تفسير راہنما جلد ۱۱

تفسير راہنما 7%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 750

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 750 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 219196 / ڈاؤنلوڈ: 3021
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

رہے ہیں کہ آپ اپنے بیٹے کی بات سنین اور ان کی اطاعت کریں۔”

پیغمبر(ص) کی اس نص کا تذکرہ کن کن کتابوں میں موجود ہے

پیغمبر(ص) کے اس خطبہ کو بعینہ انہی الفاظ میں اکثر علمائے کبار و اجلہ محدثین نے اپنی کتابوں میں درج کیا ہے۔ جیسے ان اسحاق ، ابن جریر، ابنِ ابی حاتم ، ابن مردویہ ، ابونعیم  اور امام بیہقی نے اپنے سنن اور دلائل دونوں مٰیں ثعلبی اور طبری نے اپنی اپنی عظیم الشان تفسیروں میں سورہ شعراء کی تفسیر کے ذیل میں نیز علامہ طبری نے اپنی تاریخ طبری کی دوسری جلد صفحہ217 میں بھی مختلف طریقوں سے اس کو لکھا ہے اور علامہ ابن اثیر جزری نے تاریخ کامل کی دوسری جلد صفحہ22 میں بطور مسلمات ذکر کیا ہے۔

مورخ ابو الفداء نے اپنی تاریخ کی پہلی جلد صفحہ116 میں سب سے پہلے اسلام لانے والے کے ذکر میں درج کیا ہے۔ امام ابوجعفر اسکافی معتزلی نے اپنی کتاب نقض عثمانیہ میں اس حدیث کی صحت کی صراحت کرتے ہوئے لکھا ہے( شرح نہج البلاغہ جلد3 صفحہ263) علامہ حلبی نے آںحضرت(ص) اور اصحاب کے دار ارقم میں روپوش ہونے کے واقعہ کے ضمن میں بیان کیا ہے(1)   (سیرت حلبیہ ج، صفحہ381) ان کے علاوہ تھوڑے بہت لفظی تغیر کےساتھ مگر مفہوم و معنی

--------------

1 ـ ملاحظہ فرمائیے صفحہ 381 جلد اول سیرة حلبیہ۔ ابن تیمیہ نے اس حدیث کو جھٹلانے اور غلط ثابت کرنے کی جو کوششیں کی ہیں۔ اپنی مشہور عصبیت کی وجہ سے وہ در خور اعتنا نہیں اس حدیث کو مصر کے سوشلسٹ ادیب محمد حسین ہیکل نے بھی لکھا ہے ملاحظہ فرمائیے ان کے رسالہ سیاست شمارہ نمبر2751 صفحہ 5 جپر عمود ثانی جو 12 ذیقعد سنہ1350ھ میں شائع ہوا۔ انھوں نے کافی تفصیل سے اس حدیث کو نقل کیا ہے اور شمارہ نمبر2685 صفحہ 6 پر عمود رابع میں انھوں نے اس حدیث کو صحیح مسلم، مسند امام احمد اور عبداﷲ بن احمد کی زیارات مسند اور ابن حجر ہیثمی کی جمع الفوائد، ابن قتیبہ کی عیون الاخبار، احمد بن عبدربہ قرطبی کی عقد الفرید، علامہ جاحظ کے رسالہ بنی ہاشم، امام ثعلبی کی تفسیر ، مذکورہ بالا تمام کتب سے نقل کیا ہے۔ مزید برآں جرجس انکلیزی سے اپنی کتاب مقالہ فی الاسلام مٰیں بھی اس حدیث کو درج کیا ہے جس کا بروتستانت کے ملحد نےعربی میں ترجمہ کیا ہے جس نے اپنا نام ہاشم عربی رکھا ہے۔ اس حدیث کی ہمہ گیر شہرت کی وجہ سے متعدد مورخین فرنگ نے فرانسیسی ، جرمنی، انگریزی تاریخوں میں اس کو ذکر کیا ہے اور ٹامنس کارلائل نے اپنی کتاب ابطال میں مختصر کر کے لکھا ہے۔

۱۶۱

کے لحاظ سے بالکل ایک ہی مضمون ۔ بہتیرے اعیان اہل سنت اور ائمہ احادیث نے اپنی اپنی کتابوں میں اس واقعہ کو تحریر کیا ہے جیسے علامہ طحاوی اور ضیاء مقدسی نے مختارہ ،سعید بن منصور نے سنن میں تحریر کیا ہے۔

سب سے قطع نظر امام احمد نے اپنی مسند جلد اول صفحہ 159 پر حضرت علی (ع) سے روایت کی ہے ۔ پھر اسی جلد کے صفحہ331 پر ابن عباس سے بڑی عظیم الشان حدیث اس مضمون کی روایت کی ہے، جس میں حضرت علی(ع) کی دس ایسی خصوصیتیں مذکور ہیں جن کی وجہ سے حضرت علی(ع) اپنے تمام ماسوا سے ممتاز نظر آتے ہیں۔ اسی جلیل الشان حدیث کو امام نسائی نے بھی اپنی کتاب خصائص صفحہ 60پر ابن عباس سے روایت کر کے لکھا ہے اور امام حاکم نے صحیح مستدرک

۱۶۲

 جلد3 صفحہ 132 پر اور علامہ ذہبی نے تلخیص مستدرک میں اس حدیث کی صحت کا اعتراف کرتے ہوئے نقل کیا ہے۔

کنزالعمال جلد6 ملاحظہ فرمائیے(1) ۔ اس میں بھی یہ واقعہ بہت تفصیل سے موجود ہے۔ منتخب کنزالعمال کو دیکھیے جو مسند احمد بن حنبل کے حاشیہ پر طبع ہوا ہے۔ حاشیہ مسند جلد5 صفحہ 41 تا صفحہ42 پر اس واقعہ کا ذکر موجود ہے اور پوری تفصیل کے ساتھ۔

میرے خیال میں یہی ایک واقعہ جسے تمام علماء محدثین ومورخین بالاتفاق اپنی کتابوں میں لکھتے آئے ہیں حضرت علی(ع) کی امامت و خلافت کا بین ثبوت اور صریحی دلیل ہے۔ کسی دوسری دلیل کی ضرورت ہی نہیں۔

                                                                     ش

--------------

1 ـ ملاحظہ فرمائیے کنزالعمال صفحہ 392 حدیث نمبر6008 جو ابن جریر سے منقول ہے صفحہ 396 پر حدیث 6045 جو امام احمد کی مسند نیز ضیاء مقدسی کی مختارہ ، طحاوی و ابن جریر کی صحیح سے منقول ہے صفحہ 397 پر حدیث 6056 جو ابن اسحق ، ابن جریر ، ابن ابی حاتم، ابن مردویہ، اور ابو نعیم نیز بیہقی کی شعب الایمان اور دلائل سے منقول ہے صفحہ 401 پر حدیث 6102 جو ابن مردویہ سے منقول ہے صفحہ 408 پر حدیث 6155 جو امام احمد کی مسند اور ابن جریر اور صیاء مقدسی کی مختارہ سے منقول ہے۔ کنزالعمال میں یہ حدیث اور بھی مقامات پر مذکور ہے۔ شرح نہج البلاغہ جلد3 صفحہ 255 پر یہ طولانی حدیث بہت تفصیل سے مذکور ہے۔

۱۶۳

مکتوب نمبر11

حدیث مذکورہ بالا کی سند میں تردد

تسلیم زاکیات!

آپ کا مخالف اس حدیث کی سند کو معتبر نہیں سمجھتا نہ کسی طرح اس حدیث کو صحیح سمجھنے پر تیار ہے کیونکہ شیخین یعنی بخاری و مسلم نے اس حدیث کو نہیں لکھا۔ نیز شیخین کے علاوہ دیگر اصحاب صحاح نے بھی نہیں لکھا ۔ میرا تو یہ خیال ہے کہ یہ حدیث معتبر و معتمد راویاں اہلسنت سے مروی ہی نہیں ہوئی اور غالبا آپ بھی بطریق اہل سنت اسے صحیح نہ سمجھتے ہوں گے۔

                                                             س

۱۶۴

جواب مکتوب

نص کا ثبوت

اگر میرے نزدیک اس حدیث کی صحت خود بطریق اہلسنت ثابت نہ ہوتی تو میں اس محل پر اس کا ذکر ہی نہیں  کرتا۔ مزید برآں اس حدیث کی صحت تو ایسی اظہر من الشمس ہے کہ ابن جریر اور امام ابو جعفر اسکافی نے اس حدیث کو بطور مسلمات ذکر کیا ہے(1) ۔ اور کبار محققین اہل سنت نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔ اس حدیث کی صحت کا مختصرا آپ اسی سے اندازہ کر لیجیے کہ اصحاب صحاح جن ثقہ اور معتبر راویوں کی روایتوں سے استدلال کرتے ہیں اور آنکھ بند کرکے بڑی خوشی سے جن کی روایتوں کو لے لیتے ہیں انھیں معتبر و ثقہ راویوں کے طریقوں سے اس حدیث کی صحت ثابت ہے۔ اس حدیث کی روایت انھیں معتبر و موثق اشخاص نے کی ہے جن کی روایت کردہ حدیثیں صحاح میں موجود ہیں۔

--------------

1 ـ ملاحظہ فرمائیے کنزالعمال جلد6 صفحہ 396 پر حدیث 6045 جہاں آپ کو معلوم ہوگا کہ ابن جریر نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔ حاشیہ مسند احمد حنبل جلد5 صفحہ73 پر منتخب کنزالعمال میں بھی آپ کو معلوم ہوگا کہ ابن جریر نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔ امام ابو جعفر اسکافی نے تو اس حدیث کو بڑی پختگی کے ساتھ صحیح قرار دیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیے ان کی کتاب نقض عثمانیہ شرح نہج البلاغہ جلد3، صفحہ363

۱۶۵

مسند احمد بن حنبل جلد اول صفحہ 111 ملاحظہ کیجیے۔ انھوں نے اس حدیث کو(1) اسود بن عامر سے انھوں نے شریک(2) سے انھوں نے اعمش(3) سے انھوں نے منہال(4) سے انھوں نے عباد(5) بن عبداﷲ اسدی سے انھوں نے حضرت علی(ع) سے مرفوعا روایت کرکے لکھا ہے۔ اس سلسلہ اسناد کے کل کے کل راوی مخالف

--------------

1 ـ امام بخاری و مسلم دونوں نے اس کی حدیث سے احتجاج کیا ہے ۔ شعبہ نے امام بخاری و امام مسلم دونوں کی صحت میں اسود سے روایت کر کے حدیث بیان کرتے ہوئے سنا اور عبدالعزیز بن ابی سلمہ نے امام بخاری کو ان سے روایت کرتے ہوئے اور زہیر بن معاویہ اور حماد بن سلمہ نے امام مسلم کو ان سے روایت کرتے ہوئے سنا۔ صحیح بخاری میں محمد بن حاتم بزیع کی ان سے روایت کی ہوئی حدیث موجود ہے اور صحیح مسلم میں ہارون بن عبداﷲ اور ناقد اور ابن ابی شیبہ اور ابو زہیر کی ان سے روایت کردہ حدیثیں موجود ہیں۔

2 ـ امام مسلم نے ان حدیثوں سے اپنے صحیح مسلم میں احتجاج کیا ہے جیسا کہ ہم نے صفحہ134 رپ ان کا تذکرہ کے ضمن میں وضاحت کی ہے۔

3 ـ ان سے امام بخاری و مسلم دونوں نے اپنے اپنے صحیح میں احتجاج کیا ہے جیسا کہ ہم نے صفحہ134 پر وضاحت کی ہے۔

4ـ امام بخاری نے ان سے احتجاج کیا ہے ملاحظہ ہو صفحہ166۔

5 ـ ان کا سلسلہ نسب یہ ہے عباد بن عبداﷲ بن زہیر بن عوام قرشی اسدی۔ ان سے بخاری و مسلم دونوں نے اپنے اپنے صحیح میں احتجاج کیا ہے۔ انھوں نے ابوبکر کی دونوں صاحبزادیوں عائشہ اور اسماء سے حدیثیں سنیں۔ صحیح بخاری و مسلم میں ان سے ابی ملیکہ اور محمد بن جعفر بن زہیر اور ہشام و عروہ کی روایت کردہ حدیثیں موجود ہیں۔

۱۶۶

کے نزدیک حجہ ہیں اور یہ تمام کے تمام رجال صحابہ ہیں۔ چنانچہ علامہ قیسرانی نے اپنی کتاب الجمع بین رجال الصحیحین  میں ان کا ذکر کیا ہے۔ لہذا اس حدیث کو صحیح ماننے کے سوا کوئی چارہ کار ہی نہیں۔ اس کے علاوہ یہ حدیث صرف اسی طریقہ وسلسلہ اسناد سے نہیں بلکہ اور بھی ب شمار طریقوں سے مروی ہے اور ہر طریقہ دوسرے طریقہ کا موید ہے۔

نص سے کیوں اعراض کیا؟

اور شیخین یعنی بخاری و مسلم نے اس لیے اس روایت کو اپنی کتاب میں  جگہ نہیں دی کہ یہ روایت مسئلہ خلافت میں ان کی ہمنوائی نہیں کرتی تھی ان ک منشاء کے خلاف تھی اسی وجہ سے انھوں نے اس حدیث نیز دیگر بہتیری ایسی حدیثوں سے جو امیر المومنین(ع) کی خلافت پر صریحی ںص تھیں گریز کیا اور اپنی کتاب میں درج نہ کیا۔ وہ ڈرتے تھے کہ یہ شیعوں کے لیے اسلحہ کا کام دیں گی لہذا انھوں نے جان بوجھ کر اس کو پوشیدہ رکھا۔

بخاری و مسلم ہی نہیں بلکہ بہتیرے شیوخ اہل سنت کا وتیرہ یہی تھا۔ اس قسم کی ہر چیز کو وہ چھپانا ہی بہتر سمجھتے تھے۔ ان کا یہ کتمان کوئی اچنبھے کی بات نہیں بلکہ ان کی یہ پرانی اور مشہور عادت ہے چنانچہ حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں علماء سے نقل بھی کیا ہے، امام بخاری نے بھی اس مطلب میں ایک خاص باب قرار دیا ہے۔ چنانچہ صحیح بخاری(1) حصہ اول کے کتاب العلم میں انھوں نے یہ عنوان قائم کیا ہے :

             “باب من خص بالعلم قوما دون قوم ۔”

--------------

1 ـ صفحہ51۔

۱۶۷

             “ باب بیان میں اس کےجو ایک قوم کو مخصوص کر کے علم تعلیم کرے اور دوسرے کو نہیں۔”

امیرالمومنین(ع) کےمتعلق امام بخاری کو روش اور آپ کے ساتھ نیز جملہ اہل بیت(ع) کے ساتھ ان کے سلوک سے جو واقف ہے اور یہ جانتا ہے کہ ان کا قلم امیرالمومنین (ع) واہل بیت(ع) کی شان میں ارشادات و نصوص پیغمبر(ص) کے بیان سے گریزاں رہتا ہے اور ان کے خصائص و فضائل بیان کرتے وقت ان کے دوات کی روشنائی خشک ہوجاتی ہے۔ اس لیے امام بخاری کی اس حدیث یا اس جیسی دیگر حدیثوں کے ذکر نہ کرنے پر تعجب نہ ہونا چاہیے۔

                                                                     ش

۱۶۸

مکتوب نمبر12

حدیث کی صحت کا اقرار

چونکہ دعوت عشیرہ والی حدیث حدِ تواتر کو نہیں پہنچتی اس لیے اس سے استدلال صحیح نہیں، زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ مخصوص قسم کی خلافت ثابت ہوتی ہے۔

آپ کے ارشاد کے بموجب میں نے مسند احمد بن حنبل جلد اول کے صفحہ 111 پر اس حدیث کو دیکھا جن رجال سے یہ حدیث مروی ہے ان کی چھان بین کی۔ آپ کے کہنے کےمطابق وہ سب کے سب ثقات اہل سنت نکلے ۔ پھر میں نے اس حدیث کے دوسرے تمام طریق کو بغائر نظر مطالعہ کیا۔ بے شمار و بے اندازہ طریقے نظر آئے۔ ہر طریقہ دوسرے طریقہ کا موئد ہے۔ مجھے ماننا پڑا کہ یقینا یہ

۱۶۹

 حدیث پایہ ثبوت کو پہنچی ہوئی ہے۔ اس کے ثابت و مسلم ہونے سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔

البتہ ایک بات ہے آپ لوگ اثبات امامت میں اس حدیث صحیح سے استدلال کرتے ہیں جو متواتر بھی ہو کیونکہ امامت آپ کے نزدیک اصول دین سے ہے اور یہ حدیث جو آپ نے پیش فرمائی ہے اس کے متعلق یہ کہنا غیر ممکن ہے کہ یہ تواتر تک پہنچی ہوئی اور جب حد تواتر تک پہنچی ہوئی نہیں ہے۔ تو اس سے آپ لوگ استدلال بھی نہیں کرسکتے ۔

یہ حدیث منسوخ ہوگئی تھی

یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ یہ حدیث صرف یہ بتاتی ہے کہ حضرت علی(ع) رسول(ص) کے جانشین تو تھے مگر خاص کر اہلبیت (ع) پیغمبر(ص) میں جانشین تھے۔ لہذا تمام مسلمانوں کا خلیفہ ہونا کہاں ثابت ہوتا ہے ؟ اس حدیث سے خلافت عامہ کہاں ثابت ہوتی ہے۔

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ حدیث منسوخ ہوگئی تھی اس لیے کہ آںحضرت(ص) نے اس حدیث کے مفاد کی طرف کبھی توجہ نہ کی اسی وجہ سے صحابہ کو خلفاء ثلاثہ کی بیعت میں کوئی مانع نہ نظر آیا۔

                                                             س

جواب مکتوب

اس حدیث سے استدلال کرنے کی وجہ

حضرات اہلسنت امامت کے اثبات میں ہر حدیث صحیح سے استدلال

۱۷۰

 کرتے ہیں خواہ کرتے ہیں خواہ وہ متواتر ہو یا غیر متواتر ۔ لہذا خود حضرات اہلسنت جس چیز کو حجہ سمجھتے ہیں ہم اسی چیز کو ان پر بطور حجت پیش کرتے ہیں۔ جس چیز کو وہ خود مانتے ہیں ہم اسی سے انھیں قائل کرتے ہیں۔

رہ گیا یہ کہ ہم جو اس حدیث سے امامت پر استدلال کرتے ہیں تو اسکی وجہ ظاہر ہے کیونکہ یہ حدیث ہم لوگوں کے طریق سے صرف صحیح ہی نہیں بلکہ حد تواتر تک پہنچی ہوئی ہے۔

مخصوص خلافت کو کوئی بھی قائل نہیں

یہ دعوی کرنا کہ یہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ حضرت علی(ع) خاص کر اہلبیت(ع) میں جانشین پیغمبر(ص) تھے مہمل ہے کیونکہ جو شخص اہل بیت(ع) رسول(ص) میں حضرت علی(ع) کو جانشین رسول(ص) سمجھتا ہے وہ عامہ مسلمین میں بھی جانشین سمجھتا ہے اور جو عامہ مسلمین میں جانشین رسول(ص) نہیں مانتا وہ اہل بیت(ع) میں بھی نہیں مانتا۔ آج تک بس یہ دو ہی قسم کے لوگ نظر آئے۔ آپ نے یہ فرق کہاں سے پیدا کیا جس کا آج تک کوئی قائل نہیں ۔ یہ تو عجیب قسم کا فیصلہ ہے جو اجماع مسلمین کے خلاف ہے۔

حدیث کا منسوخ ہونا ناممکن ہے

یہ کہنا کہ یہ حدیث منسوخ ہوچکی تھی یہ بھی غلط ہے کیونکہ اس کا منسوخ ہونا عقلا و شرعا دونوں جہتوں سے محال ہے کیونکہ وقت آنے کے پہلے ہی کسی حکم کا منسوخ ہونا۔ بداہتا باطل ہے۔ اس کے علاوہ اس حدیث کو منسوخ کرنے والی آپ کے خیال کی بنا پر زیادہ سے زیادہ ایک چیز نکلتی ہے اور

۱۷۱

 وہ یہ کہ رسول اﷲ(ص) نے مفادِ حدیث کی طرف پھر توجہ نہ کی، پھر اعادہ نہ کیا۔ مگر یہ بھی صحیح نہیں۔ کیونکہ رسول(ص) نے مفاد حدیث سے کبھی بے توجہی نہیں کی۔ بلکہ اس حدیث کے ارشاد فرمانے کے بعد بھی وضاحت کرتے رہے۔ کھلے لفظوں میں، بھرے مجمع میں، سفر میں، حضر میں، ہر موقع ہر محل ہر صراحتہ اعلان فرماتے رہے۔

اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ آپ صرف دعوت عشیرہ ہی کے موقع پر حضرت علی(ع) کو اپنا جانشین فرما کے رہ گئے پھر کبھی اس کی وضاحت نہیں کی تب بھی یہ کیسے معلوم کہ رسول(ص) نے بعد میں مفاد حدیث ؟؟؟؟؟ کیا آگے چل کر آپ کا خیال بدل گیا اپنے قول سے پلٹ گیا۔

“ إِنْ يَتَّبِعُونَ إِلاَّ الظَّنَّ وَ ما تَهْوَى الْأَنْفُسُ وَ لَقَدْ جاءَهُمْ مِنْ رَبِّهِمُ الْهُدى‏”(نجم، 23)

             “ وہ صرف گمان اور خواہش نفس کی پیروی کرتے ہیں حالانکہ ان کے پروردگار کا جانب سے ہدایت آچکی ہے۔”

                                                                     ش

۱۷۲

مکتوب نمبر13

میں نے ان ںصوص کے آستانے پر اپنی پیشانی جھکا دی۔ کچھ اور مزید ثبوت۔ خدا آپ کا بھلا کرے۔

                                                                     س

جوابِ مکتوب

حضرت علی(ع) کی دس(10) ایسی فضیلتیں جس میں کی کوئی ایک بھی کسی دوسرے کو حاصل نہیں اور جس سے آپ(ع) کی خلافت کی صراحت ہورہی ہے۔

دعوت ذوالعشیرہ والی حدیث کے علاوہ یہ دوسری حدیث ملاحظہ ملاحظہ کیجیے جسے امام احمد بن حنبل نے اپنی مسند کی پہلی جلد صفحہ 330 پر ، امام نسائی نے

۱۷۳

 اپنی کتاب خصائص علویہ کے صفحہ 6 پر ، امام حاکم نے اپنے صحیح مستدرک کی تیسری جلد کے صفحہ 123 پر ، علامہ ذہبی نے اپنی تلخیص مستدرک میں اس حدیث کی صحت کا اعتراف کرتے ہوئے نیز دیگر ارباب حدیث نے ایسے طریقوں سے جن کی صحت پر اہل سنت کا اجماع و اتفاق ہے نقل کیا ہے۔

عمروہ بن میمون سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں ابن عباس کے پاس بیٹھا ہوا تھا اتنے میں ان کے پاس 9 سرداران قابل آئے۔ انھوں نے ابن عباس سے کہا کہ یا تو آپ ہمارے ساتھ اٹھ چلیے یا اپنے پاس کے بیٹھے ہوئے لوگوں کو ہٹا کر ہم سے تخلیہ میں گفتگو کیجیے۔

ابن عباس نے کہا ۔ میں آپ لوگوں کے ساتھ خود ہی چلا چلتا ہوں۔ ابن عباس کی بینائی چشم اس وقت باقی تھی۔ ابن عباس نے ان سے کہا:

                     “ کہیے کیا کہنا ہے؟”

گفتگو ہونے لگی ۔ میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ کیا گفتگو ہوئی۔ ابن عباس وہاں سے دامن جھٹکتے ہوئے آئے ۔ کہنے لگے:

             “ وائے ہو۔ یہ لوگ ایسےشخص کے متعلق بدکلامی کرتے ہیں جس کی دس سے زیادہ ایسی فضیلتیں ہیں جو کسی دوسرے  کو نصیب نہیں۔ یہ لوگ بدکلامی کرتے ہیں ایسے شخص کے متعلق جس کے بارے میں رسول(ص) نے فرمایا :

لأبعثنّ رجلا لا يخزيه اللّه أبدا، يحبّ اللّه و رسوله، و يحبّه اللّه و رسوله»، فاستشرف لها من استشرف فقال: «أين عليّ؟»، فجاء و هو أرمد لا يكاد أن يبصر، فنفث في عينيه،

۱۷۴

ثمّ هزّ الراية ثلاثة، فأعطاها إيّاه، فجاء عليّ بصفيّة بنت حيي. قال ابن عباس: ثمّ بعث رسول اللّه (صلّى اللّه عليه و آله و سلّم) فلانا بسورة التوبة، فبعث عليّا خلفه، فأخذها منه، و قال: «لا يذهب بها إلّا رجل منّي و أنا منه»، قال ابن عباس: و قال النبيّ لبني عمّه: «أيّكم يواليني في الدنيا و الآخرة»، قال:- و عليّ جالس معه- فأبوا، فقال عليّ: أنا أوالئك في الدنيا و الآخرة، فقال لعليّ: «أنت وليّي في الدنيا و الآخرة». قال ابن عباس: و كان عليّ أوّل من آمن من الناس بعد خديجة. قال: و أخذ رسول اللّه (صلّى اللّه عليه و آله و سلّم) ثوبه فوضعه على عليّ و فاطمة و حسن و حسين، و قال:إِنَّمٰا يُرِيدُ اللّٰهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً . قال: و شرى عليّ نفسه فلبس ثوب النبيّ، ثمّ نام مكانه، و كان المشركون يرمونه [إلى أن قال:] و خرج رسول اللّه في غزوة تبوك، و خرج الناس معه،

۱۷۵

فقال له عليّ: أخرج معك؟ فقال (صلّى اللّه عليه و آله و سلّم): «لا»، فبكى عليّ، فقال له رسول اللّه (صلّى اللّه عليه و آله و سلّم): «أما ترضى أن تكون منّي بمنزلة هارون من موسى إلّا أنّه لا نبي بعدي، إنّه لا ينبغي أن أذهب إلّا و أنت خليفتي». و قال له رسول اللّه: «أنت وليّ كلّ مؤمن بعدي و مؤمنة». قال ابن عباس: و سدّ رسول اللّه أبواب المسجد غير باب عليّ، فكان‌يدخل المسجد جنبا و هو طريقه ليس له طريق غيره، و قال رسول اللّه (صلّى اللّه عليه و آله و سلّم): «من كنت مولاه فإنّ مولاه عليّ.» الحديث.

“ میں ایسے شخص کو بھیجوں گا جسے خدا کبھی ناکام نہ کرے گا۔ وہ شخص خدا و رسول(ص) کو دوست رکھتا ہے اور خدا و رسول(ص) اسے دوست رکھتے ہیں۔کس کس کے دل میں اس فضیلت کی تمنا پیدا نہ ہوئی مگر رسول(ص) نے ایک کی تمنا خاک میں ملا دی اور صبح ہوئی تو دریافت فرمایا کہ علی(ع) کہاں ہیں؟ حضرت علی(ع) تشریف لائے حالانکہ وہ آشوب چشم میں مبتلا تھے۔ دیکھ نہیں پاتے تھے۔ رسول(ص) نے ان کی آنکھیں پھونکیں ، پھر تین مرتبہ علم کو حرکت دی اور حضرت علی(ع) کے ہاتھوں میں تھما دیا۔ حضرت علی(ع) جنگ فتح کر کے مرحب کو مار کر اور اس کی بہن صفیہ کو لے کر خدمت رسول(ص) میں پہنچے ۔ پھر

۱۷۶

 رسول اﷲ(ص) نے ایک بزرگ کو سورہ توبہ دے کر روانہ کیا۔ ان کے بعد پیچھے فورا ہی حضرت علی(ع) کو روانہ کیا اور حضرت علی(ع) نے راستہ ہی میں ان سے سورہ لے لیا کیونکہ رسول(ص) کا حکم تھا کہ یہ سورہ بس وہی شخص پہنچا سکتا ہے جو مجھ سے ہے اورمیں اس سے ہوں۔ اور رسول(ص) نے اپنے رشتہ داروں، قرابت مندوں سےکہا کہ تم میں کون ایسا ہے جو دنیا و آخرت میں میرا ساتھ دے۔ میرے کام آئے۔ حضرت علی(ع) نے کہا میں اس خدمت کو انجام دوں گا۔ میں دین و دنیا میں آپ کی خدمت کروں گا۔ آپ(ص) نے فرمایا ۔ اے علی(ع) ! دین و دنیا دونوں میں تم ہی میرے ولی ہو۔

ابن عباس کہتے ہیں کہ رسول اﷲ(ص) نے حضرت علی(ع) کو بٹھا کے پھر لوگوں سے اپنی بات دہرائی اور پوچھا کہ تم میں کون شخص ہے جو میرا مددگار ہو دنیا میں اور آخرت میں۔ سب نے انکار کیا صرف ایک حضرت علی(ع) ہی تھے جنھوں نے کہا کہ میں آپ کی مدد و نصرت کروں گا دین و دنیا دونوں میں یا رسول اﷲ(ص) رسول اﷲ(ص) نے فرمایا کہ علی(ع) تم ہی میرے ولی ہو دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔

ابن عباس کہتے ہیں کہ علی(ع) پہلے وہ شخص ہیں جو جناب خدیجہ کے بعد رسول(ص) پر ایمان لائے۔ ابن عباس کہتے ہیں کہ رسول اﷲ(ص) نے اپنی ردا لی اور اسے علی(ع) وفاطمہ(س) و حسن(ع) و حسین(ع) کو اوڑھایا اور اس آیت کی تلاوت کی :

۱۷۷

 “ إِنَّمٰا يُرِيدُ اللّٰهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً.”

“ اے اہل بیت(ع) ! خدا بس یہی چاہتا ہے کہ تم سے ہر برائی اور گندگی کو اس طرح دور رکھے جیسا کہ دور رکھنا چاہیئے۔”

ابن عباس کہتے ہیں : اور علی(ع) ہی نے اپنی جان راہ خدا میں فروخت کی اور رسول اﷲ(ص) کی چادر اوڑھ کر رسول(ص) کی جگہ پر سورہے۔ در آںحالیکہ مشرکین پتھر برسارہے تھے۔

اسی سلسلہ کلام میں ابن عباس کہتے ہیں: کہ پیغمبر جنگ تبوک کے ارادے سے نکلے۔ لوگ بھی آپ کے ہمراہ تھے۔ حضرت علی(ع) نے پوچھا: یا رسول اﷲ(ص) ! میں بمرکاب رہوں گا؟ آپ نے فرمایا : نہیں ، تم نہیں رہوگے۔ اس پر حضرت علی(ع) آبدیدہ ہوگئے تو آپ نے فرمایا : کہ یا علی (ع) ! تم اسے پسند نہیں کرتے کہ تم میرے لیے وسیے ہی یو جیسے موسی(ع) کے لیے ہارون تھے۔ البتہ میرے بعد نبوت کا سلسلہ بند ہے۔ جنگ میں میرا جانا بس اسی صورت میں ممکن ہے کہ میں تمھیں اپنا قائم مقام چھوڑ کے جاؤں۔

نیز حضرت سرورِ کائنات(ص) نے حضرت علی(ع) سے فرمایا:  کہ اے علی(ع) ! میرے بعد تم ہر مومن و مومنہ کے ولی ہو۔ ابن عباس کہتے ہیں:  کہ رسول اﷲ(ص) نے مسجد کی طرف سب کے دروازے بند کرادیے بس صرف علی(ع) کا دروازہ کھلا رکھا اور حضرت علی(ع) جنب کی حالت میں بھی مسجد

۱۷۸

 سے گزر جاتے تھے۔ وہی ایک راستہ تھا دوسرا کوئی راستہ ہی نہ تھا۔

ابن عباس کہتے ہیں کہ رسول اﷲ (ص) نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ: میں جس کا مولا ہوں علی(ع) اس کے مولا ہیں۔”

اس حدیث میں من کنت مولاہ کو امام حاکم نقل کرنے کے بعد تحریر فرماتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے اگر چہ شیخین بخاری و مسلم نے اس نہج سے ذکر نہیں کیا۔

علامہ ذہبی نے بھی تلخیص مستدرک میں اس حدیث کو نقل کیا ہے اور نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے۔

اس حدیث سے ثبوت خلافت امیرالمومنین(ع)

اس عظیم الشان حدیث میں امیرالمومنین(ع) کے ولی عہد رسول(ص) اور بعد رحلت سرورِ کائنات خلیفہ و جانشین ہونے کے بعد جو قطعی دلائل اور روشن براہین ہیں وہ آپ کی نگاہوں سے مخفی نہ ہوں گے۔ ملاحظہ فرماتے ہیں آپ اندازہ پیغمبر(ص) کا کہ حضرت علی(ع) کو دینا و آخرت میں اپنا ولی قرار دیتے ہیں۔ اپنے تمام رشتے داروں، قرابت داروں میں بس علی(ع) ہی کو اس اہم منصب کے لیے منتخب فرماتے ہیں۔ دوسرے موقع پر حضرت علی(ع) کو وہ منزلت و خصوصیت عطا فرماتے ہیں جو جناب ہارون کو جناب موسی(ع) سے تھی۔ جتنے مراتب و خصوصیات جناب ہارون کو جناب موسی(ع) سے حاصل تھے۔ وہ سب کے سب حضرت علی(ع) کو مرحمت فرمائے جاتے ہیں سوائے درجہ نبوت کے ۔ نبوت کو مستثنی کرنا دلیل ہے کہ نبوت کو چھوڑ کر جتنے خصوصیات

۱۷۹

جناب ہارون کو حاصل تھے وہ ایک ایک کر کے حضرت علی(ع) کی ذات میں مجتمع تھے۔

آپ اس سے بھی بے خبر نہ ہوں گے کہ جناب ہارون کو منجملہ  دیگر خصوصیات کے سب سے بڑی خصوصیت جو جناب موسی(ع) سے تھی وہ یہ کہ جناب ہارون جناب موسی(ع) کے وزیر تھے۔ آپ کے قوت بازو تھے۔ آپ کے شریک معاملہ تھے اور آپ کی غیبت میں آپ کے قائم مقام ، جانشین و خلیفہ ہوا کرتے اور جس طرح جناب موسی(ع) کی اطاعت تمام امتِ پر فرض تھی اسی طرح جناب ہارون کی اطاعت بھی تمام امت پر واجب و لازم تھی اس کے ثبوت میں یہ آیات ملاحظہ فرمایئے:

             خداوند عالم نے جناب موسی(ع) کی دعا کلام مجید میں نقل فرمائی ۔ جناب موسی نے دعا کی تھی۔

“وَ اجْعَل لىّ‏ِ وَزِيرًا مِّنْ أَهْلىِ هَارُونَ أَخِى اشْدُدْ بِهِ أَزْرِى‏ وَ أَشْرِكْهُ فىِ أَمْرِى‏”

“ معبود میرے گھر والوں میں سے ہارون کو میرا وزیر بنا ان سے میری کمر مضبوط کر اور انھیں میرے کارِ نبوت میں شریک بنا۔”

دوسرے موقع پر جناب موسی (ع) کا قول خداوند عالم نے قرآن میں نقل کیا ہے:

“اخْلُفْني‏ في‏ قَوْمي‏ وَ أَصْلِحْ وَ لا تَتَّبِعْ سَبيلَ الْمُفْسِدينَ” ( اعراف، 142)

“ اے ہارون تم میری امت میں میرے جانشین رہو،

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

ہے_و قل رب زدنى علما

۲۷ _ دعا ميں ''رب'' كے نام كو ذكر كرنا دعا كے آداب ميں سے ہے _و قل رب زدنى علما

آفرينش :اس كا حاكم ۲، ۵; اس كا تحت قانون ہونا ۴; اس كا مالك ۲، ۵; اس كا نظام ۸

اسما و صفات:صفات جلال۳

انبيا(ع) :ان كے علم كا دائرہ ۲۲; انكى تربيت كرنے والا۲۱; انكا معلم ۲۱

خداتعالى :اسكى ربوبيت كے اثرات ۱۹; اسكى خصوصيات ۶; اس كا بے نظير ہونا ۱; اسكى تعليمات ۲۱; اسكى نصيحتيں ۱۲، ۱۷; اسكى حاكميت كا دائمى ہونا ۵; اسكى مالكيت كا دائمى ہونا ۵; اسكى حكمراني۲; اسكى حكمرانى كى حقانيت ۷; اسكى حكومت كى حقانيت ۶; اسكى حقانيت ۳; اسكى حكمت۴; يہ اور باطل۳; اسكى ربوبيت ۲۱; اس كا علو ۱; اس كا كمال ۱; اسكى مالكيت ۲; اسكى حاكميت كى نشانياں ۷، ۸; اسكے علو كى نشانياں ۷، ۸; اسكے علم كى وسعت ۲۲

دعا:اسكے آداب ۷; علم ميں اضافے كى دعا ۱۷، ۲۶

ذكر:ربوبيت خدا كا ذكر ۲۷

عجلت:اسكے اثرات ۲۵

محبت:حفظ قرآن كى محبت ۱۱

علم:اسكى آفات ۲۵; اس كا زيادہ ہونا ۱۸; اس كا سرچشمہ ۱۹; اسكى وسعت ۱۸; اسكى خصوصيات ۱۸

قرآن كريم:اس ميں عجلت كرنے سے اجتناب كرنا ۲۳; اسكے حفظ كى اہميت ۱۱; اسكے نزول كى اہميت ۷; اسكے نزول ميں عجلت كرنا ۹; اسكے نزول كا متعدد ہونا۱۶; اس كا علم ہونا ۲۰; اس كا تدريجى نزول ۱۴; اس كا وحى ہونا ۱۳; اسكى خصوصيات ۱۳ظقيامت:اس كا كردار ۸

محمد(ص) :آپ(ص) كے علم كا زيادہ ہونا ۲۲; آپكى تلاوت قرآن ۱۰، ۱۲; آپ كو نصيحت ۱۲، ۱۷; آپ(ص) كے مطالبے ۹; آپكے علم كے زيادہ ہونے كا پيش خيمہ ۲۳; آپ كى عجلت ۱۰، ۱۲; آپكى محبت ۱۱; آپ كا علم ۱۵، ۲۴; آپ(ص) اور قرآن ۱۵; آپ كا معلم ۲۳; آپكى نعمتيں ۲۴; آپكى طرف وحى ۱۰

نعمت:يہ جنكے شامل حال ہے ۲۴; علم كى نعمت ۱۹

۲۲۱

آیت ۱۱۵

( وَلَقَدْ عَهِدْنَا إِلَى آدَمَ مِن قَبْلُ فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْماً )

اور ہم نے آدم سے اس سے پہلے عہد ليا مگر انھوں نے اسے ترك كرديا اور ہم نے ان كے پاس عزم و ثبات نہيں پايا (۱۱۵)

۱ _ قرآن خداتعالى كے وعدوں اور نصيحتوں پر مشتمل ہے_و كذلك ا نزلنه لعلهم و لقد عهدنا إلي ء ادم من قبل ''عہد'' يعنى نصيحت (قاموس) اور ''و لقد عہدنا'' ميں ''واو'' نے حضرت آدم (ع) كى داستان كا اس سے پہلے والے مطالب (و كذلك ا نزلناہ) پر عطف كيا ہے خداتعالى كے حضرت آدم كے ساتھ عہد كا قرآن كے نازل كرنے كے ساتھ ارتباط اس بات كو بيان كررہا ہے كہ قرآن لوگوں كو خداتعالى كى نصيحتيں سكھانے كيلئے ہے_

۲ _ خداتعالى نے انسان كى خلقت كے آغاز ميں اور نزول قرآن كے زمانے سے پہلے ابوالبشر آدم(ع) كے سامنے خواہش اور نصيحت ركھى تھى _و كذلك ا نزلناه و لقد عهدنا إلى ء ادم من قبل

گذشتہ آيت قرينہ ہے كہ كلمہ ''قبل'' كا مضاف اليہ قرآن كے نزول كا زمانہ ہے اور ممكن ہے اس سے مراد ان واقعات سے قبل ہو جن كا تذكرہ اس سورت كے آغاز سے ہى كيا گيا ہے اور خداتعالى نے حضرت آدم كے ساتھ جو عہد كيا تھا اس سے مراد _ جيسا كہ حضرت آدم كے قصے كى ديگر آيات سے استفادہ ہوتا ہے_ ممنوعہ درخت سے نہ كھانا تھا _

۳ _ حضرت آدم(ع) نے خداتعالى كى نصيحت پر عمل نہ كيا _و لقد عهدنا إلى ء ادم من قبل فنسي

حضرت آدم(ع) كے ساتھ شيطان كى گفتگو (ما نہاكما ربكما اعراف ۲۰) قرينہ ہے كہ نسيان سے مراد حقيقى فراموشى نہيں تھى بلكہ اس كا لازمہ (ترك عمل) تھي_

۴ _ حضرت آدم(ع) ميں خداتعالى كى نصيحت پر كاربند ہونے كيلئے لازمى عزم و ارادہ نہيں تھا _و لقد عهدنا إلى ء ادم فنسى و لم نجد له عزما

۵ _ خداتعالى كى نصيحتوں پر عمل كرنے كيلئے سنجيدہ عزم

۲۲۲

اور تصميم قابل قدر عادت ہے _و لقد عهدنا إلى ء ادم فنسى و لم نجد له عزما

''نہيں تھا'' كى بجائے ''ہم نے نہيں پايا'' كى تعبير اس بات كو بيان كرر ہى ہے كہ ايسے موارد ميں عزم كا وجود مطلوب اور متوقع ہے_

۶ _ خداتعالى كى نصيحتوں پر عمل كرنے كيلئے سنجيدہ عزم و تصميم انسان كے بارگاہ خداوندى ميں قابل قدر ہونے كا سبب ہے _و لم نجد له عزم ''لم نجد'' ميں فاعلى ضمير دلالت كرتى ہے كہ حضرت آدم (ع) ميں عزم كا وجود خداتعالى كو مطلوب تھا اور اس كا نہ ہونا خلاف توقع تھا_

۷ _'' عن ا ب جعفر(ع) قال:إن الله تبارك و تعالى عهد إلى ء ادم (ع) ا ن لا يقرب الشجرة نسى فا كل منها وهو قول الله تبارك و تعالى :''و لقد عهدنا إلى ء ادم من قبل فنسى و لم نجد له عزماً'' ; امام باقر(ع) سے روايت كى گئي ہے كہ خداتعالى نے حضرت آدم(ع) كو حكم ديا تھا كہ اس درخت كے نزديك نہ جائيں انہوں نے وہ حكم فراموش كرديا اور اس درخت سے كھا ليا اور يہى مراد ہے خداتعالى كے فرمان''ولقد عهدنا '' سے_(۱)

آدم(ع) :انكو نصيحت ۲، ۷; انكى نافرمانى ۴; انكى عہدشكنى ۳، ۷; انكى فراموشى ۷; انكا قصہ ۲، ۳، ۴

اخلاق:اخلاقى فضائل ۵

اقدار:انكا معيار ۶

خداتعالى :اسكى نصيحتوں پر عمل كے اثرات ۶; اسكے عہد پر عمل كى تصميم ۵; اسكى نصيحتيں ۱، ۲، ۷; اسكى نصيحتوں پر عمل ۴; اس كا عہد۱; اسكے ساتھ عہد شكنى ۳، ۷

روايت :۷

قرآن كريم:اسكى تعليمات ۱

____________________

۱ ) كمال الدين صدوق ص ۲۱۳ ب ۲۲ ح ۲ نورالثقلين ج۳ ص ۳۹۹ ح ۱۴۷_

۲۲۳

آیت ۱۱۶

( وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ أَبَى )

اور جب ہم نے ملائكہ سے كہا كہ تم سب آدم كے لئے سجدہ كرو تو ابليس كے علاوہ سب نے سجدہ كرليا اور اس نے انكار كرديا (۱۱۶)

۱ _ فرشتوں كے حضرت آدم(ع) كے سامنے سجدہ كرنے اور ابليس كے سجدہ نہ كرنے كى داستان قابل توجہ اور سبق آموز ہے_و إذ قلنا للملئكة اسجدو ''إذ'' فعل محذوف كا مفعول ہے اور اس جيسى آيات كے قرينے سے وہ فعل ''اذكر'' (ياد كرو اور خاطر ميں ركھو)ہے_

۲ _ خداتعالى كے حكم سے فرشتے حضرت آدم(ع) كيلئے سجدہ كرنے اور ان كے سامنے خاضع ہونے پر مامور ہوئے

و إذ قلنا للملئكة اسجدوا لا دم

۳ _ سب فرشتوں نے حضرت آدم(ع) كيلئے سجدے كے حكم كے سامنے سر تسليم خم كيا او ربلاتوقف ان كے سامنے سجدہ ميں گر گئے_فسجدو حرف ''فائ'' سجدے والے حكم اور اسكے انجام كے درميان فاصلہ نہ ہونے پر دلالت كرتا ہے_

۴ _ فرشتوں كى طرح ابليس بھى حضرت آدم(ع) كے سامنے سجدہ كرنے پر مأمور تھا _للملئكة اسجدوا لا دم فسجدوا إلا إبليس

۵ _ ابليس نے حضرت آدم(ع) كے سامنے سجدہ كرنے كے سلسلے ميں حكم خداوندى كى نافرمانى كى _فسجدوا إلا إبليس ا بى

۶ _ ابليس خدا كى اطاعت يا معصيت پر مجبور نہيں تھا _فسجدوا لا دم إلا إبليس ا بى

۷ _ فرشتوں اور ابليس كى خلقت انسان كى خلقت پر مقدم تھى _للملئكة اسجدوا إلا إبليس ا بى

۲۲۴

۸ _ حضرت آدم(ع) كا مقام اور مرتبہ فرشتوں سے برتر تھا _و إذ قلنا للملئكة اسجدوا لا دم

۹ _ انسان اپنى وسيع استعداد اور ذاتى صلاحتيوں كى وجہ سے فرشتوں سے برتر ہے _للملئكة اسجدوا لأدم

۱۰ _ كسى دوسرى چيز كے سامنے سجدہ خداتعالى كے حكم سے اور اسكى اطاعت كرتے ہوئے جائز ہے اور اس شے كى پرستش كى علامت نہيں ہے_و إذ قلنا للملئكة اسجدوا لأدم

آدم(ع) :انكى فرشتوں پر برترى ۵; ان كے قصے سے عبرت حاصل كرنا ۱; انكا قصہ ۳، ۴، ۸; انكا مقام و مرتبہ ۵

ابليس:اس كا اختيار۹; اسكى خلقت كى تاريخ ۱۰; اسكى شرعى ذمہ دارى ۸; اسكى نافرمانى ۱، ۴

احكام: ۷

اطاعت:خدا كى اطاعت ۷

انسان:اسكى استعداد ۶; فرشتوں پر اسكى برترى ۶; اسكى خلقت كى تاريخ ۱۰; اسكے فضائل ۶

جبر و اختيار: ۹

خداتعالى :اسكے اوامر ۲، ۷

ذكر:آدم كے قصے كا ذكر ۱

سجدہ:اسكے احكام ۷; غير خدا كو سجدے كا جواز ۷; آدم(ع) كے سامنے سجدہ ۲، ۳، ۸; آدم(ع) كے سامنے سجدے كو ترك كرنا ۴

عبرت:اسكے عوامل ۱

نافرماني:خدا كى نافرمانى ۴

فرشتے:انكى استعداد ۶; انكا مطيع ہونا ۳; انكى خلقت كى تاريخ ۱۰; انكى شرعى ذمہ دارى ۲، ۸; انكا سجدہ ۳; انكا آدم(ع) كے سامنے سجدہ ۱; انكے فضائل ۶; انكا مقام و مرتبہ ۵

۲۲۵

آیت ۱۱۷

( فَقُلْنَا يَا آدَمُ إِنَّ هَذَا عَدُوٌّ لَّكَ وَلِزَوْجِكَ فَلَا يُخْرِجَنَّكُمَا مِنَ الْجَنَّةِ فَتَشْقَى )

تو ہم نے كہا كہ آدم يہ تمھارا اور تمھارى زوجہ كا دشمن ہے كہيں تمھيں جنّت سے نكال نہ دے كہ تم زحمت ميں پڑجاؤ (۱۱۷)

۱ _حضرت آدم(ع) اور ان كى بيوى حوا ،بہشت ميں رہائش پذير تھے _فقلنا فلا يخرجنكما من الجنة

''جنة''كا معنى باغ ہے اور قرآن ميں عام طورپر''الجنة'' بہشت كے معنى ميں استعمال ہوا ہے قابل ذكر ہے كہ آدم و حوا كا اپنى بہشت سے نكلنا اس بات كى علامت ہے كہ وہ بہشت موعود كے علاوہ تھى _

۲ _ ابليس،آدم(ع) و حوا(ع) كو بہشت سے نكالنے كيلئے كمين لگائے ہوئے تھا _إن هذا عدولك و لزوجك فلا يخرجنكم

۳ _ خداتعالى نے حضرت آدم(ع) كو ابليس كى ان كے ساتھ اور انكى بيوى كے ساتھ دشمنى سے آگاہ كيا_

اسجدوا ا بى فقلنا ى أدم إن هذا عدولك و لزوجك

۴ _ ابليس كا حضرت آدم(ع) كے سامنے سجدہ كرنے سے انكار اسكى حضرت آدم(ع) اور ديگر انسانوں كے ساتھ دشمنى كى علامت ہے _إلا إبليس ا بى فقلنا ى أدم إن هذا عدولك و لزوجك

سجدے سے انكار كے بعد ابليس كو آدم(ع) و حوا(ع) كے دشمن كے طور پر متعارف كرانا اس بات كا غماز ہے كہ ترك سجدہ اس دشمنى كى علامت تھى اور اس كا حوا كا دشمن ہونا اس بات پر دلالت كر رہا ہے كہ حضرت آدم(ع) كے سامنے سجدے والے ماجرا كے بعد ابليس پورى نوع انسانيت كا دشمن ہوگيا تھا_

۵ _ بہشت جو آدم و حوا كى رہائش گاہ تھى وہ ايسى جگہ تھى جو آرام و آسائش كيلئے تيار كى گئي تھى اور وہ ہر قسم كى سختى و مشقت سے دور تھي_فلا يخرجنكما من الجنة فتشقى

۶ _ خداتعالى نے حضرت آدم(ع) كى بہشت سے باہر والى زندگى كو سخت اور رنج آور زندگى قرار ديا اور انہيں اس ميں مبتلا ہونے سے ڈرايا _فلا يخرجنكما من الجنةفتشقى

''شقاوة'' كا معنى ہے سختى اور تنگى (قاموس) بعد والى آيات ميں ان سختيوں كے بعض نمونے تلويحاً بيان كئے گئے ہيں _

۷ _ خداتعالى نے آدم(ع) و حوا(ع) كو انكے ساتھ شيطان كى دشمنى كے سلسلے ميں اس لئے خبردار كيا تا كہ وہ رنج و الم اور سختى ميں گرفتار نہ ہوں _فلايخرجنكما من الجنة فتشقى

۲۲۶

۸ _ ابليس انسان كا دشمن اور بدخواہ ہے اور اسے نعمات الہى سے محروم كرنے اور رنج و الم ميں گرفتار كرنے كے در پے ہےإن هذا عدولك و لزوجك فتشقى

ابليس كى حوا(ع) كے ساتھ دشمنى اس بات كو بيان كر رہى ہے كہ وہ سب انسانوں كا دشمن ہے_

۹ _ آدم (ع) و حوا(ع) اپنى رہائش والى بہشت ميں بھى بعض شرعى ذمہ داريوں كے انجام دينے كے پابند تھے_

فلا يخرجنكم اگر چہ''فلا يخرجنّ'' ابليس كو نہى ہے ليكن اسكے ساتھ آدم و حوا كو مخاطب كرنے كا مطلب يہ ہے كہ يہ ان دو كو شيطان كے القائات سے متاثر ہونے سے نہى ہے_

۱۰ _حوا(ع) اپنى رہائش كى بہشت ميں حضرت آدم(ع) كى بيوى اور انكى سرپرستى ميں تھيں _عدولك و لزوجك فلا يخرجنكم خداتعالى نے حوا(ع) سے متعلق ہدايات حضرت آدم(ع) كے سامنے ركھيں اور حضرت آدم(ع) كو حكم ديا كہ وہ دونوں بہشت سے نكلنے كے اسباب فراہم كرنے سے پرہيز كريں اس طرح كے خطاب كو آدم(ع) كى سرپرستى كى نشانى قرار ديا جاسكتا ہے_

۱۱ _ خداتعالى كے نزديك حضرت آدم(ع) حوا(ع) سے بلند مرتبہ ركھتے تھے_عدولك و لزوجك

اگر چہ بہشت كے ماجرا ميں جناب حوا(ع) حضرت آدم(ع) كے ساتھ انجام ميں شريك تھيں ليكن خداتعالى نے صرف حضرت آدم(ع) كو مخاطب كيا يہ خصوصيت حضرت آدم(ع) كى برترى كى علامت ہے_

۱۲ _ خداتعالى كى حضرت آدم(ع) كے ساتھ بلاواسطہ گفتگو_فقلنا يا ء ادم

۱۳ _ آدم (ع) اور انكى بيوى حوا(ع) خداتعالى كے يہاں بلند مقام ركھتے تھے_اسجدوا لأدم إن هذا عدولك و لزوجك آدم(ع) كے سامنے سجدہ كا حكم كہ جو گذشتہ آيت ميں ذكر كيا گيا ہے_ اور خداتعالى كا حضرت آدم(ع) كو ابليس كى ان كے ساتھ اور حوا(ع) كے ساتھ دشمنى كے بارے ميں خبردار كرنا ان دونوں كے خدا كے نزديك بلند مرتبہ ہونے كى علامت ہے _

۱۴ _ عورت اور مرد دونوں شيطان كے وسوسوں كے شكار ہونے كے خطرے سے دوچار ہيں _فلايخرجنكم

۱۵ _ شوہروں كيلئے ضرورى ہے كہ وہ اپنى بيويوں كے رنج و الم اور سختيوں كو دور كرنے كيلئے كوشش كريں _

فلا يخرجنكما من الجنة فتشقى

۲۲۷

اس بات كو مد نظر ركھتے ہوئے كہ شيطان كى آدم(ع) و حوا(ع) كے ساتھ دشمنى ايك جيسى تھى اور وہ اس بات كے درپے تھا كہ دونوں كو بہشت سے نكال كر انہيں مشقت ميں ڈالے ليكن اسكے باوجود فعل ''تشقى '' مفرد آيا ہے اس كا مطلب يہ ہے كہ حوا(ع) كى سختيوں اور رنج و الم كو دور كرنا بھى حضرت آدم(ع) كى ذمہ دارى تھي_

۱۶ _''حسين بن ميسر قال:سا لت ا با عبد الله (ع) عن جنّة آدم فقال: جنة من جنات الدنيا تطلع فيها الشمس والقمر و لو كانت من جنان الآخره ما خرج منها أبداً'' حسين بن ميسر كہتے ہيں ميں نے امام صادق(ع) سے حضرت آدم(ع) كى بہشت كے بارے ميں سوال كيا تو آپ(ع) نے فرمايا وہ دنيا كے باغوں ميں سے ايك باغ تھا كہ جس پر آفتاب و مہتاب طلوع كرتے تھے اور اگر وہ آخرت كا باغ ہوتا تو ہرگزوہ اس سے خارج نہ ہوتے_(۱)

آدم(ع) :انكى بہشت ميں آسائس۵; انكا انذار ۶; انكى حوا پر برترى ۱۱; بہشت ميں انكى شرعى ذمہ دارى ۹; انكى بہشت كى حقيقت ۱۶; ان كے دشمن ۲، ۳، ۴، ۷; زمين ميں انكى زندگى كى سختى ۶; بہشت ميں انكى رہائش۱; بہشت سے ان كے اخراج كے عوامل ۲; ان كے فضائل ۱۱، ۱۳; ان كے انذار كا فلسفہ ۷; ان كا قصہ ۱، ۴، ۵، ۷، ۹، ۱۰; ان كى مشكلات ۷; انكى بہشت كى خصوصيات ۵، ۹، ۱۰; انكى بيوى ۱۰

ابليس:اس كا دھوكہ دينا ۲، ۸; اسكى دشمنى ۲، ۳، ۷، ۸; اسكى نافرمانى ۴; اسكى دشمنى كى علامتيں ۴

انسان:اسكے دشمن ۴، ۸/حوا(ع) :انكى كفالت كرنا ۱۰; بہشت ميں انكى شرعى ذمہ دارى ۹; ان كے دشمن ۲، ۳، ۷; بہشت ميں انكى رہائش ۱; ان كے فضائل ۱۱، ۱۳; ان كے انذار كا فلسفہ ۷; انكى مشكلات۷

فيملي:اسكى مشكلات كو دور كرنے كا ذمہ دار ۱۵

خداتعالى :اس كا انذار ۶; اسكے انذار كا فلسفہ ۷; اسكى آدم(ع) كے ساتھ گفتگو ۱۲

روايت :۱۶/عورت:اسكے دھوكہ كھانے كا پيش خيمہ ۱۴

سجدہ:آدم (ع) كے سامنے سجدہ ترك كرنا ۴/شوہر:اسكى ذمہ دارى ۱۵

شيطان:اسكے وسوسوں كا خطرہ ۱۴/مرد:اسكے دھوكہ كھانے كا پيش خيمہ ۱۴

مشكلات:ان كا پيش خيمہ ۸/نعمت:اس سے محروميت كے عوامل ۸

____________________

۱ ) كافى ج۳ ص ۲۴۷ ح۲ نورالثقلين ج۱، ص ۶۲، ص ۱۱۷ و ۱۱۸_

۲۲۸

آیت ۱۱۸

( إِنَّ لَكَ أَلَّا تَجُوعَ فِيهَا وَلَا تَعْرَى )

بيشك يہاں جنت ميں تمھارا فائدہ يہ ہے كہ نہ بھوكے رہوگے اور نہ برہنہ رہوگے (۱۱۸)

۱ _ آدم(ع) كيلئے ان كى بہشت ميں خوراك اور لباس كا انتظام تھا _إن لك ا لّا تجوع فيها و لا تعرى

''إن لك ...'' كى تعبير خداتعالى كى جانب سے حضرت آدم(ع) كے ساتھ وعدہ ہے اور يہ بہشت كى خاصيت كا بيان نہيں ہے كيونكہ ممنوعہ درخت سے كھانا اسى بہشت ميں حضرت آدم(ع) كے عريان ہونے كا سبب بنا اور ''لاتعرى '' كا وعدہ ان كے حق ميں عملى نہ ہوا_

۱ _ آدم(ع) و حوا(ع) كو اپنى رہائش والى بہشت ميں لباس و خوراك كى ضرورت تھي_إن لك ا لّا تجوع فيها و لا تعرى

فعلوں كا حضرت آدم(ع) كے ساتھ مختص ہونا شايد اس لئے ہے كہ خداتعالى كى اصل گفتگو آدم(ع) كے ساتھ تھى اور دونوں كو مخاطب كرنے كى ضرورى نہيں تھي_ پس لباس اور خوراك كى جہت سے آدم(ع) كى طرح حوا كى ضرورت بھى پورى ہو رہى تھي_

۳ _ انسان كى آفرينش كے آغاز سے ہى لباس اور خوراك اسكى اصلى ضروريات ميں سے تھے_إن لك ا لّا تجوع فيها و لا تعرى

آدم(ع) :انكا لباس۲; انكى بہشت ميں لباس ۱; انكا كھانا ۲; انكى بہشت ميں كھانا ۱; انكا قصہ ۱، ۲; انكى مادى ضروريات ۲; انكى بہشت كى خصوصيات ۱، ۲

انسان:اسكى مادى ضروريات ۳

حوا(ع) :انكالباس۲;انكاكہانا۲;انكى مادى ضروريات ۲

ضروريات:لباس كى ضرورت ۲، ۳; كہاناكى ضرورت ۲، ۳

۲۲۹

آیت ۱۱۹

( وَأَنَّكَ لَا تَظْمَأُ فِيهَا وَلَا تَضْحَى )

اور يقينا يہاں نہ پيا سے رہوگے اور نہ دھوپ كھاؤ گے (۱۱۹)

۱ _ حضرت آدم (ع) اپنى بہشت ميں پياس اور دھوپ كى تپش سے محفوظ تھے _و ا نك لا تظمئوا فيها و لا تضحى

''لاتضحى '' يعنى آپ سورج كے روبرو قرار نہيں پائيں گے اور اسكى تپش آپ تك نہيں پہنچے گى (لسان العرب) يہ وصف ''جنة'' كے لغوى معنى كو مد نظر ركھتے ہوئے كہ جو درختوں سے ڈھكا ہوا باغ ہے_ آدم(ع) كى رہائش گاہ ميں كثير سايہ كے وجود كى طرف اشارہ ہے_

۲ _ آغاز خلقت سے پانى اور گھر انسان كى بنيادى ضروريات ميں سے ہيں _و ا نك لا تظمئوا فيها و لا تضحى

۳ _ بہشت سے باہر انسان كى بنيادى ضروريات (خوراك، لباس، پاني، گھر) كى فراہمى كا مشكل ہونا خداتعالى كى طرف سے حضرت آدم(ع) كو تنبيہ _فتشقى إن لك ا لا تجوع فيها و لا تعري و أنك لاتضحى

''ا نك'' كا عطف ''ا لّا تجوع'' پر ہے اور جملہ''إن لك '' ''فتشقى '' كى تفسير ہے بھوك، برہنگي، دھوپ اور پياس كى نفى ان سختيوں كى طرف اشارہ ہے كہ جنكا بہشت سے اخراج كى صورت ميں حضرت آدم(ع) كو سامنا ہوگا_

آدم(ع) :انكى بہشت ميں تشنگى ۱; انكا قصہ ۱; انكى بہشت ميں گرمي۱; انكى بہشت كى خصوصيات۱; انكو خبردار كرنا ۳

انسان:اسكى مادى ضروريات ۲

خداتعالى :اس كا خبردار كرنا ۳

ضروريات:دنيوى ضروريات كى فراہمى كا مشكل ہونا۳; پانى كى ضرورت۲; گھر كى ضرورت ۲

۲۳۰

آیت ۱۲۰

( فَوَسْوَسَ إِلَيْهِ الشَّيْطَانُ قَالَ يَا آدَمُ هَلْ أَدُلُّكَ عَلَى شَجَرَةِ الْخُلْدِ وَمُلْكٍ لَّا يَبْلَى )

پھر شيطان نے انھيں وسوسہ ميں مبتلا كرنا چاہا اور كہا كہ آدم ميں تمھيں ہميشگى كے درخت كى طرف رہنمائي كردوں اور ايسا ملك بتادوں جو كبھى زائل نہ ہو (۱۲۰)

۱ _ شيطان، ابليس كا دوسرا نام اور پہچان ہے_إلا إبليس إن هذا عدو فوسوس إليه الشيطان

''شيطان''،''شطن'' كے مادہ سے ليا گيا ہے كہ جس كا معنى ہے دورى يا لمبى رسى يہ اشتقاق ابليس كى رحمت خدا سے دورى يا لمبى خباثت كى طرف اشارہ ہے _

۲ _ شيطان انسانوں كے دلوں ميں وسوسے ڈالتا ہے_فوسوس إليه الشيطان

۳ _ شيطان بہشت ميں حضرت آدم(ع) كو وسوسے ميں ڈال كر انہيں بہشت سے نكلوانے كيلئے زمينہ ہموار كررہا تھا_

فلا يخرجنكما فوسوس إليه الشيطان

۴ _ شيطان، حضرت آدم(ع) كى بہشت ميں حاضر ہوا تھا _قال يا أدم

۵ _ شيطان كى حضرت آدم(ع) كے ساتھ بلاواسطہ گفتگو _قال يا أدم

۶ _ آدم (ع) كى ہميشگى درخت اور دائمى مملكت و سلطنت كى طرف رہنمائي شيطان كا آدم و حوا(ع) كو دھوكہ دينے اور انہيں ممنوعہ درخت كا پھل كھانے پر مجبور كرنے كيلئے جال _هل ا دلك على شجرة الخلد و ملك لا يبلى

''شجرة الخلد'' سے مراد وہ درخت ہے كہ جسكے پھل كا كھانا دوام كا سبب ہو ''ملك'' كا معنى مال ہے اور سلطنت بھى ہے (قاموس) ''ملك لايبلى '' سے مراد وہ سلطنت اور حكمرانى ہے جسے كبھى زوال نہ ہو _

۷ _ خيرخواہيكا لبادہ، انسانوں كے دلوں ميں وسوسے ڈالنے اور انہيں دھوكہ دينے كيلئے شيطان كى روش ہے_

فوسوس إليه الشيطان فقال هل ا دلك

۸ _ انسان دائمى زندگى اور فنا نہ ہونے والے ملك اور مالكيت كا خواہاں ہے_هل ا دلك على شجرة الخلد و ملك لايبلى شيطان نے حضرت آدم(ع) كے سلسلے ميں اپنے وسوسوں كو مؤثر بنانے كيلئے ان چيزوں سے استفادہ كيا جو آدم(ع) ميں موجود تھيں وہ چيزيں ہميشہ رہنے اور فنا نہ ہونے والى مالكيت كى طرف تمايل ہے_

۲۳۱

۹ _ حضرت آدم(ع) كو بہشت ميں اپنى دائمى رہائش كا اطمينان نہيں تھا_إن لك ا لّاتجوع هل ا دلك على شجرة الخلد خداتعالى نے حضرت آدم(ع) كو خوراك، لباس، پانى اور رہائش جيسى ضروريات پورى ہونے كى خبر دى تھى ليكن گويا حضرت آدم(ع) كو ان نعمتوں كى ضمانت كے باوجود اس بہشت ميں اپنے ہميشہ رہنے كا اطمينان نہ تھا اسى وجہ سے شيطان كا وسوسہ ان پر اثر كرگيا _

۱۰ _ شيطان ،انسان كى خواہشات اور آرزؤں سے آگاہ ہے _هل ا دلك على شجرة الخلد و ملك لايبلى

۱۱ _ شيطان انسان كو دھوكہ دينے اور اس كے دل ميں وسوسہ ڈالنے كيلئے اسكى ضروريات اور خواہشات سے استفادہ كرتا ہے_هل ا دلك على شجرة الخلد و ملك لا يبلى

۱۲ _ شيطان اپنے اہداف كى خاطر حقائق كو الٹا كر كے دكھا تا ہے _فلايخرجنكما هل ا دلك على شجرة الخلد

۱۳ _ شيطان انسان كو اپنى خواہشات كے مطابق مجبور نہيں كرسكتا_فوسوس هل ا دلك

۱۴ _ حضرت آدم(ع) بہشت كى بعض درختوں كى خاصيات سے بے خبر تھے _هل ا دلك على شجرة الخلد و ملك لايبلى

آدم(ع) :آپ(ع) اور ممنوعہ درخت۶; انكى بہشت ميں دوام ۹; بہشت سے ان كے اخراج كا پيش خيمہ ۳; انكى بہشت ميں شيطان ۴; انكى بہشت كے پھلوں كے فوائد ۱۴; انكا قصہ ۵، ۶، ۹; ۱۴; ان كے علم كا دائرہ ۱۴; انكا وسوسہ ۳

ابليس:اسكى شيطنت۱; اسكے نام ۱

انسان:اسكى آرزوئيں ۱۰; اس كا اختيار۱۳; اسكى خواہشات ۸، ۱۰; اسكے وسوسے كا پيش خيمہ ۱۱; اسكى ضروريات ۱۱; اس كا وسوسہ ۷

حكومت:

۲۳۲

دائمى حكومت تك پہنچانا ۶; دائمى حكومت كى در خواست ۸

درخت:دائمى درخت تك پہچانا ۶

زندگي:دائمى زندگى كى درخواست ۸

شيطان:اسكى طرف سے خيرخواہى كا تظاہر۷; اسكے دھوكے كى روش ۶، ۱۱، ۱۲; اسكے وسوسوں كى روش۷; اس كا علم ۱۰; اسكى آدم(ع) كے ساتھ گفتگو۵; اس كا نقش و كردار ۱۳; اسكے وسوسے ۲، ۳; اسكى خصوصيات ۲

مالكيت:دائمى مالكيت تك پہنچانا ۶; دائمى مالكيت كى درخواست ۸

ممنوعہ درخت:اس سے كھانے كا پيش خيمہ ۶

آیت ۱۲۱

( فَأَكَلَا مِنْهَا فَبَدَتْ لَهُمَا سَوْآتُهُمَا وَطَفِقَا يَخْصِفَانِ عَلَيْهِمَا مِن وَرَقِ الْجَنَّةِ وَعَصَى آدَمُ رَبَّهُ فَغَوَى )

تو ان دونوں نے درخت سے كھاليا اور ان كے لئے ان كا آگا پيچھا ظاہر ہوگيا اور وہ اسے جنّت كے پتوں سے چھپانے لگے اور آدم نے اپنے پروردگار كى نصيحت پر عمل نہ كيا تو راحت كے راستہ سے بے راہ ہوگئے (۱۲۱)

۱ _ آدم(ع) و حوا(ع) نے شيطان كے وسوسے ميں آكر ممنوعہ درخت سے كھاليا _فوسوس إليه الشيطان فأكلا منه

۲ _ ممنوعہ درخت سے كھانے كے واقع ميں جناب حوا(ع) اپنے شوہر آدم(ع) كى تصميم كے مطابق عمل كررہى تھيں _فوسوس إليه الشيطان فأكلا منه آدم(ع) كا ممنوعہ درخت سے كھانا شيطان كے وسوسوں سے متأثر ہونے كى وجہ سے تھا ليكن حوا(ع) ايسے نہيں تھيں (فوسوس إليہ الشيطان) ممكن ہے حوا(ع) كے اقدام كا سرچشمہ يہ ہو كہ وہ آدم(ع) كے عمل سے متأثر تھيں _

۳ _ آدم(ع) كے خلود، دوام اور لا زوال ملك كى طرف تمايل اور اسكى طمع نے انہيں اور انكى بيوى كو ممنوعہ درخت سے كھانے پر مجبور كيا _

هل ا دلك على شجرة الخلد فأكلا منه

۴ _ آدم (ع) و حوا(ع) باوجود اسكے كہ خداتعالى نے انہيں شيطان كى ان كےساتھ دشمنى كے بارے ميں شدت سے خبردار كيا تھا شيطان كى باتوں سے متأثر ہوگئے_إن هذا عدولك و لزوجك فأكلا منه

۲۳۳

۵ _ آدم(ع) كا شيطان كے وسوسے سے متأثر ہونا اور ممنوعہ درخت سے كھانا ان كے عہد الہى كو فراموش كرنے كا ايك نمونہ تھا_و لقد عهدنا فنسى فأكلا منه آدم(ع) و حوا(ع) كى داستان، ان كے ممنوعہ درخت سے كھانے اور اسكے نتائج كا بيان يہ سب اس مجموعہ كى پہلى آيت كى وضاحت ہے اور عہد الہى كے سلسلے ميں حضرت آدم(ع) كى فراموشى اور ان ميں سنجيدہ عزم كے نہ ہونے كا بيان ہے_

۶ _ خداتعالى كے فرامين اور عہد كى طرف متوجہ رہنا اور انہيں ہميشہ ياد ركھنا انسان كو شيطان كے وسوسوں ميں گرفتار ہونے سے بچاتا ہے_و لقد عهدنا فنسي فأكلا منه

۷ _ انسان دھو كہ كھانے والا ہے_فوسوس فأكلا منه

۸ _ ممنوعہ درخت سے كھانے سے پہلے آدم(ع) و حوا(ع) كى شرمگاہ خود ان سے پوشيدہ تھي_فأكلا منها فبدت لهما سوئ تهم ''سَوأة'' كا معنى ہے شرمگاہ (لسان العرب) اور ممكن ہے ''بدت لہما'' كا معنى يہ ہو كہ ہر ايك كى شرمگاہ دوسرے كيلئے آشكار ہوگئي اور ممكن ہے مراد يہ ہو كہ انكى شرمگاہ خود ان كيلئے آشكار ہوگئي دوسرے احتمال كى بنياد پر ممنوعہ درخت كا پھل كھانا سے پہلے ان كى شرمگاہ خود ان كيلئے بھى پوشيدہ تھي_

۹ _ ممنوعہ درخت سے كھانا آدم(ع) و حوا(ع) كى شرمگاہ كے آشكار ہونے اور ان كى عريانى كا سبب بنا _فأكلا منها فبدت لهما سو ئ تهم

۱۰ _ آدم(ع) و حوا(ع) كى نافرمانى ان كے خداتعالى كے اس وعدے سے محروميت كا سبب بنى كہ بہشت ميں ان كے لباس والى ضرورت پورى ہوگي_إن لك لاتعرى فبدت لهما سوئ تهم

۱۱ _ جھوٹ انسان كو دھوكہ دينے كيلئے شيطان كا ايك ہتھكنڈا _هل ا دلك على شجرة الخلد و ملك لا يبلى ...فبدت لهما سوئ تهم

۱۲ _ شرمگاہوں كے ظاہر ہونے كے بعد آدم(ع) و حوا(ع) انہيں درختوں كے پتوں سے چھپانے كى كوشش كررہے تھے_فبدت لهما سوئ تهما و طفقا يخصفان عليهما من ورق الجنة

''طفقا'' يعنى انہوں نے آغاز كيا اور ''خصف'' اگر ''على '' كے ساتھ متعدى ہو تو اس كا معنى ہوتا ہے چيزوں كو ملا كر سينا اور انہيں ايك جگہ پر ڈالنا يعنى آدم و حوا نے درختوں كے پتوں كو آپس ميں ملاكر اپنے اوپر ڈال ديا _

۲۳۴

۱۳ _ آدم(ع) و حوا(ع) اپنے آپ انسانى غريزے يا عادت كى وجہ سے حتى ايك دوسرے سے بھى اپنى شرم گاہ كو چھپانے كا پابندكئے ہوئے تھے_وطفقا يخصفان عليهما من ورق الجنة

۱۴ _ انسانى فطرت اپنى شرمگاہ كے ظاہر ہونے سے متنفر ہے اور اسے برا سمجھتى ہے_*و طفقا يخصفان عليهم

آدم(ع) و حوا(ع) كى خود كى ڈھانپنے كى كوشش برہنگى كو ناپسنديدہ شمار كرنے كى حكايت كرتى ہے_

۱۵ _ وہ بہشت كہ جس ميں آدم و حوا رہائش پذير تھے ايك مادى باغ اور مادہ كے آثار و خواص كى حامل تھي_يخصفان عليهما من ورق الجنة

۱۶ _ حضرت آدم(ع) نے ممنوعہ درخت سے كھا كر پروردگار كى معصيت كا ارتكاب كيا _فأكلا وعصى ء ادم ربه

۱۷ _ ممنوعہ درخت سے كھانے سے پہلے حضرت آدم(ع) كو خداتعالى كى جانب سے اسكى ممنوعيت كا حكم مل چكا تھا_

فأكلا منها و عصى ء ادم ربه ''عصيان'' اس صورت ميں ہوسكتا ہے جب خداتعالى كى جانب سے امر يا نہى صادر ہوچكا ہو بنابراين اگر چہ ان آيات ميں اس درخت كے ممنوع ہونے كى تصريح نہيں كى گئي ليكن عصيان كا ذكر كرنا اس درخت سے كھانے كے سلسلے ميں نہى كے صادر ہونے كا واضح گواہ ہے_

۱۸ _ خداتعالى كے اوامر و نواہى اور متنبہ كرنا سب ،انسان كے رشد و تكامل اور تربيت كيلئے ہے_ربّه

۱۹ _ حضرت آدم(ع) بہشت ميں دائمى زندگى اور ابدى حكومت كو حاصل نہ كرسكے اور اپنى خواہش كے سلسلے ميں ناكام رہے_هل ا دلك على شجرة الخلد فأكلا فعصى ء ادم ربه فغوى ''غوى '' يعنى ناكام ہوگيا اور راستے كو گم كر بيٹھا (مصباح) ابليس كے وسوسے قرينہ ہيں كہ آدم(ع) كى ناكامى اور گمراہى سے مراد ان كا شيطان كى طرف سے القاء كى گئي آرزؤں كو نہ پانا ہے_

۲۰ _پروردگار كى نافرمانى انسان كى ناكامى اور اسكے رشد وتكامل سے محروم رھنے كا سبب ہے _و عصى ء ادم ربه فغوى

۲۱ _ آدم(ع) خداتعالى كى نافرمانى اورممنوعہ درخت سے كھانے كے نتيجے ميں اپنى ترقى سے محروم رہے_فغوى ''غوى كا مصدر'' ''غي''ہے جوكہ ''رشد'' كى ضد ہے (مقاييس اللغة)

۲۲ _ ہر گناہ كے نتائج اس گناہ كا ارتكاب كرنے والے سب افراد كيلئے ايك جيسے نہيں ہوتے ہيں _فأكلا و عصى ء ادم ربه فغوى جناب حوا(ع) كى نافرمانى كا تذكرہ كرنا شايد اس وجہ سے ہو كہ اپنى نافرمانى ميں وہ خود اصل نہيں تھيں بلكہ انہوں نے اپنے شوہر كے عمل كو اپنے لئے نمونہ بنايا تھا لہذا انكى نافرمانى حضرت آدم(ع) كى نافرمانى كى حد تك نہيں تھي_

۲۳۵

۲۳ _ '' رب'' خداوند متعال كے اسماء و صفات ميں سے ہيں _و عصى ء ادم ربّه

۲۴ _'' عن ا بى عبدالله (ع) فى قوله: '' بدت لها سوا تهما'' قال: كانت سوا تهما لا تبدو لهما ; يعني، كانت داخلة; خداتعالى كے فرمان ''بدت لہما سوء تہما'' كے بارے ميں امام صادق(ع) سے روايت كى گئي ہے كہ اس سے پہلے ان دونوں (آدم و حوا) كى شرمگاہيں ان كيلئے آشكار نہيں تہيں كيونكہ انكى شرمگاہيں ( انكے بدن كى جلد كے) اندر تھيں(۱)

۲۵ _'' قال ا بو عبدالله (ع) : فلمّا ا سكن الله عزوجل آدم و زوجته الجنة قال لهما; '' و لا تقربا هذه الشجرة ...'' فلما ا كلا من الشجرة طار الحلى و الحلل عن اجسادهما و بقيا عريانين ; (ايك حديث ميں ) امام صادق(ع) سے روايت كى گئي ہے كہ آپ (ع) نے فرمايا جب خداتعالى نے آدم و حوا كو بہشت ميں جگہ دى تو انہيں فرمايا اس درخت كے نزديك نہ جانا اور انہوں نے جونہى اس درخت سے كھايا تو ان كے جسم سے زيور اور لباس اڑ گئے اور وہ عريان رہ گئے_(۲)

۲۶ _'' عن الرضا (ع) قال: كان ذلك من آدم قبل النبوة و لم يكن ذلك بذنب كبير استحق به دخول النار و إنما كان من الصغائر الموهوبة التى تجوز على الا نبياء قبل نزول الوحى عليهم ...; (خداتعالى كے فرمان)'' و عصى آدم ربہ فغوى '' كے بارے ميں امام رضا(ع) سے روايت كى گئي ہے كہ آپ(ع) نے فرمايا حضرت آدم(ع) كى يہ نافرمانى نبوت سے پہلے تھى اور يہ كوئي ايسا بڑا گناہ نہيں تھا كہ جسكى وجہ سے حضرت آدم(ع) آگ كے مستحق ہوتے بلكہ صغيرہ گناہوں ميں سے تھا كہ جو بخش ديا گيا اور وحى كے نازل ہونے سے پہلے يہ انبياء كيلئے ممكن ہے _(۳)

آدم (ع) :انكى طمع كے اثرات ۳; انكى نافرمانى كے اثرات ۱۰، ۲۱; آپ نبوت سے پہلے ۲۵; آپ اور ممنوعہ درخت ۱، ۲، ۵، ۸، ۹، ۱۷; آپكا دھوكے ميں آنا ۱، ۴، ۵; آپكى بہشت كے مادى وسائل ۱۵; آپكے تمايلات ۱۳; آپكى نافرمانى كا پيش خيمہ ۳; آپكى شرمگاہ كا چھپانا ۸، ۱۳، ۲۳; آپكى نافرمانى ۱، ۱۶; آپكى شرمگاہ كے ظاہر ہونے كے عوامل ۹، ۱۰; آپ كى محروميت كے عوامل ۱۰; آپكا غريزہ ۱۳; آپكى فراموشى ۵; آپكا فانى ہونا كو ۱۹; آپكا قصہ ۱، ۲، ۳، ۴، ۵، ۸، ۹، ۱۰، ۱۲، ۱۶، ۱۷، ۱۹، ۲۱، ۲۳، ۲۴; آپكى شرمگاہ كا ظاہر ہونا ۱۲، ۲۴; آپكا گناہ

____________________

۱ )تفسير قمى ج۱، ص ۲۲۵; نورالثقلين ج۲ ص ۱۵ ح ۴۱_ ۲ ) معانى الاخبار، ص ۱۰۹; ح ۱_ نورالثقلين ح۲، ص۱۲، ح ۳۵_

۳ ) عيون اخبارالرضا ج۱ ، ص ۱۹۵، ح۱_ نورالثقلين ج۳، ص ۴۰۳، ح۶۰_

۲۳۶

صغيرہ ۲۵; آپكى نافرمانى سے مراد ۲۵; آپكا نقش و كردار ۲; آپكى بہشت كى خصوصيات ۱۵; آپكو خبردار كرنا ۴

احكام:انكا فلسفہ ۱۸

انبياء (ع) :يہ نبوت سے پہلے ۲۵

انسان:اس كا دھوكے ميں آنا ۷; اسكى فطرت ۱۴; اسكى محروميت كے عوامل ۲۰

تربيت:اس ميں مؤثر عوامل ۱۸

تكامل:اسكے عوامل ۱۸; اسكے موانع ۲۰

حوا(ع) :انكى نافرمانى كے اثرات ۱۰; انكا دھوكے ميں آنا ۱، ۴; انكا آدم كى پيروى كرنا ۲; يہ اور ممنوعہ درخت ۱، ۲، ۸، ۹; انكى نافرمانى كا پيش خيمہ ۳; انكى شرمگاہ كا چھپانا ۸، ۱۳، ۲۳; انكى نافرمانى ۱; انكى شرمگاہ كے ظاہر ہونے كے عوامل ۹، ۱۰; انكى محروميت كے عوامل ۱۰; انكا غريزہ ۱۳; انكى شرمگاہ كا ظاہر كرنا ۱۲، ۲۴; انكو خبردار كرنا ۴

خداتعالى :اسكے عہد كى فراموشي۵; اسكے اوامر كا فلسفہ ۱۸; اسكے نواہى كا فلسفہ ۱۸;اسكے متنبہ كرنا كا فلسفہ ۱۸; اس كا متنبہ كرنا ۴

ممنوعہ درخت:اس سے كھانے كے اثرات ۹، ۱۶، ۲۱; اس سے كھانا ۱، ۲، ۵; اس سے كھانے كا پيش خيمہ ۳

جھوٹ:اسكے اثرات ۱۱

ذكر:عہد خدا كے ذكر كے اثرات ۶روايت: ۲۳، ۲۴، ۲۵

شخصيت:اسكى آسيب شناسى ۲۰

شيطان:اسكے فريب دينے كا آلہ ۱۱; اس كا جھوٹ بولنا ۱۱; اسكى دشمنى ۴; اسكے وسوسوں كى تاثير كے موانع ۶; اسكے وسوسے ۱، ۵

نافرماني:خدا كى نافرمانى كے اثرات ۲۰

شرمگاہ:اسے درخت كے پتوں سے چھپانا ۱۲; اسے ظاہر كرنے كاناپسند ہونا ۱۴

گمراہي:اسكے عوامل ۱۱

گناہ:اسكے اثرات ۲۲

گناہ گار لوگ:انكا تفاوت ۲۲

۲۳۷

آیت ۱۲۲

( ثُمَّ اجْتَبَاهُ رَبُّهُ فَتَابَ عَلَيْهِ وَهَدَى )

پھر خدا نے انھيں چن ليا اور انكى توبہ قبول كرلى اور انھيں راستہ پر لگاديا (۱۲۲)

۱ _ حضرت آدم(ع) نافرمانى اور ممنوعہ درخت سے كھانے كے بعد اپنے كئے سے پشيمان ہوئے اور بارگاہ خداوندى ميں توبہ كرنے لگے _ثم اجتبه ربه فتاب عليه ''اجتبي'' كے اصل مادہ ''جباية'' كا معنى ہے جمع كرنا اور حاصل كرنا اور ''اجتبائ'' كا معنى ہے ''اصطفائ'' (خالص چيز كو انتخاب كرنا) اور اختيار (لسان العرب) اس بناپر ''اجتباہ ربہ'' يعنى خداتعالى نے حضرت آدم(ع) كے ادھر ادھر كے تمايلات كو ختم كرديا اور سب كو اپنے لئے جمع كرليا اور انہيں اپنے لئے خالص كر ليا_ يہ تعبير حضرت آدم(ع) كے غير خدا سے مكمل طور پر منقطع ہونے اور انكى حقيقى توبہ سے حكايت كرتى ہے_

۲ _ خداتعالى نے حضرت آدم(ع) كے رشد و ترقى كيلئے ان كے غير الہى تمايلات كو ان سے دور كرديا اور انہيں اپنے لئے خالص كرليا _ثم اجتبه ربه فتاب عليه

۳ _ خداتعالى كى طرف سے حضرت آدم(ع) كو دوبارہ قبول كرنا اور انہيں چن لينا ممنوعہ درخت سے كھانے والى خطا سے كچھ مدت گزرنے كے بعد ہوا_ثم اجتبه ربه فتاب عليه

''ثم'' تراخى كيلئے ہے اور بتاتا ہے كہ اجتبائے الہى كہ جو آدم(ع) كو توبہ اور غير خدا سے منقطع ہونے كى توفيق دينا تھا_ كچھ دير سے انجام پايا _

۴ _ خداتعالى كى طرف سے حضرت آدم(ع) كو چننا اسكى ربوبيت كا ايك جلوہ ہے_ثم اجتبه ربه

۵ _ خداتعالى نے عطوفت اور مہربانى كى ساتھ حضرت آدم(ع) كى توبہ قبول كى اور انكا گناہ معاف كرديا _ثم اجتبه ربه فتاب عليه

''تاب'' يعنى لوٹ آيا اور حرف ''على '' كى وجہ سے اس ميں عطوفت و رحمت كا معنى تضمين كيا گيا ہے يعنى خداتعالى نے اس حالت ميں آدم(ع) كى

۲۳۸

طرف توجہ اور ان پر عنايت كى كہ وہ ان پر عطوف اور مہربان تھا_

۶ _ حضرت آدم(ع) كا غير خدا سے مكمل طور پر منقطع ہونے اور ان كى پورى توجہ كے خدا كى طرف مڑ جانے كى وجہ سے خداتعالى نے انہيں اپنى عنايات سے دوبارہ نوازا_اجتبه ربه فتاب عليه

حرف ''فا'' ''تاب عليہ '' كے اس سابقہ جملہ پر متفرع ہونے كو بيان كر رہا ہے كہ جو حضرت آدم(ع) كى تمام وابستگيوں اور تمايلات كے سمٹ كر خداتعالى كى طرف متوجہ ہونے پر دلالت كرتا ہے_

۷ _ حضرت آدم(ع) منتخب اور معاف ہونے كے بعد ہدايت الہى سے بھى بہرہ مند ہوئے_ثم اجتبه ربه فتاب عليه و هدى

۸ _ حضرت آدم(ع) نے گناہ كى بخشش كے بعد اپنے رشد و ترقى كى راہ كو پاليا_و هدى

گذشتہ آيت ميں آيا تھا كہ حضرت آدم(ع) نافرمانى اور عصيان كے بعد اپنے رشد و تكامل سے محروم رہ گئے (غوى ) اس آيت ميں فعل ''ہدى '' دلالت كررہا ہے كہ خداتعالى نے اس گمراہى كے آثار كو ختم كرديا اور انہيں كمال اور برگزيدگى كى راہ دكھا دى _

۹ _ حضرت آدم(ع) بارگاہ خداوندى ميں قابل قدر شخصيت كے مالك تھے_ثم اجتبه ربه فتاب عليه و هدى

۱۰ _ حضرت آدم(ع) كى توبہ كو قبول كرنا اور انہيں خدا كى طرف حركت كى رہنمائي كرنا ان كيلئے خداتعالى كى تربيت اور اسكى ربوبيت كا ايك جلوہ تھا_ثم اجتبه ربه فتاب عليه و هدى كلمہ ''ربہ'' كا فعل ''تاب'' اور ''ہدى '' كے ساتھ ارتباط مذكورہ مطلب كو بيان كررہا ہے اور ''اجتباہ ربہ'' قرينہ ہے كہ ہدايت سے مراد خداتعالى كى طرف ہدايت ہے _

آدم(ع) :ان كے منقطع ہونے كے اثرات ۶; انكى نافرمانى كے اثرات ۱; آپ اور ممنوعہ درخت ۱; انكى بخشش ۵،۸; انكا برگزيدہ ہونا ۲، ۳، ۴، ۷; انكى تربيت ۲، ۱۰; انكا تكامل ۲، ۸; انكى توبہ ۱; انكى پشيمانى كے عوامل ۱; انكے فضائل۹; انكى توبہ كى قبوليت ۳، ۵، ۱۰; انكا قصہ ۱، ۲، ۳، ۵، ۶، ۷، ۸; انكے اخلاص كا سرچشمہ ۲; انكى ہدايت ۷، ۸، ۱۰

خداتعالى :اسكے لطف و كرم كا پيش خيمہ ۶; اسكى مہربانى ۵; اسكى ربوبيت كى نشانياں ۴، ۱۰

ممنوعہ درخت:اس سے كھانے كے اثرات ۱

ہدايت يافتہ فوگ: ۷

۲۳۹

آیت ۱۲۳

( قَالَ اهْبِطَا مِنْهَا جَمِيعاً بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُم مِّنِّي هُدًى فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَايَ فَلَا يَضِلُّ وَلَا يَشْقَى )

اور حكم ديا كہ تم دونوں يہاں سے نيچے اتر جاؤ سب ايك دوسرے كے دشمن ہوں گے اس كے بعد اگر ميرى طرف ہے ہدايت آجائے تو جو ميرى ہدايت كى پيروى كرے گا وہ نہ گمراہ ہوگا اور نہ پريشان (۱۲۳)

۱ _ آدم(ع) و حوا(ع) نے ممنوعہ درخت سے كھا كر بہشت ميں رہنے كى صلاحيت ضائع كردي_فأكلا منهما قال اهبطا منه ''اہبطائ'' ممكن ہے آدم(ع) و حوا(ع) كو خطاب ہو اور ممكن ہے آدم اور ابليس كو خطاب ہو دوسرى صورت ميں چونكہ حو(ع) ا اپنى نافرمانى اور اس كے نتيجے ميں حضرت آدم كے تابع تھيں اسلئے مخاطب قرار نہيں پائيں _ دونوں صورتوں ميں مذكورہ مطلب حاصل ہوتا ہے_

۲ _ خداتعالى نے حضرت آدم(ع) كو دھوكہ دينے اور انہيں وسوسے ميں ڈالنے كى وجہ سے شيطان كو بہشت سے نكال ديا او راسے زمين پر آنے كا حكم ديا_فوسوس إليه الشيطان قال اهبطا منها جميع

مذكورہ مطلب اس بناپر ہے كہ ''اہبطا'' ميں مخاطب آدم(ع) اور شيطان ہوں _

۳ _ آدم(ع) و حوا(ع) بہشت ميں شيطان كے وسوسے پر عمل كرنے اور خداتعالى كے خبردار كرنے كى پروانہ كرنے كى وجہ سے اس بلند مقام سے نكال ديئےئے اور زمين پر اتر آئے _فأكلا منها و عصى ء ادم قال اهبطا منها جميع

''ہبوط'' يعنى ''نزول'' (مصباح) اور ''اہبطا'' كا حكم ايك حكم تكوينى ہے كيونكہ عام طور پر انسان كيلئے زمين پر ہبوط نہيں ہے_

۴ _ شيطان نے اپنے وسوسے اور فريب دہى كے ساتھ آدم(ع) و حوا(ع) كو بہشت سے نكالنے اور ان كے زمين پر ہبوط كے اسباب فراہم كئے _فوسوس إليه الشيطان قال اهبطا منه

۵ _ پروردگار كے حكم كى مخالفت اور نافرمانى انسان كے سقوط اور اسكے مقام كے تنزل كا سبب ہے_و عصى ء ادم قال اهبطا منه جملہ''ثم اجتباه '' اگر چہ ہبوط والے واقعے سے پہلے ذكر ہوا ہے ليكن ان آيات كى بنياد پر كہ جو سورہ بقرہ ميں گزرچكى ہيں حضرت آدم(ع) كى توبہ ہبوط كے بعد وقوع پذير ہوئي تھى اس بناپر جملہ قال ''اہبطا ...'' حضرت آدم(ع) كى نافرمانى كى سزا كا بيان ہے اور ''ثم اجتبہ ...'' جملہ معترضہ ہے_

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750