تفسير راہنما جلد ۱۰

تفسير راہنما 6%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 945

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 945 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 247266 / ڈاؤنلوڈ: 3404
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱۰

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

:''فوكزه العالم ، فقتله_ فقال له موسى (ع) : ا قتلت نفساً زكية بغير نفس لقد جئت شيئاً نكراً؟ ''قال :'' فا دخل العالم يده فاقتلع كتفه فا إذا عليه مكتوب : كافر مطبوع'' (۱)

امام صادق (ع) سے روايت نقل ہوئي ہے ...اس وقت كہ عالم ( خضر (ع) ) موسى (ع) كے ہمراہ جارہے تھے يكدم ايك لڑكے سے ملے كہ جو كھيل رہا تھا_ امام(ع) فرماتے ہيں كہ اس عالم نے اسے گھونسا ما را اور اسے قتل كرديا موسى (ع) نے اسے كہا :ا قتلت نفساً ذكية بغير نفس ...؟ امام فرماتے ہيں : اسكے بعد عالم نے ہاتھ بڑھا يا اور لڑكے كا كندھا نكالا كہ جس پر لكھا ہوا تھا كافر مطبوع ( يعنى وہ كافر كہ جس پر كفر كى مہرلگى ہو )

۱۲_عن أبى عبداللّه(ع) : ...وخرجا (موسي(ع) وخضر(ع) ) على ساحل البحر فإذا غلام يلعب مع غلمان ...فتورّ كه العالم فذبحه (۲)

امام صادق(ع) سے روايت نقل ہوئي ہے ...وہ دونوں (موسي(ع) اورخضر(ع) ) دريا كے ساحل پر كشتى سے نكلے يكدم ايك لڑكے سے ملے كہ جو دوسرے چندلڑكوں سے كھيل رہاتھا ...پس اس عالم (خضر(ع) ) نے اسے ۱پنے زانو پر ڈالا اور ذبح كرديا //اوليا ء الله :اوليا ء الله كا عفو كرنا۳;اوليا ء الله كى صفات۳/بے گناہ لوگ:بے گناہ لوگوں كے قتل كا ناپسنديدہ ہونا ۱۰//خضر (ع) :خضر(ع) پر اعتراض ۵،۱۱; خضر(ع) كا سفر ۱;خضر(ع) كا قصہ ۱،۲،۴،۵،۱۱،۱۲;خضر(ع) كى نوجوان سے ملاقات ۲; خضر(ع) كے قصہ ميں نوجوان كاقتل ۴،۱۱،۱۲;خضر(ع) كے قصّہ ميں نوجوان كے قتل كا فلسفہ ۱۱;خضر(ع) كے قصّہ ميں نوجوانوں كى بے گناہى ۵

خطاكار لوگ:خطاكارلوگوں كومعاف كرنا۳;خطاكار لوگوں كى معذرت قبول كرنا۳

روايت :۱۱،۱۲//عمل :ناپسنديدہ عمل۱۰

قانون برائت :۶قصاص:قصاص كے احكام۹;يہوديت ميں قصاص۹

موسي(ع):موسي(ع) كا اعتراض ۵،۱۱; موسى (ع) كادينى تعصّب۸ ; موسي(ع) كاسفر۱ ; موسي(ع) كاعلم غيب ۷; موسي(ع) كا قصہ ۱،۲،۴ ،۵،۱۱ ،۱۲;موسي(ع) كى خضر كے ساتھ ہمراہى ۱;موسي(ع) كى فكر ۵; موسي(ع) كى معذرت قبول ہونا۱;موسي(ع) كى نوجوان كے ساتھ ملاقات ۲

____________________

۱) تفسير عياشى ج۲ص۳۳۵ج۵۳ ، نورالثقلين ج۳ص۲۸۶،ح۱۶۷_

۲) تفسير عياشى ج۲ ص۳۳۳ح۴۷ ،نورالثقلين ج۳ص۱۵۱۶_

۵۰۱

آیت ۷۵

( قَالَ أَلَمْ أَقُل لَّكَ إِنَّكَ لَن تَسْتَطِيعَ مَعِي صَبْراً )

بندہ صالح نے كہا كہ ميں نے كہا تھا كہ آپ ميرے ساتھ صبر نہيں كرسكتے ہيں (۷۵)

۱_حضرت خضر(ع) نے دوسرى بار اور بڑے واضح انداز ميں حضرت موسى كى بے صبرى او ر بلاوجہ سوالات پر انہيں تنبيہ اور خبر دار كيا _لقد جئت شيئاً نكراً _ قال ا لم أقل لك

حضرت خضر(ع) كى دوسرى تنبيہ ميں كلمہ '' لك '' آيا ہے اس كلمہ كے اضافہ ہونا اور يہ وضاحت كہ حضرت موسي(ع) كے بارے ميں يہ كلام آيا ہے، انكے سوال كے صحيح نہ ہونے پر تاكيد ہے _

۲_ حضرت خضر(ع) نے يہ كہ موسي(ع) انكے كاموں پر صبر نہيں كر سكتے تيسرى بار تاكيد كى ہے _

قال ا لم ا قل لك إنّك لن تستيطع معى صبرا

حضرت خضر(ع) نے ايك دفعہ حضرت موسى (ع) كے ساتھ ملاقات كى ابتداء ميں اور دوسرى دفعہ كشتى والے واقعہ كے بعد ايسااور تيسرى مرتبہ نوجوان كے قتل كے بعد جملہ بيان كيا كہ جس ميں عربى عبارت كے حوالے سے چند مرتبہ تاكيد موجود ہے''إنّك لن تستيطع معى ...''

۳_حضرت خضر(ع) كى اپنے كاموں كے مقابل حضرت موسى كى بے صبرى كے حوالے سے پيشگوئي حقيقت كے مطابق تھى _لقد جئت شيئاً نكراً_ قال ا لم ا قل لك إنك لن تستيطع معى صبرا

۴_نوجوان كے قتل كرنے كى غرض كے حوالے سے حضرت موسي(ع) كى لا علمى كى طرف حضرت خضر (ع) نے اشارہ كرتے ہوئے انكے اعتراض كو غلط جانا اوراس كوان ميں تحمل و صبر كے كم ہونے كے سلسلہ ميں اپنى شناخت كے درست ہونے پر علامت كے قرار ديا _لقد جئت شيئاً نكراً _ قال ا لم ا قل لك إنّك لن تستيطع معى صبرا

۵_ الله تعالى كے خاص اولياء اور علوم الہى كے حامل لوگوں كى صحبت سے فيض اٹھانے كيلئے صبراور تحمل، ضرورى شرط ہے _

۵۰۲

قال ا لم ا قل لك إنك لن تستيطع معى صبرا

اولياء الله :اولياء الله سے فائدہ اٹھانے كى شرائط ۵;اولياء الله ہم نشينى كے آداب۵; اولياء الله كى ہم نشينى ميں صبر ۵

خضر (ع) :خضر(ع) كا قصہ ۱،۲،۳،۴;خضر(ع) كى پشيكوئي كا پور ا ہونا ۳; خضر(ع) كى تشبہات ۱; خضر(ع) كے قصہ ميں نوجوان كا قتل ۴

علماء :علماء سے فائدہ اٹھانے كى شرائط ۵; علماء كے ساتھ ہم نشينى كے آداب ۵;علماء كے ساتھ ہم نشينى ميں صبر ۵

موسى (ع) :موسي(ع) كا اعتراض رد ہونا ۴; موسي(ع) كا عجز ۲;موسي(ع) كا قصہ ۱،۲،۳،۴;موسي(ع) كو خبردار كيا جانا ۱;موسى (ع) كى بے صبرى ۱،۲،۳،۴

آیت ۷۵

( قَالَ إِن سَأَلْتُكَ عَن شَيْءٍ بَعْدَهَا فَلَا تُصَاحِبْنِي قَدْ بَلَغْتَ مِن لَّدُنِّي عُذْراً )

موسى نے كہا كہ اس كے بعد ميں كسى بات كا سوال كروں تو آپ مجھے اپنے ساتھ نہ ركھيں كہ آپ ميرى طرف سے منزل عذ رتك پہنچ چكے ہيں (۷۶)

۱_حضرت موسى (ع) نے حضرت خضر(ع) سے انكے غير معمولى كا موں كے مقابلہ ميں اپنے صبر كرنے كے حوالے سے آخرى مہلت مانگى _قال إن سا لتك عن شى بعد ها فلا تصاحبنى

۲_ حضرت موسى (ع) نے اپنے آپ كو دوبارہ سوال كرنے (تيسرى دفعہ خلاف ورزى كرنے ) كى صورت ميں حضرت خضر(ع) كى مصاحبت سے محروميت كا لائق سمجھا_قال إن سا لتك عن شى بعد ها فلا تصاحبني

۳_ خطا كرنے والوں اور بھول جانے والوں كو تين بار، مہلت دينا مناسب ہے _

قال إن سا لتك عن شى بعد فلا تصاحبني

حضرت موسى (ع) نے تيسرى دفعہ اپنى بے صبرى كا مظاہرہ كرنے اور حضرت خضر(ع) كے حكم كى خلاف ورزى كرنے كى صورت ميں اپنے آپ كو حضرت خضر(ع) كى مصاحبت سے جدائي اور محروميت كا لائق

۵۰۳

سمجھا لہذا كہہ سكتے ہيں كہ لوگوں كو تين مرتبہ مہلت دينا ،قابل قبول ہے _

۴_ حضرت موسى (ع) نے حضرت خضر(ع) كے كردار كو تحمل كرنے اور ان كى ہمراہى سے عاجزى كا اعتراف كرليا_

قال قد بلغت من لدنى عذرا

۵_ حضرت موسى (ع) نے يہ اعتراف كرليا كہ حضرت خضر كے كاموں كے مقابلہ ميں ان كے خاموش رہنے كى خلاف و رزى كے نتيجہ ميں ميں ان سے جدائيكے سلسلہ ہيں حضرت خضر(ع) معذور ہيں _

قال ان سألتك قد بلغت من لدنى عذرا

جملہ''قد بلغت من لدنى عذراً'' يعنى ميرى نظر ميں آپكے پاس مصاحبت چھوڑنے پر قابل قبول عذرہے يہ جملہ '' قد '' كے قرينہ كے مطابق ''إن سا لتك '' سے مربوط نہيں ہے بلكہ حضرت موسي(ع) كا اعتراف ہے كہ آپ ہمراہى چھوڑ نے كا حق ركھتے ہيں ليكن ميں ايك اور مہلت چاہتا ہوں _

۶_اپنے اوپر تنقيد اور اپنے حوالے سے فيصلہ كرنے ميں انصاف كرنا اور اپنے اعمال كى ذمہ دارى قبول كرنا، بلند اور شائستہ صفات ہيں _إن سا لتك عن شى بعد ها فلا تصاحبنى قد بلغت من لدنى عذرا

اسكے باوجود كہ حضرت موسى (ع) نے پہلے مرحلہ ميں بھول جانے كے عذر كو بيان كيا ليكن اس مرحلہ ميں سب سے پہلے اپنے عمل كى ذمہ دارى كو قبول

كيا اور دوسرايہ كہ اپنے حوالے سے انصاف سے فيصلہ صادر كيا اور حضرت خضر(ع) كو اپنے سے جدا ہونےكے سلسلہ ميں بر حق جانا_بھول جانے والے :بھول جانے والوں كو مہلت ۳

خضر (ع) :خضر(ع) كى ہمراہى سے محروميت كے اسباب ۲; خضر(ع) كا عذر ۵; خضر (ع) كا قصہ ۱،۲،۴،۵;خضر(ع) كى طرف سے مہلت طلب كرنا ۱//خطا كا ر لوگ :خطا كاڑ لوگوں كو مہلت ۳

خود :خود پر تنقيد ۶//ذمہ دارى لينا :۶

صفات :اچھى صفات ۶

فيصلہ كرنا :فيصلہ كرنے ميں عدالت ۶

موسى (ع) :موسي(ع) كا اقرار ۴،۵; موسي(ع) كا عجز ۴; موسي(ع) كا قصہ ۱،۲،۴،۵;موسي(ع) كا مہلت لينا ۱;موسي(ع) كى بے صبرى ۵; موسي(ع) كى رائے ۲; موسي(ع) كى عہد شكنى ۵;موسي(ع) كے سوالوں كے آثار ۲

۵۰۴

آیت ۷۷

( فَانطَلَقَا حَتَّى إِذَا أَتَيَا أَهْلَ قَرْيَةٍ اسْتَطْعَمَا أَهْلَهَا فَأَبَوْا أَن يُضَيِّفُوهُمَا فَوَجَدَا فِيهَا جِدَاراً يُرِيدُ أَنْ يَنقَضَّ فَأَقَامَهُ قَالَ لَوْ شِئْتَ لَاتَّخَذْتَ عَلَيْهِ أَجْراً )

پھر دونوں آگے چلتے رہے يہاں تك كہ ايك قريہ والوں تك پہنچے اور ان سے كھانا طلب كيا ان لوگوں نے مہمان بنانے سے انكار كرديا پھر دونوں نے ايك ديوار ديكھى جو قريب تھا كہ گر پڑتى بندہ صالح نے اسے سيدھا كرديا تو موسى نے كہا كہ آپ چاہتے تو اس كى اجرت لے سكتے تھے (۷۷)

۱_ حضرت خضر(ع) نے حضرت موسي(ع) كى مہلت كى درخواست قبول كى اور انہيں تيسرى بار اپنى ہمراہى كا موقع ديا _

إن سا لتك عن شيئ: بعد ها فلا تصاحبني فا نطلقا

۲_ حضرت موسى (ع) اور خضر(ع) اپنے سفر اور حركت كرنے كى راہ ميں ايك آبادى تك پہنچے اور وہاں كے لوگوں سے ملاقات كى _فانطلقا حتّى إذا ا تيا أهل قرية

يہ كہ كون سى آبادى انكى راہ ميں آئي بہت سے احتمالات ہيں ان ميں ايك احتمال يہ ہے كہ وہ شہرناصرہ ہے جو كہ ساحل دريا پر واقع تھا اس كو مجمع البيان نے امام صادق عليہ السلام سے روايت كيا ہے _

۳_حضرت موسى (ع) اورخضر(ع) نے بھوك محسوس كرتے ہوئے شہروالوں ، سے غذا اور خوراك كا تقاضا كيا _

استطعما أهله''يضيّفوهما '' كے قرنيہ كى بناء پر '' استطعام '' سے مرادسفر كو جارى ركھنے كيلئے غذامہيا نہيں چاہى تھى بلكہ حضرت موسى (ع) اور حضرت خضر(ع) اس وقت بھوكے تھے _

۴_شہر والوں ميں سے كوئي بھي، حضرت موسى (ع) اور خضر(ع) كى ميزبانى اورانہيں كھانا كھلانے كيلئے تيار نہيں ہوا_

استطعمإهلها فا بوا أن يضيّفوهم

''ابائ'' سے مراد'' انكا ر كرنا اور نہ كرنا'' ہے _

۵_ جس شہر ميں حضرت موسي(ع) اور حضرت خضر(ع) داخل ہوئے تھے وہاں كے لوگ مہمان كى خدمت اور غريب نوازى جيسى صفات سے عارى تھے _فا بوا ا ن يضيّفوهم

۵۰۵

۶_ مسافروں كى ميزبانى اور راستے كى مشكلات كا شكار ہونے والوں كو كھانا كھلانا، ايك پسنديدہ كام ہے _

استطعما أهلها فا بو ا ا ن يضيّفوهم

حضرت موسى (ع) اور خضر(ع) نے صرف كھانا مانگا ليكن قرآن شہروالوں كى يہ توصيف كررہا ہے كہ انہوں نے مہمان كى خدمت كرنے سے انكار كيا يعنى چاہيے يہ تھا كہ لوگ ان دونوں كو اپنا مہمان بناتے اور غذاكے علاوہ كو ئي بھى چيز دينے سے دريغ نہ كرتے_

۷_پيغمبرى كے مقام پر فائز ہوتے ہوئے بھى لوگوں سے اپنى مادى احتياج كا تقاضا،غير مناسب نہيں ہے _

استطعما ا هله حضرت موسى (ع) اور خضر(ع) نبى تھے پھر بھى انہوں نے لوگوں كے سامنے اپنى احتياج كا اظہار كيا پس معلوم ہوا كہ اس قسم كى درخواست، پيغمبر وں اور اولياء كيلئے نامناسب نہيں ہے _

۸_ حضرت موسى (ع) اور خضر(ع) نے اس آبادى ميں ايك ايسى ديوار كو ديكھا جوگرنے اور خراب ہونے والى تھى _

فوجدا فيها جداراً يريد ان ينقض ''انقضاض'' مادہ'' قضض'' سے ہے اسكا معنى ''بكھر نا'' ہے (قاموس ) فعل ''يريد'' كا استعمال كہ جو عام طور پر با اختيار موجودات كيلئے استعمال ہوتا ہے يہاں بطور استعارہ ہے يعنى ديوار اس حدتك گرنے كے خطرہ ميں تھى كہ گويا خودگرنے اورخراب ہو كر بكھرنے كا عزم كر چكى ہو_

۹_حضرت خضر(ع) نے گر نے والى ديوار كو درست اور تعمير كيا _يريد ا ن ينقضّ فا قامه

۱۰_گرنے والى ديوار كى حضرت خضر(ع) كے ہاتھوں تعمير، شہر كے لوگوں كى نگاہوں كے سامنے انجام پائي _

حتى إذا ا تيا ا هل قرية ...فا قامه

شہر ميں داخل ہو نا اور شہر ميں ديوار كا پايا جانا، جيسا كہ آيت ميں ''فوجدا فيھا جداراً'' كى تعبير سے معلوم ہوتا ہے ممكن ہے اس طرف اشارہ ہو كہ لو گ حضرت خضر(ع) كے افعال كى طرف متوجہ تھے _

۱۱_ حضر ت خضر(ع) نے ديوار كى تعمير اور اسكے كھڑا كرنے ميں حضرت موسي(ع) سے مدد نہيں مانگى _

فأقامه

''أقامه '' كا مفرد آنا ممكن ہے اس حوالے سے ہو كہ ديوار كى تعمير صرف حضرت خضر(ع) كے ہاتھوں انجام پائي اگر چہ اس سے پہلے '' استطعما'' تثنيہ كى صورت ميں آيا ہے يعنى دونوں كے غذا مانگنے كو بيان كيا گيا ہے _

۵۰۶

۱۲_ حضرت خضر(ع) نے ديوار كى تعمير كى اجرت دريافت كرنے كے امكان كے باوجود كوئي چيز دريافت نہيں كى _

قال لو شئت لتخذت عليه أجرا

حضرت موسي(ع) كى طرف سے اجرت دريافت كرنے كى بات اسى صورت ميں درست ہے جب اسكے لينے كا امكان موجود ہو _

۱۳_ با جود اسكے كہ غذا كے حصول كيلئے اجرت كى احتياج تھي، حضر ت خضر (ع) كے اپنے كا م كے مقابلہ اجرت نہ چاہنے پر حضرت موسي(ع) ناراض اور شاكى تھے _استطعما ا هلها ...قالو شئت لتّخذت عليه أجرا

حضرت خضر(ع) اور حضرت موسى (ع) نے لوگوں سے مفت غذاكا مطالبہ كيا چونكہ خريدنے كيلئے انكے پاس رقم نہ تھى لہذا حضرت موسى (ع) نے ديوار كا كام مكمل ہونے پر اجرت كى بات كى تا كہ اس ذريعہ سے غذا خريدى جائے _

۱۴_ حضرت موسى (ع) كے زمانے ميں كام كى اجرت دينے كے نظام كا موجود ہونا_قال لو شئت لتّخذت عليه أجرا

۱۵_ كام كے انجام دينے كے بعد اجرت كى مقدار كا معين كرنا، صحيحاور قابل اجرائہے _لو شئت لتخذت عليه أجرا

۱۶_ كام لينے والے كى در خواست كے بغير انجام ديتے گئے كاموں كے مقابلہ ميں اجرت لينا جائز ہے _لو شئت لتّخذت عليه أجر لوگوں كى بد فطرتى اور پستي، انسان كو كا ر خير اور ذمہ دارى ادا كرنے سے نہ روكے _استطعما ا هلها فا بوا ...فا قامه اگر چہ شہر والے،بد فطرت اور برے تھے ليكن اسى حالت ميں حضرت خضر(ع) نے بغير كسى ناگوار ى كے اپنى ذمہ دارى ادا كى _لوگوں كا سرد رويہ آپكے كام ميں سستى اور دير كا باعث نہ بنا _

۱۸_اجرت حاصل نہ كرنے كے حوالے سے حضرت موسى (ع) كى حضرت خضر(ع) سے شكايت آميز بات اپنے عہد سے تيسرى مخالفت تھى _قال لوشئت لتّخذت عليه أجرا

۱۹_عن جعفر بن محمد (ع) ...''فانطلقا حتّى إذا ا تيإ هل قرية '' وهى الناصرة (۱) امام صادق(ع) سے روايت ہوئي ہے كہ آيت شريفہ ميں قرية سے مراد قريہ ناصرہ ہے _

۲۰_عن جعفر بن محمد (ع)''فوجدا فيها جداراً يريد أن ينقضّ'' فوضع الخضر يده عليه فا قامه (۲)

____________________

۱) علل الشرايع ص۶۱،ب۵۴، بحارالانوار ،ج ۱۳ ،ص۲۸۷،ح۴_

۲)علل الشرايع ص۶۱ ،ب۵۴،ح۱،بحارالا نوار جلد۱۳،ص۲۸۷،ح۴_

۵۰۷

امام صادق(ع) سے روايت نقل ہوئي ہے كہ حضرت خضر(ع) اور حضرت موسى (ع) نے ايك ديوار كو پايا جو گرنے والى تھى حضرت خضر(ع) نے اس پراپنا ہاتھ ركھا اور اسے سيدھا كرديا _

۲۱_عن ا بى عبدالله (ع) : ...فوجدافيها جداراً يريد ا ن ينقضّ فا قامه قال : لوشئت لتّخذت عليه ا جراً خبزاً نا كله فقد جُعنا (۱) امام صادق(ع) سے روايت نقل ہوئي ہے كہ ...حضرت خضر(ع) اور موسي(ع) نے اس آبادى ميں ايك ديوار ديكھى كہ جوگرنے والى تھى تو حضرت خضر(ع) نے اسے سيدھا كيا موسي(ع) نے كہا: اگر آپ چاہتے تو اس كام كى اجرت لے ليتے يعنى روٹى لے ليتے تاكہ ہم كھاليں كيونكہ ہم بھوكے ہيں _

ابن سبيل :ابن سبيل كو كھانا كھلانا۶//اجرت :اجرت كے احكام ۱۵،۱۶

انبياء :انبياء كى مادى ضروريات ۷//پستى :پستى كے آثار ۱۷

خضر (ع) :خضر(ع) سے شكوہ ۱۳;خضر(ع) كا سفر ۲; خضر(ع) كا قصہ۱،۲، ۳، ۴ ،۵،۸،۹،۱۰،۱،۲ ۱،۱۳،۱۸،۱۹،۲۰، ۲۱; خضر(ع) كى اہل ناصرہ سے ملاقات ۲خضر(ع) كى بھوك ۳; خضر(ع) كى غذا كيلئے در خواست ۳; خضر(ع) كى غذا كيلئے در خواست كا رد ہونا ۴;خضر(ع) كے ساتھ عہد شكنى ۱۸; خضر(ع) كے قصہ ميں ديوار كى تعمير ۹،۱۰،۱۱،۲۰;خضر(ع) كے قصہ ميں ديوار كى تعمير كى اجرت ۱۲،۱۳،۲۱;خضر(ع) كے قصہ ميں ديوار كى خرابى ۸;خضر(ع) كے قصہ ميں شہر ۲،۵; خضر(ع) كے قصہ ميں شہر والے ۴; ناصرہ ميں خضر(ع) ۱۹

ذمہ دارى :ذمہ دارى كوپورا كرنے كى اہميت ۱۷

روايت :۱۹،۲۰،۲۱//عمل:پسنديدہ عمل ۶

عمل صالح :عمل صالح كى اہميت ۱۷//كام :كام كى اجرت ۱۵،۱۶

كام لينے والے :كام لينے والوں كا كردار ۱۶//مسافرين :مسافرين كى پذيرائي ۶

موسى (ع) :موسي(ع) كا سفر ۲; موسى (ع) كا شكوہ ۱۳،۱۸;موسى (ع) كا قصہ ۱،۲،۳،۴،۵،۸،۹،۱۰ ،۱۱،۱۲، ۱۳ ، ۱۸ ، ۱۹ ، ۲۰،۲۱;موسى كى اہل ناصرہ سے ملاقات ۲۰; مو سى (ع)

____________________

۱) تفسير عياشيج۲ص،۳۳۳،ح۴۷،نوارالثقلين ، ج ۳،ص۲۷۸،ح۱۵۱_

۵۰۸

كى بھوك ۳; موسى (ع) كى عہد شكنى ۱۸; موسي(ع) كى غذا كيلئے در خواست كا رد ہونا ۴; موسي(ع) كى غذا كيلئے در خواست كرنا ۳; موسى (ع) كى طرف سے مہلت مانگے جانے كا قبول كيا جانا ۸; موسى (ع) كے زمانہ ميں كام كى اجرت ۱۴; موسى (ع) ناصرہ ميں ۱۹

ناصرہ :ناصرہ كے رہنے والوں كى خصلتيں ۵

آیت ۷۸

( قَالَ هَذَا فِرَاقُ بَيْنِي وَبَيْنِكَ سَأُنَبِّئُكَ بِتَأْوِيلِ مَا لَمْ تَسْتَطِع عَّلَيْهِ صَبْراً )

بندہ صالح نے كہا كہ يہ ميرے اور تمھارے درميان جدائي كا موقع ہے عنقريب ميں تمھيں ان تمام باتوں كى تاويل بتادوں گا جن پر صبر تم نہيں كرسكے (۷۸)

۱_ حضرت موسي(ع) كى حضرت خضر(ع) سے كيئے ہوئے عہد كى تيسرى با رمخالفت ( اجرت لينے كى بات كرنا )، دونوں كى آپس ميں جدائي شروع ہونے كا باعث بنى _قال لو شئت لتخذت ...قال هذا فراق بينى و بينك

يہ كہ'' ہذا ''كس چيزطرف اشارہ ہے بہت سے احتمالات ہيں ان ميں سے ايك احتمال يہ بھى ہے كہ يہ حضرت موسى (ع) كى بات كى طرف اشارہ ہو يعني''هذا القول سبب فراق بيننا''

۲_ حضرت خضر(ع) كے كاموں كو تحمل كرنے كے حوالے سے حضرت موسى (ع) كى عاجزي، انكے تيسرے سوال اور اعتراض پر ثابت ہوگئي _قال هذا فراق بينى وبينك سا نبّئك بتا ويل ما لم تستطع عليه صبرا

۳_ حضرت خضر(ع) حضرت موسى (ع) كى آخرى غلطى پر ان سے جدا ہونے كيلئے محكم دليل اور قابل قبول عذر ركھتے تھے _قد بلغت من لدنّى عذراً ...قال لوشئت لتخذت عليه أجراً_ قال هذا فراق بينى و بينك

مندرجہ بالا مطلب كى بناء يہ ہے كہ پچھلى آيت ميں ''قد بلغت '' كى عبارت''ان سا لتك '' كا نتيجہ ہو _

۴_ حضرت خضر(ع) نے حضرت موسى (ع) كو اطمينان دلا يا كہ جدا ہونے سے پہلے انہيں اپنے عجيب وغريب كاموں كے اسرار سے آگاہ كريں گے_سا نبّئك بتاويل مالم تستطع عليه صبرا

۵_ انبياء اور اولياء كے تحمل اور افعال كى نوعيت آپس ميں مختلف ہوتى ہے _سا لنبّئك بتاويل مالم تستطع عليه صبرا

۶_ حضرت خضر كے ظاہر ى طور پر ناقابلقبول كام ، باطن اور صحيح حقيقت پر مشتمل تھے _

۵۰۹

سا نبّئك بتا ويل مالم تستطع عليه صبرا

''تا ويل '' كى بناء ''ا ول ''يعنى '' پلٹا نا'' ہے آيت ميں '' مآل '' كے معنى ميں ہے يعنى وہ حقائق اور مصلحتيں جن كى بناء پر حضرت خضر(ع) كے كام انجام پائيں تو ضرورى ہے كہ ظاہرى طور پر حضرت خضر كے نا گوار كاموں كو انہى مصلحتوں كى طرف لوٹا يا جائے _

۷_ وہ علم جو حضرت موسى (ع) ، حضرت خضر(ع) سے سيكھنا چاہتے تھے وہ واقعات كى تاويل اورتحليل كا علم اور واقعات كے پس پردہ حقائق كى پہچان، كا علم تھا _هل ا تّبعك على أن تعلّمن ممّا علمت سا نبّئك بتاويل ما لم تسطيع عليه صبرا

۸_ حوادث كے رموز كو جاننے كے علم اوركائنات ميں پيدا ہونے والے مسائل كے حقيقى اسباب كو جاننے كى روش، ايك تجرباتى اور عملى روش ہے_سا نبّئك بتا ويل ما لم تستطع عليه صبرا

۹_ حضرت موسى (ع) حواد ث كى تاويل كے علم كو سيكھنے كى روش پر صبر نہيں كر سكتے تھے _

سا نبّئك بتاويل ما لم تستطع عليه صبرا

۱۰_ حوادث كى تاويل او رتحليل كے علم كو حاصل كرنے اور خضر(ع) جيسے علما ء كيصحبت اختيار كرنے كيلئے حضرت موسى (ع) كے صبر سے زيادہ صبر اور ان سے بڑھ كر قوت وتحمل كى ضرورت ہے _سا نبّئك بتا ويل مالم تستطع عليه صبرا

انبياء :انبياء كا صبر۵;انبياء كے درجات ۵//اولياء الله :اولياء الله كا صبر ۵;اوليا ء الله كے درجات ۵

حوادث:حوادث كى تحليل كے علم كا حصول ۷، حوادث كى تحليلكے علم كوحاصل كرنے كى روش ۸، حوادث كى تحليل كے علم كو حاصل كرنے كى شرائط ۱۰//خضر :خضر(ع) پر اعتراض ۲; خضر(ع) سے سيكھنا ۷;خضر(ع) كا عذر ۳; خضر(ع) كا قصہ ۱،۲،۳،۴; خضر(ع) كى ہم نشينى كى شرائط ۱۰; خضر(ع) كى ہم نشينى ميں صبر ۱۰; خضر(ع) كے ساتھ عہد شكنى ۱;خضر(ع) كے عمل كا راز۴،۶//علماء :علماء كى ہم نشينى كى شرائط ۱۰; علماء كى ہم نشينى ميں صبر ۱۰

موسى (ع) :موسى (ع) اور حوادثكى تحليل كا علم ۹;موسى (ع) اور خضر كى جدائي ۱،۳;موسى (ع) كا اعتراض ۲;موسى (ع) كا عجز ۲; موسى (ع) كا علم غيب ۷ ; موسى (ع) كا قصہ ۱،۲، ۳، ۴; موسى (ع) كى بے صبر ى ۲،۹; موسى (ع) كى خواہشات ۷; موسى (ع) كى عہد شكنى ۱

۵۱۰

آیت ۷۹

( أَمَّا السَّفِينَةُ فَكَانَتْ لِمَسَاكِينَ يَعْمَلُونَ فِي الْبَحْرِ فَأَرَدتُّ أَنْ أَعِيبَهَا وَكَانَ وَرَاءهُم مَّلِكٌ يَأْخُذُ كُلَّ سَفِينَةٍ غَصْباً )

يہ كشتى چند مساكين كى تھى جو سمندر ميں باربرداردى كا كام كرتے تھے ميں نے چاہا كہ اسے عيب دار بنادوں كہ ان كے پيچھے ايك بادشاہ تھا جو ہر كشتى كو غصب كرليا كرتا تھا (۷۹)

۱_ كشتى كو عيب دار بنانے سے حضرت خضر(ع) كا مقصد يہ تھا كہ اسے غاصب بادشاہ كے لوٹنے سے نجات دلائي جائے_

أما السفينة ...فا ردت ا ن أعيبها ...يأخذ كلّ سفينة غصبا

اگر چہ يہ كافى تھا كہ حضرت خضر(ع) كہتے كہ ميں نے اسے عيب دار بنايا ليكن انہوں نے كہا ہے كہ ميں نے پختہ ارادہ كيا كہ اسے عيب دار بناؤں تا كہ يہ نكتہ بيان كريں كہ جو كچھ كيا توجہ كے ساتھ اور اسكو غصب سے بچانے كيلئے كيا _

۲_ حضرت خضر(ع) كے ہاتھوں سوراخ ہونے والى كشتى ايكمسكين گروہ كى ملكيت ميں تھى اور انكے حصول رزق كا فقط يہى وسيلہ تھا _فكانت لمساكين يعملون فى البحر

۳_ حضرت موسى (ع) كے زمانہ ميں كشتى اور دريائي حمل ونقل در آمد كے ذارئع تھے _فكانت لمساكين يعملون فى البحر

۴_ قرار دا د كے ساتھ باہم شراكت جائز ہے اور گذشتہ اديان ميں بھى يہ چيز موجود تھى _فكانت لمساكين يعملون فى البحر

۵_ محروم لوگوں كى آخرى حد تك پشت پناہى اور انكے فائدہ كيلئے مخفيانہ كوشش، حضرت خضر(ع) كى ذمہ داريوں ميں سے تھى _فا ردت ا ن اعيبها وكان وراء هم ملك يا خذ كل سفينة غصبا

۶_كام اور در آمد كا ہونا، محروم لوگوں پر'' مسكين ''كا عنوان ،صادق آنے سے مانع نہيں ہے _وامَّا السفينةفكانت لمساكين

اگرچہ كشتى والوں كے پاس كشتى اور در آمد تھى ليكن ان پر لفظ ''مسكين '' كا اطلاق ہوا ہے لہذا كسى طرح كا كام اور در آمدكانہ ہونا، عنوان ''مسكين '' كے صادق آنے سے تعلق نہيں ركھتا ہے _

۷_ حضرت موسى (ع) اور خضر(ع) كى داستان كے زمانہ ميں ايك ظالم اور غاصب حكومت موجود تھي_وكان وراء هم ملك يا خذ كل سفينة غصبا ''ورائ'' ہر پوشيدہ جگہ كو كہتے ميں خواہ وہ سامنے ہى كيوں نہ ہو ( قاموس )اس بناء پر غاصب سلطان، مساكين اور كشتى والوں كے پيچھے لگا ہوا تھا يا ان كے آگے تھا اورانہوں نے دوران سفراس كاسامنا كرنا تھا_

۵۱۱

۸_ حضرت موسى (ع) اور خضر(ع) كى داستان كے زمانہ ميں ايك بادشاہ، تمام صحيح وسالم كشتيوں كو اس علاقہ ميں قبضہ ميں لے ليتا تھا _وكان وراء هم ملك يا خذ كل سفينة غصبا

''ا ن اعيبہا '' كے قرينہ سے يہاں '' كل سفينة'' سے مراد ''كل سفينة صالحة'' ( پر صحيح و سالم كشتى )ہے _

۹_ لوگوں كے مال و متاع پر قبضہ كرنا، چاہے حاكموں كى طرف سے ہى كيوں نہ ہو ايك غلط چيز ہے _

وكان وراء هم ملك يا خذ كل سفينة غصبا

۱۰_ حضرت خضر(ع) اورموسى (ع) كو سوار كرنے والى كشتى كا معيوب ہونا موجب بنا كہ بادشاہ اسے قبضہ ميں لينے سے باز رہا _فا ردت ا ن ا عيبها وكان وراء هم ملك يا خذ كل سفينة غصبا

۱۱_ ايك بڑے اور يقينى نقصان سے بچانے كيلئے كسى كے مال كو ضرر پہنچانا جائز ہے _

فا ردت ا ن ا عيبها وكان وراء هم ملك يا خذ كل سفينة غصبا

۱۲_ الله تعالى كے خاص اوليائ، غاصب حاكموں كو ناكام بنانے اور محروم لوگوں كے حقوق كى حفاظت ميں كو شان ہوتے ہيں _فا دت ا ن ا عيبها وكان وراء هم ملك يا خذكل سفينة غصبا

۱۳_ كشتى كے حوالے سے حضرت خضر(ع) كا عمل، اس قانون كا ايك مصداق اورنمونہ ہے كہ جس ميں مہم چيز كے ساتھ ٹكراؤ ميں اہم چيز كو ترجيح دى جاتى ہے_وامَّا السفينة فكانت لمساكين ...يا خذ كل سفينة غصبا

۱۴_ حضرت خضر(ع) بعض پيش آنے والے حادثات سے آگاہ تھے اور انكے مقابلہ ميں احساس ذمہ دارى ركھتے تھے _

وكان وراء هم ملك يا خذ كل سفينة غصبا

احكام :۴اولياء الله :

۵۱۲

اولياء الله كى ذمہ دارى ۱۲; اولياء الله كى ظلم سے جنگ ۱۲

حمل و نقل :حمل ونقل كى تاريخ ۳

خضر (ع) :خضر(ع) كا ذمہ دارى قبول كرنا۱۴; خضر(ع) كا علم غيب ۱۴; خضر(ع) كى ذمہ دارى ۵;خضر(ع) كا قصہ ۱، ۸،۱۳;خضر(ع) كے زمانہ ميں حكومت ۷;خضر(ع) كے زمانہ ميں كشتيوں كا قبضہ ميں ليا جانا ۸; خضر (ع) كے قصہ ميں بادشاہ كا ظلم ۷،۸;خضر(ع) كے قصہ ميں بادشاہ كا لوٹ مار كرنا ۱;خضر(ع) كے قصہ ميں كشتى كے مالكوں كا فقير ہونا ۲; خضر(ع) كے قصہ ميں كشتى كے مالكوں كا محروم ہونا ۲; خضر(ع) كے قصہ ميں كشتى كے قبضہ ميں ليے جانے سے مانع ۱۰;خضر(ع) كے قصہ ميں كشتى ميں سوارخ كا فلسفہ ۱،۱۳;خضر(ع) كے قصہ ميں كشتى ميں سوارخ كرنے كے آثار ۱۰

شراكت :شراكت كے معاملہ كا جائز ہونا ۴; اديان ميں شراكت كا معاملہ ۴; شراكت كے معاملہ كى تاريخ ۴; شراكت كے معاملہ كے احكام ۴

غصب :غصب كا ناپسنديدہ ہونا ۹

مساكين :مساكين سے مراد ۶;مساكين كا كام ۶; مساكين كى حمايت ۵; مساكين كى در آمد ۶; مساكين كے مال و متاع كى حفاظت ۱۲

معيار :معيار ميں مقابلہ ۱۳

موسى (ع) :موسى (ع) كا قصہ ۸; موسى (ع) كے زمانہ ميں حكومت ۷; موسى (ع) كے زمانہ ميں حمل ونقل كے ذارئع ۳; موسى (ع) كے زمانہ ميں كسب كے زرائع ۳; موسى (ع) كے زمانہ ميں كشتيوں كا غصب ۸; موسى (ع) كے زمانہ ميں كشتى رانى ۳

آیت ۸۰

( وَأَمَّا الْغُلَامُ فَكَانَ أَبَوَاهُ مُؤْمِنَيْنِ فَخَشِينَا أَن يُرْهِقَهُمَا طُغْيَاناً وَكُفْراً )

اور يہ بچّہ _ اس كے ماں باپ مومن تھے اور مجھے خوف معلوم ہوا كہ بہ بڑا ہوكر اپنى سركشى اور كفر كى بناپر ان پر سختياں كرے گا (۸۰)

۱_ حضرت خضر(ع) كا لڑكے كو قتل كرنے كا مقصد، اسكے والدين كو كفر و طغيان سے بچانا تھا _

۵۱۳

وا مَّا الغلام ...فخشينا أن يرهقهما طغياناً وكفرا

''إرہاق'' سے مراد كسى كو ايسے كام پرآمادہ كرنا كہ جو اسكے ليے انجام دينا انتہائي مشكل و سخت ہو (قاموس )

۲_حضرت خضر (ع) كے ہاتھوں ، قتل ہونے والے نوجوان كے والدين، مؤمن و سر كشى اور نافرمانى سے دور لوگ تھے _فخشينا ا ن يرهقهما طغياناً وكفرا

''طغيان '' بہت زيادہ نافرمانى كى راہ ميں آگے نكل جانا ( مفرادت راغب )

۳_ وہ نوجوان كہ جسے حضرت خضر(ع) نے قتل كيا وہ كا فر تھا_وا مَّا الغلام فكان ا بواه مؤمنين

نوجوان كے والدين كے ساتھ فقط مؤمن كا لفظ آنا بتاتا ہے كہ وہ كا فر تھا اوريہ كہ وہ والدين كو كفر كى طرف مائل كرنے ميں اثر انداز ہو سكتا تھا يہ بھى اسكے كفر كى تائيد كر رہا ہے _

۴_ مقتول نوجوان كے والدين ،اپنے بيٹے كے زندہ رہنے كى صورت ميں اس كے ہاتھوں متاثر ہو كر نہ چاہتے ہوئے بھى سركشى اوركفر كى طرف چلے جاتے _فكان ا بواه مؤمنين فخشينا ا ن يرهقهم

۵_ مؤمنين كے ايما ن كى حفاظت اور انہيں كمزورى اورنابودى سے محفوظ ركھنے كى كوشش كرنا، حضرت خضر(ع) كى ذمہ داريوں ميں سے تھا _فخشينا ا ن يرهقهماطغياناً و كفرا

۶_ ايمان، انتہائي قيمتى گوہر ہے كہ كوئي چيز اسكا مقابلہ نہيں كرسكتى _فكان ا بواه مؤمنين فخشينا ا ن يرهقهما طغياناً وكفر الله تعالى نے والدين كے ايمان كى حفاظت كيلئے انكے عزيز فرزند كوان سے جدا كردياتاكہ انكاايمان محفوظ رہے ايسا ايمان ايك قيمتى متاع ہے كہ جس پر بيٹے كى قربانى آسان ہے _

۷_ الله تعالى كى پوشيدہ حماتيوں كے حامل مؤمنين، كفر اور معصيت سے دور ہيں _فكان ا بواه مؤمنين فخشينا ا ن يرهقهم

۸_ حضرت خضر، الہى احكام پر عمل كرنے والے تھے نہ كہ اپنى ذاتى خواہشات كو پورا كرتے تھے _فخشينا ا ن يرهقهم

''خشينا '' ميں ضمير ''نا '' مندرجہ بالا مطلب پر اشارہ ہوسكتى ہے _ بعد والى آيات ميں جملہ ''وما فعلتہ عن ا مرى '' بھى اسى نكتہ كى وضاحت كررہا ہے _

۹_ اولاد كا صالح نہ ہونا، والدين كے كفر اور سركشى كى طرف ميلان كا باعث ہو سكتا ہے _

فكان ا بواه مؤمنين فخشينا ا ن يرهقهما طغياناً وكفرا

۱۰_ انسان كے جبلى احساسات، اسكے معنوى اور ايمانى ميلانات ميں اہم اثر ركھتے ہيں _

۵۱۴

فكان ا بواه مؤمنين فخشينا ا ن يرهقهما طغياناً وكفرا

حضرت خضر(ع) بيٹے كو والدين سے لے ليتے ہيں تا كہ وہ اپنے فطرى تعلقات اور احساسات كى وجہ سے كفر اور سركشى كى طرف مائل نہ ہوں _ يہ نكتہ بتارہاہے كر ميلانان_ احساسات سے متاثر ہوتے ہيں _

۱۱_كفر اور سر كشيميں اضافہ كے اسباب سے مقابلہ كرنا اور انہيں آگے بڑ ھنےسے رو كنا ضرورى ہے_فخشينا ا ن ير هقهما طغياناً و كفرا اگر چہ حضرت خضر(ع) كا كام غيب اور اسرار سے آگاہ ہونے كى بناء پر تھا ليكن يہ كفر كو بڑھنے سے روكنے اور اسكے سبب كو ختم كرنے كى ضرورت كوبتا رہا ہے _

۱۲_ سر كشى اور الہى حدود سے تجاوز، انسان كے كفر كى طرف مائل ہونے كا باعث ہے _ير هقهما طغياناً و كفرا

احتمال يہ ہے كہ طغيان كو كفر پر مقدم كرنے كى وجہ يہ ہوكہ طغيان ميں مبتلا ء ہونا، كفر كى طرف جانے كى وجہ ہے_

۱۳_ الله تعالى كا والدين كے ايما ن كى حفاظت كرنا ، انكے بچوں كيلئے بعض ناگوار حادثات پيدا ہونے كا باعث ہے _

فكان ا بواه مؤمنين فخشينا ا ن يرهقهما طغياناً وكفرا

۱۴_ مؤمن كا بعض مشكلات اورنقائص ميں مبتلا ہونا اسكے ايمان كے محفو ظ رہنے كا فلسفہ ہے _

فكان ا بواه مؤمنين فخشينا ا ن يرهقهم

احساسات :احساسات كے آثار ۱۰

الله تعالى كى حدود :الله تعالى كى حدود سے تجاوز كرنے كے آثار ۱۲

الله تعالى كى حمايتيں :الله تعالى كى حمايتوں كے شامل حال لوگ ۷الله تعالى كے كام كرنے والے :۸

اقدار:۶

ايمان :ايمان كا باعث ۱۰;ايمان كى قدرو قيمت ۶

خضر (ع) :خضر(ع) كا كردار ۸; خضر(ع) كا كفر سے مقابلہ كرنا ۱;خضر(ع) كا قصہ ۱،۴;خضر(ع) كى ذمہ دارى ۵; خضر(ع) كے قصہ ميں نوجوان كا كفر ۳; خضر(ع) كے قصہ ميں نوجوان كا كردار ۴;خضر(ع) كے قصہ ميں نوجوان كے قتل كا فلسفہ ۱;خضر(ع) كے قصہ ميں نوجوان كے والدين كا ايمان ۲;خضر(ع) كے قصہ ميں نوجوان كے والدين ۱،۴; خضر(ع) كے قصہ ميں نوجوان كے والدين كا مطيع ہونا ۲

سركشى :سر كشى سے مقابلہ كرنے كى اہميت ۱۱; سركشى كا پيش خيمہ ۹ ;سر كشى كے آثار ۱۲

۵۱۵

فرزند :خراب فرزند كا كردار ۹;فرزند كى مشكلات كا باعث ۱۳

كفر :كفر سے مقابلہ كرنے كى اہميت ۱۱; كفر كا پيش خيمہ ۹،۱۲

مؤمنين :مؤمنين اور كفر ۷; مؤمنين اورگناہ ۷; مؤمنين كا محفوظ ہونا ۷،۱۴;مؤمنين كى حمايت۵; مؤمنين كے امتحان كا فلسفہ ۱۴; مؤمنين كے فضائل۷

ميلانات :معنوى ميلانات كا باعث ۱۰

والدين :والدين كے ايمان كى حفاظت ۱۳

آیت ۸۱

( فَأَرَدْنَا أَن يُبْدِلَهُمَا رَبُّهُمَا خَيْراً مِّنْهُ زَكَاةً وَأَقْرَبَ رُحْماً )

تو ميں نے چاہا كہ ان كا پرورگار انھيں اس كے بدلے ايسا فرزند ديدے جو پاكيزگى ميں اس سے بہتر ہو اور صلہ رحم ميں بھى (۸۱)

۱_ نوجوان كو قتل كرنے سے حضرت خضر(ع) كا مقصد اسكے والدين كيلئے پرہيز گار اور مہربان بيٹے كو حاصل كرنے كى فضاتيار كرنا تھا _فا ردنا ا ن يبدلهما ربّهما خيراً منه ذكوة وا قرب رحما

آيت ميں ''زكاة'' سے مراد طہارت اور گناہوں سے پاكيزگى ہے ''رحم'' اور ''رحمت'' كا ايك معنى ہے_ اگر چہ حضرت خضر نے اپنى اس كلام ميں مقتول نوجوان كيلئے پاكيزگى اور مہربان ہونے كا انكار نہيں كيا ليكن ممكن ہے حضرت موسى (ع) كى بات سے متناسب كہ انہوں نے مقتول نوجوان كو ''نفس ذكيہ '' كا عنوان ديا اپنى كلام كو انہوں نے اسم تفضيل كے قالب مين بيان كيا تھے ليكن حقيقت ميں مقتول نوجوان رحمت و پاكيزگى سے عارى تھا يااس كا انجام آخر گناہ اور بے رحمى تھا_

۲_ حضرت خضر (ع) اور انكے مانند دوسرے لوگ، الله تعالى كے ارادہ كو عملى جامہ پہنانے والے ہيں _

فا ردنا أن يبد لهما ربّهم ''أردنا '' والى كلام ميں اگر چہ كہنے والے صرف حضرت خضر(ع) تھے _ ليكن ضمير، جمع كى لائي گئي ہے اس سے معلوم ہوتا ہے كہ حضرت خضر(ع) چاہتے تھے يہ نكتہ سمجھا ئيں كہ وہ اس عزم ميں تنہا نہيں تھے بلكہ انكے كام كے پيچھے الہى ارادہ كا ر فرما تھا دو سرے طرف ''ربّ'' كو ''يبدل '' كيلئے فاعل ذكر كيا تا كہ اس واقعہ كے حقيقى كردار كو واضح كريں اور اپنے ارادہ كو الله تعالى كے ارادہ كے تحت ہونے كو بيان كريں _

۵۱۶

۳_ غير صالح فرزند كواٹھا كر اسكى جگہ صالح فرزند عطا كرنا ،مؤمن والدين كيلئے الله تعالى كى ربوبيت كا ايك جلوہ ہے _

يبد لهما ربّهما خيراً منه

۴_ صالح اور مہربان فرزند كى عطا، ايك الہى نعمت ہے _يبد لهما ربّهما خيراً منه زكوة وا قرب رحما

۵_ بعض مصيبتوں اورناگوار حادثات ميں مؤمن كيلئے مصلحت اور خير ہوتى ہے _

وا مّا الغلام ...فا ردنا ا ن يبد لهما ربّهما خيراً منه زكوة وا قرب رحما

۶_ ايك شائستہ فرزند كى خصوصيات ميں سے اسكا پاك و صالح اور والدين كى نسبت بہت محبت كرنے والاہونا ہے _

يبد لهما ربّهما خيراً منه زكوة وا قرب رحما

۷_ الله تعالي، مؤمن كا پشت پناہ اور اسكى خيرو مصلحت كافيصلہ كرنے والا ہے _

فكان ا بواه مؤمنين ...فا ردنا أن يبد لهما ربّهما خيراً منه زكوة

۸_عن أبى عبدالله (ع) فى قول الله :''فا ردنا أن يبد لهما ربّهما خيراً منه ...''قال ا نه ولدت لهما جاريةفولدت غلاماً فكان نبياً (۱) امام صادق (ع) ، الله تعالى كى اس كلام ''فا ردنا أن يبدلہما ربّہما خيراً منہ ...''كے بارے ميں فرماتے ہيں كہ بے شك مقتول كے والدين كے ہاں ايك بيٹى پيدا ہوئي اور اس بيٹى سے ايك بيٹا پيدا ہوا كہ جو مقام نبوت پر فائز ہوا _

۹_عن ا بى عبدالله (ع): ...''فى قول الله عزوجل : فا ردنا أن يبد لهما ربّهما خيراً منه زكاة وا قرب رحماً '': ا بدلهما الله به جارية ولدت سبعين نبيا ...'' (۲)

امام صادق عليہ السلام سے الله تعالى كى اس كلام''فأردنا أن يبد لهما ربّهما خيرا ً منه زكوة'' كے بار ے ميں روايت ہوئي كہ الله تعالى نے مقتول كے والدين كو اسكى جگہ ايك بيٹى عطا كى جس كى نسل سے ستر انبياء پيدا ہوئے ...''

الله تعالى :الله تعالى كى خير خواہى ۷; الله تعالى كى ربوبيت كى علامات ۳; الله تعالى كى نعمات ۴;اللہ تعالى كے ارادہ كے تحت چلنے والے ۲//الله تعالى كى پشتى پناہى :الله تعالى كى پشت پناہى كے شامل حال لوگ ۷

انبياء :انبياء كا كردار ۲

خضر (ع) :خضر(ع) كا كردار ۲;خضر(ع) كا قصہ ۱،۸،۹; خضر(ع) كے قصہ ميں نوجوان كے قتل كا فلسفہ ۱; خضر(ع) كے قصہ ميں نوجوان كے والدين ۱;خضر(ع) كے قصہ ميں نوجوان كے والدين كى نسل ۸،۹

____________________

۱)تفسير عياشى ج۲ ، ص۳۳۶، ح۵۹، نورالثقلين ج۳ ، ص۲۸۶، ح۱۷۰_۲) كافى ج۶ ،ص۷ ،ح۱۱،نورالثقلين ج۳ ، ص۲۸۶، ح ۱۷۴_

۵۱۷

روايت :۸،۹

فرزند :صالح فرزند كا پاك ہونا ۶; صالح فرزند كا جگہ لينا ۳; صالح فرزند كى صفات۶; صالح فرزند كي

مہربانى ۶; فاسد فرزند كى ہلاكت ۳

مصيبتں :مصيبتوں كا خير ہونا ۵; مصيبتوں كا فلسفہ ۵

مؤمنين :مؤمنين كا پشت پناہ ۷;مؤمنين كى مصلحتيں ۵، ۷; مؤمنين كيلئے خيرخواہ ہونا ۷

نعمت :صالح فرزند كى نعمت ۴; مہربان فرزند كى نعمت ۴

والدين :والدين كے ساتھ مہربانى ۶

آیت ۸۲

( وَأَمَّا الْجِدَارُ فَكَانَ لِغُلَامَيْنِ يَتِيمَيْنِ فِي الْمَدِينَةِ وَكَانَ تَحْتَهُ كَنزٌ لَّهُمَا وَكَانَ أَبُوهُمَا صَالِحاً فَأَرَادَ رَبُّكَ أَنْ يَبْلُغَا أَشُدَّهُمَا وَيَسْتَخْرِجَا كَنزَهُمَا رَحْمَةً مِّن رَّبِّكَ وَمَا فَعَلْتُهُ عَنْ أَمْرِي ذَلِكَ تَأْوِيلُ مَا لَمْ تَسْطِع عَّلَيْهِ صَبْراً )

اور يہ ديوار شہر كے در يتيم بچّوں كى تھى اور اس كے نيچے ان كا خزانہ دفن تھا اور ان كا باپ ايك نيك بندہ تھا تو آپ كے پروردگار نے چاہا كہ يہ دونوں طاقت و توانائي كى عمر تك پہنچ جائيں اوراپنے خزانے كو نكال ليں _ يہ سب آپ كے پروردگار كى رحمت ہے اور ميں نے اپنى طرف س كچھ نہيں كيا ہے اور يہ ان باتوں كى تاويل ہے جن پر آپ صبر نہيں كرسكے ہيں (۸۲)

۱_ حضرت خضر(ع) نے حضرت موسى (ع) كيلئے پرانى ديوار كو تعمير كرنے كى وجہ بيان كى _وا مَّا الجدار ...ما فعلته عن أمري

۲_ حضرت خضر(ع) كے ہاتھوں ، تعمير ہونے والى ديوار دو يتيم لڑكو ں كى ملكيت ميں تھى _وا مَّإلجدار فكان لغلمين يتيمين

۳_ باوجود اسكے كہ ديوار كے مالك اس آبادى ميں نہيں تھے حضرت خضر(ع) نے ديوار كى تعمير كى _

فكان لغلمين يتيمين فى المدينة

يہ احتمال بے كہ اس آيت ميں پچھلى آيات كى مانند ''القرى ة '' آنے كى بجائے ''المدينہ '' آنا شايد اس جہت كيلئے ہو كہ وہ دونوں يتيم لڑكے اس آبادى ميں نہيں تھے بلكہ كسى اور شہر ميں تھے اور وہ شہر جيسا كہ '' المدينہ '' الف و لام سے معلوم ہوتا ہے كہ حضرت خضر(ع) اور موسى (ع) كيلئے جانا پہچانا تھا _

۵۱۸

۴_ديوار كو تعمير كرنے سے حضرت خضر(ع) كا مقصد يہ تھا كہ شہرميں رہنے والے دونوں لڑكوں كا خزانہ اسكے نيچے محفوظ رہے _وا مَّا الجدار فكان لغلمين يتيمين فى المدينه وكان تحته كنزلهم

۵_ حضرت خضر(ع) ديوار كے مالكوں كے والد كے بارے ميں جانتے تھے اوراسكى زندگى كى اچھائيوں اوراعمال صالح سے با خبر تھے _وكان ا بوهما صلح

۶_ باپ كا صالح ہونا، حضرت خضر كے ان يتيم بچوں كےمفادات كى حمايت كرنے كا سبب بنا _وا مَّا الجدار فكان لغلامين يتيمين ...وكان أبوهماصالح جملہ '' وكان أبوہما صالحاً'' ديواركو تعمير كرنے كى علت ہے_

۷_ يتيموں كے باپ كا نيك اور صالح ہونا،ان دونوں كا بڑ ے ہوكر اپنے پوشيدہ خزانے كو پانے كے الہى ارادے كا سرچشمہ تھا_و كان أبوهما صالحا ً فا راد ربّك أن يبلغاً أشدّ هما و يستخرجا كنزهم

كلمہ ''اشد'' جمع كے ہم وزن مفرد ہے يا ايسى جمع ہے كہ جسكا مفرد نہيں ہے اسميں اہل لغت كا اختلاف ہے بعض اسے ''شدة'' كى جمع سمجھتے ہيں (لسان العرب) بہر صورت اس سے مراد ، جسمانى اور عقلى بلوغ اور استحكام ہے _

۸_ صالح افرادكے بچوں كے ساتھ انكے والدين كى اچھائي كى بناء پر مناسب رويہ ضرورى ہے _

و كان ا بوهماصالحاً فا رادربّك

۹_ باپ كا صالح اور شائستہ ہونا، بچوں كے سعادت مند اور نيك بخت ہونے ميں مو ثر ہے _

كان ا بوهما صالحاً فا راد ربّك أن يبلغاً ا شدهما ويستخرجا كنزهم

۱۰_صالح افراداور انكے بچوں كے مفادات كى حفاظت ميں اللہ تعالى كے غيبى اسباب، دخالت ركھتے ہيں _

فا راد ربّك أن يبلغا أ شدّ هما ويستخرجا كنزهمارحمةمن ربّك

ديوار كى تعمير اور يتيموں كے مفادات كى حفاظت اگرچہ ايك خاص واقعہ ہے ليكن آيت ميں عمومى پيغام ہے اوروہ يہ كہ والدين كے اعمال صالحہ كى بناء پر بچوں كے مفادات كى بھى حفاظت ہوگى _

۱۱_ضرورت مند بچوں كے مستقبل كى خاطر كچھ مال و متاع، بچا كر ركھنا ايك شائستہ كام ہے _

وكان تحته كنزلهماوكان أبوهماصالحا

اس مطلب ميں فرض يہ ہوا ہے كہ يتيموں كے باپ نے اپنے بچوں كے مستقبل كى خاطر كچھ مال ديوار كے نيچے چھپا ياہے اسكے صالح ہونے كے اعتبار سے تعريف، يہ نكتہ دے رہى ہے كہ اسكى دور انديشى بھى بہت مناسب تھى اور حضرت

۵۱۹

خضر(ع) كا اس پوشيدہ خزانے كى حفاظت كرنا اوراس واقعہ كى خصوصيات كا قران ميں آنا اس شخص كى اچھى تدبير سے حكايت كررہاہے _

۱۲_استحكام اور عقلى بلوغ، اموال ميں تصرف كے جائز ہونے كى شرط ہے _فا راد ربّك ا ن يبلغا ا شدّهما ويستخرجا كنزهم

۱۳_اللہ تعالى كى طرف سے صالح باپ كے يتيم بچوں كى پشت پناہى اور انكے اموال كى حفاظت، اسكى رحمت وربوبيت كا ايك جلوہ تھى _فا رادربّك رحمة من ربّك '' رحمة''فعل ''ا راد'' كيلئے مفعول لہ ہے يعنى يتيم بچوں كے خزانے كے باقى رہنے كے سلسلہ الله تعالى كا ارادہ، اسكى رحمت كى بناء پر تھا_

۱۴_يتيموں اورصالح افراد كے لواحقين كى مددكرنا اور انكے اموال كى حفاظت، الله تعالى كے نزديك پسنديدہ كام ہے _

فا رادربّك ...رحمة من ربّك

۱۵_ الله تعالى كى رحمت، اسكى ربوبيت كا جلوہ ہے _رحمة من ربّك

۱۶_ حضرت خضر(ع) نے حضر ت موسى (ع) كو وسيع الہى تدبير كى طرف توجہ كرتے ہوئے، يتيموں كے اموال كى حفاظت كا سرچشمہ الله تعالى كى وسيع ربوبيت كوقرار ديا_فا راد ربّك

حضر ت خضر(ع) نے '' ربّ'' كوضمير خطاب كى طرف (ربّك) مضاف كرتے ہوئے حضرت موسى (ع) كے ليے يہ نكتہ بيان كيا كہ اگرچہ ديوار كى تعمير نے آپكوغذا فراہم كرنے اور جسمانى تربيت ميں كوئي مدد نہيں كى ليكن آپكا مالك ومدبر ، يتيموں كا مالك و مدبر بھى ہے _

۱۷_حضرت خضر(ع) نے سب عجيب وغريب كام، الله تعالى كے حكم كى بناء پر انجام ديئےن ميں انكى كوئي ذاتى رائے شامل نہيں تھى _رحمة من ربّك وما فعلته عن ا مري

''مافعلتہ'' ميں مفعول كى ضمير ،آيت كے ذيل كے قرينہ كى مددسے ان تمام كا موں كے جامع كى طرف لوٹ جاتى ہے مثلاً'' جوكچھ تونے ديكھا'' ''ياوہ جوميں نے انجام ديا''_

۱۸_حضرت خضر(ع) ، الله تعالى كے فرمان كے سامنے سرتسليم خم كيے ہوئے تھے _رحمة من ربّك وما فعلته عن ا مري حضرت خضر(ع) نے موسي(ع) كوقانع كرنے كيلئے اپنے تمام كاموں كواللہ تعالى كے فرمان كى طرف نسبت دى _

۱۹_اللہ تعالى اپنے ارادہ كو پايہ تكميل تك پہنچا نے اور اس كودائر ہ عمل ميں لانے كيلئے اسباب وعلل سے كام ليتاہے

۵۲۰

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

اولاد كے زيادہ ہونے سے عزت كا حصول۵

بت پرستي:بت پرستى ميں عزت كا حصول ۳

بعثت سے ملى ہوئي:بعثت سے ملى ہوئي تاريخ ۱

سعادت:سعادت كے اسباب ۴

عبادت:الله كى عبادت كے آثار۴

مال :مال سے عزت كا حصول۵

مشركين:صدر اسلام كے مشركين اور عزت۲; صدر اسلام كے مشركين كى بت پرستى ۱; صدر اسلام كے مشركين كى بت پرستى كا فلسفہ ۲; صدر اسلام كے مشركين كى جن پرستى ۳; صدر اسلام كے مشركين كى رائے ۲; صدر اسلام كے مشركين كے باطل مبعودوں كا زيادہ ہونا ۱; مشركين كى بت پرستى كا سبب۳; مشركين كى فكر ۵; مشركين كى ملائكہ پرستى كاسبب۳

آیت ۸۲

( كَلَّا سَيَكْفُرُونَ بِعِبَادَتِهِمْ وَيَكُونُونَ عَلَيْهِمْ ضِدّاً )

ہرگز نہيں عنقريب يہ معبود خود ہى ان كى عبادت سے انكار كرديں گے اور ان كے مخالف ہوجائيں گے (۸۲)

۱_ غير خدا كى پرستش كبھى بھى عزت كا باعث نہيں ہے_ليكونوا لهم عزّاً_ كل

لفظ ''كلاّ'' مشركين كے اس گمان كا انكار ہے كہ وہ معبود وں كى پرستش كو اپنى عزت كا باعث سمجھتے تھے_

۲_ روز قيامت، مشركين كے معبود مشركين كى عبادتوں كے باطل اور فضول ہونے كو بر ملا اور اس سے اظہار برائت كريں گے_سيكفرون بعبادتهم ويكونون عليهم ضدّا

آيت ميں موجود ضمير وں كے بارے ميں احتمالات ذكر ہوئے ہيں كہ ان ميں سے ايك يہ ہے كہ '' يكفرون'' اور ''يكونون'' كى ضمير ''الہة'' كى طرف لوٹ رہى ہے اور'' بعبادتہم'' اور'' عليہم ''كى ضمير ،مشركين كى طرف لوٹ رہى ہے مندرجہ بالا مطلب اسى اساس پرہے_كہا گيا ہے كہ'' كفر'' مختلف معانى مثلاً انكار اور برائت و غيرہ ميں استعمال ہوتا ہے(لسان العرب) اس آيت ميں بھى ''ويكونون عليہم ضداً'' كے قرينہ سے برائت كرنے اور ذمہ دارنہ ہونے كے معنى ميں ہے_

۷۸۱

۳_ روز قيامت، مشركين كے معبود اپنى پوجا كرنے والوں كى مخالفت اوردشمنى كريں گے_ويكونون عليهم ضدا

۴_ روز قيامت مشركين كے معبود مشركين كى ذلت و خوارى كا باعثبنيں گے_عزّا ...ويكونون عليهم ضدا

۵_ الله تعالى كے سوا ہر چيز كى پرستش روز قيامت ذلت و خوارى كا باعث ہے_

من دون الله ء الهة ليكونوا لهم عزّاً ويكونون عليهم ضدا

۶_ قيامت، مشركين اور انكے معبودوں كو حاضر اور انكا حساب لينے كا دن ہے_سيكفرون بعبادتهم ويكونون علهيم ضدا

۷_ روز قيامت حقائق كے ظہور ، شرك كے باطل ہونے اور مشركين كے بنائے ہوئے مبعودوں كا انہيں عزت بخشنے سے عاجز ہونے كا دن ہے_سيكفرون بعبادتهم ليكونوا لهم عزّا

۸_ روز قيامت ،مشركين جعلى معبودوں كى پرستش اور بندگى كا انكار كريں گے اور ان سے مخالفت اور دشمنى كااظہار كريں گے_سيكفرون بعبادتهم و يكونون عليهم ضدا

مندرجہ بالا مطلب ميں ''يكفرون'' اور'' يكونون''كى ضمير كا مرجع مشركين اور ''بعبادتہم ''اور''عليہم'' كى ضمير كا مرجع ''الہة'' جانا گيا ہے اور كفر كا معنى بھى انكار ليا گيا ہے_

۹_ قرآن نے پہلے سے ہى مشركين كے جلد ہى ذليل و رسوا ہونے ،انكى عزت و ثروت تك پہنچنے كى آرزو ميں شكست اور انكى اپنے خيالى معبودوں سے دشمنى كى خبر دى ہے _سيكفرون بعبادتهم و يكونون عليهم ضدا

يہ كہ كوئي يقينى قرينہ موجود نہيں ہے كہ يہ آيت مشركين كى روزقيامت حالت پر دلالت كررہى ہے _لہذا يہ احتمال بعيد نہيں ہے كہ آيت كى مراد مشركين مكہ كے آئندہ قريب كے حالات كى خبر ہو كہ جب وہ شرك اور بت پرستى سے رخ موڑليں گے اس مطلب ميں ''سيكفرون اور يكونون''كى فاعلى ضمير مشركين كى طرف لوٹ رہى ہے_

۱۰_عن أبى عبداللّه (ع) فى قوله: '' ...كلاّ سيكفرون بعبادتهم و يكونون عليهم ضداً'' يوم القيامة ...ثم قال : ليست العبادة هى السجود ولا الركوع وإنّما هى طاعة الرجال من ا طاع مخلوقاً فى معصية الخالق فقد عبده (۱)

____________________

۱) تفسير قمى ج۲،ص۵۵، نورالثقلين ج۳،ص۳۵۷، ح ۱۴۶_

۷۸۲

امام صادق(ع) سے الہى كلام.كلاّ سيكفرون بعبادتهم و يكونون عليهم ضداً'' كے بارے ميں روايت ہوئي ہے كہ آپ(ع) فرمايا: يہ مخالفت روز قيامت ہے پھر امام (ع) فرماتے ہيں يہاں عبادت ركوع و سجود نہيں ہے بلكہ مراد لوگوں كى اطاعت ہے جس نے بھى كسى مخلوق كى خالق كى معصيت ميں اطاعت كى ہو گويا اس نے اسكى عبادت كى ہے_

باطل معبود:باطل معبود روز قيامت ميں ۳; باطل معبود سے بيزاري۲;باطل معبودوں سے دشمني۹;باطل معبودوں كا عجز۷; باطل معبودوں كا كردار۴; باطل معبودوں كى اخروى دشمني۲; باطل معبودوں كے اخروى جھٹلانے والے ۸; باطل معبودوں كے اخروى دشمن۸

بيزاري:مشركين سے بيزاري۲

ذلت:اخروى ذلت كے اسباب۵

روايت:۱۰

شرك:شرك كا بطلان۷

عبادت:عبادت سے مراد ۱۰;غير خدا كى عبادت كے آثار۱،۵

عزت:عزت كے اسباب ۱

قرآن مجيد :قرآن مجيد كى پيش گوئي۹

قيامت :قيامت كى خصوصيات ۷،۱۰; قيامت ميں حقائق كا ظہور ۲،۷

مشركين:قيامت ميں مشركين ۸; قيامت ميں مشركين كا حاضر كيا جانا۶; قيامت ميں مشركين كے معبودوں كا حاضر كيا جانا ۶;مشركين كا اخروى حساب و كتاب۶; مشركين كى اخروى ذلت كے اسباب۴; مشركين كى دشمنى ۸; مشركين كى ذلت ۹; مشركين كى عبادات كا فضول ہونا ۲; مشركين كے اخروى دشمن ۳; مشركين كے باطل معبود۲; مشركين كے معبودوں كا اخروى حساب و كتاب۶

۷۸۳

آیت ۸۳

( أَلَمْ تَرَ أَنَّا أَرْسَلْنَا الشَّيَاطِينَ عَلَى الْكَافِرِينَ تَؤُزُّهُمْ أَزّاً )

كيا تم نے نہيں ديكھا كہ ہم نے شياطين كو كافروں پر مسلّط كرديا ہے اور وہ ان كے بہكاتے رہتے ہيں (۸۳)

۱_ كفار، شياطين كے وسوسوں اوراس كے چنگل ميں گرفتار ہيں _أرسلنا الشياطين على الكفرين تؤزهم

''ا زّ'' كا معنى ابھارنا ہے اور''تؤزّہم'' شياطين كفار كو زيادہ گمراہى اور انحراف كى طرف ابھارتے اور برانگيختہ كرتے ہيں _

۲_ كفار كو وسوسہ ڈالنے اور ابھارنے كيلئے شياطين كا بھيجا جانا ،پيغمبر اكرم (ص) كى نگاہ سے مخفى نہيں ہے_

ا لم تر أنا أرسلنا الشياطين

۳_ شياطين، لوگوں كو گمراہ كرنے كيلئے وسوسہ ڈالنے اور ابھارنے والى مخلوقات ہيں _ا رسلنا الشياطين على الكافرين تؤز ّهم

۴_ شياطين الہى حاكميت اور تسلط كے تحت ہيں _ا لم تر أنّا أرسلنا الشياطين

''أنّا ارسلنا '' ميں ''نا' كى ضمير اس نكتہ كو بيان كررہى ہے كہ يہ تصور نہ ہو كہ شياطين كا كام الہي پروردگار اور نظام سے باہرہے بلكہ انكے تمام كام الہى مشيّت كى حدود كے اندر انجام پاتے ہے_

۵_ شياطين كے وسوسے اور ابھارنے والى تلقين ، الہى ارادہ سے وابستہ ہے_ا لم تر أنّا أرسلنا الشياطين على الكفرين تؤزّهم

۶_ كفر كرنا شيطان كے انسان پر تسلط اور اس كے و سوسہڈالنے كى راہ ہموار كرتا ہے_ا رسلنا الشياطين على الكفر ين تؤزّهم

''على الكافرين'' كى تعبير بتارہى ہے كہ الله تعالى ،كفار كے كفر كرنے كے بعد شياطين كو گمراہ كرنے كى ذمہ دارى ديتا ہے در اصل شياطين كو كفر كے نتيجہ ميں بھيجا جا تا ہے_

۷_ شرك، الله تعالى كا كفر ہے_واتّخذوا من دون الله ء الهة ...على الكافرين

۷۸۴

۸_ كفار كا شيطانى وسوسوں اور انگيزوں ميں گرفتار ہونا ''عذاب تدريجي'' اورانہيں كفر اورگمراہى ميں چھوڑے جانے كا ايك جلوہ ہے _الرحمن مدّاً ...ا لم تر أنّا أرسلنا الشياطين

يہ آيت اس آيت ''من كان فى الضلالة فليمدد لہ الرحمن مدّاً'' كہ جوسنت ''امہال'' كو بيان كررہى ہے اس سے ربط ركھتى ہے اور اسطرح سنت ''فليمدد ...مدّاً'' كے جارى ہونے پر ايك اورگوا ہ ہے جو وہى ''امہال '' اور ''استدراج '' ہے_

۹_ كفار كا شياطين كى طرف سے ابھارا جانا ا ور انكى بڑھتى ہوئي گمراہى اس بات كى واضح نشانى ہے كہ انكے معبود انكے ليے مفيد نہيں ہيں اور وہ اپنے پوجنے والوں كے مخالف ہيں _ويكونون عليهم ضداً _ا لم تر أنّا أرسلنا الشياطين

''ا لم تر'' ميں استفہام گذشتہ آيت كے مضمون كيلئے گواہ اور تائيد ہے اورگواہ كے ہونے پر دلالت كررہى ہے اسطرح كہ اسكو نہ ديكھنا اورتوجہ نہ كرنا حيرت انگيز ہے_

آنحضرت(ص) :آنحضرت(ص) كى گواہى ۲

الله تعالى :الله تعالى كى حاكميت ۴; الله تعالى كے ارادہ كےآثار ۵

باطل معبود:باطل معبودوں كى دشمنى ۹; باطل مبعودوں كے فضول ہونے كى نشانياں ۹

شرك:شرك كى حقيقت۷

شياطين:شياطين كا ابھارنا ۹;شياطين كا حاكم ہونا۴; شياطين كاگمراہ كرنا ۳،۹; شياطين كے ابھارنے كا سرچشمہ ۵; شياطين كے جال ۱; شياطين كے وسوسے ۱،۲،۳; شياطين كے وسوسوں كا سرچشمہ ۵

شيطان :شيطان كے ابھارنے كا سبب ۸; شيطان كے تسلط كا سبب۶; شيطان كے وسوسوں كا سبب ۶،۸

كفار:كفار كا ابھارا جانا ۹; كفار كا وسوسہ ۱; كفار كو مہلت ۸; كفار كى گمراہى ۹; كفار كى گمراہى كے آثار ۸; كفار كے ابھارے جانے پر گواہ ۲

كفر:الله تعالى كے ساتھ كفر ۷; كفر كے آثار ۶، ۸; كفر كے موارد ۷

گمراہي:گمراہى كے اسباب۳

۷۸۵

آیت ۸۴

( فَلَا تَعْجَلْ عَلَيْهِمْ إِنَّمَا نَعُدُّ لَهُمْ عَدّاً )

آپ ان كے بارے ميں عذاب كى جلدى نہ كريں ہم ان كے دن خود ہى شمار كر رہے ہيں (۸۴)

۱_مشركين كا اپنے شرك پر اصرار ، باعث بنا كہ پيغمبر اكرم(ص) انكے ليے جلد عذاب كى در خواست كى تيارى كريں _

فلا تعجل عليهم إنّما نعدّ لهم عدّا

۲_ الله تعالى كا پيغمبر اكرم(ص) كو ہٹ دھرم كفار كے عذاب كيلئے جلدى نہ كرنے كى نصحيت كرنا_فلا تعجل عليهم

۳_ شيطانى وسوسوں كا مشركين پر بڑھتا ہوا اثراور الہى مہلتوں كى بناء پر انكى زيادہ ہوتى ہوئي گمراہي، الله تعالى كا انكے عذاب ميں جلدى نہ كرنے كى وجہ نہيں ہے_فلا تعجل عليهم

گذشتہ آيات مثلاً''فليمدد له الرحمن مدّاً ''اور''تؤرهم ازّا '''ميں فاء كے ذريعے ''لا تعجل '' كى تفريع ہوئي ہے يعنى اب جو عذاب ميں ديرمشركين كى گمراہى اور شيطانى فريب كے بڑھنے كا باعث بنى ہے تو عذاب كى تعجيل ميں كيا ضرورت ہے؟ جملہ''انّما ...''نيز''فلا تعجل عليهم '' كيلئے علت سے ہے اسى نكتہ پرتاكيد كررہا ہے كيونكہ مشركين كے عذاب پر دلائل كے بڑھنے پر دلالت كررہا ہے _

۴_ الله تعالى ، پيغمبر اكرم(ص) كى مشركين كے عذاب كے بارے ميں در خواست قبول كرے گا_فلا تعجل عليهم

اگر پيغمبر اكرم (ص) كى عجلت كا يقينى اثر نہ ہوتا تو اس سے الله تعالى منع نہ كرتا _

۵_اللہ تعالى نے عصر بعثت كے ہٹ دھرم كفار كو مناسب زمانہ ميں دنياوى عذاب سے خبر دار كيا ہے_

فلا تعجل عليهم إنّما نعدّلهم عدّا

عبارت''إنّما نعدّلهم عدّاً'' علت كے مفہوم كى حامل ہے يعنى ہدف اعداد كا آگے بڑھنا ہے اور ايك دن گنتى اپنے مطلوبہ نقطہ تك پہنچ جائيگى اور اسكے بعد عذاب يقينى ہوگا_

۶_ مشركين كو الله تعالى كى مہلت اگر چہ طويل ہى كيوں نہ ہو معمولى اور ناچيز سى مہلت ہے_إنّما نعدّ لهم عدّا

۷۸۶

فعل ''نعدّ'' (ہم گن رہے ہيں ) قلت كے معنى كا حامل ہے كيونكہ عام طور پرقليل سى چيز گننے كے قابل ہوتى ہے گذشتہ آيات ميں جملہ ''فليمدد لہ الرحمن مدّاً'' كہ جو مدت كے طويل ہو نے پر دلالت كررہا ہے اسكے بعد يہ عبارت دنيا كى آخرت اور انسان كے انجام سے مقائسہ كرتے ہوئے انسان كى سارى عمر كے كم ہونے سے حكايت كررہى ہے_

۷_ انسان كے غلط اعمال لكھے جاتے ہيں اور انكى تعداد محفوظ ركھى جاتى ہے_إنّما نعدّ لهم عدّا

''نعدّ'' (ہم گنتے ہيں ) كا مفعول محذوف ہے بعض اسے عمر كے لمحات جانتے ہيں اور ايك گروہ كے مطابق اس سے مراد ان اعمال كا شمار كرنا ہے كہ جو كفار كے مہلت پانے كى وجہ سے ان سے ظاہر ہوتے ہيں اور انكى برائيوں ميں اضافہ ہوتے ہيں مندرجہ بالا مطلب اسى بناء پر ہے_

۸_ الله تعالى كفار اورمشركين كے كردار پرمشتمل اعمال نامہ كو عميق انداز سے محاسبہ كرے گا_إنّما نعدّ لهم عدّ

۹_عن عبدالله الأعلى قال: قلت لا بى عبدالله (ع) قول الله عزّوجل ''إنّما نعدّ لهم عدّاً'' قال : ما هو عندك قلت: عدد الا يام قال : ...لا ولكنّه عدد الانفاس (۱)

عبد الا على سے روايت ہوئي ہے كہ ميں نے امام صادق(ع) كى خدمت ميں عرض كيا: الله تعالى كے كلام'' إنّما نعدّ لہم عدّاً ''سے مراد كيا ہے؟ فرمايا تم كيا معنى كرتے ہو؟ ميں نے عرض كى اس سے مراد دنوں كى تعداد ہے فرمايا: ايسا نہيں ہے بلكہ اس سے مراد سانسوں كى تعداد ہے_

آنحضرت(ص) :آنحضرت(ص) كو نصيحت۲; آنحضرت (ص) كى دعا كا قبول ہونا۴

الله تعالى :الله تعالى كا حساب لينا۸; الله تعالى كى مہلتيں ۶; الله تعالى كى مہلتوں كے آثار ۳; الله تعالى كى نصيحتيں ۲; الله تعالى كے ڈراوے ۵

ڈراوا:دنياوى عذاب سے ڈرانا۵//روايت:۹سانس:سانسوں كى تعداد شمار كى جانا۹

شرك:شرك پر اصرار كے آثار۱//شيطان :شيطان كے وسوسوں كے آثار ۳

عمل :ناپسنديدہ عمل كا لكھا جانا۷

كفار:صدر اسلام كے كفار كو ڈراوا۵; كفار كا حساب ليا

____________________

۱)اصول كافى ،ج۳،ص ۲۵۹ ،ح۳۳، نورالثقلين ج۳،۳۵۷،ح۱۴۸_

۷۸۷

جانا۸; كفار كانا مہ عمل ۸; كفار كى خواہشات ۱; كفار كے عذاب ميں عجلت ۱; كفار كے عذاب ميں عجلت سے پرہيز۲

مشركين:مشركين كا حساب ليا جانا ۸; مشركين كا عذاب يقينى ہونا۴; مشركين كا نامہ عمل ۸; مشركين كو كچھ مہلت دى جانا۶; مشركين كو مہلت دينے كے دلائل۳; مشركين كى گمراہى كا زيادہ ہونا ۳; مشركين كے عذاب ميں عجلت سے پرہيز كرنا۳

آیت ۸۵

( يَوْمَ نَحْشُرُ الْمُتَّقِينَ إِلَى الرَّحْمَنِ وَفْداً )

قيامت كے دن ہم صاحبان تقوى كو رحمان كى بارگاہ ميں مہمانوں كى طرح جمع كريں گے (۸۵)

۱_روز قيامت، متقى لوگ تكريم وجلالت كے ساتھ خدائے رحمان كى بارگاہ ميں حاضر ہونگے_

يوم نحشر المتقين إلى الرحمن و فد ''وفد '' جمع يا اسم جمع ہے يہ ايسى ھيئت يا گروہوں كو كہتے ہيں كہ جو ملاقات يا مدد لينے كيلئے حاكموں كے پاس جاتے ہيں (لسان العرب) روز قيامت متقين كى ''وفد'' كے ساتھ توصيف انكے حاضر ہوتے وقت خاص احترام اور مقام سے حكايت كررہى ہے كہ روز قيامت جسكے وہ حامل ہونگے يہ لفظ ممكن ہے كہ مصدر اور متقين كے محشور ہونے كى نوعيت كو بيان كررہا ہو_

۲_ روز قيامت، متقين ايك خاص منزلت اور امتياز كے حامل ہونگے_يوم نحشر المتقين إلى الرحمن وفدا

۳_ خدائے رحمان ،روزقيامت متقى لوگوں ( موحدين ) كا ميزبان ہوگا_يوم نحشر المتقين إلى الرحمن وفدا

''وفداً'' خواہ مصدر ہو اور محشور ہونے كى نوعيت بيان كرنے والا ہو يا خواہ ''وافدين '' كے معنى ميں ہو بہر صورت متقين كے مہمان ہونے پر دلالت كررہا ہے اس فرق كے ساتھ كہ دوسرى صورت ميں يہ بتاتا ہے كہ وہ روز قيامت فردى صورت ميں حاضر نہيں ہونگے بلكہ گروہى صورت ميں آئيں گے تو اس صورت ميں ضرورى ہے كہ ''وفداً'' حال مقدر ہے يعنى انكا گروہى صورت ميں ہونا تمام افراد كے محشور ہونے كے بعد ہے كيونكہ بعد والى آيات انكے فردى صورت ميں محشور ہونے پر صراحت سے دلالت كررہى ہيں _

۷۸۸

۴_ شرك اور باطل معبودوں كى پرستش سے پرہيز تقوى كا ايك مكمل جلوہ ہے_واتّخذوا من دون الله ء الهة ...يوم نحشر المتقين إلى الرحمن چونكہ گذشتہ آيات ميں موضوع بحث شرك اور مختلف معبود وں كى عبادت تھا تو اس مناسبت كا تقاضا يہى ہے كہ اس آيت ميں متقين سے مراد وہ لوگ ہوں كہ جو شرك اور باطل معبودوں كى پرستش سے پرہيز كرتے ہوں _

۵_ قيامت، انسان كے محشور اورجمع ہونے كا دن ہے _يوم نحشر ''حشر'' يعنى اس انداز سے جمع كرنا كہجس كے ساتھ دھكيلنا بھى ہو_ (مقايس الغة)

۶_ تقوى ( عقيدہ اور عبادت ميں شرك سے پرہيز) انسان كو الله تعالى سے نزديك كرنے اور اسكى وسيع رحمت سے بہرہ مند ہونے سبب ہے _يوم نحشر المتقين إلى الرحمن

۷_ روز قيامت، متقى لوگوں كو خصوصى احترام و اكرام كے ساتھ اٹھا نا ،اللہ تعالى كى رحمانيت اور اسكى عزت عطا كرنے كا ايك جلوہ ہے_واتّخذو ا من دون الله ء الهة ليكونوا لهم عزّاً ...يوم نحشر المتقين إلى الرحمن وفدا

۸_ رحمن، الله تعالى كے اوصاف ميں سے ہے_نحشر المتّقين إلى الرحمن

۹_''عن أبى عبدالله (ع) قال: سا ل على (ع) رسول الله(ص) عن تفسيرقوله ''يوم نحشر المتقين الى الرحمن وفداً'' فقال : يا على إنّ الوفد لا يكون إلاّ ركبا ناً (۱)

امام صادق(ع) سے روايت ہوئي ہے كہ آپ(ع) نے فرمايا : حضرت على (ع) نے رسول اكرم (ص) سے اس آيت''يوم نحشر المتقين إلى الرحمن وفداً '' كى تفسير كے بارے ميں سوال كيا تو حضرت نے فرمايا: اے على بلا شبہ وفد سوائے سوارى پر سوار لوگوں كے علاوہ اور كوئي نہيں ہيں _

اسماء و صفات:رحمان۸//الله تعالى :الله تعالى كى رحمانيت كى نشايناں ۷; الله تعالى كى عزت بخشنے كى نشانياں ۷; الله تعالى كى ميزباني۳//انسان:انسانوں كا محشور ہونا۵//باطل معبود:باطل معبودوں سے پرہيز۴

تقرّب:تقرّب كے اسباب۶//تقوي:تقوى كى نشانياں ۴; تقوى كے آثار۶

رحمت:رحمت كا باعث۶

____________________

۱)تفسير قمي،ج۲، ص۵۳، نورالثقلين، جلد ۳ص۳۵۹ ، ح۱۵۳_

۷۸۹

روايت۹

شرك:شرك سے پرہيز ۴; عبادت ميں شرك سے پرہيز كے آثار ۶

قيامت :قيامت كى خصوصيات ۵; قيامت ميں اجتماع ۵

متقين:روز قيامت متقين ۱،۲،۳،۷; روز قيامت ميں متقين كى سواري۹; متقين كا اخروى احترام ۷; متقين كا محشور ہونا ۱،۷; متقين كا ميزبان ۳; متقين كى اخروى عزت۷; متقين كى تعظيم ۱; متقين كے فضائل ۱،۲; متقين كے محشور ہونے كى خصوصيات ۹

موحدين:روز قيامت موحدين ۳; موحدين كا ميزبان ۳

آیت ۸۶

( وَنَسُوقُ الْمُجْرِمِينَ إِلَى جَهَنَّمَ وِرْداً )

اور مجرمين كو جہنم كى طرف پياسے جانوروں كى طرح ڈھكيل ديں گے (۸۶)

۱_ مشرك گناہ گاروں كو روز قيامت پياس كى حالت ميں جہنم كى طرف دھكيل ديا جائيگا _ونسوق المجرمين إلى جهنم وردا

''ورد'' كے بتائے گئے معانى ميں سے ايك پياس ہے(لسان العرب) اس آيت ميں ''ورداً'' مشتق كى طرف تاويل ہوتے ہوئے ''مجرمين'' كيلئے حال ہے يعنى مجرمين كو پياس كى حالت ميں جہنم كى طرف دھكيل ديں گے_ بعض اہل لغت و تفسيرنے ''ورد'' سے مراد ايسے گروہ كو قرار ديا ہے كہ جو پانى كے كنارے جارہے ہيں اور اس سے انكى پياس سے كنايہ ليا گيا ہے

۲_ روز قيامت مجرمين كا جہنم كى طرف دھكيلنے كو وقت ذليل و خوار ہونا _ونسوق المجرمين إلى جهنم وردا

اس آيت ميں '' نسوق'' اور '' ورداً'' در اصل گذشتہ آيت ميں ''نحشر'' اور ''وفداً'' كے مد مقابل ہے اس آيت ميں مذكور تعبيرات ،احترام و جلالت سے حكايت كررہيہيں جبكہ اس آيت ميں (اسكے مد مقابل قرينہ اور مجرمين كى پياس كى حالت اور تعبير'' نسوق'' ) انكى روز قيامت ذلت و رسوائي سے حكايت كررہى ہيں _

۳_ جہنم كى طرف ذليل انداز سے مشركين كو دھكيلنا شرك كے بے ثمر اور انكے معبودوں كا انكے منافى ہونے كا ايك نمونہ ہے_و يكونون عليهم ضداً ...يوم نحشر ...و نسوق المجرمين

گذشتہ آيات ميں مشركوں كى شرك آلودہ عبادتوں كے بے ثمر ہونے اور انكے انجام پر اسكے منفى اثرات كے حوالے سے

۷۹۰

گفتگوتھى اس آيت ميں بھى اسى معنى كاايك مصداق بيان كيا گيا ہے خصوصاً اگر''يوم نحشر'' ميں يوم ''يكونون'' كے متعلق ہو_

۴_ روز قيامت مجرمين اور متقين كى وضعيت ميں فرق ظاہر ہونے كادن ہے_يوم نحشر و نسوق المجرمين إلى جهنم وردا

۵_ شرك ،جرم اور مشرك مجرم او ر گناہ گارہيں _واتّخذ و امن دون الله ء الهة ونسوق المجرمين إلى جهنم

چونكہ گذشتہ آيات شرك كے بارے ميں تھيں انكى مناسبت يہ تقاضا كرتى ہے كہ مجرمين سے مراد مشركين ہوں ''يوم نحشر'' ميں لفظ ''يوم'' كا گذشتہ آيات ميں كسى ايك فعل ''سيكفرون '' يا''يكونون'' سے تعلق آيات ميں اس ربط كو بيان كرنے كى سب سے بڑى وجہ ہے _

۶_شرك كرنا اور باطل معبودوں كى عبادت ايك بہت بڑا گناہ اور جہنمى ہونے كا سبب ہے _و نسوق الجرمين إلى جهنم

۷_ متقى لوگ روز قيامت سواروں كى حالت ميں حاضر اور گناہ كار لوگوں پيادہ صورت ميں جہنم كى طرف دھكيلے جائيں گئے_نحشر المتقين ...وفداً و نسوق المجرمين وردا

بعض اہل لغت''وفدا'' سے مراد احترام واكرام والے سوار اور ''ورداً'' سے مراد پياسے پيدل چلنے والے كا معنى كرتے ہيں (لسان العرب)باطل معبود:باطل معبودوں كى دشمنى ۳

بت پرستي:بت پرستى كے بے ثمر ہونے كى نشانياں ۳

جہنم:جہنم كے اسباب۶

شرك:شرك كا گناہ ہونا ۵،۶; شرك كے آثار۶

قيامت:قيامت كى خصوصيات ۴; قيامت ميں حقائق كا ظہور ۴گناہ كبيرہ;۶

گناہ گار لوگ:۵روز قيامت گناہ گار لوگ۴; روز قيامت گناہ گار لوگوں كا پيادہ ہونا۷; گناہ گاروں كى اخروى پياس ۱; گنا ہ گار لوگوں كى اخروى ذلت۲; گنا ہ گار لوگوں كے جہنم ميں داخل ہونے كى كيفيت ۲; گناہ گاروں كے محشور ہونے كى كيفيت۷

متقين:روز قيامت متقين ۴; روز قيامت متقين كى سوارى ۷; متقين كے محشور ہونے كى كيفيت۷

مشركين:مشركين كى اخروى پياس ۱; مشركين كى اخروى ذلت۳; مشركين كے جہنم ميں داخل ہونے كى كيفيت ۱،۳; مشركين كے دشمن۳

۷۹۱

آیت ۸۷

( لَا يَمْلِكُونَ الشَّفَاعَةَ إِلَّا مَنِ اتَّخَذَ عِندَ الرَّحْمَنِ عَهْداً )

اس وقت كوئي شفاعت كا صاحب اختيار نہ ہوگا مگر وہ جس نے رحمان كى بارگاہ ميں شفاعت كا عہد لے ليا ہے (۸۷)

۱_ كوئي بھى روز قيامت بذات خود شفاعت كرنے كا حق اور طاقت نہيں ركھتا_المتقين ...المجرمين ...لا يملكون الشفاعة

''لا يملكون '' كى مرجع ضمير كے بارے مختلف احتمالات ہيں مثلاً يہ كہ ''متقين'' اور ''مجرمين'' (گذشتہ آيات ميں ) دونوں سے مرجع ضمير نكالى جائيگى تو اس صورت ميں مراد تمام لوگ ہوں گے ''الشفاعة'' ميں بھى دو وجہوں كااحتمال ہے: ۱_ شفاعت كرنا اس كے معنيہے (مصدر معلوم) ۲_ شفاعت ہونا يہ مطلب اور بعد والے چند مطالب پہلے معنى كى بناء پر بيان ہوئے ہيں _

۲_مشركين كے خيالى خدا، روز قيامت شفاعت سے عاجز ہيں _واتّخذوا من دون الله ء الهة ...لا يملكون الشفاعة

جيسا كہ بعض مفسرين كہتے ہيں''لا يملكون'' ميں مرجع ضمير گذشتہ آيات ميں بيان شدہ ''ء الہة'' بھى ہوسكتا ہے تو اس صورت ميں وہ شفاعت كا وہم باطل ثابت ہو گا كہ جسكا مشركين اپنے معبودوں سے توقع ركھتے ہيں اس صورت ميں استثناء منقطع اور اسكا مطلب يہ ہوگا _جو الله تعالى كے نزديك كوئي عہد ركھتے ہوں گے وہ شفاعت كى طاقت ركھيں گے_

۳_روز قيامت بعض افراد دوسروں كى شفاعت كا حق ركھيں گے_لا يملكون الشفاعة إلاّ من اتّخذ ...عهدا

''شفاعة'' يعنى اپنے آپ كو كسى كے قريب كرنا تا كہ اسكى مدد كرے يا اسكى جانب سے تقاضوں كو بيان كرے يہ زيادہ تر ان موارد ميں استعمال ہوتا ہے كہ جہاں يہ شخص بلند رتبہ و احترام كا حامل ہو (مفرادت راغب) ''إلاّ من اتّخذ '' كا استثنا ء اگر چہ شفاعت كے عملى ہونے كو نہيں سمجھا رہا ليكن حق شفاعت كے ثبوت پر دلالت كر رہا ہے_

۴_ صرف وہ لوگ روز قيامت حق شفاعت ركھيں گے

۷۹۲

جو الله تعالى كى طرف سے كوئي عہد يا اجازت كے حامل ہونگے_لا يملكون الشفاعة إلاّ من اتّخذ عند الرحمن عهدا

''عہد'' كا ايك معنى ميثاق اور پيمان ہے _اللہ تعالى كے نزديك پيمان لينے سے مرادوہ قانون او ر قرار داد ہے كہ جيسے الله تعالى نے بيان كيا ہے اور اسكا وعدہ دياہے_

۵_ شفاعت قانون كے تحت اور الله تعالى كى نگہبانى ميں چلنے والا ايك نظام ہے _لا يملكون الشفاعة إلاّ من اتّخذ عند الرحمن عهدا

''اتخاذ عہد'' سے مراد يہ ہے كہ شفاعت كرنے والا الله تعالى كى جانب سے پہنچنے والے وعدہ ، حكم يا سنت كہ جو اس تك پہنچى ہے سے تمسك كرے اور اپنے آپ كو حق شفاعت كا حامل سمجھے_

۶_ بعض افراد كو روز قيامت حق شفاعت كى عطا ،اللہ تعالى كى (رحمانيت ) وسيع رحمت كا ايك جلوہ ہے_

لا يملكون الشفاعة إلاّ من اتّخذ عند الرحمن عهدا

۷_ رحمان، الله تعالى كے اسماء اور اوصاف ميں سے ہے_من اتّخذ عندالرحمن عهدا

۸_ كسى اور كيلئے حق شفاعت كاہونا الله تعالى كى مطلق حاكميت كے منافى نہيں ہے_لايملكون الشفاعة إلاّ من اتّخذ عند الرحمن عهدا

۹_ روز قيامت صرف انہيں شفاعت شامل حال ہوگى كہ جنكے بارے الله تعالى كى طرف سے كوئي عہدہوگا_

لا يملكون الشفاعة إلاّ من اتّخذ عند الرحمن عهدا

اس مطلب ميں ''الشفاعة'' بعنوان مصدر مجہول معنى كياگيا ہے_ اس ليے ''لا يملكون الشفاعة'' يعنى شفاعت ہونے كے مالك نہيں ہيں _

۱۰_ شفاعت كے شامل حال لوگوں كيلئے دوسروں كى شفاعت، الله تعالى كى وسيع رحمت كا ايك جلوہ ہے_

إلاّمن اتّخذ عند الرحمن عهدا

۱۱_عن أبى عبدالله ...قيل يا رسول الله (ص) و كيف يوصى الميت عند الموت قال إذا حضرته الوفاة قال: ...الله م إنّى أعهد إليك فى دار الدينا أنّى اشهد أن لإله إلاّ أنت وحدك لا شريك لك وا شهدأنّ محمدً عبدك و رسولك وأنّ الجنّة حق وأنّ النار حق ّ وأنّ البعث حقّ ...وأنّ الدين كما وصفت ...وأنّ القرآن كما ا نزلت ...و اجعل لى عهداً يوم ا لقاك منشورا ...وتصديق هذه الوصية فى القرآن فى السورة التى يذكر فيها مريم(س) فى قوله عزّوجل ''ل

۷۹۳

يملكون الشفاعة إلاّ من اتّخذ عندالرحمن عهداً'' فهذا عهد الميت (۱)

امام صادق(ع) سے روايت ہوئي ہے كہ رسول خدا(ص) سے كہا گيا : انسان مرتے وقت كيسے وصيت كرے؟ آپ(ع) نے فرمايا: جب موت آئے تو كہے: ...اللہ تعالى ميں تيرے ساتھ اس دنيا ميں عہد كرتا ہوں كہ گواہى ديتا ہوں كہ تيرے سوا كوئي معبودنہيں تو واحد ہے اور تيرا كو كى شريك نہيں اور گواہى ديتا ہوں كہ محمد(ص) تيرا بندہ اور رسول(ص) ہے اور يہ كہ جنت حق ہے اور جہنم حق اور محشور ہونا حق ہے ...اور يہ كہ دين اسى طرح ہے كہ جيسے تو نے توصيف كيا تھا اور يہ كہ قرآن اسى طرح ہے كہ جيسے تو نے نازل كيا ...(ميرا يہ اقرار) اس دن كہ جب ميں تجھ سے ملاقات كرونگا ميرے ليے كھلاہواعہد قرار دے ...اور قرآن مجيد ميں اس طرح كى وصيت كے ضرورى ہونے پر گواہ ايك سورہ ہے بنام سورہ مريم (س) كہ اسميں كلام خدا يوں ذكر ہوئي ہے كہ''لا يملكون الشفاعة إلاّ من اتّخذ عند الرحمن عهداً '' يہ عہد وہى ميّت كا عہد ہے_

اسماء وصفات:رحمان۷

الله تعالى :الله تعالى كى حاكميت۸; الله تعالى كى رحمانيت كى نشانياں ۶،۱۰; الله تعالى كى نگہبانى ۵; الله تعالى كے اذن كے آثار۴; الله تعالى كے عہد كے آثار ۹

انسان:الله تعالى كے اختيارات كا دائرہ كار۱

باطل معبود:باطل معبودوں كى شفاعت۲;روز قيامت باطل معبود ۲

روايت:۱۱

شفاعت:شفاعت كا قانون كے مطابق ہونا ۵; شفاعت كے اثرات ۱۰; شفاعت كے شامل حال افراد۹; شفاعت ميں اجازت ۴;غير خدا كى شفاعت۸

شفاعت كرنے والے:روز قيامت شفاعت كرنے والے۳،۴

عہد:الله تعالى كے ساتھ عہد ۱۱

قيامت:قيامت ميں شفاعت۱،۶،۹; قيامت ميں شفاعت كى شرائط۴

____________________

۱)كافى ج۷،ص۲، ح۱، نورالثقلين ،ج۳ ،۳۶۱، ح۱۵۷_

۷۹۴

آیت ۸۸

( وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمَنُ وَلَداً )

اور يہ لوگ كہتے ہيں كہ رحمان نے كسى كو اپنا فرزندبناليا ہے (۸۸)

۱_ زمانہ بعثت كے مشركين كى الله تعالى كى طرف ايك غلط نسبت ،اسكا بيٹا انتخاب كرنا ہے_وقالوا اتّخذ الرحمن ولدا

فعل'' اتخذا '' اس چيز كو بيان كررہا ہے كہ يہ بات كہنے والوں كا عقيدہ تھا كہ الله تعالى نے كسى ايك مخلوق كو بعنوان فرزند انتخاب كيا ہے نہ كہ اس سے بيٹا پيدا ہوا ہے_

۲_ بعثت كے زمانہ كے لوگوں كى الله تعالى كے بارے معرفت بہت كم اور ناقص تھى _وقالوا اتخذ الرحمن ولدا

۳_ الله تعالى كے اسماء وصفات ميں سے ايك رحمان ہے_وقالوا اتّخذ الرحمن ولدا

۴_ زمانہ بعثت كے مشركين ،اللہ تعالى كى رحمانيت كاا عتراف كرتے تھے_وقالوا اتّخذ الرحمن ولدا

۵_ الله تعالى كى رحمانيت كو قبول كرتے ہوئے اسكى طرف فرزند انتخاب كرنے كى نسبت، ايك حيرت انگيز عقيدہ ہے جو دو متضاد فكروں پر مشتمل ہے_وقالوا اتخذ الرحمن ولدا

اس آيت سے مقصود ،مشركين كے افكار كى حكايت نہيں ہے بلكہ اس فكر و عقيدہ كے جملات و الفاظ كى عدم مطابقت ہے كہ ديكھيں وہ كياكہہ رہے ہيں ؟ رحمان اور فرزند كا انتخاب ؟ يہ ممكن نہيں ہے_

اسماء وصفات:رحمان۳

افتراء :الله تعالى پر افتراء با ندھنا۱

اقرار:الله تعالى كى رحمانيت كا اقرار ۴

الله تعالى :

۷۹۵

الله تعالى كى رحمانيت كو قبول كرنا۵; الله تعالى كى طرف فرزند كى نسبت ۱; الله تعالى كى طرف فرزند كى نسبت كا حيرت انگيز ہونا۵; الله تعالى كى ناقص معرفت۲

جاہليت:دور جاہليت كے مشركين كا افترء ۱; دور جاہليت كے مشركين كا اقرا ر ۴

لوگ:زمانہ بعثت كے لوگوں كى الله تعالى كے بارے معرفت۲

آیت ۸۹

( لَقَدْ جِئْتُمْ شَيْئاً إِدّاً )

يقينا تم لوگوں نے بڑى سخت بات كہى ہے (۸۹)

۱_ الله تعالى كى طرف فرزند كے انتخاب كى نسبت ايك غلط اور عجيب نسبت ہے_اتّخذ الرحمن ولداً _ لقد جئتم شيئاً إدا

''إدّا'' كا معنى ايك عجيب اور نہايت غلط چيز ہے_

۲_اللہ تعالى كے فرزند انتخاب كرنے كا گمان مشركين كا من گھڑت خيال تھا_لقد جئتم شيئاً إ دا

فعل'' جئتم '' مشركين كو خطاب ہے يعنى الله تعالى كا فرزند انتخاب كرنا ايسى بات ہے كہ تم نے اسے گھڑا ہے ورنہ اسكى كوئي اساس نہيں ہے_

۳_ الله تعالى كے بارے ميں غلط باتوں اور فرزند انتخاب كرنے كى نسبت سے پرہيز كا ضرورى ہونا_

الله تعالي:الله تعالى كى طرف فرزند كى نسبت ۲; الله تعالى كى طرف فرزند كى نسبت سے پرہيز۳; الله تعالى كى طرف فرزند كى نسبت كا عجيب ہونا ۱; الله تعالى كى طرف فرزند كى نسبت كا ناپسنديدہ ہونا ۱

جھوٹ باندھنا :الله تعالى كى طرف جھوٹ باندھنے سے پرہيز۳

مشركين:مشركين كے جھوٹ باندھنے۲

۷۹۶

آیت ۹۰

( تَكَادُ السَّمَاوَاتُ يَتَفَطَّرْنَ مِنْهُ وَتَنشَقُّ الْأَرْضُ وَتَخِرُّ الْجِبَالُ هَدّاً )

قريب ہے كہ اس سے آسمان پھٹ پڑے اور زمين شگافتہ ہوجائے اور پہاڑ ٹكڑے ٹكڑے ہوكر گر پڑيں (۹۰)

۱_ الله تعالى كى طرف فرزند انتخاب كرنے كى نسبت اس قدر غلط اور قبيح ہے كہ جہان خلقت اسے برداشت كرنے كى تاب نہيں ركھتا_وقالوا ...تكاد السموات يتفطّرن منه و تنشقّ الأرض وتخّر الجبال هدّا

''تفطّر'' كى اصل '' فطر ہے جس كا معنى شگافتہ كرنا لمبائي ميں اور ''انشقاق '' كا معنى دراڑيں اور سوراخ پيدا ہونا ہے_ نيز''تخرّ '' كا مصدر ''خرّ''كا معنى آواز كے ساتھ كسى چيز كا گرنا ہے (مفردات راغب) ''ہداً'' كا معنى ٹوٹنا اور مٹى كے ساتھ يكساں كرناہے (لسان العرب) يہ مصدر كا لفظ ہے كہ جو اسم مفعول ''مہدودة'' كے معنى ميں استعمال ہوا ہے اور ''الجبال'' كيلئے حال ہے كائنات كى عظيم چيزوں كے بارے ميں بيان كرنا اس چيز پر تاكيد كہ الله تعالى كيلئے فرزند كے انتخاب كينسبت پورى كا ئنات كيلئے قابل تحمل نہيں ہے_

۲_ آسمانوں كا پھٹنا ،زمين كا ٹكڑوں ميں بٹنا اور پہاڑوں كا گرجانا، الله تعالى كے ليے فرزندكے انتخاب كے باطل دعوى كے مقابل ايك بجا سا امر ہے_تكادالسموات يتفطّرن منه و تنشق الا رض و تخّر الجبال هدا

فعل ''تكاد ''كسى چيز كے وقوع قريب پر دلالت كرتا ہے در اصل ''لا ئق ہونے '' كے مجازى معنى ميں استعمال ہو ا ہے اور امكان ہے كہ يہ مراد ہو كہ الله تعالى كے قدسى مقام كے ساتھ يہ بات كرنا ايسے ہى سے كہ كائنات كے ستونوں سے كوئي چيز ٹكراكريہ چيز تباہ ہوگئي ہو اور الله تعالى اس بات سے اس حد تك غضبناك ہے كہ اب يہ حق بنتا ہے كہ وہ آسمانوں اور زمين كو اپنى جگہ نہ رہنے دے اور سب كو تباہ و بر باد اور پہاڑوں كو گرادے_

۳_ آسمان بہت سے اورقابل شگافتہ ہيں _

۷۹۷

تكاد السموات يتفطّرن منه

آيت كا مضمون ايك ''استعارہ'' ہے كہ اگر چہ ايسے مواقع پر حقيقى معانى مراد نہيں ہيں ليكن احتمال ہے كہ حقيقى معانى كو ملحوظ خاطر ركھا گيا ہے_

آسمان:آسمانوں كا پھٹنا ۲،۳; آسمانوں كا زيادہ ہونا۳

الله تعالى :الله تعالى كى طرف فرزند كى نسبت كا ناپسنديدہ ہونا ۱; الله تعالى كى طرف فرزند كى نسبت كے آثار۲

پہاڑ:پہاڑوں كاگرنا۲

جھوٹ باندھنا:الله تعالى پر جھوٹ باندھنا۱

زمين:زمين كا پھٹنا۲

آیت ۹۱

( أَن دَعَوْا لِلرَّحْمَنِ وَلَداً )

كہ ان لوگوں نے رحمان كے لئے بيٹا قرار ديديا ہے (۹۱)

۱_ الله تعالى كى طرف فرزند كے انتخاب كى نسبت ايك نہايت غلط اور كائنات كيلئے دشوار بات ہے_

تكاد السموات يتفطّرن منه ...أن دعوا للرحمن

''دعوا'' كا معنى ''جعلوا'' ہے ''لسان العرب'' '' ان دعوا'' (گذشتہ آيت ميں ) ''منہ '' كى ضمير كو بيان كر رہا ہے_

۲_اللہ تعالى اپنى تمام تر حقيقت كے ساتھ فرزند ركھنے سے منزہ ہے_تكاد السموات يتفطّرن ...أن دعوا للرحمن ولدا

۳_ لفظ''رحمان'' الله تعالى كے اسماء اور اوصاف ميں سے ہے اور زمانہ بعثت كے لوگوں ميں جانا پہچانا تھا_

أن دعوا الرحمن ولدا

۴_ الله تعالى كا فرزند ركھنا اسكى وسيع رحمت اور تمام مخلوقات كے شامل حال ہونے كے ساتھ سازگار نہيں ہے_

أن دعوا للرحمن ولدا عبارت''أن دعوا '' كے ضمن ميں صفت ''رحمان'' (رحمت كے وسيع اور عام ہونے) كا انتخاب اس گمان كہ رد ہونے كى دليل ہے كيونكہ تمام مخلوقات حتّى كہ ان خيالى فرزندوں كو بھى الہى رحمت شامل ہے لہذا ان ميں سے كوئي بھى اس رحمت كے خالق سے سازگارى نہيں ركھتا كہ اسكا فرزند يا اسكى مانند شمار ہو_

۷۹۸

اسماء وصفات:رحمان ۳; صفات جلال ۲،۴

الله تعالى :الله تعالى اور فرزند ۲،۴; الله تعالى كى رحمانيت ۴; الله تعالى كى طرف فرزند كى نسبت كا ناپسنديدہ ہونا۱

جھوٹ باندھنا:الله تعالى كى طرف جھوٹ باند ھنا۱

خلقت:خلقت اور الله تعالى كا منزہ ہونا۲

لوگ:زمانہ بعثت كے لوگوں كى الہى معرفت۳

آیت ۹۲

( وَمَا يَنبَغِي لِلرَّحْمَنِ أَن يَتَّخِذَ وَلَداً )

جب كہ يہ رحمان كے شايان شان نہيں ہے كہ وہ كسى كو اپنا بيٹا بنائے (۹۲)

۱_ الله تعالى كا فرزند انتخاب كرناايك ناممكن اور پروردگار كى شان كے خلاف كام ہے_و ما ينبغى للرحمن ...ولدا

لفظ''انبغي'' اس وقت استعمال كيا جاتا ہے كہ جب كسى كام كيلئے راستہ ہموار ہو (قاموس) اور ''ما ينبغي'' اس كام كے امكان كى نفى كرتا ہے_

۲_مشركين كے ايك گروہ كے خيال ميں الله تعالى نے اپنى بعض مخلوقات كو اپنے فرزند قرار ديا ہے_أن يتخذ ولدا

اس آيت اور گذشتہ آيت ميں ''اتخاذ'' كى تعبير سے ايسا معلوم ہوتا ہے كہ الله تعالى كے فرزند انتخاب كرنے كے معتقد لوگوں كا گمان فقط يہ تھا كہ اس نے مخلوقات ميں سے كسى كو اپنا فرزند ہونے كا عنوان عطا كيا ہے نہ كہ وہ اس سے بيٹے كى ولادت كے قائل ہيں _

۳_ تمام مخلوقات ،الہى نعمت و رحمت كى مرہوں منت ہيں وہ ہرگز الوہيت كے درجہ ميں قرار نہيں پاسكتيں كہ اسكا فرزند شمار ہوں _وما ينبغى للرحمن أن يتخذ ولدا

اس آيت ميں ''رحمان '' كے نام كا ذكر در اصل الله تعالى كے فرزند انتخاب كرنے كے گمان كے باطل ہونے پر ايك دليل كى طرح ہے_ اس دليل كى ايك صورت يہ ہے كہ الله تعالى كا مخلوقات سے رابطہ رحمت عطا كرنے والا اور رحمت كے شامل حال والا ہے رحمت كے شامل حال كبھى بھى رحمت عطا كرنے والے كے ربتہ ميں قرار نہيں پا سكتا لہذا نتيجہ يہ نكلاكہ عنوان ''ولد'' كہ جو اپنے والد كے ہم جنس ہوتا ہے يہ عنوان يہاں الوہيت كى شان ركھنے والا نہيں ہے_

۷۹۹

۴_ فرزند كا انتخا ب نقص كى علامت ہے اور الله تعالى اس سے منزّہ ہے_وما ينبغى للرحمن أن يتخذ ولدا

فرزند كا انتخاب، رحمت كے وسيع ہونے كے ساتھ سازگار نہيں ہے كيونكہ الله تعالى كا فرزند (نعوذباللہ) اسكے ہم جنس ہوتا اور الوہيت ميں اس كى مانند ہوتا تو نتيجہ ميں اسكى رحمت كا محتاج نہ ہوتا كيونكہ اسكا لازمہ يہ ہے كہ الله تعالى كى رحمت وسيع نہ ہوتى اور يہ نقص ہے_

۵_ رحمان، الله تعالى كے اسماء اور اوصاف ميں سے ہے_وما ينبغى للرحمن

اسماء وصفات:رحمان۵; صفات جلال۱،۴

الله تعالي:الله تعالى اور فرزند۱،۲; الله تعالى اور نقص۴; الله تعالى كا منزہ ہونا۴; الله تعالى كى شان۱

الوہيت :الوہيت كى شرائط۳

رحمت :رحمت كے شامل حال لوگوں كى الوہيت۳

فرزند ركھنا :فرزند ركھنے كے آثار۴

مخلوقات:مخلوقات كا عجز۳

مشركين:مشركين كا عقيدہ۲

نقص:نقص كى علامتيں ۴

آیت ۹۳

( إِن كُلُّ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمَنِ عَبْداً )

زمين و آسمان ميں كوئي ايسا نہيں ہے جو اس كى بارگاہ ميں بندہ بن كر حاضر ہونے والا نہ ہو (۹۳)

۱_آسمانوں اور زمين كى تمام باشعور مخلوقات، الله تعالى كى عبد اور مملوك ہيں _أن يتّخذ ولداً _ إن كلّ من فى السموات ء اتى الرحمن عبد ''آتي'' اسم فاعل ہے اور اسميں زمانے كا لحاظ نہيں كيا گيا ہے''ايتان'' سے اسكا مجازى معنى مراد ہے اس آيت سے مقصود يہ ہے كہ كائنات كى مخلوقات الله تعالى كے مقابل عبوديت كے علاوہ كچھ

۸۰۰

801

802

803

804

805

806

807

808

809

810

811

812

813

814

815

816

817

818

819

820

821

822

823

824

825

826

827

828

829

830

831

832

833

834

835

836

837

838

839

840

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863

864

865

866

867

868

869

870

871

872

873

874

875

876

877

878

879

880

881

882

883

884

885

886

887

888

889

890

891

892

893

894

895

896

897

898

899

900

901

902

903

904

905

906

907

908

909

910

911

912

913

914

915

916

917

918

919

920

921

922

923

924

925

926

927

928

929

930

931

932

933

934

935

936

937

938

939

940

941

942

943

944

945