تفسير راہنما جلد ۱۰

تفسير راہنما 4%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 945

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 945 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 254029 / ڈاؤنلوڈ: 3517
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱۰

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

آنحضرت (ص) :آنحضرت (ص) كا انفاق ۱۲;آنحضرت (ص) كى ذمہ دارى ۴

استعمال :استعمال كے آداب ۱،;استعمال ميں اعتدال ۱

اعتدال :اعتدال كى اہميت ۱

افراط وتفريط :افراط وتفريط سے اجتناب كى اہميت ۷

انسان :انسان كى ذمہ دارى ۸،انسان كى طبيعت۹

انفاق :انفاق كے آداب ۱، ۴; انفاق ميں اعتدال ۱، ۴;انفاق كى روش ۱۲;انفاق ميں افراط كے نتائج ۵،۶

اہم ومہم : ۵

بخل:بخل سے اجتناب ۲;بخل كے نتائج ۶

حسرت:حسرت كے اسباب ۶;حسرت كا پيش خيمہ ۸; حسرت كا پسند ہونا ۹

دورانديشي:دورانديشى كى اہميت ۱۱

ذكر:ناپسنديدہ عمل كے انجام كے ذكر كے نتائج ۱۰

رشتہ دار:رشتہ دار كے حقوق كى ادائيگى ۲

روايت : ۱۲، ۱۳، ۱۴

زندگي:زندگى ميں تدبير كى اہميت ۱۱

عمل :ناپسنديدہ عمل سے اجتناب ۸;ناپسنديدہ عمل ۷; ناپسنديدہ عمل كے موانع ۱۰

فقرائ:فقراء كے حقوق كى ادائيگى ۲

قرانى تشبيہات :بخيل لوگوں كى تشبيہ ۳;گردن سے ہاتھ بندھے لوگوں كى تشبيہ ۳

مؤمنين :مؤمنين كى ذمہ دارى ۱، ۲

محسور:محسور كامفہوم ۱۳، ۱۴

معاش:معاش كو پورا كرنے ميں اعتدال كى اہميت۷

۸۱

آیت ۳۰

( إِنَّ رَبَّكَ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَن يَشَاءُ وَيَقْدِرُ إِنَّهُ كَانَ بِعِبَادِهِ خَبِيراً بَصِيراً )

تمہارا پروردگار جس كے لئے چاہتاہے رزق كو وسيع يا تنگ بنا ديتاہے وہ اپنے بندوں كے حالات كو خوب جاننے والا اور ديكھنے والا ہے(۳۰)

۱_انسانوں كے رزق ميں كمى وبيشى فقط پروردگار كى مرضى ومنشاء پر موقوف ہے_إنّ ربّك يبسط الرزق لمن يشاء ويقدر

''يقدر'' سے مراد اگر چہ اندازہ ہے ليكن قرينہ ''يبسط'' (وسعت ديتا ہے) كى وجہ سے اس كا معنى كم كرنا، ہے _

۲_انسانوں كے لئے الہى رزق اس كى ربوبيت اور خدائي كاجلوہ ہے _إنّ ربّك يبسط الرزق

۳_لوگوں كے لئے روزى ميں فرق،پروردگار كى ربوبيت كا تقاضا ہے _إنّ ربك يبسط الرزق لمن يشاء ويقدر

۴_انسانوں ميں روزى كا فرق انكى پرورش اور ترقى كے حوالے سے ايك الہى تدبير ہے_إنّ ربّك يبسط الرزق لمن يشاء ويقدر ''يبسط'' اور ''يقدر'' كے حوالے سے ربوبيت

الہى كى تاكيد سے معلوم ہوتا ہے كہ اس كمى وبيشى كا سرچشمہ اس كى ربوبيت ہے (تاكہ زندگى كى گاڑى چلے اور تمام انسان اسى فرق كے حوالے سے امتحان ديں اور ترقى كريں )

۵_انسانوں كى اپنى روزى ميں الله تعالى كى مشيت اور تقدير كے كردار پر توجہ اپنے مال ومتاع سے انفاق ميں افراط اور بخل كے اجتناب كا موجب بنى ہے_ولاتجعل يدك مغلولة إلى عنقك إنّ ربك يسبط الرزق لمن يشائ

جملہ ''إنّ ربّك '' در اصل جملہ''ولا تجعل يدك ...'' كى علت بيان كر رہا ہے تو اس صورت ميں آيت كا مفہوم يہ ہوگا_ الله تعالى روزى دينے والا ہے _ لہذافقر كے خوف سے بخل كيا جائے اور نہ انفاق سے دورى كى جائے_

۶_الله تعالى اپنے بندوں كے حالات سے مكمل طور پر آگاہ ہے اور ہر حوالے سے آگاہى ركھتا ہے_

إنّه كان بعباده خبيراً بصيرا

۸۲

۷_انسانوں كى روزى ميں فرق الله تعالى كى انسانوں كے بارے ميں گہرى آگاہى كى بناء پر ہے _

يبسط الرزق و يقدر إنه كان بعباده خبيراً بصيرا

۸_الله تعالى كى مشيت كا دارومدار علم وآگاہى كى بنياد پر ہے _يبسط الرزق لمن يشاء ويقدر إنه كان بعباده خبيراً بصيرا

اسماء وصفات :بصير ۶; خبير ۶

الله تعالى :الله تعالى كى تقديريں ۳;اللہ تعالى كا علم ۷ ، ۸; الله تعالى كا علم غيب ۶;اللہ تعالى كى ربوبيت كى علامتيں ۲;اللہ تعالى كى مشيت كا قانون كے مطابق ہونا ۸; الله تعالى كى تقديروں كا كردار ۱، ۵;اللہ تعالى كى مشيت كا كردار ۵;اللہ تعالى كى ربوبيت كے نتائج ۳، ۴; الله تعالى كى مشيت كےنتائج ۱

انسان :انسانوں كى روزى اور تقدير ۵;انسانوں كى روزى ۲، ۳، ۴، ۷;انسانوں كى روزى ميں اختلاف كا قانون كے مطابق ہونا ۷

انفاق :انفاق ميں افراط سے بچنے كا پيش خيمہ ۵

بخل:بخل سے بچنے كا پيش خيمہ ۵

ذكر:الله تعالى كى ربوبيت كا ذكر كرنے كے نتائج۵;روزى كے سرچشمہ ى ذكر ۵

روزي:روزى ميں اختلاف كا فلسفہ ۴;روزى ميں اضافہ كا منشاء ۱;روزى ميں اختلاف كا منشاء ۳;روزى ميں نقصان كا منشاء ۱

كمال:كمال كا پيش خيمہ ۴

۸۳

آیت ۳۱

( تَقْتُلُواْ أَوْلادَكُمْ خَشْيَةَ إِمْلاقٍ نَّحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَإِيَّاكُم إنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْءاً كَبِيراً )

اور خبر دار اپنى اولاد كو فاقہ كے خوف سے قتل نہ كرنا كہ ہم انہيں بھى رزق ديتے ہيں اور تمہيں بھى رزق ديتے ہيں بيشك ان كا قتل كردينا بہت بڑا گناہ ہے(۳۱)

۱_اولاد كو فقر اور تنگدستى كے خوف سے قتل كرنا ممنوع اور حرام ہے_ولا تقتلوا أولادكم خشية إملاق:

۲_فقر اور نادارى كا خوف جاہل عربوں كے ہاتھوں اپنى اولاد كے قتل كرنے كا موجب بنا _ولا تقتلوا أولاد كم خشية أملاق

۳_فقر اور تنگدستى انسان كے ضمير كو كمزور كرنے ميں اور اولاد سے محبت كرنے جيسے قوى ترين احساسات كو ختم كرنے ميں تاثير گذارہے _ولا تقتلوا أولاد كم خشية إملاق

۴_اس بناء پر بچوں كن نقل كرنا كہ ان كى وجہ سے كس تنگدستى ميں نہ گھر جائيں ممنوع ،حرام اور برے نتائج كا حامل ہے _

مندرجہ بالا مطلب كى بناء يہ ہے كہ ''املاق'' سے مراد ماں باپ كا اپنے اور بچوں كے بارے ميں فقر كا خوف ہے_

۵_فقر اور تنگدستى كا خوف، اولاد كے قتل كا جواز فراہم نہيں كرتا _ولا تقتلوا أولادكم خشية إملاق

۶_ضرر اور نقصان كے محض خوف كى بناء پر اس سے بچنے كے لئے گناہ اور برائي جائز نہيں ہوتى _

ولا تقتلوا أولادكم خشية إملاق

۷_تمام انسانوں (والدين اور انكے بچوں ) كى روزى كا ضامن الله تعالى ہے _نحن نرزقهم وايّاكم _

۸_الله تعالى كى طرف سے تمام لوگوں كى روزى كى ضمانت كى طرف توجہ ،اپنے يا بچوں كے مستقبل ميں فقر كے خوف سے مانع ہے _ولا تقتلوا أولادكم خشية إملاق نحن نرزقهم وإيّاكم

۹_والدين خود كو اولاد كا رازق تصور نہ كريں _نحن نرزقهم وإيّاكم

فقر كے خوف سے بچوں كے قتل سے پرہيز كا حكم اور يہ اعلان كہ الله تعالى والدين اور بچوں كو روزى دينے والا ہے _ يہ دونوں چيزيں مندرجہ بالا مطلب كو واضح كررہى ہيں _

۸۴

۱۰_بچوں كا ہونا فقر اور تنگدستى كا موجب نہيں ہے_ولا تقتلوا ا ولادكم خشية أملاق نحن نرزقهم وايّاكم

آيت سے معلوم ہوتا ہے كہ ہر انسان كى اپنى روزى ہے ايسا نہيں ہے كہ ايك كے آنے سے دوسرے كى روزى كم پڑجائے _ لہذا اگر فقر ہے تو اس كے كچھ اور كوئي اور اسباب ہيں نہ كہ بچوں كا وجود _

۱۱_توحيد كے عقيدے ميں بشريت كى آيندہ مادى زندگى اور اقتصادى حوالے سے پريشانى اور اضطراب كى كوئي گنجائش نہيں ہے_ولاتقتلوا نحن نرزقهم وايّاكم

يہ كہ الله تعالى بچوں كے فقر كے خوف سے قتل كو ممنوع كرنے كے بعد تمام انسانوں كى روزى كى اپنى طرف سے ضمانت ديتا ہے _ اس سے معلوم ہوتا ہے كہ مستقبل ميں اقتصادى وضعيت كے حوالے سے پريشانى كى ضرورت نہيں ہے _

۱۲_بچوں كا قتل بہت بڑى خطا اور جنايت ہے كہ اسے تمام زمانوں ميں اور گزشتہ صديوں ميں مذموم جاناگيا ہے_

إن قتلهم كان خطئاً كبيرا

''خطئاً'' كا لغوى معنى ''اصلى اور حقيقى جہت سے پھرنا'' ہے اور يہ كلمہ وہاں استعمال ہوتا ہے جب كوئي شخص غلط كام كرنے پر ارادہ كرلے اور اسے انجام دے _ (مفردات راغب)

۱۳_عن أبى جعفر قال بعث الله محمداً(ص) و ا نزل عليه فى سورة بنى إسرائيل بمكة وا نزل نهياً عن ا شياء حذر عليها ولم يغلظ فيها ولم يتواعد عليها وقال: ''ولا تقتلوا ا ولادكم خشية إملاق نحن نرزقهم وإيّاكم إن قتلهم كان خطئاً كبيراً (۱)

امام محمد باقر(ع) سے روايت ہوئي كہ آپ (ع) نے فرمايا : الله تعالى نے حضرت محمد(ص) كو مبعوث فرمايا ان پر مكہ ميں سورہ بنى إسرائيل كى آيات نازل فرمائيں كہ (ان آيات ميں ) ايسى چيزوں سے منع فرمايا كہ جن سے پرہيز كرنا لازم ہے _ ليكن اس منع كرنے ميں سختى اور شدت نہيں ہے اور نہ ان كے ارتكاب پر وعدہ عذاب ديا گيا ہے_ فرمايا ہے كہ''ولا تقتلوا أولادكم خشية إملاق نحن نرزقهم وإيّاكم إن قتلهم كان خطائً كبيراً'' _

احساسات :احساسات كو ضعيف كرنے والے اسباب ۳احكام: ۱، ۴، ۵

اقتصاد :مستقبل كے اقتصاد كے بارے ميں پريشانى ۱۱

____________________

۱) كافى ج ۲، ص ۳۰، ح ۱_بحارالانوار ج۶۶، ص ۸۷ ، ح ۳۰_

۸۵

الله تعالى :الله تعالى كى رازقيت ۷;اللہ تعالى ممنوعات ۱۳

ايمان :توحيد كے ساتھ ايمان كے نتائج ۱۱

تعلقات :فرزند كے ساتھ تعلق ۳

جاہليت :جاہليت ميں بچوں كا قتل ۲;جاہليت كى رسوم ۲

خوف:فقر سے خوف ۵ ;نقصان سے خوف ;فقر سے خوف كے موانع ۸;خوف كے نتائج ۶;فقر سے خوف كے نتائج ۶، ۲

ذكر:روزى كى ضمانت كے ذكر كے نتائج ۸

روايت : ۱۳/روزي:روزى كا ضامن ۷

فرزند:فرزند كا كردار ۱۰;فرزند كى روزى كا سرچشمہ ۹فرزند كا قتل :فرزند كے قتل كا جرم ۱۲;فرزند كے قتل كى حرمت ۱،۴;فرزند كے قتل پر سرزنش ۱۲ ; تاريخ ميں فرزند كا قتل ۱۲;فقر ميں فرزند كا قتل ۱، ۴، ۵; فرزند كے قتل سے نہى ۱۳

فقر:فقر كے اسباب ۱۰ ;فقر كے نتائج ۳، ۵

قتل :قتل كے احكام ۱، ۴، ۵

گناہ كبيرہ :۱۲ممنوعات :۱، ۴

نقصان:نقصان سے بچنا ۶

والدين :والدين كى ذمہ دارى ۹

وجدان :وجدان كو كمزور كرنے كے اسباب ۳

آیت ۳۲

( وَلاَ تَقْرَبُواْ الزِّنَى إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَسَاء سَبِيلاً )

اور ديكھو زنا كے قريب بھى نہ جانا كہ يہ بدكارى ہے اور بہت برا راستہ ہے (۳۲)

۱_زنا ممنوع اور حرام ہے _ولا تقربوا الزّنى

۲_ہر وہ كام كہ جوانسان كو زنا كے قريب لے جاتا ہے اس سے بچنا لازم اور واجب ہے_ولا تقربوالزّنى

يہ كہ الله تعالى نے ''لا تزنوا'' (يعنى زنا نہ كريں ) كى جگہ فرمايا ہے:''لا تقربوا الزّني'' (زنا ے قريب نہ ہوں ) ہوسكتا ہے اس نكتہ

۸۶

كى طرف توجہ دلا رہا ہو نہ كہ صرف عمل زنا ممنوع ہے بلكہ ہر وہ عمل جو زنا پر ختم ہوچونكہ وہ بدكارى كى طرف لے جانے والا عمل ہے اس سے پرہيز كرنا چاہئے_

۳_فحاشى ،بہت قبيح اور برے انجام والے گناہوں ميں مبتلاء كرنے والے عمل سے انسان كا اجتناب _

ولاتقربوا الزّنى إنه كان فاحشة وساء سبيلا

جملہ ''إنہ كان فاحشة و ...'' جملہ ''لا تقربوا'' كى علت بيان كر رہا ہے يعنى چونكہ زنا فحاشى اور برے انجام والا عمل ہے اسى ليے اس سے بچنا ضرورى ہے _ لہذا ہر فحاشى اور وہ گناہ كہ جس كا انجام برا ہو اس سے پرہيز كرناچايئے

۴_اپنے جنسى جذبات كى تسكين كے لئے زنا انتہائي قبيح وپليد عمل ہے اور باطل راستہ ہے _إنه كان فاحشة وساء سبيلا

''فاحشة'' اس بات اور عمل كو كہتے ہيں كہ جسكى قباحت بہت زيادہ ہو _(مفردات راغب)_

۵_اسلام سے قبل زمانہ جاہليت ميں عربوں ميں زنا معمول كے مطابق رائج عمل تھا _

ولا تقربوا الزّنى إنه كان فاحشة وساء سبيلا

۶_پورى تاريخ ميں انسانوں كے ضمير ميں زنا كى قباحت وپليدگى موجود ہے _إنه كان فاحشة وساء سبيلا

جملہ اسميہ ''انہ كان فاحشة وساء سبيلاً''سے ہميشہ اور ثابت رہنے والے معنى پر دلالت ہو رہى ہے اور ساتھ يہ الہى نہى''لاتقربوا الزّني'' كے لئے بھى علت ہے _اس علت سے لا تقربوا كے عمل كے ليے لوگوں كو ابھارنا ہے اور يہ بات اس وقت مؤثر ہے جب لوگ بذات خود زنا كى قباحت كو سمجھيں اور علت كا اطلاق يہ واضع كر رہا ہے كہ زنا لوگوں كے درميان قبيح تھا

۷_زنا جيسے غير مناسب عمل كا فرد ومعاشرہ كے لئے برا اور ناگوار انجام _وساء سبيلا

برى راہوں ميں سے ايك راہ ايسى ہے كہ جو برے انجام پر ختم ہوتى ہے _ لہذا ''ساء سبيلا'' اس معنى كو بيان كررہا ہے كہ زنا ،نہ فقط فحش عمل ہے بلكہ ايسا برا راستہ ہے كہ جس كا انجام فرد ومعاشرہ كے لئے بھى برا ہے_

۸_دين كے محرمات اور ممنوعات كى بنياد يہ ہے كہ انسان سے مفاسد كو دور كياجائے _إنه كان فاحشة وساء سبيلا

حرام شدہ عمل كى علتيں اور مفاسد بيان كرنا اس نكتہ كو واضح كر رہے ہيں كہ الله تعالى كے ممنوعات اور محرمات مفاسد كے تابع ہيں _

۹_زنا كى بدى اور قباحت اور جنسى خواہشات كو مٹانے كے لئے اس كا ايك برا طريقہ ہونا اس كى حرمت كا ملاك ہے _

۸۷

ولا تقربوا الزّنى إنه كا فاحشة وساء سبيلا

جملہ ''إنہ كان فاحشة وساء سبيلا'' نہى كے لئے علت كى مانند ہے اور ممكن ہے مندرجہ بالا مطلب واضح كرے _

۱۰_ناپسنديدہ عمل كے برے اثرات سے آگاہ كرنا اور اس سے دوررہنے يعنى جدائي كى نہى كرنا قرآن كى تبليغى وہدايتى روشوں ميں سے ايك روش ہے_ولا تقربوا الزّنى إنه كان فاحشة وساء سبيلا

۱۱_عن ا بى جعفر (ع) ، قال: بعث الله محمداً(ص) و ا نزل عليه فى سورة بنى إسرائيل بمكة وا نزل نهياً عن اشياء حذر عليها ولم يغلظ فيها ولم يتواعد عليها وقال: ''ولا تقربوا الزنا انه كان فاحشة وساء سبيلاً ...'' (۱)

امام باقر (ع) سے روايت ہوئي كہ آپ (ع) نے فرمايا: الله تعالى نے حضرت محمد(ص) كو مبعوث فرمايا اور ان پر سورہ بنى إسرائيل كى آيات مكہ ميں نازل كيں ...(كہ ان آيات ميں )ايسى چيزيں ہيں كہ جن سے پرہيز لازم ہے_ ليكن ان ممنوعات ميں سختى وشدت نہيں ہے اوران كے ارتكاب پر عذاب كا وعدہ نہيں كيااور فرمايا:''ولا تقربوا الزنا إنه كان فاحشة وساء سبيلاً'' _

۱۲_عن ا بى جعفر (ع) فى قوله :''ولا تقربوا الزنا إنه كان فاحشة '' يقول : معصية ومقتاً فإن الله يمقته ويبغضه قال: وساء سبيلاً هو أشدالناس عذاباً والزنا من ا كبر الكبائر (۲)

امام باقر (ع) اس آيت''ولا تقربوا الزنا انه كان فاحشة '' كے بارے ميں فرماتے ہيں كہ الله تعالى فرما رہا ہے : ''زنا''گناہ اور نفرت انگيز ہے'' كيونكہ بہت زيادہ الله تعالى اس سے اظہار نفرت وغضب كرتا ہے( اور اس آيت ) ''ساء سبيلا'' كے بارے ميں فرماتا ہے:زنا كار كا عذاب سب سے زيادہ شديد ہے اور سب سے بڑے گناہوں ميں سے ہے_

احكام:احكام ۱، ۲احكام كا فلسفہ :۸، ۹

الله تعالى :الله تعالى كے ممنوعات ۱۱

انسان :انسان كى فطرت ۶/تبليغ:تبليغ كى روش ۱۰/جاہليت :جاہليت كى رسوم ۵;جاہليت ميں زنا ۵

جنسى انحراف :جنسى انحراف كے موارد ۴، ۹جنسى خواہشات:

____________________

۱) كافى ج۲، ص ۳۰، ح ۱_ بحارالانوار ج ۶۶، ص ۸۷ ، ح۳۰_

۲) نورالثقلين ج ۳، ص ۱۶۱، ح ۱۸۸_ بحارالانوار ج ۷۶، ص ۱۹، ح ۵_

۸۸

جنسى خواہشات كو مٹانا ۴

دين :دينى تعليمات ۸

روايت : ۱۱ ، ۱۲

زنا:زنا كے احكام ۱، ۲;زنا ميں مبتلا كرنے والى چيزوں سے اجتناب ۲;زنا كا برا انجام۷;زناكى بدى ۴،۶;زنا كى حرمت ۱;زنا كى بدى كا فطرى ہونا ۶;زنا كى حرمت كا فلسفہ ۹;زنا كا گناہ ۱۲ ;زنا كى بدى كے نتائج ۹;زنا كا فردى نقصان ۷ ; زنا كا معاشرتى نقصان ۷;زناسے ۱۱

عمل :ناپسنديدہ عمل ۷;ناپسنديدہ عمل كا نقصان ۱۰

برائياں :برائي سے اجتناب كى اہميت ۳

قرآن مجيد:قرآن مجيد كا ہدايت دينا ۱۰

گناہ :گناہ سے اجتناب كى اہميت ۳; گناہ ميں مبتلا كرنے والى چيزوں سے اجتناب كى اہميت ۳

گناہ كبيرہ: ۱۲

حرام اشياء : ۱

حرام چيزوں كا معيار ۹

مفسدات:مفسدات كو دور كرنے كى اہميت ۸

معاشرہ:معاشرہ كے لئے خطرات كو جاننا ۷

واجبات : ۲ہدايت:ہدايت كى روش ۱۰

آیت ۳۳

( وَلاَ تَقْتُلُواْ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللّهُ إِلاَّ بِالحَقِّ وَمَن قُتِلَ مَظْلُوماً فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِيِّهِ سُلْطَاناً فَلاَ يُسْرِف فِّي الْقَتْلِ إِنَّهُ كَانَ مَنْصُوراً )

اور كسى نفس كو جس كو خدا نے محترم بناياہے بغير حق كے قتل بھى نہ كرنا كہ جو مظلوم قتل ہوتاہے ہم اس كے دلى كو بدلہ كا اختيار دے ديتے ہيں ليكن اسے بھى چاہئے كہ قتل ميں حد سے آگے نہ بڑھ جائے كہ اس كى بہر حال مدد كى جائے گي(۳۳)

۱_بے گناہ اور بے قصور شخص كا قتل ممنوع اور حرام ہے_ولا تقتلوالنفس التى حرّم الله _

۸۹

۲_بعض انسانوں كى جان محترم نہيں ہے _ لہذا انہيں قتل كياجاسكتا ہے_ولا تقتلوا النفس التى حرّم الله إلّا بالحقّ

۳_ چند وضاحت شدہ مقامات كے علاوہ باقى تمام حقوق اور قوانين الہى ميں قتل كى حرمت كا قانون جارى ہے_

ولا تقتلوا النفس التى حرّم الله إلّا بالحقّ

۴_انسان كے قتل كى ممنوعيت اس كى خصوصيات ميں سے ہے_ولا تقتلوا النفس التى حرّم الله إلّا بالحقّ

يہ عبارت''التى حرّم الله'' دليل استثناء'' إلّا بالحق'' كى بناء پر ''النفس'' كے لئے صفت تشريحى سے _ لہذا انسان كے قتل كى حرمت اس كى صفات ميں سے شمار ہوگي_

۵_الله تعالى كے احكام ،حق و عدل كے اجراء اور مظلوم كے دفاع كى خاطر ہيں _

ولا تقتلوا إلّا بالحقّ ومن قتل مظلوماً فقد جعلنا لوليّه سلطانا

۶_الله تعالى نے ناحق اور مظلومانہ قتل ہونے والے كے ولى كو قاتل پر غلبہ عطا كيا ہے_

ومن قتل مظلوماً فقد جعلنا لوليّه سلطانا

۷_حق(الہى قانون) كے مطابق قتل ہونے والے كے ولى كو كسى قسم كا اختيار حاصل نہيں ہے_

ولا تقتلوا إلّا بالحقّ ومن قتل مظلوماً فقد جعلنا لوليّه سلطانا

۸_قاتل كے بارے ميں فيصلہ كرنے كا حق مقتول كے وارثوں كو ہے اور اس ميں ان كے فائدہ كو مد نظر ركھنا چاہئے _

فقد جعلنا لوليّه سلطانا

مندرجہ بالا مطلب ''لوليّہ'' كى لام سے ليا گيا ہے كہ يہ فائدہ كے خاص ہونے كو بيان كر رہا ہے_

ولا تقتلوا ...إلّا بالحقّ ومن قتل مظلوماً فقدجعلنا لوليّه سلطانا

۱۰_مقتول كے وارثوں كے لئے قاتل سے انتقام لينے ميں حد سے بڑھنا حرام اور ممنوع ہے_فلا يسرف فى القتل

۱۱_قاتل كا قتل وقصاص مقتول كے وارثوں كا حق ہے_جعلنا لوليّه سلطاناً فلا يسرف فى القتل

۱۲_قاتل پر مقتول كے ورثاء كااختيار لغزش اور اپنے دائرہ اختيار سے تجاوز كا باعث بنتاہے_

جعلنا لوليّه سلطاناً فلا يسرف فى القتل

الله تعالى كا روكنا ايك قسم كا خبردار كرنا ہے اور يہ خبردار كرنا لغزش كے امكان كى وجہ سے ہے اور ''فلا يسرف'' ميں فاء نتيجہ كے لئے ہے اور مندرجہ بالا مطلب پر ايك اور تائيد ہے_

۱۳_حق وعدل كى رعايت كا خيال حتّى كہ لوگوں كى جان سے كھيلنے والے كے حق ميں بھي_

۹۰

جعلنا لوليّه سلطاناً فلا يسرف فى القتل

۱۴_مقتول كے وارث كى الله تعالى كى طرف سے حمايت پر توجہ اسے قصاص ميں حد سے بڑھنے پر روكنے والى ہے_

جعلنا لوليّه سلطاناً فلا يسرف فى القتلإنه كان منصورا

۱۵_مظلوم كى حمايت اور مدد الہى سنت _ومن قتل مظلوماً إنه كان منصورا مندرجہ بالا مطلب كى بنياد يہ ہے كہ ''إنہ'' كى ضمير مقتول مظلوم كى طرف لوٹتى ہے اور جملہ ''انہ '' كا اسميہ ہونا اور فعل ''كان'' كا آنا (جو استمرار كا معنى پيدا كرتا ہے) ممكن ہے يہ نكتہ واضح كرے كہ مقتول مظلوم كى حمايت ہميشہ الله تعالى كى جانب سے ہوتى رہى ہے_

۱۶_حق قصاص كا الہى حكم اور مقتول كے ورثاء كو اختيار ہى الله تعالى كى ان كى حمايت ہے _ومن قتل مظلوماً فقد جعلنا لوليّه سلطاناً إنه كان منصورا مندرجہ بالا مطلب اس نكتہ كى بناء پر ہے كہ ''انہ '' كى ضمير مقتول كے وارث كى طرف لوٹتى ہو _

۱۷_ظلم سے قتل ہونے والے كى حمايت تمام انسانى معاشروں ميں ايك عقلى اور فطرى چيز ہے _ومن قتل مظلوماً ...إنه كان منصورا مندرجہ بالا مطلب اس احتمال كى بناء پر ہے كہ ''مقتول كى مدد كى جانا '' (منصوراً) الله تعالى كى طرف سے نہ ہو بلكہ يہ وہ قانون ہو كہ جو تمام لوگوں ميں رائج ہے اور جملہ ''إنہ كان منصوراً'' ايك معاشرتى حقيقت سے حكايت كررہاہو_

۱۸_''عن أبى عبدالله (ع) قال: إذا اجتمعت العدة على قتل رجل واحد حكم الوالى أن يقتل ا يهم شاو وا وليس لهم ا ن يقتلوا ا كثرمن واحد إن الله عزّوجلّ يقول: ومن قتل مظلوماً فقد جعلنا لوليّه سلطاناً فلا يسرف فى القتل'' (۱) امام صادق (ع) سے روايت ہوئي ہے كہ آپ (ع) نے فرمايا :_ جب ايك گروہ ايك شخص كو قتل كرے اور قاضى حكم دے كہ مقتول كے و ارث ان قاتلوں ميں سے جسے چاہيں قتل كرسكتے ہيں تو وہ حق نہيں ركھتے كہ ايك شخص سے زيادہ قتل كريں بے شك الله تعالى فرما رہا ہے :ومن قتل مظلوماً فقد جعلنا لوليّه سلطاناً فلا يسرف فى القتل

۱۹_عن اسحاق بن عمار قال: قلت لأبى الحسن(ع) إن الله عزّوجلّ يقول فى كتابه: فلا يسرف فى القتل إنه كان منصوراً '' فما هذإلاسراف الذى نهى الله عزّوجلّ عنه قال: نهى ا ن يقتل غيرقاتله ا ويمثل بالقاتل قلت : فما معنى قوله : إنه كان منصوراً قال: وا يّ نصرة ا عظم من ا ن يدفع القاتل إلى أولياء المقتول فيقتله ولا تبعة تلزمه من قتله فى دين ولا دينا (۲) اسحاق بن عمار كہتے ہيں كہ امام موسى بن جعفر(ع) كي

____________________

۱) كافى ج۷، ص ۲۸۵، ح۹_ نورالثقلين ج۳، ص ۱۶۲، ح ۱۹۷۲) كافى ج۷، ص ۳۷۰، ح۷_ نورالثقلين ج۳، ص ۱۶۲،ح۱۹۸

۹۱

خدمت ميں عرض كي: الله تعالى اپنى كتاب ميں فرما رہا ہے :''فلا يسرف فى القتل انه كان منصوراً'' يہ كون سا اسراف ہے كہ جس سے الله تعالى نے منع فرمايا ہے؟ تو حضرت (ع) نے فرمايا : الله تعالى نے غير قاتل كو قتل كرنے اور قاتل كا مثلہ كرنے سے منع فرمايا ہے_ تو رواى كہتا ہے كہ ميں نے عرض كيا : تو اس كلام خدا :''انہ كان منصوراً'' سے مراد كيا ہے؟ آپ (ع) نے فرمايا: ''اس سے بڑھ كر اور نصرت كيا ہوسكتى ہے كہ قاتل مقتول كے ورثاء كے حوالے كياجاتا ہے كہ وہ قاتل كو قتل كرتے ہيں اور قتل كے دينى اور دنياوى اثرات سے محفوظ رہتے ہيں _

۲۰_عن أبى العباس قال: سا لت أبا عبدالله (ع) عن رجلين قتلا رجلاً فقال: يخيّر وليّه ا ن يقتل ا يهما شاء وكذلك إن قتل رجل إمرا ة إن قبلوا دية المرا ه فذاك، وإن ا بى ا وليائها إلّا قتل قاتلها غرموا نصف دية الرجل و قتلوه وهو قول الله : فقد جعلنا لوليّه سلطاناً فلا يسرف فى القتل'' (۱) ابى عباس روايت كرتے ہيں كہ ميں نے امام صادق (ع) سے ان دو مردوں كے بارے ميں پوچھا كہ ان دونوں نے ايك مرد كو قتل كيا تو حضرت(ع) نے جواب ميں فرمايا كہ مقتول كا وارث مختار ہے ان دونوں ميں سے جسے چاہے قتل كردے _ اسى طرح اگر كوئي مرد كسى عورت كو قتل كردے اگر اس كے وارث عورت كى ديت قبول كريں تو وہى حكم ہے_ اور اگر ديت قبول نہ كريں فقط قاتل كو قتل كرنا چاہيں توايك مرد كى آدھى ديت ادا كريں پھر اسے قتل كرديں اور يہ الله تعالى كى كلام ہے_''فقد جعلنا لوليّه سلطاناً فلا يصرف فى القتل '' _

۲۱_عن أبى جعفر(ع) فى قوله :''ومن قتل مظلوماً فقد جعلنا لوليّه سلطاناً فلا يسرف فى القتل إنّه كان''منصوراً''قال: هو الحسين بن على (ع) قتل مظلوماً ونحن أولياء والقائم منّا إذا قام طلب بثار الحسين ''إنه كان منصوراً'' فإنه لا يذهب من الدنيا حتّى ينتصر برجل من آل رسول الله (ص) يملأ الأرض قسطاً وعدلاً كماملئت جوراً وظلماً'' _(۱) الله تعالى كے كلام''من قتل مظلوماً فقد جعلنا لوليه سلطاناً فلا يسرف فى القتل إنه كان منصوراً'' كے بارے ميں امام باقر (ع) سے روايت ہوئي ہے كہ آپ (ع) نے فرمايا : يہاں مراد حضرت حسين بن على (ع) ہيں كہ مظلومانہ قتل ہوئے ہيں اور ہم آئمہ ان كے ورثاء ہيں اور جب بھى ہمارے قائم كا ظہور ہوگا تو وہ حسين بن على (ع) كا انتقام ليں گے_ اور ''إنہ كان منصوراً'' كے بارے ميں فرمايا : كچھ دير نہيں كہ آل رسول (ص) كے ذريعے مدد ہوگى اوروہ زمين عدل و انصاف كے ساتھ پر كرديں گے جس طرح ظلم و ستم سے پر ہوگي_

۲۲_عن أبى جعفر (ع) قال: بعث الله

____________________

۱) تفسير عياشى ج ۲ ، ص ۲۹۱، ح ۶۸_ نورالثقلين ج ۳، ص ۱۶۳، ح ۲۰۲۲) تفسير عياشى ج۲، ص ۲۹۰، ح ۶۷_ نورالثقلين ج ۳، ص ۱۶۳، ح ۲۰۱

۹۲

محمداً و ا نزل عليه فى سورة بنى إسرائيل بمكة وانزل نهيا عن ا شياء حذّر عليها ولم يغلّظ فيها ولم يتوا عد عليها وقال:'' ...ولا تقتلوا النفس التى حرّم الله إلّا بالحق و من قتل مظلوماً فقد جعلنا لوليّه سلطاناً فلا يسرف فى القتل إنه كا ن منصوراً'' (۱)

امام باقر(ع) سے روايت ہوئي ہے كہ الله تعالى نے حضرت محمد (ص) كو مبعوث كيا اور ان پر مكہ ميں سورہ بنى إسرائيل سے چند آيات نازل كيں ان آيات ميں ان چيزوں سے منع كيا كہ جن سے پرہيز لازمى ہے ليكن ان ممنوعات ميں سختى نہيں دكھائي گئي اور ان ممنوعات كے ارتكاب كرنے پر وعدہ عذاب نہيں ديا گيا اور فرمايا:''ولا تقتلوا النفس التى حرّم الله الاّ بالحقّ ...''

احكام : ۱، ۲، ۷، ۸، ۱۰، ۱۱

الله تعالى :الله تعالى كى حمايتےں ۱۶;اللہ تعالى كى سنتيں ۱۵;الله تعالى كى مدد ۱۹;اللہ تعالى كے ممنوعات ۲۲

الله تعالى كى سنتيں :الله تعاليمظلوم كى امداد كرنے كى سنت ۱۵

امام حسين(ع) :امام حسين (ع) كى مظلوميت ۲۱;امام حسين (ع) كى نصرت ۲۱

امام مہدى (عج) :امام مہدى (ع) كى ذمہ دارى ۲۱

انسان:انسان كى خصوصيات ۴;انسان كى خطائيں ۱۲; انسان كے فطرى امور ۱۷

حقوق:قصاص كا حق ۱۱، ۱۶/ذكر:الله تعالى كى حمايت كے ذكر كے نتائج ۱۴

روايت : ۱۸، ۱۹، ۲۰، ۲۱، ۲۲/عدالت:عدالت كى اہميت ۵ ،۱۳

قاتل :قاتل كے مثلہ كرنے سے نہى ۱۹

قتل :جائز قتل ۲، ۹; جائز قتل كے نتائج ۷; قتل كے احكام ۱ ، ۲، ۳، ۷;قتل ميں اسر ا ف ۱۸;قتل كى حرمت ۱، ۳ ، ۴;قتل ميں اسراف سے مراد ۱۹، ۰ ۲; قتل كے مستحقين ۲; قتل سے منع ۲۲

قصاص:قصاص كے احكام ۸، ۱۰، ۱۱، ۱۸، ۲۰; قصاص كے احكام كى شرعى خثيت ۱۶;قصاص ميں افراط كى حرمت ۱۰; قصاص ميں عدالت ۱۳;قصاص

____________________

۱) كافى ج۲، ص ۳۰، ح۱_بحارالانوار ج۶۶، ص ۸۷، ح۳۰_

۹۳

ميں افراط سے مانع ۱۴

محرمات : ۱، ۱۰

مظلوم:مظلوم كى حقوق كى اہميت ۶;مظلوم كى حمايت كى اہميت ۵;مظلوم مقتول كى حمايت ۱۷;مظلوم كى حمايت كا عقلى ہونا ۱۷;مظلوم كى حمايت كا فطرى ہونا ۱۷

مقتول:مقتول كے ورثاء كے اختيارات ۸، ۱۲; مقتول كے ورثاء كى خطاء كا پيش خيمہ ۱۲; مقتول كے ورثاء كے حقوق ۶، ۷، ۸، ۱۰، ۱۱ ; مقتول كے ورثاء كى حمايت ۱۴، ۱۶; مقتول كے ورثاء كے اختيارات كے حدود ۱۸;مقتول كے ورثاء كے منافع ۸; مقتول كے ورثاء كى نصرت ۱۹

آیت ۳۴

( وَلاَ تَقْرَبُواْ مَالَ الْيَتِيمِ إِلاَّ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ حَتَّى يَبْلُغَ أَشُدَّهُ وَأَوْفُواْ بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْؤُولاً )

اور يتيم كے مال كے قريب بھى نہ جانامگر اس طرح جو بہترين طريقہ ہے يہاں تك كہ وہ تواناہوجائے اور اپنے عہدوں كو پورا كرنا كہ عہد كے بارے ميں سوال كيا جائے گا(۳۴)

۱_يتيموں كے مال ميں بلاوجہ تصرف ،ممنوع اور حرام ہے_ولا تقربوا مال اليتيم إلّا بالّتى هى ا حسن

۲_مال يتيم خود انسان كے لئے اس ميں ناحق تصرف كى غلطى كا پيش خيمہ اور وسوسہ پيدا كرنے والا ہے_

ولا تقربوا مال اليتيم إلّا بالّتى هى أحسن

''لا تاكلو اور لا تصرفوا'' (نہ كھائو اور نہ تصرف كرو) كى جگہ كلمہ '' لاتقربوا'' (قريب نہ جائو) كا استعمال ممكن ہے _اس ليے ہوكہ يتيموں كے اموال معمولاً سنجيدہ حامى كے بغير ہوتے ہيں _ لہذا انكے ناحق استعمال اور ضائع ہونے كا خطرہ رہتا ہے_

۳_ہر وہ كام كہ جس سے مال يتيم كے ضائع ہونے اور ناحق استعمال ہونے كا امكان ہو اس سے پرہيز كرنا ضرورى اور واجب ہے_

ولا تقربوا مال اليتيم إلّا بالّتى هى ا حسن

۴_اسلام كى طرف سے يتيموں اور بے سہارا گناہ كمزور لوگوں كے اموال اور منافع كى حمايت كا اہتمام كيا گيا ہے_

ولا تقربوا مال اليتيم إلّا بالّتى هى أحسن

۵_نابالغ بچوں كے لئے مالكيت كے حق كا ثبوت_ولا تقربوا مال اليتيم حتّى يبلغ أشدّه

۹۴

لغت ميں ''يتيم '' اس بچے كو كہا جاتا ہے كہ جس كا باپ اس كے بالغ ہونے سے پہلے فوت ہوجائے_(مفردات راغب)

۶_بغير كسى كام كے مالكيت كا امكان موجود ہے _ولا تقربوا مال اليتيم

چونكہ يتيم وہ بچہ ہے كہ جس كا باپ فوت ہوچكا ہے اور زندگى كے اس حصے ميں اس كے لئے كام كرنے كا امكان موجود نہيں ہے_ تو اس كے لئے ايك طبيعى راستہ مالك بننے كے لئے ارث ہے كہ جو كام كرنے سے حاصل نہيں ہوتا_ اس نكتہ پر توجہ كرتے ہوئے مندرجہ بالا آيت سے اس مطلب استناد ہوسكتا ہے_

۷_يتيموں كے اموال ميں ان كے منافع كو ملحوظ خاطر ركھتے ہوئے تصرف كرنا جائز اور مشروع ہے_

ولا تقربوا مال اليتيم إلّا بالتى هى أحسن

۸_ يتيم كے مال ميں تصرف اس وقت جائز ہے جب ان اس كے عالى ترين مصالح كى مراعات كر سكتا ہو_

ولا تقربوا مال اليتيم إلّا بالتى هى أحسن

۹_يتيموں كے اموال ميں ناحق اور فضول تصرف زمانہ جاہليت كے عربوں ميں رائج تھا_ولا تقربوا مال اليتيم

۱۰_يتيم كے مال كے ذمہ دار لوگوں پر فرض ہے كہ اس كے مال كى حفاظت كے لئے فائدہ مندترين طريقہ اختيار كريں _

ولا تقربوا مال اليتيم إلّا بالّتى هى ا حسن

مندرجہ بالا مطلب كى بنياد يہ ہے كہ يہاں آيت كے مخاطب يتيموں كے ذمہ دار لوگ ہيں كہ الله تعالى انہيں حكم دے رہا ہے كہ سوائے انكے منافع كى رعايت كے باقى ہر قسم كا فضول تصرف نہ كريں _ لہذا ''التى ہى ا حسن'' سے مراد فائدہ مند ترين اور مفيد تصرف ہے_

۱۱_يتيم كا اپنے مال ميں تصرف جب تك وہ بالغ وعاقل نہ ہوجائے ممنوع ہے _حتى يبلغ أشدّه

''حتى يبلغ أشدّه'' يتيم كى كفالت كى انتہاء ہے يعنى اے يتيموں كى كفالت كرنے والوں ان كے اموال كى نگہدارى كرو اور اس ميں ناحق تصرف نہ كرو يہاں تك كہ عقلى طور پر رشيد ہوجائيں _ تو اس سے معلوم ہوتا ہے كہ يتيم رشيد ہونے سے پہلے اپنے اموال ميں تصرف كا حق نہيں ركھتا _

۱۲_يتيم كے بالغ وعاقل ہونے كے بعد دوسروں كے لئے اس كے مال ميں تصرف كا ناجائز ہونا_ولا تقربوا حتّى يبلغ أشدّه كيونكہ آيت ميں يتيم كى منفعت كے محفوظ كرنے كا پيغام ہے اور بديہى ہے كہ صرف جسم اور عمر كے

۹۵

اعتبار سے بالغ ہونا' بغير عقلى واقتصادى بلوغ كے' انكے منافع ومصالح كے لئے ضمانت فراہم نہيں كرتا يہاں ''حتى يبلغ أشدّہ'' اس مال كے ذمہ داروں كے تصرف كے لئے غايت ہے كہ تم اس وقت جائز تصرف كا حق ركھتے ہو جب تك وہ عقلى وجسمى طور پر بالغ نہ ہوجائيں اور ان كے بالغ ہونے كے بعد تمہيں تصرف كا حق نہيں ہے_

۱۳_حق مالكيت كا حق تصرف سے جدا ہونے كا امكان_ولا تقربوا مال اليتيم حتّى يبلغ أشده

چونكہ يتيم مالك ہونے كے باوجود بلوغ سے پہلے حق تصرف نہيں ركھتا جبكہ اس كے ولى اور نگہبان مالك نہ ہونے كے باوجود حق تصرف ركھتے ہيں _ اس سے معلوم ہوتا ہے كہ مالكيت اور تصرف كا جواز ايك دوسرے سے جدا ہوسكتا ہے_

۱۴_چھوٹا ہونا، عقلى رشد اور اقتصاديات كى فہم سے عارى ہونا يہ دو عامل انسان كے اپنے مال ميں تصرف كو روك ديتے ہيں _حتى يبلغ أشدّه يتيم كے حق تصرف كى ممنوعيت كے زمانہ كى غايت بيان كرنا اس كے مال ميں حق تصرف كے معيار كو واضح كر رہا ہے اور وہ معيار بالغ ہونا اور اقتصادى رشد ہے_ لہذا محض يتيم ہونا اس حكم كى وجہ نہيں ہے_

۱۵_عہدوپيمان سے وفا لازم اور واجب ہے _وا وفوا بالعهد

۱۶_انسان اپنے عہدوپيمان كے مد مقابل جواب دہ ہے_إن العهد كان مسئول

۱۷_يتيم كے اموال كى سرپرستى قبول كرنا ايك ذمہ دارانہ عہد ہے_ولا تقربوا مال اليتيم وا وفوبالعهد إن العهد كان مسئول چونكہ ''ا وفوا'' جملہ ''لا تقربوا مال اليتيم'' كے بعد ميں آيا ہے _شايد ''خاص كے بعد عام كا ذكر'' ہو _ لہذا ممكن ہے يتيموں كے اموال كى كفالت عہد والے معاملوں ميں سے ہو_

۱۸_انسان كا اپنے عہدوں كے مقابلہ ميں پوچھ گچھ كى طرف توجہ كرنا موجب بنتا ہے كہ وہ اپنے عہدوں كى وفا پر زيادہ توجہ كرتا ہے_وا وفوا بالعهد إن العهد كان مسئول

يہ كہ الله تعالى نے عہد كى وفا كے حكم كے بعد فرمايا انسانوں كى ان عہدوں كے حوالے سے پوچھ گچھ ہوگى تو اس نكتہ كى طرف توجہ كرنے سے اس كے اندر ان كى رعايت كرنے كا انگيزہ پيدا ہوگا_

۱۹_عن ا بى جعفر(ع) قال بعث الله محمداً و ا نزل عليه فى سورة بنى إسرائيل بمكة وا نزل نهياً عن ا شياء حذّر عليها و لم يغلظّ فيها ولم يتواعد عليها وقال : ...''ولا تقربوا مال اليتيم إلّا بالتى هى ا حسن حتّى يبلغ ا شدّه وا وفوابالعهد إن العهد كان مسئولاً'' (۱)

____________________

۱) كافى ج۳، ص ۳۰، ح۱_ بحارالانوار ج۶۶، ص ۸۷، ح ۳۰_

۹۶

امام باقر (ع) نے فرمايا: ...''اللہ تعالى نے رسول اكرم (ص) (ص) كو مبعوث فرمايا اور ان پر سورہ بنى إسرائيل كى آيات مكہ ميں نازل كيں (كہ ان آيات ميں ) ايسى چيزوں سے منع كيا كہ جن سے پرہيز كرنا ضرورى ہے ليكن ان منع كرنے ميں سختى اور شدت نہيں دكھائي دى اور ان كے ارتكاب كرنے پر وعدہ عذاب بھى نہيں ديا گيا اور فرمايا :... ولاتقربوا مال اليتيم إلّا بالتى هى أحسن حتّى يبلغ أشدّه وا وفوا بالعهدإن العهد كان مسئولاً'' _

۲۰_عن عبدالله بن سنان عن أبى عبدالله (ع) قال: سا له ا بى وا نا حاضر عن اليتيم حتّى يجوز ا مره ؟قال:حتى يبلغ اشدّه'' قال: وما ا شدّه ؟ قال: الإحتلام (۱) عبداللہ بن سنان كہتے ہيں كہ ميں اپنے والد كے ہمراہ تھا كہ اس نے يتيم كے حوالے سے سوال كيا كہ كب اس كى بات نافذ ہوگى تو آپ (ع) نے فرمايا: حتّى يبلغ أشدّہ_ تو ميرے والد نے پوچھا كہ ''اشدّہ'' سے كيا مرادہے؟ تو حضرت (ع) نے جواب ديا : اس كا محتلم ہونا

۲۱_عن أبى عبدالله (ع) قال:إذا بلغ الغلام أشدّه ثلاث عشرة سنة ودخل فى الأربع عشرة سنة وجب عليه ما وجب على المحتلمين احتلم ا م لم يحتلم جاز له كلّ شي من ماله إلّا ا ن يكون ضعيفاً ا و سفيهاً (۲)

امام صادق (ع) سے روايت ہوئي كہ آپ (ع) نے فرمايا : جب لڑكا زمانہ رشد تك پہنچ جائے يعنى تيرہ سال كا ہوجائے اور چودہويں سال ميں داخل ہوجائے تو اس پر وہى كچھ واجب ہے جومحتلم پر واجب ہے چاہے اسے احتلام آئے يا نہ آئے اگر وہ كمزور يا احمق نہ ہو تو اس كے لئے اپنے تمام اموال ميں تصرف كرنا جائز ہے_

۲۲_عن أبى الحسن موسى بن جعفر (ع) عن أبيه فى قول الله عزّوجلّ: وا وفوا بالعهد إن العهد كان مسئولا _قال: العهد ما ا خذ النبي(ص) على الناس فى مودتنا وطاعة ا ميرالمؤمنين (ع) ا ن لايخالفوه ولا يستقدموه ولا يقطعوا رحمه وا علمهم انهم مسئولون عنه .(۳)

امام موسى بن جعفر (ع) نے اپنے والد محترم امام صادق(ع) سے اس آيت : '' واوفو بالعہد ان العہد كان مسئولاً'' كے بارے ميں روايت كى كہ انہوں نے فرمايا : كہ يہاں عہد وپيمان سے مراد وہ عہد وپيمان ہے كہ جو پيغمبر اسلام (ص) نے لوگوں ،سے ہمارى محبت ودوستى اور اميرالمؤمنين كى اطاعت كے حوالے سے ليا ہے كہ اس كى خلاف ورزى نہ كريں اور پيغمبر اسلام (ص) نے يہ بھى اعلان كياكہ لوگوں سے اس عہد كے بارے ميں سوال كياجائے گا_

۲۳_عن أبى بصير قال : قال أبوعبدالله (ع)

____________________

۱) خصال صدوق ص ۴۹۵، ح۳_ أبواب ثلاثة عشر_ نورالثقلين ج۱، ص ۷۷۸، ح ۳۴۰

۲) خصال صدوق ص ۴۹۵، ح۴_ ابواب ثلاثة عشر_ نورالثقلين ج۳، ص ۱۶۴، ح ۳۰۴۳) بحارالانوار ج ۲۴ ص ۱۸۷، ح۱

۹۷

إذا بلغ العبد ثلاثاً وثلاثين سنة فقد بلغ ا شدّه (۱)

ابوبصير روايت كرتے ہيں كہ امام صادق (ع) نے فرمايا : جب انسان تينتيس سال كى عمر ميں پہنچ جائے تو وہ عقلى رشد تك پہنچا ہے (اور يہ اس آيت بلغ اشدّہ سے مراد ہے)

آئمہ:آئمہ سے محبت ۲۲

احتلام:احتلام كے نتائج ۲۰

احكام : ۱، ۳، ۵، ۷،۸، ۱۰، ۱۱، ۱۲، ۱۴، ۱۵

احمق :احمق كو روكنا ۱۴

اطاعت :امام على _ كى اطاعت ۲۲

الله تعالى :الله تعالى كى نواہى ۱۹

انسان:انسان كى خطائيں ۲;انسان كى ذمہ دارى ۱۶; انسان كى رشد و الى عمر ۲۳

بچہ:بچے كو روكنا ۱۴;بچے كى مالكيت ۵

بلوغ:بلوغ كے احكام ۲۱;بلوغ كى عمر ۲۱; بلوغ كے نتائج ۱۱

جاہليت:جاہليت كى رسوم ۹;جاہليت ميں مال يتيم كا غصب ہونا ۹

حقوق:حق تصرف ۱۳;حق مالكيت ۱۳

حماقت:حماقت كے نتائج ۱۴

ذكر :وعدہ كے بارے ميں سوال كے ذكر كے نتائج ۱۸

ذمہ داري:ذمہ دارى ميں مو ثر اسباب ۱۷

روايت: ۱۹، ۲۰، ۲۱، ۲۲، ۲۳

ضعفائ:ضعفاء كے منافع كے رعايت كى اہميت ۴;ضعفاء كے مال كى حفاظت كى اہميت ۴

عہد:عہد كے احكام ۱۵;عہد سے وفا كرنے كى اہميت ۱۶;عہد سے وفا كرنے كا پيش خيمہ ۱۸;عہد سے وفا كا وجوب ۱۵

گناہ:گناہ كا پيش خيمہ ۲

____________________

۱) خصال صدوق ص ۵۴۵، ح۲۳_ تفسير برہان ج۲، ص ۴۱۹، ح ۲_

۹۸

مال ميں تصرف سے روكے جانا:مال ميں تصرف سے روكے جانے كے احكام اور اسباب ۱۴

مالكيت :مالكيت كے احكام ۵، ۶، ۱۳، ۱۴;مالكيت كے اسباب ۶

محرمات: ۱

واجبات:۳، ۱۵

وسوسہ:وسوسہ كا پيش خيمہ ۲

يتيم:يتيم كے احكام ۱۲، ۲۰; يتيم كے مال كے احكام ۱، ۳، ۷، ۸، ۱۰، ۱۱، ۱۲;يتيم كے منافع كى رعايت كى اہميت ۴;يتيم كے مال كى حفاظت كى اہميت ۴ ; يتيم كا بلوغ ۱۱،۲۰;يتيم كے تصرفات ۱۱;يتيم كے مال ميں تصرف كى حرمت ۱;يتيم كے مال كى حفاظت ۱۰;ہتيم كے مال ميں تصرف كا خطرہ ۲;يتيم كے ورثاء كى ذمہ دارى ۱۰;يتيم كا اقتصادى رشد ۱۲; يتيم كے منافع كى رعايت ۷ ، ۸; يتيم كے مال ميں تصرف كے شرائط ۷، ۸;يتيم كے مال ميں تصرف كى محدوديت ۱۲;يتيم كے مال كے غصب كى نہى ۱۹;يتيم كے مال كى حفاظت كا وجوب ۳;يتيم كے مال كا كردار۲

آیت ۳۵

( وَأَوْفُوا الْكَيْلَ إِذا كِلْتُمْ وَزِنُواْ بِالقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِيمِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلاً )

اور جب ناپوتو پورا ناپوور جب تولو تو صحيح ترازو سے تو لو كہ يہى بہترى اور بہترين انجام كا ذريعہ ہے(۳۵)

۱_پيمائش كے معاملات ميں پيمائش كا پورا كرنا اور اس سے كم نہ كرنا_وأوفوا الكيل إذاكلتم

۲_عمدہ ترازو كا استعمال اور چيزوں كے وزن كرنے ميں مكمل توجہ _وزنو ابالقسطاس المستقيم

''قسطاس'' كا معنى ميزان ہے اس كا واضح اورروشن مصداق چيزوں كے وزن كے لئے ترازو ہے_

۳_انسان اور معاشرہ كى بہترى اور حقيقى مصلحت كم فروشى اور اقتصادى خيانت سے اجتناب ميں ہے_

وأوفوا الكيل وزنوبالقسطاس المستقيم

۹۹

ذلك خير

۴_اقتصادى عدل وانصاف كى رعايت خوبصورت انجام كى حامل ہے _ذلك خيروأحسن تاويل

''تاويل '' ''اول'' كا مصدر ہے جس كے معنى اصل كى طرف لوٹنا ہے اس سے مراد وہ انتہا ہے كہ جس كا قصد كيا گيا تھا_

۵_زيادہ منافع كى خاطر كم فروشى اور اقتصادى خيانت بدعاقبت اور نقصان دہ عمل ہے_

وا وفوا الكيل وزنوا بالقسطاس المستقيم ذلك خيرو ا حسن تا ويلا

۶_كسى چيز كى قدروقيمت كا معيار اس كے انجام كى طرف توجہ ہے_وا وفوا الكيل وزنوا بالقسطاس المستقيم ذلك خيرو ا حسن تا ويلا

۷_ہر كام كى عاقبت اور انجام كى طرف توجہ كا لازم ہونا_وأوفوا الكيل وا حسن تاويلا

۸_ ذاتى مال ركھنے سے قيمتى چيز درست اقتصادى عمل ہے_ذلك خير وا حسن تاويلا

ممكن ہے كہ ''خير'' كا مفضل عليہ چيزوں كى پيمائش ميں خيانت اور كم فروشى اور اس طريقے سے حاصل ہونے والا نفع ہو يعنى عدل وانصاف كى رعايت اور صحيح ترازوں كا استعمال اور اس سے حاصل ہونے والا نفع كم فروشى اور اس سے آنے والے نفع سے بہتر ہے_

۹_عن الصادق (ع) فى قول الله عزّوجلّ: '' ...وزنوبالقسطاس المستقيم'' قال : أمّا القسطاس المستقيم فهو الإمام وهوالعدل من الخلق ا جمعين وهو حكم الائمة ...'' (۱)

امام صادق (ع) سے الله تعالى كے اس كلام :''وزنو ا بالقسطاس المستقيم '' كے بارے ميں روايت ہوئي كہ انہوں نے فرمايا: ...كہ قسطاس مستقيم سے مراد امام ہے اور وہ تمام مخلوقات ميں مظہر عدل ہے اور آئمہ كى قضاوت اس اساس پر ہے_

احكام : ۱اقتصاد :اقتصادى خطرات كى پہچان ۵;اقتصادى عدالت كے نتائج ۴

انجام :اچھے انجام كے اسباب ۴;برے انجام كے اسباب ۵

ثروت:ثروت كى قيمت ۸ذكر :انجام عمل كے ذكر كى اہميت ۷;ذكر انجام كے نتائج ۶

روايت : ۹

____________________

۱) بحارالانوار ج ۲۴، ص ۱۸۷، ح ۱_

۱۰۰

رہبري:عدالت رہبرى ۹

قدروقيمت : ۸

قيمت گذارى :قيمت گذارى كا معيار ۶، ۹

كم فروشي:كم فروشى سے اجتناب ۱;كم فروشى سے اجتناب كى اہميت ۳;كم فروشى كا نقصان ۵

معاشرتى منافع : ۳

معاملہ:معاملہ ميں خيانت سے اجتناب ۳;معاملہ كے احكام ۱، ۲;معاملہ ميں ترازو ۲ ; معا ملہ ميں صداقت كى قدروقيمت ۸

نقصان :نقصان كے اسباب ۵

واجبات :۱

آیت ۳۶

( وَلاَ تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولـئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْؤُولاً )

اور جس چيز كا تمہيں علم نہيں ہے اس كے پيچھے مت جانا كہ روز قيامت سماعت، بصارت اور قوت قلب سب كے بارے ميں سوال كيا جائے گا (۳۶)

۱_جس چيز كا انسان كو علم وخبر نہيں ہے اس كى پيروى كرنا ممنوع ہے _ولا تقف ماليس لك به علم

۲_انسان كے عقائد اور كردار ،علم وآگاہى كى بنياد پر قائم ہونے چايئے_ولا تقف ماليس لك به علم

۳_انسان اپنى آنكھ، كان اور دل كے كاموں كےحوالے سے الله تعالى كى بارگاہ ميں جواب دہ ہے _

إن السمع والبصروالفواد كلّ أولئك كان عنه مسئولا

۴_وہ لوگ جن كے پاس علم وآگاہى حاصل كرنے كے ضرورى وسائل ہيں وہ الله تعالى كى بارگاہ ميں جواب دہ ہيں _

إن السمع والبصر والفوا د كلّ أولئك كان عنه مسئولًا

۵_جو كچھ سناگيا يا ديكھا گيا يا اس كے دل ميں آيا ہے اس كے علم وآگاہى كے مرحلہ تك پہنچنے سے پہلے انسان كا اس پر حكم وعمل ممنوع ہے_ولا تقف ماليس لك به علم إن السمع والبصر والفو اد كلّ أولئك كان عنه مسئولًا

مندرجہ بالا مطلب كى بنياد يہ ہے كہ عام طور پر غير علمى كى بنياد سنى سنائي' ديكھى ہوئي اور ظاہرى طور پر تسليم كى گئي چيزيں ہوتى ہيں _

۱۰۱

الله تعالى نے ايسى غير علمى چيزوں سے انسانوں كو دور كرنے كے لئے انہيں خبردار كيا ہے كہ ديكھى ہوئي جب تك مرحلہ علم ويقين تك نہ پہنچيں قابل اعتماد نہيں ہيں اور اگر ان پر اعتماد كيا گيا تو اس كا حساب ہوگا_

۶_سننے اور ديكھنے كے اعضاء اور دل ،علم وشناخت كے وسائل ہيں _ولا تقف إن السمع والبصر والفواد

۷_حقيقى شناخت پيدا كرنے كے لئے سننے ' ديكھنے اور دل سے صحيح فائدہ نہ اٹھانا انسان كے الله كى بارگاہ ميں جواب دہ ہونے كا موجب ہوگا_ولا تقف إن السمع كان عنه مسئولا

الله تعالى انسان كو غير علمى چيزوں سے دور كرنے كے لئے انہيں سننے' ديكھنے اور دل جيسى نعمات ياد دلائي ہيں تاكہ ان سے صحيح فائدہ اٹھاتے ہوئے مرحلہ يقين تك پہنچے اور اسى بنا پر حكم كرے اور عمل كرے_

۸_روز قيامت آنكھ، كان اور دل سے انسان كے بارے ميں گواہى طلب كى جائے گى _

إن السمع والبصر والفواد كل أولئك كان عنه مسئولا

مندرجہ بالا مطلب كى بنياد يہ ہے كہ حقيقى آنكھ، كان اور دل سے قيامت كے دن سوال كيا جائے گا _ لہذا ان اعضاء سے سوال ہونا ممكن ہے مندرجہ بالا نكتہ كى طرف اشارہ كر رہا ہو_

۹_آنكھ، كان اور دل قيامت كے دن مورد سوال قرار پائيں گے_إن السمع والبصر والفواد كل أولئك كان عنه مسئولا

مندرجہ بالا مطلب كى بنياد يہ ہے كہ اولاً: ان اعضاء سے واقعاً سوال ہوگا_ثانياً: چونكہ اسى نظريہ كى بناپر ان سے دنيا ميں سوال نہيں ہوگاتو مراد يہ ہے كہ روز قيامت سوال ہوگا_

۱۰_عن أبى جعفر (ع) بعث الله محمداً و ا نزل عليه فى سورة بنى إسرائيل بمكة وا نزل نهياً عن اشياء حذرّ عليها ولم يغلّظ فيها و لم يتواعد عليها وقال : ولا تقف ماليس لك به علم إن السمع والبصر والفواد كل أولئك كان عنه مسئولاً (۱) امام باقر (ع) سے روايت ہوئي كہ الله تعالى نے حضرت محمد(ص) كو مبعوث كيا اور ان پر مكہ ميں سورہ بنى إسرائيل سے آيات نازل كيں (كہ ان آيات ميں ) ايسى چيزوں سے نہى كى كہ جن سے پرہيز لازمى تھا ليكن ان نواہى ميں سختى اور شدت نہ دكھائي اور ان كے ارتكاب پر وعدہ عذاب نہ ديا اور فرمايا :''ولا تقف ماليس لك به علم ان السمع والبصر والفواد كل اولئك كان عنه مسئولاً'' _

____________________

۱) كافى ج۲ ص ۳۰ ، ح۱_ بحارالانوار ج ۶۶ ص ۸۷ ح ۳۰_

۱۰۲

۱۱_عن الحسين بن هارون قال: قال لى أبو عبدالله (ص) :إن السمع والبصر والفو اد كل أولئك كان عنه مسئولاً قال: يسا ل السمع عما سمع والبصر عمّا نظر إليه والفو اد عمّا عقد عليه (۱) حسن بن ہارون كہتے ہيں كہ امام صادق (ع) نے مجھ سے فرمايا اس آيت ''إن السمع والبصر والفو اد كلّ إولئك كان عنه مسئولاً' '

سے مراد يہ ہے كہ كان سے جو كچھ سنا'آنكھ سے جو كچھ ديكھا اور دل سے جس چيز پر عقيدہ پيدا كيا ' سوال ہوگا_

۱۲_عن موسى بن جعفر (ع) قال على بن الحسين (ع) وليس لك ا ن تتكلم بما شئت لا ن الله تعالى قال : ولا تقف ماليس لك به علم (۲) امام موسى بن جعفر(ع) امام سجاد (ع) سے روايت كرتے ہيں كہ انہوں نے فرمايا : تم حق نہيں ركھتے كہ جو چاہو وہ كہو كيونكہ الله تعالى فرماتاہے:''ولا تقف ماليس لك به علم''

آنكھ:آنكھ كى ذمہ دارى ۳;آنكھ سے سوال ہونا ۹، ۱۱;آنكھ كے فوائد ۶; آنكھ سے كام لينا ۷;آنكھ كى آخرت ميں گواہى ۸

الله تعالى :الله تعالى كى نعمتيں ۷;اللہ تعالى كى نواہى ۱۰

انسان :انسان كى ذمہ دارى ۳، ۴;انسان كے اختيارات كى حد۱۲

بات:بغير علم كے بات سے منع كرنا ۱۲;بغير علم سے بات كى نہى ۱۰

تقليد :اندھى تقليد كى ممنوعيت ۱

دل :دل كى ذمہ دارى ۳;دل سے سوال ہونا ۹،۱۱;دل كے فوائد ۶;دل سے كام لينا ۷;دل كى اخروى گواہى ۸

ذمہ دارى :ذمہ دارى ميں موثر اسباب ۷

روايت : ۱۰ ، ۱۱ ، ۱۲

شناخت:شناخت كے وسائل ۴، ۶ ، ۷

عقيدہ :عقيدہ كے شرائط ۲ ;عقيدہ ميں علم ۲

علم :

____________________

۱) كافى ج ۲، ص ۳۷، ح۲_ نورالثقلين ج۳، ص۱۶۵، ح ۱_

۲) علل الشرائع ص ۶۰۶ ح ۸۰ _۳۸۵ _ نورالثقلين ج ۳ ص ۱۶۵ح ۲۰۹_

۱۰۳

علم كے حصول كى اہميت ۴;علم كى اہميت ۲ ، ۵;علم و عمل ۲

عمل :عمل كا معيار ۵

قضاوت:قضاوت كے احكام ۵;قضاوت ميں علم كا كردار ۵;قضاوت كا معيار ۵

قيامت :قيامت ميں سوال ۹;قيامت ميں گواہى ۸

كان :كان كى ذمہ دارى ۳;كان سے سوال ہونا ۹ ، ۱۱;كان كے فوائد ۶;كان سے كام لينا ۷;كان كى اخروى گواہى ۸

محرمات: ۵

نعمت:ديكھنے كى نعمت ۷;سننے كى نعمت ۷;دل كى نعمت ۷

آیت ۳۷

( وَلاَ تَمْشِ فِي الأَرْضِ مَرَحاً إِنَّكَ لَن تَخْرِقَ الأَرْضَ وَلَن تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُولاً )

اور روئے زمين پر اكڑ كر نہ چلنا كہ نہ تم زمين كو شق كرسكتے ہو اور نہ سر اٹھاكر پہاڑوں كى بلنديوں تك پہنچ سكتے ہو(۳۷)

۱_الله تعالى كى لوگوں كو مغرور اور سرورو مست چال سے پرہيز كرنے كى دعوت_ولا تمش فى الأرض مرحا

''مرح'' سے مراد بہت زيادہ خوشى ہے_ (مفردات راغب اور لسان العرب)

۲_تكبر اور بہت زيادہ خوشى ومستى سے پرہيز كرنا لازم اور واجب ہے_ولاتمش فى الأرض مرحا

مندرجہ بالا مطلب كى بنياد يہ ہے كہ''لا تمش'' سے مراد ايسى رفتار ہو كہ جس ميں مندرجہ بالا تمام حالتيں آجائيں نہ صرف چلنا_

۳_انسان اس سے عاجز ہيں كہ غرور اور گردن اكڑانے سے زمين ميں كوئي رخنہ پيدا كرسكيں يا اپنا قدوقامت پہاڑوں كى مانند كرسكيں _ولا تمش فى الأرض مرحاً إنك لن تخرق الأرض ولن تبلغ الجبال طولا

''لن'' نفى ابدى كے لئے آيا ہے اور ''عاجز كرنے پر '' دلالت كر رہا ہے_ اس آيت ميں حكايت ہے كہ انسان اپنے مست بھرے قدموں سے زمين ميں شگاف پيدا كرنے سے عاجز ہے _

۴_انسان كى رفتار وكردار كى بنياد اس كى باطنى خصلتيں

۱۰۴

ہيں _ولا تمش فى الأرض مرحا

''مرحاً'' كلمہ ''لاتمش'' كى ضميرفاعلى كے لئے حال واقع ہورہاہے اور اس حالت كى تاثير پر دلالت راستہ طے كرنے كے ذريعے ہورہى ہے_

۵_مظاہر طبيعت كے مد مقابل انسان كا اپنى ناتوانى اور ضعف پر غور كرنے سے اسكا تكبر و غرور زائل ہوجاتاہے_

ولا تمش فى الأرض مرحاً إنك لن تخرق الأرض ولن تبلغ الجبال طولا

جملہ ''إنك لن تخرق ...'' جملہ ''لاتمش'' كے لئے علت بن رہا ہے يعنى اے انسان چونكہ تو اپنے قدموں سے زمين ميں شگاف پيدا نہيں كرسكتا اور نہ پہاڑوں كى مانند ہوسكتا ہے _ پس تجھے مغرور اور مست نہيں ہونا چاہئے_ انسان كا اپنے اس ضعف اور ناتوانى كى طرف توجہ كرنے سے اس كا غرور اور تكبر ختم ہوسكتا ہے_

۶_اپنے ضعف وناتوانى سے غفلت،انسان كا ناپسنديدہ خصلتوں ميں گرفتار ہونے كا سبب بنتا ہے_

ولا تمش فى الأرض مرحاً انك لن تخرق الأرض ولن تبلغ الجبال طولا

۷_مظاہر طبيعت كى مضبوطى اور انكے مد مقابل اپنى كمزورى پر توجہ كرنے سے عبرت ونصےحت حاصل ہوتى ہے_

لن تخرق الأرض ولن تبلغ الجبال طول ''إنك لن تخرق الأرض و ... '' كاذكر حقيقت ميں مظاہر طبيعت كى مضبوطى اور اس كے مد مقابل انسان كے ضعف پر توجہ دلانا انسان كے لئے عبرت آموز ہوسكتى ہے _

۸_بے بنياد خيالات كى بنياد پر ستون غرور قائم ہوئے ہيں _ولا تمش فى الأرض مرحاً إنك لن تخرق الأرض ولن تبلغ الجبال طول

۹_عن أبى جعفر (ع) بعث الله محمداً و ا نزل عليه فى سورة بنى إسرائيل بمكة وا نزل نهياً عن اشياء حذرّ عليها ولم يغلظّ فيها و لم يتواعد عليها وقال ...''ولا تمش فى الأرض مرحاً إنك لن تخرق الأرض ولن تبلغ الجبال طولاً'' _(۱) امام باقر (ع) سے روايت ہوئي كہ الله تعالى نے حضرت محمد (ص) كو مبعوث كيا اور ان پر مكہ ميں سورہ بنى إسرائيل سے آيات نازل كيں (كہ ان آيات ميں ) ايسى چيزوں سے نہى كى كہ جن سے پرہيز لازمى تھا ليكن ان نواہى ميں سختى اور شدت نہ دكھائي اور ان كے ارتكاب پر وعدہ عذاب نہ ديا اور فرمايا : ''ولا تمش فى الأرض مرحاً انك لن تخرق الأرض ولن تبلغ الجبال طولاً''_

____________________

۱) _كافى ج ۲، ص ۳۰، ح۱_ بحارالانوار ج ۶۶، ص ۸۷، ح ۳۰_

۱۰۵

احكام :۲

اخلاق :برے اخلا ق كا پيش خيمہ ۶

الله تعالى :الله تعالى كى دعوتيں ۱;اللہ تعالى كى نواہى ۹

انسان :انسان كا تكبر ۳;انسان كے صفات ۴;انسانوں كے عجز سے عبرت ۷; انسان كا عجز ۳

تكبر:تكبر سے اجتناب۱;تكبر كے احكام ۲;تكبر كى بنياد ۸;تكبر سے موانع ۵;تكبر سے نہى ۹;تكبر سے اجتناب كا وجوب ۲

خوشي:خوشى ميں افراط سے اجتناب ۱، ۲

ذكر:انسانوں كے عجز كے ذكر كے نتائج ۵; طبعيت كى مضبوطى كے ذكر كرنے كے نتائج ۷

رفتار:رفتار كى بنياديں ۴

روايت : ۹زمين :زمين ميں شگاف ڈالنا ۳

عبرت :عبرت كے اسباب ۷

غفلت :عجز سے غفلت كے نتائج ۶

نظريہ:غلط نظريہ كے نتائج ۸

واجبات: ۲

آیت ۳۸

( كُلُّ ذَلِكَ كَانَ سَيٍّئُهُ عِنْدَ رَبِّكَ مَكْرُوهاً )

يہ سب باتيں وہ ہيں جن كى برائي تمھارے پروردگار كے نزديك سخت ناپسند ہے (۳۸)

۱_عقائد ، اخلاق اور كردار كے حوالے سے تمام تر انحراف الله تعالى كے نزديك ناپسنديدہ اور قابل نفرت ہيں _كلّ ذالك كان سيّئه عند ربك مكروها ''ذلك '' كا مشار إليہ وہ تمام عقائد اور اخلاق كے متعلق احكام ہيں كہ جو پچھلى آيات ميں (۲۲_۳۷)ذكرہوئے ہيں _

۲_الله تعالى كے ساتھ شرك ، والدين سے جھگڑنا ،

فضول خرچى ، بچوں كا قتل، زنا، ناحق قتل ، يتيموں كا مال كھانا ، غير علمى راہوں كى پيروى اور مغرورانہ انداز سے چلنا يہ

۱۰۶

سب چيزيں الله تعالى كے نزديك ناپسنديدہ اور قابل نفرت اعمال ہيں _كلّ ذلك كان سيّئه عند ربّك مكروها

۳_الله تعالى كى برائيوں سے نہى انسانوں كى تربيت، رشد اور كمال كى خاطر ہے_كل ذالك كان سيّئه عند ربك مكروها

پروردگار كچھ ناپسنديدہ اعمال كى نہى كرنے كے بعد فرماتا ہے:''يہ سب كے سب تيرے پروردگار كے نزديك ناپسنديدہ ہيں ''_تو يہاں الله تعالى كے نام كى جگہ ''رب'' آيا ہے جو كہ صفت ہے تو الله تعالى كے نام كا ذكر نہ ہونا اسى طرح كسى اور صفت كا ذكر نہ ہونا اس حقيقت كو واضح كررہاہے كہ ان چيزوں سے نہى انسانوں كى پرورش كى خاطر ہے كيونكہ ''رب'' سے مراد پرورش كرنے والا ہے_

۴_يہاں تك كہ الله تعالى كے ناپسنديدہ اور قابل نفرت اعمال كے حوالے سے بھى انسان آزاد اور اختيار ركھتا ہے _

كل ذلك كان سيّئه عند ربك مكروها

يہ كہ الله تعالى نے غلط كاموں كو شمار كرنے كے بعد ان سے نہى فرمائي ہے_ اور پھر فرمايا ہے:''سيّئہ عند ربك مكروہا'' معلوم ہوتا ہے كہ انكے قابل نفرت ہونے كے باوجود انسان كو تكوينى طور پر ان كے بجالانے سے نہيں روكا گيا اس سے انسان كے عملى اختيار كا علم حاصل ہوتا ہے_

۵_غلط اور ناپسنديدہ اعمال تمام آسمانى اديان ميں ناپسنديدہ ہيں _كل ذلك كان سيّئه عند ربك مكروها

''كان'' فعل ماضى ہے اور الله تعالى كى پچھلے اديان ميں محرمات كى نہى قديمى كو واضح كررہاہے_

۶_غرور، تكبرنيك اور بد جہات كا حامل ہے_ولا تمش فى الأرض مرحاً كل ذلك كان سيّئه عند ربك مكروها

يہ بھى احتمال ہے كہ ''ذلك'' كا مشاراليہ پچھلى ايك آيت ہو اور ''كل ذلك'' سے مراد تكبر ہو اور جمع كا اشارہ ہوسكتا ہے كہ تكبر كى مختلف جہات كى طرف اشارہ كر رہا ہو _

۷_ دينى تعليمات انسانوں كى فطرت اور طبيعى ميلانات كے ساتھ ہم آہنگ ہوتى ہيں _كل ذلك كان سيّه عند ربك مكروه ''ذلك '' كا مشار اليہ وہ تمام تر عقائد و اخلاق كے حوالے سے انحرافات ہيں جو پچھلى آيات ميں ذكر ہوئے ہيں _ الله تعالى نے انہيں ناپسند فرمايا ہے اور انہيں ''سيّئہ'' سے تعبير كيا ہے_ ''سيّئہ'' جو كہ مادہ ''سوئ'' سے تعلق ركھتا ہے اس سے مراد ہر وہ چيز ہے جو انسان كے لئے رنج وغم كا باعث بنے _ اس سے معلوم ہوتا ہے كہ تعليمات دينى اور طبعيت انسان ميں ہم آہنگى موجود ہے_

۸_بعض چيزيں جو الله كے لئے ناپسند اور قابل نفرت

۱۰۷

ہيں پھر بھى وجود خارجى پيدا كرنے كى مستحق ہوتى ہيں _كل ذلك كان سيّه عند ربك مكروها

آسمانى اديان :آسمانى اديان ميں ناپسنديدہ عمل ۵; آسمانى اديان ميں ہماہنگى ۵

احكام:فلسفہ احكام ۳

اخلاق:برے اخلاق كا ناپسنديدہ ہونا ۱

الله تعالى :الله تعالى كى نفرتيں ۱;اللہ تعالى كى نواہى ۳

انسان :انسان كا اختيار ۴; انسانوں كے كمال كى اہميت ۳

بچوں كا قتل:بچوں كے قتل كا ناپسنديدہ ہونا ۲

تربيت :تربيت ميں مؤثر اسباب ۳

تقليد :اندھى تقليد كا ناپسنديدہ ہونا ۶

تكبر:تكبر كى اقسام ۶;تكبر كا پسنديدہ ہونا ۶; تكبر كا ناپسنديدہ ہونا ۶

جبر واختيار : ۴

دين :دين كا فطرى ہونا ۷

زنا :زنا كا ناپسنديدہ ہونا ۲

شرك:شرك كا ناپسنديدہ ہونا ۲

عقيدہ :عقائد ميں انحراف پرناپسندى ۱

عمل :ناپسنديدہ عمل كا تحقق ۸;ناپسنديدہ عمل ۲، ۴ ; ناپسنديدہ عمل سے نہى ۳

فضول خرچى :فضول خرچى كا ناپسنديدہ ہونا ۲

قتل :ناحق قتل كى ناپسنديدگى ۲

والدين :والدين كى بے احترامى كا ناپسنديدہ ہونا ۲

يتيم :مال يتيم كے كھانے كا ناپسنديدہ ہونا ۲

۱۰۸

آیت ۳۹

( ذَلِكَ مِمَّا أَوْحَى إِلَيْكَ رَبُّكَ مِنَ الْحِكْمَةِ وَلاَ تَجْعَلْ مَعَ اللّهِ إِلَهاً آخَرَ فَتُلْقَى فِي جَهَنَّمَ مَلُوماً مَّدْحُوراً )

يہ وہ حكمت ہے جس كى وحى تمھارے پروردگار نے تمھارى طرف كى ہے اور خبردار خدا كے ساتھ كسى اور كو خدا نہ قرار دينا كہ جہنم ميں ملامت اور ذلّت كے ساتھ ڈال دئے جاؤ (۳۹)

۱_الله تعالى كے وہ تمام اوامراور نواہى جو پيغمبر(ص) كى طرف ابلاغ ہوئے وہ سب حكيمانہ احكام تھے_

ذلك ممّا ا وحى إليك ربّك من الحكمة

''ذلك'' كا مشاراليہ تمام اوامر اور نواہى كى مجموعى تعليمات ہيں جو كہ پچھلى چند آيات ميں آئي ہيں _

۲_توحيد كى طرف دعوت، الله تعالى كى پرستش، والدين كے ساتھ احسان، ان سے جھگڑا كرنے سے پرہيز ، والدين كے لئے دعا اور رشتہ داروں كے حقوق كو پورا كرنا يہ سب حكيمانہ تعليمات اور وحى الہى ہے _ذلك ممّا أوحى إليك ربّك من الحكمة

۳_پيغمبر اسلام (ص) پر حكيمانہ پيغامات كى وحى ان پرپروردگاركى خصوصى ربوبيت كا جلوہ ہے_

أوحى إليك ربك من الحكمة ''رب'' كا ''ك'' كى طرف اضافہ جس سے مراد رسول اكرم (ص) ہيں ہوسكتا ہے اسى معنى كو بيان كررہے ہوں كہ جسے بيان كيا گيا ہے_

۴_الله تعالى كى طرف سے بشر كے لئے حكميانہ تعليمات نازل ہونا اس كى ربوبيت كا تقاضا ہے_

ذلك مما أوحى إليك ربك من الحكمة

۵_الله تعالى كے احكام ،بشر كى تربيتى ضرورتوں پر الله تعالى كے علم وآگاہى پر استوار حقائق ہيں _

ذلك مما أوحى إليك ربك من الحكمة

''حكمت''كى اس وقت الله تعالى كى طرف نسبت دى جائے گى جب اس سے مراد الله تعالى كا اشياء كے بارے ميں علم اور انہيں نہايت محكم

۱۰۹

انداز سے وجود ميں لانا ہو_(مفردات راغب)

۶_الله تعالى كے ساتھ شرك سے اجتناب تمام بندوں پر شرعى ذمہ دارى ہے_ولاتجعل مع الله إلهاً ء اخر

۷_تمام دينى تعليمات ميں الله تعالى كى طرف شرك سے پرہيز ايك خاص اہميت كا حامل ہے_ولا تجعل مع الله إلهاً ا خر

مندرجہ بالا مطلب اس آيت''ولا تجعل مع الله إلهاً ا خر'' ميں نہى كے تكرار سے معلوم ہوتا ہے كہ ايك دفعہ آيت ميں نہى ان تمام اوامر اور نواہى كے آغاز ميں آيت ۲۲ ميں آئي تھى پھر ان كے بعد اس آيت ميں وہى حكم دوبارہ آيا ہے_

۸_تمام قسم كے انفرادي، خاندانى اور معاشرتى روابط پر شرك سے پرہيز اور توحيد كا اصول لاگو ہونا چاہئے_

ولا تجعل مع الله إلهاً ا خر

شرك سے ان دونوا ھى كے درميان تمام انفرادي، خاندانى اور معاشرتى تعليمات كا ہونا مندرجہ بالا حقيقت كو واضح كر رہا ہے_

۹_انسان، ہميشہ شرك ميں مبتلا ہونے كے خطرہ ميں ہے اور خبردار ہونے كا محتاج ہے_

لاتجعل مع الله إلهاً آء خر وقضى ربك ألا تعبدوا إلّا إياه لا تجعل مع الله إلهاً ا خر

ان تمام (۲۲_۳۸) آيات ميں كہ جہاں خاندان ومعاشرہ كے حوالے سے بحثيں ہوئي ہيں شرك سے پرہيز كى تاكيد اس نكتہ كو بيان كررہى ہے _ اس حوالے سے انسانوں كى لغزش كا احتمال زيادہ ہے اور ضرورى ہے اس پر توجہ دى جائے_

۱۰_اخلاقى اور معاشرتى اقدار كى رعايت صرف توحيد اور شرك سے دورى كے سائے تلے ممكن ہے _

ذلك مما أوحى إليك ربك من الحكمة ولا تجعل مع الله إلهاً ء اخر

شرك سے دو نواہى كے درميان اسلام كى تمام اخلاقى اور معاشرتى تعليمات كا آنا مندرجہ بالا نكتہ كو بيان كررہا ہے _

۱۱_جہنم كى آگ ،مشركوں كا يقينى انجام ہے _ولا تجعل مع الله إلهاً ا خر فتلقى فى جهنم

۱۲_ مشركين كا جہنم ميں ملامت كے ساتھ جھونكا جانا ان كى دھتكار اور ملامت ہے _فتلقى فى جهنم ملوماً مدحورا

''مدحوراً'' راندے ہوئے كو كہتے ہيں كہ جس ميں توہين اور ذلت كا بھى امتزاج ہے _

۱۳_مشركين جہنم ميں جسمى اور روحى عذاب ميں مبتلا ہونگے _فتلقى فى جهنم ملوماً مدحورا

''جہنم ميں ڈالا جانا '' جسمانى عذاب كو بيان كر رہا ہے جب كہ''ملوماً ومدحوراً'' مذمت اور راندہ ہونے كو بيان كر رہے ہيں كہ جو روحى عذاب ہے_

احسان :احسان كى طرف دعوت ۲

۱۱۰

اخلاق :اخلاقى اقدار كا پيش خيمہ ۱۰

اقدار:معاشرتى اقدار كا پيش خيمہ ۱۰

الله تعالى :الله تعالى كى حكمت ۱، ۲، ۴;اللہ تعالى كے اوامر ميں حكمت ۱;اللہ تعالى كى نواہى ميں حكمت ۱;اللہ تعالى كا علم غيب ۵;اللہ تعالى كى ربوبيت كى علامات ۳;الله تعالى كى ربوبيت كے نتائج ۴

انسان :انسانوں كى ذمہ دارياں ۶;انسانوں كى معنوى ضرورتيں ۹;انسانوں كى لغزشيں ۹

توحيد:توحيد كى حاكميت ۸;توحيد كى طرف دعوت ۲;توحيد كے نتائج ۱۰

جہنم :جہنم كے عذاب ۱۳

جہنمي:۱۱ ، ۱۳

خاندان :خاندانى تعلقات كا معيار ۸

دين :اہم ترين تعليمات دينى ۷; دينى تعليمات ۲، ۴;دين كى حقانيت ۵ ; دين اور تربيتى ضرورتيں ۵;دينى تعليمات ميں علم ۵

شرك:شرك سے اجتناب ۶;شرك سے اجتناب كى اہميت ۷;شرك كاپيش خيمہ ۹; شرك كا خطرہ ۹;شرك سے اجتناب كے نتائج ۱۰

ضرورتيں :خبردار كرنے كى ضرورت ۹

عبادت :عبادت كى طرف دعوت ۲

محمد (ص) :محمد (ص) كى طرف وحى ۱، ۳

مشركين :مشركين كا انجام ۱۱;مشركين كى تحقير ۱۲; مشركين كى سرزنش ۱۲; مشركين كا اخروى عذاب ۱۳; مشركين كا جسمى عذاب۱۳; مشركين كا روحى عذاب ۱۳;جہنم ميں مشركين ۱۱، ۱۲، ۱۳; مشركين كى ہلاكت ۱۲

معاشرتى روابط :معاشرتى روابط كا معيار ۸

والدين :والدين كى بے احترامى سے اجتناب ۲; والدين كے ساتھ احسان ۲;والدين كے لئے دعا كرنا ۲

وحي:وحى كى تعليمات ۲;وحى كا كردار ۳

۱۱۱

آیت ۴۰

( أَفَأَصْفَاكُمْ رَبُّكُم بِالْبَنِينَ وَاتَّخَذَ مِنَ الْمَلآئِكَةِ إِنَاثاً إِنَّكُمْ لَتَقُولُونَ قَوْلاً عَظِيماً )

كيا تمھارے پروردگار نے تم لوگوں كے لئے لڑكوں كو پسند كيا ہے اور اپنے لئے ملائكہ ميں سے لڑكياں بنائي ہيں يہ تم بہت بڑى بات كہہ رہے ہو(۴۰)

۱_ مشركين اس بات پر يقين ركھتے تھے كہ الله تعالى نے اپنے لئے ملائكہ ميں سے لڑكياں منتخب كيں _

ا فأصفكم ربّكم بالبنين واتّخذمن الملائكة إناثا

۲_مشركين اس بات پر يقين ركھتے تھے كہ الله تعالى لڑكے اور جنس مذكر كى نسبت لڑكيوں اور جنس مؤنث سے زيادہ محبت كرتاہے اور انہيں قابل قدر سمجھتا ہے _ا فأصفكم ربّكم بالبنين واتّخذمن الملائكة إناثا

يہ جو مشركين كہتے تھے كہ ''اللہ تعالى نے ملائكہ ميں سے اپنے لئے لڑكياں منتخب كيں '' ممكن ہے اس خاطر ہو كہ وہ سمجھتے تھے كہ الله تعالى نے جنس مؤنث سے محبت اور ميلان كى وجہ سے انہيں منتخب كيا ہے_

۳_مكہ كے مشركين كا اعتقاد تھا كہ ملائكہ كى جنس مؤنث ہے _واتخذمن الملائكة إناثا

۴_مشركين كى اس قبيح سوچ كے بر عكس كبھى الله تعالى نے ان كے لئے لڑكوں كو اور اپنے لئے لڑكيوں كو منتخب نہيں كيا _ا فأصفكم ربكم بالبنين واتخذ من الملائكة إناثا

آيت ميں استفہام انكارى مشركين كى سرزنش اور توبيح كے حوالے سے ہے _جو مندرجہ بالا مطلب كى طرف اشارہ ہے _

۵_الله تعالى كى ربوبيت سب لوگوں كے لئے ہے حتّى كہ جو اس پر اعتقاد نہيں ركھتے ان كے لئے بھى ہے_

ا فأصفكم ربّكم بالبنين

''رب'' كا ضمير ''كم '' كى طرف مضاف ہونا كہ اس سے مراد مشركين ہيں كہ جو الله كى ربوبيت كے قائل نہيں ہيں _ اس سے مندرجہ بالا نكتہ واضح ہوسكتا ہے_

۶_مشركين كى الله تعالى اور ملائكہ كے بارے ميں غلط عقائد كى بناء پر سرزنش اور ملامت كى گئي ہے _

ا فاصفكم ربّكم بالبنين واتّخذمن الملائكة إناثا

آيت ميں استفہام توبيخى ہے اور يہ مخاطبين يعنى مشركين كى سرزنش اور ملامت پر دلالت كر رہا ہے_

۱۱۲

۷_مشركين مكہ جنس مذكر كو عورت كى نسبت زيادہ قابل قدر واہميت سمجھتے تھے_

ا فأصفكم ربّكم بالبنين واتّخذمن الملائكة إناثا

كلمہ ''بنات'' (لڑكياں ) وغيرہ كى جگہ آيت ميں كلمہ ''اناث'' (عورتيں ) مندرجہ بالا مطلب كو واضح كر رہا ہے ہوسكتا ہے يہ حقيقت بھى بتا رہا ہو كہ مشركين نے ملائكہ كوعورتيں قراردے كرپروردگاركا ( نعو ذ بالله ) عيب بيان كرنا چاہتے ہوں اس سے ان كى عورت كے بارے ميں منفى ذہنيت واضح ہوتى ہے_

۸_قرآن مجيد كا مشركين كے عقائد سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان كے شرك آميز عقائد كى رد ميں ان سے مجادلہ كرنا _

ا فأصفكم ربّكم بالبنين واتّخذمن الملائكة إناثا

۹_الله تعالى كے لئے فرزند كا عقيدہ ركھنا ايك قسم كا شرك ہے_

ولا تجعل مع الله إلهإ خر ا فأصفكم ربّكم بالبنين واتّخذمن الملائكة إناثا

شرك كى نہى كے بعد مشركين كا الله تعالى كے حوالے سے فرزند كے عقيدہ كو سامنے لانا ہوسكتا ہے كہ شرك كے ايك مصداق كو بيان كرنے كے لئے ہو_

۱۰_مشركين كا اپنے بيٹے ہونے كے مدّ مقابل الله تعالى كے حوالے سے لڑكياں ركھنے كا عقيدہ ايك بڑى ناروا اور غير منطقى بات ہے _ا فأصفكم ربّكم بالبنين واتّخذمن الملائكة إناثاً انّكم لتقولون قولاً عظيما

۱۱_الله تعالى كے حوالے سے لڑكى ركھنے كا عقيدہ بہت بڑى ناروا تہمت ہے_

واتّخذمن الملائكة إناثإنّكم لتقولون قولاً عظيما

۱۲_فرشتوں كے لڑكى ہونے اور انہيں الله كى بيٹياں سمجھنے كا عقيدہ بہت بڑى تہمت اور غير يقينى بات ہے _

واتّخذمن الملائكة إناثإنّكم لتقولون قولاً عظيما

۱۳_ايسى چيزوں پر عقيدہ ركھنا انتہائي غلط اور ناروا ہے كہ جو مخالفين كو الله پر ترجيح دينے كا موجب بنتى ہيں _

ا فأصفكم إنكم لتقولون قولاً عظيما

۱۱۳

مشركين فرشتوں كو بعنوان الله كى بيٹياں منسوب كركے اور خود اپنے آپ كو بيٹوں والا عنوان ديكر اپنے آپ كو الله پر ترجيح دينا چاہتے تھے _ الله تعالى نے اس سوچ كى نفى كى اور اسے غلط قرار ديا_اس سے معلوم ہوا كہ ہر وہ چيز جسے الله تعالى پر ترجيح دى جائے وہ غلط اور ناپسنديدہ ہے_

اسماء وصفات:صفات جلال ۴

الله تعالى :الله تعالى اور بيٹى ۱، ۲، ۱۰، ۱۱;اللہ تعالى پر تہمت ۱۱، ۱۲ ; الله تعالى كى ربوبيت كى خصوصيات ۵; الله تعالى اور عورت ۲;اللہ تعالى كى ربوبيت كا عام ہونا ۵;اللہ تعالى اور فرزند ۴، ۹

تعلقات :عورت سے تعلق ۲

شرك:شرك كے موارد ۹

عقيدہ :الله تعالى كے بچے ہونے كے بارے ميں عقيدہ ۱، ۹، ۱۱ ;باطل عقيدہ ۱۳

قرآن:قرآن كى تعليمى روش ۸;قرآن كا مجادلہ ۸;قرآن كى شرك سے مخالفت ۸

مجادلہ:مجادلہ كى روش ۸

مشركين :مشركين كا باطل عقيدہ ۱، ۲، ۴، ۶، ۱۰;مشركين كى سرزنش ۶

مشركين مكہ:مشركين مكہ كى لڑكوں سے محبت ۷; مشركين مكہ كا عقيدہ ۳; مشركين مكہ سے مجادلہ ۸; مشركين مكہ كا نظريہ ۷

ملائكہ:ملائكہ پر تہمت ۱۲;ملائكہ كى جنس ۳;ملائكہ كے مؤنث ہونے كى رد ۱۲;ملائكہ كا مؤنث ہونا ۱،۳

موجودات :موجودات كى الله پر ترجيح ۱۳

آیت ۴۱

( وَلَقَدْ صَرَّفْنَا فِي هَـذَا القرآن لِيَذَّكَّرُواْ وَمَا يَزِيدُهُمْ إِلاَّ نُفُوراً )

اور ہم نے اس قرآن ميں سب كچھ طرح طرح سے بيان كرديا ہے كہ يہ لوگ عبرت حاصل كريں ليكن ان كى نفرت ہى ميں اضافہ ہو رہا ہے (۴۱)

۱_الله تعالى نے قرآن مجيد ميں اپنى آيات كو مختلف انداز ميں بيان كيا تا كہ مشركين متنبہ ہوجائيں _ولقد صرّفنا فى هذالقرآن ليذكّروا ''صرف'' سے لغت ميں مراد تبديلى ہے _ تو يہاں باب تفعيل كثرت پر دلالت كر رہا ہے _ لہذا يہاں مراد گوناگوں انداز سے بيان كرنا ہے_

۱۱۴

۲_گوناگوں انداز سے بات انسان پر اثر ڈالنے ميں اہم كردار ادا كرتى ہے_ولقد صرّفنا فى هذالقرآن ليذكّروا

يہ كہ الله تعالى نے فرمايا :''ہم نے مشركين كو تنبيہ كرنے كے لئے اپنى آيات كو گوناگوں انداز ميں بيان كيا '' اس سے معلوم ہوتا ہے كہ اس انداز سے بيان ايك اہم اثر ڈالتا ہے_

۳_قرآنى آيات ،انسانوں كى بيداري، تنبيہ اور نصےحت حاصل كرنے كے لئے ہيں _ولقد صرّفنا فى هذالقرآن ليذكّروا

۴_انسان ،ہميشہ نصيحت اور تنبيہ كا محتاج ہے يہاں تك كہ اپنے فطرى ميلانات ميں بھى _

ولقد صرّفنا فى هذالقرآن ليذكّرو مادّہ ''يذّكروا'' (نصےحت ليں ) ميں يہ نكتہ پوشيدہ ہے كہ نصيحت والى باتيں يوں انسان كى فہم اور درك ميں موجود ہيں كہ ان سے غافل ہوا جاسكتا ہے_

۵_مكہ كے كافر قرآن مجيد كى بيدار كرنے والى آيات سے يہى فائدہ ليتے تھے كہ اس سے نفرت كرتے تھے اور فرار كرتے تھے_

ولقد صرّفنا فى هذالقرآن ليذكّرواوما يزيدهم إلّا نفورا

۶_ہٹ دھرمى اور حق قبول نہ كرنے والى خصلت ہى حق كے واضح ترين دلائل كى غلط تفسير اور ان سے دورى كا موجب بنتى ہے _ولقد صرّفنا فى هذالقرآن ليذكّروا ومايزيدهم إلّا نفورا

پروردگار كا كلام حق بذات خود ان ميں نفرت نہيں پيدا كرتا بلكہ انكى سابقہ ہٹ دھرمى اور غلط رويّہ اس نفرت كا باعث بنتا ہے_

۷_مختلف ذہنوں كا بنا ہونا اور پہلے ہى سے فيصلہ كرنا حق قبول كرنے كى آفات ميں سے ہے اور حق سے دور ہونے كا سبب ہے_ولقد صرّفنا ومايزيدهم إلّا نفورا

پچھلى آيات ميں وضاحت ہوئي كہ مشركين الله تعالى سے بيٹى منسوب كركے تمسخر اڑانا چاہتے تھے تو يہ خصمانہ رويّہ تھا _ يہاں پروردگار فرما رہا ہے : الله تعالى كى فراوان آيات ان كى نفرت بڑھا رہى ہيں _ اس سے معلوم ہوتا ہے كہ ان كا سابقہ رويّہ باعث بنا كہ وہ حق كو قبول نہ كريں اور اس سے فرار كريں _

۸_قرآن مجيد كے نور وہدايت سے فائدہ اٹھانے كے لئے اچھى استعداد اور پہلے سى ہى قضاوت سے پرہيز ضر ورى ہے_

صرّفنا وما يزيدهم إلّا نفورا

۹_كفار اور مشركين مكہ كا قرآن سے يہ رويّہ علمى اور عقلى بنياد پر نہيں تھا بلكہ روحى اور نفسانى خواہشات كى وجہ سے تھا_

ولقد صرّفنا فى هذالقرآن ليذكّرواوما يزيدهم إلّا نفورا

۱۱۵

الله تعالى نے مشركين مكہ كے لئے اپنى گوناگوں آيات كا نتيجہ انكى نفرت كے عنوان سے بيان كيا _ اس سے معلوم ہوتا ہے كہ ان كا قران مجيد كے ساتھ روّيہ منطق كے بجائے نفسيات اور خواہشات نفسانى تھا _

۱۰_حق جتنا بھى روشن اورواضح ہو لازمى نہيں ہے كہ اسے سب قبول كريں _

ولقد صرّفنا فى هذالقرآن ليذكّرواوما يزيدهم إلّا نفورا

۱۱_حق كو پيش كرنا ضرورى ہے چاہے مد مقابل قبول نہ كرے_ولقد صرّفنا فى هذالقرآن ليذكّروا وما يزيدهم إلّا نفورا

يہ كہ الله تعالى فرما رہاہے كہ ہم نے اپنى آيات كو گوناگوں انداز ميں بيان كيا ہے ليكن انہوں نے قبول نہيں كيا معلوم ہوتا ہے كہ حق ہر صورت ميں بيان كرنا چاہئے اگر چہ سننے والے اور مخاطب حضرات اسے قبول نہ كريں _

آيات خدا:آيات خدا كا بيان كرنا ۱

استعداد:استعداد كا كردار ۸

انسان :انسان ميں اثر لينے كا پيش خيمہ ۲;انسان كى معنوى ضرورتيں ۴

بات :بات ميں تبديلى كے نتائج ۲

پہلے سے فيصلہ كرنا :پہلے سے فيصلہ كرنے سے پرہيز كى اہميت۸;پہلے سے فيصلہ كرنے كے نقصانات ۷

حق:حق قبول كرنے كى آفات ۷;حق قبول نہ كرنے كے اسباب ۷;حق بيان كى اہميت ۱۱;حق بيان كرنے كے نتائج ۱۰;حق قبول نہ كرنے كے نتائج ۶

درك كرنا :غلط درك كرنے كا باعث ۶

سب:سب كا حق قبول نہ كرنا ۱۰

شناخت :شناخت كى آفات ۶

ضرورتيں :نصيحت كى ضرورت ۴

عبرت :عبرت كے اسباب ۳

فطرت :فطرت كا متوجہ ہونا ۴

قرآن :قرآنى ہدايتوں كا پيش خيمہ۸;قرآنى خصوصيات ۱; قرآنى بيان كى روش ۱; قرآن كا كردار ۳; قرآنى بيان ميں مختلف انداز ۱;قرآن كے مخالف ۵، ۹

۱۱۶

كفار مكہ:كفار مكہ كا حق قبول نہ كرنا ۵;كفار مكہ كى خواہشات پرستى ۹;كفار مكہ كے رويہ كى روش ۹;كفار مكہ كا غير منطقى ہونا ۹;كفار مكہ اور قرآن ۵، ۹;كفار مكہ كا نفرت كرنا ۵

مشركين :مشركين كے نصيحت لينے كا پيش خيمہ ۱

مشركين مكہ:مشركين مكہ كى خواہش پرستى ۹;مشركين مكہ كے

رويّہ كى روش ۹;مشركين مكہ كا غير منطقى ہونا ۹;مشركين مكہ اور قرآن ۵ ، ۹

نصےحت :نصےحت كے اسباب ۳

ہٹ دھرمي:ہٹ دھرمى كے نتائج ۶

ہدايت :ہدايت قبول كرنے كا پيش خيمہ ۸

آیت ۴۲

( قُل لَّوْ كَانَ مَعَهُ آلِهَةٌ كَمَا يَقُولُونَ إِذاً لاَّبْتَغَوْاْ إِلَى ذِي الْعَرْشِ سَبِيلاً )

تو آپ كہہ ديجئے كہ ان كے كہنے كے مطابق اگر خدا كے ساتھ كچھ اور خدا بھى ہوتے تو اب تك صاحب عرش تك پہنچنے كى كوئي راہ نكال ليتے (۴۲)

۱_پيغمبر اسلام (ص) ، توحيد كے اثبات اور شرك كى نفى ميں مشركين تك الله تعالى كے احكام پہنچانے ميں ذمہ دارہيں _

قل لو كان معه ء الهة كما يقولون إذاً لابتغوإلى ذى العرش سبيلا

۲_پيغمبر اسلام (ص) مشركين پر يہ اعلان كرنے كے ذمہ دار ہيں كہ اگر الله تعالى كے ساتھ كوئي اور خداہوتے

تو وہ عرش كا كنٹرول لينے كے لئے كوئي چارہ سوچتے اور وسيلہ فراہم كرتے_

قل لوكان معه ا لهة كما يقولون إذاً لابتغوا إلى ذى العرش سبيلا

۳_مشركين مكہ پروردگارعالم كے ساتھ ساتھ متعدد ديگر خدائوں كے بھى قائل تھے_لوكان معه ا لهة كما يقولون

۴_متعدد خدائوں كا وجود دنياكى قدرت وحاكميت كے حصول كے لئے رقابت اور جھگڑے كا موجب ہوتا_

قل لوكان معه ا لهة كما يقولون إذاً لابتغوا إلى ذى العرش سبيلا

چونكہ خدائي جہان پر قدرت وحاكميت كا مظہر ہے اور چند خدائوں كے وجود كا مطلب چند قدرت وحاكميت ہے اور يہ چيز يقينا انكے درميان جہان كى قدرت وحاكميت ميں رقابت كا باعث بنتي_

۱۱۷

۵_مخلوقات كى دنياپر الله تعالى تنہا قدرت اور حاكم ہے_قل ...لابتغوا إلى ذى العرش سبيلًا

۶_نظم، كائنات كا نظام اور اس پر ايك قدرت كى حاكميت الله تعالى كى وحدانيت پر دليل ہے_

قل لوكان معه ا لهة كما يقولون إذاً لابتغوا إلى ذى العرش سبيلا

يہ مطلب آيت ميں موجود برہان خلف سے واضح ہوتا ہے كہ اگر متعدد خدا موجود ہوتے تو يقينا قدرت كے كنڑول كے لئے جھگڑا كرتے اور اس جھگڑے كے اثرات معلوم ہوتے چونكہ ايسے اثرات اور نتائج نظر نہيں آرہے گويا جھگڑا ہى نہيں ہے چونكہ جھگڑا ہى نہيں ہے پس الله تعالى واحد ہے_

۷_عرش، جہان پر الله تعالى كى قدرت، حاكميت اور تقدير كا سب سے بڑا مركز ہے_لوكان معه إذاً لابتغوإلى ذى العرش سبيلا

۸_پروردگار صاحب عرش كے علاوہ اگر جہان ميں دوسرے خدا بھى ہوتے تو سب كے سب الله تعالى كے قرب اور بندگى كى راہ كى تلاش ميں ہوتے_لوكان معه إذاً لابتغوا إلى ذى العرش سبيلا

مندرجہ بالا مطلب كى بنياد يہ ہے كہ يہاں الله تعالى كى طرف راہ ڈھونڈنے سے مراد جھگڑا كرنا نہ ہو بلكہ اس كا تقرب ہو _ آيت ۴۴ ميں كيا جا رہا ہے كہ كائنات كے تمام موجودات اور مخلوقات الله تعالى كى تسبيح كر رہے ہيں ليكن تم اسے درك نہيں كر رہے ہو_ يہ بھى اسى نكتہ پر ايك قرينہ ہے_

۹_كائنات ميں متعدد خدائوں كا وجود محال ہے_لوكان معه إذاً لابتغوا إلى ذى العرش سبيلا

خدائوں كى كثرت قدرت كى كثرت اور جھگڑے كا موجب ہے اور يہ جھگڑا كائنات كے نظم سے سازگار نہيں ہے _ لہذا اگر متعدد خدا فرض كريں تو كائنات ميں نظم رہنا محال ہے اور يہ احتمال كہ ''لوكان '' ميں ''لو'' امتناعيہ ہے مندرجہ بالا حقيقت كى تائيد كررہا ہے_

۱۰_خدائے واحد كى مخصوص صفات ميں سے ''ذى العرش'' ہے _قل لوكان معه ا لهة كما يقولون إذاً لابتغوا إلى ذى العرش سبيلا

۱۱_حكومت وحاكميت كا لامحدود ہونا خدائي اور الوہيت ہونے كالازمہ ہے _

قل لوكان معه إذاً لا تبغوا إلى ذى العرش سبيلا

۱۱۸

۱۲_كائنات كا مركز حكومت اپنے تسلط ميں ركھنا (صاحب عرش ہونا ) ايك جدا نہ ہونے والى لازم صفت الہى ہے_

إذاً لا بتغوا إلى ذى العرش سبيلا

يہ كہ الله تعالى فرما رہا ہے اگر اور خداہوتے تو صاحب عرش تك پہنچنے كے لئے راہ اور وسيلہ ڈھونڈتے _ معلوم ہوتا ہے كہ خدا كے لئے عرش ضرورى ہے اور يہ اس سے كبھى بھى جدا نہيں ہوسكتا_

۱۳_كائنات ميں نظم قائم رہنا صرف ايك قدرت كے سائے تلے ممكن ہے _

قل لوكان معه ا لهة كما يقولون إذاً لابتغوا إلى ذى العرش سبيلا

اس آيت كا اصلى پيغام ''برھان نظم'' ہے كہ جو جہان ميں موجود ہے _ يعنى قدرت كا متعدد ہونا جہان ميں موجود نظم كے ساتھ سازگار نہيں ہے_

آنحضرت (ص) :آنحضرت (ص) كى تبليغ ۱;آنحضرت (ص) كى ذمہ دارى ۲;آنحضرت (ص) كى رسالت ۱; آنحضرت (ص) اور مكہ كے مشركين ۱، ۳

اسماء صفات :صاحب عرش كے اسماء و صفات ۱۰

الله تعالى :الله تعالى كى حاكميت ۵;اللہ تعالى كے ساتھ خاص ۵، ۱۰;اللہ تعالى كى قدرت ۵;اللہ تعالى كى حاكميت كا مركز

الوہيت:الوہيت كا معيار ۱۱، ۱۲

باطل معبود:باطل معبودوں كا تقرب ۸;باطل معبودوں كى عبوديت ۸;باطل معبودوں اور عرش ۲

برہان تمانع : ۴بل

برھان نظم : ۶

توحيد:توحید افعالى كے اثرات ۱۳;توحید كى تبليغ ۱; توحید افعالى ۵;توحيد كے دلائل ۴، ۶

شرك :شرك كى رد ۱

عرش:عرش پر حاكميت ۱۲;عرش كا كردار ۷

مشركين مكہ:مشركين مكہ كا باطل عقيدہ ۳;مشركين مكہ كا شرك ۳

معبود:معبود كى كثرت كا بطلان ۹;معبود كى كثرت كا نقصان ۴;معبود كى حاكميت كا وسيع ہونا ۱۱

معبوديت :

۱۱۹

معبوديت كا معيار ۱۱

موجودات :موجودات ميں نظم كے اسباب ۱۲;موجودات

كى حاكميت ۵، ۶، ۱۲;موجودات كا نظم ۶

نظريہ كائنات :نظريہ كائنات توحید ى ۵

آیت ۴۳

( سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى عَمَّا يَقُولُونَ عُلُوّاً كَبِيراً )

وہ پاك اور بے نياز ہے اور انكى باتوں سے بہت زيادہ بلند و بالا ہے (۴۳)

۱_الله تعالى اپنا شريك ركھنے سے بہت زيادہ پاك اور برتر ہے _سبحانه وتعالى عمّا يقولون علوَّا كبيرا

۲_الله تعالى كى عظمت ان فضول خےالوں سے بہت بلند اورعظےم ہے كہ جو مشركين اس كے بارے ميں ركھتے ہيں _

سبحانه وتعالى عمّا يقولون علوَّا كبيرا

۳_ خداوند عالم اس سے بلند و بالا ترہے كہ اس كى طرف كسى فرزند كى نسبت دى جائے_

ا فأصفكم ربّكم بالبنين واتخذ من الملائكة إناثاً سبحانه وتعالى عمّا يقولون علوَّا كبيرا

۴_ہر قسم كا شرك الله تعالى كے بلند مقام كو كم كرنے كا موجب ہے _قل لو كان معه إلهة سبحانه وتعالى عمّا يقولون علوَّا كبيرا

اسماء وصفات:صفات جلال ۱ ، ۳

الله تعالى :الله تعالى اور فرزند۳;اللہ تعالى كا بے نظير ہونا ۱;اللہ تعالى اور شريك ۱;اللہ تعالى كا علوّ ۱، ۲، ۳; الله تعالى كا منزہ ہونا ۱، ۲ ، ۳

الوہيت :الوہيت كے مقام كو كم كرنا ۴

شرك:شرك كے اثرات ۴

مشركين :مشركين كا باطل عقيدہ ۲

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809

810

811

812

813

814

815

816

817

818

819

820

821

822

823

824

825

826

827

828

829

830

831

832

833

834

835

836

837

838

839

840

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863

864

865

866

867

868

869

870

871

872

873

874

875

876

877

878

879

880

881

882

883

884

885

886

887

888

889

890

891

892

893

894

895

896

897

898

899

900

901

902

903

904

905

906

907

908

909

910

911

912

913

914

915

916

917

918

919

920

921

922

923

924

925

926

927

928

929

930

931

932

933

934

935

936

937

938

939

940

941

942

943

944

945