تمہید
قافیے ، قفو بہ معنے پیروی کرنے کے نکلا ہے ، جس کے لغوی معنی " پےچھ آنے والے " کے ہیں۔ بقول اخفش قافیہ " شعر کا آخری کلمہ " ہے ۔ لیکن یہ تعریف جامع نہیں۔ سکاکی کے نزدیک ساکن مقدم سے پہلا حرف مع حرکت قافیہ کہلاتا ہے ۔ خلیل کی تعریف یوں ہے ۔ " شعر میں سب سے آخری ساکن سے پہلے جو ساکن آئے اس کے ماقبل متحرک سے آخر تک سب قافیہ ہے " ۔ جہاں تک عربی زبان کا تعلق ہے یہ تعریف صحیح ہے لیکن ہماری زبان کے معاملے میں یہ درست نہیں بیٹھتی۔ اردو میں قافیہ ان حروف اور حرکات کا مجموعہ ہے ۔ جو الفاظ کے ساتھ غیر مستقل طور پر شعر یا مصرعے کے آخر میں بار بار آئے ۔ یہ مجموعہ کبھی کبھی مہمل معلوم ہوتا ہے لیکن اس کا کچھ مضائقہ نہیں بالعموم اس پورے لفظ کو جس میں یہ مجموعہ آتا ہے قافیہ کہہ دیتے ہیں۔ چونکہ قافیہ ابیات کے آخر میں واقع ہوتا ہے یا ایک قافیہ دوسرے قافیہ کے پےچھ آتا ہے لہذا اس نام سے موسوم ہوا۔
ہمارے نزدیک قافیہ کی واضع تر تعریف یہ ہے کہ قافیہ وہ مجموعہ ء حروف و حرکات ہے جو اواخر ابیات میں دو یا زیادہ لفظوں کی صورت میں بطور وجوب یا استحسان مقرر لایا جاتا ہے ۔
قافیے کے بعد جو حرف، کلمہ یا کلمات مستقل طور پر بار بار آئیں انہیں ردیف کہتے ہیں۔
ہوئے حاضر تو متورم تھے پاؤں، خون جاری تھا
نبی کا دیدۂ ہمدرد وقف اشک باری تھ
دل کا خوں ہونے کا غم کیا اب سے تھا
سینہ کو بھی، سخت ماتم کب سے تھ
پہلے شعر میں " تھا " ردیف ہے اور " جاری" " باری " قافیے ہیں ۔ دوسرے شعر میں " سے تھا " ردیف ہے اور " اب" کب " قوافی۔
غزل اور قصیدے میں قافیہ، مطلع کے دونوں مصرعوں کے آخر میں آتا ہے ۔ مثنوی کے ہر مصرعے کے آخر اور قطعہ کے مصرع ثانی کے آخر میں۔ غزل اور قصیدے کے باقی اشعار (ماسوائے مطلع ) میں بھی مصرع ثانی کے آخر میں آتا ہے ۔
اختلاف کی تین صورتں ہیں ۔
( اول ) معنی اور الفاظ مختلف ہوں مثلاً درد اور زرد ۔
( دوم ) الفاظ وہی ہیں، صرف معنی میں اختلاف ہو مثلاً باز بمعنی پرندہ شکاری اور بمعنی پھر۔
( سوم ) صرف لفظی اختلاف ہو مثلاً اطراف اور اکناف
حروفِ قافیہ
قافیے میں حرکات اور حروف دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک تو وہ جن کا ہر قافیے میں آنا ضروری ہو جےس " لایا " اور " آیا " میں آخر کا " الف " اور اس سے پہلے کی " زبر" یا " نون " اور " زبر"۔
دوسرے وہ حرف اور حرکات جن کا بار بار قافیے میں لانا ضروری نہ ہو۔ یعنی اگر انہیں بار بار لایا جائے تو قافیہ خوبصورت معلوم ہوں اور نہ لایا جائے تو عیب واقع نہ ہو جےسن " لایا " اور " آیا " یا " پایا " اور " کھایا " میں " ی " اور اس سے پہلے کا " الف " بار بار آئے ہیں تو یہ قافیے خوبصورت معلوم ہوتے ہیں۔ لیکن " صحرا " کو اگر ان الفاظ کا ہم قافیہ قرار دیا جائے تو بھی درست ہے ۔
قافیے کا آخری حرف روی کہلاتا ہے ۔ اس سے پہلے جو حرف یا حروف ساکن ہوں گے ۔ وہ اور ان سے پہلے کی حرکت ہر قافیے میں بار بار لانی پڑے گی۔ مثلاً " حُور" کا قافیہ " نُور" اور "طور" صحیح ہے لیکن " اور " غلط ہے ۔اس لئے کہ " ر" حرفِ روی ہے ۔ اس سے پہلے حرف واؤ ساکن ہے اور اس سے پہلے " پیش" ہے نہ کہ " زبر" ۔ پس اگر " پیش" کی بجائے " زبر" لائیں گے تو قافیہ غلط ہو جائے گا۔
" تخت" کا قافیہ " سخت" اور "بخت" صحیح ہے لیکن " وقت " غلط ہے ۔اس لئے کہ " وقت " میں " ت " سے پہلے " ق " ہے اور اوپر کے قافیوں میں " ت " سے پہلے " خ " ہے ۔
روی وہ حرف ہے جو ہر ایک قافیہ میں مکرّر آتا ہے اور اسی کے نام سے قافیہ موسم ہوتا ہے ۔ جےس دل، بگل کا لام۔
روی کی اقسام
روی کی دو قسمیں ہیں :
( ۱ ) مقیّد
( ۲ ) مطلق
۱ ۔ روی مقیّد:
روی ساکن کو کہتے ہیں جےسے کار اور یار کی " ر"
۲ ۔ روی مطلق ؛
وہ روی متحرک ہے جس کے ساتھ وصل ملا ہو جےسّ کارم یا رم کی " ر " ۔
روی قافیے کی بنیاد ہے ۔ اس سے پہلے چار حروف لائے جا سکتے ہیں انہیں حروف اصلی کہتے ہیں۔ قافیے کے بعد بھی چار حرف آ سکتے ہیں۔ یہ وصلی کہلاتے ہیں۔ لیکن ان سب حروف کا جمع ہونا لازم نہیں۔ صرف حرف روی کا لانا ضروری ہے ۔ کیوں کہ اگر حرفِ روی نہ ہو تو قافیے کی تحقیق اور تمیز مشکل ہے ۔ جب قافیے کا مدار صرف روی پر ہو تو وہ روی مجرّد کہلاتی ہے ۔
حرفِ روی کے بعد جو حرف یا حروف آتے ہیں ان کا بھی ہر قافیے میں لانا اسی طرح ضروری ہے جس طرح ما قبلِ روی کے ساکنوں کا یعنی اگر حرف روی سے پہلے ساکن ( ایک یا زیادہ ) آ جائیں تو جس طرح ان کی تکرار لازم ہے اسی طرح حروف کے بعد اگر کوئی حرف یا حروف باندھے جائیں تو ان کا بار بار لانا ضروری ہے ۔
اگر حرفِ روی سے پہلے کوئی حرف ساکن نہ ہو ( یعنی ) اس سے پہلے کوئی مرناک حرف ہو۔ تو صرف حرف روی اور اس سے پہلے کی حرکت کا بار بار لانا ضروری ہے ۔ مثلاً " جگر " کے قوافی " نظر" ، " قمر"، " اثر" ، " گزر" اور " خبر" ہوں گے ۔
روی "روا" سے نکلا ہے اور لغت میں روا اس رسی کو کہےر ہیں جس سے اونٹ پر اسباب باندھا جاتا ہے ۔
قافیہ کے اصلی حروف
اہل عجم نے قافیہ کے آٹھ حروف قرار دیئے ہیں چار قبل اور چار بعد از روی۔
قبل از روی مندرجہ ذیل ہیں۔
۱۔ تاسیس ؛
(لغوی معنی " بنیاد رکھنا") اصطلاح میں تاسیس وہ الف ساکن ہے جو روی سے پہلے آئے اور حروف روی اور اس الف کے درمیان ایک حرف بطور واسطہ کے واقع ہو۔ جیسے شامل اور کامل کا الف۔
ہر طرف غُل اِدھر آ پیار کے قابل قاتل
کہیں ہے ہے کہیں اُف اُف کہیں قاتل قاتل
اس شعر میں قابل اور قاتل کا " ل" تو روی ہے اور الف تاسیس
نوٹ :
تاسیس کا لانا ہر قافیہ میں لازمی نہیں اگر مطلع میں عامل اور شامل قوافی لائے گئے ہوں تو پھر "دل" اور "مکمل" کو قوافی بنانا جائز نہیں ہوگا اور مطلع میں "قاتل" اور "بسمل" قوافی آئے ہوں تو بعد کے شعروں میں تاسیس کی پابندی ضروری نہیں
۲۔ دخیل:
( لغوی معنی بیج میں آنے والا ) اصطلاح میں دخیل وہ حرف متحرک ہے جو تاسیس اور روی کے درمیان آئے ۔ مثلاً مندرجہ بالا شعر میں "قابل" کی "ب" اور "قاتل" کی "ت" یا مثلاً "کامل" اور "شامل" میں "م" ۔
نوٹ :
یہ ضروری نہیں کہ ہر قافیہ میں حرف دخیل بار بار لایا جائے ۔ یعنی " کابل" کے قوافی لازماً "عامل" اور "شامل" ہی سمجھے جائیں بلکہ "ساحل" اور "باطل" بھی اس کے قوافی ہو سکتے ہیں۔ لیکن اگر مطلع میں حرفِ دخیل کی تکرار واقع ہو تو پھر یہ تکرار تمام اشعار میں لازم ہوگی۔
۳۔ رِدف : ( لغوی معنی کسی کے پےچھ پےچھ آنا ) اصطلاح میں رِدف وہ حرف مدّہ ہے جو روی سے پہلے بلا فاصلہ آئے ۔ مثلاً مال ، حور وغیرہ۔
الف کی مثال :
چمن میں گل نے جو کل دعویٰ جمال کیا
صبا نے مارا طمانچہ منہ اس کا لال کی
اس شعر میں " جمال " اور " لال " کا " ل" تو حرف روی ہے اور اس سے متصل " الف " رِدف
" ی" کی مثال:
ہوئی تاخیر تو کچھ باعثِ تاخیر بھی تھا
آپ آتے تھے مگر کوئی عناں گیر بھی تھ
اس شعر میں " تاخیر" اور " عناں گیر" کی " ر " حرف روی ہے اس سے متصل " ی " رِدف
واؤ کی مثال:
ہے حرفِ خامہ دلِ زدہ حسنِ قبول کا
یعنی خیال سر میں ہے نعتِ رسول ک
اس شعر میں " قبول " اور " رسول " کا " ل" حرف روی ہے اور اس سے پہلے " واؤ " رِدف۔
(١) حرف مدہ یہ ہیں
(ا) الف ساکن ماقبل مفتوح مثلاً " بہار" اور " بخار" میں۔
(٢) یائے ساکن ماقبل مکسور مثلاً " اسیر" اور " امیر" اور
(٣ ) واؤ ساکن ماقبل مضموم مثلاً " سرور " اور نفور " میں
اگر حرفِ روی اور حرفِ مدّہ کے درمیان کے حرفِ ساکن بطور واسطہ واقع ہو تو وہ حرفِ ساکن " رِدف زائد" کہلاتا ہے ۔ جےس بانٹ اور چھانٹ میں " نون " دوست اور پوست میں " س "۔ جس رِدف میں رِدف زائد آئے اسے رِدف اصلی کہتے ہیں اور جس میں رِدف زائد نہ آئے وہ رِدف علی الاطلاق کہلاتی ہے ۔
" ردف زائد کے لئے یہ چھے حف مخصوص ہیں ش۔ر۔ف۔خ۔ن ان کا مجموعہ " شرف سخن" بنتا ہے ۔ جےسک بہ آسانی یاد رکھا جا سکتا ہے ۔
خواجہ نصیر الدین محققِ طوسی نے معیارالاشعار میں " رِدف زائد " کو " روی مضاعف" کا نام دیا ہے مگر عام طور پر ردف زائد ہی مستعمل ہے ۔
نوٹ :
۱۔ شعرائے عرب و عجم نے رِدف کے اختلاف کو جائز رکھا ہے ۔ جےسں وجود کا قافیہ "وعید" لیکن اردو میں اختلاف ردف کسی طرح بھی جائز نہیں ۔
۲۔ قافیے کا مدار تلفظ پر ہے کتابت پر نہیں ۔ پس واؤ معدولہ کو قافیے میں شمار نہیں کیا جائے گا۔ یعنی " خواب" کا قافیہ " ماب" اور "خور" کا قافیہ " دُر " ہو سکتا ہے ۔
۳۔ قید ( لغوی معنی بیڑی ، کتاب کا شیرازہ، یا شکنجہ ) اصطلاح میں حروفِ مدّہ کے سوا اور کوئی حرفِ ساکن حرفِ روی سے پہلے بلا فاصلہ آئے تو اسے قید کہتے ہیں مثلاً " رزم" اور " بزم " کی " ز" جےسر " درد " اور " فرد" میں ر ۔
اگر حرفِ ردف سے پہلے کی حرکت موافق نہ ہو ( یعنی " الف" سے پہلے " زبر" اور" ی" سے پہلے " زیر" اور " واؤ" سے پہلے " پیش" نہ ہو) تو حرف رِدف نہیں بلکہ قید سمجھا جائے گا جےسح جَور اور غَور میں واؤ اور خَبر اور غَیر میں " ی" ۔
عربی میں حرفِ قید متعدّد ہیں لیکن اہل عجم نے دس مقرر کئے ہیں؛ ب ، خ، ر، ز، س، ش، غ، ف، ن، اور ہ ۔ ان حرف کو مختلف اشعار میں نظم کیا گیا ہے ۔
۱۔ در عجم واں وہ حروفِ قید یعنی با و خا
را و زا و سین و شین و فا و نون و ہ
۲۔ با و خا و سین و شین و را و زا
غین و فا و نون و ہا گفتم تر
۳۔ با و خا، را و زا ، سین و شین
غین و فا و نون و ہا می واں یقین
بعض اہل فن کے نزدیک فارسی میں حرفِ قید بارہ ہیں
حرفِ قید اندر زبانِ فارسی
وہ دو بالا ہست بشنو اے فت
با و خا، را و زا ، سین و شین
غین و فا و نون و واؤ ، ہا و ی
مگر اردو میں اس کی تعداد مقرر نہیں کی گئ۔