تفسير راہنما جلد ۱۱

تفسير راہنما 7%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 750

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 750 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 218954 / ڈاؤنلوڈ: 3020
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱۱

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

تفسير راہنما جلد یازدہم

قرآنى موضوعات اور مفاہيم كے بارے ميں ايك جديد روش

مؤلف: آيت الله ہاشمى رفسنجاني اور

مركز فرہنگ و معارف قرآن كے محققين كى ايك جماعت

۳

۲۰-سورہ طہ

آیت ۱

( بسم اللّه الرحمن الرحیم )

( طه )

بنام خدائے رحمان و رحيم

طہ (۱)

۱ _'' عن جعفر بن محمد(ع) ...قال: و ا مّا ''طه'' قاسم من ا سماء النبي(ص) و معناه: ياطالب الحق الهادى اليه; امام صادق (ع) سے روايت ہے كہ آپ(ص) نے فرمايا: ''طہ'' پيغمبر(ص) كے ناموں ميں سے ايك نام ہے اور اس كا معنى ہے: اے طالب حق كہ جو حق كى طرف ہدايت كرنے والا ہے_(۱)

۲ _'' قال جعفر بن محمد الصادق (ع) : قوله عزّوجل: ''طه'' ا ى طهارة ا هل بيت محمد (صلوات الله عليهم) من الرّجس; امام صادق(ع) سے روايت ہے كہ كلام خدا ميں ''طہ'' اہل بيت پيغمبر (ص) كى رجس اور پليدى سے طہارت كى طرف اشارہ ہے_(۲)

۳ _'' عن جعفر بن محمّد (ع) قال: إذا ا تيت مشهد ا مير المؤمنين (ع) قل: السّلام عليك يا طه ; امام صادق(ع) سے روايت ہے كہ (آپ نے محمد بن مسلم كو فرمايا) جب بھى تم حضرت اميرالمؤمنين (ع) كى زيار ت كيلئے جائو تو يہ كہو''السلام عليك يا طه'' (۳)

اہل بيت (ع) :انكى طہارت ۲

حروف مقطعات :۱، ۲، ۳

روايت :۱، ۲، ۳

____________________

۱ ) معانى الاخبار ص ۲۲ ح ۱ نورالثقلين ج ۳ ص ۳۶۷ح۸_

۲ ) تاويل الآيات الظاہرة ص ۳۰۴_ تجارالانوار ج ۲۵ ص ۲۰۹ح ۲۲_

۳ ) بحار الانوار ج ۹۷ ص ۳۷۵ ح ۹_

۴

طہ:اس سے مراد ۱، ۲،۳

محمد(ص) :آپ(ص) كے نام ۱

آیت ۲

( مَا أَنزَلْنَا عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لِتَشْقَى )

ہم نے آپ پر قرآن اس لئے نہيں نازل كيا ہے كہ آپ اپنے كو زحمت ميں ڈال ديں (۲)

۱ _ خدا تعالى نے پيغمبر اكرم(ص) پر قرآن نازل فرمايا _ما ا نزلنا عليك القر ان لشتقى

۲ _ پيغمبر اكرم(ص) پر قرآن كانزول آپ(ص) كے لئے بھارى ذمہ دارى كے احساس كے ہمراہ تھا _ما أنزلنا عليك القر ان لتشقى آيت كريمہ كے شفقت بھرے لب و لہجے سے لگتا ہے كہ نزول قرآن سے پيغمبر اكرم(ص) نے بھارى ذمہ دارى كا احساس كيا اور اسے انجام دينے كيلئے آپ(ص) نے خود كو بہت رنج و الم ميں مبتلا كر ركھا تھا تا كہ ہر ممكن طريقے سے لوگوں كو ہدايت كر پائيں _

۳ _ اپنى رسالت كو انجام دينے كيلئے پيغمبر اكرم(ص) كى كوشش ،اور سنجيدگي، اورسنگين اورطاقت آزما تھى _

ما ا نزلنا عليك القر ان لتشقى ''شقاوت'' كا معنى ہے سختى اور دشوارى (قاموس) خدا تعالى كا پيغمبر اكرم(ص) كو سختى نہ جھيلنے اور اپنے آپ كو زحمت ميں نہ ڈالنے كى نصيحت آپ(ص) كى طرف سے لوگوں كى ہدايت كيلئے طاقت آزما كوشش كى علامت ہے _

۴ _ خدا تعالى نے پيغمبر اكرم(ص) كو قرآن كو ابلاغ كيلئے رنج و الم اور زحمت كا راستہ اختيار كرنے كا حكم نہيں ديا _

۵

ما أنزلنا عليك القر ان لتشقى

۵ _ خدا تعالى بعض لوگوں كے كفر اور ہٹ دھرمى كى وجہ سے انبياء كا مواخذہ نہيں كريگا _ما ا نزلنا عليك القر ان لتشقى

۶ _ دينى راہنماؤں كى يہ ذمہ د ارى نہيں ہے كہ وہ كفر پر ڈٹے ہوئے لوگوں كى ہدايت كيلئے اصرار كريں _

ما ا نزلنا عليك القر ان لتشقى

۷ _ دينى ذمہ داريوں كى انجام دہى ميں رنج و مشقت كو برداشت كرنا ضرورى نہيں ہے _ما ا نزلنا عليك القر ان لتشقى

''لتشقى '' كا اطلاق شرعى ذمہ داريوں كى انجام دہى ميں مشقت كو بھى شامل ہے اگر چہ آيت كريمہ كا مورد دوسروں تك معارف قرآن پہچانے ميں مشقت ہے_

انبياء:انكى ذمہ دارى كا دائرہ ۵

شرعى ذمہ داري:اس كا نظام ۷; سخت شرعى ذمہ دارى كى نفى ۷

خداتعالى :اسكے ا فعال ۱

دينى راہنما:انكى ذمہ دارى كا دائرہ ۶

قرآن كريم:اسكے نزول كے اثرات ۲; اس كا سرچشمہ ۱; اس كا وحى ہونا ۱

قواعد فقہيہ:قاعدہ نفى عسرو حرج ۷

كفر:اسكى سزا ۵

سزا :اس كا شخصى ہونا ۵

ہدايت:اس پر اصرار ۶

۶

آیت ۳

( إِلَّا تَذْكِرَةً لِّمَن يَخْشَى )

يہ تو ان لوگوں كى ياد دہانى كے لئے ہے جن كے دلوں ميں خوف خدا ہے (۳)

۱ _ پيغمبر اكرم (ص) پر قرآن مجيد نازل كرنے كے مقصد لوگوں كو خبردار كرنا،ان متوجہ كرنا اور انہيں نصيحت كرناہے_

ما ا نزلنا إلا تذكرة لمن يخشى

''إلا تذكرة'' ميں استثنا منقطع اور ''تذكرة'' مفعول لہ ہے يعنى'' لكن ا نزلنا ه لتذكرة'' ''تذكرة'' معنى راہنمائي'' سے وسيع تر ہے اور يہ ہر اس چيز كو شامل ہے جو مورد توجہ ہو (مفردات راغب) اور يہ ''وعظ'' كے معنى ميں بھى آتاہے (مصباح قاموس)

۲ _ پيغمبر اكرم(ص) كى ذمہ دارى قرآن مجيد كا ابلاغ اور لوگوں كو ياد دہانى كراناہے_ اور وہ اس كے نتيجہ كے ذمہدار نہيں ہيں _ما أنزلنا عليك إلا تذكرة لمن يخشى

۳ _ قرآن مجيد كى تعليمات، فقط ان لوگوں كے ليے مؤثر ہيں كہ جن كے دلوں ميں خداوند عالم كى عظمت نے خوف بٹھايا ہو_إلا تذكرةً لمن يخشى

''خشية'' ايسا خوف كہ جو عظمت كے احساس كے ساتھ مخلوط ہو ( مفردات غلط) اوريہ (يخشى ) كے متعلق ہے اور اس پر قرينہ بعد والى آيت ہے كہ جو قرآن كريم كو نازل كرنے و الى ذات الہى كو عظمت كو بيان كررہى ہے_

۴ _قرآن مجيد كى تعليم ، خوف الہى ركھنے والوں كے ليے آسان ہے اور وہ ہر قسم كے رنج و مشقت كو

۷

برداشت كرنے سے بے نياز ہے_ما ا نزلنا لتشقى إلا تذكرةً لمن يخشى

۵ _ قرآنى پيغامات سے بے اعتنائي كرنے والوں كا انجام خوف ناك اور ہولناك ہے_إلا تذكرةً لمن يخشى

خداوند عالم سے خوف اور خشيت سے مراد يہ ہے كہ قرآنى تذكرات كى مخالفت كى صورت ميں اس كى طرف سے سزا اور عذاب ملتاہے_

۶ _قرآنى تعليمات كى مخالفت كے انجام سے خوف زدہ ہونا ضرورى ہے_إلا تذكرة ً لمن يخشى

۷ _قرآنى پيغام، انسانى فطرت اور اس كو بيدار كرنے كے ساتھ سازگار ہے_إلا تذكرةً لمن يخشى

''تذكرة'' كا مطلب جيسا كہ ''لسان العرب'' ميں ذكر ہوا ہےبھولى ہوئي چيزوں كى ياد دہانى ہے قرآن مجيد كى ياد دہانى كرانے سے مراد يہ ہے كہ وہ انسانوں كو اس چيز كى ياد دہانى كراتاہے كے جو چيز اس كى فطرت ميں مضمر ہے اور وہ اس سے غافل ہے_

انسان:انسانوں كو متوجہ كرنے كى اہميت۱

تذكر:انسانوں كو تذكر دينے كى اہميت ۲

خوف:خوف كے اسباب ۶

خوف الہى ركھنے والے:اور قرآن ۴

خشيت:اس كے آثار ۳; اس كى اہميت ۶

فطرت:متنبہ كرنے كے عوامل ۷

قرآن:اس كى تبليغ كى اہميت ۲; اس كى تاثير كا زمينہ ۳ ; اس كى تعليم كى سہولت ۴; اس كے انجام سے احراز ۶; اس سے احراز كا برا انجام ۵; اس كى تعليمات كا فطرى ہونا ۷; اس كے نزول كا فلسفہ ۱; اس كى خصوصيات ۷

محمد(ص) :ان كى ذمہ دارى كا دائرہ كار ۲

موعظہ:اس كى اہميت ۱

۸

آیت ۴

( تَنزِيلاً مِّمَّنْ خَلَقَ الْأَرْضَ وَالسَّمَاوَاتِ الْعُلَى )

يہ اس خدا كى طرف سے نازل ہوا ہے جس نے زمين اور بلندترين آسمانوں كو پيدا كيا ہے (۴)

۱ _ قرآن ، خالق زمين و آسمان كى طرف سے بھيجا ہوا ايك پيغام ہے __تنزيلاً ممن خلق الا رض و السموات

'' تنزيلاً'' مصدر اسم مفعول كے معنى ميں اور ''القرآن'' سے حال ہے جو سابقہ آيات ميں تھا_

۲ _ خداتعالى ، بلند و بالا آسمانوں اور زمين كا خالق ہے _خلق الا رض و السموات العلى

''عُلى '' (علياء كى جمع ) اسم تفصيل ہے آسمانوں كى يہ صفت بيان كرنا كہ وہ زمين سے بلند تر ہيں اس مقام و مرتبے كى عظمت كے بيان كيلئے ہے كہ جہاں سے قرآن زمين پر نازل ہوا ہے_

۳ _ اس ذات كى طرف توجہ كرنا كہ جس كى طرف سے قرآن نازل ہوا ہے قرآن سے نصيحت حاصل كرنے اور اسكى نصيحت كو قبول كرنے كا پيش خيمہ ہے _تذكرة لمن يخشى تنزيلاً ممن خلق الا رض و السموات العلى

بعض اوقات علت كو بيان كرنے كيلئے حال سے استفادہ كيا جاتا ہے ''تنزيلا'' جو ''قرآن'' كيلئے حال ہے قرآن كے صاحب نصيحت ہونے كى علت كو بيان كر رہا ہے يعنى چونكہ قرآن، خداتعالى كى طرف سے نازل ہوا ہے لہذا يہ مكمل طورپر نصيحت كرنے كے لائق ہے _

۴ _ خداتعالى كا زمين اور بلند آسمانوں كى خلقت پر قادر ہونا اسكے انسان كو وعظ و نصيحت كرنے كيلئے ايك مناسب كتاب كے بھيجنے پر قدرت ركھنے كى علامت ہے_تذكرة ...ممن خلق الارض و السموات العلى

۵ _ آسمان :متعدد ہيں اور وہ بلندى اور عظمت كے حامل ہيں _و السموات العلى

۹

آسمان:انكا متعدد ہونا۵; ان كا خالق ۱، ۲، ۴; انكى بلندى ۵; انكى عظمت ۵

نصيحت حاصل كرنا:اس كا پيش خيمہ ۳; اسكے عوامل ۴

خدامجيد:اس كا خالق ہونا ۲، ۳; اسكى قدرت كى نشانياں ۴

ياد كرنا:نزول قرآن كے سرچشمے كو يادكرنا ۳

زمين:اس كا خالق ۱، ۲، ۴

عبرت :اس كا پيش خيمہ ۳

قرآن مجيد:اس كا نزول ۱، ۴; اس كا وحى ہونا ۱

آیت ۵

( الرَّحْمَنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى )

وہ رحمان عرش پر اختيار و اقتدار ركھنے والا ہے (۵)

۱ _ خداتعالى پورے عالم وجود كا مدبرہے _الرحمن على العرش استوى

''استوائ'' جب ''على '' كے ساتھ متعدى ہو تو اس كا معنى ہوتا ہے ''مستقر ہونا'' (مصباح) اور ''عرش'' يعنى ''تخت فرمانروائي'' (مقاييس اللغة) خداتعالى كا تخت فرمانروائي پر مستقر ہونا عالم كے نظام كى تدبير اور اسكے چلانے سے كنايہ ہے _

۲ _ عرش آسمانوں او رزمين كى تدبير، انكے كنٹرول كا مركز اور خداتعالى كے زيرتسلط ہے _

خلق الا رض و السموات العلى الرحمن على العرش استوى

۳ _ خداتعالى ،وسيع اور ہمہ گير رحمت والا ہے_الرحمن

''رحمان'' رحمت ميں مبالغہ پر دلالت كرتا ہے _

۴ _ نظام خلقت ميں رحمت الہى كى حكمرانى اور اس كا اصل ہونا _الرحمن على العرش استوى

خداتعالى كا يہ وصف بيان كرتے وقت كہ وہ كائنات كا حكمران ہے ''رحمان'' كے عنوان كا انتخاب اس نكتے كو بيان كر رہا ہے كہ امور كائنات كى تدبير رحمت الہى كى بنياد پر ہے_

۱۰

۵ _ نزول قرآن، خداتعالى كے رحمان ہونے اور اسكے عرش اور تدبير امور پر قادر ہونے كا ايك جلوہ ہے_تنزيلاً الرحمن على العرش استوى

اگر چہ جملہ '' الرحمان على ...'' گذشتہ آيت سے مستقل اور عليحدہ جملے كى صورت ميں ہے ليكن قرآن كے اوصاف بيان كرنے كے بعد كائنات پر خداتعالى كى حكمرانى كا بيان كرنا اور اسكى ''رحمان'' كے ساتھ صفت ذكر كرنا دلالت كرتا ہے كہ نزول قرآن ان صفات الہى كا جلوہ ہے _

۶ _''عن أبى عبداللّه (ع) :(فى قوله تعالى ) ''الرحمن على العرش استوى '' يقول: على الملك احتوي ; خداتعالى كے فرمان''الرحمن على العرش استوى '' كے بارے ميں امام صادق(ع) سے روايت ہے (اس سے) مراد يہ ہے كہ خداتعالى ملك پر احاطہ ركھتا ہے _(۱)

۷ _عن على (ع) قال: و ليس العرش كما تظنّ كهيئة السّرير، و لكنه شيء محدود مخلوق مدبر، و ربّك عزوجل مالكه، لا انّه عيله ككون الشيء على الشيء ; حضرت اميرالمؤمنين(ع) سے روايت ہے كہ آپ(ع) نے فرمايا عرش جيسے تو گمان كرتے ہے (بادشاہوں كے ) تخت جيسا نہيں ہے بلكہ يہ پيدا كيا ہوا اور ايسا محدود وجود ہے كہ جو (خداتعالى كى ) تدبير كے تحت ہے اور تيرا پروردگار اس كا مالك ہے نہ يہ كہ خداتعالى اسكے اوپر ہو جيسے چيزيں ايك دوسرے كے اوپر ہوتى ہيں _(۲)

۸ _'' عن محمد بن مارد: ا نّ ا باعبدالله (ع) سئل عن قول الله عزوجل: ''الرحمن على العرش استوى '' فقال: استوى من كل شيء فليس شيء ا قرب إليه من شيء ;محمد بن مارد سے منقول ہے كہ امام صادق (ع) سے خداتعالى كے فرمان'' الرحمن على العرش استوى '' كے بارے ميں سوال كيا گيا تو آپ(ع) نے فرمايا (آيت سے مراد يہ ہے كہ ) خداتعالى كى سب چيزوں كى طرف يكساں نسبت ہے پس كوئي چيز دوسرى چيز كى نسبت خداكے زيادہ قريب نہيں ہے_(۳)

____________________

۱ ) توحيد صدوق ص ۳۲۱ ب ۵۰ ح ۱_ نورالثقلين ج ۳ ص ۳۷۰ ح ۲۴_

۲ ) توحيد صدوق ص ۳۱۶ ب ۴۸ ج۳_ نورالثقلين ج ۳ ص ۳۶۹ ح ۱۷_

۳ ) كافى ج ۱ ص ۱۲۸ ح ۷_ نورالثقلين ج ۳ ص ۳۶۹ ح ۱۸_

۱۱

۹ _'' عن ا بى الحسن موسى (ع) و سئل عن معنى قول الله '' الرحمن على العرش استوى '' فقال: استولى على ما دقّ و جلّ; امام موسى كاظم (ع) سے روايت ہے كہ آپ (ع) نے خداتعالى كے فرمان''الرحمن على العرش استوى '' كے معنى كے بارے ميں سوال كے جواب ميں فرمايا:خداتعالى چھوٹے بڑے سب موجودات پر تسلط ركھتا ہے_(۱)

آسمان :آسمانوں كى تدبير كا مركز: ۲

عالم خلقت:اس كا مدبر ۱

اسما و صفات :رحمان:۰ ۳

خداتعالى :اس كا احاطہ ۶; اس كا عرش پراستوا ۶، ۷، ۸، ۹; اسكى تدبير ۱; اسكى رحمت كا مقدم ہونا ۴; اسكى حاكميت ۴، ۹; اسكى تدبير كى نشانياں ۵; اسكے رحمان ہونے كى نشانياں ۵; اسكى رحمت كا وسيع ہونا ۳

روايت : ۶، ۷، ۸، ۹

زمين:اسكى تدبير كا مركز ۲

عرش:اسكى حقيقت ۷، اس كا كردار ۲

قرآن :اسكے نزول كے اثرات ۵

____________________

۱ ) محاسن برقى ج ۱ ص ۲۳۸ ح ۱۲_ نور الثقلين ج ۳ ص ۳۷۱ ح ۲۷_

۱۲

آیت ۶

( لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا وَمَا تَحْتَ الثَّرَى )

اس كے لئے وہ سب كچھ ہے جو آسمانوں ميں ہے يا زمين ميں ہے يا دونوں كے درميان ہے اور زمينوں كى تہ ميں ہے (۶)

۱ _ خداتعالى آسمانوں اور زمين كا تنہا مالك ہے _له ما فى السموات و ما فى الا رض

''لا''كا مقد م ہوناحصر پر دلالت كرتا ہے _

۲ _ آسمانوں اور زمين كے درميان موجودات كا وجود _و ما بينهم

۳ _ زمين اور آسمانوں كے درميان موجود سب چيزوں كا مالك صرف خداتعالى ہے _له ...ما بينهم

۴ _ جہان خلقت ميں متعدد آسمان ہيں _له ما فى السموات

۵ _ جو كچھ كائنات كى نمناك خاك كے نيچے ہے خداتعالى كى ملكيت ہے _له ...و ما تحت الثرى

''ثرى '' نمناك مٹى كے معنى ميں ہے (مصباح) اور ''الثرى '' كا ''ال'' ظاہراً جنس كا معنى دے رہا ہے_ لذا ہر نمناك خاك كو شامل ہوجائيگا چاہے زمين ميں ہو يا كسى دوسرے كرہ ميں بلكہ چونكہ آيت ميں ''ما فى الا رض'' مذكور ہے اسلئے احتمال ہے كہ''ما تحت الثرى '' غير زمين سے مربوط ہو _

۶ _ خاك كى رطوبت اسكے نيچے قيمتى چيزوں اور منابع كے وجود كى علامت ہے _*له و ما تحت الثرى

۱۳

با وجوداس كہ جو كچھ خشك مٹى كے نيچے ہے وہ بھى خداتعالى كى ملكيت ہے خاك كے لئے نمناك ہونے كا وصف اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ تر خاك كے نيچے جو چيزيں موجود ہيں وہ خشك مٹى كے نيچے كى چيزوں كى نسبت زيادہ اہم ہيں _

۷ _ پورا عالم ہستى اور سب موجودات چاہے آشكار ہوں يا پنہاں خدائے يكتا كى ملكيت ہيں _

له ما فى السموات و ما فى الا رض و ما تحت الثرى

''آسمانوں ، زمين اورجو كچھ ان كے درميان ہے'' كى تعبير پورى كائنات سے كنايہ ہے _

۸ _ پورى كائنات كى ملكيت كا خداتعالى كے ساتھ منحصر ہونا اسكے كائنات پر محيط ہونے اور اس كا مدبرہونے كى دليل ہے _على العرش استوى له ما فى السموات و ما تحت الثرى

يہ آيت كريمہ سابقہ آيت كى علت بيان كررہى ہے اسى لئے اسكے ارتباط كيلئے حرف عطف سے استفادہ نہيں كيا گيا _

۹ _ اس بات كى طرف توجہ كہ قرآن اس خالق كى طرف سے نازل ہوا ہے جو پورى كائنات كا مدبر و مالك ہے قرآن كى نصيحت كو قبول كرنے كيلئے انسان كى حوصلہ افزائي كا سبب ہے _تذكرة ممن خلق الا رض استوى _ له ما فى السموات و ما تحت الثرى

آسمان :انكا متعدد ہونا۴; انكے موجودات ۱

جہان خلقت:اس كا مالك ۷

خاك:اسكى رطوبت كے اثرات ۶; تر خاك ۵

خداتعالى :اسكى خصوصيات ۳، ۸; اسكى حاكميت ۵; اسكے محيط ہونے كے دلائل ۸; اسكى تدبير كے دلائل ۸; اسكى مالكيت ۱، ۵، ۷، ۸

يادكرنا:قرآن كے وحى ہونے كو ياد كرنے كے اثرات ۹

حوصلہ:حوصلہ افزائي كے عوامل ۹

عبرت:اسكے عوامل ۹

فضا:اسكے موجوات ۲، ۳

قرآن مجيد:اس سے عبرت حاصل كرنا ۹

موجودات:انكا مالك : ۱، ۳، ۵، ۷

۱۴

آیت ۷

( وَإِن تَجْهَرْ بِالْقَوْلِ فَإِنَّهُ يَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفَى )

اگر تم بلند آواز سے بھى بات كرو تو وہ راز سے بھى مخفى تر باتوں كو جاننے والا ہے (۷)

۱ _ جو انسان كہتا ہے اور اظہار كرتا ہے خداتعالى اس سے آگاہ ہے _و إن تجهر بالقول فإنّه يعلم السرّ

جملہ'' فإنّه يعلم ...'' '' إن تجهر'' كے جواب كا قائم مقام ہے اور آيت كريمہ كا معنى يہ ہے كہ اگر ظاہربات كريں ( تو خدا جانتا ہے) كيونكہ وہ راز اور اس سے بھى زيادہ مخفى شے كو بھى جانتا ہے ايسے موارد ميں علت كا بيان كرنا جواب شرط كى تصريح سے بے نياز كرديتا ہے _

۲ _ لوگوں كے وہ اسرار اور راز جنہيں وہ ظاہر نہيں كرتے اور انكى نيتيں خداتعالى كيلئے آشكار ہيں اور وہ ان سے مكمل طور پر آگاہ ہے _فإنّه يعلم السرّ ''سرّ'' يعنى وہ جو دوسروں سے چھپايا جاتا ہے (لسان العرب)

۳ _ انسان ايسے ضميركا حامل ہے جو اپنے آپ سے آگاہ نہيں ہے اور ايسى معلومات ركھتا ہے كہ جنہيں غفلت نے ڈھانپ ركھا ہے _فإنه يعلم السرّ و أخفى ''أخفى '' اسم تفصيل ہے اور از سے بھى زيادہ مخفى وہ چيز ہے كہ جسے انسان نے نہ صرف دوسروں سے مخفى ركھا ہوا ہے بلكہ خود بھى اسكى طرف متوجہ نہيں ہے ليكن يہ اسكے ذہن ميں نقش ہے_

۴ _ خداتعالى انسان كے بھولے ہوئے رازوں اور اسكے مخفى ترين اسرار سے آگاہ ہے_فإنّه يعلم ...أخفى

۵ _ خداتعالى علم مطلق ركھتا ہے اور غيب و ظاہر سے آگاہ ہے _فإنه يعلم السرّ و أخفى

۶ _ قرآن ا ور اسكى نصيحتوں كا سرچشمہ خداتعالى كا مطلق

۱۵

علم ہے _تذكرة فإنّه يعلم السرّ و أخفى

۷ _ خداتعالى كا انسان كے مخفى و آشكار سے آگاہ ہونا اسكى پورى كائنات اور اسكے اجزا پر مطلق حكمرانى اور ملكيت كا ايك جلوہ ہے_على العرش استوى _ له ما فى السموات فإنّه يعلم السرّ و أخفى

اس آيت كريمہ كا سابقہ آيات كے ساتھ ارتباط اس چيز كو بيان كر رہا ہے كہ چونكہ خداتعالى پورے عالم وجود پر حكمرانى كرتا ہے اور كائنات كا حقيقى مالك ہے پس وہ ہر چيز سے مطلع ہے اگر چہ وہ راز يا اس سے بھى زيادہ مخفى ہو _

۸ _ انسان تين درجے كے معلومات كا حامل ہے اظہار شدہ، راز، راز سے زيادہ مخفى _فإن تجهر بالقول فإنّه يعلم السرّو أخفى

۹ _ خداتعالى كے مخفى ترين افكار و گفتار سے آگاہ ہونے كى طرف توجہ ،انسان كو ناروا بات كرنے سے روكتى ہے_ *

و إن تجهر بالقول فإنّه يعلم السرّ و ا خفى جملہ ''فإنّہ ...'' كسى قسم كى فكر اور بات كے خدا تعالى سے پوشيدہ نہ ہونے كى دھمكى ہے اور اس دھمكى كو''إن تجهر بالقول'' پر متفرع كرنا اس چيز كا بيان ہے كہ ''القول'' سے مراد ايسى بات ہے كہ جسے نہ صرف زبان پر لانا ناروا ہے بلكہ ضرورى ہے كہ فكر بھى اسكے محتوا سے پاك ہو _

۱۰ _'' محمد بن مسلم قال: سا لت ا باعبدالله (ع) عن قول الله عزوجل: '' يعلم السرّ و ا خفى '' قال: ''السرّ'' ما كتمته فى نفسك، و ''ا خفي'' ما خطر ببالك ثم ا نسيته; محمد بن مسلم كہتے ہيں : ميں نے امام صادق (ع) سے خداتعالى كے فرمان ''يعلم السرّ و ا خفى '' كے متعلق سوال كيا تو آپ (ع) نے فرمايا : ''سر'' وہ ہے كہ جسے تو نے اپنے اندر پنہان كيا ہو اور '' ا خفى '' وہ ہے جو تيرے دل ميں خطور كرے اور پھر تيرے دل سے محو ہوجائے(۱) _

جہان خلقت :اس كا حاكم ۷

انسان:اسكے مختلف پہلو ۳; اسكے راز ۲، ۴، ۱۰; اسكى سخن ۱; اس كا ناخودآگاہ ضمير اسكے معلومات كے درجے ۳

خداتعالى :اسكے علم كے اثرات ۶; اس كا علم غيب ۱، ۲، ۴، ۵، ۷; اسكى حاكميت كى نشانياں ۷; اسكى مالكيت كى نشانياں ۷

ياد كرنا:خدا كے علم غيب كو ياد كرنے كے اثرات ۹

روايت :۱۰

____________________

۱ ) معانى الاخبار ص ۱۴۳ ح ۱_ نورالثقلين ج ۳۰ ص ۳۷۳ ح ۳۷_

۱۶

سخن:ناپسنديدہ سخن كے موانع ۹

غفلت :اسكے اثرات ۳

قرآن مجيد:اس كا سرچشمہ ۶

آیت ۸

( اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ لَهُ الْأَسْمَاء الْحُسْنَى )

وہ اللہ ہے جس كے علاوہ كوئي خدا نہيں ہے اس كے لئے بہترين نام ہيں (۸)

۱ _ خدا تعالى كے علاوہ كوئي معبود لائق عبادت نہيں ہے _الله لا إله إلا هو

۲ _ جو ذات عالم وجود كى خالق اور مدبر و مالك نہ ہو اور اسكى سب چيزوں كو نہ جانتى ہو وہ لائق عبادت نہيں ہے _

الله لا إله إلا هو

مندرجہ بالا نكتہ اس آيت كے سابقہ آيات كے ساتھ ارتباط سے حاصل ہوتا ہے كہ جن ميں خالقيت، فرمانروائي ، كائنات كى مالكيت اور علم مطلق كو خداتعالى كے ساتھ منحصر كيا گيا ہے _

۳ _ بہترين نام اور اوصاف خدائے يكتا و جميل كيلئے ہيں _له الا سماء الحسنى

''الا سمائ'' جمع معرف با لام ہے جو مفيد عموم ہے اور '' الحسنى '' اسم تفصيل ہے اور آيت كريمہ كا مطلب يہ ہے كہ سب بہتر اور خوبصورت نام خداتعالى سے مختص ہيں _ ناموں كى حسن و خوبى كے ساتھ توصيف اس چيز كو بيان كر رہى ہے كہ مقصود وہ نام ہيں جنہيں صرفى اصطلاح ميں صفت كہا جاتا ہے جسے رازق، شكور، رحيم كيونكہ جس نام كا وصف والا معنى نہيں ہوتا وہ صرف ذات پر دلالت كرتا ہے اور اسكے بارے ميں خوبصورتى اور بدصورتى معنى نہيں ركھتي_

۴ _ خداتعالى سب كمالات كا حامل اور ہر نقص و عيب سے منزہ ہے _

۱۷

له الا سماء الحسنى جو نام نقص و عيب كو بيان كررہا ہو وہ ''اسماء حسنى '' كا مصداق نہيں ہے اور خداتعالى پر صدق نہيں كرتا لذا وہ ہر عيب سے پاك ہے_

۵ _ خداتعالى كے علاوہ ہر چيز نقص و عيب ركھتى ہے اور كمال مطلق سے عارى ہے _له الا سماء الحسنى

''لہ '' كا مقدم كرنا حصر پر دلالت كرتا ہے يعنى جو تمام اسماء حسنى ركھتا ہے وہ صرف خداتعالى ہے_

۶ _ صرف وہ معبود لائق عبادت ہے جو بہترين اوصاف كمال ركھتا ہو_الله لا إله إلا هو له الا سماء الحسنى

اسماء و صفات:اسمائ حسنى ۳; صفات جلال۴; صفات جمال ۴

توحيد:توحيد عبادى ۱

نظريہ كائنات:توحيدى نظريہ كائنات۱

خداتعالى :اسكى تنزيہ ۴; اس كا كمال ۴

صفات:بہترين صفات ۳

حقيقى معبود:اسكى تدبير۲; اس كا خالق ہونا۲; اسكى شرائط ۲، ۶; اس كا علم۲; اس كا كمال ۶; اس كا مالك ہونا۲

نام:بہترين نام ۳

نقص:غير خدا ميں نقص ۵

آیت ۹

( وَهَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ مُوسَى )

كيا تمھارے پاس موسى كى داستان آئي ہے (۹)

۱ _ حضرت موسى كى داستان ايك اہم باب ہے اوروہ پيغمبر اكرم(ص) كيلئے قابل فكر و پيروى ہے_

۱۸

و هل ا تى ك حديث موسى

۲ _ حضرت موسى (ع) كى زندگى كى تاريخ اور واقعات، دينى راہنماؤں اور مبلغين كيلئے سبق آموز، قابل توجہ اور قابل غور و فكر ہيں _و هل ا تى ك حديث موسى

۳ _ مخاطب كو گفتار ميں دقت كرنے پر آمادہ كرنا اور اسے گفتگوسننے كى تشويق دلانا اطلاع پہچانے كى ايك اچھى روش ہے_

هل ا تى ك حديث موسى

''ہل ا تاك ...'' كا استفہام مجازى اور توجہ سے سننے كى تشويق دلانے كيلئے ہے _

تبليغ:اسكى روش ۳

تفكر:حضرت موسى (ع) كے قصے ميں تفكر ۱

يادكرنا:حضرت موسى (ع) كے قصے كو ياد كرنا ۲

دينى راہنما:انكى عبرت ۲

عبرت:اسكے عوامل ۲

مبلغين:انكى عبرت ۲

موسى (ع) :انكے قصے كى اہميت ۱; انكے قصے سے عبرت حاصل كرنا ۲

آیت ۱۰

( إِذْ رَأَى نَاراً فَقَالَ لِأَهْلِهِ امْكُثُوا إِنِّي آنَسْتُ نَاراً لَّعَلِّي آتِيكُم مِّنْهَا بِقَبَسٍ أَوْ أَجِدُ عَلَى النَّارِ هُدًى )

جب انھوں نے آگ كو ديكھا اور اپنے اہل سے كہا كہ تم اسى مقام پر ٹھہرو ميں نے آگ كو ديكھا ہے شايد ميں اس ميں سے كوئي انگارہ لے آؤں يا اس منزل پر كوئي رہنمائي حاصل كرلوں (۱۰)

۱ _ حضرت موسى (ع) اور انكى فيملى رات كے وقت بيابان ميں چلتے ہوئے سرگردان ہوگئے اور راستہ گم كر بيٹھے _

إذ رء ا ناراً بقبس ا و ا جد على النّار هدى ًجمله''أجد على النّارهديً'' دلالت كر رہا ہے كہ حضرت موسى (ع) اور انكے ہمراہى راستہ گم كر بيٹھے تھے اور آگ كے نہ ہونے سے پتا چلتا ہے كہ يہ لوگ بيابان ميں سرگردان تھے_ اور نسبتاً دور سے آگ كو ديكھنا اور آگ كے وجود كے احتمال كے با وجود مل كر اسكى طرف حركت كا ارادہ نہ كرنا اس سے رات ہونے اور علاقہ كے تاريك ہونے كا پتا چلتا ہے_

۱۹

۲ _ حضرت موسى (ع) اپنے سفر ميں اپنى بيوى كے علاوہ اپنے گھركے ديگر افراد كو بھى اپنے ہمراہ ركھتے تھے_

فقال لا هله امكثو فعل ''امكثوا' ' كہ جو جمع كى صورت ميں ہے مندرجہ بالا نكتہ پر دلالت كرتا ہے _

۳ _ حضرت موسى (ع) نے بيابان ميں سرگردانى كے دوران آگ ديكھى اور اپنى فيملى كو اسكى بشارت دى _

إذ رء اناراً فقال إنى ء انست نار ا

(ء انست كا مصدر) ''ايناس'' احساس كرنے، ديكھنے، جاننے اور سننے كے معنوں ميں استعمال ہوتا ہے( لسان العرب) مورد آيت كى مناسبت سے يہاں ديكھنا مراد ہے_

۴ _ حضرت موسى (ع) كے خاندان اور انكے ہمراہيوں نے اس آگ كو نہيں ديكھا جس كا حضرت موسى (ع) نے مشاہدہ كيا تھا _*فقال لا هله امكثو إنى ء انست نارا

حضرت موسى (ع) كا يہ كہنا كہ ''ميں نے آگ ديكھى ہے '' اس سے يہ احتمال دياجاسكتا ہے كہ آپ كے ہمراہ ديگر افراد نے وہ آگ نہيں ديكھى تھى ورنہ حضرت موسى (ع) ديكھنے كو اپنے ساتھ مختص نہ كرتے _

۵ _ حضرت موسى (ع) نے آگ جلا كرنے يا كوئي راہنما تلاش كرنے كى خاطر آگ لانے كيلئے آگ كى جگہ تك جانے كا عزم كيا_لعلى ء اتيكم منها بقبس ا و ا جد على النّار هديً

''قبس'' يعنى انگارہ اور وہ آگ لگى لكڑى كہ جسے دوسرى آگ جلا كرنے كيلئے آگ سے نكالا جائے (لسان العرب)''ہديً''مصدر ليكن اسم فاعل ''ہادي'' كے معنى ميں ہے اور حرف ''ا و'' دو ميں سے ايك كام كو معين كرنے كيلئے ہے يعنى حضرت موسى كا خيال يہ تھا كہ اگر كوئي راہنما مل گيا تو سفر جارى ركھيں گے ورنہ آگ لاكر آگ سينكيں گے_

۶ _ حضرت موسى (ع) نے اپنے گھروالوں سے كہا كہ وہ وہيں انتظار كريں اور آگ كى جگہ تك ان كے ہمراہ نہ آئيں _

فقال لا هله امكثوا إنى ء انست نارا ''مكث'' كا معنى ہے انتظار كرنا (قاموس) _

۷ _ بيوى بچوں كى خدمت اور انكى ضروريات پورى كرنے كيلئے كوشش كرنا ايك پسنديدہ كام ہے _

۲۰

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

۱۰ _ صرف راہ اعتدال پر چلنے والے اور حقيقت كو پالينے والے عذاب سے نجات حاصل كريں گے_

و لو أنّا أهلكنا هم بعذاب فستعلمون من أصحب الصراط السوى و من اهتدى

۱۱ _ اسلام، اعتدال كا راستہ ہے اور مسلمان اس راستے پر چلنے والے اور ہدايت يافتہ ہيں _فستعلمون من أصحب الصراط السوى و من اهتدى ''سوي''بروزن ''فعيل''اسم فاعل كے معنى ميں ہے يعنى مستوى اور معتدل (لسان العرب)

۱۲ _ صدر اسلام كے كفار، راہ اعتدال پر چلنے اور ہدايت يافتہ ہونے كے مدعى تھے _فستعلمون من أصحاب الصراط السوى و من اهتدى

آيات الہي:انكى تكذيب كے اثرات ۱; انہيں جھٹلانے والوں كى ہلاكت ۸

دعوى :ہدايت كا دعوى ۱۲

اسلام:اس كا اعتدال ۱۱; اسكى شكست كى توقع ۸; صدر اسلام كى تاريخ ۷; اسكى حقانيت كا ظہور ۹

انبيائ(ع) :انہيں جھٹلانے والوں كى ہلاكت ۸

ڈرانا:عذاب سے ڈرانا ۲/تاريخ:اس كا مطالعہ ۵; اس كا كردار ۵، ۶

حقائق:ان كے كشف كے عوامل ۵

خداتعالى :اسكے عذاب كا مذاق اڑانا ۴، اسكے وعدے كا عملى ہونا ۹

دين:اسكى حقانيت كے ظہور كا پيش خيمہ ۶

عدالت خواہ لوگ:انكى نجات ۱۰/عذاب:اہل عذاب۱; اس سے نجات ۱۰

كفار:صدر اسلام كے كفار كے دعوے ۱۲; صدر اسلام كے كفار كا مذاق اڑانا ۴; صدر اسلام كے كفار كى توقعات ۷; انہيں ڈرانا ۲; صدر اسلام كے كفار كا ہدايت كو قبول نہ كرنا ۳

كفار مكہ:ان پر اتمام حجت كرنا۱; انكا عذاب۱; انكى ہلاكت ۱

آنحضرت(ص) :آپ(ص) كا ڈرانا ۲; آپ(ص) كى رسالت ۲; آپ(ص) كى مايوسي۳

مسلمان:ان كى ہدايت ۱۱

ہدايت يافتہ لوگ:۱۱/انكى نجات ۱۰

۲۸۱

۲۱-سورہ انبياء

آيت نمبر ۱

( بسم الله الرحمن الرحيم )

( اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ وَهُمْ فِي غَفْلَةٍ مَّعْرِضُونَ )

بنام خدائے رحمان رحيم

لوگوں كے لئے حساب كا وقت آپہنچا ہے اور وہ ابھى غفلت ہى ميں پڑے ہوئے ہيں اور كنارہ كشى كئے جارہے ہيں (۱)

۱ _ انسان، روز قيامت كے حساب كے نزديك ہونے كے باوجود اس سے انتہائي غافل ہےاقترب للناس حسابهم و هم فى غفلة معرضون كلمہ ''في'' ، ''فى غفلة'' ميں ظرفيت مجازى كيلئے ہے اور يہ وصف كى شدت پر دلالت كرتا ہے يعنى لوگوں كى آخرت كے حساب سے غفلت بہت زيادہ ہے_

۲ _ لوگوں كے اعمال كا حساب وكتاب قريب اور قطعى ہےاقترب للنا س حسابهم

۳ _ صدر اسلام كے مشركين، قيامت كے حساب كتاب والے مسئلہ سے بالكل غافل تھے اور اس كے واضح اور روشن دلائل اور علامات ميں غور و فكر كرنے سے بھى روگردان تھے_اقترب للنا س حسابهم و هم فى غفلة معرضون

مذكورہ مطلب اس نكتے كے پيش نظر ہے كہ يہ سورت مكى ہے اور ''الناس'' كے پہلے مخاطب اور مصداق مشركين ہيں _

۴ _ حساب و كتاب ، قيامت كے اہم واقعات ميں سے ہے_اقترب للناس حسابهم

سورہ كے آغاز ميں حساب و كتاب كا تذكرہ اور قيامت كے ديگر واقعات ميں سے صرف اس كا بيان مذكورہ مطلب كو بيان كررہا ہے_

۵ _ قيامت كو ياد كرنا اور اسكے حقائق و واقعات ميں تدبر و تامل ايك ضرورى اور لازمى امر ہے_

۲۸۲

اقترب للناس حسابهم و هم فى غفلة معرضون

آيت كريمہ ان لوگوں كى مذمت كر رہى ہے جو قيامت اور اسكے واقعات سے غافل ہيں يہ مذمت قيامت اور اسكے حالات كے بارے ميں غور و فكر كے لازمى ہونے كو بيان كررہى ہے_

۶ _ انسان اپنى رفتار و كردار كا ذمہ دار ہے اور قيامت كے دن اس سے باز پرس ہوگى اور اس كا مؤاخذہ كيا جائيگا_

اقترب للناس حسابهم

مذكورہ مطلب اس نكتے كے پيش نظر ہے كہ حساب و كتاب اس وقت معقول اور تصور ہے جب ذمہ دارى اور مسئوليت ہو_

۷ _ انسان، قيامت كى نشانيوں اور اس كے اثبات كے دلائل كے بارے ميں غور و فكر كرنے سے روگردانى كرنے والا ہے_اقترب للناس حسابهم و هم فى غفلة معرضون

''غفلت'' اور ''اعراض'' كا متعلق دوچيزيں ہيں كيونكہ غفلت كسى مسئلہ كى طرف توجہ نہ كرنے كى علامت ہے جبكہ روگردانى اسكى طرف توجہ كرنے كى نشانى ہے _اور ممكن نہيں ہے كہ ايك چيز كى طرف توجہ ہو بھى اور نہ بھى ہو لہذا اعراض سے مراد قيامت كو ثابت كرنے والے روشن دلائل سے روگردانى كرنا اور قيامت كے بارے ميں تدبر و تفكر نہ كرنا ہے _

انسان:اس كا اخروى حساب و كتاب ۶; اسكى غفلت ۱; اسكى ذمہ دارى ۶

تفكر:قيامت ميں تفكر كى اہميت ۵; قيامت ميں عدم تفكر كى نشانياں ۷

حساب و كتاب:اخروى حساب و كتاب سے غافل لوگ ۳

ذكر:قيامت كے ذكر كى اہميت ۵

عمل:اسكے حساب و كتاب كا قطعى ہونا ۲; اس كا ذمہ دار ۶; اسكے حساب كا نزديك ہونا ۲

غفلت:اخروى حساب سے غفلت۱; قيامت سے غفلت ۱

قيامت:اس ميں حساب و كتاب ۴; اسكے واقعات ۴; اس سے اعراض كرنے والے ۳، ۷; اسكى خصوصيات ۴

مشركين:صدر اسلام كے مشركين كا عدم تفكر ۳; صدر اسلام كے مشركين كى غفلت ۳

۲۸۳

آیت ۲

( مَا يَأْتِيهِم مِّن ذِكْرٍ مَّن رَّبِّهِم مُّحْدَثٍ إِلَّا اسْتَمَعُوهُ وَهُمْ يَلْعَبُونَ )

ان كے پاس ان كے پروردگار كى طرف سے كوئي نئي ياد دہانى نہيں آتى ہے مگر يہ كہ كان لگا كر سن ليتے ہيں اور پھر كھيل تماشے ميں لگ جاتے ہيں (۲)

۱ _ مشركين، وحى كے نزول اور خداتعالى كے نئے پيغام (قرآن) كو سرسرى ليتے اور كھيلنے كے ساتھ اسے سنتے _

ما يأتيهم من ذكر من ربهم و هم يلعبون زيادہ تر مفسرين كا يہ كہنا ہے كہ ذكر سے مراد ہر قسم كى وحى اور يا فقط قرآن كريم ہے_ اور جملہ ''و ہم يلعبون''، ''استمعوہ'' كے فاعل كيلئے حال ہے يعنى وہ كھيل ميں مصروف ہونے كى حالت ميں آيات الہى كو سنتے اور انہيں سنجيدگى او رسنجيدگى سے استماع نہ كرتے_

۲ _ مشركين كا آيات الہى كے ساتھ غير شائستہ اور كھيل كودوالا سلوك انكى انتہائي غفلت اور بے خبرى كى علامت ہے_

وهم فى غفلة معرضون۰ ما يأتيهم من ذكر من ربهم جملہ ''ما يأتيهم من ذكر '' يا تو سابقہ جملے كيلئے بيان ہے اور يا اسكى تعليل كے طور پر ہے _بہرحال يہ مشركين كى انتہائي غفلت اور بے خبرى كى كيفيت كو بيان كررہا ہے

۳ _ وحى الہى (قرآن اور ...) غفلت كو دور كرنے، انسان كى سوئي ہوئي فطرت كو جگانے اور اس كى فراموش كردہ معلومات كى ياد دہانى كيلئے ہے_و هم فى غفلة معرضون ما يأتيهم من ذكر من ربهم

معنى كے لحاظ سے ''ذكر'' ،''حفظ'' كى طرح ہے اس فرق كے ساتھ كہ ''حفظ شيئ'' اسكے معلوم كرنے اور حاصل كرنے كے ساتھ ہوتا ہے جبكہ ''ذكر شي'' اسے حاضر كرنے اور يادكرنے كے اعتبار سے ہوتا ہے (مفردات راغب) لہذا قرآن كي''ذكر'' كے ساتھ توصيف كرنا اس

۲۸۴

اعتبار سے ہے كہ قرآن ،انسان كى فراموش كردہ معلومات كى ياد دہانى كرانے والا اور غافل انسان كى فطرت كو جگانے والا ہے

۴ _ وحى الہي، لوگوں كو ياد دہانى كرانا اور غفلت و بے خبرى سے انہيں نجات دينا خداتعالى كى ربوبيت كا تقاضا ہے_

ما يأتيهم من ذكر من ربهم

۵ _ '' رب'' خداوند متعال كى اسما و صفات ميں سے ہے_ما يا تيهم من ذكر من ربهم

۵ _ قرآن، ديگر آسمانى كتابوں كے مقابلے ميں نئي اور جديد تعليمات پر مشتمل ہے _ما يأتيهم من ذكر من ربهم محدث

''محدث'' كا معنى ہے جديد او رنئي چيز _اور آيت كريمہ ميں يہ ''ذكر'' كى صفت ہے قرآن كى جديد اور نئے ہونے كے ساتھ توصيف ہوسكتا ہے جديد آيات كے نزول كے اعتبار سے ہو اسى طرح ہوسكتا ہے آيات قرآنى اور اسكى تعليمات كے ديگر آسمانى كتابوں كے مقابلے ميں تازہ اور نئي ہونے كے لحاظ سے ہو مذكورہ مطلب دوسرے فرضيے كى بناپر ہے_

۶ _ عصر بعثت ميں مشركين، روايت پرست اور پرانى ذہنيت كے لوگ تھے _ما يأتيهم من ذكر من ربهم محدث

مشركين كى طرف سے خداتعالى كے جديد پيغامات كى مخالفت انكى روايت پرستى اور پرانى ذہنيت كى علامت ہے_

۷ _ وحى الہى اور آسمانى كتابوں ميں سنجيدہ اور عاقلانہ غور و فكر كى ضرورت ہے _ما يأتيهم من ذكر هم يلعبون

۸ _ وحى ا ورقيامت پر ايمان كے بغير زندگى كھيل تماشا اور بے مقصد ہے _ما يأتيهم من ذكر و هم يلعبون

مذكورہ مطلب اس احتمال كى بنياد پر ہے كہ ''يلعبون'' مشركين كى طبعى اورروزمرہ كى زندگى كى طرف ناظر ہو يعنى نزول وحى كے وقت وہ لوگ سب بے مقصد اور كھيل تماشے والى زندگى ميں مشغول ہوتے لہذا جو لوگ مبدا و معاد كا انكار كرتے ہيں وہ بھى (مشركين كى طرح) زندگى ميں لہو و لعب اور كھيل تماشے ميں گرفتار ہوجاتے ہيں _

۹ _ قيامت سے غفلت، وحى سے بے اعتنائي اور دين كو بازيچہ اطفال قرار دينے كا پيش خيمہ ہے _

و هم فى غفلة معرضون ما يأتيهم و هم يلعبون

۱۰ _ انسان كا دنيا كے ساتھ سرگرم رہنا، اسكے وحى اور دين الہى سے غافل ہونے كا سبب ہے _ما يأتيهم من ذكر و هم يلعبون جملہ''و هم يلعبون'' ،''استمعوه'' كى فاعلى ضمير كيلئے حال اورمشركين اور حق سے گريز كرنے والے لوگوں كى حالت كو بيان كر رہا ہے يہ حالت ہوسكتا ہے حق سے گريز كرنے اور پيغامات الہى سے بے اعتنائي كرنے ميں مؤثر ہو_قابل ذكر ہے كہ بعدوالى آيت كے شروع

۲۸۵

ميں جملہ''لا هية قلوبهم'' كہ جو جملہ''و هم يلعبون'' ميں مبتدا كيلئے حال ہے اسى مطلب كى تائيد كرتا ہے _

۱۱ _'' قال ا بو الحسن (ع) : التوراة و الانجيل والزبور والفرقان و كل كتاب ا نزل كان كلام الله تعالى ا نزله للعالمين نوراً و هديً و هى كلها محدثة و هى غير الله قال: '' ما يا تيهم من ذكر من ربهم محدث إلا استمعوه و هم يلعبون'' و الله ا حدث الكتب كلها الذى أنزلها ...; امام رضا(ع) سے روايت كى گئي ہے كہ آپ(ع) نے فرمايا: تورات، انجيل، زبور، قرآن اور نازل ہونے والى ہر كتاب كلام الہى ہے كہ جسے اس نے سب جہانوں كى ہدايت كيلئے نازل كيا ہے اور يہ سب كتابيں حادث ہيں اور حادث غير خدا ہوتا ہے خداتعالى نے فرمايا ہے''ما يأتيهم من ذكر من ربهم محدث الا استمعوه و هم يلعبون'' اور خداتعالى نے جتنى بھى كتابيں نازل كى ہيں اس نے انہيں خلق كيا ہے(۱)

آيات الہى :ان كے ساتھ كھيلنا ۲

آسمانى كتب:ان كا حادث ہونا ۱۱

اسلام:صدر اسلام كى تاريخ ۶

ايمان:قيامت پر ايمان كے اثرات۸; وحى پر ايمان كے اثرات ۸

تفكر:آسمانى كتابوں ميں تفكر كى اہميت ۸; وحى ميں تفكر كے اثرات ۸

خداتعالى :اسكى ربوبيت كے اثرات ۴

دنيا پرستي:اسكے اثرات ۱۰/دين:اسكى آسيب شناسى ۱۰; اسكے ساتھ كھيلنے كا پيش خيمہ ۹

روايت :۱۱

زندگي:قابل قدر زندگى ۸; زندگى كے كھوكھلا ہونے كے عوامل ۸

غفلت:قيامت سے غفلت كے اثرات ۹; دين سے غفلت كے عوامل ۱۰; وحى سے غفلت كے عوامل ۱۰

فطرت:اسكے متنبہ ہونے كے عوامل ۳

قرآن مجيد:اس كے ساتھ كھيلنا ۱; اس سے بے اعتنائي ۱; اس كا غفلت كو دور كرنا ۳; اس كے نزول كا فلسفہ ۳; اس كا جديد ہونا ۵; اسكى تعليمات كى خصوصيات ۵; اس كا ہدايت كرنا ۳

____________________

۱ ) بحار الانوار ج۱۰، ص ۳۴۴ ح۵_ نورالثقلين ج۳، ص ۴۱۲، ح۶_

۲۸۶

مشركين:صد راسلام كے مشركين كى ہٹ دھرمى ۶; انكا سلوك ۲; صدر اسلام كے مشركين كى روايت پرستى ۶; يہ اور آيات الہى ۲;يہ اور قرآن۱; انكى غفلت كى نشانياں ۲

وحي:اس سے روگردانى كا پيش خيمہ ۹; اس كا فلسفہ ۳; اسكے نزول كا سرچشمہ ۴

ہدايت:اس كا سرچشمہ ۴

آیت ۳

( لَاهِيَةً قُلُوبُهُمْ وَأَسَرُّواْ النَّجْوَى الَّذِينَ ظَلَمُواْ هَلْ هَذَا إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ أَفَتَأْتُونَ السِّحْرَ وَأَنتُمْ تُبْصِرُونَ )

ان كے دل بالكل غافل ہوگئي ہيں اور يہ ظالم اس طرح آپس ميں راز و نياز كى باتيں كيا كرتے ہيں كہ يہ بھى تو تمھارے ہى طرح كے ايك انسان ہين كيا تم ديدہ و دانستہ ان كے جادو كے چكر ميں آرہے ہے (۳)

۱ _ مشركين ايسے لوگ ہيں جو زندگى كے اصلى اور سنجيدہ مسائل سے غافل ہيں اور لغو اور بے قيمت قسم كى چيزوں سے دل لگائے ہوئے ہيں _وهم يلعبونلاهيةقلوبهم

''لہو'' كا معنى وہ چيز ہے جو انسان كو اہم اور سودمند كاموں سے باز ركھے (مفردات راغب) مشركين كى اس بات كے ساتھ توصيف كہ ان كے دل لہو و لعب اور غير اہم كاموں ميں مشغول ہيں مذكورہ مطلب كو بيان كررہى ہے _

۲ _ دل كى بيدارى اور ہوشمندى حقائق الہى كو سمجھنے اور وحى و كتب آسمانى سے متأثر ہونے كى لازمى شرط ہے_

ما يأتيهم لا هية قلوبهم

۳ _ لہو و لعب اور دل كا غير مہم اور بے قدر و قيمت امور ميں مشغول ہونا دل كى بيماريوں ميں سے ہے اور يہ ايك برى اور ناپسنديدہ چيز ہے_لاهية قلوبهم

آيت كريمہ مشركين كے ناپسنديدہ اوصاف، انكى منفى خصوصيات اور ان كى مذمت كے بيان كے مقام ميں ہے _

۴ _ ستم گر مشركين كى طرف سے پيغمبراكرم (ص) كے خلاف خفيہ ميٹنگوں اور مخفى مشاورتوں كا انعقاد _

و أسروا النجوى الذين ظلمو

۵ _ وحى كے ساتھ ناشائستہ سلوك اور اس كے ساتھ كھيلنا ظلم و ستم كا مصداق ہے _و هم يلعبون لاهية قلوبهم الذين ظلمو

۲۸۷

۶ _ ستم گر مشركين پيغمبر اكرم(ص) كى د عوت كے خلاف اجتماعى اور منسجم حركات ركھتے تھے _و أسروا النجوى الذين ظلمو ''اسرّوا'' (مصدر اسرار ہے) يعنى پنہان ركھتے تھے اور ''نجوى '' كا معنى ہے خفيہ گفتگو اور يہ''اسروّ ا''كا مفعول ہے پس ''نجوى ''كرنا ايك اجتماعى تحرك كى دليل ہے اوراسے مخفى ركھنا ان كے اس تحرك كو دوسروں (مسلمانوں ) كى نظروں سے دور ركھنے كى كوشش كا غماز ہے_

۷ _ پيغمبراكرم(ص) اور آپ(ع) كى دعوت كے خلاف مشركين كے خاص گروہ كى طرف سے سازش كا تيار كيا جانا _

و أسروا النجوى الذين ظلمو مذكورہ مطلب اس بناپر ہے كہ ''الذين ظلموا'' قيد احترازى ہو يعنى مشركين كا وہ گروہ جو ظلم و ستم اور تجاوز كرنے والى فطرت ركھتے ہيں _

۸ _ اسلام، ظلم دشمنى كا دين ہے اورتعليمات قرآن معاشرے كے چہرے سے ظلم اور سياہ كارى كو مٹانے كيلئے ہيں _

ما يأتيهم من ذكر من ربهم محدث إلا استمعوه و هم يلعبون و أسروا النجوى الذين ظلمو

ستم گر ٹولے كى طرف سے پيغمبر(ص) اكرم اور قرآن كى مخالفت اور ان كے خلاف سازش اس نكتے كو بيان كرر ہے ہيں كہ اسلام معاشرے سے ظلم كو دور كرنے اور استعمارى طبقے كے ظالمانہ مفادات كو ختم كرنے كے درپے ہے ورنہ كيا وجہ ہے كہ صرف يہى گروہ اسلام كى مخالفت پر تلا ہوا ہے

۹ _ پيغمبر اكرم(ص) كا بشر ہونا، مشركين كى سازش اور خفيہ گفتگو كا محتوى اور اسلام و قرآن كے خلاف دستاويز _

و أسروا النجوى الذين ظلموا هل هذا إلا بشر مثلكم

۱۰ _ مشركين كى نظر ميں انسان ہونے كا مقام نبوت كا حاصل كرنے كے ساتھ سازگار نہ ہونا_هل هذا إلا بشر مثلكم

۱۱ _ پيغمبر اكرم(ص) لوگوں كے درميان بلاواسطہ اور قابل احساس طريقے سے حاضر رہتے اور انہيں كى طرح زندگى گزارتے _هل هذا إلا بشر مثلكم

''مثلكم'' بشر كى صفت ہے (بشر ہونے كے علاوہ) پيغمبراكرم(ص) كى تمہارے جيسا ہونے كے ساتھ توصيف ممكن ہے مذكورہ مطلب كو بيان كررہى ہو_

۱۲ _ ستمگر مشركين كى طرف سے قرآن كى طرف جادو ہونے اور پيغمبراكرم(ص) كى طرف جادوگر ہونے كى ناروا نسبت _أفتأتون السحر و أنتم تبصرون

۱۳ _ستمگر مشركين قرآن پر جادو ہونے كى تہمت لگا كر اسے ہرگز پيروى كے لائق نہيں سمجھتے تھے_

۲۸۸

أفتأتون السحر وأنتم تبصرون جملہ''أفتأتون السحر'' ميں استفہام انكارى ہے اور جملہ ''و انتم تبصرون''''تأتون'' كے فاعل كيلئے حال ہے اس بناپر آيت كا معنى يوں ہوگا كيا تم لوگ آنكھ اور آگاہى كے ساتھ قرآن_ كہ جو جادو ہے _ كے پيچھے جاتے ہو؟ يعنى يہ كہ قرآن كا پيروى كے لائق نہ ہونا واضح و روشن امر ہے_

۱۴ _ پيغمبراكرم(ص) كے زمانے كے لوگوں پر قرآن كى غير معمولى اور تعجب آور تأثير_أفتأتون السحر

قرآن پر جادو ہونے كى تہمت سے لگتا ہے كہ قرآن غير معمولى اثر ركھتا تھا _

۱۵ _ قرآن كا جادو اور پيغمبراكرم(ص) كا جادوگر ہونا ستمگر مشركين كے ايمان نہ لانے كا ايك اور بہانہ اور كھوكھلى دليل _

أفتأتون السحر و أنتم تبصرون

مشركين پيغمبراكرم(ص) كے دعوے كو رد كرنے كيلئے دو بہانے اور كھوكھلى دليليں لاتے تھے ۱_ آنحضرت(ص) كا بشر ہونا (هل هذا إلا بشر مثلكم ) ۲_ آپ(ص) كا جادوگر ہونا (أفتأتون السحر )

۱۶ _ صدر اسلام كے مشركين جادو كى پيروى كو عقل و خرد كے ساتھ سازگار نہيں سمجھتے تھے _أفتأتون السحر و أنتم تبصرون

۱۷ _ پيغمبراكرم(ص) كو جھٹلانا اور انكى طرف ناروا نسبتيں (جادوگر ہونا و غيرہ) دينا ظلم ہے _و أسرّوا النجوى الذين ظلموا هل هذا إلا بشر أفتأتون السحر و أنتم تبصرون جملہ(هل هذا بشر أفتأتون السحر ...) ''النجوى '' كيلئے بدل ہے يعنى ستمگروں كى سرگوشيوں كا محتوا يہ تھا كہ پيغمبراكرم كى طرف جادو كى نسبت ديتے اور ان افراد كو ظالم كہنا بتا تا ہے كہ پيغمبراكرم(ص) كى طرف ناروا نسبت دينا ظلم كا واضح مصداق ہے_

آسمانى كتب:انكے سمجھنے كا پيش خيمہ ۳

اسلام:صدر اسلام كى تاريخ ۴، ۶، ۷; اسلام كے خلاف سازش ۹; اسكى ظلم دشمنى ۸; اسكى خصوصيات۸

آنحضرت(ص) :آپ(ص) كا بشر ہونا۹، ۱۱; آپ(ص) كے خلاف سازش ۴، ۶، ۷; آپ(ص) پر جادوگرى كى تہمت ۱۲، ۱۵، ۱۷;بصيرت:اسكے اثرات ۲

جادو:اسكى پيروى كے موانع ۱۶/حقائق:انكے سمجھنے كا پيش خيمہ ۲

دنيا پرستي:اسكے اثرات ۳/صفات:

۲۸۹

ناپسنديدہ صفات ۳

ظالم لوگ:صدر اسلام كے ظالموں كى سازش ۶، ۷

ظلم:اسكے موارد ۵، ۱۷

عقل:اس كا كردار ۱۶

غافل لوگ:۱

قرآن كريم:اسكے خلاف سازش ۹; اس پر جادو كى تہمت ۱۲، ۱۳، ۱۵; اسكى ظلم دشمنى ۸; اس سے روگردانى كرنے والے ۱۳; اس كا كردار ۱۴

دل:اسكى بيمارى كا پيش خيمہ ۳

لہو و لعب:اسكے اثرات ۳

آپكى سيرت ۱۱; آپ(ص) پر ظلم ۴; آپ كو جھٹلانے كا ظلم ۱۷

لوگ:صدر اسلام كے لوگ اور قرآن ۱۴

مشركين:انكى بہانہ تراشى ۱۵; انكا غير منطقى ہونا ۱۵; انكى سوچ ۱۰; صدر اسلام كے مشركين كى سوچ ۱۶; انكى زندگى كا كھوكھلا ہونا ۱; صدر اسلام كے مشركين كا منظم ہونا۶; صدر اسلام كے مشركين كى سازش ۴، ۶، ۷، ۹; انكى تہمتيں ۱۲، ۱۳، ۱۵; صدر اسلام كے مشركين كى خفيہ ميٹينگيں ۴، ۶; صدر اسلام كے مشركين كى مشاورتى ميٹينگيں ۴; انكى غفلت ۱; صدر اسلام كے مشركين كى سرگوشياں ۹/نبوت:بشر كى نبوت كو جھٹلانے والے ۱۰

وحي:اسكے ساتھ كھيلنا ۵; اسے سمجھنے كا پيش خيمہ ۲

آیت ۴

( قَالَ رَبِّي يَعْلَمُ الْقَوْلَ فِي السَّمَاء وَالأَرْضِ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ )

تو پيغمبر نے جواب ديا كہ ميرا پروردگار آسمان و زمين كى تمام باتوں كو جانتا ہے وہ خوب سننے والا اور جاننے والا ہے (۴)

۱ _ پروردگار كا اہل زمين و آسمان كى تمام باتوں سے آگاہ ہونا _قال ربى يعلم القول فى السماء و الأرض

۲ _ آسمانى موجودات ميں كلام اور سخن كا موجود ہونا_

۲۹۰

قال ربى يعلم القول فى السماء

۳ _ خداتعالى نے پيغمبراكرم(ص) كو ستم گر مشركين كى خفيہ ميٹنيگوں اور مخفى گفتگو سے آگاہ كيا _

أسروا النجوى قال ربى يعلم القول فى السماء

۴ _ خداتعالى كى طرف سے ستمگر مشركين كو پيغمبر اكرم(ص) اور اسلام كے خلاف خفيہ سازشيں اور سرگوشياں كرنے كے بارے ميں تنبيہ _أسروا النجوى الذين ظلموا قال ربى يعلم القول فى السماء و الأرض

سرگوشياں اور سازشيں كرنے والے مشركين كو اس آيت كى ياد دہانى كہ خداتعالى آسمان و زمين ميں ہونے والى ہر بات سے آگاہ ہے ان كيلئے انكى سازشوں كے برے انجام كے بارے ميں تنبيہ ہے _

۵ _ مطلق علم اور شنوائي ،صرف خداتعالى كى شان ہے _و هوالسميع العليم

ادبى لحاظ سے جب بھى مبتدا معرفہ اور خبر پر الف و لام ہو تو يہ حصر كا فائدہ ديتا ہے آيت كريمہ ميں بھى ايسے ہى ہے_

۶ _ اس بات كى طرف توجہ كہ خداتعالى موجودات عالم كے اعمال و گفتار سے مكمل آگاہى ركھتا ہے انسان كو حق دشمنى اور گناہ سے باز ركھتا ہے_أسرّوا النجوى قال ربى يعلم القول فى السماء و الأرض و هو السميع العليم

خداتعالى نے مشركين كى اسلام كے خلاف خفيہ سازشوں اور سرگوشيوں كے جواب ميں پيغمبراكرم كو حكم ديا كہ انہيں خداتعالى كے مكمل علم كى خبرديں _ يہ حقيقت ہوسكتا ہے مذكورہ مطلب كو بيان كررہى ہو_

۷ _ خداتعالى سميع (سننے والا) اورعليم (جاننے والا) ہے_وهو السميع العليم

آسمان:اہل آسمان كا كلام ۱; اسكے موجودات كا گفتگو كرنا ۲; اسكے باشعور موجودات ۲

اسلام:صدر اسلام كى تاريخ ۴; اسكے خلاف سازش كرنا ۴

اسما و صفات:سميع ۷; عليم ۷

انسان:اسكى سخن۱

آنحضرت(ص) :آپ(ص) كے خلاف سازش ۴; آپ(ص) كے علم كا سرچشمہ ۳

حق:حق دشمنى كے موانع ۶

خداتعالى :اسكى خصوصيات ۵; اس كا افشا كرنا ۳; اسكى شنوائي ۵; اس كا علم ۱، ۵; اس كا خبردار كرنا ۴

ذكر:خداتعالى كے علم غيب كے ذكر كے اثرات ۶

۲۹۱

گناہ:اسكے موانع ۶

مشركين:صدر اسلام كے مشركين كو افشا كرنا ۳; انكي سازشيں ۴; صدر اسلام كى مشركين كے خفيہ ميٹينگيں ۳، ۴; صدر اسلام كے مشركين كو تنبيہ ۴

موجودات:ان كا كلام كرنا ۶; انكا عمل ۶

آیت ۵

( بَلْ قَالُواْ أَضْغَاثُ أَحْلاَمٍ بَلِ افْتَرَاهُ بَلْ هُوَ شَاعِرٌ فَلْيَأْتِنَا بِآيَةٍ كَمَا أُرْسِلَ الأَوَّلُونَ )

بلكہ يہ لوگ كہتے ہيں كہ يہ تو سب خواب پريشاں كا مجموعہ ہے بلكہ يہ خود پيغمبر كى طرف سے افتراء ہے بلكہ يہ شاعر ہيں او رشاعرى كر رہے ہيں ورنہ ايسى نشانى لے كر آتے جيسى نشانى لے كر پہلے پيغمبر بھيجے گئے تھے (۵)

۱ _ قرآن كو پراكندہ اور پريشان خواب سمجھنا ،ستمگر مشركين كى طرف سے پيغمبراكرم(ص) كے خلاف زہريلے پروپيگنڈے كا حصہ _بل قالوا أضغاث أحلام

''اضغاث'' (ضغث كى جمع) كا معنى ہے دستے اور مختلط چيزيں اور ''احلام'' (جمع حلم كي) كا معنى ہے خواب_ يہ تعبير (أضغاث أحلام) پريشان اور پراگندہ خوابوں كے سلسلے ميں بولى جاتى ہے_

۲ _ قرآن كو ايك غير منظم مجموعہ اور غير منسجم كتاب كے طور پر متعارف كرانا، ستمگر مشركين كے زہريلے پرو پيگنڈے كا حصہ تھا _بل قالوا أضغاث أحلام

مذكورہ نكتہ ''اضغاث'' كے لغوى معنى (پريشان چيزيں ، پراگندہ اور غير منسجم دستے) كو ديكھتے ہوئے ہے _

۳ _ قرآن كريم كا پيغمبراكرم(ص) كى طرف سے گھڑا ہوا ہونا ستمگر مشركين كى آنحضرت(ص) پر تہمت _بل افترى ه

۴ _ ستمگر مشركين كى طرف سے قرآن اور پيغمبراكرم(ص) كى طرف شعر وشاعرى كى ناروا نسبت _

بل هو شاعر

۵ _ قرآن كا خوبصورت اور جذاب ہونا مشركين مكہ كى نظر ميں مسلّم اور قابل قبول تھا _بل هو شاعر

چونكہ شعر خاص قسم كى خوبصورتى اور جذابيت كا حامل ہوتا ہے اس لئے مشركين، پيغمبراكرم(ص) كو شاعر سمجھتے تھے _

۶ _ مشركين، قرآن كا مقابلہ كرنے ميں اور اسكے خلاف واضح موقف اختيار كرنے ميں سرگردان اور ناتوان تھے _

بل قالوا أضغاث أحلام بل هو شاعر

۲۹۲

آيت كريمہ ميں ''بل'' اضراب انتقالى كيلئے ہے اور يہ صرف ايسے موارد ميں استعمال ہوتا ہے كہ جہاں متكلم پہلے نكتے سے صرف نظر كر كے دوسرا نكتہ بيان كرنے كے در پے ہو اور ايك ہى كلام ميں اس كا تكرار متكلم كے اضطراب، شك و ترديد يا تصميم كرنے ميں اسكى ناتوانى كا غماز ہے_

۷ _ مشركين، پيغمبراكرم(ص) سے سابقہ انبياء كے معجزات جيسا معجزہ طلب كرتے تھے _فليأتنا بأية كما أرسل الأوّلون

۸ _ عصر بعثت ميں مشركين كا حقيقت معجزہ اور اسكے جادو، پريشان خواب اور شعر كے ساتھ فرق سے آگاہ ہونا_

بل قالوا أضغاث أحلام بل افترى ه بل هو شاعر

مشركين پيغمبراكرم (ص) كى مخالفت ميں پہلے تو آپ(ص) كے كلام كو جادو، شعر يا پراكندہ خواب قرار ديتے تھے پھر آپ(ص) كى رسالت كے اثبات كيلئے آپ(ص) سے معجزہ كے طالب ہوئے اس كا مطلب يہ ہے كہ وہ معجزہ اور سحر و شعر و غيرہ كے ساتھ اسكے فرق سے آگاہ تھے اور اس كا اعتراف كرتے تھے_

۹ _ سابقہ انبياء كے معجزوں جيسے معجزے كى درخواست آنحضرت(ص) كى رسالت كو قبول نہ كرنے كيلئے مشركين كا ايك بہانہ _و أسرّوا النجوى الذين ظلموا فليأتنا بآية كما أرسل الأولون

۱۰ _ صدر اسلام كے ستمگر مشركين ہٹ دھرم، حق كو قبول نہ كرنے والے اور بہانہ خور لوگ تھے_

بل قالوا فليأتنا بأية كما أرسل الأولون

۱۱ _ ستمگر مشركين كا پيغمبراكرم(ص) كے خلاف تمام ممكنہ سياسي، ثقافتى اور تبليغى ہتھكنڈوں سے استفادہ كرنا_

أسروا النجوى هل هذا إلا بشر بل قالوا أضغاث أحلام بل افترى ه بل هو شاعر فليأتنا بأية كما أرسل الأولون

اسلام:صدر اسلام كى تاريخ ۱، ۷، ۱۱

افترا باندھنا:قرآن پر افترا باندھنا ۳

قرآن كريم:اسكے خلاف پروپيگنڈا ۲; اس پر پراگندہ ہونے كى تہمت ۲; اس پر منتشر خواب ہونے كى تہمت۱; اس پر شعر ہونے كى تہمت ۴; اسكى جذابيت ۵; اسكے ساتھ مقابلے كى روش ۶; اسكى خوبصورتى ۵

آنحضرت(ص) :آپ(ص) كو جھٹلانے والوں كا بہانہ خور ہونا ۹; آپ(ص) كے خلاف سازش ۱; آپ(ص) پر تہمت ۱، ۳; آپ(ص) پر شاعر ہونے كى تہمت ۴

۲۹۳

مشركين:صدر اسلام كے مشركين كى بہانہ جوئي ۹، ۱۰; صدر اسلام كے مشركين كى سوچ ۸; صدر اسلام كے مشركين كا پروپيگنڈا ۱۱; انكا پروپيگنڈا ۲; انكا حيرت زدہ ہونا۶; انكى سازشيں ۱; انكى تہمتيں ۱، ۳، ۴; صدر اسلام كے مشركين كا حق كو قبول نہ كرنا ۱۰; صدر اسلام كے مشركين كے مطالبے ۷; صدر اسلام كے مشركين كے پروپيگنڈے كى روش ۱۱; انكا عاجز ہونا ۶; صدر اسلام كے مشركين كى ہٹ دھرمى ۱۰

مشركين مكہ:انكى سوچ۵

معجزہ:اس كا جادو سے فرق۸; اسكے حقيقت ۸; اسكى درخواست ۷; مطلوبہ معجزہ كا فلسفہ ۹; مطلوبہ معجزہ۷

آیت ۶

( مَا آمَنَتْ قَبْلَهُم مِّن قَرْيَةٍ أَهْلَكْنَاهَا أَفَهُمْ يُؤْمِنُونَ )

ان سے پہلے ہم نے جن بستيوں كو سركشى كى بناپر تابہ كرڈالا وہ تو ايمان لائے نہيں يہ كيا ايمان لائيں گے (۶)

۱ _ جن امتوں پر عذاب ناز ل كيا گيا انہوں نے معجزات الہى سے بہرہ مند ہونے كے باوجود ايمان قبول نہ كيا _

ما أمنت قبلهم من قرية أهلكنا ها

۲ _ گذشتہ امتوں كى ہلاكت اور ان كا عذاب معجزات الہى پر ايمان نہ لانے كى وجہ سے تھا _فليأتنا بأية ما أمنت قبلهم من قريه اهلكناها

۳ _ ہلاكت ان امتوں كا مقدر ہے جو اپنے درخواست كردہ معجزات پر ايمان نہ لائيں _ما أمنت قبلهم من قرية أهلكناها

۴ _ ايمان، انسانى معاشروں اور تہذيبوں كى حفاظت اور بقا ميں مؤثر ہے _ما أمنت قبلهم من قرية أهلكناها

۵ _ قرآن كى پيشين گوئي تھى كہ صدر اسلام كے بعض

مشركين ايمان نہيں لائيں گے اپنے درخواست كردہ معجزات كے نزول كے بعد بھى _ما أمنت قبلهم أفهم يؤمنون

۶ _ انبياء كو جھٹلانے والے انكى مخالفت كے سلسلے ميں ايك جيسى روش اور حربوں كے حامل ہوتے ہيں _

فليأ تنا بأية ما أمنت قبلهم من قرية أهلكناها أفهم يؤمنون

۲۹۴

خداتعالى نے گذشتہ آيت ميں اس بات كى ياد دہانى كرائي ہے كہ مشركين آنحضرت(ص) سے (سابقہ انبيا(ع) ء كے معجزات جيسے) معجزے كے خواہان ہوئے اور اس آيت ميں فرماتا ہے كہ گذشتہ امتيں انبيا(ع) ء كے معجزے ديكھنے كے باوجود ايمان نہ لائيں پس قطعا تم بھى ايمان نہيں لاؤگے يہ ياد دہانى اس بات سے حكايت كرتى ہے كہ ابنيا(ع) ء كو جھٹلانے والوں كے مقابلے كى روش اور ہتھكنڈے ايك جيسے تھے_

۷ _ صدر اسلام كے بعض مشركين كى ہٹ دھرمى اور عناد سابقہ انبياء كے مخالفين كے مقابلے ميں زيادہ سخت اور شديد تھى _ما أمنت قبلهم أفهم يؤمنون

''أفہم'' كا ہمزہ استفہام انكارى كيلئے اور اسكى ''فائ'' تعقيب كا فائدہ دينے كيلئے ہے اس بناپر آيت كا معنى يوں ہوگا گذشتہ امتيں اپنے درخواست كردہ معجزات كے آنے كے باوجود ايمان نہ لائيں آيا يہ لوگ جو زيادہ ہٹ دھرم اور حق دشمن ہيں ايمان لائيں گے _

۸ _ مكہ كے ستم گر مشركين كى طرف سے معجزے كى درخواست بہانہ تھى نہ حقيقت تك پہنچنے كيلئے _فليأتنا أفهم يؤمنون

خداتعالى نے مشركين كى طرف سے معجزہ كى درخواست كو اسلئے رد فرمايا كہ يہ بھى گذشتہ مشركين كى طرح ايمان نہيں لانا چاہتے لہذا ايسى درخواست صرف ايك بہانہ اور ہتھكنڈا ہے _

۹ _ ستمگر مشركين كا ايمان نہ لانا اور حق كو قبول نہ كرنا ان كے پيغمبراكرم(ص) سے معجزہ كے درخواست كے رد ہونے كى وجہ اور فلسفہ _فليأتنا بأية أفهم يؤمنون

آنحضرت(ص) :آپ(ص) كے دشمن ۷

اسلام:صدر اسلام كى تاريخ ۹

گذشتہ امتيں :انكى تاريخ ۳; انكى ہلاكت كے عوامل ۳; انكا انجام ۳; انكے عذاب كا فلسفہ ۲; انكى ہلاكت كا فلسفہ ۲

انبيا(ع) :انہيں جھٹلانے والوں كا ہدف ۶; ان كے دشمن ۷; ان كے دشمنوں كى ہم آہنگي۶; انہيں جھٹلانے والوں كى ہم آہنگى ۶

ايمان:اسكے اجتماعى اثرات ۴

تہذيبيں :ان كى بقاء كے عوامل ۴

۲۹۵

معاشرہ:معاشروں كى بقا كے عوامل ۴

عذاب:اہل عذاب كا كفر ۱; اہل عذاب كا ليچڑپن ۱

قرآن كريم:اسكى پيشين گوئي ۵

مشركين:صدر اسلام كے مشركين كے حق كو قبول نہ كرنے كے اثرات۹; صدر اسلام كے مشركين كے كفر كے اثرات ۹; صدر اسلام كے مشركين كى دشمنى كي شدت ۷; صدر اسلام كے مشركين كا كفر ۵; صدر اسلام كے مشركين كا ليچڑين ۵

مشركين مكہ:انكى بہانہ جوئي ۸; ان كے مطالبوں كا فلسفہ ۸

معجزہ:اسے جھٹلانے كے اثرات ۳; اسكى درخواست ۸; اپنى مرضى كے معجزہ كے رد ہونے كا فلسفہ ۹; اسے جھٹلانے كى سزا ۲; اپنى مرضى كا معجزہ ۸

آیت ۷

( وَمَا أَرْسَلْنَا قَبْلَكَ إِلاَّ رِجَالاً نُّوحِي إِلَيْهِمْ فَاسْأَلُواْ أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ )

اور ہم نے آپ سے پہلے بھى جن رسولوں كو بھيجا ہے وہ سب مر ہى تھے جن كى طرف ہم وحى كيا كرتے تھے_ تو تم لوگ اگر نہيں جانتے ہو تو جاننے والوں سے دريافت كرلو (۷)

۱ _ تمام انبياء الہي، انسان اور مرد تھے_و ما أرسلنا قبلك الإرجال

۲ _ صاحب رسالت كا انسان ہونے كے منافى ہونا، مشركين كى باطل سوچ _هل هذا إلا بشر مثلكم ما أرسلنا قبلك إلا رجال

۳ _ مقام رسالت، انسان ہونے كے منافى نہيں ہے بلكہ انبيا(ع) كا انسان ہونا سنت الہى ہے_

هل هذا إلا بشر مثلكم ما أرسلنا قبلك إلا رجال

۴ _ خداتعالى ، وحى اور انبيا(ع) ء كو بھيجنے كا سرچشمہ ہے_و ما أرسلنا قبلك إلا رجالا نوحى إليهم

۵ _ انبيا(ع) ء كا وحى سے بہرہ مند ہونا ان كا ديگر انسانوں سے امتياز _

و ما أرسلنا قبلك إلا رجالاً نوحى اليهم

۶ _ وحى الہى كو حاصل كرنا، منصب رسالت كا لازمہ ہے_و ما أرسلنا نوحى إليهم

۷ _ انبياء كى دعوت ،صرف وحى الہى پر مبتنى تھي_بل قالوا أ ضغاث بل هو شاعر. و ما أرسلنا إلا رجالًا نوحى إليهم

۲۹۶

۸ _ خداتعالى كى طرف سے مشركين مكہ كو دعوت كہ وہ سابقہ انبياء كے بشر ہونے كے بارے ميں علم ركھنے والوں سے پوچھ ليں _فسئلوا أهل الذكر ان كنتم لا تعلمون

۹ _ انبيا(ع) ء كا انسان ہونا ،عصر بعثت كے دينى علما اور تاريخ انبيا(ع) ء سے آگاہ لوگوں كے ہاں مسلم تھا _

و ما أرسلنا فسئلوا أهل الذكر إن كنتم لا تعلمون

''اهل ذكر'' سے مراد دينى علما ء ہيں كيونكہ اولاً عام لوگ انبيا(ع) ء كى تاريخ سے بے خبر تھے اور اس قسم كے معلومات دينى علما كے پاس تھے او رثانياً كلمہ ''ذكر'' قرآن ميں آسمانى كتابوں اور خود قرآن پر بولا گيا ہے_

۱۰ _ عصر بعثت كے مشركين كے جاہلانہ ماحول ميں تاريخ انبيا(ع) ء سے واقف لوگوں كا موجود ہونا _

فسئلوا أهل الذكر

۱۱ _ اعتقادى اور دينى مسائل ميں علم و آگاہى كے حصول تك كوشش اور جستجو كرنا ضرورى ہے _

فسئلوا أهل الذكر إن كنتم لا تعلمون

جملہ ''إسئلوا ...'' مقدر شرط كا جواب ہے اور جملہ ''إن كنتم لا تعلمون'' اسكى تفسير كر رہا ہے اور يہ در اصل يوںهي'' إن كنتم لاتعلمون فاسئلوا ...'' (اگر نہيں جانتے تو سوال كرو) اس بات كا لازمہ يہ ہے كہ اگر انسان كسى چيز كو نہيں جانتا تو جاننے تك كوشش اور سوال كرنا ضرورى ہے _

۱۲ _ گذشتہ انبيا(ع) ء كے بشر ہونے كے بارے ميں مشركين مكہ كا تجاہل عارفانہ_فسئلوا أهل الذكر ان كنتم لا تعلمون

''ان كنتم لاتعلمون'' كى قيد مشركين كے علم كى طرف اشارہ ہے ورنہ اگر وہ واقعاً نہيں جانتے تھے تو مذكورہ قيد (اگر نہيں جانتے) كا لانا لغو اور بے سود ہوتا)

۱۳ _ مشركين مكہ كے نزديك دينى علماء اور آسمانى كتابوں كى اطلاع ركھنے والوں كا خاص معاشرتى مقام تھا_فسئلوا أهل الذكر

مشركين كو دينى علماء اور تاريخ انبيا(ع) ء سے واقف لوگوں كى طرف رجوع كرنے كا حكم دينا اس نكتے كو بيان كررہا ہے كہ مشركين كے درميان ان علماء كا خاص مقام تھا اور يہ ان لوگوں كى بات كو قبول كرتے تھے_

۱۴ _ دينى مسائل كے بارے ميں علماء كيلئے جاہلوں كے سوالوں كا جواب دينا ضرورى ہے_فسئلوا أهل الذكر

قابل ذكر ہے كہ اگر سوال واجب ہو تو جواب بھى واجب ہو ورنہ سوال كا واجب ہونا لغو اور بے

۲۹۷

فائدہ ہوگاكيونكہ اگر جواب واجب نہ ہو تو ممكن ہے سوال بغير جواب كے رہ جائے اور اس صورت ميں غرض حاصل نہيں ہوگى اور يہ خداوند حكيم سے دور ہے_

۱۵ _ علماء دين اور اہل خبرہ افراد كى بات كا حجت اور قابل اعتبار ہونافسئلوا أهل الذكر إن كنتم لا تعلمون

مذكورہ مطلب خداتعالى كے ،ناشناختہ مسائل ميں علماء كى طرف رجوع كرنے كے حكم كے لازمے سے استفادہ ہوتا ہے كيونكہ علماء كے اظہار نظر كے حجت اور قابل اعتبار ہونے كے بغير انكى طرف رجوع كو لازمى قرار دينا لغو ہوگا اور يہ خدا كے حكيم ہونے سے دور ہے_

۱۶ _'' قال رسول الله (ص) : لا ينبغى للعالم أن يسكت على علمه و لا ينبغى للجاهل ا ن يسكت على جهله و قد قال الله '' فسئلوا ا هل الذكر إن كنتم لا تعلمون'' ; رسول خدا(ص) نے فرمايا:كہ عالم كيلئے سزاوار نہيں ہے كہ وہ علم كے باوجود خاموش رہے (اور اسے چھپائے) اور جاہل كيلئے سزاوار نہيں ہے كہ جہل كے باوجود خاموش ر ہے (اور سوال نہ كرے) جبكہ خداتعالى نے فرمايا ہے''فسئلوا أهل الذكر إن كنتم لا تعلمون'' (۱)

انبياء (ع) :ان كا بشر ہونا ۱، ۳، ۸، ۹، ۱۲; انكى نوع ۱; انكا مرد ہونا ۱; انكا مقام و مرتبہ ۵; انكى بعثت كا سرچشمہ ۴; انكى دعوت كا سرچشمہ ۷; انكى طرف وحى ۵

اہل خبرہ:انكى بات كا حجت ہونا ۱۵

خيال:باطل خيال۲/جہلائ:انكى ذمہ دارى ۱۶/خداتعالى :اسكى دعوت ۸; اسكى سنت ۳; اس كا نقش و كردار ۴

دين:دينى سؤالوں كا جواب ۱۴/روايت ۱۶/عقيدہ:اعتقاد ى مسائل ميں جستجو ۱۱; اس ميں علم ۱۱

علمائ:ان سے سوال ۸; زمان بعثت كے علما ۱۰; انكى ذمہ دارى ۱۴

دينى علمائ:انكا احترام ۱۳; زمان بعثت كے دينى علما كى سوچ ۹; انكى بات كى حجيت ۱۵; صدر اسلام كے دينى علما ۱۳; انكى معاشرتى حيثيت ۱۳/مشركين:انكى سوچ ۲

مشركين مكہ:انكى سوچ ۱۳; انكا تجاہل عارفانہ ۱۲; انكو دعوت ۸

مؤرخين:زمان بعثت كے مؤرخين كى سوچ ۹; زمان بعثت كے مورخين ۱۰

____________________

۱ ) الدرالمنثور ج ۵، ص ۱۳۳

۲۹۸

نبوت:اس كى شرائط ۶; انسان كى نبوت كو جھٹلانے والے ۲

وحي:اس كا سرچشمہ۴; اس كا كردار ۷; يہ او رنبوت ۶

آیت ۸

( وَمَا جَعَلْنَاهُمْ جَسَداً لَّا يَأْكُلُونَ الطَّعَامَ وَمَا كَانُوا خَالِدِينَ )

اور ہم نے ان لوگوں كے لئے بھى كوئي ايسا جسم نہيں بنايا تھا جو كھانا نہ كھاتا ہو اور وہ بھى ہميشہ رہنے والے نہيں تھے (۸)

۱ _ ديگر انسانوں كى طرح انبيا(ع) ء كے بدن كو بھى غذا كى ضرورت ہے _و ما جعلنهم جسداً لا يأكلون الطعام

۲ _ انبيا(ع) ء اور ديگر لوگ جسمانى خصوصيات اور انسانى ضروريات كے لحاظ سے ايك جيسے ہيں _و ما جعلنهم جسداً لا يأكلون

۳ _ ديگر انسانوں كى طرح انبياء بھى دنيا ميں دائمى زندگى سے بہرہ مند نہيں تھے _و ما جعلنهم جسداً ما كانوا خلدين

۴ _ انبيا(ع) ء كا غذا سے بے نياز ہونا اور ان كا دنيا ميں زندہ و جاويد ہونا، مشركين كا باطل خيال_

و ما جعلنهم جسداً لا يأكلون الطعام و ما كانوا خلدين

۵ _ فانى ہونا اورخوراك كى احتياج، انسانى جسم كے عوارض ميں سے ہے _و ما جعلنهم جسداً لا يأكلون الطعام و ما كانوا خلدين

لفظ ''جسد'' كا استعمال اور پھر انبيا(ع) ء كى يہ توصيف كہ وہ بھى كھاتے اور موت كا شكار ہوتے ہيں اس نكتے كو بيان كررہا ہے كہ يہ دو صفتيں انبيا(ع) ء كے وجود كے جسمانى ہونے كے ساتھ مربوط ہيں كيونكہ يہ انسان كا جسم ہے جسے خوراك كى ضرورت ہے اور يہ فانى ہے نہ انسان كى روح_

۶ _ موت، ايسى حتمى تقدير ہے كہ جس سے حتى انبياء كا بھى

۲۹۹

چھٹكارا نہيں ہے _و ما كانوا خلدين

انبياء:ان كا انسان ہونا ۱، ۲، ۳; انكا دائمى ہونا ۴; ان كا طعام ۱، ۴; انكا انجام ۶; انكى موت ۳، ۶; انكى مادى ضروريات ۱، ۲

انسان:اسكے بدن كا فانى ہونا ۵; اسكى مادى ضروريات ۲، ۵

سوچ:باطل سوچ ۴

مشركين:انكى سوچ۴

ضروريات:غذا كى ضرورت ۱، ۵

آیت ۹

( ثُمَّ صَدَقْنَاهُمُ الْوَعْدَ فَأَنجَيْنَاهُمْ وَمَن نَّشَاء وَأَهْلَكْنَا الْمُسْرِفِينَ )

پھر ہم نے ان كے وعدہ كو سچ كر دكھايا اور انھيں اور ان كے ساتھ جن كو چاہا بچاليا اور زيادتى كرنے والوں كو تباہ و برباد كرديا (۹)

۱ _ انبيا(ع) ء اور مؤمنين كو دشمنوں سے نجات دينا اور انہيں ان پر كاميابى عطا كرنا،خداتعالى كا ان كے ساتھ وعدہ _

و ما ارسلنا قبلك إلّا رجالاً ثم صدقنهم الوعد فأنجينهم و من نشاء

۲ _ دشمنوں كى نابودي، خداتعالى كا انبيا(ع) ء اور مؤمنين كے ساتھ وعدہ _ثم صدقنهم الوعد و أهلكنا المسرفين

۳ _ خداتعالى نے انبيا(ع) ء و مؤمنين كو نجات دينے اور دشمنوں كو ہلاك كرنے والے اپنے وعدے پر عمل كيا _

ثم صدقنهم الوعد فأنجينهم و من نشاء و أهلكنا المسرفين

''صدقنا '' كا مصدر ''صدق'' دو چيزوں ميں استعمال ہوتا ہے _ ۱_ اعتقادات ميں اس صورت ميں اس كا معنى ہوتا ہے واقع كے مطابق اعتقاد _۲_ انسان كے اعمال كے بارے ميں اس صورت ميں اس سے مراد ہو تا ہے كام كو شائستہ

اور صحيح طريقے سے انجام دينا (مفردات راغب) اس آيت ميں دوسرا معنى مقصود ہے_ قابل ذكر ہے كہ مادہ ''صدق'' بعض موارد ميں دو مفعولوں كى طرف متعدى ہوتا ہے اور يہ آيت بھى انہيں ميں سے ہے_

۴ _ لوگوں كى دشمنوں سے نجات اور رہائي، خداتعالى كى مشيت كى مرہون منت ہے _فأنجيناهم و من نشاء

۵ _ اسراف كرنے والے، ابنيا(ع) ء كے مقابلے ميں انكے مخالفين كى صفوں ميں اور ان كے دشمن تھے_

فأنجيناهم

۳۰۰

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750