تفسير راہنما جلد ۱۱

تفسير راہنما 10%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 750

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 750 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 218015 / ڈاؤنلوڈ: 3017
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱۱

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

تفسير راہنما جلد یازدہم

قرآنى موضوعات اور مفاہيم كے بارے ميں ايك جديد روش

مؤلف: آيت الله ہاشمى رفسنجاني اور

مركز فرہنگ و معارف قرآن كے محققين كى ايك جماعت

۳

۲۰-سورہ طہ

آیت ۱

( بسم اللّه الرحمن الرحیم )

( طه )

بنام خدائے رحمان و رحيم

طہ (۱)

۱ _'' عن جعفر بن محمد(ع) ...قال: و ا مّا ''طه'' قاسم من ا سماء النبي(ص) و معناه: ياطالب الحق الهادى اليه; امام صادق (ع) سے روايت ہے كہ آپ(ص) نے فرمايا: ''طہ'' پيغمبر(ص) كے ناموں ميں سے ايك نام ہے اور اس كا معنى ہے: اے طالب حق كہ جو حق كى طرف ہدايت كرنے والا ہے_(۱)

۲ _'' قال جعفر بن محمد الصادق (ع) : قوله عزّوجل: ''طه'' ا ى طهارة ا هل بيت محمد (صلوات الله عليهم) من الرّجس; امام صادق(ع) سے روايت ہے كہ كلام خدا ميں ''طہ'' اہل بيت پيغمبر (ص) كى رجس اور پليدى سے طہارت كى طرف اشارہ ہے_(۲)

۳ _'' عن جعفر بن محمّد (ع) قال: إذا ا تيت مشهد ا مير المؤمنين (ع) قل: السّلام عليك يا طه ; امام صادق(ع) سے روايت ہے كہ (آپ نے محمد بن مسلم كو فرمايا) جب بھى تم حضرت اميرالمؤمنين (ع) كى زيار ت كيلئے جائو تو يہ كہو''السلام عليك يا طه'' (۳)

اہل بيت (ع) :انكى طہارت ۲

حروف مقطعات :۱، ۲، ۳

روايت :۱، ۲، ۳

____________________

۱ ) معانى الاخبار ص ۲۲ ح ۱ نورالثقلين ج ۳ ص ۳۶۷ح۸_

۲ ) تاويل الآيات الظاہرة ص ۳۰۴_ تجارالانوار ج ۲۵ ص ۲۰۹ح ۲۲_

۳ ) بحار الانوار ج ۹۷ ص ۳۷۵ ح ۹_

۴

طہ:اس سے مراد ۱، ۲،۳

محمد(ص) :آپ(ص) كے نام ۱

آیت ۲

( مَا أَنزَلْنَا عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لِتَشْقَى )

ہم نے آپ پر قرآن اس لئے نہيں نازل كيا ہے كہ آپ اپنے كو زحمت ميں ڈال ديں (۲)

۱ _ خدا تعالى نے پيغمبر اكرم(ص) پر قرآن نازل فرمايا _ما ا نزلنا عليك القر ان لشتقى

۲ _ پيغمبر اكرم(ص) پر قرآن كانزول آپ(ص) كے لئے بھارى ذمہ دارى كے احساس كے ہمراہ تھا _ما أنزلنا عليك القر ان لتشقى آيت كريمہ كے شفقت بھرے لب و لہجے سے لگتا ہے كہ نزول قرآن سے پيغمبر اكرم(ص) نے بھارى ذمہ دارى كا احساس كيا اور اسے انجام دينے كيلئے آپ(ص) نے خود كو بہت رنج و الم ميں مبتلا كر ركھا تھا تا كہ ہر ممكن طريقے سے لوگوں كو ہدايت كر پائيں _

۳ _ اپنى رسالت كو انجام دينے كيلئے پيغمبر اكرم(ص) كى كوشش ،اور سنجيدگي، اورسنگين اورطاقت آزما تھى _

ما ا نزلنا عليك القر ان لتشقى ''شقاوت'' كا معنى ہے سختى اور دشوارى (قاموس) خدا تعالى كا پيغمبر اكرم(ص) كو سختى نہ جھيلنے اور اپنے آپ كو زحمت ميں نہ ڈالنے كى نصيحت آپ(ص) كى طرف سے لوگوں كى ہدايت كيلئے طاقت آزما كوشش كى علامت ہے _

۴ _ خدا تعالى نے پيغمبر اكرم(ص) كو قرآن كو ابلاغ كيلئے رنج و الم اور زحمت كا راستہ اختيار كرنے كا حكم نہيں ديا _

۵

ما أنزلنا عليك القر ان لتشقى

۵ _ خدا تعالى بعض لوگوں كے كفر اور ہٹ دھرمى كى وجہ سے انبياء كا مواخذہ نہيں كريگا _ما ا نزلنا عليك القر ان لتشقى

۶ _ دينى راہنماؤں كى يہ ذمہ د ارى نہيں ہے كہ وہ كفر پر ڈٹے ہوئے لوگوں كى ہدايت كيلئے اصرار كريں _

ما ا نزلنا عليك القر ان لتشقى

۷ _ دينى ذمہ داريوں كى انجام دہى ميں رنج و مشقت كو برداشت كرنا ضرورى نہيں ہے _ما ا نزلنا عليك القر ان لتشقى

''لتشقى '' كا اطلاق شرعى ذمہ داريوں كى انجام دہى ميں مشقت كو بھى شامل ہے اگر چہ آيت كريمہ كا مورد دوسروں تك معارف قرآن پہچانے ميں مشقت ہے_

انبياء:انكى ذمہ دارى كا دائرہ ۵

شرعى ذمہ داري:اس كا نظام ۷; سخت شرعى ذمہ دارى كى نفى ۷

خداتعالى :اسكے ا فعال ۱

دينى راہنما:انكى ذمہ دارى كا دائرہ ۶

قرآن كريم:اسكے نزول كے اثرات ۲; اس كا سرچشمہ ۱; اس كا وحى ہونا ۱

قواعد فقہيہ:قاعدہ نفى عسرو حرج ۷

كفر:اسكى سزا ۵

سزا :اس كا شخصى ہونا ۵

ہدايت:اس پر اصرار ۶

۶

آیت ۳

( إِلَّا تَذْكِرَةً لِّمَن يَخْشَى )

يہ تو ان لوگوں كى ياد دہانى كے لئے ہے جن كے دلوں ميں خوف خدا ہے (۳)

۱ _ پيغمبر اكرم (ص) پر قرآن مجيد نازل كرنے كے مقصد لوگوں كو خبردار كرنا،ان متوجہ كرنا اور انہيں نصيحت كرناہے_

ما ا نزلنا إلا تذكرة لمن يخشى

''إلا تذكرة'' ميں استثنا منقطع اور ''تذكرة'' مفعول لہ ہے يعنى'' لكن ا نزلنا ه لتذكرة'' ''تذكرة'' معنى راہنمائي'' سے وسيع تر ہے اور يہ ہر اس چيز كو شامل ہے جو مورد توجہ ہو (مفردات راغب) اور يہ ''وعظ'' كے معنى ميں بھى آتاہے (مصباح قاموس)

۲ _ پيغمبر اكرم(ص) كى ذمہ دارى قرآن مجيد كا ابلاغ اور لوگوں كو ياد دہانى كراناہے_ اور وہ اس كے نتيجہ كے ذمہدار نہيں ہيں _ما أنزلنا عليك إلا تذكرة لمن يخشى

۳ _ قرآن مجيد كى تعليمات، فقط ان لوگوں كے ليے مؤثر ہيں كہ جن كے دلوں ميں خداوند عالم كى عظمت نے خوف بٹھايا ہو_إلا تذكرةً لمن يخشى

''خشية'' ايسا خوف كہ جو عظمت كے احساس كے ساتھ مخلوط ہو ( مفردات غلط) اوريہ (يخشى ) كے متعلق ہے اور اس پر قرينہ بعد والى آيت ہے كہ جو قرآن كريم كو نازل كرنے و الى ذات الہى كو عظمت كو بيان كررہى ہے_

۴ _قرآن مجيد كى تعليم ، خوف الہى ركھنے والوں كے ليے آسان ہے اور وہ ہر قسم كے رنج و مشقت كو

۷

برداشت كرنے سے بے نياز ہے_ما ا نزلنا لتشقى إلا تذكرةً لمن يخشى

۵ _ قرآنى پيغامات سے بے اعتنائي كرنے والوں كا انجام خوف ناك اور ہولناك ہے_إلا تذكرةً لمن يخشى

خداوند عالم سے خوف اور خشيت سے مراد يہ ہے كہ قرآنى تذكرات كى مخالفت كى صورت ميں اس كى طرف سے سزا اور عذاب ملتاہے_

۶ _قرآنى تعليمات كى مخالفت كے انجام سے خوف زدہ ہونا ضرورى ہے_إلا تذكرة ً لمن يخشى

۷ _قرآنى پيغام، انسانى فطرت اور اس كو بيدار كرنے كے ساتھ سازگار ہے_إلا تذكرةً لمن يخشى

''تذكرة'' كا مطلب جيسا كہ ''لسان العرب'' ميں ذكر ہوا ہےبھولى ہوئي چيزوں كى ياد دہانى ہے قرآن مجيد كى ياد دہانى كرانے سے مراد يہ ہے كہ وہ انسانوں كو اس چيز كى ياد دہانى كراتاہے كے جو چيز اس كى فطرت ميں مضمر ہے اور وہ اس سے غافل ہے_

انسان:انسانوں كو متوجہ كرنے كى اہميت۱

تذكر:انسانوں كو تذكر دينے كى اہميت ۲

خوف:خوف كے اسباب ۶

خوف الہى ركھنے والے:اور قرآن ۴

خشيت:اس كے آثار ۳; اس كى اہميت ۶

فطرت:متنبہ كرنے كے عوامل ۷

قرآن:اس كى تبليغ كى اہميت ۲; اس كى تاثير كا زمينہ ۳ ; اس كى تعليم كى سہولت ۴; اس كے انجام سے احراز ۶; اس سے احراز كا برا انجام ۵; اس كى تعليمات كا فطرى ہونا ۷; اس كے نزول كا فلسفہ ۱; اس كى خصوصيات ۷

محمد(ص) :ان كى ذمہ دارى كا دائرہ كار ۲

موعظہ:اس كى اہميت ۱

۸

آیت ۴

( تَنزِيلاً مِّمَّنْ خَلَقَ الْأَرْضَ وَالسَّمَاوَاتِ الْعُلَى )

يہ اس خدا كى طرف سے نازل ہوا ہے جس نے زمين اور بلندترين آسمانوں كو پيدا كيا ہے (۴)

۱ _ قرآن ، خالق زمين و آسمان كى طرف سے بھيجا ہوا ايك پيغام ہے __تنزيلاً ممن خلق الا رض و السموات

'' تنزيلاً'' مصدر اسم مفعول كے معنى ميں اور ''القرآن'' سے حال ہے جو سابقہ آيات ميں تھا_

۲ _ خداتعالى ، بلند و بالا آسمانوں اور زمين كا خالق ہے _خلق الا رض و السموات العلى

''عُلى '' (علياء كى جمع ) اسم تفصيل ہے آسمانوں كى يہ صفت بيان كرنا كہ وہ زمين سے بلند تر ہيں اس مقام و مرتبے كى عظمت كے بيان كيلئے ہے كہ جہاں سے قرآن زمين پر نازل ہوا ہے_

۳ _ اس ذات كى طرف توجہ كرنا كہ جس كى طرف سے قرآن نازل ہوا ہے قرآن سے نصيحت حاصل كرنے اور اسكى نصيحت كو قبول كرنے كا پيش خيمہ ہے _تذكرة لمن يخشى تنزيلاً ممن خلق الا رض و السموات العلى

بعض اوقات علت كو بيان كرنے كيلئے حال سے استفادہ كيا جاتا ہے ''تنزيلا'' جو ''قرآن'' كيلئے حال ہے قرآن كے صاحب نصيحت ہونے كى علت كو بيان كر رہا ہے يعنى چونكہ قرآن، خداتعالى كى طرف سے نازل ہوا ہے لہذا يہ مكمل طورپر نصيحت كرنے كے لائق ہے _

۴ _ خداتعالى كا زمين اور بلند آسمانوں كى خلقت پر قادر ہونا اسكے انسان كو وعظ و نصيحت كرنے كيلئے ايك مناسب كتاب كے بھيجنے پر قدرت ركھنے كى علامت ہے_تذكرة ...ممن خلق الارض و السموات العلى

۵ _ آسمان :متعدد ہيں اور وہ بلندى اور عظمت كے حامل ہيں _و السموات العلى

۹

آسمان:انكا متعدد ہونا۵; ان كا خالق ۱، ۲، ۴; انكى بلندى ۵; انكى عظمت ۵

نصيحت حاصل كرنا:اس كا پيش خيمہ ۳; اسكے عوامل ۴

خدامجيد:اس كا خالق ہونا ۲، ۳; اسكى قدرت كى نشانياں ۴

ياد كرنا:نزول قرآن كے سرچشمے كو يادكرنا ۳

زمين:اس كا خالق ۱، ۲، ۴

عبرت :اس كا پيش خيمہ ۳

قرآن مجيد:اس كا نزول ۱، ۴; اس كا وحى ہونا ۱

آیت ۵

( الرَّحْمَنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى )

وہ رحمان عرش پر اختيار و اقتدار ركھنے والا ہے (۵)

۱ _ خداتعالى پورے عالم وجود كا مدبرہے _الرحمن على العرش استوى

''استوائ'' جب ''على '' كے ساتھ متعدى ہو تو اس كا معنى ہوتا ہے ''مستقر ہونا'' (مصباح) اور ''عرش'' يعنى ''تخت فرمانروائي'' (مقاييس اللغة) خداتعالى كا تخت فرمانروائي پر مستقر ہونا عالم كے نظام كى تدبير اور اسكے چلانے سے كنايہ ہے _

۲ _ عرش آسمانوں او رزمين كى تدبير، انكے كنٹرول كا مركز اور خداتعالى كے زيرتسلط ہے _

خلق الا رض و السموات العلى الرحمن على العرش استوى

۳ _ خداتعالى ،وسيع اور ہمہ گير رحمت والا ہے_الرحمن

''رحمان'' رحمت ميں مبالغہ پر دلالت كرتا ہے _

۴ _ نظام خلقت ميں رحمت الہى كى حكمرانى اور اس كا اصل ہونا _الرحمن على العرش استوى

خداتعالى كا يہ وصف بيان كرتے وقت كہ وہ كائنات كا حكمران ہے ''رحمان'' كے عنوان كا انتخاب اس نكتے كو بيان كر رہا ہے كہ امور كائنات كى تدبير رحمت الہى كى بنياد پر ہے_

۱۰

۵ _ نزول قرآن، خداتعالى كے رحمان ہونے اور اسكے عرش اور تدبير امور پر قادر ہونے كا ايك جلوہ ہے_تنزيلاً الرحمن على العرش استوى

اگر چہ جملہ '' الرحمان على ...'' گذشتہ آيت سے مستقل اور عليحدہ جملے كى صورت ميں ہے ليكن قرآن كے اوصاف بيان كرنے كے بعد كائنات پر خداتعالى كى حكمرانى كا بيان كرنا اور اسكى ''رحمان'' كے ساتھ صفت ذكر كرنا دلالت كرتا ہے كہ نزول قرآن ان صفات الہى كا جلوہ ہے _

۶ _''عن أبى عبداللّه (ع) :(فى قوله تعالى ) ''الرحمن على العرش استوى '' يقول: على الملك احتوي ; خداتعالى كے فرمان''الرحمن على العرش استوى '' كے بارے ميں امام صادق(ع) سے روايت ہے (اس سے) مراد يہ ہے كہ خداتعالى ملك پر احاطہ ركھتا ہے _(۱)

۷ _عن على (ع) قال: و ليس العرش كما تظنّ كهيئة السّرير، و لكنه شيء محدود مخلوق مدبر، و ربّك عزوجل مالكه، لا انّه عيله ككون الشيء على الشيء ; حضرت اميرالمؤمنين(ع) سے روايت ہے كہ آپ(ع) نے فرمايا عرش جيسے تو گمان كرتے ہے (بادشاہوں كے ) تخت جيسا نہيں ہے بلكہ يہ پيدا كيا ہوا اور ايسا محدود وجود ہے كہ جو (خداتعالى كى ) تدبير كے تحت ہے اور تيرا پروردگار اس كا مالك ہے نہ يہ كہ خداتعالى اسكے اوپر ہو جيسے چيزيں ايك دوسرے كے اوپر ہوتى ہيں _(۲)

۸ _'' عن محمد بن مارد: ا نّ ا باعبدالله (ع) سئل عن قول الله عزوجل: ''الرحمن على العرش استوى '' فقال: استوى من كل شيء فليس شيء ا قرب إليه من شيء ;محمد بن مارد سے منقول ہے كہ امام صادق (ع) سے خداتعالى كے فرمان'' الرحمن على العرش استوى '' كے بارے ميں سوال كيا گيا تو آپ(ع) نے فرمايا (آيت سے مراد يہ ہے كہ ) خداتعالى كى سب چيزوں كى طرف يكساں نسبت ہے پس كوئي چيز دوسرى چيز كى نسبت خداكے زيادہ قريب نہيں ہے_(۳)

____________________

۱ ) توحيد صدوق ص ۳۲۱ ب ۵۰ ح ۱_ نورالثقلين ج ۳ ص ۳۷۰ ح ۲۴_

۲ ) توحيد صدوق ص ۳۱۶ ب ۴۸ ج۳_ نورالثقلين ج ۳ ص ۳۶۹ ح ۱۷_

۳ ) كافى ج ۱ ص ۱۲۸ ح ۷_ نورالثقلين ج ۳ ص ۳۶۹ ح ۱۸_

۱۱

۹ _'' عن ا بى الحسن موسى (ع) و سئل عن معنى قول الله '' الرحمن على العرش استوى '' فقال: استولى على ما دقّ و جلّ; امام موسى كاظم (ع) سے روايت ہے كہ آپ (ع) نے خداتعالى كے فرمان''الرحمن على العرش استوى '' كے معنى كے بارے ميں سوال كے جواب ميں فرمايا:خداتعالى چھوٹے بڑے سب موجودات پر تسلط ركھتا ہے_(۱)

آسمان :آسمانوں كى تدبير كا مركز: ۲

عالم خلقت:اس كا مدبر ۱

اسما و صفات :رحمان:۰ ۳

خداتعالى :اس كا احاطہ ۶; اس كا عرش پراستوا ۶، ۷، ۸، ۹; اسكى تدبير ۱; اسكى رحمت كا مقدم ہونا ۴; اسكى حاكميت ۴، ۹; اسكى تدبير كى نشانياں ۵; اسكے رحمان ہونے كى نشانياں ۵; اسكى رحمت كا وسيع ہونا ۳

روايت : ۶، ۷، ۸، ۹

زمين:اسكى تدبير كا مركز ۲

عرش:اسكى حقيقت ۷، اس كا كردار ۲

قرآن :اسكے نزول كے اثرات ۵

____________________

۱ ) محاسن برقى ج ۱ ص ۲۳۸ ح ۱۲_ نور الثقلين ج ۳ ص ۳۷۱ ح ۲۷_

۱۲

آیت ۶

( لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا وَمَا تَحْتَ الثَّرَى )

اس كے لئے وہ سب كچھ ہے جو آسمانوں ميں ہے يا زمين ميں ہے يا دونوں كے درميان ہے اور زمينوں كى تہ ميں ہے (۶)

۱ _ خداتعالى آسمانوں اور زمين كا تنہا مالك ہے _له ما فى السموات و ما فى الا رض

''لا''كا مقد م ہوناحصر پر دلالت كرتا ہے _

۲ _ آسمانوں اور زمين كے درميان موجودات كا وجود _و ما بينهم

۳ _ زمين اور آسمانوں كے درميان موجود سب چيزوں كا مالك صرف خداتعالى ہے _له ...ما بينهم

۴ _ جہان خلقت ميں متعدد آسمان ہيں _له ما فى السموات

۵ _ جو كچھ كائنات كى نمناك خاك كے نيچے ہے خداتعالى كى ملكيت ہے _له ...و ما تحت الثرى

''ثرى '' نمناك مٹى كے معنى ميں ہے (مصباح) اور ''الثرى '' كا ''ال'' ظاہراً جنس كا معنى دے رہا ہے_ لذا ہر نمناك خاك كو شامل ہوجائيگا چاہے زمين ميں ہو يا كسى دوسرے كرہ ميں بلكہ چونكہ آيت ميں ''ما فى الا رض'' مذكور ہے اسلئے احتمال ہے كہ''ما تحت الثرى '' غير زمين سے مربوط ہو _

۶ _ خاك كى رطوبت اسكے نيچے قيمتى چيزوں اور منابع كے وجود كى علامت ہے _*له و ما تحت الثرى

۱۳

با وجوداس كہ جو كچھ خشك مٹى كے نيچے ہے وہ بھى خداتعالى كى ملكيت ہے خاك كے لئے نمناك ہونے كا وصف اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ تر خاك كے نيچے جو چيزيں موجود ہيں وہ خشك مٹى كے نيچے كى چيزوں كى نسبت زيادہ اہم ہيں _

۷ _ پورا عالم ہستى اور سب موجودات چاہے آشكار ہوں يا پنہاں خدائے يكتا كى ملكيت ہيں _

له ما فى السموات و ما فى الا رض و ما تحت الثرى

''آسمانوں ، زمين اورجو كچھ ان كے درميان ہے'' كى تعبير پورى كائنات سے كنايہ ہے _

۸ _ پورى كائنات كى ملكيت كا خداتعالى كے ساتھ منحصر ہونا اسكے كائنات پر محيط ہونے اور اس كا مدبرہونے كى دليل ہے _على العرش استوى له ما فى السموات و ما تحت الثرى

يہ آيت كريمہ سابقہ آيت كى علت بيان كررہى ہے اسى لئے اسكے ارتباط كيلئے حرف عطف سے استفادہ نہيں كيا گيا _

۹ _ اس بات كى طرف توجہ كہ قرآن اس خالق كى طرف سے نازل ہوا ہے جو پورى كائنات كا مدبر و مالك ہے قرآن كى نصيحت كو قبول كرنے كيلئے انسان كى حوصلہ افزائي كا سبب ہے _تذكرة ممن خلق الا رض استوى _ له ما فى السموات و ما تحت الثرى

آسمان :انكا متعدد ہونا۴; انكے موجودات ۱

جہان خلقت:اس كا مالك ۷

خاك:اسكى رطوبت كے اثرات ۶; تر خاك ۵

خداتعالى :اسكى خصوصيات ۳، ۸; اسكى حاكميت ۵; اسكے محيط ہونے كے دلائل ۸; اسكى تدبير كے دلائل ۸; اسكى مالكيت ۱، ۵، ۷، ۸

يادكرنا:قرآن كے وحى ہونے كو ياد كرنے كے اثرات ۹

حوصلہ:حوصلہ افزائي كے عوامل ۹

عبرت:اسكے عوامل ۹

فضا:اسكے موجوات ۲، ۳

قرآن مجيد:اس سے عبرت حاصل كرنا ۹

موجودات:انكا مالك : ۱، ۳، ۵، ۷

۱۴

آیت ۷

( وَإِن تَجْهَرْ بِالْقَوْلِ فَإِنَّهُ يَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفَى )

اگر تم بلند آواز سے بھى بات كرو تو وہ راز سے بھى مخفى تر باتوں كو جاننے والا ہے (۷)

۱ _ جو انسان كہتا ہے اور اظہار كرتا ہے خداتعالى اس سے آگاہ ہے _و إن تجهر بالقول فإنّه يعلم السرّ

جملہ'' فإنّه يعلم ...'' '' إن تجهر'' كے جواب كا قائم مقام ہے اور آيت كريمہ كا معنى يہ ہے كہ اگر ظاہربات كريں ( تو خدا جانتا ہے) كيونكہ وہ راز اور اس سے بھى زيادہ مخفى شے كو بھى جانتا ہے ايسے موارد ميں علت كا بيان كرنا جواب شرط كى تصريح سے بے نياز كرديتا ہے _

۲ _ لوگوں كے وہ اسرار اور راز جنہيں وہ ظاہر نہيں كرتے اور انكى نيتيں خداتعالى كيلئے آشكار ہيں اور وہ ان سے مكمل طور پر آگاہ ہے _فإنّه يعلم السرّ ''سرّ'' يعنى وہ جو دوسروں سے چھپايا جاتا ہے (لسان العرب)

۳ _ انسان ايسے ضميركا حامل ہے جو اپنے آپ سے آگاہ نہيں ہے اور ايسى معلومات ركھتا ہے كہ جنہيں غفلت نے ڈھانپ ركھا ہے _فإنه يعلم السرّ و أخفى ''أخفى '' اسم تفصيل ہے اور از سے بھى زيادہ مخفى وہ چيز ہے كہ جسے انسان نے نہ صرف دوسروں سے مخفى ركھا ہوا ہے بلكہ خود بھى اسكى طرف متوجہ نہيں ہے ليكن يہ اسكے ذہن ميں نقش ہے_

۴ _ خداتعالى انسان كے بھولے ہوئے رازوں اور اسكے مخفى ترين اسرار سے آگاہ ہے_فإنّه يعلم ...أخفى

۵ _ خداتعالى علم مطلق ركھتا ہے اور غيب و ظاہر سے آگاہ ہے _فإنه يعلم السرّ و أخفى

۶ _ قرآن ا ور اسكى نصيحتوں كا سرچشمہ خداتعالى كا مطلق

۱۵

علم ہے _تذكرة فإنّه يعلم السرّ و أخفى

۷ _ خداتعالى كا انسان كے مخفى و آشكار سے آگاہ ہونا اسكى پورى كائنات اور اسكے اجزا پر مطلق حكمرانى اور ملكيت كا ايك جلوہ ہے_على العرش استوى _ له ما فى السموات فإنّه يعلم السرّ و أخفى

اس آيت كريمہ كا سابقہ آيات كے ساتھ ارتباط اس چيز كو بيان كر رہا ہے كہ چونكہ خداتعالى پورے عالم وجود پر حكمرانى كرتا ہے اور كائنات كا حقيقى مالك ہے پس وہ ہر چيز سے مطلع ہے اگر چہ وہ راز يا اس سے بھى زيادہ مخفى ہو _

۸ _ انسان تين درجے كے معلومات كا حامل ہے اظہار شدہ، راز، راز سے زيادہ مخفى _فإن تجهر بالقول فإنّه يعلم السرّو أخفى

۹ _ خداتعالى كے مخفى ترين افكار و گفتار سے آگاہ ہونے كى طرف توجہ ،انسان كو ناروا بات كرنے سے روكتى ہے_ *

و إن تجهر بالقول فإنّه يعلم السرّ و ا خفى جملہ ''فإنّہ ...'' كسى قسم كى فكر اور بات كے خدا تعالى سے پوشيدہ نہ ہونے كى دھمكى ہے اور اس دھمكى كو''إن تجهر بالقول'' پر متفرع كرنا اس چيز كا بيان ہے كہ ''القول'' سے مراد ايسى بات ہے كہ جسے نہ صرف زبان پر لانا ناروا ہے بلكہ ضرورى ہے كہ فكر بھى اسكے محتوا سے پاك ہو _

۱۰ _'' محمد بن مسلم قال: سا لت ا باعبدالله (ع) عن قول الله عزوجل: '' يعلم السرّ و ا خفى '' قال: ''السرّ'' ما كتمته فى نفسك، و ''ا خفي'' ما خطر ببالك ثم ا نسيته; محمد بن مسلم كہتے ہيں : ميں نے امام صادق (ع) سے خداتعالى كے فرمان ''يعلم السرّ و ا خفى '' كے متعلق سوال كيا تو آپ (ع) نے فرمايا : ''سر'' وہ ہے كہ جسے تو نے اپنے اندر پنہان كيا ہو اور '' ا خفى '' وہ ہے جو تيرے دل ميں خطور كرے اور پھر تيرے دل سے محو ہوجائے(۱) _

جہان خلقت :اس كا حاكم ۷

انسان:اسكے مختلف پہلو ۳; اسكے راز ۲، ۴، ۱۰; اسكى سخن ۱; اس كا ناخودآگاہ ضمير اسكے معلومات كے درجے ۳

خداتعالى :اسكے علم كے اثرات ۶; اس كا علم غيب ۱، ۲، ۴، ۵، ۷; اسكى حاكميت كى نشانياں ۷; اسكى مالكيت كى نشانياں ۷

ياد كرنا:خدا كے علم غيب كو ياد كرنے كے اثرات ۹

روايت :۱۰

____________________

۱ ) معانى الاخبار ص ۱۴۳ ح ۱_ نورالثقلين ج ۳۰ ص ۳۷۳ ح ۳۷_

۱۶

سخن:ناپسنديدہ سخن كے موانع ۹

غفلت :اسكے اثرات ۳

قرآن مجيد:اس كا سرچشمہ ۶

آیت ۸

( اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ لَهُ الْأَسْمَاء الْحُسْنَى )

وہ اللہ ہے جس كے علاوہ كوئي خدا نہيں ہے اس كے لئے بہترين نام ہيں (۸)

۱ _ خدا تعالى كے علاوہ كوئي معبود لائق عبادت نہيں ہے _الله لا إله إلا هو

۲ _ جو ذات عالم وجود كى خالق اور مدبر و مالك نہ ہو اور اسكى سب چيزوں كو نہ جانتى ہو وہ لائق عبادت نہيں ہے _

الله لا إله إلا هو

مندرجہ بالا نكتہ اس آيت كے سابقہ آيات كے ساتھ ارتباط سے حاصل ہوتا ہے كہ جن ميں خالقيت، فرمانروائي ، كائنات كى مالكيت اور علم مطلق كو خداتعالى كے ساتھ منحصر كيا گيا ہے _

۳ _ بہترين نام اور اوصاف خدائے يكتا و جميل كيلئے ہيں _له الا سماء الحسنى

''الا سمائ'' جمع معرف با لام ہے جو مفيد عموم ہے اور '' الحسنى '' اسم تفصيل ہے اور آيت كريمہ كا مطلب يہ ہے كہ سب بہتر اور خوبصورت نام خداتعالى سے مختص ہيں _ ناموں كى حسن و خوبى كے ساتھ توصيف اس چيز كو بيان كر رہى ہے كہ مقصود وہ نام ہيں جنہيں صرفى اصطلاح ميں صفت كہا جاتا ہے جسے رازق، شكور، رحيم كيونكہ جس نام كا وصف والا معنى نہيں ہوتا وہ صرف ذات پر دلالت كرتا ہے اور اسكے بارے ميں خوبصورتى اور بدصورتى معنى نہيں ركھتي_

۴ _ خداتعالى سب كمالات كا حامل اور ہر نقص و عيب سے منزہ ہے _

۱۷

له الا سماء الحسنى جو نام نقص و عيب كو بيان كررہا ہو وہ ''اسماء حسنى '' كا مصداق نہيں ہے اور خداتعالى پر صدق نہيں كرتا لذا وہ ہر عيب سے پاك ہے_

۵ _ خداتعالى كے علاوہ ہر چيز نقص و عيب ركھتى ہے اور كمال مطلق سے عارى ہے _له الا سماء الحسنى

''لہ '' كا مقدم كرنا حصر پر دلالت كرتا ہے يعنى جو تمام اسماء حسنى ركھتا ہے وہ صرف خداتعالى ہے_

۶ _ صرف وہ معبود لائق عبادت ہے جو بہترين اوصاف كمال ركھتا ہو_الله لا إله إلا هو له الا سماء الحسنى

اسماء و صفات:اسمائ حسنى ۳; صفات جلال۴; صفات جمال ۴

توحيد:توحيد عبادى ۱

نظريہ كائنات:توحيدى نظريہ كائنات۱

خداتعالى :اسكى تنزيہ ۴; اس كا كمال ۴

صفات:بہترين صفات ۳

حقيقى معبود:اسكى تدبير۲; اس كا خالق ہونا۲; اسكى شرائط ۲، ۶; اس كا علم۲; اس كا كمال ۶; اس كا مالك ہونا۲

نام:بہترين نام ۳

نقص:غير خدا ميں نقص ۵

آیت ۹

( وَهَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ مُوسَى )

كيا تمھارے پاس موسى كى داستان آئي ہے (۹)

۱ _ حضرت موسى كى داستان ايك اہم باب ہے اوروہ پيغمبر اكرم(ص) كيلئے قابل فكر و پيروى ہے_

۱۸

و هل ا تى ك حديث موسى

۲ _ حضرت موسى (ع) كى زندگى كى تاريخ اور واقعات، دينى راہنماؤں اور مبلغين كيلئے سبق آموز، قابل توجہ اور قابل غور و فكر ہيں _و هل ا تى ك حديث موسى

۳ _ مخاطب كو گفتار ميں دقت كرنے پر آمادہ كرنا اور اسے گفتگوسننے كى تشويق دلانا اطلاع پہچانے كى ايك اچھى روش ہے_

هل ا تى ك حديث موسى

''ہل ا تاك ...'' كا استفہام مجازى اور توجہ سے سننے كى تشويق دلانے كيلئے ہے _

تبليغ:اسكى روش ۳

تفكر:حضرت موسى (ع) كے قصے ميں تفكر ۱

يادكرنا:حضرت موسى (ع) كے قصے كو ياد كرنا ۲

دينى راہنما:انكى عبرت ۲

عبرت:اسكے عوامل ۲

مبلغين:انكى عبرت ۲

موسى (ع) :انكے قصے كى اہميت ۱; انكے قصے سے عبرت حاصل كرنا ۲

آیت ۱۰

( إِذْ رَأَى نَاراً فَقَالَ لِأَهْلِهِ امْكُثُوا إِنِّي آنَسْتُ نَاراً لَّعَلِّي آتِيكُم مِّنْهَا بِقَبَسٍ أَوْ أَجِدُ عَلَى النَّارِ هُدًى )

جب انھوں نے آگ كو ديكھا اور اپنے اہل سے كہا كہ تم اسى مقام پر ٹھہرو ميں نے آگ كو ديكھا ہے شايد ميں اس ميں سے كوئي انگارہ لے آؤں يا اس منزل پر كوئي رہنمائي حاصل كرلوں (۱۰)

۱ _ حضرت موسى (ع) اور انكى فيملى رات كے وقت بيابان ميں چلتے ہوئے سرگردان ہوگئے اور راستہ گم كر بيٹھے _

إذ رء ا ناراً بقبس ا و ا جد على النّار هدى ًجمله''أجد على النّارهديً'' دلالت كر رہا ہے كہ حضرت موسى (ع) اور انكے ہمراہى راستہ گم كر بيٹھے تھے اور آگ كے نہ ہونے سے پتا چلتا ہے كہ يہ لوگ بيابان ميں سرگردان تھے_ اور نسبتاً دور سے آگ كو ديكھنا اور آگ كے وجود كے احتمال كے با وجود مل كر اسكى طرف حركت كا ارادہ نہ كرنا اس سے رات ہونے اور علاقہ كے تاريك ہونے كا پتا چلتا ہے_

۱۹

۲ _ حضرت موسى (ع) اپنے سفر ميں اپنى بيوى كے علاوہ اپنے گھركے ديگر افراد كو بھى اپنے ہمراہ ركھتے تھے_

فقال لا هله امكثو فعل ''امكثوا' ' كہ جو جمع كى صورت ميں ہے مندرجہ بالا نكتہ پر دلالت كرتا ہے _

۳ _ حضرت موسى (ع) نے بيابان ميں سرگردانى كے دوران آگ ديكھى اور اپنى فيملى كو اسكى بشارت دى _

إذ رء اناراً فقال إنى ء انست نار ا

(ء انست كا مصدر) ''ايناس'' احساس كرنے، ديكھنے، جاننے اور سننے كے معنوں ميں استعمال ہوتا ہے( لسان العرب) مورد آيت كى مناسبت سے يہاں ديكھنا مراد ہے_

۴ _ حضرت موسى (ع) كے خاندان اور انكے ہمراہيوں نے اس آگ كو نہيں ديكھا جس كا حضرت موسى (ع) نے مشاہدہ كيا تھا _*فقال لا هله امكثو إنى ء انست نارا

حضرت موسى (ع) كا يہ كہنا كہ ''ميں نے آگ ديكھى ہے '' اس سے يہ احتمال دياجاسكتا ہے كہ آپ كے ہمراہ ديگر افراد نے وہ آگ نہيں ديكھى تھى ورنہ حضرت موسى (ع) ديكھنے كو اپنے ساتھ مختص نہ كرتے _

۵ _ حضرت موسى (ع) نے آگ جلا كرنے يا كوئي راہنما تلاش كرنے كى خاطر آگ لانے كيلئے آگ كى جگہ تك جانے كا عزم كيا_لعلى ء اتيكم منها بقبس ا و ا جد على النّار هديً

''قبس'' يعنى انگارہ اور وہ آگ لگى لكڑى كہ جسے دوسرى آگ جلا كرنے كيلئے آگ سے نكالا جائے (لسان العرب)''ہديً''مصدر ليكن اسم فاعل ''ہادي'' كے معنى ميں ہے اور حرف ''ا و'' دو ميں سے ايك كام كو معين كرنے كيلئے ہے يعنى حضرت موسى كا خيال يہ تھا كہ اگر كوئي راہنما مل گيا تو سفر جارى ركھيں گے ورنہ آگ لاكر آگ سينكيں گے_

۶ _ حضرت موسى (ع) نے اپنے گھروالوں سے كہا كہ وہ وہيں انتظار كريں اور آگ كى جگہ تك ان كے ہمراہ نہ آئيں _

فقال لا هله امكثوا إنى ء انست نارا ''مكث'' كا معنى ہے انتظار كرنا (قاموس) _

۷ _ بيوى بچوں كى خدمت اور انكى ضروريات پورى كرنے كيلئے كوشش كرنا ايك پسنديدہ كام ہے _

۲۰

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

_فا رد نإ ن يبدلهما ...فا راد ربّك رحمة من ربّك ومافعلته عن ا مر ي الله تعالى نے مؤمنين،انكى اولاد اور محرومين، لوگوں كى نسبت اپنى ربوبيت كو حضرت خضر كوكشتى كو سوراخ كرنے و غيرہ ...كا حكم ديتے ہوئے متحقق كيا _

۲۰_ كائنات كے حقائق اور اسرارسے حضرت خضر (ع) كى آگاہى اور انكے بار ے ميں الله تعالى كے ارادے سے مطلع ہونا، انكے علم لدنى كا ايك نمونہ تھا _وعلّمنه من لدناً علماً ...رحمة من ربّك وما فعلته عن أمري

۲۱_حضرت موسى (ع) آخر كار حضرت خضر(ع) كے عجيب وغريب كاموں كے اسرارسے آگاہ ہوئے اور بعض واقعات كى توجيہ اور تاويل كو ان سے سيكھا _ذلك تاويل ما لم تسطع عليه صبرا

''لم تسطع'' اصل ميں'' لم تستطع '' تھا يہاں حرف تاء كوتخفيف كيلئے حذف كيا ہے_

۲۲_ حضرت خضر اورموسى (ع) كى داستان ميں حوادث كاسرچشمہ، الله تعالى كا ارادہ تھا اوريہ بہت مشكل تفسير كا حامل اوراس خاص آگاہى كا محتاج ہے جو اسكى جانب سے پہنچے _وما فعلته عن أمرى ذلك تاويل مالم تسطع عليه صبرا

۲۳_ حضرت خضر(ع) نے حضرت موسى (ع) كو اپنے كاموں كے اسرار تعليم دينے كے بعد انكے مقابلہ موسى (ع) كى بے صبرى پر نا پسنديدگى كا اظہار كيا _ذلك تا ويل ما لم تسطع عليه صبرا

۲۴_اولياء الہيكے عجيب و غريب كاموں ميں بے صبرى كا مظاہرہ كرنے اور جلد بازى سے فيصلہ كرنے سے پرہيزكرنا ضرورى ہے_ذلك تا ويل ما لم تسطع عليه صبرا

حضرت موسي(ع) اور خضر(ع) كى تمام داستان سے معلوم ہوتا ہے كہ اولياء الله كے كاموں كا اپنے كا موں سے مقائسہ نہيں كرنا چاہيے بلكہ صبر كرنا چاہيے اور زبان پرنا روا بات نہيں لانا چاہيے كيونكہ انكے اسرار سے آگاہ ہونا، ہر ايك كے بس ميں نہيں ہے _

۲۵_كا ئنات كے مصائب اور حوادث، دقيق او ر اساسى توجيہ و تفسير ركھے ہوئے ہيں _ذلك تا ويل مالم تسطع عليه صبر حضرت موسى (ع) اور خضر(ع) كى پورى داستان يہ نكتہ واضح كررہى ہے كہ ناگہانى واقعات اور مثبت يا منفى حوادث كو غير صحيح نہيں سمجھنا چاہيے بلكہ اس كام كے پشت پردہ غيبى ہاتھ ہے كہ جس نے حوادث كويہ شكل عطا كى _

۲۶_ فى المجمع فى قوله : ''وكان تحته كنزلهما '' ...وقيل : كان كنزا من الذهب والفضة ...رواه ا بوالدرد اء عن النى (ص) (۱)

____________________

۱)مجمع البيان ج۶،ص۷۵۳،نورالثقلين ج۳ ص۲۸۹،ح۱۸۴_

۵۲۱

مجمع البيان ميں الله تعالى كے اس كلام'' وكان تحته كنزلهما '' كے بارے ميں آيا ہے كہ وہ سونا اور چاندى پر مشتمل خزانہ تھا اس بات كو ابو الدرد اء نے پيغمبر اكرم سے روايت كيا ہے_

۲۷_''عن الرضا (ع) قال : كان فى الكنز الذى قال الله ''وكان تحته كنزلهما'' لوح من ذهب فيه : بسم الله الرحمن الرحيم محمد رسول الله (ص) عجبت لمن أيقن بالموت كيف يفرح و عجبت لمن أيقن بالقدر، كيف يحزن و عجبت لمن را ى الدينا وتقلبّها با هلها كيف يركن إليها وينبغى لمن عقل عن الله أن لا يتهم الله تبارك وتعالى فى قضائه ولا يستبطئه فى رزقه (۱)

امام رضا عليہ السلام سے روايت نقل ہوئي كہ آپ نے فرمايا: اس خزانہ كے درميان كہ جسكے بارے ميں الله تعالى نے فرمايا :''وكان تحتہ كنزلہما'' ايك سونے كى لوح تھى جس پرلكھا ہو ا تھا''بسم الله الرحمن الرحيم'' محمد (ص) رسول الله ہيں مجھے اس پر تعجب ہے جو موت پر يقين ركھتا ہے كيسے خوش ہو رہا ہے اور اس پر تعجب ہے كہ جو الہى تقدير پر يقين ركھتا ہے كسطرح غمگين ہو رہا ہے اور اس پر تعجب ہے كہ جو دنيا والوں كى نسبت دنيا اوراسكے تغيّر كا مشاہدہ كرنے كے باوجود دنيا پر اعتماد كيے ہوئے ہے جس نے الله تعالى سے علم و دانش ليا اس بات كى لياقت ركھتا ہے كہ اسكے بارے بد گمان نہ ہو اوراللہ تعالى كى طرف رزق پہنچانے ميں سستى كى نسبت نہ دے_/اسباب كا نظام :۱۹

الله تعالى :الله تعالى كا ارادہ ۲۹; الله تعالى كى ربوبيت كے آثار ۱۶; الله تعالى كى ربوبيت كى علامات ۱۳، ۱۵; الله تعالى كى رحمت ۱۵;اللہ تعالى كى رحمت كى علامات ۱۳; الله تعالى كے ارادہ كے آثار ۲; الله تعالى كے ارادے كا پيش خيمہ ۷;اللہ تعالى كے ارادہ كے جارى ہونے كے مقامات۱۹ ; الله تعالى كے اوامر ۱۷

الله تعالى كى حمايت :الله تعالى كى حمايت كے شامل حال ۱۳

اولياء الله :اولياء الله كے بارے ميں جلد فيصلہ كرنا ۲۴;اولياء الله كے عمل كے بارے ميں صبر كى اہميت ۲۴

باپ :باپ كى صلاحيت كے آثار ۹; صالح باپ كا كردار ۶،۷،۸

حادثات :حادثات كا سرچشمہ ۲۵

خضر (ع) :

____________________

۱)قرب الا سناد ص۳۷۵، ح۱۳۳۰،نورالثقلين ج۳،ص۲۲۸، ح۱۷۸_

۵۲۲

خضر (ع) كا حكم شرعى پر عمل ۱۷; خضر (ع) كے فضائل ۲۰; خضر(ع) كا علم غيب ۲۰;خضر(ع) كا علم لدنى ۲۰،۲۲; خضر كاقصہ۱،۲،۳،۴،۵،۱۶،۲۱،۲۳; خضر كا كردار۱۷; خضر(ع) كى اطاعت ۱۷;خضر(ع) كى تعليمات ۱۶، ۲۱، ۲۳; خضر (ع) كى سرزنش ۲۳;خضر(ع) كے عمل كا راز ۲۱، ۲۲ ; خضر(ع) كے عمل كى اساس ۱۷; خضر(ع) كے قصہ كا سرچشمہ ۲۲;خضر(ع) كے قصہ ميں خزانہ ۲۶،۲۷ ; خضر(ع) كے قصہ ميں خزانے كى حفاظت ۴،۷;خضر(ع) كے قصہ ميں ديوار كا مالك ۳;خضر(ع) كے قصہ ميں ديوار كى تعمير ۳;خضر(ع) كے قصہ ميں ديوار كى تعمير كا فلسفہ ۱ ، ۴،۶;خضر(ع) كے قصہ ميں ديوار كے مالك كا باپ ۵،۶; خضر(ع) كے قصہ ميں ديوار كے مالك كى يتيمى ۲

روايت :۲۶،۲۷

صالحين :صالحين كا احترام ۸; صالحين كے بچوں كا احترام ۸; صالحين كے بچوں كے مفادات كى حفاظت كے اسباب ۱۰; صالحين كےل لواحقين كى امداد ۱۴; صالحين كے لواحقين كے مال كى حفاظت ۱۴; صالحين كے مفادات كى حفاظت كے اسباب ۱۰

طبيعى اسباب :طبيعى اسباب كا كردار ۱۹

عمل :پسنديدہ عمل ۱۱،۱۴

عقلى بلوغ :عقلى بلوغ كے آثار ۱۲

غيبى امور :غيبى امور كا كردار ۱۰

فرزند :بچوں كى سعادت ميں مو ثر اسباب ۹; بچوں كے مستقبل كى ضرورتوں كو پورا كرنے كى اہميت ۱۱

كائنات :كائنات كا قانون كے مطابق ہونا ۲۵

مال :مال كو خرج كرنے كى شرائط ۱۲;مال كے احكام ۱۲//مصائب :مصائب كا سرچشمہ ۲۵

موسى (ع) :موسى (ع) كا سيكھنا ۲۱; موسى (ع) كا قصہ ۱،۲،۳ ،۴،۱۶ ،۱ ۲ ، ۲۳;موسى (ع) كا معلم ۲۳;موسى (ع) كو سرزنش ۲۳; موسى (ع) كو نصيحت ۱۶;موسى (ع) كى اطاعت ۱۸; موسي(ع) كى بے صبرى ۲۳; موسى (ع) كے قصہ كى بنياد ۲ ۲

يتيم :يتيم كى امداد ۱۴;يتيم كى حمايت ۱۳; يتيم كے مال كى حفاظت ۱۳،۱۴;يتيم كى مال كى حفاظت كے اسباب ۱۶

۵۲۳

آیت ۸۳

( وَيَسْأَلُونَكَ عَن ذِي الْقَرْنَيْنِ قُلْ سَأَتْلُو عَلَيْكُم مِّنْهُ ذِكْراً )

اور اے پيغمبر يہ لوگ آپ سے ذوالقرنين كے بارے ميں سوال كرتے ہيں تو آپ كہہ ديجئے كہ ميں عنقريب تمھارے سامنے ان كا تذكرہ پڑھ كر سنا دوں گا (۸۳)

۱_ پيغمبر، كے زمانہ كے لوگوں نے آنحضرت (ص) سے ذوالقرنين كے بارے ميں سوالات كيئے تھے _

ويسئلونك عن ذى القرنين

''قرن''سے مراد'' سينگ'' ہے _كہا جاتاہے كہ ذوالقرنين كى وجہ تسميہ يہ تھى كہ بالوں كى دو چٹيا دو سينگوں كى مانند ان كے سر پرتھيں يا يہ كہ انكى ٹوپى كے دو سينگ تھے البتہ ''قرن'' سے زمانے كا ايك طولانى سلسلہ بھى مراد ہے كہ جس سے لوگ زندگى بسر كرتے ہيں اسى ليے بعض نے وجہ تسميہ يہ بيان كى كہ ذوالقرنين كى حكومت كا زمانہ بہت طولانى تھا _

۲_ ''ذوالقرنين'' ايك تاريخى اورزمانہ پيغمبر(ص) ميں جانى پہچانى شخصيت تھى _ويسئلونك عن ذى القرنين

۳_ الله تعالى نے رسول اكرم(ص) كو لوگوں كے سوال كا جواب دينے كا طريقہ تعليم ديا ہے _

ويسئلونك ...قل سا تلوا عليكم

۴_ لوگوں كے آنحضرت(ص) سے سوالات، بعض آيات كے نازل ہونے اور لوگوں كيلئے بعض مطلب كى وضاحت كا باعث بنتے تھے _ويسئلونك عن ذى القرنين

۵_ الله تعالى نے قرانى آيات كے ذريعہ، ذوالقرنين كے بارے بعض مطالب پيش كرنے كا يقينى وعدہ ديا _

قل سا تلوا عليكم منه ذكرا

''منہ ''ميں ضمير ذوالقرنين كى طرف پلٹ رہى ہے اور ''من تبعيض ''كيلئے ہے يعنى اسكے بعض حالات_ ''سا تلوا ''كے قرينہ كى مدد سے ''ذكر''سے مراد قرآنى آيات ہے _

۶_ذوالقرنين كى داستان كى تفصيل ،تلاوت وحى كى بناء پرہے نہ كہ آنحضرت كى ذاتى رائے كى بناء پر ہے _

سا تلوا عليكم منه ذكرا

۷_آنحضرت(ص) كے بعض علوم اور معلومات، نزول وحيكے مرہون منت تھے _ويسئلونك ...قل سا تلو

۵۲۴

۸_عن ا بى عبدا للّه (ع) قال : ملك الأرض كلّها ا ربعة: مؤمنان وكافران فا مّا المؤمنان : فسليمان بن داود و ذوالقرنين (۱)

امام صادق (ع) سے روايت نقل ہوئي ہے كہ آپ(ص) نے فرمايا : چارافراد نے پورى زمين پر حكومت كى ہے ان ميں دوافراد مؤمن اوردو كا فر تھے_ دو مؤمن يہ تھے : سليمان بن داود اور ذوالقرنين _

۹_عن ا بى جعفر(ع) قال : إن ذإلقرنين لم يكن نبيا ولكنّه كان عبداً صالحاً ا جب الله فا حبّه الله وناصح للّه فنا صحه الله ا مر قومه بتقوى الله فضر بوه على قرنه ، فغاب عنهم زماناً ،ثم رجع اليهم ، فضر بوه على قرنه الا خر وفيكم من هو على سنّته (۲) امام باقر عليہ السلام سے روايت نقل ہوئي ہے كہ ذوالقرنين پيغمبر نہيں تھے ليكن ايك صالح بندہ تھے كہ جو الله تعالى سے محبت ركھتے تھے تو الله تعالى بھى ان سے محبت كرتا تھا الله تعالى كيلئے خالص عمل كرتے تھے پس الله بھى انكى خير چاہتا تھا وہ قوم كو الہى تقوى كى طرف حكم ديتے تھے _ توا س قوم نے انكے قرن يعنى انكے سر كى ايك طرف ضر ب لگائي تو وہ ايك زمانے تك ان سے غائب رہے پھر انكى طرف لوٹ آئے تو انہوں نے انكے دو سرے قرن پر يعنى انكے سر كى دوسرى طرف ضرب لگائي_ تم ميں سے كوئي ہے جو اسكى مانند ہوگا _

۱۰_عن ا بى جعفر (ع) قال : إن الله لم يبعث ا نبيا ء ملوكاً فى الأرض الاّ أربعة بعد نوح: اوّ لهم ذوالقرنين (۳)

امام باقر (ع) سے روايت نقل ہوئي ہے كہ آپ نے فرمايا : الله تعالى نے زمين پر انبياء كو بادشاہ نہيں بنايا سوائے چار انبياء كے جو نوح كے بعد تھے ان ميں سے پہلے ذوالقرنين تھے _

آنحضرت (ص) :آنحضرت(ص) سے سوال ۱،۴; آنحضرت(ص) كا معلم ہونا۳ ; آنحضرت(ص) كو جواب دينے كے طريقہ كى تعليم ۳;آنحضرت(ص) كو وحى ۶،۷; آنحضرت(ص) كو وعد ہ ۵; آنحضرت(ص) كے علم كا سرچشمہ ۷

اسلام :صدر اسلام كى تاريخ ۱،۴//الله تعالى :الله تعالى كى تعلميات ۳; الله تعالى كے وعدے ۵

ذوالقرنين :ذوالقرنين كا نام ۸;ذوالقرنين كى حاكميت ۸; ذوالقرنين كى حكومت ۱۰;ذوالقرنين كى نبوت ۹;ذوالقرنين كے بارے ميں سوال۱; ذوالقرنين كے فضائل ۱۰;ذوالقرنين كے قصہ كا سرچشمہ ۶;ذوالقرنين كے قصہ كى وضاحت ۵

____________________

۱)خصال ج۱ ،ص۲۵۵،ح۱۳۰،نورالثقلين ج۳ ،ص۲۹۵، ح۲۰۷_۲) كمال الدين ص۳۹۳، ح۱ ، نورالثقلين ج۳ح۲۰۲_

۳) تفسير عياشى ج۲ ص۳۴۰، ح۷۵، نورالثقلين ج۳ ،ص۲۹۵، ح۲۰۶_

۵۲۵

روايت :۸،۹،۱۰

قرآن :قرآن كے نزول كا باعث ۴

لوگ :زمانہ بعثت كے لوگ اور ذوالقرنين ۲;زمانہ بعثت كے لوگوں كا سوال ۱،۴

وحى :وحى كا كردار ۷

آیت ۸۴

( إِنَّا مَكَّنَّا لَهُ فِي الْأَرْضِ وَآتَيْنَاهُ مِن كُلِّ شَيْءٍ سَبَباً )

ہم نے ان كو زمين ميں اقتدار ديا اور ہر شے كا ساز و سامان عطا كرديا (۸۴)

۱_'' ذوالقرنين'' ايك طاقت ور اور زمين پر وسيع ذرائع كى حامل شخصيت تھى _إنّا مكّنّاله فى الأرض

''مكنّا ''يعني'' ہم نے اسے قوت دي'' ذوالقرنين اوراسكى تاريخى شخصيت اور يہ كہ وہ كون ہے مورخين اورمفسرين ميں ايك رائے موجود نہيں ہے بعض اسے تاريخ سے ماقبل كے بادشاہوں ميں سے سمجھتے ہيں اور فقط قرآن كوانكى شناخت كا ما خذ سمجھتے ہيں بعض اسے وہى سكندر سمجھتے ہيں بعض اسے ''فريدون ''اور بعض اسے يمن كے بادشاہ ہوں ميں سے سمجھتے ہيں اور بعض، علامہ طباطبائي كى مانند ''كورش'' (ہخامنشى كا بادشاہ) كى آيات كے ساتھ مناسب تطبيق ديتے ہيں اور بعض اسے چين كے بادشاہ ہوں ميں سے سمجھتے ہيں اور چين كى ديوار كو اپنے دعوى پر گواہ كے طور پر پيش كرتے ہيں _

۲_ تاريخ كے طاقتورافراد كى قدرت اورو سائل ، صرف الله تعالى كے ارادے اور حاكميت كے دائرہ كار ميں ہيں نہ كہ وہ مستقل ہيں _إنّا مكنّا له فى الأرض ذوالقرنين كى قدرت اور وسائل كو الله تعالى كى طرف نسبت دينا يہ پيغام دے رہاہے كہ يہ نہيں سمجھنا چاہيے كہ طاقتور لوگ جو كچھ ركھتے ہيں وہ انكا ذاتى تھے بلكہ ہر چيزاسكى طرف سے ہے _

۳_ ''ذوالقرنين ''ايك الہى شخصيت تھى _إنّا مكنّا له فى الأرض

يہ احتمال ہے كہ ذوالقرنين كى قدرت كو الله تعالى سے منسوب كرنے كى وجہ يہ ہو كہ الله تعالى نے انكى الہى شخصيت كى بنا ء پر اسے وسائل عطا كيے ہوں _

۴_ ذوالقرنين كے پاس اسكے ہر مقصد كو پورا كرنے

۵۲۶

كيلئے اسباب ووسائل مہيا تھے _وا تيناه من كل شى سبب

'' كل شى '' ميں عموم ،عرض عموم ہے اور''سببا'' ''أتيناه '' كيلئے دوسرا مفعول ہے كلام ميں چھپے ہوئے مضاف كى طرف توجہ كريں تو جملہ مقدريوں ہے ''وأتيناہ سبباً من أسباب كل شى ئ'' يعنى اسكے علمى اور عملى اہداف كو پوراكرنے كيلئے جوبھى وسائل در كار تھے اسكے اختيار ميں دے ديے _

۵_ علمى اور عملى كاموں كو پوراكرنے كى روش اور اسباب كاحصول،زمين پر ذوالقرنين كى قدرت اور اقتدار كاباعث تھا _

إنّا مكنّا له فى الأرض وأتيناه من كل شيء سبب

'' أتيناہ ''كا ما قبل جملہ پر عطف، سبب كامسبب پر عطف ہے يعنى اگر ''ذوالقرنين'' كازمين پر اقتدار تھا توان اسباب كى بناء پرتھا جو ہر كام كو پوراكرنے كيلئے انكے اختيار ميں تھے _

۶_ اشياء كووجود ميں لانے اور امور كومتحقق كرنے والاطبيعى نظام، علل اور اسباب كے سلسلہ پر قائم ہے _وأتيناه من كل شى ء سبب ذوالقرنين كا اپنے امور ميں كامياب ہونا، اسباب ووسائل سے فائدہ اٹھانے كى بناء پر تھا اس موضوع كا آيت ميں بيان ہونا، كائنات كے امور پر علل واسباب كے نظام كى حاكميت كى طرف اشارہ ہے_

۷_ ذوالقرنين كى قدرت وطاقت اوراپنے مقاصد كو پوراكرنے كيلئے تمام ضرورى وسائل اور ذرائع انہيں الله تعالى كى طرف سے عطا ہونے تھے_إنّا مكنّا له فى الارض وأتيناه من كل شيء سببا

۸_ الله تعالى تمام طبيعى اسباب اور علل پر حاكم ہے _وأتيناه من كل شى ء سببا

۹_عن الا صبغ بن نباتة ، عن ا مير المؤمنين(ع) أنّه قال : سئل عن ذى القرنين قال : ...وجعل عز ملكه وآية نبوّته فى قرنه ...وآتا ه الله من كل شيئ: علماً يعرف به الحق والباطل و أوحى الله إليه ...فقد طويت لك البلاد و ذلّلت لك العباد فا رهبتهم منك ...فلم يبلغ مغرب الشمس حتّى دان له أهل المشرق والمغرب قال :وذلك قول الله : إنّا مكنّا له فى الأرض وأتينا ه من كل شى سبباً (۱) اصبغ بن نباتہ سے روايت نقل ہوئي ہے كہ اميرالمؤمنين نے ذوى القرنين كے بارے ميں كيے گئے سوال كے جواب ميں فرمايا : ...اللہ تعالى نے اسكى بادشا ہى كى طاقت اور نبوت كى نشانى كو اسكے سينگ ميں قرار ديا ...اور ہر چيز كے بارے ميں الله تعالى نے اسے علم عطا كيا تا كہ اسكے ذريعہ سے حق و باطل كو پہچا ن سكے الله تعالى نے اسے وحى كى : ميں نے شہروں كو تيرے اختيار ميں دے

____________________

۱) تفسير عياشى ج۲،ص۳۴۱،ح۷۹،نورالثقلين ج۳ص۲۹۷،ح۲۱۵_

۵۲۷

ديا اور بندوں كو تيرامطيع اور انكے دلوں كوتيرے خوف سے پر كرديا ہے_تو ابھى وہ سورج كے غروب ہونے كى جگہ تك نہيں پہنچا تھا كہ دنياكے اہل مشرق ومغرب نے اسكے آگے سرتسليم خم كيا پھر اميرا لمؤمنين(ع) نے فرمايا :يہ الله تعالى كا كلام وہ كہ فرمايا ہے :انّا مكنا له فى الأرض واتينا ه من كل شي سببا

الله تعالى :الله تعالى كا ارادہ ۲; الله تعالى كى حاكميت ۲،۸;اللہ تعالى كى عطا ئيں ۷

ذوالقرنين :ذوالقرنين كى شخصيت ۳;ذوالقرنين كى قدرت ۱ ، ۴; ذوالقرنين كى قدرت كا باعث ۵; ذوالقرنين كى قدرت كا سرچشمہ ۷; ذوالقرنين كى نبوت ۹; ذوالقرنين كے ذرائع ۱،۴، ۵، ۹; ذوالقرنين كے ذرائع كا سرچشمہ ۷; ذوالقرنين كے علم كے آثار ۵; ذوالقرنين كے فضائل ۳،۹

روايت :۹

طبيعى اسباب :طبيعى اسباب كا كردار ۶،۸

قدرت :قدرت كا سرچشمہ ۲قدرت مند لوگ :قدرت مند لوگوں كے ذرائع كا سرچشمہ ۲

نظام عليت :۶

آیت ۸۵

( فَأَتْبَعَ سَبَباً )

پھرا نھوں نے ان وسائل كو استعمال كيا (۸۵)

۱_ ذوالقرنين، نے مغرب كى طرف سفر كرنے كيلئے اپنے وسيع الہى ذرائع ميں سے بعض سے فائدہ اٹھا يا _

فا تبع سببا _ حتّى إذا بلغ مغرب الشمس

۲_ ذوالقرنين، ان مادى وسائل كے ساتھ ان سے كام لينے كا علم بھى ركھتا تھا _فا تبع سببا

۳_سا ل رجل عليا ً (ع) ا رأيت ذإلقرنين كيف استطاع أن يبلغ المشرق والمغرب ؟قال: سخر الله له السحاب مد ّ له فى الأسباب وبسط له النور فكان اليل والنهار عليه سواء (۱)

ايك شخص نے حضرت على (ع) سے كہا : مجھے بتائيں كہ

____________________

۱)كمال الدين صدوق ص۳۹۳، ح۲ باب ۳۸، نورالثقلين ج۳ ص۲۹۶، ح۲۱۲_

۵۲۸

كيسے ذوالقرنين اس جہان كے مشرق ومغرب تك پہنچا؟ حضرت على (ع) نے فرمايا : الله تعالى نے بادل كو اسكے ليے مسخر كيا تھا اور اسكے وسائل اور ذارئع بڑھا ديے تھے او ر اسكے ليے نور پھيلا ديا تھا اس طرح كہ دن ورات اسكے ليے برابر تھے _

ذوالقرنين :ذوالقرنين كا علم ۲; ذوالقرنين كا قصہ ۱،۳; ذوالقرنين كا مشرق كى طرف سفر ۳; ذوالقرنين كا مغرب كى طرف سفر ۱،۳; ذوالقرنين كے فضائل ۲; ذوالقرنين كے مادى وسائل ۲; ذوالقرنين كے وسائل ۱،۳

روايت :۳

آیت ۸۶

( حَتَّى إِذَا بَلَغَ مَغْرِبَ الشَّمْسِ وَجَدَهَا تَغْرُبُ فِي عَيْنٍ حَمِئَةٍ وَوَجَدَ عِندَهَا قَوْماً قُلْنَا يَا ذَا الْقَرْنَيْنِ إِمَّا أَن تُعَذِّبَ وَإِمَّا أَن تَتَّخِذَ فِيهِمْ حُسْناً )

يہاں تك جب وہ غروب آفتاب كى منزل تك پہنچے تو ديكھا كہ وہ ايك كالى كيچڑ والے چشمہ ميں ڈوب رہا ہے اور اس چشمہ كے پاس ايك قوم كو پايا تو ہم نے كہا كہ تمھيں اختيار ہے چاہے ان پر عذاب كرو يا انكے درميان حسن سلوك كى روش اختيار كرو (۸۶)

۱_ ذوالقرنين، اپنے بعض وسائل اورفوج كى مدد سے مغرب كى طرف اپنى سرزمين ميں آگے بڑھا _

فا تبع سبباً _ حتّى إذا بلغ مغرب الشمس

۲_ ذوالقرنين،نے مغرب كى طرف خشكى كى انتہاتك پہنچنے كے بعد اپنے سامنے كيچڑوالا سياہى مائل پانى ديكھا _

حتى إذا بلغ مغرب الشمس وجدها تغرب فى عين حمئة

''حمئة ''معنى حما ''سياہى مائل بد بو دار مٹى '' كو كہتے ہيں ( كتاب العين )

۳_ مغر ب كى جانب ذوالقرنينكے سفر كى آخر، منزل پر سورج كے غروب ہونے كا منظريوں تھا كہ جيسے

۵۲۹

وہ سياہى مائل چشمہ ميں غرق ہو گيا ہے _وجد ها تغرب فى عين حمئة

''عين ''كامعنى چشمہ ہے اور ''وجدھا '' كے قرينہ (اسے يوں پايا ) سے آيت كامطلب يہ نہيں ہے كہ سورج واقعاً سياہى مائل مٹى كے چشمہ ميں غرق ہوا بلكہ ذوالقرنين نے يوں سورج كے غروب ہونے كا منظرديكھا _

۴_ ايك وسيع سمندر كے ساحل پر ذوالقرنين كے سفر كا اختتام ہوا _وجد ها تغرب فى عين حمئة

يہ احتمال ہے كہ پانى ميں سورج كے غروب كا منظر ايك وسيع سمندر كى علامت ہو يعنى اسے آگے كچھ نہيں نظر آرہا تھا لہذا اس نے تصور كيا كہ سورج سمند ر ميں ايك ابلتے ہوئے چشمہ ميں غرق ہو رہا ہے اور آگے كوئي خشكى نہيں ہے _

۵_ مغرب كى طرف ذوالقرنين كے سفر كى حد سياہ سمندر تك تھى _حتّى إذا بلغ مغرب الشمس وجدها تغرب فى عين حمئة ابن عاشور كى مانند بعض مورّخين، ذوالقرنين كا مقام حكومت چين سمجھتے ہيں اس صورت ميں اسكا مغرب كى طرف سفر سياہ سمندر تك بڑھا كہ اس نے وہاں سورج كے غروب ہونے كا منظر اسكا سياہ مٹى سے آلودہ چشمہ ميں غرق ہونے كى صورت ميں ديكھا _

۶_ ذوالقرنين نے اپنى سرزمين كے مغرب كى طرف آخرى منزل پر ايك خاص وضع وقطع اور قوم والے لوگوں كو پايا _

وجدها تغرب فى عين حمئة وجد عندها قوم

۷_ ذوالقرنين كى سرزمين كے مغرب ميں ساحل پر رہنے والے لوگ ،كا فر اور ظالم تھے _قلنا ياذالقرنين إما أن تعذّب

''تعذّب'' كى تعبير بتاتى ہے كہ وہ سزا كے مستحق تھے اسكى دليل بعد والى آيات كے قرينہ سے انكا ظلم اور كفر تھا_

۸_ ذوالقرنين كو الله تعالى كى طرف سے مغربى ساحل پر رہنے والوں كو سزا يا معافى كى صورت ميں اختيارملا_

قلنا ياذإلقرنين إما أن تعذّب و إما أن تتخذ فيهم حسنا

۹_ ذوالقرنين كى سرزمين كے مغربى مناطق ميں ساحل پر رہنے والے لوگ، ذوالقرنين كے لشكر كامقابلہ كرنے سے عاجز تھے اور اسكے عزم وارادے كے آگے كچھ نہيں كر سكتے تھے _وجد عند ها قوماً قلنا ياذالقرنين إمَّا أن تعذّب

۱۰_ ذوالقرنين كے كام، الله تعالى كى راہنمائي كے تحت انجام پاتے تھے _قلنا ياذالقرنين اما ان تعذب و اما ان تتخذ

۱۱_ ذوالقرنين انبياء ميں سے تھے اورالہى كلام دريافت كرنے كے مقام پرفائز تھے _قلنا ياذالقرنين

ظاہراً كلمہ '' قلنا'' بغير واسطہ كے خطاب ہے اگرچہ يہاں الہام يا كسى اورپيغمبر كے ذريعہ پيغام الہى پہنچانے كا احتمال بھى موجود ہے _

۵۳۰

۱۲_ ذوالقرنين كى سرزمين كے مغرب كى طرف تمدن كا وجود _وجدعندها قوماً إمّا أن تعذب

بعد والى آيات ميں ساحل نشينوں كيلئے ظلم ، ايمان ، عمل صالح اور سزا جيسے كلمات آئے ميں يہ متمدن معاشروں كى خصوصيات ميں سے ہيں

۱۳_ ذوالقرنين لوگوں كے معاشرتى نظام كو منظم كرنے ميں الہى اختيارات ركھتے تھے_

قلنا ياذالقرنين إما أن تعذب وإما أن تتخد فيهم حسن

۱۴_ منتظمين اور قائدين كوانكى ذمہ داريوں كى حدود ميں بعض اختيارات دينا ضرورى ہيں _

قلنا ياذالقرنين إما أن تعذب وإما أن تتخذفيهم حسن

الله تعالى نے مغربى اقوام كے ساتھ بر تاو ميں ذوالقرنين كو اپنے ارادے ميں اختيار ديا دوسروں كوچاہيے وہ بھى اسى روش كو اپنا ئيں _

۱۵_زمين پر سيروسياحت اور مجرم قوموں كو سزا دينا ، ايك اچھى بات ہے _حتى إذا بلغ ...إمّا أن تعذّب

ذوالقرنين پر الہى عطا ہونے كے بعد انكے سفر كے حالات سے مطلع كرنا، اسكے كاموں كے شائستہ ہونے پر دلالت كررہا ہے _

۱۶_ كفا ر كا سامنا كرنے كے بعد ان سے اچھے سلوك كا انتخاب، سختى اور غصہ سے بہتر ہے _وإمّا أن تتخذفيهم حسنا

جملہ''تتخذفيهم حسناً'' سزا كے مقابل روش كو بيان كررہاہے ذوالقرنين كو ان دو روش ميں ايك كو منتخب كرنے پر اختيار تھا _اچھا سلوك :اچھے سلوك كى اہميت ۱۶

الله تعالى :الله تعالى كى ذوالقرنين سے گفتگو ۱۱، الله تعالى كى ہدايتيں ۱۰

انتظام :انتظام كى روش۱۴

تمدن :تاريخ تمدن۱۲

چشمہ :مٹى سے آلودہ چشمہ ۲،۳

ذوالقرنين:ذوالقرنين اور امر معاشرتى نظام كا انتظام; ذوالقرنين كا قصہ ۱،۲،۴،۵ ،۶، ۸، ۹ ; ذوالقرنين كا مغرب كى طرف سفر ۲،۳; ذوالقرنين كو وحي۱۱; ذوالقرنين كو ہدايت ۱۰; ذوالقرنين كى قدرت ۹;ذوالقرنين كى مغرب كے لوگوں سے ملاقات ۶;ذوالقرنين كى نبوت ۱۱;ذوالقرنين كے اختيارات ۸; ذوالقرنين كے اختيارات كى

۵۳۱

اساس ۱۳;ذوالقرنين كے پہلے سفر كى حدود ۴،۵; ذوالقرنين كے عمل كى بنياد ۱۰;ذوالقرنين كو وحى ذوالقرنين كے فضائل ۱۳;ذوالقرنين كے قصہ ميں چشمہ كا رنگ ۲; ذوالقرنين كے مقامات ۱۱; ذوالقرنين كے وسائل ۱;سمندر كے كنارے ذوالقرنين ۴; سياہ سمندر كے كنارے ذوالقرنين ۱۳

سختى :سختى كى مذمت۱۶

سرزمين:ذوالقرنين كى سرزمين مغرب كے لوگوں كا ظلم ۷; ذوالقرنين كى سرزمين مغرب كے لوگوں كا عجز۹; ذوالقرنين كى سرزمين مغرب كے لوگوں كا كفر۷; ذوالقرنين كى سرزمين مغرب كے لوگوں كى سزا۸;ذوالقرنين كى سرزمين مغرب كے لوگوں كى معافى ۸;ذوالقرنين كى سرزمين مغرب ميں تمدن ۱۲; ذوالقرنين كى سرزمين مغرب ميں لوگوں كى قومى حالت ۶

سفر:سفركى اہميت ۱۵

ظالمين :۷

عمل :پسنديدہ عمل ۱۵

قرآن :قرآنى تشبيہات ۳

كفا ر:۷، كفار سے اچھا سلوك ۱۶; كفار سے برتاو كى روش۱۶; كفار سے سختى ۱۶

گناہ كار لوگ:گناہ كار لوگوں كوسزادينے كى اہميت ۱۵

منتظم :منتظم كو اختياربخشنا۱۴

آیت ۸۷

( قَالَ أَمَّا مَن ظَلَمَ فَسَوْفَ نُعَذِّبُهُ ثُمَّ يُرَدُّ إِلَى رَبِّهِ فَيُعَذِّبُهُ عَذَاباً نُّكْراً )

ذوالقرنين نے كہا كہ جس نے ظلم كيا ہے اس پر بہرحال عذاب كروں گا يہاں تك كہ وہ اپنے رب كى بارگاہ ميں پلٹا يا جائے گا اور وہ اسے بدترين سزا دے گا (۸۷)

۱_ ذوالقرنين نے مغربى ساحل پر رہنے والوں كى سزا سے چشم پوشى كى اور صرف ان كو سزا كى دھمكى دى كہ جو اپنے ظلم پر باقى رہ جائيں _قال أمّا من ظلم فسوف نعذّبه

۵۳۲

۲_ ايمان اور عمل صالح سے دورى اختيار كرنا، ظلم ہے _قال ا مّا من ظلم

بعد والى آيت كے قرينہ كى مدد سے جس ميں عمل صالح اختيار كرنے والے مؤمنين كوظالمين كے مقابل قراردياگيا يہاں ظلم سے مراد بے ايمانى اور نيك كردار كا ترك كرناہے_

۳_دريائي ساحل پررہنے والى قوم، مكمل طورپر ذوالقرنين كے زير تسلط آچكى تھى _قال ا مَّا من ظلم فسوف نعذّبه

۴_ ذوالقرنين، دريا كے ساحل پر رہنے والے ظالموں كے ايمان لانے اور انكے ظلم اور فساد چھوڑ نے پر اميد ركھے ہوئے تھے لہذا انكو سزا دينے ميں جلدى نہيں كررہے تھے _قال ا مّا من ظلم فسوف نعذّبه

حرف ''سوف'' آيندہ كيلئے ہے _ اوربعد والى آيت ميں ''امن'' اور ''عمل'' شرطيہ فعل اس بات پرقرينہ ہيں كہ ذوالقرنين نے ظالموں كے ايمان لانے كے احتمال كى بناء پر انكى سزا دينے ميں جلدى نہيں كى ہے _

۵_ظالموں كو قيامت ميں سخت عذاب ميں جكڑا جائيگا _فيعذّبه عذاباً نكرا

۶_ذوالقرنين كى حكومت ظلم وكفركو ختم كرنے كيلئے تھي_قال ا مّا من ظلم فسوف نعذّبه

۷_ ذوالقرنين، معاد اور ظالموں كے آخرت ميں سخت عذاب پر عقيدہ ركھتے تھے_

قال ا مّا من ظلم فسوف نعذّبه ثم يرد ّ إلى ربّه فيعذبه عذاباًنكرا

۸_ذوالقرنين نے دريا كے ساحل پر رہنے والے ظالموں كو اپنى سخت سزا كى دھمكى كے ساتھ آخرت كے سخت عذاب سے بھى ڈرايا _قال ا مَّا من ظلم فسوف نعذّبه ثم يردّالى ربّه فيعذّبه

۹_ آخرت وہ زمانہ ہے كہ جب ظالموں كافروں اور غير صالح افراد كو الله تعالى كى بارگاہ ميں لوٹا يا جائيگااور انكے اعمال كا محاسبہ كيا جائيگا_ثم يردّالى ربّه فيعذبه

۱۰_ذوالقرنين، ظالموں كے اخروى عذا ب كو انكى دنيا كى سزا سے سخت اور بدترين سمجھتے تھے _قال ...ثم يردّالى ربّه فيعذّبه عذاباًنكر '' نكر '' سے مراد''منكر''ہے كہ جو صفت مشبہ اور جہنم كے عذاب كى صفت ہے يعنى آخرت كا عذاب بہت ناگوار اوراسكى شدت قابل تعريف نہيں ہے _

۱۱_ظالموں كى اخروى سزا، الہى ربوبيت كا ايك جلوہ ہے_يردّ إلى ربّه فيعذّبه عذاباًنكرا

۱۲_ ذوالقرنين كى حكومت ايك دينى اورالہى حكومت تھي_قال ...ثم يردّ إلى ربّه فيعذبه عذاباًنكرا

ذوالقرنين نے ظالموں كى اپنے ہاتھوں سزا كو الله

۵۳۳

تعالى كے اخروى عذاب كا ايك حصّہ جانا ہے لہذاذوالقرنين كى حكومت، الہى ميزان پر تشكيل پائي ہوئي تھى _

۱۳_ جہنم كا عذاب، بہت سخت اور بڑا عذاب ہے _ثم يردّ إلى ربه فيعذبه عذاباً نكرا

''عذاباً''، '' يعذبہ ''فعل كيلئے مفعول مطلق تاكيدى ہے كہ جو الہى عذاب كى شدت پر دلالت كر رہا ہے ''نكرا'' بھى ''عذاباً'' كى صفت ہے يہ عذاب كے برے ہونے پر تاكيدہے _

۱۴_عن أميرالمؤمنين(ع) ...''ا مّا من ظلم'' ولم يؤمن بربّه ''فسو ف نعذّبه'' فى الدنيا بعذاب الدنيا ''ثم يردّ إلى ربّه '' فى مرجعه ''فيعذبه عذاباًنكراً'' (۱) اميرالمؤمنين(ع) سے روايت نقل ہوئي ہے كہ آيت سے مقصود يہ ہے كہ وہ'' جس نے ظلم كيا'' وہ اپنے پروردگار پر ايمان نہيں لايا اسے'' جلدي'' دنيا ميں عذاب دنياميں مبتلاء كريں گے پھر اسے معاد ميں پروردگار كى طرف لوٹا ياجائيگا اوراللہ تعالى اسے سخت عذاب دے گا_

الله تعالى :الله تعالى كى ربوبيت كى علامتيں ۱۱//الله تعالى كى طرف لوٹنا :۹،۱۴/جہنم :جہنم كے عذاب كى شدت ۱۳

حكومت :دينى حكومت ۱۲//ذوالقرنين :ذوالقرنين اور ظالموں كو سزا ۱،۴; ذوالقرنين كا اميدوار ہونا ۴;ذوالقرنين كا ظلم سے مقابلہ كرنا۶; ذوالقرنين كا عقيدہ ۷;ذوالقرنين كاقصہ ۱،۳،۴;ذوالقرنين كا كفرسے مقابلہ كرنا ۶; ذوالقرنين كا نظام حكومتى ۱۲; ذوالقرنين كے دور كے ظالموں كو دھمكى ۱; ذوالقرنين كى حاكميت ۳;ذوالقرنين كى حكومت كى خصوصيا ت ۶; ذوالقرنين كى دھمكياں ۱،۸; ذوالقرنين كى رائے ۱۰; ذوالقرنين قدرت ۳/ذواذوالقرنين كا عقيدہ :۷

روايت :۱۴

سرزمين:ذوالقرنين كى سرزمين كے مغربى ظالموں كا ايمان ۴; ذوالقرنين كى سرزمين كے مغربى لوگ۳; ذوالقرنين كى سرزمين كے مغربى لوگوں كى بخشش۱

ظالمين:ظالموں كا اخروى عذاب ۵; ظالموں كا دنياوى عذاب ۱۰،۱۴;ظالموں كى اخروى پوچھ كچھہ ۹ ; ظالموں كى اخروى سزا۷،۱۱;قيامت ميں ظالمين ۹

سزا:سزادينے ميں صبر۴

ظلم:ظلم كے موارد۲

____________________

۱) تفسير عياشى ج۲ص۳۴۲ح۷۹نورالثقلين ج۳ ص ۲۹۸ح۲۱۵_

۵۳۴

عذاب:اہل عذاب ۵; اخروى عذاب كى دہمكى ۸ ; اخروى عذاب كى شدت ۱۰;اخروى عذاب كے درجات ۵; سخت عذاب ۸;عذاب كے درجات ۱۳

عقيدہ:معاد پر عقيدہ۷

عمل صالح:عمل صالح كا ترك كرنا۲

فاسدين :فاسدوں كى آخرت ميں پوچھ گچھہ ۹، قيامت ميں فاسدين۹

كفار :قيامت ميں كفار ۹;كفار كى اخروى پوچھ گچھ ۹

آیت ۸۸

( وَأَمَّا مَنْ آمَنَ وَعَمِلَ صَالِحاً فَلَهُ جَزَاء الْحُسْنَى وَسَنَقُولُ لَهُ مِنْ أَمْرِنَا يُسْراً )

اور جس نے ايان اور عمل صالح اختيار كيا ہے اس كے لئے بہترين جزا ہے اور ميں بھى اس سے اپنے امور ميں آسانى كے بارے ميں كہوں (۸۸)

۱_ ذوالقرنين نے نيك كردارمؤمنين كو بہترين جزادينے كا وعدہ ديا _وا مّا من ء امن وعمل صالحاًفله جزائً الحسنى

''جزا''حال ہے اور يہ بيان كررہى ہے كہ حسن سلوك (الحسنى )شخص كے ايمان اورعمل صالح كى جزاء ہے _

۲_ذوالقرنين كا ظالم كفار كو سزا دينے ميں جلدى نہ كرنا، در حقيقت ان كو ايمان كى طرف ميلان پيدا كرنے كيلئے ايك مہلت تھى _ا مَّا من ظلم فسوف نعذّ به ...وا مّا من ء امن وعمل صالحاًفله جزاء ً الحسنى

ْمن ء امن ...'' سے مراد (جو بہى ايمان لے آئے وہ)وہ لوگ تھے جو ظلم و كفر سے نكل كر ايمان لا چكے تھے نہ كہ وہ لوگ جو ذوالقرنين كے داخل ہوتے وقت مؤمن تھے_ كيونكہ يہ كوئي بات نہيں ہے كہ وہ مؤمنين كے ساتھ سزا يا اچھا سلوك كرنے ميں مختار ہو لہذا ظالموں كو عذاب دينے ميں ذوالقرنين كا وقفہ كرنا انكے اندر تبديلى پيد ہونے كيلئے ايك موقعہ تھا _

۳_ذو القرنين كى حكومت، ايمان اور عمل صالح كى ترويج كيلئےتھي_قال و أمّا من ء امن و عمل صالحاًفله جزإلحسنى

۴_بے ايمان اور عمل صالح سے محروم لوگ ، ذوالقرنين كى رائے ميں ظالم لوگ تھے _قال ا مَا من ء امن وعمل صالحاًفله جزإلحسنى دو گروہ ''من ظلم '' او ر''ء امن '' ميں مقابلہ بتارہا ہے كہ ايمان اور عمل صالح كو ترك كرنا، ظلم ہے_

۵۳۵

۵_ايمان اور عمل كاساتھ ساتھ ہونا، بہترين جزا ء كے حصول كے ليے شرط ہے _منء ا من و عمل صالحاًفله جزاًء الحسنى

۶_ذوالقرنين نے عزم كيا كہ ان قوانين اور معاشرتى قواعد كو وضع كرلےكہ جومؤمنين كيلئے آسان اور قابل تحمّل ہوں _وسنقول له من أمرنا يسر (يسر) يعنى آسانى اور (من امورنا) يعنى ان فرامين سے جو ہم صادر كرتے ہيں _ لہذاا (وسنقول .) كا مطلب يہ كہ صالح مؤمنين كے ليے ايسے احكام جارى كريں گے كہ جنكا نفاذ دشوار نہ ہوا ور انكا سننا مؤمنين كيلے سنگين نہ ہو_

۷_ذوالقرنين نے مؤمنين كے ليےاپنے فرامين اور حكومتى تقاضوں كے ابلاغ ميں نرمى او ر اچھے سلوك كى رعايت كا وعدہ كيا _وسنقول له من ا مرنا يسرا

۸_ظالموں كے ساتھ سختى اور نيك مؤمنين كے ساتھ نرمى سے پيش آنا، ذوالقرنين كے حكومتى نظام ميں بہترين اور منتحب روش تھي_ا مّا من ظلم فسوف نعذّبه ...وا مّا من ء امن و عمل صالحا

ذوالقرنين نے مغربى ساحل پر رہنے والوں كے حوالہ سے سزايا اچھا سلوك كرنے كے حوالے سے دو تجاوز پروحى الہى كے ذريعہ سننے كے بعددوسرى راہ كو اختيار كيا اس ميں يہ انداز اپنا يا كہ ظالموں كو سزا اور مؤمنين كو بہترين پاداش دى گئي_

۹_الہى حكومتوں پر ضرورى ہے كہ وہ ظالموں سے جنگ كريں اور مؤمنين كے معاشرتى قوانين سھل بنائيں _

قال ا مّا من ظلم فسوف نعذّبه و ا مّا من ء امن ...سنقول له من ا مرنا يسرنا

۱۰_ذوالقرنين مغربى كى سرزميں ساحل نشينوں كے ليے عمل صالح اور ظلم كو ترك كرنے كے ليے مناسب زمينہ فراہم تھا_ا مّا من ظلم ...وا مّا من ء امن و عمل صالحا

۱۱_ذوالقرنين كى كوششسے الہى دين اسكى سرزمين كے مغربى حصہ كى آخريحدّ تك پھيل گيا _و ا مّا من ء امن

۱۲_جزا دينے ميں جلدى اور سزا دينے ميں تا خير كرنا ضرورى ہونا _

من ظلم فسوف نعذّبه ...من ء امن ...فله جزائًً الحسنى

(فسوف نعذّبہ) كا حروف استقبال كے ساتھ ذكر ہونا جبكہ اسكے مقابل(فله جزائًً الحسني ) كا قطعى صورت ميں بغير حروف استقبال كے ذكر ہونا،مندرجہ بالا مطلب كى طرف اشارہ ہوسكتاہے_

۵۳۶

ايمان :ايمان اور عمل صالح ۵;ايمان كا پيش خيمہ ۲ ; ايمان كى طرف حوصلہ افزائي ۳;ايمان كے آثار ۵

جزا:جزا كا وعدہ ۱;جزا كى شرائط۵;جزا ميں جلدى ۱۲

حكومت:دينى حكومت كاظلم سے مقابلہ ۹;دينى حكومت كى ذمّہ دارى ۹

ذوالقرنين:ذوالقرنين كا صبر۲;ذوالقرنين كا قصہ ۲،۶، ۱۰; ذوالقرنين كا حكومتى نظام ۸; ذوالقرنين مؤمنين كيليےاہتمام كرنا ۶،۷ ; ذوالقرنين كى حكومت ميں صالحين ۸; ذوالقرنين كى حكومت ميں ظالم لوگ۸; ذوالقرنين كى حكومت ميں مؤمنين ۸; ذوالقرنين كى حكومت كى خصوصيّات ۳; ذوالقرنين كى رائے۴;ذوالقرنين كى قانون گزارى ۶;ذوالقرنين كى كوشش۱۱; ذوالقر نين كے احكام ۷;ذوالقرنين كے زمانہ ميں دين ۱۱; ذوالقرنين كے قوانين كا سہل ہونا ۶;ذوالقرنين كے وعدے۱،۷

سرزمين :ذوالقرنين كى سرزمين كے مغربى لوگ ۱۰; ذوالقرنين كى سرزمين كے مغربى لوگوں كا اختيار ۱۰;ذوالقرنين كى سرزمين كے مغربى لوگوں كا ايمان ۱۰;ذوالقرنين كى سرزمين كے مغربى لوگوں كا دين ۱۱;ذوالقرنين كى سرزمن كے مغربى لوگوں كا عمل صالح ۱۰

سزا :سزا ميں مہلت ۱۲

صالحين :صالحين كو جزا ۱;صالحين كو وعدہ ۱

ظالمين :ظالموں پر سختى كرنا ۸;ظالموں كو مہلت دينے كا فلسفہ ۲

ظلم :ظلم كے ساتھ مقابلہ كرنے كى اہميّت ۹; ظلم كے موارد ۴

عمل صالح :عمل صالح كا ترك كرنا ۴; عمل صالح كى طرف حوصلہ افزائي ۳;عمل صالح كے آثار ۵

كفّار:كفّار كو مہلت دينے كا فلسفہ ۲

مؤمنين:مؤمنين كى جزا ۱;مؤمنين كے ساتھ مدارت كے پيش آنا۷;مؤمنين كے ساتھ وعدہ۱

معاشرتى قوانين :معاشرتى قوانين ميں سہولت كى اہميّت ۹

۵۳۷

آیت ۸۹

( ثُمَّ أَتْبَعَ سَبَباً )

اس كے بعد انھوں نے دوسرے وسائل كا پيچھا كيا (۸۹)

۱_ذوالقرنين، مغربى ساحل ميں رہنے والوں كے در ميان عادلانہ دينى نظام قائم كرنے كے بعد اپنى سرزميں كے مشرق كى طرف روانہ ہوگئے_ثمّ ا تبع سبباً _ حتّى إذا بلغ مطلع الشمس

۲_ ذوالقرنين نے اپنے سفروں ميں حكومت اور الہى دين كو پھيلانے كے ليے اپنے ذرائع سے پورا فائدہ اٹھا يا _

ثمّ أتبع سببا

۳_زمين كے مختلف نقاط كى طرف سفر اور اپنى سرگرمى كو ايك خاص منطقہ ميں محدود نہ كرنا، قرآن كى نظر ميں ايك پسنديدہ اور قابل تعريف كام ہے _ثمّ ا تبع سببا

۴_عن اميرالمؤمنين (ع) ...''ثمّ ا تبع سبباً'' ذوالقرنين من الشمس سبباً (۱)

اميرالمؤمنين سے (اس كلام خدا كى وضاحت ) (ثمّ اتبع سبباً) نقل ہوا ہے كہ: ذوالقرنين نے سورج سے ايك سبب كے طور فائدہ اٹھايا

اقدار:۳/ذوالقرنين :ذوالقرنين كا دوسرا سفر۱;ذوالقرنين كا قصہ ۱،۲،۴; ذوالقرنين كى حكومت كى وسعت ۲;ذوالقرنين كے ذرائع ۲،۴;ذوالقرنين كے زمانہ ميں دينى حكومت ۱;مشرق ميں ذوالقرنين ۱;ذوالقرنين اور سورج۴

روايت :۴

سرزميں :ذوالقرنين كى مغربى سرزمين ميں حكومت ۱

سفر :سفر كى اہميّت ۳

عمل :پسنديدہ عمل ۳

____________________

۱) تفسير عياشى ج۲ص۳۴۲;ج۷۹;نورالثقلين ج۳ص۲۹۸ج۲۱۵_

۵۳۸

آیت ۹۰

( حَتَّى إِذَا بَلَغَ مَطْلِعَ الشَّمْسِ وَجَدَهَا تَطْلُعُ عَلَى قَوْمٍ لَّمْ نَجْعَل لَّهُم مِّن دُونِهَا سِتْراً )

يہاں تك كہ جب طلوع آفتاب كى منزل تك پہنچے تو ديكھا كہ وہ ايك ايسى قوم پر طلوع كر رہا جسے كے لئے ہم نے آفتاب كے سامنے كوئي پردہ بھى نہيں ركھا تھا (۹۰)

۱_ ذوالقرنين اپنے دوسرے سفر ميں مشرق كى طرف خشكى كے آخرى نقطہ تك پہنچا تو ...تمدن سے دور صحرائي نشين لوگوں كو پايا_بلغ مطلع الشمس ...لم نجعل لهم من دونها سترا

(دونها )كى ضمير (الشمس ) كى طرف لوٹتى ہے اور جملہ (لم نجعل ...) كامطلب يہ ہے كہ وہاں كے رہنے والے سوائے سورج كے كوئي اور سترپوشى نہيں ركھتے تھے بظاہر پوشاك، ستر نہيں ركھتے تھے يعنى نہ كوئي وہاں عمارت تھى جو انكے لے سايہ اور نہ كوئي انكے تن كو ڈھاپنے كے ليے لباس تھا اسى ليے انہيں صحرائي نشين قوم سے تعبير كيا گيا _

۲_ ذوالقرنين كى سرزمين كے مشرق ميں رہنے والے لوگ تن پر لباس او رپناہ گاہ سے محروم تھے _

وجدها تطلع على قوم لم نجعل لهم من دونها سترا

۳_ ذوالقرنين نے اپنى سرزمين كے مشرق كى طرف صحرا پر رہنے والى قوم كا سامنا كيا _لم نجعل لهم من دونها سترا

''لم نجعل ''كے كلمہ سے يہ احتمال پيدا ہونا: ہے كہ ان لوگوں كا سورج كى شعاعوں كے در مقابل بے پناہ ہونا طبيعى امور كى بناء پر تھا كہ جو جعل الہى سے مربوط تھا مثلاصحرا بنجر تھا كہ يہ امر طبيعى ہے _

۴_ ذوالقرنين كے زمانہ ميں اسكى سرزمين كے دورترين مشرقى علاقے ميں لباس اور عمارت سازى كى صنعت كى كوئي خبر نہ تھى _بلغ مطلع الشمس ...لم نجعل لهم من دونها سترا

۵_ ذوالقرنين كے زمانہ ميں اسكى مغربى سرزمين كے لوگ اسكى مشرقى سرزمين كے لوگوں كى نسبت زيادہ تمدن والے اور ترقى يافتہ تھے_بلغ مغرب الشمس ...وجد عنده

۵۳۹

قوماً ...تطلع على قوم لم نجعل لهم من دونها سترا

۶_معاشروں اور اقوام كے تمدن كے حصول ميں الہى ارادہ كا كردار ہے _لم نجعل لهم من دونها سترا

۷_عن اميرالمؤمنين(ع) ...ان ذإلقرنين وردعلى قوم قدا حر قتهم الشمس وغيرت أجسا دهم وا لوانهم حتّى صيّرتهم كالظلمة (۱)

اميرا لمؤمنين سے روايت ہوئي ہے كہ بلا شبہ ذوالقرنين ايسى قوم تك پہنچے جہاں سورج كى شعاعوں نے انكو جلا ديا تھا اور انكے بدن اور جلد كو تبديل كرديا تھا اسطرح كہ وہ سياہى ميں تاريكى كا ايك حصہ بن چكے تھے _

۸_عن أبى جعفر (ع) فى قول الله ''لم نجعل لهم من دونها ستراً''كذالك قال : لم يعلموا صنعة البيوت (۲)

امام باقر (ع) سے اس كلام الہى'' لم نجعل لهم من دونها ستراً كذلك'' كے بارے ميں روايت ہوئي ہے كہ وہ قوم گھر بنانے كى صنعت كو نہيں جانتے تھے_

الله تعالى :الله تعالى كے ارادہ كے آثار ۶

برہنگى :برہنگى كى تاريخ ۲

تمدن :تمدن كا سرچشمہ ۶' تمدن كى تاريخ ۵

ذوالقرنين :ذوالقرنين كا دوسرا سفر ۱;ذوالقرنين كا قصہ ۱،۲، ۳، ۷; ذوالقرنين كے زمانہ كا تمدن ۱،۵; ذوالقرنين كے زمانہ كا لباس ۴;ذوالقرنين كے زمانہ ميں سياہ فام لوگ۷;ذوالقرنين كے زمانہ ميں عمارت سازي۴،۸;مشرق ميں ذوالقرنين ۱،۷

روايت ;۷،۸

سرزمين :ذوالقرنين كى مشرقى سرزمين كے لوگوں كا بے گھر ہونا ۲; ذوالقرنين كى مشرقى سرزمين كے لوگوں كا تمدن ۵;ذوالقرنين كى مشرقى سرزمين كے لوگوں كا صحراء نشين ہونا ۱،۳; ذوالقرنين كى مغربى سرزمين كے لوگوں كاتمدن۵;ذوالقرنين كے زمانے ميں مشرقى سرزمين كے لوگوں كا برہنہ ہونا ۲

لباس:لباس كى تاريخ۴

____________________

۱)تقسير عباشى ج۲ص۳۴۲،ح ۹،نورالثقلين ج۳ ص۲۹۸،ح۲۱۵_

۲)تفسير عباشى ج۲'ص۳۵۰، ح۸۴، نورالثقلين ج ۳ ص۳۰۶ح۲۲۲_

۵۴۰

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750