تفسير راہنما جلد ۱۰

تفسير راہنما 4%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 945

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 945 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 247286 / ڈاؤنلوڈ: 3404
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱۰

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

قال أميرالمؤمنين الا مرمن اللّه والحكم ثم تلا هذه الآية: وقضى ربّك ألاّ تعبدوا إلّا إيّاه وبالوالدين إحساناً (۱)

ابن عباس سے روايت ہوئي ہے كہ جب اميرالمؤمنين (ع) جنگ صفين سے واپس پلٹے توايك بوڑھا شخص ان كے پاس اٹھ كھڑا ہوا اور ا س نے كہا : اے اميرالمؤمنين ہم نے جو سفر كيا اس كے بارے ميں بتائيں آيا وہ قضا وقدر الہى كى وجہ سے تھا؟ اميرالمؤمنين (ع) نے فرمايا :

فرمان و حكم الله تعالى كى طرف سے تھا پھر يہ آيت :''وقضى ربك إاّ تعبدوا إلّا إيّاه وبالوالدين إحساناً'' كى تلاوت فرمائي_

۱۹_''عن أبى جعفر(ع) بعث اللّه عزّوجلّ محمداً(ص) وهو بمكة عشر سنين فلم يمت بمكة فى تلك العشرسنين ا حديشهد ا ن لا إله إلّا اللّه وا ن محمد (ص) رسول اللّه إلّا ا دخله اللّه الجنة باقراره وهو إيمان التصديق ولم يعذب اللّه ا حداً إلّا من أشرك بالرحمن وتصديق ذلك ان اللّه عزّوجلّ ا نزل عليه فى سورة بنى إسرائيل بمكة ''وقضى ربّك ا لاّ تعبدوا إلّا إيّاه ...'' أدب وعظة وتعليم ونهى خفيف ولم يعد عليه ولم يتواعد على اجتراح شيء ممّا نهى عنه (۲)

امام باقر(ع) سے روايت ہوئي ہے كہ الله تعالى نے حضرت محمد (ص) كو مبعوث كيا اور وہ دس سال مكہ ميں رہے مكہ ميں ان دس سالوں ميں كوئي بھى نہ تھا كہ جو مرگيا ہو اور الله تعالى كى وحدانيت اور محمد رسول الله (ص) كى نبوت كى گواہى دى ہو مگر يہ كہ الله تعالى نے اسے اس كے اقرار كى وجہ سے جنت ميں داخل كيا ہو اور يہ ايمان تصديق ہے اور الله تعالى كسى كو عذاب نہيں كرتا مگر يہ كہ اس نے الله كے حوالے سے شرك كياہو اور اس بات كى گواہ خود سورہ بنى إسرائيل ہے كيونكہ اس كى آيات كو خدا نے مكہ ميں قلب پيغمبر پر نازل كيا ہے : ''وقضى ربّك الاّ تعبدوا إلّا إيّاہ ...'' اس آيت ميں ادب كرنا، موعظہ، تعليم اور خفيف نہى ہے_ جزا كا وعدہ اور جن چيزوں سے منع كيا گيا ہے ان كے ارتكاب كى صورت ميں عذاب كا بيان نہيں ہوا ہے_

۲۰_وقال الصادق (ع) قوله تعالى : ''وبالوالدين إحساناً'' قال: الوالد محمد (ص) وعلى (ع) _(۱) امام صادق (ع) نے الله تعالى كے اس كلام : ''وبالوالدين إحساناً'' كے حوالے سے فرمايا : والد سے مراد محمد(ص) اور على (ع) ہيں _

۲۱_عن أبى ولاد الحناط قال : سا لت أبا عبداللّه (ع) عن قوله اللّه عزّوجلّ ''وبالوالدين إحساناً'' ما هذا الإحسان؟ فقال : الإ حسان ا ن تحسن صحبتهما وا ن لا تكلفهما ا ن يسا لاك شيئاً ممّا يحتاجان إليه وإن كانا مستغنيين وا مّا

____________________

۱) توحید صدوق ص ۳۸۲، ح ۲۸ ، ب ۶۰، نورالثقلين ج ۳ ، ص ۱۴۸، ح ۱۲۸_۲) كافى ج ۲ ، ص ۲۹، ح ۱، بحارالانوار ج ۶۶، ص ۸۶ ، ح ۳۰_

۶۱

قول اللّه عزّوجلّ :''إمّا يبلغنّ عندك الكبر ا حدهما ا و كلاهما فلا تقل لهما ا فّ ولاتنهرهما '' قال : إن ا ضجراك فلا تقل لهما ا فّ ولا تنهر هما إن ضرباك قال: وقل لهما قولاً كريماً قال: إن ضرباك فقل لهما: غفرالله لكما فذلك منك قول كريم (۲)

ابى ولاد حناط كہتے ہيں كہ امام صادق (ع) سے الله تعالى كے اس كلام ''وبالوالدين احساناً'' كے بارے ميں پوچھا كہ اس آيت ميں احسان سے مراد كيا ہے؟ تو انہوں نے فرمايا : احسان سے مراد ان سے حسن سلوك ہے اور يہ كہ جس كى انہيں ضرورت ہو اس كے بارے ميں تمہيں كہنے كى انہيں زحمت نہ ہو اگرچہ مالى اعتبار سے وہ غنى ہى كيوں نہ ہوں ''_ اس آيت''إمّا يبلغنّ عندك الكبر ا حدهما ا و وكلاهما فلا تقل لهما ا فّ ولا تنهر هما'' كے بارے ميں حضرت نے فرمايا: ''اگر وہ تمہيں پريشان كريں تو انہيں اف نہ كہو اور ان پر نہ چيخو وچلائو اور كسى قسم كى اہانت نہ كرو چاہے وہ تمہيں ماربھى ليں _ الله تعالى نے فرمايا :''وقل لهما قولاً كريما'' تو حضرت فرماتے ہيں اگر وہ تمہيں ماريں تو انہيں كہو الله تمہيں بخشے يہ بات تمہارى طرف سے قول كريم شمار ہوگي''_

احسان:احكام احسان ۴

احكام:۴، ۱۴، ۱۶احكام كا فلسفہ :۳

الله تعالى :الله تعالى كے اوامر ۳;اللہ تعالى كى نواہى ۱، ۲، ۱۹

امام على (ع) :امام على (ع) كا والد ہونا ۲۰

تربيت:تربيت كى اہميت ۸/ترقي:ترقى كا پيش خيمہ ۳/توحيد :توحيد عبادى كى اہميت ۳;توحيد كا فلسفہ ۳

روايت : ۱۸، ۱۹، ۲۰، ۲۱

شرك:شرك سے اجتناب ۹;شرك سے نہى ۱۹; شرك عبادى سے نہى ۱، ۲

عبادت :الله تعالى كى عبادت كى اہميت ۵; الله تعالى كى عبادت كى قدروقيمت۵

فرزند: فرزند كى ذمہ دارى ميں مو ثر اسباب ۱۲; فرزند كى ذمہ دارى ۱۰، ۱۱، ۱۵

____________________

۱) روضة الواعظےن (ابن الفارسى قتال نيشابوري، ص ۱۰۵ نورالثقلين ج۳، ص ۱۵۰ ، ح ۱۳۵_

۲) كافى ج ۲، ص ۱۵۷، ح ۱، نورالثقلين ج ۳، ص ۱۴۸، ح ۱۲۹_

۶۲

قضا وقدر: ۱۸

محرمات : ۱۴

محمد -(ص) :محمد (ص) كا والد ہونا ۲۰

مربي:مربى كے حقوق ۸

معاشرت :معاشرت كے آداب ۱۶

موحدين:موحدين كا احسان ۷;موحدين كى علامتيں ۷

واجبات: ۴، ۶

والدين:والدين سے گفتگو كے آداب ۱۶;والدين كا احترام ۱۶;والدين سے احسان ۴،۷ ،۲۰ ; والدين كے احترام كى اہميت ۱۴، ۱۵، ۱۶; والدين كے ساتھ احسان كى اہميت ۵ ;والدين كے حقوق كى اہميت ۶; والدين كے حقوق كا برابر ہونا ۱۷; والدين كا بوڑھا ہونا ۱۵;والدين كى ضرورتوں كا پورا ہونا ۱۵;والدين كى توہين كا حرام ہونا ۱۴ ; والدين كى بے احترامى كا خطرہ ۱۴;والدين كے ساتھ نيكى كے شرائط ۹; والدين سے احسان كى قدروقيمت ۵; والدين سے نيكى كا مطلب ۲۱; والدين كے بڑھاپے كے نتائج ۱۰، ۱۳;والدين كے ساتھ زندگى گزارنے كے نتائج ۱۲; والدين كى نگہبانى ۱۱

آیت ۲۴

( وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُل رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيراً )

اور ان كے لئے خاكسارى كے ساتھ اپنے كاندھوں كو جھكادينا اور ان كے حق ميں دعا كرتے رہنا كہ پروردگار ان دونوں پر اسى طرح رحمت نازل فرما جس طرح كہ انھوں نے بچينے ميں مجھے پالا ہے (۲۴)

۱_اولاد كو چاہيے كہ اپنے والدين كے مد مقابل مہربانى اور ترحم سے پورى پورى عاجزى اور انكسارى كا اظہار كريں _

واخفض لهما جناح الذلّ من الرحمة

''من الرحمة'' ميں ''من'' نشويہ ہے_ يعنى ان كے مدمقابل تواضع وعاجزى كا منشاء ،رحمت ومہربانى ہو_

۲_ماں باپ كا بڑھاپا اور ضعف،اولاد كا سركشى ونافرمانى ميں مبتلا ہونے كا پيش خيمہ ہے _

إمّا يبلغنّ عندك الكبر واخفض لهما جناح الذلّ

۶۳

والدين كى بڑھاپے ميں خيال ركھنے كى الہى نصيحت شايد اس لئے ہو كہ والدين كے اس زمانہ زندگى ميں بچوں كى لغزش وسركشى ميں پڑنے كى فضا سازگار ہوتى ہے_

۳_والدين سے مہربانى اور تواضع سے پيش آنا اولاد كى ذمہ دارى ہے_واخفض لهما جناح الذلّ من الرحمة

۴_والدين كے لئے مہربانى اور قلبى محبت كے ساتھ تواضع ،قدروقيمت كى حامل ہے نہ كسى اور انگيزہ كے ساتھ تواضع _

واخفض لهما جناح الذلّ من الرحمة

۵_والدين كے لئے الله تعالى سے دعا اور بے پنا ہ رحمت كى طلب اولاد كى ذمہ دارى ہے_

قل ربّ ارحمهما كما ربيّانى صغيرا

''كما'' ہوسكتا ہے اس حقيقت كى طرف اشارہ ہو رہاہو كہ چونكہ بچوں كے لئے والدين كى رحمت بے پناہ ہوتى ہے پس بچوں كو بھى چاہيے مد مقابل اسى طرح والدين كے لئے رحمت طلب كريں _

۶_ماں باپ كے ذريعے اولاد كى تربيت ،رحمت ومحبت كى بناء پر ہے _ربّ ارحمهما كما ربيّانى صغيرا

''كما ربياني'' مصدر مقدر( رحمت) كى صفت ہے_ اس طرح عبارت يوں ہوگي: ''رب ارحمھما مثل رحمتھما وتربيتھما لي'' (اے پروردگار جس طرح انہوں نے مجھ پر رحم كيا تو بھى ان پر رحم كر)

۷_والدين نے پرورش كے حوالے سے جو مشقتيں برداشت كيں بچے ہميشہ ان پر توجہ ركھيں _

وقل ربّ ارحمهما كما ربيّانى صغيرا

دعاكے وقت والدين كى زحمتوں كو ياد كرنے كا الہى حكم، ہوسكتا ہے مندرجہ بالا حقيقت كى تعليم كى وجہ سے ہو_

۸_انسان كى ا س كے بچپن كے زمانہ ميں والدين كى خدمت اور زحمت كى طرف توجہ كرنے سے ان كے حوالے سے ا س كے احساسات ابھرتے ہيں _وقل ربّ ارحمهما كما ربيّانى صغيرا

۹_الله تعالى سے والدين كے لئے رحمت كى درخواست كرنا ان كى بے پناہ زحمتوں كے كچھ حصے كا حق ادا كرنا ہے_

وقل ربّ ارحمهما كما ربيّانى صغيرا

''كما'' حرف تشبيہ مجازى ہے اور ''لما'' كے معنى ميں ہے يعنى اے پروردگار ان پر رحم كر جس طرح انہوں نے اپنى زحمتوں كے ساتھ ميرى پرورش كي_

۱۰_انسان كو چاہيے اپنے مربّى كى قدردانى كرے اور اس كے لئے الله تعالى سے رحمت طلب كرے _

۶۴

ربّ ارحمهما كما ربيّانى صغيرا

۱۱_ مقام دعا اور مناجات ميں پروردگار كى ربوبيت سے تمسك كرنا ايك بہترين اور پسنديدہ انداز ہے_

قل رب ارحمهما كما ربيّانى صغيرا

۱۲_والدين كے لئے دعا نہايت مو ثر اور الله تعالى كى خصوصى توجہ كا مركز ہے اور يہ دعا كى قبوليت كا مقام ہے_

وقل ربّ ارحمهم

كيوں كہ الله تعالى نے خاص الفاظ كى صورت ميں والدين كے لئے دعا كا حكم ديا ہے _ اس سے معلوم ہوتا ہے الله تعالى كى اس دعا پر خاص عنايت ہے_ لہذا اس ميں قبوليت كا احتمال زيادہ ہے _

۱۳_ماں باپ كے محبت سے معمور دامن ميں اولاد كى تربيت ايك عظےم قابل قدر نعمت ہے اور ان كے بچوں كى طرف سے انكے حق ميں ہر قسم كا احسان واحترام كے استحقاق كى باعث ہے_

وبالوالدين إحساناً واخفض لهما جناح الذلّ من الرحمة وقل رب ارحمهما كما ربيّانى صغيرا

مندرجہ بالا مطلب اس نكتہ سے ليا گيا ہے كہ الله تعالى نے بچوں كو والدين كے حق ميں انداز دعا سكھانے ميں والدين كى تربيت كا مسئلہ ياد ديدياہے(كما ربيانى صغيراً )

۱۴_عن ا بى ولاد الحناط قال: سا لت أباعبدالله (ع) عن قوله الله عزّوجلّ ...''واخفض لهما جناح الذلّ من الرحمة'' قال لا تملا عينيك من النظر إليهما الاُ برحمة ورقة ولا ترفع صوتك فوق ا صواتهما ولا يدك فوق ا يديهما ولا تقدم قد امهما _(۱)

ابى ولاد حناط كہتے ہيں كہ امام صادق _ سے الله تعالى كے اس كلام'' واخفض لهما جناح الذلّ من الرحمة'' كے بارے ميں پوچھا تو حضرت (ع) نے فرمايا : والدين كى طرف سوائے محبت وپيار كے نہ ديكھ اور اپنى آواز ان كى آواز سے بلند نہ كر اور اپنے ہاتھ كو ان كے ہاتھوں سے بلند نہ كر اور (راہ چلتے ہوئے) ان سے سبقت نہ كر_

احساسات:فيملى كے احساسات ۸/ابھارنا:ابھارنے كے اسباب ۸

اہميتيں : ۴تربيت :تربيت كا انداز ۶/توسل :الله تعالى كى ربوبيت سے توسل ۱۱

دعا :دعا كے آداب ۱۱;دعا كى قبوليت كا پيش خيمہ ۱۲

____________________

۱) كافى ج ۲، ص ۱۵۸، ح۱، نورالثقلين ج۳، ص ۱۴۸، ح ۱۲۹_

۶۵

ذكر:والدين كى زحمتوں كا ذكر ۷، ۸;بچپن كى ضرورتوں كا ذكر ۸

روايت: ۱۴شكر:نعمت كا شكر ۱۳عمل :پسنديدہ عمل ۱۱

فرزند:فرزند كى سركشى كا پيش خيمہ ۲;فرزند كے غرور كا پيش خيمہ ۲;فرزند كى ذمہ دارى ۱، ۳، ۵، ۷، ۱۳;فرزند كى تربيت ميں مہربانى ۶; فرزند كى تربيت كے نتائج ۱۳;فرزند كى دعا كے نتائج ۱۲

مربي:مربى كے لئے رحمت كى درخواست ۱۰; مربى كے لئے دعا ۱۰;مربى كا شكريہ ۱۰

معاشرت:معاشرت كے آداب ۱۰

نعمت:نعمت كے موارد ۱۳

نفسيات :تربيتى نفسيات ۶

والدين:والدين كااحترام ۱، ۳، ۱۴;والدين كے احترام كى اہميت ۱۳;والدين كے ساتھ احسان كى اہميت ۱۳;والدين كے لئے تواضع ۱;والدين كے لئے احساسات كا پيش خيمہ۸;والدين كے لئے رحمت كى درخواست۵;والدين كے لئے دعا ۵، ۹، ۱۲; والدين كى زحمتوں كا شكريہ ۹; والدين كا شكريہ۷; والدين سے ميل جول كا طريقہ ۱۴;والدين كے احترام كى قدرو قيمت ۴; والدين كے لئے تواضع كى قدرو قيمت ۴;والدين كے ساتھ مہربانى كى قدروقيمت ۴;والدين كے ساتھ مہربانى ۱، ۳، ۱۴;والدين كے بڑھاپے كے نتائج ۲

آیت ۲۵

( رَّبُّكُمْ أَعْلَمُ بِمَا فِي نُفُوسِكُمْ إِن تَكُونُواْ صَالِحِينَ فَإِنَّهُ كَانَ لِلأَوَّابِينَ غَفُوراً )

تمھارا پروردگار تمھارے دلوں كے حالات سے خوب باخبر ہے اور اگر تم صالح اور نيك كردار ہو تو وہ توبہ كرنے والوں كے لئے بہت بخشنے والا بھى ہے (۲۵)

۱_پروردگار انسانوں كے باطن سے مكمل آگاہى ركھتاہے_ربكم أعلم بما فى نفوسكم

۲_پروردگار كى ربوبيت كا تقاضا ہے كہ وہ انسانوں كے باطنى حالات سے مكمل آگاہى اور علم ركھے_ربكم أعلم بما فى نفوسكم

۳_عبادت اور والدين كے ساتھ احسان ميں انسان كى نيتوں ، انگيزوں اور اس كے خيالات پر الله تعالى كى مكمل نگرانى ہے_وقضى ربّك ا لاّ تعبدوا إلّا إيّاه وبالوالدين إحساناً واخفض لهما جناح الذلّ ربّكم أعلم بما فى نفوسكم

۶۶

۴_خود انسان كى نسبت اس كے باطنى حالات اور خيالات سے الله تعالى زيادہ آگاہ ہے_ربكمأعلم بما فى نفوسكم

مندرجہ بالا مطلب كى بناء يہ ہے كہ ''أعلم'' كا مفضل عليہ ''منكم'' ہے يعنى الله تعالى كى تمہارے باطن سے آگاہى خود تم سے زيادہ ہے_

۵_انسانى عمل كے پركھنے ميں اس كى نيت واضح كردار كى حامل ہے _ربكم إعلم بما فى نفوسكم _انسان كے دل ميں سوائے اس كى نيتوں ' خيالات اور اس كے تخيلّات وغيرہ كے علاوہ كچھ نہيں ہوتا الله تعالى نے صالحين كى توبہ قبول كرنے كى خوشخبرى دينے سے پہلے انسان كے باطنى انگيزوں كى اہميت اور اس كى قبوليت توبہ ميں واضح كردار كى طرف اشارہ كيا ہے_

۶_اصلاح ايك باطنى اور قلبى چيز ہے نہ كہ ظاہرى اور دعوى كى حد تكربكم ا علم بما فى نفوسكم إن تكونوا صالحين

''صلاح''گويا قبوليت توبہ كى ايك شرط بن رہى ہے_يہاں صلاح وتوبہ كے بيان سے پہلے خبردار كيا گيا ہے كہ الله تعالى تمہارے باطن سے آگاہى ركھتا ہے_ اس طرح كہ تنبيہ ممكن ہے اس نكتہ كى طرف اشارہ كر رہى ہو كہ اصلاح ايك باطنى چيز ہے_

۷_الله تعالى بچوں كى والدين كے حق ميں قلبى انكسارى اور مہربانى چاہتا ہے نہ صرف ظاہرى حد تك _

واخفض لهما جناح الذلّ من الرحمة ربّكم أعلم بمافى نفوسكم _

الله تعالى نے پچھلى آيات ميں حكم ديا ہے كہ والدين كے ساتھ احسان اور انكسارى سے برتائو كريں اور اس آيت ميں فرما رہا ہے كہ تمہارى باطنى نيتوں سے آگاہ ہوں _ پچھلے حكم كے بعد نيتوں سے آگاہى والى بات ممكن ہے اس لئے ہو كہ ان كے ساتھ قلبى طور پر انكسارى ہو نہ كہ ظاہرى حد تك_

۸_اصلاح اورگناہوں سے توبہ كرنا بخشے جانے اور معاف ہونے كا پيش خيمہ ہے _إن تكونوا صالحين فإنه كان للا وّ بين غفورا

۹_الله تعالى كے عفو اور بخشش كى ضرورى شرائط ميں سے ہے كہ پہلے صالح ہو _إن تكونوا صالحين فإنه كان للاوّ بين غفورا

۱۰_انسان بلكہ صالحين بھى والدين كے حقوق كے حوالے سے غلطى اور كوتاہى كے خطرے ميں ہيں

۶۷

_واخفض لهما جناح الذلّ ربّكم ا علم ...إن تكونوا صالحين فإنه كان للاوّبين غفورا

۱۱_توبہ كرنے والے اور وہ جو غلطيوں كو چھوڑ كر الله تعالى كى طرف لوٹ آئے پروردگار كى بخشش اور معافى كے حامل ہيں _فإنه كان لا وّبين غفورا

۱۲_اللہ تعالى ،صالح انسانوں كو ان كى والدين كے حقوق كے حوالے سے نہ چاہتے ہوئے غلطيوں كى بخشش كى خوشخبرى دينے والاہے _ربّكم أعلم بما فى نفوسكم إن تكونوا صالحين فإنه كان للاوّإبين غفورا

۱۳_والدين كى اہانت اور انكے حقوق كى مراعات ميں كوتاہى كا گناہ ،توبہ كا محتاج ہے _واخفض لهما فإنه كان للاوّبين غفور

۱۴_گناہوں سے لوٹنے اور توبہ پر ڈٹے رہنا الله تعالى كى بخشش كو حاصل كرنے كے اسباب ميں سے ہے_

فانه كان للاوّبين غفورا

''اوّاب'' مبالغہ كا صيغہ ہے اور اس سے مراد بہت توبہ كرنے والا شخص ہے _ لہذا تائب كى جگہ يہ صيغہ آنا، ممكن ہے مندرجہ بالا مطلب كى طرف اشارہ ہو_

۱۵_اللہ تعالى كى طرف سے گناہ گار توبہ كرنے والوں كى بخشش انكى تربيت وتكامل كے حوالے سے ہے_ربكم كان للاوّبين غفورا مندرجہ بالا مطلب ميں ''رب'' سے مراد تربيت كرنے والا ليا گيا ہے جو كہ اس كا اصل معنى ہے (مفردات راغب) يعنى گناہ گاروں كى بخشش الله تعالى كے مقام مربى وربوبيت كا تقاضا ہے_

۱۶_صالحین ،توبہ كى صلاحيت كے حامل ہيں _إن تكونوا صالحين فإنه كان للاوّبين غفورا

شرط كے جواب ميں جملہ ''انہ كان صالحین'' كى جگہ''إنه كان للاوّبين'' آيا ہے_ يعنى ''الاوّبين'' ''صالحین ''كى جگہ پر آيا ہے_ اس سے مندرجہ بالا معنى پيدا ہو رہا ہے_

۱۷_الله تعالى ''غفور'' (بہت زيادہ معاف كرنے والا) ہے _فإنه كان غفورا

۱۸_عن أبى بصير قال: سمعت ا با عبدالله (ع) يقول فى قوله تعالى :''إنه كان للاوّبين غفوراً''قال: هم التوابون المتعبدون'' _(۱) ابى بصير كہتے ہيں كہ امام صادق _ سے سنا كہ آپ الله تعالى كے اس كلام:''إنه كان للاوّبين'' كے حوالے سے فرمارہے تھے كہ توبہ كرنے والوں سے مراد متعبد (تقرب الہى كى چاہت ركھنے والے) ہيں _

اسما وصفات:غفور ۱۷

۶۸

الله تعالى :الله تعالى اور نيتيں ۳;اللہ تعالى كے احكام ۷; الله تعالى كى بخشش ۹; الله تعالى كى بشارتيں ۱۲;اللہ تعالى كے عفو كى شرائط ۹; الله تعالى كا علم غيب ۱، ۲، ۴ ;اللہ تعالى كى ربوبيت كے نتائج ۲;اللہ تعالى كى نگرانى ۳

انسان:انسان كے انگيزے ۳;انسان كے باطنى حالات ۲،۴;انسان كے خيالات ۳، ۴;انسانوں كے راز ۱;انسان كى عبادت ۳;انسان كى غلطياں ۱۰

بخشش :بخشش كے اسباب ۱۴;بخشش كا پيش خيمہ ۸; بخشش كے شامل حال ۱۱;بخشش كى شرائط ۹

بشارت:بخشش كى بشارت ۱۲

تربيت:تربيت كا پيش خيمہ ۱۵

تكامل :تكامل كا پيش خيمہ ۱۵

توبہ:توبہ پر ڈٹے رہنے كے نتائج ۱۴

توبہ كرنے والے :توبہ كرنے والوں كى بخشش ۱۱، ۱۵، ۱۸;توبہ كرنے

والوں كى بخشش كا پيش خيمہ ۸

روايت : ۱۸

صالحین :صالحین كو بشارت ۱۲;صالحين كى بخشش كا پيش خيمہ ۸;صالحين كى غلطى كا پيش خيمہ ۱۰; صالحين كى توبہ ۱۶

صالح ہونا:صالح ہونے كى حقيقت ۶;صالح ہونے كے نتائج ۹

عمل:عمل كے تجزيہ كا معيار ۵

فرزند:فرزند كى ذمہ دارى ۷

گناہ:گناہ كے موارد ۱۳

نيت :نيت كے نتائج ۵

والدين :والدين كے لئے انكسارى ۷;والدين كى بے احترامى سے توبہ ۱۳;والدين كے حقوق ميں كوتاہى ۱۰;والدين كى بے احترامى كا گناہ ۱۳; والدين سے مہربانى ۷

____________________

۱) تفسير عياشي، ج ۲، ص ۳۲۸۶،ح ۴۲_ نورالثقلين ج۳، ص ۱۵۳، ح ۱۵۱

۶۹

آیت ۲۶

( وَآتِ ذَا الْقُرْبَى حَقَّهُ وَالْمِسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَلاَ تُبَذِّرْ تَبْذِيراً )

اورديكھو قرابتداروں كو اور مسكين كو اور مسافر غربت زدہ كو اس كا حق دے اور خبردار اسراف سے كام نہ لينا(۲۶)

۱_رشتہ داروں كا حق ادا كرنا واجب اور لازم ہے_وء ات ذإلقربى حقّه

۲_پيغمبر (ص) پر فضول خرچى سے بچتے ہوئے اعتدال كے ساتھ''رشتہ داروں '' مساكين اور مسافروں كا حق ادا كرنے كى ذمہ دارى ہے_وء ات ذإلقربى حقّه والمسكين وابن السبيل ولاتبذّر تبذيرا

مندرجہ بالا مطلب كى بنياديہ ہے كہ اس آيت ميں مخاطب پيغمبر (ص) ہيں _ اگرچہ يہ حكم دوسروں كو بھى شامل ہے_

۳_رشتہ دارى كا تعلق انسانوں ميں خاص قسم كے حقوق پيدا كرنے كا موجب ہے_وء ات ذإلقربى حقّه

۴_والدين كے حقوق كى ادائيگى كے بعد رشتہ داروں كے حقوق كى رعايت ديگر معاشرتى حقوق پر ترجيح ركھتى ہے_

وبالوالدين إحساناً وء ات ذإلقربى حقهّ والمسكين

آيت ميں ''ذاالقربي'' اور دوسرے دونوں بعد والے مقامات كے درميان ''حقہ'' كا فاصلہ پھر اس كا ان دونوں پر تقدم ممكن ہے''ذى القربى '' دونوں پر امتياز اور الويت ركھتاہو_

۵_دوسروں كے حقوق ادا كرنے كے حوالے سے دين كے احكام انسان كے طبيعى احساسات كے ساتھ سازگار ہيں _

وبالوالدين إحساناً وء ات ذى القربى حقّه

والدين اور رشتہ داروں كے حقوق كو ترجيح دينا اور انكى مشكلات ميں انكى مدد كرنا، انسان كے طبيعى ميلانات ميں سے ہے اور الله تعالى نے بھى اسى كى تائيد كى ہے_

۶_مساكين اور مسافرين كے حقوق كى ادائيگى واجب اور لازم ہے_

وء ات والمسكين وابن السبيل

۷_فقر اور مسافر ہونا ، فقراء اور مسافروں كے لئے خاص قسم كے حقوق پيدا كرنے كا موجب ہے _

وء ات والمسكين وابن السبيل

۸_مسلمان اپنے معاشرے كے مسائل اور ضروريات كے مد مقابل ذمہ دار ہيں _وء ات والمسكين وابن السبيل

۷۰

۹_رشتہ داروں كى مشكلات دور كرنا اگر چہ وہ فقراء يا مسافروں كے زمرہ ميں نہ ہى آتے ہوں ' لازم اور واجب ہيں _

وء ات ذإلقربى حقّه والمسكين وابن السبيل ''ذاالقربى '' كا جدا ذكر ہونا ہوسكتا ہے مندرجہ بالا مطلب كى طرف اشارہ ہو _

۱۰_فضول خرچى (بے جا خرچ كرنا) حرام ہے اوراللہ تعالى كى طرف سے منع كيا گيا ہے _ولا تبذّر تبذيرا

اہل لغت نے اسراف اور تبذير ميں يہ فرق بيان كيا ہے كہ تبذير سے مراد مال كسى ايسى جگہ خرچ كرنا ہے كہ جہاں خرچ نہيں كرنا چاہئے تھا_(فروق اللغة)

۱۱_انسان اپنے اموال كے خرچ كرنے ميں مطلق آزاد نہيں ہے بلكہ محدوديت ركھتاہے_وء ات ولا تبذّر تبذيرا

۱۲_انفاق ميں زيادتى سے پرہيز اور اعتدال ركھنا ضرورى اور واجب ہے _وء ات ولا تبذّر تبذيرا

مندرجہ بالا مطلب كى بناء يہ ہے كہ يہاں ''تبذير'' سے مراد آيت كے موضوع كے مطابق ''رشتہ داروں اور مساكين پر انفاق ميں زيادہ روي'' ہے_ جيسا كہ ذاتى اموال كے خرچ كے حوالے اور دوسروں پر انفاق كے حوالے سے آيت ۲۹ ميں بھى ايسا حكم صادر ہوا ہے _

۱۳_''عن أبى عبدالله (ع) : ...''وء ات ذا القربى حقّه '' فكان على (ع) وكان حقّه الوصية التى جعلت له والإسم الأكبر وميراث العلم وآثار علم النبوة'' (۱)

الله تعالى كے اس كلام''وء ات ذاالقربى حقّہ'' كے بارے ميں امام صادق(ع) سے روايت ہوئي ہے كہ آپ (ع) نے فرمايا : ذاالقربى سے مراد على (ع) ہيں اور ان كے حق سے مراد ان كى پيغمبر اسلام (ص) كى جانشينى ہے كہ جو انكے لئے تقرر ہوئي تھى اور علم كى ميراث اور علم نبوت كے نتائج ہيں _

۱۴_''عن على بن الحسين (ع) فى قوله تعالي: '' وء ات ذإلقربى حقّه '' قال : نحن أولئك الذين ا مرالله ''عزّوجلّ'' نبيه (ص) ا ن يو تيهم حقّهم ...'' _(۲)

امام سجاد(ع) سے اس كلام الہى ''وء ات ذاالقربى حقّہ'' كے بارے ميں روايت ہوئي ہے كہ آپ (ع) نے فرمايا : ''ہم اہل بيت (ع) وہى ہيں كہ جن كے

____________________

۱) كافى ج ۱، ص ۲۹۴، ح ۳_ نورالثقلين ج ۳،ص ۱۵۳، ح ۱۵۷_

۲) احتجاج طبرسى ، ج۲، ص ۳۳، نورالثقلين ج۳، ص ۱۵۵، ح ۱۶۰_

۷۱

بارے ميں الله تعالى نے اپنے پيغمبر اكرم (ص) كو حكم ديا كہ ان كا حق ان كو دو''_

۱۵_''عن أبى الحسن موسى (ع) : ان الله تبارك وتعالى لمّا فتح على نبيه (ص) فدك ...فا نزل الله على نبيه (ص) ''وء ات ذا القربى حقّه'' فلم يدر رسول الله (ص) من هم فا وحى الله إليه ا ن ادفع فدك إلى فاطمة (ع) ..(۱)

ابوالحسن موسى بن جعفر (ع) سے روايت ہوئي ہے كہ جب الله تعالى نے فدك كو پيغمبر اكرم (ص) كے لئے فتح فرمايا تھا تو اس وقت ا س كے لئے يہ آيت نازل ہوئي ''و ا ت ذاالقربى حقّہ'' تو رسول الله (ص) نہيں جانتے تھے كہ انكے اقرباء كون ہيں تو الله تعالى نے انہيں وحى كى كہ فدك كو حضرت فاطمہ س كے حوالے كرديں _

۱۶_'' عبدالرحمان بن الحجاج قال: سا لت أبا عبدالله (ع) عن قوله : ''ولا تبذّر تبذيراً'' قال : من ا نفق شيئاً فى غير طاعة الله فهو مبذر .(۲)

عبدالرحمن بن حجاج كہتا ہے كہ امام صادق (ع) سے اس كلام الہى ''ولاتبذّر تبذيراً'' كے بارے ميں سوال كيا تو حضرت (ع) نے فرمايا : جو بھى كوئي چيز غير خدا كى اطاعت ميں خرچ كرتا ہے وہ اسراف كرنے والا ہے _

۱۷_أبى بصير قال : سا لت أبا عبدالله (ع) فى قوله''ولاتبذّر تبذيراً'' قال : بذل الرجل ماله ويقعده ليس له مال قال : فيكون تبذير فى حلال؟ قال : نعم _(۳)

ابوبصير كہتے ہيں كہ امام صادق(ع) سے كلام الہي:'' ولاتبذّرتبذيراً'' كے بارے ميں سوال كيا تو حضرت نے جواب ميں فرمايا: كہ كسى كا يوں مال كا انفاق كرنا كہ اس كے لئے كچھ نہ بچے اور وہ خانہ نشين ہوجائے_ تو سوال كرنے والے نے پوچھا: پس حلال كے خرچ ميں بھى اسراف ہے؟ تو حضرت (ع) نے جواب ديا : ہاں

ابن السبيل:ابن السبيل كے حقوق كى ادائيگى ۲، ۶;ابن سبيل كے حقوق كا سرچشمہ ۷

احكام: ۱، ۶، ۹ ، ۱۰، ۱۲اسراف:اسراف كے احكام ۱۰;اسراف سے پرہيز ۲;اسراف كا حرام ہونا ۱۰;اسراف سے مراد ۱۷;اسراف سے نہى ۱۰اسراف كرنے والے : ۱۶

الله تعالى :الله تعالى كى طرف سے ممنوعات ۱۰

امام على (ع) :امام على (ع) كے فضائل ۱۳

____________________

۱) كافى ج ۱، ۵۴۳، ح ۵_ نورالثقلين ج ۳، ص ۱۵۴، ح ۱۵۸_۲و۳) تفسير عياشى ج ۲، ص ۲۸۸، ح ۵۴_نورالثقلين ج ۳، ص ۱۵۶، ح ۱۶۹_

۷۲

انسان :انسان كے اختيارات كے حدود ۱۱

انفاق :انفاق كے احكام ۱۲;انفاق ميں ميانہ روى ۱۲

اہل بيت (ع) :اہل بيت(ع) كے فضايل ۱۴

حرام چيزيں : ۱۰

حقوق :حقو كى ادائيگى ميں احساسات ۵;حقوق كى ادائيگى ميں اعتدال ۲;حقوق ميں ترجيحات ۴;حقوق كے پيدائش كا سرچشمہ ۳

دين :دين اور احساسات ۵;دينى تعليمات كى خصوصيات ۵

رشتہ دار:رشہ داروں كے حقوق كى ادئيگى ۱، ۲;رشتہ داروں كے حقوق كى اہميت ۴;رشتہ داروں كى مشكلات دور كرنا ۹

رشتہ داري:رشتہ دارى كے حقوق ۳;رشتہ دارى كے اثرات۳

روايت : ۱۳، ۱۴، ۱۵، ۱۶ ، ۱۷

غربت:غربت كے نتائج ۷

غربائ:غرباء كے حقوق كا سرچشمہ ۷

فدك:قصہ فدك ۱۵

مال:مال ميں تصرف كاحدود ۱۱

محمد (ص) :محمد (ص) كے رشتہ داروں كے حقوق ۲، ۱۵;محمد (ص) كى ذمہ دارى ۲;محمد (ص) كے رشتہ داروں سے مراد ۱۳، ۱۴

مساكين :مساكين كے حقوق كى ادائيگى ۲، ۶

مسلمان :مسلمانوں كى معاشرتى ذمہ دارى ۸

معاشرہ:معاشرہ كى ضرورتوں كو پورا كرنا۸

واجبات : ۱، ۶، ۹، ۱۲

والدين :والدين كے حقوق كى اہميت ۴

۷۳

آیت ۲۷

( إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُواْ إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِرَبِّهِ كَفُوراً )

اسراف كرنے والے شياطين كے بھائي بند ہيں اور شيطان تو اپنے پروردگار كا بہت بڑا انكار كرنے والا ہے (۲۷)

۱_فضول خرچى كرنے والے( الله تعالى كى نعمتوں اور وسائل كو ضايع كرنے والے) شياطين كے بھائي ہيں _

إنّ المبذرين كانوا إخوان الشياطين

۲_وسائل كو ضائع كرنا شيطانى كام ہے_إنّ المنذرّين كانوا إخوان الشياطين

۳_شيطان الله تعالى كى نعمتوں كا انكار كرنے والا ہے _وكان الشيطان لربّه كفورا

۴_شيطان، الہى نعمتوں كے اسراف كا مظہر ہے_إن المبذرين كانوا إخوان الشيطين وكان الشيطان لربّه كفورا

۵_فضول خرچى (وسائل كو ضائع كرنا) الہى نعمتوں كى ناشكرى ہے_

إنّ المبذرين كانوا إخوان الشياطين وكان الشيطان لربّه كفورا

۶_الله تعالى كى نعمتوں ميں فضول خرچى اور ناشكرى ايك مذموم اور ناپسنديدہ عمل ہے_إنّ المبذرين لربّه كفورا

۷_پروردگار كے الطاف كے مد مقابل ناشكرى ،شيطانى روش ہے _وكان الشيطان لربّه كفورا

شيطان:شيطان كے بھائي۱;شيطان كى فضول خرچى ۴;شيطان كى ناشكرى ۳

عمل :شيطانى عمل ۲، ۷;ناپسنديدہ عمل ۶

فضول خرچى :فضول خرچى كى حقيقت ۵;فضول خرچى كى مذمت ۲ ، ۶;فضول خرچى كرنے والے ۱، ۴

۷۴

ناشكري:نعمتوں كى ناشكرى پر سرزنش ۷;پروردگار كي نسبت ناشكرى ۷;نعمتوں كى ناشكرى ۳، ۵ ، ۷

ناشكرى كرنے والے : ۳

آیت ۲۸

( وَإِمَّا تُعْرِضَنَّ عَنْهُمُ ابْتِغَاء رَحْمَةٍ مِّن رَّبِّكَ تَرْجُوهَا فَقُل لَّهُمْ قَوْلاً مَّيْسُوراً )

اگر تم كو اپنے رب كى رحمت كے انتظار ميں جس كے تم اميدوار ہو ان افراد سے كنارہ كش بھى ہونا پڑے تو ان سے نرم انداز سے گفتگو كرنا(۲۸)

۱_پيغمبر اسلام (ص) كى ذمہ دارى ہے كہ جب ان سے رشتہ دار، مساكين اور مسافر كسى مال كى درخواست كريں تو مال كے نہ ہونے كى وجہ سے نہ دے سكيں تو ان سے نرم اور جاذب انداز سے رويّہ كا مظاہرہ كريں _

وء ات ذإلقربى حقّه وإمّا تعرضنّ عنهم ابتغاء رحمة من ربك ترجوه

عبادت''ابتغا رحمة من ربك'' (اپنے پروردگار كى رحمت چاہتے ہو ) اور تاريخى شواہد حاكى ہيں كہ پيغمبر اسلام (ص) كا ان (مندرجہ بالا افرادكى مدد نہ كرنے كى وجہ انكے پاس مال كا نہ ہونا تھا_

۲_اپنى مالى كمزورى كى بناء پر ضرورت مندوں كى مدد نہ كرنے كى صورت ميں نرمى اور مناسب معذرت خواہانہ رويّہ اختيار كرنا چايئےإما تعرضنَّ عنهم فقل لهم قولاً ميسورا

۳_جو لوگ كسى اہم كام مثلاً عبادت كى وجہ سے ضرورت مندوں كى امدادنہ كرسكيں تو ضرورى ہے كہ ان سے نرم لہجہ سے بات كريں اور معذرت كريں _وإما تعرضنّ عنهم ابتغاء رحمة من ربّك ترجوها فقل لهم قولاً ميسورا

مندرجہ بالا مطلب كى بناء يہ احتمال ہے كہ پروردگار كى رحمت كى طلب سے مراد اس كى بارگاہ ميں عبادت ہو _ اس صورت ميں آيت كا معنى يوں ہوگا:''اگر ضرورت مندوں كى مدد عبادت كى وجہ سے نہ كرسكو تو ان سے معذرت كرو اور انہيں مناسب جواب دو_

۴_جب رشتہ داروں ، مساكين اور مسافروں كا حق ادا نہ كرسكو تو ان سے نرم و جاذب انداز ميں بات كرتے ہوئے احسن طريقے سے معذرت كرليں _وء ات ذإلقربى وإمّا تعرضنّ عنهم فقل لهم قولاً ميسورا

۵_پروردگار كى طلب رحمت جيسے اہم كام ميں مصروفيت كى بناء پر مستحقين كى امداد سے معذرت كے ساتھ كنارہ كشى جائز

۷۵

ہے_إمّا تعرضنّ عنهم ابتغاء رحمة من ربّك ترجوها فقل لهم قولاً ميسورا

۶_مؤمن ،رشتہ داروں اور معاشرہ كے مستحقين كى مدد كے ليے وسائل كا آرزومند ہے_

وإمّا تعرضنَّ عنهم ابتغاء رحمة من ربّك ترجوه

۷_رشتہ داروں اور مساكين كے حق ميں مالى ضعف اور مناسب وسائل نہ ہونے كى بناپر انفاق كا ترك كرنا صحےح اور قابل قبول عذر ہے_وء ات ذإلقربى حقّه وإمّا تعرضنّ عنهم ابتغاء رحمة من ربّك ترجوه

۸_پروردگار كى رحمت پر اميد ، محنت وسعى كے ساتھ ہونى چاہئے_ابتغاء رحمة من ربّك ترجوه

''ابتغائ'' سے مراد اپنى آرزئوں كو پانے كےلئے محنت وكوشش كرنا ہے _ (مفردات راغب)

۹_الطاف الہى پر ضرور اميد ركھنا اور صرف اپنى زحمت وكوشش پر اكتفاء نہ كرنا _ابتغاء رحمة من ربّك ترجوه

''ابتغائ'' كا ''ترجوھا'' كے ہمراہ آنا بتارہا ہے كہ انسان كے اپنے ضرورى وسائل كو پانے كے لئے يہ دونوں عناصر ہونا چاہئے نہ كوشش كے بغير اميد اور نہ اميد كے بغير كوشش _

۱۰_مادى وسائل ،اللہ كى رحمت ہيں _وإماتعرضنّ عنهم ابتغاء رحمة من ربّك

۱۱_مادى وسائل اور الہى نعمتيں الله كى ربوبيت كا مظہر اور انسانى ترقى وكمال كے لئے ہيں _ابتغاء رحمة من ربك ترجوه

۱۲_مؤمنين كو چايئےہ وہ دنياوى وسائل اور نعمتوں كو پروردگار كى جانب سے رحمت سمجھيں _

وإمّا تعرضنّ عنهم ابتغاء رحمة من ربّك ترجوه

پيغمبر اسلام (ص) يا مؤمنين كرام كو مستحقين كى مدد كے امكان نہ ہونے كى صورت ميں ان سے اچھے انداز سے رويّہ ركھنے كى نصےحت جو كہ''ابتغاء رحمة من ربك ترجوها'' كى تعبير كے ساتھ آئي ہے' ہوسكتا ہے يہ نكتہ بيان كر رہى ہو كہ مؤمنين ہميشہ وسائل كو الله كى طرف سے سمجھيں _

۱۳_رشتہ داروں اور مساكين كے احساسات كى طرف توجہ اور انہيں رنجيدہ كرنے سے پرہيز ايك ضر ورى اور مناسب اخلاق ہے_وإمّا تعرضنّ فقل لهم قولاً ميسورا

۱۴_جو لوگ مالى ضعف كى بناپر رشتہ داروں ، مساكين

۷۶

اور مسافروں كى مدد نہيں كرسكتے تو انہيں اس طرح وعدہ يا اميد بھى نہيں دلانى چايئےہ پھر مشكل سے دوچارہوں _

وإما تعرضن ابتغاء رحمة من ربك ترجوها فقل لهم قولاً ميسورا

مندرجہ بالا مطلب كى بنياد يہ ہے كہ يہ جملہ'' قل لهم قولاً ميسوراً'' سے مراد يہ ہے كہ اب جب تم انكى ضرورت كو پورا نہيں كرسكتے تو انہيں ايسا وعدہ دو كہ پھر تمہارے لئے مشكل اور پريشانى نہ كھڑى ہو_

آرزو:مادى وسائل كى آرزو ۶

آنحضرت (ص) :آنحضرت (ص) كى ذمہ د ارى ۱;آنحضرت (ص) اور رشتہ دار ۱;آنحضرت (ص) كا ضعف مالى ۱; آنحضرت(ص) ا ورمسافر۱;آنحضرت(ص) اور مسا كين ۱

احكام : ۷الله تعالى :الله تعالى كى رحمت كى اہميت ۵;اللہ كى رحمت چاہنا ۵; الله تعالى كى رحمت ۱۲; الله تعالى كى رحمت كے موارد ۱۰; الله تعالى كى نعمتيں ۱۲; الله تعالى كى ربوبيت كے نتائج ۱۱

اميد ركھنا:اميد ركھنے كى اہميت ۹;اللہ تعالى كى رحمت پر اميد ركھنا ۹;اللہ تعالى كى رحمت پر اميد ركھنے كى شرائط ۸;اميد ركھنے ميں كوشش ۸

انفاق:انفاق كے احكام ۷

رشتہ دار:رشتہ داروں كى امداد۶;رشتہ داروں پر انفاق ۱۴;رشتہ داروں كے احساسات كى طرف توجہ كى اہميت ۱۳;رشتہ داروں كى ضرورت پورى كرنے سے پرہيز ۷;رشتہ داروں سے ملنے كى طريقہ كا طريقہ ۴;رشتہ داروں سے معذرت ۴

عبادت كرنے والے:عبادت كرنے والوں كى ذمہ دارى ۳

عذر:قابل قبول عذر ۷

فقر:فقر كے نتائج ۷

فقرائ:فقراء كى امداد ۶;فقراء پر انفاق ۱۴; فقراء كے جذبات كى رعايت كى اہميت ۱۳ ; فقراء كى ضرورت پورى كرنے سے اعراض ۱، ۲، ۵ ، ۷;فقراء سے رويّہ كا طريقہ ۲، ۳، ۵;فقراء سے معذرت خواہى ۲،۳، ۵

كمال :كمال كا پيش خيمہ ۱۱

كوشش:كوشش كى اہميت ۸

مادى وسايل :مادى وسائل كا سرچشمہ۱۰ ،۱۱،۱۲

۷۷

مسافر :مسافر پر انفاق ۱۴;مسافر سے اپنانے كا انداز ۱، ۴;مسافر سے معذرت خواہى ۴

مساكين :مساكين سے اپنانے كا انداز ۴;مساكين سے معذرت خواہى ۴

معاشرت:معاشرت كے آداب

مؤمنين :مؤمنين كى آرزو ۶;مؤمنين كى ذمہ دارى ۱۲

نعمت:نعمت كا سرچشمہ ۱۱

آیت ۲۹

( وَلاَ تَجْعَلْ يَدَكَ مَغْلُولَةً إِلَى عُنُقِكَ وَلاَ تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُوماً مَّحْسُوراً )

اور خبر دار نہ اپنے ہاتھوں كو گردنوں سے بندھا ہوا قرار دو اور نہ بالكل پھيلادو كہ آخر ميں قابل ملامت ور خالى ہاتھ بيٹھے رہ جاؤ(۲۹)

۱_مؤمنين كا وظيفہ ہے كہ وہ دوسروں پر انفاق اور اپنى ذاتى زندگى ميں مال ومتاع كے استعمال ميں اعتدال اور ميانہ روى اختيار كريں _ولا تجعل يدك مغلولة إلى عنقك ولا تبسطلها كلّ السبط

۲_مؤمنين كوچاہئے كہ وہ بخل،رشتہ داروں اور مساكين كے حقوق كى عدم ادئيگى سے پرہيز كرےں _

وء ات ذإلقربى حقّه ولاتجعل يدك مغلولة إلى عنقك

۳_كنجوس انسان اس شخص كى مانند ہے كہ جسكے ہاتھ گردن سے بندھے ہوئے ہوں _ولا تجعل يدك مغلولة إلى عنقك

''ولا تجعل يدك مغلولةإلى عنقك'' انفاق سے پرہيز يعنى كنجوسى سے كنايہ ہے يعنى ''كنجوسى تمہارے ہاتھوں كو گردن سے نہ باندھ دے''_ كى تعبير سے معلوم ہوتا ہے كہ كنجوس شخص ہاتھ بندھے ہوئے شخص كى مانند ہے_

۴_پيغمبر اسلام (ص) اپنى ذاتى زندگى ميں انفاق كے حوالے سے اعتدال كى رعايت اور حد سے زيادہ دينے سے پرہيز كرنے ميں ذمہ دارہيں _ولا تجعل يدك مغلولة إلى عنقك ولا تبسطها كل السبط فتقعدملوماً محسورا

مندرجہ بالا مطلب كى بناء يہ ہے كہ آيت كا مخاطب پيغمبر اسلام (ص) ہوں اگر چہ دوسرے لوگوں كو بھى شامل ہے_

۵_انفاق ميں حد سے زيادہ بڑھنے سے انسان اپنے ضرورى كاموں سے رہ جاتا ہے _ فتقعد ملوماً محسوراً آيت ميں مادہ ''قعود'' كا استعمال ہونا ہوسكتا ہے اسى مطلب كى طرف اشارہ ہو كہ اپنے كاموں سے پيچھے رہ جاتا ہے تو اس صورت حال ميں انسان كى دوسرے ملامت بھى كرتے ہيں اور وہ حسرت زدہ بھى ہوجاتا ہے _

۷۸

۶_كنجوسى ،ملامت كى باعث ہے اور انفاق ميں حد سے بڑھنا انسان كى زندگى ميں ضعف وحسرت كا باعث ہے_

ولاتجعل يدك ولا تبسطها كلّ البسط فتقعد ملوماً محسوراً _

مندرجہ بالا مطلب كى بناء يہ ہے كہ''ملوماً'' كا تعلق'' لا تجعل يدك مغلولة ''اور''محسوراً'' كا تعلق '' لاتبسطہا'' سے ہے _ اور اس حوالے سے بھى كہ ''محسورا'' كا معنى يہ ہے كہ انسان اپنے وسائل سے يوں جدا ہوجائے كہ وہ اس كى حسرت كا باعث ہوں _

۷_اقتصادى محورپراور زندگى كى ضروريات پورى كرنے ميں اعتدال كى رعايت اور افراط وتفريط سے پرہيز كرنا ايك ضرورى اور پسنديدہ چيز ہے_لاتجعل يدك مغلولة ولا تبسطها كل البسط

۸_انسان كو ايسے عمل كا مرتكب نہيں ہونا چاہئے كہ جس پر اس كى مذمت ہو اور وہ اپنے كئے پر پشيمان ہو اور حسرت كرے _ولا تجعل يدك فتقعد ملوماًمحسورا

۹_ہاتھوں سے گئي چيزوں پر سرزنش اور حسرت كرنا ان چيزوں ميں سے ہيں كہ جو انسانوں كو رنج ديتى ہيں اور ان كى طبع سے ناساز گار ہيں _فتقعد ملوماً محسورا

يہ كہ الله تعالى نے انفاق ميں افراط و تفريط كے انجام پر مذمت اور حسرت كرنے كا ذكر فرمايا ہے تاكہ انسان ايسے انجام سے بچنے كےلئے افراط و تفريط سے پرہيز كرے _ اس سے ثابت ہوتا ہے كہ يہ حالتيں انسان كےلئے رنجيدگى كا باعث ہيں _

۱۰_انسان كے ناپسنديدہ عمل كے ناگوار انجام پر توجہ دينا بذات خود اس كے ارتكاب سے روكنے والے اسباب ميں سے ہے_ولا تجعل يدك مغلولة إلى عنقك ولاتبسطها كل السبط فتقعد ملوماً محسوراً _

يہ كہ الله تعالى نے انفاق ميں افراط وتفريط سے روكتے ہوئے اس كا ناگوار انجام بھى ذكر كيا ہے_ اس سے مندرجہ بالا مطلب ثابت ہوتا ہے_

۱۱_انسانى زندگى كے راستہ كو صحيح طريقہ سے منظم كرنے ميں ''آئندہ حالات كو پيش نظر ركھنا اور تدبير سے كام لينا'' اہم قوانين ہيں _

ولاتجعل يدك مغلولة ولا تبسطها فتقعد ملوماً محسوراً_

جملہ ''فتقعد ملوماً محسوراً ميں چونكہ ''فا'' نتيجہ اور انجام بتانے كے لئے ہے تو اس سے مدد ليتے ہوئے ہم ديكھتے ہيں كہ الله تعالى ،

۷۹

آئندہ حالات كو پيش نظر ركھنے كے قانون كى بناء پر انسان كو انفاق ميں افراط و تفريط سے منع فرمارہاہے_

۱۲_عن أبى عبدالله (ع) ...علم الله عزّوجلّ نبيّه كيف ينفق، وذلك انه كانت عنده ا وقية من الذهب فكره ا ن يبيت عنده فتصدق بها فا صبح وليس عنده شي وجاء ه من يسا له فلم يكن عنده ما يعطيه فلامه السائل وا غتم هو حيث لم يكن عنده ما يعطيه وكان رحيماً رقيقاً فا دب الله تعالى نبيّه (ص )، با مره فقال: ولاتجعل يدك مغلولة إلى عنقك ولاتبسطها كلّ البسط فتقعد ملوماً محسوراً '' يقول : إن الناس قد يسا لونك ولا يعذرونك فإذا ا عطيت جميع ما عندك من المال كنت قد حسرت من المال (۱)

امام صادق (ع) سے روايت نقل ہوئي ہے كہ آپ(ع) نے فرمايا : الله تعالى نے اپنے پيغمبر اكرم (ص) كو سكھايا ہے كہ كس طرح انفاق كرنا چاہئے _ اور واقعہ اس طرح سے ہے كہ حضرت (ص) كے پاس كچھ سونا تھا آپ (ص) اسے صبح تك اپنے پاس نہيں ركھنا چاہتے تھے تو آپ (ص) نے اسے انفاق كيا اور صبح آپ (ص) كے پاس كوئي چيز نہ رہى ايك شخص آپ (ص) كے پاس آيا اور آپ(ص) سے كچھ مانگا' آپ (ص) كے پاس بھى اسے دينے كے لئے كچھ نہ تھا تو اس شخص نے آپ (ص) پر ملامت كى اور آپ (ص) بھى كچھ نہ ہونے كى بناء پر كہ اسے دے سكيں غمگين ہوئے چونكہ آپ (ص) بہت مہربان اور دل كے انتہائي نرم تھے تو الله تعالى نے اپنے پيغمبر (ص) كو ايك فرمان كے ساتھ تعليم دى اور فرمايا :''ولا تجعل يدك مغلولة إلى عنقك ولا تبسطها كل البسط فتقعد ملوماً محسوراً '' يعنى الله تعالى فرما رہا ہے : لوگ تجھ سے مانگتے ہيں اور تمھارا عذرقبول نہيں كرتے تو اگر سب كچھ انفاق كردو گے تو تنگى ميں پڑوگے_

۱۳_عن ا بى عبدالله (ع) ، فى قول الله عزّوجلّ ''فتقعد ملوماً محسوراً'' قال : الإحسار الفاقة (۱)

امام صادق (ع) سے اس كلام الہى''فتقعد ملوماً محسوراً'' كے بارے ميں روايت ہوئي ہے كہ آپ (ع) نے فرمايا : يہاں ''احسار'' سے مراد فقر اور تنگدستى ہے_

۱۴_فقال الصادق (ع) : المحسور العريان (۲) امام صادق (ع) سے روايت ہوئي ہے كہ محسور سے مراد عريان ہے _

____________________

۱) كافى ج ۵، ص ۶۷، ح ۱_ نورالثقلين ج ۳، ص ۱۵۸ ، ح ۱۷۸_

۲) كافى ج ۴، ص۵۵، ح۶_ نورالثقلين ج ۳، ص ۱۵۷ ، ح ۱۷۵_

۳) تفسير قمى ج ۲، ص ۱۹_

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

ب۔ صبر کے درجات:

بعض علماء اخلاق اور اہل معرفت نا گوار امور پر صبر کرنے ( صبر خاص )کے لئے تین درجوں کے قائل ہوئے ہیں۔

١۔ تائبین کا صبر: اوراس سے مراد ہے شکوہ کا ترک کرنا، بے تابی اور بے قراری کا ثبوت نہ دینا، اور غیر فطری اور پریشان کن رفتارنہ رکھنا۔

٢۔ زاہدین کا صبر: یعنی اول درجہ کے علاوہ جوسختیاں، درد والم انسان کے لئے مقدر ہوئی ہیں ان پر قلبی طور سے راضی ہونا۔

٣۔ صدیقین کا صبر: یعنی پہلے دودرجہ کے علاوہ نسبت اس چیز سے جو خدا وند عالم نے اس کے لئے معین کر رکھا ہے، عشق کرنا اور اسے دوست رکھنا ۔(١)

ج۔ صبر کی اہمیت:

کلمہ ''صبر ''مختلف صورتوں میں سو بار سے زیادہ قرآن کریم میں استعمال ہوا ہے کہ جس سے خود ہی اس موضوع کی اہمیت معلوم ہوتی ہے۔ قرآن کریم بعض بنی اسرائیل کی ہدایت وپیشوائی کے منصب تک پہونچنے کی علت کے بیان میںفرماتا ہے: ''اور جب انہوں نے صبر کیا اس حال میں میری آیتوں پر یقین رکھتے تھے تو ہم نے ان میں سے بعض کو پیشوا قرار دیا کہ وہ ہمارے حکم سے (لوگوں کی) ہدایت کرتے تھے''۔(٢) اور آخرت میں صابروں کی کیفیت جزا کے بارے میں ایک جگہ پر ان کے عمل سے بہتر جزا کا وعدہ دیتا ہے: ''یقینا ً جن لوگوں نے صبر کیا تو جو انہوں نے عمل کیا ہے ہم انھیں اس سے بہتر جزا دیں گے''۔ ٣)

دوسری آیت میں صابروں کی مقدار جزا کی تعیین کے بارے میں ارشاد ہو تا ہے: ''وہ لوگ کہ جنہوں نے صبر کیا اور نیکیوں سے برائی کو دور کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انھیںروزی دی ہے اس میں سے انفاق کرتے ہیں اس لئے وہ لوگ دہر ی جزا پائیں گے''۔(٤)

____________________

١۔ نراقی، جامع السعادات، ج٣ ، ص ٢٨٤۔

٢۔ سجدہ ٢٤۔

٣۔ نمل ٩٦۔

٤۔ قصص ٥٤۔

۱۶۱

دوسری جگہ پر اعلان کرتا ہے کہ صابروں کا اجر اور ان کی جزابے حد اور ناقابل شمار ہے اور وہ لوگ بے حساب جزا پائیں گے: ''بے شک صابرین اپنی جزا بے حساب پوری پوری پائیں گے''۔(١) اسی طرح خداوند عالم نے صابروں کو ہمراہی کا وعدہ دیا ہے: '' صبر کروکیونکہ خدا صابروں کے ساتھ ہے ''۔(٢ ) وہ نصرت اور کامیابی کو صرف اور صر ف صبر و شکیبائی کے سایہ ممکن جانتا ہے''۔(٣) ہدایت، درود اور رحمت پروردگار کو صابروں کے حق میں قرار دیتا ہے۔(٤) صابروں کو اپنے دوستوں اور محبوبوںکے زمرہ میں بیان کرتا ہے۔(٥) بارہا اور بارہا اپنے رسولوںاور تمام انسانوں کو صبر کی تاکید کرتا ہے۔(٦) اپنے خاص بندوں کے بارے میں نقل کرتا ہے کہ وہ لوگ ہمیشہ خداوند سبحان سے صبر و شکیبائی کی توفیق کی درخواست کرتے رہے ہیں۔(٧) اس کے علاوہ مزید اور دسیوںمورد ہیں جو اسلام کے اخلاقی نظام میںصبر کی اہمیت بیان کرتے ہیں۔ حضرت امام جعفر صادق ـ بھی فرماتے ہیں: ''صبر ایمان کے لئے وہی حیثیت رکھتا ہے جو جسم کے لئے سر کی حیثیت ہے، جس طرح سر کے نہ ہونے سے جسم کا خاتمہ ہوجاتاہے اسی طرح اگر صبر نہ ہوتوایمان بھی جاتارہے گا ''۔(٨) حضرت امام محمد باقر ـ سے صبر کی اہمیت کے بارے میں نقل ہوا ہے : '' جنت نا گواریوں سے گھری ہوئی ہے لہٰذا جو بھی دنیا میں نا گوارچیزوں پر صبر کرے وہ بہشت میں جائے گا۔ اور دوزخ نفسانی خواہشات اور لذّات میں گھری ہوئی ہے، لہٰذا جو بھی نفسانی خواہشات ولذات کی تکمیل کرے گا، وہ جہنم میںجائے گا ''۔(٩)

____________________

١۔ زمر ١٠۔

٢۔ انفعال ٤٦۔

٣۔ آل عمران ١٢٥۔

٤۔ بقرہ ١٥٧۔

٥۔ آل عمران ١٤٦۔

٦۔ احقاف ٣٥۔

٧۔ بقرہ ٢٥٠ ؛ اعراف ١٢٦۔

٨۔ کلینی، کافی ج ٢، ص٨٩، ح ٥۔

٩۔ ایضاً، ح٧۔

۱۶۲

د۔ صبر کے فوائد:

صبر کے بہت سے دینی و دنیوی فوائد شمار کئے جاسکتے ہیں، منجملہ ان کے حضرت علی ـ بعض گذشتہ امتوں کی عزت وذلت کے بارے میں اپنے ایک خطبہ میں فرماتے ہیں: ''جب خدا نے دیکھا کہ وہ کس طرح اس سے دوستی کی راہ میں اذیت و آزار پر صابر ہیں اور اس کے خوف سے نا گواریوں پر صبر و تحمل کرتے ہیں تو اس نے انھیں گرداب بلا سے نکال کر گشائش عطا کی، اور ذلت و خواری کے بعد انھیں با آبرو بنایا اور سکون و اطمینان کو خوف کا جا گزیں بنادیا۔ پھر وہ حکمراں بادشاہ اور باعظمت و شان پیشوا ہوگئے اور خدا کی کرامت ان کے حق میں یہاںتک پہنچ گئی کہ دیدۂ آرزو ان کے آخری درجہ کہ وہ اس جگہ پہونچا ان کی نگاہ اور اس کی انتہا کو نہ دیکھ سکی''۔(١)

بعض علماء اخلاق نے صبر کو مقدّرات الٰہی پر راضی رہنے کے مقام رضایت تک پہونچنے کا دروازہ قراردیا ہے، اور مقام رضا کو محبت پروردگار کی وادی تک پہونچنے کا دروازہ جانا ہے۔(٢) اس لحاظ سے صبر کے اہم فوائد میں سے اسی دنیا میں مقام '' رضا '' و'' محبت '' تک رسائی کا نام لیا جا سکتا ہے۔

''صبر '' کے لئے دیگر متعدد موضوعات بھی قابل ذکر ہیں، جیسے صبر و شکر میں مناسبتیں، صبر کے حصول کی راہیں اور اس کے مانند دوسرے موضوعات کہ اختصار کے پیش نظر ان کا ذکر نہیں کیا جارہا ہے۔

____________________

١۔ نہج البلاغہ، خطبہ ١٩٢۔

٢۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ٣، ص ٢٨٣۔

۱۶۳

تیسرا باب :

اسلام کی نظر میں اخلا قی تر بیت

پہلی فصل :

اسلام میں اخلا قی تر بیت کے طر یقے

مقدمہ:

اخلاق اسلامی کے اصول اور مفاہیم سے آشنائی کے بعد یہ بات مناسب ہے کہ اپنے آپ سے سوال کریں '' نا مطلوب موجود '' کی حالت کو کس طرح '' ناموجود مطلوب '' سے تبدیل کیا جا سکتا ہے ؟ واضح عبارت میں اخلاقی تربیت کے طریقے کیا ہیں ؟

تربیتی طریقے، کبھی خود تربیتی اپنے ( لئے تربیتی) ہیں تو دیگر تربیتی کبھی دوسرے کے( لئے تربیتی) ہیں، کبھی قولی ہیں تو کبھی عملی، کبھی سلبی ( روکنے والے ) ہیں اور کبھی ایجابی (اصلاحی )، کبھی عام( یعنی تمام سن کے مراحل کے لئے ) ہیں اور کبھی خاص۔ رفتار کے مبادی(١) کے پیش نظر ان اخلاقی تربیت کی روشوں کو جو رفتار یا اس کے مبادی یعنی ابتدائی مرحلوں سے تعلق رکھتی ہیں، تین چیزوں: شناخت، سبب اور رفتار کے اعتبار سے مورد توجہ قرار دیں گے اور تفصیل سے آئندہ مباحث کے ضمن میں ان کے بارے میں گفتگو کریں گے۔ چونکہ علوم تربیتی کی اصطلاحا ت (منجملہ اصول، روشیں، اہداف و مقاصد وغیرہ وغیرہ ) کی دقیق تعریف محل اختلا ف ہے اور ان کے سلسلہ میں مختلف نظریات پائے جاتے ہیں لہٰذا یہاںپر اس کتاب میں مورد نظر تعریف کی طرف اشارہ کریں گے۔ ''روش'' (طریقہ) سے مراد وہ کلی قوانین ہیں کہ ہر ایک جدا گانہ طور پر یا دوسری روشوں کی مدد سے مقصد تک پہنچانے کی خصوصیت کی حامل ہیں۔ ہر روش کے تحقق کیلئے ممکن ہے کہ ہر ایک کے لئے مختلف اسلوب اور متعدد فنون پائے جاتے ہوں جو روشوں کی نسبت جزئی تر قوانین کا مقصود ہیں۔

____________________

١۔گذشتہ علماء کے نظریات کے مطابق مبادی رفتار اس طرح ہیں: فائدہ کا تصوّر، اس کی تصدیق، شوق موکد۔ معاصر ماہرین نفسیات نے اس سے مشابہ ایک دوسری ترکیب پیش کی ہے ؛ وہ اس طرح ہے: شناخت، باعث اور عملی توانائی۔

۱۶۴

روشوں کے بیان میں ایک عقلی ترتیب پائی جاتی ہے کہ آسان تر دیگر تربیتی روشوں سے شروع ہوتی ہے اور مشکل تر خود تربیتی روشوں پر ختم ہوتی ہے۔ یہ عقلی ترتیب انسان کے اخلاقی اور نفسیاتی رشد سے بھی منطبق ہے اور اسلام کی تربیتی تعلیمات سے بھی ہم آہنگ ہے۔

ہر روش کو اس کی تعریف اور توضیح سے شروع ہے اور بعد کے مرحلہ میں آیات وروایات سے استفادہ کرتے ہوئے اس کا استناد اسلام سے ثابت کیا گیاہے پھراس کے بعد ( یا اس کے ضمن میں ) نفسیات کے علمی مطالعہ سے استفادہ کرتے ہوئے روش کی توضیح وتکمیل کی گئی ہے، یعنی نفسیات میں کون سے نظری اصول ومبانی کے ذریعہ اس روش کا دفاع کرسکتے ہیں اور اخلاقی تربیت میں اس کی تاثیر ثابت کی جاسکتی ہے، یہاں پر نفسیات کے اہم ترین نظریوں کے متعلق جو کہ تربیت اخلاقی سے مربوط ہیں بحث کی جارہی ہے۔

طریقے

١۔ تربیت کے لئے مناسب ماحول بنانا

انسان کی تکوین اور تغییر کا اہم ترین عامل مختلف ما حول کے حالات ہیں خواہ وہ زمانی یا مکانی یا اجتماعی ماحول ہو۔ بہت سے مقامات میں ماحول کی ترمیم واصلاح سے تربیت کے لئے مساعد اورسازگار ماحول فراہم کرکے جس کی تربیت کی جاتی ہے اس کی عادتوں، خصلتوں، افکار اور رفتار کو بدلا جا سکتا ہے اور جدیدخصوصیات کو اس کا جاگزین بنایا جا سکتا ہے، اس روش کی نفسیاتی بنیاد اس ماحول کے حالات سے انسان کے متاثر ہونے کی اصل ہے جو ماحول سازی ( بعض رفتار کی ہمراہی اور ہمنوائی بعض دیگر کے ساتھ ان کے ثابت کرنے کا باعث ہوتی ہے)، فعّال وکردار ساز ماحول سازی ( ایک ماحول میں خاص طرز عمل ورفتار پر جزا دی جاتی ہے ) یا اجتماعی تعلّم وتربیت ( رفتارکے مشاہدہ سے خاص نمونوں کی پیروی) کے نظریات کے بیان ہوتی ہے ضمن میں یہ روش خاص طور سے دوسروں کے ذریعہ اور انسان کے اولیاء کے ذریعہ بروئے کار لائی جاتی ہے، لیکن انسان خود بھی کسی حد تک موثر ہوسکتا ہے، اس روش کو وجود میں لانے کے جو طریقے لازم ہیں وہ ترتیب وار یہ ہیں:

۱۶۵

مقدمہ سازی، نمونہ سازی، ماحول کو صحیح و سالم بنانا اور حیثیت اور ماحول کو بدلنا۔

الف۔ مقدمہ سازی:

اس سے مراد یہ ہے کہ مناسب ماحول فراہم کرکے اخلاقی فضائل کے وجود میں آنے کا امکان اعلی حد تک فراہم کریں اور اس کے برعکس ایسے مقدّمات جو کہ منفی رخ رکھتے ہیں اور اخلاقی رذائل پیدا کرسکتے ہیں، ان کے وجود ہیں آنے کی روک تھام کریں، اس حصہ میں اسلام کی ہدایات قابل توجہ ہیں۔

ایک۔زوج یا زوجہ کے انتخاب میں کہ جو خاندان کا ایک رکن ہے، اس کے اخلاقی فضائل پر توجہ دینی چاہیے، انظر فی ای شی تضع ولدک فان العرق دساس(١) اس کے مقابل ایسے افراد جو غیر شائستہ گھرانے کے پروردہ ہیں، یاکم عقل اور احمق ہیں تو ایسے لوگوں سے شادی بیاہ کرنے سے اجتناب کرناچاہیے۔

حضرت امیرا لمومنین علی ـنے جومالک اشتر کو خط لکھا ہے اس میں اس کا رساز عنصر کی اس طرح تصریح فرمائی: ''ضروری ہے کہ اداری امور میں با فضیلت افراد سے استفادہ کرو ، وہی لوگ کہ جو نیک اور شریف خاندان سے ہوں اور اچھے ماضی اور نیک نامی کے ساتھ زندگی گذارچکے ہوں، جو لوگ عقل و ہوش، شجاعت و بہادری کے مالک، سخی اور بلند ہمت ہیں، وہ کرم کامرکز اور نیکی و فضیلت کا سرچشمہ ہیں''۔(٢)

لہٰذا ایسی اولاد جو شائستہ ماں اور با فضیلت باپ کی حمایت کے زیر سایہ پروان چڑھے ہیں اہم ترین مقدّمہ ساز عنصر ما حول اور تربیت کے لحاظ سے ان کا مددگار ہے۔(٣)

دو۔ اچھے نام کا انتخاب اولاد کا والدین پر جوحق ہے اور اس کی تاکید کی گئی ہے یہ ہے کہ۔''ہر انسان کی سب سے پہلے نیکی اس کے فرزند کے حق میںاس کا اچھا نام رکھنا ہے لہٰذا تم میں سے ہر ایک کو چا ہیے کہ اپنے فرزندوں کا اچھا نام رکھو''۔ ( اول ما یبر الرجل ولدہ ان یسمیہ باسم حسن فلیحسن احدکم اسم ولدہ)۔(٤)

نیک اور شائستہ نام تربیتی اور نفسیاتی اثر رکھتا ہے اور انسان کی صلاح و فلاح نیز خوبیوں کو فراہم کرنے کا مقدّمہ ہے یا پھر اسے فرو مائگی اور پستی کی سمت لے جاتا ہے۔ ( الاسم یدل علی المسمی ) ۔

____________________

١۔ فلسفی، کودک، ج ١، ص ٦٤۔ حسن الاخلاق، برہان کرم الاعراق، افراد کی اخلاقی خصلتیں خاندان کی پاکیزگی اور فضیلت کی دلیل ہیں، غرر الحکم۔٢۔ نہج البلاغہ، نا مہ ٥٣۔ ٣۔ جنٹک کے علاوہ کہ جن کا ذکر فی الحال مقصود نہیں ہے۔٤۔ وسائل الشیعہ: ج ١٥، ص ١٢٢۔

۱۶۶

٣۔ محل زندگی کا انتخاب (ملک، شہر یا دیہات، محلہ اور پڑوسی کا انتخاب) بھی مقدّمہ ساز عنا صر میں ہے۔ اسی طرح محل تحصیل، کام کاج، احباب اور معاونین سب ہی ( تربیت کی ) راہ ہموار کر نے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔(١)

ب۔ نمو نہ سازی :

کہا جا سکتا ہے کہ ہر ماحول کو بنا نے والے اس سماج اور ماحول برگزیدہ اور سر بر آور دہ افراد ہی ہوتے ہیں۔ لہٰذ ایک اچھے تر بیتی ماحول کی ایجاد کا ایک طریقہ اس ماحول میں اچھے نمونوں کو وجود میں لانا ہے اور برے نمونوں دور کر نا ہے۔ سماج میں پسندیدہ اور محبوب نمونہ خود بخود اس ماحول میں رہنے والوں کو ان کی طرف کھینچ لا تاہے اور ان کے مکارم اخلاق کو دوسرے لوگ نمونہ بنالیتے ہیں۔

آلبرٹ بنڈورا (١٩٧٨) کہ جو اجتماعی تعلّم کے نظریہ کا واضع ہے۔ تعلّم (سیکھنے) کا سب سے اہم طریقہ مشاہداتی تعلّم کو جانتا ہے کہ وہی تقلید یا نمونہ کا اختیار کرنا ہے انسان ایک نمونہ یا سر مشق کا انتخاب کرکے اس کے عمل کی تقلید کرنے لگتا ہے۔ بنڈ ور ا اس طرح کے تعلّم کو چار مر حلہ میں تو ضیح دتیا ہے: مر حلہ توجہ، حا فظہ کے حوالے کرنا، دوبارہ تخلیق اور سبب ومحرّک۔ ممتا ز صفات، عطو فت ومہر بانی کا بار، پیچید گی، برجستگی اور استعمالی اہمیت نمونہ میں اور حسّی ظرفیت، ابھارنے کی سطح، درک کرنے کی آماد گی اور گزشتہ تقویت مشا ہدہ کر نے والے کے اندر نمونہ شخص کے عمل سے منطبق نتیجۂ عمل کی مدد کرتی ہے۔(٢)

زندہ نمونوں کے علا وہ جو کہ مساعد اورسازگار تر بتیی ماحول ایجاد کر تے ہیں مر بی حضرات ماضی کے اخلاقی اور انسانی نمونوں کی شناخت کر ا کے انھیں حیات نو عطا کر سکتے ہیں اور بنڈورا کے نظریہ میں مذ کو رہ خصو صیات پر نظر کر تے ہو ئے بار عاطفی، ممتاز حالت، بر جستگی وغیرہ کے اعتبار سے ان کے متعلق تا کید اور سر مایہ گذاری کرسکتے ہیں نمونوں کے دقیق موئثر اور محبوب چہرہ کی ترسیم تربیت پانے والوں کے لئے ان کے ذہن وروح میں حسب ضرورت نمونوں کے فقدان کے خلا کو پر کرسکتی ہے اور وہ تدریجاً ان کے مثل بن سکتے ہیں۔

____________________

١۔ ہمنشینوں اور دوستوں کی تاثیر کے بارے میں اس کے بعد بحث کریں گے۔

٢۔ روانشناسی پرورشی، ص ٣١٤۔

۱۶۷

قرآن کر یم میں اس شیوہ سے بہت زیادہ استفاد ہ کیا گیا ہے، بالخصوص اکثر قرآنی نمونے جو ان اور تا ثیر گذار ہیں۔ یوسف شہوت کے مقا بل قہرمان مقا ومت، کہف کے جوان راہ خدا میں رشد و ہد ایت کیلئے ہجرت کے نمونے، اسماعیل حکم خدا کے سا منے سر اپاتسلیم کی مثال اور ابر اہیم عادت شکن اور بت شکن جوان ہیں۔ قرآن کے جوان نمو نوں کے علا وہ دیگر نمونے بھی پائے جا تے ہیں کہ ان میں سے بعض درج ذیل ہیں:

دین کی تبلیغ میں نوح پا یداری اور استقامت کا نمو نہ، مصا ئب زمانہ اور شدائد روز گا رپر ایوب صبر وتحمل کا نمونہ، طاغوت سے جنگ ومبازرہ کرنے میں داؤد شجاعت اور شہامت کا نمو نہ وغیر ہ وغیرہ، قرآن ان تما م حضرات کی شان میں فرماتا ہے: ''...... وہ لوگ(خدا کے پیغمبر ) ایسے لوگ ہیں جن کی خدا نے ہدایت کی ہے لہٰذ ان کی ہدایت کا اقتدا کرو''۔(١)

بالآخرہ پیغمبر اکرم زندگی کے تمام مراحل میں تمام عالمین کے لئے مطلق نمونہ ہیں ، '' لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوة حسنہ''(٢) کیو نکہ آپ ''خلق عظیم '' کے ما لک، ''مکارم اخلا ق کا آئینہ '' اور '' رحمة للعالمین '' ہیں۔

ماں باپ اور ان کے بعد اساتذہ اور تربیت کرنے والے بھی تربیت سیکھنے والوںکے لئے پہلا نمونہ ہیں۔ تربیت کا اہم نکتہ یہ ہے کہ اہم موقعیت وحیثیت کے مالک، زیادہ کامیاب، زیادہ علم ودانش یا معنوی بلندی کے مالک اکثر دوسروں کی نظر کو اپنی طرف جلب کرتے ہیں اور ان کے لئے نمونہ بن جاتے ہیں۔

خوش قسمتی سے طالب علموں کی نظر میں عام طور پر اساتذہ اور والدین ان خصوصیات کے یا ان میں سے بعض کے مالک ہوتے ہیں۔ لیکن بہر صورت اس برتری اور برجستگی کا نہ ہونا معنوی، علمی اور اجتماعی شعبوں میں تربیت پانے والوں کوکسی اور سمت لے جاتا ہے۔

حضرت امیر المومنین علی ـ فرماتے ہیں:'' پیغمبر اکرم ہر روز میرے لئے اپنے مکارم اخلاق میں سے ایک کو بیان کرتے تھے اور مجھے اس کی پیروی کرنے کا حکم دیتے تھے ''۔(٣) حضرت امام موسیٰ کاظم ـ فرماتے ہیں: ''بچے اپنے والدین کی خوبیوںاور صلاحیتوں سے محفوظ ہوتے ہیں ''۔(٤)

____________________

١۔ اولئک الذین ھدی اللہ فبھد یھم اقتدہ، سورئہ انعام، آیت ٩٠۔ ٢۔ سورئہ احزاب، آیت، ٢١۔٣۔ یرفع لی کل یوم علما من اخلاقہ و یامرنی با لاقتداء بہ ؛نہج البلاغہ، خ ١٩٢۔

٤۔ یحفظ الاطفال بصلاح آبائھم، بحار الانوار ج ٥، ص ١٧٨۔

۱۶۸

نمونہ سازی کے طریقہ سے استفادہ کرنے کے سلسلہ میں قرآن کریم نے کم از کم دو اخلاقی اور تربیتی نکتوں کی طرف توجہ دلائی ہے ؛ اول یہ کہ اس نے محبوب اور پسندیدہ افراد کو کلی طور پر نیز عام عنوان سے بیان کیا ہے، جیسے: تائبین، متطہّرین،متّقین، صالحین، صابرین، محسنین اور مجاہدین وغیرہ اور کبھی خاص طور سے اور نا م کے ساتھ (پیغمبروں سے متعلق) بیان کیا ہے، لیکن قابل نفرت ومذمّت افراد کا ذکر قرآن میں استثنائی موارد (جیسے ابو لہب) کے علاوہ کلی عناوین کے تحت ہوا ہے، جیسے: تجاوز کرنے والے، اسراف کرنے والے، خود پسند افراد، کفار، ظالمین اور متکبرین وغیرہ۔ اس وجہ سے ہم کو بھی چاہیے کہ قرآن کریم کی پیروی کرتے ہوئے اسی روش کا انتخاب کریں کہ اخلاقی فضائل کی شناخت کرانے میں کلی عناوین بھی اور صاحبان فضائل کے اسماء بھی بیان کریں، منفی مقامات پر اشخاص کے نام بیان کرنے سے اجتناب کریں۔

دوسرے نمونوں کا انتخاب کرنا ہے، قرآن کریم ایک ساتھ محبوب اور منفور افراد کا ذکر کرکے انسانی سماج کو علم وآگہی کے ساتھ اپنے منظور نظر نمونوں کے انتخاب کی دعوت دیتا ہے، حتیٰ کہ گذشتہ آباء اجداد کے سلسلہ میں بھی آگاہ کرتا ہے کہ بغیر علم و آگہی کے ان کی اندھی تقلید کرکے اپنی زندگی تباہ و برباد نہ کریں۔ انہوں نے کہا: ''ہم نے آباو اجداد کو ایک آئین پر پایا ہے لہٰذا ہم بھی انھیںکا اتباع کرتے ہیں ' اس (پیغمبر) نے کہا ''خواہ جس پر تم نے اپنے آباء واجداد کو پایا ہے اس سے زیادہ ہدایت کرنے والا بھی تمہارے لئے لے آؤں تب بھی ایسا کرو گے''؟(١) اس وجہ سے ہم پر لازم ہے کہ انسانوں کی آزادی کو باقی رکھتے ہوئے نیز مطلوب نمونوں اور معیاروں کا تعارف کراتے ہوئے تربیت پانے والوں کے لئے آگاہانہ انتخاب کی راہ فراہم کریں۔

ج۔ما حول کوصحیح و سالم رکھنا:

برے اور شر پسند افراد ہر ماحو ل اور سماج میںعام طور پر پائے جاتے ہیں۔ بیشک فاسد اور برے ماحول اخلاقی تربیت کے معاملہ کو دشوار بلکہ بعض اوقات نا ممکن بنا دیتا ہے، اس وجہ سے ماحول کو صحیح وسالم رکھنا کہ جو تقریبا ً امر با لمعروف اور نہی عن المنکر کے زندہ کرنے کے مساوی فریضہ ہے،سب کے لئے ایک عقلی، انسانی نیز دینی فریضہ ہے۔ اس طرز اور شیوہ سے مراد معاشرے کے تمام افراد کے اندر خوبیوں کی ایجاد اور ان کا احیاء کرنا ہے اور برے امور کو ختم کرنا ہے۔ درج ذیل نکات امر با لمعروف اور نہی عن المنکر کی اہمیت اور ان کے پہلوئوں کو کہ جو دراصل معاشرہ میں اخلاقی تربیت کو آسان کرنے والے ہیں، زیادہ واضح کرتے ہیں۔

____________________

١۔ سورئہ زخرف، آیت ٢٣، ٢٤۔

۱۶۹

١۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اس نکتہ کو واضح انداز میں اپنے دامن میں رکھتا ہے کہ دعوت ایک شناختہ شدہ شرعی اور عقلی معیار پر ہونی چاہیے۔(١) اس وجہ سے جب بھی بات شرعی واجب یا حرام کی ہوتو چاہیے کہ اس کی ثقافتی پشت پناہی ایجاد کی جائے ا ورایک معروف یامنکر کے عنوان سے اکثر لوگوں کے نزدیک متعار ف ہو۔ ایسے حالات میں امر با لمعروف اور نہی عن المنکر کو عام مقبولیت حاصل ہو گی۔ بعبارت دیگر امر با لمعروف کی دشواری اور کلی طور پر اس کاقبول نہ ہونے میں مشکل نہیں ہے بلکہ مشکل ان خاص موارد اور مصادیق میں ہے کہ جن کا معروف یا منکر ہونا کافی حد تک مستدل طور سے لوگوں کے لئے واضح نہیں کیاگیا ہے۔

٢۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سب کا فریضہ ہے، لیکن امر و نہی کرنے والے خاص شرائط کے حامل ہوں، منجملہ ان کے امر و نہی کے شرائط کی شناخت(٢) نیز خود معروف اور منکر کی پہچان ضروری ہے، اس کے علاوہ یا د دہانی اور بیان کا طریقہ اس طرح ہو کہ زیادہ سے زیادہ تاثیر کی امید ہو۔

٣۔ امر با لمعروف اور نہی عن المنکر کے موارد کو وسیع ہونا چاہئے اور خاص مصادیق میں کہ جو اس وقت سماج اور معاشرہ میں زیادہ رایج اور شائع ہے (جیسے بے حجابی) میں محصور نہ ہو۔ اخلاق کے خلاف اعمال جیسے رشوت لینا، تہمت لگانا، غیبت کرنا اور بد گوئی وغیرہ ایک عام ثقافت اور تہذیب کی صورت میں معیّن شدہ نصائح اور نہی عن المنکر کا مورد واقع ہوں، تاکہ مثال کے طور پر بے حجاب یہ خیال نہ کریں کہ نہی عن المنکر ہمیشہ انہیں کے بارے میں ہے۔

د۔ موقعیت کا تبدیل کرنا:

کسی ماحول کے حالات کی قوّت اور اس کی اثر گذاری اس حد تک ہوتی ہے کہ صرف موقعیت اور حالات کے تبدیل کرنے سے اخلاقی تربیت حاصل ہوپاتی ہے۔ اگر چہ ماحول کی تبدیلی بہت زیادہ مالی اخرجات اور نفسیاتی بوجھ کی حامل ہوتی اخراجات ہے، ایک سا ز گار تربیتی ماحول ایجاد کرنے کے لئے آخری طرز کے عنوان سے ضروری ہے۔ ''ہجرت'' منجملہ ان دستورات میں سے ہے کہ جس کی دین میں تاکید ہوئی ہے اور کبھی واجب حد تک پہونچ جاتی ہے۔ قرآن مجید کے بقول جب فرشتے کچھ لوگوں کی روح قبض کرنے آتے ہیں تووہ لوگ ماحول کے ناموافق ہونے کو اپنا عذر بیان کرتے ہیں، لیکن فرشتے کہتے ہیں ''.... کیا خدا کی زمین وسیع نہیں تھی کہ تم اس میں ہجرت کرتے ....''۔(٣)

____________________

١۔'' المعروف'' اسم لکل فعل یعرف بالعقل او الشرع حسنہ والمنکر ما ینکر ھما (المفردات ) معروف ہر اس فعل کو کہتے ہیں جسے عقل یا شرع کے ذریعہ نیک جانا جائے اور منکر ہر اس فعل کو کہتے ہیں جسے عقل یا شرع ناپسند کریں۔ ٢۔ سورئہ توبہ، آیت ٧١ اور ملاحظہ ہو: المیزان، ج ٣ ، ص ٣٧٣۔

٣۔ الم تکن ارض اللہ واسعة فتھاجروا فیھا۔۔۔ سورئہ نسا ئ، آیت ٩٧۔

۱۷۰

جو انسان ایسے گھر یا محلہ میں زندگی بسر کرتا ہے کہ وہاں کے رہنے والے اپنی یا اپنی اولاد کی شائستہ تربیت کے لئے موافق اور ساز گار ماحول نہیں رکھتے وہ اسی طریقہ سے استفادہ کرتے ہوئے جدید امکانات کو اپنے اہل وعیال اور خاندان کے افراد کے رشد و تغیرّ کے لئے فراہم کرسکتا ہے۔ اپنے یا اپنے اقرباء کے نا پسند ناموں کا تبدیل کرنا بھی اس خاص نفسیاتی ماحول کو نظر میں رکھتے ہوئے جو اسی سے پیدا ہوتا ہے تغییر موقعیت کے موارد میں شمار ہوتا ہے۔(١) ایسی نشست جس میں اخلاق کے خلاف اعمال کی روک تھام نہ ہوسکے اسے ترک کردینا چاہیے: ''مجرمین کے بارے میں وہ سوال کررہے ہوں گے: کس چیز نے تمہیں جہنم کی آگ میں جھونک دیا؟ وہ کہیں گے: ہم لوگوں کے برے کاموں میں شامل ہوجایا کرتے تھے۔(٢)

اسلام ایک مسلمان کے روزانہ کے معمول کی تعیین میں اسی طر یقہ اور روش سے مدد لیتا ہے اور اسے مذہبی مراکز جیسے مساجد میں مسلسل حاضر ہونے کی دعوت دیتا ہے یہ اسے خود ہی ایک قسم کی تغییر موقعیت ہے اگر چہ ہجرت شمار نہیں ہوتی۔ اس کے علاوہ ایک قسم کی اخلاقی تازگی اورشادابی انسان کو عطا کرتی ہے اور اسے ایک ہی طرح کے ماحول سے اور بسا اوقات روزانہ کے نا مساعد اور غیرموافق ماحول سے جدا کردیتی ہے۔

٢۔ ضرورتوں کو صحیح طریقہ سے پورا کرنا

ضرورتو ںکو صحیح طریقہ سے پورا کرنے سے مراد یہ ہے کہ ضروریات زندگی کو ایک متعادل حد تک اخلاقی تربیت دینے اور بالاتر ضرورتوں کی تکمیل کرنے سے پہلے پورا کیا جائے۔ سبب اور محّرک کے ا ثر کے پیش نظر جو کہ عمل کے اصول ومبادی میں سے ایک ہے، جب تک کہ انسان بھوک کے زیراثر یاجنسی میلان کے تحت تاثیر ہے یا کم از کم اپنی زندگی کیلئے کوئی پناہ گا ہ نہیں رکھتا، ایسا انسان اخلاق کی بلندیوں کی طرف قدم نہیں بڑھا سکتا۔

اسلامی تعلیمات میں یہ نکتہ مورد توجہ واقع ہوا ہے، سورئہ ''قریش '' میں خدا وند سبحان کی عبادت کی دعوت کا ذکر ان کی خوراک فراہم کرنے اور امنیت کے ذکر کے بعدہوتی ہے: '' لہٰذا انھیں چا ہیے کہ اس گھر کے رب کی عبادت کریں، وہی ذات کہ جس نے انھیںبھوک سے نجات دی اورنا امنی سے انھیںرہائی دلائی''۔ ''فلیعبدو ا رب ھذا البیت الذی اطعمھم من جوع وآمنھم من خوف''۔(٣ )

____________________

(١) ان رسول ا للّہ کان یغےّرا لاسماء القبیحة فی الرجال والبلدان، وسائل الشیعہ، ج ١٥، ص ١٢٤۔

(٢)یتسائَ لون عن المجرمین ما سلککم فی سقر قالوا و کنا نخوض مع الخائضین ، سورئہ مدثر، آیت ٤٠ تا٤٥ ۔

(٣) سورہ ٔقریش، آیت ٣، ٤۔

۱۷۱

مندرجہ ذیل آیات میں غور خوص کرنے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اخلاقی صفات، تقویٰ، شکر، اور عمل صالح وغیرہ انسان کی اوّلین ضرورتوں کو پورا کرنے کے بعد ذکر ہوئے ہیں:و کلوا مما رزقکم الله حلالاً طیبا واتقو الله ۔۔۔(١) ۔ اور جو کچھ خدا نے تمہیں حلال اور پاکیزہ رزق دیا ہے اس میں سے کھائو اور خدا سے درتے رہو....۔ ''یا ایا الذین آ منوا کلوا من طیبات ما رزقناکم واشکرو الله ۔۔ اے ایمان لانے والوں! جو ہم نے تمہیں پاکیزہ رزق عطا کیا ہے اس میں سے کھائو اور خدا کا شکر ادا کرو....۔(٢) ''یاایھا الرسل کلو ا من الطیبات و اعملوا صالحا۔۔۔'' اے میرے رسولو! تم پاکیزہ غذائیں کھائو اور نیک عمل انجام دو.....۔(٣) پیغمبر اکرم نے حدیث ایک شریف میں زندگی کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے اثر کے سلسلہ میں اس سے بلند تر ضرورتوں پر نظرکرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے: '' اگر روٹی نہ ہوتی توہم نماز نہیں پڑھتے، روزہ نہیں رکھتے اور پروردگار کے واجبات کو ادا نہیں کرسکتے تھے ''۔(٤) اور دوسری جگہ پر فرماتے ہیں: ''قریب ہے کہ فخرو نا داری کفر و ناشکری کا سبب بن جائے '' ۔(٥) پیغمبر اکرم اور ائمہ طاہرین (ع) کی سیرت میں بھی ہم ملاحظہ کرتے ہیں آپ حضرات عملی طور پر محرومین کی طرف توجہ دیتے اور ان کی ضرورتوں کو پورا کرتے تھے، شب کے سناٹے اور سردی اور گرمی کے موسم میں بھی ان کی ضرورتوں کو پورا کرنے کی کوشش کرتے تھے(٦) اور یہی بات انوارہدایت کے درک کرنے کے مقدمات ان کے لئے فراہم کرتی تھی۔ حتی کہ دشمنوں سے ملاقات کے موقع پر بھی صلاح وہدایت کی دعوت سے پہلے ان کی معاشی ضرورتوں کو پورا کرتے تھے۔

____________________

١۔ سورہ ٔما ئدہ، آیت ٨٨۔

٢۔سورہ ٔبقرہ ، آیت ١٧٢۔

٣۔ سورئہ مومنون، آیت ٥١۔

٤۔فلو لا الخبز ما صلینا ولا صمنا ولا ادینا فرائض ربنا عز وجل ۔ کا فی ،ج ٦، ص ٢٨٧۔

٥۔کاد الفقر ان یکون کفرا، کا فی، ج ٥، ص ٣ ٧۔

٦۔ الحیاة، ج ٣، ص ٢٣٢تا ٢٣٤ ملاحظہ ہو۔

۱۷۲

حضرت امام حسن ـکی سیرت نادان مخالفین کے ساتھ یہی انسانی روش اور سیرت تھی:

ایک شامی نے معاویہ کے ورغلانے پر ایک دن امام حسن کو گالی دی، امام نے اس سے کچھ نہیں کہا یہاں تک کہ خاموش ہو گیا، اس وقت آپ نے شیریں مسکراہٹ کے ساتھ اس کو سلام کیا اور فرمایا: '' بوڑھے آدمی! فکر کرتا ہوں کہ تو ایک پردیسی ہے اور خیال کرتا ہوں کہ تو راستہ بھول گیا ہے اگر مجھ سے رضایت طلب کرے گا تو تجھے رضایت دوں گا اور اگر کچھ ہم سے طلب کرے گا اور راہنمائی چاہے گا تو تیری راہنمائی کروں گا اور اگرتیرے دوش پر کوئی بوجھ ہے تو اسے اٹھا لوں گا اور اگر بھوکا ہے تو شکم سیر کردوںگا اور اگر محتاج ہے تو تیری ضرورت پوری کردوں گا، (خلاصہ ) جو کا م بھی ہو گا اسے انجام دیدوںگا اور اگر میرے پاس آئے گا تو بہت آرام سے رہے گا کہ مہمان نوازی کے ہر طرح کے وسائل و اسباب میرے پاس فراہم ہیں''۔

وہ شامی شرمندہ ہوگیا اور رو کر کہنے لگا: ''میں گواہی دیتا ہوں کہ روئے زمین پر آپ خدا کے جانشین ہیں، خدا بہتر جانتا ہے کہ اپنی رسالت کہاں قرار دے۔ آپ اور آپ کے والد میرے نزدیک مبغوض ترین انسان تھے لیکن اب آپ سب سے زیادہ محبوب ہیں ''بوڑھا آدمی اس دن امام حسن ـ کا مہمان ہوا اور جب وہاں سے گیاتو حضرت کی دوستی کا دم بھر نے لگا۔(١)

آبراھام مزلو ہیومینسٹ ماہر نفسیات نے آدمی کے اغراض واسباب کی طبقہ بندی کے لئے جدید طریقہ پیش کیا ہے، اس نے ضرورتوں کے ترتیب و ار سلسلہ کو پیش کیا کہ جو زندگی کی اساسی ضرورتوں سے شروع ہو تا ہے اور اس سے بالا تر سطحوں میں نفسیاتی اغراض واسباب تک پہونچ جاتا ہے وہ کہتا ہے: ''..... انسان کی با مقصد حیات میں تنظیم کی اہم اصل اساسی ضرورتوں کی ترتیب اولویت کے مراتب کے سلسلہ کی صورت میں کمتر یا بیشتر غلبہ کی قدرت کے ساتھ ہوتی ہے۔ وہ اہم محرّک جو اس تنظیم کا باعث ہوتی ہے وہ ضعیف تر ضرورتوں کا پیدا ہونا ہے جو کہ قوی تر ضرورتوںکو پورا کرنے سے ایک سالم انسان میں پائی جاتی ہے۔ جب بھی ضرورت زندگی پوری نہیں ہوتی، جسم پر غلبہ پا جاتی ہے اور تمام استعداد اور صلاحیتوں کو اپنے کنٹرول میں لے لیتی ہے اور ان صلاحیتوںکو اس طرح منظّم کرتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ ان سے استفادہ کرسکے۔ نسبی رضا مندی ان

____________________

١۔ بحار الانوار، ج، ٣ ٤، ص ٣٤٤۔

۱۷۳

ضرورتوں کو محو کردیتی ہے اور بعدکے سلسلہ میں مراتب کی ضرورتوں سے بلند مجموعہ کو موقع دیتی ہے کہ وہ ظاہر ہوں، شخصیت پر غلبہ پاکر انھیںمنظّم کریں اس طرح کہ، بھوک کا درد اٹھانے کے بجائے امن و سلامتی کے لئے پریشان ہو۔ یہ اصل سلسلہ مراتب میں ضرورتوں کے دوسرے مجموعوں یعنی محبت، احترام اور خود آگے بڑھنے اور ترقی کرنے پر بھی صادق ہے۔(١)

اسی وجہ سے محتاج سماج اوراجتماع میں علمی، ہنری اور اخلاقی تخلیق کم وجود میں آتی ہے۔

مزلوکا نظریہ ہے کہ سالم افراد بلند ضرورتوں کی طرف رخ کرتے ہیں، یعنی اپنی با لقوة استعدادوں کے عمل ہونے کے خواہشمند ہوتے ہیں اور آس پاس کی دنیا کو پہچاننا چاہتے ہیں۔ مقصد، بے نیاز کرنا، تجربہ حیات کی توسیع، سرور و شادمانی کا اضافہ اور زندہ ہونے کی تحریک ہے.... نیک اخلاقی صفات جن کو و ہ'' وجود میں اقدار ''سے تعبیر کرتا ہے اس موقعیت کی طرف رخ کرتے ہیں۔ بعض ہستی کی قدریں اس کی نظر میں یہ ہیں: حقیقت (بے اعتمادی بد گمانی اور تشکیک کے مقابل)، نیکی (نفرت کے مقابل)، کمال (ناامیدی اور بے معنی ہونے کے مقابل)، یکتائی (بے ثباتی کے مقابل)، نظم (عدم امنیت واحتیاط کے احساس کے مقابل )، خود کفائی ( ذمہ داری کو دوسروں کے حوالے کرنے کے مقابل )(٢) ۔

یہ نظریہ کہ انسان کمتر ضرورتوں کی طرف توجہ کئے بغیر یا ایک حد تک ان کی تکمیل، انسانی فضائل کی طرف قدم نہیں اٹھاتا، یہ سماج کے اکثر افراد کے بارے میں صادق آتا ہے۔

دو نکتوں کی طرف توجہ دیتے ہو ئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ '' ضرورتوں کو صحیح طور سے پورا کرنے کی روش ''اس بات کے علاوہ کہ دوسری روشوں کا مقدمہ ہے، خود اسے بھی ایک اخلاقی تربیت کی روش کے عنوان سے پیش کیا جاسکتا ہے۔پہلے یہ کہ ادنی ضرورتوںکو پورا کرنے سے بلند ترین ضرورتیں پیدا ہو تی ہیں، یعنی علّت وسبب کا جنبہ پیدا کرتی ہیں۔ عمل کے علّی اور سببی جنبہ کا وجود تر بیت اخلاقی کے ایک اہم حصہ کو منظّم کرتا ہے۔

____________________

١۔ انگیزش و ہیجان، ص ١٠١۔

۱۷۴

٢۔ اپنی جلوہ نمائی تحقق نفس تک ر سائی اور بالقوة توانائی کے لئے ذوقی تقارن خوبصورتی اور نظم تعارف، جاننا، سمجھنا، تلا ش کرنا، سنجیدگی، عزت نفس، کفایت، اجراء اور اصول تعلق و محبت کی ضرورت غیر سے وابستہ ہونا، سا لمیت کی ضرورت کی مقبولیت، امنیت کا احسا س اور خطرے سے دوری فیز یولوژیائی ضرورتیں، گرسنگی، تشنگی اور جنسی خواہشروانشناسی کمال، ص ١٢٥۔

دوسرے یہ کہ اس سے توانائیوں کو تخلیہ اورباطنی قوتوں کے اعتدال کے لئے آمادگی حاصل ہوتی ہے۔ جیسا کہ علماء اخلاق کے اخلاقی نظام میں ذکر ہوا ہے یہ نکتہ نہایت قابل توجہ اور اہمیت کا حامل ہے کہ سہ گانہ قوتیں شہوت، غضب، اور عقل، عدالت اور اعتدل کے سایہ میں ایک دوسرے کے ساتھ اکھٹا ہو جائیں۔ یہ رویہ یعنی اعتدال قوتوں کے استعمال کرنے میں تربیت اخلاقی کی ترقی میں ایک نا گزیر امر ہے۔

سید قطب الدین لکھتے ہیں: انسان کی تربیت کے لئے اسلام کے اسباب و وسائل میں ان ذمہ دارریوں سے چھٹکارا دلانا ہے جو کبھی کبھی جسم و جان میں اکھٹا ہوتی ہیں اسلام ان باروں اور ذمہ داریوں کو اکھٹا جمع نہیں کرتا مگر یہ کہ انھیں چھوڑنے کے لئے

۱۷۵

یکبارگی جمع کرے۔(١)

اس روش کے محقق ہونے کے لئے لازم طریقے یہ ہیں: معاشی نظام کی جانب توجہ، ازدواج، ورزش اور کام کاج ۔

الف ۔معاشی نظام کی طرف توجہ:

بہت سے اخلاقی جرائم کی بنیاد مال اور خوراک اور غذا کی کمی ہے۔ پہلے مرحلہ میں معاش کی فراہمی خانوادہ کے ذمہ ہے دوسرے مرحلہ میں حکومت کی ذمہ داریوں میں سے ہے نیز اس نظام کے ذمہ ہے جو سماج پر حکومت کررہا ہے اور تیسرے مرحلہ میں نیکو کا راور قدرت مند افراد کے ذمہ ہے۔ بہر صورت تربیت کرنے والوں کی تگ و دو اس مسئلہ کی نسبت تربیتی نقطہ نظر سے تربیت اخلاقی میں بہت سے موانع کو دور کرنے والی ہے۔

ب۔ ازدواج:

ازدواج کے تربیتی اور اخلاقی فوائد (جیسے خود خواہی و خود غرض سے دور ہونا، دوسروں کی خدمت کے لئے آمادگی اور ان کی طرف توجہ، عواطف و جذبات کا بار آور ہونا، محبتوں کا ثمر دینا اور ذمہ داری قبول کرنے کے لئے آمادگی وغیرہ وغیرہ ) کے علاوہ ازدواج کا اہم اور ابتدائی کردار غریزہ جنسی کی ضرورت کو فطری اور شرعی طریقہ سے صحیح طور پر پورا کرنا۔ اس نکتہ کی طرف توجہ کرنا چاہیے کہ ایسا جوان جس کا غریزہ جنسی شباب پر ہے اور ماحول کے بہت سے محرک بھی اس کے اندر اور زیادہ اس آگ کو بھڑکا رہے ہیں، وہ جوان سختی سے خود کو گناہ سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔(٢) پیغمبر نے فرمایا ہے : '' جب کوئی انسان شادی کرتا ہے تو اس کا نصف دین کامل ہو جاتا ہے لہٰذا بقیہ نصف کے سلسلہ میں اسے تقویٰ اختیار کرنا

____________________

١۔ روش تربیتی در اسلام، ص ٢٨٢۔

٢۔ مراد یہ ہے کہ جنسی غریزہ جوانوں کو زیادہ مشکلات سے دو چار کرتا ہے، نہ یہ کہ کلی طور پر تربیت اور اصلاح کا راستہ ہی بند کردے ۔

۱۷۶

چاہئے''۔(١) پیغمبر کے اس حکیمانہ ارشاد سے یہ نکتہ بھی قا بل استفادہ ہے کہ اللہ کا تقویٰ ا ور اخلاقی ورع، شادی کے بعد زیادہ آسان اور قابل حصول ہے۔

ج۔ورزش:

جسمانی ضرورتوں کو صحیح طور پر پوراکرنے میں اور جوانی کی قوتوں کی جلاء میں ورزش کا کردار قابل انکار نہیں ہے۔ اخلاقی تربیت میں ورزش کا کردار دو جہت سے قابل اہمیت ہے:

اول۔وہ جسمانی سلامتی اور فرحت کہ جو ورزش سے پیدا ہوتی ہے، روحی، ذہنی اور نفسیاتی سلامتی نیز اخلاقی فضائل کے لئے مقدمہ ہوتی ہے۔ ہماری تہذیب اور ثقافت میں قوت اورجوانمردی ہمیشہ ایک دوسرے کے شانہ بشانہ رہی ہیں۔ ورزش اخلاقی توجیہ نبی اور ائمہ (ع) کی سیرت میںآتی ہے ۔ پیغمبر اکرم ایسے مردوں سے ملاقات کے وقت جو زور آزمائی کے لئے وزن اٹھا رہے تھے، فرماتے ہیں: ''لوگوں میں سب سے زیادہ بہادر وہ انسان ہے جو خواہشات نفس پر غالب ہو''۔(٢) امیر المومنین ـ دعائے کمیل میں خدا سے جسمانی قویٰ کی تقویت کی درخواست خدمت الٰہی کے لئے کرتے ہیں،یارب.... قو علی خدمتک علی جوارحی ۔ اس کے مقابل کمزور اور پست افراد تربیت کے خلاف امور انجام دیتے ہیں۔دوسری جہت ۔ ضرورتوں سے توجہ ہٹانا ہے، بالخصوص جوانی کے زمانہ میں جنسی ضرورتیںاپنی تکمیل کا تقاضہ کرتی ہیں۔ ایسے حالات میں کہ ابھی جائز اور مشروع طریقہ سے صحیح طور پر جنسی خواہشات کی تکمیل کے امکانات فراہم نہیں ہوئے ہیں، ورزش ضرورتوں سے توجہ ہٹانے کا ایک مفید اور اہم ذریعہ ہے۔

د۔ کام:

کام کاج کے مسئلہ کو '' معاشی نظام کی طرف تو جہ '' کی بحث میں ذکر کیا جاسکتا ہے، لیکن چونکہ اس کا اسلام میں ایک خاص مرتبہ ہے، اور استاد مطہری کے بقول: کام اسلام میں ایک مقدس اور پاکیزہ شے ہے،(٣) نیز بہت سے تربیتی جہات اس میں پائے جاتے ہیں، لہٰذا ہم نے اسے جدا گانہ طور پر ذکر کیا ہے، ایک طرف کام صحیح طور پر قوتوں کی جلاء اور اضافی بار کے تخلیہ کاموجب ہوتا ہے اور دوسری طرف شخصیت کے احساس، ذہنی علاج، تمرکز خیال، ضرورتوں سے توجہ ہٹانے کا باعث ہوتا ہے، کہ یہ سب اخلاقی تربیت کے لئے معاون وسیلہ ہیں۔(۴)

____________________

١۔ اذا تزوج العبد فقد استکمل نصف الدین فلیتق اللہ فی نصف الباقی ۔ بحا ر الانوار، ج ٣ ١٠، ص ٢١٩۔''من تزوج فقد احرز نصف دینہ ، فلیتق اللہ فی النصف الباق''۔بحار الانوار ،ج١٠٣، ص٢١٩۔٢۔ اشجع الناس من غا لب ھواہ۔ میزان الحکمة، ج ١٠، ص ٣٨٧۔٣۔ تعلیم وتربیت در اسلام، ص ٤١١۔۴ ۔ ان جملوں کی طرف توجہ دینا مذکورہ بالا مطلب کی تائید میں موثر ہے: سقراط: ''دیانت کے بعد کام نیک بختی اور سعادت کا سرمایہ ہے''۔ پاسکال: '' تما م فکری اور اخلاقی برائیوں کی جڑ بے کاری ہے جو ملک بھی اس عظیم عیب کو بر طرف کرنا چاہتا ہے اسے لوگوں کو کام پر آمادہ کرنا چائیے تاکہ اس سے روحی سکون کہ جس سے معدودے چند افراد آگاہ ہیں، حاصل ہو ''۔ ساموئل اسمایلز: '' دیانت کے بعد انسان کی تربیت کے لئے کام سے بہتر کوئی مدرسہ تعمیر نہیں کیا گیا ہے ''۔ بحوالۂ تعلیم و تربیت در اسلام، ص ٤٣٠۔

۱۷۷

٣۔ ا حترام شخصیت کے طریقے

اخلاق اسلامی کی اساسی بنیاد انسان کا اپنی ذاتی کرامت اور شرافت کی طرف توجہ دینا ہے: ''یقینا ً ہم نے اولاد آدم کو کرامت سے نوازا ( انھیں عزت عطا کی ) ...اور انھیں اپنی بہت سی مخلوقات پر واضح فوقیت و برتری عطا کی۔(۱)

خود آگاہی اور اس بات کی طرف توجہ کہ انسان ایک بلند وبر ترمخلوق ہے اور اپنے اندر بے مثال اور قیمتی گوہر رکھتا ہے یہ بات اس کو (حبّ ذات کی بناپر) اپنی ذاتی کرامت کی حفاظت وپاسداری کے لئے دعوت دیتی ہے اور اخلاق کی بلند قدروں کی طرف کھینچتا ہے: ''اکرم نفسک عن کل دنےة و ان ساقتک الیٰ الرغائب فانک لن تعتاض بما تبذل من نفسک عوضا ً''(۲) اپنے نفس کو ہر طرح کی پستی سے پاکیزہ رکھو ! چاہے وہ پستی پسندیدہ اشیاء تک پہونچا ہی کیوں نہ دے کیونکہ جو اپنی عزّت نفس تم دوگے اس کی قیمت اور عوض تمہیں کبھی مل نہیں سکتا۔

'' انسان کی حقیقت'' چونکہ آسمانی قداست و پا کیزگی کی حامل ہے اور وہ علم، قدرت اور آزادی کے چشمہ سے سیراب ہوا ہے لہٰذا وہ جھوٹ، باطل، طبیعت کی اسیری، گراوٹ اور پستی و ذلت و شہوت اور جہل میں ہاتھ پاؤں مارنے کے مخالف ہے اسی وجہ سے ہوشیار انسان ہرطرح کے اخلاقی ر ذائل سے کہ جو اس کی عزت اور غیرت

____________________

۱۔لقد کرمنا بنی آدم...... و فضلناهم علی کثیرممن خلقنا تفضیلا ۔ سورئہ اسرائ، آیت ٧٠۔

۲ نہج البلاغہ، مکتوب ٣١۔

۱۷۸

سے منافات رکھتے ہیں، بیزار ہوتا ہے۔(١) اس کے مقابل ایک ایسا انسان جو ذلّت، پستی اور فرومایہ ہونے کا احساس کرے اور اپنے اندر پائی جانے والی عظیم شرافت پر یقین نہ رکھے، وہ ہر طرح کے نا پسند اخلاقی افعال کے ارتکاب سے بے پرواہ ہوتا ہے:اللئیم لا یستحی، اللئیم اذا قدر ا فحش واذا وعد اخلف، اللئیم لا یرجیٰ خیره ولا یسلم من شره ولا تؤمن غوائله، اللئیم مضاد لسائر الفضا ئل و جامع لجمیع الرذائل ۔( ٢) کمینہ شخص شرم نہیں کرتا، کمینہ جب قدرت پاتا ہے برائی کرتا ہے اور جب وعدہ کرتا ہے تو اس کے خلاف کرتا ہے، کمینہ سے خیر کی امید نہیں کی جا سکتی اور اس کے شر سے محفوظ نہیں رہا جا سکتا اور اس کے فسادوں سے بے خوف نہیں رہا جا سکتا، کمینہ تمام فضائل کا مخالف اور تمام رذائل کا حامل ہوتا ہے۔ من ھانت علیہ نفسہ فلا تامن شرہ۔(٣) جو انسان خود کو بے حیثیت سمجھتا ہو اس کے شر سے بے خوف نہ رہو۔

اس مطلب کی وضاحت نفسیاتی اعتبار سے خود انسان کے خیال واعتقاد سے ہماہنگ ہونا یا نہ ہونا ہے: اگر میں بے رحمانہ اور احمقانہ عمل کا مرتکب ہوں تو میری عزت نفس ملامت کا شکار ہوجائے گی۔ کیونکہ وہ عمل میرے ذہن کو اس امکان کی طرف متوجہ کرے گا کہ میں ایک بیوقوف اور ظالم انسان ہوں۔ سینکڑوں آزمائش کے درمیان کے عدم موافقت کے نظریہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ واضح ترین نتائج ایسے حالات میں حاصل ہوئے ہیں جو انسان کی عزت نفس سے مربوط ہیں، کیونکہ جس طرح امید کی جاتی ہے کہ جو افراد زیادہ عزت نفس کے مالک ہیں، اگر ان سے بے رحمانہ اور احمقانہ رفتار سرزد ہو جائے تو دوسروں سے زیادہ نا موافقت کا احساس کرتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی انسان معمولی عزت نفس رکھتا ہو تو کیا پیش آسکتا ہے؟ اگر ایسا انسان غیر اخلاقی اور احمقانہ عمل کا ارتکاب کرے تو زیادہ ناموافقت کا احساس نہیں کرے گا ...دوسری طرف وہ انسان جوزیادہ عزت نفس کا مالک ہے، غالباً وہ ایک برے عمل کے ارتکاب کے وسوسہ کے مقابل مقاومت کرتا ہے، اس لئے کہ بے برے کام اس کے اندر زیادہ سے زیادہ نا موافقت ایجاد کردیتا ہے۔(٤)

____________________

١۔ الصدق عزّ والکذب عجز، سچ عزت (کا سبب) ہے کتاریخ یعقوبی، ج ٢، ص ٢٤٦ ؛ الغیبة جھد العاجز، مازنی غیور قط،غیبت عاجز کی کوشش ہے، کسی غیرتمند نے کبھی زنا نہیں کیا ( نہج البلاغہ، ح ٢٩٧ ) ؛ الکذب والخیانة لیسا من اخلاق الکرام، جھوٹ اور خیانت اچھے اخلاق سے نہیں ہیں (غرر) وموت فی عز خیر من حیاة فی ذل ،عزت کی موت ذلت کی زندگی سے بہتر، (بحار الانوار، ج٤٤، ص ١٩٢)

٢۔ غرر الحکم، تیسری فصل، ص ٢٦٠۔

٣۔ بحار الانوار، ج ١٧، ص ٢١٤۔

٤۔ روانشناسی اجتماعی، ترجمہ شکرکن، ص ١٥٠ ، ١٥١ ۔

۱۷۹

اس وجہ سے اخلاقی تربیت کی ایک روش شخصیت کااحترام ہے یعنی ایسے امور کا انجام دینا کہ جن سے خود کو یقین ہو یا جس کی تربیت کی جارہی ہے اس کو اپنی قدروقیمت کا یقین حاصل ہو۔ ایڈلر، A ، y.adler جوکہ ایک فردی نفسیات کاموجد ہے اس نے احساس کمتری کو اپنے نظریہ کی اساس قرار دی ہے اور اسے علت اور تمام غیر معمولی رفتار کی علت اور سر چشمہ سمجھتا ہے۔احساس کمتری رنگین دھاگہ کے مانندجو نفسیاتی اختلال کے تمام حالات میں کھنچا ہواہے۔ ایک غصہ وریا بے صلاحیت بچہ سن رسیدہ ہوکر بھی نفسیاتی تعادل کی قوت نہیں رکھتا ہے۔ نفسیاتی مریض، مجرمین، جنسی منحرفین اور روحی بیمار سباپنی نا رسائی اور ضعف کے احساس کا رنج و الم برداشت کرتے ہیں۔ اور مسلسل شک وتردید اور گمراہی میں زندگی بسرکرتے ہیں اورایک معتمد ومستحکم مرکزتلاش کرتے ہیں...احساس کمتری طبیعی ارتقا کے لئے رکاوٹ بنتاہے(١) اور یہ اس وقت ہوتاہے کہ بچہ مکمل اس احساس میںغوطہ لگاتا ہے اور لاحاصل ہاتھ پاؤں مارنے کے باوجود خود کواس حالت سے نجات دینا چاہتا ہے، اس حالت میںبد گمانی اور وحشت احساس کمتری کی راہ کوکھول دیتی ہے اور بچہ نفسیاتی اختلال کا شکار ہوجاتا ہے، اس موقع پر ذہنی ونفسیاتی حرکت، سکو ن اور سکوت کا شکار ہوجاتی ہے ، اس معنی میں کہ بچہ پھر اپنے ضعف اور نقائص کو دور کرنے پر قادر نہیں ہوتاہے، ناچار اس کے علاوہ کوئی راہ نہیں رکھتا کہ خیالی تعادل بخشنے(جھوٹی تلافی) سے خود کو ماحول کے حوالے کردے۔(٢)

احساس کہتر نامی کتاب میں، ایڈلر کے نظریہ کی توضیح کے سلسلہ میں جو احساس کمتری سے پیدا شدہ زندگی کی روش کی اس طرح منظر کشی کرتے ہیں: احساس کمتری درجہ کیفیت اور سب سے پہلے نتیجہ کے اعتبار سے جو اس سے تجربے کے ضمن میں حاصل ہوتا ہے، انسان کے طرز زندگی کی تعیین کرتی ہے۔ یہاں پر تین اساسی ساز وسامان اور اس کے بعد تین طرز زندگی کو مشخص کیا جاسکتاہے ، طبیعی جبران کا سازو سامان، گریز وناامیدی کا ساز و سامان اور خیالی جبران کاساز وسامان۔

١۔ طبیعی تلافی:

یہ تلافی ایک نتیجہ خیز اساسی روش کے پایہ پر استوار ہے کہ جو نفسیاتی محوروں کی واقعی تعیین کرتا ہے، مثال کے طور پر ایک حادثہ کا شکار انسان کہ جو جسمی اور عضوی نقص رکھتا ہے، اسے صحیح کرنے یا مرکزی اعصبابی مشین اور دیگر اعضاء کے وسیلہ سے اسی ایک تلافی کی طرف رہنمائی کی جاتی ہے۔

____________________

١۔ ایڈلر: روانشناسی فردی، ترجمہ حسن زمانی، ص ٥٩۔

٢۔ ایضاً، ص٥٧۔

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809

810

811

812

813

814

815

816

817

818

819

820

821

822

823

824

825

826

827

828

829

830

831

832

833

834

835

836

837

838

839

840

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863

864

865

866

867

868

869

870

871

872

873

874

875

876

877

878

879

880

881

882

883

884

885

886

887

888

889

890

891

892

893

894

895

896

897

898

899

900

901

902

903

904

905

906

907

908

909

910

911

912

913

914

915

916

917

918

919

920

921

922

923

924

925

926

927

928

929

930

931

932

933

934

935

936

937

938

939

940

941

942

943

944

945