكہ مراد، اس سے دنيا كى اعتبارى مالكتيوں كا فناء ہونا اور انكے ساتھ مالكوں كا بھى فنا ہونا ہے تا كہ حقيقى مالك كامل طور پر ظاہر ہو اور اسكے مقابل كوئي اعتبار نہ رہے_

۳_مال و متاع اور طاقتيں كفرو غفلت ميں پڑنے كيلئے بڑے اسباب ميں سے ہيں _وهم فى غفلة وهم لا يؤمنون إنا نحن نرث الأرض

اس آيت كى گذشتہ آيت سے ربط كى وجوہات ميں سے ايك سبب غفلت اور اسے ختم كرنے كا بيان ہے اس آيت ميں الله تعالى نے لوگوں كو اپنے اندر غفلت كے اسباب ختم كرنے پر توجہ دلاتے ہوئے دنيا كى ثروت اور اہل زمين كے فناء ہونے پر تاكيد فرمائي _

۴_ تمام انسان، الله تعالى كى طرف لوٹا ئے جائيں گے_وإلينا يرجعون

( يرجعون) كے مجہول ہونے سے معلوم ہوتا ہے كہ خواہ انسان چاہيں يا نہ چاہيں الله تعالى كى طرف لوٹا ئے جائيں گے _

۵_ زمين كى تمام مخلوقات الله تعالى كى طرف لوٹ رہى ليں _ومن عليها وإلينا يرجعون

۶۸۰

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809

810

811

812

813

814

815

816

817

818

819

820

821

822

823

824

825

826

827

828

829

830

831

832

833

834

835

836

837

838

839

840

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863

864

865

866

867

868

869

870

871

872

873

874

875

876

877

878

879

880

881

882

883

884

885

886

887

888

889

890

891

892

893

894

895

896

897

898

899

900

901

902

903

904

905

906

907

908

909

910

911

912

913

914

915

916

917

918

919

920

921

922

923

924

925

926

927

928

929

930

931

932

933

934

935

936

937

938

939

940

941

942

943

944

945