تفسير راہنما جلد ۱۰

تفسير راہنما 8%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 945

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 945 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 254196 / ڈاؤنلوڈ: 3519
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱۰

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

سے لازم نہيں ہے كہ ضامن يہ جانے كہ (مضمون لہ ) يعنى جسكو ضمان دينا ہے وہ كون ہے _

۱۸_ طلبگار كى رضايت، ضمانت كے صحيح ہونے ميں شرط نہيں ہے _و أنا به زعيم

جب ضامن نے وعدہ كيا تھايعني(انا بہ زعيم)كہا تھا اسوقت تك كسى نے شاہى پيالے كو نہيں پايا تھا اسى وجہ سے ضمانت ميں پيالے كو پانے والے كى رضايت شرط نہيں ہے _

۱۹_حضرت يوسفعليه‌السلام كے زمانے ميں جعالہ ،ضمان، وكالت كى قرار داديں رائج تھيں _

و لمن جاء به حمل بعير و انا به زعيم

۲۰_عن ابى عبدالله عليه‌السلام فى قوله : '' صواع الملك'' قال : كان قدحاً من ذهب و قال: كان صواع يوسف إذكيل به قال: لعن الله الخوان لا تخونوا به بصوت حسن (۱)

امام جعفر صادقعليه‌السلام ،خداوند متعال كے اس قول (صواع الملك ) كے بارے ميں فرماتے ہيں كہ يہ پيالہ سونے كا تھا اور پھر فرمايا جب اس سے كسى چيز كووزن كيا جاتا تو اچھى آواز ميں يہ جملہ كہتے كہ خداوند متعال خيانت كرنے والوں پر لعنت بھيجے اس ناپ وتول ميں خيانت نہ كرنا _

احكام : ۸،۹،۱۰،۱۱،۱۲،۱۳،۱۴،۱۵

انعام:انعام دينے كے احكام ۹

بادشاہ مصر :بادشاہ مصر كے پانى پينے والے برتن كى قيمت ۶; بادشاہ مصر كے پيالے كو پانے والے كا انعام ۵ ، ۷ ; بادشاہ كے پيالے كى بناوٹ ۲۰;بادشاہ مصر كے پانے پينے والے پيالے كے فوائد ۳; بادشاہ مصر كے پيالے كا گم ہونا ۱ ۱ ; بادشاہ مصر كے پيالے كى خصوصيات ۲۰

برادران يوسف :برادران يوسف سے تفتيش كرنے كے دلائل۱

تفتيش كرنا :تفتيش كرنے كے احكام ۲ ; تفشيش كرنے كے جواز كے موارد ۲

جرم :جرم كے كشف كرنے كے انعام كا جواز ۹

جعالہ :

____________________

۱)تفسير عياشى ج۲ ص ۱۸۵ ح ۵۲ ; بحارالانوار ج۱۲ ص ۳۰۸ ح ۱۲۰_

۵۸۱

حضرت يوسفعليه‌السلام كے زمانے ميں جعالہ ۱۹ ;جعالہ كا شريعت ميں جواز ۱۰ ; جعالہ كا عقد۱۰; جعالہ كى تاريخ ۱۹ ; جعالہ كے احكام ۱۰ ، ۱۱ ، ۱۲ ، ۱۳; جعالہ كے صحيح ہونے كے شرائط ۱۱ ، ۱۲ ،۱۳ ;جعالہ كے عامل كى تعيين ۱۱ ; جعالہ ميں زمان ۱۲ ; جعالہ ميں كام كى مقدار ۱۳; جعالہ ميں ضمانت كا جواز ۱۵

روايت : ۲۰

ضمان:حضرت يوسفعليه‌السلام كے زمانہ ميں ضمان ۱۹ ; ضمان كا شريعت ميں جواز ۱۴; ضمان كا عقد۱۴; ضمان كى تاريخ ۱۹;ضمان كے احكام ۱۴ ،۱۵،۱۶ ، ۱۷ ، ۱۸; ضمان ك-ے صحيح ہونے كے شرائط ۱۶ ، ۱۷ ، ۱۸ ;ضمان ميں طلبگار كا معين كرنا ۱۷ ; ضمان ميں طلبگار كى رضايت ۱۸

قديمى مصر:قديمى مصر ميں قحطى كے دوران وزن كرنے كا برتن ۳; قديمى مصر ميں وزن كرنے كا برتن ۴;قديمى مصر ميں وزن كرنا ۴

كفالت:حضرت يوسفعليه‌السلام كے زمانے ميں كفالت۱۹ ; كفالت كا شريعت ميں جواز ۱۴; كفالت كا عقد ۱۴;كفالت كے احكام ۱۴ ; كفالت كى تاريخ ۱۹

گرفتار كرنا :گرفتار كرنے كے احكام ۲ ; گرفتار كرنے كے جواز كے موارد ۴

لين دين كے معاملات:لين دين كے معاملات كا حضرت يوسفعليه‌السلام كے زمانے ميں ہونا ۱۹ ; لين دين كے معاملات كے احكام ۱۰ ،۱۴;لين دين كى قانونى حيثيت ۱۰ ، ۱۴

متہمين :متہمين كى تفتيش كا جواز ۲ ; متہمين كى گرفتارى كا جواز ۲

مجرمين :مجرمين كى گرفتارى پر انعام ۹; مجرمين كى تفتيش كا جواز ۲ ; مجرمين كى گرفتارى كا جواز ۲

مقابلہ :مقابلے كے احكام ۸ ; مقابلے ميں انعام ركھنا ۸

وزن كرنے كا برتن :تاريخ ميں وزن كرنے كا برتن ۴

وزن :وزن كرنے كى تاريخ ۴

حضرت يوسفعليه‌السلام :حضرت يوسفعليه‌السلام كا جعالہ ۷; حضرت يوسفعليه‌السلام كا قصہ ۱ ، ۵، ۷ ، ۲۰; حضرت يوسفعليه‌السلام كا وعدہ ۷

۵۸۲

آیت ۷۳

( قَالُواْ تَاللّهِ لَقَدْ عَلِمْتُم مَّا جِئْنَا لِنُفْسِدَ فِي الأَرْضِ وَمَا كُنَّا سَارِقِينَ )

ان لوگوں نے كہا كہ خداكى قسم تمھيں تو معلوم ہے كہ ہم زمين ميں فساد كرنے كے لئے نہيں آئے ہيں اور نہ ہم چور ہيں (۷۳)

۱ _ فرزندان يعقوب نے حضرت يوسفعليه‌السلام اور ان كے ملازمين كے سامنے قسم اٹھائي كہ انہوں نے چورى نہيں كى اور مصر ميں خرابى اور فساد كے قصد سے نہيں آئے ہيں _تالله لقد علمتم ما لنفسد فى الارض و ما كن

اگر چہ (مقسم عليہ ) (يعنى جو كام انجام ہوا اس پر قسم اٹھانا ) يہ آيت شريفہ ( لقد علمتم) ہے ليكن حقيقت ميں ( ما جئنا ...) مقسم عليہ ہے اسى وجہ سے جملے كا معنى يوں ہوگا كہ خدا كى قسم ہم فساد و بربادى كرنے كے ليے مصر ميں نہيں آئے ہيں اور ہرگز چور بھى نہيں ہيں اور تم ان حقيقتوں سے بخوبى واقف ہو_

۲_ خدا كى قسم اٹھانا ،گناہ كے ارتكاب اور فساد پھيلانے سے چھٹكارا حاصل كرنے كے ليے جائز ہے_

تالله لقد علمتم ما جئنا لنفسد فى الارض

۳_ فرزندان يعقوبعليه‌السلام ، حضرت يوسفعليه‌السلام كے ملازمين كے ہاں نيك كردار اور فساد اور چورى سے منزہ و مبرہ جانے جاتے تھے_تالله لقد علمتم ما جئنا لنفسد فى الارض و ما كنا سارقين

۴ _ حضرت يوسفعليه‌السلام كى حكومت كے آدمى ان كاروانوں كى تفتيش و تحقيق كرتے تھے جو مصر ميں وارد ہوتے تھے تا كہ اطمينان ہوجائے كہ وہ چور اور فساد كرنے والے نہيں ہيں _لقد علمتم ما جئنا لنفسد فى الارض و ما كنا سارقين

(لقد علمتم) كا جملہ ( كہ يقينا تم نے جان ليا كہ ہم ايسے ويسے نہيں ہيں ) اس بات كو بتاتاہے كہ مصر ميں آنے والے كاروان كى تفتيش كى جاتى تھى تا كہ مصر ميں آنے كا مقصد معلوم ہوسكے ايسا نہ ہو كہ جاسوسي، خراب كام كرنے، چورى و غيرہ كے ليے تو مصر ميں داخل نہيں ہوئے _

۵۸۳

۵_معاشرے كے رہبر و سياستدان كے ليے يہ حتمى طور پر ثابت ہو ناچاہيے كہ جو غير ملكى ان كى حكومتى حدود ميں داخل ہوئے ہيں خرابى كرنے اور فساد كرنے والے نہيں ہيں _تالله لقد علمتم ما جئنا لنفسد فى الارض و ما كنا سارقين

۶_فرزندان يعقوبعليه‌السلام نے اپنےسابقہ نيك كردار اور چورى كے سابقہ سے پاك و مبرہ ہونے كى وجہ سے شاہى پيالے كى چورى كى تہمت كو اچھى بات نہيں سمجھي_لقد علمتم ما كنا سارقين

۷_افراد كے ماضى كا اچھا ہونا ان كى بے گناہى كى علامت ہے _لقد علمتم و ما كنا سارقين

۸_ افراد كا برا سابقہ، ان پر صرف برا گماہ ہونا اسكى تفتيش اور گرفتارى كا جواز ہے _

تالله لقد علمتم ما جئنا لنفسد فى الارض و ما كنا سارقين

۹_ چوري، زمين پر فساد پھيلانے كے مترادف ہے_ما جئنا بنفسد فى الارض و ما كنا سارقين

حضرت يوسفعليه‌السلام كے ملازمين نے فرزندان يعقوب ہر فساد پھيلانے كى تہمت نہيں لگائي كيوں كہ وہ چور ہونے اور مفسد ہونے كى نفى پہلے كرچكے تھے كيونكہ چورى كا واضح و روشن مصداق، فساد پھيلاناہے_

برادران يوسف :برادران يوسف اور حضرت يوسفعليه‌السلام ۱; برادران يوسف اور چورى ۱; برادران يوسفعليه‌السلام اور ملازمين يوسفعليه‌السلام ; برادران يوسف پر چورى كا الزام ۶; برادران يوسف كا انكار كرنا ۱ ; برادران يوسف كا حسن سابقہ ۳ ،۶ ; برادران يوسف كا قسم اٹھانا ۱

تفتيش كرنا :تفتيش كرنے كے احكام ۸ ; تفتيش كرنے كے عوامل ۸

چورى :چورى كا فساد ۹

خود:اپنے كے چھٹكارے كے ليے قسم اٹھانا ۱ ، ۲

سابقہ :حسن سابقہ كے آثار ۷; برے سابقہ كے آثار ۸

غير ملكي:غير ملكيوں كى شناخت كى اہميت ۵ ; غير ملكيوں سے پيش آنے كا طريقہ ۵

قسم اٹھانا:اپنى بے گناہى پر قسم اٹھانا قسم اٹھانے كے احكام ۲; خداوند متعال كى قسم ۲ ; قسم اٹھانے كا جواز ۲

۵۸۴

گرفتار كرنا :گرفتار كرنے كے احكام ۸ ; گرفتار كرنے كے اسباب ۸

گناہ :بے گناہى كى نشانياں ۷

معاشرہ :معاشرے كے رہبروں كى ذمہ دارى ۵; معاشرے ميں امن قائم كرنے كے اقدامات ۵

مفسدين :مفسدين كى شناخت كرنے كى اہميت ۵

نفى كرنا :فساد پھيلانے كى نفى كرنا

حضرت يوسفعليه‌السلام :جناب يوسفعليه‌السلام كى حكومت ميں امن عامہ قائم كرنے كے اقدامات ۴; جناب يوسفعليه‌السلام كا قصہ ۱ ، ۴ ،۶ ; حضرت يوسفعليه‌السلام كے ملازمين اور برادران يوسف ۳

آیت ۷۴

( قَالُواْ فَمَا جَزَآؤُهُ إِن كُنتُمْ كَاذِبِينَ )

ملازموں نے كہا كہ اگر تم چھوٹے ثابت ہوئے تو اس كى سزا كيا ہے (۷۴)

۱_ حضرت يوسفعليه‌السلام كے ملازمين نے فرزندان يعقوبعليه‌السلام كو بتاديا كہ چور كے ملنے پر اسكو سزا دى جائے گي_

قالوا فما جزاؤه ان كنتم كاذبين

۲_ حضرت يوسفعليه‌السلام كے ملازمين نے ملزمان (فرزندان يعقوب) سے كہا كہ بادشاہ كے پيالے كے چور كى سزا تم خود مقرر كرو_قالوا فما جزاؤة ان كنتم كاذبين

(جزاؤہ) كى ضمير شاہى پيالے كے چور كى طرف پلٹتى ہے جو مذكورہ جملات سے سمجھا جاتاہے _

۳_ حضرت يوسفعليه‌السلام كے زمانے ميں مصر كى عدالت كے قوانين ميں سے يہ تھا كہ غير ملكى مجرموں كو ملكى قوانين كے مطابق سزا دى جاتى تھي_قالوا فما جزاؤه ان كنتم كاذبين

( فما جزاؤہ) كا جملہ چور كى سزا كو معين كرنے كے بارے ميں سوال ہے_ يہ ممكن ہے كہ اس معنى ميں ہو كہ تہمت زدہ خود ہى اپنى سزا كو مقرر كريں _ اسى طرح يہ معنى بھى مراد ہوسكتاہے كہ معلوم كريں كہ ان كى شريعت ميں چور كى سزا كيا ہے مذكورہ معنى دوسرے احتمال كى صورت ميں ہوسكتاہے_

۵۸۵

۴_غيرملكى مجرمين كى سزا ان كے اپنےقانون كے مطابق ہونے كا جواز_فما جزاء ه ان كنتم كاذبين

۵_ حضرت يوسفعليه‌السلام كو مصر ميں اپنى وزارت كے دوران مجرمين پر مقدمہ چلانے اور ان كے بارے ميں فيصلہ دينے كے بھى اختيارات تھے_قالوا فما جزاؤه ان كنتم كاذبين

۶_ متہمين كے ماضى كا بے داغ ہونا اور ان كا اپنى بے گناہى پر قسم اٹھانا ان كے اتہام كے بارے ميں تحقق كرنے اور تفتيش كرنے ميں مانع نہيں ہوسكتا_قالوا تالله لقد علمتم فماجزؤه ان كنتم كاذبين

اسوجہ سے كہ حضرت يوسفعليه‌السلام كے ملازمين نے فرزندان يعقوب كے حسن سابقہ كى پروا نہيں كى اسى طرح انكى اپنى بے گناہى پر قسم اٹھانے پر بھى كان نہيں دھرے ، اس سے مذكورہ بالا معنى كو حاصل كيا جاسكتاہے_

احكام :سزا دينے كے احكام ۴

برادران يوسفعليه‌السلام :برادران يوسف پر چورى كى تہميت ۲۰

بادشاہ مصر :بادشاہ مصر كے پانى پينے والے پيالے كے چور كى سزا ۱ ، ۲

تفتيش كرنا :تفتيش كرنے كے احكام ۶

چور:چور كى سزا كو معين كرنے كى درخواست كرنا ۲ ; چور كى سزا ۱

عدالت كا نظام :۴

غيرملكي:غير ملكيوں كى سزا ۴; غير ملكيوں كى سزا كا معيار۳

قسم اٹھانا :بے گناہى پر قسم اٹھان

قديمى مصر :قديمى مصر ميں سزا كے قوانين ۳; قديمى مصر كے عدالتى قوانين ۳

متہمين :متہمين سے تفتيش كرنا ۶; متہمين كا حسن سابقہ ۶ ; متہمين كا قسم اٹھانا ۶

حضرت يوسفعليه‌السلام :حضرت يوسفعليه‌السلام كا قصہ ۱ ، ۲ ، ۵;حضرت يوسفعليه‌السلام كى قضاوت ۵; حضرت يوسفعليه‌السلام كے اختيارات كى حدود ۵;حضرت يوسفعليه‌السلام كے ملازمين اور برادران يوسفعليه‌السلام ۱،۲; حضرت يوسفعليه‌السلام كے ملازمين كى اميديں ۲۰

۵۸۶

آیت ۷۵

( قَالُواْ جَزَآؤُهُ مَن وُجِدَ فِي رَحْلِهِ فَهُوَ جَزَاؤُهُ كَذَلِكَ نَجْزِي الظَّالِمِينَ )

ان لوگوں نے كہا كہ اس كى سزا خود وہ شخص ہے جس كے سامان ميں سے پيالہ برآمد ہو ہم اسى طرح ظلم كرنے والوں كو سزاد ديتے ہيں (۷۵)

۱_ فرزندان يعقوبعليه‌السلام نے بادشاہ كے پيالے كے چور كى سزا اسكے غلام بننے كو قرار ديا_

قالوا فما جزاؤه قالوا جزاؤه من وجد فى رحله فهو جزاؤه

(فہو جزاؤہ) كے جملے كا معنى يہ ہے كہ چور اس كى ملكيت ميں چلا جائے گا جس كے مال سے چورى ہوئي ہے_ (مجمع البيان ) ميں ہے كہ اس غلامى كى مدت ايك سال ہوتى تھي_

۲_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كى شريعت ميں چوروں كى سزا ان كا غلام ہونا تھا_فهو جزائوه كذلك نجزى الظالمين

(كذلك نجزى الظالمين ) كے جملے كا اشارہ اس مطلب كى طرف ہے كہ جو كچھ ہم نے چور كے بارے ميں كہا ہے و ہى ہمارے قانون ميں ہے _

۳_ چورى ظلم و ستم كرنے كا روشن ترين نمونہ ہے_من وجد فى رحله فهو جزاء ه كذلك نجزى الظالمين

(ظالمين ) سے مراد مخصوصاً چورى كرنے والے ہيں _ كيونكہ مذكورہ سزا ظلم كے ليے نہيں تھي_ چور كى جگہ پر (ظالم) كا نام ليا جانا اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ چورى ظلم و ستم كا واضح و روشن نمونہ ہے_

۴_ فرزندان يعقوبعليه‌السلام نے چوركى سزا كو معين كرنے كے ساتھ ساتھ اسكى وضاحت كى كہ ( شاہى پيالہ جس كے سامان ميں پايا گيا) وہ چور ہوگا نہ كہ تمام قافلے والے اس كے ذمہ دار ہوں گے _قالوا جزاء ه من وجد فى رحله فهو جزاء ه

حالانكہ فرزندان يعقوبعليه‌السلام ( فما جزائہ ) كے بدلے ميں ان كا يہ جواب دينا كا فى تھا( ہو جزاء ہ) ليكن جب تمام قافلے والوں كو چورى كى نسبت دى گئي (ايتها العير إنكم لسارقون )

۵۸۷

تو اس وجہ سے انہوں نے ضرورى سمجھا كہ مفصل جواب (جزاءه من وجد فى رحله فهو جزاءه ) ديا كہ تمام قافلے والے اس كے ذمہ دار نہيں ہيں بلكہ وہ ذمہ دار ہے كہ جس كے سامان ميں شاہى پيالہ پايا گيا_

۵ _ مصر كى حكومت حضرت يوسفعليه‌السلام كے زمانے ميں حضرت يعقوبعليه‌السلام كى شريعت كى پيروى نہيں كرتى تھي_

قالوا فما جزاء ه من وجد فى رحله فهو جزاء ه

۶_عن على بن موسى الرضا عليه‌السلام : كانت الحكومة فى بنى اسرائيل إذا سرق إحد شيءناً استرق به فقال لهم يوسف : ما جزاء من وجد فى رحله ؟ قالوا : هو جزاؤه (۱)

امام رضاعليه‌السلام سے روايت ہے كہ بنى اسرائيل كى قوم ميں قانون يہ تھا كہ جو كسى كى چورى كرتا تھا اسكى غلامى ميں چلا جاتاہے _ اسى وجہ سے حضرت يوسفعليه‌السلام نے قافلے والوں كو كہا : جس كے سامان ميں وہ پيالہ ملا تو اسكى سزا كيا ہے ؟ انہوں نے جواب ديا اسكى سزا وہ خود ہى ہے (يعنى غلامى ميں چلا جائے)

۷_'' عن أبى عبدالله عليه‌السلام ( فى قوله تعالي) '' جزاء ه من وجد فى رحله فهو جزاء ه'': يعنون السنة التى تجرى فيهم أنيحسبه (۲)

امام جعفر صادقعليه‌السلام سے روايت ہے اس قول (جزاء ه من وجد فى رحله فهو جزاء ه ) كے بارے ميں كہ اس سے مراد وہ رسم و رواج ہے جو ان كے درميان رائج تھا كہ اسكو زندانى كرتے تھے_

برادران يوسفعليه‌السلام :برادران يوسفعليه‌السلام اور چور كى سزا ۱ ، ۴; برادران يوسفعليه‌السلام كى سوچ ۱ ،۴

بنى اسرائيل:بنى اسرائيل كى تاريخ ۶ ; بنى اسرائيل كے رسم و رواج ۷; بنى اسرائيل ميں چورى كى سزا ۶ ، ۷; بنى اسرائيل ميں سزا كے قوانين ۷; بنى اسرائيل ميں عدالتى نظام ۶; بنى اسرائيل ميں غلامى كا ہونا ۶

بادشاہ مصر :بادشاہ مصر كے پانى پينے والے پيالے كے چور كى سزا ۱ ، ۶

چور:چور كا غلامى ميں آنا ۱ ، ۲; چور كى سزا ۱

____________________

۱)عيون الاخبار الرضا ج۲ص۷۷،ح۶; نورالثقلين ج/ ۲ ص ۴۴۶، ح ۱۳۸_

۲)تفسير عياشى ج۲ ص ۱۸۳ ح ۴۴ ; نورالثقلين ج/۲ ص ۴۴۲;ح ۱۲۴_

۵۸۸

چورى :چورى ظلم ہونا ۳

روايت : ۶ ،۷

ظلم :ظلم كے موارد ۳

سزا :سزا كا ذاتى و شخصى ہونا ۴; سزا كى خصوصيات ۴

قديمى مصر :قديمى مصر كى تاريخ ۵ ; قديمى مصر كے حكام كا دين ۵

يعقوبعليه‌السلام :يعقوبعليه‌السلام كے دين ميں غلامى كا ہونا ۲ ; يعقوبعليه‌السلام كے دين ميں چور كى سزا ۲

يوسفعليه‌السلام :جناب يوسفعليه‌السلام كا قصہ ۱

آیت ۷۶

( فَبَدَأَ بِأَوْعِيَتِهِمْ قَبْلَ وِعَاء أَخِيهِ ثُمَّ اسْتَخْرَجَهَا مِن وِعَاء أَخِيهِ كَذَلِكَ كِدْنَا لِيُوسُفَ مَا كَانَ لِيَأْخُذَ أَخَاهُ فِي دِينِ الْمَلِكِ إِلاَّ أَن يَشَاءَ اللّهُ نَرْفَعُ دَرَجَاتٍ مِّن نَّشَاء وَفَوْقَ كُلِّ ذِي عِلْمٍ عَلِيمٌ )

اس كے بعد بھائي كے سامان سے پہلے دوسرے بھائيوں كے سامان كے تلاش لى اور آخر ميں بھائي كے سامان ميں سے پيالہ نكال ليا_اور اس طرح ہم نے يوسف كے حق ميں تدبير كى كہ وہ بادشاہ كے قانون سے اپنے بھائي كو نہيں لے سكتے تھے مگر يہ كہ خدا خود چاہے ہم جس كو چاہتے ہيں اس كى درجات كو بلندكرديتے ہيں اور ہر صاحب علم سے برتر ايك صاحب ۲_علم ہوتاہے (۷۶)

۱ _ حضرت يوسفعليه‌السلام نے بذات خود فرزندان يعقوبعليه‌السلام كے قافلے كے سامان كى تلاشى لي_

فبداء بأوعيتهم قبل وعاء اخيه

(بدأ) اور (استخرج) كى ضمير ( أخيہ) كے

۵۸۹

قرينے كى وجہ سے حضرت يوسفعليه‌السلام كى طرف پلٹتى ہے ان دو فعلوں كا اسناد حضرت يوسفعليه‌السلام كى طرف حقيقى ہے مجازى نہيں (يعنى اس طرح نہيں كہ اس نے فقط حكم ديا ہو كہ اس سامان كى تلاشى لى جائے اور بنفس نفيس شركت نہ كى ہو) سياق كلام كا تغير دينا يعنى جمع كے فعل كو تبديل كرنا(قالوا فما جزاء ه ) مفرد ( بدأ) كے فعل ميں يہ قرينہ ہے جس كى وجہ سے مذكورہ معنى ليا گيا ہے _(وعاء) ظرف كے معنى ميں ہے جسكى جمع (اوعية) ہے_

۲_حضرت يوسفعليه‌السلام نے بنيامين كے سامان كى تلاشى لينے سے پہلے فرزندان يعقوبعليه‌السلام كى دقت سے تلاش لي_

فبداء بأوعيتهم قبل و عاء أخيه ثم استخرجها من وعاء اخيه

(ثم ) كا لفظ اس بات پر دلالت كرتاہے كہ بنيامين كے سامان كى تلاشى كى نوبت ميں كافى وقت لگ گيا اس بات سے معلوم ہوتاہے كہ دوسرے بھائيوں كے سامان كى تلاش بہت ہى دقت سے انجام پائي جسكى وجہ سے كافى وقت صرف ہوگيا_

۳_ حضرت يوسفعليه‌السلام بنيامين كے سامان كى تلاش كرتے وقت اس كے سامان سے شاہى پيالے كو باہر نكالا_

ثم استخرجها من وعاء اخيه

(استخرجہا) كے مفعول كى ضمير (صواع) يا (سقايہ) كى طرف پلٹتى ہے يہ بات قابل ذكر ہے كہ فعل (وجد) كى جگہ پر (استخرج) كا فعل ذكر كرنے كا مقصد يہ ہے كہ حضرت يوسفعليه‌السلام كو علم تھا كہ شاہى پيالہ بنيامين كے سامان ميں ہے _

۴ _ حضرت يوسفعليه‌السلام نے بنيامين كو اپنے پاس روكنے كے ليے تدبير نكالى تھى وہ خداوند متعال كى طرف سے وحى تھي_

كذلك كدنا ليوسف

۵_بنيامين كے سامان ميں شاہى پيالے كو چھپانا، فرزندان يعقو ب(ع) كے دين ميں چور كى سزا كا پوچھنا اور بنيامين كے سامان كى تلاشى اس كے بھائيوں كے سامان كى تلاشى كے بعد لينا يہ سب حضرت يوسفعليه‌السلام كو خداوند متعال كى طرف الہامات تھے تا كہ بنيامين كو اپنے پاس ٹھہرايا جائے _كذلك كدنا ليوسف

(كذلك) كا اس سوچى سمجھى اسكيم و منصوبے كى طرف اشارہ ہے جو آيت ۷۰ سے ۷۵ ميں ذكر كيا گياہے_

۶_ بنيامين كا حضرت يوسفعليه‌السلام كے پاس ٹھہرجانا جناب يوسفعليه‌السلام كے ليے فائدہ مند تھا_كذلك كدنا ليوسف

(ليوسف) ميں جو لام ہے وہ منفعت كا ہے اسى وجہ سے (بنيامين كو اپنے پاس روكنے) جو منصوبہ تھا يہ حضرت يوسفعليه‌السلام كے ليے فائدہ مند تھا_

۷_بادشاہ مصر كے عدالتى قوانين كے مطابق جناب

۵۹۰

يوسفعليه‌السلام كے ليے اسكى اجازت نہيں تھى كہ بنيامين كو روكے حتى چورى كے جرم ميں ہى كيوں نہ ہو_

ما كان لياخذ اخاه فى دين الملك

يہاں دين سے مراد آئين و طريقہ ہے جب اس كے ساتھ(الملك) كا اضافہ ہوا ہے تو اس سے مراد وہ قوانين اور ضوابط ہيں جو مصر ميں رائج تھے (فما جزاء ہ ...) جو آيت ۷۴ ميں ہے يہ قرينے اس وجہ سے اگر چور يہ چاہيے كہ مجھے اپنے قانون كے مطابق سزا دى جائے تو قاضى اورحاكم مصر اسى بنياد پر حكم صادر كرسكتے تھے_

۸_حضرت يوسفعليه‌السلام كى وزارت كے زمانے ميں حكومت مصر ميں عدالت اور سزا دينے كے قوانين رائج تھے_

ما كان ليأخذ أخاه فى دين الملك

۹_ مصر كے عدالتى قوانين ميں چوروں كى سزا غلامى نہيں تھي_ما كان ليأخذ أخاهفى دين الملك

۱۰_ حضرت يوسفعليه‌السلام اپنى وزارت كے دوران بھى حكومت مصر كے قوانين و دستورات كى مخالفت نہيں كرسكتے تھے_ما كان ليأخذ اخاه فى دين الملك

۱۱ _ حضرت يوسفعليه‌السلام كے زمانے ميں مصر ميں بادشاہى كا نظام تھا_ما كان لياخذ أخاه فى دين الملك

۱۲_ حضرت يوسفعليه‌السلام مصر ميں قحطى كے دوران اس علاقے كے بادشاہ نہيں تھے_ما كان ليا خذ اخاه فى دين الملك

۱۴_ مشيت الہى نے يہ چاہا كہ بنيامين، حضرت يوسفعليه‌السلام كے پاس ہى ٹھہرجائے_ما كان الاّ ان يشاء الله

۱۵_ حضرت يوسفعليه‌السلام مشيت الہى كے بغير اور اگر اس كى مدد نہ ہوتى تو كسى بھى وسيلہ و ذريعہ سے بنيامين كو اپنے پاس نہيں ركھ سكتے تھے_ما كان لياخذ اخاه فى دين الملك الاّ ان يشاء الله

۱۶_ حضرت يوسفعليه‌السلام كى وزرات كے زمانہ ميں غير ملكى مجرمين كو ان كے قوانين كے مطابق سزا دينا مصر كے قوانين و دستور كے خلاف نہيں تھا_ما كان ليأخذ اخاه فى دين الملك الاّ ان يشاء الله

۱۷_قوانين كا احترام اور پاس كرنا حتى غير الہى نظام ميں بھى ضرورى ہے_ما كان لياخذ اخاه فى دين الملك الاّ ان يشاء الله

۱۸_مادى وسائل اور اسباب مشيت الہى كى تدبير كے تابع ہيں _ما كان لياخذ اخاه فى دين الملك الاّ ان يش الله

۱۹_مشيت الہى بھى اسباب و علل مادى كے ساتھ ساتھ چلتى ہےما كان لياخذ اخاه فى دين الملك الاّ ان يشاء الله

۵۹۱

۲۰_ حضرت يوسفعليه‌السلام معنويت كے بلند مقامات كے حامل اور كمال كے درجات و مراحل پر فائز تھے_

نرفع درجات من نشاء

۲۱_حضرت يوسفعليه‌السلام نے بنيامين كو اپنے پاس روكنے كا جو منصوبہ بنايا تھا اس سے يہ معلوم ہوتاہے كہ حضرتعليه‌السلام علم و دانش كے اعتبار سے اپنے بھائيوں سے بالاتر تھے_كذلك كدنا ليوسف نرفع درجات من نشاء و فوق كل ذى علم عليم// (من نشاء) كا مصداق حضرت يوسفعليه‌السلام ہيں _

۲۲_ معنوى مقامات اور درجات ميں مختلف مراحل ہوتے ہيں _نرفع درجات من نشاء

مذكورہ بالا معنى كو لفظ (درجات) كے جمع ہونے كى وجہ سے استفادہ كيا گياہے _

۲۳ _ خداوند متعال كى بارگاہ ميں انسانوں كى منزلت اور رتبہ مختلف ہے _نرفع درجات من نشاء

۲۴ _ خداوند متعال اپنى مشيت كى بنياد پر بعض انسانوں كو بعض پر فضيلت اور كمال عطا كرتاہے _نرفع درجات من نشاء

۲۵_ انسانوں ميں دانش و علم كے اعتبار سے مختلف مراتب ہيں _نرفع درجات من نشاء و فوق كل ذى علم عليم

مفسرين نے اس مذكورہ آيت كريمہ ميں (عليم ) كے معنى ميں دو احتمال ديئے ہيں _ ۱: اس سے مراد ہر عالم اور دانشمند ہے _۲ : اس سے مراد خداوند متعال كى ذات ہے _

اگرپہلا احتمال ديں تو معنى يوں ہوگا ہر دانشمند كے اوپر بھى ايك دانشمند ہوتاہے _ليكن دوسرے احتمال كى صورت ميں جملہ كا معنى يوں ہوگا خداوند متعال كا علم ہر دانشمند كے علم سے بالاتر ہے _ ليكن مذكورہ بالامعنى جو متن ميں كيا ہے وہ پہلے احتمال كى صورت ميں ہے _

۲۶_برادران يوسفعليه‌السلام علم و دانش ركھنے والے اشخاص ميں تھے ليكن حضرت يوسفعليه‌السلام ان سے سب زيادہ عالم اور آگاہ تھے_و فوق كل ذى علم عليم

اس جملے سے پہلے جو معنى ذكر ہوا ہے اسميں (عليم) سے مراد حضرت يوسفعليه‌السلام ہيں اور (كل ذى علم ) سے مراد، ان كے بھائي ہيں _

۲۷_خداوند متعال ہر عالم اور دانشمند سے زيادہ عالم اور

۵۹۲

آگاہ ہے_فوق كل ذى علم عليم

مذكورہ بالا معنى اس صورت ميں ہے كہ (عليم) سے مراد، خداوند متعال ليا جائے_و فوق كل ذى علم عليم

۲۸_ انسان كا علم محدود ہے _

'' و فوق كل ...'' كے جملے ميں جو عموميت پائي جاتى ہے _ اس سے معلوم ہوتاہے كہ انسانوں ميں كوئي ايسا انسان نہيں ہے جو تمام سے علم كے اعتبار سے افضل و بالاہو_

۲۹_ علم ركھنا اور آگاہ ہونا بلند ى و برترى كا سرچشمہ ہے_نرفع درجات من نشاء و فوق كل ذى علم عليم

مذكورہ بالا معنى دو جملوں كے ارتباط سے حاصل ہوا ہے _ جملہ (نرفع ...) اور جملہ (فوق كل ذى علم عليم) سے_

اسماء و صفات:عليم ۲۷

انسان:انسانوں كے علم كا محدود ہونا ۲۸ ; انسانوں كے علم كے مراتب ۲۵ ; انسانوں كے مراتب ۲۳ ; انسانوں ميں تفاوت ۲۵ ; انسانوں ميں تفاوت كا سبب ۲۴ ; انسانوں ميں معنوى درجات كا سبب۲۴

اللہ تعالى :اللہ تعالى كا علم ۲۷ ; اللہ تعالى كى بخششيں ۲۴; اللہ تعالى كى تعليمات ۴ ; اللہ تعالى كى خصوصيات۲۷ ; اللہ تعالى كى مشيت كے آثار ۱۴،۱۵،۱۸ ،۲۴;اللہ تعالى كى سنتيں ۱۹ ;امدا د الہى كے آثار ۱۵; اللہ تعالى كى مشيت كے جارى ہونے كے مقامات ۱۹اسباب و علل كا نظام ۱۹

برادران يوسفعليه‌السلام :برادران يوسف كا علم ۲۶;برادران يوسف كے تجارتى سامان كى تلاشى ۱،۲; برادران يوسفعليه‌السلام كے فضائل ۲۶

بادشاہ مصر :بادشاہ مصر كے اختيارات كى حدود ۱۲; بادشاہ مصر كے پانى پينے كا برتن ۵; بادشاہ مصر كے پانى پينے والے پيالے كے كشف ہونے كا مكان ۳

بنيامين :بنيامين كو روكنے كا فلسفہ ۶ ;بنيامين كى جزا ۴; بنيامين كى حفاظت ۴ ،۵ ،۱۴ ، ۱۵ ، ۲۱; بنيامين كى سزا ۴; بنيامين كى گرفتارى كا غير قانونى ہونا ۷; بنيامين كے تجارتى سامان كى تلاش ۲ ، ۳

چور:چور كو غلام بنانے كى ممنوعيت۹; چور كى سزا ۵ ،۷

سزا :

۵۹۳

حضرت يوسفعليه‌السلام كے زمانے ميں سزا كے قوانين ۸

سزا دينے كا نظام :حضرت يوسفعليه‌السلام كے زمانے ميں سزا دينے كا نظام ۱۶

علم :علم كے آثار ۲۹

غلامى :غلامى كے احكام۹

غير ملكى :غير ملكيوں كى سزا ۱۶

فضيلتيں :فضيلتوں كى وجہ ۲۹

قانون:قانون كو پاس كرنے كى اہميت ۱۷; قانون كے احترام كى اہميت ۱۷

قديمى مصر :حضرت يوسفعليه‌السلام كے زمانے ميں قديمى مصر كى حكومت ۱۱; قديمى مصر كى بادشاہى حكومت ۱۱ ; قديمى مصر كے عدالتى قوانين ۸ ، ۹ ،۱۶; قديمى مصر كے قانون بنانے والے۱۲; قديمى مصر ميں چور كى غلامى ۹; قديمى مصر ميں حكومتى نظام ۱۱ ; قديمى مصر ميں سزا كے قوانين ۷ ، ۸ ; قديمى مصر ميں عدالت كا نظام ۸ ; قديمى مصر ميں قانون سازى كا سبب ۲

مادى اسباب :مادى اسباب كا كردار ۱۸ ،۱۹

معنوى مقامات:معنوى مقامات كے مراتب ۲۲ ، ۲۳

حضرت يوسفعليه‌السلام :حضرت يوسفعليه‌السلام اور بنيامين كى گرفتارى ۷ ;حضرت يوسفعليه‌السلام اور بنيامين ۴ ، ۵ ، ۲۱; حضرت يوسفعليه‌السلام اور قديمى مصر كے قوانين ۱۰; حضرت يوسفعليه‌السلام اور مشيت الہى ۱۵; حضرت يوسفعليه‌السلام قديمى مصركى قحطى كے دوران ۱۳; حضرت يوسفعليه‌السلام كا تلاشى لينا ۱ ، ۲ ، ۳ ; حضرت يوسفعليه‌السلام كا علم ۲۱ ، ۲۶; حضرت يوسفعليه‌السلام كا قصہ ۱ ، ۲ ،۳،۴،۵،۷ ،۱۴;حضرت يوسفعليه‌السلام كو الہام ہونا ۵; حضرت يوسفعليه‌السلام كى تدبير ۴ ، ۲۱; حضرت يوسفعليه‌السلام كے فضائل ۲۱ ، ۲۶; حضرت يوسفعليه‌السلام كى تدبير كا فلسفہ ۵; حضرت يوسفعليه‌السلام كے كمالات ۲۰ ; حضرت يوسفعليه‌السلام كے اختيارات كا احاطہ ۷ ، ۱۰; حضرت يوسفعليه‌السلام كے معنوى مقامات ۲۰ ; حضرت يوسفعليه‌السلام كے منافع ۶; حضرت يوسفعليه‌السلام كى تدبير كرنے كا سبب ۵ ; حضرت يوسفعليه‌السلام كى موفقيت ۲۱ ; حضرت يوسفعليه‌السلام كو وحى كا ہونا ۴ ; حضرت يوسفعليه‌السلام كو امداد الہى كا ہونا ۱۵

۵۹۴

آیت ۷۷

( قَالُواْ إِن يَسْرِقْ فَقَدْ سَرَقَ أَخٌ لَّهُ مِن قَبْلُ فَأَسَرَّهَا يُوسُفُ فِي نَفْسِهِ وَلَمْ يُبْدِهَا لَهُمْ قَالَ أَنتُمْ شَرٌّ مَّكَاناً وَاللّهُ أَعْلَمْ بِمَا تَصِفُونَ )

ان لوگوں نے كہا كہ اگر اس نے چورى كى ہے تو كيا تعجب ہے اس كا بھائي اس سے پہلے چورى كرچكاہے _يوسف نے اس بات كو اپنے دل ميں چھپاليا اور ان پر اظہار نہيں كيا_كہا كہ تم بڑے برے لوگ ہو اور اللہ تمھارے بيانات كے بارے ميں زيادہ بہتر جاننے والا ہے (۷۷)

۱_برادران يوسفعليه‌السلام نے جب بنيامين كے سامان ميں شاہى پيالے كو ديكھا تو اسكو پيالے كا چور جانتے ہوئے اس بات كا اعتراف كيا _قالوا إن يسرق فقد سرق أخ له من قبل

۲_ برادران يوسفعليه‌السلام نے حضرت يوسفعليه‌السلام كے سامنے بنيامين پر چورى والى عادت كى تہمت لگائي_

قالوا إن يسرق

كيونكہ بنيامين كو بطور چور كے پہچانا گيا تو موقع كا تقاضا يہ تھا كہ برادران يوسفعليه‌السلام يہاں ہر فعل ماضى (سرق ) كو لاتے ليكن انہوں نے فعل مضارع (يسرق)كو ذكركركے استمرار اور ہميشہ عادت ہونے كو ثابت كيا _پس فعل ماضى كى جگہ فعل مضارع كے استعمال سے يہ بتانا چاہتے تھے كہ بنيامين كے اندر چورى كى عادت ہے _

۳_ برادران يوسفعليه‌السلام نے حضرتعليه‌السلام كے حضور ميں بنيامين كے بھائي ( يوسفعليه‌السلام ) كے بارے ميں بات كى اور ان كے ليے بھى ماضى ميں چورى كو مسلم امر ثابت كيا_إن يسرق فقد سرق أخ له من قبل

۴_ حضرت يوسفعليه‌السلام پر بچپن ميں ناحق چورى كا الزام لگاياگيا تھا_

فقد سرق أخ من قبل قال الله اعلم بما تصفون

۵_ برادران يوسفعليه‌السلام كو يقين تھا كہ حضرت يوسفعليه‌السلام اس دنيا ميں نہيں ہيں _فقد سرق أخ له من قبل

(من قبل) كا جملہ (سرق) كے متعلق ہے _ اس صورت ميں (فقد سرق ...) كے جملے كا يہ معنى ہوگا كہ اسكا ايك بھائي تھا اس نے اس سے پہلے چورى كى تھي_

اور يہ بھى ممكن ہے ( من قبل) متعلق (أخ لہ ) كے ہو تو اس صورت ميں يوں معنى ہوگا وہ اس سے پہلے ايك بھائي ركھتا

۵۹۵

تھا جس نے چورى كى تھى اسى وجہ سے ( منقبل) كى تقيد سے يہ ظاہر ہوتاہے_ كہ برادران يوسف يہ خيال كرتے تھے كہ حضرت يوسفعليه‌السلام اس دنيا سے چلے گئے ہيں _

۶_ بنيامين اور حضرت يوسفعليه‌السلام يہ دونوں ايك ماں سے تھے _إن يسرق فقد سرق أخ له من قبل

۷_فرزندان يعقوبعليه‌السلام بنيامين كا چورى كى طرف رجحان كو ماں كى طرف سے خيال كرتے ہوئے ان كے بيٹوں ميں اس برائي كا سبب سمجھا_إن يسرق فقد سرق أخ له من قبل

(إن يسرق ) شرط كا جواب، ايك جملہ ہے جو محذوف ہے پس (فقد يسرق) كا جملہ سبب كى جگہ پر مسبب كا ذكر كيا گيا ہے _

اس وجہ سے جملہ (إن يسرق ...) كا معنى يوں ہوگا_ اگر اس نے چورى بھى كى ہے تو يہ اس سے بعيد نہيں ہے _ كيونكہ اس كے مادرى بھائي نے بھى چورى كى تھى پس ان ميں چورى كى عادت ماں كى وجہ سے ہے _

۸_فرزندان يعقوبعليه‌السلام اس تجزيے كے تحت كہ بنيامين ميں ماں كے اثر كى وجہ سے چورى كى عادت آئي ہے _ اس سے وہ يہ ثابت كرنا چاہتے تھے كہ جو چورى كى وجہ سے شرمندگى كا سبب بنے ہيں يہ سب اس كى وجہ سے ہے _

إن يسرق فقد سرق اخ له من قبل

برادران يوسفعليه‌السلام نے بنيامين كو چورى ( إن يسرق) كى عادت ہونے كو ثابت كرتے ہوئے يہ بات بتاتاچاہتے تھے كہ دونوں مادرى بھائيوں كويہ برى عادت پيدائش كے وقت ماں كى طرف سے ان كو ملى ہے _ كيونكہ دوسرے بھائي ان كى ماں سے نہيں ہيں اس وجہ سے اس برى صفت كو نہيں ركھتے _

۹_ حضرت يوسفعليه‌السلام نے اپنے بھائيوں كى ناحق بات (چورى كى جھوٹى نسبت ) پر اپنا دفاع نہيں كيا _

فاسرّها يوسف فى نفسه و لم يبدها لهم (أسرّہا ) اور ( لم يبدھا ) ميں جو ''ہا'' كى ضمير ہے وہ اس جملے كى طرف لوٹتى ہے جسميں برادران يوسفعليه‌السلام نے حقيقت و واقعيت كو اپنے خيال ميں يوں بيانكيا ( فقد سرق أخ) اس و جہ سے جملہ ( فاسرّہا ...) كا معنى يوں ہوگا كہ حضرت يوسفعليه‌السلام نے واقعہ كى حقيقت اور واقعيت اپنے دل ميں چھپا ديا اسكو ظاہر كرنے سے پرہيز كيا _

۵۹۶

۱۰_ حضرت يوسفعليه‌السلام اپنے نفس پر كنٹرول كرنے والے اور حليم و بردبار تھے_فاسرّها يوسف فى نفسه و لم يبدها لهم

۱۱ _ برادران يوسفعليه‌السلام سوائے بنيامين كے بدمزاجى ركھنے والے اور اچھى سيرت كے حامل نہيں تھے_قال أنتم شرّ مكان// (مكان) آيت شريفہ ميں مقام و مرتبہ كے معنى ميں ہے _ يہ تميزہے جو مبتداء ميں تبديل ہوگئي ہے اصل ميں جملہ اس طرح ہے _ ''مكانكم شرّ''

۱۲_ حضرت يوسفعليه‌السلام كا يہ وضاحت كرنا كہ ميرے بھائي سيرت اور مقام و منزلت كے اعتبار سے پست ہيں _

قال أنتم شر مكان

۱۳ _ خداوند متعال ہر بات پر خواہ وہ صحيح ہو يا نہ ہو كامل طور پر آگاہ ہے_والله اعلم بما تصفون

۱۴_ حضرت يوسفعليه‌السلام نے فرزندان يعقوبعليه‌السلام كو يہ بات گوش گذار كردى كہ ان كى يہ بات (تمہارى پدرى بھائي بنيامين نے چورى كى ہے ) مجھے اس پر يقين نہيں ہے _إن يسرق فقد سرق أخ له من قبل والله اعلم بما تصفون

(واللہ اعلم ...) كا جملہ (انتم ...) پر عطف ہے دونوں جملے (قال) كے ليے مقول واقع ہوئے ہيں _ اور يہ كہ (قال ) كا لفظ (استر) اور (لم يبد) كے مقابلے ميں واقع ہوا ہے تويہاں ہم يہ كہہ سكتے ہيں كہ (قول) سے مراد ظاہركرنا اور كلام كو واضح و روش كرنا ہے نہ يہ كہ زير لب اور اپنے دل ميں يہ بات كہى ہو_

۱۵_'' عن الرضا(ع) '' فى قول الله : '' إن يسرق فقد سرق أخ له من قبل ...'' قال: كانت لاسحاق النبى عليه‌السلام منطقة و كانت عند عمه يوسف و كان يوسف عندها فربطتها فى حقوه و قالت سرقت المنطقة فوجدت عليه (۱) حضرت امام رضاعليه‌السلام نے خداوند متعال كے اس قول (إن يسرق فقد سرق اخ لہ من قبل ...) كے بارے ميں فرمايا كہ حضرت اسحاقعليه‌السلام ايك كمربند ركھتے تھے_ جو حضرت يوسفعليه‌السلام كى پھوپھى كے پاس تھا اور حضرت يوسفعليه‌السلام بھى اپنے پھوپھى كے ہاں زندگى كرتے تھے پس ان كى پھوپھى نے اس كمر بند كو ان كى كمر ميں باندھ ديا _ اور كہا كہ كمربند چورى ہوگيا ہے پھر وہ كمربند حضرت يوسفعليه‌السلام كى كمر سے مل گيا _

۱۶_'' عن النبى فى قوله : '' ان يسرق فقد سرق آخ له من قبل'' قال : سرق يوسف عليه‌السلام ضمناً لجدّه أبى امه من ذهب و فضة،

____________________

۱)تفسير عياشى ج۲ ص ۱۸۵ ح ۵۳ ; نورالثقلين ۴۴۵ح ۱۳۷_

۵۹۷

فكسره و ألقاه فى الطريقه وقيره بذلك إخوته (۱)

اس آيت (إن يسرق فقد سرق آخ لہ من قبل) كے بارے ميں رسالت مآبصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے حديث ہے كہ حضرت يوسفعليه‌السلام نے اپنے نانا كے گھر سے ايك بت كو أٹھايا تھا جو سونے اور چاندى كا بنا ہوا تھأ اسكو توڑ كر راستے ميں ڈال ديا تھا، برادران يوسف اس بات پر ان كو برا بھلاكہتے تھے_

اللہ تعالي:اللہ تعالى كا غلم غيب ۱۳

برادران يوسفعليه‌السلام :برادران يوسف اور يوسفعليه‌السلام ۲ ، ۳ ، ۵; برادران يوسفعليه‌السلام كى سوچ ۵ ،۷ ; برادران يوسفعليه‌السلام كا اپنے آپ كى صفائي پيش كرنا ۸ ;برادران يوسفعليه‌السلام كا اقرار ۱; برادران يوسف كى تہمتيں ۲ ، ۳ ،۷،۸; برادران يوسفعليه‌السلام كى برى سيرت ۱۱ ، ۱۲; برادران يوسف كى رذالت ۱۱ ، ۱۲

بنيامين:بنيامين اور حضرت يوسفعليه‌السلام ۶ ;بنيامين پر چورى كى تہمت ۱ ، ۲ ، ۷۶،۸ ; بنيامين كى ماں پر تہمت ۷ ; بنيامين كى ماں پر تہمت لگانے كا فلسفہ ۸

بادشاہ مصر :بادشاہ مصر كے پانى پينے كا پيالہ ۱

روايت : ۱۵،۱۶

حضرت يوسفعليه‌السلام :حضرت يوسفعليه‌السلام اور بت ۱۶ ; حضرت يوسفعليه‌السلام اور برادران ۱۴، ۱۶ ; حضرت يوسف(ع) اور چورى ۱۵ ،۱۶; حضرت يوسفعليه‌السلام اور حضرت اسحاقعليه‌السلام كا كمربند۱۵; حضرت يوسفعليه‌السلام اور بھائيوں كى تہمتيں ۹ ، ۱۴; حضرت يوسفعليه‌السلام پر چورى كى تہمت ۳ ، ۴ ، ۹،۱۴; حضرت يوسفعليه‌السلام كا اقرار ۱۲ ; حضرت يوسفعليه‌السلام كا بچپن ۴ ; حضرت يوسفعليه‌السلام كا صبر ۹،۱۰ ; حضرت يوسفعليه‌السلام كا علم ۹ ،۱۰ ;حضرت يوسفعليه‌السلام كا قصہ ۱ ، ۲ ، ۳ ، ۴ ، ۵ ، ۷،۸،۹،۱۴،۱۶;حضرت يوسفعليه‌السلام كو سرزنش كرنا ۱۶ ; حضرت يوسف كى موت ۵; حضرت يوسفعليه‌السلام كے پدرى بھائي ۶ ; حضرت يوسفعليه‌السلام كے فضائل ۱۰

____________________

۱)الدرالمنثور ج۲ ص ۵۶۴_

۵۹۸

آیت ۷۸

( قَالُواْ يَا أَيُّهَا الْعَزِيزُ إِنَّ لَهُ أَباً شَيْخاً كَبِيراً فَخُذْ أَحَدَنَا مَكَانَهُ إِنَّا نَرَاكَ مِنَ الْمُحْسِنِينَ )

ان لوگوں نے كہا كہ اے عزيز مصر اس كے والد بہت ضعيف العمر ہيں لہذا ہم ميں سے كسى ايك كو اس كى جگہ پر لے ليجئے اور اسے چھوڑ ديجئے كہ ہم آپ كو احسان كرنے والا سمجھتے ہيں (۷۸)

۱_ حضرت يوسفعليه‌السلام نے بنيامين كو گرفتار كرليا اور اسكو اپنے بھائيوں كے ساتھ نہيں جانے ديا _

فهو جزاء ه قالوا يأيها العزيز إن له اباً شيخاً كبير

۲_ فرزندان يعقوب شفقت اور محبت كا اظہار كركے حضرت يوسفعليه‌السلام كى رضايت كو حاصل كرنے لگے تھے كہ بنيامين كو آزاد كراليں _قالوا يا ايها العزيز إن له اباً شيخاً كبير

۳_ فرزندان يعقوبعليه‌السلام نے بنيامين كو آزاد كرانے كے ليے دليليں بيان كيں تم (حضرت يوسفعليه‌السلام ) صاحب اقتدار ہو جو چاہو كرسكتے ہواور تم نيك كام كرنے والے ہو _ اور حضرت يعقوبعليه‌السلام اس لائق ہيں كہ ان پر رحم كيا جائے_

قالوا يا ايها العزيز إن له اباً شيخاً كبيراً انا نرى ك من المحسنين

برادران يوسفعليه‌السلام كا حضرت يوسفعليه‌السلام كو (عزيز) سے خطاب كرنے كا مقصد يہ تھا كہ تم صاحب اقتدار ہو اپنى مرضى كے مطابق جو چاہو كرسكتے ہو اور حضرت يعقوبعليه‌السلام كو بوڑھے بزرگ انسان اور ضعيف العمرسے تعبير كرنے كا مقصد يہ تھا كہ وہ اس لائق ہيں كہ ان پر رحم و مہربانى كى جائے اور حضرت يوسفعليه‌السلام كى اس طرح تعريف كرنا كہ وہ نيك كام كرنے والے ہيں ان كو احسان اور مہربانى كرنے پر رغبت دلانا تھا_

۴_ حضرت يعقوبعليه‌السلام ،حضرت يوسفعليه‌السلام كى وزارت اور

۵۹۹

بنيامين پر چورى كے قصے كے وقت بوڑھے اور بہت ضعيف ہو چكے تھے_إن له اباً شيخاً كبير

( شيخ ) بوڑھے انسان كے معنى ميں ہے اور (كبير) بزرگ كے معنى ميں ہے اس سے مراد سن و سال ميں بزرگى كا ظاہر ہونا ہے _

۵_ حضرت يوسفعليه‌السلام اس علاقے كى قطحى كے سالوں ميں عزيز مصر تھے_قالوا يا ايها العزيز

۶_ برادران يوسفعليه‌السلام كى ايك رائے تھى كہ بنيامين كى آزادى كے مقابلے ہم ميں سے كسى كو گرفتار كرليں _

فخذ أخذنا مكانه

۷_ برادران بنيامين كا بنيامين كو اپنے والد گرامى حضرت يعقوبعليه‌السلام كے پاس واپس لوٹا نے ميں فداكارى اور ايثار كرنا _

فخذ اخذنا مكانه

۹_ حضرت يوسفعليه‌السلام اپنى وزارت اور اقتدار كے زمانے ميں نيك كام كرنے والے انسان تھے_

انا نرى ك من المحسنين

۱۰_ حضرت يوسفعليه‌السلام كا اپنے اقتدار كے دوران نيك كام كرنا ان كے كردار اور عادات سے جلوہ گرى تھي_

إنا نرى ك من المحسنين

(نرى ) كا لفظ آيت شريفہ ميں ( ہم اطمينان ركھتے ہيں ) كے معنى ميں ہے اس لفظ سے ديكھ رہے ہيں (ہم ) كا معنى لينا اسوجہ سے ہے كہ برادران يوسف حضرتعليه‌السلام كى شخصيت پر اطمينان ركھتے تھے جو ان كے ليے ان كى رفتار و كردار كو مشاہدہ كرنے سے حاصل ہوا تھا_

۱۱_ حضرت يوسفعليه‌السلام كو نيك كام كرنے والا ديكھ كر فرزندان يعقوبعليه‌السلام نے بنيامين كى آزادى كاتقاضا كيا اور كہا ان ميں سے كسى ايك كو اس كى جگہ گرفتار كر ليا جائے_فخد احدنا مكانه انا نرى ك من المحسنين

برادران يوسفعليه‌السلام :برادران يوسف اور بنيامين ۸ ; برادران يوسف اور بنيامين كى نجات ۲ ، ۳ ،۶،۷ ، ۱۱; برادران يوسف اور حضرت يوسف ۴ ، ۲ ; برادران يوسفعليه‌السلام كا ايثار كرنا ۶ ، ۷ ;برادران يوسف كا مشورہ ۶ ; برادران يوسفعليه‌السلام كى خواہشات ۱۱ ;برادران يوسف(ع) كى كوشش ۲ ;برادران يوسف كے پيش آنے كا طريقہ ۳

بنيامين :بنيامين كى گرفتارى ۱

عزيز مصر :قحطى كے دوران عزيز مصر ۵

۶۰۰

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

كہ جو كچھ كہا گيا ہے وہ پروردگار كے حكم كے مطابق تم پر نازل ہوا ہے اور وحى كا اس حوالے سے كوئي كردار نہيں ہے لہذا ان پيغمبروں كى مانند كہ جن كى داستان آپ پر بيان ہوئي الله تعالى كى عبادت كريں اور اس پر ثابت قدم رہيں _

۲_ فرشتوں كا نزول، فقط پروردگار كے حكم كى بناء پر ہے_و ما نتنزّل إلاّ با مر ربّك

۳_ فرشتے، پيغمبر اكرم(ص) پر نازل ہونے اور وحى كے لانے ميں فقط الله تعالى كى اطاعت كرتے ہيں _

وما نتنزّ ل إلاّ با مر ربّك

اگر چہ اس آيت ميں يہ بيان نہيں ہوا كہ فرشتے كس پر نازل ہوتے ہيں اور كيا مطالب لاتے ہيں ليكن ''ربك'' كے قرينہ كے مطابق '' ما نتنزّل'' كے بيان كرنے والوں كا واضح ترين مصداق، قرآن كو پيغمبر اكرم (ص) تك لانے والے ہيں _

۴_ پيغمبر اكرم(ص) وحى كے عارضى طور پر بند ہونے پر دل برداشتہ تھے اورزيادہ ملائكہ كے نازل ہونے كى طرف ميلان ركھتے تھے_وما نتنزّل إلاّ با مر ربّك اس آيت كے شان نزول كے حوالے سے كہا گيا ہے كہ ايك مدت تك پيغمبر اكرم(ص) پر سلسلہ وحى منقطع ہوگيا جس سے پيغمبر اكرم(ص) پريشان ہوگئے اور يہ آيات ،پيغمبركے اس بارے ميں استفسار كرنے كے سلسلہ ميں نازل ہو ئي ہيں (مجمع البيان )

۵_ ملائكہ كا پيغمبر اكرم(ص) پرنازل ہونا اور وحى ليكر آنا الله تعالى كى آنحضرت(ص) پر ربوبيت كا ايك جلوہ تھا_

وما نتنزّل إلاّ با مر ربّك

۶_ الله تعالى ملائكہ اور انكے امورپر مكمل اور ہر جہت كے ساتھ احاطہ ركھتا ہے_له ما بين أيدينا و ما خلفنا و ما بين ذلك يہ آيت ان مطالب كو بيان كررہى ہے كہ جو پيغمبر (ص) كے ساتھ گفتگو ميں فرشتوں كى زبان سے نكلے تھے_ جملہ ''ما بين ...'' اور ''ما خلفنا'' ميں ''ما'' ميں چند نظريات ہيں بعض نے اسے ما زمانى اور بعض نے اسے ما مكانى سمجھا ہے ليكن اس نكتہ پر توجہ كرتے ہوئے كہ ''ما '' عمومى مطلب كوبيان كررہا ہے كہا جاسكتا ہے كہ يہ تمام موارد كو شامل ہے يعنى گزرے ہوئے زمانوں ، حال و غيرہ اسى طرح سامنے والا مكان آئندہ پشت پر اور پاؤں كے نيچے كى جگہ كو شامل ہے يہ فرشتوں كے بارے ميں تعبير اس چيز سے كنايہ ہے كہ الله تعالى فرشتوں كے تمام حالات انكى تمام حركات اور انكے تمام امور پر مكمل احاطہ ركھتا ہے_كيونكہ فرشتوں اور انكے تمام امور كا حقيقى مالك وہ ہى ہے_

۷_ملائكہ كا وجود، انكى پيدائش كے تمام مقدماتى مراحل اوران سے صادر ہونے والے تمام كا موں كا مالك

۷۴۱

الله تعالى ہے يہ سب كچھ الله تعالى كى قدرت كے احاطہ ميں ہے_له مابين أيدينا و ما خلفنا وما بين ذلك

كہا گيا ہے''ما بين ايدينا'' ( جو كچھ ہمارے سامنے ہے) يہ فرشتوں كے آثار وجودى پراور ''وما خلفنا'' ''جو كچھ ہم نے كيا اور چھوڑديا ) يہ انكے اوليہ عناصر اور انكى پيدائش پر '' ما بين ذلك'' (جو كچھ ابھى موجود ہے) يہ انكے وجود كى طرف اشارہ ہے اس قسم كى تعبير ملائكہ كے بارے ميں كہ زمان ومكان انكے ليے بے معنيہے مناسب ہے_

۸_ الله تعالى ہر قسم كى بھول وچوك سے منزّہ ہے_وما كان ربّك نسيّا

''نسيّاً'' صيغہ مبالغہ ہے منفى كلام ميں مبالغہ خود اصل نفى كے ساتھ مربوط ہے لہذا جملہ ''و ما كان ''ميں مراد يہ ہے كہ ''اللہ تعالى كبھى بھى اور كسى موضوع كے بارے ميں بھولنے والا نہيں ہے _

۹_ الله تعالى نے پيغمبر(ص) كى معلومات بڑھانے ميں اور انكى رسالت كى تدبير ميں ضرورى تعلمات ميں سے كسى بھى نكتہ كو نہ توچھوڑا ہے نہ ہى بھلايا ہے _وما كان ربّك نسيّ مندرجہ بالا مطلب كلمہ ''ربّ''كى طرف توجہ كرنے سے سامنے آتا ہے_

۱۰_ كيوں كہ ذات الہى ميں كسى قسم كا نسيان اور بھول نہيں ہے اس سے معلوم ہوتا ہے كہ قرآن مجيد نے گذشتہ امتوں كے جو واقعات بيان كيے ہيں وہ حقائق پر مبنى ہيں _وما نتنزّل إلا با مرربّك ...وما كان ربّك نسيّا

۱۱_ بھولنا، مديريت و انتظام چلانے كيلئے آفات ميں سے ہے اور اس كے ساتھ يہ نقصان، خطا اور غلط كاموں كے اضافہ كا سبب بھى ہے_وما نتنزّل إلاّ با مر ربّك ...و ما كان ربّك نسيّا

وہ جو كسى كے امور ميں سياست و تدبير سے كام ليتا ہو اسے ''ربّ'' كہا جا تاہے (مصباح سے اقتباس)

۱۲_ مكمل اور دقيق نظارت اور بھول چوك كا كم يانہ ہونابہترين انتظامى صلاحيت كى ضمانت فراہم كرتاہے_وما نتنزّل إلاّ ما با مر ربّك ...و ما كان ربّك نسيّا دقيق اور مستحكم انتظامى امور كے حوالے سے شرائط ميں سے يہ ہے كہ منظم اور ناظر بھول چو ك سے دور ہو اس آيت ميں بھى فرشتوں كى زبان سے الله تعالى كى موجودات پر تمام جہات سے مكمل نظارت كا پرورگرام جو كہ ہر قسم كى بھول و چوك سے پاك ہے تاكيد كے ساتھ آيا ہے_ان تمام مطالب كا نتيجہ يہ ہے كہ الله تعالى كے انتظامى اور نظارت ميں كسى قسم كى خطا اوربھول و چوك نہيں ہو سكتي_

آنحضرت:آنحضرت (ص) كا مربّي۵،۹; آنحضرت(ص) كا معلم ۹; آنحضرت(ص) كى طرف وحي۱،۳،۵;آنحضرت (ص) كے

۷۴۲

رنجيدہ ہونے كے اسباب۴

اسماء وصفات:صفات جلال ۸،۱۰

الله تعالى :الله تعالى اور بھول چوك ۸،۹،۱۰;اللہ تعالى كا احاطہ ۶،۷; الله تعالى كا منزہ ہونا ۸،۱۰; الله تعالى كى تعليمات كا جامع ہونا ۹; الله تعالى كى ربوبيت ۹;اللہ تعالى كى ربوبيت كى علامات ۵ ; الله تعالى كى قدرت۷;اللہ تعالى كے اوامر ۱ ، ۲;

انبياء:انبياء كى تاريخ ۱،۱۰

انتظام:انتظام كى آفات ۱۱; انتظام كى شرائط۱۲; انتظامى امور ميں نظارت ۱۲

بھول چوك:بھول چوك كے آثار۱۱،۱۲

خطائ:خطا كا پيش خيمہ۱۱

فرشتے:فرشتوں پر حاكم۶;فرشتوں كے نزول كا سبب ۲ ،۵; فرشتوں كا كردار ۱; فرشتوں كا مالك ۷; فرشتوں كا مملوكيت۷;فرشتوں كى اطاعت ۳ ; فرشتوں كى خلقت ۷; فرشتوں كى طرف وحى ۳; فرشتوں كے عمل كا سبب ۷

قرآن مجيد:قرآن مجيد كى حقانيت پر دلائل ۱۰

مخالفت:مخالفت كا پيش خيمہ۱۱

وحى :وحى كے قطع ہونے كے آثار ۴

آیت ۶۵

( رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا فَاعْبُدْهُ وَاصْطَبِرْ لِعِبَادَتِهِ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيّاً )

وہ آسمان و زمين اور جو كچھ ان كے درميان ہے سب كا مالك ہے لہذا اس كى عبادت كرو اور اس عبادت كى راہ ميں صبر كرو كيا تمھارے علم ميں اس كا كوئي ہمنام ہے (۶۵)

۱_ الله تعالى آسمانوں اور سرزمين اوران دو كے در ميان تمام موجودات كا پروردگار ہے_

ربّ السموات والأرض ما بينهم

۲_ آسمانوں اور زمين كے در ميان حد فاصل ، موجودات پر مشتمل ہے_ربّ السموات و الأرض وما بينهم

۳_ الله تعالى كى پورى كائنات پر ربوبيت اور صحيح و دقيق تدبير اسكے نسيان سے منزہ ہونے پر دليل ہے_

۷۴۳

وما كان ربّك نسيّاً ربّ السمواتو الأرض وما بينهم

۴_ جہان خلقت بہت سے آسمانوں پر مشتمل ہے_ربّ السموات

۵_ پيغمبر اكرم(ص) ،اللہ تعالى كى عبادت اور اسكى عبادت كى راہ ميں صبر و تحمل كا ظيفہ ركھنے والے ہيں _

۶_ الله تعالى كى عبادت واطاعت ميں توحيد ايك مشكل اور صبر و تحمل كا محتاج كام ہے_فاعبده و اصطبر لعبادته هل تعلم له سميّا ''اصطبار'' يعنى كسى چيز كيلئے صبر كرنا (لسان العرب) عبادت كيلئے صبر كرنے كا حكم بتا رہا ہے كہ الله تعالى كى عبادت كرنے ميں بہت سى مشكلات اور موانع ہيں كہ جن سے گزرنے كيلئے صبر كى ضرورت ہے_

۷_ عبادت ميں صبر اور پائيدارى ،اللہ تعالى واحد كى اطاعت اور ہر قسم كے شرك سے پرہيز ضرورى ہے_

فاعبده واصطبر لعبادته هل تعلم له سميّ ''اصطبار'' اكثر''على '' كے ساتھ متعدى ہوتا ہے اس آيت ميں اسكا'' لام''كے ساتھ متعدى ہونا ''ثبات'' كے معنى كو بتا رہا ہے_نيز جملہ''ہل تعلم'' اس بات پر قرينہ ہے كہ'' واصطبر ''سے مراد عبادت ميں توحيد پر صبر اور غير خدا كى پرستش سے اجتناب ہے_

۸_خدا وند عالم بندوں كى عبادت سے آگاہ اوراس كو كبھى بھى فراموش نہيں كرتا_وما كان ربّك نيسّا واصطبر لعباد

۹_ عبادت اور اس پر ثابت قدمى يہ فرشتوں كى پيغمبر اكرم (ص) كو نصيحت تھي_وما نتنزل إلاّ بامرربّك ...فاعبده واصطبر لعبادته مورد بحث آيت بظاہر پچھلى آيت ميں فرشتوں كى پيغمبر اكرم(ص) كے ساتھ گفتگو كو جارى ركھے ہوئے ہے _

۱۰_ اس چيز پر توجہ كہ الله تعالى كى ذات اور پورى كائنات پر اسكى ربوبيت بھول وچوك سے منزہ ہے انسان كو اسكى عبادت و اطاعت اور اس پر ثابت قدمى پرآمادہ كرتى ہے_وماكان ربّك نسيّاً _ ربّ السموات ...فاعبده واصطبر لعبادته گذشتہ جملات ميں ذكرشدہ معارف پر عبادت كا لزوم مندرجہ بالا مطلب كو بيان كررہا ہے_

۱۱_ پيغمبروں كى تاريخ اور انكى توحيد پرستى كے بارے ميں آيات كا نزول، الله تعالى كى حكم كى بنا پر نيز پيغمبر اكرم(ص) كى بندگى اور توحيد پرستى بڑھانے كيلئے تھا _

۷۴۴

وما نتنزل إلاّ با مر ربّك فاعبده واصطبر لعبادته

آخرى دوآيات كا پچھلى آيات سے ربط جو انبياء كى تاريخ بيان كررہا ہے وہ مندرجہ بالا نكتہ كو بتا رہا ہے_

۱۲_ نہ كوئي چيز الله تعالى كى مانند ہے نہ كوئي اسكے ہم نام ہونے كى لياقت ركھتى ہے_ربّ السموات ...هل تعلم له سميّ

''سمّي'' ايسى مثل كو كہتے ہيں كہ جو ہم نام ہونے كا حق بھى ركھے(لسان العرب)

جملہ ''ہل تعلم '' نفى معلوم كيلئے جملہ سواليہ انكارى ہے اور اس نكتہ كو بيان كررہا ہے كہ كوئي چيز ايسى موجود نہيں ہے كہ جو اوصاف ميں الله تعالى كى مانند ہو كہ اسكے ہم نام ہو سكے_

۱۳_ الله تعالى كے علاوہ كوئي بھى ''ربّ'' اور كائنات كا پروردگار سا مقدس نام كى لياقت نہيں ركھتا _

ربّ السموات و الأرض ...هل تعلم له سميّا

۱۴_ الله تعالى كے خاص ناموں پر افراد يا چيزوں كے نام ركھنے سے پرہيز كرنا چاہيے _هل تعلم له سميّا

جيسا كہ كہا گيا ''سميّ'' كا معنى ہم نام ہے ايك قول كے مطابق يہ آيت ،اللہ تعالى كى توحيد اور بے نظير ہونے كے حوالے سے حقيقى امر بيان كرنا چاہتى ہے ليكن ہم نام كى نفى ممكن ہے يہ پيغام دے رہى ہو كہ لوگوں كے الله تعالى خصوصى ناموں پرنام ركھنا اگر چہ اعتبارى ہيں ليكن پھر بھى بہر حال درست نہيں ہيں _

۱۵_ الله تعالى كى پورى كائنات پر ربوبيت اور اسكا بے نظير ہونا(توحيد ربوبي) اسميں يكتا پرستى اور استحكام (توحيد عبادي) پر دليل ہے_ربّ السموات ...فاعبده واصطبر ...هل تعلم له سميّا

آسمان:آسمانوں كامتعدد ہونا ۴;آسمانوں كى تدبير۱ ; آسمانوں ميں موجودات كا مربي۱

آنحضرت:آنحضرت كا صبر۵; آنحضرت(ص) كو نصيحت ۹ ; آنحضرت (ص) كى ذمہ دارى ۵ ; آنحضرت(ص) كى عبادات۵; آنحضرت ميں توحيد عبادى كو مستحكم كرنے كے اسباب۱۱; آنحضرت ميں عبوديت كو مستحكم كرنے كے اسباب۱۱

احكام:۱۴

اسماء وصفات:اسماء وصفات كے احكام۱۴; اسماء و صفات كے ساتھ نام ركھنا ۱۴;صفات جلال كے دلائل ۳

اطاعت:الله كى اطاعت كا سخت ہونا۶;اللہ كى اطاعت ميں اہميت صبر۷; الله كى اطاعت ميں صبر۶

الله تعالى :الله تعالى اور فراموشى ۳،۸;اللہ تعالى كا بے نظير ہونا۱۲; الله تعالى كاعلم۸;اللہ تعالى كى ربوبيت ۱،۱۳;اللہ تعالى كى ربوبيت كے آثار ۳ ; الله تعالى

۷۴۵

كے ساتھ خاص۱۲،۱۳ ; الله تعالى كے منزہ ہونے كے دلائل ۳

الله تعالى كے بندے :الله تعالى كے بندوں كى اطاعت كاعلم۸; الله كے بندوں كى عبادت كا علم۸

انبياء:انبياء كى تاريخ ۱۱: انبياء كى توحيد كا فلسفہ۱۱

تخليق:مخلوقات كا مربي۱۳

توحيد:توحيد ذاتى ۱۲; توحيد ربوبى ۱۳;توحيد ربوبى كے آثار ۱۵; توحيد عبادى كا مشكل ہونا۶; توحيد عبادى كے دلائل ۱۵; توحيد عبادى ميں صبر۶; توحيد عبادى ميں صبر كى اہميت۷

ذكر:الله تعالى كى ربوبيت كا ذكر۱۰

صفات جلال كا ذكر۱۰

زمين:زمين كى تدبير۱

شرك:شرك سے پرہيز كى اہميت۷

عبادت:عبادت خدا كے اسباب ۱۰; عبادت ميں صبر۵;عبادت ميں صبر كى اہميت۹; عباد ت ميں صبر كے اسباب۱۰

فرشتے:فرشتوں كى نصيحتيں ۹

موجودات:فضا ميں پانے جانے والے موجودات كا مربي۱; موجودات فضا۲;موجودات كا مربي۱

نام ركھنا :نام ركھنے كے احكام۱۴

نظريہ كائنات:توحيدى نظر يہ كائنات ۱۲،۱۳; نظريہ كائنات اور آئيڈ يا لوجى ۱

وادار كرنا:وادار كرنے كے اسباب۱۰

آیت ۶۶

( وَيَقُولُ الْإِنسَانُ أَئِذَا مَا مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيّاً )

اور انسان يہ كہتا ہے كہ كيا جب ہم مرجائيں گے تو دوبارہ زندہ كركے نكالے جائيں گے (۶۶)

۱_ انسان كا موت كے بعد معاد و حيات والے مسئلے كا انكار اور تعجب كے ساتھ سامنا كرنا_

ويقول الإنسان ا إذا مامتّ لسوف أخرج حيّا

كلمہ''يقول'' فعل مضارع ہے جو انسانوں كى حالت بيان كرنے كے حوالے سے استعمال ہوتا ہے اس قسم كے افعال تين

۷۴۶

زمانوں ميں استمرار پر دلالت كرتے ہيں ''الإنسان'' ميں ''ال'' جنس كيلئے ہے جو افراد كى كثرت كيلئے بھى استعمال ہوتا ہے_

۲_معاد كے منكرين كا سب سے بڑا نظريہ كسى چيز كو بعيد شمار كرنا ہے_إذا مامتّ لسوف ا خرج حيّا قرآن كريم كى نبيادى روش دوسروں كى بات نقل كرنے ميں منتخب جملات كانقل ہے_منكرين معاد سے اس بات كانقل اس نكتہ كو بيان كررہا ہے كہ منكرين معاد كى اہم ترين اساس يہى بعيد خيال كرنا ہے_

۳_معاد كو بعيد سمجھنا اور اسكا انكار در اصل الله واحد كى عبادت و اطاعت سے فرار كرنے كے اسباب ميں سے ہے_

واصطبر لعبادته يقول اللإنسان إذا ما متّ لسوف ا خرج حيّا

وہ تمام وجوہات جو كہ اس آيت كے پچھلى آيات سے ربط كے حوالے سے بيان ہو سكتى ہيں وہ يہ ہيں كہ عبادت و صبر كے حكم كے بعد گو يا اس آيت نے ايك مقدّر سوال كو مطرح كيا اور جواب ديا ہے مقدّر سوال يہ ہے كہ : الله تعالى كى عبادت و اطاعت كانتيجہ كيا ہے؟ ہمارى تو موت كے بعد كوئي زندگى ہى نہيں ہے كہ ہمارے دنياوى حالات اور اعمال سے اسميں كوئي فرق پڑتا ہو تو اس آيت اور بعد والى آيات نے اس سوال كا جواب ديا ہے اور عبادت كو ضرورى شما ركيا ہے_

۴_ معمولاً نوع انسان نے الله تعالى كى جانب سے جنت اور اسكے نعمات كے وعدہ كے مقابل ،معاد كے انكار اور اسے بعيد سمجھنے كى صورت ميں ردّ عمل كا اظہار كيا ہے _جنّات عدن التى وعد الرحمن ...ويقول الإنسان إذا مامتّ

گذشتہ دو آيات ''وما تنزل ...سميّا'' ميں جملات معترضہ اور ما قبل و ما بعد سے ہٹ كہ جملات آئے ہيں يہ مورد بحث آيت ان دو آيات سے قبل كى بحث كو آگے بڑھارہى ہے كہ جن ميں جنت اور اسكى نعمات كا ذكر ہے_

۵_انسان، موت كے بعد قيامت كے آنے پر دوبارہ زندہ ہونگے اور زمين سے نكالے جائيں گے_أذا ما متّ لسوف ا خرج حيّ ''اخرج'' ميں خروج سے متكلم كى ذہنيت كے قرينہ كى وجہ سےپيغمبروں كى ذكر شدہ قيامت سے مراد ، خاك اور زمين كے اجزاء سے نكلنا ہے يعنى''ا خرج من الارض''

۶_ انسانوں كى معاد، جسمانى و ناقابل تغيرّ ہے_لسوف ا خرج حيّ ''ا خرج''مجہول ہے يہ بتارہا ہے كہ زبردستى نكالا جائيگا يہ اس انسان كى طرف منسوب ہے كہ جو بات كررہا ہے اس سے معلوم ہو رہا ہے كہ اب كى وضعيت اور جسمانى حوالے سے مكمل طور پر زمين كے نكلنے كى وضعيت كے مشابہہ ہے جملہ''إذاما متّ ___ '' اگرچہ منكرين معاد كا كلام ہے ليكن

۷۴۷

اسكا رد و اعتراض كے بغير نقل ہونا اس بات كے صحيح ہونے كى دليل ہے كہ جس پر انہيں تعجب تھا_

الله تعالى :الله تعالى كے وعدے ۴

اطاعت:الله تعالى كى اطاعت ترك ہونے كا پيش خيمہ۳

اكثريت:اكثريت كاسامنا كرنے كى روش۴

جنت:وعدہ جنت۴

عبادت:الله تعالى كى عبادت ترك ہونے كا باعث ۳

مردے:مردوں كى اخروى حيات۵

معاد:معاد جسمانى ۵،۶;معاد كا تعجب انگيز ہونا۱; معادكو بعيد سمجھنے كے آثار ۳;معاد كو جھٹلانے كے آثار۳;معاد كو جھٹلانا۴;معاد كو بعيد سمجھنا ۲، ۴; معاد كو جھٹلانے دالوں كا تعجب ۱ ;معاد كو جھٹلانے والوں كا سامنا كرنے كى روش ۴; معاد كو جھٹلانے والوں كے دلائل ۲;

نعمت:وعدہ نعمت۴

آیت ۶۷

( أَوَلَا يَذْكُرُ الْإِنسَانُ أَنَّا خَلَقْنَاهُ مِن قَبْلُ وَلَمْ يَكُ شَيْئاً )

كيا يہ اس بات كو ياد نہيں كرتا ہے كہ پہلے ہم نے ہى اسے پيدا كيا ہے جب يہ كچھ نہيں تھا (۶۷)

۱_ الله تعالى ، انسان كا خالق اور اسے كائنات ميں وجود دينے والا ہے _خلقنه من قبل ولم يك شيئا

۲_ ہر انسان كے اپنى عدم سے پہلى تخليق كے بارے ميں شناخت كى قوت ركھنے كے باوجود اسكا معاد كے بارے ميں ترديد كرنا، حيران كن اور لائق سرزنش ہے _أؤ لا يذكرالإ نسان أنا خلقنه من قبل ولم يك شيئا

''اؤلا يذكر'' ميں ہمزہ انكارتو بيخى كيلئے ہے اور تعجب كا معنى دے رہا ہے اس آيت ميں اگر چہ

۷۴۸

ضمير كا لا نا ممكن تھا پھر بھى لفظ انسان كا تكرار يہ نكتہ بتارہا ہے كہ انسان ہونے كا لازمہ يہ ہے كہ دقت اور فكر كى جائے_

۳_ انسان كى اپنى تخليق اور عدم سے لباس وجود ميں آنے پر توجہ، معاد كو بعيد سمجھنے اور اسكے انكار كرنے كے پيش خيمہ كو ختم كرديتى ہے_أوَلا يذكر الإنسان أنّا خلقنه من قبل ولم يك شيئا

عدم اور نہ ہونے سے مراد، عدم مطلق حتمى طور پر نہيں ہے بلكہ ہو سكتا ہے كہ مراد عدم نسبى ہو يعنى انسان پہلے نہيں تھا اب موجو ہے اگر چہ اسكے عناصر اسكے وجود سے پہلے ديگر موجودات كے قالب ميں ہوں يہ حتمال بھى ہے كہ جملہ ''لم يك شيئاً'' ايسے دور اينہ كو بتا رہا ہو كہ انسان كے عناصر كسى تخليق شدہ موجود كے قالب ميں نہ تھے _

۴_ انسان كو صفحہ كائنات پر ظاہر كرنا اور اسے عدم سے وجود ميں لانا، الله تعالى كے اسے دوبارہ زندہ كرنے اور معاد برپا كرنے پر دليل ہے_أوَ لا يذكرالإنسان ...ولم يك شيئا

۵_انسان، ايك سوال كرنے والا عقلمند اور اپنى خلقت كے حوالے سے تجزيہ وتحليل كى قدرت كا مالك موجود ہے نيز گذشتہ اور آئندہ نظام خلقت كے مقائسہ پر بھى قادر ہے _ويقول الإنسان إ ذا مامتّ أوَلا يذكر الإنسان أنّا خلقنه

۶_''عن مالك الجهنى قال: سا لت أبا عبداللّه (ع) عن قول الله تعالى :ا و لا يذكر الإنسان أنّا خلقناه من قبل و لم يك شيئاً فقال : لا مقدّراً ولا مكوّناَ'' (۱)

مالك جہنى سے نقل ہوا ہے كہ امام صادق عليہ السلام سے الله تعالى كى اس كلام''أوَلايذكر الإنسان أنّا خلقنا من قبل ولم يك شيئاً'' كے بارے ميں سوال كيا تو انہوں نے فرمايا :انسان تو تقدير خلقت ميں تھا نہ دائرہ وجودميں تھا_

الله تعالى :الله تعالى كى خالقيت۱; الله تعالى كى قدرت كے دلائل۴

انسان:انسان كا تحليل كرنا۵; انسان كا خالق۱;انسان كا سوال كرنا۵; انسان كا فكر كرنا۵; انسان كا مقائسہ كرنا۵; انسان كى خصوصيات۵;انسان كى خلقت كى كيفيت ۶;انسان كى خلقت كے آثار۴

ذكر:خلقت انسان كے ذكر كے آثار۳

روايت:۶مردے:مردوں كا اُخروى احياء۴

معاد:معاد كو بعيد سمجھنے كے ردكے اسباب۳; معاد كے دلائل ۲،۴; معاد ميں شك پر سرزنش ۲; معاد ميں شك كا عجيب ہونا۲

نظريہ كائنات:نظريہ كائنات اور آئيڈ يا لوجي۱

۷۴۹

آیت ۶۸

( فَوَرَبِّكَ لَنَحْشُرَنَّهُمْ وَالشَّيَاطِينَ ثُمَّ لَنُحْضِرَنَّهُمْ حَوْلَ جَهَنَّمَ جِثِيّاً )

اور آپ كے رب كى قسم ہم ان سب كو اور ان كے شياطين كو ايك جگہ اكٹھا كريں گے پھر سب كو جہنم كے اطراف گھٹنوں كے بل حاضر كريں گے (۶۸)

۱_ الله تعالى نے اپنى ربوبيت كى قسم كے ساتھ روز قيامت ميں منكرين معاد اور شياطين كو اكٹھا محشور كرنے كے عزم پر تا كيد فرمائي_فوربّك لنحشر نّهم والشياطين ''لنحشر نهم'' ميں مفعول كى ضمير،پچھلى آيت ميں انسان كى طرف لوٹ رہى ہے اس سے مراد، منكرين معاد ہيں كہ جو دوبارہ زندہ ہونے كو بعيد سمجھتے تھے ''حشر'' يعنى جمع كرنا بعض اس سے ايسا اقرار مراد ليتے ہيں كہ جو لوگوں كو محل اجتماع كى طرف لے جائيں (مصباح)

۲_ معاد كے منكرين، ميدان قيامت ميں شياطين كے ہمراہ انكے دوش بدوش ہونگے _لنحشر نهم والشياطين ثم لنحضرنّهم

''والشياطين'' ميں '' واؤ ''ممكن ہے عاطفہ ہو يا''مع '' كے معنى ميں ہوبہرحال دونوں صورتوں ميں مندرجہ بالا مطلب سامنے آتا ہے_

۳_ شيطان، كفر اور معاد كے انكاركى ترويج كرنے والا ہے_ويقول الإنسان لنحشرنّهم والشياطين

اس آيت ميں شيطان كا بعنوان كفار كا ہم دوش و ہمراہ روز قيامت ذكر، شيطان كے كفر كرنے اور اسميں كفار كى رہبر ى كرنے والے كردار كو بيان كررہا ہے_

۴_ روز قيامت، لوگوں كا آپس ميں نزديك او ر جدا ہونا فكر ى اور عملى سنخ كى بناپر ہوگا_لنحشرنّهم والشياطين ثم لنحضرنّهم

روز قيامت، منكرين معاد كا شياطين كى صف ميں داخل ہونا اس سنخيت كى بنا ء پر ہے كہ جوان د و گروہوں ميں فكر ى اور عملى بناء پر پيدا ہوئي ہے اس آيت ميں شياطين كا ذكر اسى سنخيت اور نتيجہ كو بيان كرنے كيلئے ہے جوكہ ميدان قيامت ميں ظاہر ہوگي_

۵_ منكرين معاد كو محشور كرنا اور انہيں سزا دينا الله تعالى كى ربوبيت كا ايك مظہر ہے_فوربّك لنحشرنّهم ...حول جهنّم

۶_ الله تعالى كى پيغمبر اكرم(ص) پر خاص عنايت و لطف كرم تھا اور انكى معاد كے منكرين كے در مقابل دلجوئي فرمائي ہے _

۷۵۰

فوربّك لنحشرنّهم والشياطين ''فوربّك'' كى ضمير كا مخاطب ذات پيغمبر اكرم(ص) ہيں الله تعالى كا اپنے مقدس نام كى قسم كھانے كے وقت ان حضرت پر عنايت اور ايك قسم كا اظہار لطف اور كفار كى خودسرى كے مقابل پيغمبر اكرم(ص) كى دلجوئي مقصود تھي_

۷_ الله تعالى شياطين و منكرين معاد كو روز قيامت ذليل و خوار زانو پر بيٹھا كر اور كمر خميدہ حالت ميں انہيں جہنم كے اردگرد حاضر كرے گا_ثم لنحضرنّهم حول جهنّم جثيّا

''جثياً''(جاثى كى جمع) حال ہے اور جاثى اس شخص كو كہتے ہيں جسےفيصلہ سنانے كيلئے زانو پر بٹھايا جائے (لسان العرب) منكرين معاد اور شياطين كو اس حال ميں حاضر كيا جانا كہ اپنے زانو پر چل رہے ہوں گے يا اپنے زانو پر جہنم كے اردگر د بيٹھے ہونگے يہ سب كچھ انكى توہين و تحقير كى خاطر ہوگا _ بعض نے ''جثي'' كو ''جثوة'' كى جمعبيان كيا كہ جسكا معنى خاك و پتھر كا ڈھير ہے اس معنى كے مطابق ہر فرقہ و گروہ كو اكھٹاحاضر كر نا ہے_

۸_ كفار اور شياطين، جہنم كے اردگرد آپس ميں اكٹھے اور جڑے ہوئے حاضر ہونگے _ثم لنحضر نّهم حول جهنم جثيّا

''جثي'' ممكن ہے ''جثوة'' سے ہو كہ جسكا معنى خاك اور پتھر كا ڈھير ہے_

۹_ كفار اور شياطين كا جہنم كے اردگرد ذليل انداز ميں جمع ہونا، حشر كے بعد كا ايك مرحلہ ہے_

لنحشرنّهم ...ثم لنحضرنّهم حول جهنم جثيّا

آنحضرت(ص) :آنحضرت(ص) كى حوصلہ افزائي كرنا۶

الله تعالى :الله تعالى كى ربوبيت كى علامات۵

الله تعالى كا لطف:الله تعالى كے لطف كے شامل حال۶

روابط:اخروى روابط كے اسباب۴

شيطان:جہنم كے اردگرد شيطان ۷،۸،۹; روز قيامت شيطان۲;شيطان كا اخروى اجتماع۸; شيطان كحتمى حشر۱; شيطان كا حشر۹;شيطان كا كردار ۳; شيطان كى آخرت ميں ذلت۷،۹; شيطان كے حشر كى كيفيت۷

عمل :عمل كے اخروى آثار ۴

قرآن مجيد:قرآن مجيد كى قسميں ۱

۷۵۱

قسم:الله تعالى كى ربوبيت پرقسم

قيامت:قيامت ميں روابط ۴; قيامت ميں روابط كا ختم ہونا۴

كفار :جہنم كے اطراف ميں كفار ۷،۸،۹;كفار كا اخروى اجتماع۸; كفار كا حشر۹;كفار كى اخروى ذلت ۷،۹;كفار كے حشر كى كيفيت۷

كفر:كفر كى تبليغ كرنے والے ۳

معاد:جہنم كے اردگر د معاد كو جھٹلانے والے ۷; قيامت ميں معاد كو جھٹلانے والے ۲; معاد كو جھٹلانے كے مبلّغين ۳;معاد كو جھٹلانے والوں كا حتمى حشر۱; معاد كو جھٹلانے والوں كا حشر ۵ ; معاد كو جھٹلانے والوں كى اخروى ذلت۷; معاد كو جھٹلانے والوں كى سزا ۵; معاد كو جھٹلانے والوں كى لجاجت ہيں ۶; معاد كو جھٹلانے والوں كے حشر كى كيفيت ۷

نظريہ:نظريے كے اخروى آثار۴

آیت ۶۹

( ثُمَّ لَنَنزِعَنَّ مِن كُلِّ شِيعَةٍ أَيُّهُمْ أَشَدُّ عَلَى الرَّحْمَنِ عِتِيّاً )

پھر ہر گروہ سے ايسے افراد كو الگ كرليں گے جو رحمان كے حق ميں زيادہ نافرمان تھے (۶۹)

۱_ ميدان قيامت ميں لوگ مسلك اور عقيدہ كى بناء پر مختلف دستوں ميں تقسيم اور آپس ميں جدا ہونگے_

ثم لنزعنّ من كلّ شيعة

''شيعہ'' كسى شخص كے پيروكاروں اور مدد گاروں كو كہا جاتا ہے اسى طرح ہر گروہ جو كسى مسلك پر متفق ہو جائيں انہيں شيعہ كہا جاتا ہے يہ لفظ مفرد، تثنيہ ، جمع ، مذكر اور مونث سب كيلئے استعمال ہوتا ہے(لسان العرب) ''كل شيعہ'' آيت ميں يہ الفاظ دلالت كررہے ہيں كہ ہر مسلك و عقيدہ كے پير وكار ايك دو سرے سے جدا ميدن قيامت ميں جمع ہونگے_

۲_ روز قيامت ہر مسلك ميں سے ظالم اور سركش افراد كو نكالا جائيگا_ثم لنزعنّ ...على الرحمن عتيّا

''عتيّاَ'' مصدر ہے اور حد سے بڑھ كر تجاوز كے معنى ميں استعمال ہوتا ہے( لسان العرب) ''عتو' ' نير اطاعت سے دور ہونے كے معنى ميں استعمال ہوتا ہے (مفردات راغب)

۷۵۲

۳_ رحمان (وسيع رحمت والا) الله تعالى كے اسماء و صفات ميں سے ہے _أيهم أشدّ على الرحمن عتيّا

۴_ قيامت كے مراحل ظلم و تجاوز ميں سبقت كرنے والوں كيلئے بہت مشكل اور ان كى سزا دوسروں كى نسبت بہت زيادہسنگين ہوگي_ثم لنزعنّ ...أيهم أشدّ على الرحمن عتيّا

ظلم و غرور ميں بڑھ چڑھ كہ حصہ لينے والوں كو جدا كرنا انكى بہت زيادہ رسوائي اور بہت سخت سزا كى حكايت كررہا ہے كہ جوانكے انتظار ميں ہے_

۵_ الله رحمان كے مد مقابل گردن درازى ايك ناروا كام ہے كہ جس كا انجام بہت سخت ہے_أيّهم أشدّ على الرحمن عتيّ ''رحمان'' كا نام كہ جو الله تعالى وسيع اورعمومى رحمت كو بيان كررہا ہے بعض لوگوں كے تكبر اور ظلم كے ساتھ مطرح كرنا ممكن ہے اسكے مد مقابل ظلم و تجاوز كى پستى اور غلط ہونے كى شدت كو بيان كر رہا ہو_

۶_ قيامت كے دن گناہ گاروں اور سركشوں ميں سے ہر ايك اپنے اپنے كردار كے مناسب عذاب ميں گرفتار ہونگے_

ثم لنزعنّ من كلّ شيعة أيّهم أشدّ

جملہ ''لنزعنّ ...'' دلالت كررہا ہے كہ وہ فرد جو دوسروں كى نسبت زيادہ گنہ گارہے اسكا نكالنا اس وقت تك جارى رہے گا كہ جب تمام گناہ گار لوگ اپنى اپنى مناسب جگہ كو پاليں گے اور سزا پائيں گے_

۷_ روز قيامت گناہ گارلوگوں كى انكے گناہ كے در جوں كے مطابق تقسيم، الہى ربوبيت كى عظمتوں ميں سے ہے_

فوربّك ...ثم لنزعنّ من كلّ شيعة أيّهم أشدّ على الرحمن عتيّا

۸_اللہ تعالى نے اپنى ربوبيت كى قسم كے ساتھ روز قيامت گناہ گاروں كى يقينى طبقہ بندى پر تاكيد كى ہے_

فوربّك ...ثم لنزعنّ من كلّ شيعة عتيّا

اسماء صفات:رحمان۳

الله تعالى :الله تعالى كى ربوبيت كى عظمتيں ۷;اللہ تعالى كى رحمانيت ۵

تكبر:الله تعالى كے ساتھ تكبر كا ناپسنديدہ ہونا۵;اللہ تعالى كے ساتھ تكبر كرنے كى سزا۵

تكبر كرنے والے:قيامت ميں تكبر كرنے والے ۲

رہبر:غرور كرنے والے رہبر روز قيامت ۴;غرور كرنے والے رہبروں كى اخروى مشكلات ۴

۷۵۳

سركشي:سر كشى كے اخروى آثار ۷; سركشى كے درجات ۷

سركشى كرنے والے:سركشى كرنے والوں كى اخروى سزا ۶:سركشى كرنے والے قيامت كے دن ميں ۲

سزا:سزا كا گناہ سے تناسب ۶; سزا كے مراتب۵

عذاب:عذاب كے مراتب۶

عقيدہ:عقيدہ كے اخروى آثار ۱

عمل:عمل كے اخروى آثار۶

قرآن:قرآن كى قسميں ۸

قسم:خدا كى ربوبيت كى قسم۸

قيامت:قيامت ميں سختى ۴ قيامت ميں گروہ بندى ۸; قيامت ميں گروہ بندى كا معيار۱

گناہ كار:قيامت ميں گناہ كار۷

آیت ۷۰

( ثُمَّ لَنَحْنُ أَعْلَمُ بِالَّذِينَ هُمْ أَوْلَى بِهَا صِلِيّاً )

پھر ہم ان لوگوں كو بھى جب جانتے ہيں جو جہنم ميں جھونكے جانے كے زيادہ سزاوار ہيں (۷۰)

۱_ خدائے رحمان كے مد مقابل متكبر اور سركش افراد ، جہنم كى آگ كا ايندھن بننے كے لائق ہيں _

حول جهنم ثم لنحن أعلم بها صليّا

'' صلى يصلي''سے ''صليّا'' جو كہ ''اولي'' كيلئے تميز ہے اسكا معنى جلنا اورآگ كى حرارت چكھنا ہے _(لسان العر ب) لہذاعبا رت '' أعلم ...صليّاً'' كا معنى يہ ہوگا كہ ہم بہتر جانتے ہيں كہ كون جہنم ميں جانے كا لائق ہے تا كہ آگ كا مزہ چھكے اور كباب ہوجائے_ يہاں كلمہ ''اولويت'' بعض كيلئے علامت ہے جس سے معلوم ہوا كہ باقى بھى اس جہنم كے حقدار ہيں اگر چہ ممكن ليے اس حوالے سے دوسروں كى نسبت اولويت نہ ركھتے ہوں _

۲_ مغرور اور سركش افراد كيلئے جہنم كى آگ كے حقدار ہونے ميں درجات كا فرق_على الرحمن عتيّا _ ثم لنحن أعلم بالذين هم أولى بها صليّا

۳_ ہر كوئي اپنے استحقاق اور اولويت كى بناء پر جہنم كے عذاب كا ذائقہ چكھے ہے_ثم لنحن أعلم بالذين هم أولى بها صليّ

۷۵۴

جہنم كى آگ كے مستحق افراد ميں درجہ بندى اور يہ كہ پہلے كون جائيگا اس سے معلوم ہوتا ہے كہ سب كو ايك جيسا عذاب نہيں ہوگا بلكہ سب كو مختلف اور انكے اعمال كے مطابق عذاب ہوگا_

۴_ الہيفرمان ميں نافرمانى جس قدر زياد ہوگى عذاب كے قطعى ہونے كو بڑھا ئے گى _أشدّ على الرحمن عتيّاً ثم ...أولى بها صليّا ''ثم '' سے معلوم ہوتا ہے تمام سركش افراد تقسيم اور درجہ بندى كے بعد عذاب كے مقام ميں بھى اسى ترتيب كے ساتھ وارد ہونگے يہا تك كہ سب عذاب ميں داخل ہو جائيں گے لہذا جسقدر بھى سركشى زيادہ ہوجائے عذاب كا استحاق بھى اسى طرح زيادہ ہو جائيگا _

۵_ الله تعالى تمام سركش اور نافرمان افراد كے جہنم كے حوالے سے استحقاق كے معيار اور مرتبہ كو خو ب جاننے والا ہے_

ثم لنحن أعلم بالذين هم اولى بها صليّا

۶_ پروردگار كاعلم، جہنم كے حوالے سے ہر كسى كے درجہ استحقاق اور دقيق ميزان كاضامن او ر نگہبان ہے_

لنحن أعلم بالذين هم أولى به يہ كہ الله تعالى سب سے پہلے جہنم جانے والوں سے آگاہ ہے اس سے محض خدا كے علم كى بڑائي دكھانا مقصود نہيں ہے بلكہ معلوم ہوتا ہے عذاب كے اجراء كو اسى اولويت كى اساس پر بتانا مقصود ہے_

۷_ جہنم كاعذاب، ايك حساب شدہ اور دقيق نظام كا حامل ہے_لنحن أعلم بالذين هم أولى بها صليّا

۸_ ايك صحيح فيصلہ اور مراتب و درجات كى تعيين ،مكمل معلومات پر موقوف ہے _ثم لنحن أعلم بالذين هم أولى به

۹_ انسانوں كے جرائم كے معيار اور انكے عذاب كے درجات سے آگاہي، الہى ربوبيت كى صفات ميں سے ہے_

فوربّك ...ثم لنحن أعلم

۱۰_ الله تعالى نے اپنى ربوبيت كى قسم كھا كر مجرمين كے معيار عذاب سے اپنى دقيق آگاہى پر تاكيد فرمائي ہے_

فوربّك ...ثم لنحن أعلم

الله تعالى :الله تعالى كا علم ۵، ۹، ۱۰;اللہ تعالى كى ربوبيت كى صفات ۹;اللہ تعالى كے ساتھ خاص۵ ; الله تعالى كے علم كے آثار ۶

انسان:

۷۵۵

انسانوں كے گناہ كا علم ۹

تكبر كرنے والے:تكبر كرنے والوں كى سزا ۱،۲; تكبر كرنے والوں كے درجات ۲،۵;جہنم ميں تكبر كرنے والے۱

جہنم:جہنم كے عذابوں كا قانوں كے مطابق ہونا۷

جہنمى لوگ:جہنمى لوگوں كے عذاب كا سرچشمہ ۶; جہنمى لوگوں كے مراتب ۲،۵

سركشي:خداسے سركشى كى سزا ۱; خدا سے سركشى كے آثار۴; سركشى كے مراتب۴

سركشى كرنے والے:جہنم ميں سركشى كرنے والے۱; سركشى كرنے والوں كے مراتب۲،۵

سزا:سزا كے مراتب۲;گناہ كے ساتھ سزا كى مناسبت ۳

عذاب:اہل عذاب كے مراتب۳; اہل عذاب كے مراتب كا علم۹; حتمى عذاب كے اسباب۴; عذاب ميں اولويت۳

علم:علم كے آثار۸

قرآن مجيد:قرآ ن كى قسميں ۱۰

قسم:الله كى ربوبيت كى قسم۱۰

قضاوت:قضاوت كى شرائط۸

گناہ گار:گناہ گارلوگوں كا عذاب۱۰

آیت ۷۱

( وَإِن مِّنكُمْ إِلَّا وَارِدُهَا كَانَ عَلَى رَبِّكَ حَتْماً مَّقْضِيّاً )

اور تم ميں سے كوئي ايسا نہيں ہے جسے جہنّم كے كنارے حاضر نہ ہونا ہو كہ يہ تمھارے رب كا حتمى فيصلہ ہے (۷۱)

۱_ ہر آدمى بلا استثناء روز قيامت جہنم ميں داخل ہوگا_وإن منكم إلاّ وارده

سياق نفى ميں استثنا حصر كو بيان كرتا ہے اسى ليے ''إن منكم ...' 'سے مراد يہ ہے كہ كسى كو جہنم ميں داخل ہونے سے معاف نہيں كيا جائيگا بعد والى آيت كہ متقى افراد كى جہنم سے نجات اور ظالموں كا اس ميں باقى رہنے كو بيان كررہى ہے اس مطلب پر قرينہ ہے كہ ''منكم'' ميں ضمير كا خطاب تمام انسانوں كے ليے ہے نہ صرف گروہ ظالمين كے ليے ہے_

۲_ تمام افراد بشريت كا جہنم ميں داخل ہونا قضا اور الله تعالى كا حكم قطعى ہے _كان على ربّك حتماً مقضيا

۷۵۶

الله تعالى پر ''على ربّك '' كسى چيز كا حتمى ہونا يعنى اسكے واجب ہونے كے معانى ميں سے ہے اور اسكى كلمہ''مقضيّاً'' سے توصيف اس نكتہ كو بيان كررہى چونكہ قضا اور الله تعالى كا حكم يوں تھا لہذا اس پر لازمى ہو گيا كيو ن كہ پروردگاراپنى قضا ميں تخلف نہيں كرتا_

۳_ الله تعالى كے پاس حتمى سنتيں اور ناقابل نقض ، قوانين ہيں _كان على ربّك حتماً مقضّيا

۴_ سب لوگوں كا جہنم ميں داخل ہونا، الله تعالى كى ربوبيت كا تقاضا ہے_كان على ربّك حتماً مقضّيا

۵_ قيامت كے مراحل اور مقامات پروگرام كے مطابق اور بہت دقيق اجرا كے حامل ہيں _لنحشرنّهم ...ثم لنزعنّ ...إن منكم ...حتماً مقضّيا

۶_عن أبى عبداللّه (ع) فى قوله;'' و إن منكم إلا واردها ''قال ;أما تسمع الرجل يقول وردنا ماء بنى فلان فهو الورودولم يدخله (۱)

امام صادق(ع) سے روايت ہوئي ہے كہ انہوں نے كلام پرودگار''وان منكم إلاّ وادها'' ميں ورود كے معنى كے حوالے سے فرمايا كيا آپ نے نہيں سنا كہ كوئي شخص كہتا ہو كہ فلان گروہ كے پانى پر ہم وارد ہوئے يہاں ورود انجام پا گيا ہے حالا نكہ وہ پانى ميں داخل نہيں ہوئے_

۷_عن جابر بن عبداللّه قال; ...سمعت رسول اللّه(ص) يقول ;لا يبقى برّو لا فاجر إلاّ يدخلها فتكون على المؤمن برداً و سلاماً كما كانت على إبراهيم(ع) (۲)

جابربن عبداللہ سے روايت ہوئي كہ ميں نے رسول خدا (ص) سے سنا كہ آپ(ص) فرمار ہے تھے كہ كوئي نيك يا بڑ ا آدمى ايسا نہيں ہے كہ جہنم ميں داخل نہ ہومگر مؤمن كيلئے آگ اسى طرح ٹھنڈى اور سلامتى كا باعث ہوگى كہ جس طرح ابراہيم (ع) كيلئے تھي_

الله تعالى :الله تعالى كى ربوبيت كے آثار۴; الله تعالى كى سنن كا حتمى ہونا۳; الله تعالى كى قضاء كا حتمى ہونا۲

جہنم:جہنم ميں داخل ہونا۱،۴،۶; جہنم ميں داخل ہونے كا حتمى ہونا۲،۷/روايت;۶،۷

____________________

۱) تفسير قمى ج۲ ، ص۵۲ ، نورالثقلين ج۳، ص، ۳۵۳، ح۱۳۰

۲)الدرالمنشورج۵ص۵۳۵، نورالثقلين ج ۳، ص ۳۵۳، ح۱۳۲

۷۵۷

قيامت:قيامت كے مقامات كا قانون كے مطابق ہونا۵//مؤمنين:جہنم ميں مؤمنين۷

آیت ۷۲

( ثُمَّ نُنَجِّي الَّذِينَ اتَّقَوا وَّنَذَرُ الظَّالِمِينَ فِيهَا جِثِيّاً )

اس كے بعد ہم متقى افراد كو نجات دے ديں گے اور ظالمين كو جہنم ميں چھوڑديں گے (۷۲)

۱_ الله تعالى سب انسانوں كے جہنم ميں داخل ہونے كے بعد متقى لوگوں كو اس سے نجات دے گا_

وإن منكم إلاّ واردها ...ثم ننجّى الذين اتقوا

۲_تقوى ،انسان كے جہنم سے نجات پانے كاسبب ہے_ثم ننجيّ الذين اتقوا

۳_ الله تعالى ،ظالموں كو جہنم ميں زمين پر زانو لگائے چھوڑدے گا_ونذر الظلمين فيها جثيّا

''جثي'' يعنى زانوپربيٹھنا اس طرح بيٹھنا ايك قسم كى پريشاني، حقارت اور عاجزى كا اظہار ہے_

۴_ ظالمين، ذلت و رسوائي كى گہرائي ميں جاكر عذاب دوزخ ميں گرفتار ہو نگے_ونذرالظلمين فيها جثيّا

فعل'' نذر'' اس وقت استعمال ہوتا ہے كہ جب كسى چيز كو بے اہم اور پست جانتے ہوئے چھوڑديا جائے يہ مفہوم اور ظالموں كا زانو كے بل گرے ہونا انكى ذلت و رسوائي اور سرگردانى سے حكايت كررہا ہے_

۵_ تقوى كو ترك كرنا ظلم ہے اور ظلم بے تقوى ہونے كى علامت ہے _ثم ننجّى الذين اتقوا ونذر الظلمين

اس آيت ميں لوگوں كو دو گرہوں ميں تقسيم كيا گيا ہے متقى ياظالم لہذا بے تقوى شخص ظالموں ميں سے ہے اور ظلم بھى بے تقوى ہونے كى علامت ہے_

۶_ حقائق اور الہى معارف كے در مقابل سركشى اور گردن اكڑانا ظلم ہےعلى الرحمن عتيّاً ...ونذر الظلمين فيه

گذشتہ آيات ميں سركش لوگوں كو حاضر كرنا اور انكے سب سے پہلے جہنم ميں جانے كى بات تھى اس آيت كا ان آيات كے ساتھ يہ ربط ہے كہ يہاں جن ظالموں كى طرف اشارہ كيا گياہے يہ وہى سركش اور نافرمان ہيں كہ جنكا گذشتہ آيات ميں ذكر ہوا تھا_

۷_ معاد كے منكرين، ظالمين كے زمرے ميں آتے ہيں _ويقول الإنسان ...ونذر الظلمين فيها جثيّا ان چند آيات ميں بحث كا اصلى موضوع معاد كا انكار اور انكے نتائج تھا اس آيت ميں بھى منكرين معاد كو ظالمين كے عنوان سے يا د كيا گيا ہے_

۷۵۸

۸_ ظلم، جہنم كے استحقاق كا باعث ہے_ونذر الظلمين فيها جثيّا

جہنم ميں ہميشہ رہنے كيلئے ''ظلم'' كے عنوان كا بيان ہونا بتا تا ہے كہ اس عذاب كے مستحق ہونے ميں ظلم كا كتنا كر دار ہے_

۹_ جہنم، متقى افراد كے گزرنے اور ظالموں كے رہنے كى جگہ ہے_ثم ننجّى الذين اتّقوا ونذرالظلمين فيه

۱۰_تقوى اختيار كرنا اور ظلم سے پرہيز ضرورت ہے _ثم ننجّى الذين اتقوا و نذر الظلمين فيه

۱۱_ تقوى جہنم سے نجات كا باعث اور ظلم پر باقى رہنا جہنم ميں باقى رہنے كا باعث ہے_ثم ننجّى الذين اتقوا ونذر الظلمين فيه ''اتقوا'' فعل ہے اور حدوث كو بيان كررہا ہے جبكہ ''الظالمين'' اسم ہے اور ثابت ہونے پر دلالت كررہا ہے_ بعض مفسرين كے مطابق يہ تفاوت وسيع الہى رحمت كو بيان كرے كيلئے ہے كہ اگر كسى كى طرف فعل تقوى كى نسبت ہو جائے وہ نجات پائے گا ليكن جب تك كوئي شخص صفت ظلم سے متصف نہ ہو تو عنوان ظالم اس پر صدق نہيں كرے گا نہ وہ جہنم ميں ہميشہ رہے گا_

۱۲_ ضرورى ہے كہ الله تعالى كے حضور معاد كے انكار اور سركشى سے پر ہيز كيا جائے_

أوَلايذكر الإنسان ...أيّهم أشدّ على الرحمن عتيّاً ...ثم ننجى الذين اتقوا

ان آيات ميں عقائدى و فكرى مسائل بالخصوص معاد كے متعلق مسائل بيان ہوئے ہيں _ ما قبل آيات كے قرينہ سے احتما ل پيدا ہوتا ہے كہ يہاں ''اتقوا'' سے مراد معاد پر ايمان اور خدا كے مقابلہ سركشى و نافرمانى سے پرہيزكرناہے_

۱۳_عن رسول اللّه(ص) قال :يردّ الناس النار ثم يصدرون بأعما لهم فأولهم كلمع البرق ثم كمر الريح، ثم كحضرالفرس ، ثم كالرا كب ثم كشدّ الرجل ثم كمشيه (۱) پيغمبر اكرم(ص) سے روايت ہوئي ہے كہ آپ(ص) نے فرمايا; لوگ جہنم ميں داخل ہونگے پھر اپنے اعمال كے ميزان كے مطابق اس سے خارج ہونگے پہلا گروہ برق كى سرعت سے خارج ہو گا دوسرا ہوا چلنے كى سرعت سے اسكے بعد والا گروہ گھوڑا دوڑنے كى رفتار سے ايك گروہ سوار كى مانند ايك گروہ مر د كے دوڑنے كى حالت اور ايك گروہ مردكے چلنے كے انداز ميں جہنم سے خارج ہونگا_

____________________

۱)مجمع البيان ج۶ ،ص۸۱۲، نورالثقلين ج ۳ ، ص ۳۵۳ ، ح۱۳۱_

۷۵۹

الله تعالى :الله تعالى كى طرف سے نجات بخشي۱

تقوى :تقوى كو ترك كرنا۵; تقوى كى اہميت۱۰; تقوى كے آثار۲،۱۱; تقوى نہ ہونے كى علامات ۵

جہنم:جہنم سے نجات ۱،۱۳; جہنم سے نجا ت كے اسباب۲،۱۱; جہنم ميں داخل ہونا۱۳; جہنم ميں داخل ہونے كے اسباب۸،۱۱

جہنمى لوگ:۴،۹

روايت: ۱۳

سركشي:دين كے ساتھ سركشي۶

ظالمين:ظالمين جہنم ميں ۴; ظالمين كى اخروى اقامت گاہ۹; ظالمين كى اخروى ذلت۴; ظالمين كى جہنم ميں داخل ہونے كى كيفيت۳

ظلم:ظلم پر باقى رہنے كے آثار۱۱; ظلم سے اجتناب كى اہميت ۱۰; ظلم كے آثار ۵، ۸; ظلم كے موارد۵،۶;

متقين:جہنم سے متقين كاعبور۹; متقين كى نجات۱

معاد:معاد كو جھٹلانے والوں كا ظلم۷; معاد كى تكذيب سے اجتناب۱۲

نافرماني:نافرمانى سے اجتناب كى اہميت۱۲

آیت ۷۳

( وَإِذَا تُتْلَى عَلَيْهِمْ آيَاتُنَا بَيِّنَاتٍ قَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِلَّذِينَ آمَنُوا أَيُّ الْفَرِيقَيْنِ خَيْرٌ مَّقَاماً وَأَحْسَنُ نَدِيّاً )

اور جب ان كے سامنے ہمارى كھلى ہوئي آيتيں پيش كى جاتى ہيں تو ان ميں كے كافر صاحبان ايمان سے كہتے ہيں كہ ہم دونوں ميں كس كى جگہ بہتر اور كس كى منزل زيادہ حسين ہے (۷۳)

۱_ الله تعالى كى طرف سے پيش كى جانى والى دليليں روشن اور ابہام سے خالى ہيں _وإذا تتلى عليهم ء اياتنا بيّنات

''بيّنة'' سے مراد آشكار اور روشن ہے'' آيات بيّنات ''يعنى وہ آيات كہ جنكى دلالت روشن ، مقصود كو سمجھنے ميں كافى اور استدلال كے حوالے سے تام ہو_

۲_ الہى روشن دلائل اور آيات كو قبول نہ كرنے كا سرچشمہ ،كفر ہے_وإذا تتلى عليهمء اياتنا بيّنت قال الذين كفروا

۷۶۰

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809

810

811

812

813

814

815

816

817

818

819

820

821

822

823

824

825

826

827

828

829

830

831

832

833

834

835

836

837

838

839

840

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863

864

865

866

867

868

869

870

871

872

873

874

875

876

877

878

879

880

881

882

883

884

885

886

887

888

889

890

891

892

893

894

895

896

897

898

899

900

901

902

903

904

905

906

907

908

909

910

911

912

913

914

915

916

917

918

919

920

921

922

923

924

925

926

927

928

929

930

931

932

933

934

935

936

937

938

939

940

941

942

943

944

945