تفسير راہنما جلد ۱۰

تفسير راہنما 8%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 945

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 945 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 253989 / ڈاؤنلوڈ: 3516
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱۰

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

۴_ بادشاہ اور حضرت يوسفعليه‌السلام كى پہلى ملاقات، بادشاہ كے خواب اور حضرت يوسفعليه‌السلام كى تعبير اور ان كا بادشاہ كے مشيرانہ عہدے پر فائز ہونےكے سلسلہ ميں گفتگو ہوئي_و قال الملك ائتونى به استخلصه لنفسى فلما كلمه

اگر چہ آيت شريفہ ميں اس بات كى وضاحت نہيں ہوئي كہ بادشاہ اور حضرت يوسفعليه‌السلام كے مابين كس موضوع پر گفتگو ہوئي ليكن قرائن حاليہ و مقاليہ اس بات كى طرف اشارہ كرتے ہيں كہ بادشاہ كے خواب اور حضرت يوسفعليه‌السلام كى تعبير اور ان كو اپنے مشير كے عہدے پر فائز كرنے كے سلسلہ ميں گفتگو تھي_

۵_ حضرت يوسفعليه‌السلام كى بادشاہ سے پہلى ملاقات نے بادشاہ كے ان پر اعتماداور توجہ كو زيادہ كرديا_

فلما كلّمه قال انك اليوم لدينا مكين امين

ظاہر يہ ہے كہ (كلمہ ) ميں فاعل كى ضمير، حضرت يوسفعليه‌السلام اور مفعول كى ضمير بادشاہ كى طرف لوٹ رہى ہے _(قال انك ...) كا جملہ اس بات كا مؤيد ہے اور كيونكہ بادشاہ نے حضرت يوسفعليه‌السلام سے گفتگو كرنے كے بعد اس بات (إنك اليوم ...) كا اظہار كيا تو اس سے معلوم ہوتا ہے كہ بادشاہ كى حضرت يوسفعليه‌السلام كى طرف توجہ ،پہلے سے زيادہ ہوگئي_

۶_انسان كى كلام، اسكى شخصيت اور منزلتكو بيان كرنے والى ہوتى ہے_فلما كلمه قال انك اليوم لدينا مكين امين

۷_ حضرت يوسف(ع) ، مقتدرو امين اور قابل اعتماد انسان تھے_إنك اليوم لدينا مكين أمين

۸_ بادشاہ مصر نے حضرت يوسفعليه‌السلام سے ملاقات كے دوران جب اس پران كى شخصيت اور ان كا علم و دانش عياں ہوگيا تو اس نے اس بات كا اظہار كيا كہ اپنى حكومت كے معاملے ميں انكے مشورے كو نافذ اور اس كے فرمان كى بجا آورى كرے گا_فلما كلمه قال انك اليوم لدينا مكين آمين

جسكا مقام و منزلت بلند و رفيع ہو اسكو(مكين) كہا جاتاہے نيز (أمين) اس كوكہا جاتاہے جو خيانت سے پرہيز كرے اوراسكى بات ميں صداقت اور كردار و عمل ميں سچائي كے ہونے كااطمينان ہو_بادشاہ كى يہ بات كہ تم ہمارے ہاں بلند مرتبہ ركھنے والے ہو يہ اس بات كى طرف كنايہ ہے _ كہ آپ كے مشوروں كو نافذ العمل ٹھہرائيں گے اور حكومت كے معاملے ميں آپ جو بھى مشورہ ديں گے ہم اسكو قبول كريں گے _

۹_ يوسف كے زمانے ميں بادشاہ مصر ايك صاحب

۵۲۱

حكمت و فراست اور مدبر شخص تھا _و قال الملك ائتونى به استخلصه لنفسى فلما كلمه قال انك اليوم لدينا مكين آمين

۱۰_حضرت يوسفعليه‌السلام كے زمانے ميں مصر كا بادشاہ ، پاكدامن ، دانشمند اور صحيح لوگوں كو دوست ركھنے والا انسان تھا_

فلما كلّمه قال انك اليوم لدينا مكين امين

۱۱_ جو شخص كسى كو منصب و مقام دے رہاہے اسے چاہيئے كہ اس منصب كو لينے والے شخص كى طاقت اور اسكى امانت دارى كا يقين حاصل كرے_قال الملك ائتونى به استخلصه لنفسى مكين آمين

۱۲ _ بادشاہ مصر كے ہاتھوں حضرت يوسفعليه‌السلام كى غلامى كے حكم كو ختم كيا جانا_

ائتونى به استخلصه قال انك اليوم لدينا مكين امين

(استخلصه لنفسي ) كا جملہ نيز حضرت يوسفعليه‌السلام كى غلامى كے قصے كا دوبارہ اس داستان ميں ذكر نہ ہونا مذكورہ بالا تفسير كوبتاتا ہے_

بادشاہ مصر :بادشاہ مصر اور امين لوگ ۱۰; بادشاہ مصر اور علماء ۱۰ ; بادشاہ مصراور عفيف و پاكدامن لوگ۱۰;بادشاہ مصر اور يوسفعليه‌السلام ۱ ، ۲ ;بادشاہ مصر اور يوسفعليه‌السلام كى غلامى ۱۲ ;بادشاہ مصر كا حضرت يوسفعليه‌السلام پر اعتماد ۵ ; بادشاہ مصر كا خواب ۴ ; بادشاہ مصر كا مخصوص مشير ۲، ۴ ;بادشاہ مصر كى حكمت ۹ ;بادشاہ مصركى مديريت ۹ ; بادشاہ مصر كى يوسفعليه‌السلام سے ملاقات ۸ ; بادشاہ مصر كے فضائل ۹ ، ۱۰

حكومت:حكومت كے حكام كى امانتدارى ۱۱ ; حكومت كے حكام كى تعيناتى كے شرائط ۱۱ ; حكومت كے حكام كى قدرت و طاقت ۱۱

شخصيت :شخصيت كى پہچان كا سبب ۶كلام :كلام كا كردار۶

نفسيات كا علم ۶

يوسفعليه‌السلام :يوسفعليه‌السلام دربار مصر ميں ۳ ، ۵ ، ۸;يوسفعليه‌السلام زندان كے بعد ۳ ، ۴ ;يوسفعليه‌السلام سے لگاؤ ۱ ; يوسفعليه‌السلام كا اقتدار۷ ; يوسفعليه‌السلام كا قصہ ۱ ، ۲ ، ۳ ،۴ ، ۵ ، ۸،۱۲;يوسفعليه‌السلام كو دعوت دينا ۱ ، ۲ ۴; يوسفعليه‌السلام كى امانتدارى ۷ ; يوسفعليه‌السلام كى بادشاہ مصر سے گفتگو ۴ ، ۵;يوسفعليه‌السلام كى بےگناہى ۳;يوسفعليه‌السلام كى بے گناہى كے آثار ۱ ; يوسف كى شخصيت ۸ ;يوسفعليه‌السلام كى عفت كے آثار ۱; يوسفعليه‌السلام كے علم كے آثار ۸ ;يوسف كے فضائل ۷

۵۲۲

آیت ۵۵

( قَالَ اجْعَلْنِي عَلَى خَزَآئِنِ الأَرْضِ إِنِّي حَفِيظٌ عَلِيمٌ )

يوسف نے كہا كہ مجھے زمين كے خزانوں پر مقرر كردوں كہ ميں محافظ بھى ہوں اور صاحب علم بھى (۵۵)

۱ _ حضرت يوسفعليه‌السلام نے بادشاہ سے كہا كہ مجھے مصر كى زراعت كا وزير اور غلات كے سٹور كا ناظر مقرر كردے_

قال اجعلنى على خزائن الارض

حضرت يوسفعليه‌السلام نے بادشاہ كے خواب كى جو تعبير بتائي كہ سات سال زراعت كے كام ميں بہت محنت كرنى چاہيے اور اسكى پيداوار كو ذخيرہ كرنا چاہيے اس بات سے يہ معلوم ہوتاہے كہ حضرت يوسفعليه‌السلام نے ان سے خواہش كى ( كہ مجھے زمين كے خزانے پر مامور كرديں ) يعنى مذكورہ امور كو ميرے سپرد كردے يعنى زراعت كى كاشت اور آمدنى ( وزارت زراعت) اور غلات كے انبار ميرے سپرد كرديئے جائيں _

۲ _ حضرت يوسفعليه‌السلام كا حكومتى منصب كى خواہش كرنے كا مقصد يہ تھا كہ مصر كے لوگوں كے ليئے قحطى و خشكسالى كى وجہ سے جو حادثہ رونما ہونے والا ہے اس سے ان كو بچايا جائے_اجعلنى على خزائن الارض

۳ _ حضرت يوسفعليه‌السلام نے بادشاہ كو مصر كے لوگوں كى خوراك كے امور كو سنبھالنے كى دليل سے آگاہ كيا_

اجعلنى على خزائن الارض انى حفيظ عليم

(انى حفيظ عليم ) كا جملہ (اجعلني ...) كے جملے كے ليے علت ہے_

۴ _ حضرت يوسفعليه‌السلام اس بات كى قدرت ركھتے تھے كہ خوراك كے ذخيرے كو تلف ہونے سے بچا سكيں _

اجعلنى على خزائن الارض انى حفيظ عليم

۵ _ حضرت يوسفعليه‌السلام غلات كى كاشت و كٹائي اور اس كو ذخيرہ اور صحيح تقسيم كرنے سے كامل طور پر واقف تھے_

اجعلنى على خزائن الارض انى حفيظ عليم

۶_حضرت يوسف(ع) اپنى صلاحتيوں كے مطابق كا شت وكٹائي اور غلات كو ذخيرہ اور تقسيم كرنے كى تاكيد كرتے تھے_(انّى حفيظ عليم ) كا جملہ نہ صرف اس پر دلالت كرتاہے كہ حضرت يوسفعليه‌السلام مذكورہ مسائل و امور كا علم ركھتےہيں بلكہ اس كے علاوہ عملى طور پر اسكى انجام دہى كى بھى طاقت ركھتے ہيں اور اس كو كامل طور پر انجام دينے كا وعدہ بھى كرتے ہيں _

۵۲۳

۷_كفر و شرك كى حكومت ميں ، حكومتى كاموں كى ملازمت كا تقاضا كرنے كا جواز _قال اجعلنى على خزائن الأرض

۸_ حكومتى عہدوں پر فائز ہوناحتى كفر و شرك والى حكومتوں ميں ملازمت كرنا جائز رہا ہے _

قال اجعلنى على خزائن الأرض

۹_ كسى دينى اور انسانى ذمہ دارى كو سنبھالنے كيلئے اپنے مثبت خصوصيات كو بيان كرنا جائز اور مناسب ہے _

قال اجعلنى على خزائن الأرض انى حفيظ عليم

۱۰_ ماہر، لائق اور كام كوسمجھنے والے اشخاص كے ليے ضرورى ہے كہ كسى ذمہ دارى سے انكار نہ كريں بلكہ ان امور كے چلانے ميں ذمہ دارى كو قبول كريں _قال اجعلنى على خزائن الأرض انى حفيظ عليم

۱۱_ حكومت كو چاہيے كہ بحرانى حالات ميں اقتصادى امور(پيداوار اور اس كى تقسيم )كينگرانى كرے _

قال اجعلنى على حزائن الأرض انى حفيظ عليم

۱۲_مہتمم ہونے اوروزارت كو چلانے كے ليے ،علم اور قدرت دو بنيادى شرطيں ہيں _اجعلنى انى حفيظ عليم

۱۳_ معاشرے كے مالياتى امور كى سرپرستى كے ليے اسكا صاحب علم اور امين ہونا، شرط ہے _اجعلنى انى حفيظ عليم

۱۴_ مہارت اور علم كے بغير كسى كام كى ذمہ دارى لينا نيز مہارت بغيرذمہ دارى كے كارساز نہيں ہے_

اجعلنى على خزائن الأرض انى حفيظ عليم

۱۵_عن رسول الله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم : رحم الله اخى يوسف لو لم يقل : اجعلنى على خزائن الأرض لو لّاه من ساعته ولكنّه آخّر ذلك سنة (۱)

رسول اللهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روايت ہے كہ خداوند متعال ميرے بھائي حضرت يوسفعليه‌السلام پر رحمت نازل كرے اگروہ زمين كے خزانوں كى سرپرستى كا تقاضا نہ كرتے تو يہ منصب اسى وقت ان كو مل جاتا (ليكن انكا تقاضا كرنا كہ مجھے سرپرستى دى جائے يہ تقاضا كرنا سبب بنا كہ انہيں ايك سال كى تأخير سے يہ منصب عطا ہو ا_

____________________

۱) مجمع البيان ، ج ۵، ص ۳۷۲; نورالثقلين ج۲، ص ۴۳۲حديث ۹۸_

۵۲۴

۱۶_عن على بن موسى الرضا عليه‌السلام ... انّ يوسف عليه‌السلام ... لما دفعته الضرورة الى تولى خزائن العزيز قال : اجعلنى على خزائن الأرض (۱)

امام رضاعليه‌السلام سے روايت ہے كہ جب يہ ضرورت محسوس ہوئي كہ حضرت يوسفعليه‌السلام عزيز مصر كے خزانوں كى سرپرستى كو قبول كرے تو فرمايا:اجعلنى على خزائن الأض

۱۷_قال سفيان : قلت لأبى عبدالله عليه‌السلام يجوز ان يزكّى الرجل نفسه ؟ قال : نعم اذا اضطرّ اليه اما سمعت قول يوسف : '' ...انى حفيظ عليم ...'' (۲) سفيان كہتا ہے كہ ميں نے امام صادقعليه‌السلام سے عرض كى كہ كيا جائز ہے انسان اپنى تعريف كرے ؟ تو حضرتعليه‌السلام نے فرمايا ہاں جب ضرورت ہو تو، كيا تونے نہيں سنا كہ حضرت يوسفعليه‌السلام نے فرمايا'' ...انّى حفيظ عليم ...''

۱۸_عن ابى عبدالله انه قال لقوم مّمن يظهرون الزّهد و يدعون الناس ان يكونوا معهم على مثل الذى هم عليه من التقشّف ...ا خبرونى اين انتم عن يوسف النبى عليه‌السلام حيث قال لملك مصر: ''اجعلنى على خزائن الأرض ...'' فكان من امره الذى كان ان اختار مملكة الملك و ما حولها الى اليمن فلم نجد احداً عاب ذلك عليه (۳) امام صادقعليه‌السلام سے روايت ہے كہ آپ(ع) نے ان لوگوں كو مخاطب ہو كر فرمايا جو اپنے زہد كا اظہار كرتے تھے اور لوگوں كو اسكى دعوت ديتے تھے كہ ان كى طرح دنيا كى زندگى كو سختى و مشكلات كے ساتھ گزارو ، تو حضرتعليه‌السلام نے انہيں مخاطب ہوكر فرمايا كہ مجھے بتاؤ كہ حضرت يوسف(ع) كے بارے ميں تمھارى كيا رائے ہے يہ كہ انہوں نے بادشاہ مصر سے فرمايا: (اجعلنى على خزائن الارض ...) پس حضرت يوسف(ع) نے اتنى ترقى كى كہ پورے ملك كا يمن تك بادشاہ بن گئے ليكن كسى ايك نے بھى ان ميں يہ عيب نہيں نكالا كہ وہ بادشاہ كيوں بناہے_

۱۹_عن الرضا عليه‌السلام ...فى قوله تعالى : '' ...انّى حفيظ عليم '' قال: حافظ لما فى يدّى عالم بكلّ لسان (۴) امام رضاعليه‌السلام سے خداوند متعال كے اس قول ...انّى حفيظ عليم كے بارے ميں روايت ہوئي ہے كہ اس سے مراد يہ ہے كہ ميں تمام چيزوں كى حفاظت كرنے والا ہوں جو ميرے كنٹرول ميں ہيں اور تمام زبانوں سے واقف ہوں _

____________________

۱) عيون الاخبار الرضا ، ج ۲،ص ۱۳۹، ح ۲، ب ۴۰ ; نورالثقلين ، ج۲ ص ۴۳۲، ح۹۹_۲) تفسير عياشى ، ج۲، ص ۱۸۱، ح۴۰; نورالثقلين ، ج ۲ ص ۴۳۳، ح۱۰۳_

۳) كافى ج ۵، ص ۷۰، ح ۱ ; نورالثقلين ج ۲، ص ۴۳۴، ح ۱۰۴_۴) علل الشرائع ص ۲۳۸، ح۲) ب۱۷۳; نورالثقلين ج۲، ص ۴۳۲، ح۱۰۰_

۵۲۵

احكام : ۷، ۸، ۹

اقتصاد :اقتصادى امور ميں سرپرستى كے شرائط ۱۳; اقتصادى بحران ميں پيداوار پر نظارت ركھنے كى اہميت ۱۱ ;اقتصادى بحران ميں تقسيم پر نظارت ركھنے كى اہميت ۱۱; اقتصادى بحران ميں سياست ۱۱

انسان :لائق انسانوں كى ذمہ داري۱۰

حكومت :حكومت شرك سے ملازمت كى درخواست ۷; حكومت كفر سے ملازمت كى درخواست۷; حكومت كفر ميں ذمہ دارى كا قبول كرنا ۷، ۸; حكومت كى ذمہ دارى ۱۱

خوداپنى تعريف :اپنى تعريف كا جائز ہونا ۹، ۱۷;اپنى تعريف كے احكام ۹، ۱۷

ذمہ دارى :ذمہ دراى كو قبول كرنے كى اہميت ۱۰

روايت : ۱۵، ۱۶، ۱۷، ۱۸، ۱۹

سرپرستى :سرپرستى كرنے كا علم ۱۲; سرپرستى كرنے كى قدرت ۱۲; سرپرستى كے شرائط ۱۲

ملازمت :ملازمت كا جائز ہونا ۷، ۸;ملازمت كے احكام ۷، ۸

معاشرہ :معاشرے ميں اقتصادى امور كى اہميت ۱۳

وزارت :وزارت سنبھلانے كے شرائط ۱۲

وعدہ:وعدہ اور مہارت۱۴

يوسفعليه‌السلام :يوسفعليه‌السلام اور غذائي امور كى سرپرستى ۳، ۴; يوسفعليه‌السلام اور غلّات كا ذخيرہ كرنا ۶; يوسفعليه‌السلام اور قحطى كى مشكلات كا كنٹرول ۲; يوسفعليه‌السلام اور وزارت زراعت ۱; يوسفعليه‌السلام كا اپنى تعريف كرنا ۱۷; يوسفعليه‌السلام كا علم ۱۹; يوسفعليه‌السلام كا علم اقتصاد ۵;يوسفعليه‌السلام كا قصّہ ۱، ۲، ۳ ، ۴، ۶، ۱۵، ۱۶، ۱۸، ۱۹;يوسفعليه‌السلام كو زراعت كا علم ۵، ۶; يوسفعليه‌السلام كى اقتصادى سياست ۴; يوسفعليه‌السلام كى امانت دارى ۱۹;يوسفعليه‌السلام كى بادشاہ مصر سے گفتگو ۱، ۳، ۱۶، ۱۸; يوسفعليه‌السلام كى خزانہ دارى ۱، ۴، ۵، ۱۶;يوسفعليه‌السلام كى خواہش كے پورا ہونے ميں دير ۱۵;يوسفعليه‌السلام كى خواہشات۱، ۱۶، ۱۸; يوسفعليه‌السلام كى خواہشات كا فلسفہ ۲;يوسفعليه‌السلام كى دور انديشى ۲;يوسفعليه‌السلام كى صلاحيت ۳، ۴، ۶;يوسف(ع) كى مجبورى ۱۶

۵۲۶

آیت ۵۶

( وَكَذَلِكَ مَكَّنِّا لِيُوسُفَ فِي الأَرْضِ يَتَبَوَّأُ مِنْهَا حَيْثُ يَشَاءُ نُصِيبُ بِرَحْمَتِنَا مَن نَّشَاء وَلاَ نُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ )

اور اس طرح ہم نے يوسف كو زمين ميں اختيار دے ديا كہ وہ جہاں چاہيں رہيں _ہم اپنى رحمت سے جس كو بھى چاہتے ہيں مرتبہ ديے ديتے ہيں اور كسى نيك كردار كے اجرا كو ۲_ ضائع نہيں كرتے (۵۶)

۱_ مصر كے بادشاہ نے حضرت يوسفعليه‌السلام كے مشورہ كو قبول كرتے ہوئے كھتى باڑى و زراعت اور اسكى نگہدارى اور تقسيم كو ان كے سپرد كرديا _اجعلنى على خزائن الأرض و كذلك مكّنّا ليوسف فى الأرض

۲_ حضرت يوسفعليه‌السلام مصر كى سرزمين پر بغير كسى متنازع ہونے كے، قدرت اور مقام منزلت كے مالك ہوگئے _

مكّنا ليوسف فى الأرض يتبّوا منها حيث يشاء

''تمكين'' ''مكنّنا'' كا مصدر ہے جو كہ مكان دينے نيز قدرت عطا كرنے كے معنى ميں بھى آتا ہے _ يہاں حكم اور موضوع كى مناسبت اور (فى الأرض) كى قيدلگانے سے ظاہر ہوتا ہے كہ دوسرا معنى مراد ہے _ اسى وجہ سے ''مكنّا ليوسف فى الأرض'' كا معنى يہ ہوا كہ ہم نے مصر كى پورى سرزمين پر حضرت يوسفعليه‌السلام كو قدرت و سلطنت عطا كى اور (حيث يشاء) كا جملہ بتاتا ہے كہ اس كے مقابلے ميں كوئي قدرت و طاقت نہيں تھي_

۳_ حضرت يوسفعليه‌السلام ،مصر كى پورى سرزمين ميں تصرف اور مستقر ہونے كے حوالے سے آزاد اور اختيار ركھتے تھے _

مكنّا ليوسف فى الأرض يتبّوا منها حيث يشاء

(يتبّوا ) كا معنى ٹھہرنا اور رہائش پذير ہونےكے ہيں پس جملہ '' يتبّوا منہا حيث يشاء'' كا معنى يہ ہوا كہ (مصر ميں جس جگہ وہ چاہيں ٹھہر سكتے اور رہائش پذير ہوسكتے تھے) يہ جملہ لفظ (مكنّا) كى تفسير كے مقام پر ہے_يہ جملہ اصل ميں كنايہ

۵۲۷

ہے كہ وہ مصر كى پورى سرزمين ميں تصرف كرنے اور اس پر اقتدار كرنے كى طاقت و قدرت ركھتے تھے _

۴_ حضرت يوسفعليه‌السلام ، خداوند متعال كى طرف سے مصر كى تمام سرزمين ميں تصرف كرنے كى ولايت ركھتے تھے _

و كذلك مكنّا ليوسف فى الأرض يتبّوا منها حيث يشاء

(مكنّا ليوسف ...) كا جملہ اقتدار تكوينى كے ساتھ ساتھ اقتدار تشريعى كوبھى شامل ہے_ يعنى خداوند متعال نے ان كو مصر كى تمام سرزمين پر دخل اندازى اور تصرّف كرنے كى اجازت عطا فرمائي ہے _

۵_ حضرت يوسفعليه‌السلام كى داستان ( كنعان كے كنويں سے نجات پاكر وزارت اور قدرت تك پہنچنا) يہ ارادہ خداوندى اور اس كى تدبير كے مطابق تھي_و كذلك مكنّا ليوسف فى الأرض

۶_ اسباب اور علل كو پيدا اور جارى كرنا، خداوند متعال كے اختيار اور ہاتھ ميں ہے _و كذلك مكنّا ليوسف فى الأرض

۷_ تاريخ كے حوادث اور اس كے جريان ميں ارادہ الہى حاكم ہے _و كذلك مكنّا ليوسف فى الأرض

۸_ مملكت كى بحرانى صورت ميں حكومتوں كو اختيار ہے كہ لوگوں كو ان كے اپنے اموال و املاك ميں تصرّف كى آزادى محدود كرديں اور انہيں عمومى مصالح كى طرف لے جائيں _

اجعلنى على خزائن الأرض كذلك مكنّا ليوسف فى الأرض يتبّوا منها حيث يشاء

۹_ خداوند متعال، جسكو بھى چاہے اپنى رحمت خاصّہ عطا كرتا ہے _نصيب برحمتنا من نشاء

۱۰_ مصر ميں حضرت يوسفعليه‌السلام كا بلامنازع اور مطلق اقتدار ،خداوند متعال كى ان پر رحمت خاصّہ كا ايك جلوہ تھا _

كذلك مكنّا ليوسف ...نصيب برحمتنا من نشاء

۱۱_ حضرت يوسفعليه‌السلام كا غلامى اور زندان ميں اسارت كے بعد قدرت و حكومت حاصل كرنا ، تمام علل و اسباب پر خداوند عالم كى مشيّت كى حاكميت كى محكم دليل ہے_كذلك مكنّا ليوسف فى الأرض يتبّوا منها حيث يشاء نصيب برحمتنا من نشاء

(خداوند متعال ) كا يہ جملہ ( كہ جسكو چاہيں ہم اپنى رحمت ميں شامل كر ليتے ہيں اور اسكو قدرت عطا كرتے ہيں ) جو (نصيب برحمتنا) كے جملے سے سمجھا جاتا ہے يہ جملہ دعوى كے مقام پر

۵۲۸

ہے جسكو (كذلك مكنّا) سے استدلال كيا گيا ہے _

يعنى خداوند متعال نے ايك غلام كو جس كے پاس اپنا اختيار بھى نہيں تھا تمام لوگوں كے اختيار كو اسكے ہاتھ ميں دے ديا اور يہ روشن و واضح دليل ہے كہ الله تعالى ، مطلق حاكم ہے _

۱۲_ مشيت الہى كى حاكميت اور اس كے ارادے كا نافذ ہونا _نصيب برحمتنا من نشاء

۱۳_ نيك كام كرنے والے دانشورحضرات كى قدرت و اختيار، ان پر خداوند متعال كى نعمت و رحمت ہے _

انّى حفيظ عليم وكذلك مكنّا يوسفعليه‌السلام نصيبٌ رحمتنا من نش

رحمت الہى كے مصداق ''رحمتنا'' (مكنّا ليوسف فى ا لأرض) كے قرينے كى وجہ سے حضرت يوسفعليه‌السلام جيسے كا انسانوں كاقدرت و اختيار تك پہنچانا ہے_

۱۴_ خداوند متعال، نيك كام كرنے والوں كو دنيا ميں اپنى جزاء و عطا سے نوازتا ہے _ولا نضيع اجر المحسنين

بعد والى آيت كے قرينے سے معلوم ہوتا ہے كہ يہاں (اجر ) سے مراد ، دنيا ميں اجر دينا ہے _

۱۵_ خداوند متعال نيك لوگوں كو اجر كى نوازش كرنے ميں ذرہ برابر بھى ان سےكم نہيں كرتا_ولا نضيع اجر المحسنين

۱۶_ حضرت يوسفعليه‌السلام ان لوگوں ميں سے تھے جن پر احسان كيا گيا تھا_ولا نضيع اجر المحسنين

۱۷_ حضرت يوسفعليه‌السلام كا مصر كى سرزمين پر قدرت حاصل كرنا اور الہى رحمت خاصّہ سے بہرہ مند ہونا، ان كے نيك كاموں كى جزا تھى _كذلك مكنّا ...نصيب برحمتنا ...ولا نضيع اجر المحسنين

۱۸_ حضرت يوسفعليه‌السلام كا مصر كى سرزمين پر قدرت حاصل كرنا، يہ واضح و روشن دليلہے كہ خداوند متعال كى طرف سے نيك كام كرنے والوں كا اجر ضائع نہيں ہوتا ہے_

۱۹_ عفت ، پاكدامنى ، امانت، صداقت ،وحدہ لاشريك كى پرستش كرنا ، اپنے علم كو نہ چھپانا اورذمہ دارى كو قبول كرنا، نيك كاموں كے مصاديق شمار ہوتے ہيں _ولا نضيع اجر المحسنين

(المحسنين ) كے مورد نظر مصاديق ميں سے حضرت يوسفعليه‌السلام ہيں اسى وجہ سے جن اوصاف اور خصوصيات كو ان كے ليے ذكر كيا گيا ہے وہ قرآن مجيد كى نظر ميں احسان كرنے اور نيك كاموں كے موارد ہيں _

۵۲۹

۲۰_ محسنين لوگوں كا دنيا ميں الہى رحمت خاصّہ كا حامل ہونا مشيت اور تقاضائے الہى ہے _

نصيب برحمتنا من نشاء و لانضيع اجر المحسنين

۲۱_ مشيت الہي، منظم اور قانون كے ساتھ ہے _نصيب برحمتنا من نشاء و لانضيع اجر المحسنين

(لا نضيع ...) كا جملہ اور (لأجر الأخرة ...) كا جملہ جو(من نشاء ...) كے بعد بيان ہوا ہے بہ بتاتا ہے كہ خداوند متعا ل يہ چاہتا ہے كہ اپنى رحمت كو مؤمن اور باتقوى محسنين كو عطا فرمائے _ يعنى رحمت كا عطاء كرنا بغير دليل اور قابليت كے نہيں ہے_

آزادى :آزادى ميں محدو ديت كے شرائط ۸

احسان :احسان كى اہميت ۲۰، احسان كے موارد ۱۹

احكام :حكومت كے احكام ۸

الله تعالى :الله تعالى كا ارادہ ۵; الله تعالى كا دنيا ميں عطا كرنا ۱۴; الله تعالى كى بخشش ۱۵; الله تعالى كى جزاء ۱۵، ۱۸;الله تعالى كى رحمت كى نشانياں ۱۰;الله تعالى كى عدالت ۱۵، ۱۸;الله تعالى كى عدالت كے دلائل ۱۸;الله تعالى كى مشيت ۹، ۲۰; الله تعالى كى مشيت كى حاكميت ۱۱، ۱۲;الله تعالى كى مشيت ميں قانون كا ہونا ۲۱;الله تعالى كے اختيارات ۶; الله تعالى كے ارادے كى حاكميت ۷، ۱۲

الله تعالى كا اجر :اجر الہى كے شامل حال افراد۱۴

امانتداري:امانتدارى كى اہميت ۱۹

تاريخ:تاريخ ميں تحولات كا سبب ۷، ۱۱

توحيد :توحيد عبادى كى اہميت ۱۹

حكومت :بحرانى حالات ميں حكومت ۸;حكومت كے اختيارات ۸

رحمت :رحمت خاصّہ كے مستحقين ۲۰;رحمت كے مستحقين ۹، ۱۰،۱۳، ۱۷

صداقت :صداقت كى اہميت ۱۹

۵۳۰

ظاہرى اسباب و عوامل :ظاہرى اسباب و عوامل كا كردار ۶

عفت:عفت كى اہميت ۱۹

علم :علم كے اظہار كى اہميت ۱۹

علماء:محسن علماء كى قدرت ۱۳

عمومى مصلحتيں :عمومى مصلحتوں كى اہميت ۸

مال :اموال ميں تصرّف كرنے كى محدوديت ۸

محسنين :محسنين پر رحمت ۲۰;محسنين كا دنيا ميں اجر ۱۴; محسنين كى جزاء ۱۵

مصر كا بادشاہ :مصر كا بادشاہ اور حضرت يوسفعليه‌السلام كى فرمائشات ۱

نعمت :نعمت كے مستحقين ۱۳

يوسفعليه‌السلام :حضرت يوسف(ع) اور وزير زراعت ۱;حضرت يوسف(ع) پر رحمت ۱۷;حضرت يوسف(ع) كا اجر ۱۷ ; حضرت يوسف(ع) كا احسان ۱۷; حضرت يوسف(ع) كا اقتدار ۲، ۳، ۱۰;حضرت يوسف(ع) كا خزانہ دار ہونا ۱; حضرت يوسف(ع) كا قصہ ۱، ۲، ۳، ۵، ۱۱; حضرت يوسف(ع) كا محسنين ميں سے ہونا ۱۶;حضرت يوسف(ع) كى تشريعى ولايت ۴; حضرت يوسف(ع) كى تكوينى ولايت ۴; حضرت يوسف(ع) كى قدرت كا سبب ۵، ۱۱ ، ۱۷، ۱۸; حضرت يوسف(ع) كى نجات كا سبب ۵; حضرت يوسف(ع) كے فضائل ۱۰;حضرت يوسف(ع) كے مقامات ۲;حضرت يوسف(ع) مصر ميں ۲، ۳، ۴

آیت ۵۷

( وَلَأَجْرُ الآخِرَةِ خَيْرٌ لِّلَّذِينَ آمَنُواْ وَكَانُواْ يَتَّقُونَ )

اور آخرت كا اجر تو ان لوگوں كے لئے بہترين ہے جو صاحبان ايمان ہيں اور خدا سے ڈرنے والے ہيں (۵۷)

۱_ آخرت كا اجر، دنيا كے اجر سے بہتر اور برتر ہے _لا نضيع اجر المحسنين و لاجر الاخرة خير

۲_ نيك كام انجام دينے والے، دنيا كى زندگى ميں اجر سے بہرہ مند ہونے كے علاوہ آخرت ميں بھى بہترين اور برتر اجر پائيں گے_

۵۳۱

لا نضيع اجر المحسنين و لاجر الاخره خيرٌ

۳_ دنيا كى زندگى كا محدود ہونا اوراس ميں گنجائش كى محدويت، نيك لوگوں كے اجرو پاداش كے ليے مناسب نہيں ہے_

لا نضيع اجر المحسنين و لاجر الاخرة خير للذين و كانوا يتّقون

۴_ آخرت كا اجر ، رحمت الہى كا ايك نمونہ ہے _نصيب برحمتنا من نشاء و لاجر الاخرة خير

۵_ زمين پر سلطنت اور اقتدار كا ہاتھ ميں آنا، آخرت كى جزاء كے مقابلے ميں نا چيز ہے _

كذلك مكّنّا ليوسف فى الارض و لاجر الاخرة خير

۶_ اخروى اجر سے بہرہ مندى كى شرط، ايمان اور تقوى سے ملتزم ہونا ہے _

و لاجر الاخرة خير للذين ء امنوا و كانوا يتقون

(كان) كا لفظ اور اس طرح كے دوسرے الفاظ اگر فعل مضارع كے ساتھ استعمال ہوں تو گذرے ہوئے زمانہ ميں استمرار كو بتاتے ہيں _ اسى وجہ سے تقوى كے ساتھ ملتزم رہنا مذكورہ عبارت سے استفادہ كيا گيا ہے _

۷_ ايمان تقوى كے بغير اور تقوى بغير ايمان كے آخرت كى نعمتوں سے بہرمند ہونے كے ليے كام نہيں آسكتا _

للذين ء امنوا و كانوا يتّقون

۸_ اخروى نعمتوں تك رسائي كے ليے قيامت اور ميدان محشر پر ايمان اور گناہوں سے پرہيز كرنا ضرورى ہے _

و لاجر الاخرة خير للذين ء امنوا و كانوا يتقون

آيت شريفہ ميں يہ بيان نہيں ہوا كہ ايمان (آمنوا )تقوى (يتقون ) كا متعلّقكياہے _ (لاجرالاخرة ) كے قرينے سے يہ معلوم ہوتا ہے كہ يہاں ايمان سے مراد آخرت پر ايمان ہے اور تقوى سے مراد ان امور سے پرہيز كرنا ہے جو آخرت كى نعمتوں سے محروم كر ديتے ہيں _

۹_ حضرت يوسف(ع) ، متقى مومنين اور آخرت پر يقين ركھنے والوں كا واضح اور روشن نمونہ تھے_

و لاجر الاخرة خير للذين ء امنوا و كانوا يتقون

(الذين آمنوا ) كا مصداق، مذكورہ آيا ت كے قرينہ سے معلوم ہوتا ہے كہ حضرت يوسفعليه‌السلام تھے_

۱۰_ حضرت يوسفعليه‌السلام دنيا كے اجر سے بہتر، قيامت و آخرت ميں اجر پائيں گے_

و كذلك مكّنّا ليوسف فى الارض و لا نضيع اجر المحسنين و لاجر الاخرة خير

۵۳۲

.. و كانوا يتقون

۱۱_ حضرت يوسفعليه‌السلام كا دنيا و آ۱خرت ميں اجر پانے كا سبب، ايمان اور تقوى و پرہيزگارى كو برقرار ركھنا تھا_

و كذلك مكّنا ليوسف و لاجر الاخرة خير للذين ء امنوا و كانوا يتقون

آخرت :آخرت پر ايمان لانے والے : ۹

احسان :احسان كى اہميت ۲

ايمان :آخرت پر ايمان كے آثار ۸;ايمان كا اجر ۱۱; ايمان بغير تقوى كے ۷; ايمان كى اہميت ۶

اجر :آخرت كا اجر ۴;آخرت كے اجر كى اہميت ۱، ۵; آخرت كے اجر كے شرائط ۶; دنيا كے اجر كى ارزش ۱

اللہ تعالى كا اجر :اللہ تعالى كے اجر كے شامل حال لوگ۲

اللہ تعالى :اللہ تعالى كى رحمت كى نشانياں ۴

تقوى :بغير ايمان كے تقو ى ۷;تقوى كى اہميت ۶; تقوى كى جزاء ۱۱

حكومت :حكومت كى اہميت ۵

زندگى :دنياوى زندگى كى محدوديت ۳

قدرت :قدرت كى اہميت ۵

گناہ :گناہ كو ترك كرنے كے آثار ۸

مؤمنين : ۹

متقين : ۹

محسنين:محسنين اور دنياوى پاداش ۳;محسنين كا اجر آخرت ۲; محسنين كا دنيا ميں اجر ۲; محسنين كى جزاء ۳; محسنين كى دنيا ميں زندگى ۲

نعمت :آخرت كى نعمت كے اسباب ۷،۸

يوسف(ع) :حضرت يوسفعليه‌السلام كا ايمان ۹، ۱۱; حضرت يوسفعليه‌السلام كا تقوى ۹،۱۱; حضرت يوسف(ع) كا دنيا ميں اجر ۱۰، ۱۱; حضرت يوسف(ع) كى آخرت كى جزاء ۱۰، ۱۱; حضرت يوسفعليه‌السلام كے فضائل ۹

۵۳۳

آیت ۵۸

( وَجَاء إِخْوَةُ يُوسُفَ فَدَخَلُواْ عَلَيْهِ فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنكِرُونَ )

اور جب يوسف كے بھائي مصر آئے اور يوسف كے پاس پہنچنے تو انھوں نے سب كو پہچان ليا اور وہ لوگ نہيں پہچان سكے(۵۸)

۱_ حضرت يوسف كى پيشگوئي جو بادشاہ كے خواب كى بنا ء پر بتائي تھى اس نے حقيقت كا روپ دھارليا اور قحط و خشكسالى نے مصر اور اطراف مصر ( كنعان و غيرہ ) كو اپنى لپيٹ ميں لے ليا _و جاء اخوة يوسف قد خلوا عليه

آيت ۶۳ميں (منع منا الكيل ) كا جملہ اس بات كى حكايت كرتا ہے كہ مصر اور اطراف و نواح مصر ميں قحط پڑگيا اور كنعان سے برادران يوسف كا آنا اور خوراك كے بارے ميں سوال كرنا اس چيز كو بتاتا ہے كہ وہاں خوراك نہيں تھى _

۲_ حضرت يوسفعليه‌السلام پيداوار و زراعت كے سات سال كے دوران قحط كے زمانے كے ليے غلات كى پيداوار ذخيرہ كرنے ميں مكمل طور پر كا مياب رہے_و جاء اخوة يوسف

۳_ حضرت يوسف(ع) كے زمانے ميں كنعان كى سرزمين، مصر كى حكومت ميں نہيں تھى _و جاء اخوة يوسف

يہ بات بعيد نظر آتى ہے كہ حضرت يوسف نے مصر كے تمام مقامات سے غلات كو جمع كر كے مركز ميں اكھٹا كيا ہو _ كيونكہ ہر علاقے كے غلات كو منتقل كرنا خصوصاً اس زمانے ميں جب حمل و نقل ايك دشوار امر تھا_ لہذا طبيعى چيز يہى تھى كہ غلات كواسى مقام پر جمع كيا جاتا اور اگر كنعان كا علاقہ مصر كى حكومت كے قلمرو ميں ہوتا تو لازمى طور پر وہاں پر بھى ايك انبار بنايا جاتا تا كہ وہاں غلات كو جمع كيا جائے تو اس صورت ميں كنعان كے لوگوں كو مصر آنے كى ضرورت نہيں تھى _

۴_ غلات كى لگا تار كاشتكارى اور اسكى قحطى كے سالوں كے ليے ذخيرہ اندوزى كا منصوبہ صرف مصر كى حكومت كى حدود ميں انجام پايا_و جاء اخوة يوسف

۵_ مصر كى سرزمين حضرت يوسف كى مدبرانہ اور عالمانہ فكر اور دور انديشى سے قحط كے برے انجام سے نجات پاگئي _

و جاء اخوة يوسف

۶_ مصر ميں غلات و خوراك كے انبار و ذخيرہ كرنے كى خبر مصر اور اس كے اطراف كے شہروں تك پھيل گئي_

و جاء اخوة يوسف

۵۳۴

۷_ مصر و كنعان جغرافيائي اعتبار سے ايك ہى علاقے ميں تھے اورايك جيسى آب و ہوا ركھتےتھے_و جاء اخوة يوسف

۸_ حضرت يوسفعليه‌السلام كے زمانہ ميں قحط كے سات سالوں ميں مصر كے اطراف كے لوگ اپنے نان و نفقہ كے ليے مركز، مصر كى طرف رجوع كرتے تھے_و جاء اخوة يوسف و لما جهزهم بجهازهم

۹_ سوائے بنيامين كے حضرت يوسفعليه‌السلام كے بھائي كنعان سے مصر خورا ك مہيّا كرنے كى خاطر حضرت يوسفعليه‌السلام كى خدمت ميں حاضر ہوئے_و جاء اخوة يوسف فدخلوا عليه

بعد والى آيت (ائتونى باخ لكم ) اپنے پدرى بھائي كو ميرے پاس لاؤ) يہ بتانا چاہتى ہے كہ يہاں ( اخوة ) سے مراد ،برادران يوسف ہيں اور بنيامين ان ميں نہيں تھا_ اوربعد والى آيت ( و لما جہزہم ...) كا جملہ يہ بتانا چاہتا ہے كہ ان كا مصر ميں آنے كا كيا مقصد تھا_

۱۰_ حضرت يوسفعليه‌السلام نے اپنے بھائيوں كو ديكھتے ہى پہچان ليا حالانكہ كئي سال گذر چكے تھے_فدخلوا عليه فعرفهم

(فاء) جو ( فعرفہم ) ميں ہے اس بات كى حكايت كرتى ہے كہ حضرت يوسفعليه‌السلام نے بغير كسى سوال و جواب اور چھان بين كے جونہى بھائيوں كو ديكھا تو انہيں پہچان ليا_

۱۱_ حضرت يوسفعليه‌السلام سے لوگوں كى ملاقات حتى ان كيلئے جو مصر كے نہيں تھے بہت سہل و آسان تھي_

و جاء اخوة يوسف فدخلوا عليه

(فاء) جو (فدخلوا عليہ) ميں ہے اس بات كو بيان كرتى ہے كہ حضرت يوسفعليه‌السلام اور ان كے بھائيوں كے آنے كے بعد ان كى ملاقات ميں كوئي فاصلہ نہيں تھا اور (عرفہم ) كا جملہ بھى اس بات پر دلالت كرتا ہے كہ كوئي نگہبان بھى نہيں تھا جو ملاقات كرنے والوں كے حسب و نسب كے بارے ميں سوال كرے اور حضرت يوسفعليه‌السلام كو اس كے بارے ميں خبر دے اور ان سے ملاقات كرنے كى اجازت طلب كرے اس سے يہ واضح ہوتا ہے كہ حضرت يوسفعليه‌السلام سے ملاقات كرنا آسان تھى حتى كہ ان لوگوں كے ليے بھى جو مصر كے رہنے والے نہيں تھے_

۱۲_ حكومت كے عہدہ داروں كو ايسا قانون بنانا چاہيے كہ لوگوں كى ان سے ملاقات آسانى سے ہو سكے_

و جاء اخوة يوسف فدخلوا عليه فعرفهم

۱۳_ حضرت يوسفعليه‌السلام كى بھائيوں سے ملاقات كرنے كے دوران كسى نے بھى انہيں نہيں پہچانا_

فدخلوا عليه فعرفهم و هم له منكرون

۵۳۵

۱۴_ مصر كے عام لوگ، حضرت يوسفعليه‌السلام كا حسب و نسب نہيں جانتے تھے _فعرفهم و هم له منكرون

اگر مصر كے عام لوگوں كے درميان حضرت يوسفعليه‌السلام كا حسب و نسب اورقبيلہ و قوم واضح ہوتى تو يہ فطرى بات ہے كہ حضرت كے بھائيوں كے كانوں تك يہ بات پہنچ جاتى اور حضرت يوسف(ع) ان كے ليے ناشناختہ نہ رہ جاتے_

۱۵_ حضرت يوسفعليه‌السلام كى اپنے بھائيوں كے ساتھ آخرى ملاقات اور بھائيوں كى اس ملاقات كے ما بين كم از كم بيس سال كا فاصلہ تھا_يرتع و يلعب و لمّا بلغ اشدّه فلبث فى السجن بضع سنين تزرعون سبع و جاء اخوة يوسف

اگر حضرت يوسفعليه‌السلام كى مصر ميں زندگى كى تحقيق جائے تو تقريباً ۲۰ بيس سال كاعرصہ معلوم ہوتا ہے كيونكہ بچپن كا زمانہ دس سال كا تھاجب قافلے والوں كے ہاتھ لگے_ اور جملہ ( يرتع و يلعب ...) اور ( اخاف ان ياكلہ الذئب) بھى اس بات پر دلالت كرتا ہے اور زليخا ہى كے گھرميں جوانى اور بلوغ كى عمر ميں پہنچے تھے ( لما بلغ اشدّة) اوريہ فاصلہ آٹھ سے دس سال كا ہوتا ہے اور (بضع سنين ) كا جملہ بتاتا ہے كہ تين سال سے كچھ زيادہ زندان ميں رہے اور زندان سے رہائي كے بعد سات سال تك وزارت كے عہدہ پر فائز رہے اور يہ فطرى و طبيعى بات ہے كہ قحط كے ايك سال بعد ہى حضرت سے بھائيوں كى ملاقات ہوئي تقريبا يہ فاصلہ بيس سال كا عرصہ بنتا ہے_

۱۶_عن ابى جعفر(عليه السلام) '' فعرفهم يوسف و لم يعرفه اخوته لهيبة الملك و عزّتة ...'' (۱)

امام باقرعليه‌السلام سے روايت ہے كہ آپ(ع) فرماتے ہيں حضرت نے اپنے بھائيوں كو پہچان ليا ليكن ان كے بھائيوں نے ان كى شاہى ھيبت و عظمت و جلال كى وجہ سے انہيں نہيں پہچانا_

برادران يوسف :برادران يوسف اور حضرت يوسفعليه‌السلام ۹، ۱۶; برادران يوسف كى حضرت يوسفعليه‌السلام سے ملاقات ۱۰، ۱۳;برادران يوسف كے سفركرنے كا مقصد ۹

حكام :حكام سے لوگوں كى ملاقات ۱۲;حكام سے ملاقات كى سہولت ۱۲; حكام كى ذمہ دارى ۱۲

روايت: ۱۶

____________________

۱ )تفسير عياشى ، ج ۲ ، ص ۱۸۱، ح ۴۲; نور الثقلين ، ج ۲ ، ص ۲۳۸، ح ۱۱۲_

۵۳۶

سرزمين :سرزمين كنعان حضرت يوسفعليه‌السلام كے زمانے ميں ۳; سرزمين كنعان كى آب و ہوا ۷;سرزمين كنعان كى جغرافيائي موقعيت ۷; سرزمين كنعان ميں قحط ۱

قديمى مصر :قديمى مصر حضرت يوسف كے زمانہ ميں ۸; قديمى مصر كى آب و ہوا ۷;قديمى مصر كى تاريخ ۴، ۵، ۶، ۸;قديمى مصر كى جغرافيائي حالت ۷; قديمى مصر كى حكومت كى حدود ۳;قديمى مصر كى قحط سے نجات ۵;قديمى مصر كى مركزيت ۸;قديمى مصر ميں زراعت ۴; قديمى مصر ميں غلات كو انبار كرنا ۴، ۶; قديمى مصر ميں قحط ۱، ۴

قديم مصر كے لوگ:قديم مصر كے لوگ اور حضرت يوسفعليه‌السلام كے اسلاف ۱۴

مصر كا بادشاہ :بادشاہ مصر كے خواب كى تعبير ۱

يوسفعليه‌السلام :حضرت يوسفعليه‌السلام اور ان كے بھائي ۱۶; حضرت يوسفعليه‌السلام اور غلات كو انبار كرنا ۲;حضرت يوسف سے ملاقات كى سہولت ۱۱;حضرت يوسفعليه‌السلام كا شناخت كرنا ۱۶;حضرت يوسفعليه‌السلام كا قصہ ۲، ۹، ۱۰، ۱۱، ۱۳، ۱۵، ۱۶;حضرت يوسف كا كامياب ہونا ۲;حضرت يوسفعليه‌السلام كى پيشگوئي ۱;حضرت يوسف كى جدائي كى مدت ۱۵;حضرت يوسفعليه‌السلام كى دور انديشى كے آثار ۵; حضرت يوسفعليه‌السلام كے خوابوں كى تعبير كا صحيح ہونا ۱;حضرت يوسفعليه‌السلام كے عظمت و جلالت ۱۶

آیت ۵۹

( وَلَمَّا جَهَّزَهُم بِجَهَازِهِمْ قَالَ ائْتُونِي بِأَخٍ لَّكُم مِّنْ أَبِيكُمْ أَلاَ تَرَوْنَ أَنِّي أُوفِي الْكَيْلَ وَأَنَاْ خَيْرُ الْمُنزِلِينَ )

پھر جب ان كا سامان كرديا تو ان سے كہا كہ تمھارا ايك ۳_ بھائي اور بھى ہے اسے بھى لے آئو كيا تم نہيں ديكھتے ہو كہ ميں سامان كى ناپ تول بھى برابر ركھتا ہوں اور مہمان نوازى بھى كرنے والا ہوں (۵۹)

۱_ حضرت يوسفعليه‌السلام ،مصر ميں جمع كئے ہوئے غلات كي تقسيم پر خود نظارت كرتے تھے_

و جاء اخوة يوسف و لما جهزهم بجهازهم

۲_ حضرت يوسفعليه‌السلام نے اپنے بھائيوں كى خوراك كے سامان اور غذائي مواد كو خود مرتب كيا_و لما جهزهم بجهازهم

(تجہيز) (جہز)كا مصدر ہے جومہيا كرنے اور آمادہ كرنے كے معنى ميں آتا ہے_ (جہاز) زاد و توشہ ہے(جہز) ميں فاعل كى ضمير حضرت يوسفعليه‌السلام كى طرف لوٹتى ہے

۵۳۷

پس جملہ(لما جہزہم ) كا معنى يہ ہوا كہ حضرت يوسفعليه‌السلام نے اپنے بھائيوں كے ساز و سامان اور زاد و توشہ كو آمادہ كيا _ البتہ يہ بھى احتمال ديا جاسكتا ہے كہ (جہز) كى ضمير حضرت يوسفعليه‌السلام كى طرف مجازاہو اس ليے كہ اكثر اوقات ايسا ہى ہوتا ہے كہ كام كرنے والوں كے كام كو كام كرانے اور حكم دينے والے كى طرف نسبت دى جاتى ہے_

۳_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹے جب حضرت يوسفعليه‌السلام كے سامنے اپنى شناخت كرا رہے تھے اور اپنى تعداد كا بھى ذكر كيا تو ان كے سامنے انہوں نے اس بات كا بھى ذكر كيا كہ ايك ہمارا پدرى بھائي بھى ہے_

قال ائتونى بأخ لكم من ابيكم

۴_ حضرت يوسفعليه‌السلام كے بھائي جب پہلى بار خورد و خوراك كے ليے حضرت يوسف(ع) كى خدمت ميں حاضر ہوئے تو ان كے ساتھ بنيامين نہيں تھے_قال ائتونى بأخ لكم من ابيكم

۵_ حضرت يوسفعليه‌السلام كے بھائيوں نے اس حكم كى پابندى كرنے پر خود كو آمادہ كيا كہ اگلے سفر ميں بنيامين كو اپنے ہمراہ لائيں گے_قال ائتونى بأخ لكم من ابيكم

۶_ حضرت يوسفعليه‌السلام نے افراد كى معين شدہ خوراك كو عادلانہ طور پر بغير كسى كمى كے دے ديا_الا ترون انى اوفى الكيل

(كيل) (تولنا) يہ مصدر ہے ليكن آيت شريفہ ميں اسم مفعول (مكيل) كے معنى ميں آيا ہے اور اس سے مراد،خوراك اور غلات ہيں _(ايفاء) ''اوفي'' كا مصدر ہے جسكا معنى كامل طور پر بغير كسى كمى و زيادى كے ادا كرنے كے ہے _(اوفى ) فعل مضارع كا فعل ماضى (وفيت) كى جگہ پر لانے كا مقصد يہ ہے كہحضرت يوسف(ع) ہميشہ تولنے ميں عادلانہ روش ركھتے تھے_

۷_ حضرت يوسفعليه‌السلام مہمانوں اور ان لوگوں كو جو خورد و خوراك اور اپنى معين شدہ خوراك حاصل كرنے كے ليے ان كى خدمت ميں حاضر ہوتے ان كى اچھى طرح سے مہمان نوازى كرتے تھے_الا ترون انا خير المنزلين

(نزول) طعام يا اس طرح كى چيزيں جو مہمانوں كے ليے مہيا كى جاتى ہيں كو كہا جاتا ہے اور (نزيل) مہمان كے معنى ميں ہے _(منزلين) اس آيت شريفہ ميں اسى سے ليا گيا ہے _ جو ميزبانوں اور مہمان نوازوں كے معنى ميں استعمال ہوا ہے _

۵۳۸

۸_ حضرت يوسفعليه‌السلام نے بھائيوں سے نيكى كى اور ان كے خورد و خوراك كے حصے كو كامل طور پر ادا كيا _

الا ترون انّى اوفى الكيل و انا خير المنزلين

۹_ حضرت يوسفعليه‌السلام نے اپنے بھائيوں كو اپنى عدالت اور مہمانوں سے نيك سلوك كى طرف توجہ مبذول كرا كر انہيں بنيامين كو لانے كى ترغيب دلائي _ائتونى بأخ لكم من ابيكم الا ترون انى اوفى الكيل و انا خير المنزلين

(الا ترون ) كا جملہ ( كيا تم اس بات كى طرف متوجہ نہيں ہوتے ) جو ( ائتونى بأخ لكم ) كے بعد ذكر ہوا ہے حضرت يوسفعليه‌السلام كے مقصد كو بيان كرتا ہے جو بنيامين كو لانے كى ترغيب كى طرف اشارہ كرتا ہےكہ انہوں نے اپنے بھائيوں كو اپنى مہمان نوازى اور معاملہ ميں عادلانہ رويہ كو ذكركركے بيان كيا ہے_

۱۰_ بحرانى حالات اور اشياء كى كمى كى صورت ميں عدالت كرنا ،ايك نيك اور قابل قدر بات ہے _الا ترون انى اوفى الكيل

آيت شريفہ ۶۲ (اجعلوا بضاعتہم ) سے معلوم ہوتا ہے كہ حضرت يوسف ،(ع) افراد كے حصے كو اسكى قيمت كے مقابلے ميں ادا كرتے تھے اسى وجہ سے اسكو معاملے اور كا ر و بار سے ياد كيا گيا ہے _

۱۱_ مہمان نوازى ،اچھى اور قابل قدرخصلت اورعادت ہے_الا ترون انا خير المنزلين

۱۲_ حضرت يوسف(ع) نے اپنے بھائيوں كو يہ وعدہ ديا كہ اگر وہ بعد والے سفر ميں بنيامين كو ساتھ لائيں گے تو پھربھى انكى اچھى خدمت كى جائے گى _الا ترون اناخير المنزلين

اقتصاد :اقتصادى بحران ميں عدالت كرنا ۱۰

برادران يوسف(ع) :برادران يوسفعليه‌السلام اور حضرت يوسفعليه‌السلام ۳;برادران يوسفعليه‌السلام كا پہلا سفر ۴; برادران يوسف(ع) كا مال تجارت ۲;برادران يوسف(ع) كو وعدہ ۱۲; برادران يوسف(ع) كى تشويق كرنا ۹; برادران يوسف(ع) كى حضرت يوسفعليه‌السلام سے ملاقات ۵

بنيامين :بنيامين كا مصر سفر كرنا ۵;بنيامين كو لانے كى تشويق ۹

تجارت :تجارت ميں عدالت ۱۰

صفات :پسنديدہ صفات ۱۱

عمل:

۵۳۹

پسنديدہ عمل ۱۰

قابل قدر چيزيں :۱۱

مہمان نوازى :مہمان نوازى كى قدر و منزلت ۱۱

يوسفعليه‌السلام :حضرت يوسف(ع) اور ان كے بھائي ۲، ۸; حضرت يوسف(ع) اور بنيامين سے ملاقات ۹، ۱۲; حضرت يوسف(ع) اور غلات كى تقسيم ۱;حضرت يوسف(ع) كا قصہ ۱، ۲، ۳، ۴، ۵، ۶، ۸، ۹، ۱۲; حضرت يوسف(ع) كى تشويقات ۹; حضرت يوسف(ع) كى عدالت ۶، ۸، ۹;حضرت يوسف(ع) كى مہمان نوازى ۷، ۸، ۹، ۱۲; حضرت يوسف(ع) كى نظارت ۱;حضرت يوسف(ع) كے فضائل ۶،۷،۸;حضرت يوسف(ع) كے وعدے ۱۲

آیت ۶۰

( فَإِن لَّمْ تَأْتُونِي بِهِ فَلاَ كَيْلَ لَكُمْ عِندِي وَلاَ تَقْرَبُونِ )

اب اگر اسے نے لے آئے تو آئندہ تمھيں بھى غلہ نہ دوں گا اور نہ ميرے پاس آنے پائو گے (۶۰)

۱_ حضرت يوسف(ع) نے قحط كے سالوں ميں لوگوں كى معين شدہ خوراك كو وقت معين ميں متعدد مرتبہ تحويل ميں ديا_

و لما جهزهم بجهازهم فان لم تاتونى به فلا كيل لكم

(كيل) يہاں اسم مفعول (مكيل) كے معنى ہے_ جو طعام اور غلات كے معنى ميں ہے_ غلّہ كو كيل سے اس وجہ سے تعبير كيا گيا ہے كيونكہ اس كو تحويل ديتے وقت پيمانہ كركے ديتے تھے_اور يہى چيز ان كى راشن بندى پر دلالت كرتى ہے _ اور يہ جملہ ( فان لم تأتونى بہ ...) (يعنى اگر تم بعد والے سفر ميں بنيامين كو ميرے پاس ساتھ نہ لائے) اس بات پر دلالت كرتا ہے كہ غلّہ كو متعدد بار اور مخصوص زمان بندى ميں تحويل ديا گيا_

۲_ حضرت يوسفعليه‌السلام نے بھائيوں كے ذہن ميں يہ بات ڈال دى كہ خوراك كے بعد والے حصے كو صرف اس صورت ميں دريافت كرسكتے ہو جب تم بنيامين كو ساتھ لاؤ گے_فان لم تأتونى به فلاكيل لكم عندي

۳_ حضرت يوسفعليه‌السلام نے اپنے بھائيوں كو يہ بتاديا كہ اگر دوسرى بار وہ بنيامين كو ساتھ نہ لائے تو ميرے ہاں نہ آئيں _

۵۴۰

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

اولاد كے زيادہ ہونے سے عزت كا حصول۵

بت پرستي:بت پرستى ميں عزت كا حصول ۳

بعثت سے ملى ہوئي:بعثت سے ملى ہوئي تاريخ ۱

سعادت:سعادت كے اسباب ۴

عبادت:الله كى عبادت كے آثار۴

مال :مال سے عزت كا حصول۵

مشركين:صدر اسلام كے مشركين اور عزت۲; صدر اسلام كے مشركين كى بت پرستى ۱; صدر اسلام كے مشركين كى بت پرستى كا فلسفہ ۲; صدر اسلام كے مشركين كى جن پرستى ۳; صدر اسلام كے مشركين كى رائے ۲; صدر اسلام كے مشركين كے باطل مبعودوں كا زيادہ ہونا ۱; مشركين كى بت پرستى كا سبب۳; مشركين كى فكر ۵; مشركين كى ملائكہ پرستى كاسبب۳

آیت ۸۲

( كَلَّا سَيَكْفُرُونَ بِعِبَادَتِهِمْ وَيَكُونُونَ عَلَيْهِمْ ضِدّاً )

ہرگز نہيں عنقريب يہ معبود خود ہى ان كى عبادت سے انكار كرديں گے اور ان كے مخالف ہوجائيں گے (۸۲)

۱_ غير خدا كى پرستش كبھى بھى عزت كا باعث نہيں ہے_ليكونوا لهم عزّاً_ كل

لفظ ''كلاّ'' مشركين كے اس گمان كا انكار ہے كہ وہ معبود وں كى پرستش كو اپنى عزت كا باعث سمجھتے تھے_

۲_ روز قيامت، مشركين كے معبود مشركين كى عبادتوں كے باطل اور فضول ہونے كو بر ملا اور اس سے اظہار برائت كريں گے_سيكفرون بعبادتهم ويكونون عليهم ضدّا

آيت ميں موجود ضمير وں كے بارے ميں احتمالات ذكر ہوئے ہيں كہ ان ميں سے ايك يہ ہے كہ '' يكفرون'' اور ''يكونون'' كى ضمير ''الہة'' كى طرف لوٹ رہى ہے اور'' بعبادتہم'' اور'' عليہم ''كى ضمير ،مشركين كى طرف لوٹ رہى ہے مندرجہ بالا مطلب اسى اساس پرہے_كہا گيا ہے كہ'' كفر'' مختلف معانى مثلاً انكار اور برائت و غيرہ ميں استعمال ہوتا ہے(لسان العرب) اس آيت ميں بھى ''ويكونون عليہم ضداً'' كے قرينہ سے برائت كرنے اور ذمہ دارنہ ہونے كے معنى ميں ہے_

۷۸۱

۳_ روز قيامت، مشركين كے معبود اپنى پوجا كرنے والوں كى مخالفت اوردشمنى كريں گے_ويكونون عليهم ضدا

۴_ روز قيامت مشركين كے معبود مشركين كى ذلت و خوارى كا باعثبنيں گے_عزّا ...ويكونون عليهم ضدا

۵_ الله تعالى كے سوا ہر چيز كى پرستش روز قيامت ذلت و خوارى كا باعث ہے_

من دون الله ء الهة ليكونوا لهم عزّاً ويكونون عليهم ضدا

۶_ قيامت، مشركين اور انكے معبودوں كو حاضر اور انكا حساب لينے كا دن ہے_سيكفرون بعبادتهم ويكونون علهيم ضدا

۷_ روز قيامت حقائق كے ظہور ، شرك كے باطل ہونے اور مشركين كے بنائے ہوئے مبعودوں كا انہيں عزت بخشنے سے عاجز ہونے كا دن ہے_سيكفرون بعبادتهم ليكونوا لهم عزّا

۸_ روز قيامت ،مشركين جعلى معبودوں كى پرستش اور بندگى كا انكار كريں گے اور ان سے مخالفت اور دشمنى كااظہار كريں گے_سيكفرون بعبادتهم و يكونون عليهم ضدا

مندرجہ بالا مطلب ميں ''يكفرون'' اور'' يكونون''كى ضمير كا مرجع مشركين اور ''بعبادتہم ''اور''عليہم'' كى ضمير كا مرجع ''الہة'' جانا گيا ہے اور كفر كا معنى بھى انكار ليا گيا ہے_

۹_ قرآن نے پہلے سے ہى مشركين كے جلد ہى ذليل و رسوا ہونے ،انكى عزت و ثروت تك پہنچنے كى آرزو ميں شكست اور انكى اپنے خيالى معبودوں سے دشمنى كى خبر دى ہے _سيكفرون بعبادتهم و يكونون عليهم ضدا

يہ كہ كوئي يقينى قرينہ موجود نہيں ہے كہ يہ آيت مشركين كى روزقيامت حالت پر دلالت كررہى ہے _لہذا يہ احتمال بعيد نہيں ہے كہ آيت كى مراد مشركين مكہ كے آئندہ قريب كے حالات كى خبر ہو كہ جب وہ شرك اور بت پرستى سے رخ موڑليں گے اس مطلب ميں ''سيكفرون اور يكونون''كى فاعلى ضمير مشركين كى طرف لوٹ رہى ہے_

۱۰_عن أبى عبداللّه (ع) فى قوله: '' ...كلاّ سيكفرون بعبادتهم و يكونون عليهم ضداً'' يوم القيامة ...ثم قال : ليست العبادة هى السجود ولا الركوع وإنّما هى طاعة الرجال من ا طاع مخلوقاً فى معصية الخالق فقد عبده (۱)

____________________

۱) تفسير قمى ج۲،ص۵۵، نورالثقلين ج۳،ص۳۵۷، ح ۱۴۶_

۷۸۲

امام صادق(ع) سے الہى كلام.كلاّ سيكفرون بعبادتهم و يكونون عليهم ضداً'' كے بارے ميں روايت ہوئي ہے كہ آپ(ع) فرمايا: يہ مخالفت روز قيامت ہے پھر امام (ع) فرماتے ہيں يہاں عبادت ركوع و سجود نہيں ہے بلكہ مراد لوگوں كى اطاعت ہے جس نے بھى كسى مخلوق كى خالق كى معصيت ميں اطاعت كى ہو گويا اس نے اسكى عبادت كى ہے_

باطل معبود:باطل معبود روز قيامت ميں ۳; باطل معبود سے بيزاري۲;باطل معبودوں سے دشمني۹;باطل معبودوں كا عجز۷; باطل معبودوں كا كردار۴; باطل معبودوں كى اخروى دشمني۲; باطل معبودوں كے اخروى جھٹلانے والے ۸; باطل معبودوں كے اخروى دشمن۸

بيزاري:مشركين سے بيزاري۲

ذلت:اخروى ذلت كے اسباب۵

روايت:۱۰

شرك:شرك كا بطلان۷

عبادت:عبادت سے مراد ۱۰;غير خدا كى عبادت كے آثار۱،۵

عزت:عزت كے اسباب ۱

قرآن مجيد :قرآن مجيد كى پيش گوئي۹

قيامت :قيامت كى خصوصيات ۷،۱۰; قيامت ميں حقائق كا ظہور ۲،۷

مشركين:قيامت ميں مشركين ۸; قيامت ميں مشركين كا حاضر كيا جانا۶; قيامت ميں مشركين كے معبودوں كا حاضر كيا جانا ۶;مشركين كا اخروى حساب و كتاب۶; مشركين كى اخروى ذلت كے اسباب۴; مشركين كى دشمنى ۸; مشركين كى ذلت ۹; مشركين كى عبادات كا فضول ہونا ۲; مشركين كے اخروى دشمن ۳; مشركين كے باطل معبود۲; مشركين كے معبودوں كا اخروى حساب و كتاب۶

۷۸۳

آیت ۸۳

( أَلَمْ تَرَ أَنَّا أَرْسَلْنَا الشَّيَاطِينَ عَلَى الْكَافِرِينَ تَؤُزُّهُمْ أَزّاً )

كيا تم نے نہيں ديكھا كہ ہم نے شياطين كو كافروں پر مسلّط كرديا ہے اور وہ ان كے بہكاتے رہتے ہيں (۸۳)

۱_ كفار، شياطين كے وسوسوں اوراس كے چنگل ميں گرفتار ہيں _أرسلنا الشياطين على الكفرين تؤزهم

''ا زّ'' كا معنى ابھارنا ہے اور''تؤزّہم'' شياطين كفار كو زيادہ گمراہى اور انحراف كى طرف ابھارتے اور برانگيختہ كرتے ہيں _

۲_ كفار كو وسوسہ ڈالنے اور ابھارنے كيلئے شياطين كا بھيجا جانا ،پيغمبر اكرم (ص) كى نگاہ سے مخفى نہيں ہے_

ا لم تر أنا أرسلنا الشياطين

۳_ شياطين، لوگوں كو گمراہ كرنے كيلئے وسوسہ ڈالنے اور ابھارنے والى مخلوقات ہيں _ا رسلنا الشياطين على الكافرين تؤز ّهم

۴_ شياطين الہى حاكميت اور تسلط كے تحت ہيں _ا لم تر أنّا أرسلنا الشياطين

''أنّا ارسلنا '' ميں ''نا' كى ضمير اس نكتہ كو بيان كررہى ہے كہ يہ تصور نہ ہو كہ شياطين كا كام الہي پروردگار اور نظام سے باہرہے بلكہ انكے تمام كام الہى مشيّت كى حدود كے اندر انجام پاتے ہے_

۵_ شياطين كے وسوسے اور ابھارنے والى تلقين ، الہى ارادہ سے وابستہ ہے_ا لم تر أنّا أرسلنا الشياطين على الكفرين تؤزّهم

۶_ كفر كرنا شيطان كے انسان پر تسلط اور اس كے و سوسہڈالنے كى راہ ہموار كرتا ہے_ا رسلنا الشياطين على الكفر ين تؤزّهم

''على الكافرين'' كى تعبير بتارہى ہے كہ الله تعالى ،كفار كے كفر كرنے كے بعد شياطين كو گمراہ كرنے كى ذمہ دارى ديتا ہے در اصل شياطين كو كفر كے نتيجہ ميں بھيجا جا تا ہے_

۷_ شرك، الله تعالى كا كفر ہے_واتّخذوا من دون الله ء الهة ...على الكافرين

۷۸۴

۸_ كفار كا شيطانى وسوسوں اور انگيزوں ميں گرفتار ہونا ''عذاب تدريجي'' اورانہيں كفر اورگمراہى ميں چھوڑے جانے كا ايك جلوہ ہے _الرحمن مدّاً ...ا لم تر أنّا أرسلنا الشياطين

يہ آيت اس آيت ''من كان فى الضلالة فليمدد لہ الرحمن مدّاً'' كہ جوسنت ''امہال'' كو بيان كررہى ہے اس سے ربط ركھتى ہے اور اسطرح سنت ''فليمدد ...مدّاً'' كے جارى ہونے پر ايك اورگوا ہ ہے جو وہى ''امہال '' اور ''استدراج '' ہے_

۹_ كفار كا شياطين كى طرف سے ابھارا جانا ا ور انكى بڑھتى ہوئي گمراہى اس بات كى واضح نشانى ہے كہ انكے معبود انكے ليے مفيد نہيں ہيں اور وہ اپنے پوجنے والوں كے مخالف ہيں _ويكونون عليهم ضداً _ا لم تر أنّا أرسلنا الشياطين

''ا لم تر'' ميں استفہام گذشتہ آيت كے مضمون كيلئے گواہ اور تائيد ہے اورگواہ كے ہونے پر دلالت كررہى ہے اسطرح كہ اسكو نہ ديكھنا اورتوجہ نہ كرنا حيرت انگيز ہے_

آنحضرت(ص) :آنحضرت(ص) كى گواہى ۲

الله تعالى :الله تعالى كى حاكميت ۴; الله تعالى كے ارادہ كےآثار ۵

باطل معبود:باطل معبودوں كى دشمنى ۹; باطل مبعودوں كے فضول ہونے كى نشانياں ۹

شرك:شرك كى حقيقت۷

شياطين:شياطين كا ابھارنا ۹;شياطين كا حاكم ہونا۴; شياطين كاگمراہ كرنا ۳،۹; شياطين كے ابھارنے كا سرچشمہ ۵; شياطين كے جال ۱; شياطين كے وسوسے ۱،۲،۳; شياطين كے وسوسوں كا سرچشمہ ۵

شيطان :شيطان كے ابھارنے كا سبب ۸; شيطان كے تسلط كا سبب۶; شيطان كے وسوسوں كا سبب ۶،۸

كفار:كفار كا ابھارا جانا ۹; كفار كا وسوسہ ۱; كفار كو مہلت ۸; كفار كى گمراہى ۹; كفار كى گمراہى كے آثار ۸; كفار كے ابھارے جانے پر گواہ ۲

كفر:الله تعالى كے ساتھ كفر ۷; كفر كے آثار ۶، ۸; كفر كے موارد ۷

گمراہي:گمراہى كے اسباب۳

۷۸۵

آیت ۸۴

( فَلَا تَعْجَلْ عَلَيْهِمْ إِنَّمَا نَعُدُّ لَهُمْ عَدّاً )

آپ ان كے بارے ميں عذاب كى جلدى نہ كريں ہم ان كے دن خود ہى شمار كر رہے ہيں (۸۴)

۱_مشركين كا اپنے شرك پر اصرار ، باعث بنا كہ پيغمبر اكرم(ص) انكے ليے جلد عذاب كى در خواست كى تيارى كريں _

فلا تعجل عليهم إنّما نعدّ لهم عدّا

۲_ الله تعالى كا پيغمبر اكرم(ص) كو ہٹ دھرم كفار كے عذاب كيلئے جلدى نہ كرنے كى نصحيت كرنا_فلا تعجل عليهم

۳_ شيطانى وسوسوں كا مشركين پر بڑھتا ہوا اثراور الہى مہلتوں كى بناء پر انكى زيادہ ہوتى ہوئي گمراہي، الله تعالى كا انكے عذاب ميں جلدى نہ كرنے كى وجہ نہيں ہے_فلا تعجل عليهم

گذشتہ آيات مثلاً''فليمدد له الرحمن مدّاً ''اور''تؤرهم ازّا '''ميں فاء كے ذريعے ''لا تعجل '' كى تفريع ہوئي ہے يعنى اب جو عذاب ميں ديرمشركين كى گمراہى اور شيطانى فريب كے بڑھنے كا باعث بنى ہے تو عذاب كى تعجيل ميں كيا ضرورت ہے؟ جملہ''انّما ...''نيز''فلا تعجل عليهم '' كيلئے علت سے ہے اسى نكتہ پرتاكيد كررہا ہے كيونكہ مشركين كے عذاب پر دلائل كے بڑھنے پر دلالت كررہا ہے _

۴_ الله تعالى ، پيغمبر اكرم(ص) كى مشركين كے عذاب كے بارے ميں در خواست قبول كرے گا_فلا تعجل عليهم

اگر پيغمبر اكرم (ص) كى عجلت كا يقينى اثر نہ ہوتا تو اس سے الله تعالى منع نہ كرتا _

۵_اللہ تعالى نے عصر بعثت كے ہٹ دھرم كفار كو مناسب زمانہ ميں دنياوى عذاب سے خبر دار كيا ہے_

فلا تعجل عليهم إنّما نعدّلهم عدّا

عبارت''إنّما نعدّلهم عدّاً'' علت كے مفہوم كى حامل ہے يعنى ہدف اعداد كا آگے بڑھنا ہے اور ايك دن گنتى اپنے مطلوبہ نقطہ تك پہنچ جائيگى اور اسكے بعد عذاب يقينى ہوگا_

۶_ مشركين كو الله تعالى كى مہلت اگر چہ طويل ہى كيوں نہ ہو معمولى اور ناچيز سى مہلت ہے_إنّما نعدّ لهم عدّا

۷۸۶

فعل ''نعدّ'' (ہم گن رہے ہيں ) قلت كے معنى كا حامل ہے كيونكہ عام طور پرقليل سى چيز گننے كے قابل ہوتى ہے گذشتہ آيات ميں جملہ ''فليمدد لہ الرحمن مدّاً'' كہ جو مدت كے طويل ہو نے پر دلالت كررہا ہے اسكے بعد يہ عبارت دنيا كى آخرت اور انسان كے انجام سے مقائسہ كرتے ہوئے انسان كى سارى عمر كے كم ہونے سے حكايت كررہى ہے_

۷_ انسان كے غلط اعمال لكھے جاتے ہيں اور انكى تعداد محفوظ ركھى جاتى ہے_إنّما نعدّ لهم عدّا

''نعدّ'' (ہم گنتے ہيں ) كا مفعول محذوف ہے بعض اسے عمر كے لمحات جانتے ہيں اور ايك گروہ كے مطابق اس سے مراد ان اعمال كا شمار كرنا ہے كہ جو كفار كے مہلت پانے كى وجہ سے ان سے ظاہر ہوتے ہيں اور انكى برائيوں ميں اضافہ ہوتے ہيں مندرجہ بالا مطلب اسى بناء پر ہے_

۸_ الله تعالى كفار اورمشركين كے كردار پرمشتمل اعمال نامہ كو عميق انداز سے محاسبہ كرے گا_إنّما نعدّ لهم عدّ

۹_عن عبدالله الأعلى قال: قلت لا بى عبدالله (ع) قول الله عزّوجل ''إنّما نعدّ لهم عدّاً'' قال : ما هو عندك قلت: عدد الا يام قال : ...لا ولكنّه عدد الانفاس (۱)

عبد الا على سے روايت ہوئي ہے كہ ميں نے امام صادق(ع) كى خدمت ميں عرض كيا: الله تعالى كے كلام'' إنّما نعدّ لہم عدّاً ''سے مراد كيا ہے؟ فرمايا تم كيا معنى كرتے ہو؟ ميں نے عرض كى اس سے مراد دنوں كى تعداد ہے فرمايا: ايسا نہيں ہے بلكہ اس سے مراد سانسوں كى تعداد ہے_

آنحضرت(ص) :آنحضرت(ص) كو نصيحت۲; آنحضرت (ص) كى دعا كا قبول ہونا۴

الله تعالى :الله تعالى كا حساب لينا۸; الله تعالى كى مہلتيں ۶; الله تعالى كى مہلتوں كے آثار ۳; الله تعالى كى نصيحتيں ۲; الله تعالى كے ڈراوے ۵

ڈراوا:دنياوى عذاب سے ڈرانا۵//روايت:۹سانس:سانسوں كى تعداد شمار كى جانا۹

شرك:شرك پر اصرار كے آثار۱//شيطان :شيطان كے وسوسوں كے آثار ۳

عمل :ناپسنديدہ عمل كا لكھا جانا۷

كفار:صدر اسلام كے كفار كو ڈراوا۵; كفار كا حساب ليا

____________________

۱)اصول كافى ،ج۳،ص ۲۵۹ ،ح۳۳، نورالثقلين ج۳،۳۵۷،ح۱۴۸_

۷۸۷

جانا۸; كفار كانا مہ عمل ۸; كفار كى خواہشات ۱; كفار كے عذاب ميں عجلت ۱; كفار كے عذاب ميں عجلت سے پرہيز۲

مشركين:مشركين كا حساب ليا جانا ۸; مشركين كا عذاب يقينى ہونا۴; مشركين كا نامہ عمل ۸; مشركين كو كچھ مہلت دى جانا۶; مشركين كو مہلت دينے كے دلائل۳; مشركين كى گمراہى كا زيادہ ہونا ۳; مشركين كے عذاب ميں عجلت سے پرہيز كرنا۳

آیت ۸۵

( يَوْمَ نَحْشُرُ الْمُتَّقِينَ إِلَى الرَّحْمَنِ وَفْداً )

قيامت كے دن ہم صاحبان تقوى كو رحمان كى بارگاہ ميں مہمانوں كى طرح جمع كريں گے (۸۵)

۱_روز قيامت، متقى لوگ تكريم وجلالت كے ساتھ خدائے رحمان كى بارگاہ ميں حاضر ہونگے_

يوم نحشر المتقين إلى الرحمن و فد ''وفد '' جمع يا اسم جمع ہے يہ ايسى ھيئت يا گروہوں كو كہتے ہيں كہ جو ملاقات يا مدد لينے كيلئے حاكموں كے پاس جاتے ہيں (لسان العرب) روز قيامت متقين كى ''وفد'' كے ساتھ توصيف انكے حاضر ہوتے وقت خاص احترام اور مقام سے حكايت كررہى ہے كہ روز قيامت جسكے وہ حامل ہونگے يہ لفظ ممكن ہے كہ مصدر اور متقين كے محشور ہونے كى نوعيت كو بيان كررہا ہو_

۲_ روز قيامت، متقين ايك خاص منزلت اور امتياز كے حامل ہونگے_يوم نحشر المتقين إلى الرحمن وفدا

۳_ خدائے رحمان ،روزقيامت متقى لوگوں ( موحدين ) كا ميزبان ہوگا_يوم نحشر المتقين إلى الرحمن وفدا

''وفداً'' خواہ مصدر ہو اور محشور ہونے كى نوعيت بيان كرنے والا ہو يا خواہ ''وافدين '' كے معنى ميں ہو بہر صورت متقين كے مہمان ہونے پر دلالت كررہا ہے اس فرق كے ساتھ كہ دوسرى صورت ميں يہ بتاتا ہے كہ وہ روز قيامت فردى صورت ميں حاضر نہيں ہونگے بلكہ گروہى صورت ميں آئيں گے تو اس صورت ميں ضرورى ہے كہ ''وفداً'' حال مقدر ہے يعنى انكا گروہى صورت ميں ہونا تمام افراد كے محشور ہونے كے بعد ہے كيونكہ بعد والى آيات انكے فردى صورت ميں محشور ہونے پر صراحت سے دلالت كررہى ہيں _

۷۸۸

۴_ شرك اور باطل معبودوں كى پرستش سے پرہيز تقوى كا ايك مكمل جلوہ ہے_واتّخذوا من دون الله ء الهة ...يوم نحشر المتقين إلى الرحمن چونكہ گذشتہ آيات ميں موضوع بحث شرك اور مختلف معبود وں كى عبادت تھا تو اس مناسبت كا تقاضا يہى ہے كہ اس آيت ميں متقين سے مراد وہ لوگ ہوں كہ جو شرك اور باطل معبودوں كى پرستش سے پرہيز كرتے ہوں _

۵_ قيامت، انسان كے محشور اورجمع ہونے كا دن ہے _يوم نحشر ''حشر'' يعنى اس انداز سے جمع كرنا كہجس كے ساتھ دھكيلنا بھى ہو_ (مقايس الغة)

۶_ تقوى ( عقيدہ اور عبادت ميں شرك سے پرہيز) انسان كو الله تعالى سے نزديك كرنے اور اسكى وسيع رحمت سے بہرہ مند ہونے سبب ہے _يوم نحشر المتقين إلى الرحمن

۷_ روز قيامت، متقى لوگوں كو خصوصى احترام و اكرام كے ساتھ اٹھا نا ،اللہ تعالى كى رحمانيت اور اسكى عزت عطا كرنے كا ايك جلوہ ہے_واتّخذو ا من دون الله ء الهة ليكونوا لهم عزّاً ...يوم نحشر المتقين إلى الرحمن وفدا

۸_ رحمن، الله تعالى كے اوصاف ميں سے ہے_نحشر المتّقين إلى الرحمن

۹_''عن أبى عبدالله (ع) قال: سا ل على (ع) رسول الله(ص) عن تفسيرقوله ''يوم نحشر المتقين الى الرحمن وفداً'' فقال : يا على إنّ الوفد لا يكون إلاّ ركبا ناً (۱)

امام صادق(ع) سے روايت ہوئي ہے كہ آپ(ع) نے فرمايا : حضرت على (ع) نے رسول اكرم (ص) سے اس آيت''يوم نحشر المتقين إلى الرحمن وفداً '' كى تفسير كے بارے ميں سوال كيا تو حضرت نے فرمايا: اے على بلا شبہ وفد سوائے سوارى پر سوار لوگوں كے علاوہ اور كوئي نہيں ہيں _

اسماء و صفات:رحمان۸//الله تعالى :الله تعالى كى رحمانيت كى نشايناں ۷; الله تعالى كى عزت بخشنے كى نشانياں ۷; الله تعالى كى ميزباني۳//انسان:انسانوں كا محشور ہونا۵//باطل معبود:باطل معبودوں سے پرہيز۴

تقرّب:تقرّب كے اسباب۶//تقوي:تقوى كى نشانياں ۴; تقوى كے آثار۶

رحمت:رحمت كا باعث۶

____________________

۱)تفسير قمي،ج۲، ص۵۳، نورالثقلين، جلد ۳ص۳۵۹ ، ح۱۵۳_

۷۸۹

روايت۹

شرك:شرك سے پرہيز ۴; عبادت ميں شرك سے پرہيز كے آثار ۶

قيامت :قيامت كى خصوصيات ۵; قيامت ميں اجتماع ۵

متقين:روز قيامت متقين ۱،۲،۳،۷; روز قيامت ميں متقين كى سواري۹; متقين كا اخروى احترام ۷; متقين كا محشور ہونا ۱،۷; متقين كا ميزبان ۳; متقين كى اخروى عزت۷; متقين كى تعظيم ۱; متقين كے فضائل ۱،۲; متقين كے محشور ہونے كى خصوصيات ۹

موحدين:روز قيامت موحدين ۳; موحدين كا ميزبان ۳

آیت ۸۶

( وَنَسُوقُ الْمُجْرِمِينَ إِلَى جَهَنَّمَ وِرْداً )

اور مجرمين كو جہنم كى طرف پياسے جانوروں كى طرح ڈھكيل ديں گے (۸۶)

۱_ مشرك گناہ گاروں كو روز قيامت پياس كى حالت ميں جہنم كى طرف دھكيل ديا جائيگا _ونسوق المجرمين إلى جهنم وردا

''ورد'' كے بتائے گئے معانى ميں سے ايك پياس ہے(لسان العرب) اس آيت ميں ''ورداً'' مشتق كى طرف تاويل ہوتے ہوئے ''مجرمين'' كيلئے حال ہے يعنى مجرمين كو پياس كى حالت ميں جہنم كى طرف دھكيل ديں گے_ بعض اہل لغت و تفسيرنے ''ورد'' سے مراد ايسے گروہ كو قرار ديا ہے كہ جو پانى كے كنارے جارہے ہيں اور اس سے انكى پياس سے كنايہ ليا گيا ہے

۲_ روز قيامت مجرمين كا جہنم كى طرف دھكيلنے كو وقت ذليل و خوار ہونا _ونسوق المجرمين إلى جهنم وردا

اس آيت ميں '' نسوق'' اور '' ورداً'' در اصل گذشتہ آيت ميں ''نحشر'' اور ''وفداً'' كے مد مقابل ہے اس آيت ميں مذكور تعبيرات ،احترام و جلالت سے حكايت كررہيہيں جبكہ اس آيت ميں (اسكے مد مقابل قرينہ اور مجرمين كى پياس كى حالت اور تعبير'' نسوق'' ) انكى روز قيامت ذلت و رسوائي سے حكايت كررہى ہيں _

۳_ جہنم كى طرف ذليل انداز سے مشركين كو دھكيلنا شرك كے بے ثمر اور انكے معبودوں كا انكے منافى ہونے كا ايك نمونہ ہے_و يكونون عليهم ضداً ...يوم نحشر ...و نسوق المجرمين

گذشتہ آيات ميں مشركوں كى شرك آلودہ عبادتوں كے بے ثمر ہونے اور انكے انجام پر اسكے منفى اثرات كے حوالے سے

۷۹۰

گفتگوتھى اس آيت ميں بھى اسى معنى كاايك مصداق بيان كيا گيا ہے خصوصاً اگر''يوم نحشر'' ميں يوم ''يكونون'' كے متعلق ہو_

۴_ روز قيامت مجرمين اور متقين كى وضعيت ميں فرق ظاہر ہونے كادن ہے_يوم نحشر و نسوق المجرمين إلى جهنم وردا

۵_ شرك ،جرم اور مشرك مجرم او ر گناہ گارہيں _واتّخذ و امن دون الله ء الهة ونسوق المجرمين إلى جهنم

چونكہ گذشتہ آيات شرك كے بارے ميں تھيں انكى مناسبت يہ تقاضا كرتى ہے كہ مجرمين سے مراد مشركين ہوں ''يوم نحشر'' ميں لفظ ''يوم'' كا گذشتہ آيات ميں كسى ايك فعل ''سيكفرون '' يا''يكونون'' سے تعلق آيات ميں اس ربط كو بيان كرنے كى سب سے بڑى وجہ ہے _

۶_شرك كرنا اور باطل معبودوں كى عبادت ايك بہت بڑا گناہ اور جہنمى ہونے كا سبب ہے _و نسوق الجرمين إلى جهنم

۷_ متقى لوگ روز قيامت سواروں كى حالت ميں حاضر اور گناہ كار لوگوں پيادہ صورت ميں جہنم كى طرف دھكيلے جائيں گئے_نحشر المتقين ...وفداً و نسوق المجرمين وردا

بعض اہل لغت''وفدا'' سے مراد احترام واكرام والے سوار اور ''ورداً'' سے مراد پياسے پيدل چلنے والے كا معنى كرتے ہيں (لسان العرب)باطل معبود:باطل معبودوں كى دشمنى ۳

بت پرستي:بت پرستى كے بے ثمر ہونے كى نشانياں ۳

جہنم:جہنم كے اسباب۶

شرك:شرك كا گناہ ہونا ۵،۶; شرك كے آثار۶

قيامت:قيامت كى خصوصيات ۴; قيامت ميں حقائق كا ظہور ۴گناہ كبيرہ;۶

گناہ گار لوگ:۵روز قيامت گناہ گار لوگ۴; روز قيامت گناہ گار لوگوں كا پيادہ ہونا۷; گناہ گاروں كى اخروى پياس ۱; گنا ہ گار لوگوں كى اخروى ذلت۲; گنا ہ گار لوگوں كے جہنم ميں داخل ہونے كى كيفيت ۲; گناہ گاروں كے محشور ہونے كى كيفيت۷

متقين:روز قيامت متقين ۴; روز قيامت متقين كى سوارى ۷; متقين كے محشور ہونے كى كيفيت۷

مشركين:مشركين كى اخروى پياس ۱; مشركين كى اخروى ذلت۳; مشركين كے جہنم ميں داخل ہونے كى كيفيت ۱،۳; مشركين كے دشمن۳

۷۹۱

آیت ۸۷

( لَا يَمْلِكُونَ الشَّفَاعَةَ إِلَّا مَنِ اتَّخَذَ عِندَ الرَّحْمَنِ عَهْداً )

اس وقت كوئي شفاعت كا صاحب اختيار نہ ہوگا مگر وہ جس نے رحمان كى بارگاہ ميں شفاعت كا عہد لے ليا ہے (۸۷)

۱_ كوئي بھى روز قيامت بذات خود شفاعت كرنے كا حق اور طاقت نہيں ركھتا_المتقين ...المجرمين ...لا يملكون الشفاعة

''لا يملكون '' كى مرجع ضمير كے بارے مختلف احتمالات ہيں مثلاً يہ كہ ''متقين'' اور ''مجرمين'' (گذشتہ آيات ميں ) دونوں سے مرجع ضمير نكالى جائيگى تو اس صورت ميں مراد تمام لوگ ہوں گے ''الشفاعة'' ميں بھى دو وجہوں كااحتمال ہے: ۱_ شفاعت كرنا اس كے معنيہے (مصدر معلوم) ۲_ شفاعت ہونا يہ مطلب اور بعد والے چند مطالب پہلے معنى كى بناء پر بيان ہوئے ہيں _

۲_مشركين كے خيالى خدا، روز قيامت شفاعت سے عاجز ہيں _واتّخذوا من دون الله ء الهة ...لا يملكون الشفاعة

جيسا كہ بعض مفسرين كہتے ہيں''لا يملكون'' ميں مرجع ضمير گذشتہ آيات ميں بيان شدہ ''ء الہة'' بھى ہوسكتا ہے تو اس صورت ميں وہ شفاعت كا وہم باطل ثابت ہو گا كہ جسكا مشركين اپنے معبودوں سے توقع ركھتے ہيں اس صورت ميں استثناء منقطع اور اسكا مطلب يہ ہوگا _جو الله تعالى كے نزديك كوئي عہد ركھتے ہوں گے وہ شفاعت كى طاقت ركھيں گے_

۳_روز قيامت بعض افراد دوسروں كى شفاعت كا حق ركھيں گے_لا يملكون الشفاعة إلاّ من اتّخذ ...عهدا

''شفاعة'' يعنى اپنے آپ كو كسى كے قريب كرنا تا كہ اسكى مدد كرے يا اسكى جانب سے تقاضوں كو بيان كرے يہ زيادہ تر ان موارد ميں استعمال ہوتا ہے كہ جہاں يہ شخص بلند رتبہ و احترام كا حامل ہو (مفرادت راغب) ''إلاّ من اتّخذ '' كا استثنا ء اگر چہ شفاعت كے عملى ہونے كو نہيں سمجھا رہا ليكن حق شفاعت كے ثبوت پر دلالت كر رہا ہے_

۴_ صرف وہ لوگ روز قيامت حق شفاعت ركھيں گے

۷۹۲

جو الله تعالى كى طرف سے كوئي عہد يا اجازت كے حامل ہونگے_لا يملكون الشفاعة إلاّ من اتّخذ عند الرحمن عهدا

''عہد'' كا ايك معنى ميثاق اور پيمان ہے _اللہ تعالى كے نزديك پيمان لينے سے مرادوہ قانون او ر قرار داد ہے كہ جيسے الله تعالى نے بيان كيا ہے اور اسكا وعدہ دياہے_

۵_ شفاعت قانون كے تحت اور الله تعالى كى نگہبانى ميں چلنے والا ايك نظام ہے _لا يملكون الشفاعة إلاّ من اتّخذ عند الرحمن عهدا

''اتخاذ عہد'' سے مراد يہ ہے كہ شفاعت كرنے والا الله تعالى كى جانب سے پہنچنے والے وعدہ ، حكم يا سنت كہ جو اس تك پہنچى ہے سے تمسك كرے اور اپنے آپ كو حق شفاعت كا حامل سمجھے_

۶_ بعض افراد كو روز قيامت حق شفاعت كى عطا ،اللہ تعالى كى (رحمانيت ) وسيع رحمت كا ايك جلوہ ہے_

لا يملكون الشفاعة إلاّ من اتّخذ عند الرحمن عهدا

۷_ رحمان، الله تعالى كے اسماء اور اوصاف ميں سے ہے_من اتّخذ عندالرحمن عهدا

۸_ كسى اور كيلئے حق شفاعت كاہونا الله تعالى كى مطلق حاكميت كے منافى نہيں ہے_لايملكون الشفاعة إلاّ من اتّخذ عند الرحمن عهدا

۹_ روز قيامت صرف انہيں شفاعت شامل حال ہوگى كہ جنكے بارے الله تعالى كى طرف سے كوئي عہدہوگا_

لا يملكون الشفاعة إلاّ من اتّخذ عند الرحمن عهدا

اس مطلب ميں ''الشفاعة'' بعنوان مصدر مجہول معنى كياگيا ہے_ اس ليے ''لا يملكون الشفاعة'' يعنى شفاعت ہونے كے مالك نہيں ہيں _

۱۰_ شفاعت كے شامل حال لوگوں كيلئے دوسروں كى شفاعت، الله تعالى كى وسيع رحمت كا ايك جلوہ ہے_

إلاّمن اتّخذ عند الرحمن عهدا

۱۱_عن أبى عبدالله ...قيل يا رسول الله (ص) و كيف يوصى الميت عند الموت قال إذا حضرته الوفاة قال: ...الله م إنّى أعهد إليك فى دار الدينا أنّى اشهد أن لإله إلاّ أنت وحدك لا شريك لك وا شهدأنّ محمدً عبدك و رسولك وأنّ الجنّة حق وأنّ النار حق ّ وأنّ البعث حقّ ...وأنّ الدين كما وصفت ...وأنّ القرآن كما ا نزلت ...و اجعل لى عهداً يوم ا لقاك منشورا ...وتصديق هذه الوصية فى القرآن فى السورة التى يذكر فيها مريم(س) فى قوله عزّوجل ''ل

۷۹۳

يملكون الشفاعة إلاّ من اتّخذ عندالرحمن عهداً'' فهذا عهد الميت (۱)

امام صادق(ع) سے روايت ہوئي ہے كہ رسول خدا(ص) سے كہا گيا : انسان مرتے وقت كيسے وصيت كرے؟ آپ(ع) نے فرمايا: جب موت آئے تو كہے: ...اللہ تعالى ميں تيرے ساتھ اس دنيا ميں عہد كرتا ہوں كہ گواہى ديتا ہوں كہ تيرے سوا كوئي معبودنہيں تو واحد ہے اور تيرا كو كى شريك نہيں اور گواہى ديتا ہوں كہ محمد(ص) تيرا بندہ اور رسول(ص) ہے اور يہ كہ جنت حق ہے اور جہنم حق اور محشور ہونا حق ہے ...اور يہ كہ دين اسى طرح ہے كہ جيسے تو نے توصيف كيا تھا اور يہ كہ قرآن اسى طرح ہے كہ جيسے تو نے نازل كيا ...(ميرا يہ اقرار) اس دن كہ جب ميں تجھ سے ملاقات كرونگا ميرے ليے كھلاہواعہد قرار دے ...اور قرآن مجيد ميں اس طرح كى وصيت كے ضرورى ہونے پر گواہ ايك سورہ ہے بنام سورہ مريم (س) كہ اسميں كلام خدا يوں ذكر ہوئي ہے كہ''لا يملكون الشفاعة إلاّ من اتّخذ عند الرحمن عهداً '' يہ عہد وہى ميّت كا عہد ہے_

اسماء وصفات:رحمان۷

الله تعالى :الله تعالى كى حاكميت۸; الله تعالى كى رحمانيت كى نشانياں ۶،۱۰; الله تعالى كى نگہبانى ۵; الله تعالى كے اذن كے آثار۴; الله تعالى كے عہد كے آثار ۹

انسان:الله تعالى كے اختيارات كا دائرہ كار۱

باطل معبود:باطل معبودوں كى شفاعت۲;روز قيامت باطل معبود ۲

روايت:۱۱

شفاعت:شفاعت كا قانون كے مطابق ہونا ۵; شفاعت كے اثرات ۱۰; شفاعت كے شامل حال افراد۹; شفاعت ميں اجازت ۴;غير خدا كى شفاعت۸

شفاعت كرنے والے:روز قيامت شفاعت كرنے والے۳،۴

عہد:الله تعالى كے ساتھ عہد ۱۱

قيامت:قيامت ميں شفاعت۱،۶،۹; قيامت ميں شفاعت كى شرائط۴

____________________

۱)كافى ج۷،ص۲، ح۱، نورالثقلين ،ج۳ ،۳۶۱، ح۱۵۷_

۷۹۴

آیت ۸۸

( وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمَنُ وَلَداً )

اور يہ لوگ كہتے ہيں كہ رحمان نے كسى كو اپنا فرزندبناليا ہے (۸۸)

۱_ زمانہ بعثت كے مشركين كى الله تعالى كى طرف ايك غلط نسبت ،اسكا بيٹا انتخاب كرنا ہے_وقالوا اتّخذ الرحمن ولدا

فعل'' اتخذا '' اس چيز كو بيان كررہا ہے كہ يہ بات كہنے والوں كا عقيدہ تھا كہ الله تعالى نے كسى ايك مخلوق كو بعنوان فرزند انتخاب كيا ہے نہ كہ اس سے بيٹا پيدا ہوا ہے_

۲_ بعثت كے زمانہ كے لوگوں كى الله تعالى كے بارے معرفت بہت كم اور ناقص تھى _وقالوا اتخذ الرحمن ولدا

۳_ الله تعالى كے اسماء وصفات ميں سے ايك رحمان ہے_وقالوا اتّخذ الرحمن ولدا

۴_ زمانہ بعثت كے مشركين ،اللہ تعالى كى رحمانيت كاا عتراف كرتے تھے_وقالوا اتّخذ الرحمن ولدا

۵_ الله تعالى كى رحمانيت كو قبول كرتے ہوئے اسكى طرف فرزند انتخاب كرنے كى نسبت، ايك حيرت انگيز عقيدہ ہے جو دو متضاد فكروں پر مشتمل ہے_وقالوا اتخذ الرحمن ولدا

اس آيت سے مقصود ،مشركين كے افكار كى حكايت نہيں ہے بلكہ اس فكر و عقيدہ كے جملات و الفاظ كى عدم مطابقت ہے كہ ديكھيں وہ كياكہہ رہے ہيں ؟ رحمان اور فرزند كا انتخاب ؟ يہ ممكن نہيں ہے_

اسماء وصفات:رحمان۳

افتراء :الله تعالى پر افتراء با ندھنا۱

اقرار:الله تعالى كى رحمانيت كا اقرار ۴

الله تعالى :

۷۹۵

الله تعالى كى رحمانيت كو قبول كرنا۵; الله تعالى كى طرف فرزند كى نسبت ۱; الله تعالى كى طرف فرزند كى نسبت كا حيرت انگيز ہونا۵; الله تعالى كى ناقص معرفت۲

جاہليت:دور جاہليت كے مشركين كا افترء ۱; دور جاہليت كے مشركين كا اقرا ر ۴

لوگ:زمانہ بعثت كے لوگوں كى الله تعالى كے بارے معرفت۲

آیت ۸۹

( لَقَدْ جِئْتُمْ شَيْئاً إِدّاً )

يقينا تم لوگوں نے بڑى سخت بات كہى ہے (۸۹)

۱_ الله تعالى كى طرف فرزند كے انتخاب كى نسبت ايك غلط اور عجيب نسبت ہے_اتّخذ الرحمن ولداً _ لقد جئتم شيئاً إدا

''إدّا'' كا معنى ايك عجيب اور نہايت غلط چيز ہے_

۲_اللہ تعالى كے فرزند انتخاب كرنے كا گمان مشركين كا من گھڑت خيال تھا_لقد جئتم شيئاً إ دا

فعل'' جئتم '' مشركين كو خطاب ہے يعنى الله تعالى كا فرزند انتخاب كرنا ايسى بات ہے كہ تم نے اسے گھڑا ہے ورنہ اسكى كوئي اساس نہيں ہے_

۳_ الله تعالى كے بارے ميں غلط باتوں اور فرزند انتخاب كرنے كى نسبت سے پرہيز كا ضرورى ہونا_

الله تعالي:الله تعالى كى طرف فرزند كى نسبت ۲; الله تعالى كى طرف فرزند كى نسبت سے پرہيز۳; الله تعالى كى طرف فرزند كى نسبت كا عجيب ہونا ۱; الله تعالى كى طرف فرزند كى نسبت كا ناپسنديدہ ہونا ۱

جھوٹ باندھنا :الله تعالى كى طرف جھوٹ باندھنے سے پرہيز۳

مشركين:مشركين كے جھوٹ باندھنے۲

۷۹۶

آیت ۹۰

( تَكَادُ السَّمَاوَاتُ يَتَفَطَّرْنَ مِنْهُ وَتَنشَقُّ الْأَرْضُ وَتَخِرُّ الْجِبَالُ هَدّاً )

قريب ہے كہ اس سے آسمان پھٹ پڑے اور زمين شگافتہ ہوجائے اور پہاڑ ٹكڑے ٹكڑے ہوكر گر پڑيں (۹۰)

۱_ الله تعالى كى طرف فرزند انتخاب كرنے كى نسبت اس قدر غلط اور قبيح ہے كہ جہان خلقت اسے برداشت كرنے كى تاب نہيں ركھتا_وقالوا ...تكاد السموات يتفطّرن منه و تنشقّ الأرض وتخّر الجبال هدّا

''تفطّر'' كى اصل '' فطر ہے جس كا معنى شگافتہ كرنا لمبائي ميں اور ''انشقاق '' كا معنى دراڑيں اور سوراخ پيدا ہونا ہے_ نيز''تخرّ '' كا مصدر ''خرّ''كا معنى آواز كے ساتھ كسى چيز كا گرنا ہے (مفردات راغب) ''ہداً'' كا معنى ٹوٹنا اور مٹى كے ساتھ يكساں كرناہے (لسان العرب) يہ مصدر كا لفظ ہے كہ جو اسم مفعول ''مہدودة'' كے معنى ميں استعمال ہوا ہے اور ''الجبال'' كيلئے حال ہے كائنات كى عظيم چيزوں كے بارے ميں بيان كرنا اس چيز پر تاكيد كہ الله تعالى كيلئے فرزند كے انتخاب كينسبت پورى كا ئنات كيلئے قابل تحمل نہيں ہے_

۲_ آسمانوں كا پھٹنا ،زمين كا ٹكڑوں ميں بٹنا اور پہاڑوں كا گرجانا، الله تعالى كے ليے فرزندكے انتخاب كے باطل دعوى كے مقابل ايك بجا سا امر ہے_تكادالسموات يتفطّرن منه و تنشق الا رض و تخّر الجبال هدا

فعل ''تكاد ''كسى چيز كے وقوع قريب پر دلالت كرتا ہے در اصل ''لا ئق ہونے '' كے مجازى معنى ميں استعمال ہو ا ہے اور امكان ہے كہ يہ مراد ہو كہ الله تعالى كے قدسى مقام كے ساتھ يہ بات كرنا ايسے ہى سے كہ كائنات كے ستونوں سے كوئي چيز ٹكراكريہ چيز تباہ ہوگئي ہو اور الله تعالى اس بات سے اس حد تك غضبناك ہے كہ اب يہ حق بنتا ہے كہ وہ آسمانوں اور زمين كو اپنى جگہ نہ رہنے دے اور سب كو تباہ و بر باد اور پہاڑوں كو گرادے_

۳_ آسمان بہت سے اورقابل شگافتہ ہيں _

۷۹۷

تكاد السموات يتفطّرن منه

آيت كا مضمون ايك ''استعارہ'' ہے كہ اگر چہ ايسے مواقع پر حقيقى معانى مراد نہيں ہيں ليكن احتمال ہے كہ حقيقى معانى كو ملحوظ خاطر ركھا گيا ہے_

آسمان:آسمانوں كا پھٹنا ۲،۳; آسمانوں كا زيادہ ہونا۳

الله تعالى :الله تعالى كى طرف فرزند كى نسبت كا ناپسنديدہ ہونا ۱; الله تعالى كى طرف فرزند كى نسبت كے آثار۲

پہاڑ:پہاڑوں كاگرنا۲

جھوٹ باندھنا:الله تعالى پر جھوٹ باندھنا۱

زمين:زمين كا پھٹنا۲

آیت ۹۱

( أَن دَعَوْا لِلرَّحْمَنِ وَلَداً )

كہ ان لوگوں نے رحمان كے لئے بيٹا قرار ديديا ہے (۹۱)

۱_ الله تعالى كى طرف فرزند كے انتخاب كى نسبت ايك نہايت غلط اور كائنات كيلئے دشوار بات ہے_

تكاد السموات يتفطّرن منه ...أن دعوا للرحمن

''دعوا'' كا معنى ''جعلوا'' ہے ''لسان العرب'' '' ان دعوا'' (گذشتہ آيت ميں ) ''منہ '' كى ضمير كو بيان كر رہا ہے_

۲_اللہ تعالى اپنى تمام تر حقيقت كے ساتھ فرزند ركھنے سے منزہ ہے_تكاد السموات يتفطّرن ...أن دعوا للرحمن ولدا

۳_ لفظ''رحمان'' الله تعالى كے اسماء اور اوصاف ميں سے ہے اور زمانہ بعثت كے لوگوں ميں جانا پہچانا تھا_

أن دعوا الرحمن ولدا

۴_ الله تعالى كا فرزند ركھنا اسكى وسيع رحمت اور تمام مخلوقات كے شامل حال ہونے كے ساتھ سازگار نہيں ہے_

أن دعوا للرحمن ولدا عبارت''أن دعوا '' كے ضمن ميں صفت ''رحمان'' (رحمت كے وسيع اور عام ہونے) كا انتخاب اس گمان كہ رد ہونے كى دليل ہے كيونكہ تمام مخلوقات حتّى كہ ان خيالى فرزندوں كو بھى الہى رحمت شامل ہے لہذا ان ميں سے كوئي بھى اس رحمت كے خالق سے سازگارى نہيں ركھتا كہ اسكا فرزند يا اسكى مانند شمار ہو_

۷۹۸

اسماء وصفات:رحمان ۳; صفات جلال ۲،۴

الله تعالى :الله تعالى اور فرزند ۲،۴; الله تعالى كى رحمانيت ۴; الله تعالى كى طرف فرزند كى نسبت كا ناپسنديدہ ہونا۱

جھوٹ باندھنا:الله تعالى كى طرف جھوٹ باند ھنا۱

خلقت:خلقت اور الله تعالى كا منزہ ہونا۲

لوگ:زمانہ بعثت كے لوگوں كى الہى معرفت۳

آیت ۹۲

( وَمَا يَنبَغِي لِلرَّحْمَنِ أَن يَتَّخِذَ وَلَداً )

جب كہ يہ رحمان كے شايان شان نہيں ہے كہ وہ كسى كو اپنا بيٹا بنائے (۹۲)

۱_ الله تعالى كا فرزند انتخاب كرناايك ناممكن اور پروردگار كى شان كے خلاف كام ہے_و ما ينبغى للرحمن ...ولدا

لفظ''انبغي'' اس وقت استعمال كيا جاتا ہے كہ جب كسى كام كيلئے راستہ ہموار ہو (قاموس) اور ''ما ينبغي'' اس كام كے امكان كى نفى كرتا ہے_

۲_مشركين كے ايك گروہ كے خيال ميں الله تعالى نے اپنى بعض مخلوقات كو اپنے فرزند قرار ديا ہے_أن يتخذ ولدا

اس آيت اور گذشتہ آيت ميں ''اتخاذ'' كى تعبير سے ايسا معلوم ہوتا ہے كہ الله تعالى كے فرزند انتخاب كرنے كے معتقد لوگوں كا گمان فقط يہ تھا كہ اس نے مخلوقات ميں سے كسى كو اپنا فرزند ہونے كا عنوان عطا كيا ہے نہ كہ وہ اس سے بيٹے كى ولادت كے قائل ہيں _

۳_ تمام مخلوقات ،الہى نعمت و رحمت كى مرہوں منت ہيں وہ ہرگز الوہيت كے درجہ ميں قرار نہيں پاسكتيں كہ اسكا فرزند شمار ہوں _وما ينبغى للرحمن أن يتخذ ولدا

اس آيت ميں ''رحمان '' كے نام كا ذكر در اصل الله تعالى كے فرزند انتخاب كرنے كے گمان كے باطل ہونے پر ايك دليل كى طرح ہے_ اس دليل كى ايك صورت يہ ہے كہ الله تعالى كا مخلوقات سے رابطہ رحمت عطا كرنے والا اور رحمت كے شامل حال والا ہے رحمت كے شامل حال كبھى بھى رحمت عطا كرنے والے كے ربتہ ميں قرار نہيں پا سكتا لہذا نتيجہ يہ نكلاكہ عنوان ''ولد'' كہ جو اپنے والد كے ہم جنس ہوتا ہے يہ عنوان يہاں الوہيت كى شان ركھنے والا نہيں ہے_

۷۹۹

۴_ فرزند كا انتخا ب نقص كى علامت ہے اور الله تعالى اس سے منزّہ ہے_وما ينبغى للرحمن أن يتخذ ولدا

فرزند كا انتخاب، رحمت كے وسيع ہونے كے ساتھ سازگار نہيں ہے كيونكہ الله تعالى كا فرزند (نعوذباللہ) اسكے ہم جنس ہوتا اور الوہيت ميں اس كى مانند ہوتا تو نتيجہ ميں اسكى رحمت كا محتاج نہ ہوتا كيونكہ اسكا لازمہ يہ ہے كہ الله تعالى كى رحمت وسيع نہ ہوتى اور يہ نقص ہے_

۵_ رحمان، الله تعالى كے اسماء اور اوصاف ميں سے ہے_وما ينبغى للرحمن

اسماء وصفات:رحمان۵; صفات جلال۱،۴

الله تعالي:الله تعالى اور فرزند۱،۲; الله تعالى اور نقص۴; الله تعالى كا منزہ ہونا۴; الله تعالى كى شان۱

الوہيت :الوہيت كى شرائط۳

رحمت :رحمت كے شامل حال لوگوں كى الوہيت۳

فرزند ركھنا :فرزند ركھنے كے آثار۴

مخلوقات:مخلوقات كا عجز۳

مشركين:مشركين كا عقيدہ۲

نقص:نقص كى علامتيں ۴

آیت ۹۳

( إِن كُلُّ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمَنِ عَبْداً )

زمين و آسمان ميں كوئي ايسا نہيں ہے جو اس كى بارگاہ ميں بندہ بن كر حاضر ہونے والا نہ ہو (۹۳)

۱_آسمانوں اور زمين كى تمام باشعور مخلوقات، الله تعالى كى عبد اور مملوك ہيں _أن يتّخذ ولداً _ إن كلّ من فى السموات ء اتى الرحمن عبد ''آتي'' اسم فاعل ہے اور اسميں زمانے كا لحاظ نہيں كيا گيا ہے''ايتان'' سے اسكا مجازى معنى مراد ہے اس آيت سے مقصود يہ ہے كہ كائنات كى مخلوقات الله تعالى كے مقابل عبوديت كے علاوہ كچھ

۸۰۰

801

802

803

804

805

806

807

808

809

810

811

812

813

814

815

816

817

818

819

820

821

822

823

824

825

826

827

828

829

830

831

832

833

834

835

836

837

838

839

840

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863

864

865

866

867

868

869

870

871

872

873

874

875

876

877

878

879

880

881

882

883

884

885

886

887

888

889

890

891

892

893

894

895

896

897

898

899

900

901

902

903

904

905

906

907

908

909

910

911

912

913

914

915

916

917

918

919

920

921

922

923

924

925

926

927

928

929

930

931

932

933

934

935

936

937

938

939

940

941

942

943

944

945