تفسير راہنما جلد ۱۱

تفسير راہنما 10%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 750

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 750 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 219034 / ڈاؤنلوڈ: 3020
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

آیۂ تبدیل کی شان نزول

جب خدا وند سبحان نے شریعت موسیٰ کے بعض احکام کو دوسرے احکام سے حضرت خاتم الانبیاءصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شریعت میں تبدیل کردیا( جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے) توقریش نے رسول پر شورش کی اور بولے : تم خدا کی طرف جھوٹی نسبت دے رہے ہو!تو خدا وند عالم نے ا ُن کی بات انھیں کی طرف لوٹاتے ہوئے فرمایا:

( واِذا بدّلنا آية مکان آية و ﷲ اعلم بما ینزّل قالوا اِنّما أنت مفتر...) (اِنما یفتری الکذب الذین لایؤمنون بآیات ﷲ ...)( فکلوا ممّا رزقکم ﷲ حلا لاً طیباً ) ( ۱ )

اور جب ہم کسی حکم کو کسی حکم سے تبدیل کرتے ہیں (اور خدا بہتر جانتا ہے کہ کونسا حکم نازل کرے )تو وہ کہتے ہیں : تم صرف ایک جھوٹی نسبت دینے والے ہو ...،صرف وہ لوگ جھوٹ بولتے ہیں جو خدا کی آیات پر ایمان نہیں رکھتے لہٰذا جو کچھ خدا نے تمہارے لئے رزق معین فرمایا ہے اس سے حلال اور پاکیزہ کھاؤ۔

یعنی کچھ چیزیں جیسے اونٹ کا گوشت ،حیوانات کے گوشت کی چربی تم پر حرام نہیں ہے ، صرف مردار ، خون ، سؤر کا گوشت اور وہ تمام جانورجن کے ذبح کے وقت خدا کا نام نہیں لیا گیا ہے، حرام ہیں، نیز وہ قربانیاں جو مشرکین مکّہ بتوں کو ہدیہ کرتے تھے اسکے بعد خدا وند عالم نے قریش کو خدا پر افترا پردازی سے روکا اور فرمایا : من مانی اور ہٹ دھرمی سے نہ کہو : یہ حلال ہے اور وہ حرام ہے !چنانچہ ان کی گفتگو کی تفصیل سورۂ انعام میں بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے:

( وقالوا هذه أنعام و حرث حجر لا یطعمها اِلاّ من نشاء بزعنمهم و أنعام حرّمت ظهور ها و أنعام لا یذکرون اْسم ﷲ علیها أفترائًً علیه و سیجزیهم بما کانوا یفترون)( و قالوا ما فی بطون هذه الأنعام خالصة لذکورنا و محرّم علیٰ أزواجنا و ِان یکن میتةً فهم فیه شرکاء سیجز یهم و صفهم أنّه حکیم علیم ) ( ۲ )

انھوں نے کہا : یہ چوپائے اور یہ زراعت ممنوع ہے، بجزان لوگوں کے جن کو ہم چاہیں(ان کے اپنے گمان میں )کوئی دوسرا اس سے نہ کھا ئے اور کچھ ایسے چوپائے ہیں جن پر سواری ممنوع اور حرام ہے ! اور وہ

____________________

(۱)نحل ۱۰۱ ، ۱۰۵، ۱۱۴

(۲)انعام ۱۳۸، ۱۳۹

۶۱

چوپائے جن پر خدا کا نام نہیں لیتے تھے اور خدا کی طرف ان سب کی جھوٹی نسبت دیتے تھے عنقریب ان تمام بہتانوں کا بدلہ انہیں دیا جائے گا اور وہ کہتے تھے : جو کچھ اس حیوان کے شکم میں ہے وہ ہم مردوں سے مخصوص ہے اور ہماری عورتوں پر حرام ہے ! اور اگر مر جائے تو سب کے سب اس میں شریک ہیں خدا وند عالم جلد ہی ان کی اس توصیف کی سزا دے گا وہ حکیم اور دانا ہے۔

سورۂ یونس میں بھی اس کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے :

( قل أراْیتم ماأنزل ﷲ لکم من رزق فجعلتم منه حراماًوحلالاً قل آأﷲ أذن لکم أم علیٰ ﷲ تفترون ) ( ۱ )

کہو: جو رزق خدا وند عالم نے تمہارے لئے نازل کیا ہے تم نے اس میں سے بعض کو حلال اور بعض کو حرام کر دیا، کیا خدا نے تمھیں اس کی اجازت دی ہے ؟ یا خدا پر افترا پردازی کر رہے ہو؟

اس طرح رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور مشر کین قریش کے درمیان حلال و حرام کا مسٔلہ قریش کے خود ساختہ موضوعات سے لے کر شریعت موسیٰ کے احکام تک کہ جنہیں جسے خدا نے مصلحت کی بناء پر حضرت خاتمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شریعت میں دوسرے احکام سے تبدیل کر دیا ،سب کے سب موضوع بحث تھے۔

مکہ میں قریش ہر وہ حلال و حرام جسے رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خداکے فرمان کے مطابق پیش کرتے تھے اور وہ ان کے دینی ماحول کے اور جو کچھ موسیٰ ابن عمران کی شریعت کے بارے میں جانتے تھے اس کے مخالف ہوتا تو عداوت و دشمی کے لئے آمادہ ہو جاتے تھے اسی دشمنی کا مدنیہ میں بھی یہود کی طرف سے سامناہوا، وہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ان احکام کے بارے میں جو توریت کے بعض حصے کو نسخ کرتے تھے جنگ کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے خدا وندعالم سورۂ بقرہ میں اس جدال کو بیان کرتے ہوئے بنی اسرائیل کو خطاب کر کے فرماتا ہے:

( أفکلما جاء کم رسول بما لا تهوی انٔفسکم اْستکبرتم ففر یقاً کذبتم و فریقاً تقتلون ) ( ۲ )

کیا ایسا نہیں ہے کہ جب بھی کسی رسول نے تمہاری نفسانی خواہشات کے برعکس کوئی کسی چیز پیش کی ، تو تم نے تکبر سے کام لیا،لہٰذا کچھ کو جھوٹا کہا اور کچھ کو قتل کر ڈالا؟

____________________

(۱)یونس ۵۹

(۲)بقرہ ۸۷

۶۲

( و اِذا قیل لهم آمنوا بما أنزل ﷲ قالوا نؤمن بما أنزل علینا ویکفرون بما ورائه ) ...)( ۱ )

اور جب ان سے کہا گیا :جو کچھ خدا نے نازل کیا ہی اسپر ایمان لاؤ!تو کہتے ہیں: ہم اس پر ایمان لاتے ہیں جو خود ہم پر نازل ہو اہے اوراس کے علاوہ کا انکار کرتے ہیں۔

اور پیغمبر سے فرماتا ہے:

( ما ننسخ من آية أو ننسها نأت بخیر منها أَومثلها ) )

ہم اُس وقت تک کوئی حکم نسخ نہیں کرتے یااسے تاخیر میں نہیں ڈالتے ہیں جب تک کہ ا س سے بہتر یااس جیسا نہ لے آئیں۔( ۲ )

( ولن ترضیٰ عنک الیهودولا النّصاریٰ حتیٰ تتّبع ملّتهم ) )( ۳ )

یہود ونصاریٰ ہر گز تم سے راضی نہیں ہوں گے جب تک کے ان کے دین کا اتباع نہ کرلو۔

توریت کے نسخ شدہ احکام بالخصوص تبدیلی قبلہ سے متعلق بنی اسرائیل کے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نزاع و جدال کرنے کی خبر دیتے ہوئے خدا وند عالم سورئہ بقرہ میں فرماتا ہے :

''ہم آسمان کی جانب تمھاری انتظار آمیز نگاہ کو دیکھ رہے ہیں ؛ اب اس قبلہ کی سمت جس سے تم راضی اور خشنود ہو جاؤ گے تمہیں موڑ دیں گے ،جہاں کہیں بھی ہو اپنا رخ مسجد الحرام کی طرف کر لو،اہل کتاب(یہود و نصاریٰ ) خوب جانتے ہیں کہ یہ حق ہے اوران کے رب کی طرف سے ہے اور تم جیسی بھی آیت اور نشانی اہل کتاب کے سامنے پیش کرو وہ لوگ تمہارے قبلہ کی پیروی نہیں کریں گے۔( ۴ )

پس اس مقام پر نسخ آیت سے مراد اس حکم خاص کا نسخ تھا ، جس طرح ایک آیت کو دوسری آیت سے بدلنے سے مراد کہ جس کے بارے میں قریش رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نزاع کر رہے تھے، مکّہ میں قریش اور غیر قریش کے درمیان بعض حلال و حرام احکام کو تبدیل کرنا ہے ۔بنابراین واضح ہوا کہ خدا کے کلام : ''( واِذا بدّلنا آية مکان آية ) '' میں لفظ آیت سے مراد حکم ہے ، یعنی :''( اِذا بدلنا حکماً مکان حکم' ) ' جب بھی کسی حکم کو حکم کی جگہ قرار دیں

اور خدا وندعالم کے اس کلام '' ما ننسخ من آےة أو ننسھا'' سے بھی مراد یہ ہے : جب کبھی کو ئی حکم ہم نسخ کرتے یا اسے تاخیر میں ڈالتے ہیں تواس سے بہتر یااس جیسا اس کی جگہ لاتے ہیں۔

____________________

(۱)بقرہ ۹۱(۲)بقرہ ۱۰۶(۳)بقرہ ۱۲۰(۴) بقرہ۱۴۴ ۱۴۵

۶۳

حکم کو تاخیر میں ڈالنے کی مثال : موسی کی شریعت میں کعبہ کی طرف رخ کرنے کوتاخیر میں ڈالنا اوراس کا بیت المقدس کی طرف رخ کرنے کے حکم سے تبدیل کرنا ہے کہ اس زمانہ میں بنی اسرائیل کے لئے مفیداور سود مند تھا۔

نسخ حکم اور اسے اسی سے بہتر حکم سے تبدیل کرنے کی مثال خاتم الانبیاء کی شریعت میں بیت المقدس کی طرف رخ کرنے کے حکم کا منسوخ کرنا ہے کہ تمام لوگ تاریخ میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اپنا رخ کعبہ کی طرف کریں۔پس ایک آیت کے دوسری آیت سے تبدیل کرنے کا مطلب ایک حکم کو دوسرے حکم سے تبدیل کرنا ہے ، اس طرح واضح ہو گیا کہ خدا وند عالم جو احکام لوگوں کے لئے مقرر کرتا ہے کبھی انسان کی مصلحت اس حیثیت سے کہ وہ انسان ہے اسمیں لحاظ کی جاتی ہے ایسے احکام نا قابل تغییرو تبدیل ہوتے ہیں جیسا کہ خداوندعالم نے سورۂ روم میں اس کی خبر دیتے ہوئے فرمایا:

( فأ قم وجهک للدین حنیفاً فطرت ﷲ التی فطر الناس علیها لا تبدیل لخلق ﷲ ذلک الدین القیم و لٰکنّ أکثر الناس لا یعلمون ) ( ۱ )

اپنے رخ کو پروردگار کے خالص اور پاکیزہ دین کی طرف کر لو، ایسی فطرت کہ جس پر خدا وندعالم نے انسان کی تخلیق فرمائی ہے آفرینش خدا وندی میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں ہے یہی محکم و استوار دین ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔

یعنی اُن قوانین میں جنھیں خدا وند عالم نے لوگوں کی فطرت کے مطابق بنائے ہیں کسی قسم کی تبدیلی ممکن نہیں ہے ،سورۂ بقرہ میں اسی کے مانندخدا کا کلام ہے:

( والوالدات یرضعن أولا دهنّ حولین کاملین لمن أراد أن یتم الرضاعة ) ( ۲ )

اور جو مائیں زمانہ رضاعت کو کامل کرنا چاہتی ہیں ، وہ اپنے بچوں کو مکمل دو سال دودھ پلائیں۔

یہ مائیں کوئی بھی ہوں اور کہیں بھی زندگی گزارتی ہوں ان میں کوئی فرق نہیں ، خواہ حضرت آدم کی بیوی حواہوں جو اپنے نومولودکو درخت کے سائے میں یا غار میں دودھ پلائیں، یاان کے بعد کی نسل ہو ، جو غاروں، خیموںاور محلوں میں دودھ پلاتی ہے دو سال مکمل دودھ پلانا ہے۔

اسی طرح بنی آدم کے لئے کسی تبدیلی کے بغیر روزہ ، قصاص اور ربا (سود) کی حرمت کا حکم ہے، جیسا

____________________

(۱)روم ۳۰

(۲)بقرہ ۲۳۳۔

۶۴

کہ خدا وند سبحان سورۂ بقرہ میں ارشاد فرماتا ہے :

۱۔( یا أيّها الذین آمنوا کتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم لعلکم تتقون ) ( ۱ )

اے صاحبان ایمان! روزہ تم پراسی طرح فرض کیا گیا ہے جس طرح تم سے پہلے والوں پر فرض تھا شاید پرہیز گار ہو جاؤ۔

۲۔( یا أيّها الذین آمنواکتب علیکم القِصاص ) )( ۲ )

اے صاحبان ایمان ! تم پر قصاص فرض کیا گیا ہے۔

۳۔( و أحلّ ﷲ البیع وحرّم الرّبا ) )( ۳ )

خدا وندعالم نے بیع کو حلال اور ربا کو حرام کیاہے۔

یہ اور دیگر وہ احکام جسے خدا وندعالم نے انسان کی انسانی فطرت کے مطابق اسکے لئے مقرر فرمایا ہے کسی بھی آسمانی شریعت میں تغییر نہیں کرتے، یہ احکام قرآن میں لفظ''وصّٰی ، یوصیکم، وصےةاور کتب'' جیسے الفاظ سے تعبیر ہوئے ہیں۔

لیکن جن احکام کو خداوندعالم نے خاص حالات کے تحت بعض لوگوں کے لئے مقرر کیا ہے ، ان کی مدت بھی ان حالات کے ختم ہو جانے سے ختم ہوجاتی ہے جیسے وہ احکام جنھیں بنی اسرائیل سے متعلق ہم نے اس سے پہلے ذکر کیا جواُن کے خاص حالات سے مطابقت رکھتے تھے، یا وہ احکام جو خدا وندعالم نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہمراہ مکّہ سے ہجرت کرنے والوں کے لئے مقرر فرمائے اور عقد مواخات کے ذریعہ ایک دوسرے کا وارث ہونا انصار مدنیہ کے ساتھ ہجرت کے آغاز میں قانونی حیثیت سے متعارف اور شناختہ شدہ تھا پھر فتح مکّہ کے بعداس کی مدت تمام ہوگئی اور یہ حکم منسوخ ہو گیا، خدا وند عالم سورۂ انفال کی ۷۲ ویں ۷۵ ویں آیت تک اس کی خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے:

( اِنّ الذین آمنو أوهاجروا )

وہ لوگ جو ایمان لائے اور مکّہ سے ہجرت کی۔

( واّلذین آووا ونصروا )

____________________

(۱)بقرہ ۱۸۳

(۲) بقرہ ۱۷۸

(۳) بقرہ ۲۷۵.

۶۵

اور وہ لوگ جنھوں نے پناہ دی اور نصرت فرمائی یعنی مدینہ میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے انصار ۔

( أولآء ک بعضهم أولیاء بعض )

ان لوگوں میں بعض ، بعض کے وارث اور ولی ہیں،یعنی میراث لینے اور نصرت کرنے کی ولایت رکھتے ہیں.

( والذین آمنوا ولم یهاجروا مالکم من ولایتهم من شیئٍ حتّیٰ یهاجروا والذین کفروا بعضهم أولیاء بعض )

جن لوگوں نے ایمان قبول کیا لیکن ہجرت نہیں کی تم لوگ کسی قسم کی ولایت ان کی بہ نسبت نہیں رکھتے، یہاں تک کہ وہ ہجرت کریں... اور جو لوگ کافر ہو گئے ہیںاُن میں سے بعض، بعض کے ولی اور سرپرست ہیں۔

پھر خدا نے اس حکم کے نسخ ہونے کو اس طرح بیان فرمایا ہے :

( وأولوا الأرحام بعضهم أولی ببعض فی کتا ب ﷲ )

اقرباء کتاب الٰہی میں آپس میں ایک دوسرے کی بہ نسبت اولیٰ اور سزاوار ترہیں۔

یعنی ان احکام میں جنھیں خدا وند عالم نے تمام انسانوں کے لئے مقرر فرمایا ہے اقرباء کو حق تقدم اور اولویت حاصل ہے۔( ۱ )

خلاصہ، قوم یہود نے جب قرآن کی الٰہی آیات کو سنا اور دیکھا کہ صفات قرآن جو کچھ حضرت خاتم الانبیاءصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بعثت کے متعلق ان کے پاس موجود ہے اس کی تصدیق اور اس کاا ثبات کر رہے ہیں تو وہ اس کے منکر ہوگئے اور بولے: ہم صرف اس توریت پر جو ہم پر نازل ہوئی ہے ایمان رکھتے ہیں اور اس کے علاوہ انجیل اور قرآن پر ایمان و یقین نہیں رکھتے ،خدا وندعالم نے بھی قرآن کی روشن آیات اور اسکے معجزات اور احکا م کے ارسال کی خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے: فاسقوں(کافروں )کے سوا کوئی اس کا منکر نہیں ہوگا اور پھر فرمایا: ہم شریعت کے ہر حکم کو نسخ کرتے ہیں( جیسے بیت المقدس کے قبلہ ہونے کے حکم کا منسوخ ہونا) یاہم اسے مؤخرکرتے ہیں تواُس سے بہتر یااسی جیسا حکم لوگوں کے لئے پیش کرتے ہیں ، خدا وند عالم خود زمین و آسمان کا مالک ہے ،وہ جو چاہتا ہے انجام دیتا ہے یہود و نصاریٰ رسول ﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ہر گز راضی نہیں ہوںگے مگر یہ کہ جوان پر احکام نازل ہوئے ہیںان سے دست بردار ہو جائیں اوران کی شریعت کے احکام کے پابند ہوجائیں۔

خدا وندعالم اسی مفہوم کی دوسرے انداز میں تکرار کرتے ہوئے سورئہ اسراء میں فرماتا ہے:

____________________

(۱)اس آیت کی تفسیر کے لئے مجمع البیان ، تفسیر طبری اور دوسری روائی تفاسیرکی جانب رجوع کیجئے.

۶۶

( و آتینا موسیٰ الکتاب و جعلنا ه هدیً لبنی اِسرائیل ) ( ۱ )

ہم نے موسیٰ کو کتا ب دی اوراسے بنی اسرائیل کی ہدایت کا ذریعہ بنایا،پھر فرماتا ہے :

( انّ هذا القرآن یهدی للتی هی اقوم ) ( ۲ )

یہ قرآن محکم اور استوارترین راہ کی ہدایت کرتا ہے،یعنی قرآن کا راستہ اس سے وسیع اوراستوارتر ہے جو موسی کی کتاب میں آیا ہے۔

ہم نے ربوبیت کے مباحث میں بات یہاں تک پہنچائی کہ رب العالمین نے انسان کے لئے اسکی فطرت اور سرشت کے مطابق ایک نظام معین کیا ہے پھر راہ عمل میں ان مقررات اور قوانین کی طرف راہنمائی فرمائی ہے ، انشاء ﷲ آئندہ بحث میں اس بات کی تحقیق و بر رسی کریں گے کہ رب العالمین کس طرح سے انسان کو دنیا و آخرت میں پاداش و جزا دیتا ہے۔

____________________

(۱) اسرائ۲

(۲)اسرائ۹

۶۷

۲

ربّ العالمین اور انسان کے اعمال کی جزا

الف وب:دنیا و آخرت میں

ج:موت کے وقت.

د:قبر میں

ھ: محشر میں

و:بہشت وجہنم میں

ز:صبر وتحمل کی جزا.

ح: نسلوں کی میراث؛ عمل کی جزا

۱۔

انسان اور دنیا میں اس کے عمل کی جزا

ہم تمام انسان اپنے عمل کا نتیجہ دنیاوی زندگی میں دیکھ لیتے ہیں جو گندم ( گیہوں) بوتا ہے وہ گندم ہی کاٹتا ہے اور جو جَو بوتا ہے وہ جَو کا ٹتاہے اسی طرح سے انسان اپنی محنت کا نتیجہ کھاتا ہے۔

یہ سب کچھ دنیاوی زندگی میں ہمارے مادی کارناموں کے آثار کاایک نمونہ ہے۔ دنیاوی زندگی میں ہمارے اعمال مادی آثار کے علاوہ بہت سارے معنوی آثار بھی رکھتے ہیں مثال کے طور پر انسانوں کی زندگی میں صلۂ رحم کے آثار ہیں،جن کی خبررسول خدا نے دیتے ہوئے فرمایا :

''صلة الرّحم تزید فی العمر وتنفی الفقر''

اقرباء و اعزا ء کے ساتھ صلہ ٔرحم کرنا عمر میں اضافہ اور فقر کو دور کرنے کا باعث ہوتا ہے۔

۶۸

نیز ارشاد فرمایا:

''صلة الرحم تزید فی العمر،وصدقة السر تطفیء غضب الربّ ، و اِنّ قطیعة الرّحم و الیمین الکاذبة لتذرٰان الدیار بلا قِعَ من أهلها و یثقلان الرحم و اِنَ تثقّل الرحم انقطاع النسل''

اقرباء و اعزا ء کے ساتھ صلہ رحم کرنا عمر میں اضافہ کا سبب ہے اور مخفی طور پر صدقہ دینا غضب الٰہی کو خاموش کرتا ہے، یقیناًاقرباء واعزاء سے قطع تعلق رکھنا اور جھوٹی قسم کھانا آباد سرزمینوں کو بر باد اور بار آور رحم کو بانجھ بنا دیتا ہے اور عقیم اور بانجھ رحم، انقطاع نسل کے مساوی ہے۔( ۱ )

یہ جو فرمایا :'' تطفی غضب الرّبّ'' پوشیدہ صدقہ دینا غیظ وغضب الٰہی کو خاموش کر دیتا ہے ، اس سے مراد یہ ہے کہ اگر انسان اپنی (نامناسب) رفتار سے خدا کے خشم وغضب نیز دنیاوی کیفر کا مستحق ہو اور یہ

____________________

(۱) سفینة البحارمادئہ رحم.

۶۹

مقرر ہو کہ اس کے گناہوں کی وجہ سے اس کی جان و مال یا اس سے مربوط چیزوں کو نقصان پہنچے تو یہ پوشیدہ صدقہ اس طرح کی بلا کواس سے دور کردیتا ہے۔

بَلا قِع، بلقع کی جمع ہے ،بے آب وگیاہ ،خشک اور چٹیل میدان اور وادی برہوت ۔( ۱ ) چنانچہ امیر المومنین نے فرمایا:

''وصلة الرّحم فأِنّها مثراة فی المال ومنساة فی الأجل، وصدقة السرّفأنّها تکفرالخطية' '( ۲ )

رشتہ داروں کی دیکھ ریکھ اور رسید گی کرنا مال میں زیادتی اور موت میں تاخیر کا باعث ہے اور پوشیدہ صدقہ گناہ کو ڈھانک دیتا ہے اور اس کا کفارہ ہوتا ہے ۔

نیز فرماتے ہیں :

''و صلة الرحم منماة للعدد''

اقرباء واعزاء کے ساتھ نیک سلوک کرنا افراد میں اضافہ کا سبب ہے۔( ۳ )

ان تمام چیزوں سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ خدا وند عالم اپنی حکمت سے ایسا چاہتا ہے کہ روزی میں زیادتی، نسل میں اضافہ''صلہ رحم'' کی وجہ سے ہونیز تنگدستی اور عقیم ہونا ''قطع رحم'' میں ہو۔

یہی وجہ ہے کہ کبھی کبھی دوتاجرآدمی ایک طرح کا مال بازار میں پیش کرتے ہیں تو ایک کو نقصان ہوتا ہے اور دوسرے کو فائدہ ،پہلے کے نقصان کا سرچشمہ اقرباء سے قطع رحم کرنا ہے اور دوسرے کا فائدہ حاصل کرنا عزیز واقارب سے صلہ رحم کی بنا پر ہے خدا کی طرف سے ہر ایک کی جزا برابر ہے۔

ایسے عمل کی جزا انسان کے ،خدا پر ایمان اور عدم ایمان سے تعلق نہیں رکھتی ہے کیونکہ خدا وندعالم نے انسان کے کارناموں کے لئے دنیا میں دنیاوی آثار اور آخرت میں اخروی نتائج قرار دئے ہیں کہ جب بھی کوئی اپنے ارادہ واختیاراور ہوش وحواس کے ساتھ کوئی کام انجام دے گا تواس کا دنیاوی نتیجہ دنیا میں اور اخروی نتیجہ آخرت میں اُسے ملے گا۔

اسی طرح خدا وندعالم نے اپنے ساتھ انسان کی رفتاراور خلق کے ساتھ اس کے کردار کے مطابق جزا اور پاداش قرار دی ہے ، خواہ یہ مخلوق انسان ہو یا حیوان یا ﷲ کی نعمتوں میں سے کوئی نعمت ہو جس سے خدا نے

____________________

(۱) المعجم الوسیط مادئہ بلقع(۲)نھج البلاغہ خطبہ ۱۰۸(۳) نہج البلاغہ حکمت ۲۵۲

۷۰

انسان کو نوازا ہے، ہر ایک کے لئے مناسب جزا رکھی ہے ،یہ تمام کی تمام ﷲ کی مرضی اور اس کی حکمت سے وجود میں آئی ہیں ،''ربّ العالمین'' نے ہمیں خود ہی آگاہ کیا ہے کہ انسان کے لئے اسکے کردار کے نتیجہ کے علاوہ کچھ اور نہیں ہے ( یعنی جیسا کردار ہو گا ویسی ہی اس کی جزا وپاداش ہوگی)

( وأن لیس للاِ نسان اِلاّ ما سعیٰ ) ( ۱ )

انسا ن کے لئے اس کی کوشش اور تلاش کے نتیجہ کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔

اسی طرح خبر دی ہے کہ جو دنیا کے لئے کام کرئے گا خدا وند عالم اس کا نتیجہ اسے دنیا میں دکھاتا ہے اور جو کوئی آخرت کے لئے کوشاں ہوگا اسکے کام کی جزا اسے آخرت میں دکھائے گا:

( ومن یرد ثواب الدنیا نؤتیه منها و من یرد ثواب الآخرة نؤته منها وسنجزی الشاکرین ) ( ۲ )

جو کوئی دنیاوی جزا وپاداش چاہتا ہے اسے وہ دیں گے اور جو کوئی آخرت کی جزا چاہتا ہے ہم اسے وہ دیں گے اور عنقریب شکر گزاروں کوجزا دیں گے۔

( مَن کان یریدالحیا ة الدنیا وزینتها نوفّ الیهم أعمالهم فیها وهم فیها لا یبخسون)(اولاء ک الذین لیس لهم فی الاخرة اِلّا النار... )

جو لوگ (صرف) دنیاوی زندگی اور اس کی زینت و آرایش کے طلبگار ہیںان کے اعمال کا کامل نتیجہ ہم اسی دنیا میں دیں گے اور اس میں کسی قسم کی کمی نہیں کی جائے گی اور یہ گرو ہ ان لوگوں کا ہے جن کے حصہ میں آخرت میں سوائے آگ کے کچھ نہیں ہے۔( ۳ )

( مَن کان یرید العاجلة عجلنا له فیها..)( ومن أراد الآخرة و سعیٰ لها سعیها وهو مومن فأولآء ک کان سعیهم مشکوراکلاً نمد هٰؤلاء و هٰؤلاء من عطاء ربّک وما کان عطاء رّبک محظوراً ) ( ۴ )

جو کوئی اس زود گزر دنیا کا طلبگا ر ہو اس کو اسی دنیا میں جزا دی جائے گی... اور جو کوئی دار آخرت کا خوہاں ہو اوراس کے مطابق کوشش کرے اور مومن بھی ہو اس کی کوشش وتلا ش کی جز ا دی جائے گی ، دونوںگروہوں میں سے ہر ایک کو تمھارے پروردگار کی عطا سے بہرہ مند کریں گے اور تمہارے رب کی عطا کبھی ممنوع نہیں قرار دی گئی ہے۔

____________________

(۱)نجم ۳۹.(۲)آل عمران ۱۴۵.(۳)ہود ۱۵ ،۱۶. (۴) اسرا ء ۱۸۔ ۲۰.

۷۱

کلمات کی تشریح

''نوفّ اِلیھم'':ان کا پورا پورا حق دیں گے۔

'' لایبخسون ، لا ینقصون'': ان کے حق میں کسی چیز کی کمی نہیں ہوگی۔

'' محظوراً '': ممنوعاً، حظر یعنی منع، رکاوٹ۔

دنیا وآخرت کی جزا

جو کچھ ہم نے ذکر کیا اس بنیاد پر بعض اعمال ایسے ہیں کہ جن کی جزا انسان دنیا ہی میں دیکھ لیتا ہے ، لیکن ان میں سے بعض اعمال کی جزا قیامت میں انسان کو ملے گی ، مثال کے طور پر کوئی شہید خدا کی راہ میں جنگ کرے اور شہادت کے درجہ پر فائز ہو جائے ،وہ دنیوی جز ا کے دریافت کرنے کا امکان نہیں رکھتا تا کہ اس سے فائدہ اٹھائے ،لہٰذا خدا وندعالم اس کی جزا آخرت میں دے گا جیساکہ فرماتا ہے:

( ولا تحسبّن الذین قتلوا فی سبیل ﷲ امواتاً بل أحیاء عند ربّهم یرزقون) (فرحین بما آتهم ﷲ من فضله و یستبشرون با لذین لم یلحقو ا بهم من خلفهم الا خوف علیهم ولا هم یحزنون)( یستبشرون بنعمة من ﷲ وفضلٍ وأنّ ﷲ لا یضیع أجر المؤمنین ) ( ۱ )

اورجو لوگ راہ خدا میں شہید ہوگئے ہیں انھیں ہر گز مردہ خیال نہ کرو ! بلکہ وہ زندہ ہیں اور اپنے خدا کی طرف سے رزق پاتے ہیں ،یہ لوگ اس نعمت کی وجہ سے جو خدا وندعالم نے انھیں اپنے فضل و کرم سے دی ہے ، راضی اور خوشنود ہیں اور جو لوگ ان سے ابھی تک ملحق نہیں ہوئے ہیں ان کی وجہ سے شاد و خرم ہیں کہ نہ انھیں کوئی خوف ہے اور نہ ہی کوئی حزن و ملال وہ لوگ نعمت الٰہی اوراس کی بخشش اور اس بات سے کہ خدا وند عالم نیکو کاروں کی جزا کو ضائع و برباد نہیں کرتا ، مسرور و خوش حال ہیں ۔

اسی طرح اقتدار کے بھوکے انسان اوراس شخص کا حال ہے جو کسی مومن کے ساتھ ظلم وتعدی کر کے اسے قتل کر دیتا ہے، ایسا شخص بھی اپنی جزا آخرت میں دیکھے گا جیسا کہ خدا وندعالم نے ارشاد فرماتا ہے:

( ومن یقتل مؤمناً متعمداً فجزاؤه جهنم خالداً فیها وغضب ﷲ علیه ولعنه وأعدّ له عذاباً عظیماً ) ( ۲ )

____________________

(۱) آل عمران ۱۶۹ ، ۱۷۱

(۲) نساء ۹۳.

۷۲

جو کوئی کسی مومن انسان کو عمدا ( جان بوجھ کر) قتل کر ڈالے اسکی جزا جہنم ہے اور وہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہے گا خدااس پر غضب ناک ہے اوراس نے اسے اپنی رحمت سے دور کر دیا ہے اوراس کے لئے عظیم عذاب مہیا کر رکھا ہے ۔

اسی طرح اس شخص کا حال ہے جو ناقص جسم کے ساتھ دنیا میں آتا ہے جیسے اندھا گونگا ،ناقص الخلقة (جس کی تخلیق میں کوئی کمی ہو) اگر ایسا شخص خدا اور روز قیامت پر ایمان لائے اور اولیاء خدا کا دوست ہو اور اپنے عضو کے ناقص ہونے کی بناء پر خدا کے لئے صبر وتحمل کرے ایسے شخص کو خدا آخرت کی دائمی وجاوید زندگی میں ایسا اجر دے گا کہ جو دنیاوی کمی اور زحمتیںاس نے راہ خدا میں برداشت کی ہیں ان کا اس جزا کے مقابلہ میں قیاس نہیں کیا جا سکتا ۔( ۱ )

جو کچھ ہم نے ذکر کیا ،اس بنا پر عدل الٰہی آخرت میں عمل کی جزا دریافت کیے بغیر ثابت نہیں ہوتا، خداوند عالم نے دنیاوی زندگی کے بعداعمال کی جزا پانے کیلئے متعدد مراحل قرار دئے ہیں ہم آئندہ بحث میں اس پر گفتگو کریں گے۔

____________________

(۱) دیکھئے : ثواب الاعمال،صدوق باب ''اس شخص کا ثواب جو خدا وند عالم سے اندھے ہونے کی حالت میں ملاقات کرے اوراس نے خدا کے لئے اسے تحمل کیا ہو ، حدیث ۲۱ ، نیز معالم المدرستین، ج ۱، بحث شفاعت،اس ایک نا بینا شخص کی روایت کی طرف رجوع فرمائیں جورسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس آیا اور آنحضرت سے درخواست کی کہ حضرت اس کے لئے دعا کریں تا کہ شفا ہو''۔

۷۳

۲۔

انسان اور آخرت میں ا س کی جزا

خود انسان اپنے کھیت میں کبھی گیہوں،مکئی اور سبزیاںاگاتا ہے اور چند ماہ بعداس کا نتیجہ اورمحصول حاصل کرتا ہے اور کبھی انگور، انجیر، زیتون،سیب اور سنترہ لگاتا ہے اور تین یا چار سال بعداس کا نتیجہ پاتا ہے اور کبھی خرما اور اخروٹ بوتا ہے اور ۸ سال یااس سے بھی زیادہ عرصہ کے بعداس سے فائدہ اٹھاتا ہے،اس طرح سے عادی اور روز مرہ کے کاموں کا نتیجہ انسان دریافت کرتا ہے اور اپنے اہل وعیال اوردیگر افراد کواس سے فیضیاب کرتا ہے اس کے با وجود خدا فرماتا ہے:

( اِنّ ﷲ هو الرزّاق ذوالقوة المتین ) ( ۱ )

خدا وند عالم روزی دینے والا ہے وہ قوی اور توانا ہے۔

( ﷲ الذی خلقکم ثّم رزقکم ) ( ۲ )

وہ خدا جس نے تمھیں خلق کیا پھر روزی دی۔

( لا تقتلوا اولا دکم من اِملاقٍ نحن نرزقکم و اِيّاهم ) ( ۳ )

اپنی اولاد کو فقر وفاقہ کے خوف سے قتل نہ کرو کیونکہ ہم تمھیں اور انھیں بھی رزق دیتے ہیں۔

( وکا يّن من دابة لا تحمل رز قها ﷲ یرزقهاو اِيّاکم ) ( ۴ )

کتنے زمین پر چلنے والے ایسے ہیں جو اپنا رزق خود حاصل نہیں کر سکتے لیکن خدا انھیں اور تمھیں بھی رزق دیتا ہے ۔

( و ﷲ فضّل بعضکم علیٰ بعضٍ فی الرّزق ) ( ۵ )

____________________

(۱) ذاریات ۵۸

(۲)روم ۴۰

(۳) انعام ۱۵۱.

(۴) عنکبوت ۶۰

(۵) سورہ نحل ۷۱.

۷۴

خدا وندعالم نے تم میں سے بعض کو بعض پر رزق میں فضیلت اور برتری دی ہے۔

جی ہاں! انسان زمین کا سینہ چاک کرتا ہے ، اس میں دانہ ڈالتا ہے، درخت لگاتا ہے ، پانی دیتا ہے ، تمام آفتوں اور بیماریوں کو دور کرتا ہے اس کی دیکھ ریکھ کرتا ہے تاکہ دانہ بن جائے اور بارآور ہو جائے جسے خود وہ بھی کھائے اور جسے دل چاہے کھلائے لیکن خدا وندسبحان فرماتا ہے :

( نحن نرزقکم و ایاّهم )

ہم تمھیں اوران کو روزی دیتے ہیں !

اور خدائے عظیم نے درست فرمایا ہے کیونکہ جس نے آب وخاک میں نباتات کے اگانے کے خواص قرار دئے اور ہمیں بونے اورپودا لگانے کا طریقہ سکھا یا ،وہی ہمیں روزی دینے والا ہے ۔

خدا کے روزی دینے اور انسان کے دنیا میں روزی حاصل کرنے کی مثال، میزبان کا مہمان کو '' self serveic ''والے ہوٹل میں کھانا کھلانے کی مانند ہے کہ جس میں نوکر چاکر نہیں ہوتے اور معمولاً مہمان سے کہا جاتا ہے ،اپنی پذیرائی آپ کیجیے(جو دل چاہے خود لے کر کھائے ) اس طرح کے ہوٹلوں میں میزبان مہمان کوکھانا کھلاتا ہے مہمان جس طرح کی چیزیں پسند کرنا چاہے اسے مکمل آزادی ہوتی ہے لیکن جو کچھ وہ کھاتا ہے میزبان کی مہیا کی ہوئی ہے لیکن اگرکوئی مہمان ایسی جگہ پر داخل ہو اور خود اقدام نہ کرے، چمچے، کانٹے، پلیٹ جو میزبان نے فراہم کئے ہیں نہ اٹھائے اور فراہم کی ہوئی غذا ؤں کی طرف اپنے قدموں سے نہ بڑھے اور اپنی مرضی سے کچھ نہ لے ،تو وہ کچھ کھا نہیں سکے گا،اس کے باوجود جس نے مہمانوں کیلئے غذا فراہم کی ہے و ہی میزبان ہے،ایسی صورت میں بری طرح کھا نے کا احتمالی نقصان بھی مہمان ہی کے ذمہ ہے جس نے خودہی نقصان دہ غذا کھا ئی ہے اور خداوند عظیم نے سورۂ ابراہیم میں کس قدر سچ اور صحیح فرمایا ہے:

( ﷲ الّذی خلق السّموات والأرض و انٔزل من السماء مائً فأخرج به من الثمرات رزقاً لکم و سخر لکم الفلک لتجری فی البحر بأمره وسخر لکم الأنهاروسخر لکم الشمس والقمر دائبین وسخر لکم اللیل و النهار ) ( ۱ )

خدا وندعالم وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمینوں کو خلق کیا اور آسمان سے پانی نازل کیا اوراس سے تمہارے لئے زمین سے میوے اگائے ،کشتیوں کو تمہارا تا بع قرار دیا، تا کہ دریا کی وسعت میں اس کے حکم

____________________

(۱)ابراہیم ۳۲ ، ۳۳

۷۵

سے رواں دواں ہوں ، نیز نہروں کو تمہارے اختیار میں دیا اور سورج ا ورچاند کو منظم اور دائمی گردش کے ساتھ تمہارا تابع بنا یا اوراس نے روز و شب کو تمہارا تابع قراردیا۔

اور سورۂ نحل میں ارشاد ہوتا ہے:

( و ﷲ أنزل من السماء مائً فأحیا به الارض بعد موتها انّ فی ذلک لاية لقومٍ یسمعون)(و أنَّ لکم فی الأنعام لعبرة نسقیکم مِّما فی بطونه من بین فرثٍ و دمٍ لّبنا خالصاً سائغاً للّشاربین)( و من ثمراتِ النخیلِ و الأعنابِ تتّخذون منه سکراً و رزقاً حسناً انّ فی ذلک لايةً لّقومٍ یعقلون)( و أوحیٰ ربّک اِلی النّحل ان اْتّخذی من الجبال بیوتاً و من الشجر و مّما یعرشون)( ثمّ کلی من کلّ الثّمرات فاْسلکی سبل ربّک ذللاً یخرج من بطونها شراب مختلف ألوانه فیه شفٰاء للناّٰس انَّ فی ذلک لآ يةً لقومٍ یتفکرون ) ( ۱ )

خدا وندعالم نے آسمان سے پانی برسایا ، پس زمین کو مردہ ہو جانے کے بعد حیات بخشی ،یقینا اس میں سننے والی قوم کے لئے روشن علامت ہے اور چوپایوں کے وجود میں تمہارے لئے عبرت ہے،ان کے شکم کے اندرسے گوبراور خون کے درمیان سے خالص دودھ ہم تمھیں پلاتے ہیں جو پینے والوں کے لئے انتہائی خوشگوار ہے. اورتم درخت کے میووں ،کھجور اور، انگور سے مسکرات اور اچھی اور پاکیزہ روزی حاصل کرتے ہو یقینا اس میں روشن نشانی ہے صاحبان فکرکے لئے، تمہارے رب نے شہدکی مکھی کو وحی کی کہ پہاڑوں، درختوں اور لوگوں کے بنائے ہوئے کو ٹھوں پر اپنا گھر بنائے اور تمام پھلوں سے کھائے اوراپنے رب کے معین راستے کو آسانی سے طے کرے،ا س کے شکم کے اندر سے مختلف قسم کا مشروب نکلتاہے کہ اس میں لوگوں کے لئے شفا ہے یقینا اس میں صاحبان عقل و فکر کے لئے روشن نشانیاں ہیں ۔

کلمات کی تشریح

۱۔'' دا ئبین،مستمرّین'': یعنی ہمیشہ گردش کر رہے ہیں ، معین مسیر میں حرکت اُن کی دائمی شان و عادت ہے ۔

۲۔''فرث '': حیوانات کے معدہ اور پیٹ میں چبائی ہوئی غذا (گوبر)۔

____________________

(۱) نحل ۶۵ ، ۶۹

۷۶

۳۔''مّما یعرشون'': جو کچھ اوپر لے جاتے ہیں ، خرمے کے درختوں کے اوپر جو چھت بنائی جاتی ہے جیسے چھپر وغیرہ۔

آغاز کی جانب باز گشت:

روزی رساںرب ّنے اپنے مہمان انسان کے لئے اس دنیا میں نعمتیں فراہم کیں، روزی کس طرح حاصل کی جائے اور کس طرح بغیر کسی ضرر اور نقصان کے اس سے بہرہ ور ہوں، اس زود گزر دنیا اور آخرت میں ، انبیائ، اوصیاء اور علماء کے ذریعہ اس کی تعلیم دی اور فرمایا:

( یاأيّهاالذین آمنوا کلوا من طیبات مارزقناکم واشکروﷲ ) ( ۱ )

اے صاحبان ایمان ! پاکیزہ چیزوں سے جوہم نے تمہارے لئے روزی دی ہے کھا ؤ اور خدا کا شکر ادا کرو، نیز فرمایا:

( یسٔلونک ماذاأحلّ لهم قل أحلّ لکم الطيّبات ) ( ۲ )

تم سے سوال کرتے ہیں : کون سی چیزان کیلئے حلال کی گئی ہے ؟ کہہ دیجئے تمام پاکیز ہ چیزیںتمہارے لئے حلال کی گئی ہیں۔

نیز خاتم الانبیاء کے وصف میں فرمایا :

( ویحلّ لهم الطیبّات ویحرّم علیهم الخبائث ) ( ۳ )

اوروہ ( پیغمبر)ان کے لئے پاکیزہ چیزوں کو حلال اور نا پاک چیزوں کو حرام کرتا ہے۔

اس لحاظ سے پروردگار سبحان نے ہمیں خلق کیا جوکچھ ہمارے اطراف میں تھا،اسے ہمارا تابع بنا دیا اور اس دنیا میں پاکیزہ چیزوں سے جو کہ ہماری زراعت و کاشت کا نتیجہ ہے ہمیں رزق دیا ،وہ اسی طرح ہمارے اعمال کے نتیجہ کو آخرت میں ہمارے لئے روزی قرار دے گا جیسا کہ فرمایا ہے:

( والذین هاجروا فی سبیل ﷲ ثّم قتلواأوما توالیر زقنّهم ﷲ رزقاً حسناً ) ( ۴ )

وہ لوگ جنھوں نے راہ خدا میں ہجرت کی ، پھر قتل کردئے گئے یا مر گئے ،خدا انھیں اچھی روزی دیگا۔

نیز فرماتا ہے:

____________________

(۱)بقرہ۱۷۲ (۲)مائدہ ۴(۳)اعراف ۱۵۷.(۴)حج۵۸

۷۷

( الاّ مَن تاب وَآمنَ وَ عملَ صٰا لحاً فاُولاء کَ یدخُلُونَ الجنةَ وَلاَ يُظلمونَ شیئاً جنَّاتِ عدنٍ التی وعدالرحمنُ عبٰادهُ بالغیبِ اِنه کٰانَ وَعدهُ ما تيّا لا یسمعونَ فیها لغواً اِلّا سلاماً ولهم رزقُهُم فیها بُکرةً وعَشِيّاً ) ( ۱ )

...مگر وہ لوگ جو توبہ کریں اور ایمان لا ئیں اور شائستہ کام انجام دیں ، پس یہ گروہ بہشت میں داخل ہوگا اوراُس پر ادنیٰ ظلم بھی نہیں ہوگا، دائمی بہشت جس کا خدا وند رحمان نے غیب کی صورت میں وعدہ کیا ہے یقینا خدا کا وعدہ پورا ہونے والا ہے ،وہاں کبھی لغو وبیہودہ باتیں نہیں سنیں گے اور سلام کے علاوہ کچھ نہیں پائیں گے، ان کی روزی صبح وشام مقرر ہے۔

پس ربّ حکیم انسان کے اعمال کی جزا دنیا میں جلدی اور آخرت میں مدت معلوم کے بعدا سے دیتا ہے ، اسی طرح بہت سارے سوروں میں اس نے اس کے بارے میں خبر دی ہے اور سورۂ زلزال میں فرمایا ہے:

( فمَن یعمل مثقال ذرةٍ خَیراً یره ومَن یعمل مثقال ذرةٍ شراً یره ) ( ۲ )

پس جو ذرہ برابربھی نیکی کرے گا وہ اسے بھی دیکھے گا اور جو بھی ذرہ برابر بھی بُرائی کرے گا وہ اسے بھی دیکھے گا ۔

سورۂ ےٰسین میں ارشاد ہوتا ہے:

( فالیوم لا تُظلَمُ نفس شیئاً ولا تجزون اِلاّ ما کنتم تعلمون ) ( ۳ )

پس اس دن کسی پر بھی ذرہ برابر ظلم نہیں ہو گا اور جو تم نے عمل کیا ہی اسکے علاوہ کوئی جزا نہیں دی جائے گی۔

ہاں ، جو اس دنیا میں تلخ اورکڑوا ایلوالگائے گا ایلواکے علاوہ کوئی اور چیزاسے حاصل نہیں ہوگی اور جو اچھے ثمرداردرخت لگائے گا وہ اچھے اچھے میوے چنے گا ۔

جیسا کہ خداوند سبحان سورۂ نجم میں فرماتا ہے:

( وَ اَنْ لیس لِلا نسان اِلاّ ما سعیٰ وَ اَنَّ سعیه سوف یریٰ ) ( ۴ )

انسان کے لئے صرف اتنا ہی ہے جتنی اس نے کوشش کی ہے اور اس کی کوشش عنقریب اس کے سامنے پیش کردی جائے گی ۔

____________________

(۱)مریم ۶۰ ، ۶۳(۲) زلزال ۷، ۸(۳)یسین ۵۴(۴)نجم ۳۹ ،۴۰

۷۸

انسان اپنے اعمال کے نتائج صرف اس دنیا ہی میں نہیںدیکھتا ، بلکہ درج ذیل پانچ مختلف حا لات اور مقامات پر بھی دیکھتا ہے:

۱۔ موت کے وقت

۲ ۔ قبر میں

۳۔ محشر میں

۴۔ بہشت و جہنم میں

۵۔ ورثاء میں کہ عمل کی جزاان کے لئے میراث چھوڑ جاتا ہے۔

اس بحث میں ہم نے دنیا میں انسان کے اعمال کی پاداش کا ایک نمونہ پیش کیا، آئند ہ بحث میں ( انشاء ا )خدا وند متعال موت کے وقت کیسے جزا دیتا ہے اس کو بیان کریں گے۔

۳۔موت کے وقت انسان کی جزا

آخرت کے مراحل میں سب سے پہلا مرحلہ موت ہے ،خدا وند سبحان نے اس کی توصیف میں فرما یا ہے :

( وجاء ت سکرة الموت با لحقّ ذلک ما کنت منه تحید ) ( ۱ )

( اے انسان ) سکرات الموت حق کے ساتھ آ پہنچے ،یہ وہی چیز ہے جس سے تم فرار کر ر ہے تھے!

یعنی موت کی ہولناک گھڑی اور شدت جو آدمی کے عقل پر غالب آ جاتی ہے آپہنچی ،یہ وہی موت ہے کہ جس سے تو ( انسان) ہمیشہ فرار کرتا تھا!

( قُل يَتَوَ فّٰکم ملکُ المَوتِ الذی و کِل بکم ثُّم اِلیٰ ر بّکم تُرجعونَ ) ( ۲ )

اے رسول کہہ دو! موت کا فرشتہ جو تم پر مامور ہے تمہاری جان لے لے گا پھراس کے بعد تم اپنے ربّ کی طرف لوٹا دئے جاؤ گے۔یہ جو خدا وندعالم نے اس سورہ میں فرمایا ہے کہ'' موت کا فرشتہ تمہاری جان لے لے گا '' اور سورہ زمر میں فرمایا ہے :''( ﷲ یتوفی الا نفس ) ''( ۳ ) (خدا وندعالم جانوں کو قبض کرتا ہے) اور سورۂ نحل میں فرمایا ہے :''( تتو فاهم الملا ئکة ) ''( ۴ ) (فرشتے ان کی جان لیتے ہیں) اور سورۂ انعام میں ارشاد فرمایا ہے :( ''تو فته رُسُلُنا ) ' '( ۵ )

ہمارے فرستادہ نمائندے اس کی جان لیتے ہیں ! اِن باتوں میں کوئی منافات نہیں ہے ،کیونکہ: فرشتے خدا کے نمائندے ہیں اور روح قبض کرتے وقت ملک الموت کی نصرت فرماتے ہیں اور سب کے سب خدا کے حکم سے

____________________

(۱)ق ۱۹(۲)سجدہ ۱۱(۳) سورہ زمر۴۲(۴)سورۂ نحل۲۸۔۳۲(۵)انعام۶۱

۷۹

روح قبض کرتے ہیں ، پس در حقیقت خدا ہی روحوں کو قبض کرتا ہے اس لئے کہ وہ فرشتوں کواس کا حکم دیتا ہے۔

آخرت کا یہ مرحلہ شروع ہوتے ہی دنیا میں عمل کا امکان سلب ہو جاتا ہے اور اپنے عمل کا نتیجہ دیکھنے کامرحلہ شروع ہو جاتاہے ، منجملہ ان آثار کے جسے مرنے والا ہنگام مرگ دیکھتا ہے ایک وہ چیز ہے جسے صدوق نے اپنی سند کے ساتھ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایت کی ہے کہ آنحضرت نے فرمایا :

''صوم رجب يُهوّن سکرات الموت'' ( ۱ )

ماہ رجب کا روزہ سکرات موت کو آسان کرتا ہے۔

آدمی کا حال اس مرحلہ میں عمل کے اعتبار سے جواس نے انجام دیا ہے دو طرح کا ہے، جیسا کہ خداوند متعال خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے:

( فأ مّا اِن کان من المقربین) (فروح و ریحان و جنّت نعیم) (و أمّا اِن کان من أصحاب الیمین) (فسلامُ لک من أصحاب الیمین)( و أما اِن کان من المکذبین الضّٰا لّین)( فَنُزُل من حمیم.وَ تصليةُ جحیمٍ ) ( ۲ )

لیکن اگر مقربین میں سے ہے تو رَوح ،ریحان اور بہشت نعیم میں ہے لیکن اگر اصحاب یمین میں سے ہے تواس سے کہیں گے تم پر سلام ہو اصحاب یمین کی طرف سے لیکن اگر جھٹلا نے والے گمراہ لوگوں میں سے ہے تو دوزخ کے کھولتے پانی سے اس کا استقبال ہو گا اور آتش جہنم میں اسے جگہ ملے گی۔

خدا وند عالم نے جس بات کا گروہ اوّل ( اصحاب یمین اور مقربین) کو سامنا ہو گااس کی خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے:

( یا أيّتها النفس المطمئنة اْرجعی اِلیٰ ربّک راضيةً مرضيّةً فادخلی فی عبادی و ادخلی جنّتی )

اے نفس مطمئنہ! اپنے رب کی جانب لوٹ آ اس حال میں کہ تواس سے راضی اور وہ تجھ سے راضی و خوشنود ہے پس میر ے بندوں میں داخل ہوجا اورمیری بہشت میں داخل ہوجا۔( ۳ )

اوردوسرا گروہ، جس نے دنیاوی زندگی میں اپنے آپ پر ظلم کیا ہے ان کے بارے میں بھی خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے:

( حَتَّی ِذَا جَائَ َحَدَهُمْ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُون٭ لَعَلِّی َعْمَلُ صَالِحًا فِیمَا تَرَکْتُ کَلاَّ ِنَّهَا کَلِمَة هُوَقَائِلُهَاوَمِنْ وَرَائِهِمْ بَرْزَخ ِلَی یَوْمِ یُبْعَثُونَ ) ( ۴ )

____________________

(۱) ثواب الاعمال باب : ثواب روزہ رجب ،حدیث ۴.(۲)واقعہ۸۸۔ ۹۴.(۳) فجر ۲۷ ، ۳۰.(۴)مومنون ۹۹، ۱۰۰.

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

عوامل اختلاف كے ساتھ قاطعيت كے ساتھ نمٹنے واكے رہبر تھے _إنى خشيت ا ن تقول فرقت بين بنى إسرائيل

۲۰ _ انتشار و افتراق ڈالنے كا الزام حضرت ہارون(ع) كيلئے سخت اور ناقابل برداشت تھا _إنى خشيت ا ن تقول فرقت بين بنى إسرائيل حضرت ہارون(ع) كا تفرقہ ڈالنے كے الزام سے خوف كلمہ ''خشيت'' كو مد نظر ركھتے ہوئے كہ جس ميں خوف كے ہمراہ بڑا شمار كرنا بھى ہے اسكے ان كے لئے سخت ناگوار ہونے پر دلالت كرتا ہے_

۲۱ _ لمبى ڈاڑھي، اديان آسمانى كے ماننے والوں كى تاريخ ميں مطلوب وضع قطع كا حصہ رہى ہے _لا تأخذ بلحيتي

۲۲ _''على بن سالم عن ا بيه قال: قلت لابى عبدالله (ع) ا خبرنى عن هارون لم قال لموسي(ع) يابن ا م و لم يقل يابن ا بى فقال: إنّ العداوات بين الاخوة ا كثرها تكون اذا كانوا بنى علات و متى كانوا بنى ا م قلت العداوة بينهم قال: قلت له : فلم ا خذ برا سه يجره اليه و بلحيته و لم يكن له فى اتخاذهم العجل و عبادتهم له ذنب؟ فقال: انّما فعل ذلك به لأنه لم يفارقهم لما فعلوا ذلك و لم يلحق بموسى (ع) و كان اذا فارقهم ينزل بهم العذاب ; على ابن سالم نے اپنے باپ سے نقل كيا ہے كہ اس نے كہا ميں نے امام صادق (ع) كى خدمت ميں عرض كيا مجھے حضرت ہارون(ع) كے بارے ميں بتايئےہ انہوں نے كيوں اپنے بھائي موسى (ع) سے كہا''اے ميرى ماں كے بيٹے ...'' اور نہيں كہا اے ميرے باپ كے بيٹے؟ تو امام(ع) نے فرمايا بھائيوں كے درميان اس وقت دشمنى زيادہ ہوتى ہے جب ان كى مائيں مختلف ہوں اور اگر انكى ماں ايك ہو تو ان كے درميان دشمنى كم ہوتى ہے_ ميں نے امام(ع) سے عرض كيا كيوں حضرت موسى (ع) نے اپنے بھائي كى داڑھى پكڑ كر اسے اپنى طرف كھينچا تھا جبكہ اس قوم كى بچھڑا پرستى ميں ہارون(ع) كا كوئي قصور نہيں تھا امام نے فرمايا اس لئے كہ وہ بچھڑا پرستى كے زمانے ميں ان سے جدا ہوكر موسي(ع) كے ساتھ ملحق نہ ہوئے اور اگر انہيں چھوڑ ديتے تو ان پر عذاب نازل ہوجاتا _(۱)

۲۳ _''عن ا بى جعفر (ع) قال: انّ ا مير المؤمنين (ع) خطب الناس فقال: كان هارون ا خا موسى لابيه و ا مّه ; امام محمد باقر(ع) سے روايت كى گئي ہے كہ آپ (ع) نے فرمايا اميرالمؤمنين (ع) نے لوگوں كو خطبہ ديا پھر فرمايا ہارون(ع) ،حضرت موسى (ع) كے

____________________

۱ ) علل الشرائع ص ۶۸ ب ۵۸ ح ۱; نورالثقلين ج ۳ ص ۷۲ ج ۲۷_

۱۸۱

باپ اور ماں كى طرف سے بھائي تھے_(۱)

اتحاد:اسكى اہميت ۱۴/انبياء (ع) :ان كا اثر قبول كرنا ۶; ان كے احساسات كو تحريك كرنا ۶; انكے علم كا دائرہ ۱۰

اہم و مہم: ۱۴/ان كے درج۱۵

بنى اسرائيل:انكى بچھڑا پرستى كے اثرات ۱، ۲; انكے اتحاد كى اہميت ۱۲; يہ موسي(ع) كى عدم موجودگى ميں ۱۷; انكى تاريخ ۱، ۲، ۳، ۱۲، ۱۷; انكى گمراہى كو بيان كرنا ۸; ان كے بچھڑا پرستوں كى حكمرانى ۱۷; ان كے اختلاف كا خطرہ ۱۱; ان كے بچھڑا پرستوں كے ساتھ نمٹنے كى روش ۸; انكى گمراہى كے عوامل ۳; انكى بچھڑا پرستى كے عوامل ۳; ان كے بچھڑا پرستوں كا مقابلہ ۱۱

جمود:اس سے اجتناب ۱۶/شرعى ذمہ داري:اس پرعمل كى روش ۱۶

خود:خود كا دفاع ۹

روايت :۲۲، ۲۳/داڑھي:اسكى تاريخ ۲۱; يہ آسمانى اديان ميں ۲۱

غضب:پسنديدہ غضب ۴/ملزمين:ان كے حقوق ۹

موسى (ع) :انكا اتحاد كو اہميت دينا ۱۳; انكا باپ اور ماں كى طرف سے بھائي ۲۳; انكا مادرى بھائي ۷، ۲۲; انكى سوچ ۳، ۱۹; ان كے جذبات كو تحريك كرنا ۵; انكى نصيحتيں ۱۳; انكا سلوك ۲; ان كے غضب كے عوامل ۱; انكا غضب ۲، ۵; انكى قاطعيت ۱۹; انكا قصہ ۱، ۲، ۳، ۵، ۸، ۱۳، ۱۷، ۱۸; يہ اور ہارون(ع) ۱۹

ہارون(ع) :ان كا مہلت طلب كرنا ۸; انكا باپ اور ماں كى طرف سے بھائي ۲۳; انكا مادرى بھائي ۷، ۲۲; انكے ساتھ سلوك ۲; انكو اتحاد كى نصيحت ۱۳; ان پر اختلاف ڈالنے كى تہمت ۲۰; ان كے رد عمل كا اظہار نہ كرنے كى وجوہات ۱۲; انكا شرعى ذمہ دارى پر عمل كرنا ۱۸; انكا قصہ ۲، ۳، ۵، ۸، ۱۲، ۱۳، ۱۸، ۲۰; انكى داڑھى پكڑنا ۲; انكا سر پكڑنا ۲; انكا مواخذہ ۲; انكا ذمہ دارى قبول كرنا ۱۸; انكا كردار و تأثير ۳، ۵; يہ موسي(ع) كے عدم موجودگى ميں ۱۸

ہدايت:اس كا پيش خيمہ ۱۴

____________________

۱ ) كافى ج ۸ ص ۷۲ ص ۴; نور الثقلين ج ۲ ص ۷۲ ح ۲۷۲_

۱۸۲

آیت ۹۵

( قَالَ فَمَا خَطْبُكَ يَا سَامِرِيُّ )

پھر موسى نے سامرى سے كہا كہ تيرا كيا حال ہے (۹۵)

۱ _ حضرت موسي(ع) نے بنى اسرائيل كى توبيخ اور ہارون(ع) كے ساتھ سختى سے نمٹنے كے بعد،بنى اسرائيل كى بچھڑا پرستى ميں سامرى كى بلا واسطہ مداخلت كوديكھ كر اس سے بازپرس اور تفتيش كى _قال فما خطبك يا سامريّ

۲ _ سنہرى بچھڑا بنانے اور لوگوں كو گمراہ كرنے ميں سامرى كے ہدف اور مقصد كے بارے ميں سوال ، حضرت موسي(ع) كے بازپرسى كے موارد ميں سےفماخطبك يا سامري

بعض اہل لغت كے نزديك ''خطب'' كامعنى ہے سبب امر (لسان العرب) زمخشرى نے اسے طلب كے معنى ميں قرار ديا ہے اس كا مطلب يہ ہے كہ ''ما خطبك'' يعنى تيرے كام كا سبب يا تيرا مطلوب اور مقصود كيا تھا؟نيز اس كلمے كے معانى ميں سے ''شأن'' اور ''امر'' بھى شمار كئے گئے ہيں (قاموس)

۳ _ لوگوں كے اعتقادى او رفكرى انحرافات كے بارے ميں تحقيق اور ان كے علل و اسباب كى شناخت ضرورى ہے _

قال فما خطبك يا سامري مسلّم ہے كہ سامرى كا كام، انحراف، مذموم اور حضرت موسي(ع) كے اعتقادات كے مخالف تھا اسكے باوجود حضرت موسى (ع) اسكے كام كے بارے ميں سوال كر كے اسكے علل و اسباب جاننا چاہتے ہيں _

۴_ حضرت موسى (ع) نڈر، اور مضبوط ارادي اور بلند همت والي شخص تهي_يا هرون . قال فما خطبك يا سامري

قال ياقوم قال

حضرت موسي(ع) نے ميقات سے واپسى كے بعد تن تنہا بنى اسرائيل كے سردار و رعايا اور فردو گروہ كى باز پرس كى اور ان كے غالب نظام كے ساتھ ٹكرائے اور ان سب سے قوت كے ساتھ مخاطب ہوئے يہ روش، انكى شجاعت اور بلند ہمت ہونے كى علامت ہے _

بنى اسرائيل:انكى تاريخ ۱، ۲; انكى سرزنش۱;

۱۸۳

انكى گمراہى كے عوال ۲; انكى بچھڑا پرستى كے عوامل۱

سامري:اس كا گمراہ كرنا ۲; اسكى مجسمہ سازى كا مقصد ۲; اس كا قصہ ۱، ۲;اس كا مواخذہ۱،۲; اس كا نقش و تاثير ۱

گمراہي:اسكے عوامل تلاش كرنا ۳موسى (ع)ان كا ارادہ ۴; انكے سلوك كى روش ۱; انكى طرف سے سرزنش ۱; انكى شجاعت ۴; انكے فضائل ۴; انكى قدرت ۴; انكا قصہ ۱، ۲; پہ اور ہاورن(ع) ۱

ہارون(ع) :ان كا قصہ ۱

آیت ۹۶

( قَالَ بَصُرْتُ بِمَا لَمْ يَبْصُرُوا بِهِ فَقَبَضْتُ قَبْضَةً مِّنْ أَثَرِ الرَّسُولِ فَنَبَذْتُهَا وَكَذَلِكَ سَوَّلَتْ لِي نَفْسِي )

اس نے كہا كہ ميں نے وہ ديكھا ہے جو ان لوگوں نے نہيں ديكھا ہے تو ميں نے نمائں دہ پروردگار كے نشان قدم كى ايك مٹھى خاك اٹھالى اور اس كو گوسالہ كے اندر ڈال ديا اور مجھے ميرے نفس نے اسى طرح سمجھايا تھا (۹۶)

۱ _ سامرى اس بات كا مدعى تھاكہ وہ ممتاز فكر، درك حقائق اور ان علوم كا مالك ہے كہ جن سے دوسرے لوگ بے بہرہ ہيں _قال بصرت بمالم يبصروا به

فعل ''بصر'' اس وقت آنكھ كے ساتھ ديكھنے كے بارے ميں استعمال ہوتا ہے كہ جب اسكے ہمراہ قلبى ادراك بھى ہو اور ايسے موارد ميں اس كا استعمال نہايت كم ہے كہ جہاں قلبى ادراك نہ ہو (مفردات راغب)اس بارے ميں كہ سامرى كى اس بات سے مراد كيا تھى كئي احتمالات ذكر كئے گئے ہيں ، ان ميں سے ايك يہ ھے كہ مجھے ايسے فنون و حقائق سے آگاہى حاصل ہوئي كہ جن كى بناپر ميں رسالت كے اثرات سے زيادہ ا ستفادہ كرسكا اور دوسرے لوگ اس سے محروم رہے _

۲ _ سامرى كو بنى اسرائيل پر علمى برترى حاصل تھى _قال بصرت بمالم يبصروا به

۳ _ سامرى نے اپنے علم و آگاہى كى مدد سے خدا كے ايك بھيجے رسولوں ميں سے ايك رسول كے بعض آثار اور تعليمات تك دسترسى حاصل كى اور انہيں اپنے اختيار ميں لے ليا _بصرت فقبضت قبضةً من ا ثر الرسول

ممكن ہے''أثر الرسول'' سے مراد وہ علم و اسرار ہوں كہ جو حضرت موسى (ع) اورہارون(ع) يا ان سے پہلے كے انبياء كے پاس تھے اوروہ سامرى كے ہاتھ لگ گئے تھے اور اس نے اپنے نفس كى گمراہى كے ذريعے انہيں لوگوں كو گمراہ كرنے كيلئے

۱۸۴

استعمال كياہو_''الرسول'' كا ''ال'' دلالت كررہا ہے كہ سامرى كے مد نظر شخص كو حضرت موسي(ع) بھى پہچانتے تھے ليكن گويا سامرى نے دوسرے لوگوں كے ماجرا كى حقيقت تك نہ پہنچنے كى خاطر بنى اسرائيل كے عام لوگوں كيلئے رسول كا نام اور اس كا اثر معين نہ كيا_

۴ _ بنى اسرائيل كو گمراہ كرنے اور ان كے درميان بچھڑا پرستى كو ترويج دينے كيلئے دين اور تعليمات آسمانى سے سوء استفادہ كرنا،حضرت موسى (ع) كے سامنے سامرى كے اعترافات ميں سے تھا _فنبذته

ممكن ہے ''نبذتہا'' ميں ''نبذ'' اپنے حقيقى معنى ''يعنى آثار رسالت كو دور پھينكنا'' ميں ہو اور ممكن ہے مجاز اور خداكے رسولوں كى تعليمات سے سوء استفادہ كے معنى ميں ہو دوسرے معنى كى بنياد پر سامرى اعتراف كرتا ہے كہ اس نے اپنى معلومات سے غلط استفادہ كر كے انہيں ضائع اور نابود كرديا _

۵ _ سامرى نے اپنى خصوصى اور الہى معلومات كى بے اعتنائي كر كے اور انہيں دور پھينك كر بچھڑا سازى اور لوگوں كو گمراہ كرنا شروع كرديا _فنبذتها و كذلك سولت لى نفسي

مندرجہ بالا آيت كے معانى ميں ايك احتمالى معنى يہ ہے كہ ''نبذتہا'' سے مراد معلومات (بصرت قبضت) سے بے اعتنائي كرنا ہو يعنى سامرى نے اعتراف كيا تھا كہ ميں نے الہى علوم و دانش كہ جو ميں نے انبياء سے حاصل كئے تھے_ كو دور پھينك ديا اسكے نتيجے ميں اپنے نفس سے دھوكہ كھا كريہ سب انجام دے ديا _

۶ _ سامرى كا مرتد ہونا،بنى اسرائيل كے انحراف كا سبب بنا _فنبذته

۷ _ خطا كرنا اور نفس كى تسويل (نفس كا عمل كو مزين كر كے پيش كرنا) بازپرسى كے وقت سامرى كے اعترافات ميں سے _قالبصرت و كذلك سولت لى نفسي

''تسويل'' كا معنى ہے كسى چيز كو دوسرے كى نظر ميں خوبصورت كر كے اور محبوب صورت ميں پيش كرنا تا كہ وہ مخصوص بات كے كہنے يا خاص كام كے انجام دينے پر مجبور ہو جائے (لسان العرب) بعض نے اسے ''سول''بمعني'' استرخا'' (نرمى و آساني) سے مشتق قرار ديا ہے اور اسے آسان كرنے كے معنى ميں ليا ہے _

۸ _ نفس كى فريب كارى اور اسكى ظاہرسازى نے سامرى كو بنى اسرائيل ميں بچھڑا پرستى والا انحراف پيدا كرنے پر مجبور كيا _و كذلك سولت لى نفسي ايسے موارد ميں ''كذلك'' ايك چيز كو اپنے ساتھ تشبيہ دينے كيلئے ہوتا ہے اس بناپر سامرى كا

۱۸۵

اس تشبيہ سے مراد يہ كہ ہے ميرى نفسانى تسويلات كيلئے خود اسى تسويل_ كہ جو لوگوں كو بچھڑاپرستى كى دعوت دينا ہے_ سے بہتر مثال نہيں ہے _

۹ _ نفس كے وسوسے اور تسويلات،لوگوں كو گمراہ كرنے اور انحراف پيدا كرنے كى خاطر دين و دانش كے استعمال كيلئے زمينہ ہموار كرتے ہيں _بصرت فنبذتها و كذلك سولت لى نفسي

جو كچھ سامرى كے ہاتھ ميں تھا جو خود اسكى اور بہت سارے لوگوں كى گمراہى كا سبب بنا وہ علوم و معارف تھے كہ جنہيں اس نے لوگوں كو گمراہ كرنے كيلئے استعمال كيا _

۱۰ _ نفس كى تسويلات (برے اور ناروا كاموں كو خوبصورت كر كے پيش كرنا) ايسا خطرہ جو افراد اور جوامع كيلئے كمين لگائے ہوئے ہے_و كذلك سوّلت لى نفسي

۱۱ _ ناروا كاموں كو خوبصورت بنانا،انسانى نفس كى خصوصيات ميں سے ہے _و كذلك سولت لى نفسي

۱۲ _ انسان كے لئے اپنے نفس كى تسويلات كے مقابلے ميں ہوشيار رہنا ضرورى ہے_و كذلك سوّلت لى نفسي

اقرار:ناپسنديدہ عمل كو خوبصورت بنانے كا اقرار ۷

انبيائ(ع) :ان كے علم تك دسترسى ۳

بنى اسرائيل:انكى تاريخ ۴، ۶، ۷، ۸; انكى گمراہى كے عوامل ۶; انكى بچھڑا پرستى كے عوامل ۸

معاشرہ:معاشرتى آسيب شناسى ۹، ۱۰; اسكے انحطاط كے عوامل ۱۰

خداتعالى :اسكى تعليمات سے بے اعتنائي ۵

دين:اس سے سوء استفادہ كرنے كا پيش خيمہ ۹; اس سے سوء استفادہ كرنا ۴

سامري:اسكے مرتد ہونے كے اثرات ۶; اسكى خواہش پرستى كے اثرات ۸; اسكے گمراہ كرنے كا آلہ ۴; اسكے دعوے ۱; اس كا گمراہ كرنا ۵، ۷، ۸; اس كا اقرار ۴، ۷; اسكى تبليغ كى روشن۴; اس كا سود استفادہ ۴; اس كا علم ۱، ۲; اسكے فضائل۲; اس كا قصہ ۳، ۴، ۵، ۶، ۷; اسكى مجسمہ سازى ۵; اسكے علم كا سرچشمہ۳/عمل:ناپسنديدہ عمل كو خوبصورت بنانے كے اثرات ۱۰; ناپسنديدہ عمل كو خوبصورت بنانا۱۱/لوگ:لوگوں كو گمراہ كرنے كا پيش خيمہ ۹

خواہش پرستي:اسكے اثرات ۹، ۱۱; اسكے مقابلے ميں ہوشيارى كى اہميت ۱۲

۱۸۶

آیت ۹۷

( قَالَ فَاذْهَبْ فَإِنَّ لَكَ فِي الْحَيَاةِ أَن تَقُولَ لَا مِسَاسَ وَإِنَّ لَكَ مَوْعِداً لَّنْ تُخْلَفَهُ وَانظُرْ إِلَى إِلَهِكَ الَّذِي ظَلْتَ عَلَيْهِ عَاكِفاً لَّنُحَرِّقَنَّهُ ثُمَّ لَنَنسِفَنَّهُ فِي الْيَمِّ نَسْفاً )

موسى نے كہا كہ اچھا جا دور ہوجا اب زندگانى دنيا ميں تيرى سزا يہ ہے كہ ہر ايك سے بہى كہتاپھرے گا كہ مجھے چھونا نہيں اور آخرت ميں ايك خاص وعدہ ہے جس كى مخالفت نہيں ہوسكتى اور اب ديكھ اپنے خدا كو جس كے گرد تونے اعتكاف كر ركھا ہے كہ ميں اسے جلاكر خاكستر كردوں گا اور اس كى راكھ دريا ميں اڑادوں گا (۹۷)

۱ _ حضرت موسى (ع) نے سامرى كى عدالتى كاروائي كے بعد اسكے فورى طور پر معاشرے سے نكل جانے، تنہا ہوجانے اور پورى زندگى ميں لوگوں كے ساتھ اسكى قطع تعلقى كا فيصلہ سنايا _قال فاذهب فإن لك فى الحى وة إن تقول لامساس

''فاذہب'' كى ''فائ'' اس بات پر دلالت كرنے كے علاوہ كہ سامرى كے نكل جانے كا حكم اس كے خلاف فيصلے پر مترتب تھا اسكے فورى ہونے پر بھى دلالت كرتا ہے ''مساس'' باب مفاعلہ كا مصدر ہے اور ''لامساس'' كا مطلب ہے ہر قسم كے رابطے اور تعلق كى نفى يعنى تو اپنى زندگى ميں اس انجام كا مستحق ہے كہ تيرى پہلى اور آخرى بات اپنى بے كسى اور اس بات كى خبردينا ہوگى كہ تيرے ساتھ كوئي بھى رابطے ميں نہيں ہے_

۲ _ دين موسى (ع) ميں دہتكارنا اور تن تنہا كردينا،مرتدوں اور گمراہ كرنے والوں كى سزا تھيقال فاذهب فإن لك فى الحى وة ا ن تقول لا مساس ''لامساس'' كے بارے ميں دو رائے كا اظہار كيا گيا ہے ۱_ يہ حضرت موسى (ع) كى طرف سے عدالتى فيصلہ تھا ۲_ يہ سامرى كے بارے ميں حضرت موسى (ع) كى نفرين ہے مذكورہ مطلب پہلى رائے كے مطابق ہے _

۳ _ سامرى كا لوگوں سے دور ہونے اور لوگوں كا اس سے دور ہونے سے دوچار ہونا اسكے بارے ميں حضرت موسي(ع) كى نفرين كا نتيجہ تھا_فإن لك فى الحيوة ا ن تقول لامساس

جيسا كہ بعض مفسرين نے كہا ہے احتمال ہے كہ ''فإن لك فى الحياة ...'' سامرى كے بارے ميں حضرت موسي(ع) كى نفرين ہو _ يعنى سامرى اپنى خاص نفسياتى يا جسمانى بيمارى ميں مبتلا ہوجائے كہ لوگ اس سے دور رہيں اور وہ لوگوں سے دورى اختيار كرے _

۱۸۷

۴ _ لوگوں سے رابطہ ختم ہونا اور معاشرے سے دہتكاراجانا اور تنہا ہوجانا ايسى سزاتھى كہ جو سامرى كيلئے سزاوار تھي_

قال فاذهب فإن لك لامساس

''لك'' كا ''لام'' سامرى كے استحقاق پر دلالت كرتا ہے اور (پچھلى آيت ميں مذكور) ''نبذتہا'' كو مد نظر ركھتے ہوئے كہا جاسكتا ہے كہ معاشرے سے دھتكارا جانا سامرى كى طرف سے رسالت كے آثار كو درو پھينكنے والے گناہ كے مناسب سزا تھى _

۵ _ معاشرے كو گمراہ كرنے والے عناصر سے پاك كرنا اور ان كے اور لوگوں كے دو طرفہ روابط كو منقطع كرنا ضرورى ہے_قال فاذهب لامساس

۶ _ سامرى كو دنياوى سزا كے علاوہ آخرت ميں حتمى اور قطعى سزا كا سامنا ہوگا _لك فى الحياة و إن لك موعداً لن تخلفه

''موعد'' ''وعدہ، وعدہ كى جگہ اور وعدہ كا وقت كے معانى ميں استعمال ہوتا ہے اور ظاہراً اس سے مراد وہ عذاب ہے جس كا قيامت ميں وعدہ ديا گيا ہے_

۷ _ گمراہ قائدين دنياوى سزا كى وجہ سے اخروى سزا سے معاف نہيں ہوں گے _فى الحى وة لامساس و إن لك موعداً لن تخلفه

۸ _ خداتعالى كى بعض دھمكيوں كا قطعى ہونا _موعدا لن تخلفه ''لن تخلفہ'' مجہول ہے اور اس كا غير مذكورہ فاعل خداتعالى ہے _

۹ _ سامرى خود بھى اپنے ہاتھ سے بنائے ہوئے بچھڑے كى پرستش كرتا تھا _و انظر إلى إلهك الذى ظلت عليه عاكف

''الہك'' سامرى كے معبود كى تحقير كے علاوہ اس بات پر بھى دلالت كرتا ہے كہ خود سامرى نے بھى اسے معبود كے طور پر قبول كر ركھا تھا_

۱۰ _ سامرى نے خود كو اپنے دست ساز بچھڑے كى مكمل نگرانى كا پابند بناركھا تھا اور مسلسل اسكے ہمراہ رہتا_ظلت عليه عاكف ''ظلت''،''ظللت'' (تو اس پر كاربند تھا) كا مخفف ہے ''عكوف'' كا معنى ہے كسى چيز كو چمٹا رہنا اور اسى سے دائمى سركشى ہے (مصباح) اور''ظلت عليه عاكفاً'' يعنى اسكى طرف تيرى بہت توجہ تھى اور تو ہميشہ اس كا ديدار كررہا تھا _

۱۱ _ سامرى كے بچھڑے كو مكمل طور پر جلاكر اسكے آثار كو ختم كردينا اور اسكى راكھ كو دريا ميں پھينك دينا سامرى كے

۱۸۸

سنہرے بچھڑے كے بارے ميں حضرت موسى (ع) كى قطعى اور مؤكد تصميم _و انظر إلى إلهك لنحرقنه ثم لننسفنه فى اليم نسف (''لنحرقنہ'' كے مصدر) تحريق كا معنى ہے زيادہ جلانا (مصباح) نسف كامعنى ہے جڑ سے اكھاڑنا، گرادينا اور ہوا ميں منتشر كردينا (قاموس)قابل ذكرہے كہ آيت ميں آخرى معنى زيادہ مناسب لگ رہا ہے پس ''ثم لننسفنہ'' يعنى بچھڑے كو جلانے كے بعد ( اسے راكھ كرنا) اسكى راكھ كو دريا ميں پھينك ديں گے _

۱۲ _ سامرى كے بچھڑے كو جلانا اور اسكى راكھ كو دريا ميں پھينكنا ،سامرى اور ديگر لوگوں كے سامنے انجام پايا_و انظر لنحرقنه ثم لننسفنه فى اليم ''انظر'' حضرت موسي(ع) كى طرف سے سامرى كو حكم ہے اور ظاہراً اس سے مراد جلانے اور دريا ميں پھينكنے والے پروگرام كا نظارہ كرنا ہے_ ''لنحرقنہ'' اور ''لننسفنہ'' كى جمع كى ضمير ميں موقع پر لوگوں كے حاضر ہونے كو بيان كر رہى ہيں _

۱۳ _ حضرت موسى (ع) نے سامرى كے بچھڑے كو نابود كرنے كيلئے بنى اسرائيل كى مدد كا انتظام كيا تھا اور آپ انہيں اس كام ميں شريك كرنے پر مصمم تھے_لنحرقنه ثم لننسفنه ''لنحرقنه' ' اور ''لننسفنہ'' كى جمع كى ضمير يں مذكورہ مطلب كو بيان كررہى ہيں _

۱۴ _ سامرى كے بچھڑے كو تراش كر اسے ناقابل استعمال برادے ميں تبديل كرنا اور پھر اسے دريا ميں منتشر كردينا بنى اسرائيل كے بچھڑا پرستى والے انحراف كا قلع قمع كرنے كيلئے حضرت موسي(ع) كا پروگرام _لنحرقنه

''حرق'' اور ''تحريق'' كے معانى ميں سے ايك نرم كرنا اور پگھلانا ہے _اور ''تحريق'' اسكے تسلسل اور شدت پر دلالت كر رہا ہے (لسان العرب) مذكورہ مطلب اسى معنى كى بناپر ہے_

۱۵ _ شرك كے فكرى اور عينى ذرائع كے ساتھ مقابلہ كرنا اور انہيں نابود كرنا،بنى اسرائيل كى بچھڑاپرستى كے خلاف حضرت موسي(ع) كى روش_إلهك الذي لنحرقنه ثم لننسفنه

سامرى كے بچھڑے كو جلانا چند جہات سے قابل تامل ہے ۱: نابود كرنے اور اسے لوگوں كى نظروں سے مٹا دينے كى جہت سے تا كہ دوبارہ اسكى طرف مائل نہ ہوجائيں ۲: اس سنہرے بچھڑے كو جلاكر راكھ كردينے سے ظاہر بينوں كيلئے اس كے معبود نہ ہونے كو ثابت كرنا _ پہلى جہت عينى اور دوسرى فكرى ہے_

۱۶ _ شرك اور غير خدا كى پرستش كى جڑوں كو كاٹنا اور لوگوں

۱۸۹

كى زندگى سے اسكے آثار كو محو كردينا ضرورى ہے _إلهك لنحرقنه ثم لننسفنه فى اليم نسف

۱۷ _ مادى اور فنى اقدار كو شرك كے خلاف مقابلے اور اسكے آثار اور ذرائع كو نابود كرنے ميں سستى كاموجب نہيں بننا چاہے_و انظر إلى إلهك لنحرقنه ثم لننسفنه فى اليم نسف باوجود اسكے كہ سامرى كا بچھڑا قيمتى دھاتوں سے بنايا گيا تھا اور اس سے صحيح استفادے كا امكان تھا حضرت موسي(ع) نے جلانے اور نابود كردينے كا حكم ديا كيونكہ صحيح عقائد كى حفاظت اور اعتقادى انحرافات كے ساتھ مقابلے كى قدر و قيمت مادى اقدار كے ساتھ قابل قياس نہيں ہے_

ہنرى آثار:انكا كردار ۱۷

مدد طلب كرنا:بنى اسرائل سے مدد طلب كرنا ۱۳

بنى اسرائيل:انكى تاريخ ۱، ۳، ۱۳، ۱۴، ۱۵; انكى بچھڑا پرستى كے خلاف مبارزت كى روش ۱۴، ۱۵; انكا كردار نقش و ۱۳

خداتعالى :اسكى دھمكيوں كا قطعى ہونا ۸

راہنما:گمراہى كے راہنماؤں كى اخروى سزا ۷; گمراہى كے راہنماؤں كى دنيوى سزا ۷

سامري:اسكے بچھڑے كو دريا برد ہ كرنا ۱۱، ۱۲; اسكى جلا وطنى ۱; اسكے بچھڑے كونابود كرنے كى روش ۱۴; اسكے بچھڑے كو جلانا ۱۱، ۱۲; اسے مطرود كرنا ۳، ۴، ۶; اس كا قصہ ۱، ۳، ۹، ۱۰; اسكے ساتھ قطع تعلقى ۱; اسكى اخروى سزا كا قطعى ہونا ۶; اسكى دنيوى سزا ۶; اسكى سزا ۴; اسكى بچھڑا پرستى ۹; اسكے بچھڑے كى نگرانى ۱۰; اسكے خلاف عدالتى كا روائي۱; اسكے بچھڑے كى نابودى ۱۳; اس پر نفرين ۳; اس كا كردار ونقش ۱۰

شرك دشمني:اسكى اہميت ۱۶، ۱۷

گمراہ لوگ:انكے ساتھ نمٹنے كى روش ۵; انہيں مطرود كرنا۵; انكے ساتھ قطع تعلقي۵

مرتد:اسكے احكام ۲; اسكى جلا وطني۲; يہ يہوديت ميں ۲

موسي(ع) (ع) :انكى نفرين كے اثرات ۳; انكى تصميم ۱۱; انكى شرك دشمنى كى روشء ۱۵; انكا قصہ ۱، ۳، ۱۱، ۱۲، ۱۳، ۱۴، ۱۵; انكا فيصلہ۱; يہ اور سامرى كا بچھڑ ۱۱

يہوديت:اسكى تعليمات ۲

۱۹۰

آیت ۹۸

( إِنَّمَا إِلَهُكُمُ اللَّهُ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ وَسِعَ كُلَّ شَيْءٍ عِلْماً )

يقينا تم سب كا خدا صرف اللہ ہے جس كے علاوہ كوئي خدا نہيں ہے اور وہى ہر شے كا وسيع علم ركھنے والا ہے (۹۸)

۱ _ لوگوں كو عبادت ميں توحيد كى طرف متوجہ كرنا، حضرت موسي(ع) كا سامرى كے بچھڑے كو جلا كر راكھ كردينے كا مقصد_لنحرقنه إنما إلهكم الله

ظاہراً يہ آيت حضرت موسي(ع) كى اپنى قوم كے ساتھ گفتگو كا تسلسل ہے _ سامرى كے خلاف عدالتى كاروائي اور اسكے خلاف فيصلے نيز اسكے بچھڑے كو نابود كرنے كے بعد ان بيانات كو پيش كرناكى تصميم اس پورے واقعے كا نتيجہ ہے اور يہ اس نكتے كو بيان كر رہا ہے كہ حضرت موسي(ع) نے يہ نتيجہ (شرك كا ابطال اور توحيد كا اثبات) اخذ كرنے كيلئے يہ سب كام انجام ديئے تھے _

۲ _ صرف الله تعالى ،انسانوں كا حقيقى معبود ہے _إنما إلهكم الله

۳ _ ''الله '' عالم ہستى كے واحد حقيقى معبود كا مخصوص نام ہے_إنما إلهكم الله الذى لا إله إلا هو

۴ _ انسان كا حقيقى معبود،عالم ہستى كا يكتا معبود ہےإنما إلهكم الله الذى لا إله إلا هو

''الذي ...'' كا وصف تعليل كيلئے ہے يعنى چونكہ ''الله '' وہ ذات ہے كہ كائنات ميں اسكے سوا كوئي معبود بر حق نہيں ہے لذا تمہارا خدا بھى وہى ہے_

۵ _ كائنات كى تمام مخلوقات،خدائے يكتا كے علم ميں ہيںالله الذي وسع كل شيء علم

''علماً''،''وسع'' كے فاعل كيلئے تميز ہے يعنى خداتعالى علم و آگاہى كے لحاظ سے تمام مخلوقات پر محيط ہے _

۶ _ وہ معبود لائق عبادت ہے جو شريك سے بے نياز ہو اس كا علم مطلق ہو اور سب چيزوں پر محيط ہو _

إنما إلهكم الله وسع كل شيء علم

۱۹۱

''وسع'' كا جملہ ''لا إلہ إلا ہو'' كيلئے بدل ہے اور يہ دونوں '' إنما إلہكم ...'' كيلئے تعليل ہيں _

اسما و صفات : الله ۳

انسان:اس كا معبود ۴

توحيد:توحيد عبادى كى اہميت ۱; توحيد عبادي۴

خداتعالى :اسكى خصوصيات ۲; اسكے علم كى وسعت ۵

سامري:اسكے بچھڑے كو نابود كرنے كا فلسفہ ۱سچامعبود ۲، ۴

اس كا احاطہ ۶; اس كا بے مثال ہونا ۶; اس كا بے نياز ہونا ۶; اسكى شرائط ۶; اس كا علم ۶; اس كا نام ۳

موجودات:ان كا علم ۵

موسى (ع) :انكے اہداف ۱

آیت ۹۹

( كَذَلِكَ نَقُصُّ عَلَيْكَ مِنْ أَنبَاء مَا قَدْ سَبَقَ وَقَدْ آتَيْنَاكَ مِن لَّدُنَّا ذِكْراً )

اور ہم اسى طرح گذشتہ دور كے واقعات آپ سے بيان كرتے ہيں اور ہم نے اپنى بارگاہ سے آپ كو قرآن بھى عطا كرديا ہے (۹۹)

۱ _ سابقہ اقوام كى سرگذشت نقل كرنے ميں قرآنى روش كى طرف توجہ كرنا ضرورى ہے _كذلك نقص عليك من ا نباء ما قد سبق ''كذلك'' دوسروں كى سرگذشت كے نقل كرنے كو موسي(ع) كى داستان كے نقل كرنے كے ساتھ تشبيہ دينے كيلئے ہے اور آيت كا ذيل ''آتيناك ذكراً'' اس نكتے كو بيان كر رہا ہے كہ خداتعالى ان قصوں ميں بھى پندآموز نكات كا انتخاب كر كے انہيں قرآن ميں بيان كرتاہے جيسا كہ اس نے حضرت موسى (ع) اور بنى اسرائيل كى دوستان ميں كيا ہے_

۲ _ گذشتہ انبياء (ع) اور امتوں كى اخبار كو مسلسل نقل كرنا، خداتعالى كا پيغمبر (ص) كے ساتھ ايك وعدہ _

۱۹۲

كذلكنقص عليك من ا نباء ما قد سبق

''نقص عليك ...''گذشتہ لوگوں كى تاريخ كے گوشوں كو نقل كرنے كے سلسلے ميں خداتعالى كا وعدہ ہے_

۳ _ قرآن مجيد كى داستانيں ،تاريخى واقعيات سے ماخوذ ہيںنقص عليك من ا نباء ما قد سبق

''نبا'' خبر كے معنى ميں ہے ''ما قد سبق'' يعنى وہ جو ماضى ميں واقع ہوچكا ہے نہ يہ كہ صرف خيالى اور غير واقعى امور ہوں _

۴ _ قرآن مجيد خداتعالى كى طرف سے پيغمبر اكرم(ص) كيلئے ايك عظيم عطيہ اور نصيحت گيرى اور ہوشيار رہنے كا ايك ذريعہ ہے _و قد ء اتيناك من لدنّا ذكرا

''ذكرا'' كا نكرہ ہونا اسكى عظمت پر دلالت كرتا ہے (بعد والى آيت ميں ) ''من ا عرض عنہ'' قرينہ ہے كہ ذكر سے مراد قرآن ہے_

۵ _ قرآن كريم ميں گذشتہ لوگوں كى داستانوں كو نقل كرنا يادآورى اور بيدار كرنے كيلئے ہے _نقص عليك من ا نباء ما قد سبق ذكرا

۶ _ نصيحت گيرى اور سبق حاصل كرنے كيلئے قرآن كى داستانوں ميں غور و فكر كرنا ضرورى ہے _نقص عليك من ا نبا ئ ذكرا

۷ _ ''ذكر'' قرآن مجيد كے ناموں اور اوصاف ميں سے ہے_و قد ء اتيناك من لدنا ذكرا

۸ _ قرآن مجيد كى داستانيں ،خداتعالى كے علم كے سرچشمہ سے نازل ہوئي ہيں نہ يہ كہ دوسروں كى باتوں سے مأخوذہوں _

من لدنا

آنحضرت(ص) :آپ(ص) كے ساتھ وعدہ ۲

تدبر:قرآن كے قصوں ميں تدبر ۶

خداتعالى :اسكے عطيات ۴; اس كا علم ۸; اسكے وعدے ۲

ذكر: ۷قرآن مجيد:اس ميں تاريخ ۱، ۲; اسكى تعليمات كى روش ۱; اس كى فضيلت ۴; اسكے قصوں كا فلسفہ۵; اسكے نزول كا فلسفہ ۴; اسكے قصوں كا سرچشمہ ۸; اسكے نام ۷; اسكے قصوں كى حقيقت ۳

نعمت:قرآن كى نعمت۴

ياددہاني:پيغمبر كوياد دہانى ۴; اسكے عوامل ۴، ۵، ۶

۱۹۳

آیت ۱۰۰

( مَنْ أَعْرَضَ عَنْهُ فَإِنَّهُ يَحْمِلُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وِزْراً )

جو اس سے اعراض كرے گا وہ قيامت كے دن اس ا نكار كا بوجھ اٹھائے گا (۱۰۰)

۱ _ قرآن مجيد اور اسكى نصيحتوں سے روگردانى كرنے والے قيامت كے دن اپنے كندھوں پر گناہ كا بھارى بوجھ اٹھائے ہوئے ہوں گے _من أعرض عند فإنه يحمل يوم القيامة وزرا

۲ _ قرآن مجيد سے روگردانى گناہ ہے اور قيامت والے دن يہ انسان كے دامنگير ہوگى _من أعرض عنه فإنه يحمل يوم القيامة وزرا

۳ _ قرآن اور اسكى نصيحتوں سے روگردانى كرنے والے دنيا ميں انحراف اور گناہ ميں گرفتار ہوتے ہيں _

ء اتيناك من لدنا ذكراً_ من أعرض عنه فانه يحمل وزرا

جملہ '' فإنہ يحمل ...'' ممكن ہے قرآن مجيد سے اعراض كرنے والوں كے ديگر گناہوں ميں گرفتار ہونے كو بيان كررہا ہو يعنى يہ لوگ اس روگردانى كى وجہ سے دنيا ميں گناہ كے جال ميں پھنس جائيں گے اور قيامت ميں اس كے بوجھ تلے اور اسے اٹھائے ہوئے ہوں گے_

۴ _ قيامت،انسان كے دنياوى اعمال كے ظہور كا دن ہے _من أعرض عنه فإنه يحمل يوم القيامة وزرا

''وزر'' كا معنى ہے پھارى بوجھ اور چونكہ گناہ بھى گناہ گار كے كا ندھے پر بھارى بوجھ ہوتا ہے اس لئے اسے بھى ''وزر'' كہتے ہيں (مفردات راغب) ''حمل وزر'' اس چيز كى حكايت كررہا ہے كہ قيامت كے دن گناہ، گناہ گار كے كندھے پر بوجھ كى صورت ميں ظاہر ہوگا_

۵ _ قرآن مجيد اور اسكى نصيحتوں كى طرف توجہ قيامت والے دن بوجھ كے ہلكا ہونے اور نجات كا سبب ہے _

من أعرض عنه فإنه يحمل يوم القيامة وزرا

جس طرح قرآن مجيدسے روگردانى قيامت كے دن بوجھ كے بھارى ہونے اور پريشانى كا سبب ہے اسى طرح قرآن مجيد كى طرف پلٹنا اور اسكے ساتھ تمسك قيامت والے دن انسان كے بوجھ كے ہلكا كرنے اور اسكى نجات كا سبب ہے_

۱۹۴

۶ _ قرآن مجيد، قيامت والے دن اعمال كے پركھنے كا محور اور ميزان ہے _من أعرض عنه فإنه يحمل يوم القيامة وزرا

آيت كا منطوق دلالت كرر ہا ہے كہ قرآن سے روگردانى ''وزر'' آور ہے اور اس كا مفہوم يہ ہے كہ اسكى طرف توجہ نجات كا سبب ہے پس قيامت كے دن انسان كے اعمال اور عقائد كى قدر و قيمت كا معيار اس كى قرآن سے دورى اور نزديكى ہوگى اور اس ذريعہ سے اس كيلئے ثواب و عقاب كى درجہ بندى ہوگى _

ذكر:قرآن كے ذكر كے اثرات ۵

عمل:اس كا ميزان ۶

قرآن مجيد:اس سے روگردانى كے اثرات ۳; اس سے روگردانى كرنے والوں كے گناہ كا سنگين ہونا۱; اس سے روگردانى كرنے والوں كى گمراہى ۳; اس سے روگردانى كرنے كا گناہ ۲; اس سے روگردانى كرنے والے قيامت ميں ۱; اس كا اخروى كردار ۶

قيامت:اس ميں پاداش ۴; اس ميں عمل كا مجسم ہونا ۴; اس ميں حقائق كا ظہور ۴; اس ميں سزا ۴; اسكى خصوصيات ۴

گمراہي:اسكے عوامل ۳

گناہ:اسكے عوامل ۳

نجات:اخروى نجات كے عوامل ۵

آیت ۱۰۱

( خَالِدِينَ فِيهِ وَسَاء لَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ حِمْلاً )

اور پھر اسى حال ميں رہے گا اور قيامت كے دن يہ بہت بڑا بوجھ ہوگا (۱۰۱)

۱ _ قرآن مجيد سے اعراض كرنے كى سزا،قيامت ميں بھارى بوجھ كى طرح اعراض كرنے والوں كے گندھوں پر ہوگي_

من ا عرض عنه وزراً خلدين فيه حملا

''حمل'' اس اٹھائي ہوئي چيز كو كہتے ہيں كہ جو سر يا پشت پر اٹھائے ہوئے وزن كى طرح آشكار ہو (لسان العرب) اور اس كا نكرہ ہونا اسكے بھارى ہونے كو بيان كررہا _

۲ _ قرآن مجيد سے روگردانى كرنے والوں كى اخروى سز

۱۹۵

اور نتائج ابدى ہوں گے اور كبھى جدا نہيں ہوں گے _وزرا خلدين فيه و ساء لهم

''فيہ'' كى ضمير كا مرجع ''وزرا'' ہے جو گذشتہ آيت ميں تھا ''وزر'' ميں خلود اور ہميشگى كا معنى اسكے اثرات اور نتائج كا دائمى ہونا _

۳ _ قيامت كے دن قرآن مجيد سے روگردانى كا وزر اور عقوبت روگردانى كرنے والوں كے كندھوں پر ناگوار اور مشقت بار وزن ہوگا _وزراً و ساء لهم يوم القيامة حملًا

۴ _ اخروى سزائيں ،دنيوى اعمال كا تجسم ہيں _فإنه يحمل يوم القيامة وزراً خلدين فيه حملًا

گناہ گاروں كا وزر اور گناہ ميں ہميشہ رہنا اس چيز كو بيان كررہا ہے كہ قيامت كى عقوبتيں اور مشكلات دنياوى اعمال كا تجسم ہيں كيونكہ وہ اپنے گناہ ميں ہميشہ ہيں _

۵ _ قيامت،گناہ گاروں كى سزا كا دن ہے_وساء لهم يوم القيامة حملا

عذاب:اس ميں ہميشہ رہنا ۲

عمل:اس كا مجسم ہونا ۴

قرآن مجيد:اس سے روگردانى كرنے والوں كى سزا كا سخت ہونا۳; اس سے روگردانى كرنے والوں كى سزا كا سنگين ہونا ۱; اس سے روگردانى كرنے والوں كى اخروى سزا ۱، ۲

قيامت:اسكى خصوصيات ۵

سزا:اخروى سزا كى حقيقت ۴

گناہ گار لوگ:انكى اخروى سزا ۵

آیت ۱۰۲

( يَوْمَ يُنفَخُ فِي الصُّورِ وَنَحْشُرُ الْمُجْرِمِينَ يَوْمَئِذٍ زُرْقاً )

جس دن صور پھونكا جائے گا اور ہم تمام مجرمين كو بدلے ہوئے رنگ ميں اكٹھا كريں گے (۱۰۲)

۱ _ صور (بگل يا صورت اور پيكر ) ميں پھونكا جانا،روز قيامت كے واقعات ميں سے ہے _يوم ينفخ فى الصور

ممكن ہے صوران دو معنوں ميں سے ايك ميں ہو_ ۱_سينگ كے

۱۹۶

معنى ميں تو اس صورت ميں مراد بگل ميں پھونكاجانا ہوگا كيونكہ قديم زمانے ميں جانوروں كے سينگ ميں سوراخ كر كے اس سے بناتے تھے ۲_ ممكن ہے صور''صورة'' كى جمع ہو تو اس صورت ميں مراد مردوں كے جسموں اور پيكروں ميں پھونكاجانا ہوگا تا كہ وہ زندہ ہوجائيں بعض آيات كہ جن ميں كلمہ '' صور'' آيا ہے دوسرے معنى كے ساتھ سازگار نہيں ہيں _

۲ _ صور ميں پھونكاجانا اور قيامت ميں محشور ہونا ايسے دو واقعات ہيں جو ايك دوسرے كے ساتھ مربوط ہيں _يوم ينفخ فى الصور و نحشر المجرمين ''حشر'' كا ''نفخ صور'' پر عطف بتاتا ہے قيامت كے برپا ہونے كے سلسلے ميں يہ دو واقعات آپس ميں مربوط ہيں _

۳ _ قيامت،مردوں كے اجساد ميں دوبارہ روحوں كے پھونكے جانے كا دن _*يوم ينفخ فى الصور

مذكورہ مطلب اس احتمال كى بناپر ہے كہ ''صور'' ''صورة'' كى جمع اور ''اجساد'' كے معنى ميں ہو_

۴ _ مجرمين جس لحظے قيامت ميں حاضر ہوں گے پريشانى كے ساتھ اپنے انجام پر نظر يں لگائے مبہوت اور حيرت زدہ ہوں گے _و نحشرالمجرمين يومئذ زرقا

''زرقاً''،''المجرمين'' كيلئے حال ہے اور اس كا مفرد ''ارزق'' يا ''رزقائ'' اس شخص كو كہاجاتا ہے كہ جس كى آنكھ كى سفيدى اسكى سياہى كو ڈھانپ لے (لسان العرب) يہ حالت مجرمين كے ٹكٹكى باندھ كر ديكھنے كى علامت ہے اور ان كے شديد اندرونى اضطراب كو بيان كررہى ہے بعض لوگوں كا كہنا ہے كہ آنكھ كے سفيدہونے كا لازمہ اس كا اندھا ہونا ہے (لسان العرب)_

۵ _ قيامت ميں مجرمين كا محشور ہونا شديد رنج،الم اور وحشت كے ساتھ ہوگا _و ساء لهم يوم القيامة حملاً نحشر المجرمين يومئذ زرقا ''حملا'' اور ''زرقا'' قيامت كے دن منكرين قرآن كى پريشان حالى اور سخت حالات پر دلالت كررہے ہيں

۶ _ قيامت كے دن مجرمين نيل پڑے اور اترے ہوئے چہروں كے ساتھ محشور ہوں گے _*و نحشرالمجرمين يومئذ زرقا

ممكن ہے (''زرقاً'' كے مفرد) ''ا رزق'' يا ''زرقائ'' سے مراد لاجوردى رنگ ہوكہ جسے آسمانى رنگ يا نيلگوں بھى كہا جاتا ہے يہ صفت اگرچہ عام طور پر آنكھو كيلئے استعمال ہوتى ہے ليكن آنكھ كے غير ميں بھى استعمال ہوتى ہے (لسان العرب) مذكورہ مطلب اس بنياد پر ہے كہ ''زرقاً'' مجرمين كى جسمانى حالت كو بيان كررہا ہو_

۷ _ قيامت انسانوں كے جمع اور اكٹھا ہونے كا دن _نحشر المجرمين

''حشر'' كا معنى ہے جمع كرنا (لسان العرب) اور اس ميں چلانے كا معنى ہى ملحوظ ہوتا ہے _

۱۹۷

۸ _ قيامت برپا كرنا اور اس ميں مجرمين كو حاضر كرنا خداتعالى كے اختيار ميں اور اسكے ارادے كے ساتھ مربوط ہے _نحشر

۹ _ قرآن مجيد سے روگردانى كرنے والے ايسے مجرم ہيں جن كا برا انجام ہے _ء اتينك من أعرض و نحشر المجرمين يومئذ زرقا

انسان:اس ميں روح پھونكنا ۳

خداتعالى :اسكے ارادے كے اثرات ۸

قرآن مجيد:اس سے روگردانى كرنے والوں كا انجام ۹

قيامت :اس ميں جمع ہونا ۷; اس ميں محشورہونا ۲; اس ميں آنكھ خيرہ ہونا ۴; اسكے برپا ہونے كا سرچشمہ ۴; اس ميں صور پھونكنا ۱، ۲; اسكى خصوصيات ۱، ۳، ۷

گناہ گار لوگ:انكى اخروى حيرت ۴; ان كا اخروى خوف ۵; انكے چہرے كا رنگ ۶; انكى آنكھ كا خيرہ ہونا ۴; انكا برا انجام ۹; انكے محشور ہونے كا سرچشمہ۸; انكى اخروى پريشاني۴; ان كے محشور ہونے كى خصوصيات ۵

مردے:انہيں آخرت ميں زندہ كرنا ۳

آیت ۱۰۳

( يَتَخَافَتُونَ بَيْنَهُمْ إِن لَّبِثْتُمْ إِلَّا عَشْراً )

يہ سب آپس ميں يہ بات كر رہے ہوں گے كہہم دنيا ميں صرف دس ہى دن تو رہے ہيں (۱۰۳)

۱ _ گناہ گار اور قرآن سے روگردانى كرنے والے روز قيامت ايك دوسرے كے ساتھ آہستہ آہستہ باتيں كريں گے _

يتخفتون بينهم

''خفت'' كا مطلب ہے بات كو مخفى ركھنا (لسان العرب) ''يتخافتون'' باب تفاعل سے ہے اور اس بات پر دلالت كرتا ہے كہ ايك دوسرے كے ساتھ گفتگو كرتے وقت انكى آواز سنائي نہيں ديں گى قابل ذكر ہے كہ (بعد والى آيات ميں مذكور) ''خشعت الا صوات للرحمان'' قرينہ ہے كہ خداتعالى كى عظمت كے احساس اور اسكى رحمت كى توقع نے مجرمين كو آوازيں ا نيچى ركھنے پر مجبور كيا _

۱۹۸

۲ _ برزخ ميں ٹھہرنے كى مدت كا اندازہ قيامت كے دن قرآن سے روگردانى كرنے والوں كى آپس ميں خفيہ گفتگو كا حصہ _

يتخفتون بينهم إن لبثتم

اپنے ٹھہرنے كى مدت كے بارے ميں مجرمين كا سوال _ اس قرينے كو مد نظر ركھتے ہوئے كہ دنيا ميں انكى عمر يں بہت مختلف تھيں _ موت كے بعد گزرنے والى مدت كے بارے ميں سوال ہے_

۳ _ مجرمين اور قرآن سے روگردانى كرنے والا ايك گروہ،قيامت كے دن برزخ ميں اپنے ٹھہرنے كى مدت كا اندازہ دس دن لگائے گا _إن لبثتم إلا عشرا

''لبث'' كا معنى ہے ٹھہرنا اور بعد والى آيت ميں مذكورہ ''يوماً''قرينہ ہے كہ ''عشراً'' سے مراددس دن ہيں يہ كلمہ اگر چہ صرف مو نث (جيسے ليالي) كيلئے استعمال ہوتا ہے ليكن اگر تميز محذوف ہو تو مذكر (جيسے ايام) كيلئے بھى استعمال ہوتاہے _

۴ _ موت سے روز قيامت تك كا فاصلہ،حاضرين قيامت كى نظر ميں بہت ہى كم اور معمولى فاصلہ ہے_

يتخفون بينهم إن لبثتم إلا عشرا

۵ _ قيامت ميں بھى بعض لوگوں كيلئے بعض حقائق مخفى رہيں گے _يتخفتون بينهم إن لبثتم إلا عشرا

جملہ ''يتخفتون'' بتاتا ہے كہ''إن لبثتم إلا عشراً'' كا محتوا مجرمين كى گفتگو كا محور تھا نہ يہ كہ اس پر ان كا اتفاق رائے ہو اور مختلف نظريات كا پيش كرنا ان ميں سے بعض كيلئے حقيقت كے مشخص نہ ہونے سے حكايت كرتا ہے_

عدد:دس كا عدد ۳عالم برزخ

اسكى مدت كا كم ہونا ۴; اسكى مدت ۲، ۳

قرآن مجيد:اس سے روگردانى كرنے والوں كى آخرى سرگوشياں ۱، ۲، ۳

قيامت:اس ميں حقائق كا مخفى رہنا ۵

گناہ گار لوگ:انكى اخروى سرگوشياں ۱

موت:اس كا قيامت تك كا فاصلہ ۴

۱۹۹

آیت ۱۰۴

( نَحْنُ أَعْلَمُ بِمَا يَقُولُونَ إِذْ يَقُولُ أَمْثَلُهُمْ طَرِيقَةً إِن لَّبِثْتُمْ إِلَّا يَوْماً )

ہم ان كى باتوں كو خوب جانتے ہيں جب ان كا سب ہے ہوشيار يہ كہہ رہا تھا كہ تم لوگ صرف ايك دن رہے ہو (۱۰۴)

۱ _ الله تعالى ،قيامت كے دن مجرمين كى برزخ ميں ان كے ٹھہرنے كى مدت كے بارے ميں ايك دوسرے كے ساتھ گفتگو كے بارے ميں سب سے زيادہ آگاہ ہے_إن لبثتم إلا عشراً نحن أعلم بما يقولون

''ما يقولون'' يعنى جو وہ كہتے ہيں او رممكن ہے اس سے مراد مجرمين كى طرف سے آپس ميں بولے گئے جملے ہوں اور ممكن ہے اس سے مراد وہ موضوع ہو كہ جسكے بارے ميں مجرمين اظہار نظر كرتے ہيں مذكورہ مطلب ميں پہلا احتمال مد نظر ركھا گيا ہے _

۲ _ خداتعالى سے كوئي چيز مخفى نہيں ہے _يتخفتون نحن أعلم بما يقولون

۳ _ خداتعالى برزخ ميں انسانوں كے ٹھہرنے كى مدت كے بارے ميں سب سے زيادہ آگاہ ہے _نحن أعلم بما يقولوں

''ما يقولون'' كے دو احتمالى معنوں ميں سے ايك كى بنياد پر اس سے مراد وہ موضوع ہے كہ جو روز قيامت مجرمين كى گفتگو كا محور ہوگا _

۴ _ روز قيامت سب سے زيادہ صحيح فكر والے مجرمين سب كيلئے برزخ ميں ٹھہرنے كى مدت كا اندازہ ايك دن لگائيں گے _

إذ يقول ا مثلهم طريقة إن لبثتم إلا يوما ''ا مثلهم طريقةً'' اس شخص كو كہا جاتا ہے جو افراد ميں سے سب سے زيادہ منصف اور حق پرستوں كے سب سے زيادہ مشابہ ہو اور جو كچھ كہتا ہو زيادہ اطمينان سے كہتا ہو (قاموس) _

۵ _ برزخ كى تھوڑى سى مدت كاايك دن يا اس سے زيادہ اندازہ لگانا،ايك نادرست اور حقيقت سے دور انداز ہ ہے

نحن أعلم إذ يقول إلا يوما ''إذ'' ،''أعلم'' كيلئے ظرف ہے اور اس سے مراد يہ ہے كہ صحيح ترين فكروالے مجرمين كى طرف سے اظہار رائے كى صورت ميں بھى خداتعالى سب سے زيادہ آگاہ ہے_ اور يہ چيز كنايہ ہے كہ ان ميں

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750