امربالمعروف اور نہی عن المنکرکا اہم ترین پہلو
لیکن امام کے خطاب کے اس حصے میں جو بات انتہائی قابل توجہ اور اہمیت کی حامل ہے، وہ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے وسیع مفہوم اور اس کے مختلف پہلوؤں کی تشریح اور اس بنیادی مسئلے کے اہم ترین رخ اور عملی پہلو کی جانب اشارہ ہے ۔ کیونکہ امام نے قرآن کریم کی دو آیات کو بطور سند پیش کرتے ہوئے فرمایا : اگر معاشرے میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر برقرار ہو توچھوٹے بڑے تمام واجبات پرعمل ہو اور تمام مشکلات حل ہو جائیں ۔اس کے بعد نمونے اور مصداق کے طور پر پانچ امور کو نکتہ وار درج ذیل صورت میں بیان کیا :
۱-وذلک ان الامر بالمعروف و النهی عن المنکر دعاء الی الاسلام
: امربالمعروف اور نہی عن المنکر اسلام کی طرف دعوت (فکری اور عقیدتی جہاد کے مساوی ) ہے۔
۲ -مع رد المظالم
: مظلوموں کو ان کے حقوق لوٹانا ہے۔
۳-ومخالفة الظالم
: ظالم کے خلاف جد و جہد ہے۔
۴-وقسمة الفی ء والغنائم
: مال غنیمت اور عوامی دولت کی عادلانہ تقسیم ہے۔
۵- واخذ الصدقات من مواضعھاووضعھافی حقھا : زکات اور دوسرے مالی واجبات کی صحیح جمع آوری اور ٹھیک ٹھیک مقامات پر انہیں خرچ کرنا ہے۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اس وسیع سطح پر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا انجام دینا، (جس میں ظالم کا مقابلہ، حقوق کی بازیابی ، ظلم وستم کا جڑ سے خاتمہ اور معاشرے میں عدل و انصاف کا قیام شامل ہے) حکومت اسلامی کے قیام اور ان امور کے اجراء کے لئے قوت ہاتھ میں لئے بغیرمحض انفرادی سطح پر تلقین اور زبانی طور پر اچھائیوں کی تاکید سے ممکن نہیں۔
امام حسین علیہ السلام کا یہ بیان درحقیقت ان لوگوں کے لئے واضح جواب ہے جو امربالمعروف اور نہی عن المنکر جیسے اہم اور بنیادی فریضے کو انتہائی محدود پیمانے میں، انفرادی سطح پر اور عمل کی بجائے محض زبانی کلامی تلقین میں منحصر سمجھتے ہیں۔
اسی طرح یہ خطاب اسلامی حکومت کے قیام کے واجب ہونے اور معاشرے میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے عملی اجراء کے لئے ایک مضبوط دلیل فراہم کرتا ہے۔
اسی بنا پر اور ایسے ہی متعدد دلائل کی روشنی میں بعض بزرگ شیعہ فقہا نے جہاد جیسے فریضے کو اس کی تمام تر عظمت ، وسعت اور احکام کے باوجود امربالمعروف اور نہی عن المنکر کی ایک شاخ قرار دیا ہے اور اسے ان دو اشد اہم فرائض کا ایک حصہ شمار کرتے ہیں۔
زیارت امام حسین میں درج ہونے والا جملہ: اشھد انک قد اقمت الصلاةوآتیت الزکاة وامرت بالمعروف و نھیت عن المنکر بھی اس حقیقت کا گواہ ہے اور اس مفہوم کی وضاحت کرتا ہے کہ حکومت یزید کی مخالفت میں امام حسین علیہ السلام کا جہاد اور مبارزہ درحقیقت فرائضِ الہیٰ کی ادائیگی ، نماز وزکات کے قیام اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضے کی انجام دہی کے لئے تھا۔
مختصر یہ کہ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا صحیح ، وسیع اور جامع مفہوم معاشرے میں عدل و انصاف کا رواج اور سماج سے ظلم و فساد کا مکمل خاتمہ ہے۔ جس کے لئے ضروری ہے کہ اسلامی حکومت قائم ہو، اور اگر کسی معاشرے میں امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا اس کے اس مفہوم میں اجراء نہ ہو اور اسلامی اصولوں کے مطابق حکومت قائم نہ کی جائے تو پھر قدرتی طور پر یہ ہو گا کہ اسکی جگہ ظالم و ستمگر اور بدقماش افراد معاشرے پر چھا جائیں گے۔ اسی بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے امیر المومنین نے اپنی آخری وصیت میں فرمایا:
ولا تترکواالأمربالمعروف و النهی عن المنکر فیولی علیکم اشرار کم فتدعون فلا یستجاب لکم
۔
((امربالمعروف اور نہی عن المنکرکو کسی صورت میں ترک نہ کرنا ،ورنہ تمہارے برے تم پر حاکم ہو جائیں گے ،پھر دعائیں بھی مانگو گے تو پوری نہیں ہوں گی۔))
۳ - تاریخ کے پست سرشت افراد
امام حسین علیہ السلام کے اس اہم خطبے کے یہ تین حصے ایک اعتبار سے فلسفہ ء تاریخ کے درس اور علم اجتماعیات کے و ہ گہرے نکات ہیں جن میں اسلام کے ابتدائی ۵۰ سال کے دوران مسلمانوں کی معاشرتی تبدیلیوں کے اسباب بیان ہوئے ہیں، اسلام کی عظمت کے ابتدائی دور ہی میں ظالموں اور ستمگروں کے قابض ہونے کی وجوہات ذکر ہوئی ہیں، اہل بیت اطہار کی حق تلفی اور معاویہ ابن ابی سفیان کے حاکم ہو جانے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور تین مختلف پہلوؤں سے ان مسائل کا جائزہ لیا گیا ۔
اس خطبے میں درحقیقت آیت قرآن :ان الله لا یغیر مابقوم حتی یغیروا
مابانفسه
مکی تاریخی شواہد اور انتہائی محسوس دلائل کی روشنی میں انتہائی خوبصورت اور دلنشین انداز میں تفسیر کی گئی ہے۔ نیز اسی خطبے میں امام حسین علیہ السلام کے اندرونی رنج و اندوہ اور ان کی تشویش کا اظہار بھی ہے اور اسی کے ساتھ ساتھ یہ خطبہ تاریخ اسلام میں آنے والے تمام مسلمانوں بالخصوص علما کے لئے تنبیہ اور بیداری کا پیغام بھی ہے۔
امام حسین علیہ السلام نے خطبے کے تیسرے حصے میں اس اہم اور تاریخی اجتماع میں موجود مسلمانوں ، اصحاب رسول اور ان کی اولادوں کو مخاطب قرار دیا۔ یہ لوگ مذہبی اور سماجی مقام کے حامل ایسے سرکردہ افراد تھے جو اپنے کردار کے ذریعے معاشرے میں ایک تحریک ایجاد کرسکتے تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جن کا قول و عمل، گفتار و کردار حرکت اور سکون افراد ملت کے لئے نمونہ ء عمل اور لائق تقلید تھا۔
انہیں چاہئے تھا کہ اپنی شخصیت کی اہمیت اور اس کے مرتبے کو پہچانتے اور اپنی صحیح حیثیت کا اندازہ لگاتے اور مظلوموں کی نجات اور معاشرے کو حقیقی معنوں میں فلاح و سعادت سے ہمکنار کرنے کے لئے تدبیر کرتے۔ لیکن دنیاوی زندگی کی محبت، مادی لذتوں کی حرص، آسائش طلبی اور سختیوں سے بچنے کی خواہش اور بعض اوقات اپنے جمود اور سادہ لوحی کی وجہ سے ان افراد نے بزدلی کی راہ اختیار کی اور زمین پر ہمیشہ باقی رہنے کی بچکانہ خواہش نے انہیں ان کی ذمے داریوں سے غافل کر دیا۔ ان لوگوں نے خدائی احکامات کی ایسی من مانی تفسیریں کیں جن سے ان کے ذاتی مقاصد حاصل ہو سکیں اور اپنی اس بے راہ روی پر مسلسل گامزن رہے۔
یہ وہ لوگ تھے جنہیں حق اور فضیلت کا محافظ سمجھا جانے کی وجہ سے معاشرے میں خصوصی عظمت اور مقام حاصل تھا، کمزور اور قدر ت مند، سب کے دلوں میں ان کی ہیبت اور دبدبہ قائم تھا اور ہر ایک انہیں خاص احترام کی نظر سے دیکھتا تھا۔
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ معاشرے کی ان سے ساری امیدیں اور توقعات ضائع ہو گئیں۔ ان لوگوں نے دین اور قرآن کی حفاظت کے لئے کچھ نہیں کیا، کسی مالی نقصان کاسامنا نہیں کیا اور نہ ہی کسی پابندی، قید و بند اور اذیت و آزار کو جھیلا۔ ان کے اقربا اور رشتے دار اسلامی مقدسات کا مذاق اڑاتے رہے اور انہوں نے ان کی کوئی مخالفت نہیں کی اوردین وقرآن کے حامیوں ، اسلام کی راہ میں اذیت و آزار جھیلنے والوں اور اس راہ میں جلا وطنی برداشت کرنے والوں کو کوئی اہمیت نہ دی۔ ان کی موجودگی میں اسلام و قرآن کی حرمت کو پامال کیا گیا اور یہ خاموش رہے بلکہ عملًا اسلام کے دشمنوں کی چاپلوسی اور ان سے ساز باز کی روش اخیتار کی اور یوں ظالموں کی حاکمیت اور مظلوموں کے حقوق کی پامالی کا راستہ ہموار کیا۔
لیکن اگر یہ غورکرتے تو جان لیتے کہ ایسا کر کے انہوں نے درحقیقت اپنے ہی لئے ایک بڑی مصیبت کا سامان کیا ہے، اورخود اپنے ہی ہاتھوں اپنی ذلت و رسوائی کی بنیادیں رکھی ہیں۔ کیونکہ اگر وہ حق کاساتھ نہ چھوڑتے، خط ولایت اور فرمان نبوت کے بارے میں اختلاف کا شکار نہ ہوتے، راہ خدا میں مارے جانے سے نہ کتراتے ، چندروزہ دنیاوی زندگی کی لالچ میں مبتلا نہ ہوتے اوراللہ کے راستے میں عارضی مصیبت، مشقت اور محرومیت پر صبر کرتے،تو اسلامی معاشرے کی سربراہی اور زمام امور ان ہی کے ہاتھ میں ہوتی اور اللہ کے احکام اور فرامین ان ہی کے ذریعے جاری ہوتے، مظلوم اورستم رسیدہ افراد ان ہی کے ہاتھوں نجات پاتے، محروموں اور مشکل کے ماروں کی داد رسی ہوتی اور ظالم و جابر ان کے ہاتھوں کچل دیئے جاتے۔
لیکن ان کی سستی اور کوتاہی نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا،اسلام سے ان کی دوری نے انہیں ذلیل و خوار کر دیا ،اورقدرت و حاکمیت دشمنوں کے ہاتھوں میں آ گئی، وہ جس طرح چاہتے ہیں مظلوموں کے ساتھ پیش آتے ہیں اور جس طرف ان کی شقی طبیعت کا میلان ہوتا ہے معاشرے کو اسی طرف لے جاتے ہیں، اللہ کے احکام کی تحقیر کرتے ہیں اور سنت رسول کی اہانت ۔ نابیناؤں، محتاجوں ،فقرا اور مساکین کو بنیادی ترین انسانی حقوق سے محروم کرتے ہیں۔ مملکت اسلامی کے ہر گوشے میں ایک مستبد فرد حاکم ہے اور ہر علاقے پر ایک خود خواہ شخص فرمانروا ہے۔ یہ لوگ اسلام کی قدرت اور مسلمانوں کی عزت و شوکت کو پامال کرنے کے لئے اپنے پاس موجود ہر قسم کے تبلیغاتی حربے استعمال کررہے ہیں، اسلامی دستور میں تحریف اور اسلامی قوانین کو الٹ پلٹ رہے ہیں، حدود کی سزاؤں کو انسانی حقوق کی پامالی ، قصاص کو ظلم اور تعزیرات کو قساوت کے طور پر متعارف کرا رہے ہیں ۔
یہ وہ خطاب ہے جو حسین ابن علی نے ارشاد فرمایا، حسین جو نواسہ ء رسول ہیں، فرزند امیر المومنین علی ابن ابی طالب ہیں اور فاطمہ زہرا کے لخت جگر ہیں۔ یہ صرف حسین ابن علی ہی کا کلام نہیں ہے بلکہ یہی تمام انبیاء کا کلام اور تمام ائمہ و اولیائے خدا کا درد دل ہے ،حضرت ابراہیم ، حضرت موسیٰ، حضرت عیسیٰ، اور خاتم الانبیاء کا کلا م ہے ، حضرت علی ، اما م حسن اور بقیہ ائمہ ء اطہار کا کلام ہے۔
خطبے کا عملی جواب
جس طرح یہ خطبہ اور یہ کلام انبیاء ، اولیاء اور ائمہء ہدیٰ کا کلام ہے، اسی طرح اس کاعملی جواب بھی سب سے پہلے انبیاء اور ائمہء ہدیٰ نے دیا، ا ور وہی تھے جنہوں نے تاریخ انسانی کے ہر دور میں اس حیات بخش ندا پر لبیک کہا۔
جی ہاں! یہی لوگ منادی بھی تھے اور لبیک کہنے والے بھی، خود ہی خطاب کرنے والے بھی تھے، خود ہی اس خطاب کو سننے والے بھی، خودہی دعوت دینے والے بھی اور خود ہی اس کا جواب دینے والے بھی۔ انہوں نے اس دعوت کے جواب میں ایسی استقامت اور ثابت قدمی کا ثبوت دیا کہ شوق و اشتیاق کے ساتھ آگ میں کود پڑے، اورآخر کار اپنے زمانے کے سرکش نمرودیوں پر غالب آ ئے، اورتوحید کی بنیادیں قائم کر دیں اور اپنے اہداف و مقاصد کے سلسلے میں ایسی پائیداری دکھائی کہ دشمن کو سمندر کی موجوں میں غرق کر کے اپنی قوم کو ذلت و غلامی سے نجات دلائی ۔یہ لوگ اپنے عہد و پیمان سے اس قدر وفادار تھے کہ جب ان کے کٹے ہوئے سر طشت میں رکھ کر دشمنوں کو پیش کئے گئے تو اس عالم میں بھی انہوں نے شمشیر پر خون کی فتح کا نعرہ بلند کیا۔
اور بالآخر تشیع کو یہ اعزاز اور افتخار حاصل ہوا کہ اس کے ائمہ اور اس کے رہنماؤں نے دینِ اسلام کی سربلندی اور تعلیمات قرآنی کے عملی نفاذ کی راہ میں( جس کاایک مظہر عادلانہ اسلامی حکومت کی تشکیل و تاسیس ہے) کبھی پس زنداں اور کبھی جلاوطنی کی زندگی بسر کی اور آخر کار اپنے زمانے کے ظالموں اور طاغوتوں کی حکومتوں کے خاتمے کے لئے جد و جہد کے دوران شہید ہوئے
۔ جہاں تک حالات اور وسائل نے اجازت دی ائمہ نے مسلحانہ جد و جہد کی اور اپنی تلواریں سونت کر دشمنان اسلام کی صفوں پر حملے کئے۔ درحقیقت امیر المومنین حضرت علی ابن ابی طالب کے زمانے کی تین جنگیں اور(معاویہ ابن ابی سفیان اور یزید ابن معاویہ کے مقابلے میں) امام حسن اور امام حسین کی معرکہ آرائی تاریخ انسانیت اور تاریخ اسلام میں ظلم و ناانصافی کے خلاف کی جانے والی جد و جہد کے سنہرے اوراق ہیں۔
اما م حسین اور ان کے اصحاب کا عملی جواب
اگرچہ اس خطبے کا مضمون حاضرین اور سامعین کے سامنے امام حسین کے آئندہ اقدامات اور حکمت عملی کا اجمالی خاکہ پیش کر رہا تھا اور امام علیہ السلام کی جانب سے عملی امربالمعروف اور نہی عن المنکر کی خبر دے رہا تھا اور سامعین کو آئندہ کے حالات کے لئے تیار رہنے اور اس قیام سے تعاون کرنے کی دعوت دے رہا تھا لیکن خطبے کے آخری جملات میں یہ حقیقت انتہائی کھلے الفاظ کے ساتھ بیان کر دی گئی اور ایک بھرپور اور تاریخی تحریک کی وضاحت کرتے ہوئے امام نے فرمایا :
اللهم انک تعلم انه لم یکن ماکان منا منافسة فی سلطان فانکم ان لم تنصروناو تنصفونا قوی الظلمة علیکم و عملوا فی اطفاء نور نبیکم
(( بارالہاٰ ! تو جانتا ہے کہ جو کچھ ہماری جانب سے ہوا (بنی امیہ اور معاویہ کی حکومت کی مخالفت میں ) وہ نہ تو حصول اقتدار کے سلسلے میں رسہ کشی ہے اور نہ ہی یہ مال دنیا کی افزوں طلبی کے لئے ہے بلکہ یہ صرف اس لئے ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ تیرے دین کی نشانیوں کو آشکارا کر دیں اور تیری مملکت میں اصلاح کریں، تیرے مظلوم بندوں کو امان میسر ہو اور جو فرائض ، قوانین اور احکام تو نے معین کئے ہیں ان پر عمل ہو۔ اب اگر آپ حضرات (حاضرین سے خطاب) نے ہماری مدد نہ کی اور ہمارے ساتھ انصاف نہ کیا تو ظالم آپ پر اور زیادہ چھا جائیں گے اور (( نور نبوت )) کو بجھانے میں اور زیادہ فعال ہو جائیں گے ۔ ہمارے لئے تو بس خدا ہی کافی ہے، اسی پر ہم نے بھروسہ کیا ہے اسی کی طرف ہماری توجہ ہے اور اسی کی جانب پلٹنا ہے۔))
اس خطبے میں امام حسین نے اپنے جس مقصد کو بیان کیا یہ وہی مقصد ہے جس کی جانب آپ نے اس خطاب کے تین سال بعد( ۲۸ رجب ۶۰ ھ میں) مدینہ سے روانگی کے وقت اپنے تاریخی وصیت نامے میں اشارہ فرمایا تھا۔
وانی لم اخرج اشراً ولا بطراً ولا مفسداً ولا ظالماً وانما
خرجت لطلب الاصلاح فی امة جدی، اریدان آمر بالمعروف و انھی عن المنکر۔۔۔
((میرا مدینہ سے نکلنا خود غرضی کے تحت ہے نہ تفریح کی غرض سے اور نہ ہی میں ظلم و فساد برپا کرنا چاہتا ہوں۔ میں تو بس یہ چاہتا ہوں کہ نیکیوں اور بھلائیوں کا حکم دوں اوربرائیوں سے روکوں اور امت کے امور کی اصلاح کروں۔))
اور حقیقت یہ ہے کہ ائمہء اطہار کے پیروکار علما اور فضلا نے ہمیشہ انہی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اسلام کے احیاء کے لئے نہ صرف شہید اول ، دوم اور سوم قربان کئے بلکہ شھداء الفضیلہ
کی ایک عظیم الشان صف تشکیل دی۔ تاریخ کے اوراق ایسے ہزاروں شہدا کے ناموں سے سجے ہوئے ہیں۔ان کے علاوہ ایسے گم نام شہدا بھی ہیں ،جن کے نام کتاب علیین میں دیکھے جاسکتے ہیں اور جو ایسے ہی بیش قیمت الفاظ میں خراج عقیدت کے مستحق ہیں کہ:
(( سلام ہو ان زندئہ جاوید جانباز علمائے دین پر جنہوں نے اپنا رسالہء عملیہ و علمیہ دم شہادت اپنے خون کی روشنائی سے تحریر کیا، اور وعظ ونصیحت و خطاب کے منبر پر اپنی شمع حیات سے چراغ روشن کیا۔ حوزئہ علمیہ اور صف علما کے ان شہدا پر آفرین و مرحبا جنہوں نے جنگ و جہاد کا موقع آ پڑنے پر مدرسے اور درس وبحث سے اپنارشتہ منقطع کیا اور حقیقت علم کے پیروں میں پڑی خواہشات دنیاوی کی زنجیروں کو کاٹ ڈالا اور سرعت سے پرواز کر کے فرشتوں کے مہمان ہوئے اور ملکویتوں کے اجتماع میں اپنی حاضری کے نغمے بکھیرے۔ درود و سلام ان شہداء پر جو تفقہ کی حقیقت پا لینے کی حد تک آگے بڑھے اور اپنی قوم و ملت کے لئے ایسے مخبر صادق بنے جن کے ہر ہر لفظ کی صداقت کی گواہی ان کے خون کے قطروں اور جسم کے پارہ پارہ ٹکڑوں نے دی ہے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ اسلام اور تشیع کے سچے علماسے اس کے علاوہ توقع بھی نہیں کی جاسکتی کہ دعوت حق اور اپنی قوم کی خاطر جہاد کی راہ میں سب سے پہلی قربانی وہ خود پیش کریں گے اور ان کی کتاب زندگی کااختتام شہادت پر ہو گا۔))
مترجم : جیسا کہ قارئین محترم نے ملاحظہ فرمایا، اس تاریخی خطبے میں امام حسین علیہ السلام کے مخاطب خاص کر وہ افراد ہیں جودینی رہنماؤں کے طور پر پہچانے جاتے ہیں اور امام علیہ السلام نے انہی افراد کو معاشرے کے انحراف اور غفلت کا ذمے دار قرار دیا ہے۔ لیکن
ساتھ ہی یہ بیان فرمایا ہے کہ امربالمعروف اور نہی عن المنکر وہ بنیادی ترین فریضہ ہے جس کے ذریعے معاشرے کی بقا ہے اور اگر اس پر عمل نہ ہو تو معاشرے کی بنیادیں متزلزل ہو جاتی ہیں ، عدل و انصاف کا خاتمہ ہوجاتا ہے اور ظالم و ستمگر زمام امور اپنے ہاتھوں میں لے کر معاشرے کو تباہی اور بربادی سے دوچار کردیتے ہیں اوراسے اپنے ظلم و جبر کا نشانہ بناتے ہیں۔ ایسے موقع پر معاشرے کے ہر فرد کی ذمے داری ہے کہ وہ اپنے وظیفے اور فریضے کا شعور حاصل کرے اور حتیٰ المقدور اس فریضے کو انجام دے جس کا ترک کرنا ان آفات و بلیات کا باعث بنا۔
آج صدیوں کے بعد دنیا ایک بار پھر اسلام کی نشات ثانیہ کا دور دیکھ رہی ہے اور امام خمینی کی قیادت میں آنے والے اسلامی انقلاب کے بعد مسلمانوں میں شعور اور بیداری کی ایک ایسی لہر اٹھی ہے جس کی قدرت نے ایران کی ڈھائی ہزار سالہ بادشاہت کو پاش پاش کر دیا اور اس کے سچے ماننے والوں نے نہتے ہاتھوں اور وسائل کی کمیابی کے باوجود اسرائیل جیسے غاصب اور دشمن دین مبین کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔
آج ہر صاحب شعور اس اعتراف پر مجبور ہے کہ آئندہ صدی اسلام کی صدی ہو گی اور دنیا کے موجودہ سیاسی اور تمدنی نظاموں کی تباہی اور ان کا کھوکھلا پن ثابت ہونا اور اس کے نتیجے میں بڑھتی ہوئی مایوسی نیز تبلیغی ذرائع کی فراوانی اوروسعت اور سب سے بڑھ کر
مسلمانوں کے اندر اٹھتی ہوئی بیداری کی لہرکو دیکھتے ہوئے بآسانی کہا جا سکتا ہے کہ اکیسویں صدی اسلام کی صدی ہو گی ۔لیکن ان تمام مثبت عوامل کے باوجودحتمی کامیابی کے لئے مسلمانوں کا اپناعزم ، ارادہ اور شعور و آگہی بنیادی عوامل ہیں۔ لہذا اگر مسلمان اس موقع پر بیداری اور ہوشیاری سے کام لیں تو یقینا یہ پیش گوئی صحیح ثابت ہو سکتی ہے۔
اس کامیابی میں دو عوامل اہم ترین کردار ادا کریں گے۔ پہلا یہ کہ مسلمان دوسروں کے سامنے کسی بھی وعظ و نصیحت اور تبلیغ سے پہلے اپنی عملی زندگی میں اسلام کا نمونہ ء عمل پیش کریں کیونکہ اس بے زبان تبلیغ میں جو تاثیر ہے، وہ کسی بھی وعظ و نصیحت اور دعوت و ارشاد سے بڑھ کر ہے۔ اور دوسرا یہ کہ دعوت وتبلیغ منظم اور معیاری انداز میں کی جائے ۔ اسلام کی نظریاتی تعلیمات کے ساتھ ساتھ اس کی عملی تعلیمات اور دنیا کی موجودہ مشکلات کے حل کے سلسلے میں اسکی قابلیت کو واضح طور پر بیان کیا جائے۔
امام علیہ السلام کے زیر گفتگو خطبے کی آفاقیت یہ ہے کہ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا احیاء درحقیقت وہ تمام عوامل فراہم کرتا ہے جن کے ذریعے نہ صرف مسلمانوں کا اندرونی معاشرہ تعمیر نو کے مراحل طے کرتا ہے اور ہر قسم کے حوادث اور انحرافات کے مقابلے میں محفوظ ہو جاتا ہے بلکہ وہ اسلام کی موثر اور جامع تبلیغ کے تما م تر وسائل فراہم کرتا ہے۔ یوں یہ وہ شرعی وظیفہ ہے جس سے انسانیت حیات نو پاتی ہے اور اس کا ترک کرنا انسانیت کی پستی اور زوال و انحطاط کا اہم ترین سبب ہے ۔ اب اگر ایک عاقل مسلمان ہر قسم کے ظلم و استبداد،بے راہ روی اور انحطاط سے نجات کا خواہشمند ہے تو کلمات امام کی صورت میں اس کے لئے رہنمائی فراہم کر دی گئی ہے اور راہ حق پر مشعلیں نصب کر دی گئی ہیں اور یہی ائمہء حق کا وظیفہ تھا جس کے جواب میں لبیک کہنے والوں نے دنیا و آخرت کی سعادت حاصل کی اور
اس سے منہ موڑنے والے ابدی ذلت و خواری کا شکار ہوئے۔
____________________