تفسير راہنما جلد ۱۱

تفسير راہنما 10%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 750

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 750 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 219112 / ڈاؤنلوڈ: 3020
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

ميں سوال اسكے باور نہ كرنے پر دلالت كرتا ہے كيونكہ وہ انہيں نابود اور مٹ جانے والى اقوام سمجھتا تھا_

۵ _ فرعون نے گذشتہ اقوام كے بارے ميں حضرت موسى (ع) سے سوال پوچھ كر انكى سخن كے مقابلے ميں اپنى بے بسى كو چھپانے كى كوشش كى _من ربكما ا لذى ا عطى كل شيء خلقه فما بال القرون الا ولى

ممكن ہے گذشتہ اقوام كے بارے ميں سوال كرنے كا مقصد صرف بحث كا رخ كسى نامشخص نقطے كى طرف موڑنا ہو_ حضرت موسى (ع) نے اس بحث ميں داخل نہ ہوكر فرعون كى اس كوشش كو نقش بر آب كرديا _

۶ _ فرعون نے گذشتہ اقوام كے افكار و عقائد كا سہارا لے كر حضرت موسى (ع) كا مقابلہ كرنے اور شرك كى حقانيت كو ثابت كرنے كى كوشش كى _قال فما بال القرون الا ولى

فرعون كا گذشتہ اقوام كے افكار سے تمسك كرنا اور يہ كہ اگر موسى (ع) كى رسالت حق ہوتى تو كيوں گذشتہ اقوام كيلئے ايسا رسول نہيں آيا اور وہ عذاب كا شكار نہيں ہوئيں بتاتا ہے كہ اسكى نظر ميں پہلى اقوام كے اعتقادات صحيح اور قابل پيروى ہيں _

۷ _ گذشتہ اقوام كى تاريخ اوراس كا تجزيہ و تحليل ،كفار اور معارف الہى كوباور نہ كرنے والوں كے ايمان و توحيد كے انكار اور رد كرنے كيلئے ايك بہانہ_قال فما بال القرون الا ولى

تاريخ:اس سے سو، استفادہ كرنا۷

توحيد:اسے جھٹلانے كے عوامل ۷

خدا تعالي:اسكے مشركين كے ساتھ سلوك كے بارے ميں سوال ۳_ اسكے عذابوں كو جھٹلانے والے۴

فرعون:اس كا سوال ۳_ ۴_ اسكى شبہہ انگيزى ۲_ اس كا شرك۲،۶;يہ اور گذشتہ اقوام كا عقيدہ ۶_ يہ اور موسى (ع) ۳، ۶_ اسكے سوال كا فلسفہ ۵ اس كا ذلت كو چھپانا ۵

قديم مصر:اسكى تاريخ ۱ _ اسكے مشركين۱

كفار:انكى بہانہ تراشى ۷

گذشتہ اقوام:انكے عذاب كے بارے ميں سوال ۴_ انكى تاريخ ۱; انكے مشركين ۲

موسى (ع) :ان سے سوال ۳، ۴، ۵_ انكا قصہ ۳، ۵، ۶_ انكا مقابلہ۶

۱۰۱

۱۰۷ سے ۱۱۵ تک

( قَالَ عِلْمُهَا عِندَ رَبِّي فِي كِتَابٍ لَّا يَضِلُّ رَبِّي وَلَا يَنسَى ) (٥٢)

( الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ مَهْداً وَسَلَكَ لَكُمْ فِيهَا سُبُلاً وَأَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجْنَا بِهِ أَزْوَاجاً مِّن نَّبَاتٍ شَتَّى ) (٥٣

( كُلُوا وَارْعَوْا أَنْعَامَكُمْ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِّأُوْلِي النُّهَى ) (٥٤)

( مِنْهَا خَلَقْنَاكُمْ وَفِيهَا نُعِيدُكُمْ وَمِنْهَا نُخْرِجُكُمْ تَارَةً أُخْرَى ) (٥٥)

( وَلَقَدْ أَرَيْنَاهُ آيَاتِنَا كُلَّهَا فَكَذَّبَ وَأَبَى ) (٥٦)

( قَالَ أَجِئْتَنَا لِتُخْرِجَنَا مِنْ أَرْضِنَا بِسِحْرِكَ يَا مُوسَى ) (٥٧)

( فَلَنَأْتِيَنَّكَ بِسِحْرٍ مِّثْلِهِ فَاجْعَلْ بَيْنَنَا وَبَيْنَكَ مَوْعِداً لَّا نُخْلِفُهُ نَحْنُ وَلَا أَنتَ مَكَاناً سُوًى ) (٥٨)

( قَالَ مَوْعِدُكُمْ يَوْمُ الزِّينَةِ وَأَن يُحْشَرَ النَّاسُ ضُحًى ) (٥٩)

( فَتَوَلَّى فِرْعَوْنُ فَجَمَعَ كَيْدَهُ ثُمَّ أَتَى ) (٦٠)

۱۰۲

آیت ۶۱

( قَالَ لَهُم مُّوسَى وَيْلَكُمْ لَا تَفْتَرُوا عَلَى اللَّهِ كَذِباً فَيُسْحِتَكُمْ بِعَذَابٍ وَقَدْ خَابَ مَنِ افْتَرَى )

موسى نے ان لوگوں سے كہا كہ تم پر وائے ہو اللہ پر افترا نہ كرو كہ وہ تم كو عذاب كے ذريعہ تباہ برباد كرديگا اور جس نے اس پر بہتان باندھا وہ يقينا رسوا ہوا ہے (۶۱)

۱ _ فرعون اور اس كے پيروكار، خداوند عالم پر افتراء باندھنے والے لوگوں ميں سے تھے_لا تفتروا على اللّه كذبا

۲ _ حضرت موسى (ع) كے معجزات كو شرك اورجادو قرار دينا، انكى مثل لانے كا دعوى اور آپ كى رسالت كو جھٹلانا خداتعالى پر فرعونيوں كى تہمتوں ميں سے _لاتفتروا على الله كذبا

گذشتہ آيات كہ جو حضرت موسى (ع) كى زبانى توحيد كے بيان، معجزات دكھانے اور فرعون كى طرف سے انہيں جادو قرار دينے والے عمل پر مشتمل تھيں كو مد نظر ركھتے ہوئے فرعونيوں كے تہمتوں كے بعض موارد كى طرف اشارہ كيا جاسكتا ہے_

۳ _ انبيا ء كے معجزات كو جادو قرار دينا،خداتعالى پر جھوٹ باندھنے كے مترادف ہے _لاتفتروا على الله كذبا

''افترا'' يعنى جھوٹ باندھنا اور ''على الله '' قرينہ ہے كہ اس سے مراد وہ جھوٹ ہے جوخداتعالى كے بارے ميں گھڑ ا اور باندھا گيا اور كلمہ ''كذباً'' تاكيد كيلئے ہے _

۴ _ خداتعالى پر بہتان باندھنے كى وجہ سے فرعونيوں كو عذاب سے ڈرانا ،فرعون كے جادوگروں كے ساتھ مقابلہ كے ميدان ميں حضرت موسى (ع) كا سرنامہ كلام_قال لهم موسى ويلكم لاتفتروا على الله كذباً فيسحتكم بعذاب

''ويل'' يعنى اندوہ، ہلاكت اور ہر وہ سختى جو عذاب كى وجہ سے آئے (لسان العرب) ''ويلكم'' نفرين ہے يعنى تم پر عذاب ہو بعض نے اسے فعل محذوف كا مفعول قرار ديا ہے يعني'' ا لزمو ويلكم'' (اپنے عذاب اور ہلاكت كے ہمراہ رہو) جملہ''فيسحتكم بعذاب''،''ويلكم'' كے معنى كوواضح كررہا ہے_

۵ _ خداتعالى پر بہتان باندھناد اور اسكے بارے ميں جھوٹى اور خود ساختہ باتيں كہنا،عظيم گناہ اورنابودى والے عذاب كے مستحق ہونے كا سبب ہے_لاتفتروا على الله كذباً فيسحتكم بعذاب

۱۰۳

''يسحتكم'' كے مصدر ''اسحات'' كا معنى ہے جڑ سے اكھاڑ پھينكنا اور نابود كردينا عذاب كے نكرہ ہونے كو مد نظر ركھتے ہوئے كہ جو اسكى شدت اور سختى پر دلالت كرتاہے''فيسحتكم بعذاب'' كا معنى يہ ہے كہ خدا سخت عذاب كے ذريعے تمہيں جڑ سے اكھاڑ پھينكے گا اورتمہيں ہلاك كرديگا _

۶ _ حضرت موسى (ع) كااپنے اور جادوگروں كا مقابلہ ديكھنے كيلئے مصر كے لوگوں كے اجتماع سے انہيں ڈرانے اور توحيد و ايمان كى دعوت دينے كيلئے استفادہ كرنا_قال لهم موسى ويلكم لاتفتروا على الله كذبا

۷ _ لوگوں كو عذاب الہى سے ڈرانا اور تبليغ كيلئے فرصت سے استفادہ كرنا،مبلغين دين كے فرائض ميں سے ہے _

قال ويلكم لاتفتروا بعذاب

۸ _ خداتعالى پر افترا پردازى اور جھوٹ باندھنے كا اس كے انجام دينے والے كيلئے كوئي فائدہ نہيں ہے_

لاتفتروا على الله كذباً و قد خاب من افترى

''خيب'' كا معنى ہے بے بہرہ اور محروم ہونا (قاموس) صدر آيہ كہ جس كا موضوع خداتعالى پر افترا باندھنا ہے_ كے قرينے سے اس سے مراد خدا تعالى كے بارے ميں نادرست باتيں اور جھوٹ بولنے والے كا محروم رہنا اور كوئي نتيجہ حاصل نہ كرنا ہے_

۹ _ دوسروں پر جھوٹ باندھنا اور افترا پردازى كرنا،ناروا اور بے نتيجہ كام ہے_وقد خاب من افترى

۱۰ _ حضرت موسى (ع) نے خداتعالى پر فرعونيوں كے بہتانوں كو ديكھتے ہوئے انہيں خبردار كيا اور انكى شكست اور ناكامى كى پيشين گوئي كى _ويلكم لاتفتروا على الله و قد خاب من افترى

۱۱ _ حضرت موسى (ع) نے سابقہ امتوں ميں سے بہتان باندھنے والوں كى ناكامى كى ياددہانى كرا كے اسے فرعونيوں كيلئے عبرت قرار ديا _و قد خاب من افترى

جملہ ''خاب ...'' گذشتہ لوگوں كے حال كے بارے ميں ايك خبر ہے اور اسے موسى (ع) ا ور فرعون كے ميدان مقابلہ ميں حاضر ہونے والوں كى عبرت كيلئے بيان كيا گياہے_

انبياء (ع) :ان پر جادو كى تہمت ۳

بہتان باندھنا:

۱۰۴

خدا پر بہتان باندھنے كے اثرات ۵; خدا پر بہتان باندھنا۳; خدا پر بہتان باندھنے كا بے اثر ہونا ۸; بہتان باندھنے كا برا انجام۹; خدا پر بہتان باندھنے كا گناہ ۵; بہان باندھنے كا ناپسند ہونا ۹

تبليغ:اس ميں فرصت ۶، ۷; اس ميں انذار ۷

توحيد:اسكى دعوت ۶/ڈرانا:عذاب سے ڈرانا ۴

خداتعالى پر بہتان باندھنے والے: ۱، ۲/انكو ڈرانا۴; ان سے عبرت حاصل كرنا ۱۱

عذاب :اسكے اسباب ۵/فرعون:اسكے بہتان ۱

فرعون كے پيروكار:انكے بہتان۱، ۲; انكو ڈرانا۴; انكى شكست كى پيشين گوئي ۱۰; انكى عبرت كے عوامل ۱۱

فرعون كے جادوگر:انكے ساتھ مناظرہ ۴/گذشتہ اقوام:ان سے عبرت حاصل كرنا ۱۱

گناہان كبيرہ: ۵/فرصت:اس سے استفادہ ۶

مبلغين:انكى ذمہ دارى ۷

موسى (ع) :انكا ڈرانا ۴، ۶، ۱۰; انكى پيشين گوئي ۱۰; انكى تعليمات ۱۱; ان پر جادو كى تہمت ۲; انكى دعوت ۶; انكى تبليغ كى روش ۶; انكا قصہ ۲، ۴، ۶، ۱۰، ۱۱; انكى نبوت كو جھٹلا نے والے ۲; انكى موُع شناسى ۶; انكے معجزہ كى مثل بنانا ۲

ہلاكت :اسكے عوامل ۵

آیت ۶۲

( فَتَنَازَعُوا أَمْرَهُم بَيْنَهُمْ وَأَسَرُّوا النَّجْوَى )

اس پر وہ لوگ آپس ميں جھگڑا كرنے لگے اور سرگوشيوں ميں مصروف ہوگئے (۶۲)

۱ _ مقابلہ كے ميدان ميں فرعونيوں كو حضرت موسى (ع) كا خبردار كرنا ان كے درميان اختلاف اور كشمكش كا سبب بنا _ويلكم لاتفتروا فتنزعوا ا مرهم بينهم

''فتنازعوا'' ميں ''فا'' اس نكتے پر دلالت كر رہى ہے كہ مقابلے كے ميدان ميں حضرت موسى (ع) كے خبردار كرنے كے فوراً بعد فرعونيوں كے درميان نزاع اور كشمكش ہونے لگى _

۲ _ فرعونيوں كى صفوں ميں بعض حق طلب اور نصيحت قبول كرنے والے افراد كا وجودفتنزعوا ا مرهم بينهم

حضرت موسى (ع) كے بارے ميں فرعونيوں كى رائے كا مختلف ہونا بتاتا ہے كہ مقابلے والے دن ان ميں سے بعض

۱۰۵

حضرت موسى (ع) كى طرف تمايل ركھتے تھے_

۳ _ اہم اور بنيادى امور طے كرنے كيلئے فرعونيوں كے درميان مشاورت ہوتى تھي_فتنزعوا ا مرهم بينهم

فرعونيوں كے درميان تنازع كھڑا ہونا بتاتا ہے كہ وہ اپنے آپ كو فرعون كا بے چون و چرا تابع نہيں سمجھتے تھے بلكہ اہم امور ميں اپنے لئے حق رائے كے قائل تھے_

۴ _ فرعون كے پيروكار حضرت موسى (ع) كے بارے ميں اپنے اختلاف نظر كو سختى كے ساتھ لوگوں سے پنہان كرتے تھے_فتنزعوا و اسرواالنجوي

''نجوا'' كا معنى ہے مخفى بات اور سرگوشى ''اسروا'' كا معنى بھى ہے ''انہوں نے پنہان كيا'' ''نجوا'' كو پنہان كرنا كہ جو خود بھى پنہان ہے فرعونيوں كى طرف سے حضرت موسى (ع) سے متعلق امور كو سختى كے ساتھ پنہان كرنے سے حكايت كرتا ہے_

۵ _ فرعونى لوگ،حضرت موسى (ع) كے بارے ميں اپنى مختلف آراء كو پنہان كر كے اپنى خفيہ باتوں تك لوگوں كو دسترسى حاصل كرنے سے روكتے تھے_فتنزعوا و اسروا النجوى

''النجوى '' ميں ''ال'' عہد ذكرى كا ہے كہ جو فرعونيوں كے درميان پيدا ہونے والے نزاع اور ان كے درميان ہونے والى مختلف باتوں كى طرف اشارہ ہے_ اور فعل '' ا سرّوا'' بتاتا ہے كہ اسے دوسروں سے مخفى كرتے اور كسى كو انكى اطلاع نہ ہونے ديتے تھے_

۶ _ فرعونيوں كى آپس ميں سرگوشياں اختلاف اور كشمكش كوختم كرنے اور اپنى صفوں ميں اتحاد قائم كرنے كيلئے تھيں _

فتنزعوا و ا سرّوا النجوي

۷ _ حضرت موسى (ع) كے مقابلے كے ضرورى ہونے پر فرعونيوں كے متفق ہونے كے باوجود اسكى روش كے بارے ميں ان كا اختلاف تھا_*فتنزعوا امرهم و اسرّوا

فعل ''اسرّوا'' سے اس بات كا استفادہ ہوتا ہے كہ طرفين نزاع اپنى گفتگو كے مخفى ہونے كے خواہان تھے اور جو كچھ لوگوں كو سركارى طور پر بتايا جاتا ''اگر بعد كى آيت كے مطالب وہ ہوں جو فرعونيوں كى طرف سے لوگوں كو بتائے جاتے تھے''_ وہ انكى مشترك باتيں ہوتيں تھيں جو وہ موسى (ع) كا مقابلہ كرنے اور انكى سرگرميوں كو روكنے

۱۰۶

كيلئے ان تك پہنچائي جاتيں _ كلمہ ''ا مرہم'' كہ جو نزاع كو فرعونيوں كے امور ميں قرار دے رہا ہے اسى نكتے كى تائيد كرتا ہے _

فرعون كے ساتھي:انكے انذار كے اثرات ۱; انكا اتحاد ۷; انكے اختلاف كا چھپانا ۴، ۵; انكا اختلاف ۷; انكے حق طلب لوگ ۲; انكے اختلاف كا پيش خيمہ ۱; انكے اختلاف كا حل ۶;انكى صفات ۳; انكى سرگوشى كا فلسفہ ۶; انكى مشاورت ۳; انكے نصيحت قبول كرنے والے ۲

موسى (ع) :انكے اندر ز كے اثرات ۱; انكے مقابلے كى روش ۷; انكا قصہ ۱، ۴، ۵، ۷

آیت ۶۳

( قَالُوا إِنْ هَذَانِ لَسَاحِرَانِ يُرِيدَانِ أَن يُخْرِجَاكُم مِّنْ أَرْضِكُم بِسِحْرِهِمَا وَيَذْهَبَا بِطَرِيقَتِكُمُ الْمُثْلَى )

ان لوگوں نے كہا كہ يہ دونوں جادوگر ہيں جو تم لوگوں كو اپنے جادو كے زور پر تمھارى سرزمين سے نكال دينا چاہتے ہيں اور تمھارے اچھے خاصے طريقہ كو مٹا دينا چاہتے ہيں (۶۳)

۱ _ حضرت موسى (ع) كى گفتگو كے بعد بعض فرعوني،آپ كى طرف متمايل ہونے كى وجہ سے فرعونيوں كے درميان تنازعہ كا باعث بن گئے_فتنزعوا قالوا إن هذن لسحرن

بعد والى آيت كا جملہ '' فاجمعوا كيدكم'' قرينہ ہے كہ ''قالوا'' كا فاعل فرعونيوں كا وہ گروہ ہے كہ جو اپنے ہى دوسرے گروہ كے ساتھ محو گفتگو ہوا پچھلى آيت بھى اس معنى كو صراحت كے ساتھ بيان كررہى ہے كہ فرعونيوں كے درميان تنازعہ كھڑا ہوگيا تھا يہ تنازعہ حضرت موسى كے بارے ميں تھا اور ''قالوا'' كا فاعل دوسرے گروہ كو سمجھانا چاہتا ہے_

۲ _ حضرت موسى (ع) كى طرف مائل ہونے والوں كو جذب كرنے اور انہيں اپنى سمت لانے كيلئے فرعونيوں نے پروپيگنڈا مہم شروع كى _فتنزعوا و ا سرّوا النجوى قالوا ان هذان لسحران

۳ _ موسى و ہارون كے ساحر ہونے پر زور دينا،فرعونيوں كى پروپيگنڈا مہم كا حصہ _قالوا إن هذان لسحران

حرف ''ان'' ''انَّ''كا مخفف ہے اور عمل نہيں كررہا ليكن يہ تاكيد كا معنى ديتا ہے _

۴ _ حضرت ہارون (ع) ، فرعون كے ساتھ مقابلے ميں موسى كے قدم بقدم اور موسى اور جادوگروں كے مقابلے كے ميدان ميں حاضر _إن هذن لسحران

۱۰۷

۵ _ موسى (ع) و ہارون(ع) پر جادو كے ذريعے قبطيوں كو مصر سے نكال باہر كرنے كى كوشش كرنے اور منصوبہ بنانے كا الزام، فرعونيوں كى طرف سے موسى (ع) كے خلاف پروپيگنڈا مہم كا حصہ تھا_

لسحران يريدان ان يخرجاكم من ا رضكم بسحرهم

۶ _ فرعونى لوگ (قبطي) سرزمين مصر كو اپنى ملكيت سمجھتے تھے _يخرجاكم من ا رضكم

۷ _ فرعونى اپنے آپ كو ايك نمونہ اور برتر راہ و روش كے حامل سمجھتے تھے _و يذهبا بطريقتكم المثلى

''طريقہ'' يعنى راہ و روش اور ''مثلى ''،''ا مثل'' كى مؤنث ہے يعنى حق كے زيادہ مشابہ اور خير و خوبى كے زيادہ نزديك (مفردات راغب)

۸ _ فرعونيوں نے موسى و ہارون كے خلاف پروپيگنڈے ميں انہيں اپنے نمونہ اور برتر راہ و روش كونابود كرنے والے متعارف كرايا _و يذهبا بطريقتكم المثلى

۹ _ فرعونيوں كا اپنى پروپيگنڈا مہم ميں قبطيوں كى وطن و سرزمين سے محبت اور قومى ومذہبى جذبات سے استفادہ كرنا_

يخرجاكم من ا رضكم بطريقتكم المثلى

۱۰ _ الزام تراشى اور اپنے دين اور طرز زندگى كى برترى كا دعوى ، دين انبياء او رحق كے رد عمل ميں استكبار كا شيوا _

إن هذن لسحرن بطريقتكم المثلى

۱۱ _ فرعون كے طرف دار اور دست و بازو، حضرت موسى (ع) كے بارے ميں و فرعون كى انہى باتوں اورنظريات كا تكرار اور پرچار كرتے تھے _ا جئتنا لتخرجنا من ا رضنا بسحرك لسحرن يريدان ا ن يخرجاكم

استكبار:اسكى حق دشمنى ۱۰; اس كا سلوك ۱۰

انبياء:انكے ساتھ سلوك ۱۰

پروپيگنڈا:اس ميں جذبات كو بھڑكانا ۹

تمايلات:موسى كى طرف تمايل ۱

سرزمين:سرزمين مصر كى مالكيت۶

فرعون:اسكے پروپيگنڈے كى روش ۱۱; فرعون اور موسى (ع) ۱۱; اسكے ساتھ مبارزت ۴

۱۰۸

فرعون كے پيروكار:انہيں مصر سے نكالنا ۵; انكا دعوى ۶; انكے دين كى برترى ۷; انكى سوچ ۷، ۸; انكا پروپيگنڈا۲; انكى توجيہ ۲; انكى تہمتيں ۳، ۵; انكے جذبات كو بھڑكانا ۹; انكے پروپيگنڈے كى روش ۳، ۵، ۹، ۱۱; انكے اختلاف كا پيش خيمہ ۱; يہ اور موسى ۱۱; انكى قوميت پرستى ۹; انكى طرز زندگى كو نابود كرنے والے ۸

فرعون كے جادوگر:انكا مقابلہ ۴

موسى (ع) :انكے سخن كے اثرات ۱; انكے خلاف پروپيگنڈا ،۳، ۵، ۸، ۹، ۱۱; ان پر جادو كى تہمت ۳، ۵; انكا قصہ ۱، ۲، ۳، ۴، ۵; انكا مقابلہ ۴; انكى تاثير ۸

ہارون (ع) :انكے خلاف پروپيگنڈا ۱، ۳، ۵، ۸، ۹; ان پر جادو كى تہمت ۳، ۵; انكا قصہ ۳، ۴، ۵; انكا مقابلہ ۴; انكى تاثير ۴،۸

آیت ۶۴

( فَأَجْمِعُوا كَيْدَكُمْ ثُمَّ ائْتُوا صَفّاً وَقَدْ أَفْلَحَ الْيَوْمَ مَنِ اسْتَعْلَى )

لہذا تم لوگ اپنى تدبيروں كو جمع كرو او رپرا باندھ كر ان كے مقابلہ پر آجاؤ جو آج كے دن غالب آجائے گا وہى كامياب كہا جائيگا (۶۴)

۱ _ فرعون كے مبلغين اور دست و بازو سب فرعونيوں كو موسى (ع) كے خلاف ہم فكري، اتحاد اور تمام حربوں كو استعمال كرنے كى دعوت ديتے تھے _فتنزعوا قالوا فاجمعوا كيدكم ثم ائتوا صف

گذشتہ آيات سے محسوس ہوتا ہے كہ حضرت موسى (ع) كى گفتگو كے بعد فرعونيوں كے درميان اختلافات پيدا ہوگئے (فتنازعوا ) اور فرعون كے حامى اور مبلغين دوسرے گروہ كو كہ جو موسى (ع) اور انكے ساتھ مقابلہ كرنے كے سلسلے ميں ترديد كا شكار ہوگيا تھا_

اپنى سمت لانے كى كوشش ميں تھے_ لگتا ہے ''اجمعوا'' كا بھى اسى گروہ كى طرف سے اپنى سابقہ گفتگو كے نتيجے كے طور پر اظہار كيا گيا ہے_

۲ _ حضرت موسى (ع) كى گفتگو كے بعد فرعونيوں كا اختلاف او رانتشار، ميدان مقابلہ ميں ان كيلئے ايك واقعى خطرہ اور ان كے مورچے كو كمزور كرنے كا باعث _ويلكم قالوا فاجمعوا كيدكم ثم ائتو صف

يہ سب آيات موسى (ع) كے مقابلے ميں اپنے اتحاد كو بچانے كيلئے فرعونيوں كى سخت كوشش سے حكايت كرتى ہيں اور دوسرى جہت سے اس خطرے كو بيان كرر ہى ہيں جو اختلاف كى وجہ سے ان كو لاحق ہوگيا تھا _

۱۰۹

۳ _ فرعونى حضرت موسى (ع) كے مقابلے ميں اپنے جادو اور پروگرام كے حيلہ اور مكر ہونے اور حقيقت سے خالى ہونے كے معترف تھے _فأجمعوا كيدكم

فرعونيوں كا اپنے كام اور جادو كے بارے ميں لفظ ''كيد'' كا استعمال بتاتا ہے كہ وہ خود اسكے حقيقت سے عارى اور جادو ہونے كا اعتراف كرتے تھے_اور اسے حضرت موسى (ع) كے مقابلے ميں صرف ايك حيلہ سمجھتے تھے _

۴ _ پورى توانائيوں ور خاص نظم و ہيبت كے ساتھ وارد ہونا،فرعونيوں كى طرف سے موسى كے مقابلے كيلئے ميدان ميں اپنى طاقت كامظاہرہ كرنے كيلئے تجويز_فأجمعوا كيدكم ثم ائتوا صفا

۵ _ فرعون كے جادوگروں كے حضرت موسى (ع) كے ساتھ مقابلے كا دن، فرعونيوں كى نظر ميں تقدير ساز دن تھا_

و قد ا فلح اليوم من استعلى ''فلاح'' كا معنى ہے كاميابى _فرعونيوں كى طرف سے اس بات كا اظہار گواہ ہے كہ وہ اس مقابلے كو زندگى اور موت كا مقابلہ اور اپنى تاريخ ميں ايك موڑ سمجھتے تھے _

۶ _ فرعونى اپنى نجات اور بقا كو ميدان مقابلہ ميں جادوگروں كے حضرت موسى (ع) پر غالب آنے كا مرہون منت سمجھتے تھے _و قد ا فلح اليوم من استعلى

۷ _ فرعونى اپنى باتھوں اور پروپيگنڈے ميں برتر اور بے رقيب جادو كو جادوگركے مقصد اور اسكے عقائد كى حقانيت كى علامت قرار ديتے تھے _و قد ا فلح اليوم من استعلى

حضرت موسى (ع) كے دعووں كو باطل كرنے كيلئے جادوگروں كو جمع كرنا بتاتا ہے كہ فرعونيوں كى نظر ميں جادوگر كى طاقت حق و باطل كا ميزان ہے _

۸ _ فرعونيوں نے دعوت موسى (ع) كے قبول كرنے كو انكے بے نظير جادو لانے پر قادر ہونے كے ساتھ مشروط كر ركھا تھا _و قد ا فلح اليوم من استعلى

اتحاد:اسكى دعوت ۱/ايمان:موسى پر ايمان لانے كى شرائط ۸

فرعون:اسكے مبلغين كى دعوتيں ۱; اسكے موسى كے ساتھ وعدے كا دن ۵

فرعون كے جادوگر :انكى كاميابى كے اثرات ۶

فرعونى :انكا اتحاد ۱; انكا اختلاف ۲; انكى حقانيت كا دعوى ۷;

۱۱۰

انكا اقرار ۳; انكى سوچ ۵، ۶، ۷; انكا جادو ۳، ۷; انكے مطالبات ۴، ۸; انكو دعوت ۱; انكا سلوك ۴; انكے پروپيگنڈے كى روش ۷; انكى شكست كا پيش خيمہ ۲; انكى نجات كا پيش خيمہ ۶; انكى قدرت نمائي ۴; انكا مكر ۳

موسى (ع) :انكى سخن كے اثرات ۲; انكے خلاف پروپيگنڈا ۱; انكے خلاف سازش ۱; ان سے جادو كا مطالبہ ۸; انكا قصہ ۱، ۲، ۴، ۵، ۶، ۸; انكے ساتھ مكر ۳

آیت ۶۵

( قَالُوا يَا مُوسَى إِمَّا أَن تُلْقِيَ وَإِمَّا أَن نَّكُونَ أَوَّلَ مَنْ أَلْقَى )

ان لوگوں نے كہا كہ موسى تم اپنے جادو كو پھينكو گے يا ہم لوگ پہل كريں (۶۵)

۱ _ ميدان مقابلہ اور موسى (ع) كے ساتھ مقابلے ميں فرعون كے جادوگروں نے آغاز كرنے والے كا تعين،حضرت موسى كے سپرد كيا _قالوا يا موسى إما ا ن تلقي ا لقى

۲ _ فرعون كے جادو گروں نے جادو دكھانے ميں پيش قدم ہونے كيلئے اپنى آمادگى كا اعلان كيا _

إما ا ن تلقى و إما ا ن نكون ا ول من القى

۳ _ فرعون كے جادو گر ميدان مقابلہ ميں حضرت موسى (ع) پر اپنى كاميابى سے مطمئن تھے_ا ما إن تلقى و ا ما إن نكون ا ول من ا لقى آغاز كرنے والے كے تعين كيلئے حضرت موسى (ع) كو پيشكش،جادوگروں كے اپنے كام اور اسكے نتيجے كے بارے ميں اطمينان يا كم از كم انكى جانب سے اسكے تظاہر كى حكايت كرتى ہے_

۴ _ ميدان مقابلہ ميں فرعون كے جادوگروں كى حضرت موسى (ع) كے ساتھ گفتگو اور سلوك آپكے ساتھ نرمى اور آپ كى نسبت اظہار ادب كے ساتھ تھا _ياموسى أن تلقى و إم آغاز كرنے والے كے انتخاب كا حضرت موسى كے حوالے كرنا اور اس سلسلے ميں اپنى رائے كو مسلط نہ كرنا جادوگروں كى طرف سے نرمى اور ادب كے اظہار سے خالى نہيں ہے_

۵ _ حضرت موسى (ع) كے معجزات پيش كرنے سے پہلے اپنا جادو دكھانا، فرعون كے جادوگروں كى خواہش _*

إما ا ن تلقى و إما ا ن نكون ا ول من القى

پيشكش كے دوسرے حصے ميں تعبير كا اختلاف اس بات كى حكايت كرتا ہے كہ جادوگر شروع كرنے كيلئے زيادہ خواہش ركھتے تھے اور اس طريقے سے اس كا اظہار كرتے تھے كيونكہ''ا ن

۱۱۱

نكون ...'' كى جگہ ''إما ا ن نلقى '' بھى كہ سكتے تھے _

۶ _ حضرت موسى (ع) كى طرف سے جادو پيش كئے جانے كى صورت ميں فرعون كے جادوگر انكى شكست كو حتمى سمجھ رہے تھے اور ميدان عمل ميں اپنے كو دنے كى ضرورت محسوس نہيں كرتے تھے_ *إما ا ن تلقى و إما ا ن نكون ا ول من ا لقى جادوگروں نے اختيار كى دو شقيں اس طرح بيان كيں كہ گويا اگر موسى (ع) اپنے جادو كو پيش كريں تو ان كا كام تمام ہوجائيگا اور ان كى ناتوانى سب كيلئے واضح ہوجائيگى اور صرف اس صورت ميں پہلى اور دوسرى بارے آئيگى جب وہ خود اسے شروع كريں اسلئے انہوں نے موسى (ع) كے بارے ميں ''ا ول من القى '' كى تعبير استعمال نہيں كى _

۷ _ فرعون كے زمانے ميں رائج جادو ايك خاص قسم اور زمين پر پھينكى ہوئي چيزوں كے اوپر جادو كى نمائش كى صورت ميں محدو د تھا _*إما ا ن تلقى و إما ا ن نكون ا ول من ا لقى

جادوگروں نے اپنے بيان ميں جو تعبير استعمال كى ہے (يا آپ پھينكيں يا پہلے ہم پھينكيں گے) ہوسكتا ہے اس بات سے حاكى ہو كہ كسى شخص كو كسى دوسرى قسم كے جادو كى توقع نہيں تھى رسيوں اور ڈنڈوں كا فراہم كرنا كہ جس پر بعد والى آيت دلالت كر رہى ہے اسى نكتے كو بيان كرتا ہے_

۸ _ فرعون كے جادوگروں نے حضرت موسى (ع) كے معجزے جيسے جادو كو نظر ميں ركھا ہوا تھا_ا ن تلقي من ا لقى

۹ _ حضرت موسى (ع) كے ساتھ مقابلے ميں فرعون كے جادوگر يك زبان، يك دل اور ايك دوسرى كے يار و مددگار تھے_

و إما أن نكون ا ول من ا لقى

''اول من القي'' كا سب جادوگروں پر صدق كرنا ان كے مشترك ہدف اور ايك روش سے حاكى ہے_

جادو:اسكى تاريخ ۷; فرعون كے زمانے ميں اسكى خصوصيات ۷

فرعون كے جادوگر:انكى تيارى ۲; انكا اتحاد ۹; انكا ادب ۴; انكا اطمينان ۳، ۶; انكى سوچ ۶; انكى پيشكش ۱; يہ اور موسى ۱، ۲، ۴، ۵; انكا جادو ۸; ان كا سلوك ۴; ان كے تمايلات ۵

موسى (ع) :انكى شكست كا اطمينان ۶; انكا قصہ ۱، ۲، ۳، ۴، ۵، ۶، ۸، ۹; ان كے ساتھ مبارزت ۹; انكا عصا و الا معجزہ ۸

۱۱۲

آیت ۶۶

( قَالَ بَلْ أَلْقُوا فَإِذَا حِبَالُهُمْ وَعِصِيُّهُمْ يُخَيَّلُ إِلَيْهِ مِن سِحْرِهِمْ أَنَّهَا تَسْعَى )

موسى نے كہا كہ نہيں تم ابتدا كرو ايك مرتبہ كيا ديكھا كہ ان كى رسياں اور لكڑياں جادو كى نباپر ايسى لگنے لگيں جيسے سب دوڑ رہى ہوں (۶۶)

۱ _ حضرت موسى (ع) نے مقابلے كا آغاز،فرعون كے جادوگروں كے سپرد كيا اور ان كى طرف سے كام كے آغازپر زور ديا _إما ا ن تلقي قال بل ا لقوا

۲ _ حضرت موسى (ع) كو مخالفين پر كاميابى كے سلسلے ميں خداتعالى كے وعدوں پر قوى اعتماد تھا _قال بل ا لقوا

گذشتہ آيات ميں خداتعالى نے حضرت موسى (ع) كو اطمينان دلايا كہ واقعات پر اسكى مكمل نظر ہے اور پريشانى كى ضرورت نہيں ہے( لاتخافا إننّى معكما ا سمع و ا ري) ميدان كارزار دشمن كے حوالے كرنا اورموسى كا خود تماشائي بن كر بيٹھ جانا آپ كے اس وعدہ پر مكمل اعتماد كا غماز ہے

۳ _ شبہہ كو باطل اور ختم كرنے كى تيارى كى خاطر ان كے بيان كرنے كا جائز ہونا_قال بل ا لقوا فإذا

حضرت موسى (ع) يہ كرسكتے تھے كہ آغاز كا انتخاب كر كے جادوگروں كى بساط ليپٹ ديتے اور انہيں بالكل اس كام كى اجازت ہى نہ ديتے ليكن انہوں نے جادوگروں كو اس لئے جادو كرنے كى اجازت دى تا كہ فرعون كى طرف سے ڈالا ہوا شبہہ (فلنا تينك ...)باطل كر كے اپنى حقانيت كا اظہار كرسكيں _ اس اجازت كا مطلب يہ ہے كہ شبہات كا جواب دينے كيلئے انہيں بيان كرنے كى اجازت دينا اشكال نہيں ركھتا بلكہ يہ مطلوب بھى ہے _

۴ _ حضرت موسى (ع) كى طرف سے اجازت ملتے ہى فرعون كے جادوگروں نے اپنے جادو كے آلات كو كام ميں لاتے ہوئے اپنے جادو كا آغاز كرديا _قال بل القوا فاذا

''فإذا'' ميں ''فائ'' فصيحہ اور محذوف و مقدر جملوں كو بيان كر رہى ہے حرف ''اذا'' مفاجات كيلئے ہے اور جادوگروں كے عمل كى سرعت كى حكايت كر رہا ہے اس طرح آيت كريمہ كا معنى يہ ہے '' موسى (ع) نے كہا تم اپنا جادو پيش كرو اور انہوں نے اپنا جادو دكھايا كہ اچانك انكى رسياں اور ...''

۱۱۳

۵ _ رسياں اور ڈنڈے، فرعون كے جادوگروں كے كام كے آلات _فإذا حبالهم و عصيهم

(''حبال'' كے مفرد) حبل كا معنى ہے رسى اور (''عصّي'' كے مفرد) عصا كا معنى ہے لكڑى كا ڈنڈا _

۶ _ فرعون كے جادوگروں نے اپنے جادو كے ساتھ يوں اظہار كيا كہ انكى رسياں اور ڈنڈے ہر طرف بھاگتے اور حركت كرتے ہيں _فإذا حبالهم و عصيهم يخيل إليه من سحرهم ا نها تسعى

''ا نہا تسعى ''،''يخيل'' كا نائب فاعل ہے اور فعل ''يخيل إليہ'' دلالت كر رہا ہے كہ در حقيقت رسياں اور ڈنڈے بے حركت تھے نہ يہ كہ ان پر ايسا مادہ لگا ہوا تھا كہ ان پر دھوپ پڑنے كى وجہ سے وہ واقعا حركت كرنے لگے ہوں _

۷ _ فرعون كے جادوگروں كے جادو كا لوگوں كے ادراك كرنے والے قوتوں پر اثر ہوا اور اس نے ان ميں تخيل اور توہم پيدا كرديا _يخيل إليه من سحرهم ا نها تسعى

''يخيل إليہ'' يعنى وہم و خيال نے موسى كيلئے يوں اظہار كيا كہ رسياں اور ڈنڈے حركت كررہے ہيں _ ضمير ''إليہ'' كا مرجع اگر چہ موسى (ع) ہيں ليكن واضح ہے كہ ميدان كارزار ميں موجود سب لوگ ايسا محسوس كر رہے تھے _

۸ _ جادو كاادراك كرنے والى قوتوں اور خيالى قوت پر اثر ہوتا ہے_يخيل إليه من سحرهم

۹ _ فرعون كے جادوگروں نے موسى (ع) كے مقابلے كے ميدان ميں حاضر ہونے سے پہلے بہت سارى رسيوں اور ڈنڈوں كا انتظام كر ركھا تھا_فإذا حبالهم وعصيهم

۱۰ _ جادو، اشيا كى حقيقت كو تبديل نہيں كرتا _يخيل إليه من سحرهم أنها تسعى

۱۱ _ حضرت موسى (ع) كى خيالى قوت اور نقطہ نظر بھى فرعون كے جادوگروں كے جادو سے متا ثر ہوگيا _

يخيل إليه من سحرهم ا نها تسعى

۱۲ _ انبياء الہى كى قوت و ہم و خيال پر جادو كے اثر كا امكان _يخيل اليه من سحرهم

انسان كى نظر ميں كسى چيز كو اسكى حقيقى شكل و صورت سے مختلف صورت ميں پيش كرنا (جيسے موج والے پانى ميں پڑى ہوئي لكڑى كا ٹوٹى ہوئي محسوس ہونا) اس كى حقيقت كى شناخت سے مانع نہيں ہے تا كہ يہ انسان كے درك و فہم كا نقص شمار ہو اور نبوت كے منافى ہو _

ادراك:

۱۱۴

ادراك كرنے والى قوتوں پر جادو كا اثر ۸

انبياء (ع) :ان پر جادو كا اثر ۱۲//جادو:اسكے اثرات ۱۰; اسكے نفسيانى اثرات۸

خداتعالى :اسكے وعدے ۲//شبہہ:اسے دور كرنے كى روش ۳

فرعون كے جادوگر :۷

ان كے جادو كے اثرات ۱۱; انكے آلات ۵، ۹; انكا جادو ۴، ۶; انكے جادو كى خيال انگيزى ۷; انكى رسياں ۵، ۶، ۹; انكے ڈنڈے ۵، ۶، ۹

موسى (ع) :انكى اجازت ۴; انكا اطمينان ۲; ان ميں جادو كى تا ثير ۱۱; انكا قصہ ۱، ۴، ۶، ۹، ۱۱; يہ اور فرعون كے جادوگر ۱; انكى كاميابى كا وعدہ ۲

تو موسى نے اپنے دل ميں (قوم كى گمراہى كا )

آیت ۶۷

( فَأَوْجَسَ فِي نَفْسِهِ خِيفَةً مُّوسَى )

خوف محسوس كيا (۶۷)

۱ _ فرعون كے جادوگروں كا جادو ديكھنے كے بعد،حضرت موسى (ع) كو اسكے ممكنہ اثرات كى وجہ سے اپنے دل ميں پريشانى ہوئي _من سحرهم فا وجس فى نفسه خيفة موسى

''ا وجس'' كا معنى ہے ''ا حسّ'' نيز يہ ''ا ضمر'' (مخفى كيا) كے معنى ميں بھى آيا ہے (لسان العرب) اس آيت ميں ''احسّ'' كا معنى زيادہ مناسب لگ رہا ہے كيونكہ ''اخفا'' كا معنى ''فى نفسہ'' ميں آگيا ہے پس ''ا وجس فى نفسه '' يعنى موسى نے اپنے دل ميں خوف اورپريشانى كا احساس كيا_

۲ _ جادوگروں كے جادو كے نتائج سے حضرت موسى (ع) كى پريشانى فقط ان كے دل ميں تھى اور بالكل ظاہر نہ ہوئي _

فا وجس فى نفسه خيفة موسى

۳ _ فرعون كے جادوگروں كى طرف سے پيش كيا گيا جادو جاذب نظر اور گمراہ كنندہ تھا _فا وجس فى نفسه خيفة موسى

''خيفة'' ايك قسم كے خوف اور پريشانى كے معنى ميں ہے_ فرعون كے جادوگروں كے جادو كے بعد موسى (ع) كو يہ پريشانى لاحق ہونا ان كے كام كے

۱۱۵

جاذب نظر اور ماہرانہ ہونے سے حكايت كرتا ہے_ اس طرح كہ حضرت موسى (ع) لوگوں كے دھوكہ كھانے كو واضح طور پر ديكھ رہے تھے_

۴ _ غلط پروپيگنڈے كے نيتجے ميں لوگوں كے گرويدہ ہونے اور ان پر حق و باطل كے مشتبہ ہونے سے پريشان ہونا ايك ممكن امر اور اچھا خوف ہے_فا وجس فى نفسه خيفة موسى

بعدوالى آيت ميں نہى حضرت موسى (ع) كو انكى پريشانى كى وجہ سے منع نہيں كر رہى بلكہ جملہ ''إنك ا نت الا على '' اس كام كے انجام اور يہ كہ كاميابى موسى كو ہوگى كے بارے ميں خبر دے رہى ہے اور موسى (ع) كى پريشانى كو زائل كررہى ہے_

۵ _ انبياء كے اندر عام انسانوں كى نفسيات اور حالات كا وجود_فا وجس فى نفسه خيفة موسى

۶ _عن اميرالمؤمنين(ع):لم يوجس موسى (ع) خيفة على نفسه بل أشفق من غلبة الجهال و دْوَل الضلال; اميرالمؤمنين(ع) سے روايت كى گئي ہے موسى كو اپنى جان كا خطرہ نہيں تھا بلكہ انہيں خوف تھا كہ مبادا جہال اور گمراہ حكومتيں غالب آجائيں(۱)

انبياء:ان كا انسان ہونا ۵

پريشاني:پسنديدہ پريشانى ۴

خوف:پسنديدہ خوف ۴

روايت : ۶

عوام:انكى گمراہى كا خوف ۴

فرعون كے جادوگر:اسكے جادو كے اثرات ۱; انكے جادو كے جاذب ہونا ۳

فرعوني:

انكى كاميابى كا خوف ۶

موسى (ع) :

انكى پريشانى كا پنہان ہونا ۲; انكى پريشانى كے عوامل ۱; انكے خوف كا فلسفہ ۶; انكا قصہ ۱، ۲، ۳، ۶

____________________

۱ ) نہج البلاغہ خطبہ ۴ حصہ پنجم _ نورالثقلين ج۳ ص ۳۸۴ ح ۱۲_

۱۱۶

آیت ۶۸

( قُلْنَا لَا تَخَفْ إِنَّكَ أَنتَ الْأَعْلَى )

ہم نے كہا كہ موسى دڑو نہيں تم بہرحال غالب رہنے والے ہو (۶۸)

۱ _ مضبوط دل ركھنا اور فرعون كے جادوگروں كے جادو كے اثرات سے پريشان نہ ہونا جادوگروں كے ساتھ مقابلے كے ميدان ميں حضرت موسى (ع) كى طرف خداتعالى كى وحى كا محتوا_فأوجس قلنا لا تخف

۲ _ خداتعالى نے حضرت موسى (ع) كو جادوگروں كے ساتھ مقابلے كے ميدان ميں اپنى يقينى كاميابى سے آگاہ كركے ان كا دل مضبوط كيا اور انہيں اطمينان بخشا _قلنا لا تخف إنك ا نت الا على

۳ _ حضرت موسى (ع) كو شكوك و شبہات پيدا كرنے اور جادوگروں كے جادو سے لوگوں كى گمراہى كے احتمال كى وجہ سے پريشانى تھي_قلنا لا تخف إنك ا نت الا على

جملہ''إنك ا نت الا علي''،''لاتخف'' كى علت ہے اور دلالت كر رہا ہے كہ حضرت موسى (ع) اس بات سے پريشان تھے كہ كہيں ان كا معجزہ جادوگروں كے جادو كے ساتھ مشتبہ نہ ہوجائے اور لوگ ان كى حقانيت تك نہ پہنچ سكيں خداتعالى نے انكى قطعى برترى كو بيان كر كے انكے خوف كى وجہ كو ختم كرديا _

۴ _ خداتعالى ،حساس اور تقدير ساز لمحات ميں موسى كا رہنما اور انہيں نفسياتى بحرانوں اور ذہنى اضطراب سے نجات دينے والا _قلنا لا تخف

۵ _ خداتعالى نے حضرت موسى (ع) كو اطمينان دلايا كہ ميدان مقابلہ ميں موجود سب جادوگروں سے انكى توان زيادہ ہے اور ان كا مقام،فرعون اور فرعونيوں سے بلند ہے_إنك ا نت الا على

بنى اسرائيل:انكى گمراہى سے پريشانى ۳

۱۱۷

خداتعالى :اس كا علم غيب ۳; اس كا نجات دينا ۴

فرعون:اسكى كمزورى ۵

فرعون كے جادوگر:انكے جادو كے اثرات ۱، ۳

فرعونى :انكى كمزورى ۵

موسى (ع) :انكى برترى ۵; انكو تسلى ۵; انكا خوف دور كرنا ۱; انكى پريشانى كے عوامل ۳; انكا قصہ ۱، ۳، ۵; انكا مقام و مرتبہ ۵; انكے اطمينان كا سرچشمہ ۲; انكا اضطراب ختم كرنے كا سرچشمہ ۴; انكى نجات كا سرچشمہ ۴; انكى كاميابى ۲; انكى طرف وحى ۱; انكى ہدايت ۴

آیت ۶۹

( وَأَلْقِ مَا فِي يَمِينِكَ تَلْقَفْ مَا صَنَعُوا إِنَّمَا صَنَعُوا كَيْدُ سَاحِرٍ وَلَا يُفْلِحُ السَّاحِرُ حَيْثُ أَتَى )

اور جو كچھ تمھارے ہاتھ ميں ہے اسے ڈال دو يہ ان كے سارے كئے دھر ے كو چن لے گا ان لوگوں نے جو كچھ كيا ہے وہ صرف جادوگر كى چال ہے اور بس اور جادوگر جہاں بھى جائے كبھى كامياب نہيں ہوسكتا (۶۹)

۱ _ فرعون كے جادوگروں كا جادو پيش ہونے كے بعد خداتعالى نے حضرت موسى (ع) كو اپنا ڈنڈا زمين پر پھينكنے كا حكم ديا _و ا لق ما فى يمينك

''ما فى يمينك'' سے مراد حضرت موسى (ع) كا ڈنڈا ہے كہ جو گذشتہ آيات ميں ''ما تلك بيمينك''كے جواب ميں حضرت موسى (ع) كى زبانى بيان ہوچكا ہے_ اس بات كى تصريح نے حضرت موسى (ع) كيلئے اس سوال و جواب كى ياد تازہ كردى اور ان كيلئے زيادہ اطمينان كاموجب بنى _

۲ _ حضرت موسى (ع) كے ڈنڈے كے ذريعے فرعون كے جادوگروں كے جادو كا نگلا جانا اور انكى خودساختہ چيزوں كا باطل ہوجانا، خداتعالى كا حضرت موسى (ع) كے ساتھ وعدہ _و ا لق ما فى يمينك تلقف ما صنعوا

۳ _ جادوگروں كے ساتھ مقابلے كے ميدان ميں حضرت موسى (ع) كا ڈنڈا ان كے دائيں ہاتھ ميں تھا _

و ا لق ما فى يمينك

۴ _ ڈنڈا پكڑنے كے آداب ميں سے ہے اسے دائيں ہاتھ ميں پكڑاجائے _و ا لق ما فى يمينك

انبيا كے كام اور انكى سنتيں _ سوائے ان كے مخصوص شخصى موارد كے سب كے سب ہمارے لئے قابل پيروى ہيں

۱۱۸

ڈنڈے كا حضرت موسى (ع) كے دائيں ہاتھ ميں ہونا اور پھر اس كا قرآن ميں مذكور ہونا اس كام كى برترى اور فضيلت كى دليل ہے

۵ _ جادو، جادوگر كا حيلہ اور مكر ہے اوريہ واقعيات كو تبديل نہيں كرتا_إنما صنعوا كيد سحر

۶ _ خداتعالى نے فرعون كے سب جادوگروں كى طرف سے پيش كئے گئے جادو كے ايك جيسا ہونے كو بيان كر كے موسى (ع) كيلئے اس كے ابطال كو آسان ظاہر كيا _كيد سحر ''ساحر''نكرہ اور وحدت پر دلالت كرنا ہے يعنى ايك جادوگر اور اس سے مراد حقيقى واحد نہيں ہے بلكہ مراد يہ ہے كہ سب جادوگروں كا مكر و حيلہ ايك نوعيت كا اور ايك جيسا ہونے كى وجہ سے ايك جادوگر كے حيلے كے مترادف ہے اور جادوگروں كى كثرت سے اس كى پيچيدگى ميں اضافہ نہيں ہوا_

۷ _ حضرت موسى كے ڈنڈے كے ذريعے جادوگروں كے جادو كا نگلاجانا جادو كے بطلان اور موسى (ع) كے معجزے كى حقانيت كى نشانى ہے_و ا لق مافى يمينك تلقف ما صنعوا إنما صنعوا كيد سحر

جملہ ''إنما صنعوا ...''،''تلقف'' كى علت ہے يعنى چونكہ جادو محض ايك مكر ہے اسلئے حضرت موسى كے اعجاز كى حقيقت كے سامنے نابود ہوجائيگا يوں جادوگروں كے جادو كا بطلان اور معجزے كى حقانيت ثابت ہوجائيگي_

۸ _ جادوگروں كيلئے كاميابى كا راستہ بند ہے _و لايفلح الساحر حيث ا تى

''الساحر'' كا ''اَل'' جنس كيلئے ہے اور ''حيث ا تي'' يعنى ''حيث ا قبل'' (يعنى جہاں بھى آئے) _

۹ _ جادو ايك ناجايز كام ہے اور اس سے پرہيز كرنا ضرورى ہے_كيد سحر و لايفلح الساحر حيث ا تى

جادو كا مكر ہونا اور اسكى كاميابى كے راستے كا بند ہونا كہ جو اس آيت ميں بيان ہوا ہے_ اس كے غيرمشروع اور ناجائز ہونے كيلئے كافى ہے_

۱۰ _ جادو ايك بے قدر و قيمت عمل ہے اور جادوگر كى جگہ كا تبديل كرنا اسكے ثمر بخش ہونے ميں اثر نہيں ركھتا_

و لايفلح الساحر حيث ا تى

۱۱ _عن رسول اللّه (ص) قال:إذا أخذتم الساحر فاقتلوه ثم قرأ''لا يفلح الساحر حيث أتى ''لا يأمن وجد; پيغمبر اكرم(ص) سے روايت ہے كہ آپ نے فرمايا جہاں بھى جادوگر آپ كے ہاتھ آجائے اسے قتل كردو پھر آپ نے اس آيت كى تلاوت فرمائي ''لايفلح الساحر حيث اتي'' (پھر) فرمايا جادوگر جہاں بھى مل جائے امان ميں نہيں ہے _(۱)

____________________

۱ )الدر المنثور ج ۵ ص ۵۸۶

۱۱۹

احكام :۹

جادو:اسكے احكام ۹; اس سے اجتناب كى اہميت ۹; اس كا بے قدر و قيمت ہونا ۱۰; اسكى حرمت ۹; اس كاكردار و تاثير ۵; اس ميں جگہ كا كردار ۱۰

جادوگر:انكى شكست ۸; انكا قتل ۱۱; انكا مكر ۵; انكى ناامنى ۱۱خداتعالى اسكے اوامر ۱; اسكے وعدے ۲

ڈنڈا:اسكے آداب ۴

روايت :۱۱

فرعون كے جادوگر:انكے جادو كا باطل كرنا ۲، ۷; انكے جادو كے بطلان كے دلائل ۷; انكے جادو كے باطل كرنے كا آسان ہونا ۶

محرمات: ۹

موسى (ع) :انكے ڈنڈے كا پھينكنا۱; انكا داہنا ہاتھ ۳; انكے معجزے كى حقانيت كے دلائل ۷; انكا ڈنڈا ۳; انكا قصہ ۱، ۲، ۳، ۶; انكے ڈنڈے كا كردار ۲; انكے ساتھ وعدہ ۲

ہاتھ:دائيں ہاتھ كا كردار ۴

آیت ۸۰

( فَأُلْقِيَ السَّحَرَةُ سُجَّداً قَالُوا آمَنَّا بِرَبِّ هَارُونَ وَمُوسَى )

يہ ديكھ كر سارے جادوگر سجدہ ميں گر پڑے اور آوازدى كہ ہم موسى اور ہارون كے پروردگار پر ايمان لے آئے (۷۰)

۱ _ حضرت موسى كے اعجاز سے انكا ڈنڈا فرعون كے جادوگروں كے جادو كے تمام وسائل (رسيوں اورڈنڈوں ) كو نگل گيا _تلقف ماصنعوا فألقى السحرة

''فألقي''كى ''فا'' فصيحہ اور محذوف جملوں سے حاكى ہے تقديرات كے ساتھ آيت كريمہ كا معنى يہ ہے موسى نے اپنا ڈنڈا پھينكا اور ڈنڈا جادو كے آلات كو نگل گيا اس وقت جادوگر سجدے ميں گرگئے _

۲ _ جادوگر، حضرت موسى (ع) كا معجزہ اور اسكے ذريعے اپنے جادو كے نگلے جانے كو ديكھ كر خداتعالى كے سامنے سجدے ميں گرگئے_فا لقى السحرة سجد

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

 منتہی ہوئے ہیں۔ آپ ہی سے سب نے سنا اور آپ ہے سے سب نے روای تکی ۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ جتنے اشخاص نے اس حدیث کی امیرالمومنین(ع) سے روایت کی سب سے آپ نے اپنے وصی ہونے کا ذکر فرمایا۔ ہم اس حدیث کو گزشتہ صفحات پر ذکر کرچکے ہیں۔

امیرالمومنین(ع) کی شہادت کے بعد امام حسن مجتبی(ع) نے جو خطبہ ارشاد فرمایا اس میں آپ نے فرمایا تھا:

“ میں نبی(ص) کا فرزند ہوں میں وصی (ع) کا بیٹا ہوں۔”
امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:
“ حضرت علی (ع) رسول(ص) کے ساتھ ساتھ رسالت کے پہلے روشنی دیکھتے اور آواز سنتے تھے۔”
نیز آپ فرماتے ہیں کہ :
“ حضرت سرورکائنات(ص) نے امیرالمومنین(ع) سے فرمایا اگر میں خاتم الانبیاء(ص) نہ ہوتا تو تم میری نبوت میں شریک ہوتے ، اگر نبی نہیں تو تم نبی(ص) کے وصی ، نبی(ص) کے وارث ہو۔”
یہ چیز تقریبا جملہ اہل بیت علیہم السلام سے بتواتر منقول ہے اور اہلبیت(ع) و موالیان اہل بیت(ع) کے نزدیک صحابہ کے زمانہ سے لے کر آج تک بدیہات میں سے سمجھی جاتی ہے۔
جناب سلمان فارسی فرماتے ہیں کہ :
“ میں نے رسول(ص) کو کہتے سنا : میرے وصی، میرے رازوں کی جگہ اور بہترین وہ فرد جسے میں اپنے بعد چھوڑوں گا جو میرے وعدوں کو پورا کرے گا اور مجھے میرے دیون سے سبکدوش بنائے گا وہ
۵۶۱

علی ابن ابی طالب(ع) ہیں۔”
جناب ابوایوب اںصاری فرماتے ہیں کہ:
“ میں نے رسول اﷲ(ص) کو کہتے سنا آپ جناب سیدہ (س) سے فرمارہے تھے کیا تم جانتی نہیں کہ خداوند عالم نے روئے زمین کے باشندوں پر نگاہ کی ان میں تمھارے باپ کو منتخب کیا اور نبوت سے سرفراز کیا پھر دوبارہ نگاہ کی اور تمھارے شوہر کو منخب کیا اور مجھے وحی کے ذریعہ حکم دیا تو میں نے ان کا نکاح تمھارے ساتھ کردیا اور انھیں اپنا وصی بنایا۔”

بریدہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول(ص) کو کہتے سنا:

“ ہر نبی کے لیے وصی اور وارث ہوا کرتا ہے اور میرے وصی و وارث علی بن ابی طالب (ع) ہیں”

جناب جابر بن یزید جعفی جب امام محمد باقر(ع) سے کوئی حدیث روایت کرتے تو کہتے کہ مجھ سے وصی الاوصیاء وصیوں کے وصی نے بیان کیا ( ملاحظہ ہو میزان الاعتدال ، علامہ ذہبی ، حالات جابر)

ام خیر بنت حریش بارقیہ نے جنگ صفیں کے موقع پر ایک تقریر کی(1) کی جس میں انھوں نے اہل کوفہ کو معاویہ سے جنگ کرنے پر ابھارا تھا۔ اس تقریر میں انھوں نے یہ بھی کہا تھا:

“ آؤ، آؤ، خدا تم پر رحمت نازل کرے ۔ اس امام کی طرف جو عادل ہیں، وصی پیغمبر(ص) ہیں ، وفا کرنے والے اور صدیق اکبر ہیں۔”

اسی طرح کی پوری تقریر ان کی تھی۔

--------------

1ـ بلاغات النساء، ص41

۵۶۲

یہ تو سلف صالحین کا ذکر تھا جنھوں نے اپنے اپنے خطبوں میں اپنی حدیثوں میں وصیت کا تذکرہ کر کے اس کو مستحکم کای۔ اگر ان کے حالات کا جائزہ لیجیے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ وہ وصی کا لفظ امیرالمومنین(ع) کے لیے یوں استعمال کرتے تھے جیسے مسمیات کے لیے اسماء کا استعمال ہوتا ہے ۔ آپ کا نام ہی پڑگیا تھا وصی۔حد تویہ ہے کہ صاحب تاج العروس جلد 10 ص392 لغت تاج العروس میں لفظ وصی کے معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

“ الوَصِيُ‏، كغَنِيٍ‏: لَقَبُ عليٍّ”

“ وصی بر وزن غنی حضرت علی(ع) کا لقب ہے۔

اشعار میں اس قدر کثرت سے آپ کے لیے لفظ وصی کا استعمال کیا گیا ہے کہ کوئی حساب ہی نہیں۔ ہم صرف چند شعر اپنے مقصد کی توضیح میں ذکر کیے دیتے ہیں۔

عبداﷲ بن عباس بن عبدالمطلب کہتے ہیں۔

وَصِيُ‏ رَسُولِ‏ اللَّهِ‏ مِنْ دُونِ أَهْلِهِ‏     وَ فَارِسُهُ إِنْ قِيلَ: هَلْ مِنْ مُنَازِلِ

“ آپ رسول خدا(ص) کے وصی ہیں اہلبیت(ع) میں آپ کے سوا اور کوئی وصی رسول(ص) نہیں اور اگر میدان جنگ میں دشمن کی طرف سے مقابلہ کی طلب ہوتو آپ ہی شہسوار شجاعت ہیں۔”

مغیرہ بن حارث بن عبد المطلب نے جنگ صفین میں چند شعر کہے تھے جس میں اہ عراق کو معاویہ سے جنگ پر ابھارا تھا۔ اس میں ایک شعر یہ بھی تھا ۔

 هذا وصي رسول اللّه قائدكم‏    و صهره‏ و كتاب اللّه قد نشرا

“ یہ رسول اﷲ(ـص) کے وصی اور تمھارے قائد ہیں۔ رسول(ص) کے داماد اور خدا کی کھلی ہوئی کتاب ہیں۔”
عبداﷲ بن ابی سفیان بن حرث بن عبدالمطلب کہتے ہیں
۵۶۳

و منا علي ذاك صاحب‏ خيبر  و صاحب بدر يوم سالت كتائبه‏

وصي النبي المصطفى و ابن عمه             فمن ذا يدانيه و من ذا يقاربه

“ اور ہم ہی میں سے وہ علی(ع) ہیں خیبر والے ( جنھوں نے خیبر فتخ کیا) اور بدر والے ( جن کی بدولت جنگ بدر میں فتح ہوئی) جو پیغمبر خدا حضرت محمد مصطفی(ص)  کے وصی اور ان کے چچا کے بیٹے ہیں۔ کون ان کا مقابلہ کرسکتا ہے اور عزت و شرف میں کون ان سے قریب ہوسکتا ہے۔”

ابو الہیثم بن تیہان صحابی پیغمبر(ص) نے ( جو جنگ بدر میں بھی شریک رہ چکے ہیں ) جنگ جمل کے موقع جپر چند شعر کہے تھے۔ ان میں یہ شعر بھی تھا۔

إن‏ الوصي‏ إمامنا و ولينا                     برح الخفاء و باحت الأسرار.

“ وصی پیغمبر(ص) ہمارے امام و حاکم ہیں۔ پردہ اٹھ گیا اور راز ظاہر ہوگئے۔”

خزیمہ بن ثابت ذوالشہادتین نے ( یہ بھی جنگ بدر میں شریک رہ چکے ہیں۔) جنگ جمل کے موقع جپر چند شعر کہیے ، ان میں ایک شعر یہ تھا۔

يا وصي‏ النبي‏ قد أجلت‏                     الحرب الأعادي و سارت الأظعان‏

“ اے وصی رسول(ص) جنگ نے دشمنوں کو متحرک کردیا ہے ۔ ہودج نشین عورتیں مقابلہ کے لیے چل کھڑی ہوئی ہیں۔”

انھیں کے یہ اشعار بھی ہیں۔

أعايش‏ خلى‏ عن على و عيبه‏               بما ليس فيه يا والدة

وصى رسول اللَّه من دون اهله‏              و انت على ما كان من ذاك شاهدة

“ اے عائشہ ، علی(ع) کی دشمنی اور ان کی عیب جوئی سے جو حقیقتا ان میں
۵۶۴

 نہیں بلکہ تمھاری من گھڑت ہے باز رہو ، وہ رسول خدا(ص) کے وصی ہیں اہلبیت(ع) ہیں، آپ کے سوا اور کوئی وصی رسول (ص) نہیں اور علی(ع9 کو رسول(ص) سے جو خصوصیت حاصل ہے تم خود اس کی چشم دید شاہد ہو۔”

عبداﷲ بن بدیل بن و رقاء خزاعی نے جنگِ جمل مین یہ شعر کہا تھا۔یہ بزرگ بہادرترین صحابہ میں سے تھے ۔ یہ اور ان کے بھائی عبدالرحمن جنگ صفین میں شہید ہوئے۔

يا قوم‏ للخطة العظمى التي حدثت‏          حرب الوصي و ما للحرب من آسي‏

“ اے قوم والو! یہ کتنی مصیبت ہے کہ جس نے وصی رسول(ص) سے جنگ چھیڑ دی ہے اور جنگ کے لیے کوئی مداوا نہیں۔”

خود امیرالمومنین(ع) نے جنگِ صفین کے موقع پر یہ شعر فرمایا :

ما كان يرضى‏ أحمد لو أخبرا        أن يقرنوا وصيه و الأبترا

“ رسول(ص) کو اگر ی یہ خبر پہنچائی جائے کہ لوگوں نے آپ کے وصی اور مقطوع النسل یعنی معاویہ کو ہم پلہ سمجھ لیا ہے تو رسول(ص) اس بات سے ہرگز خوش نہ ہوں گے۔”

جزیر بن عبداﷲ بجلی صحابی نے چند اشعار شرجیل بن سمط کو تحریر کر کے بھیجے تھے اس میں امیرالمومنین(ع) کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں :

وَصِيُ‏ رَسُولِ‏ اللَّهِ‏ مِنْ دُونِ أَهْلِهِ‏              وَ فَارِسُهُ الْأُولَى بِهِ يَضْرِبُ الْمَثَلْ.

“ آپ رسول خدا(ص) کے وصی ہیں۔ اہلبیت(ع) میں آپ کے سوائے کوئی دوسرا وصی رسول نہیں اور وہ جماعت کرنے والے شہسوار ہیں جن سے مثل بولی جاتی ہے۔”

عمر بن حارثہ اںصاری نے چند شعر محمد بن امیرالمومنین(ع) ( جو محمد بن حنفیہ

۵۶۵

 کے نام سے مشہور ہیں) کی مدح میں کہے تھے ۔ ان میں ایک شعر یہ بھی ہے۔:

سمي‏ النبي‏ و شبه الوصي‏             و رايته لونها العندم‏

“ ( محمد بن حنفیہ ) نبی(ص) کے ہم نام اور وصی نبی(ص) ( یعنی امیرالمومنین(ع)) کے مشابہ ہیں اور آپ کے علم کے پھریرے کا رنگ خونین رنگ ہے۔”

جب قتل عثمان کے بعد لوگوں نے حضرت علی(ع) کی بیعت کی اس موقع پر عبدالرحمن بن جمیل نے ی شعر کہےتھے:

لعمري‏ لقد بايعتم‏ ذا حفيظة         على الدين معروف العفاف موفقا

عليا وصي المصطفى و ابن عمه‏             و أول من صلى أخا الدين و التقى.

“ اپنی زندگی کی قسم تم نے ایسے شخص کی بیعت کی جو دین کے معاملہ میں بڑا با غیرت و حمیت ہے جس کی پاکدامنی شہرہ آفاق ہے اور توفیقات الہی جس کے شامل حال ہیں۔”
“ تم نے علی(ع) کی بیعت کی ہے جو محمد مصطفی(ص) کے وصی اور ان کے چچا کے بیٹے ہیں اور پہلے نماز پڑھنے والے ہیں اور صاحب دین و تقوی ہیں۔”

قبیلہ ازد کے ایک شخص نے جنگ جمل میں یہ شعر کہے تھے:

هذا علي‏ و هو الوصي‏              آخاه يوم النجوة النبي‏

و قال هذا بعدي الولي‏              وعاه واع و نسي الشقي.

“ یہ علی(ع) ہیں اور وہی وصی ہیں جنھیں رسول(ص) نے یوم نجوہ اپنا بھائی بنایا تھا اور کہا تھا کہ یہ میرے بعد میرے ولی ہیں۔ یاد رکھنے والوں نے اس کو یاد رکھا اور جو بدبخت تھے
۵۶۶

 وہ بھلا بیٹھے۔”

جنگ جمل میں بنی ضبہ کا ایک نوجوان جو جناب عائشہ کی طرف سے جنگ میں شریک تھا صف سے نکلا اور یہ اشعادربطور رجز پڑھے:

نَحْنُ‏ بَنُو ضَبَّةَ أَعْدَاءُ عَلِيٍ‏            ذَاكَ الَّذِي يُعْرَفُ قِدْماً بِالْوَصِيِ‏

وَ فَارِسِ الْخَيْلِ عَلَى عَهْدِ النَّبِيِ‏               مَا أَنَا عَنْ فَضْلِ عَلِيٍّ بِالْعَمِيِ‏

                             لكننی أفعى ابْنَ عَفَّانَ التَّقِيَ‏

“ ہم بنو ضبہ ہیں جو علی(ع) کے دشمن ہیں۔ وہی علی(ع) جو ہمیشہ وصی کہے گئے۔ اوررسول(ص) کے زمانہ میں لشکر کے شہسوار تھے۔ میں علی (ع) کے فضل و شرف سے اندھا نہیں ہوں لیکن میں عثمان کی خبر مرگ سنانے آیا ہوں۔”
سعید بن قیس ہمدانی نے جو حضرت علی(ع) کے ساتھ جنگ میں شریک سے یہ اشعار کہے تھے:

أَيَّةُ حَرْبٍ‏ أُضْرِمَتْ نِيرَانُهَا            وَ كُسِرَتْ يَوْمَ الْوَغَى مُرَّانُهَا

قُلْ لِلْوَصِيِّ أَقْبَلَتْ قَحْطَانُهَا          فَادْعُ بِهَا تَكْفِيكَهَا هَمْدَانُهَا

                             هُمُ بَنُوهَا وَ هُمُ إِخْوَانُهَا.

“ یہ کون سی لڑائی کی آگ بھڑکائی گئی ہے اور جنگ کے دن نیزے ٹوٹ ٹوٹ گئے کہو وصی سے کہ بنو قحطان کل کے کل امڈ آئے ہیں آپ بنی ہمدان کو پکاریے وہ آپ کی کفایت کریں گے کیونکہ وہ بنو قحطان کے بیٹے اور بھائی ہیں۔”

زیاد بن لبید انصاری نے جو امیرالمومنین(ع) کے اصحاب سے ہیں جنگ ِ جمل میں یہ شعر کہے تھے:

۵۶۷

كيف ترى الأنصار في‏ يوم‏ الكلب‏           إنا أناس لا نبالي من عطب‏

و لا نبالي في الوصي من غضب‏             و إنما الأنصار جد لا لعب‏

هذا علي و ابن عبد المطلب‏         ننصره اليوم على من قد كذب‏

             من يكسب البغي فبئس ما اكتسب

“ کیسا پارہے ہیں ہم لوگ ایسے آدمی ہیں جو موت سے نہیں ڈرتے اور وصی کے بارے میں ہم غضب و غصہ کی پروا نہیں کرتے۔ انصار کھیل ٹھٹھا نہیں، وہ حقیقت و واقعیت کے حامل ہیں۔ یہ علی(ع) ہیں جو فرزند عبدالمطلب ہیں۔ ہم ان کی آج جھوٹوں کے مقابلہ میں ؟؟؟ کر رہے ہیں جس نے بغاوت کا ارتکاب کیا اس نے بہت برا کیا۔

حجربن عدی کندی نے بھی اسی دن یہ شعر کہے تھے :

يا ربنا سلم‏ لنا عليا          سلم لنا المبارك المضيا

المؤمن الموحد التقيا           لا خطل الرأي و لا غويا

بل هاديا موفقا مهديا                و احفظه ربي و احفظ النبيا

فيه فقد كان له وليا         ثم ارتضاه بعده وصيا.

“ پروردگار تو ہمارے لیے علی(ع) کو صحیح و سالم رکھ ۔ صحیح و سالم رکھ ہمارے لیے مبارک اور ضیا گستر ہستی کو جو مومن ہیں، موحد ہیں، پرہیز گار ہیں، مہمل رائے والے نہیں نہ گمراہ ہیں بلکہ ہدایت کرنے والے توفیقات ربانی کے حامل ہدایت یافتہ ہیں۔ ان کو محفوظ رکھ پرورگار اور ان کی وجہ
۵۶۸

سے نبی(ص) کو محفوظ رکھ کیونکہ یہ رسول(ص) کے ولی ہیں۔ پھر اپنے بعد کے لیے نبی(ص) نے انھیں وصی بنانا پسند کیا۔”

عمر بن احجیہ نے جنگ جمل کے دن امام حسن(ع) کے خطبہ کی تعریف و توصیف میں جو آپ نے ابن زبیر کے خطبہ کے بعد فرمایا تھا چند شعر پڑھے۔ ایک شعریہ ہے :

و أبى‏ اللّه‏ أن يقوم بما قا             م به ابن الوصيّ و ابن النجيب‏

“ خداوند عالم کو ہرگز گوارا نہیں کہ ابن زبیر وصی کے فرزند اور شریف و معزز کے لختِ جگر یعنی امام حسن(ع) کی برابری کرسکے۔”

زجر بن قیس جعفی نے بھی جنگ جمل کے موقع پر یہ شعر کہا تھا :

أضربكم‏ حتى‏ تقروا لعلي‏             خير قريش كلها بعد النبي‏

             اضربکم حتی تقرروا لعلی              خير قريش کلها بعد النبی

من زانه الله و سماه الوصي‏

“ میں اس وقت تک تم کو یہ تیغ کرتا رہوں گا جب تک تم علی(ع) کی امامت کا اقرار نہ کر لو۔ وہ علی(ع) جو بعد رسول(ص) قریش میں سب سے بہتر ہیں جنھیں خدا نے کمالات و فضائل سے زینت بخشی اور ان کا نام وصی رکھا ہے۔”

انھیں زجر نے جنگِ صفین کے موقع پر یہ اشعار کہے تھے:

فصلى الإله على‏ أحمد                       رسول المليك تمام النعم‏

و صلى على الطهر من بعده‏                خليفتنا القائم المدعم‏

عليا عنيت وصي النبي‏                       يجالد عنه غواة الأمم‏

“ خدا رحمت نازل کرے حضرت احمد مجتبی(ص) پر جو خدا کے رسول(ص) تھے اور جن کے ذریعہ نعمتیں تمام ہوئیں۔ ( رحمت نازل ہو) خدا کے
۵۶۹

 رسول(ص) پر اور ان کے بعد ہمارے موجودہ خلیفہ پر جو جائے پناہ ہیں۔ میری مراد علی(ع) سے ہے جو رسول(ص) کے وصی ہیں جس سے امت کے گمراہ لوگ بر سر پیکار ہیں۔”

اشعث بن قیس کندی کہتا ہے:

أتانا الرسول رسول‏ الإمام‏            فسر بمقدمه المسلمونا

رسول الوصي وصي النبي‏            له السبق و الفضل في المؤمنينا.

“ ہمارے پاس قاصد آیا، امام کا قاصد ، اس کے آنے سے مسلمانوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی، وصی کا قاصد آیا وہ وصی جو نبی(ص) کا ہے جسے تمام مومنین میں سبقت و فضیلت حاصل ہے۔

نیز یہ اشعار بھی اسی اشعث کے ہیں :

أَتَانَا الرَّسُولُ رَسُولُ‏ الْوَصِيِ‏           عَلِيٌّ الْمُهَذَّبُ مِنْ هَاشِمٍ‏

وَزِيرُ النَّبِيِّ وَ ذُو صِهْرِهِ‏                       وَ خَيْرُ الْبَرِيَّةِ فِي الْعَالَمِ‏

“ ہمارے پاس قاصد آیا وصی رسول(ص) کا قاصد یعنی علی(ع) کا جو بنی ہاشم میں (  کمالات سے) آراستہ و پیراستہ ہیں جو نبی(ص) کے وصی ہیں اور داماد ہیں اور تمام عالم اور جملہ خلق سے بہتر ہیں۔”

نعمان بن عجلان زرقی اںصاری نے جنگ صفین میں یہ اشعار کہے :

كيف‏ التفرق‏ و الوصي إمامنا                لا كيف إلا حيرة و تخاذلا

     و ذروا معاوية الغوي و تابعوا            دين الوصي لتحمدوه آجلا

“ یہ پراگندگی کیسی جبکہ وصی رسول(ص) ہمارے امام ہیں ۔ نہیں بھلا کیونکر یہ پراگندگی ممکن ہے ۔یہ صرف سرگشتگی اور ایک دوسرے
۵۷۰

کی مدد نہ کرنے کا نتیجہ ہے۔ گمراہ معاویہ کو چھوڑو اور وصی رسول(ص) کے دین کی پیروی کرو تاکہ تمھارا انجام پسندیدہ ہو۔”

عبدالرحمن بن ذؤیب اسلمی نے چند اشعار کہے جن میں معاویہ کو عراق کی نوجون کی دھمکی دی تھی۔

يَقُودُهُمُ الْوَصِيُ‏ إِلَيْكَ‏ حَتَّى‏           يَرُدَّكَ عَنْ عَوَائِكَ وَ ارْتِيَابِ‏

“ ان سواروں کے لے کر وصی رسول(ص) تم پر چڑھائی کریںگے۔ یہاں تک کہ تم گمراہی اور اس اشتباہی کیفیت سے پلٹ آؤ۔”

عبداﷲ بن ابی سفیان بن حارث(1) بن عبدالمطلب کہتے ہیں :

و انّ‏ ولىّ‏ الامر بعد محمّد            علىّ و في كلّ المواطن صاحبه‏

وصىّ رسول اللَّه حقّا و جاره‏                و اوّل من صلّى و من لان جانبه‏

“ رسالتماب(ص) کے بعد مالک و مختار علی(ع) ہیں جو ہر منزل پر رسول(ص) کے ساتھ رہے ۔ رسول(ص) کے وصی برحق ہیں  وہ اور رسول(ص) ایک جڑ کی دو شاخین ہیں اور پہلے نمازی ہیں اور نرم پہلو رکھنے والے ہیں۔”

خزیمہ بن ثابت ذوالشہادتین کہتے ہیں:

--------------

1ـ یہ تمام اشعار کتب سیر و تواریخ خصوصا وہ کتابیں جو جنگ جمل و صفین پر لکھی گئی ہیں میں موجود ہیں علامہ ابن ابی الحدید معتزلی نے شرح نہج البلاغہ جلد اول میں یہ تمام اشعار اکٹھا کر دیے ہیں اور ان اشعار کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ ایسے اشعار جن میں حضرت کو وصی کہہ کر مراد لیا گیا بے شمار ہیں ہم نے یہاں صرف وہ اشعار درج کیے ہیں جو بالخصوص جنگ جمل و صفین کے موقع پر کہے گئے۔

۵۷۱

وصي‏ رسول‏ الله‏ من دون أهله‏               و فارسه مذ كان في سالف الزمن‏

و أول من صلى من الناس كلهم‏            سوى خيرة النسوان و الله ذو منن

“ رسول خدا(ص) کے وصی ہیں اہلبیت(ع) میں آپ کے سوا کوئی وصی رسول(ص) نہیں ۔ رسول(ص) کے شہسوار میدان دغا ہیں گزشتہ زمانے سے تمام لوگوں میں سوا جناب خدیجہ کے سب سے پہلے نماز پڑھنے والے ہیں اور خداوند عالم بڑے احسانات والا ہے۔”

زفربن حذیفہ اسدی کہتے ہیں(1) :

فحوطوا عليا و احفظوه فإنه‏         وصي و في الإسلام أول أول.

“ علی(ع) کو اپنے حلقہ میں لے لو اور ان کی مدد کرو کیونکہ یہ وصی ہیں اور سب سے پہلے اسلام لانے والوں میں اول ہیں۔”

ابوالاسود دولی کہتے ہیں :

أحبّ‏ محمّدا حبّا شديدا                     و عبّاسا و حمزة و الوصيّا

“ میں حضرت محمد مصطفی(ص) سے بہت ہی زیادہ محبت رکھتا ہوں اور عباس اور حمزہ سے اور وصی رسول(ص) سے ۔”

نعمان(2) بن عجلان جو اںصار کے شاعر ہیں اور ان کے سرداروں مٰیں سے ایک سردار تھے ایک قصیدہ میں کہتے ہیں جس میں انھوں نے عمرو عاص سے خطاب کیا :

--------------

1ـ زفر کا یہ شعر اور اس کے قبل حزیمہ کے دونوں شعر امام اسکافی نے اپنی کتاب نقض عثمانہ میں ذکر کیا ہے اور اسے ابن ابی الحدید نے شرح النہج البلاغہ جلد3 صفحہ458 پر نقل کیا ہے۔

2ـ شرح نہج البلاغہ جلد3 صفحہ 13 و استیعاب حالات نعمان۔

۵۷۲

و كان‏ هوانا في عليّ و أنّه‏          لأهل لها يا عمرو من حيث لا تدري‏

فذاك‏ بعون‏ الله‏ يدعو إلى الهدى‏              و ينهى عن الفحشاء و البغي و النكر

وصي النبي المصطفى و ابن عمه‏             و قاتل فرسان الضلالة و الكفر

“ عمرو عاص علی(ع) کی اہانت کرتا ہے حالانکہ یہی علی(ع) سزاوار خلافت ہیں جیسا کہ تم جانتے ہو یا تم نہ بھی جانو خدا کی طرف سے ہدایت کی طرف لاتے ہیں اور بری باتوں سے بغاوت و سرکشی سے اورہر ناپسندیدہ امر سے روکتے ہیں ۔ حضرت محمد مصطفی(ص) پیغمبر خدا کے وصی اور ان کے چچا کے بیٹے ہیں

اور گمراہی و کفر کے سواروں کو قتل کرنے والے ہیں۔

فضل بن عباس نے چند اشعار کہے تھے ان میں یہ دو شعر(1) بھی تھے۔

ألا انّ خير النّاس بعد نبيّهم‏          وصيّ‏ النّبيّ‏ المصطفى‏ عند ذي الذّكر

و أوّل من صلّى و صنو نبيّه‏         و أوّل من أردى الغواة لدى بدر

“ آگاہ ہو لوگوں میں بعد رسول(ص) سب سے بہتر حضرت محمد مصطفی(ص) پیغمبر خدا(ص) کے وصی ہیں ہر یاد رکھنے والے کے نزدیک اور پہلے نماز پڑھنے والے ہیں اور رسول(ص) و علی(ع) ایک ہی جڑ کی دو شاخین ہیں اور پہلے وہ شخص ہیں جنھوں نے جنگ بدر میں سرکشوں کو ہلاک کیا”

حسان(2) بن ثابت نے چند اشعار کہے تھے جن میں بزبان اںصار امیرالمومنین(ع)

--------------

1ـ تاریخ کامل جلد3 ص24

2ـ اس شعر کو زبیر بن بکار نے موفقیات میں درج کیا ہے اور اس سے ابن ابی الحدید معتزلی نے شرح نہج البلاغہ جلد2 صفحہ 5 پر نقل کیا ہے۔

۵۷۳

 کی مدح سرائی کی ہے:

حفظت‏ رسول‏ الله‏ فينا و عهده‏              إليك و من أولى به منك من و من‏

أ لست أخاه في الهدى و وصيه‏              و أعلم منهم بالكتاب و بالسنن

“ آپ نے ہمارے درمیان رسول(ص) کی حفاظت کی اور اس عہد کی حفاظت کی جو رسول(ص) نے آپ سے متعلق کیا تھا اور آپ سے بڑھ کر رسول(ص) سے زیادہ قربت و خصوصیت کون رکھ سکتا ہے آیا کار ہدایت میں آپ ان کے وصی نہیں اور تمام لوگوں سے زیادہ قرآن  و احادیث نبی(ص) کا علم رکھنے والے ہیں۔”

کسی شاعر نے امام حسن(ع) سے خطاب کر کے کہا ہے :

‏ يا اجل الانام يا ابن الوصی        انت سبط النبی وابن علی

 “ تمام خلائق میں بزرگ و برتر ہستی اے وصی رسول(ص) کے فرزند آپ سبط پیغمبر(ص) اور علی(ع) ک بیٹے ہیں۔”

ام سنان بنت خیثمہ بن خرشہ مذحجیہ(1) نے چند اشعار حضرت علی(ع) کو مخاطب کر کے کہے جن میں آپ کی مدح کی تھی:

قد كنت‏ بعد محمد خلفا لنا                 أوصى إليك بنا فكنت وفيا

“ آپ رسول(ص) کے بعد ہمارے لیے رسول(ص) کے جانشین تھے رسول(ص) نے آپ کو اپنا وصی بنایا ۔ آپ نے رسول(ص) کی تمام باتیں پوری کیں۔”

یہ چند اشعار ہیں جنھیں جلدی میں لکھ سکا اور جتنی گنجائش ہوسکی

--------------

1ـ بلاغات النساء

۵۷۴

اس مکتوب میں ان اشعار کی جو امیرالمومنین(ع) کے زمانہ میں اس مضمون کے کہے گے اگر عہد امیرالمومنین(ع) کے بعد کے اشعار جمع کرنے بیٹھیں جن میں آپ کو وصی کہہ کر خطاب کیا گیا ہے تو ایک ضخیم کتاب مرتب ہوجائے اور پھر بھی اشعار اکٹھا نہ ہوسکیں۔ سب اشعار لکھنے میں تھک بھی جائیں گے اور اصل بحث سے بھی ہٹ جائیں گے اس لیے صرف مشاہیر کے کچھ اشعار پر ہم اکتفا کرتے ہیں ۔ انھیں چند اشعار کو اس مضمون کے تمام اشعار کا نمونہ سمجھ لیجیے۔

کمیت ابن زید اپنے قصیدہ ہاشمیہ میں کہتے ہیں(1) :

والوصی الذی امال التجوبی                 به عرش امه لانهدام

“ وہ ایسے وصی ہیں جنھوں نے امت کے گرتے ہوئے عرش کو سیدھا کردیا۔”

--------------

1ـ علامہ شیخ محمد محمود الرافعی جنھوں نے کمیت کے اشعار کی  شرح لکھی ہے اس شعر کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ وصی سے مراد علی کرم اﷲ وجہ ہیں کیونکہ پیغمبر خدا(ص) نے آپ کو وصی مقرر فرمایا چنانچہ ابن بریدہ سے روایت ہے کہ پیغمبر(ص) نے ارشاد فرمایا  ہر نبی کے لیے وصی ہوا کرتا ہے اور علی(ع) میرے وصی و وارث ہیں اور امام ترمذی نے پیغمبر(ص) سے روایت کی ہے آپ نے ارشاد فرمایا : من کنت مولاہ فہذا علی (ع) مولاہ اور امام بخاری نے سعد سے روایت کی ہے کہ جب پیغمبر(ص) غزوہ تبوک میں جانے لگے اور مدینہ میں علی(ع) کو اپنا خلیفہ بنایا تو علی(ع) نے کہا آپ مجھے عورتوں اور بچوں میں چھوڑے جاتے ہیں۔ آںحضرت(ص) نے فرمایا اے علی(ع) کیا تم اس پر راضی نہیں کہ تمھیں مجھ سے وہی منزلت حاصل ہے جو ہارون (ع) کو موسی(ع) سے تھی سوائے اس کے کہ میرے بعد کوئی نبی نہ ہوگا۔ یہ لکھنے کے بعد علامہ رافعی لکھتے ہیں کہ حضرت علی(ع) کو وصی رسول(ص)کہنا اکثر و بیشتر کی زبان پر چڑھا ہوا تھا اور اس کے ثبوت میں انھوں نے مشہور شاعر کثیر عزہ کا شعر نقل کیا ہے ۔ جو ہم انھی صفحات پر درج کررہے ہیں۔

۵۷۵

کثیر بن عبدالرحمن بن الاسود بن عامر الخزاعی جو کثیر عزة کے نام سے مشہور ہیں کہتے ہیں:

وصي‏ النبي‏ المصطفى‏ و ابن عمه‏             و فكاك أغلال و قاضي مغارم.

“ پیغمبر خدا محمد مصطفی (ص) کے وصی اور آپ کے چچا کے بیٹے ہیں غلاموں کو آزاد کرنے والے اور قرضوں کو پورا کرنے والے ہیں۔”

ابو تمام طائی اپنے قصیدہ رائیہ میں کہتے ہیں :

ومن قبله احلفتم لوصيه                      بداهيه دهياء ليس لها قدر

فجئتم بها بکرا عوانا ولم يکن                لها قبلها مثلا عوان ولا بکر

 أخوه إذا عد الفخار و صهره‏               فلا مثله أخ و لا مثله صهر

و شد به‏ أزر النبي‏ محمد             كما شد من موسى بهارونه الأزر

 “ اس کے پہلے تم نے ان کے وصی کو خوفناک مصیبت میں مبتلا کیا جس کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔ تم
نئی نئی مصیبتیں ان کے سامنے لائے ایسی مصیبتیں اس سے پہلے کبھی نہیں آئیں۔ اظہار شرف کے موقع پر علی(ع) رسول(ص) کے بھائی اور داماد ہیں۔ علی(ع) جیسا نہ کوئی بھائی تھا نہ داماد۔ رسول(ص) کی پشت ان کی وجہ سے اس طرح  مضبوط ہوئی جس طرح ہارون(ع) کی وجہ سے موسی(ع) کی پشت مضبوط ہوئی۔”

دعبل بن علی خزاعی حضرت مظلوم کربلا(ع) کو مرثیہ کہتے ہوئے کہتے ہیں :

رأس‏ ابن‏ بنت‏ محمد و وصيّه‏         للرجال على قناة يرفع‏  

“ ہائے لوگو! حضرت محمد مصطفی(ص) کی دختر اور آپ کے وصی
۵۷۶

کے فرزند کا سر اس قابل تھا کہ نیزے پر بلند کیا جائے۔”

ابوالطیب متنبی کو جب لوگوں نے بر بھلا کہا کہ تم ایرے غیرے کی مدح کرتے ہو اور حضرت علی(ع) کی مدح میں تم نے کبھی ایک شعر بھی نہیں کہا تو وہ کہتا ہے :

و تركت‏ مدحي‏ للوصيّ تعمّدا               إذ كان نورا مستطيلا شاملا

و إذا استطال الشي‏ء قام بنفسه‏             و صفات نور الشمس تذهب باطلا

“ میں نے وصی رسول(ص) امیرالمومنین(ع) کی مدح نہ کی تو جان بوجھ کر ایسا کیا کیونکہ وہ ایسا نور ہیں جس کی روشنی عالم میں پھیلی ہوئی ہے اور تمام کائنات کو اپنے حلقہ میں لیے ہوئے ہے۔ جب کوئی شے بلند ہوجاتی ہے تو اپنے بقاء کی خود ضامن بن جاتی ہے ۔ نورِ خورشید کی ثنا و صفت کرنا فعلِ عبث ہے۔( خورشید اپنے وجود کا خود معرف ہے۔)

یہی متنبی ابوالقاسم طاہر بن الحسین بن طاہر علوی کی مدح لکھتے ہوئے کہتا ہے جیسا کہ اس کے دیوان میں موجود ہے:

هو ابن‏ رسول‏ اللّه‏ و ابن وصيه‏              وشبههما شبهت بعد التجارب

“ یہ ابوالقاسم رسول(ص) اور ان کے وصی حضرت علی(ع) کے فرزند ہیں اور ان دونوں سے مشابہ ہیں۔”

میں نے ان کو ان بزرگوں سے جو تشبیہ دی ہے تو بہت کچھ تجربوں کے بعد آراء پرکھ کے یوں ہی نہیں ۔ اس جیسے بہت سے اشعار ہیں جس کی نہ کوئی انتہا ہے نہ مد وحساب۔

                                                     ش

۵۷۷

مکتوب نمبر55

ہم نے سابق کے کسی مکتوب میں آپ سے عرض کیا تھا کہ بعض متعصب اشخاص آپ کے مذہب کے متعلق یہ کہتے پھرتے ہین کہ آپ کا مذہب ائمہ اہل بیت(ع) سے کوئی تعلق نہیں رکھتا نہ ان کی طرف آپ کے مذہب کو منسوب کرنا صحیح ہے ۔ آپ سے اس پر بھی روشنی ڈالنے کا وعدہ تھا۔ اب وقت آگیا ہے آپ وعدہ ایفا فرمائیے۔ ان متعصبین کی بکواس کا جواب دیجیے۔

                                                             س

۵۷۸

جواب مکتوب

مذہب شیعہ کا اہلبیت(ع) سے ماخوذ ہونا

ارباب فہم و بصیرت بدیہی طور پر جانتے ہیں کہ فرشتہ شیعہ کا سلف سے لے کر خلف تک ابتدا آج کے دن تک اصول دین ، فروع دین ہر ایک میں بس ائمہ اہل بیت(ع) ہی کی طرف رجوع رہا۔ اصول و فروع اور قرآن وحدیث سے جتنے مطالب مستفاد ہوتے ہیں یا قرآن و حدیث جتنے علوم تعلق رکھتے ہیں غرض ہر چیز میں ان کی رائے کے تابع ہے۔ ان کلی چیزوں میں صرف ائمہ طاہرین(ع) پر انھوں نے بھروسہ کیا۔ انھیں کی طرف رجوع کیا۔

مذہب اہلبیت(ع) ہی کے قاعدوں سے وہ خدا کی عبادت کرتے ہیں اس کا تقرب حاصل کرتے ہیں اس مذہب کے علاوہ کوئی رہ ہی نظر نظر نہیں آتی اور نہ اس مذہب کو چھوڑ کر اس کے بدلہ میں کسی اور مذہب کو اختیار کرنا انھیں گوارا ہوگا۔

ہر ایک امام کے زمانے میں امیرالمومنین(ع) کے عہد میں ، امام حسن(ع) کے عہد میں، امام حسین(ع) کے عہد میں، امام محمد باقر(ع) و جعفر صادق(ع) کے عہد میں، امام موسی کاظم(ع) و امام علی رضا(ع) کے عہد میں، امام محمد تقی(ع)  وعلی نقی(ع) کے عہد میں، امام حسن عسکری(ع) کے عہد میں ، غرض جس امام کا بھی عہد آیا ان گنت ثقات شیعہ حافظان حدیث ، بے شمار صاحب ورع و ضبط و اتفاق نے جن کی تعداد و تواتر سے بھی بڑھ کر تھی اپنے اپنے زمانے کے امام کی صحبت میں

۵۷۹

 بیٹھ کر ان سے استفادہ کر کے ان اصول و فروع کو حاصل کیا اور انھوں نے اپنے بعد کے لوگوں سے بیان کیا۔ اسی طرح ہر زمانہ اور ہر نسل میں یہ اصول و فروع نقل ہوتے رہے یہاں تک کہ ہم تک پہنچے لہذا ہم بھی اسی مسلک پر ہیں جو ائمہ اہل بیت(ع) کا مسلک رہا کیونکہ ہم نے ان کے مذہب کی ایک ایک چیز جزئی جزئی باتیں اپنے آباء و اجداد سے حاصل کیں، انھوں نے اپنے آباء و اجدادسے حاصل کیں اسی طرح شروع سے یہ سلسلہ جاری رہا ۔ ہر نسل و ہر عہد میں جو دور بھی آیا وہ اپنے اگلے برزگوں سے حاصل کرتا ہوا آیا ۔ آج ہم شمار کرنے بیٹھیں کہ سلفِ شیعہ میں کتنے افراد ائمہ طاہرین(ع) کی صحبت سے فیضیاب ہوئے ، ان سے احکام دین کو سنا ، ان سے استفادہ کیا۔ تو ظاہر ہے کہ شمار کرنا سہل نہیں کس کے بس کی بات ہے کہ ان کا احصار کرسکے۔ اس کا اندازہ لگانا ہوتو آپ ان بے شمار کتابوں سے لگائیے جو ائمہ طاہرین(ع) کے ارشادات و افادات سے استفادہ کر کے لکھی ہیں، ائمہ طاہرین(ع) سے معلوم کر کے ان سے سن کر تحریر کی ہیں۔ یہ کتابیں کیا ہیں۔ ائمہ طاہرین(ع) کے علوم کا دفتر، ان کی حکومتوں کا سرچشمہ ہیں جو ائمہ طاہرین(ع) کے عہد میں ضبط تحریر میں لائی گئیں اور ان کے بعد شیعوں کا مرجع قرار پائیں۔

اسی سے آپ کو مذہب اہلبیت(ع) اور دیگر مذاہب مسلمین میں فرق و امتیاز معلوم ہوجائے گا ۔ ہم کو تو نہیں معلوم کہ ائمہ اربعہ کے مقلدین میں سے کسی ایک نے بھی ان ائمہ کے عہد میں کوئی کتاب تالیف کی ہو۔ ان ائمہ کے مقلدین نے کتابیں لکھیں اور بے شمار لکھیں لیکن اس وقت لکھیں جب ان کا زمانہ ختم ہوگیا انھیں دنیا سے رخصت ہوئے مدتیں گزر گئیں اور تقلید انھیں چاروں ائمہ میں منحصر سمجھ لی گئی۔ یہ لے کر لیا گیا کہ فروع دین میں بس انھیں چاروں اماموں میں سے کسی نہ کسی ایک کی تقلید ضروری ہے۔

۵۸۰

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750