تفسير راہنما جلد ۱۱

تفسير راہنما 10%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 750

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 750 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 218981 / ڈاؤنلوڈ: 3020
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

اور جب یہود سے کہا گیا : جو کچھ خاتم الانبیا ء پر نازل کیا گیا ہے اس پرایمان لاؤ،تو انھوں نے کہا : جو کچھ ہم لوگوں پر نازل ہوا ہے ہم اس پر ایمان لائے ہیں اور جو ہم پر نازل نہیں ہوا ہے ہم اس کے منکر ہیں،جب کہ وہ جو کچھ خاتم الانبیاء پر نازل کیا گیا حق ہے اور انبیاء کی کتابوں میں موجود اخبار کی تصدیق اور اثبات کرتا ہے یعنی وہ اخبار جو بعثت خاتم الانبیاء سے متعلق ہیں اوران کے پاس ہیں،اے پیغمبر!ان سے کہہ دو! اگر تم لوگ خود کو مومن خیال کرتے ہو تو پھر کیوں اس سے پہلے آنے والے انبیاء کو قتل کر ڈالا ؟ کس طرح کہتے ہو کے جو کچھ تم پر نازل کیا گیا ہے اس پر ہم ایمان لائے ہیں جب کہ حضرت موسیٰ روشن علامتوںاور آیات کے ساتھ تمہارے پاس آئے اور تم لوگ خدا پر ایمان لانے کے بجائے گوسالہ پرست ہوگئے؟! اس وقت بھی خدا وندعالم نے جس طرح حضرت موسیٰ پر روشن آیات نازل کی تھیں اسی طرح خاتم الانبیاء محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر بھی نازل کی ہیں اور بجز کافروں کے اس کا کوئی منکر نہیں ہوگا۔

اگر یہود ایمان لے آئیں اور خدا سے خوف کھائیں یقینا خدا انھیں جزا دے گا ،لیکن کیا فائدہ کہ اہل کتاب کے کفار اور مشرکین کو یہ بات پسند نہیں ہے کہ تم مسلمانوںپر کسی قسم کی کوئی آسمانی خبر یا کتاب نازل ہو،جب کہ خدا وندعالم جسے چاہے اپنی رحمت سے مخصوص کر دے ۔

خدا وندعالم اگر کوئی حکم نسخ کرے یااسے تاخیر میں ڈالے تو اس سے بہتر یا اس کے مانند لے آتا ہے خدا ہر چیز پر قادر اور توانا ہے۔بہت سارے اہل کتاب اس وجہ سے کہ وحی الٰہی بنی اسرائیل کے علاوہ پر نازل ہوئی ہے حاسدانہ طور پر یہ چاہتے ہیں کہ تمہیں خاتم الانبیاء پر ایمان لانے کے بجائے کفر کی طرف پھیر دیںاور ایسااس حال میں ہے کہ حق ان پر روشن اور آشکار ہو چکاہے!یہ تم لوگوں سے کہتے ہیں کہ یہود اور نصاریٰ کے علاوہ کوئی جنت میں نہیں جائے گا یعنی تم لوگ اپنے اسلام کے باوجودبہشت سے محروم رہو گے؛کہو: اپنی دلیل پیش کرو !البتہ جو بھی اسلام لے آئے اور نیک اور اچھا عمل انجا م د ے اسکی جزا خدا کے یہاں محفوظ ہے اور یہود ونصاری تم سے کبھی راضی نہیں ہوں گے مگر یہ کہ تم ان کے دین کا اتباع کرو۔

اُس کے بعد یہود کومخاطب کر کے فرمایا :اے بنی اسرائیل ؛جن نعمتوں کو ہم نے تم پر نازل کیا ہے اور تم لوگوں کو تمہارے زمانے کے لوگوں پر فضیلت وبرتری دی ہے اسے یاد کرو اور روز قیامت سے ڈرو۔

اس کے بعد یہود اور پیغمبر کے درمیان نزاع ودشمنی وعداوت کا سبب اور اس کی کیفیت بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے: ہم بیت المقدس سے تحویل قبلہ کے سلسلے میں آسمان کی طرف تمہاری انتظار آمیز نگاہوں سے باخبر ہیں ابھی اس قبلہ کی طرف تمھیں لوٹا دیں گے جس سے تم راضی وخوشنود ہوجاؤگے۔

۴۱

(اے رسول! )تم جہاں کہیں بھی ہو اور تمام مسلمان اپنے رخ مسجد الحرام کی طرف موڑ لیں اہل کتاب،یہود جو تم سے دشمنی کرتے ہیں اور نصاریٰ یہ سب خوب اچھی طرح جانتے ہیں قبلہ کا کعبہ کی طرف موڑنا حق اور خدا وندکی جانب سے ہے اور تم جب بھی کوئی آیت یا دلیل پیش کرو تمہاری بات نہیں مانیں گے اور تمہارے قبلہ کی پیروی نہیں کریں گے۔

عنقریب بیوقوف کہیںگے : انھیں کونسی چیز نے سابق قبلہ بیت المقدس سے روک دیا ہے؟کہوحکم ،حکم خدا ہے مشرق و مغرب سب اسکا ہے جسے چاہتا ہے راہ راست کی ہدایت کرتا ہے، بیت المقدس کو اس کا قبلہ بنا نا اور پھر مکّہ کی طرف موڑنا لوگوں کے امتحان کی خاطر تھا مکّہ والوں کو کعبہ سے بیت المقدس کی طرف اور یہود کو مدینہ میں بیت المقدس سے کعبہ کی طرف موڑ کر امتحان کرتا ہے تا کہ ظاہر ہو جائے کہ آیایہ جاننے کے بعد بھی کہ یہ موضوع حق اور خدا وندعالم کی جانب سے ہے اپنے قومی وقبائلی اور اسرائیلی تعصب سے باز آتے ہیں یا نہیں اور بیت المقدس سے کعبہ کی طرف رخ کرتے ہیں یا نہیں اوراس گروہ کا امتحان اس وجہ سے ہوا تاکہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ماننے والے ان لوگوں سے جو جاہلیت کی طرف پھرجائیں گے مشخص اور ممتاز ہوجائیں ،انکی نمازیں جو اس سے قبل بیت المقدس کی طرف پڑھی ہیں خدا کے نزدیک برباد نہیں ہوں گی۔

اس طرح واضح ہوجاتا ہے کہ تبدیلی آیت سے مراد ،جس کا ذکر سورۂ نحل کی مکی آیات میں قریش کی نزاع اور اختلاف کے ذکر کے تحت آیا ہے، خدا کی جانب سے ایک حکم کا دوسرے حکم سے تبدیل ہوناہے، اس نزاع کی تفصیل سورۂ انعام کی ۱۳۸تا۱۴۶ویں آیات میں آئی ہے۔

اور یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ (یہود مدینہ کی داستان میں ) نسخ آیت اور اس کی مدت کے خاتمہ سے مقصود و مراد موسیٰ کی شریعت میں نسخ حکم یا ایک خاص شریعت کی مدت کا ختم ہونا ہے ( اس حکمت کی بنا ء پر جسے خدا جانتا ہے)

راغب اصفہانی نے لفظ (آیت) کی تفسیر میں صحیح راستہ اختیار کیاہے وہ فرماتے ہیں :کوئی بھی جملہ جو کسی حکم پر دلالت کرتا ہے آیت ہے، چاہے وہ ایک کامل سورہ ہو یا ایک سورہ کا بعض حصّہ ( سورہ میں آیت کے معنی کے اعتبار سے)یااس کے چند حصّے ہوں ۔

لہٰذا مذکورہ دوآیتوں میں ایک آیت کودوسری آیت سے تبدیل کرنے اور آیت کے نسخ اور اس کے تاخیر میں ڈالنے سے مراد یہی ہے کہ جس کا تذ کرہ ہم نے کیا ہے ، اب آئندہ بحث میں حضرت موسیٰ کی شریعت میں نسخ کی حیثیت اور اس کی حکمت ( خدا کی اجازت اور توفیق سے ) تحقیق کے ساتھ بیان کریں گے۔

۴۲

۴

حضرت موسیٰ ـ کی شریعت بنی اسرائیل سے مخصوص ہے

حضرت موسیٰ کی شریعت جس کا تذکرہ توریت میں آیا ہے بنی اسرائیل سے مخصوص ہے ،جیسا کہ سفرتثنیہ کے ۳۳ ویں باب کے چوتھے حصّہ میں آیا ہے:

''موسیٰ نے ہم کو ایک ایسی سنت کا حکم دیا ہے جو کہ جما عت یعقوب کی میراث ہے''

یعنی موسیٰ نے ہمیں ایک ایسی شریعت کا حکم دیا ہے جو کہ جماعت یعقوب یعنی بنی اسرائیل سے مخصوص ہے ،گزشتہ آیات میں بھی اس خصوصیت کا ذکر ہوا ہے ،آئندہ بحث میں انشاء ﷲ امر نسخ کی بسط وتفصیل کے ساتھ تحقیق و بررسی کریں گے۔

حضرت موسیٰ ـکی شریعت میں نسخ کی حقیقت

اس بحث میں ہم سب سے پہلے قرآن سے( زمانے کے تسلسل کا لحاظ کر تے ہو ئے )بنی اسرائیل کی داستان کا آغا ز کر یں گے، پھر ان کی شریعت میں نسخ کے مسئلہ کو بیان کریں گے ۔

۴۳

اوّل:بنی اسرائیل کو نعمت خدا وندی کی یاد دہانی

۱۔خدا وندعالم سورۂ بقرہ میں ارشاد فرماتا ہے:( یا بنی اسرائیل أذکر وانعمتی التی أنعمت علیکم و أنی فضّلتکم علی العالمین..و اِذ نجّینا کم من آل فرعون یسومو نکم سوء العذاب یذ بحون أبناء کم و یستحیون نساء کم و فی ذلکم بلاء من ربکم عظیم) (و أذفرقنا بکم البحر فانجیناکم وأغرقنا آل فرعون و ٔنتم تنظرون و أذ واعدناموسیٰ أربعین لیلة ثم ٔاتخذتم العجل من بعده و أنتم ظالمون ) ( ۱ )

اے بنی اسرائیل! جو نعمتیںہم نے تم پر نازل کی ہیں انھیں یاد کرو اور یہ کہ ہم نے تم کو عالمین پر برتری اور فضیلت دی ہے...اورجب ہم نے تم کو فرعونیوں کے خونخوارچنگل سے آزادی دلائی وہ لوگ تمہیں بری طرح شکنجہ میں ڈالے ہوئے تھے تمہارے فرزندوں کے سر اڑا دیتے اور تمہاری عورتوں کوزندہ رکھتے تھے اس میں تمہارے لئے تمہارے رب کی طرف سے عظیم امتحان تھا اور جب ہم نے تمہارے لئے دریا کو شگاف کیا اور تمھیں نجات دی اور فرعونیوں کوغرق کر ڈالا ،درانحالیکہ یہ سب کچھ تم اپنی آنکھوںسے دیکھ رہے تھے اور جب موسیٰ کے ساتھ چالیس شب کا وعدہ کیا پھر تم لوگوں نے اس کے بعد گو سالہ کا انتخاب کیا جب کہ تم لوگ ظالم وستم گر تھے۔

۲۔سورۂ اعراف میں ارشاد فرماتا ہے:( وجاوزنا ببنی اسرائیل البحر فاتوا علی قوم یعکفون علیٰ أصنام لهم قالوا یا موسیٰ اجعل لنا اِلٰهاً کما لهم آلهة قال انکم قوم تجهلون ) ( ۲ )

اور ہم نے بنی اسرائیل کو دریا سے پار کرایا راستے میں ایسے گروہ سے ملاقات ہوئی جو خضوع خشوع کے ساتھ اپنے بتوں کے ارد گرد اکٹھا تھے، تو ان لوگوں نے کہا : اے موسیٰ !ہمارے لئے بھی ان کے خداؤں کے مانند کوئی خدا بنا دو ،انہوں نے فرمایا:سچ ہے تم لوگ ایک نادان اور جاہل قوم ہو۔

۳۔ سورۂ طہ میں ارشاد ہوتا ہے:( و اضلّهم السامری فکذٰلک القی السّامریفاخرج لهم عجلًا جسداً له خوار فقالو هذا اِلهکم واِلٰه موسیٰ و لقد قال لهم هارو ن من قبل یا قوم اِنّما فتنتم به و اِنَّ ربّکم الرحمن فا تبعونی وأَطیعوا أَمریقالو لن نبرح علیه عاکفین حتّیٰ یرجع اِلینا موسیٰ )

اورسامری نے انھیں گمراہ کر دیا ...اور سامری نے اس طرح ان کے اندر القاء کیا اور ان کے لئے گوسالہ کا ایسا مجسمہ جس میں سے گو سالہ کی آواز آتی تھی بنادیا تو ان سب نے کہا :یہ تمہارا اورموسیٰ کا خداہے... اور اس سے پہلے ہارون نے ان سے کہا : اے میری قوم والو! تم لوگ اس کی وجہ سے امتحان میں مبتلا ہو گئے ہو ، تمہارا رب خدا وند رحمان ہے میری پیروی کرو اور میرے حکم و فرمان کی اطاعت کرو ، کہنے لگے :

____________________

(۱)بقرہ۴۷،۴۹،۵۰،۵۱(۲) اعراف۱۳۸

۴۴

ہم اسی طرح اس کے پابند ہیں یہاں تک کہ موسیٰ ہماری طرف لوٹ کر آ جائیں۔( ۱ )

۴۔ سورۂ بقرہ میں ارشاد ہوا :

( واِذْ قال موسیٰ لقومه یا قوم أنّکم ظلمتم انفسکم باتّخاذکم العجل فتو بوا ألی بارئکم فاقتلوا أنفسکم ذلکم خیر لکم عند بارئکم فتاب علیکم أنّه هو التوّاب الرّحیم ) ( ۲ )

اُس وقت کو یاد کرو جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا : اے میری قوم !تم نے گوسا لہ کا انتخاب کر کے اپنے اوپر ظلم کیا ہے لہٰذا تو بہ کرو اور اپنے خالق کی طرف لوٹ آؤ اور اپنے نفسوں کو قتل کر ڈالو کیونکہ یہ کام تمہارے ربّ کے نزدیک بہتر ہے پھر خدا وند عالم نے تمہاری توبہ قبول کی بیشک وہ توبہ قبول کرنے والا اور مہر بان ہے۔

دوم : توریت اور اس کے بعض احکام :

۱۔ خدا وند عالم سورہ ٔ بقرہ میں فرماتا ہے :

( واِذ أخذنا میثاقکم و رفعنا فوقکم الطّور خذوا ما آتینا کم بقوّة و اذ کروا ما فیه لعلّکم تتقون ) ( ۳ )

اس وقت کو یاد کرو جب ہم نے تم سے عہد و پیمان لیا اور کوہِ طور کو تمہارے او پر قرار دیا ( اور تم سے کہا) جو کچھ ہم نے تم کو دیا ہے ا سے محکم طریقے سے پکڑ لو اور جو کچھ اس میں ہے اسے یاد رکھو شاید پرہیز گار ہو جاؤ۔

۲۔ سورۂ اسراء میں ارشاد ہوتا ہے:

( وآتینا موسیٰ الکتاب وجعلناه هُدیً لبنی اسرائیل.. ) .)( ۴ )

اورہم نے موسیٰ کو آسمانی کتاب عطا کی اوراسے بنی اسرائیل کی ہدایت کا وسیلہ قرار دیا ۔

۳۔سورۂ آل عمران میں ارشاد ہوتا ہے:

( کلّ الطعام کان حلًا لبنی اسرائیل اِلّا ما حرم اسرائیل علیٰ نفسه من قبل أن تنزّل التوراة... ) ( ۵ )

کھانے کی تمام چیزیں بنی اسرائیل کے لئے حلال تھیں جزان اشیاء کے جنہیںخوداسرائیل (یعقوب)

____________________

(۱)طہ ۸۵ ،۹۱ .(۲)بقرہ ۵۴ (۳)بقرہ ۶۳،اس مضمون سے ملتی جلتی آیتیں سورہ بقرہ کی ۹۳ ویں آیت اور سورئہ اعراف کی ۱۷۱ویں آیت میں بھی آئی ہیں )

(۴)اسرائ۲ (۵)آل عمران ۹۳

۴۵

نے توریت کے نزول سے پہلے اپنے اوپر حرام کرلیا تھا۔

۴۔ سورۂ انعام میں فرمایا :

( و ماعلی الذین هادوا حرّمنا کلّ ذی ظفر من البقر و الغنم حرّمنا علیهم شحومهما الا ماحملت ظهور هما أو الحوایا أو ما اختلط بعظم ذلک جزیناهم ببغیهم و انّا لصاد قون ) ( ۱ )

یہودیوں پر ہم نے تمام ناخن دار حیو ا نوں کو حرام کیا ، گائے اورگوسفند سے ا ن کی چربی ان پر حرام کی جزاس چربی کے جو ان کی پشت پر ہو یا جو پہلو میں ہو یا جو ہڈیوں سے متصل اورمخلوط ہو یہ ان کی بغاوت و سرکشی کا نتیجہ ہے کہ ہم نے انھیں اور سزا کا مستحق قرار دیا اور ہم سچ کہتے ہیں۔

۵۔ سورۂ نحل میں ارشاد ہوتا ہے:

( و علٰی الذین هادوا حرّمنا ما قصصنا علیک من قبل و ما ظلمنا هم و لکن کانوا أنفسهم یظلمون ) ( ۲ )

اورہم نے جن چیزوں کی اس سے پہلے تمہارئے لئے تفصیل بیان کی ہے ،ان چیزوں کویہود پر حرام کیا؛ ہم نے ان پر ظلم و ستم نہیں کیا ،بلکہ ان لوگوں نے خود اپنے نفوس پر ظلم کیا ہے۔

۶۔سورۂ نساء میں ارشاد ہوتا ہے:

( یَسَْلُکَ َهْلُ الْکِتَابِ َنْ تُنَزِّلَ عَلَیْهِمْ کِتَابًا مِنْ السَّمَائِ فَقَدْ سََلُوا مُوسَی َکْبَرَ مِنْ ذَلِکَ فَقَالُوا َرِنَا ﷲ جَهْرَةً فَعَفَوْنَا عَنْ ذَلِکَ... (۱۵۳) وَرَفَعْنَا فَوْقَهُمْ الطُّورَ بِمِیثَاقِهِم.... وَقُلْنَا لَهُمْ لاَتَعْدُوا فِی السَّبْتِ وََخَذْنَا مِنْهُمْ مِیثَاقًا غَلِیظًا (۱۵۴) فَبِمَا نَقْضِهِمْ مِیثَاقَهُمْ وَکُفْرِهِمْ بِآیَاتِ ﷲ وَقَتْلِهِمْ الَْنْبِیَائَ (۱۵۵) وَبِکُفْرِهِمْ وَقَوْلِهِمْ عَلَی مَرْیَمَ بُهْتَانًا عَظِیمًا (۱۵۶) فَبِظُلْمٍ مِنْ الَّذِینَ هَادُوا حَرَّمْنَا عَلَیْهِمْ طَیِّبَاتٍ ُحِلَّتْ لَهُمْ وَبِصَدِّهِمْ عَنْ سَبِیلِ ﷲ کَثِیرًا (۱۶۰) وََخْذِهِمْ الرِّبَا وَقَدْ نُهُوا عَنْهُ وََکْلِهِمْ َمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ.... ) ( ۳ )

اہل کتاب تم سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ان پر آسمان سے کوئی کتاب نازل کرو ؛ انھوں نے توحضرت موسیٰ سے اس سے بھی بڑی چیز کی خواہش کی تھی اور کہا تھا : خدا کو واضح اور آشکار طور سے ہمیں دکھا ؤ لیکن ہم نے انھیں در گزر کر دیا ...اور ہم نے ان کے عہد کی خلاف ورزی کی بنا پر ان کے سروں پر کوہ طور کو بلند کردیا

____________________

(۱)انعام ۱۴۶(۲)نحل ۱۱۸

(۳)نسائ۱۵۴۱۵۳ ۱۵۶۱۵۵ ۱۶۱۱۶۰.

۴۶

اوران سے کہا :سنیچر کے دن تجاوز اور تعدی نہ کرو اوران سے محکم عہد و پیمان لیا ،ان کی پیمان شکنی ،آیات خداوندی کا انکار ،پیغمبروں کے قتل اور ان کے کفر کی وجہ سے نیزاس عظیم تہمت کی وجہ سے جو حضرت مریم پر لگائی، نیزاس ظلم کی وجہ سے جو یہود سے صادر ہوا اور بہت سارے لوگوں کو راہ راست سے روکنے کی وجہ سے بعض پاکیزہ چیزوں کو جو ان پرحلال تھیںان کے لئے ہم نے حرام کر دیا اور ربا اور سود خوری کی وجہ سے جب کہ اس سے ممانعت کی گئی تھی اور لوگوں کے اموال کو باطل انداز سے خرد برد کرنے کی بنا پر ۔

۷۔ سورۂ اعراف میں ارشاد ہوتا ہے:

( و سئلهم عن القرية التی کانت حاضرة البحراذ یعدون فی السبت اِذ تأ تیهم حیتانهم یوم سبتهم شُرّعاً ویوما لایسبتون لاتاتیهم کذٰلک نبلوهم بما کانوایفسقون ) ( ۱ )

دریا کے ساحل پر واقع ایک شہر کے بارے میں ان سے سوال کرو ؛ جب کہ سنیچر کے دن تجاوزکرتے تھے،اس وقت سنیچر کو دریا کی مچھلیاں ان پر ظاہر ہو جاتی تھیں اوراس کے علاوہ دوسرے دنوںمیں اس طرح ظاہر نہیں ہو تی تھیں ، اس طرح سے ہم نے ان کا اس چیز سے امتحان لیا جس کے نتیجہ میں وہ نافرمانی کرتے تھے ۔

۸۔ سورۂ نحل میں ارشاد ہو تا ہے:

( انّما جعل السبت علی الذین اختلفو فیه ) ( ۲ )

سنیچر کا دن صرف اور صرف ان کے مجازات اور سزا کے عنوان سے تھاان لوگوں کے لئے جو اس میں اختلاف کرتے تھے۔

سوم:خدا وند عالم کی بنی اسرائیل پر نعمتیں اور ان کی سرکشی و نا فرمانی

۱۔خدا وند عالم سورۂ اعراف میں ارشاد فرماتا ہے:

( وَقَطَّعْنَاهُمْ اثْنَتَیْ عَشْرَةَ َسْبَاطًا ُمَمًا وََوْحَیْنَا ِلَی مُوسَی ِذْ اسْتَسْقَاهُ قَوْمُهُ َنْ اضْرِب بِعَصَاکَ الْحَجَرَ فَانْبَجَسَتْ مِنْهُ اثْنَتَا عَشْرَةَ عَیْنًا قَدْ عَلِمَ کُلُّ ُنَاسٍ مَشْرَبَهُمْ وَظَلَّلْنَا عَلَیْهِمْ الْغَمَامَ وََنزَلْنَا عَلَیْهِمْ الْمَنَّ وَالسَّلْوَی کُلُوا مِنْ طَیِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاکُمْ وَمَا ظَلَمُونَا وَلَکِنْ کَانُوا َنفُسَهُمْ یَظْلِمُونَ (۱۶۰) وَِذْ قِیلَ لَهُمْ اسْکُنُوا هَذِهِ الْقَرْیَةَ وَکُلُوا مِنْهَا حَیْثُ شِئْتُمْ وَقُولُوا حِطَّة

____________________

(۱)اعراف ۱۶۳۔بقرہ ۶۵۔ نساء ۴۸، ۱۵۴.(۲)نحل ۱۲۴

۴۷

وَادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا نَغْفِرْ لَکُمْ خَطِیئَاتِکُمْ سَنَزِیدُ الْمُحْسِنِینَ (۱۶۱) فَبَدَّلَ الَّذِینَ ظَلَمُوا مِنْهُمْ قَوْلًا غَیْرَ الَّذِی قِیلَ لَهُمْ فَاَرْسَلْنَا عَلَیْهِمْ رِجْزًا مِنْ السَّمَائِ بِمَا کَانُوا یَظْلِمُونَ ) ( ۱ )

اورہم نے بنی اسرائیل کو ایک نسل کے بارہ قبیلوں میں تقسیم کر دیا اور جب موسیٰ کی قوم نے ان سے پانی طلب کیا تو ان کو ہم نے وحی کی : اپنے عصا کو پتھر پر مارو! اچا نک اس سے بارہ چشمے پھوٹ پڑے اس طرح سے کہ ہر گروہ اپنے گھاٹ کو پہچانتا تھا اور بادل کوان پر سائبان۔قرار دیا اوران کے لئے من وسلویٰ بھیجا( اور ہم نے کہا) جو تمھیں پاکیزہ رزق دیا ہے اسے کھاؤ انھوں نے ہم پر ستم نہیں کیا ہے بلکہ خود پر ستم کیاہے اور جس وقت ان سے کہا گیا : اس شہر (بیت المقدس ) میں سکونت اختیار کرو اور جہاں سے چاہو وہاں سے کھاؤ اور کہو: خدایا ہمارے گناہوں کو بخش دے! اوراس در سے تواضع و انکساری کے ساتھ داخل ہو جاؤتا کہ تمہارے گناہوں کو ہم بخش دیں اور نیکو کاروں کو اس سے بڑھ کر جزا دیں،لیکن ان ستمگروں نے جوان سے کہا گیا تھا اس کے علاوہ بات کہی یعنی اس میں تبدیلی کردی اور ہم نے اس وجہ سے کہ وہ مسلسل ظالم و ستمگر رہے ہیںان کے لئے آسمان سے بلا نازل کردی ہے۔

۱۔سورۂ مائدہ میں ارشاد فرمایا:

( وَاِذْ قَالَ مُوسَی لِقَوْمِهِ یَاقَوْمِ اذْکُرُوا نِعْمَةَ ﷲ عَلَیْکُمْ ِذْ جَعَلَ فِیکُمْ َنْبِیَائَ وَجَعَلَکُمْ مُلُوکًا وَآتَاکُمْ مَا لَمْ یُؤْتِ َحَدًا مِنْ الْعَالَمِینَ (۲۰) یَاقَوْمِ ادْخُلُوا الَْرْضَ الْمُقَدَّسَةَ الَّتِی کَتَبَ ﷲ لَکُمْ وَلاَتَرْتَدُّوا عَلَی َدْبَارِکُمْ فَتَنْقَلِبُوا خَاسِرِینَ (۲۱) قَالُوا یَامُوسَی ِنَّ فِیهَا قَوْمًا جَبَّارِینَ وَِنَّا لَنْ نَدْخُلَهَا حَتَّی یَخْرُجُوا مِنْهَا فَِنْ یَخْرُجُوا مِنْهَا فَِنَّا دَاخِلُونَ (۲۲) قَالَ رَجُلاَنِ مِنْ الَّذِینَ یَخَافُونَ َنْعَمَ ﷲ عَلَیْهِمَا ادْخُلُوا عَلَیْهِمْ الْبَابَ فَِذَا دَخَلْتُمُوهُ فَِنَّکُمْ غَالِبُونَ وَعَلَی ﷲ فَتَوَکَّلُوا ِنْ کُنتُمْ مُؤْمِنِینَ (۲۳) قَالُوا یَامُوسَی ِنَّا لَنْ نَدْخُلَهَا َبَدًا مَا دَامُوا فِیهَا فَاذْهَبْ َنْتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلاَِنَّا هَاهُنَا قَاعِدُونَ (۲۴) قَالَ رَبِّ ِنِّی لاََمْلِکُ ِلاَّ نَفْسِی وََخِی فَافْرُقْ بَیْنَنَا وَبَیْنَ الْقَوْمِ الْفَاسِقِینَ (۲۵) قَالَ فَِنَّهَا مُحَرَّمَة عَلَیْهِمْ َرْبَعِینَ سَنَةً یَتِیهُونَ فِی الْاَرْضِ فَلاَتَْسَ عَلَی الْقَوْمِ الْفَاسِقِینَ )

اور جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا : اے میری قوم! اپنے اوپرﷲ کی نعمتوں کو یاد کرو، جبکہ اس نے تمہارے درمیان پیغمبروں کو بھیجا اور تمھیں حاکم بنایا اور تمہیں ایسی چیزیں عطا کیں کہ دنیا والوں میں کسی کو

____________________

(۱)اعراف ۱۶۰، ۱۶۲

۴۸

ویسی نہیں دی ہیں، اے میری قوم! مقدس سر زمین میں جسے خدا وند عالم نے تمہارے لئے مقر ر کیا ہے داخل ہو جاؤ اور الٹے پاؤں واپس نہ ہونا ورنہ نقصان اٹھانے والوں میں ہوگے ،ان لوگوں نے کہا: اے موسیٰ ! وہاں ستمگر لوگ رہتے ہیں، ہم وہاں ہر گز نہیں جائیں گے جب تک کہ وہ وہاں سے نکل نہیں جاتے اگر وہ لوگ وہاں سے نکل جائیں تو ہم داخل ہو جائیں گے ، خدا ترس دومردوں نے جن پر خدا نے نعمت نازل کی تھی کہا:تم لوگ ان کے پاس شہر کے دروازہ سے داخل ہو جاؤ اگر تم دروازہ میں داخل ہوگئے تو یقیناً ان پر کامیاب ہو جاؤ گے اورا گرایمان رکھتے ہو تو خدا پر بھروسہ کرو ، ان لوگوں نے کہا: اے موسیٰ ! وہ لوگ جب تک وہاں ہیں ہم لوگ ہرگز داخل نہیں ہوں گے ! تم اور تمہارا رب جائے اوران سے جنگ کرے ہم یہیں پر بیٹھے ہوئے ہیں، کہا: پروردگارا! میں صرف اپنا اور اپنے بھائی کا ذمہ دار ہوں، میرے اور اس گنا ہ گار جماعت کے درمیان جدائی کر دے،فرمایا :یہ سرزمین ان کے لئے چالیس سال تک کے لئے ممنوع ہے وہ لوگ ہمیشہ سرگرداںاور پریشان رہیں گے اور تم اس گناہ گار قوم پر غمگین مت ہو۔( ۱ )

کلمات کی تشریح

۱۔''اسرائیل'': یعقوب،آپ ابراہیم خلیل ﷲ کے فرزند حضرت اسحق کے بیٹے ہیں،ان کا لقب اسرائیل ہے بنی اسرائیل ان ہی کی نسل ہے جوان کے بارہ بیٹوں سے ہے۔

۲۔'' یسومونکم'': تمکو عذاب دیتے تھے، رسوا کن عذاب ۔

۳۔''یستحیون'': زندہ رکھتے تھے۔

۴۔''یعکفون'': خاضعانہ طور پر عبادت کرتے تھے، پابندتھے ۔

۵۔''خوار'' : گائے اور بھیڑ کی آواز ۔

۶ ۔''لن نبرح'': ہم ہرگز جدا نہیں ہوں گے، آگے نہ بڑھیں گے ۔

۷۔''فتنتم'':تمھارا امتحان لیا گیا، آزمائش خدا وندی ، بندوں کے امتحان کے لئے ہے اور ابلیس اور لوگوں کا فتنہ ، گمراہی اور زحمت میں ڈالنے کے معنی میں ہے، خدا وند عالم نے لوگوں کو فتنہ ابلیس سے خبردار کیا ہے اور فرمایا ہے:

____________________

(۱) مائدہ۲۰، ۲۶

۴۹

( یا بنی آدم لا یفتنّنکم الشیطان )

اے آدم کے بیٹو!کہیں شیطان تمھیں فتنہ اور فریب میں مبتلا نہ کرے: اور لوگوں کے فتنہ کے بارے میں فرمایا:

( اِنّ الذّین فتنوا المومنین و المومنات ثّم لم یتوبوا فلهم عذاب جهنم و لهم عذاب الحریق )

بیشک جن لوگوں نے با ایمان مردوں اور عورتوں کو زحمتوں میں مبتلا کیا ہے پھر انھوں نے توبہ نہیں کی ان کیلئے جہنم کا عذاب اور جھلسا دینے والی آگ کا عذاب ہے۔

۸۔'' باری'': خالق اور ہستی عطا کرنے والا

۹۔ ''أسباطاً'' : اسباط یہاں پر قبیلہ اور خاندان کے معنی میں ہے۔

۱۰۔''فا نبجست'': ابلنے لگا ، پھوٹ پڑا ۔

۱۱۔''المن والسلوی''ٰ:المن؛جامد شہد کے مانند چپکنے والی اور شیریں ایک چیز ہے اور السلوی ؛ بٹیر،ایساپرندہ جس کا شمار بحر ابیض کے پرندوں میں ہوتا ہے ، جو موسم سرما میں مصر اور سوڈان کی طرف ہجرت اختیار کرتا ہے۔

۱۲۔''حِطّة'': ہمارے گناہ کو جھاڑ دے،دھو دے، ہمارے بوجھ کو ہلکا کردے۔

۱۳۔''رفعنا'': ہم نے بلند کیا ، رفعت عطا کی۔

۱۴۔''میثاقکم'': تمہارا عہد و پیمان ، میثاق : ایسا عہد وپیمان جس کی تاکید کی گئی ہو، عہد وپیمان کا پابند ہونا۔

۱۵۔''رجز'': عذاب ، رجز الشیطان... اس کا وسوسہ۔

۱۶۔''یتیھون'': حیران و پریشان ہوتے ہیں ،راستہ بھول جاتے ہیں۔

۱۷۔''لا تأس'': غمز دہ نہ ہو، افسوس نہ کرو۔

۱۸۔''لا تعدوا'': تجاوز نہ کرو ،ظلم وستم نہ کرو۔

۱۹۔''میثاقاً غلیظاً'': محکم و مظبوط عہد و پیمان ۔

۲۰۔''الحوایا'': آنتیں

۲۱۔''شرعًّا'': آشکار اور نزدیک۔

۲۲۔جعل لھم: ان کے لئیقانون گزاری کی، قانون مقرر و معین کیا۔

۵۰

آیات کی تفسیر

خدا وند عالم نے گزشتہ آیات میں بنی اسرائیل سے فرما یا :اُن نعمتوںکو یاد کرو جو ہم نے تمہیں دی ہیں اور تمہارے درمیان پیغمبروں اور حکّام کو قرار دیا نیز من وسلویٰ جیسی نعمت جو کہ دنیا میں کسی کو نہیں د ی ہے تمہیںدی ، خدا وند سبحان نے انھیں فرعون کی غلامی، اولاد کے قتل اور عورتوں کو کنیزی میں زندہ رکھنے کی ذلت سے نجات دی،فرعون اور اس کے ساتھیوں کو غرق کر دیا اور انہیں دریا سے عبور کرا دیا، اس کے باوجود جب انھوں نے دیکھا کہ کچھ لوگ بتوں کی عبادت اورپوجا میں مشغول ہیں ، تو موسیٰ سے کہا : ہمارے لئے بھی انہی کے مشابہ اور مانند خدا بنادو تاکہ ہم اس کی عبادت اور پرستش کریں ! اور جب حضرت موسیٰ کوہِ طور پر توریت لینے گئے تو یہ لوگ گوسالہ پرستی کرنے لگے اور جب موسیٰ نے انھیں حکم دیا کہ اس مقدس سر زمین میں داخل ہو جائیںجو خدا نے ان کے لئے مقرر کی ہے تو ان لوگوں نے کہا : اے موسیٰ ! وہاں ظالم اور قدرت مند گروہ (عمالقہ )ہے جب تک وہ لوگ وہاں سے خارج نہیں ہوں گے ہم وہاں داخل نہیں ہوسکتے''یشوع'' یا ''یسع'' اور ان کی دوسری فرد نے ان سے کہا : شہر میں داخل ہو جاؤ بہت جلدی کا میاب ہو جاؤ گے،تو انھوں نے سر کشی اور نا فرمانی کی اور بولے:اے موسیٰ تم اور تمہارا رب جائے اور عمالقہ سے جنگ کرے ہم یہیں بیٹھے ہوئے ہیں! موسیٰ نے کہا : پروردگارا ! میں صرف اپنے اور اپنے بھا ئی کا مالک و مختار ہوں میرے اور اس گناہ گار قوم کے درمیان جدائی کردے! خداوند سبحان نے فرمایا : یہ مقدس اور پاکیزہ سر زمین ان لوگوں پرچالیس سال تک کے لئے حرام کر دی گئی ہے اتنی مدت یہ لوگ سینا نامی صحرا میں حیران و سرگرداں پھر تے رہیں گے تم ان گناہ گاروں کی خاطر غمگین نہ ہو۔

خدا وندعالم ان لوگوں کے بارے میں سورۂ اعراف میں فرماتا ہے : بنی اسرائیل کو بارہ خاندان اور قبیلوں میں تقسیم کیا اورانہوں نے جب موسیٰ سے پانی طلب کیا تو ہم نے موسی پر وحی کی کہ اپنا عصا پتھر پر مارو، اُس سے بارہ چشمے پھوٹ پڑ ے ہر قبیلہ کے لئے ایک چشمہ، نیزبادل کو ان کے سروں پر سایہ فگن کر دیا تاکہ خورشید کی حرارت وگرمی سے محفوظ رہیں ،شہد کے مانند شرینی اور پرندہ کا گوشت ان کے کھانے کے لئے فراہم کیا، پھر کچھ مسافت طے کرنے کے بعدان سے کہا گیا : اس شہر میں جو کہ تمہارے رو برو ہے سکونت اختیار کرو اور اس کے محصولات سے کھاؤ

۵۱

اور شہر کے دروازے سے داخل ہوتے وقت خدا کا شکر ادا کرو اور اس کا سجدہ ادا کرتے ہوئے کہو !''حطة'' یعنی خدا وندا ! ہمارے گناہوں کو بخش دے ستمگروں نے اس لفظ کو بدل ڈا لا اور ''حطة''کے بجائے''حنطة''کہنے لگے ،( ۱ ) یعنی ہم گندم ( گیہوں ) کے سراغ میں ہیں! خداوندعالم نے ان کے اس اعمال کے سبب آسمان سے عذاب نازل فرمایا۔

خدا وند عالم نے سورۂ نساء میں فرمایا: اے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ! تم سے اہل کتاب کی خوا ہش ہے کہ تم کوئی کتاب ان کے لئے آسمان سے نازل کرو،یہ لوگ تو اس سے پہلے بھی اس سے عظیم چیز کا حضرت موسیٰ سے مطالبہ کرچکے ہیں کہ خدا کو ہمیں آشکار اور کھلم کھلا دکھلادو تا کہ ہم اسے اپنی آنکھوں سے دیکھیں ! ہم نے ان کے گناہوں کو معاف کیااور کوِہ طور کو ان کے اوپر جگہ دی۔

اسرائیل(یعقوب) کی پسندیدہ اور مرغو ب ترین غذا دودھ ا وراونٹ کا گوشت تھی ، یعقوب ایک طرح کی بیماری میں مبتلا ہوئے اورخدا نے انھیں شفا بخشی ،تو انھوں نے بھی خدا وند عالم کے شکرانے کے طور پر محبوب ترین کھانے اور پینے کی چیزوں کو جیسے دودھ اور اونٹ کا گوشت وغیرہ کو اپنے اوپر حرام کر لیا اور اسی طرح انھوں نے جگر اور گردے کی مخصوص چربی نیز دیگر چربی کو بھی اپنے اوپر حرام کر لیا کیونکہ اس چربی کو ماضی میں قر بانی کے لئے لے جاتے تھے اور آگ اسے کھا جاتی تھی ۔( ۲ )

قوم یہود کا خدا سے جو عہد وپیمان تھا منجملہ ان کے ایک یہ تھا کہ جن کے مبعوث ہونے کی موسیٰ ابن عمران نے بشارت دی ہے یعنی حضرت عیسیٰ اور حضرت خاتم الا نبیاء محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بعثت،ان پر ایمان لائیں، اس بشارت کو اس سے پہلے ہم نے توریت کے سفر تثنیہ سے نقل کیا ہے۔

احکام کے بارے میں بھی انھوں نے عہد وپیمان کیا کہ شنبہ یعنی سنیچر کے دن تجاوز نہیں کریںگے ( کام کاج چھوڑ دیں گے ) خدا نے اس سلسلے میں محکم اور مضبوط عہد وپیمان لیا تھا،ان لوگوں نے خدا سے کئے ہوئے عہد وپیمان کو توڑ ڈالا اورآیات خدا وندی کا انکار کر گئے اور پاک وپاکیزہ خاتون مریم پر عظیم بہتان

____________________

(۱)آیت کی تفسیر کے ذیل میں بحارالا نوار اور مجمع البیان میں اسی طرح مذکور ہے

(۲ ) سیرئہ ابن ہشام ،طبع حجازی قاہرہ ، ج۲ ، ص ۱۶۸ ،۱۶۹ جو کچھ ہم نے متن میں ذکر کیا ہے تفسیر طبری اور سیوطی سے ماخوذ ہے میرے خیال میں جو کچھ سیرئہ ہشام میں ہے وہ متن میں مذکور عبارت سے زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے

۵۲

باندھا اور زبر دست الزام لگایا اسی لئے تو خدا وند عالم نے تادیب کے عنوان سے بہت سی پاکیزہ چیزوں کو جو ان پر حلال تھیں حرام کردیا اورجب وہ لوگ گوسالہ پرستی کرنے لگے تو انھیں حکم دیا کہ وہ اپنے آپ کو قتل کریں یعنی جس نے بھی گوسالہ پر ایمان نہیں رکھا گوسالہ پرستوں قتل کرے اسی طرح جب یہ لوگ خدا پر ایمان لانے سے مانع ہوئے اور سود کا معاملہ کرنے لگے اور سود کھانے لگے ، باوجود یکہ سود (ربا ) سے انھیں منع کیا گیا تھا تواُن پر حلال اورپاکیزہ چیزیں بھی حرام کردی گئیں۔

ان کی دوسری مخالفت اس پیمان کا توڑنا تھا جو انھوں نے خدا سے کیا تھا کہ شنبہ کے دن مچھلی کا شکار نہیں کریںگے اوراس کے لئے انھیں سخت تاکید کی گئی تھی ،سنیچر کے دن مچھلیاںساحل کے کنارے سطح آب پر آجاتی تھیں لیکن دیگر ایام میں ایسا نہیں کرتی تھیں اور یہ ان کا مخصوص امتحان تھا سنیچر کے دن چھٹی کرنا صرف اور صرف بنی اسرائیل سے مخصوص تھا ،وہی لوگ کہ جنھوں نے اس کے بارے میں اختلاف کیا، اس امتحان میں گرفتار ہوئے۔

خدا وندعالم سورۂ نساء میں فرماتا ہے:

اہل کتاب یہودی تم سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ان کے لئے آسمان سے کوئی کتاب نازل کرو،یہ لوگ تو اس سے پہلے بھی اس سے عظیم چیز کا حضرت موسیٰ سے مطالبہ کر چکے ہیںکہ خدا کو ہمیں آشکار اور کھلم کھلا دکھاؤ تا کہ ہم اسے اپنی آنکھوں سے دیکھیں ! ہم نے ان کے گنا ہوں کو معاف کیااور کوِہ طور کوان کے سروں پر لٹکادیا اوران سے سخت اور محکم عہد و پیمان لیا کہ جو کچھ موسیٰ ابن عمران ان کے لئے لائے ہیںاس پر ایمان لاکر عمل کریں گے ، ہمارے پیمان کا بعض حصّہ خدا کے پیغمبر بالخصوص حضرت عیسیٰ ابن مریم اورمحمد ابن عبد ﷲ پر ایمان لانا تھا ، لیکن ان لوگوں نے مریم عذرا پر نا روا تہمت لگائی اور توریت کے احکام کو کذب پر محمول کیا ، خدا کے نبیوں کا انکار کیا اور بہت سوں کو قتل کر ڈالا اور راہ خدا سے روکا ، سود لیا، لوگوں کے اموال کو ناجائز طور پر خورد و برد کیا تو ہم نے بھی ان تمام ظلم و ستم کے باعث ان پاکیزہ چیزوں کو جو اس سے پہلے ان کے لئے حلال تھیں حرام کردیا، ان پر حرام ہونے والی اشیاء میں سنیچر کے دن ساحل پر رہنے والوں کے لئے مچھلی کا شکار کرنا بھی تھا جہاں اس دن مچھلیاں آشکار طور پران سے نزدیک ہو جاتی تھیں اور خود نمائی کرتی تھیں۔

۵۳

بحث کا نتیجہ

خدا وندعالم نے بنی اسرائیل کو مصر کے ''فرعونیوں '' اور شام کے''عمالقہ'' اور اس عصر کی تمام ملتوں پر فضیلت اور برتری دی تھی بہت سے انبیاء جیسے موسیٰ ، ہارون ،عیسیٰ اور ان کے اوصیاء کوان کے درمیان مبعوث کیا اوراس سے بھی اہم یہ کہ توریت ان پر نازل کی ، ان سے سخت اور محکم پیمان لیا تا کہ جو کچھ ان کی کتابوں میں مذکور ہے اس پر عمل کریں ،''من وسلویٰ'' جیسی نعمت کا نزول ، پتھر سے ان کے لئے پانی کا چشمہ جاری کرنا وغیرہ وغیرہ نعمتوںسے سرفرازفرمایا، لیکن ان لوگوں نے تمام نعمتوں کے باوجودآیات الٰہی کا انکار کیا اور گوسالہ کے پجاری ہو گئے، سود لیا ،لوگوں کے اموال ناجائز طورپر کھائے اور اس کے علاوہ ہر طرح کی نافرمانی اور طغیانی کی، ایسے لوگوں کے اپنے آلودہ نفوس کی تربیت کی سخت ضرورت تھی اس لئے خدا وند عالم نے ان پر خود کو قتل کرنا واجب قرار دیا نیز سنیچر کے دن دنیاوی امور کی انجام دہی ان پر حرام کردی ،لیکن ان لوگوں نے سنیچر کے دن ترک عمل پر اختلاف کیا ، جیسا کہ اس ساحلی شہر کے لوگوں نے بھی اس سلسلے میں حیلے( ۱ ) اور بہانے سے کام لیا !خدا وندسبحان نے ان چیزوں کو جو کچھ اسرائیل نے اپنے او پر حرام کیا تھا(چربی ،اونٹ کا گوشت اور اس جیسی چیزوں کا کھا نا) ان کی جان کی حفاظت کی غرض سے ان پر بھی حرام کردیا، اس کے علاوہ چونکہ بنی اسرئیل ہمیشہ قبائلی اتحاد و یکجہتی اور اٹوٹ رشتہ کے محتاج تھے تا کہ ا ن سرکش وطاغی عمالقہ اور قبطیوں کا مقابلہ کر سکیں جو ان کو چاروں طرف سے اپنے محاصرہ میں لئے ہوئے تھے، لہٰذا خداوندعالم نے بھی قبل اس کے کہ ہیکلِ سلیمان نامی معروف مسجد کی تعمیر کریں،ان پر واجب قرار دیا کہ سب ایک ساتھ عبادت کے لئے '' خیمہ اجتماع'' کے پاس جمع ہوں اور اپنی دینی رسومات کو ہارون کے فرزند وں کی سر پرستی میں بجا لائیں جس طرح عیسیٰ ابن مریم کواور ان کی مادر گرامی مریم کو جو کہ حضرت داؤد کی نسل (جوبنی اسرائیل کے یہودا کی نسل )سے تھیںان کی طرف روانہ کیااور بعض وہ چیزیں جوان پر حرام تھیں حلال کر دیا ،جیسا کہ حضرت عیسیٰ کی زبانی سورۂ آل عمران میں ارشاد ہوتا ہے:

____________________

(۱) مادہ''سبت '' کے سلسلے میں کتاب قاموس کتاب مقدس ، تفسیر طبری ، ابن کثیر اور سیوطی ملاحظہ ہو ۔

۵۴

( اِنّی قد جئتکم بآية من ربّکم... و مصدقاً لما بین یدیّ من التوراة و لأحلّ لکم بعض الذی حرّم علیکم... ) ( ۱ )

میں تمہارے پر وردگار کی جانب سے تمہارے لئے ایک نشانی لایا ہوں اور جو کچھ مجھ سے پہلے توریت میں موجود تھااس کی تصدیق اور اثبات کرتا ہوں اورآیا ہوں تاکہ بعض وہ چیزیں جو تم پرحرا م کی گئی تھیں حلال کر دوں۔

جو کچھ ہم نے ذکر کیااس سے واضح ہو گیاکہ انبیاء بنی اسرائیل موسیٰ ابن عمران سے لے کر عیسیٰ ابن مریم تک بنی اسرائیل کی طرف مبعوث ہوئے ہیں ، نیز توریت میں بعض شرعی احکام بھی صرف بنی اسرائیل کی مصلحت کے لئے نازل ہوئے ہیں اس بنا پر ایسے احکام موقت یعنی وقتی ہوتے ہیںاور یہ ان چیزوں کے مانند ہیںجنہیں اسرائیل( یعقوب) نے خود اپنے اوپر حرا م کرلیا تھا لہٰذاان میں بعض کی مدت عیسیٰ ابن مریم کی بعثت سے تمام ہوگئی اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ا ُن محرمات میں سے کچھ کوان کے لئے حلال کر دیا اور کچھ باقی بچے ہوئے تھے جن کی مدت حضرت خاتم الانبیاء محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بعثت تک تھی وہ بھی تمام ہو گئی لہٰذاایسے میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آئے اور ان سب کی مدت تمام ہونے کو بیان فرمایا۔

خدا وند عالم اس موضوع کو سورۂ اعراف میں اس طرح بیان کرتا ہے :

( الذین یتبعون الرسول النّبی الأمیّ الذی یجدونه مکتوباً عندهم فی التوارة و الأنجیل یا مرهم با لمعروف و ینها هم عن المنکر ویحلّ لهم الطيّبات و یحرّم علیهم الخبائث و یضع عنهم أِصر هم و الأغلال التی کانت علیهم ) ( ۲ )

جو لوگ اس رسول نبی امی کا اتباع کرتے ہیںجس کے صفات توریت اور انجیل میں جو خود ان کے پاس موجود ہے ،لکھا ہوا ہے وہ لوگوں کو نیکی کا حکم دیتا ہے اور برائی اور منکر سے روکتا ہے، پاکیزہ چیزوں کوان کے لئے حلال اور ناپاک چیزوں کو حرام کرتا ہے اوران کے سنگین بار کو ان پر سے اٹھا دیا ہے اور جن زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے انھیں اس سے آزاد کردیتا ہے۔

'' اِصرھم'' :ان کے سنگین بوجھ یعنی وہ سخت تکالیف و احکام جوان کے ذمّہ تھے۔

نسخ کی یہ شان حضرت موسیٰ کی شریعت میں ان سے پہلے شرائع کی بنسبت تھی ، اسی طرح بعض وہ چیزیں

جو موسیٰ کی شریعت میں تھیں حضرت خاتم الانبیاء محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شریعت میں نسخ ہو گئیں۔

''نسخ''کی دوسری قسم یہ ہے کہ یہ نسخ صرف ایک پیغمبر کی شریعت میں واقع ہو تاہے ،جیسا کہ آگے آئے گا۔

____________________

(۱)آل عمران ۴۹۔ ۵۰

(۲)اعراف ۱۵۷

۵۵

ایک پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شریعت میں نسخ کے معنی

ایک پیغمبر کی شریعت میں نسخ کے معنی کی شناخت کے لئے ، اس کے کچھ نمونے جو حضرت خاتم الانبیاء کی شریعت میں واقع ہوئے ہیں بیان کررہے ہیں:

یہ نمونہ وجوب صدقہ کے نسخ ان لوگوں کے لئے تھا جو چاہتے تھے کہ پیغمبر سے نجویٰ اورراز ونیاز کی باتیں کریں ،جیسا کہ سورۂ ''مجادلہ ''میں ذکر ہوا ہے:

( یَاَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا ِذَا نَاجَیْتُمْ الرَّسُولَ فَقَدِّمُوا بَیْنَ یَدَیْ نَجْوَاکُمْ صَدَقَةً ذَلِکَ خَیْر لَکُمْ وََطْهَرُ فَِنْ لَمْ تَجِدُوا فَِنَّ ﷲ غَفُور رَحِیم (۱۲) ََشْفَقْتُمْ َنْ تُقَدِّمُوا بَیْنَ یَدَیْ نَجْوَاکُمْ صَدَقَاتٍ فَِذْ لَمْ تَفْعَلُوا وَتَابَ ﷲ عَلَیْکُمْ فََقِیمُوا الصَّلاَةَ وَآتُوا الزَّکَاةَ وََطِیعُوا ﷲ وَرَسُولَهُ وَﷲ خَبِیر بِمَا تَعْمَلُونَ (۱۳ ) ( ۱ )

اے صاحبان ایمان! جب رسول ﷲ سے نجویٰ کرنا چاہو تواس سے پہلے صدقہ دو ، یہ تمہارے لئے بہتر اور پاکیزہ ہے اور اگرصدقہ دینے کو تمھارے پاس کچھ نہ ہو تو خدا وندعالم بخشنے والا اور مہر بان ہے، کیا تم نجویٰ کرنے سے پہلے صدقہ دینے سے ڈرتے ہو ؟ اب جبکہ یہ کام تم نے انجام نہیں دیا اور خدا نے تمہاری توبہ قبول کر لی، تو نماز قائم کرو ، زکوة ادا کرو اور خدا و پیغمبر کی اطاعت کرو کیو نکہ تم جو کام انجام دیتے ہو اس سے خدا آگاہ اور باخبر ہے۔

اس داستان کی تفصیل تفاسیر میں اس طرح ہے:

بعض صحابہ حدسے زیا دہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نجویٰ کرتے تھے اور اس کام سے یہ ظاہر کرنا چاہتے تھے کہ وہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خاص الخاص اور نزدیک ترین افراد میں سے ہیں ،رسول اکرم کا کریمانہ اخلاق بھی ا یسا تھا کہ کسی ضرورتمند کی درخواست کو رد نہیں کرتے تھے ، یہ کام رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے بسا اوقات دشواری کا باعث بن جاتا تھااس کے باوجود آپ اس پر صبر وتحمل کرتے تھے ۔

____________________

(۱)مجادلہ ۱۲، ۱۳،( اس آیت کی تفسیر کے سلسلے میں تفسیر طبری اور دیگر روائی تفاسیر دیکھئے )

۵۶

اس بنا پر جو لوگ پیغمبر سے نجوی کرنا چاہتے تھے ان کے لئے صدقہ دینے کا حکم نازل ہوا پھر اس گروہ نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نجویٰ کرنا چھوڑ دیا لیکن حضرت امام علی بن ابی طالب نے ایک دینار کو دس درہم میں تبدیل کر کے دس مرتبہ صدقہ دے کر پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے اہم چیزوں کے بارے میں نجویٰ و سر گوشی فرمائی. اس ہدف کی تکمیل اور اس حکم کے ذریعہ اس گروہ کی تربیت کے بعد اس کی مدت تمام ہو گئی اور صدقہ دینے کا حکم منسوخ ہو گیا ( اٹھا لیا گیا)۔

نسخ کی بحث کا خلاصہ اوراس کا نتیجہ

جمعہ کا دن حضرت آدم سے لیکر انبیاء بنی اسرائیل کے زمانے تک یعنی موسیٰ ابن عمران سے عیسیٰ بن مریم تک بنی آدم کے لئے ایک مبارک اور آرام کا دن تھا۔

اسی طرح حضرت آدم اوران کے بعد حضرت ابراہیم کے زمانے تک سارے پیغمبروں نے منا سک حج انجام دئے ، میدان عرفات ،مشعر اور منیٰ گئے اور خانہ کعبہ کا سات بار طواف کیا ، اس کے بعد حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل نے خانہ کعبہ کی تعمیر کی اس کے بعد اپنے تا بعین اور ماننے والوں کے ہمراہ حج میں خانہ کعبہ کا طواف کیا۔

حضرت نوح نے بھی حضرت آدم کے بعدان کی شریعت کی تجدید کی اور حضرت خاتم الا نبیاءصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شریعت کے مانند شریعت پیش کی اوران کے بعد تمام انبیاء نے ا ن کی پیروی کی کیو نکہ خدا وند متعال فرماتا ہے:

۱۔( شرع لکم من الد ین ما وصّیٰ به نوحاً ) ...)(۱ )

تمہارے لئے وہ دین مقرر کیا ہے جس کا نوح کو حکم دیا تھا ۔

۲۔( و ِأن من شیعة لأِبراهیم )

ابراہیم ان کے پیروکاروں اور شیعوں میں تھے۔( ۲ )

۳۔ خاتم الانبیاءصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ان کی امت سے بھی فرماتا ہے:

الف۔( اتبع ملّة ابراهیم حنیفاً )

ابراہیم کے خالص اور محکم دین کا اتباع کرو۔

ب ۔( فاتّبعوا ملّة أِبراهیم حنیفاً )

____________________

(۱)شوری ۱۳(۲)،صافات ۸۳

۵۷

پھر ابراہیم کے خالص اور محکم و استوار دین کا اتباع کرو۔( ۱ )

اس لحاظ سے رسولوں کی شریعتیں حضرت آدم کے انتخاب سے لے کر حضرت خاتمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چناؤ اور انتخاب تک یکساں ہیں مگر جو کچھ انبیاء بنی اسرائیل کی ارسالی شریعت میں موسیٰ ابن عمران سے عیسیٰ بن مریم تک وجود میں آیااس میں خاص کر اس قوم کی مصلحت کا لحاظ کیا گیا تھا، خدا وند عالم ان کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے:

۱۔( کلّ الطّعام کان حلاً لبنی أسرائیل اِلاّ حرّم اِسرائیل علیٰ نفسه ) ( ۲ )

کھا نے کی تمام چیزیں بنی اسرائیل کے لئے حلال تھیں ، بجزاس کے جسے اسرائیل نے اپنے اوپر حرام کر لیا تھا۔

۲۔( و علیٰ الذین هادوا حر منا ما قصصنا علیک من قبل ) ( ۳ )

اور اس سے پہلے جس کی تم سے ہم نے شرح و تفصیل بیان کی وہ سب ہم نے قوم یہود پر حرام کردیا۔

۳۔( اِنّما جعل السبت علیٰ الذین اختلفوا فیه ) ( ۴ )

سنیچر کے دن کی تعطیل صر ف ان لوگوں کے لئے ہے جنھوں نے اس کے بارے میں اختلاف کیا ہے۔

توریت کے سفر تثنیہ کے ۳۳ ویں باب کے چوتھے حصّہ میں بھی صراحت کے ساتھ ذکر ہوا ہے:''موسیٰ نے ہمیں با لخصوص اولاد یعقوب کی شریعت کا حکم دیا ہے''

اس تغییر کی بھی حکمت یہ تھی کہ بنی اسرائیل ایک ہٹ دھرم ،ضدی ، جھگڑالواور کینہپرور قوم تھی اس قوم کے لوگ اپنے انبیاء سے عداوت و دشمنی کرتے اور نفس امارہ کی پیروی کرتے تھے اور دشمنوں کے مقابلہ میں سستی ،بے چار گی اور زبوں حالی کا مظاہرہ کرتے ، یہ لوگ اس کے بعد کہ خدا نے ان کے لئے دریا میں راستہ بنایا اور فرعون کی غلامی جیسی ذلت و رسوا ئی سے نجات دی ، گوسالہ پرست ہو گئے اور مقدس سر زمین جسے خدا نے ان کے لئے مہّیا کیا تھا ،عمالقہ کے ساتھ مقابلہ کی دہشت سے اس میں داخل ہو نے سے انکار کر گئے؛ اس طرح کی امت کے نفوس کی از سر نو تربیت اور تطہیرکے لئے شریعت میں ایک قسم کی سختی درکار تھی لہٰذا وہ مومنین جو خود گوسالہ پرست نہیں تھے انہیںگوسالہ پرست مرتدین کو قتل کر ڈالنے کا حکم دیا گیا ، نیزان پر سنیچر کے دن کام کرنا حرام کر دیا گیااور انھیںصحرائے سینا میں چالیس سال تک حیران و سر گرداں بھی رہنا ہڑا۔

____________________

(۱)آل عمران۹۵(۲)آل عمران ۹۳ (۳)نحل ۱۱۸ (۴)نحل ۱۲۴

۵۸

دوسری طرف ، اس لحاظ سے کہ وہ اپنے زمانہ کے تنہا مومن تھے اور ان کے گرد ونواح کا ،تجاوز گر کافروں اور طاقتور ملتوں نے احاطہ کر رکھا تھا لہٰذا انھیں آپس میں قوی و محکم ارتباط و اتحاد کی شدید ضرورت تھی تا کہ اپنے کمزوریوں کی تلافی کرتے ہوئے ایک دوسرے کی مدد کریں اور دوسروں سے خود کو جدا کرتے ہوئے اپنی مستقل شناخت بنا ئیں اور اپنے درمیان اتحاد و اتفاق قائم رکھیں ، لہٰذا خداوند عالم نے ان ا ہداف تک پہنچنے کے لئے ان کے لئے ایک مخصوص قبلہ معین فرمایا ،جس میں وہ تابوت رکھا تھا کہ جس میں الواح توریت ، ان سے مخصوص کتاب شریعت اورآل موسیٰ اور ہارون کاتمام ترکہ تھا ۔( ۱ ) نیز بہت سے دیگر قوانین جو ان کے زمان ومکان کے حالات اور ان کی خاص ظرفیت کے مطابق تھے ان کے لئے نازل فرمائے ۔

حضرت عیسی بن مریم کے زمانہ میں بعض حالات کے نہ ہو نے کی وجہ سے ان میں سے بعض قوانین ختم ہوگئے اور عیسیٰ نے ان میں سے بعض محرمات کو خدا کے حکم سے حلال کر دیا ۔

حضرت خاتم الانبیاء کے زمانہ میں بنی اسرائیل شہروں میں پھیل گئے اور تمام لوگوں کے ساتھ مل جل کر رہنے لگے ، وہ لوگ جن ملتوں کے درمیان زندگی گزار رہے تھے اس بات سے کہ ان کی حقیقت جدا ہے اور دوسرے لوگ یہ درک کر لیں کہ یہ لوگ ان لوگوں کی جنس سے نہیں ہیں اور ان کارہن و سہن پڑوسیوں اور دیگر ہم شہریوں سے الگ تھلگ ہے ، وہ لوگ آزردہ خاطر رہتے تھے خاص کر شہر والے اسرائیلیوں کو اپنوں میں شمار نہیں کرتے تھے اورانھیں ایک متحد سماج و معاشرہ کے لئے مشکل ساز اور بلوائی سمجھتے تھے، اسی لئے جو احکام انھیں دیگر امتوں سے جدا اور ممتاز کرتے تھے ا ن کے لئے وبال جان ہو گئے سنیچر کے دن کی تعطیل جیسے امور جو کہ تمام امتوں کے بر خلاف تھے ا ن کے لئے بار ہو گئے جیسا کہ سفر تثنیہ میں اس کی تفصیل گزر چکی ہے ۔

حضرت خاتم الانبیاء محمد ابن عبد ﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خدا وند عالم کے حکم سے ان کی مشکل بر طرف کر دی اور گزشتہ زمانوں میں جو چیزیںان پر حرام ہو گئی تھیںان سب کو حلال کر دیا ، خدا وندعالم نے سورۂ اعراف میں ارشاد فرمایا :

( الذین یتبعون الرسول النبّی الأمّی الذی یجدونه مکتوباً عندهم فی التوراة و الأنجیل یأمرهم بالمعروف وینها هم عن المنکر ویحلّ لهم الطيّبا ت و یحرّم علیهم الخبائث و یضع عنهم أِصر هم والأغلال الّتی کا نت علیهم ) ( ۲ )

____________________

(۱) سورئہ بقرہ ۲۸۴

(۲)اعراف۱۵۷

۵۹

وہ لوگ جو اس رسول نبی امی کی پیروی کرتے ہیںجس کے صفات اپنے پاس موجود توریت و انجیل میں لکھا ہواپاتے ہیں وہ پیغمبران لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہوئے منکر اور برائیوں سے روکتا ہے پاکیزہ چیزوں کوان کے لئے حلال اور گند گیوں اورنا پاک چیزوں کو حرام کرتاہے؛ اور ان کے سنگین باران سے اٹھا تے ہوئے ان کی گردن میں پڑی زنجیر کھول دیتا ہے ۔

خدا وندعالم نے اس طرح سے ان احکام کو جو گزشتہ زمانوں میں ان کے فائد ہ کیلئے تھے اور بعد کے زمانے میں جب یہ لوگ عالمی سطح پر دوسرے لوگوں سے مخلوط ہو تے تو یہی احکام ان کے لئے وبال جان بن گئے ، خدا نے ایسے احکام کوان کی گردن سے اٹھا لیا ، لیکن جو احکام حضرت موسیٰ ابن عمران کی شریعت میں تمام لوگوںکے لئے تھے اور بنی اسرائیل بھی انھیں میں سے تھے نہ وہ احکام اٹھا ئے گئے اور نہ ہی نسخ ہوئے جیسے کہ توریت میں قصاص کا حکم، خدا وندعالم سورۂ مائدہ میں اس کی خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے:

( اِنّا انزلناالتوراة فیها هدیً و نور یحکم بها النبيّون الذین أسلموا للذین هادوا...) (و کتبنا علیهم فیها أنّ النفس با لنفس و العین با لعین والأنف بالأنف و الاذن بالاذن و السّن با لسّن و الجروح قصاص فمن تصدّق به فهو کفّارة له و من لم یحکم بما انزل ﷲ فأولائک هم الظالمون ) ( ۱ )

ہم نے توریت نازل کی کہ جس میں ہدایت اور نورہے ، خدا کے سامنے سراپا تسلیم پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسی سے یہود کے درمیان حکم دیاکرتے تھے اوران پر ا س(توریت) میں ہم نے یہ معین کیا کہ جان کے بدلے جان ،آنکھ کے بدلے آنکھ، ناک کے بدلے ناک، کان کے عوض کان ،دانت کے عوض دانت ہو اور ہر زخم قصاص رکھتا ہے اور جوقصاص نہ کرے یعنی معاف کردے تو یہ اس کے ( گناہوں )کے لئے کفارہ ہے اور جو کوئی خدا کے نازل کردہ حکم کے مطابق حکم نہ کرے تو وہ ظالم و ستمگر ہے۔

جس حکم قصاص کا یہاں تذکرہ ہے توریت سے پہلے اور اس کے بعد آج تک اس کا سلسلہ جاری ہے،وہ تمام احکام جن کو خدانے انسان کے لئے اس حیثیت سے کہ وہ انسان ہیں مقرر و معین فرمایا ہے وہ کسی بھی انبیاء کے زمانے اور شریعتوں میں تبدیل نہیں ہوئے ۔

____________________

(۱)مائدہ ۴۴ ،۴۵

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

۲ _ ہدايت كے بعد، لوگوں كا مرتد اور گمراہ ہونا ايسى چيز ہے كہ جس پر غصہ آنا اور غم و اندوہ ميں مبتلا ہونا بجاہے_

و ا ضلّهم السامري_ فرجع موسى إلى قومه غضبانا ا سفا

۳ _ حضرت موسي(ع) پر غصہ اور غم و اندوہ كااثر_غضباناً ا سفا

۴ _ عام انسانوں كے حالات كا انبياء ميں موجود ہونا_غضباناً ا سفا

۵ _ حضرت موسي(ع) كے ميقات كى طرف جانے سے پہلے بنى اسرائيل كو خدا كى طرف سے ايك اچھا وعدہ (تورات كا نزول) ملا تھا_ا لم يعدكم ربكم وعداً حسنا

حضرت موسي(ع) كا بنى اسرائيل سے استفہام تقريرى يا انكارى بتاتا ہے كہ موسي(ع) كے ميقات پر جانے سے پہلے انہيں ايك وعدہ ديا جاچكاتھا بعض نے اس وعدے كا محتوا تورات كا نزول قرار ديا ہے_

۶ _ بنى اسرائيل نے خدا كے وعدے (تورات كا عطا كرنا) كى پروانہ كر كے اپنى گمراہى كا پيش خيمہ فراہم كيا _

و ا ضلهم السامري ا لم يعدكم ربكم وعداً حسنا

۷ _ بنى اسرائيل نے بغير اسكے كہ خداتعالى كے وعدے(تورات عطا كرنا) كے عملى ہونے ميں كوئي تاخير ہوئي ہو گمراہى كو گلے لگاليا_ا لم يعدكم ربكم أفطال عليكم العهد

''أفطال'' كا استفہام انكارى ہے اور ''عہد'' سے مراد وقت ہے (قاموس) اور اس سے مراد اس وعدے كے عملى ہونے كا وقت ہے كہ جس پر ''ا لم يعدكم'' دلالت كر رہا ہے اور ممكن ہے ''عہد'' سے مراد حضرت موسي(ع) كى دورى كا وقت ہو_

۸ _ بنى اسرائيل، خدا تعالى كى عظيم آيات اور معجزات كا مشاہدہ كرنے كے با وجود راسخ ايمان سے عارى تھے_

يا بنى إسرائيل قد ا نجيناكم ا ضلهم السامري ا لم يعدكم ربكم

اس چيز كو مد نظر ركھتے ہوئے كہ سامرى كے ذريعے بنى اسرائيل كى گمراہى فرعون كے چنگل سے نجات پانے، دريا سے عبور كرنے اور اس پورے عرصے ميں متعدد آيات الہى كا مشاہدہ كرنے كے بعد تھى لگتا ہے كہ وہ كمزور سوچ اور ايمان كے حامل تھے كہ اس طرح سامرى كے گمراہ كرنے سے گمراہوں كى صف ميں جا كھڑے ہوئے_

۹ _ بنى اسرائيل نے سامرى كى پيروى كركے اور وعدہ الہى كى پروانہ كركے اپن ے غضب خداوند ميں گرفتار ہونے كيلئے زمين ہموار كى _و ا ضلّهم السامري ا م اردتم ان يحل عليكم غضب من ربكم

۱۶۱

اس آيت ميں ''ام'' منقطعہ ہے اور ''ا م اردتم'' كا معنى يہ ہے كہ بچھڑا پرستى كى وجہ وعدہ كا مؤخر ہونا نہ تھى بلكہ تم لوگوں نے اس طرح عمل كيا ہے جيسے غضب الہى كا شوق ركھنے والے كرتے ہيں پس جملہ ''ا ردتم ...'' استعارہ ہے كہ جو ان كے كام كى ظاہرى صورت كے بارے ميں بتارہا ہے_

۱۰ _ خداتعالى كے وعدوں پر ايمان لانا اور ان كے بارے ميں بے اعتنائي سے پرہيز كرنا ضرورى ہے_

ا فطال عليكم العهد ا م اردتم ا ن يحل عليكم غضبا

۱۱ _ حضرت موسي(ع) نے ميقات پر جانے سے پہلے بنى اسرائيل كو ضرورى ہدايات جارى كردى تھيں اور ان كے ساتھ ايمان كى حفاظت كيلئے عہد و پيمان باندھ چكے تھے _فا خلفتم موعدي

اس آيت ميں ''موعد'' مصدر اور ''وعدہ'' كے معنى ميں ہے پس ''فأخلفتم'' يعنى تم نے ميرے ساتھ اپنے عہد و پيمان كى مخالفت كى اس جملے سے معلوم ہوتا ہے كہ حضرت موسي(ع) نے ميقات پر جانے سے پہلے اس كى پيشين گوئي كردى تھى چنانچہ اس لحاظ سے انہوں نے بنى اسرائيل پر اتمام حجت كرديا تھا_

۱۲ _ گمراہى كے مقدمات اور لغزش كے مقامات كى پيشين گوئي كرنا اور انكى بادے ميں خبردار كرنا انبياء اور دينى رہنماؤں كى ذمہ داريوں ميں سے ہے_فأخلفتم موعدي

۱۳ _ انبياء كے ساتھ وعدہ خلافى كرنا اور انكے عہد و پيمان كو توڑنا غضب الہى ميں گرفتار ہونے كيلئے زمين ہموار كرتا ہے_

ا م ا ردتم ا ن يحل عليكم غضب من ربكم فاخلفتم موعدي

۱۴ _ حضرت موسي(ع) نے بنى اسرائيل كے بچھڑا پرستوں كو عہد شكنى كرنے والے لوگ قرار ديا اور انہيں خداتعالى كے سخت عذاب كى نسبت خبردار كيا _ا م ا ردتم ا ن يحل عليكم غضب من ربكم

۱۵ _ مرتد ہوجانے والوں اور شرك و بت پرستى كى طرف پلٹ جانے والوں پرغضب الہى اسكى ربوبيت كا تقاضا ہے_ا ضلّهم السامري ا م اردتم ا ن يحل عليكم غضب من ربكم

۱۶ _ ہدايت كے بعد گمراہى اور توحيد كے بعد شرك خداتعالى كے شديد اور دائمى غضب اور اسكى طرف سے سخت اورطولانى عذاب ميں گرفتار ہونے كا سبب ہے _ا ضلّهم السامري ا م اردتم ا ن يحل عليكم غضب من ربّكم

''حلول غضب'' اسكے دائمى ہونے اور ''غضب''كا نكرہ ہونا اسكے عظيم اور شديد ہونے سے كنايہ ہے اور غضب الہى نازل ہونا نزول عذاب سے كنايہ ہے_

۱۶۲

مرتد ہونا:اسكے اثرات ۱۶; اسكى سزا ۱۶

انبيائ(ع) :ان كے ساتھ عہد شكنى كے اثرات ۱۳; انكا بشر ہونا ۴; انكى ذمہ دارى ۱۲

غم و اندوہ:اسكے عوامل ۲ايمان:خداتعالى كے وعدوں پر ايمان ۱۰

بت پرست لوگ:انكا مغضوب ہونا ۱۵

بنى اسرائيل:انكى گمراہى كے اثرات ۱; ان كے بچھڑا پرستوں كو انذار ۱۴; يہ حضرت موسي(ع) كى عدم موجودگى ميں ۱; انكى بے ايمانى ۸; انكى تاريخ ۱، ۵، ۷، ۹، ۱۱، ۱۴; انكو نصيحت ۱۱; انكى گمراہى كا پيش خيمہ ۶; انكى صفات ۸; ان كے مغضوب ہونے كے عوامل ۹; ان كى عہد شكنى ۱۴; انكى گمراہى ۷; انكى ہٹ دھرمى ۸; انكا نقش وكردار ۶; ان كے ساتھ وعدہ ۵، ۷

تورات:اس كا نزول ۵

خداتعالى :اسكے وعدوں سے بے اعتنائي كے اثرات ۹; اسكى ربوبيت كے اثرات ۱۵; اسكے وعدوں سے بے اعتنائي ۶; اسكے غضب كا پيش خيم ۹، ۱۳، ۱۶; اسكے وعدے ۵، ۷دينى راہنما:انكى ذمہ دارى ۱۲

سامري:اسكى پيروى كے اثرات ۹

عذاب:اسكے درجے ۱۶; اسكے اسباب ۱۶

غضب:اسكے عوامل ۲گمراہي:اسكى پيش گوئي ۱۲

مرتد ہوجانے والے:انكا مغضوب ہونا ۱۵لوگ:لوگوں كے مرتد ہوجانے كے اثرات ۲; لوگوں كى گمراہى كے اثرات ۲

مشركين:انكا مغضوب ہونا ۱۵خداتعالى كے مغضوبين :۹، ۱۵

موسي(ع) (ع) :انكا غم و اندوہ ۳; انكا انذار ۱۴; انكى بازگشت ۱; انكى نصيحتيں ۱۱; انكے غم و اندوہ كے عوامل ۱; ان كے غضب كے عوامل ۱; انكا بنى اسرائيل كے ساتھ عہد ۱۱; انكا غضب ۳; انكا قصہ ۱، ۱۱، ۱۴

۱۶۳

آیت ۸۷

( قَالُوا مَا أَخْلَفْنَا مَوْعِدَكَ بِمَلْكِنَا وَلَكِنَّا حُمِّلْنَا أَوْزَاراً مِّن زِينَةِ الْقَوْمِ فَقَذَفْنَاهَا فَكَذَلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُّ )

قوم نے كہا كہ ہم نے اپنے اختيار سے آپ كے وعدہ كى مخالفت نہيں كى ہے بلكہ ہم پر قوم كے زيورات كا بوجھ لاد ديا گيا تھا تو ہم نے اسے آگ ميں ڈال ديا اور اس طرح سامرى نے بھى اپنے زيورات كو ڈال ديا (۸۷)

۱ _ بنى اسرائيل نے حضرت موسى (ع) كى جانب سے اپنى بازپرس اور ڈانٹ ڈپٹ كے بعد،-بچھڑا پرستى كے ماجرا ميں اپنے آپ كو بے قصور ظاہر كرنے كى كوشش كى _ألم يعدكم أفطال ا م ا ردتم قالوا ما ا خلفنا موعدك بملكن

جملہ ''ما ا خلفنا'' نيز ''حمّلنا'' يہ سب بنى اسرائيل كى طرف سے بچھڑا پرستى كو قبول كرنے كے سلسلے ميں بہانہ تراشياں تھيں _

۲ _ بنى اسرائيل حضرت موسي(ع) كے ساتھ اپنى پيمان شكنى اور وعدہ خلافى كے معترف تھے _ما ا خلفنا موعدك بملكن

۳ _ اپنے آپ كو بے اختيار قرار دينا،بنى اسرائيل كى طرف سے حضرت موسى (ع) كے ساتھ عہد شكنى كرنے اور اپنے درميان بچھڑا پرستى كو قبول كرنے كا ايك بہانہ_ما ا خلفنا موعدك بملكن

''موعد'' مصدر اور ''وعدہ'' كے معنى ميں ہے اور ''ملك'' بھى مصدر ہے اور بنى اسرائيل كى مراد يہ ہے كہ وہ اپنے امور كے مالك نہيں تھے اس وجہ سے ''ما ا خلفنا'' كا معنى يوں ہوگا ہم نے آپ كے ساتھ كئے گئے عہد و پيمان كى مخالفت اپنے اختيار كے ساتھ نہيں كى _

۴ _ بنى اسرائيل،فرعونيوں كے بہت سارے زيورات اپنے ہمراہ لے آئے تھے_ولكنا حملنا ا وزاراً من زينة القوم

ظاہراً ''القوم'' سے مراد فرعونى ہيں اور ''وزر'' كا معنى ہے بوجھ اور ثقل اسى لئے گناہ كو بھى ''وزر و ثقل'' كہا جاتا ہے كيونكہ اس سے گناہ گار كے كندھوں پر بوجھ آجاتا ہے اس كلمے كا استعمال شايد اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ بنى اسرائيل فرعونيوں كے ان زيورات كو ہمراہ لانا جائز نہيں سمجھتے تھے _

۱۶۴

۵ _ بنى اسرائيل فرعونيوں كے زيورات ہمراہ لانے ميں بھى اپنے آپ كو بے اختيار قرار ديتے تھے _و لكنا حملنا اوزارا من زينة القوم بنى اسرائيل كے اپنے عمل كى بہانہ تراشيوں كے تسلسل ميں ''حملنا'' كے مجہول آنے كا مطلب يہ ہے كہ فرعونيوں كے زيورات اٹھانے ميں بھى ہم نے بادل نخواستہ كام كيا اور ہميں اس پر مجبور كيا گي

۶ _ بنى اسرائيل كا فرعونيوں كے زيورات اپنے ہمراہ لانا اور ان پر قبضہ كرنا،حضرت موسى (ع) كے حكم كے بغير انجام پايا تھاو لكنا حملنا أوزاراً من زينة القوم ''حمّلنا'' كى تعبير اور كلمہ ''وزر'' اس بات سے حكايت كرتے ہيں كہ حضرت موسى (ع) نے اس سلسلے ميں كوئي حكم نہيں ديا تھا اور بنى اسرائيل نے خود سرى كے ساتھ يہ كام انجام ديا تھا _

۷ _ بنى اسرائيل نے حضرت موسى (ع) كى عدم موجودگى اور ان كے ميقات پر جانے كے زمانہ ميں اپنے لوٹے ہوئے زيورات پھينك ديئے تھے_حمّلنا أوزاراً من زينة القوم فقد فنه

''قذف'' كامعنى ہے پھينك دينا جملہ ''حمّلنا ا وزاراً'' كو مد نظر ركھتے ہوئے لگتا ہے بنى اسرائيل نے لوٹے ہوئے زيورات كو اس بنا پر كہ يہ گناہ ہے دور پھينك ديا تھا يا صحرا و بيابان كى زندگى ميں انكے بے قدر و قيمت ہوجانے كى وجہ سے انہوں نے انہيں پھينك دينے كا عزم كيا _

۸ _ بنى اسرائيل كے ہاتھوں زيورات پھينك ديئے جانے كے ماجرے ميں سامرى كا برجستہ كردار تھا _

فقذ فنها فكذلك ا لقى السامري جن لوگوں نے زيورات پھينك ديئے تھے ان ميں سامرى كو مشخص كرنا اس سلسلے ميں اس كے برجستہ كردار كى علامت ہے_

۹ _ بنى اسرائيل اس چيز كے گواہ ہيں كہ فرعونيوں كى رہ جانے والى غنيمتوں كے پھينك دينے ميں سامرى نے بنى اسرائيل كے عمومى اقدام كے مشابہ اقدام كيفقذ فنها فكذلك ا لقى السامري

''كذلك'' يعنى اسكى مانند جو ہم نے انجام ديا تھا _يہ وصف اس چيز كو بيان كر رہا ہے كہ سامرى نے بنى اسرائيل كے حضور ميں اور ان كى مثل عمل كرتے ہوئے چيزوں كو دور پھينك ديا تھا _

۱۰ _ سامرى نے اپنى چيزيں پھينك دينے والا اقدام اس كے بعد كيا كہ بنى اسرائيل نے اپنے ساتھ والى غنيمت كى چيزوں كو پھينك ديا تھا_فكذلك ا لقى السامري

۱۶۵

۱۱ _ بنى اسرائيل نے فرعونيوں كے مال غنيمت كو بچھڑا بنانے كے اخراجات مہيا كرنے كا ذريعہ بتايا اور اپنے آپ كو اسكى ہر قسم كى مالى امداد سے مبرا قرار ديا _ما ا خلفنا موعدك بملكنا ولكنا حملنا أوزار

''ملك'' كے جو معانى بيان كئے گئے ہيں ان ميں سے ايك ''مملوك'' ہے (قاموس) اس معنى كو پيش نظر ركھتے ہوئے آيت كريمہ كا مطلب يہ بنے گا ہم نے اپنے اموال كے ذريعے اپنے آپ كو اس انحراف ميں حصہ دار نہيں بنايا بلكہ جو اموال ہم نے پھينك ديئے تھے ان كے ذريعے سامرى نے يہ فتنہ كھڑا كيا _

بنى اسرائيل:ان كا اقرار ۲; يہ موسى (ع) كى غيبت ميں ۷; انكى تاريخ ۱، ۲، ۴، ۵، ۶، ۷، ۸،۹،۱۰، ۱۱; انكى بہانہ تراشى ۱، ۳; انكى جبرپرستى ۳، ۵; انكا زيورات كو دور پھينكنا ۷، ۸، ۹، ۱۰; ان كے زيورات ۴، ۵، ۶; انكى سرزنش ۱; انكى عہد شكنى ۲، ۳; انكى بچھڑا پرستى ۱، ۳

سامري:اس كا زيورات كو درو پھينكو دينا ۹، ۱۰; اس كا نقش و كردار ۸; اسكے بچھڑے كے اخراجات ۱۱

فرعوني:فرعونيوں كے زيورات ۴، ۵، ۶، ۹، ۱۱

موسى (ع) :انكى طرف سے سرزنش ۱; ان كے ساتھ عہد شكنى كرنے والے۲ ۳; انكا نقش و كردار ۶

آیت ۸۸

( فَأَخْرَجَ لَهُمْ عِجْلاً جَسَداً لَهُ خُوَارٌ فَقَالُوا هَذَا إِلَهُكُمْ وَإِلَهُ مُوسَى فَنَسِيَ )

پھر سامرى نے ان كے لئے ايك مجسمہ گائے كے بچے كا نكالا جس ميں آواز بھى تھى اور كہا كہ يہى تمھارا اور موسى كا خدا ہے جس سے موسى غافل ہوكر اسے طور پر ڈھونڈنے چلے گئے ہيں (۸۸)

۱ _ سامرى نے بنى اسرائيل كے پھينكے ہوئے زيورات سے بچھڑے كى صورت كا پتلا بنا كر پيش كيا _

فأخرج لهم عجلاً جسد ''عجل'' يعنى بچھڑا ''عجل '' كا ''جسد'' كے ساتھ وصف بيان كرنا اس نكتے كو بيان كر رہا ہے كہ بچھڑا ايك پتلے كى صورت ميں تھا نہ واقعى بچھڑا جملہ ''فأخرج لہم ...'' ممكن ہے خداتعالى كا كلام ہو اور يہ بھى احتمال ہے كہ يہ بنى اسرائيل كى گفتگو كا تسلسل ہو دوسرى صورت ميں ''لنا'' كى بجائے ''لہم'' كہنا قرينہ ہے كہ انكى مراد بچھڑے كى پرستش سے اپنے آپ كو برى الذمہ قرار دينا ہے_

۲ _ سامرى نے چھپ كر اور بنى اسرائيل كى آنكھوں سے دور سنہرے رنگ كا بچھڑا بنايا _فأخرج لهم عجلاً جسد

۱۶۶

''ا خرج'' صرف بنى اسرائيل پر بچھڑا پيش كرنے كے مرحلے كى طرف ناظر ہے اور اس سے پہلے كے مراحل (بچھڑے كى ساخت) كا تذكرہ نہ ہونا ان مراحل كے عام لوگوں كى نظروں سے اوجھل ہونے كو بيان كررہا ہے_

۳ _ سامرى كے بچھڑے كے سنہرى پتلے سے بچھڑے كى آواز جيسى آواز نكلتى تھى _فأخرج لهم عجلاً جسداً له خوار

''خوار'' يعنى گائے اور بچھڑے كى بلند آواز (لسان العرب) _

۴ _ سامرى مجسمہ سازى كے فن كا ماہر اور بنى اسرائيل كى فكرى كمزوريوں سے آشنا تھا _فأخرج لهم عجلاً جسداً له خوار يہ تعبير ( اس نے بچھڑا پيش كرديا ) بچھڑے كے مجسمے كے اسكى حقيقى شكل كے ساتھ شدت مشابہت كو بيان كررہى ہے _

۵ _ سامرى كے ہاتھ سے بنے ہوئے پتلے سے بچھڑے كى آواز كا سنا جانا، بنى اسرائيل كے گرويدہ ہونے اور اسے معبود سمجھنے كا سبب بنا _له خوار بچھڑے كے اوصاف ميں سے ہر ايك كا تذكرہ اسكے بنى اسرائيل كے تمايل ميں دخيل ہونے كو بيان كررہا ہے _

۶ _ سامرى نے بچھڑے كے سنہرى پتلے كو بنى اسرائيل اور حضرت موسى (ع) كا ''معبود'' متعارف كرايا _

فأخرج فقالوا هذا إلهكم و إله موسى

۷ _ سنہرى بچھڑے كو معبود كے طور پر متعارف كرانے ميں بنى اسرائيل كا ايك گروہ سامرى كے ساتھ تھا_عجلاً فقالوا هذا إلهكم و إله موسى فعل جمع ''قالوا'' بتاتا ہے كہ كچھ لوگ سامرى كے اردگرد جمع ہوكر اسكے مقصد كى ترويج كررہے تھے يا يہ كہ يہ لوگ پہلے سے ہى عملى اور فكرى لحاظ سے اسكے ہمراہ تھے او رجب بچھڑے كى نمائش كى گئي تو يہ اپنے باطل عقيدے كى ترويج كرنے لگے_

۸ _ بنى اسرائيل سنہرى بچھڑے كو معبود ماننے كيلئے مناسب فكر ركھتے تھے _فقالوا هذا إلهكم و إله موسي

بنى اسرائيل كو بت پرستى ميں مبتلا كرنے كيلئے بچھڑے كى شكل كا انتخاب اور پھر بنى اسرائيل كا جلدى سے گمراہ ہوجانا بالخصوص حضرت موسى (ع) كے معجزات كا مشاہدہ كرنے كے بعد مذكورہ مطلب كو بيان كررہا ہے_

۹ _ سامرى اور اسكے پيروكاروں نے جھوٹا دعوى كيا كہ حضرت موسي(ع) بچھڑے كو معبود كے طور پر متعارف كرانا بھول گئے _هذا إلهكم و إله موسي(ع) فنسي ''نسي'' كى فاعلى ضمير كے مرجع كے بارے ميں دو احتمال ہيں :۱_ يہ كہ موسى (ع) ہوں _

۱۶۷

۲ _ يہ كہ سامرى ہو مذكورہ مطلب پہلے احتمال كى بنا پر ہے

۱۰ _ سامري، اسكے حاميوں اور اسكے مبلغين نے بچھڑے كى پرستش كو حضرت موسى (ع) كے عقائد ميں سے بيان كيا _فقالوا هذا إلهكم و إله موسى فنسي

۱۱ _ منحرف عقائد گھڑنے اور ان كے انبيائ(ع) اور ان كے مكتب كى طرف منسوب كرنے كے مقابلے ميں ہوشيار رہنا ضرورى ہے_هذا الهكم و اله موسى فنسي سامرى اور اسكے پيروكاروں كے حضرت موسي(ع) پر افترا اور اپنے انحرافى عقائد كو حضرت موسي(ع) (ع) كے عقائد كے طور پر پيش كرنے كا تذكرہ كرنا سب كو بالخصوص اديان الہى كے پاسداروں كو خبردار كرنے كيلئے ہے كہ اہم ترين عقائد ميں انبياء الہى پر جھوٹ باندھنے كا خطرہ ہميشہ موجود ہے_

۱۲ _ معاشرے كى محبوب شخصيات سے استفادہ كرنا اور اپنے عقائد و افكار كو ان سے وابستہ ظاہر كرنا گمراہى كے راہبروں كے ہتھكنڈوں ميں سے ہے_فقالوا هذا اله موسي(ع) فنسي

۱۳ _ سامرى اور اسكے پيروكاروں كى نظر اور پروپيگنڈے ميں حضرت موسي(ع) ايك ايسے راہبر تھے جو حتى كہ سب سے اہم اعتقادى مسائل ميں بھى فراموشى كا شكار ہوجاتے تھے_فقالوا هذا الهكم و اله موسى فنسي

۱۴ _ سامري، خداتعالى كى نعمتوں كے مقابلے ميں ناشكرا اور اسكى خاص امداد اور لطف و كرم سے بے پروائي كرنے والا تھا _فنسي اگر ''نسي'' كى فاعلى ضمير كا مرجع سامرى ہو تو سامرى كے بھولنے سے مراد اس كا فرعونيوں سے نجات، من و سلوى كے نزول اور اس جيسے ديگر كاموں كے سلسلے ميں عنايات الہى كى پروانہ كرنا ہوگا _

آسمانى اديان:ان پر تہمت لگانے كا خطرہ ۱۱

انبيائ(ع) :ان پرتہمت لگانے كا خطرہ ۱۱

بنى اسرائيل:انكے بچھڑے كى ساخت كا مخفى ہونا ۲; انكى تاريخ ۱، ۲، ۶، ۷، ۸، ۹، ۱۰، ۱۳; انكى بچھڑا پرستى كا پيش خيمہ ۸; انكى كمزورى ۴; انكا عقيدہ ۷; انكى گمراہى كے عوامل ۵; انكے بچھڑا پرست لوگ ۷; انكے معبود ۶، ۹

معاشرہ:معاشرتى آسيب شناسى ۱۲

راہبر:گمراہى كے راہبروں كے ساتھ نمٹنے كى روش ۱۲

۱۶۸

سامري:اسكے پيروكاروں كى سوچ ۱۳; اسكى سوچ ۱۳; اسكے پيروكار ۷; اسكے پيروكاروں كى تہمتيں ۹، ۱۰; اسكى تہمتيں ۹، ۱۰; اسكے بچھڑے كى نوع ۱، ۲; اسكے بچھڑے كى نوعيت ۱; اسكے پيروكاروں كى دروغگوئي ۹; اسكى دروغ گوئي ۹; اسكى نفسيات شناسي۴; اسكى شخصيت ۴; اسكے بچھڑے كى آواز ۳; اسكى غفلت ۱۴; اس كى ناشكرى ۱۴; اس كا بچھڑا ۶; اسكى مجسمہ سازى ۱، ۴; اسكى مہارت ۴; اسكے بچھڑ كى آواز كا كردار ۵

بچھڑا:اس كامجسمہ ۱، ۳، ۶

محبوبين:ان سے سوء استفادہ كرنا ۱۲

موسي(ع) :ان پر فراموشى كى تہمت ۹، ۱۳; ان پر بچھڑا پرستى كى تہمت ۱۰

آیت ۸۹

( أَفَلَا يَرَوْنَ أَلَّا يَرْجِعُ إِلَيْهِمْ قَوْلاً وَلَا يَمْلِكُ لَهُمْ ضَرّاً وَلَا نَفْعاً )

كيا يہ لوگ اتنا بھى نہيں ديكھتے كہ يہ نہ انكى بات كا جواب دے سكتا ہے اور نہ ان كے كسى نقصان يا فائدہ كا اختيار ركھتا ہے (۸۹)

۱ _ سامرى كا بچھڑا ايك ايسا پيكر تھاجو جواب دينے سے عاجز اور نفع و نقصان پہچانے سے ناتوان تھا_ا فلا يرون إلا يرجع إليهم قولًا و لا يملك لهم ضرّا ولا نفع فصيح عربى ميں ''رجوع'' متعدى كے طور پر بھى استعمال ہوتاہے(مصباح)اور''لا يرجع ...'' يعنى بچھڑا كسى بات كو انكى طرف نہيں پلٹا تا اور انہيں جواب نہيں ديتا اور ''لايملك ...'' يعنى بچھڑا انكے نفع و نقصان كا مالك نہيں ہے_

۲ _ سوچ اور فكر، حقيقى معبود كو خيالى اور تصوراتى معبودوں سے پہچاننے كى بنياد ہے _ا فلا يرون ا لّا يرجع إليهم قول

لغت ميں ''رؤيت'' كے دو معنے ہيں ۱_ آنكھ كے ساتھ ديكھنا ۲_ علم و درك ''إلا يرجع'' ميں ''أن'' مخففہ كا وجود دوسرے معنى كے مراد ہونے كا قرينہ ہے _

۳ _ سامرى كے بچھڑے كے معبود ہونے كے اندھے اور غير منطقى عقيدے كى وجہ سے خداتعالى كى

۱۶۹

طرف سے بنى اسرائيل كى توبيخ اور سرزنش _ا فلا يرون ا لّا يرجع إليهم قول

''ا فلا يرون'' ميں استفہام انكار توبيخى كيلئے ہے

۴ _ جواب دينے اور خواہشات كو قبول كرنے كى قدرت اور نفع و ضرر پہچانے كى توان حقيقى معبود كى لازمى خصوصيات ميں سے ہے_ا فلا يرون ا لّا يرجع إليهم قولا و لا يملك لهم ضرّاً و لا نفعا

''قول كو واپس پلٹانا'' ايسا مفہوم ہے جو دعا قبول كرنے كو بھى شامل ہے_

۵ _ بنى اسرائيل كے بچھڑا پرست ،ايسے لوگ تھے جو جاہل اور فكر سے دور تھے _ا فلا يرون ا لّا يرجع إليهم قول

۶ _ سامرى كے بچھڑے سے نكلنے والى آواز ہر قسم كے لفظى مفہوم سے خالى تھى _له خوار ا فلا يرون ا لا يرجع إليهم قول

بنى اسرائيل:ان كے بچھڑا پرستوں كا بے عقل ہونا ۵; انكے بچھڑا پرستوں كى جہالت ۵; ان كى سرزنش ۳; انكا باطل عقيدہ ۳; ان كى بچھڑا پرستى ۳

تعقل:اسكے اثرات ۲

تقليد:اندھى تقليد ۳

خداتعالى :اسكى طرف سے سرزنش ۳; خداشناسى كے مبانى ۲

سامري:اسكے بچھڑے كى آواز ۶; اسكے بچھڑے كا عاجز ہونا ۱

حقيقى معبود:انكا نقصان پہچانا۴; ان كا نفع پہچانا ۴; انكى خصوصيات ۴

۱۷۰

آیت ۹۰

( وَلَقَدْ قَالَ لَهُمْ هَارُونُ مِن قَبْلُ يَا قَوْمِ إِنَّمَا فُتِنتُم بِهِ وَإِنَّ رَبَّكُمُ الرَّحْمَنُ فَاتَّبِعُونِي وَأَطِيعُوا أَمْرِي )

اورہارون نے ان لوگوں سے پہلے ہى كہہ ديا كہ اے قوم اس طرح تمھارا امتحان ليا گيا ہے اور تمھارا رب رحمان ہى ہے لہذا ميرا اتباع كرو اور ميرے امر كى اطاعت كرو(۹۰)

۱ _ حضرت موسى (ع) كى عدم موجودگى ميں بنى اسرائيل كا انحراف اور بچھڑا پرستى حضرت ہارون(ع) كے خبردار كرنے كے باوجود انجام پايا _و لقد قال لهم هرون من قبل

''من قبل''يعنى حضرت موسى (ع) كے ميقات سے واپس پلٹنے سے پہلے _

۲ _ سامرى كا بچھڑا بنى اسرائيل كى آزمائش كا ذريعہ تھا _إنما فتنتم به

۳ _ سامرى كے سنہرے بچھڑے كا آزمائش ہونا ان چيزوں ميں سے تھا كہ جن كے بارے ميں حضرت ہارون(ع) نے بنى اسرائيل كو خبردار كيا _و لقد قال لهم هرون إنما فتنتم به

۴ _ حضرت ہارون(ع) نے توحيد اور ربوبيت خدا كے ايمان پر ثابت قدم رہنے كو آزمائش الہى ميں كاميابى كي شرط قرار ديا_إنما فتنتم به وإن ربكم الرحمن

۵ _ حضرت ہارون(ع) نے بنى اسرائيل كے سامنے خدا تعالى كى وسيع رحمت كا تذكرہ كر كے انہيں شرك و ارتداد سے واپس پلٹنے كيلئے راستہ كھلا ہونے كى ياد دہانى كرائي_إنما فتنتم به وإن ربكم الرحمن

بنى اسرائيل كى نافرمانى اور بچھڑا پرستى كو مد نظر ركھتے ہوئے حضر ت ہارون(ع) كے كلام ميں خداتعالى كى ''الرحمان'' كے ساتھ توصيف، شرك سے توبہ كى صورت ميں ان كے ساتھ رحمت الہى كے وعدہ پر مشتمل ہے _

۶ _ منحرفين اور خطاكاروں كو رحمت اور مغفرت الہى سے اميدوار ركھنا ضرورى ہے _إنما فتنتم به وإن ربكم الرحمن

۷ _ خداوند رحمن (وسيع رحمت والا) سب لوگوں كا پروردگار ہے _وإن ربكم الرحمن

۸ _ رحمن ہونا، معبود ہونے كى لازمى خصوصيات ميں سے ہے _فقالوا هذا إلهكم وإله موسي وإن ربكم الرحمن

حضرت ہارون(ع) نے سامرى كے بچھڑے كے مبعود ہونے كو رد كرنے كے مقام ميں حقيقى معبود كى بعض خصوصيات بيان كى ہيں كہ جن ميں سے اس كا ''رحمان'' ہونا ہے _

۱۷۱

۹ _ رحمان ہونا، ربوبيت كى شرط ہے _وإن ربكم الرحمن

۱۰ _ حضرت موسي(ع) كى عدم موجودگى ميں حضرت ہارون(ع) بنى اسرائيل كى رہنمائي اور ہدايت كے ذمہ دار _

و لقد قال لهم هرون من قبل

۱۱ _ حضرت ہارون(ع) كى بنى اسرائيل كے بچھڑا پرستوں كے ساتھ گفتگو محبت آميز اور رہنمائي و ہدايت كے ہمراہ تھى _ياقوم إنما فتنتم به بنى اسرائيل كو ''اے ميرى قوم'' كہہ كر اپنى طرف منسوب كرنا محبت كا اظہار ہے اور سامرى كے ماجرا كو آزمائش كہہ كر اسكى وجوہات تلاش كرنا واضح اور رہنمائي كرنا ہے_

۱۲ _ گمراہ لوگوں كے ساتھ اظہار مہر و محبت انكى ہدايت كے سلسلے ميں ايك پسنديدہ روش ہے _ياقوم إنما فتنتم به وإن ربكم الرحمن

۱۳ _ گمراہ لوگوں كو فكرى اور نفسياتى طور پر آمادہ كرنا اور زمينہ ہموار كرنا انكى رہنمائي اور ہدايت ميں انبياء كى ايك روش _

ى قوم إنما فتنتم به وإن ربكم الرحمن

۱۴ _ حضرت موسى (ع) كى عدم موجودگى ميں حضرت ہارون(ع) بنى اسرائيل پر ولايت و اطاعت كا حق ركھتے تھے _

و لقد قال لهم هرون فاتبعونى و اطيعوا ا مري حضرت ہارون(ع) كا لوگوں كو اپنى پيروى اور اطاعت كا حكم دينا اس بات سے حكايت كرتا ہے كہ وہ بنى اسرائيل پر ولايت و اطاعت كا حق ركھتے تھے _

۱۵ _ حضرت موسى (ع) كى عدم موجودگى ميں حضرت ہارون(ع) نے لوگوں كو سامرى كى پيروى ترك كر كے اپنى اطاعت كا حكم ديا _لقد قال لهم هرون من قبل فاتبعونى و ا طيعوا ا مري

۱۶ _ حضرت موسي(ع) كى عدم موجودگى ميں حضرت ہارون(ع) نے رہنمائي، خبردار كرنا، امربالمعروف اور نہى از منكر كا فريضہ پورى طرح انجام ديا _و لقد قال لهم هرون من قبل ياقوم فاتبعونى و ا طيعوا ا مري

۱۷ _بچھڑا پرستى كا مقابلہ كرنے اور بنى اسرائيل ميں توحيد كو زندہ كرنے كيلئے حضرت ہارون(ع) كے پاس مشخص پروگرام تھا _ا طيعوا ا مري

۱۷۲

''إتبعوني'' كے حكم كے بعد حضرت ہارون(ع) كا بنى اسرائيل كو اپنے اوامر كى اطاعت كا حكم دينا اس بات كى حكايت كرتا ہے كہ انہوں نے بنى اسرائيل كيلئے انكى طرف سے اپنى پيروى كى صورت ميں اوامر كا انتظام كر ركھا تھا _

۱۸ _ فتنوں ميں محفوظ رہنے كيلئے انبياء الہى كے اوامر اور ہدايات كى اطاعت اورپيروى كرنا ضرورى ہے _

إنما فتنتم به فاتبعونى و ا طيعوا ا مري

اسما و صفات:رحمان ۷

اطاعت:انبيا كى اطاعت كے اثرات ۱۸; ہاورن (ع) كى اطاعت ۱۴، ۱۵

آزمائش:اس كا ذريعہ ۲; سامرى كے بچھڑے كے ذريعے آزمائش ۳

اميدوار ہونا:بخشش كا اميدوار ہونا ۶; رحمت خدا كا اميدوار ہونا ۶

انبيائ(ع) :انكى سيرت ۱۳; ان كا ہدايت كرنا ۱۳

ريمان:توحيد پر ايمان ۴; ربوبيت خدا پر ايمان ۴

بنى اسرائيل:انكے امتحان كا ذريعہ ۲; ان ميں توحيد كا احيا ۲; انكو انذار ۱; يہ موسي(ع) كى عدم موجودگى ميں ۱۰; انكى تاريخ ۱، ۳، ۵، ۱۰، ۱۱، ۱۴، ۱۵; انكو نصيحت ۵; انكو دعوت ۱۵; ان كے بچھڑا پرستوں كے ساتھ نمٹنے كى روش۱۱; انكى گمراہى ۱; انكى بچھڑا پرستى ۱; ان پر ولايت ۱۴; انكى ہدايت ۱۰، ۱۱; انكو خبردار كرنا ۳

ياددہانى كرانا:رحمت خدا كى ياد دہانى كرانا ۵

توبہ:مرتد ہونے سے توبہ ۵; شرك سے توبہ ۵

خداتعالى :اسكى ربوبيت ۷; اسكى رحمانيت ۷; اسكى آزمائشوں ميں كاميابى كے شرائط ۴

ربوبيت:اس ميں رحمان ہونا۹; اسكے شرائط ۹

سامري:اس سے منہ موڑنا ۱۵; اسكے بچھڑے كا كردار ۲

گمراہ لوگ:انكو اميد دلانے كى اہميت ۶; انكى محبت ۱۲

گمراہي:اسكے موانع ۱۸//بچھڑا پرستي:اس كا مقابلہ ۱۷

سچے معبود:ان كا رحمن ہونا ۸; انكى خصوصيات ۸

ہارون(ع) :

۱۷۳

ان كا امر بالمعروف ۱۶; انكا ڈرانا ۱، ۱۶; انكى منصوبہ بندى ۱۷; انكى تبليغ ۱۰; انكى نصيحتيں ۵; انكى دعوت ۱۵; انكى تبليغ كى روش ۱۷; انكى شرك دشمنى ۱۷; انكا عقيدہ ۴; انكا شرعى ذمہ دارى پر عمل كرنا ۱۶; انكا قصہ ۱۴، ۱۵، ۱۶، ۱۷; انكى ذمہ دارى ۱۰; انكا مقام و مرتبہ ۱۴; انكى مہربانى ۱۱; ان كا نہى از منكر ۱۶; انكى ولايت ۱۴;انكى مينيجمنٹ كى خصوصيات ۱۷; يہ حضرت موسى (ع) كى عدم موجودگى ميں ۱۴، ۱۶; انكا ہدايت كرنا ۱۱، ۱۶; انكا خبردار كرنا ۳

ہدايت:اسكے لئے مقدمات فراہم كرنا ۱۳; اسكى روش ۱۲، ۱۳

آیت ۹۱

( قَالُوا لَن نَّبْرَحَ عَلَيْهِ عَاكِفِينَ حَتَّى يَرْجِعَ إِلَيْنَا مُوسَى )

ان لوگوں نے كہا كہ ہم اس كے گرد جمع رہيں گے يہاں تك كہ موسى ہمارے درميان واپس آجائيں (۹۱)

۱ _ بنى اسرائيل،حضرت ہارون(ع) كے احكام كو قبول كرنے اور بچھڑا پرستى سے توبہ كرنے كيلئے تيار نہ ہوئے _

فاتبعونى و ا طيعوا ا مري قالوا لن نبرح عليه عكفين ''لن نبرح'' يعنى''لا نزال'' ( ثابت قدم رہيں گے) ''عاكف'' اسے كہتے ہيں جو كسى چيز كى طرف توجہ كرے اور اپنے آپ كو اسكى تعظيم پر مجبور كرے (مفردات راغب)

۲ _ بنى اسرائيل كے بچھڑا پرستوں كى طرف سے حضرت موسى (ع) كے ميقات سے واپس آنے اور ذمہ دارى كے تعين تك سامرى كے بچھڑے كى پرستش كا فيصلہ_لن نبرح عليه عكفين حتى يرجع إلينا موسى

۳ _ بنى اسرائيل نے سامرى كے بچھڑے كے ٹھہرنے كى جگہ كو اپنى عبادت گاہ بناليا اور بہت سارى گھڑياں اسكى عبادت كيلئے مختص كرديں _لن نبرح عليه عكفين تسلسل اور دوام ''عكفين'' كے لفظ سے حاصل ہوتا ہے _

۴ _ بنى اسرائيل شخصيت پرست لوگ تھے نہ حقيقت طلب _لن نبرح حتى يرجع الينا موسي

بنى اسرائيل كے بچھڑا پرستوں نے حضرت ہارون(ع) كى باتوں ميں غور كرنے اور حقيقت كو پہچاننے كى بجائے انہيں صرف يہ جواب ديا كہ انہوں نے حضرت موسى (ع) كے ميقات سے واپس پلٹنے كو اپنے عقائد ميں نظر ثانى كى شرط قرار ديا ہے جبكہ معقول يہ تھا كہ وہ اپنے كام

۱۷۴

اور حضرت ہارون(ع) كى باتوں ميں صحيح طور پر غور و فكر كرتے _

۵ _ بنى اسرائيل كى نظر ميں حضرت موسى (ع) كى شخصيت حضرت ہارون(ع) كى شخصيت سے زيادہ برجستہ تھى _

ولقد قال لهم هرون قالوا لن نبرح عليه عكفين حتى يرجع الينا موسى

حضرت ہارون(ع) كى باتوں سے بے اعتنائي اورحضرت موسي(ع) كے لوٹنے كو مؤثر سمجھنا بنى اسرائيل كى نظر ميں ان دو كى شخصيت كے مختلف ہونے سے حكايت كرتا ہے_

بنى اسرائيل:انكى سوچ۵; انكى تاريخ ۱، ۲، ۳; انكا حق كو قبول نہ كرنا ۴; انكى شخصيت پرستى ۴; انكى صفات ۴; انكى عبادت گاہ ۳; انكى نافرمانى ۱; انكى بچھڑاپرستى ۱; انكى ہٹ دھرمى ۱، ۲; انكى بچھڑا پرستى كى مدت ۲; انكى بچھراپرستى كى جگہ ۳

نافرماني:حضرت ہاورن (ع) كى نافرمانى ۱

موسى (ع) :انكى ہارون(ع) پر برترى ۵; انكا قصہ۲

ہارون(ع) :انكا قصہ ۱

آیت ۹۲

( قَالَ يَا هَارُونُ مَا مَنَعَكَ إِذْ رَأَيْتَهُمْ ضَلُّوا )

موسى نے ہارون سے خطاب كر كے كہا كہ جب تم نے ديكھ لياتھا كہ يہ قوم گمراہ ہوگئي ہے تو تمھيں كون سى بات آڑے آگئي تھى (۹۲)

۱ _ حضرت موسى (ع) نے ميقات سے واپس پلٹنے كے بعد حضرت ہارون(ع) سے انكے بنى اسرائيل كے بچھڑا پرستوں كے مقابلے ميں رد عمل كے سلسلے ميں بازپرس اور توبيخ كى _ياهرون ما منعك اذ رأيتهم ضلّو

۲ _ بنى اسرائيل كو گمراہى اور انحراف سے روكنا حضرت موسي(ع) كى عدم موجودگى ميں حضرت ہارون(ع) كى ذمہ دارى تھي_ياهرون ما منعك إذ رأيتهم ضلّو

۳ _ حضرت موسي(ع) نے بنى اسرائيل كے انحراف اور ان كے بچھڑا پرستى كى طرف مائل ہو

۱۷۵

نے ميں اپنے بھائي ہارون(ع) كو قصور وار ٹھہرايا _قال ياهرون ما منعك إذ رأيتهم ضلّوا

''ما منعك ...'' استفہام انكارى ہے اور ہارون(ع) پر حضرت موسي(ع) كے اعتراض كو بيان كر رہا ہے_

۴ _ دينى رہنما، رشتہ دارى كى بنا پر قصور واروں كا مواخذہ كرنے سے چشم پوشى نہ كريں _قال ياهرون ما منعك

۵ _ دينى معاشروں كے ذمہ دار لوگوں كيلئے ضرورى ہے كہ وہ ولوگوں كے اعتقادى انحرافات كے سلسلے ميں حساس ہوں اور اپنے رد عمل كا اظہار كريں _ياهرون ما منعك

۶ _ بنى اسرائيل كو انحراف اور گمراہى سے روكنا حضرت موسي(ع) كى عدم موجودگى ميں حضرت ہارون(ع) كى ذمہ دارى تھي_ياهرون ما منعك اذ رايتهم ضلوا

بنى اسرائيل:انكى تاريخ ۱، ۲، ۳، ۶; انكى گمراہى كے عوامل ۳; انكى بچھڑا پرستى كے عوامل ۳; انكى بچھڑا پرستى ۱; انكى گمراہى كو روكنا ۲، ۶

دينى راہنما:ان كے رشتہ داروں كى سزا ۴; انكى ذمہ دارى ۴، ۵

گمراہي:اسكو روكنا۵

موسى (ع) :انكى سوچ ۳، انكى طرف سے سرزنش ۱; انكا قصہ ۱، ۳

ہارون(ع) :انكا قصہ ۱، ۳، ۶; ان كا مؤاخذہ ۱; انكى ذمہ دارى ۲، ۶; انكا نقش وكردار ۳; يہ موسي(ع) كى عدم موجودگى ميں ۲، ۶

آیت ۹۳

( أَلَّا تَتَّبِعَنِ أَفَعَصَيْتَ أَمْرِي )

كہ تم نے ميرا اتباع نہيں كيا كيا تم نے ميرے امر كى مخالفت كى ہے (۹۳)

۱ _ انبياء (ع) اور ان كے جانشين اپنى توان كى حد تك لوگوں كو گمراہ اور منحرف ہونے سے بچانے كے ذمہ دار ہيں _

ما منعك إذ رأيتهم ضلّوا ا لّا تَتّبعن ہارون(ع) كى طرف سے موسي(ع) كے اتباع سے مراد كہ جسے ''ما منعك الّا تتبعن'' كا جملہ بيان كررہا ہے_ يہ ہے كہ حضرت ہارون(ع) كيلئے ضرورى تھا كہ حضرت كى عدم موجودگى ميں ان جيسا عمل كرتے اور انحراف كے سلسلے ميں لوگوں كے ساتھ سختى سے پيش آنے اور يا يہ كہ حضرت موسي(ع) كى ہدايات اور نصيحتوں (اصلح و لا تتبع سبيل المفسدين) لانے بعض نے كہا ہے_

۱۷۶

۲ _ حضرت موسي(ع) كى عدم موجودگى ميں حضرت ہارون(ع) بنى اسرائيل كى ہدايت اور راہنمائي كے ذمہ دار تھے_

ى هرون ما منعك الّا تتّبعن

۳ _ حضرت موسى (ع) نے اپنى عدم موجودگى ميں ہاورن كيلئے ان كى ذمہ داريوں كو معين كرديا تھا _ما منعك الا تتبعن افعصيت امري ''الّا تتبعن'' ميں ''لا'' اس نفى كى تاكيد كيلئے ہے جو ''منعك'' سے حاصل ہو رہى ہے اور در اصل مراديہ تھى ''ما منعك ان تتبعن'' بعض نے كہا ہے ''لا'' زائدہ نہيں ہے بلكہ مراد يہ ہے كہ ''ما الذى صدك و حملك على الّا تتبعن'' يعنى كس چيز نے تجھے روكا اور ميرى پيروى نہ كرنے پر مجبور كيا (مفردات راغب)

۴ _ بنى اسرائيل كے انحراف كے مقابلے ميں خاموش رہنے اور كسى رد عمل كے اظہار نہ كرنے كى وجہ سے حضرت ہارون(ع) پر حضرت موسي(ع) كے اوامر كى مخالفت كا الزام _ما منعك افعصيت امري ''افعصيت ...'' حضرت موسى (ع) كا حضرت ہارون(ع) كو خطاب ہے آيت كے ظاہر كوديكھ كر يوں لگتا ہے كہ حضرت موسي(ع) كى طرف سے حضرت ہارون كا ان كے فرامين كى مخالفت كرنا كم از كم ايك الزام كى صورت ميں سامنے آيا تھا _

۵ _ لوگوں كى گمراہى اور انحراف كے مقابلے ميں ذمہ دار لوگوں كا خاموش رہنا اور كسى رد عمل كا اظہار نہ كرنا توبيخ اور بازپرس كے مقابل ہے_مامنعك اذ رايتهم ضلّوا افعصيت امري

۶ _ذمہ دار لوگ حتى كہ معاشرے كے بالاترين مقام پر فائز حضرات كيلئے ضرورى ہے كہ وہ اپنى ذمہ دارى كے دائرے ميں رہتے ہوئے انحرافات كے مقابلے ميں جواب دہ ہوں _ما منعك الّا تتبعن افعصيت امري

حضرت موسى (ع) نے ميقات سے واپس آنے كے بعد حضرت ہارون(ع) سے انكى ذمہ دارى كے سلسلے ميں بازپرس اور توبيخ كى اور بچھڑاپرستوں كے ساتھ انكے نمٹنے كى روش اور اسكے علل و اسباب كے بارے ميں جستجو كي_ اس چيز كے پيش نظر كہ حضرت ہارون(ع) پيغمبر تھے اور اس كے باوجود ان سے بازپرس ہوئي اس سے ذمہ دار لوگوں كى خصوصى ذمہ دارى اور اسكے مقابلے ميں لازمى طور پر ان كا جوابدہ ہونا واضح ہوتا ہے_

۷ _ ہارون(ع) مقام نبوت كے حامل ہونے كے باوجود حضرت موسي(ع) اور ان كے فرامين كى پيروى كرنے پر مأمور تھے _ما منعك الّا تتبعن افعصيت امري ''ألّا تتبعن'' حضرت ہارون(ع) كو خطاب اور اس نكتہ پر دال ہے كہ آپ نبى ہونے كے باوجود حضرت موسى (ع) كے فرامين كى پيروى كرنے پر مأمور تھے_

۸ _ معاشرے ميں ايك راہبر كى پيروى ہونا ضرور ى ہےما منعك ا لا تتبعن ا فعصيت ا مري

۱۷۷

۹ _ الہى ذمہ داريوں ميں كلمہ ''امر'' وجوب ميں ظہور ركھتا ہے _ا فعصيت ا مري امر كى مخالفت پر عصيان كا صدق كرنا مذكورہ نكتے پر دلالت كر رہا ہے _

اطاعت:موسى (ع) كى اطاعت ۷; راہبر كى اطاعت كى اہميت ۸

امر:صيغہ امر كا معنى ۹/انبياء (ع) :انكى ذمہ دراى كا دائرہ ۱; انكے جانشينوں كى ذمہ دارى كا دائرہ ۱

بنى اسرائيل:انكى تاريخ ۲، ۳، ۴; انكى گمراہى كے عوامل ۴; انكى ہدايت ۲

راہبر:اسكے جوابدہ ہونے كى اہميت ۶; ان كے رد عمل ظاہر نہ كرنے كى سرزنش ۵; انكى ذمہ دارى ۶

نافرماني:حضرت موسى (ع) كى نافرمانى ۴/لوگ:لوگوں كى ہدايت كى اہميت ۱; لوگوں كو گمراہى سے بچانا ۱

موسي(ع) :ان كے اوامر ۳، ۴; انكا قصہ ۲، ۳، ۴

ہارون(ع) :انكى شرعى ذمہ دارى ۷; انكى راہبرى ۲; انكا قصہ ۲، ۳، ۴; انكى ذمہ دارى كا دائرہ ۳; انكى ذمہ دارى ۲; انكا مقام و مرتبہ ۷; انكى نبوت ۷; انكا كردار و تاثير ۴; يہ موسي(ع) كى عدم موجودگى ميں ۲، ۳

آیت ۹۴

( قَالَ يَا ابْنَ أُمَّ لَا تَأْخُذْ بِلِحْيَتِي وَلَا بِرَأْسِي إِنِّي خَشِيتُ أَن تَقُولَ فَرَّقْتَ بَيْنَ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَلَمْ تَرْقُبْ قَوْلِي )

ہارون نے كہ كہ بھيّا آپ ميرى ڈاڑھى اور ميرا سر نہ پكڑيں مجھے تو يہ خوف تھا كہ كہيں آپ يہ نہ كہيں كہ تم نے بنى اسرائيل ميں اختلاف پيدا كرديا ہے اور ميرى بات كا انتظار نہيں كيا ہے (۹۴)

۱ _ حضرت موسى (ع) ميقات سے واپس آنے كے بعد بنى اسرائيل كى بچھڑا پرستى كو ديكھ كر سخت ناراض ہوئے_يبنئوم لا تا خذ بلحيتى و لا برأسي ہارون(ع) كا سر اور داڑھى پكڑنا بنى اسرائيل كے انحراف كے سلسلے ميں حضرت موسى (ع) كے سخت غصے كى علامت ہے _

۲ _ حضرت موسى (ع) نے حضرت ہارون(ع) كا سر اور داڑھى پكڑ كر ان سے اپنى عدم موجودگى ميں بنى اسرائيل كے بچھڑا پرست ہونے كے سلسلے ميں بازپرس كى _ياهرون ما منعك لا تأخذ بلحيتى ولا برأسي

۳ _ حضرت موسى (ع) كى نظر ميں حضرت ہارون (ع) بنى اسرائيل كے گمراہ ہونے اور ان كى بچھڑاپرستى كے مقابلے ميں ذمہ دار تھے_ياهرون ما منعك لاتأخذ بلحيتى ولا برأسي

۴ _ انحرافات اور گمراہى كو ديكھ كر غضب ناك ہونا قابل تعريف ہے _لا تأخذ بلحيتى و لا برأسي

۱۷۸

حضرت موسي(ع) كے غضب كے ماجرا كو جو انكے اپنے بھائي كا سر اور داڑھى كے بال پكڑنے ميں كى صورت ميں ظاہر ہوا انكى مذمت كے بغير نقل كرنا دينى امور ميں اس حالت كے پسنديدہ ہونے پر دلالت كرتا ہے_

۵ _ حضرت ہارون(ع) نے حضرت موسى (ع) كا غضب ديكھ كر اسے ٹھنڈا كرنے، ان كى محبت حاصل كرنے اور ان كے جذبات كو جگانے كى كوشش كى _حضرت موسى (ع) كو'' ياابن ام'' كہہ كر پكارنا اس نكتے كو بيان كررہا ہے كہ حضرت ہارون(ع) نے موسى (ع) كے جذبات كو بھڑكا كر ان كا غصہ ٹھنڈا كرنے كى كوشش كى اور اسكے بعد اپنى وضاحت پيش كي_ كلمہ ''ام'' كے مفتوح ہونے كے بارے ميں متعدد توجيہات پيش كى گئي ہيں ان ميں سے ايك يہ ہے كہ يہ اصل ميں ''يابن اماہ'' تھا اور تخفيف كى وجہ سے اس طرح ہوگيا _

۶ _ انبياء كى مختلف روشوں ميں جذبات كى تأثير _قال يبنؤم

۷ _ موسي(ع) اور ہارون(ع) دونوں مادرى بھائي تھے _*قال ياين اُمَّ

حضرت موسى (ع) كا حضرت ہارون(ع) كى طرف سے ''يابن ام'' (ماں كا بيٹا) كى تعبير كے ساتھ مخاطب قرار پانا ممكن ہے اس وجہ سے ہو كہ موسى (ع) و ہارون(ع) دونوں مادرى بھائي تھے اور يہ بھى ممكن ہے كہ كلمہ ''ماں ''كا تذكرہ صرف حضرت موسى (ع) كے احساسات اور جذبات كو جذب كرنے كيلئے ہو _

۸ _ حضرت ہارون(ع) نے بچھڑا پرستوں كے ساتھ اپنے سلوك كى علل و اسباب كى وضاحت كرنے كيلئے حضرت موسي(ع) سے مہلت طلب كى _لا تأخذ بلحيتى و لا برأسى إنّى خشيت

۹ _ ملزمين كو اپنے دفاع كا موقع دينا ضرورى ہے _لا تأخذ بلحيتى و لا برأسى إنى خشيت

۱۰ _ انبياء كا علم محدود ہے _ما منعك لا تأخذ بلحيتى إنى خشيت

۱۱ _ حضرت ہارون(ع) كى طرف سے بچھڑا پرستوں كا مقابلہ كرنے كيلئے عملى اور سنجيدہ قدم اٹھانے كى صورت ميں بنى اسرائيل كو انتشار و افتراق كا خطرہ _إنى خشيت ا ن تقول فرّقت بين بنى إسرائيل

۱۲ _ وحدت كو بچانا اور افتراق كو روكنا بنى اسرائيل كے بچھڑا پرستوں كے خلاف عملى اقدام نہ كرنے كے سلسلے ميں حضرت ہارون (ع) كا عذر _إنى خشيت ا ن تقول فرّقت بين بنى إسرائيل

۱۳ _ بنى اسرائيل كى وحدت اور يكجہتى كى حفاظت كرنا حضرت موسي(ع) كى حضرت ہارون(ع) كو ايك سفارش _فرقت بين بنى إسرائيل و لم ترقب قولي ''ترقب'' كا معنى ہے ''تحفظ'' اور ''لم ترقب''كے ''فرقّت'' پر عطف كو مد نظر ركھتے ہوئے

۱۷۹

جملہ'' انى خشيت ...'' كا معنى يہ ہے كہ ميں اس چيز سے پريشان تھا كہ مبادا آپ مجھے كہيں تو نے بنى اسرائيل كو متفرق كرديا ہے اور ميرى بات كا خيال نہيں ركھا اور حضرت ہارون(ع) كا يہ كہنا اس بات پر دلالت كرتا ہے كہ حضرت موسي(ع) نے ميقات پر جانے سے پہلے بنى اسرائيل كے اتحاد كو بچانے كے سلسلے ميں انہيں ضرورى ہدايات دے دى تھيں _

۱۴ _ معاشرے كى وحدت كى حفاظت كرنے اور اسے انتشار و افتراق سے بچانے كى مصلحت اسكے افراد كے ايك گروہ كے انحراف كے خطرے سے زيادہ ہے اگر از سر نو انكى ہدايت كا امكان باقى رھے_إنى خشيت ا ن تقول فرقت بين بنى إسرائيل حضرت ہارون (ع) نے ''حتى يرجع إلينا موسى (ع) '' كا جملہ سننے كے بعد بچھڑا پرستوں كى از سر نو ہدايت كو منتفى نہ سمجھا اور مؤمنين اور كفاركو با ہم دست و گريبان كرنے اور بنى اسرائيل كى وحدت كى حفاظت كرنے ميں سے دوسرى صورت كا انتخاب كيا حضرت موسى (ع) كى طرف سے اس انتخاب كاقبول ہونا اور قرآن كا اس پر كوئي تنقيد نہ كرنا ايسے حالات ميں ايسے موقف كے صحيح ہونے كى علامت ہے_

۱۵ _ عملى ميدان ميں تمام معياروں كى طرف توجہ كرنا، انكى درجہ بندى كرنا اور اہم و مہم كو مشخص كرنا ضرورى ہے_ما منعك إنى خشيت ا ن تقول فرقت بين بنى إسرائيل حضرت ہارون(ع) نے حضرت موسي(ع) كے فرامين پر عمل كے سلسلے ميں صرف ايك جہت كو مد نظر نہيں ركھا تھا بلكہ انہوں نے تمام معياروں كا آپس ميں مقابلہ كرنے كے بعد ايك راستے كا انتخاب كيا تھا ان كا يہ عمل سب كيلئے نمونہ ہے كہ ميدان عمل ميں صرف ايك جہت كو نظر ميں نہ ركھيں بلكہ سب جہات كو مد نظر ركھيں اور معياروں كى جانچ پڑتال كرنے كے بعد دينى احكام كو ايك مجموعہ كى صورت ميں ديكھيں _

۱۶ _ فرائض پر عمل كے سلسلے ميں ايك جہت كو مد نظر ركھنے اور جمود سے پرہيز كرنا ضرورى ہے_

ما منعك إنى خشيت ا ن تقول فرقت بين بنى إسرائيل

۱۷ _ بچھڑا پرست لوگ حضرت موسي(ع) كى عدم موجودگى ميں بنى اسرائيل كى عمومى صورتحال پر غالب تھے _

إنى خشيت ا ن تقول فرقت بين بنى إسرائيل

بنى اسرائيل كے اتحاد و يگانگت كا منظر ان كے ارتداد كے زمانے ميں ، مرتد اور بچھڑا پرستوں كى حكمرانى كو بيان كررہا ہے_

۱۸ _ حضرت ہارون (ع) حضرت موسي(ع) كى عدم موجودگى اور ان كے ميقات پر رہنے كى پورى مدت ميں ان كے فرامين كو دقيق طور پر عملى كرنا چاہتے تھے اور ان كے معياروں سے ہٹنا نہيں چاہتے تھے_إنى خشيت ا ن تقول و لم ترقب قولي

۱۹ _ حضرت ہارون(ع) كى نظر ميں حضرت موسى (ع) معاشرے كے انتشار و افتراق كے مقابلے ميں ايك حساس اور

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750