تفسير راہنما جلد ۱۰

تفسير راہنما 4%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 945

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 945 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 253993 / ڈاؤنلوڈ: 3516
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱۰

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

فقال : ما ا علم شيأً بعد المعرفة ا فضل من هذه الصلاةا لا ترى أن العبد الصالح عيسى ابن مريم (ع) قال: وا وصانى بالصلاة والزكوة مادمت حياً'' (۱)

معاويہ بن وہب كہتے ہيں : ميں نے امام صادق سے پوچھا : بہترين چيز جو بندوں كے الله تعالى سے تقرب كا باعث ہو اور الله تعالى كے نزديك سب سے زيادہ محبوب ہو وہ كيا ہے ؟ فرمايا : ميں معرفت كے بعد نماز سے بہتر چيز نہيں جانتا كيا تم نہيں ديكھ رہے كہ الله تعالى كے صالح بندے عيسى ابن مريم نے كہا ہے _وا وصانى بالصلوة والزكات مادمت حيّا

۱۶_قال الصادق (ع) فى قوله ( وا صانى بالصلوة و الزكوة قال : زكاةالروؤس (۲) امام صادق (ع) نے حضرت عيسي(ع) كے كلام''وا وصانى بالصلاة والزكوة'' كے بارے ميں فرمايا : زكوة سرانہ يعنى '' فطرہ'' ہے _

احكام :۱۲

الله تعالى :الله تعالى كى بركات ۱; الله تعالى كى حيثيت ۴;اللہ تعالى كى نصحتيں ۵

انفاق :انفاق كى اہميت ۹//بركت :بركت كا سرچشمہ ۲;۴

تكليف :تكليف كى حدود۱۱//خير :خير كا سرچشمہ ۴

دنيا:دنيا كا كردار۱۱//ذكر :الله تعالى كا ذكر ۱۰

روايت :۱۳;۱۴;۱۵;۱۶

زكواة :زكواة فطرہ كى اہميت ۱۶; زكواة كى اہميت ۹ ; ۱۲ ;زكواة كى نصحيت ۵;۶;زكواة كے احكام ۱۲; مريم كے زمانہ ميں زكواة ۸عبوديت :عبوديت كى اہميت ۹

عيسى :عيسي(ع) كا تعارف ۶; عيسي(ع) كا خوش قدم ہونا ۱ ; عيسي(ع) كا قصہ ۶; عيسي(ع) كا كردار ۱۴; عيسي(ع) كو نصيحت ۵ ; عيسي(ع) كو وحى ۶;عيسى كى بركت ۱،۲، ۱۳،۱۴ ; عيسي(ع) كى بركت كى خصوصيات ۳; عيسي(ع) كى تعليمات ۱۴;عيسى كى خصوصيات ۶; عيسي(ع) كى رائے ۲;عيسى كى نومولودى ۲،۵; عيسي(ع) كے فضائل ۱،۲،۳،۱۳

لوگ :لو گوں ميں كى طرف توجہ كى اہميت ۱۰

____________________

۱) كافى ج۳ص۲۶۴ح، نورالثقلين ج۳ ص۴ ۳۳ ح۶۹

۲) تفسير قمى ج۲ ص۵۰، نورالثقلين ج۳ ص۳۳۵ح۷۰_

۶۶۱

مسيحيت :مسيحيت ميں زكواة ۷; مسيحيت ميں نماز ۷

نماز :مريم كے زمانہ ميں نماز ۸; نماز كى اہميت ۹; ۱۲ ; نماز كى فضيلت ۱۵; نماز كى نصيحت ۵;۶ ; نمازكے احكام ۱۲

آیت ۳۲

( وَبَرّاً بِوَالِدَتِي وَلَمْ يَجْعَلْنِي جَبَّاراً شَقِيّاً )

اور اپنى والدہ كے ساتھ حسن سلوك كرنے والا بنايا ہے اور ظالم و بد نصيب نہيں بنايا ہے (۳۲)

۱_والدہ كے ساتھ اچھا سلوك اور انہيں محترم جاننا ، حضرت عيسي(ع) كى ولادت كے آغاز سے ہى ان ميں الہى سيرت اور خدا دادى خصلت _وبرّاً بوالدتي

۲_ حضرت عيسي(ع) نے گہوارہ ميں اپنى والدہ حضرت مريم كے حوالے سے اپنے آپ كا حسن سلوك سے پيش آنے والا اور اچھائي كرنے ولافرزند كے عنوان سے تعارف كروايا اوراس خصوصيت كو الہى عطيہ جانا _وبرّاً بوالدتي

گذشتہ آيت كے قرينہ سے ''وبرّا بوالدتي'' يہ جملہ مقدر ہے _وجعلنى برّا بوالدتي

۳_ حضرت عيسي(ع) نے اپنى خصوصيات بتاتے ہوئے اپنى بغير باپ كے ولادت پرتاكيد كي_وبرّاً بوالدتي

حضرت عيسي(ع) نے نيكى كرنے كے حوالے سے

صرف اپنى والدہ كا تذكرہ كيا اپنے والد كا ذكر درميان ميں نہيں لائے تا كہ اپنى گفتگو ميں اس بات پر كہ انكى والدہ پاكدامن ہيں تائيد كريں _

۴_حضرت مريم گناہ وفحشا سے پاك ومنزہ اور بہت زيادہ اكرام كے لائق ہيں _لقد جئت شياً فريّاً وبرّاًبوالدتي

حضرت عيسي(ع) نے اپنے معجزہ كے ساتھ حضرت مريم كو لوگوں كى غلط تہمت سے برى الزمہّ كيا _ اور ساتھ ہى اپنے آپ كو حضرت مريم كا خدمت گزا ر پيغمبر (ع) بتلا يا اور خدمت گزارى كے بيان ميں صفت شبہ (برّاً) كوا ستعمال كيا جو كہ ثبوت ودوام پر دلالت كرتى ہے تا كہ بہت زيادہ تاكيد كرتے ہوئے حضرت مريم كے احترام كواپنى ذمہ دارى شمار كريں _

۵_ حضرت عيسي(ع) جباريت سركشى اور آمريت سے منزہ اور رنج وشكست سے دور تھے _ولم يجعلنى جباراً شقيًا

( جبار) اسے كہتے ميں جو اپنے آپ كو برتر

۶۶۲

جانتے ہوئے كسى كے ليے اپنے اوپر كسى قسم كے حق كا قائل نہ ہو ( قاموس ) اسى طرح وہ جو حق قبول كرنے سے انكار كرے اوراسى طرح جو دوسروں كو اپنے تحت لائے اسے بھى جباّر كہتے ہيں (مفردات راغب ) شقاوت ) يعنى سختى اور شدت ( قاموس ) اسى طرح سعادت ( كاميابى ) كے مقابل معنى ميں بھى استعمال ہوتا ہے _ ( مفردات راغب )

۶_ الله تعالى كى عنايات نے حضرت عيسي(ع) كوحق قبول كرنے والا ، خو ش بخت ا ور نرم مزاج والا شخص بناديا_

ولم يجعلنى جباراً شقيّ

۸_جباريت حق دشمن اور دوسروں كو غلام بنانا، شقاوت اور بدبختى كے اسباب ميں سے ہيں _ولم يجعلنى جباراً شقيً

( شقيًا)ممكن ہے ( جباّراً) كيلئے صفت توضيحى ہو يعنى جو بھى جباّرہو ا وہ شقى بن جائے گا _

۹_والدہ كے ساتھ نيكى كو ترك كرنا، بدبختى كى علامت ہے _وبرّاً بوالدتى و لم يجعلنى جبّاراً شقيًا

ممكن ہے ( لم يجعلنى ) كا گذشتہ جملے پر'' عطف '' عطف سببب بر مسبب ہو يعنى چونكہ الله تعالى نے مجھے جباراور شقى نہيں بنايااس ليے ميں اپنى والدہ كے ساتھ نيك سلوك كرنے والا ہوں لہذا جو اپنى والدہ كے ساتھ نيكى ترك كرے وہ شقى اور جباّر ہے _

۱۰ _والدہ كے ساتھ نيكى اور اپنى خواہشات كوان پر مسلّط كرنے سے پرہيز ضرورى ہے _وبرّاًبوالدتى ولم يجعلنى جبارا

جملہ ( لم يجعلنى جباراً )( الله تعالى نے مجھے جبار نہيں قرار ديا ) قرينہ ( برّا بوالدتى ) كے ساتھ يہ معنى دے رہا ہے كہ ميں اپنى والدہ كے در مقابل جباّر نہيں ہوں _

۱۱_عن أبى عبدا لله (ع) ( فى تعريف الكبائر) و منها عقوق الوالدين لانّ اللّه _ عزوجل _جعل العاقّ جباراً شقياً فى قوله حكاية، قال عيسي(ع) (ع) : و''برّاًبوالدتى ولم يجعلنى جباراً شقياً (۱) ( گناہ كبيرہ كى وضاحت ميں ) امام صادق (ع) سے روايت ہوئي ہے كہ عقوق والدين ميں سے ايك والدين كى نافرمانى بھى ہے كيونكہ الله تعالى نے اپنى كلام ميں حضرت عيسي(ع) سے نقل كرتے ہوئے عاق نافرمانى كرنے والے كو جباّر اور شقى قرار ديا ہے_جيسا كہ يہ فرمايا :

الله تعالى :الله تعالى كى عنايت كے آثار ۶

الله تعالى كے عطيات :الله تعالى كے عطيات كے شامل حال ۲

تسلط چاہنا:تسلط چاہنے سے پرہيز ۷;تسلط چاہنے كے آثار ۸

____________________

۱)عيون اخبارالرضا ج۱، ص۲۸۶،ب۲۸ح۳۳ نورالثقلين ،ج۳، ص۳۳۵، ح۷۱_

۶۶۳

جباريت :جباريت كے آثار ۸

حق :حق كے ساتھ دشمنى كے آثار ۸

روايت :۱۱

شقاوت :شقاوت سے پرہيز ۷; شقاوت كى علامات ۹; شقاوت كے اسباب ۸; شقاوت كے اسباب سے پرہيز ۷

ظلم :ظلم سے پرہيز ۷

عيسى (ع) :عيسي(ع) كا قصہ ۳ عيسي(ع) كا منزہ ہونا ۵;عيسى (ع) كانيكى كرنا ۱ ; عيسي(ع) كى تواضع ۵; عيسي(ع) كى خوش رفتارى ۲;عيسي(ع) كى خلقت كے حوالے سے خصوصيات ۳;عيسى (ع) كي رائے ۲;عيسى كى سعادت مندي۵; عيسي(ع) كا سعادت كا سرچشمہ ۶; عيسي(ع) كى سيرت۱; عيسي(ع) كى عصمت ۵; عيسي(ع) كے حق قبول كرنے كا سرچشمہ ۶; عيسي(ع) كے فضائل ۱،۲،۵،۶

گناہ كبيرہ : ۱۱

ماں :ماں پر اپنى جباّريت مسلط كرنے سے پرہيز ۱۰; ماں سے نيكى ۱;۲;ماں سے نيكى ترك كرنے كے آثار ۹; ماں سے نيكى كرنے كى اہميت ۱۰; ماں كا احترام ۱

مريم (ع) :مريم (ع) كا احترام ۴; مريم (ع) كا منزہ ہونا ۴ مريم (ع) كى عصمت ۴; مريم (ع) كى عفت ۴; مريم (ع) كے فضائل ۴

والدين :والدين كے عاق ہونے كا گناہ ۱۱

آیت ۳۳

( وَالسَّلَامُ عَلَيَّ يَوْمَ وُلِدتُّ وَيَوْمَ أَمُوتُ وَيَوْمَ أُبْعَثُ حَيّاً )

اور سلام ہے مجھ پر اس دن جس دن ميں پيدا ہوا اور جس دن مروں گا اور جس دن دوبارہ زندہ اٹھايا جاؤں گا (۳۳)

۱_ حضرت عيسي(ع) نے گہوارہ ميں اپنى ولادت موت اور حشر كے مراحل ميں اپنى سلامتى اور مكمل امن كا اعلان فرمايا _والسّلام على يوم ولدت و يوم أموت و يوم أبعث حيّا

( السّلام ) ميں ''الف و لام'' خصوصيات كے استقراق كيلئے ہے يعنى مكمل اور تمام خصوصيات كے ساتھ سلامتى اسى ليے يہ سلام حضرت يحيى كے حوالے سے سلام كے ساتھ مختلف ہے _

۶۶۴

۲_ حضرت عيسي(ع) ولادت كے زمانہ ميں صحيح و سالم اور رشد و كمال كيلئے تياّر، جسم و روح كے مالك تھے _

والسّلام على يوم ولدت

۳_ حضرت عيسي(ع) كے ليے موت كے لمحات اور روز محشرميں مكمل سلامتى او رحفاظت حضرت عيسي(ع) كيلئے ضمانت شدہ ارو ناقابل تغييّر ہے _والسّلام عليّيوم أموت ويوم أبعث حيّا

۴_حضرت عيسي(ع) نے اپنى ولادت كے مرحلہ كوہر عيب وبدى سے محفوظ كہتے ہوئے اپنى والدہ حضرت مريم (ع) كے لوگوں كے غلط الزامات سے پاك اور منزہ ہونے پر تاكيد كى _والسّلام عليّ يوم ولدت

۵_ ولادت موت اور حشر كازمانہ انسان كيلئے تين حساس اور تقدير ساز مراحل ہيں _والسّلام عليّ يوم أبعث حيّا

۶_ انسان ،صحت وسلامتى اورالہى حفاظت كامحتاج ہے حتّى كہ موت كے لمحات ميں بھى _والسّلام عليّ يوم أموت

موت كے وقت سلامتى سے مراد وحشت ، ناميدى اور اضطراب وغيرہ سے دو ر ہونا ہے كہ الله اور معاد كے منكر اسميں گرفتار ہونگے _

۷_حضرت مريم (ع) پر تہمت لگانے والے سلامتى اور امن سے بے بہرہ تھے _والسّلام عليّ

( السّلام ) يعنى مكمل سلامتى جو كہ تمام خصوصيات ليے ہوئے ہو يہ كلام جو كہ حصر اضافى كا حامل ہے ان لوگوں كے در مقابل جو حضرت مريم كو توبيخ كرنے كيلئے آئے تھے ايك قسم كى تعريض پر مشتمل ہے يعنى صرف ميں ، مكمل سلامتى ركھتا ہوں ليكن تم لوگ اسے نہيں ركھتے ہو _

۸_ حضرت عيسي(ع) دوسرے انسانوں كى طرح ولادت ،موت اور حشر كے مراحل ليے ہوئے ہيں اور خود اس چيز كا اعتراف كرتے ہيں _يوم ولدت ويوم أموت ويوم أبعث حيّا

۹_ حضرت عيسي(ع) بعض، پيش آنے والے حوادث سے آگا ہ تھے _والسّلام عليّ يوم أموت

۱۰_ اپنے سے يادوسروں سے تہمتوں كو دور كرنے كيلئے اپنى خصوصيات اور امتيازات كو شمار كرنا، نا پسنديدہ نہيں ہے _

قال إنى عبدالله ويوم أبعث حيّا

۱۱_حضرت عيسي(ع) كيلئے آخرت ميں خصوصى زندگى _ويوم أبعث حيّا

اگر چہ فعل (ا بعث ) زندہ ہونے پر دلالت كررہا ہے ليكن ( حيّا ) كے ساتھ اس كى تصريح شايد اس ليے ہو كہ دوسروں كى نسبت حضرت عيسي(ع) كو آخرت ميں خصوصى زندگى حاصل ہوگي_

۶۶۵

۱۲_ انسان، قيامت ميں دوبارہ زندہ ہونگے _يوم اموت ويوم أبعث حيّا

اپنى تعريف :اپنى تعريف كاجائز ہونا ۱۰

امن و حفاظت :موت كے وقت امن و حفاظت ۶

انسان :انسان كى ضرورتيں ۶//تقدير :تقدير ميں موثر اسباب ۵

تہمت :دوسروں سے تہمت كو دور كرنا ۱۰

حشر :حشر كى اہميت ۵

خود :خود سے تہمت كا دور كرنا ۱۰

سلامتى :موت كے وقت سلامتى ۶

ضرورتيں :امن كى ضرورت ۶; سلامتى كى ضرورت ۶

عيسى (ع) :عيسي(ع) كى اخروى امنيت ۱;۳; عيسي(ع) كى اخروى سلامتى ۱;۳; عيسي(ع) كا اقرار ۸; عيسي(ع) كا بشر ہونا ۸; عيسي(ع) كے رشد كا پيش خيمہ ۲; عيسي(ع) كے كمال كا پيش خيمہ ۲; عيسي(ع) كى تقدير ۹; عيسي(ع) كى حفاظت كا حتمى ہونا ۳; عيسي(ع) كى سلامتى كا حتمى ہونا ۳; عيسي(ع) كا حشر ۸; عيسي(ع) كے حشر كى خصوصيات ۳; عيسي(ع) كى خصوصيات ۱۱; عيسي(ع) كى موت كى خصوصيات ۳; عيسي(ع) كى ولادت كى خصوصيات ۴; عيسي(ع) كى آخرت ميں زندگى ۱۱;عيسى (ع) كى دنياوى سلامتي۱; عيسي(ع) كے امن كا سرچشمہ ۱; عيسي(ع) كى سلامتى كا سرچشمہ۱; عيسي(ع) كى سلامتى ۲;۴; عيسي(ع) كا علم غيب ۹; عيسي(ع) كا قصہ ۴; عيسي(ع) كا نومولودى ميں كلام كرنا ۱; عيسي(ع) كا منزہ ہونا ۴; عيسي(ع) كى موت ۸; عيسي(ع) كى ولادت ۲;۸

مردے:مردوں كى اخروى زندگى ۱۲

مريم (ع) :مريم (ع) پر تہمت لگانے والوں كا ناامن ہونا ۷;مريم (ع) كا قصہ ۴; مريم (ع) كا منزہ ہونا ۴

موت :موت كى اہميت ۵

نظريہ كائنات :نظريہ كائنات اور آئڈيالوجى ۱۲

ولادت :ولادت كى اہميت ۵

۶۶۶

آیت ۳۴

( ذَلِكَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ قَوْلَ الْحَقِّ الَّذِي فِيهِ يَمْتَرُونَ )

يہ ہے عيسى بن مريم كے بارے ميں قول حق جس ميں يہ لوگ شك كر رہے تھے (۳۴)

۱_قرآن، حضرت عيسي(ع) كى شخصيت اور حقيقى داستان بيان كرنے والاہے _ذلك عيسى ا بن مريم قول الحق

( ذلك ) كا اشار ہ ان اوصاف كا حامل ہے كہ جن كا گذشتہ آيات ميں ذكر ہو ا ہے اور ( قول الحق ) فعل محذوف ( اقول) كا مفعول ہے _ يعنى حقيقى بات كررہا ہوں _

۲_ حضرت عيسي(ع) مريم كے فرزند، اور بلند مقام و منزلت كے مالك ہيں _ذلك عيسى ابن مريم

( ذلك ) بعيد كيلئے اشارہ كے طور پر استعمال ہوتا ہے جب اسے نزديك كيلئے استعمال كيا جائے تو وہاں مقصود مورد اشارہ كى عظمت منزلت او ر بڑائي كا بيان ہے _

۳_ حضرت عيسي(ع) بغير والد كے تخليق ہوئے ذلك عيسى ابن مريم حضرت عيسي(ع) كى والدہ كى طرف نسبت دينا جب كہ ايسى نسبت رواج كے مطابق نہيں ہے_مندرجہ بالا نكتہ كو بيان كررہى ہے _

۴_ حضرت عيسي(ع) اللہ تعالى كے فرزند نہيں ہيں _عيسى ابن مريم

حضرت عيسي(ع) كى اپنى والدہ حضرت مريم كى طرف نسبت تعريضى ہے ان كے حوالے سے جو انہيں الله تعالى كا فرزند جانتے ہيں _ لہذا نہيں سوائے ماں كے كسى اور طرف منسوب نہيں كرنا چايئےعد والى آيت اسى نكتہ كو واضع كررہى ہے_

۵_ قرآن، تاريخى حقائق اور انكى واقعيت كوبيان كرنے والا ہے _ذلك عيسى ابن مريم قول الحق الذى فيه يمترون

۶_ حضرت عيسي(ع) اللہ تعالى كا كلمہ اور اسكے فرمان سے وجودپانے والے ہيں _

ذلك عيسى ابن مريم قول الحق

(قول) كا منصوب ہونا ممكن ہے اسكے حال ہونے كى بناء پر ہو اور يہ بھى احتمال ہے كہ فعل مدح محذوف كى وجہ سے منصوب ہو _ ان دو احتمالو ں كى بنياد پر الله تعالى كى كلام ميں ( قول الحق ) سے مراد، اسكے فرمان پر حضرت عيسي(ع) كى خلقت ہے_

۷_حضرت عيسي(ع) كى ماہيت كے بارے ميں ( انكے بشر ہونے اور بغير باپ كے وجود ميں آنے ميں ) تاريخى ادوار ميں غلط قسم كى ترديد وشك موجود ہے_ذلك عيسى ابن مريم الذى فيه يمترون

۶۶۷

( الذي) عيسي(ع) يا'' قول الحق'' كيلئے صفت بے اور (امترائ) ( ''يمترون ''كا مصدر ) شك وترديد كے معنى ميں ہے صيغہ'' يمترون'' كا غيب ذكر ہونا اس بات سے حكايت كررہاہے كہ مسلمانوں سے ہٹ كرايسے لوگ بھى تھے كہ جو حضرت عيسي(ع) كے بارے ميں ايسے عقائد ركھتے تھے كہ جو كہ يقين كى منزل پر نہيں تھے _

الله تعالى :الله تعالى كے اوامر ۶; الله تعالى كے كلمات ۶

تاريخ :تاريخ كے سرچشمہ ۵

عيسى (ع) :عيسى اور الله تعالى كا فرزندہونا ۴;عيسى (ع) كا بشر ہونا ۷; عيسي(ع) كا قصہ ۱;عيسى (ع) كى خلقت كا سرچشمہ ۶; عيسي(ع) كى خلقت كے حوالے سے خصوصيات ۳، ۷; عيسي(ع) كى ماں ۲; عيسي(ع) كے بارے ميں شك ۷; عيسي(ع) كے فضائل ۶; عيسي(ع) كے مقامات ۲

قران مجيد :قران مجيد كى تعليمات ۱;۵

مريم :مريم كا فرزند ۲

آیت ۳۵

( مَا كَانَ لِلَّهِ أَن يَتَّخِذَ مِن وَلَدٍ سُبْحَانَهُ إِذَا قَضَى أَمْراً فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُن فَيَكُونُ )

اللہ كے لئے مناسب نہيں ہے كہ وہ كسى كواپنا فرزند بنائے وہ پاك و بے نياز ہے جب كسى بات كا فيصلہ كرليتا ہے تو اس سے كہتا ہے كہ ہو جا اور وہ چيز ہوجاٹى ہے (۳۵)

۱_اللہ تعالى كا مقام اس چيز سے انتہائي بلند و برتر ہے كہ وہ اپنے ليے كوئي فرزند انتخاب كرے _ما كان لله أن يتّخذ من ولد ( ما كان ) كى تعبير اس وقت استعمال ہوتى ہے

كہ جب اسميں كوئي پائدار سنت يا كسى موجود كى ذاتى خصوصيات موجود ہوں اور ان كا وضاحت ہوں اس آيت ميں ''اتخاذ ولد'' ميں اس تعبير سے نفى كى گئي ہے يعنى اس چيز كى الله تعالى كے ساتھ كوئي نسبت نہيں ہے _ ( أن يتخذ) كى تعبير انتہائي لطيف وظريف ہے يعنى اس باطل عقيدہ ميں بھى وہى ہے جوكہ انتخاب كرنے والاہے اور اسكا انتخاب شدہ اسى سے وابستہ ہے اور اسكى مخلوق ہے_

۲_ حضرت عيسي(ع) كو الله تعالى كا فرزند بنانے كا وہم ، انكى ولادت اور معجزانہ طريقہ سے كلام كرنے كے واقعہ كے غلط

۶۶۸

تجزيہ كى بناء پر پيدا ہوا _ذلك عيسى ابن مريم ماكان الله أن يتخذ من ولد

حضرت عيسي(ع) كى ولادت كے بعد الله تعالى كے فرزند كى نفى كرنا ہو سكتا ہے اس نكتہ كو بيان كررہا ہو كہ ايك گروہ نے اس معجزانہ واقعات كو حضرت عيسي(ع) كے الله تعالى كے فرزند ہونے كى دليل جانا _

۳_ الله تعالى نے نہ تو حضرت عيسي(ع) اور نہ ہى كسى اور كو اپنا فرزند قرارديا ہے_ذلك عيسى ابن مريم ماكان للّه أن يتخذمن ولد (ولد) يہاں پر نكرہ نفى كے سياق ميں ہے جو كہ افادہ عموم كررہا ہے _

من زائدہ ہے اور تاكيد پر دلالت كررہا ہے لہذا آيت ميں عموميت تاكيد كے ساتھ مراد ہے _

۴_فرزندركھنا ،نقص اور احتياج كى علامت ہے _ما كان لله أن يتخذ من ولد سبحنه يہاں ( سبحانہ ) فعل مخذوف جيسے ( سجود ) كيلئے مفعول مطلق ہے يعنى اسے منزّہ جانيے جس طرح منزّہ جاننے كا حق ہے يہان تنزيہ كا استعمال، اس بات كى علامت ہے كہ ''اتحاد ولد''نقص اور كمى كى علامت ہے اوراللہ تعالى اس سے منزہ ہے _

۵_ الله تعالى ہر قسم كے نقص اور احتياج سے منزہ ہے_ما كان لله أن يتخذ من ولد سبحنه

۶_ الله تعالى كى ذات اقدس كا ہر قسم كے نقص و احتياج سے منزہ ہونا ضرورى ہے _سبحنه

۷_اللہ تعالى قدرت مطلقہ كا مالك ہے اور جسے وجود ميں لانا ہوتو وہ اسے لانے پر قادر ہے _إذا قضى أمراًفإنمايقول له كن فيكون

۸_ہر وجود كى خلقت، الله تعالى كے ارادہ اور اسكے پيداہونے كے فرمان كى بناء پرہے _إذاقضى أمراً فإنما يقول له كن فيكون

۹_ الله تعالى كسى چيز كو وجود ميں لانے كيلئے اسباب و وسائل كے استعمال كا محتاج نہيں ہے _إذا قضى أمراً فإنما يقول له كن فيكون

الله تعالى كا اسباب و وسائل كا محتاج نہ ہونے كا مطلب يہ نہيں ہے كہ وہ انہيں استعمال نہيں كرتا _ بلكہ اس سے مراد يہ ہے كہ اسباب و وسائل كا مقام اسكے ارادہ اور فرمان كے بعدہے لہذا اسكا ارادہ كسى وسيلہ كے ساتھ محدود نہيں ہے اور يہ سب وسائل اسكے فرمان اور اس صورت ميں عمل كرتے ہيں جيسا وہ چاہتا ہے _

۱۰_ كسى چيز كے موجود ہونے ميں الله تعالى كے فرمان كا محقّق ہونا ہى كافى ہے _إذا قضى أمراً فإنما يقول له كن فيكون

۶۶۹

( إنّما) حصر پردلالت كررہا ہے _ يعنى موجودات كے محقّق ہونے ميں سوائے الہى فرمان كے كسى اور چيز كى احتياج نہيں ہے_

۱۱_ الہى فرمان اور كسى چيز كے پيدا ہونے اور محقق ہونے ميں كوئي فاصلہ نہيں ہے _يقول له كن فيكون (فائ) كے ذريعے '' يكون'' كا عطف الله تعالى كے ارادہ اور مقصود كے متحقق ہونے ميں كسى قسم كے فاصلہ كے نہ ہونے پر دلالت كررہا ہے _

۱۲_ الله تعالى كا تمام موجودات كے ساتھ رابطہ، خالق اور مخلوق كا رابطہ ہے نہ كہ باپ اور فرزند كا ربطہماكان لله أن يتخذ من ولد سبحنه يقول له كن فيكون اگر حضرت عيسي(ع) كى ولادت كو انكے فرزند الہى ہونے كى دليل قرار ديا جائے جيسا كہ باطل فكر كرنے والے كہتے ہيں تو پھر تمام موجودات كو فرزند الہى كہنا چاہيے اس ليے كہ خداوند عالم نے تمام موجودات من جملہ ( حضرت عيسي(ع) ) كو (كن) فرمان كے ذريعے پيدا كيا ہے _

۱۳_ الله تعالى كى ہر اس چيز كے ايحاد پر قدرت كہ جسے وہ چاہے يہ اسكے فرزند انتخاب كرنے سے منزہ ہونے پر دليل ہے _

ماكان للّه أن يتخذ من ولد سبحنه إذا قضى أمراً فيكون

۱۴_ حضرت عيسي(ع) كى ولادت اور كلام كرنے كا واقعہ ، ارادہ الہى كى تمام كا ئنات پر حاكميت كا نمونہ ہے نہ كہ حضرت عيسي(ع) كے فرزند الہى ہونے كى نشاني_ما كان لله أن يتخذ من ولد إ ذا قضى أمراً فإنما يقول له كن فيكون

۱۵_ الہى قضا اور حكم، ناقبل تغيّر ہے _إذا قضى أمراً فإنما يقول له كن فيكون

۱۶_( قال الرضا (ع):ثم جعل الحروف بعد إحصا ئها وإحكام عدتها فعلاً منه كقوله _ عزّوجلّ _( كن فيكون ) و كن منه صنع وما يكون به المصنوع (۱)

امام رضا(ع) فرماتے ہيں خداوند عالم حروف كو ان كے اعداد محكم كرنے كے بعد اپنا فعل قرار ديا جيسا كہ خداوند عالم كے اس فرمان ميں آيا ہے''كن فيكون'' كلمہ ''كن'' خداوند عالم كى طرف سے ايجاد دہے اور جو بھى اس كے نتيجے ميں موجود ہوگا وہ اس كى مخلوق ہوگي_

اسماء صفات :صفات جلال ۲;۵;۶//الله تعالى :

____________________

۱) توحيد صدوق ص۴۳۶ ب۶۵ح۱ نور:الثقلين ج۴ ص۳۹۷ح۹۹_

۶۷۰

الله تعالى اور فرزند ۱،۳،۱۲،۱۳; الله تعالى اور موجودات ۱۲; الله تعالى اور محتاجى ۵،۶;اللہ تعالى اور نقص ۵،۶;اللہ تعالى كا علو۱; الله تعالى كا منزہ ہونا ۱،۳،۵;اللہ تعالى كى خالقيت ۷،۱۲; الله تعالى كى خالقيت كى خصوصيات ۹;اللہ تعالى كى قدرت ۷،۹;اللہ تعالى كى قدرت كے آثار ۱۳;اللہ تعالى كى قضاكا حتمى ہونا ۱۵;اللہ تعالى كى مخلوقات ۱۶; الله تعالى كى مشيت ۱۳; الله تعالى كے افعال ۱۶; الله تعالى كے اوامر ۸ ; الله تعالى كے اوامر كا كردار ۱۰;اللہ تعالى كے اوامر كا فورى ہونا ۱۱;اللہ تعالى كے مقد ر كرنے كے آثار ۸;اللہ تعالى كے منزّہ ہونے كى اہميت ۶;اللہ تعالى كے منزّہ ہونے كے دلائل ۱۳; الله تعالى كے مقدرات ۷ ; خداوند عالم كے ارادہ كى حاكميت كى نشانياں ۱۴ ;

جہالت :جہالت كے آثار ۲

روايت :۱۶

عقيدہ :الله تعالى كے فرزند ركھنے كے عقيد ہ كا سرچشمہ ۲; باطل عقيدے كا سرچشمہ ۲

عيسى (ع) :عيسى (ع) كا قصہ ۱۴; عيسي(ع) كا نومولودى ميں كلام كرنا ۲،۱۴; عيسي(ع) كى ولادت ۲،۱۴

فرزند ركھنا :فرزند ركھنے كے آثار ۴

محتاج :محتاجى كى علامت ۴

موجودات :موجودات كا خالق ۱۲; موجودات كى خلقت ۱۱;موجودات كى خلقت كا سرچشمہ ۸، ۱۰;

نظام اسباب :۹

نقص:نقص كى علامات ۴

آیت ۳۶

( وَإِنَّ اللَّهَ رَبِّي وَرَبُّكُمْ فَاعْبُدُوهُ هَذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِيمٌ )

اور اللہ ميرا اور تمھارا دونوں كا پروردگار ہے لہذا اس كى عبادت كرو اور يہى صراط مستقيم ہے (۳۶)

۱_حضرت عيسي(ع) نے گہوارہ ميں الله تعالى كى اپنے اور دوسرے تمام انسانوں كے پروردگار ہونے كے

۶۷۱

عنوان سے شناخت كردائي _وإن الله ربّى ربّكم

جملہ (إن الله ربى ) پچھلى آيات ميں جملہ (إنى عبدالله ...) پر عطف ہے يہ آيت بھى حضرت عيسي(ع) كى گہوارہ ميں بعض باتوں كو نقل كررہى ہے _ لہذا آيات (ذلك عيسي(ع) كن فيكون ) يہاں جملہ معترضہ ہيں اس جملہ كى سورة آل عمران اور سورہ زخرف ميں حضرت عيسي(ع) سے نقل شدہ جملات سے مشابہت مندجہ بالا نكتہ پرتاكيد كررہى ہے _

۲_ حضرت عيسي(ع) نے اپنے آپ كو دوسرے تمام لوگوں كى طرح الله تعالى كى ربوبيت كى طرف محتاج ايك مخلوق جانا اور اسكا سب كے سامنے اعلان كيا _وإن الله ربّى وربّكم

۳_ حضرت عيسي(ع) كى گہوارہ كى باتوں ميں سے تمام لوگوں كو توحيدقبول كرنے اور الله واحد كى عبادت كرنے كى دعوت _

وإن الله ربيّ و ربّكم فاعبدو

۴_ الله تعالى تمام انسانوں كے امور كى تدبير كرنے والا اور انہيں پالنے والاہے _وإن الله ربّى و ربّكم

۵_اللہ واحد كى عبادت و پرستش لازم ہے _فاعبدوه

۶_ پروردگاركےليے عبوديت كا ضرورى ہونا ايك ايسا وظيفہ ہے كہ جو كسى قسم كى دليل كا محتاج نہيں ہے _

وإن الله ربّى و ربّكم فاعبدوه

حضرت عيسي(ع) كى كلام ميں يہ موضوع كہ ( جو بھى رب ہو وہ پرسش كے لائق ہے ) ايك قبول شدہ بنيادى و اصلى بات تھى _

۷_ الله تعالى كى تمام انسانوں پر وسيع ربوبيت كى طرف توجہ، اسكے غير كى پرستش كو ترك كرنے كا باعث ہے_وإن الله ربّى وربّكم فاعبدو جملہ'' إن الله فاعبدوہ''كيلئے علت ہو سكتا ہے يعني'' اعبدو الله لأنه ربيّ وربّكم ''

۸_ الله تعالى كى ربوبيت پرعملى ايمان، عبادت ہے _وان الله ربّى و ربّكم فاعبدوه

۹_ الله واحد كى پرستش اورربوبيت ميں توحيد پراعتقاد، صراط مستقيم ہے _وإن الله ربّى وربّكم فاعبدوه هذا صراط مستقيم

۱۰_اللہ تعالى كى عبادت كا اصلى مقصد، صراط مستقيم كا راستہ پاناہے _فاعبدوه هذا صراط مستقيم

۱۱_ حضرت عيسي(ع) لوگوں كو صراط مستقيم كى طرف دعوت كرنے والے تھے _هذا صراط مستقيم

الله تعالى :

۶۷۲

الله تعالى كى تدبير۴;اللہ تعالى كى ربوبيت ۱;۴; الله تعالى كى ربوبيت قبول كرنا ۸

انسان :انسانوں كى تربيت كرنے والا ۱،۴; انسانوں كى شرعى ذمہ داري۶;انسانوں كى عبوديت كا بديہى ہونا ۶; انسانوں كے امور ميں تدبير كرنے والا ۴

توحيد:توحيد ربوبى كى طرف دعوت ۳; توحيد عبادى ۹; توحيد عبادى كى اہميت ۵; توحيد عبادى كى طرف دعوت ۳

ذكر :الله تعالى كى ربوبيت كے ذكر كے آثار ۷

صراط مستقيم :صراط مستقيم كى طرف دعوت ۱۱; صراط مستقيم كى طرف ہدايت ۱۰

ضرورتيں :الله تعالى كى ربوبيت كى ضرورت ۲

عبادت :الله تعالى كى عبادت كا بديہى ہونا ۶;اللہ تعالى كى عبادت كا زمينہ ۷;اللہ تعالى كى عبادت كا فلسفہ ۱۰; عبادت كے آثار ۸;اللہ تعالى كى عبادت كى اہميت ۵; غير خدا كى عبادت كو ترك كرنے كا زمينہ۷

عقيدہ :توحيد ربوبيت پر عقيدہ ۹

عيسى (ع) :عيسى (ع) كى دعوتيں ۳;۱۱; عيسي(ع) كا عقيدہ ۲; عيسي(ع) كا قصہ ۱; عيسي(ع) كا مربى ہونا ۱;عيسى (ع) كا نومولودى ميں كلام كرنا ۱;۳; عيسي(ع) كى معنوى ضروريات ۲

نظريہ كائنات :توحيدينظريہ كائنات ۴

آیت ۳۷

( فَاخْتَلَفَ الْأَحْزَابُ مِن بَيْنِهِمْ فَوَيْلٌ لِّلَّذِينَ كَفَرُوا مِن مَّشْهَدِ يَوْمٍ عَظِيمٍ )

پھر مختلف گروہوں نے آپس ميں اختلاف كيا اور ويل ان لوگوں كے لئے ہے جنھوں نے كفر اختيار كيا اور انھيں بڑے سخت دن كا سامنا كرنا ہوگا (۳۷)

۱_ حضرت مريم (ع) كے زمانہ ميں لوگوں كے ايك گروہ ميں حضرت عيسي(ع) كى واضح باتيں _

سننے كے باوجود اخلاف نظر اور كشمكش پيدا ہوئي _فاختلف الأحزاب من بينهم

گذشتہ آيات كے پيش نظر كہ جس ميں حضرت عيسي(ع) كے مريم كے فرزند ہونے اور الله تعالى كى طرف سے فرزند كى نفى كى بات تھى اس سے معلوم ہوتا ہے كہ ان گروہوں ميں حضرت عيسي(ع) كى ماہيت كے بارے ميں اختلاف تھا_

۶۷۳

۲_ حضرت مريم (ع) كے زمانہ ميں لوگوں كا ايك گروہ حضرت عيسي(ع) اور انكى گفتار پر ايمان لے آئے جب كہ دوسرے گروہ نے كفر اختيار كيا _فاختلف الأحزاب من بينهم فويل للذين كفروا

۳_ حضرت عيسي(ع) او ر انكى گفتار كے حوالے سے كفر اختيار كرنے والوں كيلئے قيامت، ايك سخت اور تباہ كرنے والادن ہے _فويل للذين كفروامن مشهد يوم عظيم

(ويل ) يعنى عذاب وہلاكت ( لسان العرب ) قيامت كا ہلاكت بار ہونا ، شدت عذاب سے كنايہ ہے اس طرح كہ اگر روز قيامت موت ہوئي تواس عذاب ميں گرفتار لوگ زندہ نيں رہيں گے_

۴_ وہ لوگ جو حضرت عيسي(ع) كو حضرت مريم (ع) كا فرزند ، الله تعالى كا بندہ اور رسول نہيں جانتے وہ كافر ہيں _

فاختلف الا حزاب من بينهم فويل للذين كفروا

۵_ حضرت عيسي(ع) كے بارے ميں الله تعالى كا فرزند ہونے كاعقيدہ، كفرہے _ما كان لله أن يتّخذمن ولد فويل للذين كفروامن مشهد يوم عظيم

۶_ روزقيامت، گواہ، حضرت عيسي(ع) كے الله تعالى كے بيٹے ہونے كے خيال كے باطل ہونے پر الله تعالى كيلئے گواہى ديں گے _فويل للذين كفروامن مشهد يوم عظيم

۷_ كفار كے خلاف روز قيامت گواہى كا منظر، سخت اور ہلاكت ميں ڈالنے والا ہوگا _فويل للذين كفروامن مشهد يوم عظيم ( مشہد ) ممكن ہے اسم مكان ہو يعنى گواہى كى جگہ حرف ( من ) بتارہاہے كہ وہى گواہى كى جگہ كفار كيلئے (ويل )كا سرچشمہ ہے لہذا كہيں گے كہ انكے خلاف گواہى كامنظر، موت دينے والا اور عذاب ميں ڈالنے والا ہوگا اس طرح كہ اگر روز قيامت كسى كے ليے موت ممكن ہوتى توانكا ہلاكت وتباہى كے علاوہ كچھ مقدر نہ ہوتا _

۸_ روز قيامت ايك عظيم دن اور حاضر ہونے اور گواہى دينے كا مقام ہے _من مشهد يوم عظيم

( مشہد ) اگراسم مكان ہوتو مراد، حاضر ہو نے اور گواہى دينے كا مقام ہے اور يہ بھى ممكن ہے كہ مصدر ميمى ہواور قيامت ميں گواہى اور حضور كا معنى دے رہا ہو_

عقيدہ :الله تعالى كے بيٹے ركھنے كا عقيدہ ۵;اللہ تعالى كے فرزند ركھنے كے عقيدہ كا بطلان ۶

عيسى :عيسى پرايمان لانے والے ۲;عيسى كا بشر ہونا ۴ ;

۶۷۴

عيسي(ع) كو جھٹلانے والے۲ ; عيسي(ع) كا قصہ ۲;عيسى كى عبوديت ۴;عيسى كے بارے ميں اختلاف كرنے والے ۱; قيامت ميں عيسي(ع) كو جھٹلانے والے ۳

قيامت:قيامت كى عظمت ۸; قيامت كے ہول و پريشانى ۷;قيامت ميں حقائق كا ظہور ۶ ; قيامت ميں سختى ۳;قيامت ميں گواہى ۸; قيامت ميں گواہى دينے والے ۶

كفار۴:كفاركے خلاف اخروى گواہى دينے والے ۷

كفر:كفر كے اسباب ۴;۵

مريم(ع) :مريم (ع) كے زمانہ ميں لوگوں كا اختلاف ۱; مريم (ع) كا فرزند۴

مسيحيان:مسيحيوں ميں اختلاف ۱

آیت ۳۸

( أَسْمِعْ بِهِمْ وَأَبْصِرْ يَوْمَ يَأْتُونَنَا لَكِنِ الظَّالِمُونَ الْيَوْمَ فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ )

اس دن جب ہمارے پاس آئيں گے تو خوب سنيں اور ديكھيں گے ليكن يہ ظالم آج كھلى ہوئي گمراہى ميں مبتلا ہيں (۳۸)

۱_كفار روز قيامت اور الله تعالى كى بارگاہ ميں حاضر ہونے كے وقت، حيرت انگيز بصارت و سماعت كے حامل ہونگے _

أسمع بهم و أبصر يوم يأتوننا

(اسمع بہم ) و (ابصر)تعجب كے صيغے ہيں يعنى كسى قدر بصارت اور سماعت ركھنے والے ہيں _

۲_قيامت، حقائق كے واضع اور ظہور كا دن ہے _أسمع بهم و أبصر يوم يا توننا

۳_قيامت، لوگوں كا الله تعالى كے حضور ميں آنے كا دن ہےيوم يأتوننا

۴_ حقائق كا سامنا كرنااور انہيں درك و لمس كرنا ، كفار كيلئے روز قيامت عذابوں ميں سے ايك عذاب ہے _

۶۷۵

فويل للذين كفروا من مشهد يوم عظيم_ أسمع بهم وأبصر يوم يا توننا

گذشتہ آيت س كفار كيلئے روز قيامت ميں سختى اور شدت كا تذكرہ ہو ايہاں ان سختيوں ميں سے ايك كا ذكرہے اور وہ حقائق كا درك و فہم ہے _

۵_وہ لوگ جنہوں نے حضرت عيسي(ع) كو الله تعالى كا فرزند قرار ديتے ہوئے انكى توحيدى تعليمات سے كفر اختيار كيا وہ واضح گمراہى ميں پڑے ہوئے ہيں _لكن الظلمون اليوم فى ضلل مبين

( اليوم ) ميں الف ولام ممكن ہے عہد حضور ى ہو يعنى ''آج'' تواس صورت ميں اس سے مراد دنيا وى زندگى كے آيام ہيں اور گذشتہ آيت كے قرينہ كى بناء پر ( ظالمان ) سے مرادوہ ہيں كہ جنہوں نے حضرت عيسي(ع) كى بات كا انكا ركيا اور انكے بارے ميں افراط وتفريط كى راہ اختيار كى _

۶_ الله تعالى كيلئے حضرت عيسي(ع) كے فرزند ہونے كا گمان، ايك ظالمانہ گمان اور واضح گمراہى ہے _

ما كان لله أن يتخذ من ولد لكن الظلمون اليوم فى ضلل مبين

۷_ كفا ر،ظالموں اور گمراہوں كے زمرے ميں شمار ہوتے ہيں _فويل للذين كفروا لكن الظلمون اليوم فى ضلل مبين

۸_ روز قيامت، كفار كى سماعت و بصارت انكى نجات كا باعث نہ ہوگى _أسمع بهم وأبصر يوم يا توننا لكن الظالمون اليوم فى ضلل مبين (اليوم ) ميں اگر'' ال'' عہد ذكر ى ہو تو مراد روز قيامت ہے كہ جو ( يوم يا توننا ) ميں مطرح ہو ا ہے اور( لكن ) انكے وہم نجات سے استدراك ہے كہ جملہ (أسمع بهم وأبصر ) اسے وجود ميں لايا ہے _

۹_روزقيامت، حقائق كى شناخت اور اس پرايمان نجات كا موجب نہيں ہے _أسمع بهم وأبصر لكن الظلمون اليوم فى ضلل مبين

الله تعالى :الله تعالى كے حضور ۳

ظالمين:۷

ظلم :ظلم كے موارد ۶

عقيدہ :الله تعالى كے فرزند ركھنے كے بارے ميں عقيدہ ۵،۶;باطل عقيدہ ۶

قيامت :قيامت كى خصوصيات ۲،۱۳;قيامت ميں ايمان ۹; قيامت ميں حقايق كا ظہور ۲;۴

كفار:كفار كا آخرت ميں عذاب ۴; روز قامت كفار ۱; كفار كى اخروى بصارت كے آثار ۸; كفار كى

۶۷۶

اخروى حيرت انگيز بينائي ۱; كفار كى اخروى حيرت انگيز سماعت ۱;كفار كى اخروى سماعت كے آثار ۸; كفار كى گمراہى ۵

گمراہ :۷

گمراہى :گمراہى كے موارد ۶

مشركين:مشركين كى گمراہى ۵

آیت ۳۹

( وَأَنذِرْهُمْ يَوْمَ الْحَسْرَةِ إِذْ قُضِيَ الْأَمْرُ وَهُمْ فِي غَفْلَةٍ وَهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ )

اور ان لوگوں كو اس حسرت كے دن سے ڈرايئےب قطعى فيصلہ ہوجائے گا اگر چہ يہ لوگ غفلت كے عالم ميں پڑے ہوئے ہيں اور ايمان نہيں لارہے ہيں (۳۹)

۱_ روز قيامت كے حسر ت ناك واقعات كے حوالے سے لوگوں كو ڈارانے اور خبر دار كرنے ليے پيغمبر اكر م(ص) كى ذمہ ذارى _وأنذرهم يوم الحسرة

ضمير ( ہم ) جملہ ( أنذرہم ) ميں تمام لوگوں كو شامل ہے ( الحسرة ) كے ساتھ يوم كے اضافہ سے معلوم ہوتا ہے كہ اس دن سب اپنے ماضى پرافسوس كا اظہا ر كريں گے اس ليے اس روز كو روز حسرت كہا گيا ہے_

۲_ روز قيامت، لوگوں كا دنيا ميں اپنے اعمال پر حسرت و افسوس كا دن ہے _وأنذ رهم يوم الحسرة

۳_ ''يوم الحسرة ''( روز افسوس ) قيامت كے اسماء وصفات ميں سے ہے _وأنذرهم يوم الحسرة

۴_ روز قيامت، فرصت كے تمام ہونے اور غلطيوں اور انحرافات كے جبران نہ كر سكنے كادن ہے _

وأنذرهم يوم الحسرة إذ قضى الا مر

( يوم ا لحسرة ) كے قرينہ كى بناء پر ( الأمر) سے مراد ايسى فرصتيں ہيں كہ جس كا ہاتھ سے جانا ، حسرت كا باعث ہے اور ( قضى )'' قضا'' سے ہے جس كا مطلب '''فيصلہ كرنا اور اتمام كرنا'' ہے اسطرح كہ اب جبران نہ ہوسكتا ہو (مفردات راغب )

۶۷۷

۵_ كفار اور ظالمين، روز قيامت دنيا ميں مواقع كے ضائع ہونے كى بناء پر حسرت كريں گے _وأنذرهم يوم الحسرة إذ قضى الا مر (إذ قضى الا مر ) ميں''إذ يوم الحسرة'' كو بيان كررہا ہے اس سے مراد يہ ہے كہ روز حسرت اسى وقت ہے كہ جب موضوع ہى حتم ہو چكا ہو _

۶_ روز قيامت، امور كے فيصلہ اور انسان كے حتمى مقد ر طے كرنے كا دن _اذ قضى الا مر

ممكن ہے كہ ( الا مر ) سے مراد لوگوں كے جہنمى باجنتى ہونے قطعى تعيين ہو اس صورت ميں (قضى الأمر) كا تعلق قطعى احكام كے صادر ہونے اور اس مرحلہ سے گزرنے سے ہے _

۷_ حضرت عيسي(ع) كا الله تعالى كے فرزند ہونے كا عقيدہ ،روز قيامت حسرت وافسوس كا سبب ہے _

فاختلف الا حزاب وأنذرهم يوم الحسرة

۸_ غفلت اور بے ايمان كے ساتھ موت رو ز قيامت حسرت كا باعث ہے _وأنذرهم يوم الحسرة إذ قضى الا مر وهم فى غفلة وهم لايؤمنون ضمير (ہم ) پچھلى آيت ميں ( الظالمون) كى طرف لوٹ رہى ہے اور جملہ ( ہم فى ...) حاليہ ہے پس آيت كا مطلب يہ ہے كہ دنيا ميں ظالموں كى فرصت تمام ہو چكى ہے اس حال ميں كہ وہ غافل تھے اور معاد پر ايمان نہيں لائے _

۹ _ قيامت پر ايمان نہ لانا اور اسكے حسرت زدہ كرنے سے غفلت ظلم ہے _لكن الظالمون هم فى غفلة وهم لايؤمنون

۱۰_حضر عيسي(ع) كو الله تعالى كا فرزند سمجھنے والے غفلت كى گہرائيوں ميں غرق بے ايمان لوگ ہيں _فاختلف الأحزاب وهم فى غفلة وهم لايؤمنون '' غفلة'' كا نكرہ آنا بتا تا ہے كہ اسكى حدود واضح اور معين نہيں ہيں _

۱۱_ غافلوں اور قيامت كے منكرين كو انذار اور قيامت ميں حسرت كے اسباب سے خوف دلانا پيغمبر اكرم(ع) كے وظائف ميں سے ہے_وأنذ رهم يوم الحسرة وهم فى غفلة وهم لا يؤمنون

۱۲_ لوگوں انكے اخروى انجام سے غفلت سے ڈرانے اور بيدار كرنے كا ضرورى ہونا _وأنذرهم وهم فى غفلة

۱۳_ قيامت سے غفلت، كفر اختيار كرنے اور بے ايمان ہونے كا پيش خيمہ ہے _

وأنذرهم يوم الحسرة وهم فى غفلة وهم لايؤمنون

۱۴_عن رسول الله (ص) : إذا دخل أهل الجنّةالجنّة وأهل النار النار يقال : يا أهل الجنة خلود فلا موت ويا أهل النار خلود فلا موت ثم قرا رسول الله (ص) : (وأنذ رهم يوم الحسرة إذقضى الا مروهم

۶۷۸

فى غفلة ) وأشاربيده و قال : أهل الدنيا فى غفلة (۱) رسول اكر م(ص) سے روايت ہوئي ہے جببہشتى جنت ميں اور جہنمى جہنم ميں چلے جائيں گے _ تو كہا جائيگا اے جنت والو( يہ جگہ) تمھار ے ليے جاودانى ہے اور موت نہيں ہے اے جہنّم والو (يہ جگہ ) تمھار ے ليے جاودانى ہے اور موت نہيں ہے پھررسول خدا (ص) نے اس آيت كى تلاوت فرمائي''أنذرهم يوم الحسرة إذ قضى الا مر و هم فى غفلة '' اس وقت آنحضرت نے اپنے ہاتھوں سے اشارہ كيا اور فرمايا :اہل دنيا غفلت ميں ہيں _

آنحضرت :آنحضرت كى ذمہ دارى ۱;۱۱; ; آنحضرت كے ڈراوے ۱;۱۱

انسان :انسانوں كى غفلت ۱۴//جنت :جنت ميں جاودانى ۱۴

جہنم :جہنم ميں جاودانى ۱۴//حسرت :آخرت ميں حسرت كے اسباب ۵;۷;۸

ڈراوا:اخروى انجام سے ڈرائوا ۱۲; اخروى حسرت سے ڈراوا ۱۱; قيامت سے ڈراوا ۱

روايت :۱۴

ظالمين:ظالموں كى اخروى حسرت ۵

ظلم:ظلم كے موارد۹

عقيدہ :الله تعالى كے فرزند كے بارے ميں عقيدہ ركھنے كے اخروى آثار ۷

عمل :عمل كى فرصت ۴; عمل كے اخروى آثار ۲

غافلين :غافلين كو انذار ۱۱; عافلين كوانذار كرنے كى اہميت ۱۲

غفلت :اخروى حسرت سے غفلت ۹; قيامت سے غفلت كے آثار ۱۳

فرصت :فرصت كے تباہ ہونے كے آثار ۵

قيامت :قيامت كو جھٹلانے والوں كو انذار۱۱; قيامت كى خصوصيات ۲،۴،۶ ;قيامت كے نام ۳; قيامت ميں انجام كى تعيين ۶; قيامت ميں حسرت ۱

كفار :كفار كى اخروى حسرت ۵

____________________

۱) الدرامنشور ج۵ ص۵۱۱ و۵۱۲_

۶۷۹

كفر :كفر كا پيش خيمہ ۱۳

مشركين :مشركين كى بے ايمانى ۱۰; مشركين كى غفلت ۱۰

معاد:معاد كو جھٹلانا ۹

موت :غفلت كے ساتھ مرنے كے آثار ۸; كفر كے ساتھ مرنے كے آثار ۸

يوم الحسرة :۳

آیت ۴۰

( إِنَّا نَحْنُ نَرِثُ الْأَرْضَ وَمَنْ عَلَيْهَا وَإِلَيْنَا يُرْجَعُونَ )

بيشك ہم زمين اور جو كچھ زمين پر ہے سب كے وارث ہيں اور سب ہمارى ہى طرف پلٹا كرلائے جائيں گے (۴۰)

۱_ الله تعالى سارى زمين اور زمين والوں كا تنہا وارث ہے _إنا نحن نرث الأرض ومن عليه

۲_ الله تعالى كى مالكيت كے سوا باقى تمام مالك لغو اور فناء ہوجائيں گى _إنا نحن نرث الأرض ومن عليه

الله تعالى ابھى بھى كائنات كا حقيقى مالك ہے اس ليے ورثہ پانا سے مراد حقيقت ميں مالكيت كا انتقال نہيں ہے بلكہ مراد، اس سے دنيا كى اعتبارى مالكتيوں كا فناء ہونا اور انكے ساتھ مالكوں كا بھى فنا ہونا ہے تا كہ حقيقى مالك كامل طور پر ظاہر ہو اور اسكے مقابل كوئي اعتبار نہ رہے_

۳_مال و متاع اور طاقتيں كفرو غفلت ميں پڑنے كيلئے بڑے اسباب ميں سے ہيں _وهم فى غفلة وهم لا يؤمنون إنا نحن نرث الأرض

اس آيت كى گذشتہ آيت سے ربط كى وجوہات ميں سے ايك سبب غفلت اور اسے ختم كرنے كا بيان ہے اس آيت ميں الله تعالى نے لوگوں كو اپنے اندر غفلت كے اسباب ختم كرنے پر توجہ دلاتے ہوئے دنيا كى ثروت اور اہل زمين كے فناء ہونے پر تاكيد فرمائي _

۴_ تمام انسان، الله تعالى كى طرف لوٹا ئے جائيں گے_وإلينا يرجعون

( يرجعون) كے مجہول ہونے سے معلوم ہوتا ہے كہ خواہ انسان چاہيں يا نہ چاہيں الله تعالى كى طرف لوٹا ئے جائيں گے _

۵_ زمين كى تمام مخلوقات الله تعالى كى طرف لوٹ رہى ليں _ومن عليها وإلينا يرجعون

۶۸۰

( من عليہا ) سے مراد، زمين كے تمام موجودات ہو سكتے ہيں البتہ كلمہ ( من ) كا استعمال اس بناء پر ہوا كہ( ذوى العقلا ئ) غير ذوى العقول پر برترى ركھتے ہيں _

۶_اللہ تعالي، بغير فرزند كے اور اس سے بے نياز ہے_ما كان الله أن يتخذ من ولد إنا نحن نرث الأرض ومن عليه

گذشتہ آيات ميں حضرت عيسي(ع) كے فرزند الہى ہونے كاذكر زير بحث آيا تواس بيان سے كہ تمام موجودات الله تعالى كى طرف لو ٹ جائيں گے اور وہ ان سے ہے بانياز اس گمان كے باطل ہونے پرتاكيد ہوئي ہے _

۷_روز قيامت، انسان كا دنيا ميں اپنى اعتبارى مالكيت سے رابط بالكل كٹ جائيگا _و أنذرهم يوم الحسرة ...إنا نحن نرث الأرض ومن عليها و إلينا يرجعون الله تعالى نے زمين كے ساتھ ساتھ زمين والوں كو بھى اپنى ميراث جانا ہے يعنى ملك اعتبارى كے ساتھ ساتھ مالك اعتبار ى بھى لہذا روز قامت يہ دونوں صرف اپنے حقيقى مالك كے ساتھ ہى مرتبط ہونگے_

اسماء وصفات :صفات جلال ۶

الله تعالى :الله تعالى اور فرزند ۶; الله تعالى كا منزہ ہونا ۶; الله تعالى كى بے نيازى ۶; الله تعالى كى مالكيت كى خصوصيات ۲; الله تعالى كى وراثت ۱;اللہ تعالى كے ساتھ خاص ۱

الله تعالى كى طرف لوٹنا۴;۵

انسان :انسانون كا انجام ۴;انسانوں كا وارث ۱; روز قيامت انسان ۷

ثروت :ثروت كے آثار ۳

زمين :زمين كے وارث ۱

غفلت :غفلت كا پيش خيمہ ۳

قدرت :قدرت كے آثار ۳

قيامت :قيامت كى خصوصيات ۷; قيامت ميں دنيا وى مالكيت ۷

كفر :كفر كا پيش خيمہ ۳

موجودات :

۶۸۱

موجودات كاانجام ۵;موجودات كى مالكيت كى خصوصيات ۲

نظريہ كائنات :توحيدى نظر يہ كائنات ۴;۵

آیت ۴۱

( وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّهُ كَانَ صِدِّيقاً نَّبِيّاً )

اور كتاب خدا ميں ابراہيم كا تذكرہ كرو كہ وہ ايك صديق پيغمبر تھے (۴۱)

۱_ آنحضرت كا كى ذمّہ دارى ہے كہ قران ميں سے حضرت ابراہيم كى داستان ياد دلائيں _واذكر فى الكتب إبراهيم

۲_ پيغمبروں اور اخلاق و معنويت كے نمونوں كا ذكر و تجليل قرآن مجيد ميں استعمال شدہ ہدايتى و تبليغى روشوں ميں سے ايك روشن ہے_واذكر فى الكتب إبراهيم انه كان صدّيقا

۳_ حضرت ابراہيم(ع) كى زندگى اور ان كے خصوصيات ، زندگى ساز اور درس آموز ہيں _واذكرفى الكتب إبراهيم

۴_الہى ومعنوى شخصيتوں كى ياد منانے اور ا ن كے تكريم و تجليل كا ضرورى ہونا _واذكر فى الكتب إبراهيم

۵_ حضرت ابراہيم(ع) صدّيقين اور الہى پيغمبروں ميں سے تھے _واذكر فى الكتب إبراهيم انه كان صديقانبيّا

۶_ حضر ت ابراہيم كردار وگفتارميں ہم آہنگى اور سچائي كے حوالے سے عروج پرتھے _إنه كان صديقا

( صدّيق ) صيغہ مبالغہ ہے يعنى جس سے بہت زيادہ سچائي ظاہر ہو بعض اہل لغت نے (صديق) كا معنى يہ كيا ہے كہ وہ جو اپنے گفتار او ر اعتقاد ميں صادق ہو اپنى سچائي كو اپنے عمل ميں ثابت كيا ہو (مفردات راغب)

۷_ حضرت ابراہيم (ع) كا مقام نبوت اور صديق ہونا ، انكى قرآن ميں تجليل اور ياد كا موجب بنا_و إذكر فى الكتب إبراهيم كان صديقاً نبيّ جملہ (انہ كان صديقا نبيا )(و اذكر) كيلئے علت كے مقام پر ہے _

۸_ معنوى عظمتيں اور گفتار و عمل ميں سچائي و نيكى ،افراد كى ياد و نام كى تكريم كيلئے اہم معيار ہيں _و اذكر إنه كان صديّقاً نبيّا حضرت ابراہيم(ع) كا انكے مقام نبوت اور صديق ہونے كى بناء پر ياد كيا جانا ان تمام لوگوں كيلئے

۶۸۲

درس ہے كہ سچائي كى ترويج كرنے ميں شخصيتوں كے معنوى اور حقيقى جوانب كو مد نظر ركھناچايئے

۹ الہى اور معنوى مقامات تك پہنچنے كيلئے ہر حوالے سے سچائي كى راہ ميں قدم بڑھانے كا خصوصى كردار ہے_

إنه كان صديّقاً نبيّا

حضرت ابراہيم (ع) كى صفات ميں سے (صديق) كا ذكر كرنا اور اسے نبوت كے وصف پر بھى مقدم ركھنا بتا رہاہے كہ'' صديق ہونا'' درجات و مقامات تك پہنچنے ميں عمدہ كردار ادا كرتا ہے_

۱۰ _ صداقت، مقام نبوت تك پہنچنے كى شرط ہے _إنه كان صديقاً نبيا

(صدّيقا) كا (نبيّا) پر مقدم ہونا، مندرجہ بالا نكتہ كى طرف اشارہ كر رہا ہے_

آنحضرت(ص) :آنحضرت(ص) كى ذمہ دارى ۱

ابراہيم(ع) :ابراہيم كى راست گوئي ۶; ابراہيم كى صداقت ۵، ۶; ابراہيم كى صداقت كے آثار ۷; ابراہيم كى نبوت۵;ابراہيم كى نبوت كے آثار ۷; ابراہيم كے فضائل ۶، ۷; ابراہيم كے قصہ سے عبرت ۳;ابراہيم كے مقامات ۵

انبياء:انبياء كا احترام ۲; انبياء كى تعظيم۲

اولياء اللہ:اولياء الله كى تعظيم كى اہميت ۴

اہميتں :اہميتوں كا معيار۸; معنوى اہميتں ۸

تبليغ:تبليغ كى روش ۲

تكريم :تكريم كا معيار ۸

ذكر :ابراہيم كے ذكر كے اسباب ۷; انبياء كا ذكر۲; بہترين نمونوں كا ذكر ۲; قصہ ابراہيم كا ذكر۱

راست گوئي:راست گوئي كى اہميت ۸

صداقت:صداقت كى اہميت ۸; صداقت كے آثار ۱۰

عبرت:عبرت كے اسباب ۳

قرآن:قرآن كے قصص ۱

نبوت:نبوت كى شرائط ۱۰

ہدايت :ہدايت كى روش ۲

۶۸۳

آیت ۴۳

( إِذْ قَالَ لِأَبِيهِ يَا أَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَا لَا يَسْمَعُ وَلَا يُبْصِرُ وَلَا يُغْنِي عَنكَ شَيْئاً )

جب انھوں نے اپنے پالنے والے باپ سے كہا كہ آپ ايسے كى عبادت كيوں كرتے ہيں جو نہ كچھ سنتا ہے نہ ديكھتا ہے اور نہ كسى كام آنے والا ہے (۴۲)

۱_ حضرت ابراہيم (ع) نے آذر كى بت پرستى كى بناء پر اس سے بحث اور گفتگو كي_إذ قال لأبيه ى أ بت لم تعبد ما لا يسمع و لا يبصر و لا يغنى عنك شيئا جيسا كہ سورہ انعام ميں آيا ہے حضرت ابراہيم كے مخاطب كا نام آزر تھا_

۲ آزر (حضرت ابراہيم (ع) كا باپ يا چچا) مشرك اور بت پرست تھا_إذ قال لأبيه ياأبت لم تعبد مالا يسمع

(آزر) يا تو حضرت ابراہيم(ع) كا باپ تھا جيسا كہ بعض آيات كے ظاہر سے معلوم ہوتا ہے اور چند روايات بھى اس چيز كى تائيد كر تى ہيں يا يہ كہ دوسرى روايات كے مطابق انكا چچا ہے چونكہ كلمہ (اب) كاعرب زبان ميں (چچا) پر بھى اطلاق ہوتا ہے_ قرآن ميں سورہ بقرہ كى ايك سوتينتيويں آيت ميں يہى معنى استعمال ہوا ہے (نعبد إلہك و إلہ آبائك إبراہيم و إسماعيل) اس آيت ميں لفظ (اب) چچا كے معنى ميں بھى استعمال ہوا ہے كيونكہ اسماعيل ، يعقوب(ع) كے چچا تھے _بعض مفسرين كا كہنا ہے كہ آزر، ابراہيم كے نانا تھے_

۳_ آزر كے منحرف عقيدہ اور شرك كے ساتھ حضرت ابراہيم (ع) كا منطق و دليل سے سامنا كرنا_

لم تعبد ما لا يسمع و لا يبصر

۴ _ حضرت ابراہيم (ع) كى آزر كے ساتھ گفتگو انكى نبوت كے زمانہ ميں ہوئي تھي_إنه كان صدّيقا نبيّا إذ قال لأبيه

(إذ قال ) كے بارے ميں چند ادبى احتمالات موجود ہيں (۱) ابراہيم كيلئے بدل ہو تو اس صورت ميں پچھلى آيت ميں ( اذكر ) كيلئے حكم مفعول ركھتا ہے (۲) ''كان'' يا'' نبيا''كيلئے ظر ف ہو_ مندرجہ بالا مطلب دوسرے احتمال كى بناء پر ہے _

۵_ آزر ايسے بتوں كى پرستش كرنے والاتھا جو ديكھنے سننے اور كچھ كرنے سے محروم اور خطرہ كے مقابل اپنے دفاع سے عاجز تھے_مالا يسمع ولا ييصر ولا يغنى عنك شيًا

۶۸۴

۶_ بتوں كا فہم و ادراك سے محروم ہونا ، اپنى ضروريات پورى كرنے اور خطر ہ سے بچنے سے انكى ناتواني، حضرت ابراہيم كى بت پرستى كے غلط ہونے پر دليل تھى _ياأبت لم تعبد ما لا يسمع ولا يبصر ولا يغنى عنك شيئا

( اغنا ئ)'' لايغني'' كا مصدر كفايت كرنے اور روكنے كا معنى ديتا ہے (لسا ن العرب سے اقتباس ) اور جملہ (لا يغنى عنك شياً ) يعنى نہ تم سے كوئي چيز دور كى ہے اور تمہيں اس سے كفايت نہيں كرتا _

۷_ سماعت و بصارت (ادراك) ضرورت پورى كرنے اور خطرات كو دو ر كرنے پر قدرت، معبود حقيقى كى واضح سى شرط ہے _لم تعبد ما لا يسمع ولا يبصر ولا يغنى عنك شيئا

۸_ ضروريات پورى كرنا اور خطرات كو دفع كرنا، يہ معبودوں كى عبادت ميں اہم ترين انگيزہ ہوتاہے _يأ بت لم تعبد ما لا يغنى عنك شيئ آزر كى بت پرستى كے خلاف حضرت ابراہيم كى دليلوں ميں سے ايك يہ تھى كہ بت تمھارى ضروريات كو پورا كرنے پر قادر نہيں ہيں لہذا تم كس ليے ان كى پرستش كرتے ہوا اس استدال ہے استفادہ ہوتا ہے كہ ضروريات كو پورا كرنا ، عبادت كرنے كى اہم ترين دليل ہے_

۹_ سوالات كے ذريعے لوگوں كو اپنے عقيدہ اور اعمال پرتحقيق و فكر ابھارناتربيت و تبليغ كى بہترين روش ہے _

لم تعبد مالا يسمع ولا يبصر

۱۰_عقائد ميں فرعى اور ادب كے ساتھ ساتھ منطقى انداز ميں دليل ديتے ہوئے گفتگواور دعوت توحيد دينا ضرورى ہے _

ى أبت لم تعبد ما لا يسمع حضرت ابراہيم(ع) نے آز ر كوميرے والد) كى تعبير كے ساتھ خطاب كيا ہے اسميں انتہائي لطافت و محبت ہے_ بعد والے جملا ت جو كہ دليل والے انداز ميں بيان ہوئے سب كے سب واضح مقدمات اور منطقى نتائج پر مشتمل ہيں _حضرت ابراہيم كے انداز گفتگو سے يہ نتيجہ ليا جا سكتا ہے كہ عقائد ميں گفتگو كے وقت ان دواركان كا ضر ور لحاظ كرنا چاہيے _

۱۱_ بت پرستى كى نفى ميں حضرت ابراہيم كے آزر كے ساتھ مناظر ے بہت اہم اور ياد وتكريم كے قابل ہيں _واذكرفى الكتب إبراهيم إذقال لا بيه مالا يسمع ولا يصبر ولا يغنى عنك شيئ ''إذ قال'' ''إذ ''ميں ابراہيم سے بدل ہے اور

حقيقت ميں '' اذكر'' كيلئے مفعول ہے _ حضرت ابراہيم كا انداز استدلال اور استعمال شدہ مفاہيم بتارہے ہيں كہ انكى گفتگو كا يہ مجموعہ كسقدر اہم اور ياد كے قابل تھا_

۶۸۵

۱۲_ پيغمبروں كى گفتگو اور استدلال غورو فكر كے لائق اور لوگوں كو تبليغكى روش اخذ كرنے كا سرچشمہ ہے_

إذقال لا بيه ياأبت لم تعبدمالا يسمع

۱۳_ رشتہ دارى اور معاشرتى روابط، تبليغ اور الحاد كى مخالفت ميں مانع نہيں ہونے چاہيے _إذقال لا بيه ياأبت لم تعبد مالا يسمع

آزر :آزر كا شرك ۲،۳،۵;آزركى بت پرستى ۱،۲ ، ۵ ;

ابراہيم :ابراہيم كا باپ ۲; ابراہيم كا چچا ۲; ابراہيم كے بحث كى روش ۳،۴; ابراہيم كا شرك سے مقابلہ كرنا ۱،۳،۱۱; ابراہيم كا قصہ ۱، ۳; ۴،۱۱;ابراہيم كى بحث و گفتگو ۱; ابراہيم كى بحث و گفتگو كى اہميت ۱۱;ابراہيم كى بحث و گفتگو كا وقت ۴ ; ابراہيم كى گفتگوكى روش ۳;ابراہيم كى نبوت ۴;

استدلال :استدلال كا طريقہ ۱۰

انبياء:انبياء سے سيكھنا ۱۲انبياء كااستدلال ۱۲; انبياء كى تعليمات ۱۲; انبياء كى سيرت ۱۲

بت :بتوں كا عجز ۵; ۶; بتوں كى درك سے محروميت ۶

بت پرستى :بت پرستى كے بطلان پر دلائل ۶

بلائيں :بلاؤں كے دور ہونے كى اہميت ۸

تبليغ :تبليغ كى روش ۹،۱۰;تبليغ ميں ادب ۱۰; تبليغ ميں خطرات كى پہچاں ۱۳; تبليغ ميں مہربانى ۱۰

تربيت :تربيت كى روش ۹

تفكر :تفكر كا پيش خيمہ ۹

رشتہ دار :رشتہ داروں كى ہدايت ۱۳

سجے معبود :سچے معبود وں كا ادراك ۷; سچے معبودوں كى بصارت ۷; سچے معبود وں كى سماعت ۷; سچے معبودوں كى شرائط ۷; سچے معبودوں كى قدرت ۷

سوال :سوال كے فوائد۹

شرك:شرك سے مقابلہ كرنے كى اہميت ۱۳

ضرورتيں :ضرورتوں كو پوراكرنے كى اہميت ۸

۶۸۶

عبادت :عبادت كا انگيزہ ۸

عقيدہ :عقيدہ كے بارے ميں سوال ۹

عمل :عمل كے بارے ميں سوال ۹

معاشرتى روابط:معاشرتى روابط كا كردار ۱۳

ياد :ابراہيم كے استدلال كى ياد ۱۱

آیت ۴۳

( يَا أَبَتِ إِنِّي قَدْ جَاءنِي مِنَ الْعِلْمِ مَا لَمْ يَأْتِكَ فَاتَّبِعْنِي أَهْدِكَ صِرَاطاً سَوِيّاً )

ميرے پاس وہ علم آچكا ہے جو آپ كے پاس نہيں آيا ہے لہذا آپ ميرا اتباع كريں ميں آپ كو سيدھے راستہ كى ہدايت كردوں گا (۴۳)

۱_ حضرت ابراہيم(ع) كا دوسروں كى ہدايت كيلئے خصوصى علم ومعلومات كا حامل ہونا _

ى أبت إنى قد جاء نى من العلم مالم يا تك

۲_ حضر ت ابراہيم كا الہى دانش وعلم، آزر كو اپنى پيروى كى طرف دعوت كى اساس ٹھہرا_

إنى قد جاء نى من العلم ما لم ياتك فاتبعني

۳_ حضرت ابراہيم كى معلومات محدود تھيں _قد جاء نى من العلم ما لم يأتك

(من العلم ) ميں '' من ''تبعيض كيلئے ہو اور'' من العلم ''( ما) كيلئے حال ہو تو مندرجہ بالا نكتہ كااستفادہ ہوگا _

۴_ حضرت ابراہيم(ع) نے آزر كو شرك چھوڑنے اور اپنى پيروى كى طرف دعوت دى _

يأبت إنى قد جاء نى من العلم ما لم يا تك فاتبعنى أهدك صراطاً سوّيا

۵_حضرت ابراہيم(ع) آزر سے مناظرہ كرنے سے پہلے ايك ہدايت يافتہ مؤحد اور آگاہ انسان تھے _

۶_ آزر كو حضرت ابرہيم كى راہنمائي و ہدايت، لطف و مہربانى كے ساتھ تھى _يا أ بت فاتبعنى أهدك صراطاً سويا

( يا أبت ) كا خطاب، حضرت ابراہيم كى آزرسے اظہار شفقت كو حكايت كررہا ہے _اسكے علاوہ يہ كہ انہوں نے آزر كو جاہل نہيں كہا اور اپنى محدود معلومات كى بھى وضاحت كى ( من العلم)يہ روش، مخاطب كيلئے عطوفت و محبت سے سرشار ہے_

۶۸۷

۷_ رشتہ داري، دين و توحيد كى تبليغ اور شرك سے مقابلہ ترك كرنے كا موجب نہيں بننى چاہيے _ياأبت لم تعبد ى أبت

۸_ پيغمبروں كى پيروي، علم و دانش كى پيروى ہے _يا أبت إنى قد جاء نى من العلم ما لم يأتك

۹_ناآ گاہ افراد كو باخبر لوگوں كى پيروى كرنا چاہيے _قد جاء نى من العلم مالم يأتك فاتّبعني

۱۰_ علم و عالم كى عظمت و بلندى _إنى قد جاء نى من العلم ما لم يأتك

۱۱_ علم، ذمہ دارى لانے والااور علماء وباخبر لوگوں كا وظيفہ ہے كہ وہ دوسروں كى ہدايت كريں _قد جاء نى من العلم فاتّبعني حضرت ابراہيم نے اپنى ہدايت دينے كى ذمہ دارى كا سرچشمہ اپنا علم و آگاہى كو قرار ديا_يہ نكتہ قرآن ميں ابراہيم كى زبان سے بيان ہونا علم كى ذمہ دار ى پيدا كرنے كو خوب واضح كر رہا ہے _

۱۲_آزر ،اپنى بت پرستى كى طرف ميلان كو علمى ميلان سمجھتا تھا _إنى قد جاء نى من العلم ما لم يا تك

( ما لم ى أتك ) كى تعبير سے معلوم ہوتا ہے كہ حضرت ابراہيم يہ چاہتے تھے كہ آزر كو علم كى محروميت سے واقف كريں _ يہ چيز بتارہى ہے كہ ابراہيم كا سامنا ايسے شخص سے تھا كہ جو اپنى جہالت سے بے خبر اور اپنے آپ كو عالم سمجھتا تھا _

۱۳_جہالت، شرك اور بت پرستى ميں مبتلا ہونے كا پيش خيمہ ہے _لم تعبدمالا يسمع ياأبت إنى قد جاء نى من العلم ما لم يا تك حضرت ابراہيم (ع) نے ادب كى رعايت كرتے ہوتے آزر كو جاہل نہيں كہا بلكہ علم كى نسبت اپنى طرف دى ہے_ انكى كلام مفہوم يہ ہے كہ آزر جاہل ہے اور اسكا يہ جاہل ہونا موجب بنا كہ وہ بت پرستى ميں مبتلاء ہو _

۱۴_ حضرت ابراہيم (ع) كا خصوصى علم سے مزين ہونا انسانوں كو راہ راست كى طرف افراط و تفريط سے ہٹ كر ہدايت كا موجب بنا_إنى قد جاء نى من العلم مالم يا تك فاتبعنى أهدك صراطاً سويا

(سوى ) ايسى چيز كو كہا جاتا ہے كہ جو افراط وتفريط سے محفوظ ہو ( مفردات راغب ) اور'' صراطاً سوياً'' يعنى مكمل معتد ل راہ جو افراط وتفريط سے محفوظ ہو _

۱۵_پيغمبر، انسانوں كو مكمل اور سيدھے، افراط و تفريط سے دور راستہ كى طرف ہدايت كرتے ہيں _فاتبعنى أهدك صراطاً سويا ً

۱۶_اللہ واحد كى بندگى ،سيدھى اور معتدل راہ ہے كہ جوہر قسم كے افراط و تفريط سے پا ك ہے _

۶۸۸

أهدك صراطاً سوي

۱۷_ شرك، بت پرسى كا راستہ ، كج اور غير معتدل ہے _لم تعبد مالا يسمع فاتّبعنى أهدك صراطاً سوي

۱۸_ دوسروں كى راہنمائي اور ہدايت كيلئے اپنے فضائل اور كمالات بيان كرنا، جائز اور پسنديدہ ہيں _

إنى قدجاء نى من العلم مالم يا تك فاتّبعنى أهدك صراطاً سوي

آزر :آزر كا عقيدہ ۱۲; آزر كو دعوت ۲،۴;آزر كى بت پرستى ۱۲

ابراہيم :ابراہيم كا علم ۱،۵،۱۴; ابراہيم كا قصہ ۴، ۵،۶; ابراہيم كا ہدايت دينا ۱;ابراہيم كى توحيد ۵; ابراہيم كى پيروى كا معيا ر ۲;ابراہيم كا استدلال ۵ ; ابراہيم كى پيروى ۲; ابراہيم كى دعوتيں ۲،۴; ابراہيم كى ہدايت دينے كى روش ۶;ابراہيم كى ہدايت دينے كى خصوصيات ۱۴;ابراہيم كى مہربانى ۶; ابراہيم كى ہدايت ۵; ابراہيم كے علم كاسرچشمہ ۲;ابراہيم كے علم كى محدويت ۳; ابراہيم كے علم كے آثار ۲ ;ابراہيم كے فضائل ۱ ، ۱۴

اپنى تعريف :اپنى تعريف كا جائز ہونا ۱۸; اپنى تعريف كے احكام ۱۸

الله تعالى :الله تعالى كى عبوديت ۱۶

انبياء:انبياء كى پيروى ۸; انبياء كى ہدايت دينے كى خصوصيات ۱۵

اہمتيں :۱۰

ايمان:توحيد پر ايمان ۸

بت پرستى :بت پرستى سے انحراف ۱۷; بت پرستى كا پيش خيمہ ۳

تبليغ :تبليغ كو درپيش خطرات كى پہچاں ۷

توحيد :توحيد كى اہميت ۷

جہالت :جہالت كے آثار ۱۳

جہلاء :جہلاء كى ذمہ دارى ۹

دين :دين ميں تبليغ كى اہميت ۷

ذمہ دارى :ذمہ دارى كا پيش خيمہ۱۱

رشتہ دارى :رشتہ دارى كا پيش خيمہ۷

۶۸۹

شرك :شرك سے انحراف ۱۷; شرك سے جنگ كى اہميت ۷;شرك سے دورى ۴; شرك كاپيش خيمہ ۱۳

صراط مستقيم ۱۶:صراط مستقيم كى طرف ہدايت ۱۴;۱۵

عقيدہ :باطل عقيدہ ۱۷

علم :علم كى اہميت ۱۰; علم كى پيروى ۸;علم كے آثار ۱۱

علمائ:علماء كا ہدايت دينا۱۱;علماء كى اہميت ۱۰; علماء كى پيروى كى اہميت ۹; علماء كى تقليد كى اہميت ۹; علماء كى ذمہ دارى ۱۱

عمل :پسنديدہ عمل ۱۸

ہدايت :ہدايت كے اسباب ۱۸

ہدايت يافتہ ۵

آیت ۴۴

( يَا أَبَتِ لَا تَعْبُدِ الشَّيْطَانَ إِنَّ الشَّيْطَانَ كَانَ لِلرَّحْمَنِ عَصِيّاً )

بابا شيطان كى عبادت نہ كيجئے كہ شيطان رحمان كى نافرمانى كرنے والا ہے (۴۴)

۱_ حضرت ابراہيم نے آزر كو شيطان كى پرستش سے منع كيا _يا أ بت لا تعبد الشيطان

۲_ بت پرستي، در حقيقت شيطان پرستى ہے _ياأبت لم تعبد ما لا يسمع ولا يبصر ياأبت لا تعبد الشيطان

مسلّم يہى ہے كہ آزر بت پرست تھا نہ شيطان پرست ليكن حضرت ابراہيم نے بت پرستى كو شيطان پرستى كى مانندقرار ديا ہے اور اسے لا تعبد) كى تعبير سے يا د كياہے لہذا حضرت ابراہيم كى نظر ميں بت پرستى در حقيقت شيطان كے مقابل خضوع او ر اظہار اطاعت ہے اوريہ ايك قسم كى اسكى پرستش ہے _

۳_ شيطان، لوگوں كو بت پرستى اور شرك كى طرف دعوت دينےميں سر فہرست ہے _لم تعبد ما لا يسمع لا تعبد الشيطان

۴_ شيطان كى اطاعت، در حقيقت اسكى پرستش ہے _

۶۹۰

لم تعبد مالا يسمع لا تعبد الشيطان

اگر چہ بتوں كى عبادت اور شيطان كى عبادت دو جدا چيزيں ہيں ليكن حضرت ابراہيم نے دونوں كو ايك ہى قرار ديا ہے اسكى وجہ شائديہ ہوكہ شيطان انسان كو شرك ابھارتا كرتا ہے _ لہذا ( قرآن ) نے اسكى اطاعت كو اسكى عبادت كہا ہے _

۵_شيطان كى پرستش، راہ راست اور تعادل سے انحراف ہے _فاتّبعنى أهدك صراطاً سوياً لا تعبد الشيطان

۶_ شيطان، پروردگار كے مقابل انتہائي نافرمان مخلوق اوراسكى وسيع رحمت اور نعمات كے مقابل نا شكر اور قدر نا شناس ہے _إنّ الشيطان كا ن للرحمن عصيا (عصى ّ) مبالغہ كيلئے آتا ہے _( مصباح)

۷_ الله رحمان كے مقابل، شيطان كا سركش ہونا ہى اسكى اطاعت سے پرہيز كرنے پر كافى دليل ہے _

لا تعبد الشيطان إن الشيطان كان للرحمن عصّيا

۸_شيطان كى اطاعت، الله تعالى كى وسيع رحمت كا كفران اور قدر نا شناسى ہے _لا تعبد الشيطان إن الشيطان كان للرحمن عصّيا ( رحمن ) صيغہ مبالغہ اور الله تعالى كے ناموں ميں سے ہے جملہ (كان للرحمن ...) شيطان كے غلط كام پرعلت لانے كى مانندہے كيونكہ وسيع رحمت كى حامل ذات كے مقابل سر كشى كرنا اسكى نا شكرى پر اصرار كى مانند ہے _اور جملہ ( لا تعبد ...) كى دلالت يہ ہے كہ جو بھى شيطان كى پيروى كرے وہ بھى اسى طرح ہوگا_

۹_ گناہ گاروں اور الله تعالى كے فرامين سے سركشى كرنے والوں كى اطاعت و پيروى ،ايك غلط كام اور اسكى نعمتوں كى ناشكرى ہے _لا تعبد الشيطان أن الشيطان للرحمن عصيّا

۱۰_اللہ تعالى كى وسيع رحمت كى طرف توجہ، بندوں كو اسكى نافرمانى سے بچاتى ہے _إنّ الشيطان كان للرحمن عصيّا

۱۱_ لوگوں كے وجدان و عقل كو انصاف كيلئے ابھا رنا، حضرت ابراہيم كى ارشاد و تبليغ كى روش ہے _

لم تعبد مالا يسمع لا تعبد الشيطان إنّ الشيطان كان للرحمن عصيّا

۱۲_ الله تعالى كى وسيع رحمت كے با وجود اسكى نافرمانى پر اصرار، نا پسنديد ہ او رغلط كا م ہے _

لا تعبد الشيطان إن الشيطان كان للرحمن عصيّا

۱۳_ ''رحمن ''اللہ تعالى كے اوصاف ميں سے ہے _كان للرحمن عصيّا

۱۴_ آزر، الله تعالى كے رحمان ہونے اور اسكے فرامين سے سركشى كے غلط ہونے سےآگاہ اور معترف تھا _

إنّ الشيطان كان للرحمن عصيّا

۶۹۱

جملہ ( إن الشيطان )، ( لا تعبد ) نہى كيلئے علت اس صورت ميں ہے كہ جب آزر نے الله تعالى كے فرمان سے شيطان كى سركشى كے غلط ہونے كا اعتراف كيا ہو_

آزر :آزر كا اقرار ۱۴; آزر كى نہى ۱

ابراہيم (ع) :ابراہيم كا قصہ ۱;ابراہيم كى روش تبليغ ۱۱; ابراہيم كے نواہي۱

اسماء صفات :رحمان ۱۳

اطاعت :شيطان كى اطاعت كے آثار ۴;۸;گناہ گاروں كى اطاعت ۹; نافرمانوں كى اطاعت ۹

اقرار :الله تعالى كى رحمانيت كا اقرار ۱۴; الله تعالى كى نافرمانى كے ناپسنديدہ ہونے كا اقرار ۱۴

الله تعالى :الله تعالى كى رحمت ۶

بت پرستى :بت پرستى كى حقيقت ۲

تعقل :تعقل كے ليے پيش خيمہكى فراہمي۱۱

ذكر :الله تعالى كى رحمت كے آثار ۱۰

رہبر :بت پرستى كے رہبر ۲; شرك كے رہبر ۳

شيطان :شيطان سے دورى كے دلائل ۷; شيطان كا كردار ۳; شيطان كا كفران ۶; شيطان كى نافرمانى ۶;شيطان كى نافرمانى كے آثار ۷

صراط مستقيم :صراط مستقيم سے گمراہى ۵

عبادت :شيطان كى عبادت ۲; ۴;شيطان كى عبادت سے نہى ۱

عمل :ناپسنديدہ عمل ۹;۱۲

كفران :كفران نعمت ۶،۸،۹

نافرمانى :الله تعالى كى نافرمانى ۶،۷;اللہ تعالى كى نافرمانى سے موانع ۱۰; الله تعالى كى نافرمانى پر اصرار كا ناپسنديدہ ہونا ۱۲

وجدان :وجدان كى قضاوت ۱۱

۶۹۲

آیت ۴۵

( يَا أَبَتِ إِنِّي أَخَافُ أَن يَمَسَّكَ عَذَابٌ مِّنَ الرَّحْمَن فَتَكُونَ لِلشَّيْطَانِ وَلِيّاً )

بابا مجھے يہ خوف ہے كہ آپ كو رحمان كى طرف سے كوئي عذاب اپنى گرفت ميں لے لے اور آپ شيطان كے دوست قرار پاجائيں (۴۵)

۱_ حضرت ابراہيم(ع) نے آزر كو وعظ كرتے ہوئے بت پرستوں كےليے سخت الہى عذاب كے بار ے ميں بتايا اور انہيں اس حوالے سے خبردار كيا _إنّى أخاف أن يمسْك عذاب من الرحمن

( عذاب ) كا نكرہ آنا اسكے عظيم ہونے كو بتارہا ہے اور( مسّ) ( جو كہ يمسّك كا مصدر ہے ) مفردات راغب كے مطابق ہر وہ اذيت ہے جو انسان كو پہنچے اس كے ليے يہ كلمہ استعمال كيا جاتا ہے _

۲_ حضرت ابراہيم نے آزر كى توحيد كى طرف ہدايت اوراسے الہى عذاب سے نجات دلانے ميں دلسوزى كے ساتھ كو شش كي_بأ بت إنى أخاف أن يمسّك عذاب من الرحمن

بتوں كى پرستش اور شيطان كى اطاعت ،الہى عذاب ميں گرفتار ہونے كا باعث ہے _يا أبت لا تعبد الشيطان إنّى أخاف أن يمسّك عذاب من الرحمن

۴_ بت پرستى اور شيطان كى اطاعت ،بہتبڑا گناہ ہے_لم تعبد ما لا يسمع لا تعبد الشيطان إنّى أخاف أن يمسّك عذاب من الرحمن پروردگار جو كہ وسيع رحمت كا حامل ہے اسكى طرف عذاب كى نسبت ممكن ہے اس نكتہ كو بيان كررہى ہو كو بت پرستى كا گناہ اس قدر شديد ہے كو رحمت و مہربانى كى مظہر ذات كو بھى غضب ميں لے آتا ہے _

۵_ الله تعالى كے عذابوں كى بنياد، اسكى رحمانيت ميں مستقر ہے _يمسّك عذاب من الرحمن

اس حوالے سے كہ عذاب كا مقدس نام رحمن سے كيا منا سبت ہے ؟ بہت سے نظريات بيان

ہوئے ہيں ان ميں سے ايك يہ كہ يہ آيت اشارہ كر رہى ہے كہ الله تعالى كے عذاب كى بنياد بھى اسكى رحمت ميں مضمر ہے _ يعنى چونكہ رحمان ہے لہذا عذاب كررہا ہے اور اسكا عذاب اسى لحاظ سے ہے جو اسكى رحمانيت سے مطابقت ركھتا ہے _

۶۹۳

۶_اللہ تعالى كى رحمانيت كى طرف توجہ كريں تو پھر الہى عذاب ميں مبتلا ء ہونا، مكمل طور پر نالا ئقى اوررحمت الہى كے تمام اسباب سے محرومى كى نشانى ہے _أن يمسّك عذاب من الرحمن

۷_ الله تعالى كے عذاب سے لوگوں كو ڈراتے وقت ، اسكى رحمانيت كى طرف انہيں متوجہ كرنا ضرورى ہے_

إنّى أخاف أن يمسّك عذاب من الرحمن

حضرت ابراہيم نے تبليغ كے وقت عين اسى ٹائم جب آزر كو الہى عذاب سے خبردار كررہے تھے الله تعالى كى رحمانيت كا بھى ذكر كيا تاكہ اسے اميدوار كرتے ہوئے الله تعالى كى طرف لوٹا ئيں اس انداز سے تبليغ و وعظ كے حوالے سے ايك كلى نتيجہ ليا جا سكتا ہے _

۸_ حضرت ابراہيم نے محبت كے ساتھ مو دبانہ انداز ميں آزر كى ہدايت كے ليے كوشش كى _يا أبت إنّى أخاف أن يمسّك عذاب من الرحمن (ياأبت ) كا خطاب، حضرت ابراہيم كى محبت كو بيان كررہا ہے _

۹_ تبليغ و وعظ كے مقام پر محبت آميز اور مو دبانہ انداز اختيار كرنا ضرورى ہے _ياأبت إنّى أخاف أن يمسّك عذاب

۱۰_باپ اگر چہ مشرك ہى كيوں نہ ہو اسكے ساتھ گفتگو ميں ادب و ملائمت كى رعايت ضرورى ہے _

يا أبت ياأبت إنّى أخاف أن يمسّك

۱۱_ بت پرست لوگ شياطين كى مانند ہيں اورانكا انجام بھى ان كى مانند ہے _فتكون للشيطن وليّ

كلمہ ( ولى ) مادہ ( ليّ ) ( نزديك ہونا يا اسكے پيچھے آنا ) سے مشتق ہے اور جملہ ( فتكون ) اس چيز سے حكايت كررہا ہے كہ بت پرستوں اور شيطان كاانجام ايك دوسرے قريب اورايك ہى طرح كا ہے _

۱۲_الہى عذاب ميں مبتلا ء لوگ، شيطان كے ہمراہ اور ساتھ ہونگے _يمسّك عذاب من الرحمن فتكون للشيطن وليّ

۱۳_ الہى رحمت سے محرومي، شيطان كى ہمراہى اور اسكى پيروى كا باعث ہے _إنى أخاف أن يمسّك عذاب من الرحمن فتكون للشيطن وليّ ( فتكون ) ميں تفريع ہے اور' 'عذاب'' سے مراد ( من الرحمن ) كے قرينہ كو سامنے ركھتے ہوئے رحمت سے محرومى ہے كہ جسے ذلت و رسوائي سے تعبير كيا جاتا ہے _

۱۴_اللہ تعالى كى عبادت سے منہ پھير نا، اسكى وسيع رحمت سے محروميت كا پيش خيمہ ہے _

۶۹۴

ياأبت إنّى أخاف أن يمسّك عذاب من الرحمن

۱۵_ رحمن ،اللہ تعالى كے اوصاف ميں سے ہے _عذاب من الرحمن

۱۶_ شيطان، گناہ گاروں ميں سب سے زيادہ ،الہى رحمت سے دور اور ان سب سے زيادہ الہى عذاب ميں مبتلاء ہے _

إنّى أخاف أن يمسّك عذاب من الرحمن فتكون للشيطان وليّ

بت پرستوں كو اس طرح خبردار كرنا كہ ممكن ہے الله رحمان تم پر غضب ناك ہوا ور تم شيطان كے ہم دم ہو جاؤ يہ بتارہاہے كہ شيطان سب سے زيادہ دھتكار ا ہوا اور الہى عذاب ميں مبتلاء ہے _

آزر :آزركو ڈرانا ۱; آزر كى نجات ۲; آزر كى ہدايت ۲;۸

ابراہيم :ابراہيم كا قصہ ۱،۲،۸;ابراہيم كا ہدايت دنيا ۲ ; ابراہيم كى تبليغ كى روش ۸; ابراہيم كى كوشش ۲ ; ابراہيم كى ہدايت دينے كى روش ۸; ابراہيم كى مہربانى ۸;ابراہيم كے ڈراوے ۱; ابراہيم كے وعظ ۱

اسماء و صفات :رحمان ۱۵

اطاعت :شيطان كى اطاعت كے آثار ۳شيطان كى اطاعت كاگناہ ۴

الله تعالى :الله تعالى كى رحمانيت ۶;اللہ تعالى كى رحمانيت كے آثار ۵; الله تعالى كے عذاب ۱/الله تعالى كے ترك شدہ :۱۶

باپ :باپ كے ساتھ گفتگو كى روش ۱۰; باپ كے ساتھ گفتگو ميں ادب ۱۰; باپ كے ساتھ مہربانى ۱۰

بت پرست لوگ :بت پرستوں كا انجام ۱۱; بت پرستوں كاعذاب ۱

بت پرستى :بت پرستى كا گناہ ۴;بت پرستى كے آثار ۳

تبليغ :تبليغ كى روش ۹;تبليغ ميں ادب ۹; تبليغ ميں مہربانى ۹

ڈراوا :عذاب سے ڈراوا ۱;۷

رحمت :رحمت سے محروم لوگ ۱۶;رحمت سے محروميت ۶; رحمت سے محروميت كا پيش خيمہ ۱۴;رحمت سے محروميت كے آثار ۱۳

شيطان :شيطان كاانجام ۱۱; شيطان كا دھتكارا جانا ۱۶ ; شيطان كا عذاب ۱۶;شيطان كى پيروى كا پيش خيمہ ۱۳;شيطان كے پيروكار ۱۱; ۱۲; شيطان كے دوست ۱۲

عبادت :الله تعالى كى عبادت ترك كرنے كے آثار ۱۴

۶۹۵

عذاب :اہل عذاب ۶،۱۲،۱۶;عذاب سے نجات ۱۲; عذاب كا باعث ۳; عذاب كا سرچشمہ ۵;

گناہ كبيرہ :۴

مشرك لوگ :مشرك لوگوں سے ملنے كاانداز ۱۰

معاشرت :معاشرت كے آداب ۱۰

نالائقى :نالائقى كى علامت ۶

ياد آورى :الله تعالى كى رحمانيت كى ياد آورى ۷

آیت ۴۶

( قَالَ أَرَاغِبٌ أَنتَ عَنْ آلِهَتِي يَا إِبْراهِيمُ لَئِن لَّمْ تَنتَهِ لَأَرْجُمَنَّكَ وَاهْجُرْنِي مَلِيّاً )

اس نے جواب ديا كہ ابراہيم كيا تم ميرے خداؤں سے كنارہ كشى كرنے والے ہو تو ديا ركھو كہ اگر تم اس روش سے باز نہ آئے تو ميں تمھيں سنگسار كردوں گا اور تم ہميشہ كے لئے مجھ سے دور ہوجاؤ (۴۶)

۱_حضرت ابراہيم كى توحيد ى اور بت شكنى منطق كے در مقابل آزر كا جواب انكے توحيدى عقائد كے حوالے سے حيرت اور بے يقينى كے اظہار پر مشتمل تھا _قال ا راغب أنت عن ء الهتى يا إبراهيم

( ا راغب) ميں ہمزہ استفہام تو بيخ كيلئے ہے كہ اس سے تعجب بھى سمجھا جاتا ہے _

۲_ آزر، حضرت إبراہيم كى طرف سے توحيد كى دعوت ہونے سے پہلے انكے توحيدى عقائد سے بے خبر تھا_قال ا راغب أنت عنء الهتي آزر كا حضرت ابراہيم كے توحيدى عقائد كے حوالے سے حيرت اور بے يقينى كا اظہار كرنا بتارہاہے كہ آزراس سے پہلے انہيں عقائد ميں اپنے جيسا سمجھتا تھا اسى ليے جب حضرت ابراہيم نے عقيدہ توحيد كو ظاہر كيا تو وہ حيرت اور بے يقينى سے دو چار ہوا _

۳_آزر نے حضرت ابراہيم كوبتوں كى مخالفت سے ہاتھ نہكھنچنے پرانہيں سنگسار كرنے كى دھمكى دى _لئن لم تنته لا رجمنّك ( رجم) كا درحقيقت معنى سنگسار كے ذريعے قتل كرنا ہے اسى طرح ديگر اقسام قتل پر بھى اس كا استعمال ہوتاہے يہ كلمہ كسى كو غلط كہنے كے بارے ميں بھى ہے (لسان العرب) آيت ميں ان سب معانى كا احتمال ہے جب كہ مندرجہ بالا مطلب

۶۹۶

حقيقى معنى كى بناء پرہے _

۴_ آزر نے حضرت ابراہيم كو بت پرستى كے خلاف كوشش جارى ركھنے كى صورت ميں سنگسار كرنے كى قسم كھانے كے ساتھ ساتھ ايك لمبى مدت كيلئے اپنے گھر سے نكال ديا _واهجر نى مليّ ( مليّا ) لمبى مدت كے معنى ميں ہے _ ( لسان العرب)

۵_آزر نے حضرت ابراہيم اورانكے توحيدى عقائد كے ساتھ ان كى مستدل ، منطقى اور محبت آميز دعوت كے باوجود سخت اور غير منطقى رويہ رواركھا_لئن لم تنته لا رجمنّك

آزر كى كلام ميں كسى قسم كى دليل اور جواب نہيں ہے فقط اسكى گفتگو ميں ڈراوا اور دھمكى واضح نظر آرہى ہے حتّى كہ اس نے اپنے خطاب ميں معمولى ترين محبت مثلا ً ( يابت ) كے جواب ميں (يا بني) كو بھى استعمال نہيں كيا_

۶_ آزر ،حضرت ابراہيم كو سنگسار كرنے كى دھمكى اور اپنے سے دور كرنے كے ذريعے چاہتا تھا كہ ابراہيم پر اپنے عقائد كو مسلط اور انہيں توحيد سے دور كرے_لئن لم تنته لا رجمنّك واهجر نى مليّا

۷_ آزر، بہت سے بتوں كواپنا معبود سمجھتا اور انكى عبادت كرتا تھا _قال ا راغب ا نت عن ء الهتي

۸_ آزر كے زمانے ميں بت پرستى سے اعراض كى سز ا سنگسار كرنا تھى _لئن لم تنتة لا رجمنّك

آزر نے دو طريقوں سے ابراہيم پردباؤڈالا (۱) سنگسار كرنے كى دھمكى (۲) اپنے گھر سے نكالنا اين طريقوں ميں معاشرتى پہلو كا حامل سنگسار كرنے كى سزا ہے _كيونكہ سنگسار كرنے كى سزا بغير كسى قانونى پشت پناہى ومركزكے صرف شخصى ارادہ كے ذريعے اجراء ہونا خلاف قاعدہ ہے _ جبكہ گھر سے نكالنا ايك شخصى مسئلہ ہے _تو اس حوالے سے ہم كہ سكتے ميں كہ بتوں كى مخالفت كرنے والوں كے ليے سنگسار كرنے كا قانون موجود تھا _

۹_ حضرت ابراہيم، آزر كے گھر ميں اسكى زير سرپرستى زندگى گذارتے تھے_واهجر نى مليّا

آزر:آزر اور ابراہيم ۹; آزر كا بے منطق ہونا ۵;۶; آزر كا تعجب ۱;آزر كى بت پرستى ۷; آزر كى دھمكياں ۳; آزر كى دھمكيوں كافلسفہ ۶;آز ر كى

۶۹۷

سختى ۵; آزر كى قسم ۴; آزر كى لاعلمى ۲;آزر كے معبودوں كا زيادہ ہونا ۷

ابراہيم :ابراہيم پر عقيدہ مسلط كرنا ۶; ابراہيم كا شرك كى مخالفت كرنا ۱،۴; ابراہيم كاعقيدہ ۲; ابراہيم كاقصہ ۱،۲، ۳، ۴، ۵، ۶، ۹;ابراہيم كا نكالا جانا ۴،۶ ; ابراہيم كو دھمكى ۳،۶;ابراہيم كو سنگسار كرنا ۳ ، ۴ ; ابراہيم كى توحيد ۲;ابراہيم كى كفالت كرنا ۹;ابراہيم كے عقيدہ پرتعجب ۱

بت پرستى :بت پرستى سے دورى كى سزا۸

سنگسار :ابراہيم كے زمانہ ميں سنگسار ۸;سنگسار كى تاريخ ۸

آیت ۴۷

( قَالَ سَلَامٌ عَلَيْكَ سَأَسْتَغْفِرُ لَكَ رَبِّي إِنَّهُ كَانَ بِي حَفِيّاً )

ابراہيم نے كہا كہ خدا آپ كو سلامت ركھے ميں عنقريب اپنے رب سے آپ كے لئے مغفرت طلب كروں گا كہ وہ ميرے حال پر بہت مہربان ہے (۴۷)

۱_حضرت ابراہيم نے آزر كے سخت اور غير منطقى رويے كے بعد اسكے ساتھ توحيد اور شرك كے حوالے سے گفتگو اور بحث ختم كردى _قال سلام عليك

( سلام عليك ) كے جملہ كا ايك استعمال يہ بھى ہے كہ جب ايك فريق بحث يہ چاہے كہ بحث كو ختم كردے اور مزيد اسكو جارى نہ ركھنا چاہتا ہو جيسا كہ آيت (إذا خاطبهم الجاهلون قالوا سلاماً )ميں آيا ہے _حضرت ابرہيم كى آزر كے ساتھ گفتگو ميں سلام بھى ظاہر اًاسى قسم سے تعلق ركھتا ہے _

۲_ حضرت ابراہيم نے آزر كے سخت اور دھمكى والے روّيہ كے باوجود اس سے نرم اند از ميں گفتگو اور مہربانى والا روّ يہ جارى ركھا _قال سلام عليك سا ستغفرلك ربّي

۳_ حضرت ابراہيم نے آزر كے ساتھ گفتگو كو ختم كرنے كے اعلان كے بعد اسے وعدہ ديا كہ وہ جلدى الله تعالى سے اسكے شرك كے گناہ كى مغفرت طلب كرے گے_قال سلام عليك سا ستغفر لك ربّي

حضر ت ابراہيم عليہ السلام پچھلى آيات ميں (ا خاف ) كے قرينہ كى بناء پر آزر كو ناقابل بخشش مشرك يا ديگر آيات كى تعبير كے مانند ( دشمن خدا) نہيں سمجھتے تھے لہذا

۶۹۸

اسكے شرك كے گناہ كى بخشش كے حوالے سے پر اميد تھے_اسى ليے نہ اسكے يقينى عذاب كے حوالے سے مطمئن تھے اور نہ ہى اسے حتمى مغفرت كا وعدہ ديا بلكہ الله تعالى كى محبت و مہربانى پر اطمينان ركھتے ہوئے اس اميد كا اظہار كيا كہ انكى طلب بخشش موثر ثابت ہوگى _

۴_ آزر كى بت پرستى پر اصرار اور تعصب كے باوجود حضرت ابراہيم، آزر كے ہدايت پانے كے حوالے سے اميدوار تھے _سا ستغفرلك ربّي ممكن ہے حضرت ابراہيم (ع) كى طلب مغفرت سے مراد مقدمات مغفرت كى طلب ( بت پرستى كا ترك ہونا ) ہو چونكہ حضرت ابراہيم، آزر كے ہدايت پانے كے حوالے سے نااميد نہيں ہوئے تھے لہذا اسكے احساسات ابھارتے ہوئے اسے رام كرنے كى كوشش كى _

۵_ حضرت ابراہيم (ع) نے آزر كو مغفرت طلب كرنے كا وعدہ ديتے ہوئے اسے توحيد كى طرف مائل اوراس كى شدت كا علاج كرنے كى كوشش كى _قال سلام عليك سا ستغفر لك ربّي حضرت ابراہيم (ع) كے جواب ميں نرمى اور اسے بخشش طلب كرنے كا وعدہ ينا ممكن ہے اس حوالے سے ہو كہ وہ اس انداز سے اسے متوجہ كرنے اور اس كے دل كو نرم كرنے كے ذريعے چاھتے ہوں كو وہ بت پرستى سے ہاتھ كھينچ لے _

۶_ انبياء اور الله تعالى كے عظيم بندوں كى دوسروں كيلئے دعا، خصوصى اثر كى حامل اور قبوليت كے مقام پرہوتى ہے _سا ستغفر لك ربّى إنه كان بى حفيا حضرت ابراہيم اس ليے طلب بخشش كا وعدہ دے رہے تھے كہ انہيں اپنے استغفار كے موثر ہونے كے بارے ميں اطمينان تھا _

۷_ دوسروں كيلئے استغفار كرنا جائز اور صحيح ہے _سا ستغفر لك ربّي

۸_ حضرت ابراہيم بعض مشركين كيلئے استغفار كو صحيح سمجھتے تھے _سا ستغفر لك ربّي

۹_ حضرت ابراہيم، بعض مشركين كے شرك كو قابل بخشش سمجھتے تھے _سا ستغفر لك ربّي

۱۰_ گنا ہوں كى مغفرت، الله تعالى كى ملكيت اور اختيار ميں ہے _سا ستغفر لك ربّي

۱۱_ الله تعالى كى ربوبيت اقتضاء كرتى ہے كہ وہ بخشش كى درخواست قبول كرے _سا ستغفر لك ربّي

۱۲_حضرت ابراہيم ، بت پرستوں سے صبر و شكيبائي اور وسعت قلبى سے پيش آتے تھے_

۱۳_ جاہلوں ، بد زبانوں اورمخالفين سے خوش اخلاقى ، اچھے اور وسعت قبلى كے انداز سے پيش آنا، ايك بہترين طريقہ اور

۶۹۹

ابراہيمى روش ہے_قال سلام عليك سا ستغفر لك ربّي حضرت ابراہيم كے عمل اور گفتگو كا بيان كيا جانا اور اسے ياد كرنے كا حكم، اس عمل اور روش كے بہترين ہونے پر دلالت كرتا ہے_

۱۴_خطا كاروں سے در گزر او ر انكے ليئے دعا كرنا ہے انبياء كى صفت اور نيك خصلت ہے_لا رجمنّك واهجرنى سا ستغفرلك ربّي

۱۵_ دعا كى قبوليت اور مغفرت و رحمت كى درخواست ميں زمانى خصوصيات كا عمل ودخل ہے_سا ستغفر لك ربّي

۱۶_ استغفار ميں تاخير، الله تعالى سے قبوليت ميں ركاوٹ نہيں ہے_سا ستغفر لك ربّي

۱۷_ دعا اور استغفار كے آداب ميں سے ايك الله تعالى كى ربوبيت كى طرف توجہ كرناہے _سا ستغفر لك ربّي

۱۸_اللہ تعالى كى خصوصى عنايت ولطف ہميشہ حضرت ابراہيم كے شامل حال تھے_إنه كان بى حفيّا

( حفيّ) يعنى وہ جو دوسروں كے حق ميں انتہائي اچھائي اور تكريم سے پيش آئے ( لسان العرب سے اقتباس ) اور'' كان'' ان مقامات پر ہميشگى اور بقا كو بيان كرتا ہے _ لہذا اس جملہ كا مضمون كچھ اس طرح ہے كہ الله تعالى نے ہميشہ مجھے اپنى عنايت و لطف سے نواز ہے_اگر چہ (حفى ) كا ايك معنى ''عالم'' بھى ہے ليكن جو ذكر ہوا ہے وہ آيت سے زيادہ مناسبت ركھتا ہے _

۱۹_پيغمبر اور الله تعالى كے محبوب بندے اسكے بے پناہ لطف وانعام كے زير سايہ ہيں _إنه كان بى حفيا

۲۰_ حضر ت ابراہيم اپنے آپ پر الله تعالى كى خصوصى عنايت و لطف كو اپنے استغفار كى قبوليت كى بنياد سمجھتے تھے _

سا ستغفر لك ربّى إنه كان بى حفيا

۲۱_ حضرت ابراہيم پر الله تعالى كى مہربانى اور لطف نے انہيں آزر كے گھر ومحبت سے بے نياز كرديا تھا _

قال سلام عليك إنه كان بى حفي جملہ ( إنہ كان بى حفياًپ) آزر كے غير مناسب رويہ كے مقابل حضرت ابراہيم كا جواب بھى ہے _ يعنى اگر چہ تم نے مجھے گھرسے نكال ديا اور سنگسار كرنے كى دھمكى دے رہے ہو ليكن ميرے ليے الله تعالى كا لطف و عنايت ہى كا فى ہے _

آزر :آزرسےبحث كو ترك كرنا ۱; آزر كا بے منطق ہونا ۱; آزر كو استغفار كا وعدہ دينے كا فلسفہ ۵; آزر كو وعدہ استغفار دنيا ۳;آزر كى دھمكيان ۲;آزر كى سختى ۱; ۲; ازر كى ہدايت ۴;آذر كى ہدايت كا پيش خيمہ۵;آزر كيلئے استغفار ۲۰

۷۰۰

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809

810

811

812

813

814

815

816

817

818

819

820

821

822

823

824

825

826

827

828

829

830

831

832

833

834

835

836

837

838

839

840

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863

864

865

866

867

868

869

870

871

872

873

874

875

876

877

878

879

880

881

882

883

884

885

886

887

888

889

890

891

892

893

894

895

896

897

898

899

900

901

902

903

904

905

906

907

908

909

910

911

912

913

914

915

916

917

918

919

920

921

922

923

924

925

926

927

928

929

930

931

932

933

934

935

936

937

938

939

940

941

942

943

944

945