تفسير راہنما جلد ۱۰

تفسير راہنما 6%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 945

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 945 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 248314 / ڈاؤنلوڈ: 3407
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱۰

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

بشیر کہتے ہیں : میں نے امام محمد باقر (ع) کی خدمت میں عرض کی : لوگ کہتے ہیں کہ جب مہدی قیام کریں گے تو اس وقت ان کے امور طبیعی طور پر روبرو و ہوجائیں گے اور فصد کھلوانے کے برابر بھی خونریزی نہیں ہوگی ؟ آپ (ع) نے فرمایا :

'' خدا کی قسم حقیقت یہ نہیں ہے _ اگر یہ چیز ممکن ہوتی تو رسول خدا کیلئے ہوتی _

میدان جنگ میں آپ کے دانت شہید ہوئے اور پیشانی اقدس زخمی ہوئی _ خدا کی قسم صاحب الامر کا انقلاب اس وقت تک برباد نہ ہوگا _ جب تک میدان جنگ میں خونریزی نہیں ہوگی _ اس کے بعد آپ نے پیشانی مبارک پر ہاتھ ملا _ ''(۱)

ایسی احادیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مہدی موعود کو صرف الہی تائید اور غیبی مدد کے ذریہ کامیابی نہیں ہوگی اور یہ طے نہیں ہے کہ ظاہری طاقت سے مدد لئے بغیرہ معجزہ کے طور پر اپنے اصلاحی منصوبوں کو عملی جامہ پہنائیں ، بلکہ تائید الہی کے علاوہ آپ(ص) جنگی اسلحہ اور فوج کو استعمال کریں گے _ علوم و صنعت اور

خوفناک جنگی اسلحہ کی اختراع کو بھی مد نظر رکھیں گے _

مذکورہ دونوں مقدموں کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہ دیکھنا چاہئے کہ مہدی موعود کے ظہور کے شرائط کیا ہیں؟ آپ(ع) کے انقلاب و تحریک کے سلسلہ میں مسلمانوں کاکیا فریضہ ہے اور کس صورت میں کہا جا سکتاہے کہ مسلمان آپ(ع) کے عالمی اور دشوار قیام کے لئے تیار ہیں اور خدا کی قوی حکومت کی تشکیل اور ظہور کے انتظار میں دن گن رہے ہیں؟

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۲ ص ۳۵۸_

۳۲۱

اہل بیت کی احادیث سے میری سمجھ میں یہ بات آتی ہے کہ غیبت کے زمانہ میں مسلمانوں کا اہم ترین فریضہ یہ ہے کہ پہلے وہ سنجیدگی اور کوشش سے اپنے نفسوں کی اصلاح کریں ، اسلام کے نیک اخلاق آراستہ ہوں ، اپنے فردی فرائض کو انجام دیں قرآن کے احکام پر عمل کریں ، دوسرے اسلام کے اجتماعی پروگرام کا استخراج کریں اورمکمل طور سے اپنے درمیان نافذ کریں اور اسلام کے اقتصادی پروگرام سے اپنی اقتصادی مشکلوں کو حل کریں ، فقر و ناداری اور ناجائز طریقوں سے مال جمع کرنے والوں سے جنگ کریں اوراسلام کے نورانی قوانین پر عمل پیرا ہو کر ظلم و ستم کا سد باب کریں _ مختصر یہ کہ سیاسی اجتماعی ، اقتصادی ، قانونی اور اسلام کے عبادی پروگراموں کو مکمل طور پر اپنے درمیان جاری کریں اوردنیا والوں کے سامنے اس کے عملی نتائج پیش کریں _

تحصیل علم و صنعت میں سنجیدگی سے کوشش کریں اور اپنی گزشتہ غفلت و سستی اور پسماندگی کی تلافی کریں _ بشری تمدن کے کاروان تک یہنچنا کافی نہیں ہے بلکہ ہر طریقہ سے دنیا والوں سے باز جیت لینا ضروری ہے _ دنیا والوں کو عملی طریقے سے یہ بتائیں کہ اسلام کے نورانی احکام و قوانین ہی ان کی مشکلوں کو حل کر سکتے ہیں اور انکی دو جہان کی کامیابی کی ضمانت لے سکتے ہیں _ اسلام کے واضح اور روشن قوانین پر عمل کرکے ایک قوی اور مقتدر حکومت کی تشکیل کریں اور روئے زمین پر ایک طاقت ور و متمدن اور مستقل اسلامی ملت کے عنوان سے ابھر یں _

مشرق و مغرب کی سینہ زور یوں کوروکیں اور دنیا والوں کی قیادت کی زمام خو سنبھالیں _ جہاں تک ہو سکے دفاعی طاقت کو مضبوط اور نظامی طاقت کو محکم بنائیں اور جنگی اسلحہ کی فراہمی کے لئے کوشش کریں _ تیسرے :اسلام کے اجتماعی ، اقتصادی

۳۲۲

اور سیاسی منصوبوں کا استخراج کریں اور دنیا والوں کے گوش گزار کردیں _ خدائی منصوبوں کی قدر و قیمت سے لوگوں کو آگاہ کریں _ قوانین الہی کو قبول کرنے کیلئے دنیا والوں کے افکار کو آمادہ کریں _ اسلام کی عالمی حکومت اور ظلم و بیدادگری سے جنگ کے مقدمات و اسباب فراہم کریں _

جو لوگ اس راہ میں کوشش کرتے ہیں اور امام زمانہ کے مقصد کی تکمیل او رآپ کے انقلاب کیلئے اسباب فراہم کرتے ہیں ، انہی کو فرج کا منتظر کہا جا سکتا ہے اور ان کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ وہ خود کو امام زمانہ کے قیام کیلئے تیارکررہے ہیں _ ایسے فداکار اور کوشاں افراد کے سلسلہ میں کہا جا سکتا ہے کہ انکی مثال ان لوگوں کی سی ہے جو میدان جنگ میں اپنے خون میں غلطان ہوتے ہیں _

لیکن جو لوگ اپنی مشکلوں کو انسان کے وضع کردہ قوانین سے حل کرنا چاہتے ہیں اور اسلام کے اجتماعی و سیاسی قوانین کواہمیت نہیں دیتے ، احکام اسلام کو صرف مسجدوں اور عبادت گاہوں میں محدود سمجھتے ہیں ، جن کے بازار اور معاشروں میں اسلام کا نشان نہیں ہے ، جو فساد و بیدادگری کا مشاہدہ کرتے ہیں اور صر ف یہ کہہ کر خاموش ہوجاتے ہیں کہ اے اللہ فرج امام زمانہ میں تعجیل فرما _ علوم و فنون میں دوسرے آگے ہیں ، ہمارے درمیان اختلافات و پراکندگی کی حکمرانی ہے _ غیروں سے روابط ہیں ، اپنوں سے دشمنی ہے ایسی قوم کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ فرج آل محمد اور انقلاب مہدی کی منتظر ہے _ ایسے افراد اسلام کی عالمی حکومت کے لئے تیار نہیں ہیں اگر چہ وہ دن میں سیکڑوں بار اللہم عجل فرجہ الشریف کہتے ہوں _

اہل بیت (ع) کی احادیث سے میں اس بات کو اچھی طرح سمجھتا ہوں _ اس کے علاوہ دوسری

۳۲۳

روایات میں بھی اس موضوع کی طراف اشارہ ہوا ہے مثلاً: امام جعفر صادق (ع) نے فرمایا: '' ہمارے قائم ک ے ظہور اور انقلاب کیلئے تم خود کو آمادہ کرو اگر چہ ایک تیر ہی ذخیرہ کرو''(۱) عبد الحمید واسطی کہتے ہیں : میں نے امام محمد باقر (ع) کی خدمت میں عرض کی : ہم نے اس امر کے انتظار میں خرید و فروخت بھی چھوڑدی ہے فرمایا:

'' اے عبد الحمید کیا تم یہ گمان کرتے ہو کہ جس نے اپنے جان راہ خدا میں وقف کردی ہے _ خدا اس کی فراخی کیلئے کوئی انتظام نہیں کرے گا ؟ خدا کی قسم اس کے لئے راستے کھل جائیں گے اور امور آسان ہوجائیں گے خدا رحم کرے اس شخص پر جو ہمارے امر کو اہمیت دیتا ہے '' _ عبدالحمید نے کہا: اگر انقلاب قائم سے پہلے مجھے موت آگئی تو کیا ہوگا؟ فرمایا: '' تم میں سے جو شخص بھی یہ کہتا ہے کہ اگر قائم آل محمد کا میری حیات میں ظہور ہوگا تو میں آپ کی مدد کروں گا _ اس کی مثال اس شخص کی ہے جسن نے امام زمانہ کی رکاب میں تلوار سے جہاد کیا ہے بلکہ آپ (ع) کی مدد کرتے ہوئے شہادت پائی ہو ''(۲) _

ابوبصیر کہتے ہیں : ایک روز امام صادق (ع) نے اپنے اصحاب سے فرمایا:

'' کیا میں تمہیں وہ چیز بتاؤں کہ جس کے بغیر خدا بندوں کے اعمال قبول نہیں کرتا ہے ؟'' ابوبصیر نے عرض کی : (مولا) ضرور بتایئے فرمایا:'' وہ ایک خدا اور محمد (ص) کی نبوت کی گواہی دینا ، خدا کے دستوارت کااعتراف کرنا ، ہماری محبت اور ہمارے دشمنوں سے بیزاری اختیار کرنا ، ائمہ کے سامنے

____________________

۱_ بحارالانوار ج ۵۲ ص ۳۶۶_

۲_ کمال الدین ج ۲ ص ۳۵۷_

۳۲۴

سراپا تسلیم ہونا ، پرہیزگاری ، جد و جہد اور قائم کا منتظر رہنا ہے _

اس کے بعد فرمایا: ہماری حکومت مسلّم ہے جب خدا چاہے گا تشکیل پائے گی جو شخص ہمارے قائم کے اصحا ب و انصار میں شامل ہونا چاہتا ہے _ اسے چاہئے کہ انتظار فرج میں زندگی بسر کرے _ پرہیزگاری کو اپنا شعار بنائے ، اخلاق حسنہ سے آراستہ ہو اور اسی طرح ہمارے قائم کے انتظار میں زندگی بسر کرتا رہے اگر وہ اسی حال میں رہا اور ظہور قائم آل محمد سے پہلے موت آگئی ، تو اسے اتنا ہی اجر و ثواب ملے گا کہ جتنا امام زمانہ کے ساتھ رہنے والے کو ملیگا _

شیعہ کوشش کرو اور امام مہدی کے منتظر رہو _ اے خدا کی رحمت و لطف کے مستحقو کامیابی مبارک ہو _(۱)

____________________

۱_ غیبت نعمانی ص ۱۰۶_

۳۲۵

قیام کے خلاف احادیث کی تحقیق

انجینئر: ہوشیار صاحب آپ کی گزشتہ باتوں '' انتظار فرج'' کی بحث سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ امام زمانہ (ع) کی غیبت میں شیعوں کا فریضہ ہے کہ وہ اسلامی حکومت کی تاسیس اور اسلام کے سیاسی و اجتماعی قوانین کے اجراء کیلئے کوشش کریں اور اس طرح امام زمانہ کے عالمی انقلاب اور ظہور کے اسباب فراہم کریں میرے خیال میں آپ کی باتیں بعض احادیث کے منافی ہیں _ جیسا کہ آپ کو بھی معلوم ہے کہ بعض ایسی احادیث بھی موجود ہیں جو کہ قیام و ظہور مہدی سے قبل کسی بھی تحریک و انقلاب کی ممانعت کرتی ہیں _ اگر آپ تجزیہ کریں تو مفید ہوگا _

ہوشیار: آپ کی یاد ، دہاتی کا شکریہ _ ایسی احادیث ، دو طریقوں سے تجزیہ و تحقیق کی جا سکتی ہے _ پہلے تو سند کے اعتبار سے تحقیق ہونی چاہئے کہ وہ صحیح و معتبر ہیں یا نہیں _ دوسرے دلالت کے لحاظ سے دیکھنا چاہئے کہ کیا وہ کسی بھی انقلاب و تحریک ممانعت کیلئے دلیل بن سکتی ہیں یا نہیں لیکن احادیث کی تحقیق و تحلیل سے قبل مقدمہ کے طور پر میں ایک اور بات عرض کردینا مناسب سمجھتا ہوں _ اس طرح ہم مذکورہ مسئلہ سے دو حصوں میں بحث کریں گے _

۱_ اسلام میں حکومت

۳۲۶

۲_ احادیث کی تحقیق

اسلام میں حکومت

اسلام کے احکام و قوانین کے مطالعہ یہ بات بخوبی سمجھ میں آتی ہے کہ دین اسلام صرف ایک عقیدتی اور عبادی دین نہیں ہے بلکہ عقیدہ ، عبادت ، اخلاق ، سیاست اور معاشرہ کا ایک مکمل نظام ہے _ کلی طور پر اسلام کے احکام و قوانین کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے :

۱_ فردی احکام جیسے نماز ، روزہ ، طہارت ، نجاست ، حج ، کھانا ، پینا و غیرہ ان چیزوں پر عمل کرنے کے سلسلے میں انسان کو حکومت اور اجتماعی تعاون کی ضرورت نہیں ہوتی ہے بلکہ وہ تن تنہا اپنا فریضہ پورا کرسکتا ہے _

۲_ اجتماعی احکام ، جیسے جہاد، دفاع ، امر بالمعروف ، نہی عن المنکر ، فیصلے ، اختلافات کا حل ، قصاص ، حدود ، دیات ، تعزیرات ، شہری حقوق ، مسلمانوں کے آپس اور کفار سے روابط اور خمس و زکوة ، یہ چیزیں انسان کی اجتماعی و سیاسی زندگی سے مربوط ہیں _ انسان چونکہ اجتماعی زندگی گزارنے کیلئے مجبور ہے ، اور اجتماعی زندگی میں تزاحمات پیش آئیں گے لہذا اسے اسے قوانین کی ضرورت ہے ، جو ظلم و تجاوز کا سد باب کریں اور افراد کے حقوق کا لحاظ رکھیں _ اسلام کے بانی نے اس اہم اور حیات بخش امر سے چشم پوش نہیں کی ہے بکلہ اس کیلئے حقوقی جزائی اور شہری قوانین مرتب کئے ہیں اور اختلافات کے حل اور قوانین کے مکمل اجراء کیلئے عدالتی احکام پیش کئے ہیں _ ان قوانین کی تدوین اور وضع سے یہ بات بخوبی سمجھ

۳۲۷

میں آجاتی ہے کہ عدلیہ کا تعلق دین اسلام کے متن سے ہے اور شارع اسلام نے اس کی تشکیلات پر خاص توجہ دی ہے _ اسی طرح اسلام کے احکام و قوانین کا معتد بہ حصہ راہ خدا میں جہاد اور اسلام و مسلمین سے دفاع سے متعلق ہے _ اس سلسلہ میں دسیوں آیتیں اور سیکڑوں حدیثیں وارد ہوئی ہیں _ مثلاً : خداوند عالم مومنوں کو مخاطب کرکے فرماتا ہے :

جاهدوا فی سبیل الله حق جهاد (۱) (حج/ ۷۸)

راہ خدا میں جہاد کا حق ادا کرو _

و قاتلوهم حتی لا تکون فتنة و یکون الدین لله (۲) (بقرہ /۱۲)

ان سے جنگ کرتے رہو یہاں تک کہ فتنہ و فساد کا خاتمہ ہوجائے اور صرف دین خدا باقی رہے

فقاتلوا ائمة الکفر انهم لا ایمان لهم لعلهم ینتهون (توبہ/ ۱۲)

پس تم کفر کے سرغنہ لوگوں سے جنگ کرتے رہو کہ ان کے عہد کا کوئی اعتبار نہیں ہے تا کہ یہ اپنی شرارتوں سے باز آجائیں _

ایسی آیتوں سے کہ جن کے بہت سے نمونے موجود ہیں ، یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اسلام کی نشر و اشاعات ، کفر و استکبار اور ظلم و ستم سے جنگ مسلمانوں کا فریضہ ہے _ بلکہ بعض آیتوں میں تو یہ حکم بھی دیا گیا ہے کہ مسلمان اپنی دفاعی طاقت کو مضبوط بنانے کی کوشش کریں اور دشمن کے مقابلہ کے لئے مسلح رہیں _ قرآن مجید میں ارشاد ہے :

واعدوا لهم ماستطعتم من قوة و من رباط الخیل ترهبون به عدو الله و عدوکم و آخرین من دونهم لا تعلمونهم الله یعلمهم _ (انفال / ۶۰)

اور جہاں تک ہوسکے جنگی توانائی اور بندھے ہوئے گھوڑے فراہم کرو اور اس سے

۳۲۸

دشمنان خدا اور اپنے دشمنوں اور دوسرے لوگوں پر دھاک بٹھا ور تم انھیں نہیں جانتے نگر خدا انھیں جانتا ہے _

مذکورہ آیتوں سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ اسلحہ کی فراہمی اور فوجی توانائی اسلام کا جز ہے _ مسلمانوں کا فریضہ ہے کہ وہ ہمیشہ دفاعی طاقت کے استحکام اور دشمنوں کے حملوں کو روکنے کیلئے مختلف قسم کا اسلحہ بنائیں کہ جس سے دشمنان اسلام ہمیشہ مرعوب ووحشت زدہ رہیں اور تعدی و تجاوز کی فکر ان کے ذہن میں خطور نہ کرے _

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر بھی اسلام کے اہم ترین احکام میں سے ہے اور یہ سب پرواجب ہے _ مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ ظلم و فساد ، استکبار ، تعدی و تجاوز اور معصیت کاری سے مبارزہ کریں ، اسی طرح توحید ، خداپرستی کی اشاعت اور لوگوں کو خیر و صلاح کی طرف بلانے کی کوشش کرنا بھی واجب ہے اس اہم اور حساس فریضہ کی تاکید کے سلسلہ میں دسیوں آیتیں او رسیکڑوں احادیث وارد ہوتی ہیں _ مثلاً:

ولتکن منکم امة یدعون الی الخیر یامرون بالمعروف و ینهون عن المنکر (آل عمران /۱۰۴)

''تم میں سے کچھ لوگوں کو ایسا ہونا چاہئے کہ جو لوگوں کو نیکیوں کی طرف دعوت دیں اور امر بالمعروف نہی عن المنکر کریں'' _

دوسری جگہ ارشاد فرماتا ہے :

کنتم خیر امة اخرجت للناس تامرون بالمعروف و تنهون

۳۲۹

عن المنکر و تومنون بالله ( آل عمران/ ۱۱۰)

تم بہترین امت ہو کر لوگوں کو نیکیوں کا حکم دیتے اور برائیوں سے روکتے ہو اور خدا پر ایمان رکھتے ہو _

مختصر یہ کہ اسلام کا سیاسی و اجتماعی پروگرام اوراحکام و قوانین جیسے جہاد، دفاع قضاوت ، حقوقی ، شہری و جزائی ، قوانین ، امر بالمعروف و نہی عن المنکر ، فساد و بیدادگری سے مبارز ہ ، اجتماعی عدالت کا نفاذ ان سب کیلئے نظم و ضبط اور اداری تشکیلات کی ضرورت ہے اور ایک اسلامی حکومت کی تاسیس کے بغیر ان احکام کانفاذ ممکن نہیں ہے _

اس بحث سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ اسلامی حکومت کی تاسیس ، جو کہ اسلام کے قوانین کے نفاذ اور اس کے سیاسی ، اجتماعی ، اقتصادی فوجی اور انتظامی و حقوقی پروگرام کے اجراء کی ضامن ہے ، اسلام کا اصل نصب العین ہے _ اگر شارع نے ایسے قوانین و پروگرام وضع کئے ہیں تو ان کے نفاذ کیلئے حاکم اسلام کی ضرورت کو بھی ملحوظ رکھا ہے _ کیا جنگ و دفاع فوجی نظم و نسق کے بغیر ممکن ہے؟ کیا ظلم و بیدادگری ، دوسروں کے حقوق کو غصب کرنے ، اجتماعی عدالت کا نفاذ ، احقاق حق اور ہرج و مرج کا سد باب عدلیہ اور انتظامی نظلم و نسق کے بغیر ممکن ہے؟

چونکہ اسلام نے قوانین و پروگرام کئے ہیں اس لئے ان کے اجراء و نفاذ کا بھی منصوبہ بنایا ہے _ اور یہی اسلامی حکومت کے معنی ہیں کہ حاکم اسلام یعنی ایک شخص ایک وسیع اداری امور کی زمام اپنے ہاتھوں میں لیتا ہے اور قوانین الہی کو نافذ کرکے لوگوں میں امن وامام برقرار کرتا ہے _ اس بناپر حکومت متن اسلام میں واقع ہوتی ہے اس سے جدا نہیں کیاجا سکتا _

۳۳۰

رسول (ص) خدا مسلمانوں کے زمامدار

رسول خدا (ص) اپنی حیات طیبہ میں عملی طور پر حکومت اسلامی کے زمامدار تھے مسلمانوں کے امور کے نگراں تھے _ اور اس اہم ذمہ داری کی انجام وہی کی خاطر خدا کی طرف سے آپ کو بہت سے اختیارات دیئےئے تھے _ قرآن فرماتا ہے :

النّبی اولی بالمومنین من انفسهم ( احزاب /۶۰)

نبی کو مومنین کے امور میں خود ان سے زیادہ تصرف کا حق حاصل ہے _ دوسری جگہ ارشاد ہے :

فاحکم بینهم بما انزل الله ولا تتبع اهوائهم ( مائدہ / ۴۸)

جو احکام و قوانین ہم نے آپ (ص) پر نائل کئے ہیں ان کے ذریعہ مسلمانوں کے درمیان حکومت کیجئے اور ان کی خواہش کا اتباع نہ کیجئے _

اس بنا پر رسول (ص) دو منصبوں کے حامل تھے ایک طرف وحی کے ذریعہ خدا سے رابط تھا اور ادھر سے شریعت کے احکام و قوانین لیتے تھے اور لوگوں تک پہنچاتے تھے اور دوسری طرف امت اسلامیہ کے زمام دار و حکمران بھی تھے اور مسلمانوں کے سیاسی و اجتماعی پروگرام کا اجراء آپ ہی فرماتے تھے _

رسول (ص) خدا کی سیرت کے مطالعہ سے یہ بات بخوبی روشن ہوجاتی ہے کہ آپ(ص) عملی طور پر مسلمانوں کے امور کی باگ ڈور اپنے دست مبارک میں رکھتے اور ان پر حکومت کرتے تھے_ حاکم و فرمانروا مقرر کرتے ، قاضی معین کرتے ، جہاد و دفاع کا حکم صادر فرماتے مختصر یہ کہ آپ (ص) ان تمام کاموں کو انجام دیتے تھے جو ایک امت کیلئے

۳۳۱

لازم ہوتے تھے _(۱)

اس کام پر آپ خدا کی جانب سے مامور تھے _ آپ (ص) کو یہ ذمہ داری سپردکی گئی تھی کہ اسلام کے سیاسی اور اجتماعی قوانین کو نافذ کریں _ مسلمان جہاد پر مامور تھے لیکن رسول خدا کو یہ حکم تھا کہ وہ انھیں جہاد و دفاع کیلئے ، آمادہ کریں _ چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد ہے :

'' یا ایها النبی حرّض المومنین علی القتال'' ( انعام / ۲۵)

اے نبی (ص) مومنین کو جہاد کی ترغیب دلاہیئے

دوسری جگہ ارشاد ہے :

یا ایها النبی جاهد الکفار و المنافقین و اغلظ علیهم (توبہ /۷۳)

اے نبی (ص) کفار و منافقین سے جہاد کیجئے اور ان پر سختی کیجئے _

رسول (ص) لوگوں کے درمیان حکومت و قضاوت کرنے پر مامور تھے ، قرآن کہتا ہے :

انا انزلنا الیک الکتاب بالحق لتحکم بین الناس بمااراک الله و لا تکن للخائنین خصیما'' _ (نساء/ ۱۰۵)

ہم نے آپ پر بر حق کتاب نازل کی ہے تا کہ اس کے مطابق لوگوں کے درمیان حکم کریں جو خدا نے آپ کو دکھایا ہے اور خیانت کاروں کے حق میں عداوت نہ کیجئے _

ان آیتوں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ رسول خدا نبی ہونے ، وحی لینے اور

____________________

۱_ الترتیب الاداریہ اور کتاب الاموال مولفہ حافظ ابو عبید ملا حظہ فرمائیں _

۳۳۲

اسے لوگوں تک پہنچانے کے علاوہ مسلمانوں کی حکومت اور زمامداری پر بھی مامور تھی اور اس بات پر مقرر تھے کہ سیاسی و اجتماعی احکام و پروگرام کو نافذ کرکے مسلمانوں پر حکومت کریں چنانچہ اس سلسلہ میں آنحضرت کو مخصوص اختیارات دیئے گئے تھے اور مسلمانوں پر آنحضرت کی حکومتی احکام کی اطاعت کرنا واجب تھا _

قرآن مجید میں ارشاد ہے :

اطیعوا لله و اطعیواالرسوال و اولی الامر منکم (نساء/ ۵۹)

اللہ کی اطاعت کرو اور سول (ص) کی اطاعت کرو اور اپنے صاحبان امر کی اطاعت کرو _ نیز ارشاد ہے :

و اطیعوا الله و رسوله و لا تنازعو فتفشلوا '' ( انفال / ۴۶)

اور خدا اور اس کے رسول کی اطاعت کرو نزاع و اختلاف سے پرہیز کرو کہ کمزور پڑجاؤ گے _

و ما ارسلنا من رسول الا لیطاع باذن الله (نساء/ ۶۴)

اور ہم نے جس رسول کو بھی بھیجا خدا کے حکم سے اس کی اطاعت ہوتی _

ان آیتوں میں رسول (ص) کی اطاعت خدا کی اطاعت کے ساتھ بیان ہوئی ہے اور مسلمانوں کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ خدا کی اطاعت کے ساتھ اس کے رسول (ص) کی

بھی اطاعت خدا کی اطاعت اس طرح ہوگی کہ لوگ اس کے احکام کو قبول کریں جو کہ رسول کے ذریعہ بھیجے گئے ہیں _ اس کے علاوہ مسلمانوں پر یہ واجب کیا گیا تھا کہ وہ رسول کے مخصوص احکام کی بھی اطاعت کریں _ رسول (ص) خدا کے مخصوص فرمان عبارت ہیں : وہ حکم و دستورات جو آپ مسلمانوں کے حاکم ہونے کی حیثیت سے صادر فرماتے تھے_ اس لحاظ سے وہ

۳۳۳

بھی واجب ہیں _ مختصر یہ کہ حکم خدا سے رسول (ص) کی اطاعت واجب ہے _

اس بناپر ابتدائے اسلام ہی سے حکومت دین کا جزو تھی اور عملی طور پر پیغمبر اس کے عہدہ دار تھے _

اسلامی حکومت رسول (ص) کے بعد

رسول کی وفات کے بعد نبوت اور وحی کا سلسلہ ختم ہوگیا _ لیکن دین کے احکام و قوانین اسلام کے سیاسی اور اجتماعی پروگرام مسلمانوں کے درمیان باقی رہے _ یہاں یہ سوال اٹھتاہے کیا رسول اکرم کی رحلت کے بعد آپ(ص) کی حاکمیت کا منصب بھی نبوت کی طرح ختم ہوگیا ؟ اور اپنے بعد رسول خدا نے کسی کو حاکم و زمام دار مقرر نہیں کیا ہے بلکہ اس ذمہ داری کو مسلمانوں پر چھوڑدیا ہے _ یا اس اہم و حساس موضوع سے آپ(ص) غافل نہیں تھے اور اس ذمہ داری کو پورا کرنے کے لئے کسی شخص کو منتخب فرمایا تھا؟

شیعوں کا عقیدہ ہے کہ پیغمبر اسلام خود مسلمانوں کے حاکم اور اسلام کے قوانین و پروگرام کو نافذ کرنے والے تھے ، آپ اسلامی حکومت کے دوام کی ضرورت کو بخوبی محسوس کرتے تھے _ آنحضرت(ص) اچھی طرح جانتے تھے کہ بغیر حکومت کے مسلمان زندہ نہیں رہ سکتے اور اسلامی حکومت اسی صورت میں ہوسکتی ہے کہ جب اس کو چلانے کیذمہ داری اسلام شناس ، عالم ، پرہیزگار ، امین اور عادل انسان کے دوش پر ڈالی جائے ، تا کہ وہ دین کے احکام و قوانین کو نافذ کرکے اسلامی کومت کو دوام بخشے _ اسی لئے رسول اکرم نے ابتداء تبلیغ رسالت ہی سے خداوند عالم کے حکم کے مطابق مناسب موقعوں پر حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام کو مسلمانوں کے امام و خلیفہ کے عنوان سے پہچنوایا ہے اس سلسلہ میں

۳۳۴

احادیث شیعہ و اہل سنت کی کتابوں میں موجود ہیں _منجملہ ان کے یہ ہے کہ حجة الوداع کے سفر میں غدیر خم کے مقام پر قافلہ روک کر ہزاروں صحابہ کے سامنے فرمایا:

الست اولی بالمومنین من انفسهم ؟ قالوا بلی یا رسول الله فقال من کنت مولاه فعلی مولاه ، ثم قال: اللهم وال من والاه و عاد من عاداه _ فلقیه عمر بن الخطاب فقال : هنیئاً لک یا بن ابی طالب _ اصبحت مولای و مولا کل مومن و مومنه _(۱)

رسول (ص) نے لوگوں سے فرمایا: کیا میں مومنین کے نفسوں پر ان سے زیادہ حق نہیں رکھتا ہوں؟ اصحاب نے عرض کی : بے شک ، اللہ کے رسول ، اس وقت آپ (ع) نے فرمایا: جس کا میں مولا ہوں اس کے علی مولا ہیں _ پھر فرمایا : با ر الہا علی کے دوست کو دوست اور ان کے دشمن کو دشمن _ پس عمر بن خطاب نے حضرت علی سے ملاقت کی اور کہا : فرزند ابوطالب مبارک ہو کہ آپ میرے اور ہر مومن و مومنہ کے مولا بن گئے ''_

ایسی احادیث سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ رسول (ص) نے اپنی حاکمیت کو دائمی بناکر اسے علی بن ابی طالب کے سپرد کردیا ہے _ اس سے پہلے اس منصب کیلئے آپ کو آمادہ کیا اور ضروری علوم و اطلاع آپ کے اختیار میں دیں _ آنحضرت جانتے تھے کہ علی ذاتی علم و عصمت کے حامل ہیں اور منصب امامت کے لائق ہیں _ اسی لئے آپ (ص) نے

____________________

۱_ ینابیع المودة / ۲۹۷_

۳۳۵

خدا کے حکم سے حضرت علی کو اس منصب کیلئے منتخب کیا اور اس حیثیت سے پہچنوایا _ حضرت علی اسلام کے احکام و قوانین کے حافظ بھی تھے اور حاکم اسلام و مجری قوانین بھی تھے رسول نے غدیر میں حضرت علی کے اختیار میں اپنا اولی بالتصرف کا منصب دیا _ اور عمر بن خطاب کے ذہن میں بھی ان ہی معنی نے خطور کیا اورانہوں نے علی سے کہا : اے ابوطالب کے بیٹے مبارک ہو کہ آپ میرے اور ہر مومن و مومنہ کے مولا بن گئے _

مسلمان بھی یہی سمجھتے چنانچہ انہوں نے امیرالمومنین کی بیعت کی وفاداری کااظہار کیا اگر ان معنی میں علی کو مولا نہ بنایا گیا ہوتا تو تو بیعت کی ضرورت نہ ہوتی _

علی (ع) جانشین رسول (ص)

رسول خدا نے خدا کے حکم سے حضرت علی (ع) کو مسلمانوں کا امام و زمام دار منصوب فرمایا اور اس طرح آپ نے مسلمانوں کی امامت کو دائمی بنادیا _ لیکن آپ کی وفات کے بعد بعض صحابہ نے اختلاف کیا ، لوگوں کی کمزوری اور جاہلیت سے غلط فائدہ اٹھایا اور حضرت علی کے شرعی حق کو غصب کرلیا اور اسلامی حکومت کو اس کے حقیقی وارث سے جدا کردیا _ حضرت علی (ع) کے بیعت نہ کرنے ، خطبے دینے ، احتجاج کرنے اور شکوہ کرنے کی وجہ یہی تھی کہ مسلمانوں کی حاکمیت و زمام داری کو غصب کرلیا گیا تھا _ خلفا نے دین کے احکام و معارف کو حضرت علی (ع) سے نہیں لیا تھا _ اگر چہ آپ کے علمی تبحر و مرتبہ کے معترف تھے یہاں تک کہ مشکل مسائل میں آپ(ع) سے رجوع کرتے تھے _

جس وقت خلافت حضرت علی (ع) کے ہاتھ میں آئی اور آپ(ع) نے خلافت کے تمام امور جیسے حاکم و فرمانروا کا تقرر ، قضات کا انتخاب ، زکوة و خمس کی وصولیابی کی

۳۳۶

ذمہ داری کا سپرد کرنا ، جہاد ودفاع کاحکم صادر کرنا اور سپہ سالاروں کے تقرر کو اپنے اختیار میں لے لیا تو طلحہ و زبیر نے آپ (ع) کے مخالفت کی اور جنگ جمل برپاکردی وہ آپ کی حکومت کے مخالف تھے آپ (ع) کے علمی مرتبہ اور احکام و معارف کے بیان کے مخالف نہیں تھے _ احکام کے بیان میں معاویہ کو بھی آپ سے کوئی اختلاف نہیں تھا بلکہ اس نے حکومت او رتخت خلافت کے سلسلہ میں آپ (ع) سے جنگ کی تھی _

اس سے ہم یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ رسول اکرم کی وفات سے اسلامی حکومت ختم نہیں ہوئی بکلہ حضرت علی بن ابی طالب کے خلیفہ منصوب ہونے سے اسلامی حکومت کے باقی رکھنے کی تصریح ہوگئی اور اس بات کی وضاحت ہوگئی کہ شارع اسلام نے سیاسی و اجتماعی قوانین کے نافذ کرنے میں کبھی دریغ نہیں کیا ہے _ یعنی اسلامی حکومت کو ہمیشہ باقی رہنا چاہئے _

امیر المومنین علیہ السلام نے اپنے بعد امام و خلیفہ اور حاکم منتخب کیا اور امام حسن (ع) نے اپنے بعد اپنے بھائی امام حسین اور امام حسین (ع) نے اپنے بیٹے امام زین العابدین کو منصوب کیا اور اس طرح بارہویں امام حضرت حجة بن الحسن تک ہر امام نے اپنے بعد والے امام کا تعارف کرایا _ خداداد علم و عصمت اور طہارت اور اپنے ذاتی کمال و صلاحیت کے علاوہ مسلمانوں کے امام و حاکم بھی منصوب ہوئے _ اس بناپر مسلمانوں کی امامت اور معصوم حکمرانوں کو اسلام سے جدا نہیں کیا جا سکتا اگر چہ حضرت علی بن ابی طالب کے علاوہ بظاہر کوئی امام بھی اپنا شرعی حق حاصل نہیں کرسکا اور اسلامی حکومت کو جاری نہ رکھ سکا _

زمانہ غیبت میں اسلامی حکومت

اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس زمانہ میں اسلام کے سیاسی اور اجتماعی پروگرام

۳۳۷

کی کیا کیفیت ہے؟ جس زمانہ میں معصوم امام و حاکم تک رسائی نہیں ہے کیا اس میں شارع اسلام نے احکام و منصوبوں سے ہاتھ کھینچ لیا ہے اور اس سلسلہ میں ان کا کوئی فریضہ نہیں ہے ؟ کیا اسلام یہ سارے قوانین صرف رسول کی حیات ہی کے مختصر زمانہ کیلئے تھے؟ اور اس وقت سے ظہور امام مہدی تک ان کی کوئی ضرورت نہیں ہے؟ کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ اسلام نے اس طویل زمانہ میں جہاد، دفاع ، حدود کے اجراء قصاص و تعزیرات ظلم و بیدادگری سے جنگ، مستضعفین اور محروموں سے دفاع، فساد و سرکشی اور معصیت کاری سے مبارزہ سے دست کشی کرلی ہے اور ان کے نفاذ کو حضرت مہدی کے ظہور پر موقوف کردیا ہے ؟ کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس زمانہ میں آیات و احادیث صرف کتابوں میں بحث کرنے کیلئے آئی ہیں ؟ میرے خیال میں کوئی با شعور مسلمان ایسی باتوں کو قبول نہیں کرے گا ؟ مسلمان خصوصاً مفکر ین یہی کہیں گے کہ یہ احکام بھی نفاذ ہی کے لئے آئے ہیں _ اگر حقیقت یہی ہے تو تمام زمانوں کو منجملہ اس زمانہ کو قوانین کے اجراء سے کیوں نظر انداز کردیا ہے؟ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اسلام نے سیاسی و اجتماعی منصوبے بنائے ہیں لیکن انھیں عملی جامہ پہنانے کیلئے حاکم مقرر نہیں کئے ہیں _

زمانہ غیبت میں مسلمانوں کا فریضہ

یہ بات صحیح ہے کہ پیغمبر اور معصوم امام کو خدا کی طرف سے مسلمانوں کا حاکم منصوب کیا گیا ہے اور ان کے امور کی زمام ان ہی کے ہاتھ میں دی گئی ہے _ اور اس سلسلہ میں انھیں کوشش کرنی چاہئے لیکن اصلی ذمہ داری مسلمانوں پر عائد کی گئی ہے اور وہ یہ کہ وہ اسلامی حکومت کی تاسیس و استحکام اور پیغمبر و امام کو طاقت فراہم کرنے کے سلسلہ

۳۳۸

میں مخلصانہ کوشش کریں اور ان کے تابع رہیں _ اسی طرح جب معصوم امام تک رسائی ممکن نہ ہو تو مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ اسلامی حکومت کی تاسیس اور اسلام کے سیاسی و اجتماعی منصوبوں کے اجراء کیلئے کوشش کریں جو فکر اسلام نے کسی زمانہ میں یہاں تک کہ اس زمانہ میں بھی اپنے احکام کو نظر انداز نہیں کیا ہے اور مسلمانوں کو ان پر عمل کرنے کی دعوت دی ہے _ اکثر احکام و قوانین مسلمانوں کو مخاطب کرکے بیان کئے گئے ہیں مثلاً قرآن مجید فرماتا ہے :

و جاهدوا فی الله حق جهاده ( حج/ ۷۸)

راہ خدا میں حق جہاد ادا کرو _

انفروا خفافا و ثقالا و جاهدوا باموالکم و انفسکم فی سبیل الله ( توبہ /۴۱)

مسلمانو تم ہلکے ہو یا بھاری راہ خدا میں اپنے اموال اور نفوس سے جہاد کرو _

تومنون بالله و رسوله و تجاهدون فی سبیل الله (صف/۱۱)

تم خداو رسول پر ایمان رکھتے ہو راہ خدا میں جہاد کرو _

و قاتلوا فی سبیل الله الذین یقاتلونکم و لا تعتدوا ( بقرہ/ ۱۹۰)

راہ خدا میں ان لوگوں سے جنگ کرو جو تم سے لڑتے ہیں لیکن زیادتی نہ کرو _

فقاتلوا اولیاء الشیطان ان کید الشیطان کان ضعیفا ( نساء /۶۷)

شیطان کے طرف داروں سے جہاد کرو کہ شیطان کامکر کمزور ہے _

و قاتلوا حتی تکون فتنة و یکون الدین کله لله ( انفال / ۳۹)

۳۳۹

ان سے جنگ کرتے رہو یہاں تک کہ فتنہ ختم ہوجائے اور دین خدا باقی رہے _

و مالکم لا تقاتلون فی سبیل الله (انفال /۳۹)

راہ خدا میں تم جہاد کیوں نہیں کرتے؟

فقاتلوا ائمة الکفر انهم لا ایمان لهم (توبہ/۱۲)

کفار کے سر غناؤں سے جنگ کرو کہ ان کی قسم کا کوئی اعتبار نہیں ہے _

و قاتلوا المشرکین کافة کما یقاتلونکم کافة ( توبہ / ۳۶)

اور مشرکین سے سب اسی طرح جنگ کرو جیسا کہ وہ سب تم سے جنگ کرتے ہیں _

واعدوا لهم مااستطعتم من قوة و من رباط الخیل ترهبون به عدو الله و عدوکم ( انفال / ۶۰)

اور جہاں تک تم سے ہوسکے دشمنوں کے لئے جنگی توانائی اور گھوڑوں کی صف کا انتظام کرو کہ اس سے خدا کے دشمن اور تمہارے دشمنوں پر رعب طاری ہوگا _والسارق و السارقة فاقطعوا ایدهما جزاء بما کسبا نکالا من الله و الله عزیز حکیم (مائدہ / ۳۸)

اور چورمرد اور چور عورت دونوں کے ہاتھ کاٹ دو کہ یہ ان کے لئے ایک بدلہ اور خدا کی طرف سزا ہے اور خدا عزت و حکمت والا ہے _

الزّانیه و الزّانی فاجلدو کل واحد منهما اماة جلدة ولا تاخذ بهما رافة فی دین الله _ ( نور/ ۲)

زناکار عورت اور زناکار مرد دونوں کو سوسو کوڑے لگاؤ اور خبردار

۳۴۰

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

ابراہيم :ابراہيم اور بت پرست لوگ ۱۲; ابراہيم كا استغفار ۳; ابراہيم كا صبر ۱۲; ابراہيم كا طريقہ تبليغ ۲،۱۲،۱۳; ابراہيم كا قصہ ۱;۳;۴; ابراہيم كا اميد دار ہونا ۴;ابراہيم كا ہدايت دينے كا طريقہ ۵; ابراہيم كى بے نيازى كے اسباب ۲۱ ; ابراہيم كى رائے ۲۰; ابراہيم كى گفتگو ميں نرمى ۲ ;ابراہيم كى مہربانى ۲; ابراہيم كے استغفار كى قبوليت كا پيش خيمہ ۲۰;ابراہيم كے فضائل ۲ ، ۱۸; ابراہيم كے وعدے ۳;۵

احكام :۷;۸

استغفار :استغفار كى شرائط ۱۶; استغفار كى قبوليت ك سباب ۱۱;استغفار كے آداب ۱۷; استغفار كے احكام ۷;۸;استغفار مين تاخير كے آثار ۱۶ ; دوسروں كيلئے استغفار ۷

الله تعالى :الله تعالى كى ربوبيت كے آثار ۱۱; الله تعالى كے اختيارات ۱۰; الله تعالى كے لطف كے آثار ۲۰; ۲۱

الله تعالى كا لطف :الله تعالى كے لطف كے شامل حال افراد ۱۸ ، ۱۹ ، ۲۱

الله تعالى كے محبوب لوگ:الله تعالى كے محبوب لوگوں كا استغفار ۶; الله تعالى كے محبوب لوگوں كى دعا كى قبوليت ۶

انبياء :انبياء كى دعا كى قبوليت ۶; انبياء كى صفات ۱۴; انبياء كے استغفار كے آثار ۶;انبياء كے فضائل ۶;۱۹

بخشش :بخشش كا سرچشمہ ۱۰

جہلاء :جہلاء سے ملنے كا انداز ۱۳

خطا كا ر لوگ :خطا كا ر لوگوں كيلئے دعا ۱۴; خطا كا ر لوگوں كيلئے عفو ۴

دعا :دعا كے آداب ۱۷; دعا كا وقت ۱۵

ذكر :الله تعالى كى ربوبيت كا ذكر ۱۷

زمانے :زمانوں كا اختلاف ۱۵

شرك :شرك كا گناہ ۹;شرك كى بخشش ۹; شرك كے درجات ۹

صفات :پسنديدہ صفات ۱۴

مخالفين:مخالفين سے ملنے كا انداز ۱۳; مخالفين كيلئے وسعت قلبى ۱۳

مشركين :مشركين كيلئے استغفار ۸

۷۰۱

معاشرت :معاشرت كے آداب ۱۳لئن لم تنته لا رجمنّك وأعتزلكم و ماتدعون

آزر نے جملہ ( لئن لم تنتہ ) ميں واضح

آیت ۴۸

( وَأَعْتَزِلُكُمْ وَمَا تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ وَأَدْعُو رَبِّي عَسَى أَلَّا أَكُونَ بِدُعَاء رَبِّي شَقِيّاً ) (٤٨)

اور آپ كو آپ كے معبودوں سميت چھوڑ كر الگ ہوجاؤں گا اور اپنے رب كو آواز دوں گا كہ اس طرح ميں اپنے پروردگار كى عبادت سے محروم نہ رہوں گا (۴۸)

۱_ حضرت ابراہيم، آزر كى مانند لوگوں كے درميان اسكے گھر ميں اسكى مانند زندگى كو اپنى خدا پرستى كى راہ ميں ركاوٹ سمجھتے تھے اور ان سب سے انہوں نے دورى اختيار كى _وأعتز لكم و ماتدعون من دون الله

۲_ حضرت ابراہيم نے آزر كى دھيكوں كے جواب ميں بت پرست لوگوں اور بتوں سے دور ہونے كے بارے ميں اپنے عزم كا اعلان كيا _وأعتز لكم وما تدعون من دون الله

۳_والد كا حكم جب توحيد اورو احد انيت كے خلاف ہو تو اس صورت ميں اسكى اطاعت جائز نہيں ہے _

طور پر حضرت ابراہيم كو يكتا پرستى اورشرك سے نبرد آزما ہونے سے رو كا ہے ليكن حضرت ابراہيم اسكے روكنے كے باوجود اپنےمشن كو آگے بڑھا يا اور شرك ميں باپ كى اطاعت نہيں كى البتہ يہاں توجہ رہے يہ مطلب اس صورت ميں درست ہو گا جب آزر واقعاً ابراہيم كا باپ ہو_

۴_آزر كے علاقے اور شہر كے لوگ اسكے ہم مذہب تھے اور وہ بتوں اور الله تعالى كے علاوہ ديگر اشياء كو پوجتے تھے اور انكےحضور دعا كرتے تھے_وأعتز لكم و ماتدعون من دون الله

۵_ حضرت ابراہيم نے اپنے عقيدہ توحيد كى حفاظت اور الله واحد كى عبادت كى خاطر شرك اور بت پرستى كے ماحوں سے ہجرت كا انتخاب كيا_وأعترلكم و ما تدعون من دون الله وأدعوا ربّي ( دعا ) كے معانى ميں سے ايك معنى عبادت بھى ہے _اس آيت ميں لفظ ( ادعوا كامعنى پچھلى آيات ميں ( لم تعبد ) كے قرينہ كى مدد سے عبادت ہو سكتا ہے تو اس بناء پرہم كہ سكتے ہيں كہ حضرت ابراہيم (ع) نے الله تعالى كى عبادت كرنے كيلئے ہجرت انتخاب كيا _

۷۰۲

۶_ شرك كے ماحول ميں اگر تبليغ بے اثر ہوتو وھاں رہنے كى نسبت ہجرت كو حق تقدم حاصل ہے _وأعتزلكم وماتدعون من دون الله جب حضرت ابراہيم نے آزر كى شدت اور ھٹ دھرمى كا مشاہدہ كيا تو انكے سامنے چند راستے تھے : (۱) اس شرك كے ماحول ميں رہيں اور اپنے عقيدہ كو مخفى ركھيں اور شرك كے خلاف جہاد كو ترك كرديں _ (۲) بت پرستى كے خلاف جہاد جارى ركھيں اور سنگسار ہوجائيں _ (۳) شرك كے ماحوں سے نكل جائيں _ حضرت ابراہيم نے ان تين راستوں ميں سے تيسرے راستے كو اختيار كيا_ البتہ اس راستے كا دوسرے راستوں پر مقدم ہونا انكے خاص حالات و شرائط كى بناء پر ہے _

۷_راہ توحيد ميں حضرت ابراہيم (ع) كى ثابت قدمى اور پائيدارى _وأعتز لكم وأدعواربّي

حضرت ابراہيم (ع) كاہجرت كيلئے عزم تا كہ توحيد پرستى كى ركاوٹ دور ہو_انكى توحيد پر ثابت قدمى كو بيان كررہا ہے _

۸_ ايسا ماحول كہ جہاں الله واحدكى عبادت ميسّر نہ ہووہاں سے ہجرت كرنا ضرورى ہے _وأعتز لكم وما تدعون و أدعواربّي

۹_حضرت ابراہيم مشرك معاشر ے سے اپنى منفرد ہجرت ميں فقط الله تعالى اور اسكى مدد پر اعتماد كيئے ہوئے تھے _

وأدعوا ربّى عسى ألّإكون بدعاء ربّى شقيًا

۱۰_ حضرت ابراہيم نے الله تعالى كى بارگاہ ميں دعا كو اپنے بت پرست علاقہ كو چھوڑنے كى وجہ بيان كى _وأعتزلكم وأدعوا ربّي فعل (تدعون) اور ( ادعوا) ميں دعا ممكن ہے عبادت كے معنى ميں ہو اور ممكن ہے كہ استغاثہ اور مدد كى در خواست كى معنى ميں ہو_ مندجہ بالا مطلب دوسرے معنى كى بناء ہے _

۱۱_ دعا ،پيغمبروں كيلئے بھيكارساز اور موثر ہے _وأعتز لكم وأدعواربّي

۱۲_ حضرت ابراہيم، الله تعالى كو اپنا مربى اور پرورش كرنے ولا سمجھتے تھے اور اسكى ربوبيت سے دل لگائے ہوئے تھے _سا ستغفر لك ربّى وأدعو اربّى عسى ألّا ا كون بدعا ء ربّى شقيّا حضرت ابراہيم كى گفتگو ميں (ربّى ) كا تكرار مندرجہ بالا نكتہ كو واضح كررہى ہے _

۱۳_ الله تعالى كى ربوبيت، بندوں كى دعاؤں كى قبوليت كا تقاضا كرتى ہے _وأدعوا ربيّ بدعا ء ربّي

۱۴_ الله تعالى كى ربوبيت اور''ربّ'' جيسے مقدس نام پر توجہ، دعا كے آداب ميں سے ہے _وأدعوا ربّى بدعا ء ربّي

۱۵_ حضرت ابراہيم الله تعالى كى بارگاہ ميں اپنى دعا كے مستجات ہونے كى اميد ركھے ہوئے تھے _عسى ألّا أكون بدعاء

۷۰۳

ربّى شقيّا ( شقاوت ) سعادت كے مقابل ہے اور سختى و زحمت كے معنى ميں بھى آتاہے _ ( بدعا ء ربّي) ميں ''باء ''سببيہ ہے حضرت ابراہيم نے جملہ (عسى )كے ساتھ اميد كا اظہار كيا ہے كہ انكى دعا رد نہ ہو بلكہ مستجاب ہوگى اور انكى سعادت مندى كے اسباب فراہم ہونگے اور مشكلات كے حل ميں مددد ملے گى _

۶ ۱_ حضرت ابراہيم بت پرستوں كے علاقے سے ہجرت كرنے كے وقت اپنى مشكلات كے دور ہونے اور سعادت مند ہونے كے بارے ميں اميد ركھتے تھے اور اسكا سبب الله كى بارگاہ ميں دعا كو قرار ديتے تھے _عسى ألّإكون بدعا ء ربّى شقيّا

۱۷_ مؤمنين كو چاہيے كہ الله تعالى كى طرف سے اپنى دعا ؤں كى قبوليت كے حوالے سے اميد ركھيں _عسى ألّا أكون بدعا ء ربّى شقيّا

۱۸_ وہ جو بت اور ہر غير خدا چيز كى عبادت كرتے ہيں وہ اپنے آپ كو بغير كسى نتيجہ كے رنج و زحمت ميں ڈالتے ہيں _

عسى ألّا أكون بدعا ء ربّى شقيّا ( شقاوت) كے معانى ميں سے سختى او رزحمت بھى ہے _ جملہ (عسى ) جو كہ آزر اور دوسرے بت پرستوں سے حضرت ابراہيم كى گفتگو كو نقل كررہا ہے _ايك طرح كا انپر اعتراض ہے كہ مجھے اميدہے كہ ميں اپنے پروردگا ر كى عبادت سے شقى نہيں بنوں گا ليكن تم لوگ شعور سے بے بہرہ موجودات كى پرستش سے اپنے آپ كو بلا نتيجہ زحمت ميں ڈالتے ہو اور شقى لوگوں كے زمرہ ميں داخل ہوجاؤگے _

۱۹_سعادت، فقط الله واحد كى پرستش ميں مضمر ہے _وأدعوا ربّى عسى ألّإكون بدعا ء ربّى شقيّا

حضرت ابراہيم الله تعالى كى عبادت كى صورت ميں شقاوت سے نجات سمجھتے تھے لہذا الله تعالى كى عبادت كى صورت ميں حصول سعادت ميّسر ہے_

۲۰_ انسان كى شقاوت اور بدبختى ميں دعا ،مانع ہے_عسى ألّا أكون بدعا ء ربّى شقيّا

۲۱_ قال رسول الله (ص) : رحم الله عبداًطلب من الله عزوجل _ حاجة فا لحّ فى الدعا ء استحيب له أولم يستجب (له) وتلا هذه الاية : ( وأدعوا ربّى عيسي(ع) ألّا أكون بدعا ء ربّى شقيّاً) (۱)

پيغمبر اكرم(ص) نے فرمايا : الله تعالى كى رحمت ہو اس بندہ پر جو پروردگار سے كوئي چيز چاہے اور اپنى درخواست پر اصرار كرے خواہ اسكى دعا مستجاب ہو خواہ نہ ہو پھرپيغمبر اكرم(ص) نے اس آيت كو جو كہ

____________________

۱) كافى ج۲ ص۴۷۵ح۶ ، نورالثقلين ج۳ ص۳۳۹ح۸۶_

۷۰۴

حضرت ابراہيم كى نقل شدہ كلام ہے _ تلاوت فرمائي (وأدعوا ربّى عسى ألّإكون بدعا ربّى شقيّا

آزر :آزر كى بت پرستى ۴; آزر كى دھمكياں ۲

ابراہيم :ابراہيم كا اميد دار ہونا ۱۵،۶ ۱; ابراہيم كا بيزار ہونا ۱; ابراہيم كا توكل ۹; ابراہيم كا عقيدہ ۱۲; ابراہيم كا قصہ ۱،۲،۵; ابراہيم كا مربى ۱۲; ابراہيم كى ہجرت ۹;ابراہيم كى استقامت ۷; ابراہيم كى بيزارى كا فلسفہ ۲; ابراہيم كى توحيد ۷; ابراہيم كى توحيد عبادى ۵; ابراہيم كى دعا ۱۰،۱۶، ۲۱;ابراہيم كى دعا كى قبوليت ۱۵; ابراہيم كى رائے۱; ابراہيمى كى سعادت ۱۶; ابراہيم كى مشكلات رفع ہونا ۱۶; ابراہيم كى ہجرت كا فلسفہ ۵/احكام :۳/اطاعت:

اطاعت كے احكام ۳، باپ كى محدود اطاعت ۳; ممنوع اطاعت۳

الله تعالي:الله تعالى كى امداديں ۹;اللہ تعالى كى ربوبيت كے آثار ۳

اميدوار ہونا:دعا كى قبوليت كے بارے ميں اميدوار ہونا ۱۷; سعادت كے بارے ميں اميدوار ہونا ۱۶

انبياء:انبياء كى دعائيں ۱۱

بت:بتوں سے درخواست۴

بت پرست:بت پرستوں كے رنج ۱۸

بت پرستي:ابراہيم (ع) كے زمانہ ميں بت پرستي۴; بت پرستى كا فضول ہونا ۱۸;بت پرستى كى تاريخ ۴

بيزاري:بت پرستوں سے بيزارى ۱،۲; مشركين سے بيزارى ۱

تبليغ:تبليغ كے بے اثر ہونے كے آثار ۶

توحيد:توحيد عبادى كے آثار ۱۹;توحيد كى اہميت ۳; توحيد ميں استقامت ۷; توحيد ميں موانع ۱

توكل:الله تعالى پر توكل۹

دعا:دعا كى قبوليت كے اسباب ۱۳;دعا كے آثار ۱۱ ، ۱۶، ۲۰; دعا كے آداب ۱۴ ،۲۱; دعا ميں اصرار ۲۱

ذكر:الله تعالى كى ربوبيت كا ذكر ۱۴

روايت:۲۱

سعادت:

۷۰۵

سعادت كے اسباب ۱۹

شقاوت:شقاوت كے موانع۲۰

عبادت:غير خدا كى عبادت كا فضول ہونا۸

عقيدہ :الله تعالى كى ربوبيت كے بارے ميں عقيدہ ۱۲ عقيدہ كى نگہبانى ۵

مؤمنين:مؤمنين كے بارے ميں اميد ركھنا۱۷

مشركين :مشركين كے ساتھ زندگي۱

ہجرت:مشرك معاشرہ سے ہجرت ۵،۶ ،۸ ،۹ ، ۱۶ ; ہجرت كى اہميت۸; ہجرت كے شرائط ۷

آیت ۳۹

( فَلَمَّا اعْتَزَلَهُمْ وَمَا يَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ وَهَبْنَا لَهُ إِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَكُلّاً جَعَلْنَا نَبِيّاً )

پھر جب ابراہيم نے انھيں اور ان كے معبودوں كو چھوڑ ديا تو ہم نے انھيں اسحاق و يعقوب جيسى اولاد عطا كى اور سب كو نبى قرار ديديا(۴۹)

۱_ حضرت ابراہيم (ع) نے شرك اور بت پرستى كے ما حول سے ہجرت كى اور بت پرستوں اور انكے معبودوں سے دورى اختيارى كي_فلمّا اعتزلهم وما يعبدون من دون الله و هبنا له إسحق(ع) و يعقوب

۲_ آزر اور اسكے شہر و علاقہ كے لوگ بتوں اور الله كے علاوہ چيزوں كى پرستش كرنے والے تھے_

فلمّا اعتزلهم وما يعبدون من دون الله

۳_ حضرت ابراہيم(ع) كو اسحاق(ع) و يعقوب(ع) كا عطا ہونا ، الہى عنايت اور انكى ہجرت كى جزا تھي_

فلمّا اعتزلهم و ما يعبدون من دون الله وهبنا له إسحق(ع) ويعقوب

''لمّا'' حرف جزا(وہبنا ...) كے شرط ''اعتزلہم '' پر مترتب ہونے كو بيان كررہا ہے اور دلالت كررہا ہے كہ يہاں جزاء كا وجود شرط كے وجود كى بناء پر ہے_

۴_ ہجرت اور شرك و بت پرستى كى زمين كو ترك كرنا ، الہى جزاؤں اور عنايتوں سے بہرہ مند ہونے كى آمادگى پيدا كرتا ہے_فلمّا اعتزلهم و ما يعبدون من دون الله وهبنا له

۷۰۶

۵_ حضرت اسحاق(ع) و يعقوب(ع) حضرت ابراہيم(ع) كى اولاد اور الہى پيغمبر(ص) تھے_وهبناله إسحق ويعقوب وكلاًّ جعلنا نبيا

حضرت اسحاق (ع) حضرت ابراہيم(ع) كے فرزند تھے جبكہ حضرت يعقوب(ع) سورہ ہود كى ستائيسويں آيت''ومن وراء اسحاق(ع) يعقوب ''كى بناء پر حضرت اسحاق(ع) كے فرزند اور حضرت ابراہيم(ع) كے پوتے تھے_

۶_ حضرت يعقوب(ع) حضرت ابراہيم(ع) كى زندگى ميں ہى پيدا ہوچكے تھے_وهبنا له إسحق و يعقوب

كسى چيزكاہبہ ہونا اس زمانے ميں ظاہراً صادق آتاہے كہ ھبہ حاصل كرنے والا قيد حيات ميں ہو يہ كہ اس آيت ميں حضرت يعقوب(ع) بھى ابراہيم(ع) كے ليے ہبہ قرار ديا گيا اس سے معلوم ہوتا ہے كہ وہ حضرت ابراہيم(ع) كے زمانہ حيات ميں پيدا ہو چكے تھے_

۷_ نبوت، الله تعالى كى طرف سے تعيين ہونے والا مقام ہے_وكلاًّ جعلنا نبيا

۸_ صالح فرزند، الہى عنايت ہے_وهبنا له إسحق ويعقوب

۹_ باپ كى صلاحيتں فرزند كى صلاحتيوں اور كمال ميں اہم كردار ادا كرتى ہيں _فلمّا اعتزلهم وهبنا له إسحق ويعقوب وكلاًّ جعلنا نبيا

آزر:آزركى بت پرستي۲

ابراہيم(ع) :حضرت ابراہيم(ع) كا قصّہ۱،۶; حضرت ابراہيم(ع) كو اسحاق(ع) كى عطا۳; حضرت ابراہيم(ع) كو يعقوب(ع) كى عطا۳;حضرت ابراہيم(ع) كى بيزارى ۱; حضرت ابراہيم(ع) كى جزا۳;حضرت ابراہيم(ع) كى ہجرت۱،۳; حضرت ابراہيم(ع) يعقوب(ع) كى ولادت كے وقت۶

اسحاق:اسحاق(ع) كى نبوت۵;اسحاق(ع) كے مقامات ۵

الله تعالي:الله تعالى نعمات۸

الله تعالى كى عنايات:الله تعالى كى عنايات كے شامل حال۳

انبياء:انبياء كى تاريخ۶

باپ:باپ كا كردار۹

بت پرستى :بت پرستى كى تاريخ۲;حضرت ابراہيم(ع) كے زمانہ ميں بت پرستي۲

۷۰۷

بيزاري:بت پرستوں سے بيزاري۱، بت پرستى سے بيزارى ۱، شرك سے بيزاري۱ ;مشركوں سے بيزاري۱

شرك:شرك سے دورى كى جزا۲

كمال:كمال كے اسباب۹

نبوت:نبوت كا سرچشمہ۷; نبوت كا مقام۷

نعمت:فرزند صالح سى نعمت۸;نعمت كا پيش خيمہ۴

ہجرت:مشرك ماحول سے ہجرت۱;ہجرت كے آثار ۴

يعقوب:يعقوب كا قصّہ ۶;يعقوب كى تاريخ ولادت ۶ ; يعقوب كى نبوت۵; يعقو كے مقامات ۵

آیت ۵۰

( وَوَهَبْنَا لَهُم مِّن رَّحْمَتِنَا وَجَعَلْنَا لَهُمْ لِسَانَ صِدْقٍ عَلِيّاً )

اور پھر انھيں اپنى رحمت كا ايك حصّہ بھى عطا كيا اور ان كے لئے صداقت كى بلندترين زبان بھى قرار دے دى (۵۰)

۱_ حضرت ابراہيم(ع) اور انكى اولاد، اسحاق(ع) اور يعقوب(ع) الله تعالى كى خصوص رحمتوں سے فيض ياب تھے_

وهبنا لهم من رحمتن ''من ''تبعيض كا معنى دے رہا ہے يعنى''وهبنا لهم من بعض رحمتنا'' ہبہ اور بخشش الہى كاعنوان ان كى خصوصيت اور عظمت كى حكايت كررہا ہے_

۲_شرك كے ماحول سے ہجرت اور توحيد پر پائيداري انسان كے ليے الله تعالى كى خصوص رحمتوں اور عنايتوں سے بہرہ مند ہونے كا سبب ہے_فلمّا اعتزلهم ...وهبنا لهم من رحمتنا

۳_ الله تعالى نے تاريخ ميں ابراہيم، اسحق اور يعقوب كيلئے حقيقى اور عظيم ثنا قرار دى ہے_

وجعلنا لهم لسان صدق عليّا

كلمہ''لسان''كے معانى اور استعمالات ميں سے ثنا اور تمجيد بھى ہے لہذا'' جعلنا ...'' سے

۷۰۸

مراد،ہم نے انكے ليے حقيقى اور بلند ثنا اور تمجيد قرار دہي_

۴_اللہ تعالى نے حضرت ابراہيم(ع) كو انكى توحيد ۱ور پائدارى كے صلہ ميں انہيں اور انكى اولاد كو قابل تعريف اور صاحب عظمت قرار ديا_فلمّا اعتزلهم ...وجعلنا لهم لسان صدق عليّا

۵_لوگوں كى عزت افزائي اور تعريف ميں حقيقت اور سچائي كى رعايت كرنے كاضرورى ہونااور حقيقت سے باہر نہ نكلنا _

وجعلنا لهم لسان صدق عليّا الله تعالى نے حضرت ابراہيم(ع) اور انكى اولاد كو عظيم ليكن سچى ثناء سے بہرہ مند كيا يعنى جو كچھ انكى تعريف و ثنا ميں كہا جاتا ہے حقيقت و واقعيت ہے نہ كہ مبالغہ ہے اس سے ايك درس اور پيغام مل رہا ہے سب لوگوں كو تعريف كرتے ہوئے افراط و تفريط كا شكار نہيں ہونا چاہيے بلكہ حقيقت كا ہى اظہاركرنا چاہيے _

۶_نيك نامى اور شہرت ايك شائستہ خصوصيت اور الہى رحمت كا نمونہ ہے_ووهبنا لهم من رحمتنا وجعلنا لهم لسان صدق عليّا

۷_ حضرت ابراہيم(ع) ، اسحق(ع) و يعقوب(ع) الله تعالى كى عنايت كى بناء پركائنات و تاريخ ميں سچى اور پر جوش كلام كے حامل ہيں _وجعلنا لهم لسان صدق عليّا

''لسان'' مختلف معانى ميں استعمال ہوتا ہے اسكا ايك معنى كلام ہے لہذا ممكن ہے كہ ''لسان صدق''سچى كلام كے معنى ميں ہو يعنى جو كچھ حضرت ابراہيم(ع) اور انكى اولاد نے ظاہر كيا عين حقيقت ہے لسان كيلئے ''عليّا'' كى خصوصيت لوگوں ميں وسيع ردّ عمل كى علامت ہے_

۸_كلام ميں سچائي ايك عظيم اور بلند قدر و قيمت كى حامل خصوصيت ہے_وجعلنا لهم لسان صدق عليّا

ابراہيم(ع) :ابراہيم(ع) پررحمت ۱; ابراہيم(ع) كى اولاد پر رحمت۱; ابراہيم(ع) كى اولاد كى نيك نامى كے اسباب ۴; ابراہيم(ع) كى توحيد پائدارى كى جزائ۴; ابراہيم(ع) كى توحيد كى جزائ۴;ابراہيم(ع) كى سچائي كا سرچشمہ ۷;ابراہيم(ع) كى مدح۳;ابراہيم(ع) كى نيك نامى كے اسباب۴;ابراہيم(ع) كے فضائل ۳ ;

اسحق(ع) :اسحاق(ع) پر رحمت۱; اسحق(ع) كى صداقت كا سرچشمہ ۷ ;اسحق(ع) كى مد ح ۳ ; اسحق(ع) كے فضائل ۳

الله تعالى :الله تعالى كى رحمت كا پيش خيمہ ۲; الله تعالى كى رحمت كى علامات۶;اللہ تعالى كے لطف كے آثار۷

توحيد:توحيد ميں پائدارى كے آثار۲//رحمت: رحمت كے شامل حال۱

۷۰۹

سچائي:سچائي كى قدرو قيمت۸

صداقت:دوسروں كى تعريف ميں صداقت۵; صداقت كى قيمت۸

مدح:مدح ميں غلو سے پرہيز۵

نيك نامي:نيك نامى كا سرچشمہ۶;نيك نامى كے اسباب ۴

ہجرت:ہجرت كے آثار۲

يعقوب:يعقوب(ع) پر رحمت ۱; يعقوب(ع) كى صداقت كا سرچشمہ۷; يعقوب(ع) كى مدح۳; يعقوب(ع) كے فضائل۳

آیت ۵۱

( وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ مُوسَى إِنَّهُ كَانَ مُخْلَصاً وَكَانَ رَسُولاً نَّبِيّاً )

اور اپنى كتاب ميں موسيى كا بھى تذكرہ كرو كہ وہ ميرے مخلص بندے اور رسول و نبى تھے (۵۱)

۱_پيغمبر اكرم (ص) پر قرآن سے حضرت موسي(ع) كى داستان يا د كرنے كى ذمہ دارى _واذكر فى الكتب موسى

۲_ حضرت موسى (ع) كى حيات كى تاريخ او ر انكى صفات سبق آموز اور حياتى ہيں _واذكر فى الكتب موسي

۳_ پيغمبروں اور انكى پر خلوص سيرت كو ياد كرنا اور مكرم ركھنا، قرآنى ہدايت كى روشوں ميں سے ہے_

ذكر رحمت ربّك واذكر واذكر واذكر

۴_ الہى و معنوى شخصيات كو ياد ركھنے اور انكى تجليل و تكريم بپا ركھنے كا ضرورى ہونا_ذكر رحمت ...واذكر ...واذكر واذكر

۵_ الله تعالى نے حضرت موسى (ع) كوہر طرح كى آلودگى سے پاك اوراپنے ليے خالص قرار ديا_إنّه كان مخلص

''مخلص'' (لام پر زبر) خالصشدہ وہ جسے الله تعالى نے اپنے ليے خالص كيا ہو اور آلودگى سے

۷۱۰

منزہ ركھا ہو (لسان العرب) اس كا مخلص (لام كے نيچے زير) سے فرق يہ ہے كہ مخلص وہ ہوتا ہے جس كى عبادت اسے خدا كے ليے خالص كرتے ہے ليكن مخلص وہ ہوتا ہے جسے خدا نے خالص كيا ہو _

۶_ حضرت موسي(ع) ، الله تعالى كے برگزيدہ اور مقام رسالت و نبوت پر فائز تھے_إنّه كان مخلصاً و كان رسولاً نبيّا

''رسول'' اور'' نبى '' ميں فرق يہ ہے كہ جو بھى الہى رسالت كا حامل ہو نبى بھى ہے نبييعنى حامل خبر ليكن ممكن ہے كہ كوئي نبى ہو ليكن كسى شخص ياقوم كى طرف بھيجانہ گيا ہو اور رسالت الہى كامل نہ ہو_

۷_خلوص، معنوى مقامات تك پہنچنے كيلئے پيش خيمہ ہے_إنّه كان مخلصاً وكان رسولاً نبيّا

۸_ معنوى اقدار، لوگوں كے قرآن ميں تذكرہ اور نام آنے كا معيار ہيں _واذكر ...إنّه كان مخلصاً وكان رسولاً نبيّا

۹_حضرت موسى (ع) كى پاكيزگى اور مقام رسالت و نبوت پر منتخب ہونا انكے شرف اور قرآن ميں تذكرہ ہونے كا موجب ہے_واذكر فى الكتب موسى إنّه كان مخلصاً وكان رسولاً نبيّا جملہ ''إنّہ كان ...اذكر'' كيلئے علت ہے_

آنحضرت:آنحضرت كى ذمہ داري۱

اخلاص:اخلاص كے آثار۷

اقدار:اقدرا كا معيار۸;اللہ تعالى كے برگزيدہ ۶ ; معنوى اقدار ۸

اولياء الله :اولياء الله كى تعظيم كى اہميت۴

تكريم:تكريم كا معيار۸

ذكر:ذكر موسى (ع) كے اسباب۹; قصّہ موسي(ع) كا ذكر۱; مخلصين كا ذكر۳; نمونوں كا ذكر۳

عبرت:عبرت كے اسباب۲

قرآن:قرآن كے قصے۱/مخلصين:۵

مقامات معنوي:مقامات معنوى كا پيش خيمہ۷

موسي(ع) :موسى (ع) كى تعظيم كے عوامل۹;موسى (ع) كى عصمت ۵ ; موسى (ع) كى نبوت۶ موسى (ع) كے برگزيدہ ہونے آثار۹; موسى (ع) كے فضائل ۵;موسى (ع) كے قصّہ سے عبرت ۲ ;موسى (ع) كے سے مقامات ۶

ہدايت:روش ہدايت۳

۷۱۱

آیت ۵۲

( وَنَادَيْنَاهُ مِن جَانِبِ الطُّورِ الْأَيْمَنِ وَقَرَّبْنَاهُ نَجِيّاً )

اور ہم نے انھيں كوہ طور كے داہنے طرف سے آواز دى اور راز و نياز كے لئے اپنے سے قريب بلاليا (۵۲)

۱_ الله تعالى نے كوہ طور كى دائيں جانب سے حضرت موسى كو خطاب فرمايا اور ان سے كلام كى _ونادينه من جانب الطورالا يمن كلمہ''أيمن'' يا لفظ ''يمن'' سے ہے كہ جسكا معنى خير و بركت ركھنا ہے يايہ ''يمن'' سے ہے كہ جسكا مطلب دائيں جانب ہے مندرجہ بالا مطلب ميں دوسرا معنى مورد نظر ہے تو اس صورت ميں''الا يمن'' كلمہ ''جانب'' كى صفت ہوگا_

۲_كوہ طور ايكپاكيزہ جگہ ہے اور وہ مقام ہے كہ جہاں الله تعالى نے حضرت موسى (ع) سے كلام كيا _ونادينه من جانب الطور الا يمن يہاں ''الايمن '' مبارك ومتبرك كے معنى ميں ہے لہذا ممكن ہے يہ ''الطور'' كيلئے صفت ہويا ممكن ہے كہ ''جانب '' كى صفت ہو_

۳_اللہ تعالى نے حضرت موسى كو اپنے ساتھ مناجات اور گفتگو كرنے كيلئے منتخب فرمايا_وقرّبنه نجيّا

۴_ الله تعالى نے حضرت موسى (ع) كے ساتھ خصوصى باتيں كرتے وقت انہيں اپنا مقرّب كيا _وقربنه نجيّا

''نجيّ'' يعنى وہ جس سے خفيہ باتيں ہوں ( لسان العرب سے اقتباس ) اور اسكا اطلاق حضرت موسى (ع) پر اس حوالے سے ہے وہ جو باتيں اللہ تعالى نے حضرت موسى (ع) سے كيں خفيہ تھيں اور فقط حضرت موسى (ع) ان سے آگاہ تھے_

۵_ حضرت موسى (ع) كا برگزيدہ ہونا اور انكا غير خدا سے مكمل دورى اختيارى كرنا انكے الله تعالى كے ساتھ گفتگو كرنے اور الله تعالى كا مقرّب بننے كا باعث قرارپايا_إنّه كان مخلصاً ...ونادينه من جانب الطور الا يمن و قرّبنه نجيّا

حضرت موسى كى پچھلى آيت ميں كلمہ''مخلص''كے ساتھ توصيف (وہ جسے الله تعالى نے اپنے ليے خالص كياہو) يہ انكے ليے ندا الہى كو سماعت كرنے كى لياقت كا اظہار كررہى ہے_

۷۱۲

الله تعالي:الله تعالى كى حضرت موسى (ع) سے گفتگو۱،۳،۴; الله تعالى كى حضرت موسى (ع) سے گفتگو كا پيش خيمہ ۵ ; الله تعالى كى حضرت موسى (ع) سے گفتگو كى جگہ۲

الله تعالى كى برگزيدہ لوگ۳

تقرّب:تقرّب كا باعث۵

كوہ طور:كوہ طور كى بركت ۲; كوہ طور كے دائيں جانب۱

موسى (ع) :حضرت موسى (ع) پر وحي۱;حضرت موسى (ع) كا برگزيدہ ہونا۳،۵; حضرت موسى (ع) كا تقرّب۴; حضرت موسى (ع) كا قصہ۱،۲; حضرت موسى (ع) كے فضائل ۳;كوہ طور ميں موسى (ع) ۱

آیت ۵۳

( وَوَهَبْنَا لَهُ مِن رَّحْمَتِنَا أَخَاهُ هَارُونَ نَبِيّاً )

اور پھر انھيں اپنى رحمت خاص سے ان كے بھائي ہارون پيغمبر كو عطا كرديا (۵۳)

۱_حضرت ہارون(ع) كا مقام نبوت كيلئے انتخاب، حضرت موسى (ع) پر الہى عنايت ورحمت تھي_

ووهبنا له من رحمتنا أخاه هارون نبيّا

۲_حضرت ہارون(ع) كو حضرت موسى كے مقاصد كے حوالے سے منتخب كيا گيااور وہ حضرت موسى (ع) كے الہى وظائف كو بجالانے ميں انكى مدد كيا كرتے تھے_وهبنا له ...هارون

حضرت ہارون(ع) كے حضرت موسى (ع) كو عطا ہونے كى تعبيردر حقيقت انكے اپنے بھائي كے الہى مقاصد ميں مكمل خدمت كرنے كے حوالے سے مبالغہ ہے لفظ''نبياَّ''حال ہے ا ور يہ بتارہا ہے كہ حضرت

ہارون اگر چہ خود بھى پيغمبر تھے ليكن اپنے بھائي كى خدمت ميں كمرہمت باندھى ہوئيتھى _

۳_حضرت موسى (ع) كى رحمت ميں الہى بھائي شامل حال تھے _ووهبنا له من رحمتن

۴_ حضرت ہارون(ع) حضرت موسى (ع) كے بھائي اور نبوت جيسے بلند مقام كے حامل _أخاه هارون نبيّا

۵_حضرت موسى (ع) ، الله تعالى كے نزديك حضرت ہارون(ع) سے بلند مقام ركھتے تھے_ووهبنا له من رحمتنا أخاه هارون نبيّا

۷۱۳

چونكہ حضرت ہارون(ع) كى نبوت حضرت موسى (ع) كيلئے عطا كے عنوان سے ہوئي ہے اس سے معلوم ہوا ہے كہ حضرت موسى (ع) كا مقام حضرت ہارون(ع) سے كہيں بلند تر ہے_

۶_مقام نبوت، دوسرے پيغمبر كى پيروى سے مانع نہيں ہے_ووهبنا له من رحمتنا أخاه هارون نبيّا

۷_پيغمبروں پر الله تعالى كى رحمت انكے رسالت كے مقاصد ميں كاميابى كے اسباب پيدا كرتى ہے_

وهبنا له من رحمتنا أخاه هارون نبيّا

۸_ ايك زمانہ ميں بہت سے الہى پيغمبروں كا وجود ، ممكن ہے_ووهبنا له ...هارون نبيّا

الله تعالي:الله تعالى كى رحمت كے آثار۷; الله تعالى كى عطا۱

انبياء:انبياء پر رحمت كے آثار۷; انبياء سے پيروى ۶; انبياء كى پيروي۶; انبياء كا ہم زمان ہونا۸;انبياء كى كاميابى كے اسباب۷

رحمت:رحمت كے شامل حال۱،۳

موسي(ع) :موسى (ع) پر رحمت ۱،۳;موسى (ع) كے بھائي ۴; موسى (ع) كى برتري۵; موسى (ع) كے مددگار۲; موسى (ع) كے مقامات۵

نبوت:نبوت كے آثار۶

ہارون(ع) :ہارون(ع) كا كردار۲;ہارون(ع) كے مقامات۱،۴; ہارون(ع) كى نبوت ۱،۴

آیت ۵۴

( وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِسْمَاعِيلَ إِنَّهُ كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَكَانَ رَسُولاً نَّبِيّاً )

اور اپنى كتاب ميں اسماعيل كا تذكرہ كرو كہ وہ وعدے كے سچّے اور ہمارے بھيجے ہوئے پيغمبر تھے (۵۴)

۱_پيغمبر اكرم(ص) كاوظيفہ ہے كہ وہ قرآن سے حضرت اسماعيل ''صادق الوعد'' كى داستان ياد فرمائيں _

واذكر فى الكتب إسماعيل

يہ كہ اس آيت ميں ذكر شدہ اسماعيل كيا حضرت ابراہيم(ع) كے فرزندہيں يا كوئي اور شخص؟ مفسرين كى دو آراء ہيں ہر ايك نے مختلف ادلہ سے مددلى ہے _ يہ نام قرآن ميں مطلق صورت ميں حضرت ابراہيم(ع) كے فرزند پر اطلاق ہوا ہے اور يہاں كوئي قرينہ قطعى اس بات پر كہ اسماعيل صادق الوعد كوئي اور شخص ہے موجود نہيں ہے_

۷۱۴

۲_حضرت اسماعيل صادق الوعد كى زندگى كى تاريخ اور انكى صفات سبق آموز اور تعميرى جثيت كى حامل ہيں _واذكر فى الكتب إسماعيل

۳_اسماعيل صادق الوعد مقام رسالت و نبوت كے حامل تھے _و كان رسولاً نبيّا

۴_وعدہ ميں سچائي حضرت اسماعيل كى برجستہ صفات ميں سے تھى _واذكر فى الكتب إسماعيل إنّه كان صادق الوعد

۵_ وعدہ ميں سچائي اور اسماعيل كى رسالت و نبوت قرآن ميں انكے ذكر و نام كو مكرّم ركھنے كا سبب بني_

واذكر فى الكتب إسماعيل إنّه كان صادق الوعد وكان رسولاً نبيّا

۶_وعدہ ميں سچائي ايك اچھى اور بہت قيمتى صفت ہے_واذكر فى الكتب ...إنّه كان صادق الوعد

حضرت اسماعيل(ع) كى ''صادق الوعد'' كے ساتھ تعريف ،موصوف كى تمجيد سے ہٹ كر صفت كى تمجيد بھى شمار ہوتى ہے_

۷_پيغمبروں اورسچائي كے نمونوں كا ذكر و تجليل ،قرآن كى ہدايت والى روش ميں سے ہے _واذكر ...واذكر ...واذكر

۸_الہى و معنوى شخصيتوں كى يادمنانا اور انكى تجليل وتكريم كرنا ضرورى ہے_واذكر فى الكتب إسماعيل إنّه كان صادق الوعد

۹_قرآن ميں افراد كى ياد منانے اور انكى تجليل كا معيار، معنوى اقدار ہيں _واذكر ...إنّه كان صادق الوعد وكان رسولاًنبيّا

۱۰_حضرت اسحاق كى نسبت حضرت اسماعيل(ع) خصوصى مقام كے حامل تھے _واذكر فى الكتب إسماعيل

آيت ميں اسماعيل سے مراد وہى فرزند ابراہيم ہوں تو انكے نام كا اسحاق(ع) و يعقوب(ع) كے نام سے بعد جن كا پچھلى آيات ميں ذكرہوا ہے ذكر ہونے كى چند وجوہات ہوسكتى ہيں ان ميں ايك يہ كہ كيونكہ حضرت اسماعيل(ع) كى والدہ حضرت ابراہيم(ع) كى ہجرت ميں انكے ہمراہ نہ تھيں ان آيات ميں اسى ليے صرف حضرت سارہ كے اولاد ہوا اور يہ كہ وہ آيت حضرت ابراہيم كى ہجرت كے بعد ديار غربت ميں انكے انس كو بيان كررہى ہے جبكہ حضرت اسماعيل بچپن ميں ہى حضرت ابراہيم سے جدا ہوگئے تھے تيسرى وجہ يہ ہے كہ حضرت اسماعيل كى بلند تر شرافت انكے مستقل ذكر كا باعث قرار پائي تھي_

۱۱_بريد العجلى قال : قلت لأبى عبداللّه (ع) يا بن رسول الله أخبرنى عن إسماعيل الذى ذكره الله فى كتابه حيث يقول ''واذكرفى الكتاب إسماعيل إنه كان صادق الوعد و كان رسولاَ نبيا ''ا كان إسماعيل بن ابراهيم قال :

۷۱۵

ذاك إسماعيل بن حزقيل (۱)

بريد عجلى كہتے ہيں كہ ميں نے امام صادق كى خدمت ميں عرض كى اے فرزند رسول خدا (ص) مجھے اس اسماعيل كہ بارے ميں بتا ئيں كہ جنكا الله تعالى نے اپنى كتاب ميں ذكر فرمايا اور يوں الله تعالى نے فرمايا ''اسماعيل واذكر فى الكتاب '' آيا يہاں مراد حضرت ابراہيم(ع) كے فرزند اسماعيل ہيں ؟فرمايا يہ شخص حزقيل كے بيٹے اسماعيل ہيں

۱۲_عن أبى عبداللّه (ع) قال: انّما سمّى إسماعيل صادق الوعدلأنّه وعد رجلاً فى مكان فانتظر فى ذلك المكان سنّه فسمّاه الله عزوجل صادق الوعد امام صادق(ع) فرماتے ہيں كيوں كہ اسماعيل كواس ليے صادق الوعد كا لقب ملا كر انہوں نے ايك شخص كو وعدہ ديا تھا كہ ايك مقام پر اسكا انتظار كريں گے اس وعدہ كى بنا ء پر ايك سال تك اس جگہ پر اسكے انتظار ميں رہے پس الله تعالى نے انہيں ''صادق الوعد''كا لقب دي

۱۳_عن زراره قال :سا لت ا با جعفر (ع)عن قول الله عزوجل ''وكان رسولاً نبياًما الرسول و ما النبي; قال النبى الذى يرى فى منا مه و يسمع الصوت و لا يعاين الملك '' الرسول الذى يسمع الصوت ويرى فى المنام و يعاين الملك زرارہ سے روايت ہوئي ہے كہ امام باقر (ع) سے اس كلام الہى '' وكان رسولاًنبياً''كے بارے ميں سوال كيا كہ رسول كون ہے؟ اور نبى كون ہے؟ حضرت نے فرمايا: نبى وہ ہے جو اپنے خواب ميں ديكھتاہے اور آواز سنتا ہے ليكن فرشتے كا مشاہدہ نہيں كرتا جبكہ رسول وہ ہے كہ آواز بھى سنتا ہے اور خواب ميں بھى ديكھتا ہے اور فرشتے كا بھى مشاہدہ بھى كرتا ہے_

آنحضرت:آنحضرت كى ذمہ داري۱

اسحاق :اسحاق كے فضائل ۱۰

اسماعيل (ع) :اسماعيل (ع) كا عہد سے وفا كرنا۵;اسماعيل (ع) كا نبوت ۵; اسماعيل (ع) كى تعظيم كا فلسفہ۵;اسماعيل (ع) كى صداقت ۴،۵; اسماعيل (ع) كے فضائل۴،۵; اسماعيل (ع) صادق الوعد(ص) : اسماعيل (ع) صادق الوعد(ع) كا لقب ركھتے كا فلسفہ۱۲;اسماعيل (ع) صادق الوعد(ع) كى داستان سے عبرت۲; اسماعيل (ع) صادق الوعد(ع) كى نبوت ۳; اسماعيل (ع) صادق الوعد(ع) كے مقامات۳

____________________

۱) بحارالانوار ج۱۳،ص۳۹۰ ،ح۶ تفسير برہان ج ۳ ص۱۶،ح۶_

۲) كافي،ج۲ ص۱۰۵ ،ح۷،نورالثقلين ج۳ص۳۴۲،ح۹۹

۳) كافى ج۱،ص۱۷۶،ح۱ ،نورالثقلين ج۳ ،ص۳۳۹ ، ح۹۰_

۷۱۶

اقدار:معنوى اقدار كا كردار۹

انبياء :انبياء كى تعظيم ۷; نبى سے مراد۱۳

اولياء الله :اولياء الله كى تعظيم۸

تكريم:تكريم كا معيار ۹

ذكر :اسماعيل صادق الوعد كا ذكر ۱;انبياء كا ذكر ۷; تربيتى نمونوں كا ذكر۷

رسول:رسول سے مراد۱۳

روايت:۱۱،۱۲،۱۳

صفات:پسنديدہ صفات۶

عبرت:عبرت كے اسباب۲

عہد:عہدسے وفا كى اہميت۶

ہدايت:ہدايت كى روش۷

آیت ۵۵

( وَكَانَ يَأْمُرُ أَهْلَهُ بِالصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ وَكَانَ عِندَ رَبِّهِ مَرْضِيّاً )

اور وہ اپنے گھروالوں كو نماز اور زكوة كا حكم ديتے تھے اور اپنے پروردگار كے نزديك پسنديدہ تھے (۵۵)

۱_ اسماعيل صادق الوعد ہميشہ اپنے رشتے داروں اورگھر والوں كو نماز اور زكوة كا حكم ديتے تھے_وكان يا مر أهله بالصلوة و الزكوة ہر آدمى كا ''اہل'' اسكا قبيلہ اور رشتے دار ہيں (لسان العرب)

۲_ اسماعيل صادق الوعد كے دين ميں نماز، زكات اورانفاق كى خصوصى اہميت تھى _وكان يا مر چهله بالصلوة و الزكوة

حضرت اسماعيل كا نماز،زكوة (انفاق ) پر اصرار، حضرت كے دين ميں ان دو كى اہميت كى علامت تھي_

۳_ نماز، زكوةاور انفاق ،گذشتہ اديان ميں بھى سابقہ ركھتے ہيں _وكان يا مر أهله بالصلوة والزكوة

۷۱۷

۴_نماز و زكوة جيسے فرائض كا وقوع ،مسلسل اور ہميشہ كى تبليغ و تشريح كا محتاج ہے _وكان يا مر أهله بالصلوة و الزكوة

''كان يا مر'' يعنى حضرت اسماعيل ہميشہ نماز كے انجام اور زكوة كى ادائيگى كا حكم ديتے تھے_

۵_ گھر والوں اور رشتہ داروں كى اصلاح خصوصى اہميت اور الہى پيغمبروں كے اہتمام كامركز تھي_

وكان يا مر أهله با الصلوة والزكوة

۶_ بيوى بچوں كو نماز اور انفاق كيلئے ابھارنا، مؤمن لوگوں كى ذمہ دارى ميں سے ہے_وكان يا مر أهله بالصلوة والزكوة

''أہل'' كے معانى ميں سے زوجہ اور گھر والے ہيں (مصباح)

۷_ جناب اسماعيل صادق الوعد اورانكے اعمال و كردار الله تعالى كى مكمل رضايت كے مطابق تھے_وكان عند ربّه مرضيّا

۸_ حضرت اسماعيل كا عہد وں سے وفا كرنا اور اپنے عزيزوں كو نماز، زكوة اور انفاق كا پابند ركھنے پر اصرار كرنا، الله تعالى كى حصول رضايت كا باعث تھا_إنّه كان صادق الوعد وكان يا مر أهله بالصلوةوالزكوة وكان عند ربّه مرضيّا

۹_ وعدہ سے وفا اور امر بالمعروف الله تعالى كى رضايت كا پيش خيمہ ہے_إنّه كان صادق الوعد ...وكان يا مر أهله بالصلوة والزكوة وكان عند ربه مرضيّا

۱۰_ الله تعالى كى رضايت كسب كرنا بلند اور باعظمت مقصد ہے_وكان عند ربّه مرضيّا

۱۱_ حضرت اسماعيل صادق الوعد الہى تربيت ميں پرورش پانے دالے او ر انكى زندگى الہى تدبير اور ربوبيت كے تحت تھي_عند ربّه

آسمانى اديان:آسمانى اديان كى تعليمات۳

اسماعيل(ع) :اسماعيل(ع) سے راضى ہونا۸; اسماعيل(ع) كا رشتہ دارو ں كو دعوت۱;اسماعيل(ع) كى دعوت ۱ ; اسماعيل(ع) كا عہد سے وفا۸;اسماعيل(ع) كے رشتہ داروں كا انفاق ۸; اسماعيل(ع) كے رشتہ داروں كى زكوة۸; اسماعيل(ع) كے رشتہ داروں كى نماز۸

اسماعيل صادق الوعد(ع) :اسماعيل صادق الوعد(ع) سے راضي۷; اسماعيل صادق الوعد(ع) كا مربى ۱۱;اسماعيل صادق الوعد(ع) كے فضائل ۷/الله تعالى :الله تعالى كى ربوبيت ۱۱; الله تعالى كى رضايت كا پيش خيمہ۸،۹; الله تعالى كى رضايت كى اہميت۱۰/الله تعالى كى رضايت:

۷۱۸

الله تعالى كى رضايت كے شامل حال۷

امر بالمعروف:امر بالمعروف كے آثار۹

انفاق:آسمانى اديان ميں انفاق ۳; انفاق كى تاريخ ۳; انفاق كے بارے ميں نصيحت ۶

اہميتيں :۱۰دين:دينى تعليمات كى تبليغ كى اہميت۴

رشتہ دار:رشتہ داروں كى اصلاح كى اہميت۵

زكوة:آسمانى اديان ميں زكوة۳;تاريخ زكوة ۳; زكوةكى اہميت۲،۴; زكوةكى دعوت۱

عہد:عہد سے وفا كے آثار۹

خاندان:خاندان كى اصلاح كى اہميت۵

مؤمنين:مؤمنين كى ذمہ داري۶

نماز:آسمانى اديان ميں نماز۳; نماز كى اہميت۲; نماز كى تاريخ۳; نماز كى دعوت ۱; نماز كى نصيحت۶; نماز كے برپاكرنے كى اہميت ۴

آیت ۵۶

( وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِدْرِيسَ إِنَّهُ كَانَ صِدِّيقاً نَّبِيّاً )

اور كتاب خدا ميں ادريس كا بھى تذكرہ كرو كہ وہ بہت زيادہ سچے پيغمبر تھے (۵۶)

۱_ الله تعالى نے پيغمبر اكرم(ص) كو قرآن سے قصّہ حضرت ادريس(ع) كے تذكرہ كا فرمان ديا_واذكر فى الكتب إدريس

۲_ حضرت ادريس(ع) كى زندگى اور خصوصيات تعميرى اور سبق آموز ہيں _واذكر فى الكتب إدريس

۳_ حضرت ادريس(ع) صديقوں ميں سے اور مقام نبوت كے حامل تھے_إنّه كان صديقاً نبيّا

۴_حضرت ادريس (ع) كى شخصيت صداقت اور نيكى كے عروج پر اور گفتار و عمل ميں وحدت ويكسوئي كى حامل تھي_إنّه كان صديقاً نبيّا

''صديق'' صيغہ مبالغہ ہے يعنى جو بہت زيادہ سچائي والا ہو اور بعض نے كہا كہ صديق وہ ہے كہ جو گفتا ر اور اعتقاد ميں صادق ہو اور اپنى سچائي كو عمل ميں محقق كرے (مفردات راغب)

۷۱۹

۵_ حضرت ادريس(ع) كى مكمل صداقت اورسچائي اور انكى نبوت كا قرآن ميں تذكرہ موجود ہے اور يہ مورد احترام قرار پايا_واذكر فى الكتب إدريس إنّه كان صديقاً نبيّا انّہ كان صديقاً ''واذكر'' كيلئے علت كى مانند ہے_

۶_ معنوى اور الہى مقامات كو پانے كيلئے صداقت اختيار كرنے كا خصوصى كردار _إنّه كان صديقاً نبيّا

۷_ گفتار اور عمل ميں سچائي نيك و بلند ترعظمت كى حامل ہے اور لوگوں كى تجليل و ثنا كا ايك معيار ہے _

واذكر فى الكتب إدريس إنّه كان صديقا

۸_ صداقت ،مقام نبوت پرپہنچنے كى ايك شرط ہے _إنّه كان صديقاً نبيّا

''صديقاً''كو'' نبيا'' پر مقدم كرنا مندرجہ بالا مطلب سے حاكى ہے _

۹_پيغمبروں كى ياد اور ان كى اور صداقت و سچائي كے نمونوں كى تجليل، قرآن مجيد كى تربيتى اور ہدايت كى روشوں ميں سے ايك روش ہے_واذكر ...واذكر ...واذكر

۱۰_ قرآن مجيد ميں معنوى اقرار ،لوگوں كى ياد كا معيار ہے_واذكر فى الكتب إدريس إنه كان صديقاً نبيا

۱۱_الہى و معنوى شخصيتوں كو ياد ركھنا او ر انكى تكريم و تجليل كرنا ضرورى ہےواذكر ...واذكر ...واذكر

آنحضرت (ص):آنحضرت كى ذمہ دارى ۱

ادريس (ع) :ادريس(ع) كى تعظيم كے اسباب۵;ادريس(ع) كى صداقت ۳،۴;ادريس(ع) كى صداقت كے آثار ۵;ادريس(ع) كى نبوت۳;ادريس(ع) كى نبوت كے آثار ۵;ادريس(ع) كے قصّہ سے عبرت۲; ادريس(ع) كے فضائل ۴; ادريس(ع) كے مقامات ۳

اقدار:اقدار كا معيار۱۰;معنوى اقدار۱۰

انبياء :انبياء كى تعظيم۹

اولياء اللہ:اولياء الله كى تعظيم كى اہميت۱۱

تربيت:تربيت كى روش۹

تكريم:تكريم كا معيار ۷،۱۰

۷۲۰

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809

810

811

812

813

814

815

816

817

818

819

820

821

822

823

824

825

826

827

828

829

830

831

832

833

834

835

836

837

838

839

840

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863

864

865

866

867

868

869

870

871

872

873

874

875

876

877

878

879

880

881

882

883

884

885

886

887

888

889

890

891

892

893

894

895

896

897

898

899

900

901

902

903

904

905

906

907

908

909

910

911

912

913

914

915

916

917

918

919

920

921

922

923

924

925

926

927

928

929

930

931

932

933

934

935

936

937

938

939

940

941

942

943

944

945