تفسير راہنما جلد ۱۰

تفسير راہنما 6%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 945

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 945 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 247253 / ڈاؤنلوڈ: 3404
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱۰

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

امیر المؤمنین علیہ السلام نے سفید اون سے بنی ہوئی ایک تھیلی نکالی اور اسے دے دی اور اس سے فرمایا:یہ تمہارا حق ہے۔

پیغمبر اکرم(ص) نے اس شخص سے فرمایا:یہ لے لو اور میرے فرزندوں میں سے جو بھی تمہارے پاس آئے اور تم سے کوئی چیز مانگے تو اسے دے دو ۔اب تمہارا فقر باقی نہیں رہے گا اور کبھی محتاج نہیں ہو گے۔

 اس شخص نے کہا:جب میں بیدار ہوا تو پیسوں کی وہی تھیلی میرے ہاتھ میں تھی ۔میںنے اپنی بیوی کو جگایا اور اس سے کہا:چراغ جلاؤ۔اس نے چراغ جلایا۔میںنے وہ تھیلی کھولی اورجب میں نے ان پیسوں کو گناتومیں نے دیکھا کہ اس تھیلی میں ہزار اشرفیاں ہیں۔

میری بیوی نے مجھ سے کہا:خدا سے ڈرو!خدانخواستہ کہیں تم نے فقر کی وجہ سے لوگوں کو دھوکا دہینا تو شروع نہیں کردیا اور کسی تاجر کو دھوکا دے کر اس کا مال تو نہیں لے آئے؟

میںنے اس سے کہا:نہیں خدا کی قسم !ایسا نہیں ہے اور پھر میںنے اس سے اپنے خواب کاواقعہ بیان کیا۔پھر میں نے اپنے حساب کی کاپی کھول کر دیکھی تو میںنے اس میں دیکھا کہ امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام کے حساب میں ہزار اشرفی لکھی ہوئی ہے نہ اس سے کم  اور نہ ہی زیادہ۔(1)

اسی مناسبت سے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے ایک بہت بہترین روایت ذکر کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:

''مَنْ أَعٰانَ فَقِیْرَنٰا،کٰانَ مُکٰافٰاتُهُ عَلٰی جَدِّنٰا مُحَمَّد '' (2)

جو کوئی ہم میں سے کسی فقیر کی مدد کرے اس کا اجر ہمارے جدّ محمد(ص) پر ہے۔

وہ کوفی شخص خاندان پیغمبر علیھم السلام سے سچی محبت کرتا تھا اور آنحضرت (ص) کے حکم سے اسے اس کا دنیاوی اجر مل گیا۔

--------------

[1]۔ فوائد الرضویہ:311

[2]۔ بحار الانوار:ج۱۰۰ص۱۲۴

۲۰۱

 جھوٹی محبتیں

کچھ لوگ خاندان وحی ونبوت علیھم السلام سے محبت و دوستی کا اظہار کرتے ہیں اور اس بارے میں خود کو اتنا سچا پیش کرتے ہیں کہ اس میں جھوٹ کا شائہ تک نہیں پایا جاتا۔اور ان کا وجود محبت اہلبیت علیھم السلام سے سرشار ہے؛ لیکن جب ہم ان کے رفتار و کردار کے بارے میںسوچتے ہیں اور ان کے کردار کی خاندان  نبوت ورسالت علیھم السلام کے دستورات سیملاتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کا اہلبیت علیھم السلام سے دوستی و محبت کا اظہار خالصانہ اور سچانہیں ہے۔

بہت سے لوگ خود کو امام زمانہ عجل  اللہ فرجہ الشریف کا عاشق اور جاںنثار سمجھتے ہیں لیکن عملاً ان کا سہم (یعنی خمس ،جوکہ ان کے اپنے لئے خدا کی نعمتوں  کے نزول کاذریعہ ہے) ان کی آل کو ادا کرنے سے اجتناب کرتے ہیں!

جو شخص امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف مقدس اہداف کی راہ میں مال خرچ کرنے سے گریز کرے کیاوہ امام کے ظہور کے زمانے میں آپ پر اپنی جان نثار کرسکتا ہے؟

لیکن کیا حضرت امام زمانہ  عجل اللہ فرجہ الشریف نے اپنی توقیع میں یہ نہیں فرمایا:

''لَعْنَةُ اللّٰهِ وَ الْمَلاٰئِکَةِ وَالنّٰاسِ أَجْمَعِیْنَ لِیْ مَنِ اسْتَحَلَّ مِنْ أَمْوٰالِنٰا دِرْهَماً'' (1)

اس شخص پر خدا،ملائکہ اور تمام لوگوں کی لعنت ہو جو ہمارے مال میں سے ایک درہم کو بھی اپنے لئے حلال جانے۔

--------------

[1]۔ بحار الانوار:ج۵۳ص۱۸۳، کمال الدین: ج۲ص۲۰۱، الصحیفة المبارکة المہدیة:282

۲۰۲

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے اہلبیت علیھم السلام سے محبت کا دعویٰ کرنے والوں کے بارے میں جابر سے فرمایا:

''یٰا جٰابِرُ، أَ یَکْتَفِْ مَنْ یَنْتَحِلُ التَّشَیُّعَ أَنْ یَقُوْلَ بِحُبِّنٰا أَهْلِ الْبَیْتِ ؟فَوَاللّٰهِ مٰا شِیْعَتُنٰا اِلاّٰ مَنِ اتَّقَی اللّٰهَ وَ أَطٰاعَهُ''(2)

اے جابر!کیا خود کو شیعہ کے طور پر دکھانا کافی ہے اور کہے کہ میں اہلبیت علیھم السلام سے محبت کرتا ہوں ۔خدا کی قسم !ہمارا شیعہ وہی ہے جو تقویٰ الٰہی رکھتا ہو اور اس کی اطاعت کرتا ہو۔

اس فرمان سے یوں استفادہ ہوتا ہے کہ:جو کوئی با تقویٰ نہیں اور خداکا مطیع نہیںاسے صرف محبت کے اظہار پر ہی اکتفا نہیں کرنا چاہئے۔

--------------

[2]۔ بحار الانوار:ج۷۰ص۹۷

۲۰۳

 نتیجۂ بحث

 محبت آپ کے دردو غم کے لئے اکسیر ہے ۔محبت کی کشش و جاذبہ انسان کو اس کے محبوب کی طرف کھینچتی ہے اور اس کے صفات و حالات محب میں ایجاد کرتی ہے اور اسے تقویت دیتی ہے۔محبت جتنی زیادہ ہو ،محب میں محبوب کے روحانی حالات اتنے ہی زیادہ ہو جاتے ہیں کہ جس سے اسے  محبوب کا تقرب حاصل ہو جائے۔یہی مودت کا معنی ہیجوہر انسان کو خاندان وحی علیھم ا لسلام سے ہونی چاہئے۔کیونکہ اجر رسالت ، اہلبیت اطہار علیھم السلام کی محبت  ہے۔

اس بناء پر اہلبیت علیھم السلام سے محبت و مودت کے ذریعے اپنی روح کو پروان چڑھائیں اور اس خاندان کے آستانۂ ولایت سے تقرب حاصل کریں تا کہ آپ کا وجود ولایت کے تابناک انوار سے سرشار ہو جائے اور آپ کے وجود سے برائیاں پاک ہو جائیں۔

 ان ہستیوں کے تقرب کا لازمہ یہ ہے کہ ان کے احکامات کی پیروی کی جائے اور ان کے دشمنوں سے  برات اور دوری کی جائے۔

 یہ ہے سچی محبت جسے آپ اپنے اور اپنے نزدیکی افراد کے دل کی گہرائیوں میں ایجاد کریں۔

جمعی کہ دم از مھر و ارادت دارند

در بام شرف ،کوس سیادت دارند

چون دست بہ دامان سعادت زدہ اند

پا بر سر نام و ننگِ عادت زدہ اند

۲۰۴

آٹھواں  باب

انتظار

حضرت امیر المو منین  علی  علیہ  السلام  فرماتے ہیں :

''أَفْضَلُ عِبٰادَةِ الْمُؤْمِنِ اِنْتِظٰارُ فَرَجِ اللّٰهِ  ''

مومن کی سب سے افضل عبادت یہ ہے کہ وہ اللہ کی طرف سے (سختی اورغم سے)  نجات کے انتظار میں رہے۔

    انتظار کی اہمیت    انتظار کے عوامل    امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کے مقام و منزلت کی معرفت

    انتظار کے آثارسے واقفیت

    1۔ مایوسی اور ناامیدی سے کنارہ کشی

    2۔ روحانی تکامل

    مرحوم شیخ انصاری امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کے شریعت کدہ پر    کامیابیوں کی کلید اور محرومیوں کے اسباب

    3۔ مقام ولایت کی معرفت    4۔ مہدویت کے دعویداروں کی پہچان

    امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کے تکامل یافتہ منتظرین یا آپ کے عظیم اصحاب کی معرفت

    اصحاب با صفا کی طاقت و قدرت کا سر سری جائزہ

    ظہور کے زمانے کی معرفت

    1۔ باطنی تطہیر

    2 ۔ زمانۂ ظہور میں عقلوں کا کامل ہونا

    3 ۔ دنیا میں عظیم تبدیلی

    نتیجۂ بحث

۲۰۵

 انتظار کی اہمیت

انتظار ان با عظمت افراد کا خاصہ ہے جو کامیابی اور کامرانی کے راستے پر پوری طرح گامزن ہیں۔چونکہ غیبت کے دوران خاندان عصمت علیھم السلام کے دامن اطہر سے جاری عظیم شخصیتوں سے متعلق روایتیں نیز مستحکم اور مظبوط اقوال زریں ہو ئے ہیں ۔آنحضرت  کے ظہور کا انتظار کرنے والے ہر زمانے کے انسان سے افضل ہیں ۔

اسی لئے ایک گروہ انتظار کی  سختیوں کو دنیا میں کامیابی کی اہم کلید سمجھتا ہے ۔  ان کا عقیدہ یہ ہے کہ انسان انتظار کے اسباب اور اس کے کمال کی معرفت اور وسیلہ سے حقیقت کے بحر سے کامیابی کے جواہر حاصل کر سکتا ہے نیز سماجی مشکلوں اور مادی رکاوٹوں سے بھی نجات پا سکتا ہے ۔انتظار صحیح معنی میں دشوار گزار حالت ہوتی ہے گویا کہ اسرار کے بھنور نے اس کا احاطہ کر رکھا ہے اور بہت ہی کم لوگوں نے حسب دلخواہ اس کے کمال کی راہ نکالی ہے اور دشمن کی مکاریوں کی مخالفت کی ہے چونکہ انتظار اپنے آخری اور بلند ترین مرحلہ میں امام زمان  عجل اللہ فرجہ الشریف  کی ملکوتی حکومت میں آسمانی نظام کے رائج کرنے اور اس کی خدمت کرنے میں آمادگی اور مدد کے معنوں میں آتا ہے کہ جسے غیر عادی اور غیر معمولی قدرت کے ذریعہ حاصل کیا جاتا ہے اور ایسا انتظار امام زمانہ  عجل اللہ فرجہ الشریف کے خاص اصحاب میں موجود ہے ۔[1]

--------------

[1] ۔ ہ لوگ جو امام زمانہ کی یاد اور توسل کے ساتھ انتظار کے مراسم برپا کرتے ہیں ان کی تعداد بہت زیادہ ہے ۔ اس قسم کی مجالس و محافل الحمد للہ وسیع پیمانے پر منعقد ہو رہی ہیں اور ہماری مراد اس طرح کی مجالس کی نفی اور اس طرح کے افراد کے اندر حالت انتظار کی عدم موجودگی نہیں ہے ۔ کیونکہ انتظار میں درجات و مراتب پائے جاتے ہیں ۔ اور وہ افراد جو اس کے کمال اور عالی ترین مراتب تک پہنچے ہیں اگر چہ ان کی تعداد کم ہے لیکن انھیں افراد میں سے اٹھے ہیں ۔ اور سخت جاں فشانی اور جد و جہد اور سختیوں اور مشکلات کے تحمل کرنے کے ساتھ اس عظیم مقام کہ جس پر وہ فائز ہوئے ہیں کو حاصل کیا ہے ۔

۲۰۶

 انتظار جس مرحلے میں بھی ہو یہ عالم غیب سے غیبی مدد اور خدا سے تقرب کا راستہ  ہے  اور اگراس میں دوام ہو اوراگر یہ تکامل حاصل کرلے تو وقت گزر نے کے ساتھ ساتھ انسان کے وجود میں نفس اور ضمیر سے نا آگاہی کی وجہ سے پیدا ہونے والی کشیدگی اور کھنچائو کو نیست و نابود کر دیتا ہے اور  انسان کے باطن میںنور اور آشنائی کے دریچے کھول دیتاہے اور اسی طرح سے انسان کے لئے تکامل کی راہ کھول دیتاہے کیونکہ انتظار تمام تر ضروری اور لازم مدارج میں آمادگی کی حالت کو کہتے ہیں ۔

 باطنی توجہ کو دنیا سے خلوص ، حقیقت اور نورانیت کی طرف جذب کرتیہے ۔ وہ جہان جس  سے تمام تر شیطانی اور طاغوتی قوتیں اور طاقتیں نابود ہو جائیں اس دنیائے انسانیت کی جان میں انوار الٰہی کی چمک جگمگا اٹھتی ہے ۔

اس حقیقت کی  طرف غور کرنے کے بعد ہم کہتے ہیں کہ ایسا شخص ہی انتظار کے عظیم مراحل کو طے کر سکتا ہے کہ جو غیر معمولی طاقت اور قوت کا حامل ہو ۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ امام عصرعجل اللہ فرجہ الشریف  کی حکومت ایکغیر معمولی حکومت ہوگی جس کا درک کرنا ہماری ہمت ، طاقت اور سوچ سے کہیں بالا تر ہے ۔ اور سب کے لئے ضروری ہے کہ مدد گار افراد حضرت بقیة اللہ عجل اللہ فرجہ الشریف کے ارد گرد جمع ہو جائیں اور پہلی صف میں آپ کی مدد کریں تاکہ اللہ کے نیک لوگوں میں شمار ہوں اور آپ کے فرمان اور حکم کی اطاعت کرنے کی طاقت کو حاصل کریں جس کو حاصل کرنے کے لئے غیر عادی قدرت کا ہونا ضروری ہے ۔(1)

امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کے تین سو تیرہ ممتاز ساتھیوں کے اوصاف اور خواص کو بیان کرنے   والی روایات ان کے بارے میں روحانی اور غیر عادی طاقتوں کے موجود ہونے کا پتا دیتی ہیں یہاں تک کہ غیبت کے زمانے میں بھی ۔

--------------

[1] ۔ بے شمار روایت میں امام عصر  کی حکومت کے اندر غیر معمولی طاقتوں سے استفادہ کی تصریح کی گئی ہے ۔

۲۰۷

 انتظار کے عوامل

 ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم انتظار کے حقیقی معنی سے آشنائی حاصل کرنے کی کوشش کریں اور  اپنے اور دوسروں کے اندر بھییہ حالت پیدا کریں ۔

 حالت انتظار کو حاصل کرنے ، سیکھنے اور اسے دوسروں تک آگے پہنچانے کے لئے مختلف راستے موجود ہیں جن سے استفادہ کرتے ہوئے ہم معاشرے میں انتظار کی حالت پیدا کر سکتے ہیں اور ان کے وجود کی گہرائیوں میں انتظار کے بیچ کوبا ثمر بنا سکتے ہیں اور درج ذیل بعض مہم ترین راہوں کے ذریعہ سے معاشرہ ، مسئلہ انتظار کی طرف مائل ہو سکتا ہے ۔

 1۔ ولایت کے عظیم مقام سے آشنائی اور عظمت امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کی شناخت ۔

2 ۔ انتظار کے حیران کن آثار کے ساتھ اس کے صحیح اور کامل معنی اور اس کے عظیم مراحل سے  آشنائی ۔

3۔ امام عصر کے اصحاب کے اوصاف و خصوصیات سے آشنائی جو انتظار کے عالی ترین مرتبہ تک پہنچے اور عظیم روحانی قوت سے ہمکنار ہوئے جو امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف  کے فرمان کو انجام دیتے ہیں ۔

4۔ انسان اور آئندہ زمانے کے لوگوں کی زندگی میںظہور کے زمانے میں واقع ہونے والے عظیم تحولات اور اہم ترین تغیرات سے آشنائی  ۔(1)

--------------

[1] ۔ ان کے علاوہ دوسرے راستے بھی موجود ہیں جو انسان کو انتظار کی طرف بلاتے ہیں ان میں سے بعض کی وضاحت ہم نے کتاب اسرار موفقیت میں ذکر کی ہے جیسے ۔ اخلاص ، معارف سے آشنائی محبت اہل بیت  خود سازی اور .......۔

۲۰۸

امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کے مرتبہ کی معرفت، آپ کے محبین اور ساتھیوں کی شناخت اور عقل    اورفہم و ادراک کی تکمیل ، غیبت اور عالم نا مرئی سے ربطہ ، ناشناختہ موجودات کی شناخت ، دور دراز فضائوں اور آسمانوں کے سفر اور اسی قسم کے دوسرے مسائل لوگوں کو مسئلہ ظہور امام کی طرف متوجہ کرتے ہیں ۔

 نیزجو آنحضرت  کی عظیم الشان ار آفاقیحکومت کے لئے آمادگی پیدا کرتے ہیں یہ تمام حقائق ، پاک طینت افراد میں علم و آگہی اور جنون و عشق کا سرور پیدا کرتے ہیں اوراس طرح یہ افراد اس عظیم الشان زمانے کے دلدادہ ہو جاتے ہیں ۔ معاشرے اور سماج میں انتظار اور ظہور کی حالت پیدا کریں جو ہر انسان کی مسلم ذمہ داری ہے۔ اب اس کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں ۔

 امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کے مقام و منزلت کی معرفت

امام کا باعظمت وجود اپنی نورانی خصوصیتوں کے سبب انتظار کی کیفیت کے لئے کلیدی حیثیت رکھتا ہے ۔ کیونکہ دنیا میں آپ  کے علاوہ کو ئی بھی رہبری ،امامت اور کائنات کی اصلاح کے لا ئق نہیں ہے یہ اسباب انسان کو آپ کی طرف جذب کرتے ہیں نیز آپ  خداکی آخری نشانی ہیں آپ ہی آخری راہنما اور ہادی ہیں جیسا کہ آپ سے متعلق حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام فر ماتے ہیں :

 ''عِلْمُ الْاَنْبِیٰاء فِی عِلْمِهِمْ وَسِرُّ الْاَوْصِیٰاء فِیْ سِرِّهِمْ وَ عَزُّالْاَوْلِیٰاءِ فِیْ عِزِّهِمْ ، کَالْقَطْرَةِ فِی الْبَحْرِ وَ الذَّرَّةِ فِی الْقَفْرِ'' (1)

--------------

[1]۔ بحار الانوار ،: ج۲۵ص۱۷۳

۲۰۹

  تمام نبیوں کا علم ،تمام اوصیاء کے راز،تمام اولیاء کی عزتیں آپ کے علم ،راز اور عزت کے مقابلے میں ایسے ہی ہے جیسے سمندر میں ایک قطرہ یا ریگستان میں ایک ذرہ ۔

 چونکہ ہم خاندان عصمت و طہارت  علیھم السلام کے آخری فرد کے دور میںزندگی گزار  رہے ہیں اسی لئے ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم آپ کے زریں فرامین واقوال کے سائے میں رہتے ہو ئے تباہی اور بربادی کے طوفان سے بچیں اور آنحضرت  کے ظہور کے لئے راہ ہموار کریں نیز آپ  کی حکومت کے   انتظار میں ہرایک لمحہ شمار کرتے رہیں تا کہ آپ پرچم ہدایت وعدالت افلاک عدل و انصاف پر نصب فرما دیں ۔

 اگر کو ئی اس زمانے میں امام علیہ السلام کو پہچان لے اور زمانہ ٔغیبت میں امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کی اس امداد سے آگاہی رکھتا ہو اور آپ کے ذریعے  زمانہ ٔ  ظہور میں دنیا اور انسانوں میں ایجاد ہونے والی تبدیلیوں سے بھی آشنا ہو تو وہ ہمیشہ آپ  کی یاد میں رہے گا اور اس طرح جیسا کہ حکم ہوا ہے(1) آفتاب ولایت کے طلوع کے انتظار میں زندگی بسر کرے گا ۔

 معرفت ؛ایسے انسان کے دل سے غلاظت اور زنگ کو پاک اور صاف کرکے اس کی جگہ پا کیزگی خلوص اور نورانیت کو جایگزین کرے گی۔ اب ایک نہا یت ہی پر کشش روایت کی طرف توجہ کریںجس سے امام  عجل اللہ فرجہ الشریف کے زمانہ ٔغیبت میں آپ  کی طرف سے غیبی امداد کا پتہ چلتاہے جابر جعفی حضرت جابر بن عبداللہ انصاری سے اور وہ حضور اکرم (ص) سے نقل کرتے ہیں کہ آپ  نے فر مایا :

--------------

[1]۔ بحار لانوار:ج52ص145

۲۱۰

 ''....ذٰاکَ الَّذِی یَفْتَحُ اللّٰهُ تَعٰالٰی ذِکْرُهُ عَلٰی یَدَیْهِ مَشٰارِقَ الْاَرْضِ وَ مَغٰارِبَهٰا ، ذٰاکَ الَّذِیْ یَغِیْبُ عَنْ شِیْعَتِهِ وَ اَوْلِیٰا ئِهِ غَیْبَةً لاٰ یَثْبُتُ فِیْهٰا عَلَی الْقَوْلِ بِاِمٰامَتِهِ اِلاّٰ مَنْ اِمْتَحَنَ اللّٰهُ قَلْبَهُ بِالْاِیْمٰانِ ''''قٰالَ :فَقٰالَ جٰابِرُ :یٰا رَسُوْلَ اللّٰهِ فَهَلْ یَنْتَفِعُ الشِّیْعَةُ بِهِ فِیْ غَیْبَتِهِ ؟

فَقٰالَ : ای وَالَّذِیْ بَعْثَنِیْ بِالنُّبُوَّةِ أَنَّهُمْ لَیَنْتَفِعُوْنَ بِهِ وَ یَسْتَضِیْئُونَ بِنُوْرِ وِلاٰیَتِهِ فِی غَیْبَتِهِ کَانْتِفٰاعِ النّٰاسِ بِالشَّمْسِ ،وَاِنْ جَلَّلَهَا السِّحٰابُ ، یٰا جٰابِرُ ،هٰذٰا مَکْنُوْنُ سِرِّ اللّٰهِ وَ مَخْزُوْنُ عِلْمِهِ فَاکْتُمْهُ اِلاّٰ عَنْ أَهْلِهِ ''(1)

 وہ (امام زمانہ  عجل اللہ فرجہ الشریف) جن کے ذکر کو خداوند کریم زمین کے تمام گوشہ و کنار میں آپ  ہی کے ذریعہ پہنچائے گا وہ اپنے شیعوں اور محبوں  سے غائب رہیں گے اس طرح کہ بعض آپ  کی امامت کے منکر ہو جا ئیں گے سوائے ان افراد کے جن کے ایمان کا خداوند کریم نے امتحان لے رکھا ہو ۔

 جابر جعفی کہتے ہیں :جابر بن عباللہ انصاری نے پیغمبر اکرم(ص) کی خدمت میں عرض کی : یا رسو ل(ص) اللہ! کیا شیعہ ان کی غیبت کے زمانے میں ان سے بہرہ مند ہو سکیں گے ؟

 پیغمبر اکرم(ص) نے جواب میں فرمایا :

'' اس خدا کی قسم کہ جس نے مجھے رسالت پر مبعوث کیا وہ افراد آپ  کے وسیلہ سے بہرہ مند ہوں گے ان کی غیبت کے زمانے میں ان کے نور ولایت سے روشنی حاصل کریں گے ،جس طرح لوگ سورج سے بہرہ مند ہو تے ہیں اگر چہ بادل اسے ڈھانکے ہوئے ہوں۔اے جابر!وہ خدا کے مخفی رازوں اور اس کے علم کے خزانو ں میں سے ہے ۔لہٰذا اسے مخفی رکھو مگر اس کے اہل سے''.

--------------

[1]۔ کمال الدین :146اور 147، بحارالانوار:ج36ص250

۲۱۱

جیسا کہ آپ  نے ملا حظہ فرمایا کہ پیغمبر اکرم (ص) نے اس حدیث میں تاکید کے ساتھ قسم کھائی ہے کہ شیعہ امام عصر ارواحناہ فداہ کے زمانہ غیبت میں آپ  کے نور ولایت سے روشنی حاصل کریں گے ۔

کیست بی پردہ بہ خور شید ،نظر باز کند      چشم پوشیدۂ ما،علت پیدائی توست

از لطافت نتوان یافت ،کجا می باشی               جای رحم است بر آن کس کہ تماشایی تست

 اگر چہ امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف اس زمانے میں غائب ہیں مگر حقیقت میں پردۂ غیبت ہمارے دلوں پر ہے ور نہ امام اس شخص کے لئے چمکتا ہوا نور ہیں جس کا دل آئینہ کی طرح پاک اور صاف ہو خواہ ظاہراً نابینا ہو ۔(1)

 اس حقیقت کی طرف توجہ انسان کی منزل ولایت اور آپ  کے علم اور قدرت کی طرف راہنمائی کرتی ہے اوردلوں کو امام زمانہ  عجل اللہ فرجہ الشریفکی محبت سے سرشار اور آنحضرت  کی آئندہ آنے والی حکومت   کے انتظار کو ایجاد کرتی ہے ۔

--------------

[1] ۔ اس مطلب کی وضاحت کے لئے کتاب اسرار موفقیت ج  2 کے صفحہ نمبر 50سے ابو بصیر کی روایت میں امام باقر  علیہ السلام  کے غائب  ہونے کے واقعہ کی طرف رجوع فرمائیں ۔

۲۱۲

  انتظار کے آثارسے واقفیت

 1۔ مایوسی اور ناامیدی سے کنارہ کشی

 ایسے معاشرے میں جہاںدین کا نام و نشان بھینہ ہو اور لوگ بہتر مستقبل کی فکر میں نہ ہوں تو ویاںقتل وغارت ، خوں ریزی ، خود کشی اور اسی طرح کی دوسری برائیاںوجود میں آتی ہیں ۔ چونکہ لوگ '' منفی عوامل '' جیسے فقر ، تنگدستی ، ظلم و ستم ، تجاوز ، قانون شکنی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور بے اعتنائی جیسے حالات سے دو چار ہوتے ہیں اور ان سے نبرد آزمائی کے حربوں سے ناواقفیت کی وجہ سے گھر ، سماج اور معاشرے کی تباہی دیکھتے ہی مایوسی و ناامیدی میں مبتلا ہو جاتے ہیں ۔

 چونکہ اس کی غیبی طاقت سے مایوس ہو جاتے ہیں لہٰذا ان مشکلوں سے بچنے کے لئے خود کشی کرنے کا ارادہ کرتے ہیں ۔ پھر اس ظلم اور بربریت کو اختیار کرکے صرف اپنی دنیا و آخرت ہی نہیں بلکہ اپنے اہل و عیال نیز رشتہ داروں تک کوبھی اس بھیانک تباہی میں مبتلا کر دیتے ہیں ۔

 وہ شخص جس کے دل میں انظار کی کیفیت موجزن ہے اور ہمہ وقت دنیا کے اندر نورولایت کے چمکنے کی امید میں ہے ، کبھی ایسا ظلم نہیں کر سکتا جو ا اپنے ساتھ پورے معاشرے کی تباہی کا سبب بنے ۔

۲۱۳

 چونکہ وہ انتظار کے مسائل سے واقف ہے اور نا امیدی ومایوسی سے کنارہ کش ہے ۔یہ روایت اسی حقیقت پر دلالت کرتی ہے ۔

'' عَنِ الْحَسَنِ بْنِ الْجَهْمِ قٰالَ سَأَلْتُ أَبَا الْحَسَنِ عَنْ شَیْئٍ مِنَ الْفَرَجِ ، فَقٰالَ : اَوَ لَسْتَ تَعْلَمُ أَنَّ اِنْتِظٰارِ الْفَرَجِ مِنَ الْفَرَجِ ؟ قُلْتُ لاٰ اَدْرِیْ اِلاّٰ اَنْ تُعَلِّمَنِیْ  فَقٰالَ نَعَمْ ، اِنْتِظٰارُ الْفَرَجِ مِنَ الْفَرَجِ '' (1)

حسین بن جہم کہتے ہیں :  میں نے حضرت موسیٰ بن جعفر علیہ السلام سے فرج کے بارے میں دریافت کیا تو امام نے فرمایا : کیا تم نہیں جانتے کہ فرج کا انتظار کشادگی اور وسعت میں ہے ۔ میں نے عرض کیا آپ نے جتنا مجھے بتایا ہے مجھے اس کے سوا نہیں معلوم ۔ امام نے فرمایا: ہاں! فرج کا انتظار کشادگی اور آسائش سے ہے ۔

2۔ روحانی تکامل

 انسان اپنے اندر انتظار کامل کے ایجاد کرنے کے ساتھ کچھ حد تک ظہور امام  کے زمانے کے لوگوں کے جیسے حالات ( تطہیر قلب) پیدا کر کے ،امید وانتظار کے وسیلہ سے اپنے آپ کو نا امیدی و تباہی سے نجات دلاسکتا ہے ۔

--------------

[1] ۔ بحارالانوار :ج۵۲ ص۱۳۰

۲۱۴

 اسی سے متعلق امام صادق علیہ السلام اپنے آباؤ اجداد سے اور اسی طرح  حضرت امیر المومنین  علی ابن ابیطالب علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں کہ آنحضرت  نے فر مایا :

 ''أَفْضَلُ عِبٰادَةِ الْمُؤْمِنِ اِنْتِظٰارُ فَرَجِ اللّٰهِ ''  (1)

''مومن کی سب سے بہترین عبادت یہ ہے کہ وہ خدا سے فرج کا انتظار رکھتا ہو ''

اسی بنا پر انتظار کےذریعہ انسان ظہور امام عجل اللہ فرجہ الشریف  کے بعض آثار تکامل کو اپنے اندر ایجاد کرسکتا ہے ۔ ابوخالد کی اس بات کی وضاحت امام سجاد علیہ السلام کے اس فر مان سے ہو تی ہے :

 ''عَنْ اَبِیْ خٰالِدِ الْکٰابُلِی عَنْ عَلِیِّ بْنِ الْحُسِیْنِ تَمْتَدُّ الْغَیْبَةُ بِوَلِیِّ اللّهِ الثّٰانِی عَشَرَ مِنْ اَوْصِیٰائِ رَسُوْلِ اللّٰهِ وَ الْأَئِمَّةِ بَعْدِهِ ،یٰا أَبٰاخٰالِدٍ ،اِنَّ أَهْلِ زَمٰانِ غَیْبَتِهِ ،اَلْقٰائِلُوْنَ بِاِمٰامَتِهِ ،اَلْمُنْتَظِرُوْنَ لِظُهُوْرِهِ ،أَفْضَلُ أَهْلِ کُلِّ زَمٰانٍ ،لِاَنَّ اللّٰهَ تَعٰالٰی ذِکْرُهُ أَعْطٰاهُمْ مِنَ الْعُقُوْلِ وَالْاَفْهٰامِ وَالْمَعْرِفَةِ مٰا صٰارَت بِهِ الْغَیْبَةُ عِنْدَ هُمْ بِمَنْزِلَةِ الْمُشٰاهَدَ ِة ،وَ جَعَلَهُمْ فِی ذٰلِکَ الزَّمٰانِ بِمَنْزِلَةِ الْمُجٰاهِدِیْنَ بَیْنَ یَدَیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ بِالسَّیْفِ ،اُوْلٰئِکَ الْمُخْلِصُوْنَ حَقّاً،وَ شِیْعَتُنٰا صِدْقاً ،وَالدُّعٰاةُ اِلٰی دِیْنِ اللّٰهِ سِرّاً وَ جَهْراً وَٰقالَ  : اِنْتِظٰارُ الْفَرَجِ مِنْ أَعْظَمِ الْفَرَجِ '' (2)

ابو خالد کابلی حضرت علی بن الحسین علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں کہ آنحضرت  نے فرمایا :

ولی خدا جو پیغمبر اکرم (ص) کے اوصیاء میں سے بارہویں (خلیفہ ) اور آپ  کے بعد آئمہ اطہار علیھم السلام میں سے ہیں کی غیبت طولانی ہو گی اے ابو خالد!بے شک ان کے زمانۂ غیبت  کے لوگ ، ان کی امامت پر عقیدہ رکھنے والے اور ان ظہور کے منتظر لوگ ہر زمانے کے لو گوں سے افضل ہیں ۔

--------------

[1]۔ بحارالانوار:ج53 ص131

[2]۔ بحار الانوار: ج ۵۲ص۱۲۲

۲۱۵

 کیونکہ خداوند کریم عقلوں کوان کا ذکراس قدر عطا کرے گا کہ ان کے نزدیک غیبت مشاہد ے کی طرح ہو گی اور ان کو اس زمانے میں ان مجاہدین کی طرح قرار دیا جائے گا کہ جنہوں نے پیغمبر اکرم(ص)کے دور میں تلوار سے جہاد کیا ہو حقیقت میں وہی با اخلاص ہیں اور وہ ہمارے سچے شیعہ ہیں اور لوگوں کو ظاہری اور مخفی طور سے بھی دین خدا کی طرف بلاتے ہیں ۔

اس کے بعد امام سجاد  علیہ السلام نے فر مایا : ''ظہور کا  انتظار عظیم ترین فرج میں  سے ہے ۔''

دوست نزدیک تر از من ،بہ من است

وین عجیبتر کہ من از وی دورم

این سخن با کہ توان گفت کہ دوست

در کنار من و من مہجورم

 انتظار کی راہ تکامل تک پہنچنے والیسچے منتظرین اپنے آپ کو حکومت خدا کی غیبی قدرت سے پوری دنیا پر حکومت کے لئے آمادہ کرنے کے اثر سے غیبت کے زمانے میں بعض زمانۂ ظہور کے فردی خواص اور خصوصیات جیسے تطہیر قلب وغیرہ تک رسائی حاصل کرتے ہیں اس حد تک کہ غیبت کا زمانہ ان کے لئے روز روشن کی طرح عیاں ہے اگران کے اندر اس طرح کے اثرات نہ ہو ں تو کس طرح فرج اعظم کا انتظار فرج ہے ؟وہ حالت انتظار کے ساتھ غیبت اور زمانۂ ظہور کے در میان رابطہ قائم کرتے ہیںاور اس زمانے کے بعض حالات کوغیبت کے زمانے میں پا لیتے ہیں ۔(1)

--------------

 [1] ۔ جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں کہ  مرحوم بحر العلوم اور مرتضی ٰ شیخ انصاری  جیسے بہت کم افراد  ایسے حالات تک رسائی حاصل کرتے ہیں ۔

۲۱۶

 مرحوم شیخ انصاری امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کے شریعت کدہ پر

 دلوں کو منور کرنے والا واقعہ دنیا ئے تشیع کی اس عظیم شخصیت کا ذکر ہے جس نے ظاہری اور باطنی دونوں محاذوں  پر غیبی امداد اور قوت سے دین مبین کی حفاظت کی ۔

 شیخ انصار ی کے ایک شاگرد ، آپ کے امام  علیہ السلام سے تعلق اور امام  علیہ السلام کے شریعت کدہ پر شرفیابی کو یوں بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ میں حضرت امام حسین علیہ السلام کی زیارت کی غرض سے کربلا پہنچا۔ انہی ایام میں ایک بار میں آدھی رات کے وقت حمام جا نے کے لئے گھر سے باہر آیا ، چونکہ گلیوں میں کیچڑ و غیرہ زیادہ تھا لہذا میں نے اپنے ساتھ ایک شمع بھی لے لی اور میں  اس کی مدہم روشنی میں چلنے لگا ۔ کچھ فاصلے پر ایک شخص نظر آیا میں نے محسوس کیا جیسے شیخ انصاری ہو ں ۔  راستہ طے کرکے جیسے ہی قریب ہوا تو یقین ہو گیا آپ ہی ہیں ۔میں نے سو چا یہ حضور اس تاریکی میں کہاں تشریف لے جا رہے ہیں جب کہ آپ کی بینا ئی بھی کمزور ہے ۔میں نے سو چا کہیں کو ئی آپ کا تعاقب نہ کر رہا ہو کہ جو آپ کو نقصان پہنچا ئے لہٰذا خاموشی سے آپ کے پیچھے چلنے لگا ۔کچھ دور چلنے کے بعد وہ ایک پرا نی ساخت کے مکان کے دروازے پر کھڑے ہو ئے اور خلو ص نیت کے ساتھ زیارت جامعہ پڑھنے لگے ۔

زیارت سے فارغ ہو تے ہی اس مکان میں داخل ہو ئے ۔پھر میں نے کچھ نہیں دیکھا صرف آپ کی آواز آرہی تھی ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ آپ کسی سے ہم کلام ہیں ۔میں وہاں سے پلٹا پھر حمام گیا اور اس کے بعد حرم مطہر گیا وہاں میں نے شیخ  کو دیکھا ۔

۲۱۷

 اس سفر سے واپس آکر میں نجف اشرف میں شیخ کی خدمت میں پہنچا اور اس رات والے واقعہ کو دہرایا اور اس کی تفصیل پو چھی ،پہلے تو شیخ نے انکار کیا لیکن مزید اصرار پر آپ  نے فر مایا :

جب امام  سے ملاقات کی خواہش ہوتی ہے تو میں اس گھر کے دروازے پر چلا جاتا ہوں ،جسے تم اب کبھی نہیں دیکھ پا ؤگے ،زیارت جامعہ پڑھنے کے بعد اذن طلب کرتا ہوں ۔اگر اجازت مل جاتی ہے تو آنحضرت  کی خدمت میں فیضیاب ہو تا ہوں ۔جو مسائل میری سمجھ سے بالا ہوتے ہیں آپ  اسے بطور احسن حل فر ماتے ہیں ۔

پھر شیخ  نے فرمایا:اور سنو جب تک میں زندہ ہوں اس واقعہ کو چھپا ئے رکھنا ۔ہرگز کسی کے سامنے بیان نہ کرنا ۔(1)

 اسی طرح اور دوسری بزرگ شخصیتیں بھی ہیں جنہوں نے امام  سے بارہا ملاقات کی ہے اور اپنے آپ کو حضرت  کے ظہور کے لئے ہمہ وقت آمادہ رکھتے تھے ان لوگوں کی طرح نہیں کہ جو قرآنی آیتوں کی تأ ویل اور توجیہ کریں گے نیز آنحضرت  کے ساتھ جنگ بھی کریں گے ۔

کلید گنج سعادت فتد بہ دست کسی

کہ نخل ہستی اورا بود بَرِ ہنری

چو مستعد نظر نیستی ،وصال مجوی

کہ جام جم ندہد سود ،وقت بی بصری

--------------

[1] ۔ زندگانی و شخصیت شیخ انصاری  : 106

۲۱۸

  کامیابیوں کی کلید اور محرومیوں کے اسباب

 یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے :کس طرح ہر دفعہ شیخ اجازت حاصل کر لیتے تھے اور امام  عجل اللہ فرجہ الشریف  کے شریعت کدہ میں زیارت جامعہ کے پڑھتے اور اجازت لے کر ساتھ بیت الشرف میں داخل ہوتے اور اپنے مہربان امام  عجل اللہ فرجہ الشریف کے ساتھ گفتگو کرتے ؟

 انہوں نے کس طرح یہ مرتبہ حاصل کیا تھا ؟نیز ان کے شاگردنے بھی امام عصر عجل اللہ فرجہ الشریف کے بیت الشرف کو دیکھا اس کے باوجودیہ افتخار نہیں رکھتے تھے چونکہ مرحوم شیخ   نے ان سے فر مادیا تھا کہ اس کے بعد تم اس بیت الشرف کو کبھی نہیں دیکھ پا ؤگے ۔

 یہ سوال اہم ہے اور اس کا اطمینان بخش  جواب دینا بھی ضروری  ہے ۔  افسوس کی بات ہے کہ بعض افراد اس طرح کے سوالات کے لئے پہلے سے تیار شدہ جواب رکھتے ہیں اور مقابل کو فوراً جواب دیتے ہیں :خدا نے اسی طرح چا ہا ہو گا یا خدا ان میں سے (نعوذ باللہ ) بعض افراد کے ساتھ رشتہ داری  اور ان کے قوم و قبیلہ سے اپنا ئیت رکھتا ہے اور کسی قسم کا ارتباط پیدا کرنے  کے لئے دوسرے لوگوں کے طلب کرنے کی ضرورت نہیں ہے !

 اس قسم کے جوابات عموما ً ذمہ داریوں سیجان چھڑانے کا طریقہ ہیںلیکنیہ صحیح نہیں ہے ۔ کیونکہ نہ ہی جوابات قانع کنندہ ہیں اور نہ ہی ان سے کبھی کسی کو راہ  تکامل کی طرف راہنمائی کرسکتے ہیں ہم اس سوال کا جواب خاندان وحی علیھم السلام کے فرا مین کی روشنی  میں دیں گے ۔

۲۱۹

خداوند عالم نے تمام انسانوں کو رو حانی کمال اور معنویت حاصل کرنے کا حکم دیا ہے اور اپنی عمومی دعوت میں جو کوئی بھی اس راہ میں قدم بڑھائے اجر اور بدلہ عنایت کیاہے اسی طرح کہ جیسے میزبان اپنے مہمانوں کو دعوت کرتا ہے اور سب کی شرکت کی صورت میں خدمت اور پذیرائی کرتا ہے،نیزخداوند کریم نے بھی کمال و ارتقاء کا زمینہ ہر انسان کے لئے فرا ہم کیا ہے ۔اور اسی طرح ان کو  تکامل کی طرف دعوت دی ہے اور قرآن مجید میں صریحاً فر مایا ہے :

 (وَالَّذِیْنَ جٰاهَدُوْا فِیْنٰا لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلُنٰا ) (1)

''جو بھی ہماری راہ میں کو شش کرے ہم ضرور اسے اپنی راہ میں ہدایت کریں گے ''

 مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ خدا کی دعوت کا جواب دیں اور روحانی کمال اور معنوی کارتقاء کی راہ میں  قدم بڑھائیں ۔لہٰذایہ بات مسلم ہے کہ انسان کے اندر ارتقاء کا مادہ موجود ہے اور وہ اس قدرت سے بہرہ مند بھی ہے، لیکن اس سے استفادہ نہیں کرتا جیسے تنگ نظر  اور چحوٹی سوچ کے مالک دولت مند افراد ہمیشہ بینک اکاؤنٹ پر کرنے میں لگے رہتے ہیں اور اس سے خوشحال رہتے ہیں ، انہیں کبھی بھی اس مال و دولت سے استفادہ کرنے کی توفیق نہیں ہوتی ۔کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ موجودہ قوتوں اور توانائیوں سے استفادہ کیا جائے  تاکہ اپنے خسارے اور گھاٹے کا جبران ہو سکے اور عظیم مقاصد تک رسائی حاصل ہو سکے ۔بہت سارے لوگ روحانی اور معنوی کمال تک پہنچنے کی ذاتی طور پر بہت زیادہ آمادگی اور توانائی رکھتے ہیں چونکہ ان امور کے ساتھ ان کا کوئی کام نہیں ہوتا لہٰذا اس قسم کی تمام تر توانائیوں سے کوئی فائدہ حاصل نہیں کرتے یہاں تک کہ دنیا کو خیر آباد کہہ دیتے ہیں اور ان توانائیوں کو اپنے ساتھ زیر خاک لے جاتے یتے ہیں

--------------

[1]۔ سورۂ عنکبوت ، آیت: 69

۲۲۰

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

اولاد كے زيادہ ہونے سے عزت كا حصول۵

بت پرستي:بت پرستى ميں عزت كا حصول ۳

بعثت سے ملى ہوئي:بعثت سے ملى ہوئي تاريخ ۱

سعادت:سعادت كے اسباب ۴

عبادت:الله كى عبادت كے آثار۴

مال :مال سے عزت كا حصول۵

مشركين:صدر اسلام كے مشركين اور عزت۲; صدر اسلام كے مشركين كى بت پرستى ۱; صدر اسلام كے مشركين كى بت پرستى كا فلسفہ ۲; صدر اسلام كے مشركين كى جن پرستى ۳; صدر اسلام كے مشركين كى رائے ۲; صدر اسلام كے مشركين كے باطل مبعودوں كا زيادہ ہونا ۱; مشركين كى بت پرستى كا سبب۳; مشركين كى فكر ۵; مشركين كى ملائكہ پرستى كاسبب۳

آیت ۸۲

( كَلَّا سَيَكْفُرُونَ بِعِبَادَتِهِمْ وَيَكُونُونَ عَلَيْهِمْ ضِدّاً )

ہرگز نہيں عنقريب يہ معبود خود ہى ان كى عبادت سے انكار كرديں گے اور ان كے مخالف ہوجائيں گے (۸۲)

۱_ غير خدا كى پرستش كبھى بھى عزت كا باعث نہيں ہے_ليكونوا لهم عزّاً_ كل

لفظ ''كلاّ'' مشركين كے اس گمان كا انكار ہے كہ وہ معبود وں كى پرستش كو اپنى عزت كا باعث سمجھتے تھے_

۲_ روز قيامت، مشركين كے معبود مشركين كى عبادتوں كے باطل اور فضول ہونے كو بر ملا اور اس سے اظہار برائت كريں گے_سيكفرون بعبادتهم ويكونون عليهم ضدّا

آيت ميں موجود ضمير وں كے بارے ميں احتمالات ذكر ہوئے ہيں كہ ان ميں سے ايك يہ ہے كہ '' يكفرون'' اور ''يكونون'' كى ضمير ''الہة'' كى طرف لوٹ رہى ہے اور'' بعبادتہم'' اور'' عليہم ''كى ضمير ،مشركين كى طرف لوٹ رہى ہے مندرجہ بالا مطلب اسى اساس پرہے_كہا گيا ہے كہ'' كفر'' مختلف معانى مثلاً انكار اور برائت و غيرہ ميں استعمال ہوتا ہے(لسان العرب) اس آيت ميں بھى ''ويكونون عليہم ضداً'' كے قرينہ سے برائت كرنے اور ذمہ دارنہ ہونے كے معنى ميں ہے_

۷۸۱

۳_ روز قيامت، مشركين كے معبود اپنى پوجا كرنے والوں كى مخالفت اوردشمنى كريں گے_ويكونون عليهم ضدا

۴_ روز قيامت مشركين كے معبود مشركين كى ذلت و خوارى كا باعثبنيں گے_عزّا ...ويكونون عليهم ضدا

۵_ الله تعالى كے سوا ہر چيز كى پرستش روز قيامت ذلت و خوارى كا باعث ہے_

من دون الله ء الهة ليكونوا لهم عزّاً ويكونون عليهم ضدا

۶_ قيامت، مشركين اور انكے معبودوں كو حاضر اور انكا حساب لينے كا دن ہے_سيكفرون بعبادتهم ويكونون علهيم ضدا

۷_ روز قيامت حقائق كے ظہور ، شرك كے باطل ہونے اور مشركين كے بنائے ہوئے مبعودوں كا انہيں عزت بخشنے سے عاجز ہونے كا دن ہے_سيكفرون بعبادتهم ليكونوا لهم عزّا

۸_ روز قيامت ،مشركين جعلى معبودوں كى پرستش اور بندگى كا انكار كريں گے اور ان سے مخالفت اور دشمنى كااظہار كريں گے_سيكفرون بعبادتهم و يكونون عليهم ضدا

مندرجہ بالا مطلب ميں ''يكفرون'' اور'' يكونون''كى ضمير كا مرجع مشركين اور ''بعبادتہم ''اور''عليہم'' كى ضمير كا مرجع ''الہة'' جانا گيا ہے اور كفر كا معنى بھى انكار ليا گيا ہے_

۹_ قرآن نے پہلے سے ہى مشركين كے جلد ہى ذليل و رسوا ہونے ،انكى عزت و ثروت تك پہنچنے كى آرزو ميں شكست اور انكى اپنے خيالى معبودوں سے دشمنى كى خبر دى ہے _سيكفرون بعبادتهم و يكونون عليهم ضدا

يہ كہ كوئي يقينى قرينہ موجود نہيں ہے كہ يہ آيت مشركين كى روزقيامت حالت پر دلالت كررہى ہے _لہذا يہ احتمال بعيد نہيں ہے كہ آيت كى مراد مشركين مكہ كے آئندہ قريب كے حالات كى خبر ہو كہ جب وہ شرك اور بت پرستى سے رخ موڑليں گے اس مطلب ميں ''سيكفرون اور يكونون''كى فاعلى ضمير مشركين كى طرف لوٹ رہى ہے_

۱۰_عن أبى عبداللّه (ع) فى قوله: '' ...كلاّ سيكفرون بعبادتهم و يكونون عليهم ضداً'' يوم القيامة ...ثم قال : ليست العبادة هى السجود ولا الركوع وإنّما هى طاعة الرجال من ا طاع مخلوقاً فى معصية الخالق فقد عبده (۱)

____________________

۱) تفسير قمى ج۲،ص۵۵، نورالثقلين ج۳،ص۳۵۷، ح ۱۴۶_

۷۸۲

امام صادق(ع) سے الہى كلام.كلاّ سيكفرون بعبادتهم و يكونون عليهم ضداً'' كے بارے ميں روايت ہوئي ہے كہ آپ(ع) فرمايا: يہ مخالفت روز قيامت ہے پھر امام (ع) فرماتے ہيں يہاں عبادت ركوع و سجود نہيں ہے بلكہ مراد لوگوں كى اطاعت ہے جس نے بھى كسى مخلوق كى خالق كى معصيت ميں اطاعت كى ہو گويا اس نے اسكى عبادت كى ہے_

باطل معبود:باطل معبود روز قيامت ميں ۳; باطل معبود سے بيزاري۲;باطل معبودوں سے دشمني۹;باطل معبودوں كا عجز۷; باطل معبودوں كا كردار۴; باطل معبودوں كى اخروى دشمني۲; باطل معبودوں كے اخروى جھٹلانے والے ۸; باطل معبودوں كے اخروى دشمن۸

بيزاري:مشركين سے بيزاري۲

ذلت:اخروى ذلت كے اسباب۵

روايت:۱۰

شرك:شرك كا بطلان۷

عبادت:عبادت سے مراد ۱۰;غير خدا كى عبادت كے آثار۱،۵

عزت:عزت كے اسباب ۱

قرآن مجيد :قرآن مجيد كى پيش گوئي۹

قيامت :قيامت كى خصوصيات ۷،۱۰; قيامت ميں حقائق كا ظہور ۲،۷

مشركين:قيامت ميں مشركين ۸; قيامت ميں مشركين كا حاضر كيا جانا۶; قيامت ميں مشركين كے معبودوں كا حاضر كيا جانا ۶;مشركين كا اخروى حساب و كتاب۶; مشركين كى اخروى ذلت كے اسباب۴; مشركين كى دشمنى ۸; مشركين كى ذلت ۹; مشركين كى عبادات كا فضول ہونا ۲; مشركين كے اخروى دشمن ۳; مشركين كے باطل معبود۲; مشركين كے معبودوں كا اخروى حساب و كتاب۶

۷۸۳

آیت ۸۳

( أَلَمْ تَرَ أَنَّا أَرْسَلْنَا الشَّيَاطِينَ عَلَى الْكَافِرِينَ تَؤُزُّهُمْ أَزّاً )

كيا تم نے نہيں ديكھا كہ ہم نے شياطين كو كافروں پر مسلّط كرديا ہے اور وہ ان كے بہكاتے رہتے ہيں (۸۳)

۱_ كفار، شياطين كے وسوسوں اوراس كے چنگل ميں گرفتار ہيں _أرسلنا الشياطين على الكفرين تؤزهم

''ا زّ'' كا معنى ابھارنا ہے اور''تؤزّہم'' شياطين كفار كو زيادہ گمراہى اور انحراف كى طرف ابھارتے اور برانگيختہ كرتے ہيں _

۲_ كفار كو وسوسہ ڈالنے اور ابھارنے كيلئے شياطين كا بھيجا جانا ،پيغمبر اكرم (ص) كى نگاہ سے مخفى نہيں ہے_

ا لم تر أنا أرسلنا الشياطين

۳_ شياطين، لوگوں كو گمراہ كرنے كيلئے وسوسہ ڈالنے اور ابھارنے والى مخلوقات ہيں _ا رسلنا الشياطين على الكافرين تؤز ّهم

۴_ شياطين الہى حاكميت اور تسلط كے تحت ہيں _ا لم تر أنّا أرسلنا الشياطين

''أنّا ارسلنا '' ميں ''نا' كى ضمير اس نكتہ كو بيان كررہى ہے كہ يہ تصور نہ ہو كہ شياطين كا كام الہي پروردگار اور نظام سے باہرہے بلكہ انكے تمام كام الہى مشيّت كى حدود كے اندر انجام پاتے ہے_

۵_ شياطين كے وسوسے اور ابھارنے والى تلقين ، الہى ارادہ سے وابستہ ہے_ا لم تر أنّا أرسلنا الشياطين على الكفرين تؤزّهم

۶_ كفر كرنا شيطان كے انسان پر تسلط اور اس كے و سوسہڈالنے كى راہ ہموار كرتا ہے_ا رسلنا الشياطين على الكفر ين تؤزّهم

''على الكافرين'' كى تعبير بتارہى ہے كہ الله تعالى ،كفار كے كفر كرنے كے بعد شياطين كو گمراہ كرنے كى ذمہ دارى ديتا ہے در اصل شياطين كو كفر كے نتيجہ ميں بھيجا جا تا ہے_

۷_ شرك، الله تعالى كا كفر ہے_واتّخذوا من دون الله ء الهة ...على الكافرين

۷۸۴

۸_ كفار كا شيطانى وسوسوں اور انگيزوں ميں گرفتار ہونا ''عذاب تدريجي'' اورانہيں كفر اورگمراہى ميں چھوڑے جانے كا ايك جلوہ ہے _الرحمن مدّاً ...ا لم تر أنّا أرسلنا الشياطين

يہ آيت اس آيت ''من كان فى الضلالة فليمدد لہ الرحمن مدّاً'' كہ جوسنت ''امہال'' كو بيان كررہى ہے اس سے ربط ركھتى ہے اور اسطرح سنت ''فليمدد ...مدّاً'' كے جارى ہونے پر ايك اورگوا ہ ہے جو وہى ''امہال '' اور ''استدراج '' ہے_

۹_ كفار كا شياطين كى طرف سے ابھارا جانا ا ور انكى بڑھتى ہوئي گمراہى اس بات كى واضح نشانى ہے كہ انكے معبود انكے ليے مفيد نہيں ہيں اور وہ اپنے پوجنے والوں كے مخالف ہيں _ويكونون عليهم ضداً _ا لم تر أنّا أرسلنا الشياطين

''ا لم تر'' ميں استفہام گذشتہ آيت كے مضمون كيلئے گواہ اور تائيد ہے اورگواہ كے ہونے پر دلالت كررہى ہے اسطرح كہ اسكو نہ ديكھنا اورتوجہ نہ كرنا حيرت انگيز ہے_

آنحضرت(ص) :آنحضرت(ص) كى گواہى ۲

الله تعالى :الله تعالى كى حاكميت ۴; الله تعالى كے ارادہ كےآثار ۵

باطل معبود:باطل معبودوں كى دشمنى ۹; باطل مبعودوں كے فضول ہونے كى نشانياں ۹

شرك:شرك كى حقيقت۷

شياطين:شياطين كا ابھارنا ۹;شياطين كا حاكم ہونا۴; شياطين كاگمراہ كرنا ۳،۹; شياطين كے ابھارنے كا سرچشمہ ۵; شياطين كے جال ۱; شياطين كے وسوسے ۱،۲،۳; شياطين كے وسوسوں كا سرچشمہ ۵

شيطان :شيطان كے ابھارنے كا سبب ۸; شيطان كے تسلط كا سبب۶; شيطان كے وسوسوں كا سبب ۶،۸

كفار:كفار كا ابھارا جانا ۹; كفار كا وسوسہ ۱; كفار كو مہلت ۸; كفار كى گمراہى ۹; كفار كى گمراہى كے آثار ۸; كفار كے ابھارے جانے پر گواہ ۲

كفر:الله تعالى كے ساتھ كفر ۷; كفر كے آثار ۶، ۸; كفر كے موارد ۷

گمراہي:گمراہى كے اسباب۳

۷۸۵

آیت ۸۴

( فَلَا تَعْجَلْ عَلَيْهِمْ إِنَّمَا نَعُدُّ لَهُمْ عَدّاً )

آپ ان كے بارے ميں عذاب كى جلدى نہ كريں ہم ان كے دن خود ہى شمار كر رہے ہيں (۸۴)

۱_مشركين كا اپنے شرك پر اصرار ، باعث بنا كہ پيغمبر اكرم(ص) انكے ليے جلد عذاب كى در خواست كى تيارى كريں _

فلا تعجل عليهم إنّما نعدّ لهم عدّا

۲_ الله تعالى كا پيغمبر اكرم(ص) كو ہٹ دھرم كفار كے عذاب كيلئے جلدى نہ كرنے كى نصحيت كرنا_فلا تعجل عليهم

۳_ شيطانى وسوسوں كا مشركين پر بڑھتا ہوا اثراور الہى مہلتوں كى بناء پر انكى زيادہ ہوتى ہوئي گمراہي، الله تعالى كا انكے عذاب ميں جلدى نہ كرنے كى وجہ نہيں ہے_فلا تعجل عليهم

گذشتہ آيات مثلاً''فليمدد له الرحمن مدّاً ''اور''تؤرهم ازّا '''ميں فاء كے ذريعے ''لا تعجل '' كى تفريع ہوئي ہے يعنى اب جو عذاب ميں ديرمشركين كى گمراہى اور شيطانى فريب كے بڑھنے كا باعث بنى ہے تو عذاب كى تعجيل ميں كيا ضرورت ہے؟ جملہ''انّما ...''نيز''فلا تعجل عليهم '' كيلئے علت سے ہے اسى نكتہ پرتاكيد كررہا ہے كيونكہ مشركين كے عذاب پر دلائل كے بڑھنے پر دلالت كررہا ہے _

۴_ الله تعالى ، پيغمبر اكرم(ص) كى مشركين كے عذاب كے بارے ميں در خواست قبول كرے گا_فلا تعجل عليهم

اگر پيغمبر اكرم (ص) كى عجلت كا يقينى اثر نہ ہوتا تو اس سے الله تعالى منع نہ كرتا _

۵_اللہ تعالى نے عصر بعثت كے ہٹ دھرم كفار كو مناسب زمانہ ميں دنياوى عذاب سے خبر دار كيا ہے_

فلا تعجل عليهم إنّما نعدّلهم عدّا

عبارت''إنّما نعدّلهم عدّاً'' علت كے مفہوم كى حامل ہے يعنى ہدف اعداد كا آگے بڑھنا ہے اور ايك دن گنتى اپنے مطلوبہ نقطہ تك پہنچ جائيگى اور اسكے بعد عذاب يقينى ہوگا_

۶_ مشركين كو الله تعالى كى مہلت اگر چہ طويل ہى كيوں نہ ہو معمولى اور ناچيز سى مہلت ہے_إنّما نعدّ لهم عدّا

۷۸۶

فعل ''نعدّ'' (ہم گن رہے ہيں ) قلت كے معنى كا حامل ہے كيونكہ عام طور پرقليل سى چيز گننے كے قابل ہوتى ہے گذشتہ آيات ميں جملہ ''فليمدد لہ الرحمن مدّاً'' كہ جو مدت كے طويل ہو نے پر دلالت كررہا ہے اسكے بعد يہ عبارت دنيا كى آخرت اور انسان كے انجام سے مقائسہ كرتے ہوئے انسان كى سارى عمر كے كم ہونے سے حكايت كررہى ہے_

۷_ انسان كے غلط اعمال لكھے جاتے ہيں اور انكى تعداد محفوظ ركھى جاتى ہے_إنّما نعدّ لهم عدّا

''نعدّ'' (ہم گنتے ہيں ) كا مفعول محذوف ہے بعض اسے عمر كے لمحات جانتے ہيں اور ايك گروہ كے مطابق اس سے مراد ان اعمال كا شمار كرنا ہے كہ جو كفار كے مہلت پانے كى وجہ سے ان سے ظاہر ہوتے ہيں اور انكى برائيوں ميں اضافہ ہوتے ہيں مندرجہ بالا مطلب اسى بناء پر ہے_

۸_ الله تعالى كفار اورمشركين كے كردار پرمشتمل اعمال نامہ كو عميق انداز سے محاسبہ كرے گا_إنّما نعدّ لهم عدّ

۹_عن عبدالله الأعلى قال: قلت لا بى عبدالله (ع) قول الله عزّوجل ''إنّما نعدّ لهم عدّاً'' قال : ما هو عندك قلت: عدد الا يام قال : ...لا ولكنّه عدد الانفاس (۱)

عبد الا على سے روايت ہوئي ہے كہ ميں نے امام صادق(ع) كى خدمت ميں عرض كيا: الله تعالى كے كلام'' إنّما نعدّ لہم عدّاً ''سے مراد كيا ہے؟ فرمايا تم كيا معنى كرتے ہو؟ ميں نے عرض كى اس سے مراد دنوں كى تعداد ہے فرمايا: ايسا نہيں ہے بلكہ اس سے مراد سانسوں كى تعداد ہے_

آنحضرت(ص) :آنحضرت(ص) كو نصيحت۲; آنحضرت (ص) كى دعا كا قبول ہونا۴

الله تعالى :الله تعالى كا حساب لينا۸; الله تعالى كى مہلتيں ۶; الله تعالى كى مہلتوں كے آثار ۳; الله تعالى كى نصيحتيں ۲; الله تعالى كے ڈراوے ۵

ڈراوا:دنياوى عذاب سے ڈرانا۵//روايت:۹سانس:سانسوں كى تعداد شمار كى جانا۹

شرك:شرك پر اصرار كے آثار۱//شيطان :شيطان كے وسوسوں كے آثار ۳

عمل :ناپسنديدہ عمل كا لكھا جانا۷

كفار:صدر اسلام كے كفار كو ڈراوا۵; كفار كا حساب ليا

____________________

۱)اصول كافى ،ج۳،ص ۲۵۹ ،ح۳۳، نورالثقلين ج۳،۳۵۷،ح۱۴۸_

۷۸۷

جانا۸; كفار كانا مہ عمل ۸; كفار كى خواہشات ۱; كفار كے عذاب ميں عجلت ۱; كفار كے عذاب ميں عجلت سے پرہيز۲

مشركين:مشركين كا حساب ليا جانا ۸; مشركين كا عذاب يقينى ہونا۴; مشركين كا نامہ عمل ۸; مشركين كو كچھ مہلت دى جانا۶; مشركين كو مہلت دينے كے دلائل۳; مشركين كى گمراہى كا زيادہ ہونا ۳; مشركين كے عذاب ميں عجلت سے پرہيز كرنا۳

آیت ۸۵

( يَوْمَ نَحْشُرُ الْمُتَّقِينَ إِلَى الرَّحْمَنِ وَفْداً )

قيامت كے دن ہم صاحبان تقوى كو رحمان كى بارگاہ ميں مہمانوں كى طرح جمع كريں گے (۸۵)

۱_روز قيامت، متقى لوگ تكريم وجلالت كے ساتھ خدائے رحمان كى بارگاہ ميں حاضر ہونگے_

يوم نحشر المتقين إلى الرحمن و فد ''وفد '' جمع يا اسم جمع ہے يہ ايسى ھيئت يا گروہوں كو كہتے ہيں كہ جو ملاقات يا مدد لينے كيلئے حاكموں كے پاس جاتے ہيں (لسان العرب) روز قيامت متقين كى ''وفد'' كے ساتھ توصيف انكے حاضر ہوتے وقت خاص احترام اور مقام سے حكايت كررہى ہے كہ روز قيامت جسكے وہ حامل ہونگے يہ لفظ ممكن ہے كہ مصدر اور متقين كے محشور ہونے كى نوعيت كو بيان كررہا ہو_

۲_ روز قيامت، متقين ايك خاص منزلت اور امتياز كے حامل ہونگے_يوم نحشر المتقين إلى الرحمن وفدا

۳_ خدائے رحمان ،روزقيامت متقى لوگوں ( موحدين ) كا ميزبان ہوگا_يوم نحشر المتقين إلى الرحمن وفدا

''وفداً'' خواہ مصدر ہو اور محشور ہونے كى نوعيت بيان كرنے والا ہو يا خواہ ''وافدين '' كے معنى ميں ہو بہر صورت متقين كے مہمان ہونے پر دلالت كررہا ہے اس فرق كے ساتھ كہ دوسرى صورت ميں يہ بتاتا ہے كہ وہ روز قيامت فردى صورت ميں حاضر نہيں ہونگے بلكہ گروہى صورت ميں آئيں گے تو اس صورت ميں ضرورى ہے كہ ''وفداً'' حال مقدر ہے يعنى انكا گروہى صورت ميں ہونا تمام افراد كے محشور ہونے كے بعد ہے كيونكہ بعد والى آيات انكے فردى صورت ميں محشور ہونے پر صراحت سے دلالت كررہى ہيں _

۷۸۸

۴_ شرك اور باطل معبودوں كى پرستش سے پرہيز تقوى كا ايك مكمل جلوہ ہے_واتّخذوا من دون الله ء الهة ...يوم نحشر المتقين إلى الرحمن چونكہ گذشتہ آيات ميں موضوع بحث شرك اور مختلف معبود وں كى عبادت تھا تو اس مناسبت كا تقاضا يہى ہے كہ اس آيت ميں متقين سے مراد وہ لوگ ہوں كہ جو شرك اور باطل معبودوں كى پرستش سے پرہيز كرتے ہوں _

۵_ قيامت، انسان كے محشور اورجمع ہونے كا دن ہے _يوم نحشر ''حشر'' يعنى اس انداز سے جمع كرنا كہجس كے ساتھ دھكيلنا بھى ہو_ (مقايس الغة)

۶_ تقوى ( عقيدہ اور عبادت ميں شرك سے پرہيز) انسان كو الله تعالى سے نزديك كرنے اور اسكى وسيع رحمت سے بہرہ مند ہونے سبب ہے _يوم نحشر المتقين إلى الرحمن

۷_ روز قيامت، متقى لوگوں كو خصوصى احترام و اكرام كے ساتھ اٹھا نا ،اللہ تعالى كى رحمانيت اور اسكى عزت عطا كرنے كا ايك جلوہ ہے_واتّخذو ا من دون الله ء الهة ليكونوا لهم عزّاً ...يوم نحشر المتقين إلى الرحمن وفدا

۸_ رحمن، الله تعالى كے اوصاف ميں سے ہے_نحشر المتّقين إلى الرحمن

۹_''عن أبى عبدالله (ع) قال: سا ل على (ع) رسول الله(ص) عن تفسيرقوله ''يوم نحشر المتقين الى الرحمن وفداً'' فقال : يا على إنّ الوفد لا يكون إلاّ ركبا ناً (۱)

امام صادق(ع) سے روايت ہوئي ہے كہ آپ(ع) نے فرمايا : حضرت على (ع) نے رسول اكرم (ص) سے اس آيت''يوم نحشر المتقين إلى الرحمن وفداً '' كى تفسير كے بارے ميں سوال كيا تو حضرت نے فرمايا: اے على بلا شبہ وفد سوائے سوارى پر سوار لوگوں كے علاوہ اور كوئي نہيں ہيں _

اسماء و صفات:رحمان۸//الله تعالى :الله تعالى كى رحمانيت كى نشايناں ۷; الله تعالى كى عزت بخشنے كى نشانياں ۷; الله تعالى كى ميزباني۳//انسان:انسانوں كا محشور ہونا۵//باطل معبود:باطل معبودوں سے پرہيز۴

تقرّب:تقرّب كے اسباب۶//تقوي:تقوى كى نشانياں ۴; تقوى كے آثار۶

رحمت:رحمت كا باعث۶

____________________

۱)تفسير قمي،ج۲، ص۵۳، نورالثقلين، جلد ۳ص۳۵۹ ، ح۱۵۳_

۷۸۹

روايت۹

شرك:شرك سے پرہيز ۴; عبادت ميں شرك سے پرہيز كے آثار ۶

قيامت :قيامت كى خصوصيات ۵; قيامت ميں اجتماع ۵

متقين:روز قيامت متقين ۱،۲،۳،۷; روز قيامت ميں متقين كى سواري۹; متقين كا اخروى احترام ۷; متقين كا محشور ہونا ۱،۷; متقين كا ميزبان ۳; متقين كى اخروى عزت۷; متقين كى تعظيم ۱; متقين كے فضائل ۱،۲; متقين كے محشور ہونے كى خصوصيات ۹

موحدين:روز قيامت موحدين ۳; موحدين كا ميزبان ۳

آیت ۸۶

( وَنَسُوقُ الْمُجْرِمِينَ إِلَى جَهَنَّمَ وِرْداً )

اور مجرمين كو جہنم كى طرف پياسے جانوروں كى طرح ڈھكيل ديں گے (۸۶)

۱_ مشرك گناہ گاروں كو روز قيامت پياس كى حالت ميں جہنم كى طرف دھكيل ديا جائيگا _ونسوق المجرمين إلى جهنم وردا

''ورد'' كے بتائے گئے معانى ميں سے ايك پياس ہے(لسان العرب) اس آيت ميں ''ورداً'' مشتق كى طرف تاويل ہوتے ہوئے ''مجرمين'' كيلئے حال ہے يعنى مجرمين كو پياس كى حالت ميں جہنم كى طرف دھكيل ديں گے_ بعض اہل لغت و تفسيرنے ''ورد'' سے مراد ايسے گروہ كو قرار ديا ہے كہ جو پانى كے كنارے جارہے ہيں اور اس سے انكى پياس سے كنايہ ليا گيا ہے

۲_ روز قيامت مجرمين كا جہنم كى طرف دھكيلنے كو وقت ذليل و خوار ہونا _ونسوق المجرمين إلى جهنم وردا

اس آيت ميں '' نسوق'' اور '' ورداً'' در اصل گذشتہ آيت ميں ''نحشر'' اور ''وفداً'' كے مد مقابل ہے اس آيت ميں مذكور تعبيرات ،احترام و جلالت سے حكايت كررہيہيں جبكہ اس آيت ميں (اسكے مد مقابل قرينہ اور مجرمين كى پياس كى حالت اور تعبير'' نسوق'' ) انكى روز قيامت ذلت و رسوائي سے حكايت كررہى ہيں _

۳_ جہنم كى طرف ذليل انداز سے مشركين كو دھكيلنا شرك كے بے ثمر اور انكے معبودوں كا انكے منافى ہونے كا ايك نمونہ ہے_و يكونون عليهم ضداً ...يوم نحشر ...و نسوق المجرمين

گذشتہ آيات ميں مشركوں كى شرك آلودہ عبادتوں كے بے ثمر ہونے اور انكے انجام پر اسكے منفى اثرات كے حوالے سے

۷۹۰

گفتگوتھى اس آيت ميں بھى اسى معنى كاايك مصداق بيان كيا گيا ہے خصوصاً اگر''يوم نحشر'' ميں يوم ''يكونون'' كے متعلق ہو_

۴_ روز قيامت مجرمين اور متقين كى وضعيت ميں فرق ظاہر ہونے كادن ہے_يوم نحشر و نسوق المجرمين إلى جهنم وردا

۵_ شرك ،جرم اور مشرك مجرم او ر گناہ گارہيں _واتّخذ و امن دون الله ء الهة ونسوق المجرمين إلى جهنم

چونكہ گذشتہ آيات شرك كے بارے ميں تھيں انكى مناسبت يہ تقاضا كرتى ہے كہ مجرمين سے مراد مشركين ہوں ''يوم نحشر'' ميں لفظ ''يوم'' كا گذشتہ آيات ميں كسى ايك فعل ''سيكفرون '' يا''يكونون'' سے تعلق آيات ميں اس ربط كو بيان كرنے كى سب سے بڑى وجہ ہے _

۶_شرك كرنا اور باطل معبودوں كى عبادت ايك بہت بڑا گناہ اور جہنمى ہونے كا سبب ہے _و نسوق الجرمين إلى جهنم

۷_ متقى لوگ روز قيامت سواروں كى حالت ميں حاضر اور گناہ كار لوگوں پيادہ صورت ميں جہنم كى طرف دھكيلے جائيں گئے_نحشر المتقين ...وفداً و نسوق المجرمين وردا

بعض اہل لغت''وفدا'' سے مراد احترام واكرام والے سوار اور ''ورداً'' سے مراد پياسے پيدل چلنے والے كا معنى كرتے ہيں (لسان العرب)باطل معبود:باطل معبودوں كى دشمنى ۳

بت پرستي:بت پرستى كے بے ثمر ہونے كى نشانياں ۳

جہنم:جہنم كے اسباب۶

شرك:شرك كا گناہ ہونا ۵،۶; شرك كے آثار۶

قيامت:قيامت كى خصوصيات ۴; قيامت ميں حقائق كا ظہور ۴گناہ كبيرہ;۶

گناہ گار لوگ:۵روز قيامت گناہ گار لوگ۴; روز قيامت گناہ گار لوگوں كا پيادہ ہونا۷; گناہ گاروں كى اخروى پياس ۱; گنا ہ گار لوگوں كى اخروى ذلت۲; گنا ہ گار لوگوں كے جہنم ميں داخل ہونے كى كيفيت ۲; گناہ گاروں كے محشور ہونے كى كيفيت۷

متقين:روز قيامت متقين ۴; روز قيامت متقين كى سوارى ۷; متقين كے محشور ہونے كى كيفيت۷

مشركين:مشركين كى اخروى پياس ۱; مشركين كى اخروى ذلت۳; مشركين كے جہنم ميں داخل ہونے كى كيفيت ۱،۳; مشركين كے دشمن۳

۷۹۱

آیت ۸۷

( لَا يَمْلِكُونَ الشَّفَاعَةَ إِلَّا مَنِ اتَّخَذَ عِندَ الرَّحْمَنِ عَهْداً )

اس وقت كوئي شفاعت كا صاحب اختيار نہ ہوگا مگر وہ جس نے رحمان كى بارگاہ ميں شفاعت كا عہد لے ليا ہے (۸۷)

۱_ كوئي بھى روز قيامت بذات خود شفاعت كرنے كا حق اور طاقت نہيں ركھتا_المتقين ...المجرمين ...لا يملكون الشفاعة

''لا يملكون '' كى مرجع ضمير كے بارے مختلف احتمالات ہيں مثلاً يہ كہ ''متقين'' اور ''مجرمين'' (گذشتہ آيات ميں ) دونوں سے مرجع ضمير نكالى جائيگى تو اس صورت ميں مراد تمام لوگ ہوں گے ''الشفاعة'' ميں بھى دو وجہوں كااحتمال ہے: ۱_ شفاعت كرنا اس كے معنيہے (مصدر معلوم) ۲_ شفاعت ہونا يہ مطلب اور بعد والے چند مطالب پہلے معنى كى بناء پر بيان ہوئے ہيں _

۲_مشركين كے خيالى خدا، روز قيامت شفاعت سے عاجز ہيں _واتّخذوا من دون الله ء الهة ...لا يملكون الشفاعة

جيسا كہ بعض مفسرين كہتے ہيں''لا يملكون'' ميں مرجع ضمير گذشتہ آيات ميں بيان شدہ ''ء الہة'' بھى ہوسكتا ہے تو اس صورت ميں وہ شفاعت كا وہم باطل ثابت ہو گا كہ جسكا مشركين اپنے معبودوں سے توقع ركھتے ہيں اس صورت ميں استثناء منقطع اور اسكا مطلب يہ ہوگا _جو الله تعالى كے نزديك كوئي عہد ركھتے ہوں گے وہ شفاعت كى طاقت ركھيں گے_

۳_روز قيامت بعض افراد دوسروں كى شفاعت كا حق ركھيں گے_لا يملكون الشفاعة إلاّ من اتّخذ ...عهدا

''شفاعة'' يعنى اپنے آپ كو كسى كے قريب كرنا تا كہ اسكى مدد كرے يا اسكى جانب سے تقاضوں كو بيان كرے يہ زيادہ تر ان موارد ميں استعمال ہوتا ہے كہ جہاں يہ شخص بلند رتبہ و احترام كا حامل ہو (مفرادت راغب) ''إلاّ من اتّخذ '' كا استثنا ء اگر چہ شفاعت كے عملى ہونے كو نہيں سمجھا رہا ليكن حق شفاعت كے ثبوت پر دلالت كر رہا ہے_

۴_ صرف وہ لوگ روز قيامت حق شفاعت ركھيں گے

۷۹۲

جو الله تعالى كى طرف سے كوئي عہد يا اجازت كے حامل ہونگے_لا يملكون الشفاعة إلاّ من اتّخذ عند الرحمن عهدا

''عہد'' كا ايك معنى ميثاق اور پيمان ہے _اللہ تعالى كے نزديك پيمان لينے سے مرادوہ قانون او ر قرار داد ہے كہ جيسے الله تعالى نے بيان كيا ہے اور اسكا وعدہ دياہے_

۵_ شفاعت قانون كے تحت اور الله تعالى كى نگہبانى ميں چلنے والا ايك نظام ہے _لا يملكون الشفاعة إلاّ من اتّخذ عند الرحمن عهدا

''اتخاذ عہد'' سے مراد يہ ہے كہ شفاعت كرنے والا الله تعالى كى جانب سے پہنچنے والے وعدہ ، حكم يا سنت كہ جو اس تك پہنچى ہے سے تمسك كرے اور اپنے آپ كو حق شفاعت كا حامل سمجھے_

۶_ بعض افراد كو روز قيامت حق شفاعت كى عطا ،اللہ تعالى كى (رحمانيت ) وسيع رحمت كا ايك جلوہ ہے_

لا يملكون الشفاعة إلاّ من اتّخذ عند الرحمن عهدا

۷_ رحمان، الله تعالى كے اسماء اور اوصاف ميں سے ہے_من اتّخذ عندالرحمن عهدا

۸_ كسى اور كيلئے حق شفاعت كاہونا الله تعالى كى مطلق حاكميت كے منافى نہيں ہے_لايملكون الشفاعة إلاّ من اتّخذ عند الرحمن عهدا

۹_ روز قيامت صرف انہيں شفاعت شامل حال ہوگى كہ جنكے بارے الله تعالى كى طرف سے كوئي عہدہوگا_

لا يملكون الشفاعة إلاّ من اتّخذ عند الرحمن عهدا

اس مطلب ميں ''الشفاعة'' بعنوان مصدر مجہول معنى كياگيا ہے_ اس ليے ''لا يملكون الشفاعة'' يعنى شفاعت ہونے كے مالك نہيں ہيں _

۱۰_ شفاعت كے شامل حال لوگوں كيلئے دوسروں كى شفاعت، الله تعالى كى وسيع رحمت كا ايك جلوہ ہے_

إلاّمن اتّخذ عند الرحمن عهدا

۱۱_عن أبى عبدالله ...قيل يا رسول الله (ص) و كيف يوصى الميت عند الموت قال إذا حضرته الوفاة قال: ...الله م إنّى أعهد إليك فى دار الدينا أنّى اشهد أن لإله إلاّ أنت وحدك لا شريك لك وا شهدأنّ محمدً عبدك و رسولك وأنّ الجنّة حق وأنّ النار حق ّ وأنّ البعث حقّ ...وأنّ الدين كما وصفت ...وأنّ القرآن كما ا نزلت ...و اجعل لى عهداً يوم ا لقاك منشورا ...وتصديق هذه الوصية فى القرآن فى السورة التى يذكر فيها مريم(س) فى قوله عزّوجل ''ل

۷۹۳

يملكون الشفاعة إلاّ من اتّخذ عندالرحمن عهداً'' فهذا عهد الميت (۱)

امام صادق(ع) سے روايت ہوئي ہے كہ رسول خدا(ص) سے كہا گيا : انسان مرتے وقت كيسے وصيت كرے؟ آپ(ع) نے فرمايا: جب موت آئے تو كہے: ...اللہ تعالى ميں تيرے ساتھ اس دنيا ميں عہد كرتا ہوں كہ گواہى ديتا ہوں كہ تيرے سوا كوئي معبودنہيں تو واحد ہے اور تيرا كو كى شريك نہيں اور گواہى ديتا ہوں كہ محمد(ص) تيرا بندہ اور رسول(ص) ہے اور يہ كہ جنت حق ہے اور جہنم حق اور محشور ہونا حق ہے ...اور يہ كہ دين اسى طرح ہے كہ جيسے تو نے توصيف كيا تھا اور يہ كہ قرآن اسى طرح ہے كہ جيسے تو نے نازل كيا ...(ميرا يہ اقرار) اس دن كہ جب ميں تجھ سے ملاقات كرونگا ميرے ليے كھلاہواعہد قرار دے ...اور قرآن مجيد ميں اس طرح كى وصيت كے ضرورى ہونے پر گواہ ايك سورہ ہے بنام سورہ مريم (س) كہ اسميں كلام خدا يوں ذكر ہوئي ہے كہ''لا يملكون الشفاعة إلاّ من اتّخذ عند الرحمن عهداً '' يہ عہد وہى ميّت كا عہد ہے_

اسماء وصفات:رحمان۷

الله تعالى :الله تعالى كى حاكميت۸; الله تعالى كى رحمانيت كى نشانياں ۶،۱۰; الله تعالى كى نگہبانى ۵; الله تعالى كے اذن كے آثار۴; الله تعالى كے عہد كے آثار ۹

انسان:الله تعالى كے اختيارات كا دائرہ كار۱

باطل معبود:باطل معبودوں كى شفاعت۲;روز قيامت باطل معبود ۲

روايت:۱۱

شفاعت:شفاعت كا قانون كے مطابق ہونا ۵; شفاعت كے اثرات ۱۰; شفاعت كے شامل حال افراد۹; شفاعت ميں اجازت ۴;غير خدا كى شفاعت۸

شفاعت كرنے والے:روز قيامت شفاعت كرنے والے۳،۴

عہد:الله تعالى كے ساتھ عہد ۱۱

قيامت:قيامت ميں شفاعت۱،۶،۹; قيامت ميں شفاعت كى شرائط۴

____________________

۱)كافى ج۷،ص۲، ح۱، نورالثقلين ،ج۳ ،۳۶۱، ح۱۵۷_

۷۹۴

آیت ۸۸

( وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمَنُ وَلَداً )

اور يہ لوگ كہتے ہيں كہ رحمان نے كسى كو اپنا فرزندبناليا ہے (۸۸)

۱_ زمانہ بعثت كے مشركين كى الله تعالى كى طرف ايك غلط نسبت ،اسكا بيٹا انتخاب كرنا ہے_وقالوا اتّخذ الرحمن ولدا

فعل'' اتخذا '' اس چيز كو بيان كررہا ہے كہ يہ بات كہنے والوں كا عقيدہ تھا كہ الله تعالى نے كسى ايك مخلوق كو بعنوان فرزند انتخاب كيا ہے نہ كہ اس سے بيٹا پيدا ہوا ہے_

۲_ بعثت كے زمانہ كے لوگوں كى الله تعالى كے بارے معرفت بہت كم اور ناقص تھى _وقالوا اتخذ الرحمن ولدا

۳_ الله تعالى كے اسماء وصفات ميں سے ايك رحمان ہے_وقالوا اتّخذ الرحمن ولدا

۴_ زمانہ بعثت كے مشركين ،اللہ تعالى كى رحمانيت كاا عتراف كرتے تھے_وقالوا اتّخذ الرحمن ولدا

۵_ الله تعالى كى رحمانيت كو قبول كرتے ہوئے اسكى طرف فرزند انتخاب كرنے كى نسبت، ايك حيرت انگيز عقيدہ ہے جو دو متضاد فكروں پر مشتمل ہے_وقالوا اتخذ الرحمن ولدا

اس آيت سے مقصود ،مشركين كے افكار كى حكايت نہيں ہے بلكہ اس فكر و عقيدہ كے جملات و الفاظ كى عدم مطابقت ہے كہ ديكھيں وہ كياكہہ رہے ہيں ؟ رحمان اور فرزند كا انتخاب ؟ يہ ممكن نہيں ہے_

اسماء وصفات:رحمان۳

افتراء :الله تعالى پر افتراء با ندھنا۱

اقرار:الله تعالى كى رحمانيت كا اقرار ۴

الله تعالى :

۷۹۵

الله تعالى كى رحمانيت كو قبول كرنا۵; الله تعالى كى طرف فرزند كى نسبت ۱; الله تعالى كى طرف فرزند كى نسبت كا حيرت انگيز ہونا۵; الله تعالى كى ناقص معرفت۲

جاہليت:دور جاہليت كے مشركين كا افترء ۱; دور جاہليت كے مشركين كا اقرا ر ۴

لوگ:زمانہ بعثت كے لوگوں كى الله تعالى كے بارے معرفت۲

آیت ۸۹

( لَقَدْ جِئْتُمْ شَيْئاً إِدّاً )

يقينا تم لوگوں نے بڑى سخت بات كہى ہے (۸۹)

۱_ الله تعالى كى طرف فرزند كے انتخاب كى نسبت ايك غلط اور عجيب نسبت ہے_اتّخذ الرحمن ولداً _ لقد جئتم شيئاً إدا

''إدّا'' كا معنى ايك عجيب اور نہايت غلط چيز ہے_

۲_اللہ تعالى كے فرزند انتخاب كرنے كا گمان مشركين كا من گھڑت خيال تھا_لقد جئتم شيئاً إ دا

فعل'' جئتم '' مشركين كو خطاب ہے يعنى الله تعالى كا فرزند انتخاب كرنا ايسى بات ہے كہ تم نے اسے گھڑا ہے ورنہ اسكى كوئي اساس نہيں ہے_

۳_ الله تعالى كے بارے ميں غلط باتوں اور فرزند انتخاب كرنے كى نسبت سے پرہيز كا ضرورى ہونا_

الله تعالي:الله تعالى كى طرف فرزند كى نسبت ۲; الله تعالى كى طرف فرزند كى نسبت سے پرہيز۳; الله تعالى كى طرف فرزند كى نسبت كا عجيب ہونا ۱; الله تعالى كى طرف فرزند كى نسبت كا ناپسنديدہ ہونا ۱

جھوٹ باندھنا :الله تعالى كى طرف جھوٹ باندھنے سے پرہيز۳

مشركين:مشركين كے جھوٹ باندھنے۲

۷۹۶

آیت ۹۰

( تَكَادُ السَّمَاوَاتُ يَتَفَطَّرْنَ مِنْهُ وَتَنشَقُّ الْأَرْضُ وَتَخِرُّ الْجِبَالُ هَدّاً )

قريب ہے كہ اس سے آسمان پھٹ پڑے اور زمين شگافتہ ہوجائے اور پہاڑ ٹكڑے ٹكڑے ہوكر گر پڑيں (۹۰)

۱_ الله تعالى كى طرف فرزند انتخاب كرنے كى نسبت اس قدر غلط اور قبيح ہے كہ جہان خلقت اسے برداشت كرنے كى تاب نہيں ركھتا_وقالوا ...تكاد السموات يتفطّرن منه و تنشقّ الأرض وتخّر الجبال هدّا

''تفطّر'' كى اصل '' فطر ہے جس كا معنى شگافتہ كرنا لمبائي ميں اور ''انشقاق '' كا معنى دراڑيں اور سوراخ پيدا ہونا ہے_ نيز''تخرّ '' كا مصدر ''خرّ''كا معنى آواز كے ساتھ كسى چيز كا گرنا ہے (مفردات راغب) ''ہداً'' كا معنى ٹوٹنا اور مٹى كے ساتھ يكساں كرناہے (لسان العرب) يہ مصدر كا لفظ ہے كہ جو اسم مفعول ''مہدودة'' كے معنى ميں استعمال ہوا ہے اور ''الجبال'' كيلئے حال ہے كائنات كى عظيم چيزوں كے بارے ميں بيان كرنا اس چيز پر تاكيد كہ الله تعالى كيلئے فرزند كے انتخاب كينسبت پورى كا ئنات كيلئے قابل تحمل نہيں ہے_

۲_ آسمانوں كا پھٹنا ،زمين كا ٹكڑوں ميں بٹنا اور پہاڑوں كا گرجانا، الله تعالى كے ليے فرزندكے انتخاب كے باطل دعوى كے مقابل ايك بجا سا امر ہے_تكادالسموات يتفطّرن منه و تنشق الا رض و تخّر الجبال هدا

فعل ''تكاد ''كسى چيز كے وقوع قريب پر دلالت كرتا ہے در اصل ''لا ئق ہونے '' كے مجازى معنى ميں استعمال ہو ا ہے اور امكان ہے كہ يہ مراد ہو كہ الله تعالى كے قدسى مقام كے ساتھ يہ بات كرنا ايسے ہى سے كہ كائنات كے ستونوں سے كوئي چيز ٹكراكريہ چيز تباہ ہوگئي ہو اور الله تعالى اس بات سے اس حد تك غضبناك ہے كہ اب يہ حق بنتا ہے كہ وہ آسمانوں اور زمين كو اپنى جگہ نہ رہنے دے اور سب كو تباہ و بر باد اور پہاڑوں كو گرادے_

۳_ آسمان بہت سے اورقابل شگافتہ ہيں _

۷۹۷

تكاد السموات يتفطّرن منه

آيت كا مضمون ايك ''استعارہ'' ہے كہ اگر چہ ايسے مواقع پر حقيقى معانى مراد نہيں ہيں ليكن احتمال ہے كہ حقيقى معانى كو ملحوظ خاطر ركھا گيا ہے_

آسمان:آسمانوں كا پھٹنا ۲،۳; آسمانوں كا زيادہ ہونا۳

الله تعالى :الله تعالى كى طرف فرزند كى نسبت كا ناپسنديدہ ہونا ۱; الله تعالى كى طرف فرزند كى نسبت كے آثار۲

پہاڑ:پہاڑوں كاگرنا۲

جھوٹ باندھنا:الله تعالى پر جھوٹ باندھنا۱

زمين:زمين كا پھٹنا۲

آیت ۹۱

( أَن دَعَوْا لِلرَّحْمَنِ وَلَداً )

كہ ان لوگوں نے رحمان كے لئے بيٹا قرار ديديا ہے (۹۱)

۱_ الله تعالى كى طرف فرزند كے انتخاب كى نسبت ايك نہايت غلط اور كائنات كيلئے دشوار بات ہے_

تكاد السموات يتفطّرن منه ...أن دعوا للرحمن

''دعوا'' كا معنى ''جعلوا'' ہے ''لسان العرب'' '' ان دعوا'' (گذشتہ آيت ميں ) ''منہ '' كى ضمير كو بيان كر رہا ہے_

۲_اللہ تعالى اپنى تمام تر حقيقت كے ساتھ فرزند ركھنے سے منزہ ہے_تكاد السموات يتفطّرن ...أن دعوا للرحمن ولدا

۳_ لفظ''رحمان'' الله تعالى كے اسماء اور اوصاف ميں سے ہے اور زمانہ بعثت كے لوگوں ميں جانا پہچانا تھا_

أن دعوا الرحمن ولدا

۴_ الله تعالى كا فرزند ركھنا اسكى وسيع رحمت اور تمام مخلوقات كے شامل حال ہونے كے ساتھ سازگار نہيں ہے_

أن دعوا للرحمن ولدا عبارت''أن دعوا '' كے ضمن ميں صفت ''رحمان'' (رحمت كے وسيع اور عام ہونے) كا انتخاب اس گمان كہ رد ہونے كى دليل ہے كيونكہ تمام مخلوقات حتّى كہ ان خيالى فرزندوں كو بھى الہى رحمت شامل ہے لہذا ان ميں سے كوئي بھى اس رحمت كے خالق سے سازگارى نہيں ركھتا كہ اسكا فرزند يا اسكى مانند شمار ہو_

۷۹۸

اسماء وصفات:رحمان ۳; صفات جلال ۲،۴

الله تعالى :الله تعالى اور فرزند ۲،۴; الله تعالى كى رحمانيت ۴; الله تعالى كى طرف فرزند كى نسبت كا ناپسنديدہ ہونا۱

جھوٹ باندھنا:الله تعالى كى طرف جھوٹ باند ھنا۱

خلقت:خلقت اور الله تعالى كا منزہ ہونا۲

لوگ:زمانہ بعثت كے لوگوں كى الہى معرفت۳

آیت ۹۲

( وَمَا يَنبَغِي لِلرَّحْمَنِ أَن يَتَّخِذَ وَلَداً )

جب كہ يہ رحمان كے شايان شان نہيں ہے كہ وہ كسى كو اپنا بيٹا بنائے (۹۲)

۱_ الله تعالى كا فرزند انتخاب كرناايك ناممكن اور پروردگار كى شان كے خلاف كام ہے_و ما ينبغى للرحمن ...ولدا

لفظ''انبغي'' اس وقت استعمال كيا جاتا ہے كہ جب كسى كام كيلئے راستہ ہموار ہو (قاموس) اور ''ما ينبغي'' اس كام كے امكان كى نفى كرتا ہے_

۲_مشركين كے ايك گروہ كے خيال ميں الله تعالى نے اپنى بعض مخلوقات كو اپنے فرزند قرار ديا ہے_أن يتخذ ولدا

اس آيت اور گذشتہ آيت ميں ''اتخاذ'' كى تعبير سے ايسا معلوم ہوتا ہے كہ الله تعالى كے فرزند انتخاب كرنے كے معتقد لوگوں كا گمان فقط يہ تھا كہ اس نے مخلوقات ميں سے كسى كو اپنا فرزند ہونے كا عنوان عطا كيا ہے نہ كہ وہ اس سے بيٹے كى ولادت كے قائل ہيں _

۳_ تمام مخلوقات ،الہى نعمت و رحمت كى مرہوں منت ہيں وہ ہرگز الوہيت كے درجہ ميں قرار نہيں پاسكتيں كہ اسكا فرزند شمار ہوں _وما ينبغى للرحمن أن يتخذ ولدا

اس آيت ميں ''رحمان '' كے نام كا ذكر در اصل الله تعالى كے فرزند انتخاب كرنے كے گمان كے باطل ہونے پر ايك دليل كى طرح ہے_ اس دليل كى ايك صورت يہ ہے كہ الله تعالى كا مخلوقات سے رابطہ رحمت عطا كرنے والا اور رحمت كے شامل حال والا ہے رحمت كے شامل حال كبھى بھى رحمت عطا كرنے والے كے ربتہ ميں قرار نہيں پا سكتا لہذا نتيجہ يہ نكلاكہ عنوان ''ولد'' كہ جو اپنے والد كے ہم جنس ہوتا ہے يہ عنوان يہاں الوہيت كى شان ركھنے والا نہيں ہے_

۷۹۹

۴_ فرزند كا انتخا ب نقص كى علامت ہے اور الله تعالى اس سے منزّہ ہے_وما ينبغى للرحمن أن يتخذ ولدا

فرزند كا انتخاب، رحمت كے وسيع ہونے كے ساتھ سازگار نہيں ہے كيونكہ الله تعالى كا فرزند (نعوذباللہ) اسكے ہم جنس ہوتا اور الوہيت ميں اس كى مانند ہوتا تو نتيجہ ميں اسكى رحمت كا محتاج نہ ہوتا كيونكہ اسكا لازمہ يہ ہے كہ الله تعالى كى رحمت وسيع نہ ہوتى اور يہ نقص ہے_

۵_ رحمان، الله تعالى كے اسماء اور اوصاف ميں سے ہے_وما ينبغى للرحمن

اسماء وصفات:رحمان۵; صفات جلال۱،۴

الله تعالي:الله تعالى اور فرزند۱،۲; الله تعالى اور نقص۴; الله تعالى كا منزہ ہونا۴; الله تعالى كى شان۱

الوہيت :الوہيت كى شرائط۳

رحمت :رحمت كے شامل حال لوگوں كى الوہيت۳

فرزند ركھنا :فرزند ركھنے كے آثار۴

مخلوقات:مخلوقات كا عجز۳

مشركين:مشركين كا عقيدہ۲

نقص:نقص كى علامتيں ۴

آیت ۹۳

( إِن كُلُّ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمَنِ عَبْداً )

زمين و آسمان ميں كوئي ايسا نہيں ہے جو اس كى بارگاہ ميں بندہ بن كر حاضر ہونے والا نہ ہو (۹۳)

۱_آسمانوں اور زمين كى تمام باشعور مخلوقات، الله تعالى كى عبد اور مملوك ہيں _أن يتّخذ ولداً _ إن كلّ من فى السموات ء اتى الرحمن عبد ''آتي'' اسم فاعل ہے اور اسميں زمانے كا لحاظ نہيں كيا گيا ہے''ايتان'' سے اسكا مجازى معنى مراد ہے اس آيت سے مقصود يہ ہے كہ كائنات كى مخلوقات الله تعالى كے مقابل عبوديت كے علاوہ كچھ

۸۰۰

801

802

803

804

805

806

807

808

809

810

811

812

813

814

815

816

817

818

819

820

821

822

823

824

825

826

827

828

829

830

831

832

833

834

835

836

837

838

839

840

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863

864

865

866

867

868

869

870

871

872

873

874

875

876

877

878

879

880

881

882

883

884

885

886

887

888

889

890

891

892

893

894

895

896

897

898

899

900

901

902

903

904

905

906

907

908

909

910

911

912

913

914

915

916

917

918

919

920

921

922

923

924

925

926

927

928

929

930

931

932

933

934

935

936

937

938

939

940

941

942

943

944

945