تفسير راہنما جلد ۱۱

تفسير راہنما 0%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 750

تفسير راہنما

مؤلف: آيت الله ہاشمى رفسنجاني
زمرہ جات:

صفحے: 750
مشاہدے: 206029
ڈاؤنلوڈ: 2855


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4 جلد 5 جلد 6 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 750 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 206029 / ڈاؤنلوڈ: 2855
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد 11

مؤلف:
اردو

ہے_و قل رب زدنى علما

۲۷ _ دعا ميں ''رب'' كے نام كو ذكر كرنا دعا كے آداب ميں سے ہے _و قل رب زدنى علما

آفرينش :اس كا حاكم ۲، ۵; اس كا تحت قانون ہونا ۴; اس كا مالك ۲، ۵; اس كا نظام ۸

اسما و صفات:صفات جلال۳

انبيا(ع) :ان كے علم كا دائرہ ۲۲; انكى تربيت كرنے والا۲۱; انكا معلم ۲۱

خداتعالى :اسكى ربوبيت كے اثرات ۱۹; اسكى خصوصيات ۶; اس كا بے نظير ہونا ۱; اسكى تعليمات ۲۱; اسكى نصيحتيں ۱۲، ۱۷; اسكى حاكميت كا دائمى ہونا ۵; اسكى مالكيت كا دائمى ہونا ۵; اسكى حكمراني۲; اسكى حكمرانى كى حقانيت ۷; اسكى حكومت كى حقانيت ۶; اسكى حقانيت ۳; اسكى حكمت۴; يہ اور باطل۳; اسكى ربوبيت ۲۱; اس كا علو ۱; اس كا كمال ۱; اسكى مالكيت ۲; اسكى حاكميت كى نشانياں ۷، ۸; اسكے علو كى نشانياں ۷، ۸; اسكے علم كى وسعت ۲۲

دعا:اسكے آداب ۷; علم ميں اضافے كى دعا ۱۷، ۲۶

ذكر:ربوبيت خدا كا ذكر ۲۷

عجلت:اسكے اثرات ۲۵

محبت:حفظ قرآن كى محبت ۱۱

علم:اسكى آفات ۲۵; اس كا زيادہ ہونا ۱۸; اس كا سرچشمہ ۱۹; اسكى وسعت ۱۸; اسكى خصوصيات ۱۸

قرآن كريم:اس ميں عجلت كرنے سے اجتناب كرنا ۲۳; اسكے حفظ كى اہميت ۱۱; اسكے نزول كى اہميت ۷; اسكے نزول ميں عجلت كرنا ۹; اسكے نزول كا متعدد ہونا۱۶; اس كا علم ہونا ۲۰; اس كا تدريجى نزول ۱۴; اس كا وحى ہونا ۱۳; اسكى خصوصيات ۱۳ظقيامت:اس كا كردار ۸

محمد(ص) :آپ(ص) كے علم كا زيادہ ہونا ۲۲; آپكى تلاوت قرآن ۱۰، ۱۲; آپ كو نصيحت ۱۲، ۱۷; آپ(ص) كے مطالبے ۹; آپكے علم كے زيادہ ہونے كا پيش خيمہ ۲۳; آپ كى عجلت ۱۰، ۱۲; آپكى محبت ۱۱; آپ كا علم ۱۵، ۲۴; آپ(ص) اور قرآن ۱۵; آپ كا معلم ۲۳; آپكى نعمتيں ۲۴; آپكى طرف وحى ۱۰

نعمت:يہ جنكے شامل حال ہے ۲۴; علم كى نعمت ۱۹

۲۲۱

آیت ۱۱۵

( وَلَقَدْ عَهِدْنَا إِلَى آدَمَ مِن قَبْلُ فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْماً )

اور ہم نے آدم سے اس سے پہلے عہد ليا مگر انھوں نے اسے ترك كرديا اور ہم نے ان كے پاس عزم و ثبات نہيں پايا (۱۱۵)

۱ _ قرآن خداتعالى كے وعدوں اور نصيحتوں پر مشتمل ہے_و كذلك ا نزلنه لعلهم و لقد عهدنا إلي ء ادم من قبل ''عہد'' يعنى نصيحت (قاموس) اور ''و لقد عہدنا'' ميں ''واو'' نے حضرت آدم (ع) كى داستان كا اس سے پہلے والے مطالب (و كذلك ا نزلناہ) پر عطف كيا ہے خداتعالى كے حضرت آدم كے ساتھ عہد كا قرآن كے نازل كرنے كے ساتھ ارتباط اس بات كو بيان كررہا ہے كہ قرآن لوگوں كو خداتعالى كى نصيحتيں سكھانے كيلئے ہے_

۲ _ خداتعالى نے انسان كى خلقت كے آغاز ميں اور نزول قرآن كے زمانے سے پہلے ابوالبشر آدم(ع) كے سامنے خواہش اور نصيحت ركھى تھى _و كذلك ا نزلناه و لقد عهدنا إلى ء ادم من قبل

گذشتہ آيت قرينہ ہے كہ كلمہ ''قبل'' كا مضاف اليہ قرآن كے نزول كا زمانہ ہے اور ممكن ہے اس سے مراد ان واقعات سے قبل ہو جن كا تذكرہ اس سورت كے آغاز سے ہى كيا گيا ہے اور خداتعالى نے حضرت آدم كے ساتھ جو عہد كيا تھا اس سے مراد _ جيسا كہ حضرت آدم كے قصے كى ديگر آيات سے استفادہ ہوتا ہے_ ممنوعہ درخت سے نہ كھانا تھا _

۳ _ حضرت آدم(ع) نے خداتعالى كى نصيحت پر عمل نہ كيا _و لقد عهدنا إلى ء ادم من قبل فنسي

حضرت آدم(ع) كے ساتھ شيطان كى گفتگو (ما نہاكما ربكما اعراف ۲۰) قرينہ ہے كہ نسيان سے مراد حقيقى فراموشى نہيں تھى بلكہ اس كا لازمہ (ترك عمل) تھي_

۴ _ حضرت آدم(ع) ميں خداتعالى كى نصيحت پر كاربند ہونے كيلئے لازمى عزم و ارادہ نہيں تھا _و لقد عهدنا إلى ء ادم فنسى و لم نجد له عزما

۵ _ خداتعالى كى نصيحتوں پر عمل كرنے كيلئے سنجيدہ عزم

۲۲۲

اور تصميم قابل قدر عادت ہے _و لقد عهدنا إلى ء ادم فنسى و لم نجد له عزما

''نہيں تھا'' كى بجائے ''ہم نے نہيں پايا'' كى تعبير اس بات كو بيان كرر ہى ہے كہ ايسے موارد ميں عزم كا وجود مطلوب اور متوقع ہے_

۶ _ خداتعالى كى نصيحتوں پر عمل كرنے كيلئے سنجيدہ عزم و تصميم انسان كے بارگاہ خداوندى ميں قابل قدر ہونے كا سبب ہے _و لم نجد له عزم ''لم نجد'' ميں فاعلى ضمير دلالت كرتى ہے كہ حضرت آدم (ع) ميں عزم كا وجود خداتعالى كو مطلوب تھا اور اس كا نہ ہونا خلاف توقع تھا_

۷ _'' عن ا ب جعفر(ع) قال:إن الله تبارك و تعالى عهد إلى ء ادم (ع) ا ن لا يقرب الشجرة نسى فا كل منها وهو قول الله تبارك و تعالى :''و لقد عهدنا إلى ء ادم من قبل فنسى و لم نجد له عزماً'' ; امام باقر(ع) سے روايت كى گئي ہے كہ خداتعالى نے حضرت آدم(ع) كو حكم ديا تھا كہ اس درخت كے نزديك نہ جائيں انہوں نے وہ حكم فراموش كرديا اور اس درخت سے كھا ليا اور يہى مراد ہے خداتعالى كے فرمان''ولقد عهدنا '' سے_(۱)

آدم(ع) :انكو نصيحت ۲، ۷; انكى نافرمانى ۴; انكى عہدشكنى ۳، ۷; انكى فراموشى ۷; انكا قصہ ۲، ۳، ۴

اخلاق:اخلاقى فضائل ۵

اقدار:انكا معيار ۶

خداتعالى :اسكى نصيحتوں پر عمل كے اثرات ۶; اسكے عہد پر عمل كى تصميم ۵; اسكى نصيحتيں ۱، ۲، ۷; اسكى نصيحتوں پر عمل ۴; اس كا عہد۱; اسكے ساتھ عہد شكنى ۳، ۷

روايت :۷

قرآن كريم:اسكى تعليمات ۱

____________________

۱ ) كمال الدين صدوق ص ۲۱۳ ب ۲۲ ح ۲ نورالثقلين ج۳ ص ۳۹۹ ح ۱۴۷_

۲۲۳

آیت ۱۱۶

( وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ أَبَى )

اور جب ہم نے ملائكہ سے كہا كہ تم سب آدم كے لئے سجدہ كرو تو ابليس كے علاوہ سب نے سجدہ كرليا اور اس نے انكار كرديا (۱۱۶)

۱ _ فرشتوں كے حضرت آدم(ع) كے سامنے سجدہ كرنے اور ابليس كے سجدہ نہ كرنے كى داستان قابل توجہ اور سبق آموز ہے_و إذ قلنا للملئكة اسجدو ''إذ'' فعل محذوف كا مفعول ہے اور اس جيسى آيات كے قرينے سے وہ فعل ''اذكر'' (ياد كرو اور خاطر ميں ركھو)ہے_

۲ _ خداتعالى كے حكم سے فرشتے حضرت آدم(ع) كيلئے سجدہ كرنے اور ان كے سامنے خاضع ہونے پر مامور ہوئے

و إذ قلنا للملئكة اسجدوا لا دم

۳ _ سب فرشتوں نے حضرت آدم(ع) كيلئے سجدے كے حكم كے سامنے سر تسليم خم كيا او ربلاتوقف ان كے سامنے سجدہ ميں گر گئے_فسجدو حرف ''فائ'' سجدے والے حكم اور اسكے انجام كے درميان فاصلہ نہ ہونے پر دلالت كرتا ہے_

۴ _ فرشتوں كى طرح ابليس بھى حضرت آدم(ع) كے سامنے سجدہ كرنے پر مأمور تھا _للملئكة اسجدوا لا دم فسجدوا إلا إبليس

۵ _ ابليس نے حضرت آدم(ع) كے سامنے سجدہ كرنے كے سلسلے ميں حكم خداوندى كى نافرمانى كى _فسجدوا إلا إبليس ا بى

۶ _ ابليس خدا كى اطاعت يا معصيت پر مجبور نہيں تھا _فسجدوا لا دم إلا إبليس ا بى

۷ _ فرشتوں اور ابليس كى خلقت انسان كى خلقت پر مقدم تھى _للملئكة اسجدوا إلا إبليس ا بى

۲۲۴

۸ _ حضرت آدم(ع) كا مقام اور مرتبہ فرشتوں سے برتر تھا _و إذ قلنا للملئكة اسجدوا لا دم

۹ _ انسان اپنى وسيع استعداد اور ذاتى صلاحتيوں كى وجہ سے فرشتوں سے برتر ہے _للملئكة اسجدوا لأدم

۱۰ _ كسى دوسرى چيز كے سامنے سجدہ خداتعالى كے حكم سے اور اسكى اطاعت كرتے ہوئے جائز ہے اور اس شے كى پرستش كى علامت نہيں ہے_و إذ قلنا للملئكة اسجدوا لأدم

آدم(ع) :انكى فرشتوں پر برترى ۵; ان كے قصے سے عبرت حاصل كرنا ۱; انكا قصہ ۳، ۴، ۸; انكا مقام و مرتبہ ۵

ابليس:اس كا اختيار۹; اسكى خلقت كى تاريخ ۱۰; اسكى شرعى ذمہ دارى ۸; اسكى نافرمانى ۱، ۴

احكام: ۷

اطاعت:خدا كى اطاعت ۷

انسان:اسكى استعداد ۶; فرشتوں پر اسكى برترى ۶; اسكى خلقت كى تاريخ ۱۰; اسكے فضائل ۶

جبر و اختيار: ۹

خداتعالى :اسكے اوامر ۲، ۷

ذكر:آدم كے قصے كا ذكر ۱

سجدہ:اسكے احكام ۷; غير خدا كو سجدے كا جواز ۷; آدم(ع) كے سامنے سجدہ ۲، ۳، ۸; آدم(ع) كے سامنے سجدے كو ترك كرنا ۴

عبرت:اسكے عوامل ۱

نافرماني:خدا كى نافرمانى ۴

فرشتے:انكى استعداد ۶; انكا مطيع ہونا ۳; انكى خلقت كى تاريخ ۱۰; انكى شرعى ذمہ دارى ۲، ۸; انكا سجدہ ۳; انكا آدم(ع) كے سامنے سجدہ ۱; انكے فضائل ۶; انكا مقام و مرتبہ ۵

۲۲۵

آیت ۱۱۷

( فَقُلْنَا يَا آدَمُ إِنَّ هَذَا عَدُوٌّ لَّكَ وَلِزَوْجِكَ فَلَا يُخْرِجَنَّكُمَا مِنَ الْجَنَّةِ فَتَشْقَى )

تو ہم نے كہا كہ آدم يہ تمھارا اور تمھارى زوجہ كا دشمن ہے كہيں تمھيں جنّت سے نكال نہ دے كہ تم زحمت ميں پڑجاؤ (۱۱۷)

۱ _حضرت آدم(ع) اور ان كى بيوى حوا ،بہشت ميں رہائش پذير تھے _فقلنا فلا يخرجنكما من الجنة

''جنة''كا معنى باغ ہے اور قرآن ميں عام طورپر''الجنة'' بہشت كے معنى ميں استعمال ہوا ہے قابل ذكر ہے كہ آدم و حوا كا اپنى بہشت سے نكلنا اس بات كى علامت ہے كہ وہ بہشت موعود كے علاوہ تھى _

۲ _ ابليس،آدم(ع) و حوا(ع) كو بہشت سے نكالنے كيلئے كمين لگائے ہوئے تھا _إن هذا عدولك و لزوجك فلا يخرجنكم

۳ _ خداتعالى نے حضرت آدم(ع) كو ابليس كى ان كے ساتھ اور انكى بيوى كے ساتھ دشمنى سے آگاہ كيا_

اسجدوا ا بى فقلنا ى أدم إن هذا عدولك و لزوجك

۴ _ ابليس كا حضرت آدم(ع) كے سامنے سجدہ كرنے سے انكار اسكى حضرت آدم(ع) اور ديگر انسانوں كے ساتھ دشمنى كى علامت ہے _إلا إبليس ا بى فقلنا ى أدم إن هذا عدولك و لزوجك

سجدے سے انكار كے بعد ابليس كو آدم(ع) و حوا(ع) كے دشمن كے طور پر متعارف كرانا اس بات كا غماز ہے كہ ترك سجدہ اس دشمنى كى علامت تھى اور اس كا حوا كا دشمن ہونا اس بات پر دلالت كر رہا ہے كہ حضرت آدم(ع) كے سامنے سجدے والے ماجرا كے بعد ابليس پورى نوع انسانيت كا دشمن ہوگيا تھا_

۵ _ بہشت جو آدم و حوا كى رہائش گاہ تھى وہ ايسى جگہ تھى جو آرام و آسائش كيلئے تيار كى گئي تھى اور وہ ہر قسم كى سختى و مشقت سے دور تھي_فلا يخرجنكما من الجنة فتشقى

۶ _ خداتعالى نے حضرت آدم(ع) كى بہشت سے باہر والى زندگى كو سخت اور رنج آور زندگى قرار ديا اور انہيں اس ميں مبتلا ہونے سے ڈرايا _فلا يخرجنكما من الجنةفتشقى

''شقاوة'' كا معنى ہے سختى اور تنگى (قاموس) بعد والى آيات ميں ان سختيوں كے بعض نمونے تلويحاً بيان كئے گئے ہيں _

۷ _ خداتعالى نے آدم(ع) و حوا(ع) كو انكے ساتھ شيطان كى دشمنى كے سلسلے ميں اس لئے خبردار كيا تا كہ وہ رنج و الم اور سختى ميں گرفتار نہ ہوں _فلايخرجنكما من الجنة فتشقى

۲۲۶

۸ _ ابليس انسان كا دشمن اور بدخواہ ہے اور اسے نعمات الہى سے محروم كرنے اور رنج و الم ميں گرفتار كرنے كے در پے ہےإن هذا عدولك و لزوجك فتشقى

ابليس كى حوا(ع) كے ساتھ دشمنى اس بات كو بيان كر رہى ہے كہ وہ سب انسانوں كا دشمن ہے_

۹ _ آدم (ع) و حوا(ع) اپنى رہائش والى بہشت ميں بھى بعض شرعى ذمہ داريوں كے انجام دينے كے پابند تھے_

فلا يخرجنكم اگر چہ''فلا يخرجنّ'' ابليس كو نہى ہے ليكن اسكے ساتھ آدم و حوا كو مخاطب كرنے كا مطلب يہ ہے كہ يہ ان دو كو شيطان كے القائات سے متاثر ہونے سے نہى ہے_

۱۰ _حوا(ع) اپنى رہائش كى بہشت ميں حضرت آدم(ع) كى بيوى اور انكى سرپرستى ميں تھيں _عدولك و لزوجك فلا يخرجنكم خداتعالى نے حوا(ع) سے متعلق ہدايات حضرت آدم(ع) كے سامنے ركھيں اور حضرت آدم(ع) كو حكم ديا كہ وہ دونوں بہشت سے نكلنے كے اسباب فراہم كرنے سے پرہيز كريں اس طرح كے خطاب كو آدم(ع) كى سرپرستى كى نشانى قرار ديا جاسكتا ہے_

۱۱ _ خداتعالى كے نزديك حضرت آدم(ع) حوا(ع) سے بلند مرتبہ ركھتے تھے_عدولك و لزوجك

اگر چہ بہشت كے ماجرا ميں جناب حوا(ع) حضرت آدم(ع) كے ساتھ انجام ميں شريك تھيں ليكن خداتعالى نے صرف حضرت آدم(ع) كو مخاطب كيا يہ خصوصيت حضرت آدم(ع) كى برترى كى علامت ہے_

۱۲ _ خداتعالى كى حضرت آدم(ع) كے ساتھ بلاواسطہ گفتگو_فقلنا يا ء ادم

۱۳ _ آدم (ع) اور انكى بيوى حوا(ع) خداتعالى كے يہاں بلند مقام ركھتے تھے_اسجدوا لأدم إن هذا عدولك و لزوجك آدم(ع) كے سامنے سجدہ كا حكم كہ جو گذشتہ آيت ميں ذكر كيا گيا ہے_ اور خداتعالى كا حضرت آدم(ع) كو ابليس كى ان كے ساتھ اور حوا(ع) كے ساتھ دشمنى كے بارے ميں خبردار كرنا ان دونوں كے خدا كے نزديك بلند مرتبہ ہونے كى علامت ہے _

۱۴ _ عورت اور مرد دونوں شيطان كے وسوسوں كے شكار ہونے كے خطرے سے دوچار ہيں _فلايخرجنكم

۱۵ _ شوہروں كيلئے ضرورى ہے كہ وہ اپنى بيويوں كے رنج و الم اور سختيوں كو دور كرنے كيلئے كوشش كريں _

فلا يخرجنكما من الجنة فتشقى

۲۲۷

اس بات كو مد نظر ركھتے ہوئے كہ شيطان كى آدم(ع) و حوا(ع) كے ساتھ دشمنى ايك جيسى تھى اور وہ اس بات كے درپے تھا كہ دونوں كو بہشت سے نكال كر انہيں مشقت ميں ڈالے ليكن اسكے باوجود فعل ''تشقى '' مفرد آيا ہے اس كا مطلب يہ ہے كہ حوا(ع) كى سختيوں اور رنج و الم كو دور كرنا بھى حضرت آدم(ع) كى ذمہ دارى تھي_

۱۶ _''حسين بن ميسر قال:سا لت ا با عبد الله (ع) عن جنّة آدم فقال: جنة من جنات الدنيا تطلع فيها الشمس والقمر و لو كانت من جنان الآخره ما خرج منها أبداً'' حسين بن ميسر كہتے ہيں ميں نے امام صادق(ع) سے حضرت آدم(ع) كى بہشت كے بارے ميں سوال كيا تو آپ(ع) نے فرمايا وہ دنيا كے باغوں ميں سے ايك باغ تھا كہ جس پر آفتاب و مہتاب طلوع كرتے تھے اور اگر وہ آخرت كا باغ ہوتا تو ہرگزوہ اس سے خارج نہ ہوتے_(۱)

آدم(ع) :انكى بہشت ميں آسائس۵; انكا انذار ۶; انكى حوا پر برترى ۱۱; بہشت ميں انكى شرعى ذمہ دارى ۹; انكى بہشت كى حقيقت ۱۶; ان كے دشمن ۲، ۳، ۴، ۷; زمين ميں انكى زندگى كى سختى ۶; بہشت ميں انكى رہائش۱; بہشت سے ان كے اخراج كے عوامل ۲; ان كے فضائل ۱۱، ۱۳; ان كے انذار كا فلسفہ ۷; ان كا قصہ ۱، ۴، ۵، ۷، ۹، ۱۰; ان كى مشكلات ۷; انكى بہشت كى خصوصيات ۵، ۹، ۱۰; انكى بيوى ۱۰

ابليس:اس كا دھوكہ دينا ۲، ۸; اسكى دشمنى ۲، ۳، ۷، ۸; اسكى نافرمانى ۴; اسكى دشمنى كى علامتيں ۴

انسان:اسكے دشمن ۴، ۸/حوا(ع) :انكى كفالت كرنا ۱۰; بہشت ميں انكى شرعى ذمہ دارى ۹; ان كے دشمن ۲، ۳، ۷; بہشت ميں انكى رہائش ۱; ان كے فضائل ۱۱، ۱۳; ان كے انذار كا فلسفہ ۷; انكى مشكلات۷

فيملي:اسكى مشكلات كو دور كرنے كا ذمہ دار ۱۵

خداتعالى :اس كا انذار ۶; اسكے انذار كا فلسفہ ۷; اسكى آدم(ع) كے ساتھ گفتگو ۱۲

روايت :۱۶/عورت:اسكے دھوكہ كھانے كا پيش خيمہ ۱۴

سجدہ:آدم (ع) كے سامنے سجدہ ترك كرنا ۴/شوہر:اسكى ذمہ دارى ۱۵

شيطان:اسكے وسوسوں كا خطرہ ۱۴/مرد:اسكے دھوكہ كھانے كا پيش خيمہ ۱۴

مشكلات:ان كا پيش خيمہ ۸/نعمت:اس سے محروميت كے عوامل ۸

____________________

۱ ) كافى ج۳ ص ۲۴۷ ح۲ نورالثقلين ج۱، ص ۶۲، ص ۱۱۷ و ۱۱۸_

۲۲۸

آیت ۱۱۸

( إِنَّ لَكَ أَلَّا تَجُوعَ فِيهَا وَلَا تَعْرَى )

بيشك يہاں جنت ميں تمھارا فائدہ يہ ہے كہ نہ بھوكے رہوگے اور نہ برہنہ رہوگے (۱۱۸)

۱ _ آدم(ع) كيلئے ان كى بہشت ميں خوراك اور لباس كا انتظام تھا _إن لك ا لّا تجوع فيها و لا تعرى

''إن لك ...'' كى تعبير خداتعالى كى جانب سے حضرت آدم(ع) كے ساتھ وعدہ ہے اور يہ بہشت كى خاصيت كا بيان نہيں ہے كيونكہ ممنوعہ درخت سے كھانا اسى بہشت ميں حضرت آدم(ع) كے عريان ہونے كا سبب بنا اور ''لاتعرى '' كا وعدہ ان كے حق ميں عملى نہ ہوا_

۱ _ آدم(ع) و حوا(ع) كو اپنى رہائش والى بہشت ميں لباس و خوراك كى ضرورت تھي_إن لك ا لّا تجوع فيها و لا تعرى

فعلوں كا حضرت آدم(ع) كے ساتھ مختص ہونا شايد اس لئے ہے كہ خداتعالى كى اصل گفتگو آدم(ع) كے ساتھ تھى اور دونوں كو مخاطب كرنے كى ضرورى نہيں تھي_ پس لباس اور خوراك كى جہت سے آدم(ع) كى طرح حوا كى ضرورت بھى پورى ہو رہى تھي_

۳ _ انسان كى آفرينش كے آغاز سے ہى لباس اور خوراك اسكى اصلى ضروريات ميں سے تھے_إن لك ا لّا تجوع فيها و لا تعرى

آدم(ع) :انكا لباس۲; انكى بہشت ميں لباس ۱; انكا كھانا ۲; انكى بہشت ميں كھانا ۱; انكا قصہ ۱، ۲; انكى مادى ضروريات ۲; انكى بہشت كى خصوصيات ۱، ۲

انسان:اسكى مادى ضروريات ۳

حوا(ع) :انكالباس۲;انكاكہانا۲;انكى مادى ضروريات ۲

ضروريات:لباس كى ضرورت ۲، ۳; كہاناكى ضرورت ۲، ۳

۲۲۹

آیت ۱۱۹

( وَأَنَّكَ لَا تَظْمَأُ فِيهَا وَلَا تَضْحَى )

اور يقينا يہاں نہ پيا سے رہوگے اور نہ دھوپ كھاؤ گے (۱۱۹)

۱ _ حضرت آدم (ع) اپنى بہشت ميں پياس اور دھوپ كى تپش سے محفوظ تھے _و ا نك لا تظمئوا فيها و لا تضحى

''لاتضحى '' يعنى آپ سورج كے روبرو قرار نہيں پائيں گے اور اسكى تپش آپ تك نہيں پہنچے گى (لسان العرب) يہ وصف ''جنة'' كے لغوى معنى كو مد نظر ركھتے ہوئے كہ جو درختوں سے ڈھكا ہوا باغ ہے_ آدم(ع) كى رہائش گاہ ميں كثير سايہ كے وجود كى طرف اشارہ ہے_

۲ _ آغاز خلقت سے پانى اور گھر انسان كى بنيادى ضروريات ميں سے ہيں _و ا نك لا تظمئوا فيها و لا تضحى

۳ _ بہشت سے باہر انسان كى بنيادى ضروريات (خوراك، لباس، پاني، گھر) كى فراہمى كا مشكل ہونا خداتعالى كى طرف سے حضرت آدم(ع) كو تنبيہ _فتشقى إن لك ا لا تجوع فيها و لا تعري و أنك لاتضحى

''ا نك'' كا عطف ''ا لّا تجوع'' پر ہے اور جملہ''إن لك '' ''فتشقى '' كى تفسير ہے بھوك، برہنگي، دھوپ اور پياس كى نفى ان سختيوں كى طرف اشارہ ہے كہ جنكا بہشت سے اخراج كى صورت ميں حضرت آدم(ع) كو سامنا ہوگا_

آدم(ع) :انكى بہشت ميں تشنگى ۱; انكا قصہ ۱; انكى بہشت ميں گرمي۱; انكى بہشت كى خصوصيات۱; انكو خبردار كرنا ۳

انسان:اسكى مادى ضروريات ۲

خداتعالى :اس كا خبردار كرنا ۳

ضروريات:دنيوى ضروريات كى فراہمى كا مشكل ہونا۳; پانى كى ضرورت۲; گھر كى ضرورت ۲

۲۳۰

آیت ۱۲۰

( فَوَسْوَسَ إِلَيْهِ الشَّيْطَانُ قَالَ يَا آدَمُ هَلْ أَدُلُّكَ عَلَى شَجَرَةِ الْخُلْدِ وَمُلْكٍ لَّا يَبْلَى )

پھر شيطان نے انھيں وسوسہ ميں مبتلا كرنا چاہا اور كہا كہ آدم ميں تمھيں ہميشگى كے درخت كى طرف رہنمائي كردوں اور ايسا ملك بتادوں جو كبھى زائل نہ ہو (۱۲۰)

۱ _ شيطان، ابليس كا دوسرا نام اور پہچان ہے_إلا إبليس إن هذا عدو فوسوس إليه الشيطان

''شيطان''،''شطن'' كے مادہ سے ليا گيا ہے كہ جس كا معنى ہے دورى يا لمبى رسى يہ اشتقاق ابليس كى رحمت خدا سے دورى يا لمبى خباثت كى طرف اشارہ ہے _

۲ _ شيطان انسانوں كے دلوں ميں وسوسے ڈالتا ہے_فوسوس إليه الشيطان

۳ _ شيطان بہشت ميں حضرت آدم(ع) كو وسوسے ميں ڈال كر انہيں بہشت سے نكلوانے كيلئے زمينہ ہموار كررہا تھا_

فلا يخرجنكما فوسوس إليه الشيطان

۴ _ شيطان، حضرت آدم(ع) كى بہشت ميں حاضر ہوا تھا _قال يا أدم

۵ _ شيطان كى حضرت آدم(ع) كے ساتھ بلاواسطہ گفتگو _قال يا أدم

۶ _ آدم (ع) كى ہميشگى درخت اور دائمى مملكت و سلطنت كى طرف رہنمائي شيطان كا آدم و حوا(ع) كو دھوكہ دينے اور انہيں ممنوعہ درخت كا پھل كھانے پر مجبور كرنے كيلئے جال _هل ا دلك على شجرة الخلد و ملك لا يبلى

''شجرة الخلد'' سے مراد وہ درخت ہے كہ جسكے پھل كا كھانا دوام كا سبب ہو ''ملك'' كا معنى مال ہے اور سلطنت بھى ہے (قاموس) ''ملك لايبلى '' سے مراد وہ سلطنت اور حكمرانى ہے جسے كبھى زوال نہ ہو _

۷ _ خيرخواہيكا لبادہ، انسانوں كے دلوں ميں وسوسے ڈالنے اور انہيں دھوكہ دينے كيلئے شيطان كى روش ہے_

فوسوس إليه الشيطان فقال هل ا دلك

۸ _ انسان دائمى زندگى اور فنا نہ ہونے والے ملك اور مالكيت كا خواہاں ہے_هل ا دلك على شجرة الخلد و ملك لايبلى شيطان نے حضرت آدم(ع) كے سلسلے ميں اپنے وسوسوں كو مؤثر بنانے كيلئے ان چيزوں سے استفادہ كيا جو آدم(ع) ميں موجود تھيں وہ چيزيں ہميشہ رہنے اور فنا نہ ہونے والى مالكيت كى طرف تمايل ہے_

۲۳۱

۹ _ حضرت آدم(ع) كو بہشت ميں اپنى دائمى رہائش كا اطمينان نہيں تھا_إن لك ا لّاتجوع هل ا دلك على شجرة الخلد خداتعالى نے حضرت آدم(ع) كو خوراك، لباس، پانى اور رہائش جيسى ضروريات پورى ہونے كى خبر دى تھى ليكن گويا حضرت آدم(ع) كو ان نعمتوں كى ضمانت كے باوجود اس بہشت ميں اپنے ہميشہ رہنے كا اطمينان نہ تھا اسى وجہ سے شيطان كا وسوسہ ان پر اثر كرگيا _

۱۰ _ شيطان ،انسان كى خواہشات اور آرزؤں سے آگاہ ہے _هل ا دلك على شجرة الخلد و ملك لايبلى

۱۱ _ شيطان انسان كو دھوكہ دينے اور اس كے دل ميں وسوسہ ڈالنے كيلئے اسكى ضروريات اور خواہشات سے استفادہ كرتا ہے_هل ا دلك على شجرة الخلد و ملك لا يبلى

۱۲ _ شيطان اپنے اہداف كى خاطر حقائق كو الٹا كر كے دكھا تا ہے _فلايخرجنكما هل ا دلك على شجرة الخلد

۱۳ _ شيطان انسان كو اپنى خواہشات كے مطابق مجبور نہيں كرسكتا_فوسوس هل ا دلك

۱۴ _ حضرت آدم(ع) بہشت كى بعض درختوں كى خاصيات سے بے خبر تھے _هل ا دلك على شجرة الخلد و ملك لايبلى

آدم(ع) :آپ(ع) اور ممنوعہ درخت۶; انكى بہشت ميں دوام ۹; بہشت سے ان كے اخراج كا پيش خيمہ ۳; انكى بہشت ميں شيطان ۴; انكى بہشت كے پھلوں كے فوائد ۱۴; انكا قصہ ۵، ۶، ۹; ۱۴; ان كے علم كا دائرہ ۱۴; انكا وسوسہ ۳

ابليس:اسكى شيطنت۱; اسكے نام ۱

انسان:اسكى آرزوئيں ۱۰; اس كا اختيار۱۳; اسكى خواہشات ۸، ۱۰; اسكے وسوسے كا پيش خيمہ ۱۱; اسكى ضروريات ۱۱; اس كا وسوسہ ۷

حكومت:

۲۳۲

دائمى حكومت تك پہنچانا ۶; دائمى حكومت كى در خواست ۸

درخت:دائمى درخت تك پہچانا ۶

زندگي:دائمى زندگى كى درخواست ۸

شيطان:اسكى طرف سے خيرخواہى كا تظاہر۷; اسكے دھوكے كى روش ۶، ۱۱، ۱۲; اسكے وسوسوں كى روش۷; اس كا علم ۱۰; اسكى آدم(ع) كے ساتھ گفتگو۵; اس كا نقش و كردار ۱۳; اسكے وسوسے ۲، ۳; اسكى خصوصيات ۲

مالكيت:دائمى مالكيت تك پہنچانا ۶; دائمى مالكيت كى درخواست ۸

ممنوعہ درخت:اس سے كھانے كا پيش خيمہ ۶

آیت ۱۲۱

( فَأَكَلَا مِنْهَا فَبَدَتْ لَهُمَا سَوْآتُهُمَا وَطَفِقَا يَخْصِفَانِ عَلَيْهِمَا مِن وَرَقِ الْجَنَّةِ وَعَصَى آدَمُ رَبَّهُ فَغَوَى )

تو ان دونوں نے درخت سے كھاليا اور ان كے لئے ان كا آگا پيچھا ظاہر ہوگيا اور وہ اسے جنّت كے پتوں سے چھپانے لگے اور آدم نے اپنے پروردگار كى نصيحت پر عمل نہ كيا تو راحت كے راستہ سے بے راہ ہوگئے (۱۲۱)

۱ _ آدم(ع) و حوا(ع) نے شيطان كے وسوسے ميں آكر ممنوعہ درخت سے كھاليا _فوسوس إليه الشيطان فأكلا منه

۲ _ ممنوعہ درخت سے كھانے كے واقع ميں جناب حوا(ع) اپنے شوہر آدم(ع) كى تصميم كے مطابق عمل كررہى تھيں _فوسوس إليه الشيطان فأكلا منه آدم(ع) كا ممنوعہ درخت سے كھانا شيطان كے وسوسوں سے متأثر ہونے كى وجہ سے تھا ليكن حوا(ع) ايسے نہيں تھيں (فوسوس إليہ الشيطان) ممكن ہے حوا(ع) كے اقدام كا سرچشمہ يہ ہو كہ وہ آدم(ع) كے عمل سے متأثر تھيں _

۳ _ آدم(ع) كے خلود، دوام اور لا زوال ملك كى طرف تمايل اور اسكى طمع نے انہيں اور انكى بيوى كو ممنوعہ درخت سے كھانے پر مجبور كيا _

هل ا دلك على شجرة الخلد فأكلا منه

۴ _ آدم (ع) و حوا(ع) باوجود اسكے كہ خداتعالى نے انہيں شيطان كى ان كےساتھ دشمنى كے بارے ميں شدت سے خبردار كيا تھا شيطان كى باتوں سے متأثر ہوگئے_إن هذا عدولك و لزوجك فأكلا منه

۲۳۳

۵ _ آدم(ع) كا شيطان كے وسوسے سے متأثر ہونا اور ممنوعہ درخت سے كھانا ان كے عہد الہى كو فراموش كرنے كا ايك نمونہ تھا_و لقد عهدنا فنسى فأكلا منه آدم(ع) و حوا(ع) كى داستان، ان كے ممنوعہ درخت سے كھانے اور اسكے نتائج كا بيان يہ سب اس مجموعہ كى پہلى آيت كى وضاحت ہے اور عہد الہى كے سلسلے ميں حضرت آدم(ع) كى فراموشى اور ان ميں سنجيدہ عزم كے نہ ہونے كا بيان ہے_

۶ _ خداتعالى كے فرامين اور عہد كى طرف متوجہ رہنا اور انہيں ہميشہ ياد ركھنا انسان كو شيطان كے وسوسوں ميں گرفتار ہونے سے بچاتا ہے_و لقد عهدنا فنسي فأكلا منه

۷ _ انسان دھو كہ كھانے والا ہے_فوسوس فأكلا منه

۸ _ ممنوعہ درخت سے كھانے سے پہلے آدم(ع) و حوا(ع) كى شرمگاہ خود ان سے پوشيدہ تھي_فأكلا منها فبدت لهما سوئ تهم ''سَوأة'' كا معنى ہے شرمگاہ (لسان العرب) اور ممكن ہے ''بدت لہما'' كا معنى يہ ہو كہ ہر ايك كى شرمگاہ دوسرے كيلئے آشكار ہوگئي اور ممكن ہے مراد يہ ہو كہ انكى شرمگاہ خود ان كيلئے آشكار ہوگئي دوسرے احتمال كى بنياد پر ممنوعہ درخت كا پھل كھانا سے پہلے ان كى شرمگاہ خود ان كيلئے بھى پوشيدہ تھي_

۹ _ ممنوعہ درخت سے كھانا آدم(ع) و حوا(ع) كى شرمگاہ كے آشكار ہونے اور ان كى عريانى كا سبب بنا _فأكلا منها فبدت لهما سو ئ تهم

۱۰ _ آدم(ع) و حوا(ع) كى نافرمانى ان كے خداتعالى كے اس وعدے سے محروميت كا سبب بنى كہ بہشت ميں ان كے لباس والى ضرورت پورى ہوگي_إن لك لاتعرى فبدت لهما سوئ تهم

۱۱ _ جھوٹ انسان كو دھوكہ دينے كيلئے شيطان كا ايك ہتھكنڈا _هل ا دلك على شجرة الخلد و ملك لا يبلى ...فبدت لهما سوئ تهم

۱۲ _ شرمگاہوں كے ظاہر ہونے كے بعد آدم(ع) و حوا(ع) انہيں درختوں كے پتوں سے چھپانے كى كوشش كررہے تھے_فبدت لهما سوئ تهما و طفقا يخصفان عليهما من ورق الجنة

''طفقا'' يعنى انہوں نے آغاز كيا اور ''خصف'' اگر ''على '' كے ساتھ متعدى ہو تو اس كا معنى ہوتا ہے چيزوں كو ملا كر سينا اور انہيں ايك جگہ پر ڈالنا يعنى آدم و حوا نے درختوں كے پتوں كو آپس ميں ملاكر اپنے اوپر ڈال ديا _

۲۳۴

۱۳ _ آدم(ع) و حوا(ع) اپنے آپ انسانى غريزے يا عادت كى وجہ سے حتى ايك دوسرے سے بھى اپنى شرم گاہ كو چھپانے كا پابندكئے ہوئے تھے_وطفقا يخصفان عليهما من ورق الجنة

۱۴ _ انسانى فطرت اپنى شرمگاہ كے ظاہر ہونے سے متنفر ہے اور اسے برا سمجھتى ہے_*و طفقا يخصفان عليهم

آدم(ع) و حوا(ع) كى خود كى ڈھانپنے كى كوشش برہنگى كو ناپسنديدہ شمار كرنے كى حكايت كرتى ہے_

۱۵ _ وہ بہشت كہ جس ميں آدم و حوا رہائش پذير تھے ايك مادى باغ اور مادہ كے آثار و خواص كى حامل تھي_يخصفان عليهما من ورق الجنة

۱۶ _ حضرت آدم(ع) نے ممنوعہ درخت سے كھا كر پروردگار كى معصيت كا ارتكاب كيا _فأكلا وعصى ء ادم ربه

۱۷ _ ممنوعہ درخت سے كھانے سے پہلے حضرت آدم(ع) كو خداتعالى كى جانب سے اسكى ممنوعيت كا حكم مل چكا تھا_

فأكلا منها و عصى ء ادم ربه ''عصيان'' اس صورت ميں ہوسكتا ہے جب خداتعالى كى جانب سے امر يا نہى صادر ہوچكا ہو بنابراين اگر چہ ان آيات ميں اس درخت كے ممنوع ہونے كى تصريح نہيں كى گئي ليكن عصيان كا ذكر كرنا اس درخت سے كھانے كے سلسلے ميں نہى كے صادر ہونے كا واضح گواہ ہے_

۱۸ _ خداتعالى كے اوامر و نواہى اور متنبہ كرنا سب ،انسان كے رشد و تكامل اور تربيت كيلئے ہے_ربّه

۱۹ _ حضرت آدم(ع) بہشت ميں دائمى زندگى اور ابدى حكومت كو حاصل نہ كرسكے اور اپنى خواہش كے سلسلے ميں ناكام رہے_هل ا دلك على شجرة الخلد فأكلا فعصى ء ادم ربه فغوى ''غوى '' يعنى ناكام ہوگيا اور راستے كو گم كر بيٹھا (مصباح) ابليس كے وسوسے قرينہ ہيں كہ آدم(ع) كى ناكامى اور گمراہى سے مراد ان كا شيطان كى طرف سے القاء كى گئي آرزؤں كو نہ پانا ہے_

۲۰ _پروردگار كى نافرمانى انسان كى ناكامى اور اسكے رشد وتكامل سے محروم رھنے كا سبب ہے _و عصى ء ادم ربه فغوى

۲۱ _ آدم(ع) خداتعالى كى نافرمانى اورممنوعہ درخت سے كھانے كے نتيجے ميں اپنى ترقى سے محروم رہے_فغوى ''غوى كا مصدر'' ''غي''ہے جوكہ ''رشد'' كى ضد ہے (مقاييس اللغة)

۲۲ _ ہر گناہ كے نتائج اس گناہ كا ارتكاب كرنے والے سب افراد كيلئے ايك جيسے نہيں ہوتے ہيں _فأكلا و عصى ء ادم ربه فغوى جناب حوا(ع) كى نافرمانى كا تذكرہ كرنا شايد اس وجہ سے ہو كہ اپنى نافرمانى ميں وہ خود اصل نہيں تھيں بلكہ انہوں نے اپنے شوہر كے عمل كو اپنے لئے نمونہ بنايا تھا لہذا انكى نافرمانى حضرت آدم(ع) كى نافرمانى كى حد تك نہيں تھي_

۲۳۵

۲۳ _ '' رب'' خداوند متعال كے اسماء و صفات ميں سے ہيں _و عصى ء ادم ربّه

۲۴ _'' عن ا بى عبدالله (ع) فى قوله: '' بدت لها سوا تهما'' قال: كانت سوا تهما لا تبدو لهما ; يعني، كانت داخلة; خداتعالى كے فرمان ''بدت لہما سوء تہما'' كے بارے ميں امام صادق(ع) سے روايت كى گئي ہے كہ اس سے پہلے ان دونوں (آدم و حوا) كى شرمگاہيں ان كيلئے آشكار نہيں تہيں كيونكہ انكى شرمگاہيں ( انكے بدن كى جلد كے) اندر تھيں(۱)

۲۵ _'' قال ا بو عبدالله (ع) : فلمّا ا سكن الله عزوجل آدم و زوجته الجنة قال لهما; '' و لا تقربا هذه الشجرة ...'' فلما ا كلا من الشجرة طار الحلى و الحلل عن اجسادهما و بقيا عريانين ; (ايك حديث ميں ) امام صادق(ع) سے روايت كى گئي ہے كہ آپ (ع) نے فرمايا جب خداتعالى نے آدم و حوا كو بہشت ميں جگہ دى تو انہيں فرمايا اس درخت كے نزديك نہ جانا اور انہوں نے جونہى اس درخت سے كھايا تو ان كے جسم سے زيور اور لباس اڑ گئے اور وہ عريان رہ گئے_(۲)

۲۶ _'' عن الرضا (ع) قال: كان ذلك من آدم قبل النبوة و لم يكن ذلك بذنب كبير استحق به دخول النار و إنما كان من الصغائر الموهوبة التى تجوز على الا نبياء قبل نزول الوحى عليهم ...; (خداتعالى كے فرمان)'' و عصى آدم ربہ فغوى '' كے بارے ميں امام رضا(ع) سے روايت كى گئي ہے كہ آپ(ع) نے فرمايا حضرت آدم(ع) كى يہ نافرمانى نبوت سے پہلے تھى اور يہ كوئي ايسا بڑا گناہ نہيں تھا كہ جسكى وجہ سے حضرت آدم(ع) آگ كے مستحق ہوتے بلكہ صغيرہ گناہوں ميں سے تھا كہ جو بخش ديا گيا اور وحى كے نازل ہونے سے پہلے يہ انبياء كيلئے ممكن ہے _(۳)

آدم (ع) :انكى طمع كے اثرات ۳; انكى نافرمانى كے اثرات ۱۰، ۲۱; آپ نبوت سے پہلے ۲۵; آپ اور ممنوعہ درخت ۱، ۲، ۵، ۸، ۹، ۱۷; آپكا دھوكے ميں آنا ۱، ۴، ۵; آپكى بہشت كے مادى وسائل ۱۵; آپكے تمايلات ۱۳; آپكى نافرمانى كا پيش خيمہ ۳; آپكى شرمگاہ كا چھپانا ۸، ۱۳، ۲۳; آپكى نافرمانى ۱، ۱۶; آپكى شرمگاہ كے ظاہر ہونے كے عوامل ۹، ۱۰; آپ كى محروميت كے عوامل ۱۰; آپكا غريزہ ۱۳; آپكى فراموشى ۵; آپكا فانى ہونا كو ۱۹; آپكا قصہ ۱، ۲، ۳، ۴، ۵، ۸، ۹، ۱۰، ۱۲، ۱۶، ۱۷، ۱۹، ۲۱، ۲۳، ۲۴; آپكى شرمگاہ كا ظاہر ہونا ۱۲، ۲۴; آپكا گناہ

____________________

۱ )تفسير قمى ج۱، ص ۲۲۵; نورالثقلين ج۲ ص ۱۵ ح ۴۱_ ۲ ) معانى الاخبار، ص ۱۰۹; ح ۱_ نورالثقلين ح۲، ص۱۲، ح ۳۵_

۳ ) عيون اخبارالرضا ج۱ ، ص ۱۹۵، ح۱_ نورالثقلين ج۳، ص ۴۰۳، ح۶۰_

۲۳۶

صغيرہ ۲۵; آپكى نافرمانى سے مراد ۲۵; آپكا نقش و كردار ۲; آپكى بہشت كى خصوصيات ۱۵; آپكو خبردار كرنا ۴

احكام:انكا فلسفہ ۱۸

انبياء (ع) :يہ نبوت سے پہلے ۲۵

انسان:اس كا دھوكے ميں آنا ۷; اسكى فطرت ۱۴; اسكى محروميت كے عوامل ۲۰

تربيت:اس ميں مؤثر عوامل ۱۸

تكامل:اسكے عوامل ۱۸; اسكے موانع ۲۰

حوا(ع) :انكى نافرمانى كے اثرات ۱۰; انكا دھوكے ميں آنا ۱، ۴; انكا آدم كى پيروى كرنا ۲; يہ اور ممنوعہ درخت ۱، ۲، ۸، ۹; انكى نافرمانى كا پيش خيمہ ۳; انكى شرمگاہ كا چھپانا ۸، ۱۳، ۲۳; انكى نافرمانى ۱; انكى شرمگاہ كے ظاہر ہونے كے عوامل ۹، ۱۰; انكى محروميت كے عوامل ۱۰; انكا غريزہ ۱۳; انكى شرمگاہ كا ظاہر كرنا ۱۲، ۲۴; انكو خبردار كرنا ۴

خداتعالى :اسكے عہد كى فراموشي۵; اسكے اوامر كا فلسفہ ۱۸; اسكے نواہى كا فلسفہ ۱۸;اسكے متنبہ كرنا كا فلسفہ ۱۸; اس كا متنبہ كرنا ۴

ممنوعہ درخت:اس سے كھانے كے اثرات ۹، ۱۶، ۲۱; اس سے كھانا ۱، ۲، ۵; اس سے كھانے كا پيش خيمہ ۳

جھوٹ:اسكے اثرات ۱۱

ذكر:عہد خدا كے ذكر كے اثرات ۶روايت: ۲۳، ۲۴، ۲۵

شخصيت:اسكى آسيب شناسى ۲۰

شيطان:اسكے فريب دينے كا آلہ ۱۱; اس كا جھوٹ بولنا ۱۱; اسكى دشمنى ۴; اسكے وسوسوں كى تاثير كے موانع ۶; اسكے وسوسے ۱، ۵

نافرماني:خدا كى نافرمانى كے اثرات ۲۰

شرمگاہ:اسے درخت كے پتوں سے چھپانا ۱۲; اسے ظاہر كرنے كاناپسند ہونا ۱۴

گمراہي:اسكے عوامل ۱۱

گناہ:اسكے اثرات ۲۲

گناہ گار لوگ:انكا تفاوت ۲۲

۲۳۷

آیت ۱۲۲

( ثُمَّ اجْتَبَاهُ رَبُّهُ فَتَابَ عَلَيْهِ وَهَدَى )

پھر خدا نے انھيں چن ليا اور انكى توبہ قبول كرلى اور انھيں راستہ پر لگاديا (۱۲۲)

۱ _ حضرت آدم(ع) نافرمانى اور ممنوعہ درخت سے كھانے كے بعد اپنے كئے سے پشيمان ہوئے اور بارگاہ خداوندى ميں توبہ كرنے لگے _ثم اجتبه ربه فتاب عليه ''اجتبي'' كے اصل مادہ ''جباية'' كا معنى ہے جمع كرنا اور حاصل كرنا اور ''اجتبائ'' كا معنى ہے ''اصطفائ'' (خالص چيز كو انتخاب كرنا) اور اختيار (لسان العرب) اس بناپر ''اجتباہ ربہ'' يعنى خداتعالى نے حضرت آدم(ع) كے ادھر ادھر كے تمايلات كو ختم كرديا اور سب كو اپنے لئے جمع كرليا اور انہيں اپنے لئے خالص كر ليا_ يہ تعبير حضرت آدم(ع) كے غير خدا سے مكمل طور پر منقطع ہونے اور انكى حقيقى توبہ سے حكايت كرتى ہے_

۲ _ خداتعالى نے حضرت آدم(ع) كے رشد و ترقى كيلئے ان كے غير الہى تمايلات كو ان سے دور كرديا اور انہيں اپنے لئے خالص كرليا _ثم اجتبه ربه فتاب عليه

۳ _ خداتعالى كى طرف سے حضرت آدم(ع) كو دوبارہ قبول كرنا اور انہيں چن لينا ممنوعہ درخت سے كھانے والى خطا سے كچھ مدت گزرنے كے بعد ہوا_ثم اجتبه ربه فتاب عليه

''ثم'' تراخى كيلئے ہے اور بتاتا ہے كہ اجتبائے الہى كہ جو آدم(ع) كو توبہ اور غير خدا سے منقطع ہونے كى توفيق دينا تھا_ كچھ دير سے انجام پايا _

۴ _ خداتعالى كى طرف سے حضرت آدم(ع) كو چننا اسكى ربوبيت كا ايك جلوہ ہے_ثم اجتبه ربه

۵ _ خداتعالى نے عطوفت اور مہربانى كى ساتھ حضرت آدم(ع) كى توبہ قبول كى اور انكا گناہ معاف كرديا _ثم اجتبه ربه فتاب عليه

''تاب'' يعنى لوٹ آيا اور حرف ''على '' كى وجہ سے اس ميں عطوفت و رحمت كا معنى تضمين كيا گيا ہے يعنى خداتعالى نے اس حالت ميں آدم(ع) كى

۲۳۸

طرف توجہ اور ان پر عنايت كى كہ وہ ان پر عطوف اور مہربان تھا_

۶ _ حضرت آدم(ع) كا غير خدا سے مكمل طور پر منقطع ہونے اور ان كى پورى توجہ كے خدا كى طرف مڑ جانے كى وجہ سے خداتعالى نے انہيں اپنى عنايات سے دوبارہ نوازا_اجتبه ربه فتاب عليه

حرف ''فا'' ''تاب عليہ '' كے اس سابقہ جملہ پر متفرع ہونے كو بيان كر رہا ہے كہ جو حضرت آدم(ع) كى تمام وابستگيوں اور تمايلات كے سمٹ كر خداتعالى كى طرف متوجہ ہونے پر دلالت كرتا ہے_

۷ _ حضرت آدم(ع) منتخب اور معاف ہونے كے بعد ہدايت الہى سے بھى بہرہ مند ہوئے_ثم اجتبه ربه فتاب عليه و هدى

۸ _ حضرت آدم(ع) نے گناہ كى بخشش كے بعد اپنے رشد و ترقى كى راہ كو پاليا_و هدى

گذشتہ آيت ميں آيا تھا كہ حضرت آدم(ع) نافرمانى اور عصيان كے بعد اپنے رشد و تكامل سے محروم رہ گئے (غوى ) اس آيت ميں فعل ''ہدى '' دلالت كررہا ہے كہ خداتعالى نے اس گمراہى كے آثار كو ختم كرديا اور انہيں كمال اور برگزيدگى كى راہ دكھا دى _

۹ _ حضرت آدم(ع) بارگاہ خداوندى ميں قابل قدر شخصيت كے مالك تھے_ثم اجتبه ربه فتاب عليه و هدى

۱۰ _ حضرت آدم(ع) كى توبہ كو قبول كرنا اور انہيں خدا كى طرف حركت كى رہنمائي كرنا ان كيلئے خداتعالى كى تربيت اور اسكى ربوبيت كا ايك جلوہ تھا_ثم اجتبه ربه فتاب عليه و هدى كلمہ ''ربہ'' كا فعل ''تاب'' اور ''ہدى '' كے ساتھ ارتباط مذكورہ مطلب كو بيان كررہا ہے اور ''اجتباہ ربہ'' قرينہ ہے كہ ہدايت سے مراد خداتعالى كى طرف ہدايت ہے _

آدم(ع) :ان كے منقطع ہونے كے اثرات ۶; انكى نافرمانى كے اثرات ۱; آپ اور ممنوعہ درخت ۱; انكى بخشش ۵،۸; انكا برگزيدہ ہونا ۲، ۳، ۴، ۷; انكى تربيت ۲، ۱۰; انكا تكامل ۲، ۸; انكى توبہ ۱; انكى پشيمانى كے عوامل ۱; انكے فضائل۹; انكى توبہ كى قبوليت ۳، ۵، ۱۰; انكا قصہ ۱، ۲، ۳، ۵، ۶، ۷، ۸; انكے اخلاص كا سرچشمہ ۲; انكى ہدايت ۷، ۸، ۱۰

خداتعالى :اسكے لطف و كرم كا پيش خيمہ ۶; اسكى مہربانى ۵; اسكى ربوبيت كى نشانياں ۴، ۱۰

ممنوعہ درخت:اس سے كھانے كے اثرات ۱

ہدايت يافتہ فوگ: ۷

۲۳۹

آیت ۱۲۳

( قَالَ اهْبِطَا مِنْهَا جَمِيعاً بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُم مِّنِّي هُدًى فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَايَ فَلَا يَضِلُّ وَلَا يَشْقَى )

اور حكم ديا كہ تم دونوں يہاں سے نيچے اتر جاؤ سب ايك دوسرے كے دشمن ہوں گے اس كے بعد اگر ميرى طرف ہے ہدايت آجائے تو جو ميرى ہدايت كى پيروى كرے گا وہ نہ گمراہ ہوگا اور نہ پريشان (۱۲۳)

۱ _ آدم(ع) و حوا(ع) نے ممنوعہ درخت سے كھا كر بہشت ميں رہنے كى صلاحيت ضائع كردي_فأكلا منهما قال اهبطا منه ''اہبطائ'' ممكن ہے آدم(ع) و حوا(ع) كو خطاب ہو اور ممكن ہے آدم اور ابليس كو خطاب ہو دوسرى صورت ميں چونكہ حو(ع) ا اپنى نافرمانى اور اس كے نتيجے ميں حضرت آدم كے تابع تھيں اسلئے مخاطب قرار نہيں پائيں _ دونوں صورتوں ميں مذكورہ مطلب حاصل ہوتا ہے_

۲ _ خداتعالى نے حضرت آدم(ع) كو دھوكہ دينے اور انہيں وسوسے ميں ڈالنے كى وجہ سے شيطان كو بہشت سے نكال ديا او راسے زمين پر آنے كا حكم ديا_فوسوس إليه الشيطان قال اهبطا منها جميع

مذكورہ مطلب اس بناپر ہے كہ ''اہبطا'' ميں مخاطب آدم(ع) اور شيطان ہوں _

۳ _ آدم(ع) و حوا(ع) بہشت ميں شيطان كے وسوسے پر عمل كرنے اور خداتعالى كے خبردار كرنے كى پروانہ كرنے كى وجہ سے اس بلند مقام سے نكال ديئےئے اور زمين پر اتر آئے _فأكلا منها و عصى ء ادم قال اهبطا منها جميع

''ہبوط'' يعنى ''نزول'' (مصباح) اور ''اہبطا'' كا حكم ايك حكم تكوينى ہے كيونكہ عام طور پر انسان كيلئے زمين پر ہبوط نہيں ہے_

۴ _ شيطان نے اپنے وسوسے اور فريب دہى كے ساتھ آدم(ع) و حوا(ع) كو بہشت سے نكالنے اور ان كے زمين پر ہبوط كے اسباب فراہم كئے _فوسوس إليه الشيطان قال اهبطا منه

۵ _ پروردگار كے حكم كى مخالفت اور نافرمانى انسان كے سقوط اور اسكے مقام كے تنزل كا سبب ہے_و عصى ء ادم قال اهبطا منه جملہ''ثم اجتباه '' اگر چہ ہبوط والے واقعے سے پہلے ذكر ہوا ہے ليكن ان آيات كى بنياد پر كہ جو سورہ بقرہ ميں گزرچكى ہيں حضرت آدم(ع) كى توبہ ہبوط كے بعد وقوع پذير ہوئي تھى اس بناپر جملہ قال ''اہبطا ...'' حضرت آدم(ع) كى نافرمانى كى سزا كا بيان ہے اور ''ثم اجتبہ ...'' جملہ معترضہ ہے_

۲۴۰