خطبات امام حسین(علیہ السلام)

خطبات امام حسین(علیہ السلام) مؤلف:
زمرہ جات: امام حسین(علیہ السلام)

خطبات امام حسین(علیہ السلام)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 8 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 12530 / ڈاؤنلوڈ: 5753
سائز سائز سائز
خطبات امام حسین(علیہ السلام)

خطبات امام حسین(علیہ السلام)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


نوٹ:

اسلامی ثقافتی ادارہ " امامین الحسنین(ع) نیٹ ورک " نے اس کتاب کو برقی شکل میں، قارئین کرام کےلئےشائع کیا ہے۔

اورادارہ کی گِروہ علمی کی زیر نگرانی حُرُوفِ چِینی، فنی تنظیم وتصحیح اور ممکنہ غلطیوں کو درست کرنے کی حدالامکان کوشش کی گئی ہے۔

مفت PDF ڈاؤنلوڈ لنک http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۲۰۵&view=download&format=pdf

نیز اپنے مفید مشورے، پیشنہادات، اعتراضات اور ہر قسم کےسوالات کو ادارہ کےایمیل (ihcf.preach@gmail.com) پر سینڈ کرسکتے ہیں

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

علمائے دین اور عمائدین ملت سے حسین ابن علی کا خطاب

(امام حسین کا معروف خطبہ منیٰ اور اس کی تشریح وتوضیح )

تالیف

محمد صادق نجمی

ترجمہ

علی مرتضی زیدی

بِسْمِ ا للهِ الرّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

عرض ناشر

شریعت کی بالا دستی ، دین کو تحریف ( deviation ) اور بدعتوں سے محفوظ رکھنا، اسلامی معاشرے میں احکام الہی کی ترویج و نفاذ اور معاشرے میں عدل و انصاف کا قیام، ائمہ معصومین کی جد و جہد میں سر فہرست مقام پر رہے ہیں۔ تاریخ ائمہ پر نظر رکھنے والا، اور ائمہ کے اقوال و فرامین کا مطالعہ کرنے والا ہر فرد اس حقیقت سے آشنا ہے۔

امام حسین کا معروف خطبہ ء منیٰ، آنجناب کی زبانی ائمہ کے انہیں مقاصد کا اظہار ہے جنہیں ہم نے مندرجہ بالا سطور میں بیان کیا ہے۔

اس خطاب میں امام کے براہ راست مخاطب اور سامعین وہ چیدہ چیدہ اصحاب رسول، تابعین اور امت کے سرکردہ افراد تھے جن کا تعلق اس وقت کی مملکت اسلامی کے مختلف گوشوں سے تھا اور جنہیں آپ نے اس اجتماع میں خصوصی طور پر مدعو کیا تھا۔

امام نے شرکائے اجتماع کو اسلامی سیاست میں در آنے والے بگاڑ، اس کے نتیجے میں دین میں پیدا ہونے والی بدعتوں، شریعت کی بے توقیری اور مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم کی جانب متوجہ کیا، اور اس سلسلے میں انہیں ان کی غفلت و کوتاہی سے آگاہ کیا اور انہیں ان کا فریضہ یاد دلایا۔

یوں توامام کے اس خطاب کو چودہ سو سال گزر چکے ہیں، لیکن اس کا مطالعہ کرتے

ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ امام ۵۸ ھ میں میدان منیٰ میں کھڑے ہوئے آج کے مسلمانوں سے مخاطب ہیں،آپ کی نگاہوں کے سامنے آج کے اسلامی معاشروں کے سیاسی اور سماجی حالات ہیں اور آپ آج ہی کی زبان میں ، آج ہی کی اصطلاحات کے ذریعے انہیں اسلامی معاشروں کی ابتر صورتحال اور اسلام و مسلمین کی موجودہ پستی و انحطاط کے اسباب و وجوہات سے آگاہ کر رہے ہیں، اس سے نجات کی راہیں سجھا رہے ہیں اور انہیں ان کے فریضے کی ادائیگی پر ابھار رہے ہیں۔ اس خطاب کی اشاعت کے محرکات میں سے ایک محرک ہمارا یہی احساس ہے امید ہے اسے پڑھنے والے بھی یہی محسوس کریں گے اور دین کی سربلندی اور امت کو زبوں حالی اور پستی سے نکالنے کے لئے امام کے فرمودات کی روشنی میں اپنے کردار کی ادائیگی کا عزم لے کر اٹھیں گے۔

آپ کے ہاتھوں میں موجود کتاب، اس خطاب کی اسناد، اس کے پس منظر، اس کے ترجمے، اس کے اہم الفاظ کی تشریح اور اس میں پیش نظر رکھے جانے والے نمایاں نکات کی وضاحت پر مشتمل ہے، جسے ایران کے ممتاز عالم دین جناب محمد صادق نجمی نے تالیف کیا ہے۔

ہم جناب حجت الاسلام سید علی مرتضی زیدی کے شکر گزار ہیں جنہوں نے اپنے قیمتی وقت میں سے اس کتاب کے ترجمے کے لئے وقت نکالا۔ کتاب کے آخری صفحات کی بیشتر گفتگو ایرانی انقلاب اور وہاں کے داخلی حالات کی مناسبت سے تھی لہذا فاضل مترجم نے ان صفحات کی تلخیص کرتے ہوئے امام کے خطبے کے آفاقی پیغام کو اجاگر کیا ہے، اس سلسلے میں بھی ہم ان کے مشکور ہیں۔ ان مومن بھائی کا شکریہ ادا کرنا بھی ہم اپنے اوپر لازم سمجھتے ہیں جنہوں نے اس کتاب کی طباعت کے سلسلے میں ہم سے تعاون کیا اور دعا گو ہیں کہ بارالہا انہیں دنیا و آخرت میں سرخرو فرمائے۔ آخر میں قارئین سے درخواست ہے کہ وہ کتاب کے مطالعے کے بعد اپنی بے لاگ آراء اور تبصروں سے گریز نہ فرمائیں۔

امربالمعروف اور نہی عن المنکرکا اہم ترین پہلو

لیکن امام کے خطاب کے اس حصے میں جو بات انتہائی قابل توجہ اور اہمیت کی حامل ہے، وہ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے وسیع مفہوم اور اس کے مختلف پہلوؤں کی تشریح اور اس بنیادی مسئلے کے اہم ترین رخ اور عملی پہلو کی جانب اشارہ ہے ۔ کیونکہ امام نے قرآن کریم کی دو آیات کو بطور سند پیش کرتے ہوئے فرمایا : اگر معاشرے میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر برقرار ہو توچھوٹے بڑے تمام واجبات پرعمل ہو اور تمام مشکلات حل ہو جائیں ۔اس کے بعد نمونے اور مصداق کے طور پر پانچ امور کو نکتہ وار درج ذیل صورت میں بیان کیا :

۱-وذلک ان الامر بالمعروف و النهی عن المنکر دعاء الی الاسلام : امربالمعروف اور نہی عن المنکر اسلام کی طرف دعوت (فکری اور عقیدتی جہاد کے مساوی ) ہے۔

۲ -مع رد المظالم : مظلوموں کو ان کے حقوق لوٹانا ہے۔

۳-ومخالفة الظالم : ظالم کے خلاف جد و جہد ہے۔

۴-وقسمة الفی ء والغنائم : مال غنیمت اور عوامی دولت کی عادلانہ تقسیم ہے۔

۵- واخذ الصدقات من مواضعھاووضعھافی حقھا : زکات اور دوسرے مالی واجبات کی صحیح جمع آوری اور ٹھیک ٹھیک مقامات پر انہیں خرچ کرنا ہے۔

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اس وسیع سطح پر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا انجام دینا، (جس میں ظالم کا مقابلہ، حقوق کی بازیابی ، ظلم وستم کا جڑ سے خاتمہ اور معاشرے میں عدل و انصاف کا قیام شامل ہے) حکومت اسلامی کے قیام اور ان امور کے اجراء کے لئے قوت ہاتھ میں لئے بغیرمحض انفرادی سطح پر تلقین اور زبانی طور پر اچھائیوں کی تاکید سے ممکن نہیں۔

امام حسین علیہ السلام کا یہ بیان درحقیقت ان لوگوں کے لئے واضح جواب ہے جو امربالمعروف اور نہی عن المنکر جیسے اہم اور بنیادی فریضے کو انتہائی محدود پیمانے میں، انفرادی سطح پر اور عمل کی بجائے محض زبانی کلامی تلقین میں منحصر سمجھتے ہیں۔

اسی طرح یہ خطاب اسلامی حکومت کے قیام کے واجب ہونے اور معاشرے میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے عملی اجراء کے لئے ایک مضبوط دلیل فراہم کرتا ہے۔

اسی بنا پر اور ایسے ہی متعدد دلائل کی روشنی میں بعض بزرگ شیعہ فقہا نے جہاد جیسے فریضے کو اس کی تمام تر عظمت ، وسعت اور احکام کے باوجود امربالمعروف اور نہی عن المنکر کی ایک شاخ قرار دیا ہے اور اسے ان دو اشد اہم فرائض کا ایک حصہ شمار کرتے ہیں۔

زیارت امام حسین میں درج ہونے والا جملہ: اشھد انک قد اقمت الصلاةوآتیت الزکاة وامرت بالمعروف و نھیت عن المنکر بھی اس حقیقت کا گواہ ہے اور اس مفہوم کی وضاحت کرتا ہے کہ حکومت یزید کی مخالفت میں امام حسین علیہ السلام کا جہاد اور مبارزہ درحقیقت فرائضِ الہیٰ کی ادائیگی ، نماز وزکات کے قیام اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضے کی انجام دہی کے لئے تھا۔

مختصر یہ کہ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا صحیح ، وسیع اور جامع مفہوم معاشرے میں عدل و انصاف کا رواج اور سماج سے ظلم و فساد کا مکمل خاتمہ ہے۔ جس کے لئے ضروری ہے کہ اسلامی حکومت قائم ہو، اور اگر کسی معاشرے میں امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا اس کے اس مفہوم میں اجراء نہ ہو اور اسلامی اصولوں کے مطابق حکومت قائم نہ کی جائے تو پھر قدرتی طور پر یہ ہو گا کہ اسکی جگہ ظالم و ستمگر اور بدقماش افراد معاشرے پر چھا جائیں گے۔ اسی بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے امیر المومنین نے اپنی آخری وصیت میں فرمایا:

ولا تترکواالأمربالمعروف و النهی عن المنکر فیولی علیکم اشرار کم فتدعون فلا یستجاب لکم ۔

((امربالمعروف اور نہی عن المنکرکو کسی صورت میں ترک نہ کرنا ،ورنہ تمہارے برے تم پر حاکم ہو جائیں گے ،پھر دعائیں بھی مانگو گے تو پوری نہیں ہوں گی۔))(۴۵)

۳ - تاریخ کے پست سرشت افراد

امام حسین علیہ السلام کے اس اہم خطبے کے یہ تین حصے ایک اعتبار سے فلسفہ ء تاریخ کے درس اور علم اجتماعیات کے و ہ گہرے نکات ہیں جن میں اسلام کے ابتدائی ۵۰ سال کے دوران مسلمانوں کی معاشرتی تبدیلیوں کے اسباب بیان ہوئے ہیں، اسلام کی عظمت کے ابتدائی دور ہی میں ظالموں اور ستمگروں کے قابض ہونے کی وجوہات ذکر ہوئی ہیں، اہل بیت اطہار کی حق تلفی اور معاویہ ابن ابی سفیان کے حاکم ہو جانے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور تین مختلف پہلوؤں سے ان مسائل کا جائزہ لیا گیا ۔

اس خطبے میں درحقیقت آیت قرآن :ان الله لا یغیر مابقوم حتی یغیروا

مابانفسه مکی تاریخی شواہد اور انتہائی محسوس دلائل کی روشنی میں انتہائی خوبصورت اور دلنشین انداز میں تفسیر کی گئی ہے۔ نیز اسی خطبے میں امام حسین علیہ السلام کے اندرونی رنج و اندوہ اور ان کی تشویش کا اظہار بھی ہے اور اسی کے ساتھ ساتھ یہ خطبہ تاریخ اسلام میں آنے والے تمام مسلمانوں بالخصوص علما کے لئے تنبیہ اور بیداری کا پیغام بھی ہے۔

امام حسین علیہ السلام نے خطبے کے تیسرے حصے میں اس اہم اور تاریخی اجتماع میں موجود مسلمانوں ، اصحاب رسول اور ان کی اولادوں کو مخاطب قرار دیا۔ یہ لوگ مذہبی اور سماجی مقام کے حامل ایسے سرکردہ افراد تھے جو اپنے کردار کے ذریعے معاشرے میں ایک تحریک ایجاد کرسکتے تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جن کا قول و عمل، گفتار و کردار حرکت اور سکون افراد ملت کے لئے نمونہ ء عمل اور لائق تقلید تھا۔

انہیں چاہئے تھا کہ اپنی شخصیت کی اہمیت اور اس کے مرتبے کو پہچانتے اور اپنی صحیح حیثیت کا اندازہ لگاتے اور مظلوموں کی نجات اور معاشرے کو حقیقی معنوں میں فلاح و سعادت سے ہمکنار کرنے کے لئے تدبیر کرتے۔ لیکن دنیاوی زندگی کی محبت، مادی لذتوں کی حرص، آسائش طلبی اور سختیوں سے بچنے کی خواہش اور بعض اوقات اپنے جمود اور سادہ لوحی کی وجہ سے ان افراد نے بزدلی کی راہ اختیار کی اور زمین پر ہمیشہ باقی رہنے کی بچکانہ خواہش نے انہیں ان کی ذمے داریوں سے غافل کر دیا۔ ان لوگوں نے خدائی احکامات کی ایسی من مانی تفسیریں کیں جن سے ان کے ذاتی مقاصد حاصل ہو سکیں اور اپنی اس بے راہ روی پر مسلسل گامزن رہے۔

یہ وہ لوگ تھے جنہیں حق اور فضیلت کا محافظ سمجھا جانے کی وجہ سے معاشرے میں خصوصی عظمت اور مقام حاصل تھا، کمزور اور قدر ت مند، سب کے دلوں میں ان کی ہیبت اور دبدبہ قائم تھا اور ہر ایک انہیں خاص احترام کی نظر سے دیکھتا تھا۔

جبکہ حقیقت یہ ہے کہ معاشرے کی ان سے ساری امیدیں اور توقعات ضائع ہو گئیں۔ ان لوگوں نے دین اور قرآن کی حفاظت کے لئے کچھ نہیں کیا، کسی مالی نقصان کاسامنا نہیں کیا اور نہ ہی کسی پابندی، قید و بند اور اذیت و آزار کو جھیلا۔ ان کے اقربا اور رشتے دار اسلامی مقدسات کا مذاق اڑاتے رہے اور انہوں نے ان کی کوئی مخالفت نہیں کی اوردین وقرآن کے حامیوں ، اسلام کی راہ میں اذیت و آزار جھیلنے والوں اور اس راہ میں جلا وطنی برداشت کرنے والوں کو کوئی اہمیت نہ دی۔ ان کی موجودگی میں اسلام و قرآن کی حرمت کو پامال کیا گیا اور یہ خاموش رہے بلکہ عملًا اسلام کے دشمنوں کی چاپلوسی اور ان سے ساز باز کی روش اخیتار کی اور یوں ظالموں کی حاکمیت اور مظلوموں کے حقوق کی پامالی کا راستہ ہموار کیا۔

لیکن اگر یہ غورکرتے تو جان لیتے کہ ایسا کر کے انہوں نے درحقیقت اپنے ہی لئے ایک بڑی مصیبت کا سامان کیا ہے، اورخود اپنے ہی ہاتھوں اپنی ذلت و رسوائی کی بنیادیں رکھی ہیں۔ کیونکہ اگر وہ حق کاساتھ نہ چھوڑتے، خط ولایت اور فرمان نبوت کے بارے میں اختلاف کا شکار نہ ہوتے، راہ خدا میں مارے جانے سے نہ کتراتے ، چندروزہ دنیاوی زندگی کی لالچ میں مبتلا نہ ہوتے اوراللہ کے راستے میں عارضی مصیبت، مشقت اور محرومیت پر صبر کرتے،تو اسلامی معاشرے کی سربراہی اور زمام امور ان ہی کے ہاتھ میں ہوتی اور اللہ کے احکام اور فرامین ان ہی کے ذریعے جاری ہوتے، مظلوم اورستم رسیدہ افراد ان ہی کے ہاتھوں نجات پاتے، محروموں اور مشکل کے ماروں کی داد رسی ہوتی اور ظالم و جابر ان کے ہاتھوں کچل دیئے جاتے۔

لیکن ان کی سستی اور کوتاہی نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا،اسلام سے ان کی دوری نے انہیں ذلیل و خوار کر دیا ،اورقدرت و حاکمیت دشمنوں کے ہاتھوں میں آ گئی، وہ جس طرح چاہتے ہیں مظلوموں کے ساتھ پیش آتے ہیں اور جس طرف ان کی شقی طبیعت کا میلان ہوتا ہے معاشرے کو اسی طرف لے جاتے ہیں، اللہ کے احکام کی تحقیر کرتے ہیں اور سنت رسول کی اہانت ۔ نابیناؤں، محتاجوں ،فقرا اور مساکین کو بنیادی ترین انسانی حقوق سے محروم کرتے ہیں۔ مملکت اسلامی کے ہر گوشے میں ایک مستبد فرد حاکم ہے اور ہر علاقے پر ایک خود خواہ شخص فرمانروا ہے۔ یہ لوگ اسلام کی قدرت اور مسلمانوں کی عزت و شوکت کو پامال کرنے کے لئے اپنے پاس موجود ہر قسم کے تبلیغاتی حربے استعمال کررہے ہیں، اسلامی دستور میں تحریف اور اسلامی قوانین کو الٹ پلٹ رہے ہیں، حدود کی سزاؤں کو انسانی حقوق کی پامالی ، قصاص کو ظلم اور تعزیرات کو قساوت کے طور پر متعارف کرا رہے ہیں ۔

یہ وہ خطاب ہے جو حسین ابن علی نے ارشاد فرمایا، حسین جو نواسہ ء رسول ہیں، فرزند امیر المومنین علی ابن ابی طالب ہیں اور فاطمہ زہرا کے لخت جگر ہیں۔ یہ صرف حسین ابن علی ہی کا کلام نہیں ہے بلکہ یہی تمام انبیاء کا کلام اور تمام ائمہ و اولیائے خدا کا درد دل ہے ،حضرت ابراہیم ، حضرت موسیٰ، حضرت عیسیٰ، اور خاتم الانبیاء کا کلا م ہے ، حضرت علی ، اما م حسن اور بقیہ ائمہ ء اطہار کا کلام ہے۔

خطبے کا عملی جواب

جس طرح یہ خطبہ اور یہ کلام انبیاء ، اولیاء اور ائمہء ہدیٰ کا کلام ہے، اسی طرح اس کاعملی جواب بھی سب سے پہلے انبیاء اور ائمہء ہدیٰ نے دیا، ا ور وہی تھے جنہوں نے تاریخ انسانی کے ہر دور میں اس حیات بخش ندا پر لبیک کہا۔

جی ہاں! یہی لوگ منادی بھی تھے اور لبیک کہنے والے بھی، خود ہی خطاب کرنے والے بھی تھے، خود ہی اس خطاب کو سننے والے بھی، خودہی دعوت دینے والے بھی اور خود ہی اس کا جواب دینے والے بھی۔ انہوں نے اس دعوت کے جواب میں ایسی استقامت اور ثابت قدمی کا ثبوت دیا کہ شوق و اشتیاق کے ساتھ آگ میں کود پڑے، اورآخر کار اپنے زمانے کے سرکش نمرودیوں پر غالب آ ئے، اورتوحید کی بنیادیں قائم کر دیں اور اپنے اہداف و مقاصد کے سلسلے میں ایسی پائیداری دکھائی کہ دشمن کو سمندر کی موجوں میں غرق کر کے اپنی قوم کو ذلت و غلامی سے نجات دلائی ۔یہ لوگ اپنے عہد و پیمان سے اس قدر وفادار تھے کہ جب ان کے کٹے ہوئے سر طشت میں رکھ کر دشمنوں کو پیش کئے گئے تو اس عالم میں بھی انہوں نے شمشیر پر خون کی فتح کا نعرہ بلند کیا۔

اور بالآخر تشیع کو یہ اعزاز اور افتخار حاصل ہوا کہ اس کے ائمہ اور اس کے رہنماؤں نے دینِ اسلام کی سربلندی اور تعلیمات قرآنی کے عملی نفاذ کی راہ میں( جس کاایک مظہر عادلانہ اسلامی حکومت کی تشکیل و تاسیس ہے) کبھی پس زنداں اور کبھی جلاوطنی کی زندگی بسر کی اور آخر کار اپنے زمانے کے ظالموں اور طاغوتوں کی حکومتوں کے خاتمے کے لئے جد و جہد کے دوران شہید ہوئے(۴۶) ۔ جہاں تک حالات اور وسائل نے اجازت دی ائمہ نے مسلحانہ جد و جہد کی اور اپنی تلواریں سونت کر دشمنان اسلام کی صفوں پر حملے کئے۔ درحقیقت امیر المومنین حضرت علی ابن ابی طالب کے زمانے کی تین جنگیں اور(معاویہ ابن ابی سفیان اور یزید ابن معاویہ کے مقابلے میں) امام حسن اور امام حسین کی معرکہ آرائی تاریخ انسانیت اور تاریخ اسلام میں ظلم و ناانصافی کے خلاف کی جانے والی جد و جہد کے سنہرے اوراق ہیں۔

اما م حسین اور ان کے اصحاب کا عملی جواب

اگرچہ اس خطبے کا مضمون حاضرین اور سامعین کے سامنے امام حسین کے آئندہ اقدامات اور حکمت عملی کا اجمالی خاکہ پیش کر رہا تھا اور امام علیہ السلام کی جانب سے عملی امربالمعروف اور نہی عن المنکر کی خبر دے رہا تھا اور سامعین کو آئندہ کے حالات کے لئے تیار رہنے اور اس قیام سے تعاون کرنے کی دعوت دے رہا تھا لیکن خطبے کے آخری جملات میں یہ حقیقت انتہائی کھلے الفاظ کے ساتھ بیان کر دی گئی اور ایک بھرپور اور تاریخی تحریک کی وضاحت کرتے ہوئے امام نے فرمایا :

اللهم انک تعلم انه لم یکن ماکان منا منافسة فی سلطان فانکم ان لم تنصروناو تنصفونا قوی الظلمة علیکم و عملوا فی اطفاء نور نبیکم

(( بارالہاٰ ! تو جانتا ہے کہ جو کچھ ہماری جانب سے ہوا (بنی امیہ اور معاویہ کی حکومت کی مخالفت میں ) وہ نہ تو حصول اقتدار کے سلسلے میں رسہ کشی ہے اور نہ ہی یہ مال دنیا کی افزوں طلبی کے لئے ہے بلکہ یہ صرف اس لئے ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ تیرے دین کی نشانیوں کو آشکارا کر دیں اور تیری مملکت میں اصلاح کریں، تیرے مظلوم بندوں کو امان میسر ہو اور جو فرائض ، قوانین اور احکام تو نے معین کئے ہیں ان پر عمل ہو۔ اب اگر آپ حضرات (حاضرین سے خطاب) نے ہماری مدد نہ کی اور ہمارے ساتھ انصاف نہ کیا تو ظالم آپ پر اور زیادہ چھا جائیں گے اور (( نور نبوت )) کو بجھانے میں اور زیادہ فعال ہو جائیں گے ۔ ہمارے لئے تو بس خدا ہی کافی ہے، اسی پر ہم نے بھروسہ کیا ہے اسی کی طرف ہماری توجہ ہے اور اسی کی جانب پلٹنا ہے۔))

اس خطبے میں امام حسین نے اپنے جس مقصد کو بیان کیا یہ وہی مقصد ہے جس کی جانب آپ نے اس خطاب کے تین سال بعد( ۲۸ رجب ۶۰ ھ میں) مدینہ سے روانگی کے وقت اپنے تاریخی وصیت نامے میں اشارہ فرمایا تھا۔

وانی لم اخرج اشراً ولا بطراً ولا مفسداً ولا ظالماً وانما

خرجت لطلب الاصلاح فی امة جدی، اریدان آمر بالمعروف و انھی عن المنکر۔۔۔

((میرا مدینہ سے نکلنا خود غرضی کے تحت ہے نہ تفریح کی غرض سے اور نہ ہی میں ظلم و فساد برپا کرنا چاہتا ہوں۔ میں تو بس یہ چاہتا ہوں کہ نیکیوں اور بھلائیوں کا حکم دوں اوربرائیوں سے روکوں اور امت کے امور کی اصلاح کروں۔))

اور حقیقت یہ ہے کہ ائمہء اطہار کے پیروکار علما اور فضلا نے ہمیشہ انہی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اسلام کے احیاء کے لئے نہ صرف شہید اول ، دوم اور سوم قربان کئے بلکہ شھداء الفضیلہ(۴۷) کی ایک عظیم الشان صف تشکیل دی۔ تاریخ کے اوراق ایسے ہزاروں شہدا کے ناموں سے سجے ہوئے ہیں۔ان کے علاوہ ایسے گم نام شہدا بھی ہیں ،جن کے نام کتاب علیین میں دیکھے جاسکتے ہیں اور جو ایسے ہی بیش قیمت الفاظ میں خراج عقیدت کے مستحق ہیں کہ:

(( سلام ہو ان زندئہ جاوید جانباز علمائے دین پر جنہوں نے اپنا رسالہء عملیہ و علمیہ دم شہادت اپنے خون کی روشنائی سے تحریر کیا، اور وعظ ونصیحت و خطاب کے منبر پر اپنی شمع حیات سے چراغ روشن کیا۔ حوزئہ علمیہ اور صف علما کے ان شہدا پر آفرین و مرحبا جنہوں نے جنگ و جہاد کا موقع آ پڑنے پر مدرسے اور درس وبحث سے اپنارشتہ منقطع کیا اور حقیقت علم کے پیروں میں پڑی خواہشات دنیاوی کی زنجیروں کو کاٹ ڈالا اور سرعت سے پرواز کر کے فرشتوں کے مہمان ہوئے اور ملکویتوں کے اجتماع میں اپنی حاضری کے نغمے بکھیرے۔ درود و سلام ان شہداء پر جو تفقہ کی حقیقت پا لینے کی حد تک آگے بڑھے اور اپنی قوم و ملت کے لئے ایسے مخبر صادق بنے جن کے ہر ہر لفظ کی صداقت کی گواہی ان کے خون کے قطروں اور جسم کے پارہ پارہ ٹکڑوں نے دی ہے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ اسلام اور تشیع کے سچے علماسے اس کے علاوہ توقع بھی نہیں کی جاسکتی کہ دعوت حق اور اپنی قوم کی خاطر جہاد کی راہ میں سب سے پہلی قربانی وہ خود پیش کریں گے اور ان کی کتاب زندگی کااختتام شہادت پر ہو گا۔))(۴۸)

مترجم : جیسا کہ قارئین محترم نے ملاحظہ فرمایا، اس تاریخی خطبے میں امام حسین علیہ السلام کے مخاطب خاص کر وہ افراد ہیں جودینی رہنماؤں کے طور پر پہچانے جاتے ہیں اور امام علیہ السلام نے انہی افراد کو معاشرے کے انحراف اور غفلت کا ذمے دار قرار دیا ہے۔ لیکن

ساتھ ہی یہ بیان فرمایا ہے کہ امربالمعروف اور نہی عن المنکر وہ بنیادی ترین فریضہ ہے جس کے ذریعے معاشرے کی بقا ہے اور اگر اس پر عمل نہ ہو تو معاشرے کی بنیادیں متزلزل ہو جاتی ہیں ، عدل و انصاف کا خاتمہ ہوجاتا ہے اور ظالم و ستمگر زمام امور اپنے ہاتھوں میں لے کر معاشرے کو تباہی اور بربادی سے دوچار کردیتے ہیں اوراسے اپنے ظلم و جبر کا نشانہ بناتے ہیں۔ ایسے موقع پر معاشرے کے ہر فرد کی ذمے داری ہے کہ وہ اپنے وظیفے اور فریضے کا شعور حاصل کرے اور حتیٰ المقدور اس فریضے کو انجام دے جس کا ترک کرنا ان آفات و بلیات کا باعث بنا۔

آج صدیوں کے بعد دنیا ایک بار پھر اسلام کی نشات ثانیہ کا دور دیکھ رہی ہے اور امام خمینی  کی قیادت میں آنے والے اسلامی انقلاب کے بعد مسلمانوں میں شعور اور بیداری کی ایک ایسی لہر اٹھی ہے جس کی قدرت نے ایران کی ڈھائی ہزار سالہ بادشاہت کو پاش پاش کر دیا اور اس کے سچے ماننے والوں نے نہتے ہاتھوں اور وسائل کی کمیابی کے باوجود اسرائیل جیسے غاصب اور دشمن دین مبین کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔

آج ہر صاحب شعور اس اعتراف پر مجبور ہے کہ آئندہ صدی اسلام کی صدی ہو گی اور دنیا کے موجودہ سیاسی اور تمدنی نظاموں کی تباہی اور ان کا کھوکھلا پن ثابت ہونا اور اس کے نتیجے میں بڑھتی ہوئی مایوسی نیز تبلیغی ذرائع کی فراوانی اوروسعت اور سب سے بڑھ کر

مسلمانوں کے اندر اٹھتی ہوئی بیداری کی لہرکو دیکھتے ہوئے بآسانی کہا جا سکتا ہے کہ اکیسویں صدی اسلام کی صدی ہو گی ۔لیکن ان تمام مثبت عوامل کے باوجودحتمی کامیابی کے لئے مسلمانوں کا اپناعزم ، ارادہ اور شعور و آگہی بنیادی عوامل ہیں۔ لہذا اگر مسلمان اس موقع پر بیداری اور ہوشیاری سے کام لیں تو یقینا یہ پیش گوئی صحیح ثابت ہو سکتی ہے۔

اس کامیابی میں دو عوامل اہم ترین کردار ادا کریں گے۔ پہلا یہ کہ مسلمان دوسروں کے سامنے کسی بھی وعظ و نصیحت اور تبلیغ سے پہلے اپنی عملی زندگی میں اسلام کا نمونہ ء عمل پیش کریں کیونکہ اس بے زبان تبلیغ میں جو تاثیر ہے، وہ کسی بھی وعظ و نصیحت اور دعوت و ارشاد سے بڑھ کر ہے۔ اور دوسرا یہ کہ دعوت وتبلیغ منظم اور معیاری انداز میں کی جائے ۔ اسلام کی نظریاتی تعلیمات کے ساتھ ساتھ اس کی عملی تعلیمات اور دنیا کی موجودہ مشکلات کے حل کے سلسلے میں اسکی قابلیت کو واضح طور پر بیان کیا جائے۔

امام علیہ السلام کے زیر گفتگو خطبے کی آفاقیت یہ ہے کہ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا احیاء درحقیقت وہ تمام عوامل فراہم کرتا ہے جن کے ذریعے نہ صرف مسلمانوں کا اندرونی معاشرہ تعمیر نو کے مراحل طے کرتا ہے اور ہر قسم کے حوادث اور انحرافات کے مقابلے میں محفوظ ہو جاتا ہے بلکہ وہ اسلام کی موثر اور جامع تبلیغ کے تما م تر وسائل فراہم کرتا ہے۔ یوں یہ وہ شرعی وظیفہ ہے جس سے انسانیت حیات نو پاتی ہے اور اس کا ترک کرنا انسانیت کی پستی اور زوال و انحطاط کا اہم ترین سبب ہے ۔ اب اگر ایک عاقل مسلمان ہر قسم کے ظلم و استبداد،بے راہ روی اور انحطاط سے نجات کا خواہشمند ہے تو کلمات امام کی صورت میں اس کے لئے رہنمائی فراہم کر دی گئی ہے اور راہ حق پر مشعلیں نصب کر دی گئی ہیں اور یہی ائمہء حق کا وظیفہ تھا جس کے جواب میں لبیک کہنے والوں نے دنیا و آخرت کی سعادت حاصل کی اور

اس سے منہ موڑنے والے ابدی ذلت و خواری کا شکار ہوئے۔

____________________

۱ -سلیم بن قیس ہلالی (وفات ۹۰ہجری) نے اپنی بحث کی مناسبت سے خطبے کے پہلے حصے کا ذکر کیا ہے ،جو اہل بیت کے فضائل سے متعلق ہے اور خطبہ ارشاد کئے جانے کے مقام اورتاریخ کو بھی واضح کیا ہے۔

۲ - چوتھی صدی ہجری کے عظیم محدث ((حسن بن شعبہ حرانی ))نے اپنی گرانقدر کتاب ((تحف العقول)) میں خطبے کے صرف دوسرے اور تیسرے حصے کے متن کو نقل کیا ہے-

۳۔احتجاج ۔ج ۲۔ ص ۱۷

۴۔ بحارالانوار ۔ نیا ایڈیشن ۔ج ۱۰۰ ۔ص ۷۹، وافی ۔ باب الحث، علی الامربالمعروف والنہی عن المنکر ۔ حاشیئہ مکاسب بحث ولایت فقیہ۔

۵۔ العذیر ۔ ج ۱۔ ص ۹۹ ۱۔

۶۔ ولایت فقیہ ۔ ص ۵ ۱۲ -

۷۔ شام پر ۴۰ سال تک معاویہ کی حکومت قائم رہی اور متن میں مذکور ۲۵ سال کا تعلق حضرت عثمان کی حکومت کے قیام کے بعد کے زمانے سے ہے، جس میں معاویہ کی حکومت نے بتدریج پوری اسلامی مملکت تک وسعت اختیار کر لی تھی۔

۸ ۔کتاب سلیم بن قیس (مطبوعہ دارالکتب الاسلامیہ) ص ۲۰۶ ۔ یہی باتیں ابن ابی الحدید نے نہج البلاغہ کی شرح ۔ ج ۱۱ ۔ ص ۴۶ ۔ ۴۴ میں ابوالحسن مدائنی (وفات ۲۲۵ھ)کی کتاب ((الاحداث ))سے نقل کی ہیں ۔

۹۔۵۰ھ میں امام حسن کی شہادت واقع ہوئی ۔

۱۰۔ کتاب سلیم کے بعض نسخوں میں سنة (ایک سال)اور بعض میں سنتین(دو سال) لکھا ہے لیکن طبرسی کی احتجاج میں سنتین (دو سال) تحریر ہے ۔

۱۱۔ طبرسی نے شرکاء کی تعداد ایک ہزار سے زیادہ بیان کی ہے (اکثر من الف رجل)

۱۲۔ سنن ترمذی ۔ ج ۵، المناقب۔ حدیث نمبر ۳۸۰۴ ، اسدالغابہ ۔ج ۳ ۔ص ۱۶

۱۳۔ سنن ترمذی ۔ ج ۵، المناقب حدیث نمبر۳۸۱۵، مسند احمد بن حنبل ۔ ج ۱ ۔ ص ۳۳۱ ، ج ۲ ۔ ص ۲۶

۱۴ ۔سنن ترمذی ۔ ج ۵ ، المناقب ۔ حدیث نمبر۳۸۱۱، مسند احمد بن حنبل ۔ ج ۱ ۔ ص ۳۳۱

۱۵ مستدرک صحیحین ۔ ج ۳ ۔ ص ۱۰۹، ۱۳۴

۱۶۔ صحیح مسلم ۔ ج ۴ ۔ حدیث نمبر۲۴۰۴، سنن ترمذی ۔ ج ۵، المناقب ۔ حدیث نمبر۳۸۰۸ اور ۳۸۱۳، سنن ابن ماجہ ۔ مقدمہ۔ حدیث نمبر ۱۱۵، مستدرک صحیحین ۔ ج ۳ ۔ ص ۱۰۹ اور ۱۳۳

۱۷۔ سنن ترمذی ۔ ج ۵، المناقب ۔ حدیث نمبر ۳۷۹۶، مسند احمد بن حنبل ۔ ج ۱ ۔ ص ۳۳۱

۱۸۔ سنن ترمذی۔ ج ۵ ، المناقب۔ حدیث نمبر ۳۸۰۸، مستدرک صحیحین۔ ج ۳ ۔ ص ۱۵۰

۱۹۔ سنن ترمذی ۔ حدیث نمبر۲۸۰۸، ۳۸۰۸، ۲۴۰۵، ۲۴۰۶، صحیح مسلم ۔ ج ۴۔ حدیث ۲۴۰۴، سنن ابن ماجہ۔ مقدمہ ۔ حدیث نمبر ۱۱۷

۲۰۔ سنن ترمذی ۔ ج ۵ ، المناقب ۔ حدیث نمبر ۳۸۰۳

۲۱۔ سنن ترمذی ۔ ج ۵ ، المناقب ۔ حدیث نمبر۳۷۹۶

۲۲ سنن ترمذی ۔ ج ۵ ، المناقب۔ حدیث نمبر۳۸۰۶

۲۳۔ نظم درر السمطین۔ ص ۱۲۸نقل از احقاق الحق ۔ ج ۴ ۔ ص ۳۵۹ ، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ۔ ج ۹ ۔ ص ۱۷۴

۲۴۔ مستدرک صحیحین ۔ ج ۳۔ ص ۱۲۴

۲۵۔مستدرک ۔ ج ۳ ۔ ص ۱۵۱

۲۶۔ سنن ابن ماجہ ۔ مقدمہ ۔ حدیث نمبر۱۱۸، مستدرک صحیحین ۔ ج ۳ ۔ ص ۱۶۷

۲۷۔صحیح مسلم ۔ ج ۴ ۔ حدیث نمبر۲۴۰۸، مستدرک صحیحین ۔ ج ۳ ۔ ص ۱۴۸، مسند احمد ابن حنبل ۔ ج ۳ ۔ص ۱۴ اور ج ۴۔ ص ۳۶۷

۲۸۔ صحیح مسلم ، حدیث نمبر۱۳۱، سنن ابن ماجہ۔ مقدمہ۔ حدیث نمبر۱۱۴

۲۹۔ سورہ مائدہ ۵ ۔ آیت ۶۳

۳۰۔ سورہ مائدہ ۵ ۔ آیت ۷۸، ۷۹

۳۱۔ سورہ مائدہ ۵ ۔ آیت ۴۴

۳۲۔ سورہ توبہ ۹۔ آیت ۷۱

۳۳ ۔ دیکھئے نہج البلاغہ خطبہ نمبر۱۰۴ اور ۱۲۹۔

۳۴۔ اس سے مراد وہ عہد و پیمان ہیں جو بیعت کے وقت رسول گرامی, نے لئے تھے۔ اسی طرح ولایت اور جانشینی کے لئے غدیر خم کے موقع پر رسول اللہ سے جو عہد و پیمان کئے گئے تھے، وہ بھی مراد ہیں۔

۳۵۔ جیسا کہ علما اور فقہا نے اس خطبے کے صرف ایک جملے ذلک بان مجاری الامور والا حکام علی ایدی العلماء پر فقہ کی استدلالی کتب میں تفصیلی بحث کی ہے۔

۳۶۔ اے والد گرامی وہ کیجئے جس کا حکم دیا گیا ہے۔ (سورہ صافات ۳۷ ۔آیت۱۰۲)

۳۷۔ اللہ نے چاہا تو آپ مجھے صبرکرنے والوں میں سے پائیں گے۔ (سورہ صافات ۳۷ ۔ آیت ۱۰۲)

۳۸۔ علی کے سوا سب کے دروازے بند کر دو۔

۳۹۔ (اے علی) آپ میرے بعد تمام مومنوں کے سرپرست ہوں گے۔

۴۰۔ نہج البلاغہ ۔خطبہ نمبر ۳

۴۱۔ نہج البلاغہ ۔ خطبہ نمبر ۵۸

۴۲۔ عربی لغت نامے اقرب الموارد میں ہے کہ ((فاز بخیر ای ظفربه ویقال لمن اخذحقه من غریمة:فاز )) اس طرح کلمہء فوز کے اصلی معنی کامیابی ہیں نہ کہ ہدایت اور اصلاح جیسا کہ بعض لوگوں نے اس کا یہ ترجمہ کیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ آج بھی کسی مقابلے میں جیتنے والے کو فائز کہا جاتا ہے ۔

۴۳۔ احتجاج طبرسی ۔ ج ۲۔ ص ۸

۴۴۔ احتجاج طبرسی ۔ ج ۲۔ص ۱۲

۴۵۔ نہج البلاغہ ۔ مکتوب نمبر ۴۷

۴۶۔ امام خمینی کے الہیٰ و سیاسی وصیت نامے سے اقتباس

۴۷۔ شھداء الفضیلہ کتاب ((الغدیر)) کے مصنف علامہ امینی کی ایک مشہور کتاب ہے، جس میں چوتھی صدی ہجری کے بعد کے ایسے ۱۲۰ معروف علمائے کرام کے حالات درج ہیں جنہوں نے اسلام کی راہ میں جام شہادت نوش کیا۔

۴۸۔ دینی مدارس کے نام امام خمینی کے تاریخی پیغام مورخہ ۲۲ فروری ۱۹۸۹ء سے اقتباس۔

فہرست

عرض ناشر ۴

سر زمین منیٰ میں امام حسین علیہ السلام کا خطاب ۶

کتب حدیث میں اس خطبے کا مضمون اور اس کے نقل کی کیفیت ۸

اس خطاب کا محرک( Motive ) ۱۱

پہلا حکم نامہ ۱۱

دوسرا حکم نامہ ۱۲

تیسرا اور چوتھا حکم نامہ ۱۳

کن حالات میں یہ خطبہ دیا گیا ۱۴

خطبے کے پہلے حصے کا متن ۱۵

(امیر المومنین کے فضائل کا بیان) ۱۵

اس حصے کے جملوں کا علیحدہ علیحدہ ترجمہ ۱۷

خطبے کے دوسرے حصے کامتن ۲۲

(امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی دعوت) ۲۲

وضاحت ۲۲

اہم الفاظ کی تشریح ۲۳

احبار : صالح علما۔ ۲۳

اکل سحت : حرام خوری۔ ۲۴

اس حصے کے جملوں کا علیحدہ علیحدہ ترجمہ ۲۴

خطبے کے تیسرے حصے کا متن ۲۶

(علما کی ذمے داریوں کا بیان) ۲۶

اہم الفاظ کی تشریح ۲۷

اس حصے کے جملوں کا علیحدہ علیحدہ ترجمہ ۲۸

اس خطبے میں موجود اہم نکات اور نتائج ۳۱

زمانی اور مکانی حالات ۳۲

خطبے سے مربوط اہم نکات ۳۳

۱ - ولایت سے انحراف ۳۳

امیر المومنین کے زمانے کے واقعات انہی کے بیانات کی روشنی میں ۳۴

امام حسن کا طریقہ ء کار ۳۷

۲ - امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی اہمیت ۴۰

امربالمعروف اور نہی عن المنکرکا اہم ترین پہلو ۴۱

۳ - تاریخ کے پست سرشت افراد ۴۲

خطبے کا عملی جواب ۴۴

اما م حسین اور ان کے اصحاب کا عملی جواب ۴۵

امربالمعروف اور نہی عن المنکرکا اہم ترین پہلو

لیکن امام کے خطاب کے اس حصے میں جو بات انتہائی قابل توجہ اور اہمیت کی حامل ہے، وہ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے وسیع مفہوم اور اس کے مختلف پہلوؤں کی تشریح اور اس بنیادی مسئلے کے اہم ترین رخ اور عملی پہلو کی جانب اشارہ ہے ۔ کیونکہ امام نے قرآن کریم کی دو آیات کو بطور سند پیش کرتے ہوئے فرمایا : اگر معاشرے میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر برقرار ہو توچھوٹے بڑے تمام واجبات پرعمل ہو اور تمام مشکلات حل ہو جائیں ۔اس کے بعد نمونے اور مصداق کے طور پر پانچ امور کو نکتہ وار درج ذیل صورت میں بیان کیا :

۱-وذلک ان الامر بالمعروف و النهی عن المنکر دعاء الی الاسلام : امربالمعروف اور نہی عن المنکر اسلام کی طرف دعوت (فکری اور عقیدتی جہاد کے مساوی ) ہے۔

۲ -مع رد المظالم : مظلوموں کو ان کے حقوق لوٹانا ہے۔

۳-ومخالفة الظالم : ظالم کے خلاف جد و جہد ہے۔

۴-وقسمة الفی ء والغنائم : مال غنیمت اور عوامی دولت کی عادلانہ تقسیم ہے۔

۵- واخذ الصدقات من مواضعھاووضعھافی حقھا : زکات اور دوسرے مالی واجبات کی صحیح جمع آوری اور ٹھیک ٹھیک مقامات پر انہیں خرچ کرنا ہے۔

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اس وسیع سطح پر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا انجام دینا، (جس میں ظالم کا مقابلہ، حقوق کی بازیابی ، ظلم وستم کا جڑ سے خاتمہ اور معاشرے میں عدل و انصاف کا قیام شامل ہے) حکومت اسلامی کے قیام اور ان امور کے اجراء کے لئے قوت ہاتھ میں لئے بغیرمحض انفرادی سطح پر تلقین اور زبانی طور پر اچھائیوں کی تاکید سے ممکن نہیں۔

امام حسین علیہ السلام کا یہ بیان درحقیقت ان لوگوں کے لئے واضح جواب ہے جو امربالمعروف اور نہی عن المنکر جیسے اہم اور بنیادی فریضے کو انتہائی محدود پیمانے میں، انفرادی سطح پر اور عمل کی بجائے محض زبانی کلامی تلقین میں منحصر سمجھتے ہیں۔

اسی طرح یہ خطاب اسلامی حکومت کے قیام کے واجب ہونے اور معاشرے میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے عملی اجراء کے لئے ایک مضبوط دلیل فراہم کرتا ہے۔

اسی بنا پر اور ایسے ہی متعدد دلائل کی روشنی میں بعض بزرگ شیعہ فقہا نے جہاد جیسے فریضے کو اس کی تمام تر عظمت ، وسعت اور احکام کے باوجود امربالمعروف اور نہی عن المنکر کی ایک شاخ قرار دیا ہے اور اسے ان دو اشد اہم فرائض کا ایک حصہ شمار کرتے ہیں۔

زیارت امام حسین میں درج ہونے والا جملہ: اشھد انک قد اقمت الصلاةوآتیت الزکاة وامرت بالمعروف و نھیت عن المنکر بھی اس حقیقت کا گواہ ہے اور اس مفہوم کی وضاحت کرتا ہے کہ حکومت یزید کی مخالفت میں امام حسین علیہ السلام کا جہاد اور مبارزہ درحقیقت فرائضِ الہیٰ کی ادائیگی ، نماز وزکات کے قیام اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضے کی انجام دہی کے لئے تھا۔

مختصر یہ کہ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا صحیح ، وسیع اور جامع مفہوم معاشرے میں عدل و انصاف کا رواج اور سماج سے ظلم و فساد کا مکمل خاتمہ ہے۔ جس کے لئے ضروری ہے کہ اسلامی حکومت قائم ہو، اور اگر کسی معاشرے میں امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا اس کے اس مفہوم میں اجراء نہ ہو اور اسلامی اصولوں کے مطابق حکومت قائم نہ کی جائے تو پھر قدرتی طور پر یہ ہو گا کہ اسکی جگہ ظالم و ستمگر اور بدقماش افراد معاشرے پر چھا جائیں گے۔ اسی بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے امیر المومنین نے اپنی آخری وصیت میں فرمایا:

ولا تترکواالأمربالمعروف و النهی عن المنکر فیولی علیکم اشرار کم فتدعون فلا یستجاب لکم ۔

((امربالمعروف اور نہی عن المنکرکو کسی صورت میں ترک نہ کرنا ،ورنہ تمہارے برے تم پر حاکم ہو جائیں گے ،پھر دعائیں بھی مانگو گے تو پوری نہیں ہوں گی۔))(۴۵)

۳ - تاریخ کے پست سرشت افراد

امام حسین علیہ السلام کے اس اہم خطبے کے یہ تین حصے ایک اعتبار سے فلسفہ ء تاریخ کے درس اور علم اجتماعیات کے و ہ گہرے نکات ہیں جن میں اسلام کے ابتدائی ۵۰ سال کے دوران مسلمانوں کی معاشرتی تبدیلیوں کے اسباب بیان ہوئے ہیں، اسلام کی عظمت کے ابتدائی دور ہی میں ظالموں اور ستمگروں کے قابض ہونے کی وجوہات ذکر ہوئی ہیں، اہل بیت اطہار کی حق تلفی اور معاویہ ابن ابی سفیان کے حاکم ہو جانے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور تین مختلف پہلوؤں سے ان مسائل کا جائزہ لیا گیا ۔

اس خطبے میں درحقیقت آیت قرآن :ان الله لا یغیر مابقوم حتی یغیروا

مابانفسه مکی تاریخی شواہد اور انتہائی محسوس دلائل کی روشنی میں انتہائی خوبصورت اور دلنشین انداز میں تفسیر کی گئی ہے۔ نیز اسی خطبے میں امام حسین علیہ السلام کے اندرونی رنج و اندوہ اور ان کی تشویش کا اظہار بھی ہے اور اسی کے ساتھ ساتھ یہ خطبہ تاریخ اسلام میں آنے والے تمام مسلمانوں بالخصوص علما کے لئے تنبیہ اور بیداری کا پیغام بھی ہے۔

امام حسین علیہ السلام نے خطبے کے تیسرے حصے میں اس اہم اور تاریخی اجتماع میں موجود مسلمانوں ، اصحاب رسول اور ان کی اولادوں کو مخاطب قرار دیا۔ یہ لوگ مذہبی اور سماجی مقام کے حامل ایسے سرکردہ افراد تھے جو اپنے کردار کے ذریعے معاشرے میں ایک تحریک ایجاد کرسکتے تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جن کا قول و عمل، گفتار و کردار حرکت اور سکون افراد ملت کے لئے نمونہ ء عمل اور لائق تقلید تھا۔

انہیں چاہئے تھا کہ اپنی شخصیت کی اہمیت اور اس کے مرتبے کو پہچانتے اور اپنی صحیح حیثیت کا اندازہ لگاتے اور مظلوموں کی نجات اور معاشرے کو حقیقی معنوں میں فلاح و سعادت سے ہمکنار کرنے کے لئے تدبیر کرتے۔ لیکن دنیاوی زندگی کی محبت، مادی لذتوں کی حرص، آسائش طلبی اور سختیوں سے بچنے کی خواہش اور بعض اوقات اپنے جمود اور سادہ لوحی کی وجہ سے ان افراد نے بزدلی کی راہ اختیار کی اور زمین پر ہمیشہ باقی رہنے کی بچکانہ خواہش نے انہیں ان کی ذمے داریوں سے غافل کر دیا۔ ان لوگوں نے خدائی احکامات کی ایسی من مانی تفسیریں کیں جن سے ان کے ذاتی مقاصد حاصل ہو سکیں اور اپنی اس بے راہ روی پر مسلسل گامزن رہے۔

یہ وہ لوگ تھے جنہیں حق اور فضیلت کا محافظ سمجھا جانے کی وجہ سے معاشرے میں خصوصی عظمت اور مقام حاصل تھا، کمزور اور قدر ت مند، سب کے دلوں میں ان کی ہیبت اور دبدبہ قائم تھا اور ہر ایک انہیں خاص احترام کی نظر سے دیکھتا تھا۔

جبکہ حقیقت یہ ہے کہ معاشرے کی ان سے ساری امیدیں اور توقعات ضائع ہو گئیں۔ ان لوگوں نے دین اور قرآن کی حفاظت کے لئے کچھ نہیں کیا، کسی مالی نقصان کاسامنا نہیں کیا اور نہ ہی کسی پابندی، قید و بند اور اذیت و آزار کو جھیلا۔ ان کے اقربا اور رشتے دار اسلامی مقدسات کا مذاق اڑاتے رہے اور انہوں نے ان کی کوئی مخالفت نہیں کی اوردین وقرآن کے حامیوں ، اسلام کی راہ میں اذیت و آزار جھیلنے والوں اور اس راہ میں جلا وطنی برداشت کرنے والوں کو کوئی اہمیت نہ دی۔ ان کی موجودگی میں اسلام و قرآن کی حرمت کو پامال کیا گیا اور یہ خاموش رہے بلکہ عملًا اسلام کے دشمنوں کی چاپلوسی اور ان سے ساز باز کی روش اخیتار کی اور یوں ظالموں کی حاکمیت اور مظلوموں کے حقوق کی پامالی کا راستہ ہموار کیا۔

لیکن اگر یہ غورکرتے تو جان لیتے کہ ایسا کر کے انہوں نے درحقیقت اپنے ہی لئے ایک بڑی مصیبت کا سامان کیا ہے، اورخود اپنے ہی ہاتھوں اپنی ذلت و رسوائی کی بنیادیں رکھی ہیں۔ کیونکہ اگر وہ حق کاساتھ نہ چھوڑتے، خط ولایت اور فرمان نبوت کے بارے میں اختلاف کا شکار نہ ہوتے، راہ خدا میں مارے جانے سے نہ کتراتے ، چندروزہ دنیاوی زندگی کی لالچ میں مبتلا نہ ہوتے اوراللہ کے راستے میں عارضی مصیبت، مشقت اور محرومیت پر صبر کرتے،تو اسلامی معاشرے کی سربراہی اور زمام امور ان ہی کے ہاتھ میں ہوتی اور اللہ کے احکام اور فرامین ان ہی کے ذریعے جاری ہوتے، مظلوم اورستم رسیدہ افراد ان ہی کے ہاتھوں نجات پاتے، محروموں اور مشکل کے ماروں کی داد رسی ہوتی اور ظالم و جابر ان کے ہاتھوں کچل دیئے جاتے۔

لیکن ان کی سستی اور کوتاہی نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا،اسلام سے ان کی دوری نے انہیں ذلیل و خوار کر دیا ،اورقدرت و حاکمیت دشمنوں کے ہاتھوں میں آ گئی، وہ جس طرح چاہتے ہیں مظلوموں کے ساتھ پیش آتے ہیں اور جس طرف ان کی شقی طبیعت کا میلان ہوتا ہے معاشرے کو اسی طرف لے جاتے ہیں، اللہ کے احکام کی تحقیر کرتے ہیں اور سنت رسول کی اہانت ۔ نابیناؤں، محتاجوں ،فقرا اور مساکین کو بنیادی ترین انسانی حقوق سے محروم کرتے ہیں۔ مملکت اسلامی کے ہر گوشے میں ایک مستبد فرد حاکم ہے اور ہر علاقے پر ایک خود خواہ شخص فرمانروا ہے۔ یہ لوگ اسلام کی قدرت اور مسلمانوں کی عزت و شوکت کو پامال کرنے کے لئے اپنے پاس موجود ہر قسم کے تبلیغاتی حربے استعمال کررہے ہیں، اسلامی دستور میں تحریف اور اسلامی قوانین کو الٹ پلٹ رہے ہیں، حدود کی سزاؤں کو انسانی حقوق کی پامالی ، قصاص کو ظلم اور تعزیرات کو قساوت کے طور پر متعارف کرا رہے ہیں ۔

یہ وہ خطاب ہے جو حسین ابن علی نے ارشاد فرمایا، حسین جو نواسہ ء رسول ہیں، فرزند امیر المومنین علی ابن ابی طالب ہیں اور فاطمہ زہرا کے لخت جگر ہیں۔ یہ صرف حسین ابن علی ہی کا کلام نہیں ہے بلکہ یہی تمام انبیاء کا کلام اور تمام ائمہ و اولیائے خدا کا درد دل ہے ،حضرت ابراہیم ، حضرت موسیٰ، حضرت عیسیٰ، اور خاتم الانبیاء کا کلا م ہے ، حضرت علی ، اما م حسن اور بقیہ ائمہ ء اطہار کا کلام ہے۔

خطبے کا عملی جواب

جس طرح یہ خطبہ اور یہ کلام انبیاء ، اولیاء اور ائمہء ہدیٰ کا کلام ہے، اسی طرح اس کاعملی جواب بھی سب سے پہلے انبیاء اور ائمہء ہدیٰ نے دیا، ا ور وہی تھے جنہوں نے تاریخ انسانی کے ہر دور میں اس حیات بخش ندا پر لبیک کہا۔

جی ہاں! یہی لوگ منادی بھی تھے اور لبیک کہنے والے بھی، خود ہی خطاب کرنے والے بھی تھے، خود ہی اس خطاب کو سننے والے بھی، خودہی دعوت دینے والے بھی اور خود ہی اس کا جواب دینے والے بھی۔ انہوں نے اس دعوت کے جواب میں ایسی استقامت اور ثابت قدمی کا ثبوت دیا کہ شوق و اشتیاق کے ساتھ آگ میں کود پڑے، اورآخر کار اپنے زمانے کے سرکش نمرودیوں پر غالب آ ئے، اورتوحید کی بنیادیں قائم کر دیں اور اپنے اہداف و مقاصد کے سلسلے میں ایسی پائیداری دکھائی کہ دشمن کو سمندر کی موجوں میں غرق کر کے اپنی قوم کو ذلت و غلامی سے نجات دلائی ۔یہ لوگ اپنے عہد و پیمان سے اس قدر وفادار تھے کہ جب ان کے کٹے ہوئے سر طشت میں رکھ کر دشمنوں کو پیش کئے گئے تو اس عالم میں بھی انہوں نے شمشیر پر خون کی فتح کا نعرہ بلند کیا۔

اور بالآخر تشیع کو یہ اعزاز اور افتخار حاصل ہوا کہ اس کے ائمہ اور اس کے رہنماؤں نے دینِ اسلام کی سربلندی اور تعلیمات قرآنی کے عملی نفاذ کی راہ میں( جس کاایک مظہر عادلانہ اسلامی حکومت کی تشکیل و تاسیس ہے) کبھی پس زنداں اور کبھی جلاوطنی کی زندگی بسر کی اور آخر کار اپنے زمانے کے ظالموں اور طاغوتوں کی حکومتوں کے خاتمے کے لئے جد و جہد کے دوران شہید ہوئے(۴۶) ۔ جہاں تک حالات اور وسائل نے اجازت دی ائمہ نے مسلحانہ جد و جہد کی اور اپنی تلواریں سونت کر دشمنان اسلام کی صفوں پر حملے کئے۔ درحقیقت امیر المومنین حضرت علی ابن ابی طالب کے زمانے کی تین جنگیں اور(معاویہ ابن ابی سفیان اور یزید ابن معاویہ کے مقابلے میں) امام حسن اور امام حسین کی معرکہ آرائی تاریخ انسانیت اور تاریخ اسلام میں ظلم و ناانصافی کے خلاف کی جانے والی جد و جہد کے سنہرے اوراق ہیں۔

اما م حسین اور ان کے اصحاب کا عملی جواب

اگرچہ اس خطبے کا مضمون حاضرین اور سامعین کے سامنے امام حسین کے آئندہ اقدامات اور حکمت عملی کا اجمالی خاکہ پیش کر رہا تھا اور امام علیہ السلام کی جانب سے عملی امربالمعروف اور نہی عن المنکر کی خبر دے رہا تھا اور سامعین کو آئندہ کے حالات کے لئے تیار رہنے اور اس قیام سے تعاون کرنے کی دعوت دے رہا تھا لیکن خطبے کے آخری جملات میں یہ حقیقت انتہائی کھلے الفاظ کے ساتھ بیان کر دی گئی اور ایک بھرپور اور تاریخی تحریک کی وضاحت کرتے ہوئے امام نے فرمایا :

اللهم انک تعلم انه لم یکن ماکان منا منافسة فی سلطان فانکم ان لم تنصروناو تنصفونا قوی الظلمة علیکم و عملوا فی اطفاء نور نبیکم

(( بارالہاٰ ! تو جانتا ہے کہ جو کچھ ہماری جانب سے ہوا (بنی امیہ اور معاویہ کی حکومت کی مخالفت میں ) وہ نہ تو حصول اقتدار کے سلسلے میں رسہ کشی ہے اور نہ ہی یہ مال دنیا کی افزوں طلبی کے لئے ہے بلکہ یہ صرف اس لئے ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ تیرے دین کی نشانیوں کو آشکارا کر دیں اور تیری مملکت میں اصلاح کریں، تیرے مظلوم بندوں کو امان میسر ہو اور جو فرائض ، قوانین اور احکام تو نے معین کئے ہیں ان پر عمل ہو۔ اب اگر آپ حضرات (حاضرین سے خطاب) نے ہماری مدد نہ کی اور ہمارے ساتھ انصاف نہ کیا تو ظالم آپ پر اور زیادہ چھا جائیں گے اور (( نور نبوت )) کو بجھانے میں اور زیادہ فعال ہو جائیں گے ۔ ہمارے لئے تو بس خدا ہی کافی ہے، اسی پر ہم نے بھروسہ کیا ہے اسی کی طرف ہماری توجہ ہے اور اسی کی جانب پلٹنا ہے۔))

اس خطبے میں امام حسین نے اپنے جس مقصد کو بیان کیا یہ وہی مقصد ہے جس کی جانب آپ نے اس خطاب کے تین سال بعد( ۲۸ رجب ۶۰ ھ میں) مدینہ سے روانگی کے وقت اپنے تاریخی وصیت نامے میں اشارہ فرمایا تھا۔

وانی لم اخرج اشراً ولا بطراً ولا مفسداً ولا ظالماً وانما

خرجت لطلب الاصلاح فی امة جدی، اریدان آمر بالمعروف و انھی عن المنکر۔۔۔

((میرا مدینہ سے نکلنا خود غرضی کے تحت ہے نہ تفریح کی غرض سے اور نہ ہی میں ظلم و فساد برپا کرنا چاہتا ہوں۔ میں تو بس یہ چاہتا ہوں کہ نیکیوں اور بھلائیوں کا حکم دوں اوربرائیوں سے روکوں اور امت کے امور کی اصلاح کروں۔))

اور حقیقت یہ ہے کہ ائمہء اطہار کے پیروکار علما اور فضلا نے ہمیشہ انہی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اسلام کے احیاء کے لئے نہ صرف شہید اول ، دوم اور سوم قربان کئے بلکہ شھداء الفضیلہ(۴۷) کی ایک عظیم الشان صف تشکیل دی۔ تاریخ کے اوراق ایسے ہزاروں شہدا کے ناموں سے سجے ہوئے ہیں۔ان کے علاوہ ایسے گم نام شہدا بھی ہیں ،جن کے نام کتاب علیین میں دیکھے جاسکتے ہیں اور جو ایسے ہی بیش قیمت الفاظ میں خراج عقیدت کے مستحق ہیں کہ:

(( سلام ہو ان زندئہ جاوید جانباز علمائے دین پر جنہوں نے اپنا رسالہء عملیہ و علمیہ دم شہادت اپنے خون کی روشنائی سے تحریر کیا، اور وعظ ونصیحت و خطاب کے منبر پر اپنی شمع حیات سے چراغ روشن کیا۔ حوزئہ علمیہ اور صف علما کے ان شہدا پر آفرین و مرحبا جنہوں نے جنگ و جہاد کا موقع آ پڑنے پر مدرسے اور درس وبحث سے اپنارشتہ منقطع کیا اور حقیقت علم کے پیروں میں پڑی خواہشات دنیاوی کی زنجیروں کو کاٹ ڈالا اور سرعت سے پرواز کر کے فرشتوں کے مہمان ہوئے اور ملکویتوں کے اجتماع میں اپنی حاضری کے نغمے بکھیرے۔ درود و سلام ان شہداء پر جو تفقہ کی حقیقت پا لینے کی حد تک آگے بڑھے اور اپنی قوم و ملت کے لئے ایسے مخبر صادق بنے جن کے ہر ہر لفظ کی صداقت کی گواہی ان کے خون کے قطروں اور جسم کے پارہ پارہ ٹکڑوں نے دی ہے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ اسلام اور تشیع کے سچے علماسے اس کے علاوہ توقع بھی نہیں کی جاسکتی کہ دعوت حق اور اپنی قوم کی خاطر جہاد کی راہ میں سب سے پہلی قربانی وہ خود پیش کریں گے اور ان کی کتاب زندگی کااختتام شہادت پر ہو گا۔))(۴۸)

مترجم : جیسا کہ قارئین محترم نے ملاحظہ فرمایا، اس تاریخی خطبے میں امام حسین علیہ السلام کے مخاطب خاص کر وہ افراد ہیں جودینی رہنماؤں کے طور پر پہچانے جاتے ہیں اور امام علیہ السلام نے انہی افراد کو معاشرے کے انحراف اور غفلت کا ذمے دار قرار دیا ہے۔ لیکن

ساتھ ہی یہ بیان فرمایا ہے کہ امربالمعروف اور نہی عن المنکر وہ بنیادی ترین فریضہ ہے جس کے ذریعے معاشرے کی بقا ہے اور اگر اس پر عمل نہ ہو تو معاشرے کی بنیادیں متزلزل ہو جاتی ہیں ، عدل و انصاف کا خاتمہ ہوجاتا ہے اور ظالم و ستمگر زمام امور اپنے ہاتھوں میں لے کر معاشرے کو تباہی اور بربادی سے دوچار کردیتے ہیں اوراسے اپنے ظلم و جبر کا نشانہ بناتے ہیں۔ ایسے موقع پر معاشرے کے ہر فرد کی ذمے داری ہے کہ وہ اپنے وظیفے اور فریضے کا شعور حاصل کرے اور حتیٰ المقدور اس فریضے کو انجام دے جس کا ترک کرنا ان آفات و بلیات کا باعث بنا۔

آج صدیوں کے بعد دنیا ایک بار پھر اسلام کی نشات ثانیہ کا دور دیکھ رہی ہے اور امام خمینی  کی قیادت میں آنے والے اسلامی انقلاب کے بعد مسلمانوں میں شعور اور بیداری کی ایک ایسی لہر اٹھی ہے جس کی قدرت نے ایران کی ڈھائی ہزار سالہ بادشاہت کو پاش پاش کر دیا اور اس کے سچے ماننے والوں نے نہتے ہاتھوں اور وسائل کی کمیابی کے باوجود اسرائیل جیسے غاصب اور دشمن دین مبین کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔

آج ہر صاحب شعور اس اعتراف پر مجبور ہے کہ آئندہ صدی اسلام کی صدی ہو گی اور دنیا کے موجودہ سیاسی اور تمدنی نظاموں کی تباہی اور ان کا کھوکھلا پن ثابت ہونا اور اس کے نتیجے میں بڑھتی ہوئی مایوسی نیز تبلیغی ذرائع کی فراوانی اوروسعت اور سب سے بڑھ کر

مسلمانوں کے اندر اٹھتی ہوئی بیداری کی لہرکو دیکھتے ہوئے بآسانی کہا جا سکتا ہے کہ اکیسویں صدی اسلام کی صدی ہو گی ۔لیکن ان تمام مثبت عوامل کے باوجودحتمی کامیابی کے لئے مسلمانوں کا اپناعزم ، ارادہ اور شعور و آگہی بنیادی عوامل ہیں۔ لہذا اگر مسلمان اس موقع پر بیداری اور ہوشیاری سے کام لیں تو یقینا یہ پیش گوئی صحیح ثابت ہو سکتی ہے۔

اس کامیابی میں دو عوامل اہم ترین کردار ادا کریں گے۔ پہلا یہ کہ مسلمان دوسروں کے سامنے کسی بھی وعظ و نصیحت اور تبلیغ سے پہلے اپنی عملی زندگی میں اسلام کا نمونہ ء عمل پیش کریں کیونکہ اس بے زبان تبلیغ میں جو تاثیر ہے، وہ کسی بھی وعظ و نصیحت اور دعوت و ارشاد سے بڑھ کر ہے۔ اور دوسرا یہ کہ دعوت وتبلیغ منظم اور معیاری انداز میں کی جائے ۔ اسلام کی نظریاتی تعلیمات کے ساتھ ساتھ اس کی عملی تعلیمات اور دنیا کی موجودہ مشکلات کے حل کے سلسلے میں اسکی قابلیت کو واضح طور پر بیان کیا جائے۔

امام علیہ السلام کے زیر گفتگو خطبے کی آفاقیت یہ ہے کہ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا احیاء درحقیقت وہ تمام عوامل فراہم کرتا ہے جن کے ذریعے نہ صرف مسلمانوں کا اندرونی معاشرہ تعمیر نو کے مراحل طے کرتا ہے اور ہر قسم کے حوادث اور انحرافات کے مقابلے میں محفوظ ہو جاتا ہے بلکہ وہ اسلام کی موثر اور جامع تبلیغ کے تما م تر وسائل فراہم کرتا ہے۔ یوں یہ وہ شرعی وظیفہ ہے جس سے انسانیت حیات نو پاتی ہے اور اس کا ترک کرنا انسانیت کی پستی اور زوال و انحطاط کا اہم ترین سبب ہے ۔ اب اگر ایک عاقل مسلمان ہر قسم کے ظلم و استبداد،بے راہ روی اور انحطاط سے نجات کا خواہشمند ہے تو کلمات امام کی صورت میں اس کے لئے رہنمائی فراہم کر دی گئی ہے اور راہ حق پر مشعلیں نصب کر دی گئی ہیں اور یہی ائمہء حق کا وظیفہ تھا جس کے جواب میں لبیک کہنے والوں نے دنیا و آخرت کی سعادت حاصل کی اور

اس سے منہ موڑنے والے ابدی ذلت و خواری کا شکار ہوئے۔

____________________

۱ -سلیم بن قیس ہلالی (وفات ۹۰ہجری) نے اپنی بحث کی مناسبت سے خطبے کے پہلے حصے کا ذکر کیا ہے ،جو اہل بیت کے فضائل سے متعلق ہے اور خطبہ ارشاد کئے جانے کے مقام اورتاریخ کو بھی واضح کیا ہے۔

۲ - چوتھی صدی ہجری کے عظیم محدث ((حسن بن شعبہ حرانی ))نے اپنی گرانقدر کتاب ((تحف العقول)) میں خطبے کے صرف دوسرے اور تیسرے حصے کے متن کو نقل کیا ہے-

۳۔احتجاج ۔ج ۲۔ ص ۱۷

۴۔ بحارالانوار ۔ نیا ایڈیشن ۔ج ۱۰۰ ۔ص ۷۹، وافی ۔ باب الحث، علی الامربالمعروف والنہی عن المنکر ۔ حاشیئہ مکاسب بحث ولایت فقیہ۔

۵۔ العذیر ۔ ج ۱۔ ص ۹۹ ۱۔

۶۔ ولایت فقیہ ۔ ص ۵ ۱۲ -

۷۔ شام پر ۴۰ سال تک معاویہ کی حکومت قائم رہی اور متن میں مذکور ۲۵ سال کا تعلق حضرت عثمان کی حکومت کے قیام کے بعد کے زمانے سے ہے، جس میں معاویہ کی حکومت نے بتدریج پوری اسلامی مملکت تک وسعت اختیار کر لی تھی۔

۸ ۔کتاب سلیم بن قیس (مطبوعہ دارالکتب الاسلامیہ) ص ۲۰۶ ۔ یہی باتیں ابن ابی الحدید نے نہج البلاغہ کی شرح ۔ ج ۱۱ ۔ ص ۴۶ ۔ ۴۴ میں ابوالحسن مدائنی (وفات ۲۲۵ھ)کی کتاب ((الاحداث ))سے نقل کی ہیں ۔

۹۔۵۰ھ میں امام حسن کی شہادت واقع ہوئی ۔

۱۰۔ کتاب سلیم کے بعض نسخوں میں سنة (ایک سال)اور بعض میں سنتین(دو سال) لکھا ہے لیکن طبرسی کی احتجاج میں سنتین (دو سال) تحریر ہے ۔

۱۱۔ طبرسی نے شرکاء کی تعداد ایک ہزار سے زیادہ بیان کی ہے (اکثر من الف رجل)

۱۲۔ سنن ترمذی ۔ ج ۵، المناقب۔ حدیث نمبر ۳۸۰۴ ، اسدالغابہ ۔ج ۳ ۔ص ۱۶

۱۳۔ سنن ترمذی ۔ ج ۵، المناقب حدیث نمبر۳۸۱۵، مسند احمد بن حنبل ۔ ج ۱ ۔ ص ۳۳۱ ، ج ۲ ۔ ص ۲۶

۱۴ ۔سنن ترمذی ۔ ج ۵ ، المناقب ۔ حدیث نمبر۳۸۱۱، مسند احمد بن حنبل ۔ ج ۱ ۔ ص ۳۳۱

۱۵ مستدرک صحیحین ۔ ج ۳ ۔ ص ۱۰۹، ۱۳۴

۱۶۔ صحیح مسلم ۔ ج ۴ ۔ حدیث نمبر۲۴۰۴، سنن ترمذی ۔ ج ۵، المناقب ۔ حدیث نمبر۳۸۰۸ اور ۳۸۱۳، سنن ابن ماجہ ۔ مقدمہ۔ حدیث نمبر ۱۱۵، مستدرک صحیحین ۔ ج ۳ ۔ ص ۱۰۹ اور ۱۳۳

۱۷۔ سنن ترمذی ۔ ج ۵، المناقب ۔ حدیث نمبر ۳۷۹۶، مسند احمد بن حنبل ۔ ج ۱ ۔ ص ۳۳۱

۱۸۔ سنن ترمذی۔ ج ۵ ، المناقب۔ حدیث نمبر ۳۸۰۸، مستدرک صحیحین۔ ج ۳ ۔ ص ۱۵۰

۱۹۔ سنن ترمذی ۔ حدیث نمبر۲۸۰۸، ۳۸۰۸، ۲۴۰۵، ۲۴۰۶، صحیح مسلم ۔ ج ۴۔ حدیث ۲۴۰۴، سنن ابن ماجہ۔ مقدمہ ۔ حدیث نمبر ۱۱۷

۲۰۔ سنن ترمذی ۔ ج ۵ ، المناقب ۔ حدیث نمبر ۳۸۰۳

۲۱۔ سنن ترمذی ۔ ج ۵ ، المناقب ۔ حدیث نمبر۳۷۹۶

۲۲ سنن ترمذی ۔ ج ۵ ، المناقب۔ حدیث نمبر۳۸۰۶

۲۳۔ نظم درر السمطین۔ ص ۱۲۸نقل از احقاق الحق ۔ ج ۴ ۔ ص ۳۵۹ ، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ۔ ج ۹ ۔ ص ۱۷۴

۲۴۔ مستدرک صحیحین ۔ ج ۳۔ ص ۱۲۴

۲۵۔مستدرک ۔ ج ۳ ۔ ص ۱۵۱

۲۶۔ سنن ابن ماجہ ۔ مقدمہ ۔ حدیث نمبر۱۱۸، مستدرک صحیحین ۔ ج ۳ ۔ ص ۱۶۷

۲۷۔صحیح مسلم ۔ ج ۴ ۔ حدیث نمبر۲۴۰۸، مستدرک صحیحین ۔ ج ۳ ۔ ص ۱۴۸، مسند احمد ابن حنبل ۔ ج ۳ ۔ص ۱۴ اور ج ۴۔ ص ۳۶۷

۲۸۔ صحیح مسلم ، حدیث نمبر۱۳۱، سنن ابن ماجہ۔ مقدمہ۔ حدیث نمبر۱۱۴

۲۹۔ سورہ مائدہ ۵ ۔ آیت ۶۳

۳۰۔ سورہ مائدہ ۵ ۔ آیت ۷۸، ۷۹

۳۱۔ سورہ مائدہ ۵ ۔ آیت ۴۴

۳۲۔ سورہ توبہ ۹۔ آیت ۷۱

۳۳ ۔ دیکھئے نہج البلاغہ خطبہ نمبر۱۰۴ اور ۱۲۹۔

۳۴۔ اس سے مراد وہ عہد و پیمان ہیں جو بیعت کے وقت رسول گرامی, نے لئے تھے۔ اسی طرح ولایت اور جانشینی کے لئے غدیر خم کے موقع پر رسول اللہ سے جو عہد و پیمان کئے گئے تھے، وہ بھی مراد ہیں۔

۳۵۔ جیسا کہ علما اور فقہا نے اس خطبے کے صرف ایک جملے ذلک بان مجاری الامور والا حکام علی ایدی العلماء پر فقہ کی استدلالی کتب میں تفصیلی بحث کی ہے۔

۳۶۔ اے والد گرامی وہ کیجئے جس کا حکم دیا گیا ہے۔ (سورہ صافات ۳۷ ۔آیت۱۰۲)

۳۷۔ اللہ نے چاہا تو آپ مجھے صبرکرنے والوں میں سے پائیں گے۔ (سورہ صافات ۳۷ ۔ آیت ۱۰۲)

۳۸۔ علی کے سوا سب کے دروازے بند کر دو۔

۳۹۔ (اے علی) آپ میرے بعد تمام مومنوں کے سرپرست ہوں گے۔

۴۰۔ نہج البلاغہ ۔خطبہ نمبر ۳

۴۱۔ نہج البلاغہ ۔ خطبہ نمبر ۵۸

۴۲۔ عربی لغت نامے اقرب الموارد میں ہے کہ ((فاز بخیر ای ظفربه ویقال لمن اخذحقه من غریمة:فاز )) اس طرح کلمہء فوز کے اصلی معنی کامیابی ہیں نہ کہ ہدایت اور اصلاح جیسا کہ بعض لوگوں نے اس کا یہ ترجمہ کیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ آج بھی کسی مقابلے میں جیتنے والے کو فائز کہا جاتا ہے ۔

۴۳۔ احتجاج طبرسی ۔ ج ۲۔ ص ۸

۴۴۔ احتجاج طبرسی ۔ ج ۲۔ص ۱۲

۴۵۔ نہج البلاغہ ۔ مکتوب نمبر ۴۷

۴۶۔ امام خمینی کے الہیٰ و سیاسی وصیت نامے سے اقتباس

۴۷۔ شھداء الفضیلہ کتاب ((الغدیر)) کے مصنف علامہ امینی کی ایک مشہور کتاب ہے، جس میں چوتھی صدی ہجری کے بعد کے ایسے ۱۲۰ معروف علمائے کرام کے حالات درج ہیں جنہوں نے اسلام کی راہ میں جام شہادت نوش کیا۔

۴۸۔ دینی مدارس کے نام امام خمینی کے تاریخی پیغام مورخہ ۲۲ فروری ۱۹۸۹ء سے اقتباس۔

فہرست

عرض ناشر ۴

سر زمین منیٰ میں امام حسین علیہ السلام کا خطاب ۶

کتب حدیث میں اس خطبے کا مضمون اور اس کے نقل کی کیفیت ۸

اس خطاب کا محرک( Motive ) ۱۱

پہلا حکم نامہ ۱۱

دوسرا حکم نامہ ۱۲

تیسرا اور چوتھا حکم نامہ ۱۳

کن حالات میں یہ خطبہ دیا گیا ۱۴

خطبے کے پہلے حصے کا متن ۱۵

(امیر المومنین کے فضائل کا بیان) ۱۵

اس حصے کے جملوں کا علیحدہ علیحدہ ترجمہ ۱۷

خطبے کے دوسرے حصے کامتن ۲۲

(امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی دعوت) ۲۲

وضاحت ۲۲

اہم الفاظ کی تشریح ۲۳

احبار : صالح علما۔ ۲۳

اکل سحت : حرام خوری۔ ۲۴

اس حصے کے جملوں کا علیحدہ علیحدہ ترجمہ ۲۴

خطبے کے تیسرے حصے کا متن ۲۶

(علما کی ذمے داریوں کا بیان) ۲۶

اہم الفاظ کی تشریح ۲۷

اس حصے کے جملوں کا علیحدہ علیحدہ ترجمہ ۲۸

اس خطبے میں موجود اہم نکات اور نتائج ۳۱

زمانی اور مکانی حالات ۳۲

خطبے سے مربوط اہم نکات ۳۳

۱ - ولایت سے انحراف ۳۳

امیر المومنین کے زمانے کے واقعات انہی کے بیانات کی روشنی میں ۳۴

امام حسن کا طریقہ ء کار ۳۷

۲ - امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی اہمیت ۴۰

امربالمعروف اور نہی عن المنکرکا اہم ترین پہلو ۴۱

۳ - تاریخ کے پست سرشت افراد ۴۲

خطبے کا عملی جواب ۴۴

اما م حسین اور ان کے اصحاب کا عملی جواب ۴۵