تفسير راہنما جلد ۱۰

تفسير راہنما 8%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 945

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 945 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 247242 / ڈاؤنلوڈ: 3404
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱۰

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

آنحضرت (ص) :آنحضرت (ص) كا انفاق ۱۲;آنحضرت (ص) كى ذمہ دارى ۴

استعمال :استعمال كے آداب ۱،;استعمال ميں اعتدال ۱

اعتدال :اعتدال كى اہميت ۱

افراط وتفريط :افراط وتفريط سے اجتناب كى اہميت ۷

انسان :انسان كى ذمہ دارى ۸،انسان كى طبيعت۹

انفاق :انفاق كے آداب ۱، ۴; انفاق ميں اعتدال ۱، ۴;انفاق كى روش ۱۲;انفاق ميں افراط كے نتائج ۵،۶

اہم ومہم : ۵

بخل:بخل سے اجتناب ۲;بخل كے نتائج ۶

حسرت:حسرت كے اسباب ۶;حسرت كا پيش خيمہ ۸; حسرت كا پسند ہونا ۹

دورانديشي:دورانديشى كى اہميت ۱۱

ذكر:ناپسنديدہ عمل كے انجام كے ذكر كے نتائج ۱۰

رشتہ دار:رشتہ دار كے حقوق كى ادائيگى ۲

روايت : ۱۲، ۱۳، ۱۴

زندگي:زندگى ميں تدبير كى اہميت ۱۱

عمل :ناپسنديدہ عمل سے اجتناب ۸;ناپسنديدہ عمل ۷; ناپسنديدہ عمل كے موانع ۱۰

فقرائ:فقراء كے حقوق كى ادائيگى ۲

قرانى تشبيہات :بخيل لوگوں كى تشبيہ ۳;گردن سے ہاتھ بندھے لوگوں كى تشبيہ ۳

مؤمنين :مؤمنين كى ذمہ دارى ۱، ۲

محسور:محسور كامفہوم ۱۳، ۱۴

معاش:معاش كو پورا كرنے ميں اعتدال كى اہميت۷

۸۱

آیت ۳۰

( إِنَّ رَبَّكَ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَن يَشَاءُ وَيَقْدِرُ إِنَّهُ كَانَ بِعِبَادِهِ خَبِيراً بَصِيراً )

تمہارا پروردگار جس كے لئے چاہتاہے رزق كو وسيع يا تنگ بنا ديتاہے وہ اپنے بندوں كے حالات كو خوب جاننے والا اور ديكھنے والا ہے(۳۰)

۱_انسانوں كے رزق ميں كمى وبيشى فقط پروردگار كى مرضى ومنشاء پر موقوف ہے_إنّ ربّك يبسط الرزق لمن يشاء ويقدر

''يقدر'' سے مراد اگر چہ اندازہ ہے ليكن قرينہ ''يبسط'' (وسعت ديتا ہے) كى وجہ سے اس كا معنى كم كرنا، ہے _

۲_انسانوں كے لئے الہى رزق اس كى ربوبيت اور خدائي كاجلوہ ہے _إنّ ربّك يبسط الرزق

۳_لوگوں كے لئے روزى ميں فرق،پروردگار كى ربوبيت كا تقاضا ہے _إنّ ربك يبسط الرزق لمن يشاء ويقدر

۴_انسانوں ميں روزى كا فرق انكى پرورش اور ترقى كے حوالے سے ايك الہى تدبير ہے_إنّ ربّك يبسط الرزق لمن يشاء ويقدر ''يبسط'' اور ''يقدر'' كے حوالے سے ربوبيت

الہى كى تاكيد سے معلوم ہوتا ہے كہ اس كمى وبيشى كا سرچشمہ اس كى ربوبيت ہے (تاكہ زندگى كى گاڑى چلے اور تمام انسان اسى فرق كے حوالے سے امتحان ديں اور ترقى كريں )

۵_انسانوں كى اپنى روزى ميں الله تعالى كى مشيت اور تقدير كے كردار پر توجہ اپنے مال ومتاع سے انفاق ميں افراط اور بخل كے اجتناب كا موجب بنى ہے_ولاتجعل يدك مغلولة إلى عنقك إنّ ربك يسبط الرزق لمن يشائ

جملہ ''إنّ ربّك '' در اصل جملہ''ولا تجعل يدك ...'' كى علت بيان كر رہا ہے تو اس صورت ميں آيت كا مفہوم يہ ہوگا_ الله تعالى روزى دينے والا ہے _ لہذافقر كے خوف سے بخل كيا جائے اور نہ انفاق سے دورى كى جائے_

۶_الله تعالى اپنے بندوں كے حالات سے مكمل طور پر آگاہ ہے اور ہر حوالے سے آگاہى ركھتا ہے_

إنّه كان بعباده خبيراً بصيرا

۸۲

۷_انسانوں كى روزى ميں فرق الله تعالى كى انسانوں كے بارے ميں گہرى آگاہى كى بناء پر ہے _

يبسط الرزق و يقدر إنه كان بعباده خبيراً بصيرا

۸_الله تعالى كى مشيت كا دارومدار علم وآگاہى كى بنياد پر ہے _يبسط الرزق لمن يشاء ويقدر إنه كان بعباده خبيراً بصيرا

اسماء وصفات :بصير ۶; خبير ۶

الله تعالى :الله تعالى كى تقديريں ۳;اللہ تعالى كا علم ۷ ، ۸; الله تعالى كا علم غيب ۶;اللہ تعالى كى ربوبيت كى علامتيں ۲;اللہ تعالى كى مشيت كا قانون كے مطابق ہونا ۸; الله تعالى كى تقديروں كا كردار ۱، ۵;اللہ تعالى كى مشيت كا كردار ۵;اللہ تعالى كى ربوبيت كے نتائج ۳، ۴; الله تعالى كى مشيت كےنتائج ۱

انسان :انسانوں كى روزى اور تقدير ۵;انسانوں كى روزى ۲، ۳، ۴، ۷;انسانوں كى روزى ميں اختلاف كا قانون كے مطابق ہونا ۷

انفاق :انفاق ميں افراط سے بچنے كا پيش خيمہ ۵

بخل:بخل سے بچنے كا پيش خيمہ ۵

ذكر:الله تعالى كى ربوبيت كا ذكر كرنے كے نتائج۵;روزى كے سرچشمہ ى ذكر ۵

روزي:روزى ميں اختلاف كا فلسفہ ۴;روزى ميں اضافہ كا منشاء ۱;روزى ميں اختلاف كا منشاء ۳;روزى ميں نقصان كا منشاء ۱

كمال:كمال كا پيش خيمہ ۴

۸۳

آیت ۳۱

( تَقْتُلُواْ أَوْلادَكُمْ خَشْيَةَ إِمْلاقٍ نَّحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَإِيَّاكُم إنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْءاً كَبِيراً )

اور خبر دار اپنى اولاد كو فاقہ كے خوف سے قتل نہ كرنا كہ ہم انہيں بھى رزق ديتے ہيں اور تمہيں بھى رزق ديتے ہيں بيشك ان كا قتل كردينا بہت بڑا گناہ ہے(۳۱)

۱_اولاد كو فقر اور تنگدستى كے خوف سے قتل كرنا ممنوع اور حرام ہے_ولا تقتلوا أولادكم خشية إملاق:

۲_فقر اور نادارى كا خوف جاہل عربوں كے ہاتھوں اپنى اولاد كے قتل كرنے كا موجب بنا _ولا تقتلوا أولاد كم خشية أملاق

۳_فقر اور تنگدستى انسان كے ضمير كو كمزور كرنے ميں اور اولاد سے محبت كرنے جيسے قوى ترين احساسات كو ختم كرنے ميں تاثير گذارہے _ولا تقتلوا أولاد كم خشية إملاق

۴_اس بناء پر بچوں كن نقل كرنا كہ ان كى وجہ سے كس تنگدستى ميں نہ گھر جائيں ممنوع ،حرام اور برے نتائج كا حامل ہے _

مندرجہ بالا مطلب كى بناء يہ ہے كہ ''املاق'' سے مراد ماں باپ كا اپنے اور بچوں كے بارے ميں فقر كا خوف ہے_

۵_فقر اور تنگدستى كا خوف، اولاد كے قتل كا جواز فراہم نہيں كرتا _ولا تقتلوا أولادكم خشية إملاق

۶_ضرر اور نقصان كے محض خوف كى بناء پر اس سے بچنے كے لئے گناہ اور برائي جائز نہيں ہوتى _

ولا تقتلوا أولادكم خشية إملاق

۷_تمام انسانوں (والدين اور انكے بچوں ) كى روزى كا ضامن الله تعالى ہے _نحن نرزقهم وايّاكم _

۸_الله تعالى كى طرف سے تمام لوگوں كى روزى كى ضمانت كى طرف توجہ ،اپنے يا بچوں كے مستقبل ميں فقر كے خوف سے مانع ہے _ولا تقتلوا أولادكم خشية إملاق نحن نرزقهم وإيّاكم

۹_والدين خود كو اولاد كا رازق تصور نہ كريں _نحن نرزقهم وإيّاكم

فقر كے خوف سے بچوں كے قتل سے پرہيز كا حكم اور يہ اعلان كہ الله تعالى والدين اور بچوں كو روزى دينے والا ہے _ يہ دونوں چيزيں مندرجہ بالا مطلب كو واضح كررہى ہيں _

۸۴

۱۰_بچوں كا ہونا فقر اور تنگدستى كا موجب نہيں ہے_ولا تقتلوا ا ولادكم خشية أملاق نحن نرزقهم وايّاكم

آيت سے معلوم ہوتا ہے كہ ہر انسان كى اپنى روزى ہے ايسا نہيں ہے كہ ايك كے آنے سے دوسرے كى روزى كم پڑجائے _ لہذا اگر فقر ہے تو اس كے كچھ اور كوئي اور اسباب ہيں نہ كہ بچوں كا وجود _

۱۱_توحيد كے عقيدے ميں بشريت كى آيندہ مادى زندگى اور اقتصادى حوالے سے پريشانى اور اضطراب كى كوئي گنجائش نہيں ہے_ولاتقتلوا نحن نرزقهم وايّاكم

يہ كہ الله تعالى بچوں كے فقر كے خوف سے قتل كو ممنوع كرنے كے بعد تمام انسانوں كى روزى كى اپنى طرف سے ضمانت ديتا ہے _ اس سے معلوم ہوتا ہے كہ مستقبل ميں اقتصادى وضعيت كے حوالے سے پريشانى كى ضرورت نہيں ہے _

۱۲_بچوں كا قتل بہت بڑى خطا اور جنايت ہے كہ اسے تمام زمانوں ميں اور گزشتہ صديوں ميں مذموم جاناگيا ہے_

إن قتلهم كان خطئاً كبيرا

''خطئاً'' كا لغوى معنى ''اصلى اور حقيقى جہت سے پھرنا'' ہے اور يہ كلمہ وہاں استعمال ہوتا ہے جب كوئي شخص غلط كام كرنے پر ارادہ كرلے اور اسے انجام دے _ (مفردات راغب)

۱۳_عن أبى جعفر قال بعث الله محمداً(ص) و ا نزل عليه فى سورة بنى إسرائيل بمكة وا نزل نهياً عن ا شياء حذر عليها ولم يغلظ فيها ولم يتواعد عليها وقال: ''ولا تقتلوا ا ولادكم خشية إملاق نحن نرزقهم وإيّاكم إن قتلهم كان خطئاً كبيراً (۱)

امام محمد باقر(ع) سے روايت ہوئي كہ آپ (ع) نے فرمايا : الله تعالى نے حضرت محمد(ص) كو مبعوث فرمايا ان پر مكہ ميں سورہ بنى إسرائيل كى آيات نازل فرمائيں كہ (ان آيات ميں ) ايسى چيزوں سے منع فرمايا كہ جن سے پرہيز كرنا لازم ہے _ ليكن اس منع كرنے ميں سختى اور شدت نہيں ہے اور نہ ان كے ارتكاب پر وعدہ عذاب ديا گيا ہے_ فرمايا ہے كہ''ولا تقتلوا أولادكم خشية إملاق نحن نرزقهم وإيّاكم إن قتلهم كان خطائً كبيراً'' _

احساسات :احساسات كو ضعيف كرنے والے اسباب ۳احكام: ۱، ۴، ۵

اقتصاد :مستقبل كے اقتصاد كے بارے ميں پريشانى ۱۱

____________________

۱) كافى ج ۲، ص ۳۰، ح ۱_بحارالانوار ج۶۶، ص ۸۷ ، ح ۳۰_

۸۵

الله تعالى :الله تعالى كى رازقيت ۷;اللہ تعالى ممنوعات ۱۳

ايمان :توحيد كے ساتھ ايمان كے نتائج ۱۱

تعلقات :فرزند كے ساتھ تعلق ۳

جاہليت :جاہليت ميں بچوں كا قتل ۲;جاہليت كى رسوم ۲

خوف:فقر سے خوف ۵ ;نقصان سے خوف ;فقر سے خوف كے موانع ۸;خوف كے نتائج ۶;فقر سے خوف كے نتائج ۶، ۲

ذكر:روزى كى ضمانت كے ذكر كے نتائج ۸

روايت : ۱۳/روزي:روزى كا ضامن ۷

فرزند:فرزند كا كردار ۱۰;فرزند كى روزى كا سرچشمہ ۹فرزند كا قتل :فرزند كے قتل كا جرم ۱۲;فرزند كے قتل كى حرمت ۱،۴;فرزند كے قتل پر سرزنش ۱۲ ; تاريخ ميں فرزند كا قتل ۱۲;فقر ميں فرزند كا قتل ۱، ۴، ۵; فرزند كے قتل سے نہى ۱۳

فقر:فقر كے اسباب ۱۰ ;فقر كے نتائج ۳، ۵

قتل :قتل كے احكام ۱، ۴، ۵

گناہ كبيرہ :۱۲ممنوعات :۱، ۴

نقصان:نقصان سے بچنا ۶

والدين :والدين كى ذمہ دارى ۹

وجدان :وجدان كو كمزور كرنے كے اسباب ۳

آیت ۳۲

( وَلاَ تَقْرَبُواْ الزِّنَى إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَسَاء سَبِيلاً )

اور ديكھو زنا كے قريب بھى نہ جانا كہ يہ بدكارى ہے اور بہت برا راستہ ہے (۳۲)

۱_زنا ممنوع اور حرام ہے _ولا تقربوا الزّنى

۲_ہر وہ كام كہ جوانسان كو زنا كے قريب لے جاتا ہے اس سے بچنا لازم اور واجب ہے_ولا تقربوالزّنى

يہ كہ الله تعالى نے ''لا تزنوا'' (يعنى زنا نہ كريں ) كى جگہ فرمايا ہے:''لا تقربوا الزّني'' (زنا ے قريب نہ ہوں ) ہوسكتا ہے اس نكتہ

۸۶

كى طرف توجہ دلا رہا ہو نہ كہ صرف عمل زنا ممنوع ہے بلكہ ہر وہ عمل جو زنا پر ختم ہوچونكہ وہ بدكارى كى طرف لے جانے والا عمل ہے اس سے پرہيز كرنا چاہئے_

۳_فحاشى ،بہت قبيح اور برے انجام والے گناہوں ميں مبتلاء كرنے والے عمل سے انسان كا اجتناب _

ولاتقربوا الزّنى إنه كان فاحشة وساء سبيلا

جملہ ''إنہ كان فاحشة و ...'' جملہ ''لا تقربوا'' كى علت بيان كر رہا ہے يعنى چونكہ زنا فحاشى اور برے انجام والا عمل ہے اسى ليے اس سے بچنا ضرورى ہے _ لہذا ہر فحاشى اور وہ گناہ كہ جس كا انجام برا ہو اس سے پرہيز كرناچايئے

۴_اپنے جنسى جذبات كى تسكين كے لئے زنا انتہائي قبيح وپليد عمل ہے اور باطل راستہ ہے _إنه كان فاحشة وساء سبيلا

''فاحشة'' اس بات اور عمل كو كہتے ہيں كہ جسكى قباحت بہت زيادہ ہو _(مفردات راغب)_

۵_اسلام سے قبل زمانہ جاہليت ميں عربوں ميں زنا معمول كے مطابق رائج عمل تھا _

ولا تقربوا الزّنى إنه كان فاحشة وساء سبيلا

۶_پورى تاريخ ميں انسانوں كے ضمير ميں زنا كى قباحت وپليدگى موجود ہے _إنه كان فاحشة وساء سبيلا

جملہ اسميہ ''انہ كان فاحشة وساء سبيلاً''سے ہميشہ اور ثابت رہنے والے معنى پر دلالت ہو رہى ہے اور ساتھ يہ الہى نہى''لاتقربوا الزّني'' كے لئے بھى علت ہے _اس علت سے لا تقربوا كے عمل كے ليے لوگوں كو ابھارنا ہے اور يہ بات اس وقت مؤثر ہے جب لوگ بذات خود زنا كى قباحت كو سمجھيں اور علت كا اطلاق يہ واضع كر رہا ہے كہ زنا لوگوں كے درميان قبيح تھا

۷_زنا جيسے غير مناسب عمل كا فرد ومعاشرہ كے لئے برا اور ناگوار انجام _وساء سبيلا

برى راہوں ميں سے ايك راہ ايسى ہے كہ جو برے انجام پر ختم ہوتى ہے _ لہذا ''ساء سبيلا'' اس معنى كو بيان كررہا ہے كہ زنا ،نہ فقط فحش عمل ہے بلكہ ايسا برا راستہ ہے كہ جس كا انجام فرد ومعاشرہ كے لئے بھى برا ہے_

۸_دين كے محرمات اور ممنوعات كى بنياد يہ ہے كہ انسان سے مفاسد كو دور كياجائے _إنه كان فاحشة وساء سبيلا

حرام شدہ عمل كى علتيں اور مفاسد بيان كرنا اس نكتہ كو واضح كر رہے ہيں كہ الله تعالى كے ممنوعات اور محرمات مفاسد كے تابع ہيں _

۹_زنا كى بدى اور قباحت اور جنسى خواہشات كو مٹانے كے لئے اس كا ايك برا طريقہ ہونا اس كى حرمت كا ملاك ہے _

۸۷

ولا تقربوا الزّنى إنه كا فاحشة وساء سبيلا

جملہ ''إنہ كان فاحشة وساء سبيلا'' نہى كے لئے علت كى مانند ہے اور ممكن ہے مندرجہ بالا مطلب واضح كرے _

۱۰_ناپسنديدہ عمل كے برے اثرات سے آگاہ كرنا اور اس سے دوررہنے يعنى جدائي كى نہى كرنا قرآن كى تبليغى وہدايتى روشوں ميں سے ايك روش ہے_ولا تقربوا الزّنى إنه كان فاحشة وساء سبيلا

۱۱_عن ا بى جعفر (ع) ، قال: بعث الله محمداً(ص) و ا نزل عليه فى سورة بنى إسرائيل بمكة وا نزل نهياً عن اشياء حذر عليها ولم يغلظ فيها ولم يتواعد عليها وقال: ''ولا تقربوا الزنا انه كان فاحشة وساء سبيلاً ...'' (۱)

امام باقر (ع) سے روايت ہوئي كہ آپ (ع) نے فرمايا: الله تعالى نے حضرت محمد(ص) كو مبعوث فرمايا اور ان پر سورہ بنى إسرائيل كى آيات مكہ ميں نازل كيں ...(كہ ان آيات ميں )ايسى چيزيں ہيں كہ جن سے پرہيز لازم ہے_ ليكن ان ممنوعات ميں سختى وشدت نہيں ہے اوران كے ارتكاب پر عذاب كا وعدہ نہيں كيااور فرمايا:''ولا تقربوا الزنا إنه كان فاحشة وساء سبيلاً'' _

۱۲_عن ا بى جعفر (ع) فى قوله :''ولا تقربوا الزنا إنه كان فاحشة '' يقول : معصية ومقتاً فإن الله يمقته ويبغضه قال: وساء سبيلاً هو أشدالناس عذاباً والزنا من ا كبر الكبائر (۲)

امام باقر (ع) اس آيت''ولا تقربوا الزنا انه كان فاحشة '' كے بارے ميں فرماتے ہيں كہ الله تعالى فرما رہا ہے : ''زنا''گناہ اور نفرت انگيز ہے'' كيونكہ بہت زيادہ الله تعالى اس سے اظہار نفرت وغضب كرتا ہے( اور اس آيت ) ''ساء سبيلا'' كے بارے ميں فرماتا ہے:زنا كار كا عذاب سب سے زيادہ شديد ہے اور سب سے بڑے گناہوں ميں سے ہے_

احكام:احكام ۱، ۲احكام كا فلسفہ :۸، ۹

الله تعالى :الله تعالى كے ممنوعات ۱۱

انسان :انسان كى فطرت ۶/تبليغ:تبليغ كى روش ۱۰/جاہليت :جاہليت كى رسوم ۵;جاہليت ميں زنا ۵

جنسى انحراف :جنسى انحراف كے موارد ۴، ۹جنسى خواہشات:

____________________

۱) كافى ج۲، ص ۳۰، ح ۱_ بحارالانوار ج ۶۶، ص ۸۷ ، ح۳۰_

۲) نورالثقلين ج ۳، ص ۱۶۱، ح ۱۸۸_ بحارالانوار ج ۷۶، ص ۱۹، ح ۵_

۸۸

جنسى خواہشات كو مٹانا ۴

دين :دينى تعليمات ۸

روايت : ۱۱ ، ۱۲

زنا:زنا كے احكام ۱، ۲;زنا ميں مبتلا كرنے والى چيزوں سے اجتناب ۲;زنا كا برا انجام۷;زناكى بدى ۴،۶;زنا كى حرمت ۱;زنا كى بدى كا فطرى ہونا ۶;زنا كى حرمت كا فلسفہ ۹;زنا كا گناہ ۱۲ ;زنا كى بدى كے نتائج ۹;زنا كا فردى نقصان ۷ ; زنا كا معاشرتى نقصان ۷;زناسے ۱۱

عمل :ناپسنديدہ عمل ۷;ناپسنديدہ عمل كا نقصان ۱۰

برائياں :برائي سے اجتناب كى اہميت ۳

قرآن مجيد:قرآن مجيد كا ہدايت دينا ۱۰

گناہ :گناہ سے اجتناب كى اہميت ۳; گناہ ميں مبتلا كرنے والى چيزوں سے اجتناب كى اہميت ۳

گناہ كبيرہ: ۱۲

حرام اشياء : ۱

حرام چيزوں كا معيار ۹

مفسدات:مفسدات كو دور كرنے كى اہميت ۸

معاشرہ:معاشرہ كے لئے خطرات كو جاننا ۷

واجبات : ۲ہدايت:ہدايت كى روش ۱۰

آیت ۳۳

( وَلاَ تَقْتُلُواْ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللّهُ إِلاَّ بِالحَقِّ وَمَن قُتِلَ مَظْلُوماً فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِيِّهِ سُلْطَاناً فَلاَ يُسْرِف فِّي الْقَتْلِ إِنَّهُ كَانَ مَنْصُوراً )

اور كسى نفس كو جس كو خدا نے محترم بناياہے بغير حق كے قتل بھى نہ كرنا كہ جو مظلوم قتل ہوتاہے ہم اس كے دلى كو بدلہ كا اختيار دے ديتے ہيں ليكن اسے بھى چاہئے كہ قتل ميں حد سے آگے نہ بڑھ جائے كہ اس كى بہر حال مدد كى جائے گي(۳۳)

۱_بے گناہ اور بے قصور شخص كا قتل ممنوع اور حرام ہے_ولا تقتلوالنفس التى حرّم الله _

۸۹

۲_بعض انسانوں كى جان محترم نہيں ہے _ لہذا انہيں قتل كياجاسكتا ہے_ولا تقتلوا النفس التى حرّم الله إلّا بالحقّ

۳_ چند وضاحت شدہ مقامات كے علاوہ باقى تمام حقوق اور قوانين الہى ميں قتل كى حرمت كا قانون جارى ہے_

ولا تقتلوا النفس التى حرّم الله إلّا بالحقّ

۴_انسان كے قتل كى ممنوعيت اس كى خصوصيات ميں سے ہے_ولا تقتلوا النفس التى حرّم الله إلّا بالحقّ

يہ عبارت''التى حرّم الله'' دليل استثناء'' إلّا بالحق'' كى بناء پر ''النفس'' كے لئے صفت تشريحى سے _ لہذا انسان كے قتل كى حرمت اس كى صفات ميں سے شمار ہوگي_

۵_الله تعالى كے احكام ،حق و عدل كے اجراء اور مظلوم كے دفاع كى خاطر ہيں _

ولا تقتلوا إلّا بالحقّ ومن قتل مظلوماً فقد جعلنا لوليّه سلطانا

۶_الله تعالى نے ناحق اور مظلومانہ قتل ہونے والے كے ولى كو قاتل پر غلبہ عطا كيا ہے_

ومن قتل مظلوماً فقد جعلنا لوليّه سلطانا

۷_حق(الہى قانون) كے مطابق قتل ہونے والے كے ولى كو كسى قسم كا اختيار حاصل نہيں ہے_

ولا تقتلوا إلّا بالحقّ ومن قتل مظلوماً فقد جعلنا لوليّه سلطانا

۸_قاتل كے بارے ميں فيصلہ كرنے كا حق مقتول كے وارثوں كو ہے اور اس ميں ان كے فائدہ كو مد نظر ركھنا چاہئے _

فقد جعلنا لوليّه سلطانا

مندرجہ بالا مطلب ''لوليّہ'' كى لام سے ليا گيا ہے كہ يہ فائدہ كے خاص ہونے كو بيان كر رہا ہے_

ولا تقتلوا ...إلّا بالحقّ ومن قتل مظلوماً فقدجعلنا لوليّه سلطانا

۱۰_مقتول كے وارثوں كے لئے قاتل سے انتقام لينے ميں حد سے بڑھنا حرام اور ممنوع ہے_فلا يسرف فى القتل

۱۱_قاتل كا قتل وقصاص مقتول كے وارثوں كا حق ہے_جعلنا لوليّه سلطاناً فلا يسرف فى القتل

۱۲_قاتل پر مقتول كے ورثاء كااختيار لغزش اور اپنے دائرہ اختيار سے تجاوز كا باعث بنتاہے_

جعلنا لوليّه سلطاناً فلا يسرف فى القتل

الله تعالى كا روكنا ايك قسم كا خبردار كرنا ہے اور يہ خبردار كرنا لغزش كے امكان كى وجہ سے ہے اور ''فلا يسرف'' ميں فاء نتيجہ كے لئے ہے اور مندرجہ بالا مطلب پر ايك اور تائيد ہے_

۱۳_حق وعدل كى رعايت كا خيال حتّى كہ لوگوں كى جان سے كھيلنے والے كے حق ميں بھي_

۹۰

جعلنا لوليّه سلطاناً فلا يسرف فى القتل

۱۴_مقتول كے وارث كى الله تعالى كى طرف سے حمايت پر توجہ اسے قصاص ميں حد سے بڑھنے پر روكنے والى ہے_

جعلنا لوليّه سلطاناً فلا يسرف فى القتلإنه كان منصورا

۱۵_مظلوم كى حمايت اور مدد الہى سنت _ومن قتل مظلوماً إنه كان منصورا مندرجہ بالا مطلب كى بنياد يہ ہے كہ ''إنہ'' كى ضمير مقتول مظلوم كى طرف لوٹتى ہے اور جملہ ''انہ '' كا اسميہ ہونا اور فعل ''كان'' كا آنا (جو استمرار كا معنى پيدا كرتا ہے) ممكن ہے يہ نكتہ واضح كرے كہ مقتول مظلوم كى حمايت ہميشہ الله تعالى كى جانب سے ہوتى رہى ہے_

۱۶_حق قصاص كا الہى حكم اور مقتول كے ورثاء كو اختيار ہى الله تعالى كى ان كى حمايت ہے _ومن قتل مظلوماً فقد جعلنا لوليّه سلطاناً إنه كان منصورا مندرجہ بالا مطلب اس نكتہ كى بناء پر ہے كہ ''انہ '' كى ضمير مقتول كے وارث كى طرف لوٹتى ہو _

۱۷_ظلم سے قتل ہونے والے كى حمايت تمام انسانى معاشروں ميں ايك عقلى اور فطرى چيز ہے _ومن قتل مظلوماً ...إنه كان منصورا مندرجہ بالا مطلب اس احتمال كى بناء پر ہے كہ ''مقتول كى مدد كى جانا '' (منصوراً) الله تعالى كى طرف سے نہ ہو بلكہ يہ وہ قانون ہو كہ جو تمام لوگوں ميں رائج ہے اور جملہ ''إنہ كان منصوراً'' ايك معاشرتى حقيقت سے حكايت كررہاہو_

۱۸_''عن أبى عبدالله (ع) قال: إذا اجتمعت العدة على قتل رجل واحد حكم الوالى أن يقتل ا يهم شاو وا وليس لهم ا ن يقتلوا ا كثرمن واحد إن الله عزّوجلّ يقول: ومن قتل مظلوماً فقد جعلنا لوليّه سلطاناً فلا يسرف فى القتل'' (۱) امام صادق (ع) سے روايت ہوئي ہے كہ آپ (ع) نے فرمايا :_ جب ايك گروہ ايك شخص كو قتل كرے اور قاضى حكم دے كہ مقتول كے و ارث ان قاتلوں ميں سے جسے چاہيں قتل كرسكتے ہيں تو وہ حق نہيں ركھتے كہ ايك شخص سے زيادہ قتل كريں بے شك الله تعالى فرما رہا ہے :ومن قتل مظلوماً فقد جعلنا لوليّه سلطاناً فلا يسرف فى القتل

۱۹_عن اسحاق بن عمار قال: قلت لأبى الحسن(ع) إن الله عزّوجلّ يقول فى كتابه: فلا يسرف فى القتل إنه كان منصوراً '' فما هذإلاسراف الذى نهى الله عزّوجلّ عنه قال: نهى ا ن يقتل غيرقاتله ا ويمثل بالقاتل قلت : فما معنى قوله : إنه كان منصوراً قال: وا يّ نصرة ا عظم من ا ن يدفع القاتل إلى أولياء المقتول فيقتله ولا تبعة تلزمه من قتله فى دين ولا دينا (۲) اسحاق بن عمار كہتے ہيں كہ امام موسى بن جعفر(ع) كي

____________________

۱) كافى ج۷، ص ۲۸۵، ح۹_ نورالثقلين ج۳، ص ۱۶۲، ح ۱۹۷۲) كافى ج۷، ص ۳۷۰، ح۷_ نورالثقلين ج۳، ص ۱۶۲،ح۱۹۸

۹۱

خدمت ميں عرض كي: الله تعالى اپنى كتاب ميں فرما رہا ہے :''فلا يسرف فى القتل انه كان منصوراً'' يہ كون سا اسراف ہے كہ جس سے الله تعالى نے منع فرمايا ہے؟ تو حضرت (ع) نے فرمايا : الله تعالى نے غير قاتل كو قتل كرنے اور قاتل كا مثلہ كرنے سے منع فرمايا ہے_ تو رواى كہتا ہے كہ ميں نے عرض كيا : تو اس كلام خدا :''انہ كان منصوراً'' سے مراد كيا ہے؟ آپ (ع) نے فرمايا: ''اس سے بڑھ كر اور نصرت كيا ہوسكتى ہے كہ قاتل مقتول كے ورثاء كے حوالے كياجاتا ہے كہ وہ قاتل كو قتل كرتے ہيں اور قتل كے دينى اور دنياوى اثرات سے محفوظ رہتے ہيں _

۲۰_عن أبى العباس قال: سا لت أبا عبدالله (ع) عن رجلين قتلا رجلاً فقال: يخيّر وليّه ا ن يقتل ا يهما شاء وكذلك إن قتل رجل إمرا ة إن قبلوا دية المرا ه فذاك، وإن ا بى ا وليائها إلّا قتل قاتلها غرموا نصف دية الرجل و قتلوه وهو قول الله : فقد جعلنا لوليّه سلطاناً فلا يسرف فى القتل'' (۱) ابى عباس روايت كرتے ہيں كہ ميں نے امام صادق (ع) سے ان دو مردوں كے بارے ميں پوچھا كہ ان دونوں نے ايك مرد كو قتل كيا تو حضرت(ع) نے جواب ميں فرمايا كہ مقتول كا وارث مختار ہے ان دونوں ميں سے جسے چاہے قتل كردے _ اسى طرح اگر كوئي مرد كسى عورت كو قتل كردے اگر اس كے وارث عورت كى ديت قبول كريں تو وہى حكم ہے_ اور اگر ديت قبول نہ كريں فقط قاتل كو قتل كرنا چاہيں توايك مرد كى آدھى ديت ادا كريں پھر اسے قتل كرديں اور يہ الله تعالى كى كلام ہے_''فقد جعلنا لوليّه سلطاناً فلا يصرف فى القتل '' _

۲۱_عن أبى جعفر(ع) فى قوله :''ومن قتل مظلوماً فقد جعلنا لوليّه سلطاناً فلا يسرف فى القتل إنّه كان''منصوراً''قال: هو الحسين بن على (ع) قتل مظلوماً ونحن أولياء والقائم منّا إذا قام طلب بثار الحسين ''إنه كان منصوراً'' فإنه لا يذهب من الدنيا حتّى ينتصر برجل من آل رسول الله (ص) يملأ الأرض قسطاً وعدلاً كماملئت جوراً وظلماً'' _(۱) الله تعالى كے كلام''من قتل مظلوماً فقد جعلنا لوليه سلطاناً فلا يسرف فى القتل إنه كان منصوراً'' كے بارے ميں امام باقر (ع) سے روايت ہوئي ہے كہ آپ (ع) نے فرمايا : يہاں مراد حضرت حسين بن على (ع) ہيں كہ مظلومانہ قتل ہوئے ہيں اور ہم آئمہ ان كے ورثاء ہيں اور جب بھى ہمارے قائم كا ظہور ہوگا تو وہ حسين بن على (ع) كا انتقام ليں گے_ اور ''إنہ كان منصوراً'' كے بارے ميں فرمايا : كچھ دير نہيں كہ آل رسول (ص) كے ذريعے مدد ہوگى اوروہ زمين عدل و انصاف كے ساتھ پر كرديں گے جس طرح ظلم و ستم سے پر ہوگي_

۲۲_عن أبى جعفر (ع) قال: بعث الله

____________________

۱) تفسير عياشى ج ۲ ، ص ۲۹۱، ح ۶۸_ نورالثقلين ج ۳، ص ۱۶۳، ح ۲۰۲۲) تفسير عياشى ج۲، ص ۲۹۰، ح ۶۷_ نورالثقلين ج ۳، ص ۱۶۳، ح ۲۰۱

۹۲

محمداً و ا نزل عليه فى سورة بنى إسرائيل بمكة وانزل نهيا عن ا شياء حذّر عليها ولم يغلّظ فيها ولم يتوا عد عليها وقال:'' ...ولا تقتلوا النفس التى حرّم الله إلّا بالحق و من قتل مظلوماً فقد جعلنا لوليّه سلطاناً فلا يسرف فى القتل إنه كا ن منصوراً'' (۱)

امام باقر(ع) سے روايت ہوئي ہے كہ الله تعالى نے حضرت محمد (ص) كو مبعوث كيا اور ان پر مكہ ميں سورہ بنى إسرائيل سے چند آيات نازل كيں ان آيات ميں ان چيزوں سے منع كيا كہ جن سے پرہيز لازمى ہے ليكن ان ممنوعات ميں سختى نہيں دكھائي گئي اور ان ممنوعات كے ارتكاب كرنے پر وعدہ عذاب نہيں ديا گيا اور فرمايا:''ولا تقتلوا النفس التى حرّم الله الاّ بالحقّ ...''

احكام : ۱، ۲، ۷، ۸، ۱۰، ۱۱

الله تعالى :الله تعالى كى حمايتےں ۱۶;اللہ تعالى كى سنتيں ۱۵;الله تعالى كى مدد ۱۹;اللہ تعالى كے ممنوعات ۲۲

الله تعالى كى سنتيں :الله تعاليمظلوم كى امداد كرنے كى سنت ۱۵

امام حسين(ع) :امام حسين (ع) كى مظلوميت ۲۱;امام حسين (ع) كى نصرت ۲۱

امام مہدى (عج) :امام مہدى (ع) كى ذمہ دارى ۲۱

انسان:انسان كى خصوصيات ۴;انسان كى خطائيں ۱۲; انسان كے فطرى امور ۱۷

حقوق:قصاص كا حق ۱۱، ۱۶/ذكر:الله تعالى كى حمايت كے ذكر كے نتائج ۱۴

روايت : ۱۸، ۱۹، ۲۰، ۲۱، ۲۲/عدالت:عدالت كى اہميت ۵ ،۱۳

قاتل :قاتل كے مثلہ كرنے سے نہى ۱۹

قتل :جائز قتل ۲، ۹; جائز قتل كے نتائج ۷; قتل كے احكام ۱ ، ۲، ۳، ۷;قتل ميں اسر ا ف ۱۸;قتل كى حرمت ۱، ۳ ، ۴;قتل ميں اسراف سے مراد ۱۹، ۰ ۲; قتل كے مستحقين ۲; قتل سے منع ۲۲

قصاص:قصاص كے احكام ۸، ۱۰، ۱۱، ۱۸، ۲۰; قصاص كے احكام كى شرعى خثيت ۱۶;قصاص ميں افراط كى حرمت ۱۰; قصاص ميں عدالت ۱۳;قصاص

____________________

۱) كافى ج۲، ص ۳۰، ح۱_بحارالانوار ج۶۶، ص ۸۷، ح۳۰_

۹۳

ميں افراط سے مانع ۱۴

محرمات : ۱، ۱۰

مظلوم:مظلوم كى حقوق كى اہميت ۶;مظلوم كى حمايت كى اہميت ۵;مظلوم مقتول كى حمايت ۱۷;مظلوم كى حمايت كا عقلى ہونا ۱۷;مظلوم كى حمايت كا فطرى ہونا ۱۷

مقتول:مقتول كے ورثاء كے اختيارات ۸، ۱۲; مقتول كے ورثاء كى خطاء كا پيش خيمہ ۱۲; مقتول كے ورثاء كے حقوق ۶، ۷، ۸، ۱۰، ۱۱ ; مقتول كے ورثاء كى حمايت ۱۴، ۱۶; مقتول كے ورثاء كے اختيارات كے حدود ۱۸;مقتول كے ورثاء كے منافع ۸; مقتول كے ورثاء كى نصرت ۱۹

آیت ۳۴

( وَلاَ تَقْرَبُواْ مَالَ الْيَتِيمِ إِلاَّ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ حَتَّى يَبْلُغَ أَشُدَّهُ وَأَوْفُواْ بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْؤُولاً )

اور يتيم كے مال كے قريب بھى نہ جانامگر اس طرح جو بہترين طريقہ ہے يہاں تك كہ وہ تواناہوجائے اور اپنے عہدوں كو پورا كرنا كہ عہد كے بارے ميں سوال كيا جائے گا(۳۴)

۱_يتيموں كے مال ميں بلاوجہ تصرف ،ممنوع اور حرام ہے_ولا تقربوا مال اليتيم إلّا بالّتى هى ا حسن

۲_مال يتيم خود انسان كے لئے اس ميں ناحق تصرف كى غلطى كا پيش خيمہ اور وسوسہ پيدا كرنے والا ہے_

ولا تقربوا مال اليتيم إلّا بالّتى هى أحسن

''لا تاكلو اور لا تصرفوا'' (نہ كھائو اور نہ تصرف كرو) كى جگہ كلمہ '' لاتقربوا'' (قريب نہ جائو) كا استعمال ممكن ہے _اس ليے ہوكہ يتيموں كے اموال معمولاً سنجيدہ حامى كے بغير ہوتے ہيں _ لہذا انكے ناحق استعمال اور ضائع ہونے كا خطرہ رہتا ہے_

۳_ہر وہ كام كہ جس سے مال يتيم كے ضائع ہونے اور ناحق استعمال ہونے كا امكان ہو اس سے پرہيز كرنا ضرورى اور واجب ہے_

ولا تقربوا مال اليتيم إلّا بالّتى هى ا حسن

۴_اسلام كى طرف سے يتيموں اور بے سہارا گناہ كمزور لوگوں كے اموال اور منافع كى حمايت كا اہتمام كيا گيا ہے_

ولا تقربوا مال اليتيم إلّا بالّتى هى أحسن

۵_نابالغ بچوں كے لئے مالكيت كے حق كا ثبوت_ولا تقربوا مال اليتيم حتّى يبلغ أشدّه

۹۴

لغت ميں ''يتيم '' اس بچے كو كہا جاتا ہے كہ جس كا باپ اس كے بالغ ہونے سے پہلے فوت ہوجائے_(مفردات راغب)

۶_بغير كسى كام كے مالكيت كا امكان موجود ہے _ولا تقربوا مال اليتيم

چونكہ يتيم وہ بچہ ہے كہ جس كا باپ فوت ہوچكا ہے اور زندگى كے اس حصے ميں اس كے لئے كام كرنے كا امكان موجود نہيں ہے_ تو اس كے لئے ايك طبيعى راستہ مالك بننے كے لئے ارث ہے كہ جو كام كرنے سے حاصل نہيں ہوتا_ اس نكتہ پر توجہ كرتے ہوئے مندرجہ بالا آيت سے اس مطلب استناد ہوسكتا ہے_

۷_يتيموں كے اموال ميں ان كے منافع كو ملحوظ خاطر ركھتے ہوئے تصرف كرنا جائز اور مشروع ہے_

ولا تقربوا مال اليتيم إلّا بالتى هى أحسن

۸_ يتيم كے مال ميں تصرف اس وقت جائز ہے جب ان اس كے عالى ترين مصالح كى مراعات كر سكتا ہو_

ولا تقربوا مال اليتيم إلّا بالتى هى أحسن

۹_يتيموں كے اموال ميں ناحق اور فضول تصرف زمانہ جاہليت كے عربوں ميں رائج تھا_ولا تقربوا مال اليتيم

۱۰_يتيم كے مال كے ذمہ دار لوگوں پر فرض ہے كہ اس كے مال كى حفاظت كے لئے فائدہ مندترين طريقہ اختيار كريں _

ولا تقربوا مال اليتيم إلّا بالّتى هى ا حسن

مندرجہ بالا مطلب كى بنياد يہ ہے كہ يہاں آيت كے مخاطب يتيموں كے ذمہ دار لوگ ہيں كہ الله تعالى انہيں حكم دے رہا ہے كہ سوائے انكے منافع كى رعايت كے باقى ہر قسم كا فضول تصرف نہ كريں _ لہذا ''التى ہى ا حسن'' سے مراد فائدہ مند ترين اور مفيد تصرف ہے_

۱۱_يتيم كا اپنے مال ميں تصرف جب تك وہ بالغ وعاقل نہ ہوجائے ممنوع ہے _حتى يبلغ أشدّه

''حتى يبلغ أشدّه'' يتيم كى كفالت كى انتہاء ہے يعنى اے يتيموں كى كفالت كرنے والوں ان كے اموال كى نگہدارى كرو اور اس ميں ناحق تصرف نہ كرو يہاں تك كہ عقلى طور پر رشيد ہوجائيں _ تو اس سے معلوم ہوتا ہے كہ يتيم رشيد ہونے سے پہلے اپنے اموال ميں تصرف كا حق نہيں ركھتا _

۱۲_يتيم كے بالغ وعاقل ہونے كے بعد دوسروں كے لئے اس كے مال ميں تصرف كا ناجائز ہونا_ولا تقربوا حتّى يبلغ أشدّه كيونكہ آيت ميں يتيم كى منفعت كے محفوظ كرنے كا پيغام ہے اور بديہى ہے كہ صرف جسم اور عمر كے

۹۵

اعتبار سے بالغ ہونا' بغير عقلى واقتصادى بلوغ كے' انكے منافع ومصالح كے لئے ضمانت فراہم نہيں كرتا يہاں ''حتى يبلغ أشدّہ'' اس مال كے ذمہ داروں كے تصرف كے لئے غايت ہے كہ تم اس وقت جائز تصرف كا حق ركھتے ہو جب تك وہ عقلى وجسمى طور پر بالغ نہ ہوجائيں اور ان كے بالغ ہونے كے بعد تمہيں تصرف كا حق نہيں ہے_

۱۳_حق مالكيت كا حق تصرف سے جدا ہونے كا امكان_ولا تقربوا مال اليتيم حتّى يبلغ أشده

چونكہ يتيم مالك ہونے كے باوجود بلوغ سے پہلے حق تصرف نہيں ركھتا جبكہ اس كے ولى اور نگہبان مالك نہ ہونے كے باوجود حق تصرف ركھتے ہيں _ اس سے معلوم ہوتا ہے كہ مالكيت اور تصرف كا جواز ايك دوسرے سے جدا ہوسكتا ہے_

۱۴_چھوٹا ہونا، عقلى رشد اور اقتصاديات كى فہم سے عارى ہونا يہ دو عامل انسان كے اپنے مال ميں تصرف كو روك ديتے ہيں _حتى يبلغ أشدّه يتيم كے حق تصرف كى ممنوعيت كے زمانہ كى غايت بيان كرنا اس كے مال ميں حق تصرف كے معيار كو واضح كر رہا ہے اور وہ معيار بالغ ہونا اور اقتصادى رشد ہے_ لہذا محض يتيم ہونا اس حكم كى وجہ نہيں ہے_

۱۵_عہدوپيمان سے وفا لازم اور واجب ہے _وا وفوا بالعهد

۱۶_انسان اپنے عہدوپيمان كے مد مقابل جواب دہ ہے_إن العهد كان مسئول

۱۷_يتيم كے اموال كى سرپرستى قبول كرنا ايك ذمہ دارانہ عہد ہے_ولا تقربوا مال اليتيم وا وفوبالعهد إن العهد كان مسئول چونكہ ''ا وفوا'' جملہ ''لا تقربوا مال اليتيم'' كے بعد ميں آيا ہے _شايد ''خاص كے بعد عام كا ذكر'' ہو _ لہذا ممكن ہے يتيموں كے اموال كى كفالت عہد والے معاملوں ميں سے ہو_

۱۸_انسان كا اپنے عہدوں كے مقابلہ ميں پوچھ گچھ كى طرف توجہ كرنا موجب بنتا ہے كہ وہ اپنے عہدوں كى وفا پر زيادہ توجہ كرتا ہے_وا وفوا بالعهد إن العهد كان مسئول

يہ كہ الله تعالى نے عہد كى وفا كے حكم كے بعد فرمايا انسانوں كى ان عہدوں كے حوالے سے پوچھ گچھ ہوگى تو اس نكتہ كى طرف توجہ كرنے سے اس كے اندر ان كى رعايت كرنے كا انگيزہ پيدا ہوگا_

۱۹_عن ا بى جعفر(ع) قال بعث الله محمداً و ا نزل عليه فى سورة بنى إسرائيل بمكة وا نزل نهياً عن ا شياء حذّر عليها و لم يغلظّ فيها ولم يتواعد عليها وقال : ...''ولا تقربوا مال اليتيم إلّا بالتى هى ا حسن حتّى يبلغ ا شدّه وا وفوابالعهد إن العهد كان مسئولاً'' (۱)

____________________

۱) كافى ج۳، ص ۳۰، ح۱_ بحارالانوار ج۶۶، ص ۸۷، ح ۳۰_

۹۶

امام باقر (ع) نے فرمايا: ...''اللہ تعالى نے رسول اكرم (ص) (ص) كو مبعوث فرمايا اور ان پر سورہ بنى إسرائيل كى آيات مكہ ميں نازل كيں (كہ ان آيات ميں ) ايسى چيزوں سے منع كيا كہ جن سے پرہيز كرنا ضرورى ہے ليكن ان منع كرنے ميں سختى اور شدت نہيں دكھائي دى اور ان كے ارتكاب كرنے پر وعدہ عذاب بھى نہيں ديا گيا اور فرمايا :... ولاتقربوا مال اليتيم إلّا بالتى هى أحسن حتّى يبلغ أشدّه وا وفوا بالعهدإن العهد كان مسئولاً'' _

۲۰_عن عبدالله بن سنان عن أبى عبدالله (ع) قال: سا له ا بى وا نا حاضر عن اليتيم حتّى يجوز ا مره ؟قال:حتى يبلغ اشدّه'' قال: وما ا شدّه ؟ قال: الإحتلام (۱) عبداللہ بن سنان كہتے ہيں كہ ميں اپنے والد كے ہمراہ تھا كہ اس نے يتيم كے حوالے سے سوال كيا كہ كب اس كى بات نافذ ہوگى تو آپ (ع) نے فرمايا: حتّى يبلغ أشدّہ_ تو ميرے والد نے پوچھا كہ ''اشدّہ'' سے كيا مرادہے؟ تو حضرت (ع) نے جواب ديا : اس كا محتلم ہونا

۲۱_عن أبى عبدالله (ع) قال:إذا بلغ الغلام أشدّه ثلاث عشرة سنة ودخل فى الأربع عشرة سنة وجب عليه ما وجب على المحتلمين احتلم ا م لم يحتلم جاز له كلّ شي من ماله إلّا ا ن يكون ضعيفاً ا و سفيهاً (۲)

امام صادق (ع) سے روايت ہوئي كہ آپ (ع) نے فرمايا : جب لڑكا زمانہ رشد تك پہنچ جائے يعنى تيرہ سال كا ہوجائے اور چودہويں سال ميں داخل ہوجائے تو اس پر وہى كچھ واجب ہے جومحتلم پر واجب ہے چاہے اسے احتلام آئے يا نہ آئے اگر وہ كمزور يا احمق نہ ہو تو اس كے لئے اپنے تمام اموال ميں تصرف كرنا جائز ہے_

۲۲_عن أبى الحسن موسى بن جعفر (ع) عن أبيه فى قول الله عزّوجلّ: وا وفوا بالعهد إن العهد كان مسئولا _قال: العهد ما ا خذ النبي(ص) على الناس فى مودتنا وطاعة ا ميرالمؤمنين (ع) ا ن لايخالفوه ولا يستقدموه ولا يقطعوا رحمه وا علمهم انهم مسئولون عنه .(۳)

امام موسى بن جعفر (ع) نے اپنے والد محترم امام صادق(ع) سے اس آيت : '' واوفو بالعہد ان العہد كان مسئولاً'' كے بارے ميں روايت كى كہ انہوں نے فرمايا : كہ يہاں عہد وپيمان سے مراد وہ عہد وپيمان ہے كہ جو پيغمبر اسلام (ص) نے لوگوں ،سے ہمارى محبت ودوستى اور اميرالمؤمنين كى اطاعت كے حوالے سے ليا ہے كہ اس كى خلاف ورزى نہ كريں اور پيغمبر اسلام (ص) نے يہ بھى اعلان كياكہ لوگوں سے اس عہد كے بارے ميں سوال كياجائے گا_

۲۳_عن أبى بصير قال : قال أبوعبدالله (ع)

____________________

۱) خصال صدوق ص ۴۹۵، ح۳_ أبواب ثلاثة عشر_ نورالثقلين ج۱، ص ۷۷۸، ح ۳۴۰

۲) خصال صدوق ص ۴۹۵، ح۴_ ابواب ثلاثة عشر_ نورالثقلين ج۳، ص ۱۶۴، ح ۳۰۴۳) بحارالانوار ج ۲۴ ص ۱۸۷، ح۱

۹۷

إذا بلغ العبد ثلاثاً وثلاثين سنة فقد بلغ ا شدّه (۱)

ابوبصير روايت كرتے ہيں كہ امام صادق (ع) نے فرمايا : جب انسان تينتيس سال كى عمر ميں پہنچ جائے تو وہ عقلى رشد تك پہنچا ہے (اور يہ اس آيت بلغ اشدّہ سے مراد ہے)

آئمہ:آئمہ سے محبت ۲۲

احتلام:احتلام كے نتائج ۲۰

احكام : ۱، ۳، ۵، ۷،۸، ۱۰، ۱۱، ۱۲، ۱۴، ۱۵

احمق :احمق كو روكنا ۱۴

اطاعت :امام على _ كى اطاعت ۲۲

الله تعالى :الله تعالى كى نواہى ۱۹

انسان:انسان كى خطائيں ۲;انسان كى ذمہ دارى ۱۶; انسان كى رشد و الى عمر ۲۳

بچہ:بچے كو روكنا ۱۴;بچے كى مالكيت ۵

بلوغ:بلوغ كے احكام ۲۱;بلوغ كى عمر ۲۱; بلوغ كے نتائج ۱۱

جاہليت:جاہليت كى رسوم ۹;جاہليت ميں مال يتيم كا غصب ہونا ۹

حقوق:حق تصرف ۱۳;حق مالكيت ۱۳

حماقت:حماقت كے نتائج ۱۴

ذكر :وعدہ كے بارے ميں سوال كے ذكر كے نتائج ۱۸

ذمہ داري:ذمہ دارى ميں مو ثر اسباب ۱۷

روايت: ۱۹، ۲۰، ۲۱، ۲۲، ۲۳

ضعفائ:ضعفاء كے منافع كے رعايت كى اہميت ۴;ضعفاء كے مال كى حفاظت كى اہميت ۴

عہد:عہد كے احكام ۱۵;عہد سے وفا كرنے كى اہميت ۱۶;عہد سے وفا كرنے كا پيش خيمہ ۱۸;عہد سے وفا كا وجوب ۱۵

گناہ:گناہ كا پيش خيمہ ۲

____________________

۱) خصال صدوق ص ۵۴۵، ح۲۳_ تفسير برہان ج۲، ص ۴۱۹، ح ۲_

۹۸

مال ميں تصرف سے روكے جانا:مال ميں تصرف سے روكے جانے كے احكام اور اسباب ۱۴

مالكيت :مالكيت كے احكام ۵، ۶، ۱۳، ۱۴;مالكيت كے اسباب ۶

محرمات: ۱

واجبات:۳، ۱۵

وسوسہ:وسوسہ كا پيش خيمہ ۲

يتيم:يتيم كے احكام ۱۲، ۲۰; يتيم كے مال كے احكام ۱، ۳، ۷، ۸، ۱۰، ۱۱، ۱۲;يتيم كے منافع كى رعايت كى اہميت ۴;يتيم كے مال كى حفاظت كى اہميت ۴ ; يتيم كا بلوغ ۱۱،۲۰;يتيم كے تصرفات ۱۱;يتيم كے مال ميں تصرف كى حرمت ۱;يتيم كے مال كى حفاظت ۱۰;ہتيم كے مال ميں تصرف كا خطرہ ۲;يتيم كے ورثاء كى ذمہ دارى ۱۰;يتيم كا اقتصادى رشد ۱۲; يتيم كے منافع كى رعايت ۷ ، ۸; يتيم كے مال ميں تصرف كے شرائط ۷، ۸;يتيم كے مال ميں تصرف كى محدوديت ۱۲;يتيم كے مال كے غصب كى نہى ۱۹;يتيم كے مال كى حفاظت كا وجوب ۳;يتيم كے مال كا كردار۲

آیت ۳۵

( وَأَوْفُوا الْكَيْلَ إِذا كِلْتُمْ وَزِنُواْ بِالقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِيمِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلاً )

اور جب ناپوتو پورا ناپوور جب تولو تو صحيح ترازو سے تو لو كہ يہى بہترى اور بہترين انجام كا ذريعہ ہے(۳۵)

۱_پيمائش كے معاملات ميں پيمائش كا پورا كرنا اور اس سے كم نہ كرنا_وأوفوا الكيل إذاكلتم

۲_عمدہ ترازو كا استعمال اور چيزوں كے وزن كرنے ميں مكمل توجہ _وزنو ابالقسطاس المستقيم

''قسطاس'' كا معنى ميزان ہے اس كا واضح اورروشن مصداق چيزوں كے وزن كے لئے ترازو ہے_

۳_انسان اور معاشرہ كى بہترى اور حقيقى مصلحت كم فروشى اور اقتصادى خيانت سے اجتناب ميں ہے_

وأوفوا الكيل وزنوبالقسطاس المستقيم

۹۹

ذلك خير

۴_اقتصادى عدل وانصاف كى رعايت خوبصورت انجام كى حامل ہے _ذلك خيروأحسن تاويل

''تاويل '' ''اول'' كا مصدر ہے جس كے معنى اصل كى طرف لوٹنا ہے اس سے مراد وہ انتہا ہے كہ جس كا قصد كيا گيا تھا_

۵_زيادہ منافع كى خاطر كم فروشى اور اقتصادى خيانت بدعاقبت اور نقصان دہ عمل ہے_

وا وفوا الكيل وزنوا بالقسطاس المستقيم ذلك خيرو ا حسن تا ويلا

۶_كسى چيز كى قدروقيمت كا معيار اس كے انجام كى طرف توجہ ہے_وا وفوا الكيل وزنوا بالقسطاس المستقيم ذلك خيرو ا حسن تا ويلا

۷_ہر كام كى عاقبت اور انجام كى طرف توجہ كا لازم ہونا_وأوفوا الكيل وا حسن تاويلا

۸_ ذاتى مال ركھنے سے قيمتى چيز درست اقتصادى عمل ہے_ذلك خير وا حسن تاويلا

ممكن ہے كہ ''خير'' كا مفضل عليہ چيزوں كى پيمائش ميں خيانت اور كم فروشى اور اس طريقے سے حاصل ہونے والا نفع ہو يعنى عدل وانصاف كى رعايت اور صحيح ترازوں كا استعمال اور اس سے حاصل ہونے والا نفع كم فروشى اور اس سے آنے والے نفع سے بہتر ہے_

۹_عن الصادق (ع) فى قول الله عزّوجلّ: '' ...وزنوبالقسطاس المستقيم'' قال : أمّا القسطاس المستقيم فهو الإمام وهوالعدل من الخلق ا جمعين وهو حكم الائمة ...'' (۱)

امام صادق (ع) سے الله تعالى كے اس كلام :''وزنو ا بالقسطاس المستقيم '' كے بارے ميں روايت ہوئي كہ انہوں نے فرمايا: ...كہ قسطاس مستقيم سے مراد امام ہے اور وہ تمام مخلوقات ميں مظہر عدل ہے اور آئمہ كى قضاوت اس اساس پر ہے_

احكام : ۱اقتصاد :اقتصادى خطرات كى پہچان ۵;اقتصادى عدالت كے نتائج ۴

انجام :اچھے انجام كے اسباب ۴;برے انجام كے اسباب ۵

ثروت:ثروت كى قيمت ۸ذكر :انجام عمل كے ذكر كى اہميت ۷;ذكر انجام كے نتائج ۶

روايت : ۹

____________________

۱) بحارالانوار ج ۲۴، ص ۱۸۷، ح ۱_

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

ما اشبه ذلك او لايكلم امه'' (١) كوئي شخص يہ قسم كھائے كہ اپنے بھائي سے كلام نہيں كرے گا يا اسى طرح كچھ اوركہے يا پھر يہ كہ اپنى والدہ سے كلام نہيں كرے گا_

احكام: ١، ٤، ١٢

اسماء و صفات: سميع ٧، ٨ ; عليم ٧، ٨

اصلاح: آپس ميں اصلاح ٢، ٥; اصلاح كى اہميت ٥

تقوي: تقوي كے موانع ٢

اللہ تعالى: اللہ تعالى كا متنبہ كرنا ١٠ ; اللہ تعالى كا نام ٣

روايت: ١١ ،١٢

زمانہ جاہليت: زمانہ جاہليت كى رسميں ٩; زمانہ جاہليت ميں قسم ٩

عمل: نيك عمل ٢، ١٢

قسم: بيہودہ قسم ٤;جھوٹى قسم ١١; خدا كى قسم ٢،١٠،١١; قسم كے احكام ١،٤،١٢

كفر: عملى كفر ١١

گناہ: ناہ كے موارد ١١

محرمات: ١، ١٢

مومنين: مومنين كى ذمہ دارى ٦

____________________

١) تفسير_ عياشى ص١١٢ح٣٣٩، نورالثقلين ج١ص ٢١٨ ، ح ٨٣٦_

۱۲۱

لاَّ يُؤَاخِذُكُمُ اللّهُ بِاللَّغْوِ فِيَ أَيْمَانِكُمْ وَلَكِن يُؤَاخِذُكُم بِمَا كَسَبَتْ قُلُوبُكُمْ وَاللّهُ غَفُورٌ حَلِيمٌ (٢٢٥)

خدا تمھارى لغو اور غير ارادى قسموں كا مواخذہ نہيں كرتا ہے ليكن جس كو تمھارے دلوں نے حاصل كيا ہے اس كا ضرور مواخذہ كرے گا_ وہ بخشنے والا بھى ہے اور برداشت كرنے والا بھى ہے _

١_ خدا تعالى كسى كو اس كى بيہودہ قسم پرمواخذہ نہيں كرتا_لايؤاخذكم الله باللغو فى ايمانكم و لكن

لغو قسم سے وہ قسميں مراد ہيں جو عموما عادت كى وجہ سے منہ سے نكل جاتى ہيں بغير اس كے كہ قسم كھانے والے نے دلى طور پر اس كا قصد كيا ہو،''باللغو'' كا يہ معنى اس كے''بما كسبت قلوبكم''كے ساتھ تقابل كو ديكھ كر سمجھ ميں آتا ہے_

٢_ بيہودہ اور لغو قسموں سے انسان پر كوئي ذمہ دارى عائد نہيں ہوتى _لايؤاخذكم الله باللغو فى ايمانكم

٣_ جو قسميں سنجيدگى اور دلى قصد كے ساتھ ہوں خداوند عالم ان پر مواخذہ كرے گا_و لكن يؤاخذكم بما كسبت قلوبكم

٤_ جو قسميں دلى قصد و ارادہ كے ساتھ اٹھائي جائيں ان كى پابندى اور وفادارى ضرورى ہے_و لكن يؤاخذكم بما كسبت قلوبكم

٥_ لغو اور فضول قسميں ناپسنديدہ ہيں _*لايؤاخذكم الله باللغو فى ايمانكم و الله غفور حليم

مذكورہ بالا آيت سے استفادہ ہوتا ہے كہ لغو اور فضول قسميں كھانے والا عذاب كا استحقاق ركھتا ہے ليكن خداوند عالم اپنے فضل و كرم سے اس كو عذاب نہيں كرتا، يہ استفادہ بالخصوص آيت كے ذيل ميں ''غفور''كى صفت كے

۱۲۲

ذكرسے ہوتاہے_

٦_ كسى عمل پر ثواب و عقاب كا معيار نيت ہے_لايؤاخذكم الله باللغو فى ايمانكم و لكن يؤاخذكم بما كسبت قلوبكم

٧_لغو اور بيہودہ كام كرنے سے انسان كى روحانى اور معنوى شخصيت پر برُے اثرات مرتب ہوتے ہيں _*

لايؤاخذكم الله باللغو فى ايمانكم و لكن يؤاخذكم بما كسبت قلوبكم شايد مذكورہ بالا آيت قسم كو دو قسموں ميں تقسيم كرنے كے بارے ميں نہيں ہے جيسے لغو و بيہودہ قسم اور سنجيدہ قسم اور نہ ہى يہ بيان كررہى ہے كہ ان ميں سے ايك قسم پر كفارہ ہے اور دوسرى پر كفارہ نہيں _ بلكہ آيت اس حقيقت كو بيان كرناچاہتى ہے كہ اگرچہ خداوند عالم نے لغو قسم پر كوئي سزا تجويز نہيں كى ليكن يہ عمل ايك قلبى بيمارى كى حكايت كرتا ہے يا يہ حقيقت بيان كرتا ہے كہ اس عمل سے بتدريج دل بيمارى كى طرف بڑھتا ہے اور خدا تعالى اس بيمارى كى صورت ميں عقاب فرماتا ہے_

٨_ لغو قسميں كھانے پر خدا وند عالم كا عذاب نہ كرنا پروردگار كى مغفرت اور حلم كا ايك جلوہ ہے_لايؤاخذكم الله باللغو فى ايمانكم و الله غفور حليم ظاہراً خدا كى مغفرت اور حلم''لايواخذ''كے ساتھ مربوط ہے نہ''يؤاخذكم''كے ساتھ كيونكہ مغفرت عدم مواخذہ كے ساتھ مناسبت ركھتى ہے نہ مؤاخذہ كے ساتھ _

٩_ خدا غفور اور حليم ہے_و الله غفور حليم

١٠_ خدا ايسا غفور ہے جو حليم ہے _و الله غفور حليم يہ اس صورت ميں ہے كہ''حليم''، ''غفور'' كى صفت ہو _

اجر: اجر كا معيار ٦

احكام: ٢، ٤

اسماء و صفات: حليم ٩، ١٠ ;غفور ٩، ١٠

اللہ تعالى: اللہ تعالى كا حلم ٨; اللہ تعالى كى جانب سے حساب لينا ١، ٣; اللہ تعالى كى جانب سے مغفرت٨

۱۲۳

انحطاط: انحطاط كے عوامل ٧

انسان: انسان كى شخصيت ٧

سزا: سزاكا معيار ٦

عمل: عمل كا اجر; ناپسنديدہ عمل كے اثرات ٧ ٦; ناپسنديدہ عمل ٥

قسم: قسم كے احكام ٢، ٤;لغو قسم ١، ٢، ٥، ٨

گناہ: گناہ كے اثرات ٧

نيت: نيت كى اہميت ٣، ٤، ٦

لِّلَّذِينَ يُؤْلُونَ مِن نِّسَآئِهِمْ تَرَبُّصُ أَرْبَعَةِ أَشْهُرٍ فَإِنْ فَآؤُوا فَإِنَّ اللّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ (٢٢٦)

جو لوگ اپنى بيويوں سے ترك جماع كى قسم كھا ليتے ہيں انھيں چار مہينے كى مہلت ہے _ اس كے بعد واپس آگئے تو خدا غفور رحيم ہے _

١_ مرد چار مہينے تك اپنى بيوى كے ساتھ ہمبسترى ترك كرنے كى قسم (ايلاء) پر باقى رہ سكتا ہے_للذين يؤلون من نسائهم تربص اربعة اشهر ''يؤلون''كا مصدر''ايلائ''ہے جو لغت ميں قسم كے معنى ميں ہے ليكن اصطلاح ميں ايلاء كا مطلب يہ ہے كہ شوہر اپنى بيوى كے ساتھ چار مہينے سے زيادہ مدت تك ہمبسترى چھوڑنے كى قسم كھائے_ آيت ميں بھى يہى اصطلاحى معنى مراد ہے_

٢_ بيوى كے ساتھ مباشرت چھوڑنے پر قسم كھانا جائز ہے اور قسم منعقد بھى ہوجاتى ہے_للذين يؤلون من نسائهم تربص اربعة اشهر

٣_ ايلاء كے وقوع پذير ہونے اور اس كے خاص

۱۲۴

احكام كے جارى ہونے كى شرط يہ ہے كہ چار مہينے سے زيادہ مدت كيلئے ہمبسترى چھوڑنے پرقسم كھائي گئي ہ_

للذين يؤلون من نسائهم تربص اربعة اشهر يہ جو خدا وند عالم فرما رہاہے كہ ايلاء كرنے والا چار مہينے تك انتظار كرسكتا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے كہ ايلاء اور اس كے خاص احكام اس صورت ميں جارى ہوں گے جب ہمبسترى چھوڑنے پر قسم يا ہميشہ كيلئے ہو يا چار مہينے سے زيادہ مدت كيلئے ہو_

٤_ ايلاء كرنے والا چار مہينے سے زيادہ اپنى بيوى كو دودلى كى كيفيت ميں يوں ہى نہيں چھوڑ سكتا_للذين يؤلون من نسائهم تربص اربعة اشهر

٥_ ايلاء كے بعد عورت چار مہينے تك اپنے شوہر سے ہمبسترى كرنے كى درخواست كا حق نہيں ركھتي_للذين يؤلون من نسائهم تربص اربعة اشهر ''للذين''كے لفظ سے معلوم ہوتا ہے كہ چار مہينے كى مدت تك مرد ہمبسترى ترك كرنے كا حق ركھتا ہے لہذا عورت كو اس مدت ميں ہمبسترى كرنے كى درخواست كا حق حاصل نہيں ہوگا_

٦_ شوہروں كا اپنى بيويوں كے ساتھ چار مہينے ميں ايك بار مباشرت كرنا ضرورى ہے_*للذين يؤلون من نسائهم تربص اربعة اشهر ايسا معلوم ہوتا ہے كہ اگر چار مہينے سے زيادہ مدت كيلئے بيوى سے دورى جائز ہوتى تو ايلاء كے حكم ميں بھى اس مدت كے مطابق وقت كے لحاظ سے اضافہ ہوجاتا_

٧_ ايلاء سے، چار مہينے گزرنے كے بعد ايلاء كرنے والے پر يا بيوى كے ساتھ ہمبسترى كرنا يا اسے طلاق دينا واجب ہے_للذين يؤلون فان فاؤ ..._ و ان عزموا الطلاق يہ كہ''تربص'' (انتظار كرنا) چار مہينے تك ہے معلوم ہوتا ہے اس مدت كے بعد شخص پر مذكورہ بالا ان دو كاموں ميں سے ايك ضرورى ہے_

٨_ ايلاء ميں چار مہينے گذرنے سے پہلے قسم توڑنا جائز ہے _للذين يؤلون من نسائهم تربص اربعة اشهر

''للذين''كا لام جو كہ جواز كے لئے ہے اس سے استفادہ ہوتا ہے كہ چاہے تو چار مہينے تك مباشرت ترك كرے اور چاہے تو چار مہينے گذرنے سے پہلے ہمبسترى كرے_

٩_ جو لوگ ہمبسترى چھوڑنے كى قسم توڑ كر شادى شدہ

۱۲۵

زندگى كى طرف لوٹ آتے ہيں رحمت اور مغفرت الہى ان كے شامل حال ہوجاتى ہے_

للذين يؤلون فان فاؤ فان الله غفور رحيم

١٠_ ايلاء كے بعد شادى شدہ زندگى كى طرف لوٹنا طلاق سے بہتر ہے_فان فاؤ فان الله غفور رحيم _ و ان عزموا الطلاق فان الله سميع عليم ازدواجى زندگى كى طرف لوٹنے (فان فاؤ) كو ذكر ميں مقدم كرنا اس كے رتبہ كے لحاظ سے مقدم ہونے كى علامت ہے، نيز ازدواجى زندگى كى طرف لوٹنے اور بيوى كے حقوق كى رعايت كى صورت ميں رحمت اور مغفرت كا وعدہ دينے سے بھى اس كى اولويت و رجحان كا پتہ چلتا ہے_

١١_ خداوند عالم غفور اور رحيم ہےفان الله غفور رحيم

١٢_ خداوند عالم ايسا غفور ہے جو رحيم بھى ہے_فان الله غفور رحيم

١٣_ اسلام عورتوں كے حقوق كا دفاع كرتاہے_للذين يؤلون من نسائهم تربص اربعة اشهر فان فاؤ فان الله غفور رحيم

احكام: ١، ٢، ٣، ٤، ٥، ٦، ٧، ٨، ٩

اسماء و صفات: رحيم ١١،١٢; غفور ١١، ١٢

ايلاء: ايلاء كے احكام ١، ٢، ٣، ٤، ٥، ٦، ٧، ٨، ٩، ١٠

خدا تعالى: خدا تعالى كى رحمت ٩; خدا تعالى كى مغفرت٩

رحمت: رحمت جن كے شامل حال ہے ٩

شريك حيات: شريك حيات كے حقوق٤، ٦

طلاق: احكام طلاق ٧; طلاق كى ناپسنديدگى ١٠

عورت: عورت كے حقوق١٣

قسم: قسم كے احكام ١، ٢، ٣، ٨، ٩; قسم توڑنا ٨، ٩

مرد:

۱۲۶

مرد كى ذمہ دارى ٦

واجبات :٦، ٧

ہمبستري: ہمبسترى كے احكام ١، ٢، ٣، ٥، ٦، ٧

وَإِنْ عَزَمُواْ الطَّلاَقَ فَإِنَّ اللّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ (٢٢٧)

اور طلاق كا ارادہ كريں تو خدا سن بھى رہا ہے اور ديكھ بھى رہا ہے_

١_ طلاق كا فيصلہ كرنا مرد كے اختيار ميں ہے _و ان عزموا الطلاق

٢_ طلاق ميں ارادہ اور لفظ معتبر ہے _و ان عزموا الطلاق فان الله سميع عليم

ايسالگتا ہے كہ دو صفات يعني''سميع''(سننے والا) اور''عليم''(جاننے والا) كا لانا طلاق ميں قصد اور لفظ كے معتبر ہونے كى طرف اشارہ ہے_

٣_ اگر عقد دائمى ہو تو ا يلاء ہوسكتا ہے_للذين يؤلون من نسائهم تربص اربعة اشهر و ان عزموا الطلاق

ايك تو يہ كہ مرد كو چار مہينے كى مہلت دى گئي ہے

(جو كہ دائمى نكاح ميں معتبر ہے) اور دوسرا طلاق كا ذكر ہوا ہے جو كہ نكاح دائمى ميں ہوتى ہے لہذا ان دو امور كے پيش نظر كہا جاسكتا ہے كہ ايلاء كا حكم غير دائمى نكاح ميں جارى نہيں ہے_

٤_ مياں بيوى كے درميان نا اتفاقى كى صورت ميں ،طلاق آخرى راہ حل ہے_للذين يؤلون ...و ان عزموا الطلاق فان الله سميع عليم طلاق كو آخر ميں ذكر كرنے سے اس بات كى طرف اشارہ كرنا مقصود ہوسكتا ہے كہ مشكل كے حل كيلئے طلاق سب سے آخرى مرحلہ ہے_

٥_ خدا سننے والا اور جاننے والا ہے _فان الله سميع عليم

۱۲۷

٦_ خداوند عالم ايسا سننے والا ہے جو عليم ہے_فان الله سميع عليم

٧_ خداوند متعال كے نزديك طلاق ناپسنديدہ ہے_*و ان عزموا الطلاق فان الله سميع عليم

يہ اس بات كے پيش نظر ہے كہ ازدواجى زندگى كى طرف پلٹنے كى صورت ميں مغفرت اور رحمت كا وعدہ ديا گيا ہے جبكہ طلاق كى صورت ميں دو صفات ''سميع'' اور ''عليم''پر اكتفاكيا گيا ہے جو كسى حد تك ڈرانے دھمكانے اور توجہ دلانے پر دلالت كرتى ہيں _

احكام: ١، ٢، ٣ فلسفہ احكام ٤

اختلاف: گھريلو اختلاف ٤

اسماء و صفات: سميع ٥، ٦; عليم ٥، ٦

ايلاء: ايلاء كے احكام ٣

طلاق: احكام طلاق١، ٢; طلاق كى ناپسنديدگى ٧; طلاق ميں نيت٢; فلسفہ طلاق٤

مرد: مرد كے حقوق ١

۱۲۸

وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ ثَلاَثَةَ قُرُوءٍ وَلاَ يَحِلُّ لَهُنَّ أَن يَكْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللّهُ فِي أَرْحَامِهِنَّ إِن كُنَّ يُؤْمِنَّ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ وَبُعُولَتُهُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِي ذَلِكَ إِنْ أَرَادُواْ إِصْلاَحًا وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ وَاللّهُ عَزِيزٌ حَكُيمٌ (٢٢٨)

مطلقہ عورتيں تين حيض تك انتظار كريں گى اور انھيں حق نہيں ہے كہ جو كچھ خدا نے ان كے رحم ميں پيدا كيا ہے اس كى پردہ پوشى كريں اگر ان كا ايمان الله او رآخرت پر ہے _ اور پھر ان كے شوہر اس مدت ميں انھيں واپس كرلينے كے زيادہ حقدار ہيں اگر اصلاح چاہتے ہيں _ اور عورتوں كے لئے ويسے ہى حقوق بھى ہيں جيسى ذمہ دارياں ہيں اور مردوں كو ان پرايك امتياز حاصل ہے او رخدا صاحب عزت و حكمت ہے _

١_ طلاق يافتہ عورت سے تين طُھر (عدت) مكمل ہونے سے پہلے نكاح كرنا حرام ہے_و المطلقات يتربصن بانفسهن ثلثة قروء اس صورت ميں كہ''قرئ''كے معنى طہر ہوں _

٢_ تين طُہر يا تين حيض صرف اس عورت كى عدت ہے جسے حيض آتا ہو _و المطلقات يتربصن بانفسهن ثلثة قروء

ظاہراً آيت ميں وہ عورتيں فرض كى گئي ہيں جنہيں حيض آتا ہو كيونكہ عدت كى مدت تين طہر يا تين حيض قرار دى گئي ہے لہذا يہ حكم چھوٹى عمر كي، يائسہ يا ان جيسى عورتوں كو شامل نہيں ہوگا_

۱۲۹

٣_ مطلقہ عورت كى عدت تين حيض ہے _و المطلقات يتربصن بانفسهن ثلثة قروء يہ اس صورت ميں ہے كہ''قرئ''كے معنى حيض ہوں _

٤_ مطلقہ عورتيں اپنى عدت كى مدت كم يا زيادہ كرنے كى خاطر اپنے حمل ياحيض كو نہ چھپائيں _و لايحل لهن ان يكتمن ما خلق الله فى ارحامهن ''ما خلق''كا معنى وسيع ہے يہ ہر اس مخلوق كو شامل ہے جو عدت كى مدت ميں مؤثر واقع ہوسكے جيسے حمل، طہر اور حيض _

٥_ خدا تعالى اور روز قيامت پر ايمان احكام الہى كے انجام دينے كا ضامن ہے_و لايحل لهن ان كن يؤمن بالله و اليوم الآخر

٦_ خداوند متعال اور روز قيامت پر ايمان كا لازمہ فرائض الہى پر عمل ہے_و لايحل لهن ان كن يؤمن بالله و اليوم الآخر

٧_ اپنے حمل، طہر يا حيض كے بارے ميں عورتوں كا قول قبول كيا جائے گا_و لايحل لهن ان يكتمن ما خلق الله فى ارحامهن اگر عورتوں كى بات اپنے طہر، حيض، حمل يا ہر اس چيز كے بارے ميں كہ جو عدت كى مدت ميں دخالت ركھتى ہے، قابل قبول نہ ہو تو ان پر چھپانے كى حرمت لغو ہوگي_

٨_ہر اس چيز كاخالق خدا ہے جو رحم ميں موجود ہے (خون، جنين ...)ما خلق الله فى ارحامهن يہ لفظ''ما''كو مدنظر ركھتے ہوئے ہے جو خون، جنين ...كو شامل ہوجاتا ہے _

٩_ عدت كے اندر شوہر كو اپنى مطلقہ بيوى كى طرف رجوع كا حق حاصل ہے_و بعولتهن احق بردهن فى ذلك

''ذلك''، ''تربص''كى طرف اشارہ ہے يعنى ان تين طہر ميں جو كہ عورت كى عدت كا زمانہ ہے _

١٠_ شوہر كا اپنى مطلقہ بيوى كى طرف حق رجوع اس بات سے مشروط ہے كہ وہ گھريلو زندگى ميں اصلاح چاہتا ہو_

و بعولتهن احق بردهن فى ذلك ان ارادوا اصلاحا يعنى اگر شوہر عدت كے اندر رجوع كرنے سے يہ ارادہ ركھتا ہے كہ رجوع كرنے كے

بعد عورت كو دوبارہ طلاق دے كر تكليف پہنچائے گا_ تو آيت كے ظاہرى حكم كے لحاظ سے اس قصد كے ساتھ رجوع جائز نہيں ہے_

۱۳۰

١١_ عدت گھر كى تعمير نو كيلئے ايك مہلت ہے _*و المطلقات يتربصن و بعولتهن احق بردهن فى ذلك ان ارادوا اصلاحا اس بات كے پيش نظر كہ عدت كے ايام كے تذكرہ كے بعد ان ايام ميں اصلاح كى خاطر رجوع كرنے كا ذكركيا گيا ہے_

١٢_ مرد اور مطلقہ عورت كو عدت كے زمانہ ميں پہلى زندگى كى طرف پلٹنے كيلئے تو دوبارہ نكاح كى ضرورت نہيں ہے _*

و بعولتهن احق بردهن كيونكہ لفظ ''بعولة''(شوہر) اور اس كا ''ھن'' كى ضمير كى طرف مضاف ہونا اس معني كو بيان كررہاہے كہ عدت طلاق كے زمانہ ميں زوجيت والا تعلق اور رشتہ باقى ہے لہذا رجوع كيلئے نكاح كى ضرورت نہيں ہے_

١٣_ مرد كيلئے اپنى مطلقہ بيوى كى طرف رجوع كا حق عدت كے ختم ہوتے ہى ختم ہوجاتا ہے_و بعولتهن احق بردهن فى ذلك كلمہ''فى ذلك''كے مفہوم سے يہ مطلب سمجھا جاسكتا ہے _

١٤_ اگر شوہر كا رجوع مطلقہ بيوى كو تكليف اور اذيت پہنچانے كى خاطر ہو تو بے اثر اور غير معتبر ہے _

و بعولتهن احق بردهن فى ذلك ان ارادوا اصلاحا آيت ميں حق رجوع كو اصلاح كے ساتھ مشروط كيا گيا ہے_ پس اس جملہ شرطيہ كا مفہوم يہ نكلے گا كہ اگر رجوع اصلاح كيلئے نہ ہو بلكہ اذيت پہنچانے كى خاطر ہو تو ايسے رجوع كا اعتبار و حقانيت مسلوب ہے_

١٥_عورت اور مرد دونوں ايك دوسرے كے مقابلے ميں ( عقلى اور شرعى بنياد پر) برابر كے حقوق ركھتے ہيں _

و لهن مثل الذى عليهن بالمعروف

١٦_ عورت اور مرد دونوں پر لازم ہے ايك دوسرے كے برابر كے حقوق كى رعايت كا مظاہرہ كريں _

و لهن مثل الذى عليهن بالمعروف

١٧_ اسلام عورتوں كے حقوق كا دفاع كرتاہے_

و بعولتھن احق بردھن فى ذلك ان ارادوا اصلاحا و لھن مثل الذى عليہن بالمعروف

زندگى كى اصلاح كى غرض كے بغير مرد كا رجوع غير معتبر ہے نيز عورتوں كے حقوق كو مردوں كے حقوق جيسا سمجھنا خصوصاً زمانہ جاہليت كے ماحول كو مدنظر ركھتے ہوئے، يہ اسلام ميں

۱۳۱

عورتوں كے حقوق كے دفاع كى دليل ہے_

١٨_ مرد اپنى بيويوں سے افضل ہيں _و للرجال عليهن درجة

١٩_ شوہر اپنى بيويوں پر حقوق كے اعتبار سے امتيازى حيثيت ركھتے ہيں _*و للرجال عليهن درجة

'' للرجال ...'' كا جملہ'' لصہُنّ ...'' كے لئے قيد ہے اور اس كے معنى كو مشخص كررہاہے

٢٠_ ازدواجى زندگى كے قوانين بنانے ميں عدل و انصاف كو بنياد قرار ديا گياہے_و لهن مثل الذى عليهن بالمعروف و للرجال عليهن درجة

'' للرجال ...''كا جملہ''لہن ...'' كيلئے قيد ہے اور اسكے معنى كو مشخص كررہاہے_يعنى شوہر اور بيوى كے ايك جيسے حقوق كا مطلب يہ نہيں ہے كہ وہ بطور مطلق مساوى ہيں كيونكہ مرد خلقت كے لحاظ سے كچھ خصوصيات كے حامل ہيں كہ جن كى وجہ سے انہيں مخصوص حقوق بھى حاصل ہوں گے_ اس بنياد پر دونوں كے درميان عدل و انصاف كى رعايت كى گئي ہے_

٢١_ شوہر كو تب مطلقہ بيوى كى طرف رجوع كا حق حاصل ہے جب وہ عورت كے حسب معمول حقوق پورے كرنے كا ارادہ ركھتا ہو_ان ارادوا اصلاحا و لهن مثل الذى عليهن بالمعروف

حق رجوع كو اصلاح كے ساتھ مقيد كرنے كے بعد عورتوں كے مردوں پر حقوق بيان كرنے كا نتيجہ يہ نكلتا ہے كہ مرد كا اپنى مطلقہ بيوى كے حقوق كى رعايت كا قصد ارادہ اصلاح (ان ارادوا اصلاحا) كے مصاديق ميں سے ہے_

٢٢_ زمانہ بعثت كا جاہل معاشرہ عورتوں كيلئے كسى قسم كے حقوق كا قائل نہيں تھا_و لهن مثل الذى عليهن بالمعروف

اس لحاظ سے كہ اس آيت ميں مردوں كے عورتوں پر حقوق كو ( عليہن) مسلّم ليا گيا ہے جبكہ عورتوں كے مردوں پر حقوق كے اثبات كو (لھن) سے بيان كيا گيا ہے يعنى عورتوں كے حقوق ثابت كرنے كے در پے ہے_

٢٣_ مياں بيوى كا باہمى حقوق كى رعايت نہ كرنا طلاق كے عوامل و اسباب ميں سے ہے _

و المطلقات يتربصن بانفسهن ثلثة قروء و لهن مثل الذى عليهن

٢٤_ خداوند متعال كے جملہ احكام و قوانين كہ جن ميں ازدواجى زندگى كے قوانين بھى ہيں سب

۱۳۲

كے سب حكيمانہ اور حكمت الہى كى بنياد پر ہيں _و المطلقات يتربصن و الله عزيز حكيم

٢٥_ خدا تعالى كى ناقابل شكست قدرت اور عزت احكام و قوانين الہى كى مخالفت كرنے والوں كو سزا دينے كے لئے كافى ہے_و المطلقات يتربصن و لايحل لهن و الله عزيز حكيم

٢٦_ خداوند عالم عزيز اور حكيم ہے _و الله عزيز حكيم

٢٧_ خدا ايسا عزيز ہے جو حكيم ہے _و الله عزيز حكيم

يہ اس صورت ميں ہے كہ''حكيم''''عزيز'' كى صفت ہو _

٢٨_ مردوں كا اپنى مطلقہ بيويوں كى طرف رجوع كرنا پسنديدہ امر ہے اور خداوند متعال نے اس كى ترغيب دلائي ہے_

و بعولتهن احق بردهن فى ذلك

٢٩_خدا تعالى نے ايسے مياں بيوى كو ڈرايا دھمكاياہے جو ايك دوسرے كے حقوق كا خيال نہيں ركھتے_

و المطلقات و لهن مثل الذى و الله عزيز حكيم

احكام كے بيان كرنے كے بعد خدا كے ''عزيز'' (غلبے والا) ہونے كى يادآورى اس كے احكام كى مخالفت كرنے والوں كيلئے ڈرانے دھمكانے كى غرض سے ہوسكتى ہے_

احكام: ١، ٢، ٣، ٤، ٧، ٩، ١٠، ١٢، ١٣، ١٤، ٢١ احكام كا فلسفہ ١١،٢٤ ; احكام كا معيار ٢٠ ; احكام كى تشريع ٢٤

اختلاف: گھريلو اختلاف٢٣

اسماء و صفات: حكيم ٢٦، ٢٧; عزيز٢٦، ٢٧

انسان: انسان كى خلقت ٨

ايمان: ايمان اور عمل كا رابطہ ٦; ايمان كے اثرات ٦; خدا پر ايمان ٥، ٦، قيامت پر ايمان ٥، ٦

حقوق: حقوق كى بنياديں ١٥، ٢٠

حمل: حمل ميں گواہى ٧

حيض: حيض ميں گواہى ٤، ٧

۱۳۳

خداوند متعال: خداوند متعال كا تشويق دلانا ٢٨; خداوند متعال كا ڈرانا دھمكانا ٢٩; خداوند متعال كى تنبيہات ٢٩: خداوند متعال كى حكمت ٢٤; خداوند متعال كى خالقيت ٨; خداوند متعال كى عزت (غلبہ) ٢٥; خداوند متعال كى قدرت ٢٥ زمانہ بعثت كى تاريخ: ٢٢

زمانہ جاہليت: زمانہ جاہليت كى رسميں ٢٢; زمانہ جاہليت ميں عورت ٢٢

شادي: حرام شادى ١; شادى كے احكام ١

شريك حيات: شريك حيات كے باہمى حقوق١٥، ١٦، ٢٠، ٢٣، ٢٩

طلاق: احكام طلاق ٢، ٣، ٩، ١٠،١٢، ١٣، ١٤; طلاق رجعى ٩، ١٠، ١٢، ١٣،١٤، ٢١، ٢٨; طلاق كے عوامل ٢٣

عدت: طلاق كى عدت ٢، ٣، ٤; عدت كا فلسفہ ١١ ;عدت كے احكام ١، ٢، ٣، ٤، ٧، ٩، ١٣

عدل: عدل كى اہميت ٢٠

عرفى معيار: ١٥

عورت: عورت زمانہ جاہليت ميں ٢٢;عورت كے حقوق ١٤، ١٧، ٢١; عورت كے فضائل ١٨، ١٩

گناہ: گناہ كى سزا ٢٥

گواہي: گواہى چھپانا ٤

گھرانہ: گھرانہ ميں اصلاح ١٠، ١١،٢١

مرد: مرد كے حقوق ٩، ١٠،١٣، ١٨، ١٩; مرد كے فضائل ١٨، ١٩

محرمات: ١

مطلقہ: مطلقہ كے ساتھ ازدواج ١

نبرد : آزار و اذيت كے خلاف نبرد١٤

۱۳۴

الطَّلاَقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ وَلاَ يَحِلُّ لَكُمْ أَن تَأْخُذُواْ مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئًا إِلاَّ أَن يَخَافَا أَلاَّ يُقِيمَا حُدُودَ اللّهِ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلاَّ يُقِيمَا حُدُودَ اللّهِ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ تِلْكَ حُدُودُ اللّهِ فَلاَ تَعْتَدُوهَا وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ اللّهِ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ (٢٢٩)

طلاق دو مرتبہ دى جائے گى _ اس كے بعد يا نيكى كے ساتھ روك ليا جائے گا يا حسن سلوك كے ساتھ آزاد كرديا جائے گااور تمھارے لئے جائز نہيں ہے كہ جو كچھ انھيں دے ديا ہے اس ميں سے كچھ واپس لو مگر يہ كہ يہ انديشہ ہو كہ دونوں حدود الہى كو قائم نہ ركھ سكيں گے تو جب تمھيں يہ خوف پيدا ہو جائے كہ وہ دونوں حدود الہى كو قائم نہ ركھ سكيں گے تو دونوں كے لئے آزادى ہے اس فديہ كے بارے ميں جو عورت مرد كو دے _ ليكن يہ حدود الہيہ ہيں ان سے تجاوز نہ كرنا اور جو حدود الہى سے تجاوز كرے گا وہ ظالمين ميں شمار ہوگا _

١_ مردوں كو صرف پہلى اور دوسرى طلاق ميں رجوع كرنے كا حق حاصل ہے _الطلاق مرتان فامساك بمعروف

''الطلاق''ميں الف و لام عہد ذكرى ہے يعنى وہ طلاق كہ جس ميں شوہر كو حق رجوع تھا_''و بعولتھن احق ...'' دو مرتبہ سے زيادہ نہيں ہے_

٢_ زمانہ جاہليت ميں طلاق رجعى غيرمحدود تھى ليكن اسلام نے اس كى تعداد كو محدود كرديا _الطلاق مرتان

اس آيت كا شان نزول يوں بيان ہوا ہے كہ زمانہ جاہليت ميں شوہر بيوى كو طلاق ديتا اور دوبارہ عدت مكمل ہونے سے پہلے اس كى

۱۳۵

طرف رجوع كر ليتا تھا اسى طرح رجوع كرسكتا تھا اگرچہ ہزار مرتبہ طلاق ديدے اور جب طلاق كى اس نوعيت كا تذكرہ نبى اكرم(ص) كے سامنے ہوا تو يہ آيت نازل ہوئي''الطلاق مرتان ...'' (مجمع البيان ، اس آيت كے ذيل ميں )

٣_ ايك دفعہ يا چند مرتبہ صيغہ طلاق پڑھنے سے متعدد طلاقيں متحقق نہيں ہوتيں اگر ان كے درميان رجوع ( امساك)نہ كيا جائے_الطلاق مرتان پہلى بات تو يہ ہے كہ ايك دفعہ ''طلقتك ثلاثا''(ميں نے تجھے تين طلاقيں ديں ) كہنے پر دو مرتبہ يا تين مرتبہ صدق نہيں كرتا_ دوسرى بات يہ كہ دوسرى طلاق اس وقت تك صدق نہيں كرسكتى جب تك رجوع نہ كرے_ تيسرى بات يہ ہے كہ زندگى كى طرف رجوع اور بازگشت نيكى كے ساتھ ٹھہرانے كے ذريعہ ہونى چاہيئے_ اور ايك ہى محفل و مجلس ميں پہلے اور دوسرے صيغہ كے درميان مثلاً ''راجعت ''(ميں نے رجوع كيا) كہنا نيكى كے ساتھ امساك (روكنا) نہيں ہے_

٤_ شوہر كے لئے ضرورى ہے كہ بيوى كے مسلّم حقوق ادا كرنے كى ذمہ دارى لے_فامساك بمعروف

''معروف''(پہچانا ہوا) سے مراد وہ حقوق ہيں جو عقل، فطرت اور شريعت كى بنيادوں پر دين دار اور صحيح و سالم فطرت لوگوں كے درميان مشہورو معروف ہيں _ اگرچہ آيت اس مطلقہ عورت كے بارے ميں ہے جس كے شوہر نے اس كى طرف رجوع كر ليا ہے ليكن آيت حقوق كو عمومى طور پر سب عورتوں كيلئے بيان كر رہى ہے_

٥_ طلاق اور رجوع كا حق شوہر كو حاصل ہے_فامساك بمعروف

٦_ ضرورى ہے كہ رجوع كے بعد شوہر كا بيوى كے ساتھ رويہ اور سلوك ،عقل اور شريعت كے مسلم معيار كے مطابق ہو _الطلاق مرتان فامساك بمعروف

٧_ مرد كا عدت كے دنوں ميں رجوع كرنا، عورت كو نقصان پہنچانے كى خاطر نہ ہو_الطلاق مرتان فامساك بمعروف او تسريح باحسان

٨_ دوسرى طلاق كے بعد رجوع كى صورت ميں يا تو ''معروف'' (مسلم حقوق) كى بنياد پر زندگى گزارے يا پھر طلاق ديدے جس كے بعد حق رجوع نہيں ركھتا_فامساك بمعروف او تسريح باحسان

۱۳۶

يہ اس صورت ميں ہے كہ''تسريح باحسان'' سے مراد تيسرى طلاق ہو كيونكہ صرف پہلى اور دوسرى طلاق ميں رجوع كا حق حاصل ہے ''الطلاق مرتان''اور تيسرى طلاق ميں حق رجوع نہيں ہوگا_

٩_عورت كو چھوڑنا ( طلاق )، نيكى اور احسان كے ساتھ اس كے حقوق كى رعايت كرتے ہوئے انجام پائے نہ كہ اسے ضررو نقصان پہنچانے كى غرض سے _او تسريح باحسان گويا لفظ ''احسان''كے معنى ''معروف'' سے بڑھ كر ہيں يعنى عورتوں كے مسلّم حقوق سے بڑھ كر ان كے ساتھ نيكى كى جائے_

١٠_ طلاق رجعى كے باوجود عدت كے ايام ميں رشتہ ازدواج باقى رہتا ہے _الطلاق مرتان فامساك بمعروف

''امساك'' كے لفظ سے يہ معلوم ہوتا ہے كہ شوہر عورت كو اسى سابقہ نكاح كے ساتھ ركھ سكتا ہے اس كا مطلب يہ ہوا كہ زوجيت كا رشتہ باقى ہے_

١١_ اسلام كے فقہى احكام اور اخلاقى مسائل كے درميان گہرا تعلق و ارتباط ہے_فامساك بمعروف او تسريح باحسان

١٢_ طلاق كے وقت شوہر پر حرام ہے كہ عورت سے وہ مال ( حق مہر اور ...) واپس لے جو اس نے اسے ديا ہو _

و لايحل لكم ان تاخذوا مما اتيتموهن شيئا

١٣_ اگر انسان كو خوف ہو كہ اپنى زندگى ميں احكام الہى كو عملى جامہ نہيں پہنا سكتا تو مرد عورت كو ديا ہوا مال واپس لے كر اسے طلاق دے سكتا ہے_و لايحل لكم ان تاخذوا الا ان يخافا الا يقيما حدود الله

اگر حق مہر واپس كرنے كى حرمت ان دونوں كے درميان طلاق كے لئے ركاوٹ ہوجائے اور ان كا ايك ساتھ زندگى بسر كرنا حدود الہى كے پامال ہونے كا موجب ہو تو اس صورت ميں حق مہر واپس لينا جائز كيا گيا ہے تاكہ طلاق واقع ہوسكے_

١٤_ عورت كا اپنے مال (حق مہر) سے چشم پوشى كر كے طلاق لے لينا اس ازدواجى زندگى سے بہتر ہے كہ جس ميں حدود الہى كى رعايت نہ ہوسكے_و لايحل لكم ان تاخذوا مما اتيتموهن شيئا الا ان يخافا الا يقيما حدود الله

۱۳۷

١٥_ زندگى ميں حدود الہى كى مخالفت كا ڈر اس بات كا جواز فراہم كرتاہے كہ عورت اپنا كچھ مال شوہر كو بخش دے اور دونوں طلاق پر باہمى موافقت كرليں _فان خفتم الا يقيما حدود الله فلاجناح عليهما فيما افتدت به

١٦_ گھريلو زندگى ميں حدود الہى كى عدم رعايت كا احتمال اور معقول و متعارف خوف طلاق خلع كے جواز كا موجب بنتا ہے_*فان خفتم الا يقيما حدود الله ''فان خفتم''كا خطاب چونكہ سب لوگوں كيلئےہے اس سے معلوم ہوتا ہے كہ عورت اور شوہر كى پريشانى اس طرح كى ہو كہ اگر عام لوگ بھى اس سے باخبر ہوں تو وہ بھى اس پريشانى اور مشكل كو محسوس كريں _

١٧_ خاندان كو محفوظ كرنے كى قدر و قيمت اس وقت تك ہے كہ جب تك حدود الہى كى مخالفت كا خطرہ لاحق نہ ہو_

الا ان يخافا الا يقيما حدود الله

١٨_ ازدواجى زندگى ميں حدود الہى كى مراعات اہم اور لازمى امر ہے_فان خفتم الا يقيماحدود الله فلاجناح تلك حدود الله فلاتعتدوها

١٩_ عورت كا طلاق كيلئے شوہر كو مال دينا طلاق خلع كے علاوہ ديگر طلاقوں ميں جائز نہيں ہے_

و لايحل لكم ان تاخذوا مما اتيتموهن فان خفتم فلاجناح عليهما اگرچہ ابتداء ميں مردوں پر ( حق مہر ) واپس لينے كى حرمت ذكر ہوئي ہے ليكن خوف كى صورت ميں ''فلا جناح عليہما'' كى تعبير كے ذريعے دونوں (مياں بيوي) سے حرمت كو اٹھا ليا گيا ہے پس اس سے معلوم ہوتا ہے كہ پہلے عورت كے لئے بھى حرمت ثابت تھي_

٢٠_ طلاق خلع كے قوانين كے اجرا پر حاكم شرع (قاضي) كى نظارت ضرورى ہے_*فان خفتم الا يقيما حدود الله فلاجناح عليهما اس صورت ميں كہ''فان خفتم''كا خطاب حكّام (قاضيوں ) كو ہو جيساكہ آلوسى كى يہى نظر ہے_

٢١_ طلاق كے احكام حدود الہى ميں سے ہيں اور ان سے تجاوز حرام ہے_المطلقات يتربصن الطلاق مرتان تلك حدود الله فلاتعتدوها

٢٢_ خدا وند متعال كے احكام و حدود سے تجاوز ظلم

۱۳۸

ہے_و من يتعد حدود الله فاولئك هم الظالمون

٢٣_ ظالم فقط وہ لوگ ہيں جو الہى حدود سے تجاوز كرتے ہيں _و من يتعد حدود الله فاولئك هم الظالمون

''ھم''ضمير فصل، حصر كو بيان كر رہى ہے_

٢٤_ اسلام عورتوں كے حقوق كا دفاع اور انكى حمايت كرتا ہے_الطلاق مرتان فامساك بمعروف او تسريح باحسان ولايحل لكم ...فاولئك هم الظالمون

٢٥_ گھريلو زندگى اور اسكى حفاظت كى اہميت _المطلقات يتربصن بانفسهن الطلاق مرتان فاولئك هم الظالمون

٢٦_ گھر كى سرپرستى اورانتظامى ذمہ دارى مرد كے ہاتھ ميں ہے_ *الطلاق مرتان فامساك بمعروف او تسريح باحسان و لايحل لكم فاولئك هم الظالمون كيونكہ گھريلو زندگى كى بنيادى طور پر حفاظت يا گھريلو زندگى كو ختم كردينا مرد كے ہاتھ ميں ہے لہذا گھرانے كى سرپرستى اور ذمہ دارى بھى مرد كے ہاتھ ميں ہوگي_

احكام: ١، ٣، ٥، ٦، ٧، ٨، ٩، ١٠، ١٢، ١٣، ١٥، ١٦، ١٩، ٢٠ احكام اور اخلاق ١١، احكام كا فلسفہ٢، احكام كى خصوصيت ١١

اللہ تعالى: اللہ تعالى كى حدود ١٣، ١٤، ١٥، ١٦، ١٧، ١٨ ; اللہ تعالى كى حدود سے تجاوز ٢١، ٢٢، ٢٣ اہم و مہم١٧

حق مہر: حق مہر كے احكام ١٢، ١٣

خوف: پسنديدہ خوف١٦; خوف كے اثرات١٣، ١٥

دينى نظام تعليم: ١١

زمانہ بعثت كى تاريخ: ٢

زمانہ جاہليت: زمانہ جاہليت كى رسميں ٢; زمانہ جاہليت ميں طلاق ٢

شريك حيات: شريك حيات كے حقوق ٤، ٦

طلاق: طلاق خلع ١٤، ١٥، ١٦، ١٩، ٢٠; طلاق رجعى ١، ٢، ٥، ٦، ٧، ٨، ١٠ ; طلاق كے احكام ١،٣، ٥، ٧، ٨، ٩، ١٠، ١٢، ١٣، ١٥، ١٦، ١٩، ٢٠، ٢١

۱۳۹

ظالم لوگ: ٢٣

ظلم: ظلم كے موارد٢٢

عرفى معيارات: ٤، ٦، ٨

عورت: عورت كو ضرر پہچانا ٧، ٩; عورت كے حقوق ٢، ٤، ٦، ٧، ٩، ١٢، ١٤، ٢٤; عورت كے ساتھ نيكي كرنا ٩

قاضي: قاضى كى ذمہ دارى ٢٠ گھرانہ: ١٥ گھرانے كى ذمہ دارى اور سرپرستى ٢٦; گھرانے كى قدر و قيمت ١٧، ٢٥; گھرانے كے حقوق ١٦; گھريلو روابط ١٨

محرمات: ١٢، ٢١

مرد: مردكى ذمہ دارى ٢٦;مرد كے حقوق ٥

فَإِن طَلَّقَهَا فَلاَ تَحِلُّ لَهُ مِن بَعْدُ حَتَّىَ تَنكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ فَإِن طَلَّقَهَا فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَن يَتَرَاجَعَا إِن ظَنَّا أَن يُقِيمَا حُدُودَ اللّهِ وَتِلْكَ حُدُودُ اللّهِ يُبَيِّنُهَا لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ (٢٣٠)

پھر اگر تيسرى مرتبہ طلاق دے دى تو عورت مرد كے لئے حلال نہ ہو گى يہاں تك كہ دوسرا شوہر كرے پھر اگر وہ طلاق ديدے تو دونوں كے لئے كوئي حرج نہيں ہے كہ آپس ميں ميل كرليں اگر يہ خيال ہے كہ حدود الہيہ كو قائم ركھ سكيں گے _ يہ حدود الہيہ ہيں جنھيں خدا صاحبان علم و اطلاع كے لئے واضح طور سے بيان كررہا ہے _

١_ تيسرى طلاق كے بعد شوہر كا اپنى بيوى كے ساتھ دوبارہ ازدواجى زندگى برقرار كرنا ممكن نہيں ہے

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809

810

811

812

813

814

815

816

817

818

819

820

821

822

823

824

825

826

827

828

829

830

831

832

833

834

835

836

837

838

839

840

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863

864

865

866

867

868

869

870

871

872

873

874

875

876

877

878

879

880

881

882

883

884

885

886

887

888

889

890

891

892

893

894

895

896

897

898

899

900

901

902

903

904

905

906

907

908

909

910

911

912

913

914

915

916

917

918

919

920

921

922

923

924

925

926

927

928

929

930

931

932

933

934

935

936

937

938

939

940

941

942

943

944

945