تفسير راہنما جلد ۱۱

تفسير راہنما 13%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 750

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 750 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 219065 / ڈاؤنلوڈ: 3020
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

۱۰ _ انبيا كے معجزوں كامؤمنين كے مفاد كيلئے استعمال ہونا _فاضرب لهم

دريا ميں خشك راستے كا كھل جانا منكرين كيلئے حضرت موسى كى رسالت كو ثابت كرنے كيلئے انجام نہيں پايا بلكہ اس سے مقصود بنى اسرائيل كو نجات دينا اور فرعونيوں كو ہلاك كرنا تھا _

۱۱ _ سب بنى اسرائيل كو ايك ہى راستے سے دريا عبور كرديا گيا _*فاضرب لهم طريقاً فى البحر

اگر ''طريقاً'' سے مراد جنس نہ ہو تو يہ وحدت پر دلالت كريگا _

۱۲ _ حضرت موسى (ع) مصر سے ہجرت كے دوران راستے ميں فرعون كى فوج كا سامنا كرنے اور ديگر مشكلات پيش آنے كى وجہ سے پريشان تھے _ا سر بعبادي لا تخف دركاً و لا تخشى

''درك''كا معنى ہے ملحق ہونا، پہنچ جانا نيز يہ رد عمل كے معنى ميں بھى آيا ہے (قاموس) ہر قسم كا پيچھا كرنے اور رد عمل كى نفى نيز ہجرت كے راستے كے امن ہونے كے سلسلے ميں حضرت موسى كو اطمينان بخشنا اس بات كى علامت ہے كہ پيچھا كرنے نير زاستے كى ديگر پريشانيوں كيلئے حالات سازگار تھے _

۱۳ _ خداتعالى نے حضرت موسى كو اطمينان دلايا كہ مصر سے ہجرت كے سفر ميں نہ تو دشمن كى فوج كا سامنا ہوگا اور نہ ہى ان كيلئے كوئي دوسرى بڑى مشكل كھڑى ہوگي_أسر بعبادي لاتخف دركاً و لا تخشى

''لاتخشي'' كے متعلق كا حذف ہونا ہر ايسى چيز كے منتفى ہونے كو بيان كررہا ہے كہ جو ڈر اور خوف كا سبب بنے جيسے دريا ميں غرق ہونے كا احتمال يا ديگر ايسى مشكلات جنكى پيشين گوئي نہيں ہوسكتي

بنى اسرائيل:انكى آمادگى ۷; انكى تاريخ ۱، ۲، ۵، ۷، ۸، ۱۱; ان كا شكنجہ ۵; انكا دريا سے عبور كرنا۱ ۱; انكا بحيرہ احمر سے عبور كرنا ۸; انكا دريائے نيل سے عبور كرنا ۸; ان پر لطف و كرم ۵; انكى ہجرت كا راستہ ۳، ۸، ۱۱; انكى ہجرت كى خصوصيات ۲; انكى ہجرت ۷، ۱۳; انكى رات كے وقت ہجرت ۱

خداتعالى :اسكے ارادے كى حكمرانى ۹; اسكے اوامر كو اجرا كرنے والے ۹

قدرتى وسائل:انكا مطيع ہونا ۹

فرعون:اسكے شكنجوں سے نجات ۷فرعوني:انكاخطرہ ۱۲

خدا كا لطف و كرم:

۱۴۱

يہ جنكے شامل حال ہے ۵، ۶

مؤمنين:انكے مفادات ۱۰

مظلومين:انكا حامى ۶

معجزہ:اس كا كردار ۱۰

موسى :انكا اطمينان ۱۳; انكى رسالت ۱، ۸; انكا قصہ ۱، ۸، ۱۲، ۱۳;انكى پريشانى ۱۳; انكى طرف وحى ۳، ۴; انكى ہدايت ۴

وحى :اس كا كردار ۲

آیت ۷۸

( فَأَتْبَعَهُمْ فِرْعَوْنُ بِجُنُودِهِ فَغَشِيَهُم مِّنَ الْيَمِّ مَا غَشِيَهُمْ )

تب فرعون نے اپنے لشكر سميت ان لوگوں كا پيچھا كيا اور دريا كى موجوں نے انھيں باقاعدہ ڈھانك ليا (۷۸)

۱ _ حضرت موسى (ع) ،خدا كے حكم كے مطابق رات كے وقت بنى اسرائيل كو مصر سے لے كر چلے اور انہيں دريا سے گزارا _أسر بعبادى فا تبعهم

''فا تبعہم'' كى ''فا'' فصيحہ ہے يعنى اپنے سے قبل چند محذوف جملوں سے حكايت كرر ہى ہے ان جملوں كا خلاصہ يہ ہے كہ موسى ،(ع) بنى اسرائيل كو مصر سے لے كرچلے اور فرعونيوں كو بھى انكى روانكى كى اطلاع ہوگئي_

۲ _ بنى اسرائيل كى مصر سے روانگى كے بعد،فرعون اور اسكے لشكر نے ان كا پيچھا كيا _فا تبعهم فرعون وجنوده

۳ _ بنى اسرائيل كا پيچھا كرنے ميں خود فرعون اپنى فوج كى كمان كررہا تھا _فا تبعهم فرعون بجنوده

۴ _ بنى اسرائيل كا مصر ميں رہنا اور ان كا دوسروں سے جدا نہ ہونا فرعون اور فرعونيوں كى زندگى كا مسئلہ تھا _

أسر بعبادي فا تبعهم فرعون بجنوده

بنى اسرائيل كا پيچھا كرنا اور انہيں ہجرت سے روكنے كى كوشش كرنا اس نكتے كو بيان كر رہا ہے كہ بنى اسرائيل كامصر كے معاشرے سے جدا ہونا ان كيلئے سنگين نتائج اور نقصان كا سبب تھا _

۱۴۲

۵ _ بنى اسرائيل كا پيچھا كرنے ميں فرعونى دريا كے خشك راستے ميں داخل ہوئے _طريقاً فى البحر يبساً فا تبعهم فرعون بجنوده

۶ _ سمندر كى بڑى اور خطرناك لہروں نے فرعون اور اس كے لشكر كو گھير كہ نہيں نگل ليا _فغشيهم من اليم ما غشيهم

''يمّ'' كا معنى ہے سمندر نيز اس كا اطلاق اس بڑے دريا پر بھى ہوتا ہے جس كا پانى ميٹھا ہو ( لسان العرب) ''غشاوہ'' ( غشى كا مصدر) ڈھانپنے اور گھير لينے كے معنى ميں ہے ''ما غشيہم'' كا ابہام، ان لہروں كے عظيم ہونے كو بيان كررہا ہے كہ جو فرعونيوں كے غرق ہونے كا سبب بنيں _

۷ _ قدرتى وسائل،خداتعالى كے ارادے كے سامنے مجبور ہيں اوروہ اسكے حكم كو اجرا كرنے والے ہيں _

طريقاً فى البحر يبساً فغشيهم من اليم ما غشيهم

حضرت موسى (ع) كے عبور كرنے كيلئے دريا كا كھل جانا اور فرعونيوں كے داخل ہونے كے بعد اس كا مل جانا دونوں اعجاز كى صورت ميں اور خداتعالى كے حكم سے تھے _

بنى اسرائيل:انكى تاريخ ۱، ۲، ۳، ۴،۵; انكا پيچھا كرنا ۲، ۳، ۵; انكا دريا سے عبور كرنا ۱; انكى ہجرت كا راستہ ۱; مصر ميں انكى رہائش كا كردار ۴; انكى رات كے وقت ہجرت ۱

خداتعالى :اسكے ارادے كى حكمرانى ۷; اسكے اوامر كو اجرا كرنے والے ۷

قدرتى وسائل:انكا كردار ۷

فرعون:اسكى حكومت كى بقا كے عوامل ۴; اس كا غرق ہونا ۶; يہ اور بنى اسرائيل ۲; اسكے لشكر كا كمانڈر ۳; اسكى كمان ۳

فرعونى :ان كا غرق ہونا ۶; يہ دريا ميں ۵; يہ اور بنى اسرائيل ۲; انكى حركت كا راستہ ۵

موسى :ان كا شرعى ذمہ دارى پر عمل كرنا ۱; انكا قصہ ۱، ۶

۱۴۳

آیت ۷۹

( وَأَضَلَّ فِرْعَوْنُ قَوْمَهُ وَمَا هَدَى )

اور فرعون نے در حقيقت اپنى قوم كو گمراہ ہى كيا ہے ہدايت نہيں دى ہے (۷۹)

۱ _ اپنى عوام كى گمراہى ميں فرعون كا بنيادى اور مركزى كردار تھا _و ا ضل فرعون قومه

۲ _ لوگوں كے گمراہى يا ہدايت ميں معاشروں كے حكمرانوں اور رہنماؤں كا بہت مؤثر كردار ہے_

و ا ضل فرعون قومه

۳ _ لوگوں كو ہدايت كرنا،حكمرانوں اور پيشواؤں كى ذمہ داريوں ميں سے ہے _و ا ضل فرعون قومه و ما هدى

''ا ضل'' اور ''ماہدى '' كا معنى ايك ہے اور يہ ايك ہى معنى كا دوسرے لفظ كے ساتھ تكرار ہے شايد ''ماہدى '' كا جملہ اس لئے آيا ہے كہ حكمرانوں اور رہنماؤں سے جس چيز كى توقع ہے وہ لوگوں كو ہدايت كرنا ہے_

۴ _ فرعونيوں كى نابودى اور ان كے نظام حكومت كا ختم ہوجانا انكے فرعون كى پيروى كے نتائج ميں سے تھا_

فغشيهم و ا ضل فرعون قومه و ما هدى

رہبر:انكى ذمہ دارى ۳; انكا نقش و كردار ۲ راھبر; ان كا گمراہ كرنا ۲; انكا ہدايت كرنا ۲

فرعون:اسكى پيروى كے اثرات۴; اس كا گمراہ كرنا ۱

فرعوني:انكى گمراہى كے عوامل ۱_انكى ہلاكت كے عوامل۴

گمراہي:اسكے عوامل ۲

لوگ:انكى ہدايت كى اہميت ۳

ہدايت :اسكے عوامل ۲

۱۴۴

آیت ۸۰

( يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ قَدْ أَنجَيْنَاكُم مِّنْ عَدُوِّكُمْ وَوَاعَدْنَاكُمْ جَانِبَ الطُّورِ الْأَيْمَنَ وَنَزَّلْنَا عَلَيْكُمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوَى )

بنى اسرائيل ۱ ہم نے تم كو تمھارے دشمن سے نجات دلائي ہے اور طور كى داہنى طرف سے توريت دينے كا وعدہ كيا ہے اور من و سلوى بھى نازل كيا ہے (۸۰)

۱ _ فرعون بنى اسرائيل كادشمن تھااوروہ انہيں تباہ كرنے كے در پے تھا _فأتبعهم فرعون يا بنى إسرائيل قد ا نجيناكم من عدوكم

۲ _ خداتعالى نے بنى اسرائيل كو فرعون كے خطرے سے نجات دلائي اور انہيں اسكى اسارت سے رہائي عطا كى _

فأتبعهم فرعون ى بنى إسرائيل قد ا نجيناكم من عدوكم

۳ _ بنى اسرائيل كے دريا سے عبور كرنے كے بعد خداتعالى نے انكے ساتھ گفتگو كا فيصلہ كيا اور انہيں قريبى رابطے كا وعدہ ديا_و وعدناكم جانب الطور الا يمن

(بعد والى آيات كے جملے) ''و ما ا عجلك عن قومك ياموسى '' قرينہ ہے كہ ''واعدناكم'' كامتعلق حضرت موسى (ع) كے ساتھ گفتگو اور سرگوشى كرنے كا وعدہ تھا يہ وعدہ اگر چہ سب بنى اسرائيل كے ساتھ نہيں تھا ليكن چونكہ اسكے فوائد (جيسے تورات كا نزول) سب كيلئے تھے لہذا اسے سب بنى اسرائيل پر ايك نعمت كے عنوان سے ياد كيا گيا_

۴ _ كوہ طور كى دائيں جانب،بنى اسرائيل كے خداتعالى كى دعوت كا جواب دينے كيلئے شرفياب ہونے كى وعدہ گاہ _

و وعدناكم جانب الطور الا يمن

''ا يمن'' كا معنى ہے ''يمين'' يعنى دائيں طرف اور ''طوركے دائيں جانب'' سے مراد اسكى دائيں جانب كى فضا يا دامن ہے_

۵ _ كوہ طور ايك مبارك اور خداتعالى كى مورد عنايت جگہ_و وعدنكم جانب الطور الا يمن

مذكورہ بالا مطلب ميں ''ا يمن'' كو ''يمن'' كے مادہ سے ليا گيا ہے اور يہ مبارك كے معنى ميں ہے يہ كلمہ اگر چہ ''جانب'' كى صفت ہے ليكن كسى چيز كے جز كى صفت خود اس كل چيز (كل) كى بھى صفت شمار ہوئي ہے وعدہ گاہ كے طور پر كوہ طور كا انتخاب اسكے خاص امتياز كى علامت ہے_

۱۴۵

۶ _ خداتعالى نے حضرت موسى (ع) كے زمانے كے بنى اسرائيل پر كھانے كى چيزيں ''من و سلوى '' نازل كيں _

ونزلنا عليكم المن و السلوى

''منّ'' وہ قطرات ہيں جو آسمان سے درختوں اور پتھروں كے اوپر نازل ہوكر شہد كى صورت اختيار كر جاے ہيں انكا ذائقہ ميٹھا ہوتا ہے اور درخت كے شيرے كى طرح خشك ہوجاتے ہيں (قاموس) بعض مفسرين نے اس كا معنى ترنگبين كيا ہے_

''سلوى '' كبوتر جيسا ايك پرندہ ہے كہ جس كى ٹانگيں اور گردن لمبى ہوتى ہيں اسكى رفتار تيز او راس كا رنگ بٹير كے رنگ جيسا ہوتا ہے (مصباح) بعض نے اسے وہى بٹير قرار ديا ہے _

۷ _ بنى اسرائيل پر من و سلوى كا نزول انكے فرعون كے چنگل سے نجات حاصل كرنے اور بيابان ميں ٹھہرنے كے بعد تھا_قد ا نجيناكم وعدناكم و نزلنا عليكم المن و السلوى

''من و سلوى '' كا نزول اس علاقے كے كھانے پينے كى عام چيزوں سے خالى ہونے اور انكے ٹھہرنے كى جگہ كے بيابان ہونے كى علامت ہے_

۸ _ ''من و سلوى '' كا نزول ان معجزات ميں سے تھا جو حضرت موسى كى قوم كو دكھائے گئے _و نزلنا

كھانے پينے كى چيزوں ميں سے ''من و سلوى '' كا مخصوص ہونا اور ان كے بنى اسرائيل پر نزول كى ياد ہانى كرانا ان كے نزول كے غير معمولى ہونے كى علامت ہے_

۹ _ بنى اسرائيل كو فرعونيوں سے نجات دينا،انہيں گفتگو كيلئے كوہ طور پر آنے كى دعوت دينا اور ان پر من و سلوى نازل كرنا حضرت موسى (ع) كے زمانے كے بنى اسرائيل پر خداتعالى كى نعمتيں _يابنى اسرائيل قد ا نجيناكم و نزلنا عليكم المن ا لسلوى

۱۰ _ حضرت موسى (ع) كے زمانے كے بنى اسرائيل،تاريخ كے برجستہ اور بہت ہى قابل تامل ابواب ركھنے والے ہيں _ا نجيناكم وعدنكم و نزّلنا

۱۱ _ تاريخ كے ان حساس لمحوں اور اہم واقعات كو ياد كرنا ضرورى ہے كہ جن ميں خداتعالى كا لطف و كرم نازل ہوا _

ا نجيناكم وعدناكم و نزّلنا

۱۲ _ ستمگر دشمن كے چنگل سے نجات دينا، اس دشمن كو

۱۴۶

نابود كرنا، مكتب اور زندگى كا لائحہ عمل دينا اور رزق عطا كرنا خداتعالى كى عظيم ترين نعمتوں ميں سے ہيں _

ا نجيناكم وعدناكم نزلنا عليكم المن و السلوى

تين قسم كى نعمتوں كى صورت ميں بنى اسرائيل پر احسان كو بيان كيا گيا ہے نجات، طور كے مقام پر ضابطہ حياط كا عطا كرنا(تورات) اور انہيں رزق عطا كرنا اس سے معلوم ہوتا ہے كہ يہ تين چيزيں خداتعالى كى عظيم نعمتوں ميں سے ہيں _

مقدس مقامات :۵

بنى اسرائيل:يہ بيابان ميں ۷; يہ ميقات ميں ۴; انكى تاريخ ۲، ۶، ۷، ۱۰; ان كے دشمن ۱; انكى دعوت ۹; انكى نجات ۲، ۷، ۹; ان پر بٹير كا نزول ۶; ان پر ترنگبين كا نزول ۶; ان پر سلوى كا نزول ۶، ۷، ۸; ان پر منّ كا نزول ۶، ۷، ۸; انكى نعمتيں ۷، ۹; ان كے ساتھ وعدہ ۳

خداتعالى :اسكى بنى اسرائيل كے ساتھ گفتگو ۳، ۴; اس كا نجات بخشنا ۲; اسكى نعمتيں ۹، ۱۲; اسكے وعدے ۳

كھانے كى چيزيں :سلوى ۶; من ۶

ذكر :تاريخ كے ذكر كى اہميت ۱۱

فرعون:اسكى دشمنى ۱; اس سے نجات ۲، ۷

فرعوني:ان سے نجات ۹

كوہ طور:اس كا تقدس ۵; اسكى طرف دعوت ۹; اسكى دائيں طرف ۴; اس ميں مناجات ۹

موسى (ع) :انكا معجزہ ۸

نعمت:اسكے درجے ۱۲; سلوى والى نعمت كا نزول ۹; من والى نعمت كا نزول ۹; دين والى نعمت ۱۲; روزى والى نعمت ۱۲; ظالموں سے نجات والى نعمت ۱۲; دشمنوں كى ہلاكت والى نعمت ۱۲

۱۴۷

آیت ۸۱

( كُلُوا مِن طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ وَلَا تَطْغَوْا فِيهِ فَيَحِلَّ عَلَيْكُمْ غَضَبِي وَمَن يَحْلِلْ عَلَيْهِ غَضَبِي فَقَدْ هَوَى )

تم ہمارے پاكيزہ رزق كو كھاؤ اور اس ميں سركشى اور زيادتى نہ كرو كہ تم پر ميرا غضب نازل ہوجائے كہ جس پر ميرا غضب نازل ہوگيا وہ يقينا برباد ہوگيا (۸۱)

۱ _ من و سلوى ،خداتعالى كى طرف سے بنى اسرائيل كيلئے عطيہ اور پاكيزہ و خوش ذائقہ قسم كى روزى تھى _

و نزلنا عليكم المن والسلوى كلوا من طيبت ما رزقناكم

''طيب'' اس چيز كو كہتے ہيں كہ جس سے انسان كے نفس اور حواس كو لذت حاصل ہو (مفردات راغب) ''طاب'' يعنى لذيذ اور پاكيزہ ہوگيا (قاموس) البتہ ''طيب'' كا ايك معنى حلال بھى ہے ليكن چونكہ ہر رزق الہى حلال ہے لہذا وہ معنى كہ جس كا مطلب رزق كى حلال و حرام كى طرف تقسيم ہو مناسب معنى نہيں ہے_

۲ _پاكيزہ اور خوش ذائقہ رزق سے بہرہ مند ہونا،خداتعالى كى طرف سے بنى اسرائيل كو نصيحت_كلوا من طيبت ما رزقناكم

۳ _ دين موسى (ع) ميں صحيح و سالم غذا اور اصول صحت پر توجہ _كلوا من طيبت ما رزقناكم

۴ _ كھانے كى چيزيں ،خداتعالى كا رزق اور اس كا عطيہ ہيں _كلوا من طيبت ما رزقناكم

۵ _ خداتعالى ،انسان كو روزى دينے والا ہے_رزقناكم

۶ _ خداتعالى كى روزى انسان كيلئے پاكيزہ اور خوشگوار عطيہ ہے _طيبت ما رزقناكم

''طيبات'' كى ''ما رزقناكم'' كى طرف اضافت ممكن ہے بيانيہ ہو اور اس نكتے كو بيان كرنے كيلئے ہو كہ جو كچھ ہم نے تمہيں روزى دى ہے وہ طيب اور پاك و پاكيزہ ہے _

۷ _ خداتعالى كے عطيات اور نعمتوں كو اپنے اوپر حرام كرناايك ناروا عمل اور بے جا پرہيز ہے_كلوا من طيبت ما رزقناكم

طيبات سے استفادہ كرنے كى نصيحت اس كام كے افراط پر مبنى رياضتوں كے مقابلے ميں برتر ہونے كى علامت ہے_

۸ _ روزى اور وسائل سے بہرہ مندى كا جواز اسكے مزاج كے موافق ہونے كا مرہون منت ہے _

كلوا من طيبت ما رزقناكم

۹ _ خداتعالى كى نعمتوں سے استفادہ كرنا اور انہيں بے كار نہ ركھنا انكے عطا كرنے كا اصلى ہدف ہے_

۱۴۸

'' مارزقناكم'' ايسا عنوان ہے كہ جو ''كلوا'' كى علت كے مقام ميں اور مخاطب كو نعمت سے استفادہ كرنے كے لازمى ہونے كى طرف متوجہ كر رہا ہے اور اس بات سے حكايت كرتا ہے كہ ہم نے يہ رزق تمہيں ديا ہے تا كہ يہ تمہارى غذا ہو پس اسكے استعمال سے دريغ نہ كرو_

۱۰ _ كھانے پينے كى چيزوں ميں اصل اور قاعدہ اوليہ حليت ہے_كلوا من طيبت ما رزقناكم

۱۱ _ دريا كو عبور كرنے كے بعد،بنى اسرائيل كے ٹھكانے ميں سالم غذا كے وسائل نہيں تھے اور اس ميں خراب اور انسانى مزاج كے منافى غذائي چيزيں تھيں _كلوا من طيبت ما رزقناكم و لا تطغوا فيه

۱۲ _ نعمتوں سے استفاہ كرنے ميں قوانين الہى اور اعتدلال كى حد سے تجاوز نہ كرنا،خداتعالى كى بنى اسرائيل كو نصيحت _

كلوا من طيبت و لاتطغوا فيه

۱۳ _ نعمات الہى سے استفادہ كرنے ميں حدود اور اعتدال كى حفاظت كرنا اور اس ميں اسراف و تبذير اور ناشكرى سے پرہيز كرنا ضرورى ہے _كلوا من طيبت ما زرقناكم و لا تطغوا فيه

نعمتوں كے بارے ميں سركشى كاواضح مصداق كفران، ناشكري، اسراف اور تبذير ہے _

۱۴ _ الله تعالى كى نعمتوں اور رزق سے استفادہ كرنے كيلئے خاص احكام اور قواعد و ضوابط ہيں _كلوا من طيبت و لا تطغوا فيه ''طغيان'' كا معنى ہے حد سے تجاوز كرنا_ بنى اسرائيل كو طيبات سے استفادہ كرنے ميں طغيان سے نہى اس بات سے حكايت كرتى ہے كہ طيبات سے استفادہ كرنے كے قواعد و ضوابط اور حدود ہيں كہ جن سے خروج طغيان شمار ہوتا ہے_

۱۵ _ كھانے كى چيزوں ميں طغيان كرنے كے خطرناك اسباب موجود ہيں _كلوا ولا تطغوا فيه

''فيہ'' كى ضمير كا مرجع ممكن ہے ''كلوا'' كا مصدر (يعنى ''اكل'') ہو اور ممكن ہے اس كا مرجع ''ما رزقناكم'' كا ''ما '' ہو اس لحاظ سے كہ اس كا ''كلوا'' فعل كے ساتھ ارتباط ہے ہر صورت ميں مذكورہ بالا مطلب حاصل كيا جاسكتا ہے_

۱۶ _ خداتعالى كى نعمتوں كے سلسلے ميں حد سے تجاوز كرنا ستم گروں كى حكمرانى سے آزادى حاصل كرنے والے معاشروں كيلئے ايك خطرہ _ا نجيناكم من عدوكم كلوا لاتطغوا فيه

بنى اسرائيل كو طغيان سے نہى ان كے دريا سے عبور

۱۴۹

كرنے اور فرعونيوں كے ظلم و ستم سے نجات حاصل كرنے كے بعد ذكر ہوئي ہے اس موقع پر اس مسئلے كو چھيڑنا ايسے حالات ميں طغيان كى طرف لے جانے والے اسباب كے وجود كو بيان كرتا ہے_

۱۷ _ نعمتوں سے استفادہ كرنے ميں حد سے تجاوز كرنا (ناشكري، اسراف ...) غضب الہى كے نزول اور اسكے انسان پر مسلط ہونے كے اسباب فراہم كرتا ہے_كلوا و لاتطغوا فيه فيحل عليكم غضبي

''يحلّ'' يعنى ''ينزل'' غضب كا نزول اسكے مكمل طور پرمستقر ہونے سے كنايہ ہے_

۱۸ _سقوط اور ہلاكت ان معاشروں اور افراد كا حتمى مقدر ہے كہ جن پر خدا تعالى كا غضب ہو_

و من يحلل عليه غضبى فقد هوى

۱۹ _ خداتعالى كى نعمتوں كے سلسلے ميں طغيان كرنا اور حد اعتدال سے خارج ہونا بہت بڑا گنا ہ ہے_

و لاتطغوا و من يحلل عليه غضبى فقد هوى

نعمتوں كے سلسلے ميں طغيان كرنے والوں پر غضب الہى ان كے گناہ كے بڑا ہونے كى علامت ہے _

۲۰ _راوى كہتا ہے ميں امام باقر(ع) كے حضور ميں تھا كہ عمر و بن عبيد داخل ہوا اور امام(ع) سے كہنے لگا آپ (ع) پر قربان ہوجاؤں الله تبارك و تعالى كے فرمان'' و من يحلل عليه غضبى فقد هوي'' ميں غضب سے كيا مراد ہے؟ فرمايا يہ عذاب ہے اے عمر و بيشك جو شخص يہ گمان كرے كہ خداتعالى ايك حال سے دوسرے حال ميں منتقل ہوتا ہے تو اس نے مخلوق كى صفت كے ساتھ اسے متصف كيا ہے اور خداتعالى كو كوئي چيز حركت نہيں ديتى تا كہ اس ميں تبديلى آئے(۱)

اسراف:اسكے اثرات ۱۷; اس سے اجتناب كى اہميت ۱۳; اس كا گناہ ۱۹

انسان:اس كا مزاج ۸//بنى اسرائيل:انكى تاريخ ۱۱; انكو نصيحت ۲، ۱۲; انكى روزي۱، ۲; ان كے طيبات ۱; انكى رہائش گاہ ۱۱; انكى نعمتيں ۱//تجاوز:اس سے اجتناب كرنا ۱۲

غذا:اس ميں حفظان صحت كى اہميت ۲//معاشرہ:اسكى آسيب شناسى ۱۶

خداتعالى :اسكى نصيحتيں ۲، ۱۲; اس كا رازق ہونا ۴، ۵; اسكے غضب كا پيش خيمہ ۱۷; اسكى نعمتوں كا فلسفہ ۹; اسكے غضب سے مراد ۲۰; اسكى نعمتيں ۱، ۶

____________________

۱ ) كافى ج۱ ص ۱۱۰ ح ۵ نورالثقلين ج ۳ ص ۳۸۶ ح ۸۹_

۱۵۰

كھانے كى چيزيں :انكا كردار ۱۵

روايت ۲۰//روزي:اس سے استفادہ كے شرائط ۸; اس كا سرچشمہ ۵

زہد:اس ميں افراط كا ناپسنديدہ ہونا ۷

طغيان:اسكے اثرات ۱۷; اس كا پيش خيمہ ۱۵، ۱۶; اس كا گناہ ۱۹

طيبات:ان سے استفادہ كرنا ۴

عمل:ناپسنديدہ عمل ۷//قواعد فقہيہ: ۱۰//قاعدہ حليت ۱۰

كفران:كفران نعمت كے اثرات ۱۷; كفران نعمت سے اجتناب كرنا ۱۳; كفران نعمت كا گناہ ۱۹

گناہان كبيرہ: ۱۹

جن پر خدا كا غضب ہے:انكا انجام ۱۸; انكى ہلاكت ۱۸

نعمت:اسكے احكام ۴; اس سے استفادہ كرنا ۹; اس سے استفادہ كرنے ميں اعتدال ۱۲، ۱۳; اس سے استفادہ كرنے كے شرائط ۱۴; اسكے حرام كرنے كا ناپسند ہونا ۷; كھانے كى چيزوں كى نعمت ۴; روزى والى نعمت ۶; سلوى والى نعمت ۱; طيبات والى نعمت ۶; منّ والى نعمت ۱

يہوديت:اس ميں حفظان صحت ۳; اس ميں غذا ۳

آیت ۸۲

( وَإِنِّي لَغَفَّارٌ لِّمَن تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صَالِحاً ثُمَّ اهْتَدَى )

اور ميں بہت زيادہ بخشنے والا ہوں اس شخص كے لئے جو توبہ كرلے اور ايمان لے آئے اور نيك عمل كرے اور پھر راہ ہدايت پر ثابت قدم رہے (۸۲)

۱ _خداوند متعال،بہت بجشنے والا ہے_و إنى لغفار

۲ _ شرك، كفر اور عصيان سے توبہ كرنے والے با ايمان لوگ كہ جو عمل صالح انجام ديتے ہيں اور ہدايت كے پيچھے جاتے ہيں قطعا مغفرت الہى كے مستحق قرار پائيں گے _وإنى لغفار لمن تاب و امن ثم اهتدي گذشتہ آيت قرينہ ہے كہ توبہ سے مراد كھانے كى چيزوں كے سلسلے ميں حد سے تجاوز كرنے والے گناہ سے توبہ ہے اور چونكہ

۱۵۱

''تاب'' كے بعد ايمان كى بات كى گئي ہے اس لئے يہ شرك و كفر كے گناہ سے توبہ كو بھى شامل ہے_

۳ _ توبہ، ايمان، عمل صالح اور ہدايت كے پيچھے جانا مغفرت الہى كے حصول كے ذرائع ہيں _و إنى لغفار ثم اهتدي

اس چيز كو مد نظر ركھتے ہوئے كہ توبہ، ايمان اور عمل صالح خود ہدايت يافتہ ہونے سے حكايت كرتے ہيں ''ثم اہتدي'' ہدايت پر باقى رہنے اور مسلسل اس كے پيچھے رہنے كو بيان كر رہا ہے_

۴ _ رہبانيت كو اپنا نے والے اور فضول خرچى كرنے والے اگر توبہ كر ليں تو مغفرت الہى ان كے شامل حال ہو جائيگي

كلوا و لا تطغوا و إنى لغفار لمن تاب

۵ _ گناہ گاروں اور مغضوبين كيل ے خدا تعالى كى طرف سے توبہ اور واپس پلٹنے كاراستہ كھلا ہے_يحلل غضبى و إنى لغفار لمن تاب حد سے تجاوز كرنے والوں كو دھمكى دينے كے بعد خدا تعالى كى مغفرت واسعہ پر تأكيد گناہ گاروں كو بخشش الہى كا اميدوار كرنے اور راہ توبہ كے كھلا ہونے كو بيان كرنے كيلئے ہے_

۶ _ گناہ سے توبہ كا ضرورى ہونا اديان آسمانى كى مشتركہ تعليمات ميں سے ہے _و إنى لغفار لمن تاب

۷ _ عمل صالح كے انجام كا ضرورى ہونا،سب اديان الہى كے احكام ميں سے ہے_و إنى لغفار لمن تاب و ء امن و عمل صالح

۸ _ توبہ كرنے والے اور نيك كردار مؤمنين كيلئے خدا تعالى كى مغفرت وسيع اور عام ہے_و إنى لغفار لمن تاب

''غفار'' مبالغہ كا صيغہ ہے اور مؤمنين اور نيك كردار توبہ كرنے والوں كے سلسلے ميں بخشش الہى كے وسيع ہونے پر دلالت كر رہا ہے

۹ _ آسمانى اديان كى تربيت كى روش ميں بشارت اور انذار ايك دوسرے كو مكمل كرنے والے ہيںو لا تطغوا فيه فيحلل عليكم غضبي و إنى لغفار

۱۰ _ حد سے تجاوز كرنا ايمان كو تباہ كرنے والا ہے_و لا تطغوا فيه و إنى لغفار لمن تاب و امن طغيان كے بعد نئے ايمان كى بات ممكن ہے اس نكتے كو بيان كرنے كيلئے ہو كہ طغيان ايمان كو ختم كر ديتا ہے اور يا اسے بہت نقصان پہنچاتا ہے_

۱۱ _ بڑھتى ہوئي اور تكامل كا راستہ طے كر تى ہوئي ہدايت، توبہ، ايمان اور عمل صالح كا نتيجہ _لمن تاب و امن و عمل صالحاً ثم اهتدي ممكن ہے '' ثم اہتدي'' ہدايت كے اعلى مراتب اور بلند درجات كى طرف ناظر ہو كہ جو

۱۵۲

توبہ، ايمان اور عمل صالح كے نتيجے ميں حاصل ہوتے ہيں يہ نكتہ باب افتعال كہ جو مطاوعہ كيلئے آتا ہے كے معنى كو مد نظر ركھتے ہوئے زيادہ واضح ہوتا ہے_

۱۲ _ ہدايت ايسى چيز ہے كہ جس ميں رشد و تكامل ہو سكتا ہے_تاب و ء امن و عمل صالحاً ثم اهتدي

۱۳ _ توبہ كى قبوليت اور گناہوں كى بخشش انہيں ہميشہ ترك كرنے اور نئے گناہ سے پرہيز كے ساتھ مشروط ہے_

و إنى لغفار لمن تاب ثم اهتدي ''ثم اہتدي'' كہ جو توبہ كے بعد والے مرحلے كى طرف ناظر ہے اس نكتہ كو بيان كر رہا ہے كہ اگر راہ ہدايت كو چھوڑ ديا جائے اور جس گناہ سے توبہ كى تھى اسے دوبارہ انجام ديا جائے تو مغفرت الہى انسان كے شامل حال نہيں ہو گي_

بخشش:اس كا پيش خيمہ۳_ اسكى شرائط۱۳ _ يہ جنكے شامل حال ہے ۲

اديان آسماني:انكى تعليمات ۶، ۷، ۹_ انكى ہم آہنگي۶

اسما و صفات:غفار //ايمان:اسكے اثرات۲، ۳، ۱۱_ اسكے زوال كے عوامل۱۰

تائبين:انكى بخشش ۲، ۸//تربيت:اس ميں انذار۹_ اس ميں بشارت۹_ اسكى روش ۹

توبہ:اسكے اثرات ۱۱_ يہ اديان آسمانى ميں ۶; اسكى قبوليت كے شرائط۱۳

خدا تعالي:اسكى بخشش ۱_ اسكى بخشش كا پيش خيمہ ۳، ۴; اسكى بخشش كى وسعت ۸

شرك:اسكى بخشش كے شرائط۲، ۳

صالحين:انكى بخشش۸

طغيان:اسكے اثرات۱۰

عصيان:اسكى بخشش كے شرائط ۲

عمل صالح:اسكے اثرات ۲، ۳، ۱۱;اسكى اہميت ۷

كفر:اسكى بخشش كے شرائط۲

گناہ:اس سے اجتناب ۱۳

۱۵۳

گناہ گار لوگ;انكى توبہ۵

مؤمنين:انكى بخشش۸

اسراف كرنے والے:انكى توبہ كے اثرات ۴_ انكى بخشش كے شرائط۴

خدا كے مغضوب لوگ:انكى توبہ۵

ہدايت:اسے قبول كرنے كے اثرات ۳_ اس كا زيادہ ہونا ۱۲_ اسكے زيادہ ہونے كا پيش خيمہ ۱۱_ اسكے مراتب۱۲

آیت ۸۳

( وَمَا أَعْجَلَكَ عَن قَوْمِكَ يَا مُوسَى )

اور اے موسى تمھيں قوم كو چھوڑ كر جلدى آنے پر كس شے نے آمادہ كيا ہے (۸۳)

۱ _ خدا تعالى نے حضرت موسي(ع) اور ان كى قوم كے ساتھ كوہ طور كے قريب گفتگو كرنا طے فرمايا تھا _

وعدناكم جانب الطور الا يمن و ما ا عجلك عن قومك

اس سورت كى آيت ۸۰ ميں (كوہ طور ميں ) بنى اسرائيل كے ساتھ خدا تعالى كے وعدے كى بات ہوئي تھى ظاہرا ''ماا عجلك'' _ كہ جو حضرت موسي(ع) كے وعدہ گاہ ميں آنے كے سلسلے ميں عجلت كرنے سے حاكى ہے _ اسى وعدے كے ساتھ مربوط ہے_

۲ _ وعدہ گاہ ميں پہنچنے كيلئے حضرت موسي(ع) اپنى قوم كے ہمراہ آنے پر مأمور _و ا عجلك عن قومك يا موسى

حضرت موسى (ع) سے خدا تعالى كا سوال _ بعد والى آيت ميں ان كے جواب كے قرينے سے _ توبيخى اور ملامت كے مقام ميں ہے اس سرزنش سے معلوم ہوتا ہے كہ حضرت موسي(ع) نے اپنى قوم كو چھوڑ كر اور ان سے جدا ہو كر ترك اولى كا ارتكاب كيا تھا اور انہيں چاہے تھا كہ اپنى قوم كے ہمراہ چلتے اور ان پر سبقت نہ كرتے_

۳ _ وعدہ گاہ ميں پہنچنے كيلئے حضرت موسي(ع) نے جلد سے كام ليا اور اپنى قوم پر سبقت كى _و ماا عجلك عن قومك يا موسى

۴ _ وعدہ گاہ پر پہنچنے ميں حضرت موسي(ع) كے قوم پر سبقت كرنے كى وجہ سے خدا تعالى نے ان سے بازپرس كي_

و ما ا عجلك عن قومك يا موسى

۵ _ كوہ طور پر آنے ميں عجلت سے كام لينے كے بارے ميں خدا تعالى كا حضرت موسي(ع) سے سوال كرنا خدا تعالى كى ان

۱۵۴

كے ساتھ پہلى گفتگو نہيں تھي_و ما ا عجلك ''و ما ا عجلك'' ميں ''واو''محذوف پر عطف كيلئے ہے يعنى حضرت موسي(ع) (ع) كے كوہ طور پر حاضر ہونے كے بعد بات يا باتيں ہوئيں اس وقت يہ سوال اٹھا يا گيا_

۶ _ انبياء الہى تمام مراحل اور پروگراموں ميں اپنى امت اور قوم كے ہمراہ رہنے پر مأمور ہيں _و ما ا عجلك عن قومك يا موسي(ع) وعدہ گاہ پر پہنچنے كيلئے حضرت موسي(ع) كے اپنى قوم سے جدا ہونے كى وجہ سے ان كا مؤاخذہ ہونا بتاتا ہے كہ يہ چيز ضرورى ہے كہ كسى بھى حالات ميں انبياء اپنى قوم سے جدا نہ ہوں _

۷ _ ضرورى ہے كہ انبيائ، خدا تعالى كے حكم كى بغير اپنى قوم سے جدا نہ ہوں _و ما ا عجلك عن قومك يا موسي(ع)

۸ _ ضرورى ہے كہ دينى راہنما تمام ميدانوں ميں لوگوں كے ساتھ ساتھ رہيں _و ما اعجلك عن قومك يا موسي(ع)

انبيائ(ع) :انكى ذمہ داري۶، ۷

بنى اسرائيل:وعدہ گاہ ميں ان كے نمائندے۱، ۲

خداتعالي:اسكى طرف سے سرزنش۴، ۵;اسكى موسي(ع) كے ساتھ گفتگو۵

دينى راہنما:انكى ذمہ داري۸

لوگ:ان كے ہمرا ہ رہنے كى اہميت ۶، ۷، ۸

موسي(ع) :انكى عجلت كے اثرات ۴; انكا عجلت سے كام لينا ۳، ۵;انكا قصہ ۱، ۲، ۳;انكا مؤاخذہ ۴، ۵; انكى ذمہ دارى ۲; يہ وعدہ گاہ ميں ۳، ۴

آیت ۸۴

( قَالَ هُمْ أُولَاء عَلَى أَثَرِي وَعَجِلْتُ إِلَيْكَ رَبِّ لِتَرْضَى )

موسى نے عرض كى كہ وہ سب ميرے پيچھے آرہے ہيں اور ميں نے راہ خير ميں اس لئے عجلت كى ہے كو تو خوش ہوجائے (۸۴)

۱ _حضرت موسي(ع) نے وعدہ گاہ پر آنے كے سلسلے ميں اپني قوم پر سبقت كرنے كى وجہ يہ قرار دى كہ انہيں اپنى قوم كے بارے ميں اطمينان تھا كہ وہ انكى پيروى كرے گى اور وعدہ گاہ تك كى مسافت طے كرے گي_قال هم ا ولا، على أثري ''أولا'' اسم اشارہ بعيد كيلئے ہے اور ''اثر'' كا معنى ہے ہر چيز كا باقى ماندہ علامت اس لئے پاؤں كے نشان كو بھى اثر

۱۵۵

كتے ہيں _ ''اثر''پيچھے چلنے اور اتباع كرنے كے معنى ميں بھى آتا ہے (مقابيس اللغة)چنانچہ آيت كريمہ كامعنى يہ بنے گا كہ يہ وہى جماعت ہے جو ميرے پاؤں كے نشان پر چلتے ہوئے وعدہ گاہ كى طرف رواں رواں ہے يا يہ كہ وہ ميرے پيچھے وعدہ گاہ كى طرف آر ہے ہيں _

۲ _ وعدہ گاہ ميں حضرت موسي(ع) اپنى قوم سے تھوڑا سا پہلے پہنچے_و ماا عجلك قال هم ا ولاء على أثري

حضرت موسي(ع) كى طرف سے ان كے ہمراہيوں كا مورد اشارہ قرار پانابتا تاہے كہ وہ حضرت موسي(ع) كى نظروں ميں تھے اور وعدہ گاہ ميں پہنچنے كيلئے انہيں زيادہ وقت نہيں چاہے تھا_ بنابراين وعدہ گاہ ميں حضرت موسي(ع) كے وارد ہونے اور انكى قوم كے وارد ہونے كے درميان زيادہ فاصلہ نہيں تھا_

۳ _ موسي(ع) كى قوم تھوڑے وقت كے بعد،حضرت موسي(ع) كے اور انكے پاؤں كے نشانات پر وعدہ گاہ كى طرف روا نہ ہوئي_و ما ائعجلك قال هم ا ولاء على ا ثري

۴ _ حضرت موسي(ع) طے شدہ وقت اور اپنى قوم سے پہلے وعدہ گاہ ميں پہنچنے كو خدا تعالى كى رضا حاصل كرنے كا سبب سمجھتے تھے_و ما ا عجلك و عجلت إليك رب لترضي

۵ _ حضرت موسي(ع) كو اپنے پروردگار كى ملاقات، اسكے ساتھ گفتگو اور اسكى رضا كو حاصل كرنے كا شوق انكے وعدہ گاہ كى طرف آنے ميں عجلت كرنے كا سبب بنا_و عجلت إليك رب لترضي

۶ _ كار خير ميں جلدى كرنے اور وعدے كى وفا ميں عجلت سے كام لينا خدا تعالى كى رضا كے حاصل كرنے كا سبب ہے_

و ما ا عجلك وعجلت إليك رب لترضي اگر چہ اپنى قوم سے جدا ہونے كى وجہ سے خدا تعالى نے حضرت موسي(ع) سے بازپرس كى ليكن اس جلدى سے ان كے ہدف پر تنقيد نہيں كى گئي اس كا مطلب يہ ے كہ وعدے كى و فا ميں جلدى كرنا اور وعدہ گاہ ميں حاضر ہوجانا بذات مطلوب كام تھا_

۷ _ عبادت،خدا تعالى كى رضا كو حاصل كرنے كا ذريعہ ہے_عجلت إليك رب لترضي

۸ _ ہر كام كى خوبى اسكے نيت خير كے ساتھ انجام پانے كے علاوہ خدا تعالى كے ديگر احكام اور خواہشات كے ساتھ ہم آہنگ ہونے ميں مخفى ہے _و ما ا عجلك و عجلت إليك رب لترضي با وجود اس كے كہ حضرت موسي(ع) جلدى كرنے ميں نيت خير ركھتے تھے ليكن ان سے بازپرس ہونا اس بات پر دلالت كرتا ہے كہ عمل كى بلندى كيلئے

۱۵۶

صرف نيت خير ركھنا كافى نہيں ہے بلكہ ضرورى ہے كہ اس عمل كا ديگر دليلوں كے ساتھ موازنہ كيا جائے اگر ان كے كا منافى نہ ہو تو اس كا احترام كيا جائے_

۹ _ انبياء (ع) خدا تعالى كى رضا كے موارد كى تشخيص كيلئے خدا تعالى كى ہدايت اوررہنمائي كے محتاج ہيں _و ما ا عجلك عجلت إليك رب لترضي

۱۰ _ خداتعالى كى ربوبيت كا تقاضا ہے نيت خير ركھنے والوں اور كار خير ميں سبقت كرنے والوں كو جزا دى جائے_

و عجلت إليك رب لترضي

۱۱ _ سفر كے دوران ہم سفروں كے ہمراہ رہنا اور راستے ميں ان سے جدا نہ ہوناسفر كے آداب ميں سے ہے_

و ما ا عجلك قال هم ا ولاء على أثري

انبياء(ع) :انكى معنوى ضروريات۹; انكى ہدايت۹

بنى اسرائيل:وعدہ گاہ ميں ان كے نمائندے ۱، ۲، ۳

شرعى فريضہ:اس پر عمل ۸

خداتعالي:اسكى ربوبيت كے اثرات ۱۱; اسكى رضا كى تشخيص كا پيش خيمہ ۹; اسكى رضا كا پيش خيمہ۴، ۶، ۷; اسكى موسي(ع) كے ساتھ گفتگو۵

عبادت:اسكے اثرات۷

عمل:عمل خير ميں پيش قدمى كے اثرات ۶_ عمل خير ميں پيش قدمى كرنے والوں كى جزا ۱۱;عمل خير كى جزا كا پيش خيمہ ۱۱; عمل خير كى شرائط۸; عمل خير ميں نيت۸

سفر:اسكے آداب۱۲

موسي(ع) :انكى سوچ۴; انكى پيروي۱; انكى عجلت ۱، ۲، ۴; انكے تمايلات ۵; انكى عجلت كے عوامل ۵; انكا قصہ، ۲، ۳، ۵; انكى خدا كے ساتھ ملاقات ۵; آپ وعدہ گاہ ميں ۱، ۲، ۳، ۴، ۵

ضروريات:خداتعالى كى ہدايت كى ضرورت۹

نيت:اسكے اثرات۸//وعدہ:اسكى وفا ميں جلدى كرنے كے اثرات ۶

ہم سفر:انكے ہمراہ رہنا ۱۲

۱۵۷

آیت ۸۵

( قَالَ فَإِنَّا قَدْ فَتَنَّا قَوْمَكَ مِن بَعْدِكَ وَأَضَلَّهُمُ السَّامِرِيُّ )

ارشاد ہوا كہ ہم نے تمھارے بعد تمھارى قوم كا امتحان ليا اور سامرى نے انھيں گمراہ كرديا ہے (۸۵)

۱ _ حضرت موسي(ع) كى عدم موجودگى ميں بنى اسرائيل كو آزمائش الہى كا سامنا _فإنا قد فتنا قومك من بعدك

''من بعدك'' يعنى (اے موسي(ع) ) بعد اسكے كہ تو اپنى قوم سے جدا ہوا اور ان كى نظروں سے غائب ہوا _ قابل ذكر ہے كہ ''فتنہ'' در اصل اس سونے اور چاندى كے بارے ميں استعمال ہوتا ہے جسے آگ كے ساتھ پگھلا كر اچھے اور برے كو جدا كر ليا گيا ہو_ (مصباح) اور آيت كريمہ ميں اس سے مراد آزمائش ہے كہ جو اچھے اور برے انسانوں كى تشخيص كا ذريعہ ہے_

۲ _ حضرت موسي(ع) ،وعدہ گاہ ميں اور وحى كے ذريعے اپنى عدم موجود گى ميں بنى اسرائيل كى آزمائش اور ان كے گمراہ ہونے سے آگاہ ہوئے_و عجلت إليك فإنا قد فتنا قومك من بعدك

۳ _ حقائق كے بارے ميں حضرت موسي(ع) كے علم كا محدود ہونا_فإنا قد فتنا قومك

۴ _ سامرى حضرت موسي(ع) كى عدم موجودگى ميں بنى اسرائيل كى گمراہى كا سبب بنا_و ا ضلهم السامري

''سامري'' ايك شخص كا نام ہے جو بنى اسرائيل سے تھا اور انكى گمراہى كا سبب بنا _

۵ _ معاشرے ميں الہى پيشوا كا وجود، انحراف سے بچانے كيلئے بنيادى كردار كا حامل ہوتاہے_فانا قد فتنا قومك من بعدك واضلهم السامري

''من بعدك'' بتاتاہے كہ حضرت موسي(ع) كے اپنى قوم كے درميان نہ ہونے سے اس گمراہى كے مقدمات كا آغاز ہوا_

۶ _ ہر معاشرے كے برجستہ افراد اور شخصيات اس كى تاريخ اور اجتماعى وقائع ميں مؤثر كردار كے حامل ہوتے ہيں _

من بعدك

۱۵۸

۷ _ انبياء كى امتيں اپنے رہبروں كى عدم موجودگى كى صورت ميں آزمائش الہى سے دوچار _فإنا قد فتنا قومك من بعدك

حضرت موسي(ع) كى عدم موجودگى ميں بنى اسرائيل كے آزمائے جانے كى خبر كے ذريعے تمام امتوں كو خبردار كيا جا رہا ہے كہ اپنے پيشواؤں كے كى عدم موجودگي(انكى موت يا عدم موجودگي)كے زمانے ميں كافى حد تك ہوشيار رہيں تا كہ آزمائشوں سے سربلندى كے ساتھ نكل سكيں _

۸ _ خاص اوقات ميں امتوں كيلئے امداد الہى كا مطلب يہ نہيں ہے كہ وہ بعد والے مراحل ميں آزمائشوں سے معاف ہيں _

قد ا نجيناكم فإنا قد فتنا قومك من بعدك

۹ _ حضرت موسي(ع) كے عوام سے جدا ہونے اور ان سے سبقت لينے كے سلسلے ميں خدا تعالى كا ان پر اعتراض آپ كى عدم موجودگى ميں ان كے درميان انحراف پيدا ہونے كى وجہ سے تھا_و ما ا عجلك فإنا قد فتنا قومك من بعدك

۱۰ _ گمراہى كے عوامل، خداتعالى كى طرف سے لوگوں كى آزمائش كے ذرائع اور اسكى قدرت كے سامنے مجبور رہيں _

فتنا و ا ضلهم السامري با وجود اس كے كہ سامرى كا گمراہ كرنا خود اسكى طرف منسوب ہے ليكن اسے آزمائش الہى كا مصداق قرار ديا گيا ہے اس كا مطلب يہ ہے كہ خدا تعالى اسكے كام پر تسلط ركھتا تھا ليكن اس نے اسے اپنى مرضى سے آزاد چھوڑا_

۱۱ _ بنى اسرائيل كا مرتد ہونا اور ان كے درميان بچھڑا پرستى كا وجود ميں آنا ان كے دريا سے عبور كرنے كے بعد تھا_

يا بنى إسرائيل قد ا نجيناكم من عدوّكم فتنا قومك من بعدك

آزمائش:اس كا ذريعہ۱۰

امتيں :انكى آزمائش۸ _انكى امداد۸_ انكى آزمائش كا پيش خيمہ۷_ انكى گمراہى كا پيش خيمہ۷_ انكى گمراہي۸

معاشرتى انحرافات:انكے موانع۵

بنى اسرائيل:اس كا مرتد ہونا۱۱; اسكى آزمائش۱، ۲;يہ موسي(ع) كى غيبت ميں ۱، ۲، ۴، ۹; اسكى تاريخ ۱، ۲، ۴، ۱۱;اس كى گمراہى كا پيش خيمہ۹;سكى گمراہى كے عوامل۴; اسكى گمراہى ۲;اسكى بچھڑا پرستي۱۱

تاريخ:اسكے تحولات ميں مؤثر عوامل۶

معاشرتى تحولات:اس ميں مؤثر عوامل ۶

خداتعالي:اسكى آزمائش۱، ۱۰; اسكى امداد ۸;اسكى طرف سے سرزنش ۹;اسكى قدرت۱۰

۱۵۹

رہبر:انكا نقش و كردار۶

دينى راہنما:انكا معاشرتى كردار۵;انكانقش و كردار۷

سامري:اس كا گمراہ كرنا ۴

گمراہي:اس كے عوامل كا كردار۱۰

موسي(ع) :انكى عجلت۹;ان كے مؤاخذے كا فلسفہ۹; انكا قصہ ۲، ۴، ۹; ان كے علم كا ائرہ ۳; انكى طرف وحى ۲

وحي:اس كا كردار۲

آیت ۸۶

( فَرَجَعَ مُوسَى إِلَى قَوْمِهِ غَضْبَانَ أَسِفاً قَالَ يَا قَوْمِ أَلَمْ يَعِدْكُمْ رَبُّكُمْ وَعْداً حَسَناً أَفَطَالَ عَلَيْكُمُ الْعَهْدُ أَمْ أَرَدتُّمْ أَن يَحِلَّ عَلَيْكُمْ غَضَبٌ مِّن رَّبِّكُمْ فَأَخْلَفْتُم مَّوْعِدِي )

يہ سن كر موسى اپنى قوم كى طرف محزون اور غصہ ميں بھرے ہوئے پلٹے اور كہا كہ اے قوم كيا تمھارے رب نے تم سے بہترين وعدہ نہيں كيا تھا اور كيا اس عہد ميں كچھ زيادہ طول ہوگيا ہے ياتم نے يہى چاہا كہ تم پر پروردگار كا غضب وارد ہوجائے اس لئے تم نے ميرے وعدہ كى مخالفت كى (۸۶)

۱ _ حضرت موسي(ع) بنى اسرائيل كى گمراہى سے آگاہ ہونے كے بعد، شديد غم و غصے كے ساتھ ان كى طرف واپس پلٹے_

و ا ضلهم السامرى فرجع موسى إلى قومه غضبانا ا سف

اس سلسلے ميں قران كى ديگر آيات نيزخود ان آيات ميں موجود قرائن كو مد نظر ركھتے ہوئے ايسے لگتا ہے كہ بنى اسرائيل كا سامرى كے ذريعے گمراہ ہونا حضرت موسي(ع) كے چاليس دن كے ميقات كے دوران ہوا اور حضرت موسي(ع) كا اپنى قوم كى طرف لوٹنا بھى اس ميقات كے مكمل ہونے كے بعد تھا بعض اہل لغت كے بقول''غضبان'' اس شخص كو كہا جاتا ہے جو شديد غضب ميں ہو اور ''ا سف''اس غصے والے شخص كو كہا جاتا ہے جس كو كسى چيز پر افسوس ہو (لسان العرب)

۱۶۰

۲ _ ہدايت كے بعد، لوگوں كا مرتد اور گمراہ ہونا ايسى چيز ہے كہ جس پر غصہ آنا اور غم و اندوہ ميں مبتلا ہونا بجاہے_

و ا ضلّهم السامري_ فرجع موسى إلى قومه غضبانا ا سفا

۳ _ حضرت موسي(ع) پر غصہ اور غم و اندوہ كااثر_غضباناً ا سفا

۴ _ عام انسانوں كے حالات كا انبياء ميں موجود ہونا_غضباناً ا سفا

۵ _ حضرت موسي(ع) كے ميقات كى طرف جانے سے پہلے بنى اسرائيل كو خدا كى طرف سے ايك اچھا وعدہ (تورات كا نزول) ملا تھا_ا لم يعدكم ربكم وعداً حسنا

حضرت موسي(ع) كا بنى اسرائيل سے استفہام تقريرى يا انكارى بتاتا ہے كہ موسي(ع) كے ميقات پر جانے سے پہلے انہيں ايك وعدہ ديا جاچكاتھا بعض نے اس وعدے كا محتوا تورات كا نزول قرار ديا ہے_

۶ _ بنى اسرائيل نے خدا كے وعدے (تورات كا عطا كرنا) كى پروانہ كر كے اپنى گمراہى كا پيش خيمہ فراہم كيا _

و ا ضلهم السامري ا لم يعدكم ربكم وعداً حسنا

۷ _ بنى اسرائيل نے بغير اسكے كہ خداتعالى كے وعدے(تورات عطا كرنا) كے عملى ہونے ميں كوئي تاخير ہوئي ہو گمراہى كو گلے لگاليا_ا لم يعدكم ربكم أفطال عليكم العهد

''أفطال'' كا استفہام انكارى ہے اور ''عہد'' سے مراد وقت ہے (قاموس) اور اس سے مراد اس وعدے كے عملى ہونے كا وقت ہے كہ جس پر ''ا لم يعدكم'' دلالت كر رہا ہے اور ممكن ہے ''عہد'' سے مراد حضرت موسي(ع) كى دورى كا وقت ہو_

۸ _ بنى اسرائيل، خدا تعالى كى عظيم آيات اور معجزات كا مشاہدہ كرنے كے با وجود راسخ ايمان سے عارى تھے_

يا بنى إسرائيل قد ا نجيناكم ا ضلهم السامري ا لم يعدكم ربكم

اس چيز كو مد نظر ركھتے ہوئے كہ سامرى كے ذريعے بنى اسرائيل كى گمراہى فرعون كے چنگل سے نجات پانے، دريا سے عبور كرنے اور اس پورے عرصے ميں متعدد آيات الہى كا مشاہدہ كرنے كے بعد تھى لگتا ہے كہ وہ كمزور سوچ اور ايمان كے حامل تھے كہ اس طرح سامرى كے گمراہ كرنے سے گمراہوں كى صف ميں جا كھڑے ہوئے_

۹ _ بنى اسرائيل نے سامرى كى پيروى كركے اور وعدہ الہى كى پروانہ كركے اپن ے غضب خداوند ميں گرفتار ہونے كيلئے زمين ہموار كى _و ا ضلّهم السامري ا م اردتم ان يحل عليكم غضب من ربكم

۱۶۱

اس آيت ميں ''ام'' منقطعہ ہے اور ''ا م اردتم'' كا معنى يہ ہے كہ بچھڑا پرستى كى وجہ وعدہ كا مؤخر ہونا نہ تھى بلكہ تم لوگوں نے اس طرح عمل كيا ہے جيسے غضب الہى كا شوق ركھنے والے كرتے ہيں پس جملہ ''ا ردتم ...'' استعارہ ہے كہ جو ان كے كام كى ظاہرى صورت كے بارے ميں بتارہا ہے_

۱۰ _ خداتعالى كے وعدوں پر ايمان لانا اور ان كے بارے ميں بے اعتنائي سے پرہيز كرنا ضرورى ہے_

ا فطال عليكم العهد ا م اردتم ا ن يحل عليكم غضبا

۱۱ _ حضرت موسي(ع) نے ميقات پر جانے سے پہلے بنى اسرائيل كو ضرورى ہدايات جارى كردى تھيں اور ان كے ساتھ ايمان كى حفاظت كيلئے عہد و پيمان باندھ چكے تھے _فا خلفتم موعدي

اس آيت ميں ''موعد'' مصدر اور ''وعدہ'' كے معنى ميں ہے پس ''فأخلفتم'' يعنى تم نے ميرے ساتھ اپنے عہد و پيمان كى مخالفت كى اس جملے سے معلوم ہوتا ہے كہ حضرت موسي(ع) نے ميقات پر جانے سے پہلے اس كى پيشين گوئي كردى تھى چنانچہ اس لحاظ سے انہوں نے بنى اسرائيل پر اتمام حجت كرديا تھا_

۱۲ _ گمراہى كے مقدمات اور لغزش كے مقامات كى پيشين گوئي كرنا اور انكى بادے ميں خبردار كرنا انبياء اور دينى رہنماؤں كى ذمہ داريوں ميں سے ہے_فأخلفتم موعدي

۱۳ _ انبياء كے ساتھ وعدہ خلافى كرنا اور انكے عہد و پيمان كو توڑنا غضب الہى ميں گرفتار ہونے كيلئے زمين ہموار كرتا ہے_

ا م ا ردتم ا ن يحل عليكم غضب من ربكم فاخلفتم موعدي

۱۴ _ حضرت موسي(ع) نے بنى اسرائيل كے بچھڑا پرستوں كو عہد شكنى كرنے والے لوگ قرار ديا اور انہيں خداتعالى كے سخت عذاب كى نسبت خبردار كيا _ا م ا ردتم ا ن يحل عليكم غضب من ربكم

۱۵ _ مرتد ہوجانے والوں اور شرك و بت پرستى كى طرف پلٹ جانے والوں پرغضب الہى اسكى ربوبيت كا تقاضا ہے_ا ضلّهم السامري ا م اردتم ا ن يحل عليكم غضب من ربكم

۱۶ _ ہدايت كے بعد گمراہى اور توحيد كے بعد شرك خداتعالى كے شديد اور دائمى غضب اور اسكى طرف سے سخت اورطولانى عذاب ميں گرفتار ہونے كا سبب ہے _ا ضلّهم السامري ا م اردتم ا ن يحل عليكم غضب من ربّكم

''حلول غضب'' اسكے دائمى ہونے اور ''غضب''كا نكرہ ہونا اسكے عظيم اور شديد ہونے سے كنايہ ہے اور غضب الہى نازل ہونا نزول عذاب سے كنايہ ہے_

۱۶۲

مرتد ہونا:اسكے اثرات ۱۶; اسكى سزا ۱۶

انبيائ(ع) :ان كے ساتھ عہد شكنى كے اثرات ۱۳; انكا بشر ہونا ۴; انكى ذمہ دارى ۱۲

غم و اندوہ:اسكے عوامل ۲ايمان:خداتعالى كے وعدوں پر ايمان ۱۰

بت پرست لوگ:انكا مغضوب ہونا ۱۵

بنى اسرائيل:انكى گمراہى كے اثرات ۱; ان كے بچھڑا پرستوں كو انذار ۱۴; يہ حضرت موسي(ع) كى عدم موجودگى ميں ۱; انكى بے ايمانى ۸; انكى تاريخ ۱، ۵، ۷، ۹، ۱۱، ۱۴; انكو نصيحت ۱۱; انكى گمراہى كا پيش خيمہ ۶; انكى صفات ۸; ان كے مغضوب ہونے كے عوامل ۹; ان كى عہد شكنى ۱۴; انكى گمراہى ۷; انكى ہٹ دھرمى ۸; انكا نقش وكردار ۶; ان كے ساتھ وعدہ ۵، ۷

تورات:اس كا نزول ۵

خداتعالى :اسكے وعدوں سے بے اعتنائي كے اثرات ۹; اسكى ربوبيت كے اثرات ۱۵; اسكے وعدوں سے بے اعتنائي ۶; اسكے غضب كا پيش خيم ۹، ۱۳، ۱۶; اسكے وعدے ۵، ۷دينى راہنما:انكى ذمہ دارى ۱۲

سامري:اسكى پيروى كے اثرات ۹

عذاب:اسكے درجے ۱۶; اسكے اسباب ۱۶

غضب:اسكے عوامل ۲گمراہي:اسكى پيش گوئي ۱۲

مرتد ہوجانے والے:انكا مغضوب ہونا ۱۵لوگ:لوگوں كے مرتد ہوجانے كے اثرات ۲; لوگوں كى گمراہى كے اثرات ۲

مشركين:انكا مغضوب ہونا ۱۵خداتعالى كے مغضوبين :۹، ۱۵

موسي(ع) (ع) :انكا غم و اندوہ ۳; انكا انذار ۱۴; انكى بازگشت ۱; انكى نصيحتيں ۱۱; انكے غم و اندوہ كے عوامل ۱; ان كے غضب كے عوامل ۱; انكا بنى اسرائيل كے ساتھ عہد ۱۱; انكا غضب ۳; انكا قصہ ۱، ۱۱، ۱۴

۱۶۳

آیت ۸۷

( قَالُوا مَا أَخْلَفْنَا مَوْعِدَكَ بِمَلْكِنَا وَلَكِنَّا حُمِّلْنَا أَوْزَاراً مِّن زِينَةِ الْقَوْمِ فَقَذَفْنَاهَا فَكَذَلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُّ )

قوم نے كہا كہ ہم نے اپنے اختيار سے آپ كے وعدہ كى مخالفت نہيں كى ہے بلكہ ہم پر قوم كے زيورات كا بوجھ لاد ديا گيا تھا تو ہم نے اسے آگ ميں ڈال ديا اور اس طرح سامرى نے بھى اپنے زيورات كو ڈال ديا (۸۷)

۱ _ بنى اسرائيل نے حضرت موسى (ع) كى جانب سے اپنى بازپرس اور ڈانٹ ڈپٹ كے بعد،-بچھڑا پرستى كے ماجرا ميں اپنے آپ كو بے قصور ظاہر كرنے كى كوشش كى _ألم يعدكم أفطال ا م ا ردتم قالوا ما ا خلفنا موعدك بملكن

جملہ ''ما ا خلفنا'' نيز ''حمّلنا'' يہ سب بنى اسرائيل كى طرف سے بچھڑا پرستى كو قبول كرنے كے سلسلے ميں بہانہ تراشياں تھيں _

۲ _ بنى اسرائيل حضرت موسي(ع) كے ساتھ اپنى پيمان شكنى اور وعدہ خلافى كے معترف تھے _ما ا خلفنا موعدك بملكن

۳ _ اپنے آپ كو بے اختيار قرار دينا،بنى اسرائيل كى طرف سے حضرت موسى (ع) كے ساتھ عہد شكنى كرنے اور اپنے درميان بچھڑا پرستى كو قبول كرنے كا ايك بہانہ_ما ا خلفنا موعدك بملكن

''موعد'' مصدر اور ''وعدہ'' كے معنى ميں ہے اور ''ملك'' بھى مصدر ہے اور بنى اسرائيل كى مراد يہ ہے كہ وہ اپنے امور كے مالك نہيں تھے اس وجہ سے ''ما ا خلفنا'' كا معنى يوں ہوگا ہم نے آپ كے ساتھ كئے گئے عہد و پيمان كى مخالفت اپنے اختيار كے ساتھ نہيں كى _

۴ _ بنى اسرائيل،فرعونيوں كے بہت سارے زيورات اپنے ہمراہ لے آئے تھے_ولكنا حملنا ا وزاراً من زينة القوم

ظاہراً ''القوم'' سے مراد فرعونى ہيں اور ''وزر'' كا معنى ہے بوجھ اور ثقل اسى لئے گناہ كو بھى ''وزر و ثقل'' كہا جاتا ہے كيونكہ اس سے گناہ گار كے كندھوں پر بوجھ آجاتا ہے اس كلمے كا استعمال شايد اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ بنى اسرائيل فرعونيوں كے ان زيورات كو ہمراہ لانا جائز نہيں سمجھتے تھے _

۱۶۴

۵ _ بنى اسرائيل فرعونيوں كے زيورات ہمراہ لانے ميں بھى اپنے آپ كو بے اختيار قرار ديتے تھے _و لكنا حملنا اوزارا من زينة القوم بنى اسرائيل كے اپنے عمل كى بہانہ تراشيوں كے تسلسل ميں ''حملنا'' كے مجہول آنے كا مطلب يہ ہے كہ فرعونيوں كے زيورات اٹھانے ميں بھى ہم نے بادل نخواستہ كام كيا اور ہميں اس پر مجبور كيا گي

۶ _ بنى اسرائيل كا فرعونيوں كے زيورات اپنے ہمراہ لانا اور ان پر قبضہ كرنا،حضرت موسى (ع) كے حكم كے بغير انجام پايا تھاو لكنا حملنا أوزاراً من زينة القوم ''حمّلنا'' كى تعبير اور كلمہ ''وزر'' اس بات سے حكايت كرتے ہيں كہ حضرت موسى (ع) نے اس سلسلے ميں كوئي حكم نہيں ديا تھا اور بنى اسرائيل نے خود سرى كے ساتھ يہ كام انجام ديا تھا _

۷ _ بنى اسرائيل نے حضرت موسى (ع) كى عدم موجودگى اور ان كے ميقات پر جانے كے زمانہ ميں اپنے لوٹے ہوئے زيورات پھينك ديئے تھے_حمّلنا أوزاراً من زينة القوم فقد فنه

''قذف'' كامعنى ہے پھينك دينا جملہ ''حمّلنا ا وزاراً'' كو مد نظر ركھتے ہوئے لگتا ہے بنى اسرائيل نے لوٹے ہوئے زيورات كو اس بنا پر كہ يہ گناہ ہے دور پھينك ديا تھا يا صحرا و بيابان كى زندگى ميں انكے بے قدر و قيمت ہوجانے كى وجہ سے انہوں نے انہيں پھينك دينے كا عزم كيا _

۸ _ بنى اسرائيل كے ہاتھوں زيورات پھينك ديئے جانے كے ماجرے ميں سامرى كا برجستہ كردار تھا _

فقذ فنها فكذلك ا لقى السامري جن لوگوں نے زيورات پھينك ديئے تھے ان ميں سامرى كو مشخص كرنا اس سلسلے ميں اس كے برجستہ كردار كى علامت ہے_

۹ _ بنى اسرائيل اس چيز كے گواہ ہيں كہ فرعونيوں كى رہ جانے والى غنيمتوں كے پھينك دينے ميں سامرى نے بنى اسرائيل كے عمومى اقدام كے مشابہ اقدام كيفقذ فنها فكذلك ا لقى السامري

''كذلك'' يعنى اسكى مانند جو ہم نے انجام ديا تھا _يہ وصف اس چيز كو بيان كر رہا ہے كہ سامرى نے بنى اسرائيل كے حضور ميں اور ان كى مثل عمل كرتے ہوئے چيزوں كو دور پھينك ديا تھا _

۱۰ _ سامرى نے اپنى چيزيں پھينك دينے والا اقدام اس كے بعد كيا كہ بنى اسرائيل نے اپنے ساتھ والى غنيمت كى چيزوں كو پھينك ديا تھا_فكذلك ا لقى السامري

۱۶۵

۱۱ _ بنى اسرائيل نے فرعونيوں كے مال غنيمت كو بچھڑا بنانے كے اخراجات مہيا كرنے كا ذريعہ بتايا اور اپنے آپ كو اسكى ہر قسم كى مالى امداد سے مبرا قرار ديا _ما ا خلفنا موعدك بملكنا ولكنا حملنا أوزار

''ملك'' كے جو معانى بيان كئے گئے ہيں ان ميں سے ايك ''مملوك'' ہے (قاموس) اس معنى كو پيش نظر ركھتے ہوئے آيت كريمہ كا مطلب يہ بنے گا ہم نے اپنے اموال كے ذريعے اپنے آپ كو اس انحراف ميں حصہ دار نہيں بنايا بلكہ جو اموال ہم نے پھينك ديئے تھے ان كے ذريعے سامرى نے يہ فتنہ كھڑا كيا _

بنى اسرائيل:ان كا اقرار ۲; يہ موسى (ع) كى غيبت ميں ۷; انكى تاريخ ۱، ۲، ۴، ۵، ۶، ۷، ۸،۹،۱۰، ۱۱; انكى بہانہ تراشى ۱، ۳; انكى جبرپرستى ۳، ۵; انكا زيورات كو دور پھينكنا ۷، ۸، ۹، ۱۰; ان كے زيورات ۴، ۵، ۶; انكى سرزنش ۱; انكى عہد شكنى ۲، ۳; انكى بچھڑا پرستى ۱، ۳

سامري:اس كا زيورات كو درو پھينكو دينا ۹، ۱۰; اس كا نقش و كردار ۸; اسكے بچھڑے كے اخراجات ۱۱

فرعوني:فرعونيوں كے زيورات ۴، ۵، ۶، ۹، ۱۱

موسى (ع) :انكى طرف سے سرزنش ۱; ان كے ساتھ عہد شكنى كرنے والے۲ ۳; انكا نقش و كردار ۶

آیت ۸۸

( فَأَخْرَجَ لَهُمْ عِجْلاً جَسَداً لَهُ خُوَارٌ فَقَالُوا هَذَا إِلَهُكُمْ وَإِلَهُ مُوسَى فَنَسِيَ )

پھر سامرى نے ان كے لئے ايك مجسمہ گائے كے بچے كا نكالا جس ميں آواز بھى تھى اور كہا كہ يہى تمھارا اور موسى كا خدا ہے جس سے موسى غافل ہوكر اسے طور پر ڈھونڈنے چلے گئے ہيں (۸۸)

۱ _ سامرى نے بنى اسرائيل كے پھينكے ہوئے زيورات سے بچھڑے كى صورت كا پتلا بنا كر پيش كيا _

فأخرج لهم عجلاً جسد ''عجل'' يعنى بچھڑا ''عجل '' كا ''جسد'' كے ساتھ وصف بيان كرنا اس نكتے كو بيان كر رہا ہے كہ بچھڑا ايك پتلے كى صورت ميں تھا نہ واقعى بچھڑا جملہ ''فأخرج لہم ...'' ممكن ہے خداتعالى كا كلام ہو اور يہ بھى احتمال ہے كہ يہ بنى اسرائيل كى گفتگو كا تسلسل ہو دوسرى صورت ميں ''لنا'' كى بجائے ''لہم'' كہنا قرينہ ہے كہ انكى مراد بچھڑے كى پرستش سے اپنے آپ كو برى الذمہ قرار دينا ہے_

۲ _ سامرى نے چھپ كر اور بنى اسرائيل كى آنكھوں سے دور سنہرے رنگ كا بچھڑا بنايا _فأخرج لهم عجلاً جسد

۱۶۶

''ا خرج'' صرف بنى اسرائيل پر بچھڑا پيش كرنے كے مرحلے كى طرف ناظر ہے اور اس سے پہلے كے مراحل (بچھڑے كى ساخت) كا تذكرہ نہ ہونا ان مراحل كے عام لوگوں كى نظروں سے اوجھل ہونے كو بيان كررہا ہے_

۳ _ سامرى كے بچھڑے كے سنہرى پتلے سے بچھڑے كى آواز جيسى آواز نكلتى تھى _فأخرج لهم عجلاً جسداً له خوار

''خوار'' يعنى گائے اور بچھڑے كى بلند آواز (لسان العرب) _

۴ _ سامرى مجسمہ سازى كے فن كا ماہر اور بنى اسرائيل كى فكرى كمزوريوں سے آشنا تھا _فأخرج لهم عجلاً جسداً له خوار يہ تعبير ( اس نے بچھڑا پيش كرديا ) بچھڑے كے مجسمے كے اسكى حقيقى شكل كے ساتھ شدت مشابہت كو بيان كررہى ہے _

۵ _ سامرى كے ہاتھ سے بنے ہوئے پتلے سے بچھڑے كى آواز كا سنا جانا، بنى اسرائيل كے گرويدہ ہونے اور اسے معبود سمجھنے كا سبب بنا _له خوار بچھڑے كے اوصاف ميں سے ہر ايك كا تذكرہ اسكے بنى اسرائيل كے تمايل ميں دخيل ہونے كو بيان كررہا ہے _

۶ _ سامرى نے بچھڑے كے سنہرى پتلے كو بنى اسرائيل اور حضرت موسى (ع) كا ''معبود'' متعارف كرايا _

فأخرج فقالوا هذا إلهكم و إله موسى

۷ _ سنہرى بچھڑے كو معبود كے طور پر متعارف كرانے ميں بنى اسرائيل كا ايك گروہ سامرى كے ساتھ تھا_عجلاً فقالوا هذا إلهكم و إله موسى فعل جمع ''قالوا'' بتاتا ہے كہ كچھ لوگ سامرى كے اردگرد جمع ہوكر اسكے مقصد كى ترويج كررہے تھے يا يہ كہ يہ لوگ پہلے سے ہى عملى اور فكرى لحاظ سے اسكے ہمراہ تھے او رجب بچھڑے كى نمائش كى گئي تو يہ اپنے باطل عقيدے كى ترويج كرنے لگے_

۸ _ بنى اسرائيل سنہرى بچھڑے كو معبود ماننے كيلئے مناسب فكر ركھتے تھے _فقالوا هذا إلهكم و إله موسي

بنى اسرائيل كو بت پرستى ميں مبتلا كرنے كيلئے بچھڑے كى شكل كا انتخاب اور پھر بنى اسرائيل كا جلدى سے گمراہ ہوجانا بالخصوص حضرت موسى (ع) كے معجزات كا مشاہدہ كرنے كے بعد مذكورہ مطلب كو بيان كررہا ہے_

۹ _ سامرى اور اسكے پيروكاروں نے جھوٹا دعوى كيا كہ حضرت موسي(ع) بچھڑے كو معبود كے طور پر متعارف كرانا بھول گئے _هذا إلهكم و إله موسي(ع) فنسي ''نسي'' كى فاعلى ضمير كے مرجع كے بارے ميں دو احتمال ہيں :۱_ يہ كہ موسى (ع) ہوں _

۱۶۷

۲ _ يہ كہ سامرى ہو مذكورہ مطلب پہلے احتمال كى بنا پر ہے

۱۰ _ سامري، اسكے حاميوں اور اسكے مبلغين نے بچھڑے كى پرستش كو حضرت موسى (ع) كے عقائد ميں سے بيان كيا _فقالوا هذا إلهكم و إله موسى فنسي

۱۱ _ منحرف عقائد گھڑنے اور ان كے انبيائ(ع) اور ان كے مكتب كى طرف منسوب كرنے كے مقابلے ميں ہوشيار رہنا ضرورى ہے_هذا الهكم و اله موسى فنسي سامرى اور اسكے پيروكاروں كے حضرت موسي(ع) پر افترا اور اپنے انحرافى عقائد كو حضرت موسي(ع) (ع) كے عقائد كے طور پر پيش كرنے كا تذكرہ كرنا سب كو بالخصوص اديان الہى كے پاسداروں كو خبردار كرنے كيلئے ہے كہ اہم ترين عقائد ميں انبياء الہى پر جھوٹ باندھنے كا خطرہ ہميشہ موجود ہے_

۱۲ _ معاشرے كى محبوب شخصيات سے استفادہ كرنا اور اپنے عقائد و افكار كو ان سے وابستہ ظاہر كرنا گمراہى كے راہبروں كے ہتھكنڈوں ميں سے ہے_فقالوا هذا اله موسي(ع) فنسي

۱۳ _ سامرى اور اسكے پيروكاروں كى نظر اور پروپيگنڈے ميں حضرت موسي(ع) ايك ايسے راہبر تھے جو حتى كہ سب سے اہم اعتقادى مسائل ميں بھى فراموشى كا شكار ہوجاتے تھے_فقالوا هذا الهكم و اله موسى فنسي

۱۴ _ سامري، خداتعالى كى نعمتوں كے مقابلے ميں ناشكرا اور اسكى خاص امداد اور لطف و كرم سے بے پروائي كرنے والا تھا _فنسي اگر ''نسي'' كى فاعلى ضمير كا مرجع سامرى ہو تو سامرى كے بھولنے سے مراد اس كا فرعونيوں سے نجات، من و سلوى كے نزول اور اس جيسے ديگر كاموں كے سلسلے ميں عنايات الہى كى پروانہ كرنا ہوگا _

آسمانى اديان:ان پر تہمت لگانے كا خطرہ ۱۱

انبيائ(ع) :ان پرتہمت لگانے كا خطرہ ۱۱

بنى اسرائيل:انكے بچھڑے كى ساخت كا مخفى ہونا ۲; انكى تاريخ ۱، ۲، ۶، ۷، ۸، ۹، ۱۰، ۱۳; انكى بچھڑا پرستى كا پيش خيمہ ۸; انكى كمزورى ۴; انكا عقيدہ ۷; انكى گمراہى كے عوامل ۵; انكے بچھڑا پرست لوگ ۷; انكے معبود ۶، ۹

معاشرہ:معاشرتى آسيب شناسى ۱۲

راہبر:گمراہى كے راہبروں كے ساتھ نمٹنے كى روش ۱۲

۱۶۸

سامري:اسكے پيروكاروں كى سوچ ۱۳; اسكى سوچ ۱۳; اسكے پيروكار ۷; اسكے پيروكاروں كى تہمتيں ۹، ۱۰; اسكى تہمتيں ۹، ۱۰; اسكے بچھڑے كى نوع ۱، ۲; اسكے بچھڑے كى نوعيت ۱; اسكے پيروكاروں كى دروغگوئي ۹; اسكى دروغ گوئي ۹; اسكى نفسيات شناسي۴; اسكى شخصيت ۴; اسكے بچھڑے كى آواز ۳; اسكى غفلت ۱۴; اس كى ناشكرى ۱۴; اس كا بچھڑا ۶; اسكى مجسمہ سازى ۱، ۴; اسكى مہارت ۴; اسكے بچھڑ كى آواز كا كردار ۵

بچھڑا:اس كامجسمہ ۱، ۳، ۶

محبوبين:ان سے سوء استفادہ كرنا ۱۲

موسي(ع) :ان پر فراموشى كى تہمت ۹، ۱۳; ان پر بچھڑا پرستى كى تہمت ۱۰

آیت ۸۹

( أَفَلَا يَرَوْنَ أَلَّا يَرْجِعُ إِلَيْهِمْ قَوْلاً وَلَا يَمْلِكُ لَهُمْ ضَرّاً وَلَا نَفْعاً )

كيا يہ لوگ اتنا بھى نہيں ديكھتے كہ يہ نہ انكى بات كا جواب دے سكتا ہے اور نہ ان كے كسى نقصان يا فائدہ كا اختيار ركھتا ہے (۸۹)

۱ _ سامرى كا بچھڑا ايك ايسا پيكر تھاجو جواب دينے سے عاجز اور نفع و نقصان پہچانے سے ناتوان تھا_ا فلا يرون إلا يرجع إليهم قولًا و لا يملك لهم ضرّا ولا نفع فصيح عربى ميں ''رجوع'' متعدى كے طور پر بھى استعمال ہوتاہے(مصباح)اور''لا يرجع ...'' يعنى بچھڑا كسى بات كو انكى طرف نہيں پلٹا تا اور انہيں جواب نہيں ديتا اور ''لايملك ...'' يعنى بچھڑا انكے نفع و نقصان كا مالك نہيں ہے_

۲ _ سوچ اور فكر، حقيقى معبود كو خيالى اور تصوراتى معبودوں سے پہچاننے كى بنياد ہے _ا فلا يرون ا لّا يرجع إليهم قول

لغت ميں ''رؤيت'' كے دو معنے ہيں ۱_ آنكھ كے ساتھ ديكھنا ۲_ علم و درك ''إلا يرجع'' ميں ''أن'' مخففہ كا وجود دوسرے معنى كے مراد ہونے كا قرينہ ہے _

۳ _ سامرى كے بچھڑے كے معبود ہونے كے اندھے اور غير منطقى عقيدے كى وجہ سے خداتعالى كى

۱۶۹

طرف سے بنى اسرائيل كى توبيخ اور سرزنش _ا فلا يرون ا لّا يرجع إليهم قول

''ا فلا يرون'' ميں استفہام انكار توبيخى كيلئے ہے

۴ _ جواب دينے اور خواہشات كو قبول كرنے كى قدرت اور نفع و ضرر پہچانے كى توان حقيقى معبود كى لازمى خصوصيات ميں سے ہے_ا فلا يرون ا لّا يرجع إليهم قولا و لا يملك لهم ضرّاً و لا نفعا

''قول كو واپس پلٹانا'' ايسا مفہوم ہے جو دعا قبول كرنے كو بھى شامل ہے_

۵ _ بنى اسرائيل كے بچھڑا پرست ،ايسے لوگ تھے جو جاہل اور فكر سے دور تھے _ا فلا يرون ا لّا يرجع إليهم قول

۶ _ سامرى كے بچھڑے سے نكلنے والى آواز ہر قسم كے لفظى مفہوم سے خالى تھى _له خوار ا فلا يرون ا لا يرجع إليهم قول

بنى اسرائيل:ان كے بچھڑا پرستوں كا بے عقل ہونا ۵; انكے بچھڑا پرستوں كى جہالت ۵; ان كى سرزنش ۳; انكا باطل عقيدہ ۳; ان كى بچھڑا پرستى ۳

تعقل:اسكے اثرات ۲

تقليد:اندھى تقليد ۳

خداتعالى :اسكى طرف سے سرزنش ۳; خداشناسى كے مبانى ۲

سامري:اسكے بچھڑے كى آواز ۶; اسكے بچھڑے كا عاجز ہونا ۱

حقيقى معبود:انكا نقصان پہچانا۴; ان كا نفع پہچانا ۴; انكى خصوصيات ۴

۱۷۰

آیت ۹۰

( وَلَقَدْ قَالَ لَهُمْ هَارُونُ مِن قَبْلُ يَا قَوْمِ إِنَّمَا فُتِنتُم بِهِ وَإِنَّ رَبَّكُمُ الرَّحْمَنُ فَاتَّبِعُونِي وَأَطِيعُوا أَمْرِي )

اورہارون نے ان لوگوں سے پہلے ہى كہہ ديا كہ اے قوم اس طرح تمھارا امتحان ليا گيا ہے اور تمھارا رب رحمان ہى ہے لہذا ميرا اتباع كرو اور ميرے امر كى اطاعت كرو(۹۰)

۱ _ حضرت موسى (ع) كى عدم موجودگى ميں بنى اسرائيل كا انحراف اور بچھڑا پرستى حضرت ہارون(ع) كے خبردار كرنے كے باوجود انجام پايا _و لقد قال لهم هرون من قبل

''من قبل''يعنى حضرت موسى (ع) كے ميقات سے واپس پلٹنے سے پہلے _

۲ _ سامرى كا بچھڑا بنى اسرائيل كى آزمائش كا ذريعہ تھا _إنما فتنتم به

۳ _ سامرى كے سنہرے بچھڑے كا آزمائش ہونا ان چيزوں ميں سے تھا كہ جن كے بارے ميں حضرت ہارون(ع) نے بنى اسرائيل كو خبردار كيا _و لقد قال لهم هرون إنما فتنتم به

۴ _ حضرت ہارون(ع) نے توحيد اور ربوبيت خدا كے ايمان پر ثابت قدم رہنے كو آزمائش الہى ميں كاميابى كي شرط قرار ديا_إنما فتنتم به وإن ربكم الرحمن

۵ _ حضرت ہارون(ع) نے بنى اسرائيل كے سامنے خدا تعالى كى وسيع رحمت كا تذكرہ كر كے انہيں شرك و ارتداد سے واپس پلٹنے كيلئے راستہ كھلا ہونے كى ياد دہانى كرائي_إنما فتنتم به وإن ربكم الرحمن

بنى اسرائيل كى نافرمانى اور بچھڑا پرستى كو مد نظر ركھتے ہوئے حضر ت ہارون(ع) كے كلام ميں خداتعالى كى ''الرحمان'' كے ساتھ توصيف، شرك سے توبہ كى صورت ميں ان كے ساتھ رحمت الہى كے وعدہ پر مشتمل ہے _

۶ _ منحرفين اور خطاكاروں كو رحمت اور مغفرت الہى سے اميدوار ركھنا ضرورى ہے _إنما فتنتم به وإن ربكم الرحمن

۷ _ خداوند رحمن (وسيع رحمت والا) سب لوگوں كا پروردگار ہے _وإن ربكم الرحمن

۸ _ رحمن ہونا، معبود ہونے كى لازمى خصوصيات ميں سے ہے _فقالوا هذا إلهكم وإله موسي وإن ربكم الرحمن

حضرت ہارون(ع) نے سامرى كے بچھڑے كے مبعود ہونے كو رد كرنے كے مقام ميں حقيقى معبود كى بعض خصوصيات بيان كى ہيں كہ جن ميں سے اس كا ''رحمان'' ہونا ہے _

۱۷۱

۹ _ رحمان ہونا، ربوبيت كى شرط ہے _وإن ربكم الرحمن

۱۰ _ حضرت موسي(ع) كى عدم موجودگى ميں حضرت ہارون(ع) بنى اسرائيل كى رہنمائي اور ہدايت كے ذمہ دار _

و لقد قال لهم هرون من قبل

۱۱ _ حضرت ہارون(ع) كى بنى اسرائيل كے بچھڑا پرستوں كے ساتھ گفتگو محبت آميز اور رہنمائي و ہدايت كے ہمراہ تھى _ياقوم إنما فتنتم به بنى اسرائيل كو ''اے ميرى قوم'' كہہ كر اپنى طرف منسوب كرنا محبت كا اظہار ہے اور سامرى كے ماجرا كو آزمائش كہہ كر اسكى وجوہات تلاش كرنا واضح اور رہنمائي كرنا ہے_

۱۲ _ گمراہ لوگوں كے ساتھ اظہار مہر و محبت انكى ہدايت كے سلسلے ميں ايك پسنديدہ روش ہے _ياقوم إنما فتنتم به وإن ربكم الرحمن

۱۳ _ گمراہ لوگوں كو فكرى اور نفسياتى طور پر آمادہ كرنا اور زمينہ ہموار كرنا انكى رہنمائي اور ہدايت ميں انبياء كى ايك روش _

ى قوم إنما فتنتم به وإن ربكم الرحمن

۱۴ _ حضرت موسى (ع) كى عدم موجودگى ميں حضرت ہارون(ع) بنى اسرائيل پر ولايت و اطاعت كا حق ركھتے تھے _

و لقد قال لهم هرون فاتبعونى و اطيعوا ا مري حضرت ہارون(ع) كا لوگوں كو اپنى پيروى اور اطاعت كا حكم دينا اس بات سے حكايت كرتا ہے كہ وہ بنى اسرائيل پر ولايت و اطاعت كا حق ركھتے تھے _

۱۵ _ حضرت موسى (ع) كى عدم موجودگى ميں حضرت ہارون(ع) نے لوگوں كو سامرى كى پيروى ترك كر كے اپنى اطاعت كا حكم ديا _لقد قال لهم هرون من قبل فاتبعونى و ا طيعوا ا مري

۱۶ _ حضرت موسي(ع) كى عدم موجودگى ميں حضرت ہارون(ع) نے رہنمائي، خبردار كرنا، امربالمعروف اور نہى از منكر كا فريضہ پورى طرح انجام ديا _و لقد قال لهم هرون من قبل ياقوم فاتبعونى و ا طيعوا ا مري

۱۷ _بچھڑا پرستى كا مقابلہ كرنے اور بنى اسرائيل ميں توحيد كو زندہ كرنے كيلئے حضرت ہارون(ع) كے پاس مشخص پروگرام تھا _ا طيعوا ا مري

۱۷۲

''إتبعوني'' كے حكم كے بعد حضرت ہارون(ع) كا بنى اسرائيل كو اپنے اوامر كى اطاعت كا حكم دينا اس بات كى حكايت كرتا ہے كہ انہوں نے بنى اسرائيل كيلئے انكى طرف سے اپنى پيروى كى صورت ميں اوامر كا انتظام كر ركھا تھا _

۱۸ _ فتنوں ميں محفوظ رہنے كيلئے انبياء الہى كے اوامر اور ہدايات كى اطاعت اورپيروى كرنا ضرورى ہے _

إنما فتنتم به فاتبعونى و ا طيعوا ا مري

اسما و صفات:رحمان ۷

اطاعت:انبيا كى اطاعت كے اثرات ۱۸; ہاورن (ع) كى اطاعت ۱۴، ۱۵

آزمائش:اس كا ذريعہ ۲; سامرى كے بچھڑے كے ذريعے آزمائش ۳

اميدوار ہونا:بخشش كا اميدوار ہونا ۶; رحمت خدا كا اميدوار ہونا ۶

انبيائ(ع) :انكى سيرت ۱۳; ان كا ہدايت كرنا ۱۳

ريمان:توحيد پر ايمان ۴; ربوبيت خدا پر ايمان ۴

بنى اسرائيل:انكے امتحان كا ذريعہ ۲; ان ميں توحيد كا احيا ۲; انكو انذار ۱; يہ موسي(ع) كى عدم موجودگى ميں ۱۰; انكى تاريخ ۱، ۳، ۵، ۱۰، ۱۱، ۱۴، ۱۵; انكو نصيحت ۵; انكو دعوت ۱۵; ان كے بچھڑا پرستوں كے ساتھ نمٹنے كى روش۱۱; انكى گمراہى ۱; انكى بچھڑا پرستى ۱; ان پر ولايت ۱۴; انكى ہدايت ۱۰، ۱۱; انكو خبردار كرنا ۳

ياددہانى كرانا:رحمت خدا كى ياد دہانى كرانا ۵

توبہ:مرتد ہونے سے توبہ ۵; شرك سے توبہ ۵

خداتعالى :اسكى ربوبيت ۷; اسكى رحمانيت ۷; اسكى آزمائشوں ميں كاميابى كے شرائط ۴

ربوبيت:اس ميں رحمان ہونا۹; اسكے شرائط ۹

سامري:اس سے منہ موڑنا ۱۵; اسكے بچھڑے كا كردار ۲

گمراہ لوگ:انكو اميد دلانے كى اہميت ۶; انكى محبت ۱۲

گمراہي:اسكے موانع ۱۸//بچھڑا پرستي:اس كا مقابلہ ۱۷

سچے معبود:ان كا رحمن ہونا ۸; انكى خصوصيات ۸

ہارون(ع) :

۱۷۳

ان كا امر بالمعروف ۱۶; انكا ڈرانا ۱، ۱۶; انكى منصوبہ بندى ۱۷; انكى تبليغ ۱۰; انكى نصيحتيں ۵; انكى دعوت ۱۵; انكى تبليغ كى روش ۱۷; انكى شرك دشمنى ۱۷; انكا عقيدہ ۴; انكا شرعى ذمہ دارى پر عمل كرنا ۱۶; انكا قصہ ۱۴، ۱۵، ۱۶، ۱۷; انكى ذمہ دارى ۱۰; انكا مقام و مرتبہ ۱۴; انكى مہربانى ۱۱; ان كا نہى از منكر ۱۶; انكى ولايت ۱۴;انكى مينيجمنٹ كى خصوصيات ۱۷; يہ حضرت موسى (ع) كى عدم موجودگى ميں ۱۴، ۱۶; انكا ہدايت كرنا ۱۱، ۱۶; انكا خبردار كرنا ۳

ہدايت:اسكے لئے مقدمات فراہم كرنا ۱۳; اسكى روش ۱۲، ۱۳

آیت ۹۱

( قَالُوا لَن نَّبْرَحَ عَلَيْهِ عَاكِفِينَ حَتَّى يَرْجِعَ إِلَيْنَا مُوسَى )

ان لوگوں نے كہا كہ ہم اس كے گرد جمع رہيں گے يہاں تك كہ موسى ہمارے درميان واپس آجائيں (۹۱)

۱ _ بنى اسرائيل،حضرت ہارون(ع) كے احكام كو قبول كرنے اور بچھڑا پرستى سے توبہ كرنے كيلئے تيار نہ ہوئے _

فاتبعونى و ا طيعوا ا مري قالوا لن نبرح عليه عكفين ''لن نبرح'' يعنى''لا نزال'' ( ثابت قدم رہيں گے) ''عاكف'' اسے كہتے ہيں جو كسى چيز كى طرف توجہ كرے اور اپنے آپ كو اسكى تعظيم پر مجبور كرے (مفردات راغب)

۲ _ بنى اسرائيل كے بچھڑا پرستوں كى طرف سے حضرت موسى (ع) كے ميقات سے واپس آنے اور ذمہ دارى كے تعين تك سامرى كے بچھڑے كى پرستش كا فيصلہ_لن نبرح عليه عكفين حتى يرجع إلينا موسى

۳ _ بنى اسرائيل نے سامرى كے بچھڑے كے ٹھہرنے كى جگہ كو اپنى عبادت گاہ بناليا اور بہت سارى گھڑياں اسكى عبادت كيلئے مختص كرديں _لن نبرح عليه عكفين تسلسل اور دوام ''عكفين'' كے لفظ سے حاصل ہوتا ہے _

۴ _ بنى اسرائيل شخصيت پرست لوگ تھے نہ حقيقت طلب _لن نبرح حتى يرجع الينا موسي

بنى اسرائيل كے بچھڑا پرستوں نے حضرت ہارون(ع) كى باتوں ميں غور كرنے اور حقيقت كو پہچاننے كى بجائے انہيں صرف يہ جواب ديا كہ انہوں نے حضرت موسى (ع) كے ميقات سے واپس پلٹنے كو اپنے عقائد ميں نظر ثانى كى شرط قرار ديا ہے جبكہ معقول يہ تھا كہ وہ اپنے كام

۱۷۴

اور حضرت ہارون(ع) كى باتوں ميں صحيح طور پر غور و فكر كرتے _

۵ _ بنى اسرائيل كى نظر ميں حضرت موسى (ع) كى شخصيت حضرت ہارون(ع) كى شخصيت سے زيادہ برجستہ تھى _

ولقد قال لهم هرون قالوا لن نبرح عليه عكفين حتى يرجع الينا موسى

حضرت ہارون(ع) كى باتوں سے بے اعتنائي اورحضرت موسي(ع) كے لوٹنے كو مؤثر سمجھنا بنى اسرائيل كى نظر ميں ان دو كى شخصيت كے مختلف ہونے سے حكايت كرتا ہے_

بنى اسرائيل:انكى سوچ۵; انكى تاريخ ۱، ۲، ۳; انكا حق كو قبول نہ كرنا ۴; انكى شخصيت پرستى ۴; انكى صفات ۴; انكى عبادت گاہ ۳; انكى نافرمانى ۱; انكى بچھڑاپرستى ۱; انكى ہٹ دھرمى ۱، ۲; انكى بچھڑا پرستى كى مدت ۲; انكى بچھراپرستى كى جگہ ۳

نافرماني:حضرت ہاورن (ع) كى نافرمانى ۱

موسى (ع) :انكى ہارون(ع) پر برترى ۵; انكا قصہ۲

ہارون(ع) :انكا قصہ ۱

آیت ۹۲

( قَالَ يَا هَارُونُ مَا مَنَعَكَ إِذْ رَأَيْتَهُمْ ضَلُّوا )

موسى نے ہارون سے خطاب كر كے كہا كہ جب تم نے ديكھ لياتھا كہ يہ قوم گمراہ ہوگئي ہے تو تمھيں كون سى بات آڑے آگئي تھى (۹۲)

۱ _ حضرت موسى (ع) نے ميقات سے واپس پلٹنے كے بعد حضرت ہارون(ع) سے انكے بنى اسرائيل كے بچھڑا پرستوں كے مقابلے ميں رد عمل كے سلسلے ميں بازپرس اور توبيخ كى _ياهرون ما منعك اذ رأيتهم ضلّو

۲ _ بنى اسرائيل كو گمراہى اور انحراف سے روكنا حضرت موسي(ع) كى عدم موجودگى ميں حضرت ہارون(ع) كى ذمہ دارى تھي_ياهرون ما منعك إذ رأيتهم ضلّو

۳ _ حضرت موسي(ع) نے بنى اسرائيل كے انحراف اور ان كے بچھڑا پرستى كى طرف مائل ہو

۱۷۵

نے ميں اپنے بھائي ہارون(ع) كو قصور وار ٹھہرايا _قال ياهرون ما منعك إذ رأيتهم ضلّوا

''ما منعك ...'' استفہام انكارى ہے اور ہارون(ع) پر حضرت موسي(ع) كے اعتراض كو بيان كر رہا ہے_

۴ _ دينى رہنما، رشتہ دارى كى بنا پر قصور واروں كا مواخذہ كرنے سے چشم پوشى نہ كريں _قال ياهرون ما منعك

۵ _ دينى معاشروں كے ذمہ دار لوگوں كيلئے ضرورى ہے كہ وہ ولوگوں كے اعتقادى انحرافات كے سلسلے ميں حساس ہوں اور اپنے رد عمل كا اظہار كريں _ياهرون ما منعك

۶ _ بنى اسرائيل كو انحراف اور گمراہى سے روكنا حضرت موسي(ع) كى عدم موجودگى ميں حضرت ہارون(ع) كى ذمہ دارى تھي_ياهرون ما منعك اذ رايتهم ضلوا

بنى اسرائيل:انكى تاريخ ۱، ۲، ۳، ۶; انكى گمراہى كے عوامل ۳; انكى بچھڑا پرستى كے عوامل ۳; انكى بچھڑا پرستى ۱; انكى گمراہى كو روكنا ۲، ۶

دينى راہنما:ان كے رشتہ داروں كى سزا ۴; انكى ذمہ دارى ۴، ۵

گمراہي:اسكو روكنا۵

موسى (ع) :انكى سوچ ۳، انكى طرف سے سرزنش ۱; انكا قصہ ۱، ۳

ہارون(ع) :انكا قصہ ۱، ۳، ۶; ان كا مؤاخذہ ۱; انكى ذمہ دارى ۲، ۶; انكا نقش وكردار ۳; يہ موسي(ع) كى عدم موجودگى ميں ۲، ۶

آیت ۹۳

( أَلَّا تَتَّبِعَنِ أَفَعَصَيْتَ أَمْرِي )

كہ تم نے ميرا اتباع نہيں كيا كيا تم نے ميرے امر كى مخالفت كى ہے (۹۳)

۱ _ انبياء (ع) اور ان كے جانشين اپنى توان كى حد تك لوگوں كو گمراہ اور منحرف ہونے سے بچانے كے ذمہ دار ہيں _

ما منعك إذ رأيتهم ضلّوا ا لّا تَتّبعن ہارون(ع) كى طرف سے موسي(ع) كے اتباع سے مراد كہ جسے ''ما منعك الّا تتبعن'' كا جملہ بيان كررہا ہے_ يہ ہے كہ حضرت ہارون(ع) كيلئے ضرورى تھا كہ حضرت كى عدم موجودگى ميں ان جيسا عمل كرتے اور انحراف كے سلسلے ميں لوگوں كے ساتھ سختى سے پيش آنے اور يا يہ كہ حضرت موسي(ع) كى ہدايات اور نصيحتوں (اصلح و لا تتبع سبيل المفسدين) لانے بعض نے كہا ہے_

۱۷۶

۲ _ حضرت موسي(ع) كى عدم موجودگى ميں حضرت ہارون(ع) بنى اسرائيل كى ہدايت اور راہنمائي كے ذمہ دار تھے_

ى هرون ما منعك الّا تتّبعن

۳ _ حضرت موسى (ع) نے اپنى عدم موجودگى ميں ہاورن كيلئے ان كى ذمہ داريوں كو معين كرديا تھا _ما منعك الا تتبعن افعصيت امري ''الّا تتبعن'' ميں ''لا'' اس نفى كى تاكيد كيلئے ہے جو ''منعك'' سے حاصل ہو رہى ہے اور در اصل مراديہ تھى ''ما منعك ان تتبعن'' بعض نے كہا ہے ''لا'' زائدہ نہيں ہے بلكہ مراد يہ ہے كہ ''ما الذى صدك و حملك على الّا تتبعن'' يعنى كس چيز نے تجھے روكا اور ميرى پيروى نہ كرنے پر مجبور كيا (مفردات راغب)

۴ _ بنى اسرائيل كے انحراف كے مقابلے ميں خاموش رہنے اور كسى رد عمل كے اظہار نہ كرنے كى وجہ سے حضرت ہارون(ع) پر حضرت موسي(ع) كے اوامر كى مخالفت كا الزام _ما منعك افعصيت امري ''افعصيت ...'' حضرت موسى (ع) كا حضرت ہارون(ع) كو خطاب ہے آيت كے ظاہر كوديكھ كر يوں لگتا ہے كہ حضرت موسي(ع) كى طرف سے حضرت ہارون كا ان كے فرامين كى مخالفت كرنا كم از كم ايك الزام كى صورت ميں سامنے آيا تھا _

۵ _ لوگوں كى گمراہى اور انحراف كے مقابلے ميں ذمہ دار لوگوں كا خاموش رہنا اور كسى رد عمل كا اظہار نہ كرنا توبيخ اور بازپرس كے مقابل ہے_مامنعك اذ رايتهم ضلّوا افعصيت امري

۶ _ذمہ دار لوگ حتى كہ معاشرے كے بالاترين مقام پر فائز حضرات كيلئے ضرورى ہے كہ وہ اپنى ذمہ دارى كے دائرے ميں رہتے ہوئے انحرافات كے مقابلے ميں جواب دہ ہوں _ما منعك الّا تتبعن افعصيت امري

حضرت موسى (ع) نے ميقات سے واپس آنے كے بعد حضرت ہارون(ع) سے انكى ذمہ دارى كے سلسلے ميں بازپرس اور توبيخ كى اور بچھڑاپرستوں كے ساتھ انكے نمٹنے كى روش اور اسكے علل و اسباب كے بارے ميں جستجو كي_ اس چيز كے پيش نظر كہ حضرت ہارون(ع) پيغمبر تھے اور اس كے باوجود ان سے بازپرس ہوئي اس سے ذمہ دار لوگوں كى خصوصى ذمہ دارى اور اسكے مقابلے ميں لازمى طور پر ان كا جوابدہ ہونا واضح ہوتا ہے_

۷ _ ہارون(ع) مقام نبوت كے حامل ہونے كے باوجود حضرت موسي(ع) اور ان كے فرامين كى پيروى كرنے پر مأمور تھے _ما منعك الّا تتبعن افعصيت امري ''ألّا تتبعن'' حضرت ہارون(ع) كو خطاب اور اس نكتہ پر دال ہے كہ آپ نبى ہونے كے باوجود حضرت موسى (ع) كے فرامين كى پيروى كرنے پر مأمور تھے_

۸ _ معاشرے ميں ايك راہبر كى پيروى ہونا ضرور ى ہےما منعك ا لا تتبعن ا فعصيت ا مري

۱۷۷

۹ _ الہى ذمہ داريوں ميں كلمہ ''امر'' وجوب ميں ظہور ركھتا ہے _ا فعصيت ا مري امر كى مخالفت پر عصيان كا صدق كرنا مذكورہ نكتے پر دلالت كر رہا ہے _

اطاعت:موسى (ع) كى اطاعت ۷; راہبر كى اطاعت كى اہميت ۸

امر:صيغہ امر كا معنى ۹/انبياء (ع) :انكى ذمہ دراى كا دائرہ ۱; انكے جانشينوں كى ذمہ دارى كا دائرہ ۱

بنى اسرائيل:انكى تاريخ ۲، ۳، ۴; انكى گمراہى كے عوامل ۴; انكى ہدايت ۲

راہبر:اسكے جوابدہ ہونے كى اہميت ۶; ان كے رد عمل ظاہر نہ كرنے كى سرزنش ۵; انكى ذمہ دارى ۶

نافرماني:حضرت موسى (ع) كى نافرمانى ۴/لوگ:لوگوں كى ہدايت كى اہميت ۱; لوگوں كو گمراہى سے بچانا ۱

موسي(ع) :ان كے اوامر ۳، ۴; انكا قصہ ۲، ۳، ۴

ہارون(ع) :انكى شرعى ذمہ دارى ۷; انكى راہبرى ۲; انكا قصہ ۲، ۳، ۴; انكى ذمہ دارى كا دائرہ ۳; انكى ذمہ دارى ۲; انكا مقام و مرتبہ ۷; انكى نبوت ۷; انكا كردار و تاثير ۴; يہ موسي(ع) كى عدم موجودگى ميں ۲، ۳

آیت ۹۴

( قَالَ يَا ابْنَ أُمَّ لَا تَأْخُذْ بِلِحْيَتِي وَلَا بِرَأْسِي إِنِّي خَشِيتُ أَن تَقُولَ فَرَّقْتَ بَيْنَ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَلَمْ تَرْقُبْ قَوْلِي )

ہارون نے كہ كہ بھيّا آپ ميرى ڈاڑھى اور ميرا سر نہ پكڑيں مجھے تو يہ خوف تھا كہ كہيں آپ يہ نہ كہيں كہ تم نے بنى اسرائيل ميں اختلاف پيدا كرديا ہے اور ميرى بات كا انتظار نہيں كيا ہے (۹۴)

۱ _ حضرت موسى (ع) ميقات سے واپس آنے كے بعد بنى اسرائيل كى بچھڑا پرستى كو ديكھ كر سخت ناراض ہوئے_يبنئوم لا تا خذ بلحيتى و لا برأسي ہارون(ع) كا سر اور داڑھى پكڑنا بنى اسرائيل كے انحراف كے سلسلے ميں حضرت موسى (ع) كے سخت غصے كى علامت ہے _

۲ _ حضرت موسى (ع) نے حضرت ہارون(ع) كا سر اور داڑھى پكڑ كر ان سے اپنى عدم موجودگى ميں بنى اسرائيل كے بچھڑا پرست ہونے كے سلسلے ميں بازپرس كى _ياهرون ما منعك لا تأخذ بلحيتى ولا برأسي

۳ _ حضرت موسى (ع) كى نظر ميں حضرت ہارون (ع) بنى اسرائيل كے گمراہ ہونے اور ان كى بچھڑاپرستى كے مقابلے ميں ذمہ دار تھے_ياهرون ما منعك لاتأخذ بلحيتى ولا برأسي

۴ _ انحرافات اور گمراہى كو ديكھ كر غضب ناك ہونا قابل تعريف ہے _لا تأخذ بلحيتى و لا برأسي

۱۷۸

حضرت موسي(ع) كے غضب كے ماجرا كو جو انكے اپنے بھائي كا سر اور داڑھى كے بال پكڑنے ميں كى صورت ميں ظاہر ہوا انكى مذمت كے بغير نقل كرنا دينى امور ميں اس حالت كے پسنديدہ ہونے پر دلالت كرتا ہے_

۵ _ حضرت ہارون(ع) نے حضرت موسى (ع) كا غضب ديكھ كر اسے ٹھنڈا كرنے، ان كى محبت حاصل كرنے اور ان كے جذبات كو جگانے كى كوشش كى _حضرت موسى (ع) كو'' ياابن ام'' كہہ كر پكارنا اس نكتے كو بيان كررہا ہے كہ حضرت ہارون(ع) نے موسى (ع) كے جذبات كو بھڑكا كر ان كا غصہ ٹھنڈا كرنے كى كوشش كى اور اسكے بعد اپنى وضاحت پيش كي_ كلمہ ''ام'' كے مفتوح ہونے كے بارے ميں متعدد توجيہات پيش كى گئي ہيں ان ميں سے ايك يہ ہے كہ يہ اصل ميں ''يابن اماہ'' تھا اور تخفيف كى وجہ سے اس طرح ہوگيا _

۶ _ انبياء كى مختلف روشوں ميں جذبات كى تأثير _قال يبنؤم

۷ _ موسي(ع) اور ہارون(ع) دونوں مادرى بھائي تھے _*قال ياين اُمَّ

حضرت موسى (ع) كا حضرت ہارون(ع) كى طرف سے ''يابن ام'' (ماں كا بيٹا) كى تعبير كے ساتھ مخاطب قرار پانا ممكن ہے اس وجہ سے ہو كہ موسى (ع) و ہارون(ع) دونوں مادرى بھائي تھے اور يہ بھى ممكن ہے كہ كلمہ ''ماں ''كا تذكرہ صرف حضرت موسى (ع) كے احساسات اور جذبات كو جذب كرنے كيلئے ہو _

۸ _ حضرت ہارون(ع) نے بچھڑا پرستوں كے ساتھ اپنے سلوك كى علل و اسباب كى وضاحت كرنے كيلئے حضرت موسي(ع) سے مہلت طلب كى _لا تأخذ بلحيتى و لا برأسى إنّى خشيت

۹ _ ملزمين كو اپنے دفاع كا موقع دينا ضرورى ہے _لا تأخذ بلحيتى و لا برأسى إنى خشيت

۱۰ _ انبياء كا علم محدود ہے _ما منعك لا تأخذ بلحيتى إنى خشيت

۱۱ _ حضرت ہارون(ع) كى طرف سے بچھڑا پرستوں كا مقابلہ كرنے كيلئے عملى اور سنجيدہ قدم اٹھانے كى صورت ميں بنى اسرائيل كو انتشار و افتراق كا خطرہ _إنى خشيت ا ن تقول فرّقت بين بنى إسرائيل

۱۲ _ وحدت كو بچانا اور افتراق كو روكنا بنى اسرائيل كے بچھڑا پرستوں كے خلاف عملى اقدام نہ كرنے كے سلسلے ميں حضرت ہارون (ع) كا عذر _إنى خشيت ا ن تقول فرّقت بين بنى إسرائيل

۱۳ _ بنى اسرائيل كى وحدت اور يكجہتى كى حفاظت كرنا حضرت موسي(ع) كى حضرت ہارون(ع) كو ايك سفارش _فرقت بين بنى إسرائيل و لم ترقب قولي ''ترقب'' كا معنى ہے ''تحفظ'' اور ''لم ترقب''كے ''فرقّت'' پر عطف كو مد نظر ركھتے ہوئے

۱۷۹

جملہ'' انى خشيت ...'' كا معنى يہ ہے كہ ميں اس چيز سے پريشان تھا كہ مبادا آپ مجھے كہيں تو نے بنى اسرائيل كو متفرق كرديا ہے اور ميرى بات كا خيال نہيں ركھا اور حضرت ہارون(ع) كا يہ كہنا اس بات پر دلالت كرتا ہے كہ حضرت موسي(ع) نے ميقات پر جانے سے پہلے بنى اسرائيل كے اتحاد كو بچانے كے سلسلے ميں انہيں ضرورى ہدايات دے دى تھيں _

۱۴ _ معاشرے كى وحدت كى حفاظت كرنے اور اسے انتشار و افتراق سے بچانے كى مصلحت اسكے افراد كے ايك گروہ كے انحراف كے خطرے سے زيادہ ہے اگر از سر نو انكى ہدايت كا امكان باقى رھے_إنى خشيت ا ن تقول فرقت بين بنى إسرائيل حضرت ہارون (ع) نے ''حتى يرجع إلينا موسى (ع) '' كا جملہ سننے كے بعد بچھڑا پرستوں كى از سر نو ہدايت كو منتفى نہ سمجھا اور مؤمنين اور كفاركو با ہم دست و گريبان كرنے اور بنى اسرائيل كى وحدت كى حفاظت كرنے ميں سے دوسرى صورت كا انتخاب كيا حضرت موسى (ع) كى طرف سے اس انتخاب كاقبول ہونا اور قرآن كا اس پر كوئي تنقيد نہ كرنا ايسے حالات ميں ايسے موقف كے صحيح ہونے كى علامت ہے_

۱۵ _ عملى ميدان ميں تمام معياروں كى طرف توجہ كرنا، انكى درجہ بندى كرنا اور اہم و مہم كو مشخص كرنا ضرورى ہے_ما منعك إنى خشيت ا ن تقول فرقت بين بنى إسرائيل حضرت ہارون(ع) نے حضرت موسي(ع) كے فرامين پر عمل كے سلسلے ميں صرف ايك جہت كو مد نظر نہيں ركھا تھا بلكہ انہوں نے تمام معياروں كا آپس ميں مقابلہ كرنے كے بعد ايك راستے كا انتخاب كيا تھا ان كا يہ عمل سب كيلئے نمونہ ہے كہ ميدان عمل ميں صرف ايك جہت كو نظر ميں نہ ركھيں بلكہ سب جہات كو مد نظر ركھيں اور معياروں كى جانچ پڑتال كرنے كے بعد دينى احكام كو ايك مجموعہ كى صورت ميں ديكھيں _

۱۶ _ فرائض پر عمل كے سلسلے ميں ايك جہت كو مد نظر ركھنے اور جمود سے پرہيز كرنا ضرورى ہے_

ما منعك إنى خشيت ا ن تقول فرقت بين بنى إسرائيل

۱۷ _ بچھڑا پرست لوگ حضرت موسي(ع) كى عدم موجودگى ميں بنى اسرائيل كى عمومى صورتحال پر غالب تھے _

إنى خشيت ا ن تقول فرقت بين بنى إسرائيل

بنى اسرائيل كے اتحاد و يگانگت كا منظر ان كے ارتداد كے زمانے ميں ، مرتد اور بچھڑا پرستوں كى حكمرانى كو بيان كررہا ہے_

۱۸ _ حضرت ہارون (ع) حضرت موسي(ع) كى عدم موجودگى اور ان كے ميقات پر رہنے كى پورى مدت ميں ان كے فرامين كو دقيق طور پر عملى كرنا چاہتے تھے اور ان كے معياروں سے ہٹنا نہيں چاہتے تھے_إنى خشيت ا ن تقول و لم ترقب قولي

۱۹ _ حضرت ہارون(ع) كى نظر ميں حضرت موسى (ع) معاشرے كے انتشار و افتراق كے مقابلے ميں ايك حساس اور

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750