بِسْمِ ا للهِ الرّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
عرض ناشر
شریعت کی بالا دستی ، دین کو تحریف ( deviation ) اور بدعتوں سے محفوظ رکھنا، اسلامی معاشرے میں احکام الہی کی ترویج و نفاذ اور معاشرے میں عدل و انصاف کا قیام، ائمہ معصومین کی جد و جہد میں سر فہرست مقام پر رہے ہیں۔ تاریخ ائمہ پر نظر رکھنے والا، اور ائمہ کے اقوال و فرامین کا مطالعہ کرنے والا ہر فرد اس حقیقت سے آشنا ہے۔
امام حسین کا معروف خطبہ ء منیٰ، آنجناب کی زبانی ائمہ کے انہیں مقاصد کا اظہار ہے جنہیں ہم نے مندرجہ بالا سطور میں بیان کیا ہے۔
اس خطاب میں امام کے براہ راست مخاطب اور سامعین وہ چیدہ چیدہ اصحاب رسول، تابعین اور امت کے سرکردہ افراد تھے جن کا تعلق اس وقت کی مملکت اسلامی کے مختلف گوشوں سے تھا اور جنہیں آپ نے اس اجتماع میں خصوصی طور پر مدعو کیا تھا۔
امام نے شرکائے اجتماع کو اسلامی سیاست میں در آنے والے بگاڑ، اس کے نتیجے میں دین میں پیدا ہونے والی بدعتوں، شریعت کی بے توقیری اور مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم کی جانب متوجہ کیا، اور اس سلسلے میں انہیں ان کی غفلت و کوتاہی سے آگاہ کیا اور انہیں ان کا فریضہ یاد دلایا۔
یوں توامام کے اس خطاب کو چودہ سو سال گزر چکے ہیں، لیکن اس کا مطالعہ کرتے
ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ امام ۵۸ ھ میں میدان منیٰ میں کھڑے ہوئے آج کے مسلمانوں سے مخاطب ہیں،آپ کی نگاہوں کے سامنے آج کے اسلامی معاشروں کے سیاسی اور سماجی حالات ہیں اور آپ آج ہی کی زبان میں ، آج ہی کی اصطلاحات کے ذریعے انہیں اسلامی معاشروں کی ابتر صورتحال اور اسلام و مسلمین کی موجودہ پستی و انحطاط کے اسباب و وجوہات سے آگاہ کر رہے ہیں، اس سے نجات کی راہیں سجھا رہے ہیں اور انہیں ان کے فریضے کی ادائیگی پر ابھار رہے ہیں۔ اس خطاب کی اشاعت کے محرکات میں سے ایک محرک ہمارا یہی احساس ہے امید ہے اسے پڑھنے والے بھی یہی محسوس کریں گے اور دین کی سربلندی اور امت کو زبوں حالی اور پستی سے نکالنے کے لئے امام کے فرمودات کی روشنی میں اپنے کردار کی ادائیگی کا عزم لے کر اٹھیں گے۔
آپ کے ہاتھوں میں موجود کتاب، اس خطاب کی اسناد، اس کے پس منظر، اس کے ترجمے، اس کے اہم الفاظ کی تشریح اور اس میں پیش نظر رکھے جانے والے نمایاں نکات کی وضاحت پر مشتمل ہے، جسے ایران کے ممتاز عالم دین جناب محمد صادق نجمی نے تالیف کیا ہے۔
ہم جناب حجت الاسلام سید علی مرتضی زیدی کے شکر گزار ہیں جنہوں نے اپنے قیمتی وقت میں سے اس کتاب کے ترجمے کے لئے وقت نکالا۔ کتاب کے آخری صفحات کی بیشتر گفتگو ایرانی انقلاب اور وہاں کے داخلی حالات کی مناسبت سے تھی لہذا فاضل مترجم نے ان صفحات کی تلخیص کرتے ہوئے امام کے خطبے کے آفاقی پیغام کو اجاگر کیا ہے، اس سلسلے میں بھی ہم ان کے مشکور ہیں۔ ان مومن بھائی کا شکریہ ادا کرنا بھی ہم اپنے اوپر لازم سمجھتے ہیں جنہوں نے اس کتاب کی طباعت کے سلسلے میں ہم سے تعاون کیا اور دعا گو ہیں کہ بارالہا انہیں دنیا و آخرت میں سرخرو فرمائے۔ آخر میں قارئین سے درخواست ہے کہ وہ کتاب کے مطالعے کے بعد اپنی بے لاگ آراء اور تبصروں سے گریز نہ فرمائیں۔