تفسير راہنما جلد ۱۱

تفسير راہنما 10%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 750

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 750 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 219168 / ڈاؤنلوڈ: 3021
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

ميں سوال اسكے باور نہ كرنے پر دلالت كرتا ہے كيونكہ وہ انہيں نابود اور مٹ جانے والى اقوام سمجھتا تھا_

۵ _ فرعون نے گذشتہ اقوام كے بارے ميں حضرت موسى (ع) سے سوال پوچھ كر انكى سخن كے مقابلے ميں اپنى بے بسى كو چھپانے كى كوشش كى _من ربكما ا لذى ا عطى كل شيء خلقه فما بال القرون الا ولى

ممكن ہے گذشتہ اقوام كے بارے ميں سوال كرنے كا مقصد صرف بحث كا رخ كسى نامشخص نقطے كى طرف موڑنا ہو_ حضرت موسى (ع) نے اس بحث ميں داخل نہ ہوكر فرعون كى اس كوشش كو نقش بر آب كرديا _

۶ _ فرعون نے گذشتہ اقوام كے افكار و عقائد كا سہارا لے كر حضرت موسى (ع) كا مقابلہ كرنے اور شرك كى حقانيت كو ثابت كرنے كى كوشش كى _قال فما بال القرون الا ولى

فرعون كا گذشتہ اقوام كے افكار سے تمسك كرنا اور يہ كہ اگر موسى (ع) كى رسالت حق ہوتى تو كيوں گذشتہ اقوام كيلئے ايسا رسول نہيں آيا اور وہ عذاب كا شكار نہيں ہوئيں بتاتا ہے كہ اسكى نظر ميں پہلى اقوام كے اعتقادات صحيح اور قابل پيروى ہيں _

۷ _ گذشتہ اقوام كى تاريخ اوراس كا تجزيہ و تحليل ،كفار اور معارف الہى كوباور نہ كرنے والوں كے ايمان و توحيد كے انكار اور رد كرنے كيلئے ايك بہانہ_قال فما بال القرون الا ولى

تاريخ:اس سے سو، استفادہ كرنا۷

توحيد:اسے جھٹلانے كے عوامل ۷

خدا تعالي:اسكے مشركين كے ساتھ سلوك كے بارے ميں سوال ۳_ اسكے عذابوں كو جھٹلانے والے۴

فرعون:اس كا سوال ۳_ ۴_ اسكى شبہہ انگيزى ۲_ اس كا شرك۲،۶;يہ اور گذشتہ اقوام كا عقيدہ ۶_ يہ اور موسى (ع) ۳، ۶_ اسكے سوال كا فلسفہ ۵ اس كا ذلت كو چھپانا ۵

قديم مصر:اسكى تاريخ ۱ _ اسكے مشركين۱

كفار:انكى بہانہ تراشى ۷

گذشتہ اقوام:انكے عذاب كے بارے ميں سوال ۴_ انكى تاريخ ۱; انكے مشركين ۲

موسى (ع) :ان سے سوال ۳، ۴، ۵_ انكا قصہ ۳، ۵، ۶_ انكا مقابلہ۶

۱۰۱

۱۰۷ سے ۱۱۵ تک

( قَالَ عِلْمُهَا عِندَ رَبِّي فِي كِتَابٍ لَّا يَضِلُّ رَبِّي وَلَا يَنسَى ) (٥٢)

( الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ مَهْداً وَسَلَكَ لَكُمْ فِيهَا سُبُلاً وَأَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجْنَا بِهِ أَزْوَاجاً مِّن نَّبَاتٍ شَتَّى ) (٥٣

( كُلُوا وَارْعَوْا أَنْعَامَكُمْ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِّأُوْلِي النُّهَى ) (٥٤)

( مِنْهَا خَلَقْنَاكُمْ وَفِيهَا نُعِيدُكُمْ وَمِنْهَا نُخْرِجُكُمْ تَارَةً أُخْرَى ) (٥٥)

( وَلَقَدْ أَرَيْنَاهُ آيَاتِنَا كُلَّهَا فَكَذَّبَ وَأَبَى ) (٥٦)

( قَالَ أَجِئْتَنَا لِتُخْرِجَنَا مِنْ أَرْضِنَا بِسِحْرِكَ يَا مُوسَى ) (٥٧)

( فَلَنَأْتِيَنَّكَ بِسِحْرٍ مِّثْلِهِ فَاجْعَلْ بَيْنَنَا وَبَيْنَكَ مَوْعِداً لَّا نُخْلِفُهُ نَحْنُ وَلَا أَنتَ مَكَاناً سُوًى ) (٥٨)

( قَالَ مَوْعِدُكُمْ يَوْمُ الزِّينَةِ وَأَن يُحْشَرَ النَّاسُ ضُحًى ) (٥٩)

( فَتَوَلَّى فِرْعَوْنُ فَجَمَعَ كَيْدَهُ ثُمَّ أَتَى ) (٦٠)

۱۰۲

آیت ۶۱

( قَالَ لَهُم مُّوسَى وَيْلَكُمْ لَا تَفْتَرُوا عَلَى اللَّهِ كَذِباً فَيُسْحِتَكُمْ بِعَذَابٍ وَقَدْ خَابَ مَنِ افْتَرَى )

موسى نے ان لوگوں سے كہا كہ تم پر وائے ہو اللہ پر افترا نہ كرو كہ وہ تم كو عذاب كے ذريعہ تباہ برباد كرديگا اور جس نے اس پر بہتان باندھا وہ يقينا رسوا ہوا ہے (۶۱)

۱ _ فرعون اور اس كے پيروكار، خداوند عالم پر افتراء باندھنے والے لوگوں ميں سے تھے_لا تفتروا على اللّه كذبا

۲ _ حضرت موسى (ع) كے معجزات كو شرك اورجادو قرار دينا، انكى مثل لانے كا دعوى اور آپ كى رسالت كو جھٹلانا خداتعالى پر فرعونيوں كى تہمتوں ميں سے _لاتفتروا على الله كذبا

گذشتہ آيات كہ جو حضرت موسى (ع) كى زبانى توحيد كے بيان، معجزات دكھانے اور فرعون كى طرف سے انہيں جادو قرار دينے والے عمل پر مشتمل تھيں كو مد نظر ركھتے ہوئے فرعونيوں كے تہمتوں كے بعض موارد كى طرف اشارہ كيا جاسكتا ہے_

۳ _ انبيا ء كے معجزات كو جادو قرار دينا،خداتعالى پر جھوٹ باندھنے كے مترادف ہے _لاتفتروا على الله كذبا

''افترا'' يعنى جھوٹ باندھنا اور ''على الله '' قرينہ ہے كہ اس سے مراد وہ جھوٹ ہے جوخداتعالى كے بارے ميں گھڑ ا اور باندھا گيا اور كلمہ ''كذباً'' تاكيد كيلئے ہے _

۴ _ خداتعالى پر بہتان باندھنے كى وجہ سے فرعونيوں كو عذاب سے ڈرانا ،فرعون كے جادوگروں كے ساتھ مقابلہ كے ميدان ميں حضرت موسى (ع) كا سرنامہ كلام_قال لهم موسى ويلكم لاتفتروا على الله كذباً فيسحتكم بعذاب

''ويل'' يعنى اندوہ، ہلاكت اور ہر وہ سختى جو عذاب كى وجہ سے آئے (لسان العرب) ''ويلكم'' نفرين ہے يعنى تم پر عذاب ہو بعض نے اسے فعل محذوف كا مفعول قرار ديا ہے يعني'' ا لزمو ويلكم'' (اپنے عذاب اور ہلاكت كے ہمراہ رہو) جملہ''فيسحتكم بعذاب''،''ويلكم'' كے معنى كوواضح كررہا ہے_

۵ _ خداتعالى پر بہتان باندھناد اور اسكے بارے ميں جھوٹى اور خود ساختہ باتيں كہنا،عظيم گناہ اورنابودى والے عذاب كے مستحق ہونے كا سبب ہے_لاتفتروا على الله كذباً فيسحتكم بعذاب

۱۰۳

''يسحتكم'' كے مصدر ''اسحات'' كا معنى ہے جڑ سے اكھاڑ پھينكنا اور نابود كردينا عذاب كے نكرہ ہونے كو مد نظر ركھتے ہوئے كہ جو اسكى شدت اور سختى پر دلالت كرتاہے''فيسحتكم بعذاب'' كا معنى يہ ہے كہ خدا سخت عذاب كے ذريعے تمہيں جڑ سے اكھاڑ پھينكے گا اورتمہيں ہلاك كرديگا _

۶ _ حضرت موسى (ع) كااپنے اور جادوگروں كا مقابلہ ديكھنے كيلئے مصر كے لوگوں كے اجتماع سے انہيں ڈرانے اور توحيد و ايمان كى دعوت دينے كيلئے استفادہ كرنا_قال لهم موسى ويلكم لاتفتروا على الله كذبا

۷ _ لوگوں كو عذاب الہى سے ڈرانا اور تبليغ كيلئے فرصت سے استفادہ كرنا،مبلغين دين كے فرائض ميں سے ہے _

قال ويلكم لاتفتروا بعذاب

۸ _ خداتعالى پر افترا پردازى اور جھوٹ باندھنے كا اس كے انجام دينے والے كيلئے كوئي فائدہ نہيں ہے_

لاتفتروا على الله كذباً و قد خاب من افترى

''خيب'' كا معنى ہے بے بہرہ اور محروم ہونا (قاموس) صدر آيہ كہ جس كا موضوع خداتعالى پر افترا باندھنا ہے_ كے قرينے سے اس سے مراد خدا تعالى كے بارے ميں نادرست باتيں اور جھوٹ بولنے والے كا محروم رہنا اور كوئي نتيجہ حاصل نہ كرنا ہے_

۹ _ دوسروں پر جھوٹ باندھنا اور افترا پردازى كرنا،ناروا اور بے نتيجہ كام ہے_وقد خاب من افترى

۱۰ _ حضرت موسى (ع) نے خداتعالى پر فرعونيوں كے بہتانوں كو ديكھتے ہوئے انہيں خبردار كيا اور انكى شكست اور ناكامى كى پيشين گوئي كى _ويلكم لاتفتروا على الله و قد خاب من افترى

۱۱ _ حضرت موسى (ع) نے سابقہ امتوں ميں سے بہتان باندھنے والوں كى ناكامى كى ياددہانى كرا كے اسے فرعونيوں كيلئے عبرت قرار ديا _و قد خاب من افترى

جملہ ''خاب ...'' گذشتہ لوگوں كے حال كے بارے ميں ايك خبر ہے اور اسے موسى (ع) ا ور فرعون كے ميدان مقابلہ ميں حاضر ہونے والوں كى عبرت كيلئے بيان كيا گياہے_

انبياء (ع) :ان پر جادو كى تہمت ۳

بہتان باندھنا:

۱۰۴

خدا پر بہتان باندھنے كے اثرات ۵; خدا پر بہتان باندھنا۳; خدا پر بہتان باندھنے كا بے اثر ہونا ۸; بہتان باندھنے كا برا انجام۹; خدا پر بہتان باندھنے كا گناہ ۵; بہان باندھنے كا ناپسند ہونا ۹

تبليغ:اس ميں فرصت ۶، ۷; اس ميں انذار ۷

توحيد:اسكى دعوت ۶/ڈرانا:عذاب سے ڈرانا ۴

خداتعالى پر بہتان باندھنے والے: ۱، ۲/انكو ڈرانا۴; ان سے عبرت حاصل كرنا ۱۱

عذاب :اسكے اسباب ۵/فرعون:اسكے بہتان ۱

فرعون كے پيروكار:انكے بہتان۱، ۲; انكو ڈرانا۴; انكى شكست كى پيشين گوئي ۱۰; انكى عبرت كے عوامل ۱۱

فرعون كے جادوگر:انكے ساتھ مناظرہ ۴/گذشتہ اقوام:ان سے عبرت حاصل كرنا ۱۱

گناہان كبيرہ: ۵/فرصت:اس سے استفادہ ۶

مبلغين:انكى ذمہ دارى ۷

موسى (ع) :انكا ڈرانا ۴، ۶، ۱۰; انكى پيشين گوئي ۱۰; انكى تعليمات ۱۱; ان پر جادو كى تہمت ۲; انكى دعوت ۶; انكى تبليغ كى روش ۶; انكا قصہ ۲، ۴، ۶، ۱۰، ۱۱; انكى نبوت كو جھٹلا نے والے ۲; انكى موُع شناسى ۶; انكے معجزہ كى مثل بنانا ۲

ہلاكت :اسكے عوامل ۵

آیت ۶۲

( فَتَنَازَعُوا أَمْرَهُم بَيْنَهُمْ وَأَسَرُّوا النَّجْوَى )

اس پر وہ لوگ آپس ميں جھگڑا كرنے لگے اور سرگوشيوں ميں مصروف ہوگئے (۶۲)

۱ _ مقابلہ كے ميدان ميں فرعونيوں كو حضرت موسى (ع) كا خبردار كرنا ان كے درميان اختلاف اور كشمكش كا سبب بنا _ويلكم لاتفتروا فتنزعوا ا مرهم بينهم

''فتنازعوا'' ميں ''فا'' اس نكتے پر دلالت كر رہى ہے كہ مقابلے كے ميدان ميں حضرت موسى (ع) كے خبردار كرنے كے فوراً بعد فرعونيوں كے درميان نزاع اور كشمكش ہونے لگى _

۲ _ فرعونيوں كى صفوں ميں بعض حق طلب اور نصيحت قبول كرنے والے افراد كا وجودفتنزعوا ا مرهم بينهم

حضرت موسى (ع) كے بارے ميں فرعونيوں كى رائے كا مختلف ہونا بتاتا ہے كہ مقابلے والے دن ان ميں سے بعض

۱۰۵

حضرت موسى (ع) كى طرف تمايل ركھتے تھے_

۳ _ اہم اور بنيادى امور طے كرنے كيلئے فرعونيوں كے درميان مشاورت ہوتى تھي_فتنزعوا ا مرهم بينهم

فرعونيوں كے درميان تنازع كھڑا ہونا بتاتا ہے كہ وہ اپنے آپ كو فرعون كا بے چون و چرا تابع نہيں سمجھتے تھے بلكہ اہم امور ميں اپنے لئے حق رائے كے قائل تھے_

۴ _ فرعون كے پيروكار حضرت موسى (ع) كے بارے ميں اپنے اختلاف نظر كو سختى كے ساتھ لوگوں سے پنہان كرتے تھے_فتنزعوا و اسرواالنجوي

''نجوا'' كا معنى ہے مخفى بات اور سرگوشى ''اسروا'' كا معنى بھى ہے ''انہوں نے پنہان كيا'' ''نجوا'' كو پنہان كرنا كہ جو خود بھى پنہان ہے فرعونيوں كى طرف سے حضرت موسى (ع) سے متعلق امور كو سختى كے ساتھ پنہان كرنے سے حكايت كرتا ہے_

۵ _ فرعونى لوگ،حضرت موسى (ع) كے بارے ميں اپنى مختلف آراء كو پنہان كر كے اپنى خفيہ باتوں تك لوگوں كو دسترسى حاصل كرنے سے روكتے تھے_فتنزعوا و اسروا النجوى

''النجوى '' ميں ''ال'' عہد ذكرى كا ہے كہ جو فرعونيوں كے درميان پيدا ہونے والے نزاع اور ان كے درميان ہونے والى مختلف باتوں كى طرف اشارہ ہے_ اور فعل '' ا سرّوا'' بتاتا ہے كہ اسے دوسروں سے مخفى كرتے اور كسى كو انكى اطلاع نہ ہونے ديتے تھے_

۶ _ فرعونيوں كى آپس ميں سرگوشياں اختلاف اور كشمكش كوختم كرنے اور اپنى صفوں ميں اتحاد قائم كرنے كيلئے تھيں _

فتنزعوا و ا سرّوا النجوي

۷ _ حضرت موسى (ع) كے مقابلے كے ضرورى ہونے پر فرعونيوں كے متفق ہونے كے باوجود اسكى روش كے بارے ميں ان كا اختلاف تھا_*فتنزعوا امرهم و اسرّوا

فعل ''اسرّوا'' سے اس بات كا استفادہ ہوتا ہے كہ طرفين نزاع اپنى گفتگو كے مخفى ہونے كے خواہان تھے اور جو كچھ لوگوں كو سركارى طور پر بتايا جاتا ''اگر بعد كى آيت كے مطالب وہ ہوں جو فرعونيوں كى طرف سے لوگوں كو بتائے جاتے تھے''_ وہ انكى مشترك باتيں ہوتيں تھيں جو وہ موسى (ع) كا مقابلہ كرنے اور انكى سرگرميوں كو روكنے

۱۰۶

كيلئے ان تك پہنچائي جاتيں _ كلمہ ''ا مرہم'' كہ جو نزاع كو فرعونيوں كے امور ميں قرار دے رہا ہے اسى نكتے كى تائيد كرتا ہے _

فرعون كے ساتھي:انكے انذار كے اثرات ۱; انكا اتحاد ۷; انكے اختلاف كا چھپانا ۴، ۵; انكا اختلاف ۷; انكے حق طلب لوگ ۲; انكے اختلاف كا پيش خيمہ ۱; انكے اختلاف كا حل ۶;انكى صفات ۳; انكى سرگوشى كا فلسفہ ۶; انكى مشاورت ۳; انكے نصيحت قبول كرنے والے ۲

موسى (ع) :انكے اندر ز كے اثرات ۱; انكے مقابلے كى روش ۷; انكا قصہ ۱، ۴، ۵، ۷

آیت ۶۳

( قَالُوا إِنْ هَذَانِ لَسَاحِرَانِ يُرِيدَانِ أَن يُخْرِجَاكُم مِّنْ أَرْضِكُم بِسِحْرِهِمَا وَيَذْهَبَا بِطَرِيقَتِكُمُ الْمُثْلَى )

ان لوگوں نے كہا كہ يہ دونوں جادوگر ہيں جو تم لوگوں كو اپنے جادو كے زور پر تمھارى سرزمين سے نكال دينا چاہتے ہيں اور تمھارے اچھے خاصے طريقہ كو مٹا دينا چاہتے ہيں (۶۳)

۱ _ حضرت موسى (ع) كى گفتگو كے بعد بعض فرعوني،آپ كى طرف متمايل ہونے كى وجہ سے فرعونيوں كے درميان تنازعہ كا باعث بن گئے_فتنزعوا قالوا إن هذن لسحرن

بعد والى آيت كا جملہ '' فاجمعوا كيدكم'' قرينہ ہے كہ ''قالوا'' كا فاعل فرعونيوں كا وہ گروہ ہے كہ جو اپنے ہى دوسرے گروہ كے ساتھ محو گفتگو ہوا پچھلى آيت بھى اس معنى كو صراحت كے ساتھ بيان كررہى ہے كہ فرعونيوں كے درميان تنازعہ كھڑا ہوگيا تھا يہ تنازعہ حضرت موسى كے بارے ميں تھا اور ''قالوا'' كا فاعل دوسرے گروہ كو سمجھانا چاہتا ہے_

۲ _ حضرت موسى (ع) كى طرف مائل ہونے والوں كو جذب كرنے اور انہيں اپنى سمت لانے كيلئے فرعونيوں نے پروپيگنڈا مہم شروع كى _فتنزعوا و ا سرّوا النجوى قالوا ان هذان لسحران

۳ _ موسى و ہارون كے ساحر ہونے پر زور دينا،فرعونيوں كى پروپيگنڈا مہم كا حصہ _قالوا إن هذان لسحران

حرف ''ان'' ''انَّ''كا مخفف ہے اور عمل نہيں كررہا ليكن يہ تاكيد كا معنى ديتا ہے _

۴ _ حضرت ہارون (ع) ، فرعون كے ساتھ مقابلے ميں موسى كے قدم بقدم اور موسى اور جادوگروں كے مقابلے كے ميدان ميں حاضر _إن هذن لسحران

۱۰۷

۵ _ موسى (ع) و ہارون(ع) پر جادو كے ذريعے قبطيوں كو مصر سے نكال باہر كرنے كى كوشش كرنے اور منصوبہ بنانے كا الزام، فرعونيوں كى طرف سے موسى (ع) كے خلاف پروپيگنڈا مہم كا حصہ تھا_

لسحران يريدان ان يخرجاكم من ا رضكم بسحرهم

۶ _ فرعونى لوگ (قبطي) سرزمين مصر كو اپنى ملكيت سمجھتے تھے _يخرجاكم من ا رضكم

۷ _ فرعونى اپنے آپ كو ايك نمونہ اور برتر راہ و روش كے حامل سمجھتے تھے _و يذهبا بطريقتكم المثلى

''طريقہ'' يعنى راہ و روش اور ''مثلى ''،''ا مثل'' كى مؤنث ہے يعنى حق كے زيادہ مشابہ اور خير و خوبى كے زيادہ نزديك (مفردات راغب)

۸ _ فرعونيوں نے موسى و ہارون كے خلاف پروپيگنڈے ميں انہيں اپنے نمونہ اور برتر راہ و روش كونابود كرنے والے متعارف كرايا _و يذهبا بطريقتكم المثلى

۹ _ فرعونيوں كا اپنى پروپيگنڈا مہم ميں قبطيوں كى وطن و سرزمين سے محبت اور قومى ومذہبى جذبات سے استفادہ كرنا_

يخرجاكم من ا رضكم بطريقتكم المثلى

۱۰ _ الزام تراشى اور اپنے دين اور طرز زندگى كى برترى كا دعوى ، دين انبياء او رحق كے رد عمل ميں استكبار كا شيوا _

إن هذن لسحرن بطريقتكم المثلى

۱۱ _ فرعون كے طرف دار اور دست و بازو، حضرت موسى (ع) كے بارے ميں و فرعون كى انہى باتوں اورنظريات كا تكرار اور پرچار كرتے تھے _ا جئتنا لتخرجنا من ا رضنا بسحرك لسحرن يريدان ا ن يخرجاكم

استكبار:اسكى حق دشمنى ۱۰; اس كا سلوك ۱۰

انبياء:انكے ساتھ سلوك ۱۰

پروپيگنڈا:اس ميں جذبات كو بھڑكانا ۹

تمايلات:موسى كى طرف تمايل ۱

سرزمين:سرزمين مصر كى مالكيت۶

فرعون:اسكے پروپيگنڈے كى روش ۱۱; فرعون اور موسى (ع) ۱۱; اسكے ساتھ مبارزت ۴

۱۰۸

فرعون كے پيروكار:انہيں مصر سے نكالنا ۵; انكا دعوى ۶; انكے دين كى برترى ۷; انكى سوچ ۷، ۸; انكا پروپيگنڈا۲; انكى توجيہ ۲; انكى تہمتيں ۳، ۵; انكے جذبات كو بھڑكانا ۹; انكے پروپيگنڈے كى روش ۳، ۵، ۹، ۱۱; انكے اختلاف كا پيش خيمہ ۱; يہ اور موسى ۱۱; انكى قوميت پرستى ۹; انكى طرز زندگى كو نابود كرنے والے ۸

فرعون كے جادوگر:انكا مقابلہ ۴

موسى (ع) :انكے سخن كے اثرات ۱; انكے خلاف پروپيگنڈا ،۳، ۵، ۸، ۹، ۱۱; ان پر جادو كى تہمت ۳، ۵; انكا قصہ ۱، ۲، ۳، ۴، ۵; انكا مقابلہ ۴; انكى تاثير ۸

ہارون (ع) :انكے خلاف پروپيگنڈا ۱، ۳، ۵، ۸، ۹; ان پر جادو كى تہمت ۳، ۵; انكا قصہ ۳، ۴، ۵; انكا مقابلہ ۴; انكى تاثير ۴،۸

آیت ۶۴

( فَأَجْمِعُوا كَيْدَكُمْ ثُمَّ ائْتُوا صَفّاً وَقَدْ أَفْلَحَ الْيَوْمَ مَنِ اسْتَعْلَى )

لہذا تم لوگ اپنى تدبيروں كو جمع كرو او رپرا باندھ كر ان كے مقابلہ پر آجاؤ جو آج كے دن غالب آجائے گا وہى كامياب كہا جائيگا (۶۴)

۱ _ فرعون كے مبلغين اور دست و بازو سب فرعونيوں كو موسى (ع) كے خلاف ہم فكري، اتحاد اور تمام حربوں كو استعمال كرنے كى دعوت ديتے تھے _فتنزعوا قالوا فاجمعوا كيدكم ثم ائتوا صف

گذشتہ آيات سے محسوس ہوتا ہے كہ حضرت موسى (ع) كى گفتگو كے بعد فرعونيوں كے درميان اختلافات پيدا ہوگئے (فتنازعوا ) اور فرعون كے حامى اور مبلغين دوسرے گروہ كو كہ جو موسى (ع) اور انكے ساتھ مقابلہ كرنے كے سلسلے ميں ترديد كا شكار ہوگيا تھا_

اپنى سمت لانے كى كوشش ميں تھے_ لگتا ہے ''اجمعوا'' كا بھى اسى گروہ كى طرف سے اپنى سابقہ گفتگو كے نتيجے كے طور پر اظہار كيا گيا ہے_

۲ _ حضرت موسى (ع) كى گفتگو كے بعد فرعونيوں كا اختلاف او رانتشار، ميدان مقابلہ ميں ان كيلئے ايك واقعى خطرہ اور ان كے مورچے كو كمزور كرنے كا باعث _ويلكم قالوا فاجمعوا كيدكم ثم ائتو صف

يہ سب آيات موسى (ع) كے مقابلے ميں اپنے اتحاد كو بچانے كيلئے فرعونيوں كى سخت كوشش سے حكايت كرتى ہيں اور دوسرى جہت سے اس خطرے كو بيان كرر ہى ہيں جو اختلاف كى وجہ سے ان كو لاحق ہوگيا تھا _

۱۰۹

۳ _ فرعونى حضرت موسى (ع) كے مقابلے ميں اپنے جادو اور پروگرام كے حيلہ اور مكر ہونے اور حقيقت سے خالى ہونے كے معترف تھے _فأجمعوا كيدكم

فرعونيوں كا اپنے كام اور جادو كے بارے ميں لفظ ''كيد'' كا استعمال بتاتا ہے كہ وہ خود اسكے حقيقت سے عارى اور جادو ہونے كا اعتراف كرتے تھے_اور اسے حضرت موسى (ع) كے مقابلے ميں صرف ايك حيلہ سمجھتے تھے _

۴ _ پورى توانائيوں ور خاص نظم و ہيبت كے ساتھ وارد ہونا،فرعونيوں كى طرف سے موسى كے مقابلے كيلئے ميدان ميں اپنى طاقت كامظاہرہ كرنے كيلئے تجويز_فأجمعوا كيدكم ثم ائتوا صفا

۵ _ فرعون كے جادوگروں كے حضرت موسى (ع) كے ساتھ مقابلے كا دن، فرعونيوں كى نظر ميں تقدير ساز دن تھا_

و قد ا فلح اليوم من استعلى ''فلاح'' كا معنى ہے كاميابى _فرعونيوں كى طرف سے اس بات كا اظہار گواہ ہے كہ وہ اس مقابلے كو زندگى اور موت كا مقابلہ اور اپنى تاريخ ميں ايك موڑ سمجھتے تھے _

۶ _ فرعونى اپنى نجات اور بقا كو ميدان مقابلہ ميں جادوگروں كے حضرت موسى (ع) پر غالب آنے كا مرہون منت سمجھتے تھے _و قد ا فلح اليوم من استعلى

۷ _ فرعونى اپنى باتھوں اور پروپيگنڈے ميں برتر اور بے رقيب جادو كو جادوگركے مقصد اور اسكے عقائد كى حقانيت كى علامت قرار ديتے تھے _و قد ا فلح اليوم من استعلى

حضرت موسى (ع) كے دعووں كو باطل كرنے كيلئے جادوگروں كو جمع كرنا بتاتا ہے كہ فرعونيوں كى نظر ميں جادوگر كى طاقت حق و باطل كا ميزان ہے _

۸ _ فرعونيوں نے دعوت موسى (ع) كے قبول كرنے كو انكے بے نظير جادو لانے پر قادر ہونے كے ساتھ مشروط كر ركھا تھا _و قد ا فلح اليوم من استعلى

اتحاد:اسكى دعوت ۱/ايمان:موسى پر ايمان لانے كى شرائط ۸

فرعون:اسكے مبلغين كى دعوتيں ۱; اسكے موسى كے ساتھ وعدے كا دن ۵

فرعون كے جادوگر :انكى كاميابى كے اثرات ۶

فرعونى :انكا اتحاد ۱; انكا اختلاف ۲; انكى حقانيت كا دعوى ۷;

۱۱۰

انكا اقرار ۳; انكى سوچ ۵، ۶، ۷; انكا جادو ۳، ۷; انكے مطالبات ۴، ۸; انكو دعوت ۱; انكا سلوك ۴; انكے پروپيگنڈے كى روش ۷; انكى شكست كا پيش خيمہ ۲; انكى نجات كا پيش خيمہ ۶; انكى قدرت نمائي ۴; انكا مكر ۳

موسى (ع) :انكى سخن كے اثرات ۲; انكے خلاف پروپيگنڈا ۱; انكے خلاف سازش ۱; ان سے جادو كا مطالبہ ۸; انكا قصہ ۱، ۲، ۴، ۵، ۶، ۸; انكے ساتھ مكر ۳

آیت ۶۵

( قَالُوا يَا مُوسَى إِمَّا أَن تُلْقِيَ وَإِمَّا أَن نَّكُونَ أَوَّلَ مَنْ أَلْقَى )

ان لوگوں نے كہا كہ موسى تم اپنے جادو كو پھينكو گے يا ہم لوگ پہل كريں (۶۵)

۱ _ ميدان مقابلہ اور موسى (ع) كے ساتھ مقابلے ميں فرعون كے جادوگروں نے آغاز كرنے والے كا تعين،حضرت موسى كے سپرد كيا _قالوا يا موسى إما ا ن تلقي ا لقى

۲ _ فرعون كے جادو گروں نے جادو دكھانے ميں پيش قدم ہونے كيلئے اپنى آمادگى كا اعلان كيا _

إما ا ن تلقى و إما ا ن نكون ا ول من القى

۳ _ فرعون كے جادو گر ميدان مقابلہ ميں حضرت موسى (ع) پر اپنى كاميابى سے مطمئن تھے_ا ما إن تلقى و ا ما إن نكون ا ول من ا لقى آغاز كرنے والے كے تعين كيلئے حضرت موسى (ع) كو پيشكش،جادوگروں كے اپنے كام اور اسكے نتيجے كے بارے ميں اطمينان يا كم از كم انكى جانب سے اسكے تظاہر كى حكايت كرتى ہے_

۴ _ ميدان مقابلہ ميں فرعون كے جادوگروں كى حضرت موسى (ع) كے ساتھ گفتگو اور سلوك آپكے ساتھ نرمى اور آپ كى نسبت اظہار ادب كے ساتھ تھا _ياموسى أن تلقى و إم آغاز كرنے والے كے انتخاب كا حضرت موسى كے حوالے كرنا اور اس سلسلے ميں اپنى رائے كو مسلط نہ كرنا جادوگروں كى طرف سے نرمى اور ادب كے اظہار سے خالى نہيں ہے_

۵ _ حضرت موسى (ع) كے معجزات پيش كرنے سے پہلے اپنا جادو دكھانا، فرعون كے جادوگروں كى خواہش _*

إما ا ن تلقى و إما ا ن نكون ا ول من القى

پيشكش كے دوسرے حصے ميں تعبير كا اختلاف اس بات كى حكايت كرتا ہے كہ جادوگر شروع كرنے كيلئے زيادہ خواہش ركھتے تھے اور اس طريقے سے اس كا اظہار كرتے تھے كيونكہ''ا ن

۱۱۱

نكون ...'' كى جگہ ''إما ا ن نلقى '' بھى كہ سكتے تھے _

۶ _ حضرت موسى (ع) كى طرف سے جادو پيش كئے جانے كى صورت ميں فرعون كے جادوگر انكى شكست كو حتمى سمجھ رہے تھے اور ميدان عمل ميں اپنے كو دنے كى ضرورت محسوس نہيں كرتے تھے_ *إما ا ن تلقى و إما ا ن نكون ا ول من ا لقى جادوگروں نے اختيار كى دو شقيں اس طرح بيان كيں كہ گويا اگر موسى (ع) اپنے جادو كو پيش كريں تو ان كا كام تمام ہوجائيگا اور ان كى ناتوانى سب كيلئے واضح ہوجائيگى اور صرف اس صورت ميں پہلى اور دوسرى بارے آئيگى جب وہ خود اسے شروع كريں اسلئے انہوں نے موسى (ع) كے بارے ميں ''ا ول من القى '' كى تعبير استعمال نہيں كى _

۷ _ فرعون كے زمانے ميں رائج جادو ايك خاص قسم اور زمين پر پھينكى ہوئي چيزوں كے اوپر جادو كى نمائش كى صورت ميں محدو د تھا _*إما ا ن تلقى و إما ا ن نكون ا ول من ا لقى

جادوگروں نے اپنے بيان ميں جو تعبير استعمال كى ہے (يا آپ پھينكيں يا پہلے ہم پھينكيں گے) ہوسكتا ہے اس بات سے حاكى ہو كہ كسى شخص كو كسى دوسرى قسم كے جادو كى توقع نہيں تھى رسيوں اور ڈنڈوں كا فراہم كرنا كہ جس پر بعد والى آيت دلالت كر رہى ہے اسى نكتے كو بيان كرتا ہے_

۸ _ فرعون كے جادوگروں نے حضرت موسى (ع) كے معجزے جيسے جادو كو نظر ميں ركھا ہوا تھا_ا ن تلقي من ا لقى

۹ _ حضرت موسى (ع) كے ساتھ مقابلے ميں فرعون كے جادوگر يك زبان، يك دل اور ايك دوسرى كے يار و مددگار تھے_

و إما أن نكون ا ول من ا لقى

''اول من القي'' كا سب جادوگروں پر صدق كرنا ان كے مشترك ہدف اور ايك روش سے حاكى ہے_

جادو:اسكى تاريخ ۷; فرعون كے زمانے ميں اسكى خصوصيات ۷

فرعون كے جادوگر:انكى تيارى ۲; انكا اتحاد ۹; انكا ادب ۴; انكا اطمينان ۳، ۶; انكى سوچ ۶; انكى پيشكش ۱; يہ اور موسى ۱، ۲، ۴، ۵; انكا جادو ۸; ان كا سلوك ۴; ان كے تمايلات ۵

موسى (ع) :انكى شكست كا اطمينان ۶; انكا قصہ ۱، ۲، ۳، ۴، ۵، ۶، ۸، ۹; ان كے ساتھ مبارزت ۹; انكا عصا و الا معجزہ ۸

۱۱۲

آیت ۶۶

( قَالَ بَلْ أَلْقُوا فَإِذَا حِبَالُهُمْ وَعِصِيُّهُمْ يُخَيَّلُ إِلَيْهِ مِن سِحْرِهِمْ أَنَّهَا تَسْعَى )

موسى نے كہا كہ نہيں تم ابتدا كرو ايك مرتبہ كيا ديكھا كہ ان كى رسياں اور لكڑياں جادو كى نباپر ايسى لگنے لگيں جيسے سب دوڑ رہى ہوں (۶۶)

۱ _ حضرت موسى (ع) نے مقابلے كا آغاز،فرعون كے جادوگروں كے سپرد كيا اور ان كى طرف سے كام كے آغازپر زور ديا _إما ا ن تلقي قال بل ا لقوا

۲ _ حضرت موسى (ع) كو مخالفين پر كاميابى كے سلسلے ميں خداتعالى كے وعدوں پر قوى اعتماد تھا _قال بل ا لقوا

گذشتہ آيات ميں خداتعالى نے حضرت موسى (ع) كو اطمينان دلايا كہ واقعات پر اسكى مكمل نظر ہے اور پريشانى كى ضرورت نہيں ہے( لاتخافا إننّى معكما ا سمع و ا ري) ميدان كارزار دشمن كے حوالے كرنا اورموسى كا خود تماشائي بن كر بيٹھ جانا آپ كے اس وعدہ پر مكمل اعتماد كا غماز ہے

۳ _ شبہہ كو باطل اور ختم كرنے كى تيارى كى خاطر ان كے بيان كرنے كا جائز ہونا_قال بل ا لقوا فإذا

حضرت موسى (ع) يہ كرسكتے تھے كہ آغاز كا انتخاب كر كے جادوگروں كى بساط ليپٹ ديتے اور انہيں بالكل اس كام كى اجازت ہى نہ ديتے ليكن انہوں نے جادوگروں كو اس لئے جادو كرنے كى اجازت دى تا كہ فرعون كى طرف سے ڈالا ہوا شبہہ (فلنا تينك ...)باطل كر كے اپنى حقانيت كا اظہار كرسكيں _ اس اجازت كا مطلب يہ ہے كہ شبہات كا جواب دينے كيلئے انہيں بيان كرنے كى اجازت دينا اشكال نہيں ركھتا بلكہ يہ مطلوب بھى ہے _

۴ _ حضرت موسى (ع) كى طرف سے اجازت ملتے ہى فرعون كے جادوگروں نے اپنے جادو كے آلات كو كام ميں لاتے ہوئے اپنے جادو كا آغاز كرديا _قال بل القوا فاذا

''فإذا'' ميں ''فائ'' فصيحہ اور محذوف و مقدر جملوں كو بيان كر رہى ہے حرف ''اذا'' مفاجات كيلئے ہے اور جادوگروں كے عمل كى سرعت كى حكايت كر رہا ہے اس طرح آيت كريمہ كا معنى يہ ہے '' موسى (ع) نے كہا تم اپنا جادو پيش كرو اور انہوں نے اپنا جادو دكھايا كہ اچانك انكى رسياں اور ...''

۱۱۳

۵ _ رسياں اور ڈنڈے، فرعون كے جادوگروں كے كام كے آلات _فإذا حبالهم و عصيهم

(''حبال'' كے مفرد) حبل كا معنى ہے رسى اور (''عصّي'' كے مفرد) عصا كا معنى ہے لكڑى كا ڈنڈا _

۶ _ فرعون كے جادوگروں نے اپنے جادو كے ساتھ يوں اظہار كيا كہ انكى رسياں اور ڈنڈے ہر طرف بھاگتے اور حركت كرتے ہيں _فإذا حبالهم و عصيهم يخيل إليه من سحرهم ا نها تسعى

''ا نہا تسعى ''،''يخيل'' كا نائب فاعل ہے اور فعل ''يخيل إليہ'' دلالت كر رہا ہے كہ در حقيقت رسياں اور ڈنڈے بے حركت تھے نہ يہ كہ ان پر ايسا مادہ لگا ہوا تھا كہ ان پر دھوپ پڑنے كى وجہ سے وہ واقعا حركت كرنے لگے ہوں _

۷ _ فرعون كے جادوگروں كے جادو كا لوگوں كے ادراك كرنے والے قوتوں پر اثر ہوا اور اس نے ان ميں تخيل اور توہم پيدا كرديا _يخيل إليه من سحرهم ا نها تسعى

''يخيل إليہ'' يعنى وہم و خيال نے موسى كيلئے يوں اظہار كيا كہ رسياں اور ڈنڈے حركت كررہے ہيں _ ضمير ''إليہ'' كا مرجع اگر چہ موسى (ع) ہيں ليكن واضح ہے كہ ميدان كارزار ميں موجود سب لوگ ايسا محسوس كر رہے تھے _

۸ _ جادو كاادراك كرنے والى قوتوں اور خيالى قوت پر اثر ہوتا ہے_يخيل إليه من سحرهم

۹ _ فرعون كے جادوگروں نے موسى (ع) كے مقابلے كے ميدان ميں حاضر ہونے سے پہلے بہت سارى رسيوں اور ڈنڈوں كا انتظام كر ركھا تھا_فإذا حبالهم وعصيهم

۱۰ _ جادو، اشيا كى حقيقت كو تبديل نہيں كرتا _يخيل إليه من سحرهم أنها تسعى

۱۱ _ حضرت موسى (ع) كى خيالى قوت اور نقطہ نظر بھى فرعون كے جادوگروں كے جادو سے متا ثر ہوگيا _

يخيل إليه من سحرهم ا نها تسعى

۱۲ _ انبياء الہى كى قوت و ہم و خيال پر جادو كے اثر كا امكان _يخيل اليه من سحرهم

انسان كى نظر ميں كسى چيز كو اسكى حقيقى شكل و صورت سے مختلف صورت ميں پيش كرنا (جيسے موج والے پانى ميں پڑى ہوئي لكڑى كا ٹوٹى ہوئي محسوس ہونا) اس كى حقيقت كى شناخت سے مانع نہيں ہے تا كہ يہ انسان كے درك و فہم كا نقص شمار ہو اور نبوت كے منافى ہو _

ادراك:

۱۱۴

ادراك كرنے والى قوتوں پر جادو كا اثر ۸

انبياء (ع) :ان پر جادو كا اثر ۱۲//جادو:اسكے اثرات ۱۰; اسكے نفسيانى اثرات۸

خداتعالى :اسكے وعدے ۲//شبہہ:اسے دور كرنے كى روش ۳

فرعون كے جادوگر :۷

ان كے جادو كے اثرات ۱۱; انكے آلات ۵، ۹; انكا جادو ۴، ۶; انكے جادو كى خيال انگيزى ۷; انكى رسياں ۵، ۶، ۹; انكے ڈنڈے ۵، ۶، ۹

موسى (ع) :انكى اجازت ۴; انكا اطمينان ۲; ان ميں جادو كى تا ثير ۱۱; انكا قصہ ۱، ۴، ۶، ۹، ۱۱; يہ اور فرعون كے جادوگر ۱; انكى كاميابى كا وعدہ ۲

تو موسى نے اپنے دل ميں (قوم كى گمراہى كا )

آیت ۶۷

( فَأَوْجَسَ فِي نَفْسِهِ خِيفَةً مُّوسَى )

خوف محسوس كيا (۶۷)

۱ _ فرعون كے جادوگروں كا جادو ديكھنے كے بعد،حضرت موسى (ع) كو اسكے ممكنہ اثرات كى وجہ سے اپنے دل ميں پريشانى ہوئي _من سحرهم فا وجس فى نفسه خيفة موسى

''ا وجس'' كا معنى ہے ''ا حسّ'' نيز يہ ''ا ضمر'' (مخفى كيا) كے معنى ميں بھى آيا ہے (لسان العرب) اس آيت ميں ''احسّ'' كا معنى زيادہ مناسب لگ رہا ہے كيونكہ ''اخفا'' كا معنى ''فى نفسہ'' ميں آگيا ہے پس ''ا وجس فى نفسه '' يعنى موسى نے اپنے دل ميں خوف اورپريشانى كا احساس كيا_

۲ _ جادوگروں كے جادو كے نتائج سے حضرت موسى (ع) كى پريشانى فقط ان كے دل ميں تھى اور بالكل ظاہر نہ ہوئي _

فا وجس فى نفسه خيفة موسى

۳ _ فرعون كے جادوگروں كى طرف سے پيش كيا گيا جادو جاذب نظر اور گمراہ كنندہ تھا _فا وجس فى نفسه خيفة موسى

''خيفة'' ايك قسم كے خوف اور پريشانى كے معنى ميں ہے_ فرعون كے جادوگروں كے جادو كے بعد موسى (ع) كو يہ پريشانى لاحق ہونا ان كے كام كے

۱۱۵

جاذب نظر اور ماہرانہ ہونے سے حكايت كرتا ہے_ اس طرح كہ حضرت موسى (ع) لوگوں كے دھوكہ كھانے كو واضح طور پر ديكھ رہے تھے_

۴ _ غلط پروپيگنڈے كے نيتجے ميں لوگوں كے گرويدہ ہونے اور ان پر حق و باطل كے مشتبہ ہونے سے پريشان ہونا ايك ممكن امر اور اچھا خوف ہے_فا وجس فى نفسه خيفة موسى

بعدوالى آيت ميں نہى حضرت موسى (ع) كو انكى پريشانى كى وجہ سے منع نہيں كر رہى بلكہ جملہ ''إنك ا نت الا على '' اس كام كے انجام اور يہ كہ كاميابى موسى كو ہوگى كے بارے ميں خبر دے رہى ہے اور موسى (ع) كى پريشانى كو زائل كررہى ہے_

۵ _ انبياء كے اندر عام انسانوں كى نفسيات اور حالات كا وجود_فا وجس فى نفسه خيفة موسى

۶ _عن اميرالمؤمنين(ع):لم يوجس موسى (ع) خيفة على نفسه بل أشفق من غلبة الجهال و دْوَل الضلال; اميرالمؤمنين(ع) سے روايت كى گئي ہے موسى كو اپنى جان كا خطرہ نہيں تھا بلكہ انہيں خوف تھا كہ مبادا جہال اور گمراہ حكومتيں غالب آجائيں(۱)

انبياء:ان كا انسان ہونا ۵

پريشاني:پسنديدہ پريشانى ۴

خوف:پسنديدہ خوف ۴

روايت : ۶

عوام:انكى گمراہى كا خوف ۴

فرعون كے جادوگر:اسكے جادو كے اثرات ۱; انكے جادو كے جاذب ہونا ۳

فرعوني:

انكى كاميابى كا خوف ۶

موسى (ع) :

انكى پريشانى كا پنہان ہونا ۲; انكى پريشانى كے عوامل ۱; انكے خوف كا فلسفہ ۶; انكا قصہ ۱، ۲، ۳، ۶

____________________

۱ ) نہج البلاغہ خطبہ ۴ حصہ پنجم _ نورالثقلين ج۳ ص ۳۸۴ ح ۱۲_

۱۱۶

آیت ۶۸

( قُلْنَا لَا تَخَفْ إِنَّكَ أَنتَ الْأَعْلَى )

ہم نے كہا كہ موسى دڑو نہيں تم بہرحال غالب رہنے والے ہو (۶۸)

۱ _ مضبوط دل ركھنا اور فرعون كے جادوگروں كے جادو كے اثرات سے پريشان نہ ہونا جادوگروں كے ساتھ مقابلے كے ميدان ميں حضرت موسى (ع) كى طرف خداتعالى كى وحى كا محتوا_فأوجس قلنا لا تخف

۲ _ خداتعالى نے حضرت موسى (ع) كو جادوگروں كے ساتھ مقابلے كے ميدان ميں اپنى يقينى كاميابى سے آگاہ كركے ان كا دل مضبوط كيا اور انہيں اطمينان بخشا _قلنا لا تخف إنك ا نت الا على

۳ _ حضرت موسى (ع) كو شكوك و شبہات پيدا كرنے اور جادوگروں كے جادو سے لوگوں كى گمراہى كے احتمال كى وجہ سے پريشانى تھي_قلنا لا تخف إنك ا نت الا على

جملہ''إنك ا نت الا علي''،''لاتخف'' كى علت ہے اور دلالت كر رہا ہے كہ حضرت موسى (ع) اس بات سے پريشان تھے كہ كہيں ان كا معجزہ جادوگروں كے جادو كے ساتھ مشتبہ نہ ہوجائے اور لوگ ان كى حقانيت تك نہ پہنچ سكيں خداتعالى نے انكى قطعى برترى كو بيان كر كے انكے خوف كى وجہ كو ختم كرديا _

۴ _ خداتعالى ،حساس اور تقدير ساز لمحات ميں موسى كا رہنما اور انہيں نفسياتى بحرانوں اور ذہنى اضطراب سے نجات دينے والا _قلنا لا تخف

۵ _ خداتعالى نے حضرت موسى (ع) كو اطمينان دلايا كہ ميدان مقابلہ ميں موجود سب جادوگروں سے انكى توان زيادہ ہے اور ان كا مقام،فرعون اور فرعونيوں سے بلند ہے_إنك ا نت الا على

بنى اسرائيل:انكى گمراہى سے پريشانى ۳

۱۱۷

خداتعالى :اس كا علم غيب ۳; اس كا نجات دينا ۴

فرعون:اسكى كمزورى ۵

فرعون كے جادوگر:انكے جادو كے اثرات ۱، ۳

فرعونى :انكى كمزورى ۵

موسى (ع) :انكى برترى ۵; انكو تسلى ۵; انكا خوف دور كرنا ۱; انكى پريشانى كے عوامل ۳; انكا قصہ ۱، ۳، ۵; انكا مقام و مرتبہ ۵; انكے اطمينان كا سرچشمہ ۲; انكا اضطراب ختم كرنے كا سرچشمہ ۴; انكى نجات كا سرچشمہ ۴; انكى كاميابى ۲; انكى طرف وحى ۱; انكى ہدايت ۴

آیت ۶۹

( وَأَلْقِ مَا فِي يَمِينِكَ تَلْقَفْ مَا صَنَعُوا إِنَّمَا صَنَعُوا كَيْدُ سَاحِرٍ وَلَا يُفْلِحُ السَّاحِرُ حَيْثُ أَتَى )

اور جو كچھ تمھارے ہاتھ ميں ہے اسے ڈال دو يہ ان كے سارے كئے دھر ے كو چن لے گا ان لوگوں نے جو كچھ كيا ہے وہ صرف جادوگر كى چال ہے اور بس اور جادوگر جہاں بھى جائے كبھى كامياب نہيں ہوسكتا (۶۹)

۱ _ فرعون كے جادوگروں كا جادو پيش ہونے كے بعد خداتعالى نے حضرت موسى (ع) كو اپنا ڈنڈا زمين پر پھينكنے كا حكم ديا _و ا لق ما فى يمينك

''ما فى يمينك'' سے مراد حضرت موسى (ع) كا ڈنڈا ہے كہ جو گذشتہ آيات ميں ''ما تلك بيمينك''كے جواب ميں حضرت موسى (ع) كى زبانى بيان ہوچكا ہے_ اس بات كى تصريح نے حضرت موسى (ع) كيلئے اس سوال و جواب كى ياد تازہ كردى اور ان كيلئے زيادہ اطمينان كاموجب بنى _

۲ _ حضرت موسى (ع) كے ڈنڈے كے ذريعے فرعون كے جادوگروں كے جادو كا نگلا جانا اور انكى خودساختہ چيزوں كا باطل ہوجانا، خداتعالى كا حضرت موسى (ع) كے ساتھ وعدہ _و ا لق ما فى يمينك تلقف ما صنعوا

۳ _ جادوگروں كے ساتھ مقابلے كے ميدان ميں حضرت موسى (ع) كا ڈنڈا ان كے دائيں ہاتھ ميں تھا _

و ا لق ما فى يمينك

۴ _ ڈنڈا پكڑنے كے آداب ميں سے ہے اسے دائيں ہاتھ ميں پكڑاجائے _و ا لق ما فى يمينك

انبيا كے كام اور انكى سنتيں _ سوائے ان كے مخصوص شخصى موارد كے سب كے سب ہمارے لئے قابل پيروى ہيں

۱۱۸

ڈنڈے كا حضرت موسى (ع) كے دائيں ہاتھ ميں ہونا اور پھر اس كا قرآن ميں مذكور ہونا اس كام كى برترى اور فضيلت كى دليل ہے

۵ _ جادو، جادوگر كا حيلہ اور مكر ہے اوريہ واقعيات كو تبديل نہيں كرتا_إنما صنعوا كيد سحر

۶ _ خداتعالى نے فرعون كے سب جادوگروں كى طرف سے پيش كئے گئے جادو كے ايك جيسا ہونے كو بيان كر كے موسى (ع) كيلئے اس كے ابطال كو آسان ظاہر كيا _كيد سحر ''ساحر''نكرہ اور وحدت پر دلالت كرنا ہے يعنى ايك جادوگر اور اس سے مراد حقيقى واحد نہيں ہے بلكہ مراد يہ ہے كہ سب جادوگروں كا مكر و حيلہ ايك نوعيت كا اور ايك جيسا ہونے كى وجہ سے ايك جادوگر كے حيلے كے مترادف ہے اور جادوگروں كى كثرت سے اس كى پيچيدگى ميں اضافہ نہيں ہوا_

۷ _ حضرت موسى كے ڈنڈے كے ذريعے جادوگروں كے جادو كا نگلاجانا جادو كے بطلان اور موسى (ع) كے معجزے كى حقانيت كى نشانى ہے_و ا لق مافى يمينك تلقف ما صنعوا إنما صنعوا كيد سحر

جملہ ''إنما صنعوا ...''،''تلقف'' كى علت ہے يعنى چونكہ جادو محض ايك مكر ہے اسلئے حضرت موسى كے اعجاز كى حقيقت كے سامنے نابود ہوجائيگا يوں جادوگروں كے جادو كا بطلان اور معجزے كى حقانيت ثابت ہوجائيگي_

۸ _ جادوگروں كيلئے كاميابى كا راستہ بند ہے _و لايفلح الساحر حيث ا تى

''الساحر'' كا ''اَل'' جنس كيلئے ہے اور ''حيث ا تي'' يعنى ''حيث ا قبل'' (يعنى جہاں بھى آئے) _

۹ _ جادو ايك ناجايز كام ہے اور اس سے پرہيز كرنا ضرورى ہے_كيد سحر و لايفلح الساحر حيث ا تى

جادو كا مكر ہونا اور اسكى كاميابى كے راستے كا بند ہونا كہ جو اس آيت ميں بيان ہوا ہے_ اس كے غيرمشروع اور ناجائز ہونے كيلئے كافى ہے_

۱۰ _ جادو ايك بے قدر و قيمت عمل ہے اور جادوگر كى جگہ كا تبديل كرنا اسكے ثمر بخش ہونے ميں اثر نہيں ركھتا_

و لايفلح الساحر حيث ا تى

۱۱ _عن رسول اللّه (ص) قال:إذا أخذتم الساحر فاقتلوه ثم قرأ''لا يفلح الساحر حيث أتى ''لا يأمن وجد; پيغمبر اكرم(ص) سے روايت ہے كہ آپ نے فرمايا جہاں بھى جادوگر آپ كے ہاتھ آجائے اسے قتل كردو پھر آپ نے اس آيت كى تلاوت فرمائي ''لايفلح الساحر حيث اتي'' (پھر) فرمايا جادوگر جہاں بھى مل جائے امان ميں نہيں ہے _(۱)

____________________

۱ )الدر المنثور ج ۵ ص ۵۸۶

۱۱۹

احكام :۹

جادو:اسكے احكام ۹; اس سے اجتناب كى اہميت ۹; اس كا بے قدر و قيمت ہونا ۱۰; اسكى حرمت ۹; اس كاكردار و تاثير ۵; اس ميں جگہ كا كردار ۱۰

جادوگر:انكى شكست ۸; انكا قتل ۱۱; انكا مكر ۵; انكى ناامنى ۱۱خداتعالى اسكے اوامر ۱; اسكے وعدے ۲

ڈنڈا:اسكے آداب ۴

روايت :۱۱

فرعون كے جادوگر:انكے جادو كا باطل كرنا ۲، ۷; انكے جادو كے بطلان كے دلائل ۷; انكے جادو كے باطل كرنے كا آسان ہونا ۶

محرمات: ۹

موسى (ع) :انكے ڈنڈے كا پھينكنا۱; انكا داہنا ہاتھ ۳; انكے معجزے كى حقانيت كے دلائل ۷; انكا ڈنڈا ۳; انكا قصہ ۱، ۲، ۳، ۶; انكے ڈنڈے كا كردار ۲; انكے ساتھ وعدہ ۲

ہاتھ:دائيں ہاتھ كا كردار ۴

آیت ۸۰

( فَأُلْقِيَ السَّحَرَةُ سُجَّداً قَالُوا آمَنَّا بِرَبِّ هَارُونَ وَمُوسَى )

يہ ديكھ كر سارے جادوگر سجدہ ميں گر پڑے اور آوازدى كہ ہم موسى اور ہارون كے پروردگار پر ايمان لے آئے (۷۰)

۱ _ حضرت موسى كے اعجاز سے انكا ڈنڈا فرعون كے جادوگروں كے جادو كے تمام وسائل (رسيوں اورڈنڈوں ) كو نگل گيا _تلقف ماصنعوا فألقى السحرة

''فألقي''كى ''فا'' فصيحہ اور محذوف جملوں سے حاكى ہے تقديرات كے ساتھ آيت كريمہ كا معنى يہ ہے موسى نے اپنا ڈنڈا پھينكا اور ڈنڈا جادو كے آلات كو نگل گيا اس وقت جادوگر سجدے ميں گرگئے _

۲ _ جادوگر، حضرت موسى (ع) كا معجزہ اور اسكے ذريعے اپنے جادو كے نگلے جانے كو ديكھ كر خداتعالى كے سامنے سجدے ميں گرگئے_فا لقى السحرة سجد

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

۲ _ خدائے يكتا كى پرستش ايسا راستہ ہے جو خدا كى طرف جاتا ہے اور لقاء الله پر جاكر ختم ہوتا ہے_و يصدون عن سبيل الله ''سبيل الله '' يعنى راہ خدا_ اور راہ خدا سے مراد ہوسكتا ہے وہ راہ ہو كہ جسے خداتعالى نے اہل ايمان كيلئے تعيين اور ترسيم كيا ہے اور ہوسكتا ہے اس سے مراد وہ راستہ ہو جو خدا كى طرف جاتا ہے اور اس تك پہنچتا ہے_

مذكورہ مطلب دوسرے معنى كى بنياد پر ہے_

۳ _ صدر اسلام كے مشركين كى طرف سے مسلمانوں كو مسجد الحرام كى زيارت اور عبادت خدا كى رسومات انجام دينے سے ممانعت_إن الذين كفروا و يصدون عن سبيل الله و المسجد الحرام (''يصدون'' كے مصدر) ''صدّ'' كا معنى ہے روكنا اور منع كرنا اور ''يصدون'' كا مفعول محذوف ہے اور يہ در اصل يوں ہے ''يصدون الذين آمنوا )

۴ _ بارگاہ خداوندى ميں كعبہ بڑى عزت اور تقدس كا حامل ہے_و يصدون عن سبيل الله و المسجد الحرام

لوگوں كو مسجد الحرام كى زيارت سے منع كرنے كى وجہ سے كفار كو دوزخ كے عذاب كے دھمكى مذكورہ مطلب كو بيان كررہى ہے_

۵ _ حجاج كو مسجد الحرام ميں داخل ہونے سے منع كرنا لوگوں كو راہ خدا سے روكنے كا واضح نمونہ ہے_و يصدون عن سبيل الله و المسجد الحرام ''سبيل الله '' سے مراد_ جيسا كہ پہلے بتاچكے ہيں _ خدائے يكتا كى عبادت ہے_ اس چيز كى بناپر اور اس چيز كو مدنظر ركھتے ہوئے كہ مؤمنين كى طرف سے مسجدالحرام كى زيارت اور اسكے خاص اعمال (طواف، سعى و غيرہ) كو انجام دينا عبادت خدا كے مصداق شمار ہوتے ہيں اسے ''سبيل الله '' كے بعد ذكر كرنا ہوسكتا ہے اس معنى ميں ہوكہ زائرين كو مسجدالحرام ميں داخل ہونے سے روكنا راہ خدا سے روكنے كے واضح مصاديق ميں سے ہے_

۶ _ مسجدالحرام سب خداپرستوں كيلئے ہے اور كسى خاص گروہ كو يہ حق نہيں ہے كہ وہ لوگوں كو اسكى زيارت سے محروم كرے_الذى جعلنا للناس

۷ _ سب مسلمان (اہل مكہ اور ديگر اطراف اور ممالك كے) مسجدالحرام كے سلسلے ميں مساوى حق ركھتے ہيں _الذى جعلنه للناس سواء العاكف فيه و الباد ''سوائ'' بمعنى ''مستوي'' اور ''الناس'' كيلئے حال ہے اور ''عاكف'' كا معنى ہے مقيم (يعنى اہل مكہ) ''بادي'' يعنى اہل باديہ اور اس سے مراد وہ لوگ ہيں كہ جو مكہ سے باہر ديگر سرزمينوں ميں رہتے ہيں يعنى ہم نے مسجدالحرام كو سب لوگوں كيلئے خلق

۵۰۱

كيا ہے _ اور اس سے بہرہ مند ہونے ميں مكى اور ديگر سرزمين كے لوگوں كے درميان كوئي فرق نہيں ہے ا ور كسى كو دوسرے پر برترى حاصل نہيں ہے_

۸ _ حجاج كو مكہ ميں داخل ہونے سے منع كرنا ان كے اس حق كى نسبت تجاوز ہے كہ جو خدانے ان كيلئے قرار ديا ہے_

و يصدون الذى جعلنه للناس

۹ _ اہل مكہ دوسروں كو مسجدالحرام كى زيارت سے روكنے كا حق نہيں ركھتے_الذى جعلنه للناس سواء العاكف فيه و الباد

۱۰ _ حج اور مسجدالحرام كى زيارت جزيرة العرب كے لوگوں كے درميان رائج رسومات_سواء العاكف فيه والباد

۱۱ _ ''مسجدالحرام'' جزيرة العرب كے لوگوں كے درميان ايك رائج اور جانا پہچانانام_و المسجد الحرام الذى جعلنه للناس

۱۲ _ مسجدالحرام كے احاطے ميں حق سے ہر قسم كے انحراف اور دوسروں كے حقوق كى نسبت تجاوز كا ممنوع ہونا_

و من يرد فيه إيلحاد بظلم نذقه من عذاب أليم ''الحاد'' كا معنى ہے انحراف اور كج روى ''الحاد'' اور ''ظلم'' كے نكرہ ہونے سے معلوم ہوتا ہے كہ مسجدالحرام اور اسكى حدود ميں لوگوں كا مكمل طور پر امن اور سكون ميں ہونا ضرورى ہے اور اس سلسلے ميں ذرہ برابر انحراف اور دوسروں كے حقوق كى نسبت تجاوز سے چشم پوشى نہيں كى جائيگي_

۱۳ _ ضرورى ہے كہ مكہ (مسجدالحرام اور اس كى حدود) سب لوگوں كيلئے امن كى جگہ ہو_سوا العاكف فيه والباد

۱۴ _ مسجدالحرام كى حدود ميں حق سے انحراف اور دوسروں كے حقوق كى نسبت تجاوز بہت بڑا گناہ ہے اور كج روى كرنے والے ا ور ستم گر لوگ سخت دنيوى سزا كے منتظر رہيں _و من يردفيه إيلحاد بظلم نذقه من عذاب أليم

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''عذاب اليم'' سے مراد دنيوى سزا بھى ہو_

۱۵ _ دوزخ كا دردناك عذاب، مسجد الحرام كى حدود ميں حق سے ہر قسم كے انحراف اور دوسروں كے حقوق كى نسبت تجاوز كى سزا_

و من يرد فيه إيلحاد بظلم نذقه من عذاب أليم

۱۶ _ حضرت علي(ع) سے روايت ہے كہ رسول خدا(ص) نے اہل مكہ كو اپنے گھر كو كرائے پر دينے اور انہيں دروازے

۵۰۲

لگانے سے منع كرتے ہوئے فرمايا''سوآء العاكف فيه و الباد'' (۱)

۱۷ _ ابوالصباح كنانى كہتے ہيں ميں نے خداتعالى كے فرمان ''و من يرد فيہ إےلحاد بظلم نذقہ من عذاب أليم'' كے بارے ميں سوال كيا تو آپ(ع) نے فرمايا ہر ظلم جوكوئي شخص مكہ ميں اپنے اوپر كرے چاہے وہ چورى ہو يا كسى دوسرے پر ظلم يا ہر قسم كا ستم ميں اسے الحاد اور انحراف سمجھتا ہوں(۲)

۱۸ _ امام صادق(ع) سے خداتعالى كے فرمان''و من يرد فيه إيلحاد بظلم'' كے بارے ميں روايت كى گئي ہے كہ آپ(ع) نے فرمايا جو شخص مكہ ميں غيرخدا كى پرستش كرے يا اولياء خدا كے غير كى ولايت كو قبول كرے تو اس نے''إلحاد بظلم'' كيا ہے(۳)

اسلام:صد راسلام كى تاريخ ۳، ۱۶الحاد :۱۸انحراف:اسكى سزا ،۱۵; اس كا گناہ ۱۴

آنحضرت (ص) :آپ(ص) كے نواہى ۱۶

توحيد:توحيد عبادى كا انجام ۲عرب:انكى رسومات ۱۰

جزيرة العرب:اسكے لوگ اور حج ۱۰; اسكے لوگ اور مسجد الحرام ۱۱

جہنم:اسكے اسباب ۱، ۱۵حجاج:ان كے حقوق كى نسبت تجاوز ۸

حج:اسكى تاريخ ۱۰خود:خود پر ظلم ۱۷

روايت ۱۶، ۱۷، ۱۸

سبيل الله :اس سے روكنا ۵

چلنا:

____________________

۱ ) قرب الا سناد ۱۰۸ ح ۳۷۲_ تفسير برہان ج ۳ ص ۸۴ ح ۸_

۲ ) كافى ج ۴ ص ۲۲۷ ح ۳_ نورالثقلين ج ۳ ص ۴۸۳ ح ۶۰_

۳ ) كافى ج ۸ ص ۳۳۷ ح ۵۳۳_ نورالثقلين ج ۳ ص ۴۸۳ ح ۵۷_

۵۰۳

اسكے راستے ۲

ظلم كرنے والے:انكى دنيوى سزا ، ۱۴

عبادت:عبادت خدا كے ترك كے اثرات ۱; غيرخدا كى عبادت ۱۸; عبادت خدا كے ترك كرنے كا گناہ ۱

عذاب:دردناك عذاب ۱۵; اسكے درجے ۱، ۱۵; اخروى عذاب كے اسباب ۱، ۱۵

كعبہ:اسكى فضيلت ۴; اس كا تقدس ۴

كفر:خدا كے ساتھ كفر كے اثرات ۱; خدا كے ساتھ كفر كا گناہ ۱

گناہ:گناہان كبيرہ ۱۴; ناقابل بخشش گناہ۱

لقاء الله :اس كا پيش خيمہ ۲

لوگ:ان كے حقوق كى نسبت تجاوز ۱۲; ان كے حقوق كى نسبت تجاوز كى سزا ۱۵; ان كے حقوق كى نسبت تجاوز كا گناہ ۱۴

مسجد الحرام:اس كا امن ہونا ۱۳; اسكى زيارت كى تاريخ ۱۰; اسكى تاريخ ۱۱; اس ميں حقوق ۱۴; اسكى زيارت ۷، ۱۱; اس كا سب كيلئے ہونا ۶; اس ميں عبادت خدا سے روكنا ۳; اس سے روكنا ۳، ۵; اس ميں حق تلفى كا ممنوع ہونا ۱۲; اس سے روكنے كا ممنوع ہونا ۶، ۹; اسكى خصوصيات ۱۲، ۱۳

مسلمان:ان كے حقوق كا مساوى ہونا ۷; ان كے حقوق ۷

مكہ كے مسلمان:ان كے حقوق ۷

مكہ:اس كا امن ہونا ۱۳; اسكے گھروں كے دروازے ۱۶; اس ميں ظلم كا گناہ ۱۷; اس سے حاجيوں كو روكنا ۸; اسكے گھروں كو كرائے پر دينے سے نہى ۱۶; اسكى خصوصيات ۱۳

منحرفين:ان كى دنيوى سزا ،۱۴

موحدين:ان كے حقوق ۶

ولايت:اولياء الله كے غير كى ولايت كو قبول كرنا ۱۸

۵۰۴

آیت ۲۶

( وَإِذْ بَوَّأْنَا لِإِبْرَاهِيمَ مَكَانَ الْبَيْتِ أَن لَّا تُشْرِكْ بِي شَيْئاً وَطَهِّرْ بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْقَائِمِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ )

اور اس وقت كو ياد دلاؤ جب ہم نے ابرہمى كے لئے بيت اللہ كى جگہ مہيا كى كہ خبردار ہمارے بارے ميں كسى طرح كا شرك نہ ہونے پائے اور تم ہمارے گھر كو طرف كرنے والے، قيام كرنے والے اور ركوع و سجود كرنے والوں كے لئے پاك و پاكيزہ بناؤ(۲۶)

۱ _ حضرت ابراہيم (ع) كے ہاتھوں كعبہ كى بنياد بہت اہم اور ايسا واقعہ ہے جو ياددہانى كرانے كے قابل ہے_

و اذ بوّانا لابراهيم مكان البيت ''اذ'' اسم زمان اور محل نصب ميں ہے اور يہ ''اذكر'' محذوف كا مفعول ہے يعنى ''يادكيجيئے اس وقت كو كہ جب ہم نے ...''

۲ _ كعبہ، حضرت ابراہيم (ع) كى عبادت كى جگہ_و إذ بوّانا لإبراهيم مكان البيت

(''بوانا'' كے مصدر) ''تبوئة) كا معنى ہے مرجع اور مركز قرار دينا يعني'' اس زمانے كو ياد كيجيئے جب ہم نے كعبہ كى جگہ كو ابراہيم(ع) كيلئے رجوع كرنے كا مقام قرار ديا'' اور حضرت ابراہيم(ع) كا بار بار كعبہ كى جگہ كى طرف رجوع كرنا يا تو خدا كى عبادت كيلئے تھا اور يا اسے تعمير كرنے كيلئے مذكورہ مطلب پہلے احتمال كى بنياد پر ہے_

۳ _ كعبہ كى جگہ خداتعالى كى جانب سے عبادت كيلئے معين كردہ جگہ_و إذ بوّانا لإبراهيم مكان البيت

۴ _ حضرت ابراہيم (ع) كعبہ كى بنياد ركھنے والے اور اسكے

۵۰۵

معمار_و إذ بوّانا لإبراهيم مكان البيت

۵ _ كعبہ، توحيد اور يكتاپرستى كى جلوہ گاہ_و إذ بوّانا لإبراهيم مكان البيت أن لا تشرك بى شيئ

۶ _ خدا كے علاوہ كوئي قابل پرستش نہيں ہے_أن لا تشرك بى شيئ

۷ _ عبادت ميں اخلاص اور اسے ہر قسم كے غير الہى عمل سے آلودہ كرنے سے پرہيز كرنا خداتعالى كى طرف سے حضرت ابراہيم كو نصيحت _أن لا تشرك بى شيئ

۸ _ شرك كے ساتھ آلودہ عبادت كى بارگاہ خداوندى ميں كوئي قدر و قيمت نہيں ہے_أن لا تشرك بى شيئ

۹ _ كعبہ بہت مقدس گھر اور بارگاہ خداوندى ميں بڑى عزت كا حامل ہے_و طهر بيتي

''بيت'' كى باء متكلم كى طرف اضافت، تشريفيہ اور مذكورہ مطلب كو بيان كررہى ہے_

۱۰ _ كعبہ كى توليت اور اسے زائرين كيلئے تيار كرنا، حضرت ابراہيم (ع) كے الہى وظائف ميں سے_و طهر بيتى للطائفين

۱۱ _ مسجد الحرام كى توليت اور اسے زائرين بيت الله كيلئے تيار كرنا توحيدى معاشرے كے رہنماؤں كى ذمہ دارى _

أن لا تشرك بى شيئاً و طهر بيتى للطائفين

۱۲ _ شرك، طہارت و پاكيزگى سے دورى اور پليديگى و ناپاكى كے ساتھ آلودہ ہونا ہے_أن لا تشرك بى شيئاً و طهر بيتي

۱۳ _ مسجد الحرام كى حرمت كى پاسدارى اور اسے ظاہرى آلودگيوں اور باطنى پليدگيوں (شرك كے مظاہر) سے محفوظ ركھنا ضرورى ہے_أن لا تشرك بى شيئاً و طهر بيتي

۱۴ _ طواف، قيام، ركوع اور سجود (نماز) مسجد الحرام كى زيارت كے آداب ميں سے_و طهر بيتى للطائفين و القائمين و الركع السجود ظاہر يہ ہے كہ ''القائمين و الركع السجود'' سے مراد نماز پڑھنے والے ہيں يعنى ميرے گھر كو طواف كرنے والوں اور نماز پڑھنے والوں كيلئے تيار كيجئے_

۱۵ _ مسجد الحرام كى زيارت ميں طواف كو نماز پر مقدم كرنا ضرورى ہے_للطائفين و القائمين و الركع السجود

۱۶ _ قيام، ركوع اور سجود نماز كے اركان ميں سے ہيں _و القائمين و الركع السجود

۱۷ _ طواف اور نماز، حضرت ابراہيم(ع) كى شريعت كى ذمہ داريوں ميں سے _طهر بيتى للطائفين و القائمين و الركع

۵۰۶

السجود

۱۸ _ امام صادق (ع) سے روايت كى گئي ہے جب خداتعالى نے حضرت ابراہيم(ع) كو كعبہ كى تعمير پر مأمور كياتوانہيں معلوم نہيں تھا كہ وہ كعبہ كو كہاں بنائيں تو خداتعالى نے جبرائيل كو بھيجا اور انہوں نے كعبہ كى جگہ پر ان كيلئے لكير كھينچ دي(۱)

ابراہيم (ع) :ان كے دين كى تعليمات ۱۷; انكو نصيحت ۷; انكى عبادت گاہ ۲; انكى ذمہ دارى ۱۰; ان كا نقش و كردار ۱، ۴

توحيد:توحيد عبادى ۶

خداتعالى :اسكى نصيحتيں ۷; اس كا نقش و كردار ۳

ذكر:كعبے كى تعمير كا ذكر، ۱

روايت ۱۸دينى راہنما:انكى ذمہ دارى ۱۱

شرك:شرك عبادى كا بے قدر و قيمت ہونا ۸; اسكى پليدگى ۱۲; اسكى حقيقت ۱۲

طواف:اسكى تاريخ ۱۷; يہ دين ابراہيم(ع) ميں ۱۷

عبادت:اس ميں اخلاص ۷; بے قدر و قيمت عبادت ۸

كعبہ:اس كا احترام ۹; اسے تعمير كرنے والے ۱; اس كا موسس ۴; اسكى تاريخ ۱، ۴; اسكى تطہير ۱۰; اس ميں عبادت ۲، ۳; اسكى فضيلت ۵، ۹; اس كا تقدس ۹; اس كے متولى ۱۰; اسكى تعيين كا سرچشمہ ۳، ۱۸; اس ميں توحيد عبادى كى نشانياں ۵

مسجد الحرام:اسكى زيارت كے آداب ۱۴; اسكى تطہير كى اہميت ۱۳; اسكى حفاظت كى اہميت ۱۳; اس ميں ركوع ۱۴; اس ميں سجدہ ۱۴; اس ميں طواف ۱۴، ۱۵; اسكے متولى ۱۱; اس ميں نماز ۱۴، ۱۵

نظريہ كائنات :توحيدى نظريہ كائنات ۶

نماز:اسكے اركان ۱۶; اسكى تاريخ ۱۷; اس ميں ركوع ۱۶; اس ميں سجدہ ۱۶; اس ميں قيام ۱۶; يہ دين ابراہيم(ع) ميں ۱۷

____________________

۱ ) تفسير قمى ج ۱ ص۶۲_ نورالثقلين ج ۱ ص ۱۲۸ ح ۳۷۶_

۵۰۷

آیت ۲۷

( وَأَذِّن فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ يَأْتُوكَ رِجَالاً وَعَلَى كُلِّ ضَامِرٍ يَأْتِينَ مِن كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ )

اور لوگوں كے درميان حج كا اعلان كردو كہ لوگ تمہارى طرف پيدل اور لاغر سواريوں پر دور دراز علاقوں سے سوار ہو كر آئيں گے (۲۷)

۱ _ حكم خدا سے حضرت ابراہيم (ع) كى طرف سے لوگوں كو حج كى دعوت_و أذن فى الناس بالحج

(''أذّن'' كے مصدر) ''تأذين'' كا معنى ہے اعلان كرنا اور ندا دينا يعنى اے ابراہيم(ع) لوگوں كے درميان جاؤ اور انہيں حج اور زيارت بيت الله كى دعوت دو_

۲ _ حج، دور و نزديك كے تمام لوگوں پر ايك الہى ذمہ داري_يأتوك رجالًا و على كل ضامر يأتين من كل فج عميق

''يأتوك'' شرط محذوف كى جزا ہے اور يہ در حقيقت يوں ہے''إن تأذن فيهم به يأتوك'' ،''رجال''، ''راجل'' كى جمع ہے يعنى ''پيدل'' اور ''ضامر'' كمزور اونٹ كو كہاجاتا ہے _

اور ''فج'' در حقيقت پہاڑ كے شكاف كے معنى ميں ہے اور يہاں پر اس سے مراد راستہ ہے ''عميق'' بعيد كا مترادف ہے يعنى دورپس مذكورہ جملے كا معنى يہ بنے گا اگر لوگوں كو حج كى طرف بلاؤ تو وہ تيرى دعوت پر لبيك كہتے ہوئے پيدل، سوار ہوكر اور دور و نزديك كے راستوں سے چل نكليں گے_

۳ _ تبليغ اور لوگوں كو حج و زيارت بيت الله كى دعوت دينا الہى رہنماؤں كى ذمہ داريوں ميں سے ہے_و أذّن فى الناس بالحج

۴ _ حج، حضرت ابراہيم(ع) (ع) كى شريعت كى ايك يادگار_و أذن فى الناس بالحج

۵ _ حضرت ابراہيم (ع) كى اقامت گاہ ،مسجد الحرام كے جوار

۵۰۸

ميں تھي_يأتوك رجال

جملہ ''يأتوك'' (تيرے پاس پيدل اور سوار ہوكر آئيں گے) سے معلوم ہوتا ہے كہ كعبہ كے مؤسس اسكے جوار ميں رہتے تھے اس طرح، كہ ہر زائر مسجدالحرام ميں داخل ہوتے وقت ان پر بھى وارد ہوتا تھا_

۶ _ دور و نزديك كے لوگوں كا حضرت ابراہيم(ع) پر پختہ ايمان اورحضرت ابراہيم(ع) كى ان كے درميان انتہائي محبوبيت اور نفوذ_و اذن فى الناس بالحج يأتوك رجالا و على كل ضامر

دور و نزديك كے لوگوں كا حضرت ابراہيم (ع) كى دعوت پر لبيك كہنا اور انكا پيدل اور سوار ہوكر كعبے كى زيارت كيلئے نكل پڑنا اور كى آپ(ع) كى شخصيت سے آشنائي اور ان كے درميان آپ(ع) كى محبوبيت كى علامت ہے_

۷ _ حضرت ابراہيم (ع) كے دين توحيدى كا خود ان كى زندگى ميں دور و نزديك كى سرزمين ميں پھيل جانا_يأتوك من كل فج عميق

۸ _ حضرت ابراہيم (ع) كا اپنے زمانے ميں ہر سال حج كى رسومات ميں شريك ہونا_يأتوك رجالًا و على كل ضامر

فعل مضارع ''يأتوك'' ہوسكتا ہے مفيد استمرار ہو لہذا ہر سال لوگوں كا حج كى رسومات ميں حضرت ابراہيم(ع) كے پاس آنا ان كے ہر سال حج كى رسومات ميں شركت كو بيان كررہا ہے_

۹ _ مراسم حج كو اسلامى معاشرے كے رہبر كى محوريت كے ساتھ انجام دينا ضرورى ہے_يأتوك رجالاً و على كل ضامر

يہ جو خداتعالى نے فرمايا ہے كہ ''لوگ پيدل اور سوار ہوكر تيرے (ابراہيم(ع) ) پاس آئيں گے'' ہوسكتا ہے لوگوں كيلئے اس حكم پر مشتمل ہو كہ وہ پہلے الہى رہبر كى زيارت كيلئے جائيں اور اسكى رہبرى ميں مراسم حج كو انجام ديں _

۱۰ _ مناسك حج ميں اسلامى معاشرے كے رہبر سے ملاقات_يأتوك رجالاً و على كل ضامر

۱۱ _ بارگاہ خداوندى ميں پيدل حج كى بڑى فضيلت اور قدر و قيمت_يأتوك رجالاً و على كل ضامر

پيدل لوگوں (رجالًا) كو سواروں (و على كل ضامر) پر مقدم كرنا ہوسكتا ہے مذكورہ مطلب كو بيان كررہا ہو_

۱۲ _ زمين مكہ كى سطح كى بلندى اسكے اردگرد كے مناطق سے زيادہ ہے_يأتوك من كل فج عميق

(''عميق'' كا مصدر) ''عمق'' اس طولانى مسافت كو كہا جاتا ہے كہ جو نيچے كى طرف ہو لہذا ''بعيد'' كى بجائے كلمہ ''عميق'' كا استعمال يا تو اس لحاظ سے ہے كہ سرزمين مكہ كى بلندى اسكے اردگرد كے مناطق سے چونكہ زيادہ ہے لہذا جو لوگ مكہ كى طرف آتے ہيں وہ نيچے سے اوپر كى جانب حركت كرتے ہيں اور يا اسلئے ہے كہ چونكہ

۵۰۹

زمين گيند كى صورت ميں ہے لہذا لوگوں كى دور سے حركت اوپر كى جانب حركت نظر آتى ہے مذكورہ مطلب پہلے فرضيے كى بنياد پر ہے _

۱۳ _ قرآن كا زمين كے گيند كى طرح اور اسكى سطح كے گول ہونے كى طرف اشارہ_يأتين من كل فج عميق

۱۴ _ عبيد الله بن على الحلبى كہتے ہيں ميں نے امام صادق (ع) سے سوال كيا كہ (حج ميں ) تلبيہ كيوں مقرر كيا گيا ہے؟ تو آپ(ع) نے فرمايا بيشك خداتعالى نے حضرت ابراہيم(ع) كى طرف وحى كى''و أذّن فى الناس بالحج يأتوك رجالًا'' پس حضرت ابراہيم نے ندا دى اور دور كے ہر راستے سے ''لبيك'' كے ساتھ حضرت ابراہيم(ع) كو جواب دياگيا(۱)

۱۵ _ امام صادق(ع) نے فرمايا كہ پيغمبراكرم دس سال مدينہ ميں رہے اور حج پر نہ گئے پھرخداتعالى نے آنحضرت پر نازل كيا''و أذن فى الناس بالحج يأتوك رجالاً و على كل ضامر يأتين من كل فج عميق'' پس پيغمبراكرم(ص) نے مناديوں كو حكم ديا كہ وہ بلند آواز كے سا تھ اعلان كريں كہ اس سال رسول الله (ص) حج پرجائيں گے(۲)

آنحضرت(ص) :آپ(ص) كا حج۱۵

ابراہيم (ع) :آپ مسجد الحرام كے جوار ميں ۵; آپكى اقامت گاہ ۵; آپكے حج كا تسلسل ۸; آپ كے دين كى تعليمات ۴; آپكى شرعى ذمہ دارى ۱; آپكى دعوتيں ۱، ۱۴; آپ(ص) كى معاشرتى شخصيت۶; آپكے دين كا پھيلنا ۷; آپ كى محبوبيت ۶

ايمان:ابراہيم پر ايمان ۶

تلبيہ:اسكى تشريع كا فلسفہ ۱۴

حج:اسكے آداب ۹; اس كے احكام ۲; يہ دين ابراہيم ميں ۱۴ ; اسكى دعوت ۱، ۳، ۱۴; پيدل حج كى فضيلت ۱۱

روايت ۱۴، ۱۵

دينى رہنما:انكى ذمہ دارى ۳; حج ميں ان كے ساتھ ملاقات ۱۰; ان كا نقش و كردار ۹

شرعى ذمہ داري:سب كى شرعى ذمہ دارى ۲

زمين:اس كا گيند كى صورت ميں ہونا ۱۳

مكہ:اسكى بلندى ۱۲; اس كا جغرافيائي محل وقوع ۱۲

____________________

۱ ) علل الشرائع ص ۴۱۶ ب ۱۵۷ ح ۱_ نورالثقلين ج ۳ ص ۴۸۶ ح ۶۸_ ۲ ) كافى ح ۴ ص ۲۴۵ ح ۴; نورالثقلين ج ۳ ص ۴۸۷ ح ۷۲_

۵۱۰

آیت ۲۸

( لِيَشْهَدُوا مَنَافِعَ لَهُمْ وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ فِي أَيَّامٍ مَّعْلُومَاتٍ عَلَى مَا رَزَقَهُم مِّن بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْبَائِسَ الْفَقِيرَ )

تا كہ اپنے منافع كا مشاہدہ كريں اور چند معين دنوں ميں ان چوپايوں پر جو خدا نے بطور رزق عطا كئے ہيں خدا كا نام ليں اور پھر تم اس ميں سے كھاؤ اور بھو:ے محتاج افراد كو كھلاؤ (۲۸)

۱ _ حج ، لوگوں كيلئے فائدے و منفعت اور خير و بركت سے سرشار_وأذن فى الناس بالحج ليشهدوا منافع لهم

''منافع''، ''منفعت'' كى جمع ہے يعنى نفع، خير و بركت_ اور اس كاجمع كى صورت ميں آنا حج كى بركات كى فراوانى كو بيان كررہا ہے اور اس كا نكرہ آنا ان بركات ميں سے ہر ايك كى عظمت كو بيان كررہا ہے _

۲ _ حج كى بركات سے بہرہ مند ہونا اسكى رسومات ميں شركت اور اسكے اعمال كى انجام دہى ميں منحصر ہے_وأذن فى الناس بالحج ليشهدوا منافع لهم (''يشہدون'' كے مصدر) ''شہادة'' كا معنى ہے حاضر ہونا پس''ليشهدوا منافع لهم'' كا معنى يہ ہے كہ حج سب لوگوں كيلئے خير و بركت سے سرشار ہے اور جو انہيں حاصل كرنا چاہتا ہے اور ان سے بہرہ مند ہونا چاہتا ہے اس كيلئے ضرورى ہے كہ سفر كى مشقتوں كو برداشت كرے، اسكے مراسم ميں شركت كرے اور اسكے اعمال كو بجالائے_

۳ _ شريعت الہى ميں انسان كے دنيوي، اخروي، مادى اور معنوى پہلوؤں كى طرف توجہ _و أذن فى الناس بالحج ليشهدوا منافع لهم

چونكہ ''منافع'' كو دنيوي، اخروي، معنوى يا مادى كى قيد نہيں لگائي گئي پس كہا جاسكتا ہے كہ اس سے مراد،دينوي، اخروي، مادى اور معنوى سب بركات ہيں _

۵۱۱

۴ _ عرفات اور مشعر ميں وقوف كرنا (احرام كے بعد) مراسم حج ميں حاجيوں كى پہلى ذمہ دارى _يشهدوا منافع لهم

جملہ ''و يذكروا اسم الله ...'' قربانى كى رسومات سے مربوط ہے اور بعد والى آيت حلق، تقصير اور طواف كے بارے ميں ہے پس اس چيز كے پيش نظر كہ احرام باندہنے كے بعد مراسم حج بالترتيب يوں ہيں عرفات اور مشعر ميں و قوف، قربانى كرنا، حلق، تقصير اور طواف _ كہنا ہوگا كہ حضرت ابراہيم(ع) كى شريعت ميں حج، قربانى سے شروع اور طواف كے ساتھ ختم ہوتا تھا اور عرفات و مشعر كا وقوف مراسم حج ميں شا مل نہيں تھا يا يہ كہ جملہ ''ليشہدوا منافع لہم'' تشريع حج كے فلسفے كو بيان كرنے كے علاوہ عرفات و مشعر ميں حاضر ہونے والے مسئلے كى طرف بھى ناظر ہے مذكورہ مطلب دوسرے احتمال كى بنياد پر ہے_

۵ _ عرفات و مشعر، حج كرنے والوں كيلئے كثير خيرو بركت كا مركز_ليشهدوا منافع لهم

مذكورہ مطلب اس بنياد پر ہے كہ ''ليشهدوا '' عرفات و مشعر ميں حاضر ہونے سے مربوط ہو_

۶ _ عرفات و مشعر ميں حاضر ہونے كے بعد قربانى كرنا حج كے واجب اعمال ميں سے ہے _و يذكروا اسم الله على مارزقهم من بهيمة الأنعام

۷ _ قربانى كو ذبح يانحر كرتے وقت الله كا نام لينا ضرورى ہے_و يذكروا اسم الله على ما رزقهم من بهيمة الأنعام

۸ _ لوگوں كو ذبح كرنے كى طريقے كى تعليم دينا (جانور كو نحر يا ذبح كرتے وقت خدا كا نام لينا)حج كے فلسفوں ميں سے ايك ہے_ليشهدوا منافع لهم و يذكروا اسم الله فى ايام معلومات ''يذكروا'' كا عطف ''ليشہدوا'' پر ہے اور اس چيز كو مد نظر ركھتے ہوئے كہ اس كا لام تعليل كيلئے ہے اور يہ حج كى تشريع كے فلسفے كو بيان كررہا ہے ''يذكروا'' كا ''يشہدوا'' پر عطف تشريع حج كے ايك اور فلسفہ كا بيان ہے_

۹ _ قربانى والے حكم كا انجام دينا خاص اور معين وقت پر موقوف ہے (دس سے تيرہ ذى الحج تك)_و يذكورا اسم الله فى ايام معلومات على ما رزقهم من بهيمة الانعام اہل بيت (ع) سے وارد ہونے والى روايات كى بنياد پر ''ايام معلومات'' سے مراد ذى الحج كے ايام تشريق (دس سے تيرہ تك) ہيں _

۱۰ _ قربانى كو ذبح يانحر كرتے وقت خداتعالى كے اسما (الله ، رحمان و غيرہ) ميں سے ہر ايك كے ذكر كا جواز_و يذكروا اسم الله ہوسكتا ہے ''اسم'' كى ''الله '' كى طرف اضافہ بيانيہ ہو اس صورت ميں ''اسم اللہ'' يعنى وہ نام كہ جو اللہ سے عبادت ہے اسى طرح اضافہ لاميہ

۵۱۲

بھى ہوسكتاہے اس صورت ميں '' اسم اللّہ'' يعنى ہر وہ نام كہ جو خدا كے لئے ہو پہلے احتمال كى بناپر قربانى كے وقت ''اللّہ'' كے لفظ كے علاوہ كسى اور لفظ كا لينا جائز نہيں ہے برخلاف احتمال دوم گذشتہ مطلب دوسرے احتمال كى بناپر ہے_

۱۱ _ دس ذى الحج كے بجائے گيارہ، بارہ اور تيرہ ذى الحج كو قربانى كرنے كا جواز _و يذكروا اسم الله فى أيام معلومات من بهيمة الأنعام

۱۲ _ اونٹ، گائے اور بھيڑ بكرى ميں سے ہر ايك كى قربانى كرنا جائز ہے_على ما رزقهم من بهيمة الانعام

(''نعم'' كى جمع) ''انعام ''كا اصلى معنى ''اونٹ'' ہے ليكن بعض اوقات اونٹ گائے اور بھيڑ بكرى كے مجمموعے پر بھى اس كا اطلاق ہوتا ہے تمام مفسرين كے نظريے كے مطابق يہاں پر اس سے مراد دوسرا معنى (اونٹ، گائے اور بھيڑ بكرى كا مجموعہ) ہے قابل ذكر ہے كہ ''بہيمہ'' كا معنى ہے ''چوپايہ'' اور اس كى ''أنعام'' كى طرف اضافت بيانيہ ہے يعنى وہ چوپايہ جو اونٹ، گائے اور بھيڑ بكرى ہے_

۱۳ _ اونٹ، گائے اور بھيڑ بكرى انسانوں كى روزى اور ان كيلئے خدا كى عطا ہے_على ما رزقهم من بهيمة الأنعام

۱۴ _ قربانى كے گوشت سے استفادے كا حرام ہونا جاہليت كے عربوں كا باطل خيال _فكلوا منه قربانى كے گوشت كے استعمال كو جائز كرنا جاہليت كے عربوں كے باطل خيال كى طرف ناظر ہے كہ جو اسے حرام سمجھتے تھے_

۱۵ _ اونٹ، گائے اور بھيڑبكرى حلال گوشت چوپائے ہيں _على ما رزقهم من بهيمة الأنعام فكلوا منه

۱۶ _ حجاج كيلئے قربانى كے گوشت كے استعمال كا جواز_فكلوا منه

۱۷ _ حج كے موقع پر قربانى كے گوشت سے تنگدست لوگوں كو اطعام كرنے كا ضرورى ہونا_و ا طعموا البائس الفقير

۱۸ _ قربانى كے پورے گوشت كو استعمال كرنا جائز نہيں ہے_فكلوا منها و ا طعموا البائس الفقير

''منہا'' ميں ''من'' تبعيضيہ ہے پس ''كلوا منہا'' يعنى اس كا ايك حصہ كھاؤ (نہ پورا)

۱۹ _ لوگوں كى مدد اور تنگدستوں اور ضرورتمندوں كى دستگيرى كرنا حج كے فلسفوں ميں سے اور اس كا ايك سبق ہے_

و أطعموا البائس الفقير

۲۰ _ ربيع بن خيثم كہتے ہيں ميں نے امام صادق (ع) كو ديكھا كہ آپ(ع) نے فرمايا ميں نے خداتعالى كو يہ فرماتے ہوئے سنا ہے''ليشهدوا منافع لهم'' تو ميں نے امام (ع) سے عرض كيا ''منافع'' سے مراد دنياوى فوائدہيں يا اخروي؟ تو آپ(ع) نے فرمايا سب

۵۱۳

منافع(۱)

۲۱ _ امام صادق (ع) سے روايت كى گئي ہے كہ خداتعالى كے كلام ''ويذكروا اسم الله '' ميں ذكر سے مراد وہ تكبيريں ہيں جو پندرہ نمازوں ميں _ كہ جن ميں سے پہلى عيدوالے دن ظہر كى نماز ہے_ كہى جاتى ہيں(۲)

۲۲ _ امام صادق(ع) سے الله تعالى كے فرمان ''و يذكروا اسم الله فى أيام معلومات'' كے بارے ميں روايت كى گئي ہے كہ انہوں نے فرمايا اس سے مراد ايام تشريق ہيں(۳)

۲۳ _ صفوان بن يحيى كہتے ہيں ميں نے امام كاظم(ع) سے عرض كيا شخص كسى كو كھال اتارنے كيلئے قربانى ديتا ہے اسكى كھال كے مقابلے ميں يعنى كھال كو اپنى مزدورى كے طور پر لے لے_ (تو اس كا حكم كيا ہے) _

فرمايا اس ميں كوئي اشكال نہيں ہے كيونكہ خداتعالى نے فرمايا ہے ''فكلوا منہا و أطمعوا'' اور كھال نہ كھائي جاتى ہے اور نہ (اسكے ذريعے) اطعام كيا جاتا ہے(۴)

احكام ۴، ۶، ۷، ۹، ۱۰، ۱۱، ۱۲، ۱۵، ۱۶، ۱۷، ۱۸/جاہليت:اسكے مشركين كى سوچ ۱۴; اسكى رسومات ۱۴

چوپائے:ان كے گوشت كى حليت ۱۵/حجاج:ان كا حج كى قربانى سے استفادہ كرنا ۱۶

حج:اسكے اثرات ۲; اسكے احكام ۴، ۶، ۹، ۱۶، ۱۷; اسكى قربانى كے گوشت سے استفادہ كرنا ۱۸; اسكى بركات۱; اسكى قربانى كى كھال ۲۳; اسكى قربانى كو مؤخر كرنا ۱۱; اسكى تعليمات ۱۹; اس ميں تكبير ۲۱; اس كا خير ہونا ۱; اس ميں گائے كو ذبح كرنا ۱۲; اس ميں بھيڑ بكرى كو ذبح كرنا ۱۲; اسكى بركات كا پيش خيمہ ۲; اس كا فلسفہ ۸، ۱۹; اسكى قربانى ۶، ۱۲; اسكى قربانى كا گوشت ۱۶، ۱۷; اسكى قربانى كے مصارف ۱۷; اسكے مناسك ۴، ۶، ۹، ۱۱، ۱۲;اسكے اخروى منافع ۲۰; اسكے منافع۱; اسكے دنيوى منافع ۲۰; اس ميں اونٹ كو نحر ركنا ۱۲; اسكے واجبات ۶; اسكى قربانى كا وقت ۹

حلال جانور :۱۵/خداتعالى :اسكى روزى ۱۳; اسكے عطيے ۱۳/كھانے كى چيزيں :ان كے احكام ۱۵; كھانے كى حلال چيزيں ۱۵

دين:

____________________

۱ ) كافى ج۴ ص ۴۲۲ ح ۱_ نورالثقلين ج ۳ ص ۴۸۸ ح ۷۷_/ ۲ ) عوالى اللئامى ج ۲ ص ۸۸ ح ۲۳۷_ نورالثقلين ج ۳ ص ۴۹۰ ص ۸۲_

۳ ) معانى الاخبار ص ۲۹۷ ح ۱، ۳_ نورالثقلين ج ۳ ص ۴۹۰ ح ۸۴_

۴ ) علل الشرائع ص ۴۳۹ب ۱۸۲ ح ۱_ نورالثقلين ج ۳ ص ۴۹۹ ح ۱۳۹_

۵۱۴

اسكے اخروى پہلو ۳; اسكے مادى پہلو ۳; اسكے معنوى پہلو۳; يہ اور عينيت ۳

ذبح:اسكے احكام ۷، ۱۰; اس ميں بسم الله ۷،۸، ۱۰; اسكى تعليم ۸

ذكر:ذكر خدا ايام تشريق ميں ۲۲; ذكر خدا حج ميں ۲۱

روايت : ۲۰، ۲۱، ۲۲، ۲۳

اونٹ:اسكے گوشت كا حلال ہونا ۱۵

عرفات:اسكى بركات ۵; اس كا خير ہونا ۵; اس ميں وقوف ۴

فقرا:انہيں اطعام كرنا ۱۷; انكى حاجت روائي كى اہميت ۱۹

قرباني:جاہليت ميں اسكے گوشت كى تحريم ۱۴

گائے:اسكے گوشت كى حليت ۱۵

بھيڑ بكري:اسكے گوشت كى حليت ۱۵

مسجدالحرام:اسكى بركات ۵; اس كا خير ہونا ۵

مشعرالحرام:اس ميں وقوف كرنا ۴

نعمت:اونٹ كى نعمت ۱۳; گائے كى نعمت ۱۳; بھيڑ بكرى كى نعمت ۱۳

آیت ۲۹

( ثُمَّ لْيَقْضُوا تَفَثَهُمْ وَلْيُوفُوا نُذُورَهُمْ وَلْيَطَّوَّفُوا بِالْبَيْتِ الْعَتِيقِ )

پھر لوگوں كو چاہئے كہ اپنے بدن كى كثافت كو دور كريں اور اپنى نذروں كو پورا كريں اور اس قديم ترين مكان كا طواف كريں (۲۹)

۱ _ مراسم حج كى انجام دہى كے بعد تقصير اور احرام سے خارج ہونے كا وجوب _و يذكروا اسم الله ثم ليقضوا تفثهم

(''يقضون'' كے مصدر قضا) كا معنى ہے كاٹنا اور جدا كرنا ''تفث'' يعنى وہ غبار اور ميل جو بدن پر ہوتى ہے پس''ثم ليقضوا تفثهم'' يعنى حاجى

قربانى كى رسومات ادا كرنے كے بعد اپنے سر اور ناخن تراش كر كے كہ جسے احرام كى وجہ سے انجام نہيں دے سكے تھے_ اپنے آپ كو صاف كريں اور يہ احرام سے خارج ہونے سے كنايہ ہے_

۵۱۵

۲ _ طواف بجالانے كيلئے آلودہ اور بے ہنگم سر اور بدن كے ساتھ مسجدالحرام ميں داخل ہونا ممنوع ہے_ثم ليقضوا تفثهم

۳ _ تقصير اور احرام سے خارج ہونے كے بعد نذر كى ادائيگى كا ضرورى ہونا_و ليوفوا نذورهم

۴ _ تقصير اور احرام سے خارج ہونے كے بعد طواف كا لازم ہونا_ثم ليقضوا تفثهم و ليطّوفّو

۵ _ تقصير اور طواف كى ادائيگى كو قربانى كرنے كے بعد تك مؤخر كرنا جائز ہے_ثم ليقضوا تفثهم و ليطوفو

''ثم '' كہ جو تراخى زمان كيلئے ہے _ كا استعمال مذكورہ مطلب كو بيان كررہا ہے _

۶ _ كعبہ كا اپنا ماضى اور تاريخ ہے_بالبيت العتيق ''عتيق'' ہر اس چيز كو كہا جاتا ہے كہ جو وقت، جگہ يا مرتبے كے لحاظ سے تقدم ركھتى ہو اسى وجہ سے قديم كو بھى عتيق كہتے ہيں ''بيت عتيق'' يعنى وہ گھر جو اپنا ماضى اور تاريخ ركھتا ہے_

۷ _ عبدالله بن سنان كہتے ہيں ميں امام صادق (ع) كے پاس آيا اور ان سے عرض كى آپ(ع) پر قربان جاؤں خداتعالى كے فرمان ''ثم ليقضوا تفثهم '' (سے مقصود) كيا ہے تو آپ(ع) نے فرمايا: (اس سے مقصود) مونچھيں كاٹنا، ناخن اتارنا و غيرہ ہے(۱)

۸ _ اميرالمؤمنين (ع) سے روايت كى گئي ہے كہ انہوں نے خداتعالى كے فرمان''ثم ليقضوا تفثهم و ليوفوا نذورهم و ليطوفوا بالبيت العتيق'' كے بارے ميں فرمايا ''تفث'' سے مراد رمى جمرات اور سر منڈہوانا ہے اور ''نذور'' سے مراد وہ ہے كہ جس نے پيدل جانے كى نذر كى ہو اور طواف سے مراد طواف زيارت ہے(۲)

شايد مقصود يہ ہو كہ كسى نے منا سے مكہ پيدل جانے كى نذر كى ہو نہ اپنے وطن سے پيدل مكہ جانے كى كيونكہ اس صورت ميں يہ آيت كے ظاہر كے ساتھ متناسب نہيں ہے_

۹ _ امام صادق(ع) سے روايت كى گئي ہے آپ(ع) نے خداتعالى كے فرمان''و ليطوفوا بالبيت العتيق'' كے بارے ميں فرمايا (اس سے مراد) طواف النساء ہے(۳)

____________________

۱ ) كافى ج ۴ ص ۵۴۹ ح ۴_ نورالثقلين ج ۳ ص ۴۹۲ ح ۹۷_

۲ ) دعائم الاسلام ج ۱ ص ۳۳۰_ بحارالانوار ج ۹۶ ص ۳۱۲ ح ۳۹_

۳ ) كافى ج ۴ ص ۵۱۳ ح ۲_ تہذيب شيخ طوسى ج۵ ص ۲۵۳ ح ۱۵_

۵۱۶

۱۰ _ امام صادق (ع) سے روايت كى گئي ہے كہ طوفان نوح كے روز خداتعالى نے پورى زمين كو غرق كرديا سوائے بيت (الله ) كے پس اس دن اسے ''عتيق'' كا نام ديا گيا كيونكہ اس دن يہ غرق ہونے سے آزاد ہوا(۱)

۱۱ _ ابوحمزہ ثمالى كہتے ہيں ميں نے مسجدالحرام ميں امام صادق (ع) سے عرض كيا كيوں خداتعالى نے (بيت الله ) كو عتيق كا نام ديا ہے،؟ تو آپ(ع) نے فرمايا خداتعالى نے زمين پر كوئي گھرنہيں بنايا مگر يہ كہ اس كے مالك ہيں اور اس ميں لوگ رہتے ہيں سوائے اس گھر كے كہ جس كا خدائے عزوجل كے علاوہ كوئي مالك نہيں ہے اور يہ (افراد كى ملكيت سے) آزاد ہے(۲)

احكام: ۲، ۳، ۴، ۵

حج:اسكے احكام ۳، ۵; اس ميں تقصير كو مؤخر كرنا ۵; اس ميں طواف كو موخر كرنا ۵; اس ميں تقصير ۱، ۳، ۴، ۷; اس ميں رمى جمرات ۸; اس ميں منڈہوانا ۸; اس ميں طواف ۸، ۹; اس ميں قربانى ۱; اسكے اعمال ۱، ۴، ۷، ۸، ۹; اس ميں نذر ۸; اسكے واجبات ۱، ۴ ; روايت ۷، ۸، ۹، ۱۰، ۱۱

طواف:اسكے آداب ۲; اسكے احكام ۴; طواف النساء ۹

كعبہ:اسكى تاريخ ۶، ۱۰; اس كا نام ركھنے كا فلسفہ ۱۰، ۱۱; اس كا قديمى ہونا ۶; يہ طوفان نوح كے وقت ۱۰; اسكى مالكيت ۱۱

مسجدالحرام:اسكے آداب ۲; اس ميں پاكيزگى ۲

نذر:اسكے احكام ۳; اسكى وفا ۳

____________________

۱ ) علل الشرائع ج ۲ ص ۳۹۹ ح ۵_ نورالثقلين ج۳ ص ۴۹۴ ح ۱۱۴_

۲ ) كافى ج ۴ ص ۱۸۹ ح ۵ نورالثقلين ج ۳ ص ۴۹۴ ح ۱۰۹_

۵۱۷

آیت ۳۰

( ذَلِكَ وَمَن يُعَظِّمْ حُرُمَاتِ اللَّهِ فَهُوَ خَيْرٌ لَّهُ عِندَ رَبِّهِ وَأُحِلَّتْ لَكُمُ الْأَنْعَامُ إِلَّا مَا يُتْلَى عَلَيْكُمْ فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ )

يہ ايك حكم خدا ہے اور جو شخص بھى خدا كى محترم چيزوں كى تعظيم كرے گا وہ اس كے حق ميں پيش پروردگار بہترى كا سبب ہوگى اور تمہارے لئے تمام جانور حلال كردئے گئے ہيں علاوہ ان كے جن كے بارے ميں تم سے بيان جائے گا لہذا تم نا پاك بتوں سے پرہيز كرتے رہو اور لغو اور مہمل باتوں سے اجتناب كرتے رہو (۳۰)

۱ _ حج اور اسكے اعمال، خداتعالى كے نزديك بلند مقام و مرتبے كے حامل ہيں _و أذن فى الناس بالحج و ليطوفوا بالبيت العتيق ذلك ''ذلك'' ان تمام مطالب كى طرف اشارہ ہے كہ جو يہاں تك حج اور اسكے اعمال كے بارے ميں بيان ہوئے ہيں اور يہاں پر ''ذلك'' كے ا ستعمال سے غرض سابقہ اور بعد والے كلام كے درميان فاصلہ كرنا اور ايك اہم مطلب سے دوسرے اہم مطلب كى طرف منتقل ہونا ہے ايسے موارد ميں كلمہ ''ہذا'' كو استعمال كرتے ہيں جيسے ''ہذا و إن للطاغين لشرمآب'' (ص ۵۵۳۸) اس بناپر ''ذلك'' كہ جو بعيد كى طرف اشارہ كرنے كيلئے ہے_ كا استعمال ممكن ہے بارگاہ خداوندى ميں حج اور اسكے اعمال كى اعلى قدر و منزلت كو بيان كرنے كيلئے ہو_

۲ _ حدود و احكام الہى كى تعظيم كرنے، انہيں معمولى نہ سمجھنے اور ان كے حريم سے تجاوز نہ كرنے كا ضرورى ہونا_

و من يعظم حرمت الله

('' يعظم'' كے مصدر) تعظيم كامعنى ہے بڑا سمجھنا ''حرمات''، ''حرمت'' كى جمع ہے يعنى وہ چيز كہ جسكى ہتك كرنا ممنوع اور اسكى حفاظت كرنا واجب ہے ''حرمات الله '' يعنى وہ حدود و احكام كہ جو خدا كى طرف سے مشخص كئے گئے ہيں اور لوگوں كا فريضہ ہے كہ انكى رعايت كريں _ يہ مذكورہ جملہ خداتعالى كى طرف سے اہل ايمان كو نصيحت ہے كہ وہ حتماً حدود و احكام الہى كو بڑا سمجھيں اور ان كے حريم ميں تجاوز كرنے سے سخت پرہيز كريں _

۵۱۸

۳ _ حدود و احكام الہى كى تعظيم ، انہيں بڑا سمجھنا اور ان كے حريم كى رعايت كرنا اہل ايمان كيلئے خير و سعادت اور خوشبختى كا سبب ہے_و من يعظم حرمت الله فهو خير له عند ربه ''فهو خيرله'' كى ''ہو'' خير كا مرجع (''يعظم'' كا مصدر ) تعظيم ہے يعنى''فالتعظيم خير له عند ربه''

۴ _ خداتعالى كے احكام اور حدود، انسان كى سعادت اور بھلائي كيلئے ہيں _ومن يعظم حرمت الله فهوخير له عند ربه

۵ _ قوانين اور احكام الہى كو معمولى سمجھنا اور ان كى حرمت شكنى انسان كى بدبختى اور شقاوت كا سبب ہے_

و من يعظم حرمت الله فهو خير له عند ربه ''تعظيم'' ''تحقير'' كى ضد ہے پس جملے كا مفہوم يوں ہوگا''و من يحقر حرمات الله فهو شر له عند ربه''

۶ _ خداتعالى ، انسانوں كا پروردگار ہے_عند ربه

۷ _ خداتعالى كى طرف سے سعادت بخش احكام و قوانين كا وضع كرنا اسكى ربوبيت اور پروردگار ہونے كا مقتضا ہے_

و من يعظم حرمت الله فهو خير له عند ربه

۸ _ اونٹ، گائے اور بھيڑبكرى حلال گوشت جانور ہيں _و أحلت لكم الأنعام ''أنعام'' (''نعم'' كى جمع) در اصل اونٹ كے معنى ميں ہے پس انعام يعنى اونٹ ليكن بعض اوقات ''انعام'' بول كر اس سے مجموعى طور پر اونٹ، گائے اور بھيڑ بكرى مراد ليتے ہيں مذكورہ جملے ميں ''انعام'' دوسرے طريقے سے استعمال كيا گيا ہے_ قابل ذكر ہے كہ جملہ''أحلت لكم الأنعام'' ،''أحلت لكم أكل لحوم الأنعام'' كى تقدير ميں ہے يعنى تمہارے لئے اونٹ، گائے اور بھيڑبكرى كا گوشت كھانا حلال ہے_

۹ _ اونٹ، گائے اور بھيڑبكرى كے گوشت سے استفادہ كرنا حلال اور جائز ہے سوائے ان موارد كے كہ جن ميں الله تعالى نے انہيں حرام كيا ہے_

۱۰ _ خداتعالى كى جانب سے كھانے كى حرام چيزوں كے بارے ميں متعدد آيات كا نازل ہونا اور لوگوں كيلئے انہيں مكرر وطور پر بيان كرنا_و أحلت لكم الأنعام إلا ما يتلى عليكم بعض مفسرين كا خيال يہ ہے كہ ''يتلى '' زمان مستقبل كيلئے ہے يعنى اونٹ، گائے اور بھيڑبكرى جيسے چوپاؤں كا گوشت تمہارے لئے حلال ہے مگر وہ جسے مستقبل ميں تمہارے لئے بيان كي جائيگا_لہذا كلمہ ''يتلي'' سورہ مائدہ كى آيت نمبر ۳ ''حرمت عليكم الميتة و الدم و لحم الخنزير و ...'' كى طرف اشارہ ہے كہ جو مورد بحث آيت كے بعد نازل ہوئي ہے_

۵۱۹

اور بعض مفسرين كا خيال يہ ہے كہ كلمہ ''يتلي'' مضارع استمرارى ہے اور يہ ان آيات كى طرف اشارہ ہے كہ جو اس سے پہلے مكہ ميں (آيت ۱۴۵ سورہ انعام اور آيت ۱۱۵ سورہ نحل) اور ہجرت كے چھ ماہ بعد مدينہ ميں (آيت ۱۷۳ سورہ بقرہ) نازل ہوئي ہيں مذكورہ مطلب دوسرے نظريئےے مطابق ہے _

۱۱ _ اس جانور كے گوشت سے استفادہ كرنا حرام ہے كہ جسے غيرخدا كے نام كے ساتھ ذبح كيا گيا ہو_و أحلت لكم الأنعام إلا ما يتلى عليكم ''إلا ما يتلى عليكم'' ميں كلمہ ''ما'' اگرچہ عام ہے اور ان تمام موارد كو شامل ہے كہ جو ''محرمات اكل''كى آيات ميں بيان ہوئے ہيں ليكن گذشتہ دو آيتوں ميں جملہ ''ويذكروا اسم الله على ما رزقہم من بہيمة الأنعام'' نيز جملہ ''فاجتنبوا الرجس من الأوثان ...'' (آيت كا ذيل) كى جملہ''أحلت لكم الأنعام إلا ما يتلى عليكم'' پر تفريع كے قرينے سے كہا جاسكتا ہے كہ ''ما'' سے مرادفقط وہ موارد ہيں كہ جہاں جانور كو غيرخدا (بتوں ) كے نام سے ذبح كيا گيا ہو_

۱۲ _ زمانہ جاہليت ميں مراسم حج و قربانى كا شرك و بت پرستى كے مظاہر كے ساتھ آميختہ ہونا_

و احلت لكم الانعام الا ما يتلى عليكم فاجتنبوا الرجس من الاوثان

۱۳ _ بت، رجس اور پليدگى كا مظہر ہے_فاجتنبوا الرجس من الاوثان

۱۴ _ بتوں سے اجتناب كا ضرورى ہونا_فاجتنبوا الرجس من الاوثان ''رجس'' ہر برى اور پليد چيز كو كہاجاتا ہے ''اوثان''، ''وثن'' كى جمع اور بتوں كے معنى ميں ہے اور ''من الاوثان'' ميں ''من'' بيانيہ ہے پس''فاجتنبوا الرجس من الاوثان'' يعنى بتوں سے كہ جو برے اور پليد ہيں اجتناب كرو_

۱۵ _ بت پرست، پليد لوگ ہيں _فاجتنبوا الرجس من الاوثان

۱۶ _ عصر بعثت كے مشركين، متعدد بت ركھتے تھے_فاجتنبوا الرجس من الاوثان

۱۷ _ عصر جاہليت كے مراسم حج ميں مشركانہ اورمخالف توحيد نعروں كا وجود_واجتنبوا قول الزور

''زور'' كا معنى ہے''قول باطل'' اور''قول الزور'' ميں اضافت بيانيہ ہے يعنى باطل سخن اور ياوہ گوئي سے دورى اختيار كرو اس چيز كو مد نظر ركھتے ہوئے كہ يہ آيت حج سے مربوط آيات ميں سے ہے كہا جاسكتا ہے كہ ''ياوہ گوئي'' سے مراد وہ مشركانہ نعرے ہيں كہ جو مشركين مراسم حج ميں اور شايد اپنے ان بتوں كے پاؤں ميں _ كہ جنہيں انہوں نے منى ميں نصب كرركھا تھا قربانى كو ذبح كرتے وقت لگاتے تھے_

۱۸ _ جھوٹ بولنے اور سخن باطل سے پرہيز كرنا ضرورى ہے_

۵۲۰

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750