تفسير راہنما جلد ۱۱

تفسير راہنما 10%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 750

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 750 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 219016 / ڈاؤنلوڈ: 3020
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱۱

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

تفسير راہنما جلد یازدہم

قرآنى موضوعات اور مفاہيم كے بارے ميں ايك جديد روش

مؤلف: آيت الله ہاشمى رفسنجاني اور

مركز فرہنگ و معارف قرآن كے محققين كى ايك جماعت

۳

۲۰-سورہ طہ

آیت ۱

( بسم اللّه الرحمن الرحیم )

( طه )

بنام خدائے رحمان و رحيم

طہ (۱)

۱ _'' عن جعفر بن محمد(ع) ...قال: و ا مّا ''طه'' قاسم من ا سماء النبي(ص) و معناه: ياطالب الحق الهادى اليه; امام صادق (ع) سے روايت ہے كہ آپ(ص) نے فرمايا: ''طہ'' پيغمبر(ص) كے ناموں ميں سے ايك نام ہے اور اس كا معنى ہے: اے طالب حق كہ جو حق كى طرف ہدايت كرنے والا ہے_(۱)

۲ _'' قال جعفر بن محمد الصادق (ع) : قوله عزّوجل: ''طه'' ا ى طهارة ا هل بيت محمد (صلوات الله عليهم) من الرّجس; امام صادق(ع) سے روايت ہے كہ كلام خدا ميں ''طہ'' اہل بيت پيغمبر (ص) كى رجس اور پليدى سے طہارت كى طرف اشارہ ہے_(۲)

۳ _'' عن جعفر بن محمّد (ع) قال: إذا ا تيت مشهد ا مير المؤمنين (ع) قل: السّلام عليك يا طه ; امام صادق(ع) سے روايت ہے كہ (آپ نے محمد بن مسلم كو فرمايا) جب بھى تم حضرت اميرالمؤمنين (ع) كى زيار ت كيلئے جائو تو يہ كہو''السلام عليك يا طه'' (۳)

اہل بيت (ع) :انكى طہارت ۲

حروف مقطعات :۱، ۲، ۳

روايت :۱، ۲، ۳

____________________

۱ ) معانى الاخبار ص ۲۲ ح ۱ نورالثقلين ج ۳ ص ۳۶۷ح۸_

۲ ) تاويل الآيات الظاہرة ص ۳۰۴_ تجارالانوار ج ۲۵ ص ۲۰۹ح ۲۲_

۳ ) بحار الانوار ج ۹۷ ص ۳۷۵ ح ۹_

۴

طہ:اس سے مراد ۱، ۲،۳

محمد(ص) :آپ(ص) كے نام ۱

آیت ۲

( مَا أَنزَلْنَا عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لِتَشْقَى )

ہم نے آپ پر قرآن اس لئے نہيں نازل كيا ہے كہ آپ اپنے كو زحمت ميں ڈال ديں (۲)

۱ _ خدا تعالى نے پيغمبر اكرم(ص) پر قرآن نازل فرمايا _ما ا نزلنا عليك القر ان لشتقى

۲ _ پيغمبر اكرم(ص) پر قرآن كانزول آپ(ص) كے لئے بھارى ذمہ دارى كے احساس كے ہمراہ تھا _ما أنزلنا عليك القر ان لتشقى آيت كريمہ كے شفقت بھرے لب و لہجے سے لگتا ہے كہ نزول قرآن سے پيغمبر اكرم(ص) نے بھارى ذمہ دارى كا احساس كيا اور اسے انجام دينے كيلئے آپ(ص) نے خود كو بہت رنج و الم ميں مبتلا كر ركھا تھا تا كہ ہر ممكن طريقے سے لوگوں كو ہدايت كر پائيں _

۳ _ اپنى رسالت كو انجام دينے كيلئے پيغمبر اكرم(ص) كى كوشش ،اور سنجيدگي، اورسنگين اورطاقت آزما تھى _

ما ا نزلنا عليك القر ان لتشقى ''شقاوت'' كا معنى ہے سختى اور دشوارى (قاموس) خدا تعالى كا پيغمبر اكرم(ص) كو سختى نہ جھيلنے اور اپنے آپ كو زحمت ميں نہ ڈالنے كى نصيحت آپ(ص) كى طرف سے لوگوں كى ہدايت كيلئے طاقت آزما كوشش كى علامت ہے _

۴ _ خدا تعالى نے پيغمبر اكرم(ص) كو قرآن كو ابلاغ كيلئے رنج و الم اور زحمت كا راستہ اختيار كرنے كا حكم نہيں ديا _

۵

ما أنزلنا عليك القر ان لتشقى

۵ _ خدا تعالى بعض لوگوں كے كفر اور ہٹ دھرمى كى وجہ سے انبياء كا مواخذہ نہيں كريگا _ما ا نزلنا عليك القر ان لتشقى

۶ _ دينى راہنماؤں كى يہ ذمہ د ارى نہيں ہے كہ وہ كفر پر ڈٹے ہوئے لوگوں كى ہدايت كيلئے اصرار كريں _

ما ا نزلنا عليك القر ان لتشقى

۷ _ دينى ذمہ داريوں كى انجام دہى ميں رنج و مشقت كو برداشت كرنا ضرورى نہيں ہے _ما ا نزلنا عليك القر ان لتشقى

''لتشقى '' كا اطلاق شرعى ذمہ داريوں كى انجام دہى ميں مشقت كو بھى شامل ہے اگر چہ آيت كريمہ كا مورد دوسروں تك معارف قرآن پہچانے ميں مشقت ہے_

انبياء:انكى ذمہ دارى كا دائرہ ۵

شرعى ذمہ داري:اس كا نظام ۷; سخت شرعى ذمہ دارى كى نفى ۷

خداتعالى :اسكے ا فعال ۱

دينى راہنما:انكى ذمہ دارى كا دائرہ ۶

قرآن كريم:اسكے نزول كے اثرات ۲; اس كا سرچشمہ ۱; اس كا وحى ہونا ۱

قواعد فقہيہ:قاعدہ نفى عسرو حرج ۷

كفر:اسكى سزا ۵

سزا :اس كا شخصى ہونا ۵

ہدايت:اس پر اصرار ۶

۶

آیت ۳

( إِلَّا تَذْكِرَةً لِّمَن يَخْشَى )

يہ تو ان لوگوں كى ياد دہانى كے لئے ہے جن كے دلوں ميں خوف خدا ہے (۳)

۱ _ پيغمبر اكرم (ص) پر قرآن مجيد نازل كرنے كے مقصد لوگوں كو خبردار كرنا،ان متوجہ كرنا اور انہيں نصيحت كرناہے_

ما ا نزلنا إلا تذكرة لمن يخشى

''إلا تذكرة'' ميں استثنا منقطع اور ''تذكرة'' مفعول لہ ہے يعنى'' لكن ا نزلنا ه لتذكرة'' ''تذكرة'' معنى راہنمائي'' سے وسيع تر ہے اور يہ ہر اس چيز كو شامل ہے جو مورد توجہ ہو (مفردات راغب) اور يہ ''وعظ'' كے معنى ميں بھى آتاہے (مصباح قاموس)

۲ _ پيغمبر اكرم(ص) كى ذمہ دارى قرآن مجيد كا ابلاغ اور لوگوں كو ياد دہانى كراناہے_ اور وہ اس كے نتيجہ كے ذمہدار نہيں ہيں _ما أنزلنا عليك إلا تذكرة لمن يخشى

۳ _ قرآن مجيد كى تعليمات، فقط ان لوگوں كے ليے مؤثر ہيں كہ جن كے دلوں ميں خداوند عالم كى عظمت نے خوف بٹھايا ہو_إلا تذكرةً لمن يخشى

''خشية'' ايسا خوف كہ جو عظمت كے احساس كے ساتھ مخلوط ہو ( مفردات غلط) اوريہ (يخشى ) كے متعلق ہے اور اس پر قرينہ بعد والى آيت ہے كہ جو قرآن كريم كو نازل كرنے و الى ذات الہى كو عظمت كو بيان كررہى ہے_

۴ _قرآن مجيد كى تعليم ، خوف الہى ركھنے والوں كے ليے آسان ہے اور وہ ہر قسم كے رنج و مشقت كو

۷

برداشت كرنے سے بے نياز ہے_ما ا نزلنا لتشقى إلا تذكرةً لمن يخشى

۵ _ قرآنى پيغامات سے بے اعتنائي كرنے والوں كا انجام خوف ناك اور ہولناك ہے_إلا تذكرةً لمن يخشى

خداوند عالم سے خوف اور خشيت سے مراد يہ ہے كہ قرآنى تذكرات كى مخالفت كى صورت ميں اس كى طرف سے سزا اور عذاب ملتاہے_

۶ _قرآنى تعليمات كى مخالفت كے انجام سے خوف زدہ ہونا ضرورى ہے_إلا تذكرة ً لمن يخشى

۷ _قرآنى پيغام، انسانى فطرت اور اس كو بيدار كرنے كے ساتھ سازگار ہے_إلا تذكرةً لمن يخشى

''تذكرة'' كا مطلب جيسا كہ ''لسان العرب'' ميں ذكر ہوا ہےبھولى ہوئي چيزوں كى ياد دہانى ہے قرآن مجيد كى ياد دہانى كرانے سے مراد يہ ہے كہ وہ انسانوں كو اس چيز كى ياد دہانى كراتاہے كے جو چيز اس كى فطرت ميں مضمر ہے اور وہ اس سے غافل ہے_

انسان:انسانوں كو متوجہ كرنے كى اہميت۱

تذكر:انسانوں كو تذكر دينے كى اہميت ۲

خوف:خوف كے اسباب ۶

خوف الہى ركھنے والے:اور قرآن ۴

خشيت:اس كے آثار ۳; اس كى اہميت ۶

فطرت:متنبہ كرنے كے عوامل ۷

قرآن:اس كى تبليغ كى اہميت ۲; اس كى تاثير كا زمينہ ۳ ; اس كى تعليم كى سہولت ۴; اس كے انجام سے احراز ۶; اس سے احراز كا برا انجام ۵; اس كى تعليمات كا فطرى ہونا ۷; اس كے نزول كا فلسفہ ۱; اس كى خصوصيات ۷

محمد(ص) :ان كى ذمہ دارى كا دائرہ كار ۲

موعظہ:اس كى اہميت ۱

۸

آیت ۴

( تَنزِيلاً مِّمَّنْ خَلَقَ الْأَرْضَ وَالسَّمَاوَاتِ الْعُلَى )

يہ اس خدا كى طرف سے نازل ہوا ہے جس نے زمين اور بلندترين آسمانوں كو پيدا كيا ہے (۴)

۱ _ قرآن ، خالق زمين و آسمان كى طرف سے بھيجا ہوا ايك پيغام ہے __تنزيلاً ممن خلق الا رض و السموات

'' تنزيلاً'' مصدر اسم مفعول كے معنى ميں اور ''القرآن'' سے حال ہے جو سابقہ آيات ميں تھا_

۲ _ خداتعالى ، بلند و بالا آسمانوں اور زمين كا خالق ہے _خلق الا رض و السموات العلى

''عُلى '' (علياء كى جمع ) اسم تفصيل ہے آسمانوں كى يہ صفت بيان كرنا كہ وہ زمين سے بلند تر ہيں اس مقام و مرتبے كى عظمت كے بيان كيلئے ہے كہ جہاں سے قرآن زمين پر نازل ہوا ہے_

۳ _ اس ذات كى طرف توجہ كرنا كہ جس كى طرف سے قرآن نازل ہوا ہے قرآن سے نصيحت حاصل كرنے اور اسكى نصيحت كو قبول كرنے كا پيش خيمہ ہے _تذكرة لمن يخشى تنزيلاً ممن خلق الا رض و السموات العلى

بعض اوقات علت كو بيان كرنے كيلئے حال سے استفادہ كيا جاتا ہے ''تنزيلا'' جو ''قرآن'' كيلئے حال ہے قرآن كے صاحب نصيحت ہونے كى علت كو بيان كر رہا ہے يعنى چونكہ قرآن، خداتعالى كى طرف سے نازل ہوا ہے لہذا يہ مكمل طورپر نصيحت كرنے كے لائق ہے _

۴ _ خداتعالى كا زمين اور بلند آسمانوں كى خلقت پر قادر ہونا اسكے انسان كو وعظ و نصيحت كرنے كيلئے ايك مناسب كتاب كے بھيجنے پر قدرت ركھنے كى علامت ہے_تذكرة ...ممن خلق الارض و السموات العلى

۵ _ آسمان :متعدد ہيں اور وہ بلندى اور عظمت كے حامل ہيں _و السموات العلى

۹

آسمان:انكا متعدد ہونا۵; ان كا خالق ۱، ۲، ۴; انكى بلندى ۵; انكى عظمت ۵

نصيحت حاصل كرنا:اس كا پيش خيمہ ۳; اسكے عوامل ۴

خدامجيد:اس كا خالق ہونا ۲، ۳; اسكى قدرت كى نشانياں ۴

ياد كرنا:نزول قرآن كے سرچشمے كو يادكرنا ۳

زمين:اس كا خالق ۱، ۲، ۴

عبرت :اس كا پيش خيمہ ۳

قرآن مجيد:اس كا نزول ۱، ۴; اس كا وحى ہونا ۱

آیت ۵

( الرَّحْمَنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى )

وہ رحمان عرش پر اختيار و اقتدار ركھنے والا ہے (۵)

۱ _ خداتعالى پورے عالم وجود كا مدبرہے _الرحمن على العرش استوى

''استوائ'' جب ''على '' كے ساتھ متعدى ہو تو اس كا معنى ہوتا ہے ''مستقر ہونا'' (مصباح) اور ''عرش'' يعنى ''تخت فرمانروائي'' (مقاييس اللغة) خداتعالى كا تخت فرمانروائي پر مستقر ہونا عالم كے نظام كى تدبير اور اسكے چلانے سے كنايہ ہے _

۲ _ عرش آسمانوں او رزمين كى تدبير، انكے كنٹرول كا مركز اور خداتعالى كے زيرتسلط ہے _

خلق الا رض و السموات العلى الرحمن على العرش استوى

۳ _ خداتعالى ،وسيع اور ہمہ گير رحمت والا ہے_الرحمن

''رحمان'' رحمت ميں مبالغہ پر دلالت كرتا ہے _

۴ _ نظام خلقت ميں رحمت الہى كى حكمرانى اور اس كا اصل ہونا _الرحمن على العرش استوى

خداتعالى كا يہ وصف بيان كرتے وقت كہ وہ كائنات كا حكمران ہے ''رحمان'' كے عنوان كا انتخاب اس نكتے كو بيان كر رہا ہے كہ امور كائنات كى تدبير رحمت الہى كى بنياد پر ہے_

۱۰

۵ _ نزول قرآن، خداتعالى كے رحمان ہونے اور اسكے عرش اور تدبير امور پر قادر ہونے كا ايك جلوہ ہے_تنزيلاً الرحمن على العرش استوى

اگر چہ جملہ '' الرحمان على ...'' گذشتہ آيت سے مستقل اور عليحدہ جملے كى صورت ميں ہے ليكن قرآن كے اوصاف بيان كرنے كے بعد كائنات پر خداتعالى كى حكمرانى كا بيان كرنا اور اسكى ''رحمان'' كے ساتھ صفت ذكر كرنا دلالت كرتا ہے كہ نزول قرآن ان صفات الہى كا جلوہ ہے _

۶ _''عن أبى عبداللّه (ع) :(فى قوله تعالى ) ''الرحمن على العرش استوى '' يقول: على الملك احتوي ; خداتعالى كے فرمان''الرحمن على العرش استوى '' كے بارے ميں امام صادق(ع) سے روايت ہے (اس سے) مراد يہ ہے كہ خداتعالى ملك پر احاطہ ركھتا ہے _(۱)

۷ _عن على (ع) قال: و ليس العرش كما تظنّ كهيئة السّرير، و لكنه شيء محدود مخلوق مدبر، و ربّك عزوجل مالكه، لا انّه عيله ككون الشيء على الشيء ; حضرت اميرالمؤمنين(ع) سے روايت ہے كہ آپ(ع) نے فرمايا عرش جيسے تو گمان كرتے ہے (بادشاہوں كے ) تخت جيسا نہيں ہے بلكہ يہ پيدا كيا ہوا اور ايسا محدود وجود ہے كہ جو (خداتعالى كى ) تدبير كے تحت ہے اور تيرا پروردگار اس كا مالك ہے نہ يہ كہ خداتعالى اسكے اوپر ہو جيسے چيزيں ايك دوسرے كے اوپر ہوتى ہيں _(۲)

۸ _'' عن محمد بن مارد: ا نّ ا باعبدالله (ع) سئل عن قول الله عزوجل: ''الرحمن على العرش استوى '' فقال: استوى من كل شيء فليس شيء ا قرب إليه من شيء ;محمد بن مارد سے منقول ہے كہ امام صادق (ع) سے خداتعالى كے فرمان'' الرحمن على العرش استوى '' كے بارے ميں سوال كيا گيا تو آپ(ع) نے فرمايا (آيت سے مراد يہ ہے كہ ) خداتعالى كى سب چيزوں كى طرف يكساں نسبت ہے پس كوئي چيز دوسرى چيز كى نسبت خداكے زيادہ قريب نہيں ہے_(۳)

____________________

۱ ) توحيد صدوق ص ۳۲۱ ب ۵۰ ح ۱_ نورالثقلين ج ۳ ص ۳۷۰ ح ۲۴_

۲ ) توحيد صدوق ص ۳۱۶ ب ۴۸ ج۳_ نورالثقلين ج ۳ ص ۳۶۹ ح ۱۷_

۳ ) كافى ج ۱ ص ۱۲۸ ح ۷_ نورالثقلين ج ۳ ص ۳۶۹ ح ۱۸_

۱۱

۹ _'' عن ا بى الحسن موسى (ع) و سئل عن معنى قول الله '' الرحمن على العرش استوى '' فقال: استولى على ما دقّ و جلّ; امام موسى كاظم (ع) سے روايت ہے كہ آپ (ع) نے خداتعالى كے فرمان''الرحمن على العرش استوى '' كے معنى كے بارے ميں سوال كے جواب ميں فرمايا:خداتعالى چھوٹے بڑے سب موجودات پر تسلط ركھتا ہے_(۱)

آسمان :آسمانوں كى تدبير كا مركز: ۲

عالم خلقت:اس كا مدبر ۱

اسما و صفات :رحمان:۰ ۳

خداتعالى :اس كا احاطہ ۶; اس كا عرش پراستوا ۶، ۷، ۸، ۹; اسكى تدبير ۱; اسكى رحمت كا مقدم ہونا ۴; اسكى حاكميت ۴، ۹; اسكى تدبير كى نشانياں ۵; اسكے رحمان ہونے كى نشانياں ۵; اسكى رحمت كا وسيع ہونا ۳

روايت : ۶، ۷، ۸، ۹

زمين:اسكى تدبير كا مركز ۲

عرش:اسكى حقيقت ۷، اس كا كردار ۲

قرآن :اسكے نزول كے اثرات ۵

____________________

۱ ) محاسن برقى ج ۱ ص ۲۳۸ ح ۱۲_ نور الثقلين ج ۳ ص ۳۷۱ ح ۲۷_

۱۲

آیت ۶

( لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا وَمَا تَحْتَ الثَّرَى )

اس كے لئے وہ سب كچھ ہے جو آسمانوں ميں ہے يا زمين ميں ہے يا دونوں كے درميان ہے اور زمينوں كى تہ ميں ہے (۶)

۱ _ خداتعالى آسمانوں اور زمين كا تنہا مالك ہے _له ما فى السموات و ما فى الا رض

''لا''كا مقد م ہوناحصر پر دلالت كرتا ہے _

۲ _ آسمانوں اور زمين كے درميان موجودات كا وجود _و ما بينهم

۳ _ زمين اور آسمانوں كے درميان موجود سب چيزوں كا مالك صرف خداتعالى ہے _له ...ما بينهم

۴ _ جہان خلقت ميں متعدد آسمان ہيں _له ما فى السموات

۵ _ جو كچھ كائنات كى نمناك خاك كے نيچے ہے خداتعالى كى ملكيت ہے _له ...و ما تحت الثرى

''ثرى '' نمناك مٹى كے معنى ميں ہے (مصباح) اور ''الثرى '' كا ''ال'' ظاہراً جنس كا معنى دے رہا ہے_ لذا ہر نمناك خاك كو شامل ہوجائيگا چاہے زمين ميں ہو يا كسى دوسرے كرہ ميں بلكہ چونكہ آيت ميں ''ما فى الا رض'' مذكور ہے اسلئے احتمال ہے كہ''ما تحت الثرى '' غير زمين سے مربوط ہو _

۶ _ خاك كى رطوبت اسكے نيچے قيمتى چيزوں اور منابع كے وجود كى علامت ہے _*له و ما تحت الثرى

۱۳

با وجوداس كہ جو كچھ خشك مٹى كے نيچے ہے وہ بھى خداتعالى كى ملكيت ہے خاك كے لئے نمناك ہونے كا وصف اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ تر خاك كے نيچے جو چيزيں موجود ہيں وہ خشك مٹى كے نيچے كى چيزوں كى نسبت زيادہ اہم ہيں _

۷ _ پورا عالم ہستى اور سب موجودات چاہے آشكار ہوں يا پنہاں خدائے يكتا كى ملكيت ہيں _

له ما فى السموات و ما فى الا رض و ما تحت الثرى

''آسمانوں ، زمين اورجو كچھ ان كے درميان ہے'' كى تعبير پورى كائنات سے كنايہ ہے _

۸ _ پورى كائنات كى ملكيت كا خداتعالى كے ساتھ منحصر ہونا اسكے كائنات پر محيط ہونے اور اس كا مدبرہونے كى دليل ہے _على العرش استوى له ما فى السموات و ما تحت الثرى

يہ آيت كريمہ سابقہ آيت كى علت بيان كررہى ہے اسى لئے اسكے ارتباط كيلئے حرف عطف سے استفادہ نہيں كيا گيا _

۹ _ اس بات كى طرف توجہ كہ قرآن اس خالق كى طرف سے نازل ہوا ہے جو پورى كائنات كا مدبر و مالك ہے قرآن كى نصيحت كو قبول كرنے كيلئے انسان كى حوصلہ افزائي كا سبب ہے _تذكرة ممن خلق الا رض استوى _ له ما فى السموات و ما تحت الثرى

آسمان :انكا متعدد ہونا۴; انكے موجودات ۱

جہان خلقت:اس كا مالك ۷

خاك:اسكى رطوبت كے اثرات ۶; تر خاك ۵

خداتعالى :اسكى خصوصيات ۳، ۸; اسكى حاكميت ۵; اسكے محيط ہونے كے دلائل ۸; اسكى تدبير كے دلائل ۸; اسكى مالكيت ۱، ۵، ۷، ۸

يادكرنا:قرآن كے وحى ہونے كو ياد كرنے كے اثرات ۹

حوصلہ:حوصلہ افزائي كے عوامل ۹

عبرت:اسكے عوامل ۹

فضا:اسكے موجوات ۲، ۳

قرآن مجيد:اس سے عبرت حاصل كرنا ۹

موجودات:انكا مالك : ۱، ۳، ۵، ۷

۱۴

آیت ۷

( وَإِن تَجْهَرْ بِالْقَوْلِ فَإِنَّهُ يَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفَى )

اگر تم بلند آواز سے بھى بات كرو تو وہ راز سے بھى مخفى تر باتوں كو جاننے والا ہے (۷)

۱ _ جو انسان كہتا ہے اور اظہار كرتا ہے خداتعالى اس سے آگاہ ہے _و إن تجهر بالقول فإنّه يعلم السرّ

جملہ'' فإنّه يعلم ...'' '' إن تجهر'' كے جواب كا قائم مقام ہے اور آيت كريمہ كا معنى يہ ہے كہ اگر ظاہربات كريں ( تو خدا جانتا ہے) كيونكہ وہ راز اور اس سے بھى زيادہ مخفى شے كو بھى جانتا ہے ايسے موارد ميں علت كا بيان كرنا جواب شرط كى تصريح سے بے نياز كرديتا ہے _

۲ _ لوگوں كے وہ اسرار اور راز جنہيں وہ ظاہر نہيں كرتے اور انكى نيتيں خداتعالى كيلئے آشكار ہيں اور وہ ان سے مكمل طور پر آگاہ ہے _فإنّه يعلم السرّ ''سرّ'' يعنى وہ جو دوسروں سے چھپايا جاتا ہے (لسان العرب)

۳ _ انسان ايسے ضميركا حامل ہے جو اپنے آپ سے آگاہ نہيں ہے اور ايسى معلومات ركھتا ہے كہ جنہيں غفلت نے ڈھانپ ركھا ہے _فإنه يعلم السرّ و أخفى ''أخفى '' اسم تفصيل ہے اور از سے بھى زيادہ مخفى وہ چيز ہے كہ جسے انسان نے نہ صرف دوسروں سے مخفى ركھا ہوا ہے بلكہ خود بھى اسكى طرف متوجہ نہيں ہے ليكن يہ اسكے ذہن ميں نقش ہے_

۴ _ خداتعالى انسان كے بھولے ہوئے رازوں اور اسكے مخفى ترين اسرار سے آگاہ ہے_فإنّه يعلم ...أخفى

۵ _ خداتعالى علم مطلق ركھتا ہے اور غيب و ظاہر سے آگاہ ہے _فإنه يعلم السرّ و أخفى

۶ _ قرآن ا ور اسكى نصيحتوں كا سرچشمہ خداتعالى كا مطلق

۱۵

علم ہے _تذكرة فإنّه يعلم السرّ و أخفى

۷ _ خداتعالى كا انسان كے مخفى و آشكار سے آگاہ ہونا اسكى پورى كائنات اور اسكے اجزا پر مطلق حكمرانى اور ملكيت كا ايك جلوہ ہے_على العرش استوى _ له ما فى السموات فإنّه يعلم السرّ و أخفى

اس آيت كريمہ كا سابقہ آيات كے ساتھ ارتباط اس چيز كو بيان كر رہا ہے كہ چونكہ خداتعالى پورے عالم وجود پر حكمرانى كرتا ہے اور كائنات كا حقيقى مالك ہے پس وہ ہر چيز سے مطلع ہے اگر چہ وہ راز يا اس سے بھى زيادہ مخفى ہو _

۸ _ انسان تين درجے كے معلومات كا حامل ہے اظہار شدہ، راز، راز سے زيادہ مخفى _فإن تجهر بالقول فإنّه يعلم السرّو أخفى

۹ _ خداتعالى كے مخفى ترين افكار و گفتار سے آگاہ ہونے كى طرف توجہ ،انسان كو ناروا بات كرنے سے روكتى ہے_ *

و إن تجهر بالقول فإنّه يعلم السرّ و ا خفى جملہ ''فإنّہ ...'' كسى قسم كى فكر اور بات كے خدا تعالى سے پوشيدہ نہ ہونے كى دھمكى ہے اور اس دھمكى كو''إن تجهر بالقول'' پر متفرع كرنا اس چيز كا بيان ہے كہ ''القول'' سے مراد ايسى بات ہے كہ جسے نہ صرف زبان پر لانا ناروا ہے بلكہ ضرورى ہے كہ فكر بھى اسكے محتوا سے پاك ہو _

۱۰ _'' محمد بن مسلم قال: سا لت ا باعبدالله (ع) عن قول الله عزوجل: '' يعلم السرّ و ا خفى '' قال: ''السرّ'' ما كتمته فى نفسك، و ''ا خفي'' ما خطر ببالك ثم ا نسيته; محمد بن مسلم كہتے ہيں : ميں نے امام صادق (ع) سے خداتعالى كے فرمان ''يعلم السرّ و ا خفى '' كے متعلق سوال كيا تو آپ (ع) نے فرمايا : ''سر'' وہ ہے كہ جسے تو نے اپنے اندر پنہان كيا ہو اور '' ا خفى '' وہ ہے جو تيرے دل ميں خطور كرے اور پھر تيرے دل سے محو ہوجائے(۱) _

جہان خلقت :اس كا حاكم ۷

انسان:اسكے مختلف پہلو ۳; اسكے راز ۲، ۴، ۱۰; اسكى سخن ۱; اس كا ناخودآگاہ ضمير اسكے معلومات كے درجے ۳

خداتعالى :اسكے علم كے اثرات ۶; اس كا علم غيب ۱، ۲، ۴، ۵، ۷; اسكى حاكميت كى نشانياں ۷; اسكى مالكيت كى نشانياں ۷

ياد كرنا:خدا كے علم غيب كو ياد كرنے كے اثرات ۹

روايت :۱۰

____________________

۱ ) معانى الاخبار ص ۱۴۳ ح ۱_ نورالثقلين ج ۳۰ ص ۳۷۳ ح ۳۷_

۱۶

سخن:ناپسنديدہ سخن كے موانع ۹

غفلت :اسكے اثرات ۳

قرآن مجيد:اس كا سرچشمہ ۶

آیت ۸

( اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ لَهُ الْأَسْمَاء الْحُسْنَى )

وہ اللہ ہے جس كے علاوہ كوئي خدا نہيں ہے اس كے لئے بہترين نام ہيں (۸)

۱ _ خدا تعالى كے علاوہ كوئي معبود لائق عبادت نہيں ہے _الله لا إله إلا هو

۲ _ جو ذات عالم وجود كى خالق اور مدبر و مالك نہ ہو اور اسكى سب چيزوں كو نہ جانتى ہو وہ لائق عبادت نہيں ہے _

الله لا إله إلا هو

مندرجہ بالا نكتہ اس آيت كے سابقہ آيات كے ساتھ ارتباط سے حاصل ہوتا ہے كہ جن ميں خالقيت، فرمانروائي ، كائنات كى مالكيت اور علم مطلق كو خداتعالى كے ساتھ منحصر كيا گيا ہے _

۳ _ بہترين نام اور اوصاف خدائے يكتا و جميل كيلئے ہيں _له الا سماء الحسنى

''الا سمائ'' جمع معرف با لام ہے جو مفيد عموم ہے اور '' الحسنى '' اسم تفصيل ہے اور آيت كريمہ كا مطلب يہ ہے كہ سب بہتر اور خوبصورت نام خداتعالى سے مختص ہيں _ ناموں كى حسن و خوبى كے ساتھ توصيف اس چيز كو بيان كر رہى ہے كہ مقصود وہ نام ہيں جنہيں صرفى اصطلاح ميں صفت كہا جاتا ہے جسے رازق، شكور، رحيم كيونكہ جس نام كا وصف والا معنى نہيں ہوتا وہ صرف ذات پر دلالت كرتا ہے اور اسكے بارے ميں خوبصورتى اور بدصورتى معنى نہيں ركھتي_

۴ _ خداتعالى سب كمالات كا حامل اور ہر نقص و عيب سے منزہ ہے _

۱۷

له الا سماء الحسنى جو نام نقص و عيب كو بيان كررہا ہو وہ ''اسماء حسنى '' كا مصداق نہيں ہے اور خداتعالى پر صدق نہيں كرتا لذا وہ ہر عيب سے پاك ہے_

۵ _ خداتعالى كے علاوہ ہر چيز نقص و عيب ركھتى ہے اور كمال مطلق سے عارى ہے _له الا سماء الحسنى

''لہ '' كا مقدم كرنا حصر پر دلالت كرتا ہے يعنى جو تمام اسماء حسنى ركھتا ہے وہ صرف خداتعالى ہے_

۶ _ صرف وہ معبود لائق عبادت ہے جو بہترين اوصاف كمال ركھتا ہو_الله لا إله إلا هو له الا سماء الحسنى

اسماء و صفات:اسمائ حسنى ۳; صفات جلال۴; صفات جمال ۴

توحيد:توحيد عبادى ۱

نظريہ كائنات:توحيدى نظريہ كائنات۱

خداتعالى :اسكى تنزيہ ۴; اس كا كمال ۴

صفات:بہترين صفات ۳

حقيقى معبود:اسكى تدبير۲; اس كا خالق ہونا۲; اسكى شرائط ۲، ۶; اس كا علم۲; اس كا كمال ۶; اس كا مالك ہونا۲

نام:بہترين نام ۳

نقص:غير خدا ميں نقص ۵

آیت ۹

( وَهَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ مُوسَى )

كيا تمھارے پاس موسى كى داستان آئي ہے (۹)

۱ _ حضرت موسى كى داستان ايك اہم باب ہے اوروہ پيغمبر اكرم(ص) كيلئے قابل فكر و پيروى ہے_

۱۸

و هل ا تى ك حديث موسى

۲ _ حضرت موسى (ع) كى زندگى كى تاريخ اور واقعات، دينى راہنماؤں اور مبلغين كيلئے سبق آموز، قابل توجہ اور قابل غور و فكر ہيں _و هل ا تى ك حديث موسى

۳ _ مخاطب كو گفتار ميں دقت كرنے پر آمادہ كرنا اور اسے گفتگوسننے كى تشويق دلانا اطلاع پہچانے كى ايك اچھى روش ہے_

هل ا تى ك حديث موسى

''ہل ا تاك ...'' كا استفہام مجازى اور توجہ سے سننے كى تشويق دلانے كيلئے ہے _

تبليغ:اسكى روش ۳

تفكر:حضرت موسى (ع) كے قصے ميں تفكر ۱

يادكرنا:حضرت موسى (ع) كے قصے كو ياد كرنا ۲

دينى راہنما:انكى عبرت ۲

عبرت:اسكے عوامل ۲

مبلغين:انكى عبرت ۲

موسى (ع) :انكے قصے كى اہميت ۱; انكے قصے سے عبرت حاصل كرنا ۲

آیت ۱۰

( إِذْ رَأَى نَاراً فَقَالَ لِأَهْلِهِ امْكُثُوا إِنِّي آنَسْتُ نَاراً لَّعَلِّي آتِيكُم مِّنْهَا بِقَبَسٍ أَوْ أَجِدُ عَلَى النَّارِ هُدًى )

جب انھوں نے آگ كو ديكھا اور اپنے اہل سے كہا كہ تم اسى مقام پر ٹھہرو ميں نے آگ كو ديكھا ہے شايد ميں اس ميں سے كوئي انگارہ لے آؤں يا اس منزل پر كوئي رہنمائي حاصل كرلوں (۱۰)

۱ _ حضرت موسى (ع) اور انكى فيملى رات كے وقت بيابان ميں چلتے ہوئے سرگردان ہوگئے اور راستہ گم كر بيٹھے _

إذ رء ا ناراً بقبس ا و ا جد على النّار هدى ًجمله''أجد على النّارهديً'' دلالت كر رہا ہے كہ حضرت موسى (ع) اور انكے ہمراہى راستہ گم كر بيٹھے تھے اور آگ كے نہ ہونے سے پتا چلتا ہے كہ يہ لوگ بيابان ميں سرگردان تھے_ اور نسبتاً دور سے آگ كو ديكھنا اور آگ كے وجود كے احتمال كے با وجود مل كر اسكى طرف حركت كا ارادہ نہ كرنا اس سے رات ہونے اور علاقہ كے تاريك ہونے كا پتا چلتا ہے_

۱۹

۲ _ حضرت موسى (ع) اپنے سفر ميں اپنى بيوى كے علاوہ اپنے گھركے ديگر افراد كو بھى اپنے ہمراہ ركھتے تھے_

فقال لا هله امكثو فعل ''امكثوا' ' كہ جو جمع كى صورت ميں ہے مندرجہ بالا نكتہ پر دلالت كرتا ہے _

۳ _ حضرت موسى (ع) نے بيابان ميں سرگردانى كے دوران آگ ديكھى اور اپنى فيملى كو اسكى بشارت دى _

إذ رء اناراً فقال إنى ء انست نار ا

(ء انست كا مصدر) ''ايناس'' احساس كرنے، ديكھنے، جاننے اور سننے كے معنوں ميں استعمال ہوتا ہے( لسان العرب) مورد آيت كى مناسبت سے يہاں ديكھنا مراد ہے_

۴ _ حضرت موسى (ع) كے خاندان اور انكے ہمراہيوں نے اس آگ كو نہيں ديكھا جس كا حضرت موسى (ع) نے مشاہدہ كيا تھا _*فقال لا هله امكثو إنى ء انست نارا

حضرت موسى (ع) كا يہ كہنا كہ ''ميں نے آگ ديكھى ہے '' اس سے يہ احتمال دياجاسكتا ہے كہ آپ كے ہمراہ ديگر افراد نے وہ آگ نہيں ديكھى تھى ورنہ حضرت موسى (ع) ديكھنے كو اپنے ساتھ مختص نہ كرتے _

۵ _ حضرت موسى (ع) نے آگ جلا كرنے يا كوئي راہنما تلاش كرنے كى خاطر آگ لانے كيلئے آگ كى جگہ تك جانے كا عزم كيا_لعلى ء اتيكم منها بقبس ا و ا جد على النّار هديً

''قبس'' يعنى انگارہ اور وہ آگ لگى لكڑى كہ جسے دوسرى آگ جلا كرنے كيلئے آگ سے نكالا جائے (لسان العرب)''ہديً''مصدر ليكن اسم فاعل ''ہادي'' كے معنى ميں ہے اور حرف ''ا و'' دو ميں سے ايك كام كو معين كرنے كيلئے ہے يعنى حضرت موسى كا خيال يہ تھا كہ اگر كوئي راہنما مل گيا تو سفر جارى ركھيں گے ورنہ آگ لاكر آگ سينكيں گے_

۶ _ حضرت موسى (ع) نے اپنے گھروالوں سے كہا كہ وہ وہيں انتظار كريں اور آگ كى جگہ تك ان كے ہمراہ نہ آئيں _

فقال لا هله امكثوا إنى ء انست نارا ''مكث'' كا معنى ہے انتظار كرنا (قاموس) _

۷ _ بيوى بچوں كى خدمت اور انكى ضروريات پورى كرنے كيلئے كوشش كرنا ايك پسنديدہ كام ہے _

۲۰

فقال لا هله إمكثوا ...لعلى ء اتيكم منها بقبس

۸ _ آگ كا ظاہر ہونا اور حضرت موسى (ع) كو رسالت عطا كرنے كيلئے خلوت كا فراہم ہونا ايك اہم اور پيغمبر اكرم(ص) كيلئے قابل توجہ واقعہ تھا _هل ا تى ك حديث موسى إذ رء ا نارا

''إذ'' ظرف ہے ''حديث'' كيلئے جو سابقہ آيت ميں تھا اور اس آيت كريمہ ميں استفہام پيغمبر اكرم(ص) كو اس ماجرا كى طرف توجہ كى ترغيب دلانے كيلئے ہے_

۹ _ فطرى اور قدرتى امور انبياء كو رسالت عطا كرنے كے بارے ميں خداتعالى كے ارادے كے عملى ہونے كيلئے تجلى گاہ ہيں _

قدرتى مقدمات ( راستہ گم كردينا ، آگ كى ضرورت كا احساس اور ...) فراہم كركے حضرت موسى كو كوہ طور پر كھينچ لانا _ جيسا كہ بعد والى آيات سے معلوم ہوتاہے مذكورہ نكتے كو بيان كررہاہے)إذ رء اناراً لعلى ء اتيكم منها بقبس

انبياء:انكى نبوت كا سرچشمہ ۹

گھرانہ:اسكى ضروريات پورى كرنا ۷

خداتعالى :اسكے ارادے كى تجلى گاہ ۹

عمل:پسنديدہ عمل ۷

قدرتى عوامل:انكا كردار ۹

كوہ طور:اسكى آگ ۳، ۴، ۵، ۶_اسكى آگ كى اہميت ۸

محمد(ص) :آپ(ص) اور حضرت موسى كا قصہ ۸

موسى (ع) :انكے قصے كى اہميت ۸; انكى بشارتيں ۳; انكے گھر والے ۴، ۶; انكے گھروالوں كى سرگردانى ۱; انكى سرگردانى ۱ ، ۳; انكا قصہ ۱، ۲، ۳، ۴، ۵; انكے گھروالوں كا رات كا سفر ۱; ۱نكا رات كا سفر۱; آپ وادى طوى ميں ۳، ۴; آپ كوہ طور ميں ۵; آپكے ہم سفر ۳،۴

۲۱

آیت ۱۱

( فَلَمَّا أَتَاهَا نُودِي يَا مُوسَى )

پھر جب موسى اس آگ كے قريب آئے تو آواز دى گئي كہ اے موسى (۱۱)

۱ _ حضرت موسى (ع) نے آگ ديكھنے كے بعد اپنے گھر والوں سے جدا ہوكر آگ كى طرف حركت كى _

رء ا نار اً فلما ا تيه

۲ _ جس آگ كا حضرت موسى نے مشاہدہ كيا تھا وہ واقعى چيز تھى اور حضرت موسى نے اپنے آپ كو اس تك پنہچايا _

فلما ا تيه

۳ _ حضرت موسى (ع) جب آگ كے قريب پہنچے تو آپ نے ايك آواز سنى كہ جس ميں حضرت موسى (ع) كو نام كے ساتھ پكارا جارہا تھا_فلما اتيها نودى يا موسى

۴ _ ''يا موسى ''كى صدا اچانك تھى اور جو نہى حضرت موسى (ع) وہاں پہنچے فوراً انہيں اسكے ساتھ مخاطب كيا گيا_

فلما ا تيها نودى يا موسى

۵ _ حضرت موسى (ع) نے ''يا موسى '' كى آواز دينے والے كو نہ پہچانا _نودى يا موسى

''نودي''كا مجہول آنا اور بعد والى آيت ميں جملہ ''فإنى ا نا ربك'' بتاتا ہے كہ حضرت موسى نے آواز سننے كے بعد پہلے مرحلے ميں اس آواز دينے والے كو نہ پہچانا _

كوہ طور:اسكى آگ ۱; اسكى آگ كى حقيقت ۲

موسى (ع) :انكا قصہ ۱، ۲، ۳، ۴، ۵; انكو ندادينے والا ۵; آپ كوہ طور ميں ۲، ۳، ۴; آپ كو ندا ۳، ۴

۲۲

آیت ۱۲

( إِنِّي أَنَا رَبُّكَ فَاخْلَعْ نَعْلَيْكَ إِنَّكَ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًى )

ميں تمھارا پروردگار ہوں لہذا اپنى جوتيوں كو اتار دو كہ تم طوى نام كى ايك مقدس اور پاكيزہ وادى ميں ہو (۱۲)

۱ _ صحرائے سينا ميں واقع وادى طوى ميں خداتعالى نے حضرت موسى (ع) كے ساتھ بات كى _

ى موسى إنى ا نا ربك إنك بالواد المقدس طويً

''واد'' وادى كا مخفف ہے يعنى پہاڑوں كے درميان كى وہ جگہ كہ جہاں سے سيلاب گزرتا ہے ( مصباح) ''طوي'' ممكن ہے كوہ طور كے نيچے والے درے كا نام ہو ( لسان العرب) اس صورت ميں يہ ( الواد المقدس) كيلئے عطف بيان يا بدل ہوگا اور ممكن ہے يہ گھڑى اور لخطے كے معنى ميں ہو(لسان العرب) تو اس صورت ميں يہ ظرف ہوگا '' المقدس'' كيلئے يعنى وہ درّہ كہ جو كچھ وقت (اشارہ ہے خداتعالى كے حضرت موسى كے ساتھ ہم كلام ہونے كے لحظے كى طرف)كيلئے مقدس ہوگيا ہے _

۲ _ خداتعالى نے موسى كے ساتھ مخاطب ہوتے ہوئے انہيں اپنا تعارف كرايا او رسمجھايا كہ تو اپنے پروردگار كے حضور ميں ہے اوراسكى كلام سن رہا ہے _ياموسى إنى ا ناربك

۳ _ وادى طوى ميں خداتعالى كا موسى (ع) كے ساتھ ہم كلام ہونا خداتعالى كى حضرت موسى (ع) كى نسبت ربوبيت كا ايك جلوہ تھا _ياموسى إنى ا نا ربك

۴ _ خداتعالى نے موسى (ع) كو حكم ديا كہ اپنے پروردگار كے حضور كے احترام ميں اپنے جوتے اتاركر مقدس وادى ميں ننگے پاؤں قدم ركھے _فاخلع نعليك انك بالواد المقدس طويً

۵ _ پروردگار كے حضور ميں اور اسكے كلام كو سنتے وقت ادب و احترام كا خيال ركھنا ضرورى ہے _

إنى ا نا ربك فاخلع نعليك

''فاخلع'' كى ''إنى ا ناربك'' پر تفريع بتاتى ہے كہ خداتعالى كے ساتھ بات كرتے وقت مكمل طور پر ادب كا خيال ركھنا ضرورى ہے_ اور چونكہ جب بھى خداتعالى انسان كے ساتھ بات كرتا ہے اس ميں كوئي نہ كوئي واسطہ ہوتا ہے اسلئے كہا جاسكتا ہے كہ قرآن اور ديگر كلمات الہى كى تلاوت كے وقت بھى ادب كى مكمل طور پر رعايت كرنا ضرورى ہے_مقدس مقامات كى حرمت كى حفاظت اور ان كا احترام كرنا ضرورى ہے،جملہ''انك بالواد ...'' ''فاخلع''كى علت بيان كرنے كيلئے ہے اور جس حكم كى علت واضح ہو اسے اس جيسے ديگر موارد ميں بھى اجرا كرنا ضرورى ہوتا ہے_

۲۳

۶ _مقدس مقامات كى حفاظت اور ان كا احترام كرنا ضرورى ہے_فاخلع نعليك إنك بالواد المقدس طويً

جملہ''إنك بالواد ...''،''فاخلع''كے لئے علت ہے اور پروہ حكم كہ جس كى علت ظاہر ہو دوسرے مشابہ مقامات پربھى لگايا جاتا ہے_

۷ _ جوتے اتاركر پابرہنہ ہوجانا مقدس مقامات كے احترام كاسب سے زيادہ واضح نمونہ ہے _فاخلع نعليكإنك بالواد المقدس طويً

۸ _ كوہ طور كے پاس واقع وادى طوى پاك و پاكيزہ اور لائق احترام سرزمين ہے _إنك بالواد المقدس طويً سرزمين مقدس يعنى وہ سرزمين جو طہارت معنوى ركھتى ہو (مفردات راغب)

۹ _ (كوہ طور سے نيچے ) سرزمين طوى ميں جوتوں كے ساتھ داخل ہونا، جائز نہيں ہے _فاخلع نعليكإنك بالواد المقدس طويً ''اخلع'' كے حكم كى''إنك بالواد المقدس'' كے ذريعے علت بيان كرنا بتاتا ہے كہ يہ حكم سب زمانوں ميں سب انسانوں كيلئے ہے_

۱۰ _ جن مقامات ميں خداتعالى اپنے انبياء اور اپنے بندوں كے ساتھ ہم كلام ہوتا ہے وہ پاك و پاكيزہ مقدس اور لائق احترام جگہيں ہيں _ياموسى إنيّ ا ناربك إنك بالواد المقدس طويً اگر چہ آيت كريمہ ميں وادى طوى كے تقدس كى دليل نہيں آئي ليكن مجموعى طور پر آيت كريمہ خداتعالى كے تكلم اور اس سرزمين كے تقدس كے ارتباط كو بيان كررہى ہے _ چا ہے پہلے سے اس كا مقدس ہونا بات كرنے كيلئے اس كے انتخاب كا سبب بنا ہو يا خداتعالى كا بات كرنا اسكے مقدس ہونے كا سبب بنا ہو _

۱۱ _''عن ا بى عبدالله (ع) قال: قال الله عزوجل لموسى (ع) '' فاخلع نعليك'' لا نّها كانت من جلد حمار ميت ; امام صادق(ع) سے روايت ہے كہ خداتعالى نے موسى (ع) كو فرمايا ''فاخلع نعليك'' كيونكہ انكے جوتے گدھے كے مردار كى كھال كے بنے ہوئے تھے_(۱)

____________________

۱ ) علل الشرائع ص ۶۶ ب ۵۵ ح ۱، بحارالانوار ج ۱۳ ص ۶۴ ح ۱ _

۲۴

۱۲ _'' عن الصادق جعفر بن محمد (ع) إنّه قال: فى قول الله عزوجل لموسي(ع) ''فاخلع نعليك'' قال: يعنى إدفع خوفيك، يعنى خوفه من ضياع ا هله و قد خلفها تمخض،و خوفه من فرعون'' خداتعالى نے حضرت موسى كو جو فرمايا تھا ''فاخلع نعليك'' اسكے بارے ميں امام صادق(ع) سے روايت ہے كہ آپ نے فرمايا يعنى اپنے آپ سے دو خوف دور كردے اپنى بيوى كے فوت ہوجانے كا خوف كہ جسے بچہ پيدا كرنے كى حالت ميں چھوڑ كر آئے تھے اور فرعون كا خوف _(۱)

مقدس مقامات:انكا احترام ۶، ۷; ان ميں جوتے اتارنا ۷

خداتعالى :اس كا كلام سننے ميں ادب ۵; اسكے اوامر ۴; اسكے انبياء كے ساتھ ہم كلام ہونے كى جگہ كا پاكيزہ ہونا ۱۰; اسكے انبياء كے ساتھ ہم كلام ہونے كى جگہ كا تقدس ۱۰; اسكى موسى كے ساتھ گفتگو ۲، ۳; اسكى موسى كے ساتھ گفتگو كى جگہ ۱; اسكى ربوبيت كى نشانياں ۳

وادى طوي:اس كا احترام ۸، ۹; اسكى پاكيزگى ۸; اس كا تقدس ۸; اسكى فضيلت ۱; اس ميں جوتے اتارنا ۹; اسكى جغرافيائي موقعيت ۸

روايت : ۱۱، ۱۲

موسى (ع) :انكو حكم ۴; انكا خوف ۱۲; انكى شرعى ذمہ دارى ۴; انكے جوتوں كى نوعيت ۱۱; ان كا قصہ ۱، ۲، ۴; انكا تربيت كرنے والا ۳; آپ وادى طوى ميں ۳; آپ خدا كے حضور ميں ۲، ۴; آپ كے جوتے ۴

آیت ۱۳

( وَأَنَا اخْتَرْتُكَ فَاسْتَمِعْ لِمَا يُوحَى )

اور ہم نے كو منتخب كرليا ہے لہذا جو وحى كى جارہى ہے اسے غور سے سنو (۱۳)

۱ _ خداتعالى نے موسى (ع) كو اپنے پيغمبر كے طور پر چن ليا اور وادى طوى ميں انہيں رسالت كيلئے منتخب ہونے

____________________

۱ ) علل الشرائع ص۶۶ ب ۵۵ ح ۲_ بحارالانوار ج ۱۳ ص ۶۴ ح ۲ _

۲۵

سے مطلع فرمايا _و ا نا ا خترتك فاستمع لما يوحى ''لما يوحى '' كے قرينے سے موسى (ع) كے منتخب ہونے سے مراد انكا پيغمبرى اور وحى الہى كا بوجھ اٹھانے كيلئے منتخب ہونا ہے _

۲ _ موسى (ع) خداتعالى كے برگزيدہ اور اپنے زمانے ميں وحى كے حاصل كرنے اور پيغام الہى كے پہچانے كيلئے بہترين شخص تھے _و ا نا ا خترتك ''اختيار'' مادہ ''خير'' سے ہے اور اس كا معنى ''اصطفائ'' ( ہر چيز ميں سے خالص كو اٹھالينا) ہے ( لسان العرب)

۳ _ انبياخداتعالى كى برگزيدہ ہستياں ہيں _و ا نا ا خترتك فاستمع لما يوحى

۴ _ خداتعالى نے موسى (ع) كو رسالت كيلئے انتخاب كرنے كے بعد انہيں وحى كو دريافت كرنے اور اسے غور سے سننے كا حكم ديا _و ا نا ا خترتك فاستمع لما يوحى

۵ _ ( كوہ طور كے نيچے ) وادى طوى ميں خداتعالى كا حضرت موسى (ع) كے ساتھ بات كرنا،وحى كى صورت ميں تھا _

فاستمع لما يوحى

بعد والى آيت كريمہ ميں جملہ''إننى ا نا الله ''، ''ما يوحي'' كيلئے بدل ہے پس كوہ طور كے نيچے جو كچھ حضرت موسى سے كہا گيا تھا وہ وحى تھى _

۶ _ كلام الہى كو سنتے وقت اس پر كان لگانا ضرورى ہے _فاستمع لما يوحى

اگر چہ مخاطب حضرت موسى (ع) ہيں ليكن خداتعالى نے انہيں وحى كا سامنا كرتے وقت جو آداب سكھائے انہيں قرآن ميں بيان فرمايا ہے تا كہ سب كيلئے مفيد ہوں _

انبياء:انكا برگزيدہ ہونا ۳

خدا كے برگزيدہ بندے: ۳خداتعالى :اسكے اوامر ۴; اسكى حضرت موسى كے ساتھ گفتگو ۵_

موسى (ع) :انكا برگزيدہ ہونا ۱، ۲، ۴; انكى شرعى ذمہ دارى ۴; انكى معاشرتى شخصيت ۲; انكا مقام ۱، ۲، ۴; آپ وادى طوى ميں ۱، ۵; آپكى نبوت ۱، ۴، ۵; آپ كى طرف وحى ۵

وحى :اسے كان لگا سننا ۴; اسے كان لگا كر سننے كى اہميت۶

۲۶

آیت ۱۴

( إِنَّنِي أَنَا اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدْنِي وَأَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِكْرِي )

ميں اللہ ہوں ميرے علاوہ كوئي خدا نہيں ہے ميرى عبادت كرو اور ميرى ياد كے لئے نماز قائم كرو (۱۴)

۱ _ خداتعالى كا يكتا ہونا اور اسكے علاوہ كسى معبود كا حقيقت نہ ركھنا وادى طوى ميں خدا كى طرف سے موسى (ع) كو وحى كا مركزى عنوان _إننى ا نا الله لا إله إلا ا نا

۲ _ ( كوہ طور كے نيچے ) وادى طوى ميں خداتعالى نے موسى (ع) كو سمجھايا كہ اسے الله تعالى مخاطب كررہا ہے اور وہ خدا كا كلام سن رہا ہے_إنّنى ا نا الله

۳ _ گفتگو كے آغاز ميں مخاطب كو اپنا تعارف كرانا دوسروں كے ساتھ ہم كلام ہونے اور بات كرنے كے آداب ميں سے ہے _ياموسى ...إنّنى ا نا الله

خداتعالى نے ''يا موسى ''(ع) كى آواز كے ساتھ انہيں سمجھايا كہ مجھے تيرے نام كا علم ہے پھر موسى (ع) كے ساتھ سخن كے آغاز ميں اسے اپنا تعارف كرايا تاكہ طرفين كى شناخت كے ساتھ گفتگو كا سلسلہ آگے بڑھے _

۴ _ خدا كے علاوہ كسى معبود كى كوئي حقيقت نہيں اور نہ كوئي لائق عبادت ہے _إننى ا نا الله لا إله إلا ا نا

''إلہ'' كا معنى ہے معبود اور آيت كريمہ ميں اس سے مراد ''معبود حق'' ہے كيونكہ باطل معبودوں كا وجود قابل انكار نہيں ہے _

۵ _ موسى (ع) اپنى نبوت اور وحى حاصل كرنے سے پہلے بھى خداتعالى كى معرفت ركھتے تھے اور اسكى ربوبيت كو مانتے تھے _إنى ا نا ربك إنّنى ا نا الله لا إله إلا ا نا

يہ دو جملے '' إنى ا نا ربك'' اور ''إنّنى ا نا الله '' بتارہے ہيں كہ موسى (ع) پہلے سے ہى ان ناموں

۲۷

كو پہچانتے تھے اور ان كا اعتقاد ركھتے تھے اور كوہ طور ميں انہوں نے ''ربّ'' اور ''الله '' كو صاحب آواز پر منطبق كيا _

۶ _ خداتعالى كى عبادت كے ضرورى ہونے اور غير خدا كى پرستش سے پرہيز كى تاكيد، حضرت موسى (ع) كى نبوت كے آغاز ميں خدا كى طرف سے انہيں پہلى نصيحت_لا إله إلا ا نا فاعبدني

۷ _ لوگوں كو خداتعالى اور اسكى وحدانيت سے آشنا كرانا انہيں خدا كى عبادت كى دعوت دينے كا پيش خيمہ ہے _

إننى ا نا الله لا إله إلا ا نا فاعبدني ''فاعبدني'' ميں ''فائ'' سابقہ جملہ پر تفريع كيلئے ہے كہ جس ميں خداتعالى اور اسكى وحدانيت كا تعارف كرايا گيا ہے _

۸ _ مخلصانہ عبادت خداتعالى كے حضور ميں سب سے بڑا فريضہ ہے حتى كہ انبياء كيلئے بھى _إننى ا نا الله لا إله إلاا نا فاعبدني

۹ _ خداتعالى كا يكتا ہونا ( توحيد ذاتي) اسكے لئے مخلصانہ عبادت كو مختص كرنے( توحيد عبادي) كے ضرورى ہونے كى دليل ہے _إننى ا نا الله لا إله إلا ا نا فاعبدني

۱۰ _ نماز كى پابندى اور اسے قائم كرنے كا حكم وادى طوى ميں حضرت موسى (ع) كو ديئے گئے پہلے عملى پروگراموں ميں سے تھا _ا قم الصلوة ''اقامہ نماز'' ( نماز قائم كرنا ) اسكى پابندى كے ساتھ ہے_

۱۱ _ نماز قائم كرنا خداتعالى كے حضور ميں عبوديت كا سب سے واضح جلوہ ہے _فاعبدنى و ا قم الصلوة

۱۲ _ نماز ديگر سب عبادتوں سے زيادہ اہم ہے _فاعبدنى و ا قم الصلوة

سب عبادات ميں سے صرف نماز كا ذكر كرنا ديگر عبادات كے مقابلے ميں اس عمل كے خاص مرتبے اور برتر ہونے كو بيان كرتا ہے _

۱۳ _ دين موسى (ع) ميں نماز تشريع ہوچكى تھى _و ا قم الصلوة

۱۴ _ خداتعالى كى طرف توجہ اور اسكى ياد ميں ہونا نماز كے اہداف اور ثمرات ميں سے ہے _و ا قم الصلوة لذكري

۱۵ _ نماز ميں ذكر خدا كا ہونا خداتعالى كى طرف سے اسے قائم كرنے كى نصيحت اورشوق دلانے كا سبب ہے _

ا قم الصلوة لذكري ''لذكري'' ممكن ہے نماز كے نتيجے كو بيان كررہا ہو كہ نماز دلوں ميں يادخدا كو زندہ كرتى ہے اور ممكن

۲۸

ہے اس سے مراد نماز كا اذكار الہى پر مشتمل ہونا ہو يعنى نماز قائم كرنا اسلئے واجب ہے كہ اس ميں ذكر خدا ہے _

۱۶ _ ضرورى ہے كہ نماز اور ديگر عبادتيں مخلصانہ اور صرف ياد خدا كيلئے ہوں _فاعبدنى و ا قم الصلوة لذكري

''لذكري'' ميں ''ذكر'' كا ياء متكلم كے ساتھ مختص ہونا مذكورہ نكتے كو بيان كررہا ہے يعنى ''لذكرى لا لذكر غيري'' _

۱۷ _ خداتعالى كى ياد اور اسكى طرف توجہ تمام عبادات كا مشتركہ فلسفہ ہے _فاعبدنى و ا قم الصلوة لذكري

جس طرح ''لذكري'' ''ا قم الصلوة'' كى علت كو بيان كررہا ہے ہوسكتا ہے ''فاعبدنى '' كى علت كا بيان بھى ہو _

۱۸ _ ضرورى ہے كہ ہميشہ خدا كى ياد ميں رہيں اور اسكے ذكر سے غافل نہ ہوں _لذكري

۱۹ _''عن ا بى جعفر(ع) قال: إذا فاتتك صلاة فذكرتها فى وقت ا خرى فإن كنت تعلم ا نّك إذا صليت التى فاتتك كنت من الا خرى فى وقت فابدا بالتى فاتتك فإن الله عزوجل يقول: ا قم الصلاة لذكري'' ; امام باقر(ع) سے روايت ہے كہ آپ (ع) نے فرمايا: جب بھى تجھ سے كوئي نماز چھوٹ جائے اور دوسرى نماز كے وقت ميں ياد آئے تو اگر تجھے معلوم ہو كہ نماز قضا كے انجام دينے كے بعد واجب نماز كو اس كے وقت ميں بجالانے كى فرصت بچ جائيگى تو پہلے قضا نماز كو انجام دے كيونكہ خداتعالى نے فرماياہے'' ا قم الصلوة لذكري'' ( اس فقہى نكتے كا استفادہ اس چيز كے پيش نظر ہے كہ '' لذكري'' كا لام ''توقيت'' كيلئے ہو كہ جس كے نتيجے ميں آيت كا معنى يہ ہوگا '' ا قم الصلوة وقت تذكيرى إيّاك'') ( يعنى نماز قائم كر جس وقت تجھے اسكى ياد دلا دوں مترجم) _

انبياء :انكى شرعى ذمہ دارى ۸

شرعى ذمہ داري:سب سے اہم شرعى ذمہ دارى ۸

توحيد:توحيد ذاتى كے اثرات ۹; توحيد كى اہميت ۱; توحيد عبادى كى اہميت ۶، ۱۶; توحيد كى طرف دعوت كى اہميت ۷; توحيد عبادى ۴; توحيد عبادى كى علل ۹

نظريہ كائنات:توحيدى نظريہ كائنات ۴

خداتعالى :

۲۹

اسكے اوامر ۶; خداشناسى كى دعوت كى اہميت ۷; اسكى نصيحت ۱۵; اسكى موسى كے ساتھ گفتگو ۲

ياد :ياد خدا كى اہميت ۱۴، ۱۷، ۱۸; نماز ميں ياد خدا ۱۵

روايت :۹۱

سخن:اسكے آداب ۳

شرك:اس سے اجتناب كى اہميت ۶

عبادت:اس ميں خلوص ۱۶; اس ميں خلوص كى اہميت ۸; عبادت خدا كا پيش خيمہ ۷; عبادات كا فلسفہ ۱۷

عبوديت:اسكى نشانياں ۱۱

معاشرت:اسكے آداب ۳

موسى (ع) :انكى شرعى ذمہ دارى ۶; انكى خداشناسى ۵; آپ وادى طوى ميں ۱، ۲; آپ نبوت سے پہلے ۵; انكى طرف وحى ۱، ۱۰

نماز:اسكے احكام ۱۹; اس ميں خلوص ۱۶; اسے قائم كرنے كى اہميت ۱۰، ۱۱ ; اسكى اہميت ۱۲; اسكى نصيحت ۱۵; اس كا فلسفہ ۱۴، ۱۵; يہ آسمانى اديان ميں ۱; يہ يہوديت ميں ۱۳; نماز قضا كا وقت ۱۹

وحى :اسكى تعليمات ۱

آیت ۱۵

( إِنَّ السَّاعَةَ ءاَتِيَةٌ أَكَادُ أُخْفِيهَا لِتُجْزَى كُلُّ نَفْسٍ بِمَا تَسْعَى )

يقينا وہ قيامت آنے والى ہے اور ميں اسے چھپائے رہوں گا تا كہ ہر نس كو اس كى كوشش كا بدلہ ديا جاسكے (۱۵)

۱ _ قيامت كا آنا حتمى ہے _إن السّاعة ء اتية

۳۰

۲ _ ''ساعة '' قيامت كا ايك نام ہے _إن السّاعة ء اتية

''ساعة'' يعنى وقت كا ايك حصہ بہت سارى آيات ميں قيامت كو ''ساعة '' سے تعبير كيا گيا ہے اور يہ قيامت كے مشہور ناموں ميں سے ايك نام بن گيا ہے _

قيامت كو يہ نام يا تو اسلئے ديا گيا ہے كہ سارى مخلوقات ايك وقت ميں محشور ہوں گى اور يا اسلئے كہ اسكے برپا ہونے كا وقت ايك مختصر لحظہ ہے _( لسان العرب سے اقتباس)

۳ _ قيامت پر ايمان دين موسى كے اہم ترين اعتقادى اركان ميں سے ہے _نودى يا موسى إن السّاعة ء اتية

۴ _ قيامت اور اسكى خصوصيات سے مطلع ہونے كا ذريعہ صرف خداتعالى كى طرف سے آئي ہوئي معلومات ہيں _

ا كاد ا خفيه ''ا خفيہا'' كا خداتعالى كى طرف اسناد بتاتا ہے كہ اگر اس نے قيامت كے بارے ميں بات نہ كى ہوتى تو ہمارے لئے اس سے مطلع ہونے كا كوئي راستہ نہ تھا_

۵ _ خداتعالى نے اپنے ارادہ سے قيامت كے برپا ہونے كے وقت كو انسان سے مخفى ركھا ہے _ا كاد ا خفيه

قاموس ميں آيا ہے كہ اس آيت ميں ''ا كاد'' ''ا ريد'' كے معنى ميں ہے اور ''ا كاد ا خفيہا'' يعنى ميرا ارادہ ہے كہ اسے مخفى ركھوں پس قيامت كو مخفى ركھنے سے مراد اسكے وقوع پذير ہونے كے وقت كو مخفى ركھنا ہوگا نہ خود اسكے وقوع كو مخفى ركھنا _

۶ _ قيامت كا واقع ہونا اچانك ہے _ا كاد ا خفيه

۷ _ ايك ايك انسان كو بدلہ دينا قيامت كے برپا ہونے كا فلسفہ _ء اتية لتجزى كل نفس

''لتجزى '' يا تو ''آتية'' كى علت كا بيان ہے اور '' ا كاد ا خفيہا'' جملہ معترضہ ہے اور يا يہ آيت كريمہ ميں مذكور دونوں چيزوں يعنى قيامت كا آنا اور خداتعالى كى طرف سے اسكى خبردينے كا مخفى ركھنا كى علت كا بيان ہے اور يا يہ صرف ''ا خفيہا'' كى علت كو بيان كررہا ہے ، مذكورہ مطلب پہلے دو احتمالوں كى بناپر ہے _

۸ _ انسان كا قيامت كے برپا ہونے كے وقت سے آگاہ نہ ہونا اسكے اپنے كاموں كى پابندى كرنے اور پھر جزا و سزا كا مستحق بننے كا پيش خيمہ ہے _ا كاد ا خفيها لتجزى كل نفس بما تسعى

مذكورہ بالا نكتے ميں''لتجزى '' كے لام كو''ا كاد ا خفيها'' كى تعليل كيلئے ليا گيا ہے پس جملہ كى تركيب در حقيقت يوں ہوگى''لتسعى كل نفس فتجزى بما تسعى '' خلاصہ اس سے مراد يہ ہوگا كہ ميں نے ارادہ كيا ہے كہ

۳۱

قيامت كو مخفى ركھوں تا كہ سب لوگ اپنى كوشش جارى ركھيں اور اپنے كردار كے نتائج كو ديكھ ليں _ يہ ايك نفسيانى چيز ہے كہ اگر انہيں اپنى موت اور جہان ہستى كى نابودى كا وقت معلوم ہوجائے تو انسان اپنى بہت سى كوششوں كو ترك كرديگا _

۹ _ انسان اپنى دائمى اور مستمر كوششوں اور كردار كے مقابلے ميں ذمہ دار ہے _لتجزى كل نفس بما تسعى

''عمل'' كى جگہ پر مادہ ''سعى '' كا استعمال ممكن اسلئے ہو كہ وہ برائياں جن پر اصرار نہيں كيا جاتا ان سے چشم پوشى كى جائيگى اور يہ نيك اعمال كى نسبت مداومت كى نصيحت ہے _

۱۰ _ دنيا، كوشش كى جگہ اور آخرت جزا و سزا اور اپنى كوشش كا نتيجہ لينے كى جگہ ہے _إنّ السّاعة ء اتية لتجزى كل نفس بما تسعى

۱۱ _ دنيا ميں انسانوں كے اعمال كا بدلہ دينے كيلئے ضرورى وسائل اور گنجاش نہيں ہے _الساعة ء اتية لتجزى كل نفس بما تسعى

بدلہ دينے كيلئے قيامت كے برپا ہونے كا ضرورى ہونا اس چيز كى طرف اشارہ ہے كہ دنيا انسان كى اچھى اور برى كوششو ں كا بدلہ دينے كى گنجائش نہيں ركھتى لہذا ايك اور دن اور حالات فراہم كرنے كى ضرورت ہے تا كہ بدلہ ديا جاسكے _

۱۲ _ انسان كا جزا و سزا پانا خود اسكى كوشش و كردار كا نتيجہ ہے _لتجزى كل نفس بما تسعى

۱۳ _ميدان قيامت ميں حاضر ہونا اور اپنے دنياوى اعمال كے بدلے كا سامنا كرنا سب انسانوں كا انجام ہے _

إنّ السّاعة لتجزى كل نفس بما تسعى

۱۴ _ انسان كا عبادت اور نماز ميں سعى و كوشش كرنا قيامت ميں حتمى جزا ركھتا ہے _فاعبدنى و ا قم الصلوة لتجزى كل نفس بما تسعى

آخرت:اس كا كردار ۱۰

انسان:اسكى اخروى پاداش ۱۰، ۱۳; اس كا محشور ہونا ۱۳; اس كا انجام ۱۳; اسكى ذمہ دارى ۹

ايمان :قيامت پر ايمان كى اہميت ۳

پاداش:اس كا پيش خيمہ ۸; اسكے عوامل ۱۲; اخروى پاداش كے عوامل ۱۴; دنياوى پاداش كا محدود ہونا ۱۱; اسكى جگہ ۱۰

۳۲

كوشش:اس كا پيش خيمہ ۸

خداتعالى :اسكے ارادے كے اثرات ۵; اسكى تعليمات كى اہميت ۴

دنيا :اس كا كردار ۱۰

الساعة: ۲

عبادت:اسكے لئے كوشش كے اثرات ۱۴

عمل:اسكے اثرات ۱۲; اسكى فرصت ۱۰; اس كا ذمہ دار ۹

قيامت :اس ميں پاداش ۷; اس كا حتمى ہونا ۱; اسكے مخفى ہونے كا فلسفہ ۸; اسكے برپا ہونے كا فلسفہ ۷; اس ميں سزا ۷; اسكے مخفى ہونے كا سرچشمہ ۵; اسكے علم كا سرچشمہ ۴; اس كا اچانك ہونا ۶; اس كے نام ۲; اس كا وقت ۵

سزا :اس كا پيش خيمہ ۸; اسكے عوامل ۱۲; دنياوى سزا كا محدود ہونا ۱۱; اسكى جگہ ۱۰

نماز:اسكے لئے كوشش كے اثرات ۱۴

يہوديت:اسكے اركان ۳

آیت ۱۶

( فَلاَ يَصُدَّنَّكَ عَنْهَا مَنْ لاَ يُؤْمِنُ بِهَا وَاتَّبَعَ هَوَاهُ فَتَرْدَى )

اور خبردار تمھيں قيامت كے خيال سے وہ شخص روك نہ دے جس كا ايمان قيامت پر نہيں ہے اور جس نے اپنے خواہشات كى پيروى كى ہے كہ اس طرح تم ہلاك ہو جاؤگے (۱۶)

۱ _ خداتعالى نے وادى طوى ميں حضرت موسى (ع) كو منكرين قيامت كى طرف سے انہيں قيامت كى طرف متوجہ ہونے سے روكنے كے خطرے سے آگاہ كيا اور انہيں انكے مكر و فريب سے ڈرايا _

فاعبدني فلا يصّدنّك عنها من لا يؤمن بها ''عنها'' ، ''بها'' كى ضميروں كا مرجع ''الساعة'' ہے جو گذشتہ آيت ميں تھا _

۲ _ كفار كو لوگوں كے ايمان ميں طمع ركھنے سے مايوس كرنا اور ان كے مؤمنين كو فريب دينے كاميابى كے ذرائع كو ختم كرنا ضرورى ہے _فلا يصّدنّك عنها من لايؤمن به

۳۳

مفسرين نے كہا ہے كہ ''لايصّدنّك'' كى نہى اگر چہ ظاہرى طور پر كفار كو ہے ليكن در حقيقت يہ سبب كو وجود ميں لانے سے نہى ہے يعنى اے موسى تو اور ديگر مؤمنين اس طرح عمل نہ كريں كہ كفار تمہيں ايمان سے باز ركھ سكيں _

۳ _ كفار كے شكوك و شبہات پيدا كرنے اور ان كے دباؤ كے مقابلے ميں دين الہى كى حفاظت كرنا ضرورى ہے _

فلايصّدنّك عنها من لا يؤمن به

۴ _ انبياء كى كفار كے فريب اور وسوسوں سے رہائي خداتعالى كى راہنمائي اور نصيحتوں كے سائے ميں ہے _

فلا يصّدنّك عنها من لا يؤمن به

۵ _ دين الہى اور خدائي پروگراموں كے منكر لوگوں كو دين اور اس پر عمل كى طرف مائل ہونے سے روكنے كے درپے ہيں _*''عنہا'' اور ''بہا'' كى ضميروں كا مرجع ممكن ہے وہ تمام تعليمات اور ہدايات ( توحيد عبادت اور نماز كا لازمى ہونا، معاد اور جزا و سزا ) ہوں جنكى حضرت موسى (ع) كو وادى طوى ميں تعليم دى گئي تھي_

۶ _ ہوا و ہوس نفسانى كى پيروى كا نتيجہ قيامت كا انكار اور اس پرايمان كا نہ ہوناہے _من لا يؤمن بها و اتبع هوى ه

''اتبع'' ماضى ہے اور اس كا ''لايؤمن'' جو مضارع ہے پر عطف كيا گيا ہے تا كہ اسكى علت كو بيان كرے اور دلالت كرے كہ ہوس كى پيروى جو ماضى ميں انجام پائي مستقبل ميں آخرت كے ساتھ عدم ايمان كا سبب ہے _

۷ _ خواہشات نفسانى معاد اور آخرت ميں سزا و جزا كے اعتقاد كے بارے ميں اشكال كرنے كى بنياد ہے _

فلا يصّدنّك عنها من اتبع هوى ه

۸ _ دينى اعتقادات ميں قيامت اور اعمال كى جزا و سزا پر ايمان خاص اہميت كا حامل ہے _الساعة ء اتية فلا يصّدنّك عنه

۹ _ تباہى اور ہلاكت، آخرت كى طرف عدم توجہ اور اعمال كى جزا و سزا سے بے اعتنائي كا انجام ہے _

فلا يصّدنّك عنها فتردى

''تردى '' ''ردي'' بمعنى ہلاكت سے مشتق ہے اوريہ منكرين معاد كے شكوك و شبہات پيدا كرنے كے انجام كو بيان كر رہا ہے _

۱۰ _ خواہشات نفسانى كى پيروى تباہى و ہلاكت كا سبب

۳۴

ہے _فلايصّدنّك عنها من اتبع هوى ه فتردى

آيت كريمہ فريب كھائے ہوئے ہوا پرست لوگوں كو ہلاك شدہ سمجھتى ہے پس حتمى طور پر خود ہوا پرست لوگوں كا يہى انجام ہوگا _

انبياء:انكى نجات كا سرچشمہ ۴

ايمان:قيامت پر ايمان كى اہميت ۸

خداتعالى :اس كا ڈرانا ۱; اسكى نصيحتوں كى اہميت ۴

دين:دينى آسيب شناسى ۵،۶; اصول دين ۸; اسكى حفاظت ۳

غفلت:قيامت سے غفلت كا خطرہ ۱; آخرت سے غفلت كا انجام ۹; عمل كى پاداش سے غفلت كا انجام ۹; عمل كى سزا سے غفلت كا انجام ۹

قيامت :اسے جھٹلانے والوں كا مكر، ۱

كفار:انكى مايوسى كى اہميت ۲; انكى دشمنى ۵; انكى دين دشمني۵; انكا شكوك و شبہات پيدا كرنا ۳; انكے مكر سے ممانعت ۲; انكے مكر سے نجات ۴

كفر:قيامت كے كفر كا پيش خيمہ ۶

تمايلات :دين كى طرف تمايل سے ممانعت ۵

معاد:اسكے بارے ميں شكوك و شبہات كا سرچشمہ ۷

موسى (ع) :انكا قصہ ۱; انكى طرف وحى ۱; انہيں خبردار كرنا ۱

ہلاكت:اسكے عوامل ۹ ، ۱۰

ہواپرستي:اسكے اثرات ۶، ۷، ۱۰

۳۵

آیت ۱۷

( وَمَا تِلْكَ بِيَمِينِكَ يَا مُوسَى )

اور اے موسى يہ تمھارے داہنے ہاتھ ميں كيا ہے (۱۷)

۱ _ حضرت موسى (ع) جب آگ لانے كيلئے اپنے گھروالوں سے جدا ہوئے تو انكا ڈنڈا بھى انكے ہمراہ تھا_

و ما تلك بيمينك يا موسى

''تلك'' مونث كى طرف اشارہ كرنے كيلئے ہے اور دلالت كر رہا ہے كہ جو كچھ حضرت موسى كے ہاتھ ميں تھا اس پر ''خشبہ '' يا ''عودہ'' ( ڈنڈا) كا اطلاق مسلم ہے پس حضرت موسى (ع) سے طلب كيا گيا تھا كہ وہ جواب ميں اس ڈنڈے كى خصوصيات بيان كريں تا كہ وہ متوجہ رہيں كہ كيا چيز سانپ ميں تبديل ہوگى _قابل ذكر ہے كہ بعد والى آيت كے جملے ''ا ہش بہا على غنمي'' سے استفادہ ہوتا ہے كہ موسى (ع) كے كوہ طور پر آنے سے پہلے وہ ڈنڈا انكے ہمراہ تھا _

۲ _ خداتعالى نے وادى طوى ميں حضرت موسى (ع) سے چاہا كہ وہ اپنے ڈنڈے كى خصوصيات بيان كريں _

و ما تلك بيمينك يا موسى

۳ _ خداتعالى ، موسى (ع) كيلئے خاص لطف و كرم ركھتا تھا _و ما تلك بيمينك يا موسى

واضح ہے كہ خداتعالى كا موسى (ع) سے سوال مطلع ہونے كيلئے نہيں تھا بلكہ يہ سوال باب گفتگو كا آغاز ہوسكتا ہے اور موسى (ع) كو انكے ڈنڈے كے معمولى نہ ہونے كى طرف متوجہ كرنا اضطراب اور خوف كو بھى دور كرتا ہے اس سوال كو پيش كرنا اور دوبارہ ''ى موسى '' كے ساتھ مخاطب كرنا موسى (ع) كيلئے الله تعالى كے لطف و كرم كے اظہار كى علامت ہے_

خداتعالى :اسكى نصيحتيں ۲

كوہ طور :اسكى آگ ۱

لطف خدا:

۳۶

يہ جنكے شامل حال ہے ۳

موسى (ع) :انكو نصيحت ۲; انكا ڈنڈا ۱; انكے فضائل ۳; انكاقصہ ۱، ۲; انكے ڈنڈے كى خصوصيات ۲

آیت ۱۸

( قَالَ هِيَ عَصَايَ أَتَوَكَّأُ عَلَيْهَا وَأَهُشُّ بِهَا عَلَى غَنَمِي وَلِيَ فِيهَا مَآرِبُ أُخْرَى )

انھوں نے كہا كہ يہ ميرا عصا ہے جس پر ميں تكيہ كرتا ہوں اور اس ے اپنى بكريوں كے لئے درختوں كى پتياں جھاڑتا ہوں اور اس ميں ميرے اور بہت سے مقاصد ہيں (۱۸)

۱ _ حضرت موسى (ع) نے خداتعالى كے اس سوال كہ آپ كے ہاتھ ميں كيا ہے كے جواب ميں عرض كيا يہ ميرا ڈنڈا ہے _و ما تلك بيمينك يا موسى ...قال هى عصاي

۲ _ موسى (ع) نے ڈنڈے پر سہارا لينا اور اپنى بكريوں كيلئے درختوں كے كمزور پتوں كو گرانا ڈنڈے كے فوائد شمار كئے _

''ہش'' كا معنى ہے پتے گرانے كيلئے خشك درخت كو ڈنڈا مارنا ( لسان العرب) يہ كلمہ ان چيزوں كے بارے ميں استعمال ہوتا ہے جو ملائم ہوں اور سخت نہ ہوں (مفردات راغب) ''على غنمي'' ميں ''علي'' كا استعمال بكريوں كے پتوں سے استفادہ كرنے كيلئے درخت كے نيچے موجود ہونے كى طرف اشارہ ہے _

۳ _ حضرت موسى (ع) نے سہارا لينے اور درختوں كے پتے گرانے كے علاوہ اپنے ڈنڈے كو متعدد ضروريات پورى كرنے كيلئے كارساز قرارديا _ولى فيها مارب ا خرى

''مارب'' كے مفرد ''ماربہ'' كا معنى ہے حاجت اور نياز ( مصباح )

۴ _ہاتھ ميں ڈنڈا پكڑنا اور چلنے اور كھڑا ہونے ميں اس كا سہارا لينا ايك مطلوب اور مفيد كام ہے _

۳۷

و ما تلك بيمينك هى عصاى ا توكؤا عليه

موسي(ع) سے منقول سخن ميں سہارا لينے كو ديگر فوائد پر مقدم كرنا اس فائدے كے ديگر فوائد سے اہم ہونے كى علامت ہے_ اور يہ اہميت حضرت موسى (ع) كى جسمانى صحت بلكہ آپكى جسمانى توانمندى كے پيش نظر زيادہ واضح ہوجاتى ہے _

۵ _ مدين سے مصر جاتے ہوئے حضرت موسى (ع) كے ہمراہ بكرياں تھيں كہ جنہيں آپ خود چراتے تھے_ا هش بها على غنمي ''غنم'' يعنى بكرياں اور يہ كلمہ خود اپنے لفظ سے مفرد نہيں ركھتا اورايك بكرى كو كہا جاتا ہے ''شاة'' (مصباح)_

۶ _ جس سرزمين ميں حضرت موسى (ع) نے جانور ركھے ہوئے تھے اور انہيں چراتے تھے اس ميں ايسے درخت تھے كہ جنكے پتے جانوروں كى غذا كيلئے مناسب تھے _و ا هش بها على غنمى

۷ _ حضرت موسى (ع) نے خداتعالى كے ساتھ ہم كلام ہونے كى فرصت كو غنيمت شمار كيا اور اس سے لذت اٹھا رہے تھے _ما تلك قال هى عصاى ا توكؤا عليها و ا هش ولى فيها ما رب ا خرى

خدا تعالى كے سوال كے جواب ميں جملہ ''ہى عصاى '' كافى تھا لذا ديگر جملوں كا اضافہ كرنا حضرت موسى (ع) كے خدا كے ساتھ ہم كلام ہونے كے اشتياق كو بيان كررہاہے_

۸ _ خداتعالى كى خواہش پر عمل كرنے ميں تمام احتمالات كو انجام دينا ضرورى ہے _

ما تلك هى عصاى ا توكؤا ولى فيها م َارب ا خرى

حضرت موسى (ع) كے ''ہى عصاي'' پر اكتفا نہ كرنے كے بارے ميں كہا گيا ہے كہ اس جواب كے واضح ہونے نے حضرت موسى (ع) كو اس فكر ميں ڈال ديا كہ شايد مقصود ڈنڈے كے فوائد ہوں اور اسى احتمال كى بناپر انہوں نے بعد والے جواب اپنى زبان پر جارى كئے_

اصول عمليہ:اصالة الاحتياط ۸

شرعى ذمہ داري:اس پر عمل كرنے كى كيفيت ۸

خداتعالى :اسكى موسى (ع) كے ساتھ گفتگو ۷; اسكے ساتھ گفتگو كى لذت ۷

ڈنڈا:اسكے فوائد ۴/عمل:پسنديدہ عمل ۴

موسى (ع) :انكى بكريوں كى غذا ۶; انكا ريوڑچرانا ۵; انكا ڈنڈا ۱; انكے ڈنڈے كے فوائد ۲، ۳; انكا قصہ ۱، ۵، ۶; انكى بكرياں ۵; انكى معنوى لذات ۷; انكے جانور چرانے كى جگہ ۶

۳۸

آیت ۱۹

( قَالَ أَلْقِهَا يَا مُوسَى )

ارشاد ہوا تو موسى اسے زمين پر ڈال دو (۱۹)

۱ _ خداتعالى نے وادى طوى ميں حضرت موسى (ع) كو حكم ديا كہ اپنا ڈنڈا زمين پر پھينكيں _قال ا لقها يا موسى

۲ _ خداتعالى كى حضرت موسى (ع) كے ساتھ گفتگو انكے ساتھ لطف و كرم اور را فت كے اظہار كے ہمراہ تھى _

ى موسى قال ا لقها يا موسى

نام كا تكرار مخاطب كے ساتھ كامل محبت كے اظہار كى علامت ہے_ ان آيات كريمہ ميں آيات كے محبت آميز لہجے كے علاوہ خطاب الہى ميں چند مرتبہ حضرت موسي(ع) كے نام كا تكرار ہوا ہے كہ جو خداتعالى كى انكے ساتھ خاص عنايت اور لطف كى علامت ہے _ -

خداتعالى :اسكے اوامر ۱; اسكى موسى (ع) كے ساتھ گفتگو ۲

خداتعالى كا لطف:يہ جنكے شامل حال ہے ۲

موسى (ع) :انكا ڈنڈے كو پھينكنا ۱; انكے فضائل ۲; انكا قصہ ۱

آیت ۲۰

( فَأَلْقَاهَا فَإِذَا هِيَ حَيَّةٌ تَسْعَى )

اب جو موسى نے ڈال ديا تو كيا ديكھا كہ وہ سانپ بن كر دوڑ رہا ہے (۲۰)

۱ _ حضرت موسى (ع) نے حكم خداوندى سے اپنا ڈنڈا زمين پر پھينكا _

۳۹

فا لقى ها

۲ _ پھينكے جانے كے بعد حضرت موسى (ع) كا ڈنڈا متحرك سانپ ميں تبديل ہوگيا _فا لقى ها فإذا هى حية تسعى

۳ _ حضرت موسى (ع) كے ڈنڈے كا پھينكاجانا اور اس كا سانپ ميں تبديل ہونا ايك ہى وقت ميں تھا _

فإذا هى حية ''إذا'' مفاجات كيلئے ہے اور پہلے اور بعد والے جملوں كے وقت كے ايك ہونے پر دلالت كرتا ہے _

۴ _ خداتعالى كا ڈنڈے كے بارے ميں حضرت موسى (ع) سے سوال آپ كو معجزہ اور آيت دكھانے كيلئے آپكى ذہنى آمادگى اور ضرورى ما حول بنانے كى خاطر تھا _و ما تلك بيمينك فا لقيها فإذا هى حية

خداتعالى كے جواب ميں حضرت موسى (ع) كا ڈنڈے كے قدرتى خواص كى وضاحت كرنا انكے ذہن ميں مناسب آمادگى پيدا كررہا ہے تا كہ ڈنڈے كى دو حالتوں كا موازنہ كرنے كے بعد اسكى نئي حالت كے معجزہ ہونے كے بارے ميں انہيں كوئي شك نہ ہو _

۵ _ حضرت موسى (ع) كاڈنڈا سانپ ميں تبديل ہونے كے بعد جان ركھتا تھا اور اپنى مرضى سے اچھل كود كررہا تھا _

حية تسعى خداتعالى نے بعد والى آيات ميں حضرت موسى (ع) اور جادوگروں كے مقابلہ كى داستان ميں جادوگروں كے بارے ميں فرمايا ہے_''يخيّل إليه من سحرهم ا نها تسعى '' اس كا ''تسعى '' ( جو اس آيت ميں ہے) كے ساتھ مقابلہ كرنے سے حضرت موسى (ع) ڈنڈے كى حركت كے حقيقى ہونے كاپتا چلتا ہے_

خداتعالى :اسكے سوال كا فلسفہ ۴

ڈنڈا:اس كا سانپ ميں تبديل ہونا ۲، ۳، ۵

موسى (ع) :انكا ڈنڈے كو پھينكنا ۱; ان ميں آمادگى پيدا كرنا ۴; ان سے سوال ۴; انكے ڈنڈے كا تبديل ہونا ۲; انكا شرعى ذمہ دارى پر عمل ۱; انكا قصہ ۱، ۲; انكا معجزہ ۴; انكے ڈنڈے كى خصوصيات ۲، ۳، ۵

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750