تفسير راہنما جلد ۱۱

تفسير راہنما 7%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 750

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 750 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 219110 / ڈاؤنلوڈ: 3020
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

حضرت امام جعفر صادق سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا :

'' لا جبرولا تفو یض ولکن أمر بین أمر ین، قال قُلتُ: و ما أمر بین أمر ین؟ قال مثل ذلک رجل رأ یته علیٰ معصية ٍ فنهیتهُ فلم ینته فتر کته ففعل تلک المعصية، فلیس حیثُ لم یقبل منک فتر کته کنت أنت الذّی أمر ته بالمعصية'' ( ۱ )

نہ جبرہے اور نہ تفو یض ، بلکہ ان دونوں کے درمیا ن ایک چیز ہے، راوی کہتا ہے : میں نے کہا : ان دونوں کے درمیا ن ایک چیز کیا ہے؟ فر مایا: اس کی مثال اس شخص کی سی ہے کہ جو گنا ہ کی حا لت میں ہو اور تم اسے منع کرو اور وہ قبول نہ کر ے اس کے بعد تم اسے اس کی حالت پر چھو ڑ دو اور وہ اس گناہ کو انجام دے ، پس چونکہ اس نے تمہا ری بات نہیں مانی اور تم نے اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا ، لہٰذا ایسا نہیں ہے کہ تم ہی نے اسے گناہ کی دعوت دی ہے۔

۲'' ما استطعت أن تلو م العبد علیه فهو منه و ما لم تستطع أن تلو م العبد علیه فهو من فعل ﷲ، یقول ﷲ للعبد: لم عصیت؟ لم فسقت؟لم شربت الخمر؟ لم ز نیت؟ فهذا فعل العبد ولا یقول له لم مر ضت؟ لم قصرت؟ لم ابیضضتَ؟ لم اسو ددت؟ لأنه من فعل ﷲ تعا لیٰ'' ( ۲ )

جس کام پر بندہ کو ملا مت و سر زنش کر سکو وہ اس کی طرف سے ہے اور جس کام پرملا مت وسر زنش نہ کرسکو وہ خدا کی طرف سے ہے، خدا اپنے بندوں سے فرما تا ہے : تم نے کیوں سر کشی کی ؟ کیوں نافرمانی کی ؟کیوں شراب پی؟ کیوں زنا کیا؟ کیو نکہ یہ بندے کا کام ہے ، خدا اپنے بندوں سے یہ نہیں پو چھتا : کیو ں مر یض ہوگئے ؟ کیوں تمہا را قد چھوٹاہے؟ کیوں سفید رنگ ہو؟ کیوں سیا ہ رو ہو؟ کیو نکہ یہ سارے امور خدا کے ہیں ۔

روایات کی تشریح

جبر وتفویض کے دوپہلو ہیں :

۱۔ ایک پہلو وہ ہے جو خدا اوراس کے صفا ت سے متعلق ہے۔

۲۔ دوسرا پہلووہ ہے جس کی انسان اوراس کے صفا ت کی طر ف بازگشت ہو تی ہے۔

'' جبر و تفویض'' میں سے جو کچھ خدا اوراس کے صفات سے مر بوط اور متعلق ہے ، اس بات کا سزا وار

____________________

(۱) کافی،ج، ۱، ص ۱۶۰ اور توحید صدو ق، ص ۳۶۲.(۲)بحار ج۵،ص۵۹ح۱۰۹

۱۸۱

ہے کہ اس کو خدا،اس کے انبیا ء اور ان کے اوصیا ء سے اخذ کر یں اور جو چیز انسا ن اوراس کے صفات اور افعال سے متعلق ہو تی ہے ، اسی حد کافی ہے کہ ہم کہیں : میں یہ کام کر وں گا ، میں وہ کام نہیں کرو ں گا تا کہ جانیں جو کچھ ہم انجام دیتے ہیں اپنے اختیا ر سے انجام دیتے ہیں ، گزشتہ بحثو ں میں بھی ہم نے یہ بھی جانا کہ انسا ن کی زندگی کی رفتا ر ذ رہ ، ایٹم، سیارات اور کہکشا نو ں نیز خدا کے حکم سے دیگر مسخرات کی رفتار سے حرکات اور نتا ئج میں یکساں نہیں ہے ،یہ ایک طرف ، دو سری طرف خدا وند سبحا ن نے انسا ن کوا س کے حال پر نہیں چھو ڑا اوراسے خود اس کے حوالے نہیں کیا تا کہ جو چا ہے ، جس طرح چاہے اور نفسیا نی خو اہشا ت جس کاحکم دیںاسی کو انجام دے ، بلکہ خدا وند عالم نے اپنے انبیا ء کے ذریعہ اس کی راہنما ئی کی ہے : اسے قلبی ایمان کی راہ بھی حق کے ساتھ دکھا ئی نیزاعمال شائستہ جو اس کے لئے جسمانی اعتبار سے مفید ہیں ان کی طرف بھی راہنمائی کی اور نقصا ن دہ اعمال سے بھی آگا ہ کیا ہے، اگر وہ خدا کی ہدا یت کا اتبا ع کرے اور ﷲ کی سیدھی را ہ پر ایک قد م آگے بڑھ جا ئے تو خدا وند عا لم اسے اس کا ہا تھ پکڑ کر اسے دس قد م آگے بڑھا دیتا ہے پھر دنیا و آخرت میں آثار عمل کی بناء پر اس کوسات سو گنازیادہ جزا دیتا ہے اور خدا وند عالم اپنی حکمت کے اقتضاء اور اپنی سنت کے مطابق جس کے لئے چا ہتا ہے اضا فہ کرتاہے۔

ہم نے اس سے قبل مثا ل دی اور کہا: خدا وند عا لم نے اس دنیا کو'' سلف سروس''والے ہوٹل کے مانندمو من اور کا فر دو نوں کے لئے آما دہ کیا ہے، جیسا کہ سورۂ اسرا ء کی بیسویں آیت میں فرماتا ہے:

( کلاًّ نمدّ هٰؤلا ء و هٰؤٰلآء من عطا ئِ ربّک و ما کان عطائُ ربِّک محظورا )

ہم دو نو ں گروہوںکوخواہ یہ خواہ وہ تمہا رے رب کی عطا سے امداد کر تے ہیں ، کیو نکہ تمہا رے ربّ کی عطاکسی پربند نہیں ہے۔

یقینا اگر خدا کی امداد نہ ہو تی اور خدا کے بند ے جسمی اور فکر ی توا نائی اور اس عا لم کے آمادہ و مسخر اسباب و وسا ئل خدا کی طرف سے نہ رکھتے تو نہ راہ یا فتہ مو من عمل صا لح اور نیک و شا ئستہ عمل انجام دے سکتا تھا اور نہ ہی گمرا ہ کا فر نقصا ن دہ اور فا سد اقدامات کی صلا حیت رکھتا، سچ یہ ہے کہ اگر خدا ایک آن کے لئے اپنی عطا انسا ن سے سلب کر لے چا ہے اس عطا کا ایک معمو لی اور ادنیٰ جز ہی کیوں نہ ہوجیسے بینائی، سلا متی، عقل اور خرد وغیرہ... تویہ انسان کیا کر سکتا ہے ؟ اس لحا ظ سے انسا ن جو بھی کر تا ہے اپنے اختیا رسے اور ان وسا ئل و اسباب کے ذریعہ کرتاہے جو خدا نے اسے بخشے ہیں لہٰذا انسا ن انتخاب اور اکتسا ب میں مختار ہے۔

۱۸۲

جی ہاں ،انسا ن اس عالم میں مختارکل بھی نہیں ہے جس طرح سے وہ صرف مجبور بھی نہیں ہے، نہ اس عالم کے تمام اموراس کے حوالے اور سپرد کر دئے گئے ہیں اور نہ ہی اپنے انتخا ب کر دہ امور میں مجبور ہے، بلکہ ان دو نوں کے درمیا ن ایک امر ہے اور وہ ہے( امر بین امرین) اوریہ وہی خدا کی مشیت اور بند وں کے افعال کے سلسلے میں اس کا قا نو ن اور سنت ہے، '' ولن تجد لسنة ﷲ تبد یلا ً'' ہر گز سنت الٰہی میں تغیر و تبد یلی نہیں پا ؤ گے!

چند سوال ا و ر جو اب

اس حصّہ میں د ر ج ذیل چا ر سوا ل پیش کئے جا رہے ہیں:

۱۔ انسا ن جو کچھ کر تا ہے ا س میں مختار کیسے ہے، با وجو د یکہ شیطا ن اس پر تسلط اور غلبہ رکھتا ہے جب کہ وہ دکھا ئی بھی نہیں دیتا آد می کو اغوا( گمراہ) کرنے کے چکر میں لگا رہتا ہے اوراس کے دل میں و سو سہ ڈالتا رہتاہے اور اپنے شر آمیز کاموں کی دعوت دیتا ہے؟

۲۔انسان فا سد ماحول اور برے کلچرمیں بھی ایسا ہی ہے، وہ فسا د اور شر کے علا وہ کو ئی چیز نہیں دیکھتا پھر کس طرح وہ اپنے اختیا ر سے عمل کر تاہے ؟

۳۔ایسا انسا ن جس تک پیغمبروں کی دعو ت نہیں پہنچی ہے اوردور درازافتادہ علا قہ میں زند گی گزا رتا ہے وہ کیا کرے ؟

۴۔'' زنا زا دہ'' کا گنا ہ کیا ہے ؟( یعنی نا جا ئز بچہ کاکیا گنا ہ ہے) کیوں وہ دو سر وں کی رفتا ر کی بنا ء پر شر پسند ہوتا ہے اور شرار ت و برائی کر تا ہے؟

پہلے اور دوسرے سوال کا جو اب:

ان دو سو الوں کا جواب ابتدا ئے کتاب میں جو ہم نے میثا ق کی بحث کی ہے ا س میں تلا ش کیجئے۔( ۱ )

وہاں پر ہم نے کہا کہ خدا نے انسا ن پر اپنی حجت تمام کردی ہے ا ور تمام موجودات کے سبب سب کے متعلق جستجواور تلاش کے غریزہ کو ودیعت کرکے اس کی بہانہ بازی کا دروازہ بند کردیا ہے، لہٰذااسے چاہیئے کہ اس غریزہ کی مدد سے اس اصلی سبب سازتک پہنچے ، اسی لئے سورۂ اعرا ف کی ۱۷۲ ویں آ یت میں میثا ق خدا وند ی سے متعلق ارشاد فرما یا:

____________________

(۱)اسی کتاب کی پہلی جلد، بحث میثاق .ملاحظہ ہو.

۱۸۳

( أن تقولوا یو م القیامة اِنّا کُناعن هذا غا فلین )

تا کہ قیا مت کے دن یہ نہ کہہ سکو کہ ہم اس (پیمان ) سے غا فل تھے ہمیں ۔

انسا ن جس طر ح ہر حا لت میں بھو ک کے غر یزہ سے غا فل نہیں ہو تا ہے جب تک کہ اپنی شکم کو غذا سے سیر نہ کرلے ، اسی طرح معر فت طلبی کے غر یزہ سے بھی غا فل نہیں ہو تا یہاں تک کہ حقیقی مسب الاسباب کی شناخت حا صل کرلے۔

تیسر ے سوال کا جو اب:

ہم اس سوال کے جواب میں کہیںگے : خداو ند سبحا ن نے سورہ بقرہ کی ۲۸۶ ویں آیت میں ارشا د فرما یا:

( لایکلف ﷲ نفساًاِلاّوسعها )

خدا کسی کو بھی اس کی طا قت سے زیا دہ تکلیف نہیں دیتا۔

چو تھے سوا ل کا جو اب:

نا جا ئز اولا د بھی بُرے کا م انجام دینے پر مجبو ر نہیں ہے ، جو کچھ ہے وہ یہ ہے کہ بد کار مرد اور عو رت کی روحی حالت اور کیفیت ارتکاب گناہ کے وقت اس طرح ہوتی ہے کہ خو د کو سما جی قوا نین کا مجرم اور خا ئن تصور کرتے ہیں اور یہ بھی جا نتے ہیں کہ معا شرہ ان کے کام کو برااور گناجا نتا ہے اور اگر ان کی رفتا ر سے آگا ہ ہو جائے اورایسی گند گی اور پستی کے ارتکاب کے وقت دیکھ لے تو ان سے دشمنی کر تے ہو ئے انھیں اپنے سے دور کر دیگا اور یہ بھی جانتے ہیں کہ تمام نیکو کار ، پا کیز ہ کر دار اور اخلاق کر یمہ کے ما لک ایسے کا م سے بیزاری کرتے ہیں یہ رو حی حا لت اور اندرونی کیفیت نطفہ پر اثر اندا ز ہو تی ہے اور میرا ث کے ذریعہ اس نو مو لو د تک منتقل ہو تی ہے اورنوزاد پر اثر انداز ہوتی ہے جواسے شر دوست اور نیکیوں کا دشمن بنا تی ہے اور سما ج کے نیک افراد اور مشہو ر و معروف لو گوں سے جنگ پر آمادہ کرتی ہے اس سیرت کا بارز نمو نہ'' زیا د ابن ابیہ'' اور اس کا بیٹا ابن زیاد ہے کہ انھوں نے عرا ق میں اپنی حکومت کے دوران جو نہیں کر نا چا ہئے تھا وہ کیا ،با لخصوص'' ابن زیاد'' کہ اسکے حکم سے امام حسین کی شہا دت کے بعد آپ اور آپ کے پا کیزہ اصحاب کے جسم اطہر کو مثلہ کیاگیا اور سروں کو شہروں میں پھرایا گیا اور رسول ﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حرم کو اسیر کر کے کو فہ و شام پہنچا یا گیا اور دیگر امور جو اس کے حکم سے انجام پا ئے اور یہ ایسے حا ل میں ہو اکہ حضرت امام حسین کی شہا دت کے بعد کو ئی فرد ایسی نہیں بچی تھی جو ان لوگوںکی حکو مت کا مقا بلہ کر ے

۱۸۴

اور کسی قسم کی تو جیہ اس کے ان افعا ل کیلئے نہیں تھی، بجز اس کے کہ وہ شر و برا ئی کا خو گر تھا اس کی خو اہش یہ تھی کہ عرب اور اسلام کے شریف ترین گھرا نے کی شا ن و شو کت، عظمت و سطو ت ختم کرکے انھیں بے اعتبار بنا دے، ہاں وہ ذا تی طور پر برا ئی کا دوست اور نیکیوں کا دشمن تھا اور سماج و معا شرہ کے کریم و شر یف افراد سے بر سر پیکا ر تھا۔( ۱ )

اس بنا پر ( صحیح ہے اور ہم قبو ل کر تے ہیں کہ) شر سے دوستی، نیکی سے دشمنی، نیکو کاروں کو آزار و اذیت دنیا اور سماج کے پا کیز ہ لو گوں کو تکلیف پہنچا نا زنا زادہ میں حلال زادہ کے بر خلاف تقریباًاس کی ذات اور فطرت کا حصہ ہے، لیکن ان تمام باتوں کے با وجو د ان دو میں سے کو ئی بھی خواہ امور خیر ہوں یا شر جو وہ انجام دیتے ہیں یا نہیں دیتے مجبو ر ،ان پر نہیں ہیں، ان دو نوں کی مثال ایک تندرست و صحت مند ، با لغ و قوی جوان اور کمر خمیدہ بوڑھے مر د کی سی ہے: پہلا جسما نی شہو ت میں غرق اور نفسانی خوا ہشا ت تک پہنچنے کا خواہاں ہے اور دوسرا وہ ہے جس کے یہا ں جو انی کی قوت ختم ہو چکی ہے اور جسمانی شہو ت کا تارک ہے! ایسے حال میں واضح ہے کہ کمر خمیدہ مرد '' زنا ''نہیں کر سکتا اور وہ جوان جس کی جنسی تو انا ٰئی اوج پر ہے وہ زنا کرنے پر مجبو ر بھی نہیں کہ مجبوری کی حالت میں وہ ایسے نا پسندیدہ فعل کا مر تکب ہو تومعذور کہلا ئے، بلکہ اگر زنا کا مو قع اور ما حو ل فر اہم ہو اور وہ ''خا ف مقا م ربہ'' اپنے رب کے حضور سے خو فز دہ ہو، ( ونھیٰ النفس عن الھوی) اور اپنے نفس کو بیجا خو اہشوں سے رو ک رکھے تو( فاِنّ الجنة ھی المأویٰ) یقینا اس کا ٹھکا نہ بہشت ہے۔( ۲ )

اس طرح ہم اگر انسان کی زندگی کے پہلؤوں کی تحقیق کر یں اور ان کے بارے میں غور و فکر کر یں، تو اسے اپنے امور میں صا حب اختیا ر پا ئیں گے، جز ان امور کے جو غفلت اور عدم آگا ہی کی بنیا د پر صا در ہوتے ہیں اور اخروی آثا ر نہیںرکھتے ہیں ۔

یہاں تک مباحث کی بنیاد قرآن کر یم کی آیات کی روشنی میں '' عقائد اسلام '' کے بیان پر تھی آئندہ بحثوں میں انشاء ﷲ خدا کے اذ ن سے مبلغین الٰہی کی سیرت کی قرآ ن کریم کی رو سے تحقیق و بررسی کر یں گے اور جس قدر توریت ،انجیل اور سیرت کی کتابوں سے قرآن کریم کی آیات کی تشریح و تبیین میں مفید پا ئیں گے ذکر کر یں گے۔

''الحمد لله ربّ العا لمین''

____________________

(۱)زیادکے الحاق ( معاویہ کا اسے اپنا پدری بھائی بنانے ) کی بحث آپ کتاب عبدﷲ بن سبا کی جلد اول میں ، اور شہادت امام حسین کی بحث معالم المدر ستین کی جلد ۳ میں ملاحظہ کریں. (۲)سورۂ ناز عا ت کی چا لیسویں آیت ''و امّا من خاف...'' سے اقتبا س ہے.

۱۸۵

(۹)

ملحقات

اسلا می عقا ئد میں بحث و تحقیق کے راستے اور راہ اہل بیت کی فوقیت و بر تری( ۱ )

اسلا می عقا ئد ہمیشہ مسلما نوں اور اسلامی محققین کی بحث و تحقیق کا موضوع رہے ہیں اور تمام مسلما نو ں کا نظر یہ یہ ہے کہ اسلا می عقا ئد کا مر جع قرآ ن اور حدیث ہی ہے ، وہ اس بات پر اتفاق نظر رکھتے ہیں لیکن اس کے باوجود گز شتہ زمانے میں صدیو ں سے، مختلف وجوہ اور متعدد اسباب( ۲ ) کی بنا پر مختلف خیا لات اور نظریات اسلا می عقائد کے سلسلہ میں پیدا ہوئے کہ ان میں بعض اسباب کی جانب اشارہ کر رہے ہیں۔

۱۔ بحث وتحقیق اور استنبا ط کے طریقے اور روش میں اختلا ف.

۲۔ علما ئے یہو د و نصا ریٰ (احبار و رہبا ن)کا مسلما نو ں کی صفو ں میں نفو ذ اور رخنہ انداز ی اور اسلا می رو ایا ت کا ''اسرا ئیلیا ت''اور جعلی داستانوں سے مخلوط ہونا۔

۳۔ بد عتیں اور اسلا می نصو ص کی غلط اور نا درست تا ویلیں اور تفسیر یں۔

۴۔سیا سی رجحا نا ت اور قبا ئلی جھگڑے۔

۵۔ اسلا می نصوص سے ناواقفیت اور بے اعتنا ئی ۔

ہم اس مقا لہ میں سب سے پہلے سبب '' راہ اور روش میں اختلا ف ''کی تحقیق وبر رسی کر یں گے اور اسلامی عقائد کی تحقیق و بر رسی میں جو مو جو دہ طریقے اور را ہیں ہیں ان کا اہل بیت کی راہ و روش سے موازنہ کر کے قا رئین کے حو الے کر یں گے ، نیز آخری روش کی فو قیت وضا حت کے ساتھ بیان کر یں گے ۔

____________________

(۱) مجمع جہانی اہل البیت ، تہران کے نشریہ رسالة الثقلین نامی مجلہ میں آقا شیخ عباس علی براتی کے مقالہ کا ترجمہ ملاحظہ ہونمبر ۱۰، سال سوم ۱۴۱۵ ھ، ق.(۲) مقدمہ کتاب '' فی علم الکتاب '' : ڈاکٹر احمد محمود صبحی ج۱، ص ۴۶پانچواں ایڈیشن، بیروت، ۱۴۰۵ھ، ۱۹۸۵ ئ.

۱۸۶

عقید تی اختلا فا ت اور اس کی بنیاد اور تا ریخ

مسلما نوں کے درمیا ن فکر ی اور عقید تی اختلا ف پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانے سے ہی ظا ہر ہو چکا تھا ،لیکن اس حد تک نہیں تھا کہ، کلامی اور فکر ی مکا تب و مذاہب کے وجو د کا سبب قرار پائے، کیو نکہ رسو لصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا بنفس نفیس اس کا تدارک کرتے تھے اور اس کے پھیلنے کی گنجا ئش با قی نہیں ر کھتے تھے ، بالخصوص روح صدا قت وبرا دری، اخوت و محبت اس طرح سے اسلامی معاشرہ پر حا کم تھی کہ تا ریخ میں بے مثا ل یا کم نظیر ہے۔

نمو نہ کے طور پر اورانسا نو ں کی سر نو شت '' قدر'' کا مو ضو ع تھا جس نے پیغمبر کے اصحا ب اور انصا ر کے ذہن و فکر کو مکمل طور پر اپنے میں حصار میں لے لیا تھا اور انھیں اس کے متعلق بحث کر نے پر مجبور کردیا تھا ، یہاں تک کہ آخر میں بات جنگ و جدا ل اور جھگڑے تک پہنچ گئی جھگڑے کی آ واز پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کان سے ٹکر ائی توآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے (جیسا کہ حدیث کی کتا بو ں میں ذ کر ہوا ہے) اس طرح سے ان لو گو ں کو اس مو ضو ع کے آگے بڑھانے کے عواقب و انجام سے ڈرایا:

احمد ابن حنبل نے عمر و بن شعیب سے اس نے اپنے با پ سے اور اس نے اپنے جد سے رو ایت کی ہے کہ انھو ں نے کہا : ایک دن رسو ل خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے گھر سے باہر نکلے تو لو گو ں کو قدر کے مو ضو ع پر گفتگو کرتے دیکھا،راو ی کہتا ہے : پیغمبر اکر م کے چہر ہ کا رنگ غیظ و غضب کی شدت سے اس طرح سر خ ہو گیا تھا، گو یا انار کے دانے ان کے رخسا ر مبارک پربکھرے ہوئے ہو ں! فر مایا: تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ کتاب خدا کی جر ح وتعدیل اور تجزیہ و تحلیل کر رہے ہو اسکے بعض حصّہ کا بعض سے مو از نہ کر رہے ہو( اس کی نفی و اثبات کرر ہے ہو )؟ تم سے پہلے وا لے افراد انہی کا موں کی و جہ سے نا بو د ہو گئے ہیں۔( ۱ )

قرآن کر یم اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سنت میں اسلامی عقا ئد کے اصو ل اور اس کے بنیادی مبا نی بطو ر کلی امت اسلام کے لئے بیا ن کیے گئے ہیںبعد میں بعض سو الات اس لئے پیش آئے کہ ( ظا ہر اً)قرآن و سنت میں ان کا صریح اور واضح جو اب ان لوگوںکے پاس نہیں تھا اورمسلمان اجتہا د و استنبا ط کے محتا ج ہو ئے تو یہ ذ مہ داری عقا ئد و احکام میں فقہا ء و مجتہد ین کے کا ند ھوں پر آئی، اس لئے اصحا ب پیغمبر بھی کبھی کبھی اعتقا دی مسا ئل میں ایک دوسرے سے اختلا ف رائے ر کھتے تھے ، اگر چہ پیغمبر کی حیات میں ان کے اختلاف کے آثا ر و نتائج، بعد کے

____________________

(۱)مسند احمد ج۳،ص۱۷۸تا ۱۹۶.

۱۸۷

زمانوں میں ان کے اختلاف کے آثار و نتائج سے مختلف تھے ،کیو نکہ ، پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنی حیات میں خو د ہی ان کے درمیا ن قضا وت کر تے تھے اور اپنی را ہنما ئی سے اختلا ف کی بنیا د کواکھاڑ دیتے تھے !( ۱ )

لیکن پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد لو گ مجبو ر ہو ئے کہ کسی صحا بی یا ان کے ایک گروہ سے( جوکہ خلفا ء و حکا م کے بر گز یدہ تھے) اجتہا د کا سہا را لیں اور ان سے قضا وت طلب کر یں جب کہ دو سرے اصحا ب اپنے آرا ء ونظریات کو محفو ظ ر کھتے تھے ( اور یہ خو د ہی اختلا ف میں اضا فہ کا سبب بنا ) اس اختلا ف کے واضح نمونے مند ر جہ ذ یل باتیں ہیں۔

۱۔ پیغمبر اکر مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفا ت کے بعد امت کا خلا فت اور اما مت کے بارے میں اختلاف۔( ۲ )

۲۔ زکو ة نہ دینے وا لو ں کا قتل اور یہ کہ آیا زکو ة نہ دینا ارتد اد اور دین سے خا رج ہو نے کا با عث ہے یا نہیں؟اس طرح سے ہر اختلا ف،خاص آراء و خیا لا ت ، گروہ اور کلا می اور اعتقا دی مکا تب کی پید ائش کا سر چشمہ بن گیاجس کے نتیجہ میں ہر ایک اس رو ش کے ساتھ جو اس نے استد لا ل و استنبا ط میں اختیا ر کی تھی اپنے آ را ء و عقا ئد کی تر ویج و تد وین میں مشغول ہوگیا ، ہما ری تحقیق کے مطا بق ان مکا تب میں اہم تر ین مکاتب مند ر جہ ذیل ہیں :

۱۔خالص نقلی مکتب۔

۲۔ خالص عقلی مکتب

۳۔ ذو قی و اشراقی مکتب

۴۔ حسّی و تجر بی مکتب

۵۔ فطر ی مکتب

الف ۔ خالص نقلی مکتب:

'' احمد ابن حنبل'' حبنلی مذ ہب کے امام ( متو فی ۲۴۱ ھ) اپنے زمانے میں اس مکتب کے پیشوا اور پیشر و شما ر کئے جاتے تھے، یہ مکتب ،اہل حد یث ( اخبار یین عا مہ) کے مکتب کے مانند ہے: ان لو گو ں کارو ایات

____________________

(۱)سیرہ ٔ ابن ہشام ، ص ۳۴۱،۳۴۲ ،اورڈاکٹرمحمد حمیدﷲ مجموعة الوثائق السیاسةج۱،ص۷.(۲)اشعری '' مقا لات الاسلامیین و اختلاف المصلین '' ج ۱، ص ۳۴، ۳۹ اور ابن حزم '' الفصل فی الملل والاہواء والنحل '' ج ۲، ص ۱۱۱ اور احمد امین '' فجر الاسلام ''.

۱۸۸

کی حفا ظت وپا سدا ری نیز ان کے نقل کر نے کے علا وہ کوئی کام نہ تھااوران کے مطا لب میں تد بر اور غور خوض کرنے نیزصحیح کو غلط سے جدا کرنے سے انھیںکوئی تعلق نہ تھا ،اس طرح کی جہت گیر ی کو آخری زمانوں میں ''سلفیہ'' کہتے ہیں، اور فقہ میں اہل سنت کے حنبلی مذہب والے میں اس روش کی پیر وی کرتے ہیں، وہ لوگ دینی مسا ئل میں رائے و نظر کو حرام( سبب و علت کے بارے میں ) سوال کو بدعت اور تحقیق اور استد لال کو بدعت پرستی اورہوا پر ستوں کے مقا بلے میں عقب نشینی جانتے ہیں، اس گروہ نے اپنی سا ری طاقت سنت کے تعقل وتفکرسے خالی درس و بحث پر وقف کر دی اوراس کو سنت کی پیر وی کرنااوراس کے علاوہ کو ''بد عت پرستی'' کہتے ہیں۔

ان کی سب سے زیادہ اور عظیم تر ین کو شش و تلا ش یہ ہے کہ اعتقا دی مسا ئل سے مر بو ط احا دیث کی تدوین اور جمع بندی کرکے اس کے الفا ظ و کلما ت اور اسنا د کی شر ح کریں جیسا کہ بخا ر ی ، احمد ابن حنبل ، ابن خز یمہ، بیہقی اور ابن بطّہ نے کیا ہے، وہ یہاںتک آگے بڑھ گئے کہ عقید تی مسا ئل میں علم کلا م اور عقلی نظر یا ت کو حرا م قراردے دیا،ان میں سے بعض نے اس سلسلہ میں مخصوص رسا لہ بھی تد وین کیا ، جیسے ابن قدامہ نے''تحریم النظر فی علم الکلا م''نا می رسا لہ تحریر کیا ہے۔

احمد ابن حنبل نے کہا ہے: اہل کلام کبھی کا میاب نہیں ہو ں گے ، ممکن نہیں کہ کوئی کلام یا کلامی نظر یہ کا حامل ہو اور اس کے دل میں مکر و حیلہ نہ ہو،اس نے متکلمین کی اس درجہ بد گو ئی کی کہ حا رث محا سبی جیسے (زا ہد و پرہیز گا ر) انسا ن سے بھی دور ہو گیا اور اس سے کنا رہ کشی اختیا ر کر لی، کیو نکہ اس نے بد عت پرست افراد کی رد میں کتا ب تصنیف کی تھی احمد نے اس سے کہا : تم پر وا ئے ہو! کیا تم پہلے ان کی بد عتوں کا ذکر نہیں کروگے تاکہ بعد میں اس کی رد کر و؟ کیا تم اس نوشتہ سے لوگوں کو بد عتوں کا مطا لعہ اور شبہو ں میں غو ر و فکر کرنے پر مجبور نہیں کروگے یہ بذات خود ان لو گو ں کو تلا ش و جستجو اورفکرونظر کی دعوت دینا ہے۔

احمد بن حنبل نے یہ بھی کہا ہے: علما ئے کلا م ز ند یق اور تخریب کا ر ہیں۔

زعفرا نی کہتا ہے :شا فعی نے کہا : اہل کلام کے بارے میں میرا حکم یہ ہے کہ انھیں کھجور کی شاخ سے زدو کوب کرکے عشا ئر اور قبا ئل کے درمیا ن گھما ئیں اور کہیں: یہ سزا اس شخص کی ہے جو کتاب و سنت کو چھوڑ کر علم کلام سے وابستہ ہوگیا ہے!

تمام اہل حدیث سلفیو ں(اخبار یین عا مہ) کا اس سلسلہ میں متفقہ فیصلہ ہے اور متکلمین کے مقا بل ان کے عمل کی شد ت اس سے کہیں زیادہ ہے جتنا لوگوں نے نقل کیا ہے، یہ لو گ کہتے ہیں : پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحا ب باوجو د یکہ حقائق کے سب سے زیا دہ عا لم اور گفتا ر میں دوسرو ں سے زیا دہ محکم تھے، انہوں نے عقائد سے متعلق با ت کر نے میں اجتنا ب نہیں کیا مگر صرف اس لئے کہ وہ جا نتے تھے کہ کلام سے شر و فسا د پیدا ہوگا۔ یہی و جہ ہے کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ایک ہی جملے کی تین با ر تکرا ر کی اور فر مایا :

۱۸۹

(هلک المتعمقون، هلک المتعمقون ،هلک المتعمقون )

غو ر وخو ض کر نے وا لے ہلا ک ہو گئے، غو ر وخو ض کر نے وا لے ہلا ک ہو گئے، غو ر وخو ض کر نے والے ہلا ک ہو گئے، یعنی (دینی) مسا ئل گہرائی کے ساتھ غور و فکر کر نے والے ہلا ک ہوگئے!

یہ گروہ(اخبا ریین عا مہ) عقیدہ میں تجسیم اور تشبیہ(یعنی خدا کے جسم اور شبا ہت) کا قائل ہے ، '' ْقدر'' اور سر نوشت کے ناقابل تغییر ہونے اور انسا ن کے مسلو ب الا را دہ ہونے کا معتقدہے۔( ۱ )

یہ لو گ عقا ئد میں تقلید کو جا ئز جا نتے ہیں اور اس کے سلسلہ میں را ئے و نظر کو جیسا کہ گز ر چکا ہے حرام سمجھتے ہیں۔

ڈاکٹر احمد محمود صبحی فر ماتے ہیں:

'' با وجو د یکہ عقا ئد میں تقلید- عبد ﷲ بن حسن عنبری، حشویہ اور تعلیمیہ( ۲ ) کے نظریہ کے بر خلا ف نہ ممکن ہے اور نہ جائز ہے،یہی نظریہ ''محصل '' میں فخر رازی کا ہے( ۳ )

اورجمہو ر کا نظریہ یہ ہے کہ عقائد میں تقلیدجائز نہیں ہے اور استاد ابو اسحا ق نے ''شرح التر تیب'' میں اس کی نسبت اجماع اہل حق اور اس کے علاوہ کی طرف دی ہے اور امام الحرمین نے کتاب''الشامل'' میں کہا ہے کہ حنبلیوں کے علا وہ کو ئی بھی عقائد میں تقلید کا قائل نہیں ہے ، اس کے با وجود ، امام شو کا نی نے لو گو ں پر عقائد میں غور و فکر کو واجب جاننے کو''تکلیف مالایطاق'' (ایسی تکلیف جو قدرت و توانائی سے باہر ہو) سے تعبیر کیا ہے، وہ بزرگان دین کے نظریات اور اقوال پیش کرنے کے بعد کہتے ہیں: خدا کی پناہ !یہ کتنی عجیب و غریب باتیں ہیں یقیناً یہ ، لوگوں کے حق میں بہت بڑا ظلم ہے کہ امت مرحومہ کو ایسی چیز کا مکلف بنایا جائے جس کی ان میں قدرت نہیں ہے،(کیا ا یسا نہیں ہے ) وہی صحا بہ کا حملی اور تقلیدی ایمان جو اجتہا د و نظر کی منزل تک نہیں پہنچے تھے، بلکہ اس سے نزدیک بھی نہیں ہوئے تھے ، ان کے لئے کافی ہو ؟۔

____________________

(۱)صابونی ؛ ابو عثمان اسماعیل ؛رسالة عقیدةالسلف و اصحاب الحدیث(فی الرسائل المنیرة).

(۲)آمری؛ ''الاحکام فی اصول الاحکام'' ،ج۴ ، ص ۳۰۰.

(۳)شوکانی: '' ارشاد الفحول '' ص۲۶۶-۲۶۷.

۱۹۰

انھوں نے اس سلسلے میں نظر دینے کو بہت سارے لو گو ں پر حرا م اور اس کو گمرا ہی اور نا دانی میں شما ر کیا ہے ۔( ۱ )

اس لحا ظ سے ان کے نز دیک علم منطق بھی حرا م ہے اور ان کے نزدیک منطق انسانی شنا خت اور معرفت تک رسا ئی کی رو ش بھی شما ر نہیں ہو تی ہے، با وجودیکہ علم منطق ایک مشہو ر ترین اور قدیم تر ین مقیاس و معیا ر ہے یہ ایک ایسا علم ہے جس کو ارسطو نے'' ار غنو ن'' نامی کتاب میں تد وین کیا ہے اور اس کا نام علم سنجش و میز ان رکھا ہے۔

اس روش کو اپنا نے والوں کی نظر میں تنہا علم منطق ذہن کو خطا و غلط فہمی سے محفو ظ رکھنے کے لئے کا فی نہیں ہے ،یہ لوگ کہتے ہیں بہت سارے اسلامی مفکرین جیسے کندی .فا رابی، ابن سینا ، امام غزالی ، ابن ماجہ ، ابن طفیل اور ابن رشد علم منطق میں ممتا ز حیثیت کے مالک ہیں، لیکن آرا ء وافکا ر اور نظریاتمیں آپس میں شد ید اور بنیا دی اختلا فات کا شکا ر ہو گئے ہیں،لہٰذا منطق حق و با طل کی میزان نہیں ہے ۔

البتہ آخری دورمیں اس گروہ کا موقف علم منطق اور علم کلا م کے مقابلہ میں بہت نرم ہو گیا تھا جیسے ابن تیمیہ کے موقف کو علم کلام کے مقا بل مضطرب دیکھتے ہیں ،وہ علم کلام کو کلی طور پر حرا م نہیں کرتا بلکہ اگر ضرو رت اقتضا ء کرے اور کلا م عقلی اور شرعی دلائل پر مستند ہو اور تخریب کا روں، زند یقوں اور ملحدوں کے شبہو ں کو جدا کرنے کا سبب ہو توا سے جائز سمجھتا ہے۔( ۲ )

اس کے با وجود اس نے منطق کو حرا م کیا اور اس کی ردّ میں '' رسا لة الر د علیٰ المنطقین'' نا می رسا لہ لکھا ہے: اور اس کے پیرو کہتے ہیں:'' ڈیکا رٹ فر انسیسی''(۱۵۹۶۔۱۶۵۰ئ) نے خطا وصوا ب کی تشخیص کے لئے ارسطا طا لیس کی منطق کے بجا ئے ایک نئی میزا ن اور معیا ر اخترا ع کیا اور تا کید کی کہ اگر انسا ن اپنے تفکر میں قدم بہ قدم اس کے اختر اعی مقیا س کو اپنا ئے تو صواب کے علا وہ کو ئی اور راہ نہیں پا ئے گا'' ڈکا رٹ'' کی رو ش کا استعمال کر نا یقین آور نتیجہ دیتا ہے، لیکن ایسا نہیں ہوا اور دورمعاصرمیں ڈکا رٹ کی روش سے جو امیدیں جاگیں تھیں ان کا حال بھی منطق ارسطو سے پائی جانے والی امیدوںکی طرح رہا اور میلاد مسیح سے لے کر اب تک کے موضوع بحث مسائل ویسے کے ویسے پڑے رہ گئے۔( ۳ )

____________________

(۱) امام جوینی: '' الار شاد الی قواطع الادلة '' ص۲۵، غزالی '' الجام العوام عن العلم الکلام '' ص ۶۶، ۶۷.ڈاکٹر احمد محمود صبحی : '' فی علم الکلام'' مقدمہ ٔ جلد اول

(۲)ابن تیمیہ :''مجموع الفتاوی ''ج۳ ،ص ۳۰۶ ، ۳۰۷.(۳)ڈاکٹر عبد الحلیم محمود : '' التوحید الخالص'' ، ص ۵تا ۲۰.

۱۹۱

یہ و ہی چیز ہے جس کے باعث بہت سارے پہلے کے مسلما ن مفکر ین منجملہ امام غزا لی(۴۵۰۔۵۰۵ھ) روش عقلی کے ترک کر نے اور اسے مطر ود قرار دینے کے قا ئل ہوئے ، غز الی اپنی کتا ب ( تھا فة الفلاسفہ) میں عقلی دلا ئل سے فلسفیوں کے آراء و خیا لا ت کو باطل اور رد کرتا ہے ، غزالی کی اس کتاب میں دقت ا س بات کی گواہ ہے کہ وہ عقل جو کہ دلا ئل کا مبنیٰ ہے، وہی عقل ہے جو ان سب کو برباد کر دیتی ہے۔

غزالی ثابت کرتاہے کہ عالم الٰہیات اور اخلا ق میں انسا نی عقل سے ظن و گمان کے علاوہ کچھ حا صل ہونے والا نہیں ہے۔

اسلامی فلسفی ابن رشد اند لسی(متوفی ۔۵۹۵ھ) نے اپنی کتاب ( تھا فةالتہافت) میں غزا لی کے آراء و خیا لات کی رد کی ہے ، ابن رشد وہ شخص ہے جو اثبا ت کرتا ہے کہ عقل صریح اور نقل صحیح کے درمیا ن کسی قسم کا کوئی تعا رض نہیں ہے ، اوریہ بات ا س کی کتاب (فصل المقال بین الحکمة و الشر یعة من الا تصا ل) سے واضح ہو تی ہے ، حیرت انگیز یہ ہے کہ وہ اس موقف میں '' ابن تیمیہ'' کے ساتھ اپنی کتاب ( عقل صریح کی نقل صحیح سے مو افقت) میں ایک نتیجہ پر پہنچے ہیں۔

پھر ابن تیمیہ کے دو نوں موقف: '' عقلی روش سے مخالفت اور عقل صریح کے حکم سے موافقت''کے درمیان جمع کی کیا صورت ہوسکتی ہے ؟ نہیں معلوم ۔

مکتب خلفا ء کے اہل حدیث اور مکتب اہل بیت کے اخباریوں کی روش ؛ نصوص شر عی،آیات وروا یات کے ظواہر کی پیروی کرنا اوررائے و قیا س سے حتی الامکان اجتناب کرنا ہے۔( ۱ ) ( سلفی مکتب) یا اہل حدیث کا مر کز اس وقت جز یرة العر ب (نجد کا علا قہ) ہے نیز ان کے کچھ گروہ عرا ق، شام اور مصر میں بھی پا ئے جاتے ہیں۔( ۲ )

ب: خالص عقلی مکتب

اس مکتب کے ماننے وا لے عقل انسا نی کی عظمت و شان پر تکیہ کر تے ہو ئے، شنا خت و معر فت کے اسباب و وسا ئل کے مانند، دوسروں سے ممتاز اور الگ ہیں ، یہ لوگ اسلامی نقطہ نظر سے ''مکتب رائے''کے ماننے والے اور عقیدہ میں ''معتز لہ '' کہلاتے ہیں ۔

____________________

(۱) شیخ مفید ، '' اوائل المقالات ''؛سیوطی'' صون المنطق والکلام عن علمی المنطق والکلام'' ص ۲۵۲.شوکانی : ارشاد الفحول ؛ ص ۲۰۲ ؛ علی سامی النشار : ''مناھج البحث عند مفکری الاسلام''ص ۱۹۴ تا ۱۹۵،علی حسین الجابری ،الفکرالسلفی عند الاثنی عشر یہ ،ص ۱۵۴، ۱۶۷، ۲۰۴ ، ۲۴۰ ، ۴۲۴، ۴۳۹ .(۲)قاسمی '' تاریخ الجہمیہ والمعتزلة ''ص ۵۶۔ ۵۷.

۱۹۲

اس مکتب کی پیدائش تاریخ اسلام کے ابتدا ئی دور میں ہوئی ہے ، سب سے پہلے مکتب اعتزال کی بنیاد'' واصل ابن عطا( ۸۰ھ، ۱۳۱ ھ) اور اس کے ہم کلا س '' عمر و بن عبید''( ۸۰ ھ۔ ۱۴۴ھ) منصور دوا نقی کے معاصر نے ڈالی ، اس کے بعد مامون عباسی کے وزیر'' ابی داؤد''اور قاضی عبد الجبا ر بن احمدہمدا نی،متوفی ۴۱۵''جیسے کچھ پیشوا اس مکتب نے پیدا کئے اس گروہ کے بزرگوں میں '' نظّا م''''ابو ہذ یل علاّف''''جا حظ'' اور جبا ئیان کا نام لیا جا سکتا ہے۔

اس نظر یہ نے انسا نی عقل کو بہت اہمیت دی ،خدا وند سبحا ن اور اس کے صفات کی شناخت اور معرفت میں اسے اہم ترین اور قوی ترین شما ر کرتا ہے، شریعت اسلامی کا ادراک اور اس کی تطبیق و موا زنہ اس گروہ کی نگاہ میں ، عقل انسا نی کے بغیر انجام نہیں پا سکتا۔

یہ مکتب ( معتز لہ) ہمارے زمانے میں اس نام سے اپنے پیرو اور یار ویاور نہیں رکھتا صرف ا ن کے بعض افکار'' زید یہ'' اور ابا ضیہ فرقے میں دا خل ہو گئے ہیں اور یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ لوگ'' معتزلہ'' کے ساتھ بعض افکار ونظریات میں شر یک ہیں اسی طرح '' معتز لہ'' شیعہ اثنا عشری اور اسما علیہ کے ساتھ بعض جو انب کے لحاظ سے ایک ہیں ،اہل حدیث( اخباریین عا مہ) نے'' معتزلہ'' کواس لحا ظ سے کہ ارادہ اور انتخاب میں انسان کی آزا دی کے قا ئل ہیں'' قدر یہ'' کالقب دیا ہے۔

عقائد میں ان کی سب سے اہم کتاب'' شر ح الاصول الخمسة'' قا ضی عبد الجبا ر معتزلی کی تا لیف اور ''رسائل العدل والتو حید'' ہے جو کہ معتز لہ کے رہبروں کے ایک گروہ جیسے حسن بصری ، قاسم رسی اور عبد الجبا ر بن احمد کی تالیف کردہ کتاب ہے۔

معتزلہ ایسے تھے کہ جب بھی ایسی قرا نی آیات نیز مروی سنت سے رو برو ہو تے تھے جو ان کے عقائد کے بر خلا ف ہو تی تھی اس کی تا ویل کرتے تھے اسی لئے انھیں '' مکتب تاویل'' کے ماننے والوں میں شما ر کیا جاتاہے، اس کے با وجود ان لوگوں نے اسلام کیلئے عظیم خد متیں انجام دی ہیں اور عباسی دور کے آغا ز میں جب کہ اسلام کے خلاف زبردست فکری اور ثقا فتی یلغا ر تھی اس کے مقا بلہ کے لئے اٹھ کھڑ ے ہوئے ، بعض خلفاء جیسے'' مامون'' اور'' معتصم ''ان سے منسلک ہو گئے ، لیکن کچھ دنوں بعد ہی'' متو کل'' کے زمانے میں قضیہ برعکس ہو گیا اور ان کے نقصا ن پر تمام ہو ا اور کفر و گمرا ہی اور فسق کے احکا م یکے بعد دیگرے ان کے خلا ف صادر ہوئے، بالکل اسی طرح جس طرح خود یہ لوگ درباروں پر اپنے غلبہ و اقتدار کے زمانے میں اپنے مخالفین کے ساتھ کرتے تھے اور جو ان کے آراء و نظریات کوقبول نہیں کرتے تھے انھیں اذیت و آزار دیتے تھے۔

۱۹۳

اس کی مزید وضاحت معتزلہ کے متعلق جد ید اور قدیم تا لیفا ت میں ملا حظہ کیجئے ۔( ۱ )

فرقۂ معتز لہ حسب ذیل پانچ اصول سے معروف و مشہور ہے :

۱۔توحید، اس معنی میں کہ خدا وند عالم مخلو قین کے صفات سے منزہ ہے اور نگا ہوں سے خدا کو دیکھنا بطور مطلق ممکن نہیں ہے ۔

۲۔ عدل، یعنی خدا وند سبحا ن نے اپنے بندوں پر ظلم نہیں کیا ہے اور اپنی مخلو قات کو گناہ کر نے پر مجبور نہیں کرتا ہے

۳۔ ''المنز لة بین المنز لتین''

یعنی جو گناہ کبیرہ انجام دیتا ہے نہ مو من ہے نہ کافر بلکہ فا سق ہے۔

۴۔ وعدو وعید، یعنی خدا پر واجب ہے کہ جو وعدہ ( بہشت کی خو شخبری) اور وعید ( جہنم سے ڈرا نا) مومنین اور کا فرین سے کیا ہے اسے وفا کرے۔

۵۔ امر با لمعروف اور نہی عن المنکر، یعنی ظالم حکام جو اپنے ظلم سے باز نہیں آ تے ،ان کی مخا لفت وا جب ہے۔( ۲ )

مکتب اشعر ی :ما تر یدی یا اہل سنت میں متوسط راہ

'' مکتب اشعر ی'' کہ آج زیا دہ تر اہل سنت اسی مکتب کے ہم خیال ہیں،'' معتزلہ مکتب'' اور اہل حدیث کے درمیان کا راستہ ہے ، اس کے بانی شیخ ابو الحسن اشعر ی(متوفی ۳۲۴ ھ ) خودابتدا میں ( چا لیس سال تک) معتز لی مذ ہب رکھتے تھے ،لیکن تقریبا ۳۰۰ ھ کے آس پاس جا مع بصرہ کے منبر پر جا کر مذ ہب اعتزا ل سے بیزا ری اور مذہب سنت وجما عت کی طر ف لوٹنے کا اعلان کیا اور اس بات کی کوشش کی کہ ایک میا نہ اور معتدل روش جو کہ معتزلہ کی عقلی روش اور اہل حد یث کی نقلی روش سے مرکب ہو ، لوگوں کے درمیان عام

____________________

(۱)زھدی حسن جار ﷲ:( المعتز لة) طبع بیروت، دار الا ھلےة للنشر و التو زیع، ۱۹۷۴ ئ.

(۲) قاسم رسی،'' رسا ئل العدل و التو حید و نفی التشبیہ عن ﷲ الوا حد الصمد'' ج،۱،ص ۱۰۵۔

۱۹۴

کریں، وہ اسی تگ ودو میں لگ گئے، تا کہ مکتب اہل حدیث کو تقو یت پہنچائیں اور اس کی تائید و نصرت کریں، لیکن یہ کام معتزلہ کی اسی بروش یعنی : عقلی اور بر ہا نی استد لا ل سے انجام دیاکرتے تھے اس وجہ سے معتز لہ اور اہل حدیث کے نز دیک مردود و مطرود ہو گئے اور دونو ں گر وہوں میں سے ہر ایک اب تک اہم اور اساسی اعترا ضا ت وارد کر کے ا ن کی روش کو انحرا فی اور گمراہ کن جانتا ہے، یہا ں تک کہ ان کے بعض شد ت پسند وں نے ان کے کفر کا فتویٰ د ے دیا ۔

ایک دوسرا عالم جو کہ اشعری کا معاصر تھا ، بغیر اس کے کہ اس سے کو ئی را بطہ اورتعلق ہو،اس بات کی کوشش کی کہ اسی راہ وروش کو انتخاب کر کے اسے با قی رکھے اور آگے بڑھائے ، وہ ابو منصور ما تر ید ی سمرقندی(متوفی ۳۳۳ھ) ہے وہ بھی اہل سنت کے ایک گروہ کا عقید تی پیشوا ہے، یہ دو نو ں رہبرمجمو عی طور پر آپس میں آراء و نظریات میں اختلا ف بھی رکھتے ہیں بعض لوگو ں نے ان میں سے اہم ترین اختلاف کو گیا رہ تک ذکرکیا ہے ۔( ۱ )

اشعر ی مکتب کی سب سے اہم خصو صیت یہ ہے کہ ایک طرف آیات و روایات کے ظا ہری معنی کی تاویل سے شدت کے ساتھ اجتناب کرتا ہے، دوسری طرف کوشش کرتا ہے کہ''بلا کیف'' کے قول کے ذریعہ یعنی یہ کہ با ری تعا لیٰ کے صفا ت میں کیفیت کا گزر نہیں ہے '' تشبیہ و تجسیم'' کے ہلا کت بار گڈ ھے میں سے فرار کرتا ہے اور'' با لکسب'' کے قول سے یعنی یہ کہ انسان اپنے کردار میں جو کچھ انجام دیتا ہے کسب کے ذریعہ ہے نہ اقدا م کے ذریعہ ''جبر'' کی دلدل میں پھنسنے سے دوری اختیار کر تا ہے، اگر چہ علماء کے ایک گروہ کی نظر میں یہ روش بھی فکری واعتقا دی مسا ئل کے حل کے لئے نا کافی اور ضعیف و ناتواں شمار کی گئی ہے ،'' اشعری مکتب'' نے تدریجا ً اپنے استقلا ل اور ثبات قدم میں اضا فہ کیا ہے اور اہل حدیث ( اخبا ریین عا مہ) کے بالمقابل استقا مت کا مظا ہر ہ کیا اور عا لم اسلام میں پھیل گیا۔( ۲ )

____________________

(۱)دیکھئے: محمد ابو زہر ہ؛ '' تاریخ المذ اھب الاسلا مےة'' قسم الا شا عرہ و الما تر یدےة، آےة ﷲ شیخ جعفر سبحانی ، ا لملل والنحل، ج، ۱،۲، ۴، الفر د بل : ( الفرق الا سلا مےة فی الشما ل الا فر یقی) ص ۱۱۸۔ ۱۳۰، احمد محمود صبحی: ( فی علم الکلا م)

(۲)سبکی : ''الطبقات الشافعیة ج ۳، ص ۳۹۱ الیافعی '' مرآة الجنان '' ج ۳، ص۳۴۳. ابن کثیر ؛ '' البدایة والنہایة '' ج ۱۴، ص ۷۶.

۱۹۵

ج:۔ ذو قی و اشر اقی مکتب

بات کا رخ دوسری طرف موڑتے ہیں اور ایک علیحدہ اور جدا گانہ روش کہ جس میں کلامی مسائل جن کا اپنے

محور بحث اور منا قشہ ہے ان سے آزاد ہو کر صو فیوں کے رمزی اور عشقی مسلک کی پیروی کرتے ہیں، یہ مسلک تمام پہلؤوں میں فلسفیو ں اور متکلمین کی روش کا جوکہ عقل و نقل پر استوار ہے، مخا لف رہا ہے.'' منصور حلاج'' (متوفی ۳۰۹ھ) کوبغدا د میں اس مذ ہب کا با نی اور '' امام غزا لی'' کو اس کا عظیم رہبر شمار کیا ہے، غزالی اپنی کتاب''الجام العوا م عن علم الکلا م'' میں کہتا ہے ! یہ راہ '' خواص'' اوربر گز یدہ افراد کی راہ ہے اور اس راہ کے علاوہ( کلام و فلسفہ وغیرہ)''عوام'' اور کمتر در جے وا لوں نیزان لوگو ں کی راہ ہے جن کے اور عوام کے درمیان فرق صرف ادلہ کے جاننے میں ہے اور صرف ادلہّ سے آگا ہی استد لال نہیں ہے۔( ۱ )

بعض محققین نے عقائد اسلامی کے دریا فت کرنے میں امام غزالی اور صو فیوں کی روش کے بارے میں مخصوص کتا ب تا لیف کی ہے ۔( ۲ ) ڈاکٹر صبحی، غزا لی کی راہ و روش کو صحیح درک کر نے کے بعد کہتے ہیں:

اگر چہ غزالی ذا ت خدا وندی کی حقیقت کے بارے میں غو ر و خوض کرنے کو عوام پر حرا م جانتے ہیں اور یہ ایک ایسی بات ہے جس کا ان کے متعلق کوئی انکار نہیں کرتا ، لیکن انھوں نے اد بائ، نحو یوں، محد ثین ،فقہاء اور متکلمین کو عوام کی صف میں قرار دیا ہے اور تاویل کو راسخون فی العلم میں محدود و منحصر جا نا ہے اور وہ لوگ ان کی نظر میں اولیا ء ہیں جو معرفت کے دریا میں غر ق اور نفسانی خواہشات سے منزہ ہیں اور یہ عبارت بعض محققین کے اس دعویٰ کی صحت پر خود ہی قر ینہ ہے کہ'' غزا لی'' حکمت اشرا قی و ذوقی وغیرہ... میں ایک مخصوص اور مرموز عقیدہ رکھتے ہیں جو کہ ان کے عام اور آشکار اعتقاد کے مغائر ہے کہ جس کی بنا ء پروہ لوگو ں کے نز دیک حجةالاسلام کی منزل پر فا ئز ہوئے ۔

ڈ اکٹر صبحی سوال کرتے ہیں:

کیا حقیقت میں را سخون فی العلم صرف صو فی حضرا ت ہیں اور فقہا ئ، مفسر ین اور متکلمین حضرات ان سے خارج ہیں؟!

اگر ایسا ہے کہ فن کلام کی پیدا ئش اور اس کے ظاہر ہو نے سے برائیوں میں اضافہ ہوا ہے توکیا یہ استثنائ(صرف صو فیوںکو را سخون فی العلم جاننا ) ان کے لئے ایک خاص مو قع فراہم نہیں کرتا ہے کہ وہ اس خاص موقع سے فائدہ اٹھائیں اور نا روا دعوے اور نازیباگستا خیا ں کریں؟

____________________

(۱)''الجام العوام عن علم الکلام '' ص ۶۶تا ۶۷.

(۲) ڈاکٹر سلیمان دنیا ؛ '' الحقیقة فی نظر الغزالی ''

۱۹۶

تصوف فلسفی کے نظر یات جیسے فیض، اشرا ق اوراس کے ( شرع سے) بیگا نہ اصول بہت زیا دہ واضح ہیں،اور ان کا اسلا می عقائد کے سلسلے میں شر و نقصا ن متکلمین کے شرور سے کسی صورت میں کم نہیں ہے۔( ۱ )

لیکن بہر صورت ، اس گروہ نے اسلامی عقائد میں صو فیا نہ طر ز کے کثرت سے آثا ر چھو ڑے ہیں کہ ان کے نمو نوں میں سے ایک نمو نہ'' فتو حات مکیہ'' نامی کتاب ہے۔( ۲ )

د: حسی و تجر بی مکتب( آج کی اصطلا ح میں علمی مکتب)

یہ روش اسلامی فکر میں ایک نئی روش ہے کہ بعض مسلما ن دا نشو روں نے آخری صدی میں ، یو رپ کے معا صرفکر ی رہبر وںکی پیر وی میں اس کو بنایاہے ، اس روش کا اتباع کر نے والے جد ید مصر، ہند، عرا ق اور ان دیگر اسلا می مما لک میں نظر آتے ہیںجو غرب کے استعما ری تمد ن اور عا لم اسلا م پر وارد ہو نے والی فکری امواج سے متاثر ہوگئے ہیں۔

وہ لوگ انسا نی معرفت و شنا خت کے وسا ئل کے بارے میں مخصوص نظر یات رکھتے ہیں، حسی اور تجر بی رو شوں پر مکمل اعتماد کر نا اور پر انی عقلی راہ وروش اور ارسطو ئی منطق کو با لکل چھو ڑ دینا ان کے اہم خصو صیات میں سے ہے. یہ لوگ کو شش کرتے ہیں کہ'' معا رف الٰہی'' کی بحث اور ما وراء الطبیعت مسا ئل کو'' علوم تجربی''کی رو شوں سے اور میدان حس وعمل میں پیشکریں۔( ۳ )

اس جدید کلامی مکتب کے منجملہ آثار میں سے معجز ات کی تفسیر اس دنیا کی ما دی علتوں کے ذریعہ کرنا ہے ، اور نبو ت کی تفسیر انسا نی نبوغ اورخصو صیا ت سے کرنا ہے، بعض محققین نے ان نظر یات کی تحقیق و بر رسی کے لئے مستقل کتا ب تا لیف کی ہے۔( ۴ )

اس نظریہ کے کچھ نمو نے ہمیں '' سرسید احمد خان ہندی'' کے نو شتوں میں ملتے ہیں اگرانھیں اس مکتب کا پیرو نہ ما نیں ، تب بھی وہ ان لو گوں میں سے ضرور ہیں جو اس نظر یہ سے ہمسوئی اور نزدیکی رکھتے ہیں، اس نزدیکی کا

____________________

(۱) ڈاکٹر احمد محمود صبحی ؛ '' فی علم الکلام '' ج ۲، ص۰۴ ۶تا۶۰۶. (۲) شعرانی عبد الوہاب بن احمد ؛ '' الیواقیت والجواہر فی بیان عقاید الاکابر '' سمیع عاطف الزین ؛ '' الصوفیة فی نظر الاسلام '' تیسرا ایڈیشن ، دار الکتاب اللبنانی ، ۱۴۰۵ ھ ، ۱۹۸۵ ئ. (۳)ڈاکٹر عبد الحلیم محمود: '' التو حید الخا لص اوا لا سلا م و العقل'' ، مقدمہ.

(۴)ڈا کٹر عبد الر زّ اق نو فل؛ '' المسلمو ن و العلم الحدیث''. فر ید وجدی؛'' الا سلام فی عصر العلم''.

۱۹۷

سبب بھی یہ ہے کہ انھوں نے غرب کے جد ید دا نشو روں کے آراء و نظریات کو قرآن کی تفسیر میں پیش کرکے اوراپنی تفسیر کو ان نظر یات سے پُر کر کے یہ کو شش کی ہے کہ یہ ثا بت کر یں کہ قرآ ن تمام جد ید انکشا فات سے مو ا فق اور ہماہنگ ہے،سر سیداحمد خا ن ہندی بغیر اس کے کہ اپنے نظریئے کے لئے کوئی حد ومر ز مشخص کریں، اوردینی مسا ئل اور جد ید علمی مبا حث میں اپنا ہد ف، روش اور مو ضو ع واضح کریں، ایک جملہ میں کہتے ہیں:'' پو را قرآ ن علوم تجر بی انکشافات سے مو افق اور ہم آہنگ ہے''۔( ۱)

ھ:اہل بیت کا مکتب راہ فطرت

اس مکتب یعنی راہ فطرت کاخمیر، اہل بیت کی تعلیمات میں مو جو د ہے، ان حضرات نے لوگو ں کے لئے بیا ن کیا ہے :'' اسلامی عقائد کا صحیح طریقہ سے سمجھنا انسانی فطرت سے ہم آہنگی اور مطا بقت کے بغیر ممکن نہیں ہے'' اس بیان کی اصل قرآن و سنت میں مو جود ہے ، کیو نکہ قرآ ن کریم جہا ں با طل کا کسی صورت سے گزر نہیں ہے اس میں ذکر ہوا ہے:

(( فطرة ﷲ التی فطر الناس علیها لا تبدیل لخلق ﷲ ذلک الدین القیم و لکن اکثر الناس لایعلمون ) سورہ روم :۳۰.

ﷲ کی وہ فطرت جس پر اس نے انسا نوں کو خلق کیا ہے ، ﷲ کی آفر ینش میں کوئی تغیر اور تبد یلی نہیں ہے ، یہ ہے محکم آئین لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے!

پروردگا ر عا لم نے اس آیت میں اشارہ فرمایا: دینی معارف تک پہنچنے کی سب سے اچھی راہ انسان کی فطر ت سلیم ہے، ایسی فطرت کہ جسے غلط اور فا سد معاشرہ نیز بری تربیت کاما حول بھی بد ل نہیں سکتا اوراسے خواہشات ، جنگ و جدا ل محوا ورنابود نہیں کر سکتے اور اس بات کی علت کہ اکثر لوگ حق و حقیقت کو صحیح طر یقے سے درک نہیں کر سکتے یہ ہے کہ خود خواہی ( خود پسند ی) اور بے جا تعصب نے ان کے نور فطرت کو خا موش کر دیا ہے، اور ان کے اور ﷲ کے واقعی علوم و حقائق کے اور ان کی فطری درک و ہدایت کے درمیا ن طغیا نی اور سرکشی حا ئل ہو گئی ہے اور دونو ں کے درمیا ن فا صلہ ہو گیا ہے۔

____________________

(۱)۔محمود شلو ت '' تفسیر القرآن الکریم'' الا جزاء العشر ة الا ولی'' ص ۱۱ ۔ ۱۴، اقبال لاہو ری: ( احیا ئے تفکر دینی در اسلا م) احمد آرام کا تر جمہ ص ۱۴۷۔۱۵۱ ، سید جمال الدین اسد آبادی: ( العر وة الو ثقیٰ) شمار ہ ۷ ،ص ۳۸۳ ، روم، اٹلی ملا حظہ ہو.

۱۹۸

اس معنی کی سنت نبویصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں بھی تا کید ہو ئی ہے اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ایک روایت میں مذ کور ہے :

''کل مولودٍ یو لد علی الفطر ةِ فا بوٰ اه یهو دٰ ا نه او ینصرٰا نه او يُمجسانه' '( ۱ )

ہر بچہ ﷲ کی پا کیزہ فطرت پرپیداہوتاہے یہ تو اس کے ماں باپ ہیں جواسے ( اپنی تربیت سے) یہودی، نصرا نی یا مجو سی بنا دیتے ہیں۔

راہ فطرت کسی صورت عقل و نقل، شہود و اشرا ق ، علمی وتجر بی روش سے استفادہ کے مخا لف نہیں ہے، اہم بات یہ ہے کہ یہ راہ شنا خت کے اسباب و وسا ئل میں سے کسی ایک سبب اور وسیلہ میں محدود و منحصر نہیں ہے بلکہ ہر ایک کو اپنی جگہ پر خداوند عا لم کی ہدایت کے مطابق میں استعمال کرتی ہے ، وہ ہدا یت جس کے بارے میں قرآن کریم خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے:

( یمنو ن علیک أن أسلموا قل لاتمنوا علیّ اِسلا مکم بل ﷲ یمن علیکم أن هدا کم للاِیمان اِن کنتم صا دقینَ ) ( ۲ )

(اے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم )وہ لوگ تم پر اسلا م لانے کا احسان جتا تے ہیں ، تو ان سے کہہ دو! اپنے اسلام لا نے کا مجھ پر احسان نہ جتا ؤ ، بلکہ خدا تم پر احسان جتا تا ہے کہ اس نے تمھیں ایما ن کی طر ف ہدا یت کی ہے، اگر ایمان کے دعوے میں سچے ہو !

دوسری جگہ فرماتا ہے :( و لولا فضل ﷲ علیکم و رحمته ما زکیٰ منکم من أحدٍ أبدا ) () ( ۳ )

اگر خدا کا فضل اور اس کی رحمت تم پر نہ ہو تی تو تم میں سے کو ئی بھی کبھی پاک نہ ہو تا ۔

اس راہ کا ایک امتیاز اور خصو صیت یہ ہے کہ اس کے ما ننے وا لے کلا می منا ظر ے اور پیچیدہ شکو ک و شبہات میں نہیں الجھتے اور اس سے دور ی اختیا ر کرتے ہیںاور اس سلسلے میں اہل بیت کی ان احا دیث سے استنا د کرتے ہیں جو دشمنی اور جنگ و جدا ل سے رو کتی ہیں، ان کی نظر میں وہ متکلمین جنھیں اس راہ کی تو فیق نہیں ہو ئی ہے ان کے اختلا ف کی تعداد ایک مذ ہب کے اعتقادی مسا ئل میں کبھی کبھی ( تقریبا)سینکڑوں مسائل تک پہنچ جاتی ہے۔( ۴ )

____________________

(۱) صحیح بخاری: کتاب جنائز و کتاب تفسیر ؛ صحیح مسلم : کتاب قدر ، حدیث ۲۲تا ۲۴.مسند احمد : ج ۲، ص ۲۳۳، ۲۷۵، ۲۹۳، ۴۱۰، ۴۸۱، ج۳،ص ۳۵۳؛ صراط الحق: آصف محسنی (۲)سورہ حجرات ۱۷

(۳)سورہ ٔ نور ۲۱.

(۴) علی ابن طاؤوس ، ''کشف المحجة لثمرة الحجة '' ص ۱۱اور ص ۲۰، پریس داروی قم

۱۹۹

یہ پا کیزہ '' فطرت'' جس پر خدا نے انسان کو پیدا کیا ہے ، اہل بیت کی روایات میں کبھی ''طینت اور سرشت'' اور کبھی'' عقل طبیعی'' سے تعبیر ہو تی ہے، اس مو ضو ع کی مز ید معلو مات کے لئے اہل بیت کی گرانبہا میرا ث کے محا فظ اور ان کے شیعوں کی حد یث کی کتا بوں کی طرف رجو ع کر سکتے ہیں۔( ۱ )

اسلامی عقا ئد کے بیان میں مکتب اہل بیت کے اصول و مبا نی

عقائد میں ایک مہم ترین بحث اس کے ماخذ و مدارک کی بحث ہے ، اسلامی عقائد کے مدا رک جیسا کہ ہم نے پہلے بھی بیان کیا ہے،صرف کتاب خدا وندی اور سنت نبویصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہیں، لیکن مکتب اہل بیت اور دیگرمکاتب میں بنیا دی فرق یہ ہے کہ مکتب اہل بیت پوری طرح سے اپنے آپ کو ان مدا رک کا تا بع جانتا ہے اور کسی قسم بھی کی خو اہشات ، ہوائے نفس اوردلی جذ با ت اور تعصب کو ان پر مقدم نہیںکرتا اور ان دونوں مر جع سے عقائد حاصل کرنے میں صرف قرآ ن کریم اور روایات رسول اسلام میں اجتہاد کے اصول عامہ کو ملحوظ رکھتا ہے ، ا ن میں سے بعض اصول یہ ہیں:

۱۔ان نصوص و تصر یحا ت کے مقا بلے میں ، جو معا رض سے خالی ہوں یا معارض ہو لیکن نص کے مقا بل استقا مت کی صلا حیت نہ رکھتا ہو، کبھی اجتہا د کو نص پر مقد م نہیں رکھتے اس حال میں کہ بعض ہوا پر ستوں اور نت نئے مکتب بنا نے وا لوں کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ لغو اور بیہودہ تا ویلا ت کے ذریعہ اپنے آپ کو نصوص کی قید سے آزا د کر لیں ،عنقریب اس کے ہم چند نمو نوںکی نشان دہی کریں گے۔

حضرت امام امیر المو منین ـ ''حارث بن حوط'' کے جو اب میں فرما تے ہیں :

''انک لم تعرف الحقّ فتعرف من اتاه و لم تعرف البا طل فتعرف مَن أتا ه ''( ۲ )

تم نے حق ہی کو نہیں پہچا ناکہ اس پر عمل کرنے والوں کو پہچا نو اور تم نے باطل ہی کو نہیں پہچا نا کہ اس پر عمل کر نے والوں کو پہچا نو۔

۲۔ دوسرے لفظوںمیں ہم یہ کہہ سکتے ہیں: مکتب اہل بیت کے ما ننے وا لے کسی چیز کو نص اوراس روایت پر جو قطعی اور متو اتر ہو مقدم نہیں کرتے اور یہ اسلام کے عقیدہ میں نہایت اہم اصلی ہے ، کیو نکہ عقائد میں ظن و گما ن اور اوہام کا گزر نہیں ہے ، اس پر ان لوگوں کو توجہ دینی چاہیئے جو کہ ''سلفی'' نقطۂ نظر رکھتے ہیں ، نیز

____________________

(۱)کافی کلینی: ترجمہ ، ج۳، ص ۲، باب طینة المؤمن والکافر ، چوتھا ایڈیشن ، اسلامیہ تہران ، ۱۳۹۲ ھ.(۲)نہج البلا غہ، حکمت:۲۶۲:

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

ہے_و قل رب زدنى علما

۲۷ _ دعا ميں ''رب'' كے نام كو ذكر كرنا دعا كے آداب ميں سے ہے _و قل رب زدنى علما

آفرينش :اس كا حاكم ۲، ۵; اس كا تحت قانون ہونا ۴; اس كا مالك ۲، ۵; اس كا نظام ۸

اسما و صفات:صفات جلال۳

انبيا(ع) :ان كے علم كا دائرہ ۲۲; انكى تربيت كرنے والا۲۱; انكا معلم ۲۱

خداتعالى :اسكى ربوبيت كے اثرات ۱۹; اسكى خصوصيات ۶; اس كا بے نظير ہونا ۱; اسكى تعليمات ۲۱; اسكى نصيحتيں ۱۲، ۱۷; اسكى حاكميت كا دائمى ہونا ۵; اسكى مالكيت كا دائمى ہونا ۵; اسكى حكمراني۲; اسكى حكمرانى كى حقانيت ۷; اسكى حكومت كى حقانيت ۶; اسكى حقانيت ۳; اسكى حكمت۴; يہ اور باطل۳; اسكى ربوبيت ۲۱; اس كا علو ۱; اس كا كمال ۱; اسكى مالكيت ۲; اسكى حاكميت كى نشانياں ۷، ۸; اسكے علو كى نشانياں ۷، ۸; اسكے علم كى وسعت ۲۲

دعا:اسكے آداب ۷; علم ميں اضافے كى دعا ۱۷، ۲۶

ذكر:ربوبيت خدا كا ذكر ۲۷

عجلت:اسكے اثرات ۲۵

محبت:حفظ قرآن كى محبت ۱۱

علم:اسكى آفات ۲۵; اس كا زيادہ ہونا ۱۸; اس كا سرچشمہ ۱۹; اسكى وسعت ۱۸; اسكى خصوصيات ۱۸

قرآن كريم:اس ميں عجلت كرنے سے اجتناب كرنا ۲۳; اسكے حفظ كى اہميت ۱۱; اسكے نزول كى اہميت ۷; اسكے نزول ميں عجلت كرنا ۹; اسكے نزول كا متعدد ہونا۱۶; اس كا علم ہونا ۲۰; اس كا تدريجى نزول ۱۴; اس كا وحى ہونا ۱۳; اسكى خصوصيات ۱۳ظقيامت:اس كا كردار ۸

محمد(ص) :آپ(ص) كے علم كا زيادہ ہونا ۲۲; آپكى تلاوت قرآن ۱۰، ۱۲; آپ كو نصيحت ۱۲، ۱۷; آپ(ص) كے مطالبے ۹; آپكے علم كے زيادہ ہونے كا پيش خيمہ ۲۳; آپ كى عجلت ۱۰، ۱۲; آپكى محبت ۱۱; آپ كا علم ۱۵، ۲۴; آپ(ص) اور قرآن ۱۵; آپ كا معلم ۲۳; آپكى نعمتيں ۲۴; آپكى طرف وحى ۱۰

نعمت:يہ جنكے شامل حال ہے ۲۴; علم كى نعمت ۱۹

۲۲۱

آیت ۱۱۵

( وَلَقَدْ عَهِدْنَا إِلَى آدَمَ مِن قَبْلُ فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْماً )

اور ہم نے آدم سے اس سے پہلے عہد ليا مگر انھوں نے اسے ترك كرديا اور ہم نے ان كے پاس عزم و ثبات نہيں پايا (۱۱۵)

۱ _ قرآن خداتعالى كے وعدوں اور نصيحتوں پر مشتمل ہے_و كذلك ا نزلنه لعلهم و لقد عهدنا إلي ء ادم من قبل ''عہد'' يعنى نصيحت (قاموس) اور ''و لقد عہدنا'' ميں ''واو'' نے حضرت آدم (ع) كى داستان كا اس سے پہلے والے مطالب (و كذلك ا نزلناہ) پر عطف كيا ہے خداتعالى كے حضرت آدم كے ساتھ عہد كا قرآن كے نازل كرنے كے ساتھ ارتباط اس بات كو بيان كررہا ہے كہ قرآن لوگوں كو خداتعالى كى نصيحتيں سكھانے كيلئے ہے_

۲ _ خداتعالى نے انسان كى خلقت كے آغاز ميں اور نزول قرآن كے زمانے سے پہلے ابوالبشر آدم(ع) كے سامنے خواہش اور نصيحت ركھى تھى _و كذلك ا نزلناه و لقد عهدنا إلى ء ادم من قبل

گذشتہ آيت قرينہ ہے كہ كلمہ ''قبل'' كا مضاف اليہ قرآن كے نزول كا زمانہ ہے اور ممكن ہے اس سے مراد ان واقعات سے قبل ہو جن كا تذكرہ اس سورت كے آغاز سے ہى كيا گيا ہے اور خداتعالى نے حضرت آدم كے ساتھ جو عہد كيا تھا اس سے مراد _ جيسا كہ حضرت آدم كے قصے كى ديگر آيات سے استفادہ ہوتا ہے_ ممنوعہ درخت سے نہ كھانا تھا _

۳ _ حضرت آدم(ع) نے خداتعالى كى نصيحت پر عمل نہ كيا _و لقد عهدنا إلى ء ادم من قبل فنسي

حضرت آدم(ع) كے ساتھ شيطان كى گفتگو (ما نہاكما ربكما اعراف ۲۰) قرينہ ہے كہ نسيان سے مراد حقيقى فراموشى نہيں تھى بلكہ اس كا لازمہ (ترك عمل) تھي_

۴ _ حضرت آدم(ع) ميں خداتعالى كى نصيحت پر كاربند ہونے كيلئے لازمى عزم و ارادہ نہيں تھا _و لقد عهدنا إلى ء ادم فنسى و لم نجد له عزما

۵ _ خداتعالى كى نصيحتوں پر عمل كرنے كيلئے سنجيدہ عزم

۲۲۲

اور تصميم قابل قدر عادت ہے _و لقد عهدنا إلى ء ادم فنسى و لم نجد له عزما

''نہيں تھا'' كى بجائے ''ہم نے نہيں پايا'' كى تعبير اس بات كو بيان كرر ہى ہے كہ ايسے موارد ميں عزم كا وجود مطلوب اور متوقع ہے_

۶ _ خداتعالى كى نصيحتوں پر عمل كرنے كيلئے سنجيدہ عزم و تصميم انسان كے بارگاہ خداوندى ميں قابل قدر ہونے كا سبب ہے _و لم نجد له عزم ''لم نجد'' ميں فاعلى ضمير دلالت كرتى ہے كہ حضرت آدم (ع) ميں عزم كا وجود خداتعالى كو مطلوب تھا اور اس كا نہ ہونا خلاف توقع تھا_

۷ _'' عن ا ب جعفر(ع) قال:إن الله تبارك و تعالى عهد إلى ء ادم (ع) ا ن لا يقرب الشجرة نسى فا كل منها وهو قول الله تبارك و تعالى :''و لقد عهدنا إلى ء ادم من قبل فنسى و لم نجد له عزماً'' ; امام باقر(ع) سے روايت كى گئي ہے كہ خداتعالى نے حضرت آدم(ع) كو حكم ديا تھا كہ اس درخت كے نزديك نہ جائيں انہوں نے وہ حكم فراموش كرديا اور اس درخت سے كھا ليا اور يہى مراد ہے خداتعالى كے فرمان''ولقد عهدنا '' سے_(۱)

آدم(ع) :انكو نصيحت ۲، ۷; انكى نافرمانى ۴; انكى عہدشكنى ۳، ۷; انكى فراموشى ۷; انكا قصہ ۲، ۳، ۴

اخلاق:اخلاقى فضائل ۵

اقدار:انكا معيار ۶

خداتعالى :اسكى نصيحتوں پر عمل كے اثرات ۶; اسكے عہد پر عمل كى تصميم ۵; اسكى نصيحتيں ۱، ۲، ۷; اسكى نصيحتوں پر عمل ۴; اس كا عہد۱; اسكے ساتھ عہد شكنى ۳، ۷

روايت :۷

قرآن كريم:اسكى تعليمات ۱

____________________

۱ ) كمال الدين صدوق ص ۲۱۳ ب ۲۲ ح ۲ نورالثقلين ج۳ ص ۳۹۹ ح ۱۴۷_

۲۲۳

آیت ۱۱۶

( وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ أَبَى )

اور جب ہم نے ملائكہ سے كہا كہ تم سب آدم كے لئے سجدہ كرو تو ابليس كے علاوہ سب نے سجدہ كرليا اور اس نے انكار كرديا (۱۱۶)

۱ _ فرشتوں كے حضرت آدم(ع) كے سامنے سجدہ كرنے اور ابليس كے سجدہ نہ كرنے كى داستان قابل توجہ اور سبق آموز ہے_و إذ قلنا للملئكة اسجدو ''إذ'' فعل محذوف كا مفعول ہے اور اس جيسى آيات كے قرينے سے وہ فعل ''اذكر'' (ياد كرو اور خاطر ميں ركھو)ہے_

۲ _ خداتعالى كے حكم سے فرشتے حضرت آدم(ع) كيلئے سجدہ كرنے اور ان كے سامنے خاضع ہونے پر مامور ہوئے

و إذ قلنا للملئكة اسجدوا لا دم

۳ _ سب فرشتوں نے حضرت آدم(ع) كيلئے سجدے كے حكم كے سامنے سر تسليم خم كيا او ربلاتوقف ان كے سامنے سجدہ ميں گر گئے_فسجدو حرف ''فائ'' سجدے والے حكم اور اسكے انجام كے درميان فاصلہ نہ ہونے پر دلالت كرتا ہے_

۴ _ فرشتوں كى طرح ابليس بھى حضرت آدم(ع) كے سامنے سجدہ كرنے پر مأمور تھا _للملئكة اسجدوا لا دم فسجدوا إلا إبليس

۵ _ ابليس نے حضرت آدم(ع) كے سامنے سجدہ كرنے كے سلسلے ميں حكم خداوندى كى نافرمانى كى _فسجدوا إلا إبليس ا بى

۶ _ ابليس خدا كى اطاعت يا معصيت پر مجبور نہيں تھا _فسجدوا لا دم إلا إبليس ا بى

۷ _ فرشتوں اور ابليس كى خلقت انسان كى خلقت پر مقدم تھى _للملئكة اسجدوا إلا إبليس ا بى

۲۲۴

۸ _ حضرت آدم(ع) كا مقام اور مرتبہ فرشتوں سے برتر تھا _و إذ قلنا للملئكة اسجدوا لا دم

۹ _ انسان اپنى وسيع استعداد اور ذاتى صلاحتيوں كى وجہ سے فرشتوں سے برتر ہے _للملئكة اسجدوا لأدم

۱۰ _ كسى دوسرى چيز كے سامنے سجدہ خداتعالى كے حكم سے اور اسكى اطاعت كرتے ہوئے جائز ہے اور اس شے كى پرستش كى علامت نہيں ہے_و إذ قلنا للملئكة اسجدوا لأدم

آدم(ع) :انكى فرشتوں پر برترى ۵; ان كے قصے سے عبرت حاصل كرنا ۱; انكا قصہ ۳، ۴، ۸; انكا مقام و مرتبہ ۵

ابليس:اس كا اختيار۹; اسكى خلقت كى تاريخ ۱۰; اسكى شرعى ذمہ دارى ۸; اسكى نافرمانى ۱، ۴

احكام: ۷

اطاعت:خدا كى اطاعت ۷

انسان:اسكى استعداد ۶; فرشتوں پر اسكى برترى ۶; اسكى خلقت كى تاريخ ۱۰; اسكے فضائل ۶

جبر و اختيار: ۹

خداتعالى :اسكے اوامر ۲، ۷

ذكر:آدم كے قصے كا ذكر ۱

سجدہ:اسكے احكام ۷; غير خدا كو سجدے كا جواز ۷; آدم(ع) كے سامنے سجدہ ۲، ۳، ۸; آدم(ع) كے سامنے سجدے كو ترك كرنا ۴

عبرت:اسكے عوامل ۱

نافرماني:خدا كى نافرمانى ۴

فرشتے:انكى استعداد ۶; انكا مطيع ہونا ۳; انكى خلقت كى تاريخ ۱۰; انكى شرعى ذمہ دارى ۲، ۸; انكا سجدہ ۳; انكا آدم(ع) كے سامنے سجدہ ۱; انكے فضائل ۶; انكا مقام و مرتبہ ۵

۲۲۵

آیت ۱۱۷

( فَقُلْنَا يَا آدَمُ إِنَّ هَذَا عَدُوٌّ لَّكَ وَلِزَوْجِكَ فَلَا يُخْرِجَنَّكُمَا مِنَ الْجَنَّةِ فَتَشْقَى )

تو ہم نے كہا كہ آدم يہ تمھارا اور تمھارى زوجہ كا دشمن ہے كہيں تمھيں جنّت سے نكال نہ دے كہ تم زحمت ميں پڑجاؤ (۱۱۷)

۱ _حضرت آدم(ع) اور ان كى بيوى حوا ،بہشت ميں رہائش پذير تھے _فقلنا فلا يخرجنكما من الجنة

''جنة''كا معنى باغ ہے اور قرآن ميں عام طورپر''الجنة'' بہشت كے معنى ميں استعمال ہوا ہے قابل ذكر ہے كہ آدم و حوا كا اپنى بہشت سے نكلنا اس بات كى علامت ہے كہ وہ بہشت موعود كے علاوہ تھى _

۲ _ ابليس،آدم(ع) و حوا(ع) كو بہشت سے نكالنے كيلئے كمين لگائے ہوئے تھا _إن هذا عدولك و لزوجك فلا يخرجنكم

۳ _ خداتعالى نے حضرت آدم(ع) كو ابليس كى ان كے ساتھ اور انكى بيوى كے ساتھ دشمنى سے آگاہ كيا_

اسجدوا ا بى فقلنا ى أدم إن هذا عدولك و لزوجك

۴ _ ابليس كا حضرت آدم(ع) كے سامنے سجدہ كرنے سے انكار اسكى حضرت آدم(ع) اور ديگر انسانوں كے ساتھ دشمنى كى علامت ہے _إلا إبليس ا بى فقلنا ى أدم إن هذا عدولك و لزوجك

سجدے سے انكار كے بعد ابليس كو آدم(ع) و حوا(ع) كے دشمن كے طور پر متعارف كرانا اس بات كا غماز ہے كہ ترك سجدہ اس دشمنى كى علامت تھى اور اس كا حوا كا دشمن ہونا اس بات پر دلالت كر رہا ہے كہ حضرت آدم(ع) كے سامنے سجدے والے ماجرا كے بعد ابليس پورى نوع انسانيت كا دشمن ہوگيا تھا_

۵ _ بہشت جو آدم و حوا كى رہائش گاہ تھى وہ ايسى جگہ تھى جو آرام و آسائش كيلئے تيار كى گئي تھى اور وہ ہر قسم كى سختى و مشقت سے دور تھي_فلا يخرجنكما من الجنة فتشقى

۶ _ خداتعالى نے حضرت آدم(ع) كى بہشت سے باہر والى زندگى كو سخت اور رنج آور زندگى قرار ديا اور انہيں اس ميں مبتلا ہونے سے ڈرايا _فلا يخرجنكما من الجنةفتشقى

''شقاوة'' كا معنى ہے سختى اور تنگى (قاموس) بعد والى آيات ميں ان سختيوں كے بعض نمونے تلويحاً بيان كئے گئے ہيں _

۷ _ خداتعالى نے آدم(ع) و حوا(ع) كو انكے ساتھ شيطان كى دشمنى كے سلسلے ميں اس لئے خبردار كيا تا كہ وہ رنج و الم اور سختى ميں گرفتار نہ ہوں _فلايخرجنكما من الجنة فتشقى

۲۲۶

۸ _ ابليس انسان كا دشمن اور بدخواہ ہے اور اسے نعمات الہى سے محروم كرنے اور رنج و الم ميں گرفتار كرنے كے در پے ہےإن هذا عدولك و لزوجك فتشقى

ابليس كى حوا(ع) كے ساتھ دشمنى اس بات كو بيان كر رہى ہے كہ وہ سب انسانوں كا دشمن ہے_

۹ _ آدم (ع) و حوا(ع) اپنى رہائش والى بہشت ميں بھى بعض شرعى ذمہ داريوں كے انجام دينے كے پابند تھے_

فلا يخرجنكم اگر چہ''فلا يخرجنّ'' ابليس كو نہى ہے ليكن اسكے ساتھ آدم و حوا كو مخاطب كرنے كا مطلب يہ ہے كہ يہ ان دو كو شيطان كے القائات سے متاثر ہونے سے نہى ہے_

۱۰ _حوا(ع) اپنى رہائش كى بہشت ميں حضرت آدم(ع) كى بيوى اور انكى سرپرستى ميں تھيں _عدولك و لزوجك فلا يخرجنكم خداتعالى نے حوا(ع) سے متعلق ہدايات حضرت آدم(ع) كے سامنے ركھيں اور حضرت آدم(ع) كو حكم ديا كہ وہ دونوں بہشت سے نكلنے كے اسباب فراہم كرنے سے پرہيز كريں اس طرح كے خطاب كو آدم(ع) كى سرپرستى كى نشانى قرار ديا جاسكتا ہے_

۱۱ _ خداتعالى كے نزديك حضرت آدم(ع) حوا(ع) سے بلند مرتبہ ركھتے تھے_عدولك و لزوجك

اگر چہ بہشت كے ماجرا ميں جناب حوا(ع) حضرت آدم(ع) كے ساتھ انجام ميں شريك تھيں ليكن خداتعالى نے صرف حضرت آدم(ع) كو مخاطب كيا يہ خصوصيت حضرت آدم(ع) كى برترى كى علامت ہے_

۱۲ _ خداتعالى كى حضرت آدم(ع) كے ساتھ بلاواسطہ گفتگو_فقلنا يا ء ادم

۱۳ _ آدم (ع) اور انكى بيوى حوا(ع) خداتعالى كے يہاں بلند مقام ركھتے تھے_اسجدوا لأدم إن هذا عدولك و لزوجك آدم(ع) كے سامنے سجدہ كا حكم كہ جو گذشتہ آيت ميں ذكر كيا گيا ہے_ اور خداتعالى كا حضرت آدم(ع) كو ابليس كى ان كے ساتھ اور حوا(ع) كے ساتھ دشمنى كے بارے ميں خبردار كرنا ان دونوں كے خدا كے نزديك بلند مرتبہ ہونے كى علامت ہے _

۱۴ _ عورت اور مرد دونوں شيطان كے وسوسوں كے شكار ہونے كے خطرے سے دوچار ہيں _فلايخرجنكم

۱۵ _ شوہروں كيلئے ضرورى ہے كہ وہ اپنى بيويوں كے رنج و الم اور سختيوں كو دور كرنے كيلئے كوشش كريں _

فلا يخرجنكما من الجنة فتشقى

۲۲۷

اس بات كو مد نظر ركھتے ہوئے كہ شيطان كى آدم(ع) و حوا(ع) كے ساتھ دشمنى ايك جيسى تھى اور وہ اس بات كے درپے تھا كہ دونوں كو بہشت سے نكال كر انہيں مشقت ميں ڈالے ليكن اسكے باوجود فعل ''تشقى '' مفرد آيا ہے اس كا مطلب يہ ہے كہ حوا(ع) كى سختيوں اور رنج و الم كو دور كرنا بھى حضرت آدم(ع) كى ذمہ دارى تھي_

۱۶ _''حسين بن ميسر قال:سا لت ا با عبد الله (ع) عن جنّة آدم فقال: جنة من جنات الدنيا تطلع فيها الشمس والقمر و لو كانت من جنان الآخره ما خرج منها أبداً'' حسين بن ميسر كہتے ہيں ميں نے امام صادق(ع) سے حضرت آدم(ع) كى بہشت كے بارے ميں سوال كيا تو آپ(ع) نے فرمايا وہ دنيا كے باغوں ميں سے ايك باغ تھا كہ جس پر آفتاب و مہتاب طلوع كرتے تھے اور اگر وہ آخرت كا باغ ہوتا تو ہرگزوہ اس سے خارج نہ ہوتے_(۱)

آدم(ع) :انكى بہشت ميں آسائس۵; انكا انذار ۶; انكى حوا پر برترى ۱۱; بہشت ميں انكى شرعى ذمہ دارى ۹; انكى بہشت كى حقيقت ۱۶; ان كے دشمن ۲، ۳، ۴، ۷; زمين ميں انكى زندگى كى سختى ۶; بہشت ميں انكى رہائش۱; بہشت سے ان كے اخراج كے عوامل ۲; ان كے فضائل ۱۱، ۱۳; ان كے انذار كا فلسفہ ۷; ان كا قصہ ۱، ۴، ۵، ۷، ۹، ۱۰; ان كى مشكلات ۷; انكى بہشت كى خصوصيات ۵، ۹، ۱۰; انكى بيوى ۱۰

ابليس:اس كا دھوكہ دينا ۲، ۸; اسكى دشمنى ۲، ۳، ۷، ۸; اسكى نافرمانى ۴; اسكى دشمنى كى علامتيں ۴

انسان:اسكے دشمن ۴، ۸/حوا(ع) :انكى كفالت كرنا ۱۰; بہشت ميں انكى شرعى ذمہ دارى ۹; ان كے دشمن ۲، ۳، ۷; بہشت ميں انكى رہائش ۱; ان كے فضائل ۱۱، ۱۳; ان كے انذار كا فلسفہ ۷; انكى مشكلات۷

فيملي:اسكى مشكلات كو دور كرنے كا ذمہ دار ۱۵

خداتعالى :اس كا انذار ۶; اسكے انذار كا فلسفہ ۷; اسكى آدم(ع) كے ساتھ گفتگو ۱۲

روايت :۱۶/عورت:اسكے دھوكہ كھانے كا پيش خيمہ ۱۴

سجدہ:آدم (ع) كے سامنے سجدہ ترك كرنا ۴/شوہر:اسكى ذمہ دارى ۱۵

شيطان:اسكے وسوسوں كا خطرہ ۱۴/مرد:اسكے دھوكہ كھانے كا پيش خيمہ ۱۴

مشكلات:ان كا پيش خيمہ ۸/نعمت:اس سے محروميت كے عوامل ۸

____________________

۱ ) كافى ج۳ ص ۲۴۷ ح۲ نورالثقلين ج۱، ص ۶۲، ص ۱۱۷ و ۱۱۸_

۲۲۸

آیت ۱۱۸

( إِنَّ لَكَ أَلَّا تَجُوعَ فِيهَا وَلَا تَعْرَى )

بيشك يہاں جنت ميں تمھارا فائدہ يہ ہے كہ نہ بھوكے رہوگے اور نہ برہنہ رہوگے (۱۱۸)

۱ _ آدم(ع) كيلئے ان كى بہشت ميں خوراك اور لباس كا انتظام تھا _إن لك ا لّا تجوع فيها و لا تعرى

''إن لك ...'' كى تعبير خداتعالى كى جانب سے حضرت آدم(ع) كے ساتھ وعدہ ہے اور يہ بہشت كى خاصيت كا بيان نہيں ہے كيونكہ ممنوعہ درخت سے كھانا اسى بہشت ميں حضرت آدم(ع) كے عريان ہونے كا سبب بنا اور ''لاتعرى '' كا وعدہ ان كے حق ميں عملى نہ ہوا_

۱ _ آدم(ع) و حوا(ع) كو اپنى رہائش والى بہشت ميں لباس و خوراك كى ضرورت تھي_إن لك ا لّا تجوع فيها و لا تعرى

فعلوں كا حضرت آدم(ع) كے ساتھ مختص ہونا شايد اس لئے ہے كہ خداتعالى كى اصل گفتگو آدم(ع) كے ساتھ تھى اور دونوں كو مخاطب كرنے كى ضرورى نہيں تھي_ پس لباس اور خوراك كى جہت سے آدم(ع) كى طرح حوا كى ضرورت بھى پورى ہو رہى تھي_

۳ _ انسان كى آفرينش كے آغاز سے ہى لباس اور خوراك اسكى اصلى ضروريات ميں سے تھے_إن لك ا لّا تجوع فيها و لا تعرى

آدم(ع) :انكا لباس۲; انكى بہشت ميں لباس ۱; انكا كھانا ۲; انكى بہشت ميں كھانا ۱; انكا قصہ ۱، ۲; انكى مادى ضروريات ۲; انكى بہشت كى خصوصيات ۱، ۲

انسان:اسكى مادى ضروريات ۳

حوا(ع) :انكالباس۲;انكاكہانا۲;انكى مادى ضروريات ۲

ضروريات:لباس كى ضرورت ۲، ۳; كہاناكى ضرورت ۲، ۳

۲۲۹

آیت ۱۱۹

( وَأَنَّكَ لَا تَظْمَأُ فِيهَا وَلَا تَضْحَى )

اور يقينا يہاں نہ پيا سے رہوگے اور نہ دھوپ كھاؤ گے (۱۱۹)

۱ _ حضرت آدم (ع) اپنى بہشت ميں پياس اور دھوپ كى تپش سے محفوظ تھے _و ا نك لا تظمئوا فيها و لا تضحى

''لاتضحى '' يعنى آپ سورج كے روبرو قرار نہيں پائيں گے اور اسكى تپش آپ تك نہيں پہنچے گى (لسان العرب) يہ وصف ''جنة'' كے لغوى معنى كو مد نظر ركھتے ہوئے كہ جو درختوں سے ڈھكا ہوا باغ ہے_ آدم(ع) كى رہائش گاہ ميں كثير سايہ كے وجود كى طرف اشارہ ہے_

۲ _ آغاز خلقت سے پانى اور گھر انسان كى بنيادى ضروريات ميں سے ہيں _و ا نك لا تظمئوا فيها و لا تضحى

۳ _ بہشت سے باہر انسان كى بنيادى ضروريات (خوراك، لباس، پاني، گھر) كى فراہمى كا مشكل ہونا خداتعالى كى طرف سے حضرت آدم(ع) كو تنبيہ _فتشقى إن لك ا لا تجوع فيها و لا تعري و أنك لاتضحى

''ا نك'' كا عطف ''ا لّا تجوع'' پر ہے اور جملہ''إن لك '' ''فتشقى '' كى تفسير ہے بھوك، برہنگي، دھوپ اور پياس كى نفى ان سختيوں كى طرف اشارہ ہے كہ جنكا بہشت سے اخراج كى صورت ميں حضرت آدم(ع) كو سامنا ہوگا_

آدم(ع) :انكى بہشت ميں تشنگى ۱; انكا قصہ ۱; انكى بہشت ميں گرمي۱; انكى بہشت كى خصوصيات۱; انكو خبردار كرنا ۳

انسان:اسكى مادى ضروريات ۲

خداتعالى :اس كا خبردار كرنا ۳

ضروريات:دنيوى ضروريات كى فراہمى كا مشكل ہونا۳; پانى كى ضرورت۲; گھر كى ضرورت ۲

۲۳۰

آیت ۱۲۰

( فَوَسْوَسَ إِلَيْهِ الشَّيْطَانُ قَالَ يَا آدَمُ هَلْ أَدُلُّكَ عَلَى شَجَرَةِ الْخُلْدِ وَمُلْكٍ لَّا يَبْلَى )

پھر شيطان نے انھيں وسوسہ ميں مبتلا كرنا چاہا اور كہا كہ آدم ميں تمھيں ہميشگى كے درخت كى طرف رہنمائي كردوں اور ايسا ملك بتادوں جو كبھى زائل نہ ہو (۱۲۰)

۱ _ شيطان، ابليس كا دوسرا نام اور پہچان ہے_إلا إبليس إن هذا عدو فوسوس إليه الشيطان

''شيطان''،''شطن'' كے مادہ سے ليا گيا ہے كہ جس كا معنى ہے دورى يا لمبى رسى يہ اشتقاق ابليس كى رحمت خدا سے دورى يا لمبى خباثت كى طرف اشارہ ہے _

۲ _ شيطان انسانوں كے دلوں ميں وسوسے ڈالتا ہے_فوسوس إليه الشيطان

۳ _ شيطان بہشت ميں حضرت آدم(ع) كو وسوسے ميں ڈال كر انہيں بہشت سے نكلوانے كيلئے زمينہ ہموار كررہا تھا_

فلا يخرجنكما فوسوس إليه الشيطان

۴ _ شيطان، حضرت آدم(ع) كى بہشت ميں حاضر ہوا تھا _قال يا أدم

۵ _ شيطان كى حضرت آدم(ع) كے ساتھ بلاواسطہ گفتگو _قال يا أدم

۶ _ آدم (ع) كى ہميشگى درخت اور دائمى مملكت و سلطنت كى طرف رہنمائي شيطان كا آدم و حوا(ع) كو دھوكہ دينے اور انہيں ممنوعہ درخت كا پھل كھانے پر مجبور كرنے كيلئے جال _هل ا دلك على شجرة الخلد و ملك لا يبلى

''شجرة الخلد'' سے مراد وہ درخت ہے كہ جسكے پھل كا كھانا دوام كا سبب ہو ''ملك'' كا معنى مال ہے اور سلطنت بھى ہے (قاموس) ''ملك لايبلى '' سے مراد وہ سلطنت اور حكمرانى ہے جسے كبھى زوال نہ ہو _

۷ _ خيرخواہيكا لبادہ، انسانوں كے دلوں ميں وسوسے ڈالنے اور انہيں دھوكہ دينے كيلئے شيطان كى روش ہے_

فوسوس إليه الشيطان فقال هل ا دلك

۸ _ انسان دائمى زندگى اور فنا نہ ہونے والے ملك اور مالكيت كا خواہاں ہے_هل ا دلك على شجرة الخلد و ملك لايبلى شيطان نے حضرت آدم(ع) كے سلسلے ميں اپنے وسوسوں كو مؤثر بنانے كيلئے ان چيزوں سے استفادہ كيا جو آدم(ع) ميں موجود تھيں وہ چيزيں ہميشہ رہنے اور فنا نہ ہونے والى مالكيت كى طرف تمايل ہے_

۲۳۱

۹ _ حضرت آدم(ع) كو بہشت ميں اپنى دائمى رہائش كا اطمينان نہيں تھا_إن لك ا لّاتجوع هل ا دلك على شجرة الخلد خداتعالى نے حضرت آدم(ع) كو خوراك، لباس، پانى اور رہائش جيسى ضروريات پورى ہونے كى خبر دى تھى ليكن گويا حضرت آدم(ع) كو ان نعمتوں كى ضمانت كے باوجود اس بہشت ميں اپنے ہميشہ رہنے كا اطمينان نہ تھا اسى وجہ سے شيطان كا وسوسہ ان پر اثر كرگيا _

۱۰ _ شيطان ،انسان كى خواہشات اور آرزؤں سے آگاہ ہے _هل ا دلك على شجرة الخلد و ملك لايبلى

۱۱ _ شيطان انسان كو دھوكہ دينے اور اس كے دل ميں وسوسہ ڈالنے كيلئے اسكى ضروريات اور خواہشات سے استفادہ كرتا ہے_هل ا دلك على شجرة الخلد و ملك لا يبلى

۱۲ _ شيطان اپنے اہداف كى خاطر حقائق كو الٹا كر كے دكھا تا ہے _فلايخرجنكما هل ا دلك على شجرة الخلد

۱۳ _ شيطان انسان كو اپنى خواہشات كے مطابق مجبور نہيں كرسكتا_فوسوس هل ا دلك

۱۴ _ حضرت آدم(ع) بہشت كى بعض درختوں كى خاصيات سے بے خبر تھے _هل ا دلك على شجرة الخلد و ملك لايبلى

آدم(ع) :آپ(ع) اور ممنوعہ درخت۶; انكى بہشت ميں دوام ۹; بہشت سے ان كے اخراج كا پيش خيمہ ۳; انكى بہشت ميں شيطان ۴; انكى بہشت كے پھلوں كے فوائد ۱۴; انكا قصہ ۵، ۶، ۹; ۱۴; ان كے علم كا دائرہ ۱۴; انكا وسوسہ ۳

ابليس:اسكى شيطنت۱; اسكے نام ۱

انسان:اسكى آرزوئيں ۱۰; اس كا اختيار۱۳; اسكى خواہشات ۸، ۱۰; اسكے وسوسے كا پيش خيمہ ۱۱; اسكى ضروريات ۱۱; اس كا وسوسہ ۷

حكومت:

۲۳۲

دائمى حكومت تك پہنچانا ۶; دائمى حكومت كى در خواست ۸

درخت:دائمى درخت تك پہچانا ۶

زندگي:دائمى زندگى كى درخواست ۸

شيطان:اسكى طرف سے خيرخواہى كا تظاہر۷; اسكے دھوكے كى روش ۶، ۱۱، ۱۲; اسكے وسوسوں كى روش۷; اس كا علم ۱۰; اسكى آدم(ع) كے ساتھ گفتگو۵; اس كا نقش و كردار ۱۳; اسكے وسوسے ۲، ۳; اسكى خصوصيات ۲

مالكيت:دائمى مالكيت تك پہنچانا ۶; دائمى مالكيت كى درخواست ۸

ممنوعہ درخت:اس سے كھانے كا پيش خيمہ ۶

آیت ۱۲۱

( فَأَكَلَا مِنْهَا فَبَدَتْ لَهُمَا سَوْآتُهُمَا وَطَفِقَا يَخْصِفَانِ عَلَيْهِمَا مِن وَرَقِ الْجَنَّةِ وَعَصَى آدَمُ رَبَّهُ فَغَوَى )

تو ان دونوں نے درخت سے كھاليا اور ان كے لئے ان كا آگا پيچھا ظاہر ہوگيا اور وہ اسے جنّت كے پتوں سے چھپانے لگے اور آدم نے اپنے پروردگار كى نصيحت پر عمل نہ كيا تو راحت كے راستہ سے بے راہ ہوگئے (۱۲۱)

۱ _ آدم(ع) و حوا(ع) نے شيطان كے وسوسے ميں آكر ممنوعہ درخت سے كھاليا _فوسوس إليه الشيطان فأكلا منه

۲ _ ممنوعہ درخت سے كھانے كے واقع ميں جناب حوا(ع) اپنے شوہر آدم(ع) كى تصميم كے مطابق عمل كررہى تھيں _فوسوس إليه الشيطان فأكلا منه آدم(ع) كا ممنوعہ درخت سے كھانا شيطان كے وسوسوں سے متأثر ہونے كى وجہ سے تھا ليكن حوا(ع) ايسے نہيں تھيں (فوسوس إليہ الشيطان) ممكن ہے حوا(ع) كے اقدام كا سرچشمہ يہ ہو كہ وہ آدم(ع) كے عمل سے متأثر تھيں _

۳ _ آدم(ع) كے خلود، دوام اور لا زوال ملك كى طرف تمايل اور اسكى طمع نے انہيں اور انكى بيوى كو ممنوعہ درخت سے كھانے پر مجبور كيا _

هل ا دلك على شجرة الخلد فأكلا منه

۴ _ آدم (ع) و حوا(ع) باوجود اسكے كہ خداتعالى نے انہيں شيطان كى ان كےساتھ دشمنى كے بارے ميں شدت سے خبردار كيا تھا شيطان كى باتوں سے متأثر ہوگئے_إن هذا عدولك و لزوجك فأكلا منه

۲۳۳

۵ _ آدم(ع) كا شيطان كے وسوسے سے متأثر ہونا اور ممنوعہ درخت سے كھانا ان كے عہد الہى كو فراموش كرنے كا ايك نمونہ تھا_و لقد عهدنا فنسى فأكلا منه آدم(ع) و حوا(ع) كى داستان، ان كے ممنوعہ درخت سے كھانے اور اسكے نتائج كا بيان يہ سب اس مجموعہ كى پہلى آيت كى وضاحت ہے اور عہد الہى كے سلسلے ميں حضرت آدم(ع) كى فراموشى اور ان ميں سنجيدہ عزم كے نہ ہونے كا بيان ہے_

۶ _ خداتعالى كے فرامين اور عہد كى طرف متوجہ رہنا اور انہيں ہميشہ ياد ركھنا انسان كو شيطان كے وسوسوں ميں گرفتار ہونے سے بچاتا ہے_و لقد عهدنا فنسي فأكلا منه

۷ _ انسان دھو كہ كھانے والا ہے_فوسوس فأكلا منه

۸ _ ممنوعہ درخت سے كھانے سے پہلے آدم(ع) و حوا(ع) كى شرمگاہ خود ان سے پوشيدہ تھي_فأكلا منها فبدت لهما سوئ تهم ''سَوأة'' كا معنى ہے شرمگاہ (لسان العرب) اور ممكن ہے ''بدت لہما'' كا معنى يہ ہو كہ ہر ايك كى شرمگاہ دوسرے كيلئے آشكار ہوگئي اور ممكن ہے مراد يہ ہو كہ انكى شرمگاہ خود ان كيلئے آشكار ہوگئي دوسرے احتمال كى بنياد پر ممنوعہ درخت كا پھل كھانا سے پہلے ان كى شرمگاہ خود ان كيلئے بھى پوشيدہ تھي_

۹ _ ممنوعہ درخت سے كھانا آدم(ع) و حوا(ع) كى شرمگاہ كے آشكار ہونے اور ان كى عريانى كا سبب بنا _فأكلا منها فبدت لهما سو ئ تهم

۱۰ _ آدم(ع) و حوا(ع) كى نافرمانى ان كے خداتعالى كے اس وعدے سے محروميت كا سبب بنى كہ بہشت ميں ان كے لباس والى ضرورت پورى ہوگي_إن لك لاتعرى فبدت لهما سوئ تهم

۱۱ _ جھوٹ انسان كو دھوكہ دينے كيلئے شيطان كا ايك ہتھكنڈا _هل ا دلك على شجرة الخلد و ملك لا يبلى ...فبدت لهما سوئ تهم

۱۲ _ شرمگاہوں كے ظاہر ہونے كے بعد آدم(ع) و حوا(ع) انہيں درختوں كے پتوں سے چھپانے كى كوشش كررہے تھے_فبدت لهما سوئ تهما و طفقا يخصفان عليهما من ورق الجنة

''طفقا'' يعنى انہوں نے آغاز كيا اور ''خصف'' اگر ''على '' كے ساتھ متعدى ہو تو اس كا معنى ہوتا ہے چيزوں كو ملا كر سينا اور انہيں ايك جگہ پر ڈالنا يعنى آدم و حوا نے درختوں كے پتوں كو آپس ميں ملاكر اپنے اوپر ڈال ديا _

۲۳۴

۱۳ _ آدم(ع) و حوا(ع) اپنے آپ انسانى غريزے يا عادت كى وجہ سے حتى ايك دوسرے سے بھى اپنى شرم گاہ كو چھپانے كا پابندكئے ہوئے تھے_وطفقا يخصفان عليهما من ورق الجنة

۱۴ _ انسانى فطرت اپنى شرمگاہ كے ظاہر ہونے سے متنفر ہے اور اسے برا سمجھتى ہے_*و طفقا يخصفان عليهم

آدم(ع) و حوا(ع) كى خود كى ڈھانپنے كى كوشش برہنگى كو ناپسنديدہ شمار كرنے كى حكايت كرتى ہے_

۱۵ _ وہ بہشت كہ جس ميں آدم و حوا رہائش پذير تھے ايك مادى باغ اور مادہ كے آثار و خواص كى حامل تھي_يخصفان عليهما من ورق الجنة

۱۶ _ حضرت آدم(ع) نے ممنوعہ درخت سے كھا كر پروردگار كى معصيت كا ارتكاب كيا _فأكلا وعصى ء ادم ربه

۱۷ _ ممنوعہ درخت سے كھانے سے پہلے حضرت آدم(ع) كو خداتعالى كى جانب سے اسكى ممنوعيت كا حكم مل چكا تھا_

فأكلا منها و عصى ء ادم ربه ''عصيان'' اس صورت ميں ہوسكتا ہے جب خداتعالى كى جانب سے امر يا نہى صادر ہوچكا ہو بنابراين اگر چہ ان آيات ميں اس درخت كے ممنوع ہونے كى تصريح نہيں كى گئي ليكن عصيان كا ذكر كرنا اس درخت سے كھانے كے سلسلے ميں نہى كے صادر ہونے كا واضح گواہ ہے_

۱۸ _ خداتعالى كے اوامر و نواہى اور متنبہ كرنا سب ،انسان كے رشد و تكامل اور تربيت كيلئے ہے_ربّه

۱۹ _ حضرت آدم(ع) بہشت ميں دائمى زندگى اور ابدى حكومت كو حاصل نہ كرسكے اور اپنى خواہش كے سلسلے ميں ناكام رہے_هل ا دلك على شجرة الخلد فأكلا فعصى ء ادم ربه فغوى ''غوى '' يعنى ناكام ہوگيا اور راستے كو گم كر بيٹھا (مصباح) ابليس كے وسوسے قرينہ ہيں كہ آدم(ع) كى ناكامى اور گمراہى سے مراد ان كا شيطان كى طرف سے القاء كى گئي آرزؤں كو نہ پانا ہے_

۲۰ _پروردگار كى نافرمانى انسان كى ناكامى اور اسكے رشد وتكامل سے محروم رھنے كا سبب ہے _و عصى ء ادم ربه فغوى

۲۱ _ آدم(ع) خداتعالى كى نافرمانى اورممنوعہ درخت سے كھانے كے نتيجے ميں اپنى ترقى سے محروم رہے_فغوى ''غوى كا مصدر'' ''غي''ہے جوكہ ''رشد'' كى ضد ہے (مقاييس اللغة)

۲۲ _ ہر گناہ كے نتائج اس گناہ كا ارتكاب كرنے والے سب افراد كيلئے ايك جيسے نہيں ہوتے ہيں _فأكلا و عصى ء ادم ربه فغوى جناب حوا(ع) كى نافرمانى كا تذكرہ كرنا شايد اس وجہ سے ہو كہ اپنى نافرمانى ميں وہ خود اصل نہيں تھيں بلكہ انہوں نے اپنے شوہر كے عمل كو اپنے لئے نمونہ بنايا تھا لہذا انكى نافرمانى حضرت آدم(ع) كى نافرمانى كى حد تك نہيں تھي_

۲۳۵

۲۳ _ '' رب'' خداوند متعال كے اسماء و صفات ميں سے ہيں _و عصى ء ادم ربّه

۲۴ _'' عن ا بى عبدالله (ع) فى قوله: '' بدت لها سوا تهما'' قال: كانت سوا تهما لا تبدو لهما ; يعني، كانت داخلة; خداتعالى كے فرمان ''بدت لہما سوء تہما'' كے بارے ميں امام صادق(ع) سے روايت كى گئي ہے كہ اس سے پہلے ان دونوں (آدم و حوا) كى شرمگاہيں ان كيلئے آشكار نہيں تہيں كيونكہ انكى شرمگاہيں ( انكے بدن كى جلد كے) اندر تھيں(۱)

۲۵ _'' قال ا بو عبدالله (ع) : فلمّا ا سكن الله عزوجل آدم و زوجته الجنة قال لهما; '' و لا تقربا هذه الشجرة ...'' فلما ا كلا من الشجرة طار الحلى و الحلل عن اجسادهما و بقيا عريانين ; (ايك حديث ميں ) امام صادق(ع) سے روايت كى گئي ہے كہ آپ (ع) نے فرمايا جب خداتعالى نے آدم و حوا كو بہشت ميں جگہ دى تو انہيں فرمايا اس درخت كے نزديك نہ جانا اور انہوں نے جونہى اس درخت سے كھايا تو ان كے جسم سے زيور اور لباس اڑ گئے اور وہ عريان رہ گئے_(۲)

۲۶ _'' عن الرضا (ع) قال: كان ذلك من آدم قبل النبوة و لم يكن ذلك بذنب كبير استحق به دخول النار و إنما كان من الصغائر الموهوبة التى تجوز على الا نبياء قبل نزول الوحى عليهم ...; (خداتعالى كے فرمان)'' و عصى آدم ربہ فغوى '' كے بارے ميں امام رضا(ع) سے روايت كى گئي ہے كہ آپ(ع) نے فرمايا حضرت آدم(ع) كى يہ نافرمانى نبوت سے پہلے تھى اور يہ كوئي ايسا بڑا گناہ نہيں تھا كہ جسكى وجہ سے حضرت آدم(ع) آگ كے مستحق ہوتے بلكہ صغيرہ گناہوں ميں سے تھا كہ جو بخش ديا گيا اور وحى كے نازل ہونے سے پہلے يہ انبياء كيلئے ممكن ہے _(۳)

آدم (ع) :انكى طمع كے اثرات ۳; انكى نافرمانى كے اثرات ۱۰، ۲۱; آپ نبوت سے پہلے ۲۵; آپ اور ممنوعہ درخت ۱، ۲، ۵، ۸، ۹، ۱۷; آپكا دھوكے ميں آنا ۱، ۴، ۵; آپكى بہشت كے مادى وسائل ۱۵; آپكے تمايلات ۱۳; آپكى نافرمانى كا پيش خيمہ ۳; آپكى شرمگاہ كا چھپانا ۸، ۱۳، ۲۳; آپكى نافرمانى ۱، ۱۶; آپكى شرمگاہ كے ظاہر ہونے كے عوامل ۹، ۱۰; آپ كى محروميت كے عوامل ۱۰; آپكا غريزہ ۱۳; آپكى فراموشى ۵; آپكا فانى ہونا كو ۱۹; آپكا قصہ ۱، ۲، ۳، ۴، ۵، ۸، ۹، ۱۰، ۱۲، ۱۶، ۱۷، ۱۹، ۲۱، ۲۳، ۲۴; آپكى شرمگاہ كا ظاہر ہونا ۱۲، ۲۴; آپكا گناہ

____________________

۱ )تفسير قمى ج۱، ص ۲۲۵; نورالثقلين ج۲ ص ۱۵ ح ۴۱_ ۲ ) معانى الاخبار، ص ۱۰۹; ح ۱_ نورالثقلين ح۲، ص۱۲، ح ۳۵_

۳ ) عيون اخبارالرضا ج۱ ، ص ۱۹۵، ح۱_ نورالثقلين ج۳، ص ۴۰۳، ح۶۰_

۲۳۶

صغيرہ ۲۵; آپكى نافرمانى سے مراد ۲۵; آپكا نقش و كردار ۲; آپكى بہشت كى خصوصيات ۱۵; آپكو خبردار كرنا ۴

احكام:انكا فلسفہ ۱۸

انبياء (ع) :يہ نبوت سے پہلے ۲۵

انسان:اس كا دھوكے ميں آنا ۷; اسكى فطرت ۱۴; اسكى محروميت كے عوامل ۲۰

تربيت:اس ميں مؤثر عوامل ۱۸

تكامل:اسكے عوامل ۱۸; اسكے موانع ۲۰

حوا(ع) :انكى نافرمانى كے اثرات ۱۰; انكا دھوكے ميں آنا ۱، ۴; انكا آدم كى پيروى كرنا ۲; يہ اور ممنوعہ درخت ۱، ۲، ۸، ۹; انكى نافرمانى كا پيش خيمہ ۳; انكى شرمگاہ كا چھپانا ۸، ۱۳، ۲۳; انكى نافرمانى ۱; انكى شرمگاہ كے ظاہر ہونے كے عوامل ۹، ۱۰; انكى محروميت كے عوامل ۱۰; انكا غريزہ ۱۳; انكى شرمگاہ كا ظاہر كرنا ۱۲، ۲۴; انكو خبردار كرنا ۴

خداتعالى :اسكے عہد كى فراموشي۵; اسكے اوامر كا فلسفہ ۱۸; اسكے نواہى كا فلسفہ ۱۸;اسكے متنبہ كرنا كا فلسفہ ۱۸; اس كا متنبہ كرنا ۴

ممنوعہ درخت:اس سے كھانے كے اثرات ۹، ۱۶، ۲۱; اس سے كھانا ۱، ۲، ۵; اس سے كھانے كا پيش خيمہ ۳

جھوٹ:اسكے اثرات ۱۱

ذكر:عہد خدا كے ذكر كے اثرات ۶روايت: ۲۳، ۲۴، ۲۵

شخصيت:اسكى آسيب شناسى ۲۰

شيطان:اسكے فريب دينے كا آلہ ۱۱; اس كا جھوٹ بولنا ۱۱; اسكى دشمنى ۴; اسكے وسوسوں كى تاثير كے موانع ۶; اسكے وسوسے ۱، ۵

نافرماني:خدا كى نافرمانى كے اثرات ۲۰

شرمگاہ:اسے درخت كے پتوں سے چھپانا ۱۲; اسے ظاہر كرنے كاناپسند ہونا ۱۴

گمراہي:اسكے عوامل ۱۱

گناہ:اسكے اثرات ۲۲

گناہ گار لوگ:انكا تفاوت ۲۲

۲۳۷

آیت ۱۲۲

( ثُمَّ اجْتَبَاهُ رَبُّهُ فَتَابَ عَلَيْهِ وَهَدَى )

پھر خدا نے انھيں چن ليا اور انكى توبہ قبول كرلى اور انھيں راستہ پر لگاديا (۱۲۲)

۱ _ حضرت آدم(ع) نافرمانى اور ممنوعہ درخت سے كھانے كے بعد اپنے كئے سے پشيمان ہوئے اور بارگاہ خداوندى ميں توبہ كرنے لگے _ثم اجتبه ربه فتاب عليه ''اجتبي'' كے اصل مادہ ''جباية'' كا معنى ہے جمع كرنا اور حاصل كرنا اور ''اجتبائ'' كا معنى ہے ''اصطفائ'' (خالص چيز كو انتخاب كرنا) اور اختيار (لسان العرب) اس بناپر ''اجتباہ ربہ'' يعنى خداتعالى نے حضرت آدم(ع) كے ادھر ادھر كے تمايلات كو ختم كرديا اور سب كو اپنے لئے جمع كرليا اور انہيں اپنے لئے خالص كر ليا_ يہ تعبير حضرت آدم(ع) كے غير خدا سے مكمل طور پر منقطع ہونے اور انكى حقيقى توبہ سے حكايت كرتى ہے_

۲ _ خداتعالى نے حضرت آدم(ع) كے رشد و ترقى كيلئے ان كے غير الہى تمايلات كو ان سے دور كرديا اور انہيں اپنے لئے خالص كرليا _ثم اجتبه ربه فتاب عليه

۳ _ خداتعالى كى طرف سے حضرت آدم(ع) كو دوبارہ قبول كرنا اور انہيں چن لينا ممنوعہ درخت سے كھانے والى خطا سے كچھ مدت گزرنے كے بعد ہوا_ثم اجتبه ربه فتاب عليه

''ثم'' تراخى كيلئے ہے اور بتاتا ہے كہ اجتبائے الہى كہ جو آدم(ع) كو توبہ اور غير خدا سے منقطع ہونے كى توفيق دينا تھا_ كچھ دير سے انجام پايا _

۴ _ خداتعالى كى طرف سے حضرت آدم(ع) كو چننا اسكى ربوبيت كا ايك جلوہ ہے_ثم اجتبه ربه

۵ _ خداتعالى نے عطوفت اور مہربانى كى ساتھ حضرت آدم(ع) كى توبہ قبول كى اور انكا گناہ معاف كرديا _ثم اجتبه ربه فتاب عليه

''تاب'' يعنى لوٹ آيا اور حرف ''على '' كى وجہ سے اس ميں عطوفت و رحمت كا معنى تضمين كيا گيا ہے يعنى خداتعالى نے اس حالت ميں آدم(ع) كى

۲۳۸

طرف توجہ اور ان پر عنايت كى كہ وہ ان پر عطوف اور مہربان تھا_

۶ _ حضرت آدم(ع) كا غير خدا سے مكمل طور پر منقطع ہونے اور ان كى پورى توجہ كے خدا كى طرف مڑ جانے كى وجہ سے خداتعالى نے انہيں اپنى عنايات سے دوبارہ نوازا_اجتبه ربه فتاب عليه

حرف ''فا'' ''تاب عليہ '' كے اس سابقہ جملہ پر متفرع ہونے كو بيان كر رہا ہے كہ جو حضرت آدم(ع) كى تمام وابستگيوں اور تمايلات كے سمٹ كر خداتعالى كى طرف متوجہ ہونے پر دلالت كرتا ہے_

۷ _ حضرت آدم(ع) منتخب اور معاف ہونے كے بعد ہدايت الہى سے بھى بہرہ مند ہوئے_ثم اجتبه ربه فتاب عليه و هدى

۸ _ حضرت آدم(ع) نے گناہ كى بخشش كے بعد اپنے رشد و ترقى كى راہ كو پاليا_و هدى

گذشتہ آيت ميں آيا تھا كہ حضرت آدم(ع) نافرمانى اور عصيان كے بعد اپنے رشد و تكامل سے محروم رہ گئے (غوى ) اس آيت ميں فعل ''ہدى '' دلالت كررہا ہے كہ خداتعالى نے اس گمراہى كے آثار كو ختم كرديا اور انہيں كمال اور برگزيدگى كى راہ دكھا دى _

۹ _ حضرت آدم(ع) بارگاہ خداوندى ميں قابل قدر شخصيت كے مالك تھے_ثم اجتبه ربه فتاب عليه و هدى

۱۰ _ حضرت آدم(ع) كى توبہ كو قبول كرنا اور انہيں خدا كى طرف حركت كى رہنمائي كرنا ان كيلئے خداتعالى كى تربيت اور اسكى ربوبيت كا ايك جلوہ تھا_ثم اجتبه ربه فتاب عليه و هدى كلمہ ''ربہ'' كا فعل ''تاب'' اور ''ہدى '' كے ساتھ ارتباط مذكورہ مطلب كو بيان كررہا ہے اور ''اجتباہ ربہ'' قرينہ ہے كہ ہدايت سے مراد خداتعالى كى طرف ہدايت ہے _

آدم(ع) :ان كے منقطع ہونے كے اثرات ۶; انكى نافرمانى كے اثرات ۱; آپ اور ممنوعہ درخت ۱; انكى بخشش ۵،۸; انكا برگزيدہ ہونا ۲، ۳، ۴، ۷; انكى تربيت ۲، ۱۰; انكا تكامل ۲، ۸; انكى توبہ ۱; انكى پشيمانى كے عوامل ۱; انكے فضائل۹; انكى توبہ كى قبوليت ۳، ۵، ۱۰; انكا قصہ ۱، ۲، ۳، ۵، ۶، ۷، ۸; انكے اخلاص كا سرچشمہ ۲; انكى ہدايت ۷، ۸، ۱۰

خداتعالى :اسكے لطف و كرم كا پيش خيمہ ۶; اسكى مہربانى ۵; اسكى ربوبيت كى نشانياں ۴، ۱۰

ممنوعہ درخت:اس سے كھانے كے اثرات ۱

ہدايت يافتہ فوگ: ۷

۲۳۹

آیت ۱۲۳

( قَالَ اهْبِطَا مِنْهَا جَمِيعاً بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُم مِّنِّي هُدًى فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَايَ فَلَا يَضِلُّ وَلَا يَشْقَى )

اور حكم ديا كہ تم دونوں يہاں سے نيچے اتر جاؤ سب ايك دوسرے كے دشمن ہوں گے اس كے بعد اگر ميرى طرف ہے ہدايت آجائے تو جو ميرى ہدايت كى پيروى كرے گا وہ نہ گمراہ ہوگا اور نہ پريشان (۱۲۳)

۱ _ آدم(ع) و حوا(ع) نے ممنوعہ درخت سے كھا كر بہشت ميں رہنے كى صلاحيت ضائع كردي_فأكلا منهما قال اهبطا منه ''اہبطائ'' ممكن ہے آدم(ع) و حوا(ع) كو خطاب ہو اور ممكن ہے آدم اور ابليس كو خطاب ہو دوسرى صورت ميں چونكہ حو(ع) ا اپنى نافرمانى اور اس كے نتيجے ميں حضرت آدم كے تابع تھيں اسلئے مخاطب قرار نہيں پائيں _ دونوں صورتوں ميں مذكورہ مطلب حاصل ہوتا ہے_

۲ _ خداتعالى نے حضرت آدم(ع) كو دھوكہ دينے اور انہيں وسوسے ميں ڈالنے كى وجہ سے شيطان كو بہشت سے نكال ديا او راسے زمين پر آنے كا حكم ديا_فوسوس إليه الشيطان قال اهبطا منها جميع

مذكورہ مطلب اس بناپر ہے كہ ''اہبطا'' ميں مخاطب آدم(ع) اور شيطان ہوں _

۳ _ آدم(ع) و حوا(ع) بہشت ميں شيطان كے وسوسے پر عمل كرنے اور خداتعالى كے خبردار كرنے كى پروانہ كرنے كى وجہ سے اس بلند مقام سے نكال ديئےئے اور زمين پر اتر آئے _فأكلا منها و عصى ء ادم قال اهبطا منها جميع

''ہبوط'' يعنى ''نزول'' (مصباح) اور ''اہبطا'' كا حكم ايك حكم تكوينى ہے كيونكہ عام طور پر انسان كيلئے زمين پر ہبوط نہيں ہے_

۴ _ شيطان نے اپنے وسوسے اور فريب دہى كے ساتھ آدم(ع) و حوا(ع) كو بہشت سے نكالنے اور ان كے زمين پر ہبوط كے اسباب فراہم كئے _فوسوس إليه الشيطان قال اهبطا منه

۵ _ پروردگار كے حكم كى مخالفت اور نافرمانى انسان كے سقوط اور اسكے مقام كے تنزل كا سبب ہے_و عصى ء ادم قال اهبطا منه جملہ''ثم اجتباه '' اگر چہ ہبوط والے واقعے سے پہلے ذكر ہوا ہے ليكن ان آيات كى بنياد پر كہ جو سورہ بقرہ ميں گزرچكى ہيں حضرت آدم(ع) كى توبہ ہبوط كے بعد وقوع پذير ہوئي تھى اس بناپر جملہ قال ''اہبطا ...'' حضرت آدم(ع) كى نافرمانى كى سزا كا بيان ہے اور ''ثم اجتبہ ...'' جملہ معترضہ ہے_

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750