تفسير راہنما جلد ۱۱

تفسير راہنما 7%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 750

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 750 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 219070 / ڈاؤنلوڈ: 3020
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

سے كسى نے بھى حقيقت كا اظہار نہيں كيا _

۶ _ روز قيامت ميں لوگوں كى درك اور فہم مختلف ہوگى _عشراً إذ يقول ا مثلهم طريقة إن لبثتم إلا يوما

ان لوگوں كا موجود ہونا كہ جو نسبتاً صحيح سوچتے ہيں اور دوسروں كى نسبت واقعيت سے قريب تر فيصلہ كرتے ہيں اس تفاوت كو بيان كررہا ہے كہ جو قيامت كے دن لوگوں كے درميان اس لحاظ سے ہوگا_

۷ _ انسانوں كى مہارتيں اور فرق،قيامت كے دن بھى ظہور كريں گے _إذ يقول أمثلهم طريقةً

''أمثلہم طريقةً'' اس شخص كى حالت كو بيان كررہا ہے كہ جس نے ايك دن والا نظريہ پيش كيا اور اس شخص كيلئے آخرت ميں اس حالت كا پيدا ہونا بعيد نظر آتا ہے پس يہ كہنا ضرورى ہے كہ يہ خصوصيت ان مہارتوں كا ظہور ہے كہ جو دنيا ميں انسان كو حاصل ہوئي ہيں _

۸ _ نظريات كا واقعيت سے فاصلہ ان كى قدر و قيمت لگانے اور جاننے كا معيار ہے _إذ يقول أمثلهم طريقة إن لبثتم إلا يوما

۹ _ قيامت كى سختيوں اور عظمت كے مقابلے ميں برزخ كا زمانہ بہت ہى كم اور معمولى ہے _إذ يقول أمثلهم طريقة إن لبثتم إلا يوما

موت سے قيامت تك كى مدت كا كم ظاہر ہونا ظاہراً قيامت اور برزخ كے درميان ايك قسم كے موازنے كا نتيجہ ہے اور اس فيصلے كا سرچشمہ ممكن ہے قيامت كى سختيوں كا مشاہدہ اور اسكے خلود اور دائمى ہونے كو مد نظر ركھنا ہو''إن لبثتم إلا يوماً'' كہنے والے كو حق كے نزديك تر كہنا گويا قرآن كى طرف سے برزخ كے زمانے كے كم ہونے كى تاكيد ہے كيونكہ اس نے ايك روز اور دس روز ميں سے پہلے كو حقيقت سے نزديك تر قرار ديا ہے_

قدر و قيمت لگانا:اس كا معيار ۸

انسان:ان كا اخروى تفاوت ۶، ۷; انكى اخروى فہم ۶

سوچ:اسكى قدر و قيمت كا معيار ۸/خداتعالى :اس كا علم ۳، اس كا علم غيب ۱، ۲

عالم برزخ :اسكى مدت كى كمي۹; اسكى مدت ۳، ۴، ۵

قيامت:اس كے ہول۹; اس ميں حقائق كا ظہور ۷; اسكى خصوصيات ۷

گناہ گار لوگ:انكى اخروى گفتگو ۱

۲۰۱

آیت ۱۰۵

( وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْجِبَالِ فَقُلْ يَنسِفُهَا رَبِّي نَسْفاً )

اور يہ لوگ آپ سے پہاڑوں كے بارے ميں پوچھتے ہيں كہ قيامت ميں ان كا كيا ہوگا تو كہہ ديجئے كہ ميرا پروردگار انھيں ريزہ ريزہ كر كے اڑادے گا (۱۰۵)

۱ _ قيامت كے دن،دنيا كا نظام اور اس كا جغرافيہ گہرے تغير و تبدل سے دوچار ہوجائيگا _و يسئلونك عن الجبال فقل ينسفها ربي لوگوں كا پيغمبر اكرم(ص) سے قيامت كے دن پہاڑوں كے انجام كے بارے ميں سؤال اس بات كا گواہ ہے كہ موجودہ جہان كا درہم بر ہم ہوجانا ارتكاز كى صورت ميں يا ديگر آيات سے استفادہ كرنے كى وجہ سے لوگوں كے اذہان ميں ايك مسلم چيز تھى ليكن پہاڑوں كى عظمت نے ان كيلئے يہ سؤال پيدا كيا كہ ان كا انجام كيا ہوگا_

۲ _ پہاڑوں كى عظمت اور ان كے محكم و مضبوط ہونے كى وجہ سے كائنات كے انجام كى تحليل كرنے والے ان كے ٹكڑے ٹكڑے ہوكر بكھر جانے كو بعيد سمجھتے ہيں _و يسئلونك عن الجبال فقل ينسفها ربي

۳ _ صدر اسلام كے كچھ لوگ، پيغمبراكرم(ص) سے قيامت كے وقت پہاڑوں كے انجام كے بارے ميں وضاحت طلب كرتے تھے _و يسئلونك عن الجبال

۴ _ قيامت كے وقت زمين كے سب پہاڑ جڑ سے اكھڑ كر اور ٹكڑے ٹكڑے ہوكر بكھر جائيں گے_و يسئلونك عن الجبال فقل ينسفها ربى نسفا ''نسف'' كا معنى ہے جڑ سے اكھاڑنا اور ٹكڑے ٹكڑے ہو كر بكھر جانا (مصباح)

۵ _ قيامت كے وقت پہاڑوں كا ٹكڑے ٹكڑے ہوكر منتشر ہوجانا،خداتعالى كى ربوبيت كا جلوہ اور اسكے حكم سے ہوگا _

فقل ينسفها ربى نسفا

۶ _ لوگوں كا پيغمبر اكرم(ص) سے سوال بعض آيات كے نزول اور ان كيلئے مطالب كے بيان كا سبب بنتا تھا _

و يسئلونك عن الجبال فقل

۷ _پيغمبر اكرم(ص) لوگوں تك معارف الہى كے پہنچانے كا ذريعہ تھے_

۲۰۲

و يسئلونك ...فقل ينسفها ربي

۸ _اللّہ تعالى نے پيغمبر(ص) اكرم كو لوگوں كے سوالوں كا جواب دينے كا طريقہ سكھايا _و يسئلونك فقل ينسفها ربي

۹ _ قيامت اور اس سے پہلے رونما ہونے والے واقعات كے بارے ميں پيغمبر(ص) اكرم كى آگاہي،وحى كى مرہون منت اور علم الہى كے سرچشمہ سے منسلك تھى _و يسئلونك فقل

۱۰ _ صدر اسلام كے مسلمانوں ميں تحقيق اور تفحص كے جذبے كا وجود _و يسئلونك

۱۱ _ معارف الہى اور حقائق دينى كو آہستہ آہستہ بيان كيا گيا _و يسئلونك فقل

خلقت:اس كا انجام ۲

اسلام:صدر اسلام كى تاريخ ۳

خداتعالى :اسكے اوامر ۵; اسكى تعليمات ۸; اسكى ربوبيت كي

نشانياں ۵; اسكے علم كا كردار ۹

دين:اس كا تدريجى نزول ۱۱

قرآن مجيد:اسكى آيات كے نزول كا پيش خيمہ ۶

قيامت:اسكے وقت زمين۱; اسكے وقت پہاڑ ۳، ۴، ۵; اسكى نشانياں ۱، ۴

پہاڑ:ان كے محكم ہونے كے اثرات ۲; انكى عظمت كے اثرات ۲; انكے انہدام كا بعيد ہونا۲; انكا منہدم ہونا ۴، ۵; انكے انجام كے بارے ميں سوال ۳; انكا انجام ۲

آنحضرت(ص) :آپ سے سوال ۳، ۶; آپكى تبليغ ۷; آپكا معلم ۸; آپكے علم كے سرچشمہ ۹; آپ كا نقش و كردار ۷

لوگ:صد راسلام كے لوگوں كى پرستش كے اثرات ۶; صدر اسلام كے لوگوں كى پرستش ۳

مسلمان:صدر اسلام كے مسلمانوں كا سوال پوچھنا ۱۰; صدر اسلام كے مسلمانوں كى صفات ۱۰

وحي:اس كا كردار ۹

۲۰۳

آیت ۱۰۶

( فَيَذَرُهَا قَاعاً صَفْصَفاً )

پھر زمين كو چٹيل ميدان بنادے گا (۱۰۶)

۱ _ قيامت والے دن پہاڑ ہموار زمين ميں تبديل ہوجائيں گے_عن الجبال فيذ رها قاعاً صفصفا

''قاع'' كا معنى ايسى ہموار اور صاف زمين ہے كہ جس ميں درخت نہ اگيں اور ''صفصف'' كا معنى ايسى ہموار زمين ہے كہ جس ميں كسى قسم كے نباتات كے اگنے، امكان نہ ہو (لسان العرب)

۲ _ قيامت كے وقت زمين كا جغرافيہ بڑے تغير و تبدل سے دوچار ہوجائيگا _الجبال ينسفها قاعاً صفصفا

۳ _ قيامت كے وقوع پذير ہونے كے وقت سطح زمين ہر قسم كے نباتات سے خالى ہوجائي_فيذرها قاعاً صفصفا

۴ _ قيامت كے وقت،پہاڑوں كو ہموار اور مسطح زمين ميں تبديل كرنا خداتعالى كا كام اور اس كے حكم سے ہوگ

ينسفها ربي فيذ رها قاعا

پہاڑ:ان كو ہموار كرنا ۱

خداتعالي:اسكے افعال ۴; اسكے اوامر ۴

زمين:اسے ہموار كرنے كا سرچشمہ ۴

قيامت:اسكے وقت زمين ۲، ۳، ۴; اسكے وقت پہاڑ ۱; اسكى نشانياں ۱، ۲، ۳

۲۰۴

آیت ۱۰۷

( لَا تَرَى فِيهَا عِوَجاً وَلَا أَمْتاً )

جس ميں تم كسى طرح كى كجى يا ناہموارى نہ ديكھو گے(۱۰۷)

۱ _ قيامت كے دن، سطح زمين كے اوپر معمولى سا نشيب و فراز بھى نظر نہيں آئيگا_لا ترى فيها عوجاً ولا ا مت

''عوج'' اعتدال كى ضد ہے (مصباح) اور ''امت'' كا معنى ہے بلند جگہ اور نشيب و فراز كو بھى كہا جاتا ہے (قاموس) ''لاترى ...'' كا معنى يہ ہے كہ قيامت كے وقت زمين ميں كسى قسم كى ناہموارى اور كجى نظر نہيں آئيگى _

۲ _ زمين،قيامت كے وقوع پذير ہونے اور انسانوں كے محشور ہونے كى جگہ _فيذرها قاعاً صفصفاً لا ترى فيها عوجاً و لا ا مت زمين كا ہموار ہونا ممكن ہے لوگوں كو اٹھنے كيلئے آمادہ كرنے كيلئے ہو بنابراين قيامت اور اس كا خوفناك منظر اسى زمين پر وقوع پذير ہوگا _

حشر:اسكى جگہ ۲

زمين:اسے ہموار كرنا۱; اس كا كردار ۲

قيامت :اس ميں زمين ۱; اسكى جگہ ۲; اسكى خصوصيات ۱

آیت ۱۰۸

( يَوْمَئِذٍ يَتَّبِعُونَ الدَّاعِيَ لَا عِوَجَ لَهُ وَخَشَعَت الْأَصْوَاتُ لِلرَّحْمَنِ فَلَا تَسْمَعُ إِلَّا هَمْساً )

اس دن سب داعى پروردگار كے پيچھے دوڑ پڑيں گے اور كسى طرح كى كجى نہ ہوگى اور سارى آوازيں رحمان كے سامنے دب جائيں گى كہ تم گھنگھنا ہٹ كے علاوہ كچھ نہ سنوگے (۱۰۸)

۱ _ روز قيامت پہاڑوں كے ٹكڑے ٹكڑے ہوكر بكھرنے كے وقت ايك دعوت دينے والا انسانوں كو قبروں سے باہر آنے كى دعوت ديگا _يومئذ يتبعون الداعى لا عوج له

ظاہراً داعى ،كہ تمام لوگ جسكى اتباع كريں گے اور اسكى ندا پر لبيك كہيں گے سے مراد وہ ہے كہ جو انسانوں كو قبروں سے محشور ہونے كى دعوت ديگا_

۲ _ روز قيامت سب لوگ بغير كسى مخالفت كے اور مكمل نظم كے ساتھ داعى كى ندا كا جواب ديں گے اور اسكى پيروى كريں گے _يومئذ يتبعون الداعى لا عوج له

۲۰۵

ممكن ہے ''لہ'' كى ضمير كامرجع اتباع ہو (جو ''يتبعون'' سے مستفاد ہے) اس صورت ميں ''لاعوج لہ'' كا معنى يہ ہوگا كہ روز قيامت كے داعى كى پيروى ميں كسى قسم كى مخالفت اور انحراف نہيں ہوگا _

۳ _ قيامت ميں انسانوں كو حاضر كرنے كا حكم سب كيلئے اور ہر قسم كى بد نظمى اور كجى سے دور ہوگا _يومئذ يتبعون الداعى لاعوج له ممكن ہے ''لہ'' كى ضمير داعى كى طرف پلٹ رہى ہو اور دعوت ميں ''عوج'' اور كجى كے نہ ہونے سے حاكى ہو _

۴ _ روزقيامت ميں خداتعالى كى حاكميت مطلق كا ظہور_يومئذ يتبعون الداعي

۵ _ ميدان قيامت ميں حاضر لوگ اپنى گفتگو آہستہ آواز كے ساتھ زبان پر لائيں گے _يومئذ خشعت الا صوات للرحمن ''خشوع صوت'' كا معنى آواز كو نيچے لاناہے (تاج العروس)

۶ _ واقعہ قيامت كى عظمت اور اس دن رحمت خدا پر نظريں لگانا آوازوں كو سينوں ميں روك ديگا _يومئذ و خشعت الاصوات للرحمن روز قيامت آواز كو نيچے ركھنے كا سرچشمہ خشوع قلب ہے كہ جو انسان كے اس دن كے مناظر كے مشاہدہ كا نتيجہ ہے _

۷ _ قيامت،خداتعالى كى رحمانيت كے ظہور كا دن _و خشعت الا صوات للرحمن ''رحمن'' يعنى وسيع اور سب كے شامل حال رحمت كا مالك _

۸ _ خدا كى رحمانيت قيامت كے دہشت ناك اور خوفناك منظر ميں سب لوگوں كى اميد اور پناہ گاہ _و خشعت الا صوات للرحمن

۹ _ قيامت كے دن مخفى اور زير لب آواز يا قدموں كى آہستہ آہٹ كے علاوہ انسانوں كى كسى قسم كى آواز سنائي نہيں دے گى _و خشعت الا صوات للرحمن فلا تسمع إلاهمس

''ہمس'' يعنى مخفى آواز اور''همس الا قدام'' مخفى ترين قدم اٹھانے كو كہا جاتا ہے (معجم مقاييس اللغة) اس آيت ميں دونوں معنوں كا احتمال ہے_

اميد:خدا كى رحمانيت كى اميد ۸

انسان:اسكى ا خروى اميد ۸; يہ قيامت ميں ۵; اس ك

۲۰۶

آخرت ميں محشور ہونا ۳; اس كا محشور ہونا ۱، ۲

محشور ہونا:اس كا سب كو شامل ہونا ۳

خداتعالى :اسكى رحمت كى توقع ۶; اسكى اخروى حاكميت ۴; اسكى اخروى رحمانيت ۷، ۸

زمين:اسے ہموار كرنا ۱

قيامت:اس ميں آہستہ بولنا۵، ۹; اسكے منادى كو جواب دينا ۲; اسكى ہولناكياں ۹; اس ميں زمين۱; اس ميں حقائق كا ظہور ۴، ۷; اسكى عظمت ۶; اس ميں آہستہ بولنے كے عوامل ۶; اس كا منادى ۱; اسكى خصوصيات ۶، ۷، ۹

پہاڑ:پہاڑوں كا انہدام ۱

آیت ۱۰۹

( يَوْمَئِذٍ لَّا تَنفَعُ الشَّفَاعَةُ إِلَّا مَنْ أَذِنَ لَهُ الرَّحْمَنُ وَرَضِيَ لَهُ قَوْلاً )

اس دن كسى كى سفارش كام نہ آئے گى سوائے ان كے جنھيں خدا نے اجازت ديدى ہو اور وہ ان كى بات سے راضى ہو (۱۰۹)

۱ _ روز قيامت،شفاعت كارساز ہوگى _يومئذ لا تنفع الشفعة إلا

شفاعت كے سودمند نہ ہونے كى بات سوائے ان لوگوں كيلئے كہ جن كو اذن ہوگا اصل شفاعت كے مسلم ہونے كو بيان كررہا ہے _

۲ _ شفاعت ايك با ضابطہ اور محدود و معين چيز ہے _يومئذ لا تنفع الشفاعة إلا من أذن

۳ _ شفاعت كا سودمند ہونا ان لوگوں كيلئے ہے كہ جنہيں خداتعالى نے شفاعت كے لائق ہونے كى اجازت دى ہے _لا تنفع الشفعة الا من أذن له الرحمن ممكن ہے ''من أذن لہ الرحمن'' ميں ''مَن'' ''لاتنفع'' كا مفعول ہو اس صورت ميں جملے كا معنى يہ ہوگا كہ قيامت كے دن شفاعت كسى كو فائدہ نہيں پہنچائے گى مگر جنہيں اذن ہوگا _

۲۰۷

۴ _ قيامت كے دن شفاعت كرنے والوں كى شفاعت ان لوگوں كيلئے قبول كى جائيگى كہ جنكى گفتگو سے خداتعالى راضى ہوگا _لا تنفع الشفعة إلا و رضى له قول

۵ _ خداتعالى روز قيامت كا مطلق اور بے چون و چرا حاكم ہوگا _إلا من أذن له الرحمن

۶ _ شفاعت، قيامت كے دن خداتعالى كى مطلق حاكميت كے ساتھ تضاد نہيں ركھتى _يومئذ لا تنفع الشفعة إلا من أذن له الرحمن

۷ _ قيامت كے دن،شفاعت كے وجود اور محدود دائرے ميں اس كے مؤثر ہونے كا سرچشمہ خداتعالى كى رحمانيت ہے _

لا تنفع الشفاعة إلا من أذن له الرحمن

۸ _ قيامت كے دن صرف وہ لوگ شفاعت كريں گے جنہيں خدا كى طرف سے اذن ہوگا _لا تنفع الشفاعة إلا من أذن له الرحمن ممكن ہے جملہ ''لا تنفع ...'' شفاعت كرنے والوں كى طرف ناظر ہو اس احتمال كى بناپر آيت كى تركيب كے سلسلے ميں متعدد وجوہ ذكر كى گئي ہيں ان ميں ايك يہ ہے كہ ''الشفاعہ'' شافع كى طرف اشارہ ہے اور آيت كا حقيقى مفاد يہ ہے كہ ''لا ينفع شافع إلّا ...''

۹ _ قيامت كے دن ان لوگوں كو شفاعت كرنے كى اجازت ہوگى كہ جنكى گفتگو سے خداتعالى راضى ہوگا_لا تنفع الشفاعة إلا من رضى له قول ''ا ذن'' قرينہ ہے كہ جملہ '' رضى لہ قولاً'' قيامت سے مربوط ہے اور اس نكتے كو بيان كر رہا ہے كہ شفاعت كرنے والے اس صورت ميں شفاعت كر سكتے ہيں كہ نادرست بات زبان پر نہ لائيں اور شفاعت كے وقت جو كچھ زبان پر لائيں وہ حق اور خداكو پسند ہو_ يہ بھى بعيد نہيں ہے كہ يہ جملہ شفاعت كرنے والوں كى دنياوى گفتگو كى طرف نظر ركھتا ہو _

۱۰ _ خداتعالى كا راضى ہونا قيامت كے دن انسانوں كى گفتگو كے ثمربخش ہونے كى شرط ہے _و رضى له قول

۱۱ _ انسان كيلئے ضرورى ہے كہ اپنى گفتگو كى دقيق نگرانى كرے اور ايسى گفتگو سے پرہيز كرے جو خداتعالى كى ناراضگى كا موجب ہو _و رضى له قول

۱۲ _ گفتگو كا انسان كى تقدير اور خداتعالى كى خوشنودى اورناراضگى كے حاصل كرنے ميں بڑا كردار ہے _لا تنفع الشفاعة و رضى له قول انسان:اسكى تقدير ميں موثر عوامل ۱۲

خداتعالى :اسكى رحمانيت كے اثرات ۷; اسكى خوشنودى كے اثرات

۲۰۸

۹ ، ۱۰; اسكے غضب سے اجتناب كرنا ۱۱; اس كا اذن ۳، ۸; اسكى اخروى حاكميت ۵; اسكى خوشنودى كا پيش خيمہ ۱۱; اسكے غضب كا پيش خيمہ ۱۲

خداتعالى كى خوشنودي:يہ جنكے شامل حال ہے انكى شفاعت ۴

گفتگو:اسكے اثرات ۱۲; اس كى نگرانى كے اہميت ۱۱

شفاعت:اسكے اثرات ۱; اس كا قطعى ہونا ۱;اسكے شرائط ۳، ۴، ۸; يہ اور خدا كى حاكميت ۶; اس كا تحت قانون ہونا ۲; اس كا دائرہ كار ۲; يہ جنكے شامل حال ہے ۳; اس كا سرچشمہ ۷

شفاعت كرنے والے :ان سے راضى ہونا ۹; انكى شرائط ۹

قيامت:اس كا حاكم۵; اس ميں گفتگو كى تاثير كے شرائط ۱۰; اس ميں شفاعت ۱، ۲، ۷

آیت ۱۱۰

( يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَلَا يُحِيطُونَ بِهِ عِلْماً )

وہ سب كے سامنے اور پيچھے كے حالات سے باخبر ہے اور كسى كا علم اس كى ذات كو محيط نہيں ہے (۱۱۰)

۱ _ خداتعالى سب انسانوں كے ماضى و حال سے مكمل اور دقيق آگاہى ركھتا ہے _يعلم ما بين ا يديهم و ما خلفهم

''ما بين ا يديہم'' كى تعبير اس چيز پر بولى جاتى ہے كہ جس كا زيادہ وقت نہ گزرا ہو اور (آيت جيسے) موارد ميں ''ما بين ا يديہم و ما خلفہم''سے مراد سب زمانوں ميں انسان كے سب حالات ہيں قابل ذكر ہے كہ جو چيز افراد كے سامنے ہو اسے بھى ''ما بين ا يديہم'' كہتے ہيں _

۲ _ خداتعالى مخفى اور آشكار كا مطلق جاننے والا ہےيعلم ما بين ا يديهم و ما خلفهم

''آگے اور پيچھے'' ممكن ہے ظاہر اور مخفى سے كنايہ ہو كيونكہ عام طور پر جو چيز انسان كى آنكھوں كے سامنے نہ ہو وہ اس سے مخفى ہوتى ہے_

۳ _ خداتعالى قيامت كے دن شفاعت كرنے والوں كے (ماضي، استقبال اور ظاہراور مخفي) حالات سے مكمل آگاہ ہے _

لا تنفع الشفاعة إلا

۲۰۹

من أذن له يعلم ما بين ا يديهم و ما خلفهم

''ا يديہم'' اور ''خلفہم'' كى ضمير كا مرجع سابقہ آيت ميں مذكور ''من'' ہے كہ جو جمع كے معنى ميں ہے اور لفظ كے اعتبار سے ضمير مفرد اور معنى كے اعتبار سے جمع كى ضمير كا مرجع بن سكتا ہے_

۴ _ بندوں كے اعمال اور حالات سے خداتعالى كى وسيع آگاہي، قيامت كے دن شفاعت والے قانون اور اسكى اجازت كے صادر ہونے يا نہ ہونے كا سرچشمہ ہے _لاتنفع الشفاعة إلا من أذن يعلم ما بين ا يديهم و ما خلفهم

۵ _ مكمل اور دقيق آگاہي، قانون بنانے اور اسے اجراء كرنے والوں كى لازمى شرط ہے_

لاتنفع الشفاعة إلا من أذن له يعلم ما بين ائيديهم و ما خلفهم

۶ _ كوئي بھى شخص،خداتعالى كے علم او رمعلومات پر محيط ہونے كى طاقت نہيں ركھتا _يعلم ما ولا يحيطون به علم

صدر آيت كے قرينے سے خداتعالى كے علمى احاطے سے مراد اسكے معلومات اور اسكے كاموں ميں مخفى اسرار كا احاطہ ہے _

۷ _ انسان، خداتعالى كے كاموں كے سب اسرار اور معياروں سے مطلع ہونے كى طاقت نہيں ركھتا _ولا يحيطون به علم

۸ _ روز قيامت ميں دھوكہ بازى اور شفاعت سے سوء استفادہ كا كوئي راستہ نہيں ہے _

لاتنفع الشفاعة إلا من أذن له يعلم و لا يحيطون به علم

انسان:اس كا عاجز ہونا ۶،۷

خداتعالى :اسكے علم غيب كے اثرات ۴; اسكى خصوصيات ۶; اسكے افعال كار از ۷; اس كا علم غيب ۱، ۲،۳; اسكے اذن كے عوامل ۴; اسكے علم كى وسعت ۱، ۶

شفاعت :اس كا تحت ضابطہ ہونا ۴

شفاعت كرنے والے:يہ قيامت ميں ۲

قانون:اسے اجرا كرنے والوں كے شرائط ۵

قانون بنانے والے:انكے شرائط ۵; انكا علم ۵

قيامت:اس ميں شفاعت ۴، ۸; اس ميں مكر ۸; اسكى خصوصيات ۸

۲۱۰

آیت ۱۱۱

( وَعَنَتِ الْوُجُوهُ لِلْحَيِّ الْقَيُّومِ وَقَدْ خَابَ مَنْ حَمَلَ ظُلْماً )

اس دن سارے چہرے خدائے حى و قيوم كے سامنے جھكے ہوں گے اور ظلم كا بوجھ اٹھانے والا ناكام اور رسوا ہوگا (۱۱۱)

۱ _ قيامت كے دن خداتعالى كے مقابلے ميں خضوع و خشوع كى علامات سب انسانوں كے چہروں پر منقوش ہوں گى _

و عنت الوجوه للحى القيوم ''عنا'' كا معنى ہے خاضع اور مطيع ہونا (لسان العرب) اور ''وجہ'' كا معنى ہے چہرہ اور چونكہ خضوع و ذلت كے آثار سب سے زيادہ چہرے پر ظاہر ہوتے ہيں اس لئے يہ كلمہ استعمال ہوا ہے ''الوجوہ'' كے ''ال'' كے بارے ميں احتمال ہے كہ يہ استغراق كيلئے ہو يا مضاف اليہ كے عوض ہو اور اس سے مراد ''وجوہ مجرمين'' ہو مذكورہ مطلب پہلے احتمال كى بناپر ہے_

۲ _ مجرمين اور متكبرين روز قيامت ذلت آميز اور خاضع چہروں كے ساتھ خداتعالى كے سامنے حاضر ہوں گے_

و عنت الوجوه للحى القيوم ''عنائ'' كے معانى ميں سے ہے ذليل ہونا (مصباح) اور ''الوجوہ'' ميں ''ال'' مضاف اليہ كى جگہ پر ہے يعنى ''وجوہہم'' اور اس سے مراد ان مجرمين كے چہرے ہيں كہ جنكے بارے ميں گذشتہ آيات ميں بات ہوچكى ہے_ فعل ''عنت'' بتاتا ہے كہ ان كا خضوع تازہ ہے اور اس سے پہلے دنيا ميں خداتعالى كے مقابلے ميں خضوع نہيں كرتے تھے_

۳ _ خداتعالى حى و قيوم (زندہ اور ہستى كو قائم ركھنے والا) ہےو عنت الوجوه للحى القيوم

''قيوم'' اسے كہا جاتا ہے كہ جو خودبخود قائم ہو اور سب چيزوں كا محافظ اور ہر چيز كو اس كا ذريعہ قوام عطا كرنے والا ہو (مفردات راغب)

۲۱۱

۴ _ خداتعالى جہان ہستى كا چلانے والا اور اسكى تدبير كرنے والا ہے اور جہان ہستى كا قوام اور دوام اسكے ذريعے سے ہے _للحى القيوم

بعض اہل لغت كے قول مطابق ''قيوم'' وہ ذات ہے كہ جو مخلوق كے امور كو قائم كرے اور اس نے تمام حالات ميں كائنات كى تدبير اپنى ذمے لے ركھى ہو (لسان العرب) _

۵ _ خداتعالى كى اپنے غير سے مطلق بى نيازى _القيوم

''قيوم'' اسے كہا جاتا ہے كہ جو قائم بالذات ہو اور اپنے وجود ميں غير كا محتاج نہ ہو _(لسان العرب)

۶ _ قيامت كے دن خداتعالى كے دائمى ہونے اور عالم ہستى پر اسكى قيوميت كا ظہور اسكے مقابلے ميں لوگوں كے گہرے خضوع اور ذلت كا سبب ہوگا _و عنت الوجوه للحى القيوم

۷ _ دنيا ميں ہر قسم كا ظلم و ستم قيامت كے دن ظالموں كے كندھوں پر بھارى بوجھ ہوگا _من حمل ظلم

۸ _ ظلم، قيامت كے دن انسان كے نقصان اور محروميت كا سبب ہوگا _و قد خاب من حمل ظلم

''خيبة'' يعنى مطلوب كو ہاتھ سے دے بيٹھنا (مفردات راغب)

۹ _ قرآن سے روگردانى ظلم ہے _و قد خاب من حمل ظلم

گذشتہ آيات قرينہ ہيں كہ ظلم سے مراد قرآن مجيد سے منہ موڑنا ہے كہ جسے ''وزر'' كہا گيا تھا_

۱۰ _ اپنے اور دوسروں كے حق ميں ہر قسم كے ظلم و ستم سے پرہيز كرنا ضرورى ہے_و قد خاب من حمل ظلم

۱۱ _ ستم كرنے والے (قيامت كے دن) شفاعت كرنے اور شفاعت كے لائق ہونے كے اذن سے محروم ہوں گے_

يومئذ لاتنفع الشفاعة و قدخاب من حمل ظلم

۱۲ _ قيامت كے دن صرف وہ مجرمين ناكام اور محروم ہوں گے كہ جنكے پاس كچھ ايمان اور عمل صالح نہيں ہوگا_من حمل ظلم بعد والى آيت ميں جملہ''ومن يعمل من الصالحات ...'' اس بات كا قرينہ ہو سكتا ہے كہ''من حمل ظلماً'' مطلق نہيں ہے بلكہ صرف وہ لوگ مراد ہيں كہ جو نہ مؤمن ہيں اورنہ نيكوكار _

خلقت:اسكى تدبير ۴; اسكى بقا كا سرچشمہ ۴

اسما و صفات:حي۳; صفات جلال۵; قيوم ۳

۲۱۲

انسان:يہ قيامت ميں ۱; اس كا اخروى خضوع ۱، ۶; اسكى اخروى ذلت ۶; اس كا اخروى حليہ ۱

خداتعالى :اسكے دائمى ہونے كا اثرات ۶; اسكى قيوميت كے اثرات ۶; اسكى بے نيازى ۵; اسكى تدبير۴; اسكے مقابلے ميں خضوع ۶; اسكے مقابلے ميں خضوع كى نشانياں ۱

نقصان:اخروى نقصان كے عوامل ۸

شفاعت:اس سے محروم لوگ ۱۱

سركشى كرنے والے:انكا اخروى خضوع۲; انكى اخروى ذلت۲; انكا اخروى حليہ ۲

ظلم:اسكے اثرات ۸_اس سے اجتناب كى اہميت ۱۰ اس كا آخرت ميں بھارى ھونا۷

قرآن كريم:اس سے روگردانى كرنے كا ظلم ۹

قيامت:اس ميں خضوع۶; اس ميں شفاعت ۱۱

كفار:انكى اخروى محروميت ۱۲

گناہ گار لوگ:انكا اخروى خضوع۲; انكى اخروى ذلت۲; انكا اخروى حليہ ۲; انكى اخروى محروميت ۱۲

آیت ۱۱۲

( وَمَن يَعْمَلْ مِنَ الصَّالِحَاتِ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَا يَخَافُ ظُلْماً وَلَا هَضْماً )

اور جو نيك اعمال كرے گا اور صاحب ايمان ہوگا وہ نہ ظلم سے ڈرے گا اور نہ نقصان سے (۱۱۲)

۱ _ مؤمنين جو اعمال صالح ركھتے ہيں قيامت كے دن اپنے كام كے ثمرات ميں ہر قسم كى كمى اور تباہى سے محفوظ ہوں گے _و من يعمل من الصلحت و هو مؤمن فلا يخاف ظلماً و لا هضم

''ہضم'' يعنى ناقص كرنا اور كم كرنا (مصباح) پس''لايخاف ظلماً و لا هضماً'' يعنى نہ اس پر كوئي ستم كو روا ركھے گا تا كہ اس كا ناحق مؤاخذہ كرے اور نہ اسكے عمل كى جزا ميں نقصان اور كمى آئيگي_

۲۱۳

۲ _ قيامت كے دن مؤمنين كے امن اور قلبى سكون كا انحصار دنيا ميں ان كے اعمال صالح پر ہے_و من يعمل من الصلحت فلايخاف ظلماً و لا هضم ''من الصلحت'' ميں ''من'' تبعيض كيلئے ہے اور دلالت كر رہا ہے كہ قيامت كے دن مؤمنين كى نجات كيلئے بعض اعمال صالح كا صدور كافى ہے_

۳ _ بے ايمانى اور اعمال صالح سے دورى ايسے ظلم ہيں كہ جو روز قيامت انسان كے دامنگير ہوں گي_و قدخاب من حمل ظلماً و من يعمل من الصلحت و هو مؤمن اس آيت اور اس سے پہلے والى آيت كے درميان مقابلے سے يہ ظاہر ہے كہ اس آيت كا موضوع ظالموں كے مقابل والا گروہ ہے_

۴ _ خداتعالى بندوں كا مو اخذہ كرنے ميں ہرگز حق سے تجاوز نہيں كرتا_فلايخاف ظلماً و لا هضم

ظلم اور ہضم كے درميان فرق كے سلسلے ميں كئي احتمالات ديئے گئے ہيں ان ميں سے ايك يہ ہے كہ ظلم يعنى حق سے زيادہ كا مطالبہ كرنا اور ہضم يعنى حق سے كم كرنا_

۵ _ قيامت كے دن اعمال كى پاداش عادلانہ اور ہر قسم كے نقص و كمى سے دور ہوگي_و من يعمل فلايخاف ظلماً و لاهضم

۶ _ ايمان، قيامت كے دن اعمال صالح كے ثمربخش ہونے اور انكى مكمل جزا سے بہرہ مند ہونے كى شرط ہے_

و من يعمل و هو مؤمن فلايخاف ظلماً و لا هضم

آخرت ميں مؤمن كے عمل كى جزا ميں كمى كى نفى اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ ايمان نہ ہونے كى صورت ميں انجام ديا گيا عمل صالح نقص اور كمى سے دوچار ہوجائيگا_

۷ _''عن ا بى جعفر (ع) فى قوله'' لا يخاف ظلماً و لا هضماً'' يقول: لا ينقص من عمله شيء و ا ما ''ظلماً'' يقول: لن يذهب به ; امام محمد باقر(ع) سے خداتعالى كے اس فرمان''لايخاف ظلماً و لاهضماً'' كے بارے ميں روايت كى گئي ہے كہ آپ (ع) نے فرمايا خداتعالى فرماتا ہے كہ اس كے اعمال سے كمى نہيں كى جائيگى اور (كلمہ) ''ظلما'' (تو خداتعالى اس كلمے كے ساتھ) فرما رہا ہے كہ اسكے اعمال ختم نہيں ہوں گے_(۱)

اسما و صفات:صفات جلال ۴

ايمان:اس سے روگردانى كرنے كے اخروى آثار ۳; اسكے اخروى آثار ۶; اس سے روگردانى كرنے كا ظلم ۳

____________________

۱ ) تفسير قمى ج۲ ص ۶۷_ نورالثقلين ج۳، ص ۳۹۵ج ۱۲۳_

۲۱۴

پاداش:اس ميں عدل۵

خداتعالى :خداتعالى اور ظلم ۴; خداتعالى كا عدل ۴

روايت: ۷

ظلم:اسكے اخروى آثار ۳

عمل:اسكى بقا ۷; اسكى اخروى جزا ۵; اسكى اخروى سزا ۵

عمل صالح:اس سے اعراض كے اخروى اثرات ۳; اسكے اخروى اثرات ۱; اسكى پاداش ۶; اس سے اعراض كا ظلم ۳

قيامت:اس ميں عدل ۵

سزا:اس ميں عدل ۵

مؤمنين:ان كے اخروى سكون كے عوامل ۱; ان كے اخروى امن كے عوامل۱

آیت ۱۱۳

( وَكَذَلِكَ أَنزَلْنَاهُ قُرْآناً عَرَبِيّاً وَصَرَّفْنَا فِيهِ مِنَ الْوَعِيدِ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ أَوْ يُحْدِثُ لَهُمْ ذِكْراً )

اور اسى طرح ہم نے قرآن كى عربى زبان ميں نازل كيا ہے اور اس ميں طرح طرح سے عذاب كا تذكرہ كيا ہے كہ شايد يہ لوگ پرہيزگار بن جائيں يا قرآن ان كے اندر كسى طرح كى عبرت پيدا كردے (۱۱۳)

۱ _ قرآن ايسى كتاب ہے جو فصيح اور واضح بيان كے ساتھ خداتعالى كى جانب سے نازل ہوئي ہے_

و كذلك ا نزلناه قرء انا عربي

''عربياً''كا معنى يا تو فصيح اور واضح ہے (مفردات راغب) اور يا يہ اسكے عرب زبانوں كى طرف منسوب ہونے كو بيان كررہا ہے (لسان العرب) مذكورہ مطلب پہلے معنى كى طرف ناظر ہے _

۲ _ حقائق و معارف كو بيان كرنے ميں بيان كا واضح ہونا تبليغ كيلئے لازمى خصوصيات ميں سے ہے_

قرآنا عربياً و صرفنا فيه من الوعيد لعلهم يتقون

۳ _ قرآن عربى زبان ميں نازل ہوا ہے اور يہ اسكے قواعد و ضوابط كے مطابق ہے _و كذلك ا نزلناه قرء انا عربي

مذكورہ مطلب اس احتمال كى طرف ناظر ہے كہ ''عربياً'' عربوں كى مخصوص زبان كے معنى ميں ہو_

۴ _ قرآن، پيغمبر(ص) اكرم پر نازل شدہ كتاب كا نام ہے_ا نزلنه قرء انا عربي

۲۱۵

۵ _ قرآن مختلف اور گوناگون دھمكيوں اور تہديدات پر مشتمل ہے_و صرفنا فيه من الوعيد

''صرف'' يا ''تصريف'' كا معنى ہے ايك چيز كو ايك حالت سے دوسرى حالت ميں پھيرنا يا اسے تبديل كرنا_ قابل ذكر ہے كہ تصريف ميں زيادہ مبالغہ ہے (مفردات راغب) بنابراين ''صرفنا ...'' سے مقصود يہ ہے كہ ہم نے دھمكيوں كو مختلف صورتوں ميں پيش كيا ہے _

۶ _ بيان كا متنوع ہونا اور اسكى مختلف صورتوں كو پيش كرنا تبليغ و تربيت ميں قرآن كى ايك روش ہے_و صرفنا فيه من الوعيد لعلهم يتقون

۷ _ انسان ميں روح تقوى كا پيدا ہونا نزول قرآن كے اہداف ميں سے ہے_ا نزلنه لعلهم يتقون

۸ _ قرآن كے واضح بيانات كى مخالفت سے لوگوں كو باز ركھنا قرآن كى دھمكيوں كا فلسفہ _و صرّفنا فيه من الوعيد لعلهم يتقون

قرآن سے روگردانى كرنے والوں كو گذشتہ آيات ميں دھمكياں ملنا نيز جملہ ''ا نزلناہ قرآنا عربياً'' اس بات كا قرينہ ہے كہ ''يتقون'' كا متعلق قرآن سے روگردانى كرنا ہے_

۹ _ انسان ميں روح تقوى كا پيدا كرنا دھمكيوں اور تہديدات كے استعمال كا محتاج ہے_و صرفنا فيه من الوعيد لعلهم يتقون

۱۰ _ انسان كو متنبہ كرنا ا ور اسے ياد دہانى كرانا قرآن كے اہداف اور اس كے واضح بيانات ميں سے ہے_

و صرفنا فيه من الوعيد لعلهم ا و يحدث لهم ذكرا

''ذكر'' نسيان اور بھولنے كى ضد ہے( مقابيس اللغة) پس ''ذكر'' يعنى فراموش نہ كرنا اور دل ميں محفوظ ركھنا _

۱۱ _ خداتعالى قرآن كے الفاظ اور كلمات كو نظم دينے والا اور متنوع آيات كے قالب ميں انسان كو متنبہ كرنے والا ہے_

ا نزلناه قرء انا عربياً و صرفنا فيه من الوعيد

(نزول كى حالت ميں ) قرآن كے عربى ہونے كا وصف بيان كرنا اس بات سے حكايت كرتا ہے كہ قرآن كے محتوا كے علاوہ اسكے الفاظ بھى خداتعالى كى طرف سے ہيں _

۱۲ _ قرآن كے معارف لوگوں كيلئے قابل درك ہيں _

۲۱۶

و صرفنا فيه من الوعيد لعلهم يتقون

۱۳ _ قرآن كى مكرر اور متنوع تنبيہات كو سنجيدہ لينا اور اسكے معارف اور تعليمات كو خاطر ميں ركھنا ضرورى ہے_

ا نزلناه لعلهم يتقون ا و يحدث لهم ذكرا

''لعل'' اميد كے اظہار كيلئے ہے اور خداتعالى كے كلام ميں اس سے مقصود مخاطبين كى اميد ہے يعنى يہ مخاطبين كو فراہم شدہ حالات سے فائدہ اٹھانے كى دعوت ديتا ہے اور بيان كرتا ہے كہ اسكے نتيجے سے اميدوار ہونا چاييے_

۱۴ _ قيامت اور مجرمين كے مستقبل كے حالات كى تشريح تقوا كے پيدا ہونے اور انسان سے غفلت كو دور كرنے كا سبب ہے_و كذلك ا نزلناه لعلهم يتقون ا و يحدث لهم ذكرا

''كذلك'' ميں حرف كاف تشبيہ كيلئے ہے اور يہ گذشتہ آيات كو تقوا اور ياد دہانى پيدا كرنے كيلئے آيات الہى كے نمونے كے طور پر متعارف كر رہاہے _/انسان:اس كا خبردار ہونا ۱۰

تبليغ:اس ميں بيان كا متنوع ہونا ۶; اسكى روش ۶; اسكے شرائط ۲; اس ميں فصاحت ۲

ياد دہانى كرانا:انسان كو ياد دہانى كرانا ۱۰

تقوا:اس كا پيش خيمہ ۷، ۹، ۱۴

خداتعالى :خداتعالى كا نقش اور كردار ۱۱

ذكر:قرآن كى دھمكيوں كا ذكر ۱۳

غفلت:اسے دور كرنے كا پيش خيمہ۱۴

قرآن كريم:اسكى تعليمات ۵; اسكے بيان كا متنوع ہونا ۵، ۱۱; اسكے فہم كا آسان ہونا ۱۲; اس كا عربى ہونا ۳; اسكى فصاحت ۱; اسكے نزول كا فلسفہ ۷، ۱۰; اسكى دھمكيوں كا فلسفہ ۸; اسكى مخالفت سے ممانعت ۸; اسكى تدوين كا سرچشمہ ۱۱; اس كا وحى ہونا ۱; اس كا واضح ہونا ۱، ۱۲; اسكى دھمكياں ۵، ۱۱; اسكى خصوصيات ۱، ۳

قيامت :اسكے واقعات كا بيان كرنا ۱۴

گناہ گار لوگ:نكے انجام كا بيان كرنا ۴

محمد-(ص) :آپ كى آسمانى كتاب ۱۴

دھمكي:اسكے اثرات ۹

۲۱۷

آیت ۱۱۴

( فَتَعَالَى اللَّهُ الْمَلِكُ الْحَقُّ وَلَا تَعْجَلْ بِالْقُرْآنِ مِن قَبْلِ أَن يُقْضَى إِلَيْكَ وَحْيُهُ وَقُل رَّبِّ زِدْنِي عِلْماً )

پس بلند و برتر ہے وہ خدا جو بادشاہ برحق ہے اور آپ وحى كے تمام ہونے سے پہلے قرآن كے بارے ميں عجلت سے كام نہ ليا كريں اور يہ كہتے رہيں كہ پروردگار ميرے علم اضافہ فرما (۱۱۴)

۱ _ خداتعالى ،بلند مرتبہ حقيقت، بے نظير اور كمال كے عروج پر ہے_فتعلى الله

''تعالى '' كا معنى ہے بلند مرتبہ اور اس سے مراد خداتعالى كى صفات كا مخلوقات كى صفات سے برتر ہونا ہے _

۲ _ خداتعالى كائنات كا حقيقى مالك اور اس كا مطلق فرمان روا ہے_فتعلى الله الملك

۳ _ خداتعالى حق محض ہے اور اس ميں كسى قسم كا باطل روا نہيں ہے_فتعلى الله الملك الحق

۳ _ خداتعالى كے افعال اور موجودات كى آفرينش حكيمانہ اور خردمندانہ ہے _الحق

حق اسے كہا جاتا ہے كہ جو كسى چيز كو حكمت كى بنياد پر خلق كرے (مفردات راغب)

۵ _ خداتعالى كى عالم ہستى پر فرمانروائي اور اسكى مالكيت ايسى ثابت حقيقت ہے كہ جس كا فنا ہونا ممكن نہيں ہے _

الملك الحق

''حق'' يعنى واجب و ثابت (مصباح) اور آيت ميں ''الحق'' ممكن ہے ''الملك'' كى صفت ہو نيز ممكن ہے يہ '' الله '' كى دوسرى صفت ہو اور اسكے صفت ''الملك'' كے بعد مذكور ہونے كو مد نظر ركھتے ہوئے مذكورہ نكتہ حاصل ہوتا ہے _

۶ _ حق كى حكومت خداتعالى سے مخصوص ہے_

الملك الحق

۶ _ قرآن كا نزول خداتعالى كى مطلق فرمانروائي اس كى حقانيت اور اسكے بلند مرتبہ ہونے كا ايك جلوہ ہے_

و كذلك انزلنه فتعلى الله الملك الحق ''فتعلي'' ميں ''فائ'' تفريع كيلئے ہے اور اس بات پر دلالت كررہى ہے كہ اسكے بعد كے مطالب تك پہنچنا اسكے ماقبل كى طرف توجہ كا نتيجہ ہے_

۸ _ قيامت كا عظيم واقعہ، كائنات ميں بڑى تبديلياں اور اس كا دقيق اور عادلانہ نظام خداتعالى كے بلند مرتبہ اسكى مطلق فرمانروائي اور ہر قسم كے باطل سے منزہ ہونے كے جلوے ہيں _فتعلى الله الملك الحق

۲۱۸

اس آيت كا سابقہ آيات كے ساتھ ارتباط كہ جو قيامت كے قريب كے اور روز قيامت كے واقعات كے بارے ميں تھيں _ مذكورہ نكتے كو بيان كررہا ہے_

۹ _ پورے قرآن كا نسبتاًجلدى نزول اور اسكى آيات كے مجموعے كى جلدى تكميل پيغمبر اكرم(ص) كا قلبى تقاضا _و لاتعجل بالقرء ان من قبل ا ن يقضى إليك وحيه اس آيت كريمہ كے نزول كى علت كے بارے ميں مختلف آراء ہيں ۱_ پيغمبر(ص) اكرم جبرائيل كى قرائت كے ہمراہ آيات كى قرائت كرتے تا كہ مكمل طور پر اسكے حصول سے مطمئن ہوجائيں _

۲ _ پيغمبر(ص) اكرم آيات كا معنى واضح ہونے سے پہلے اسے اصحاب كو لكھوا ديتے تھے_

۳ _ پيغمبر(ص) اكرم كم وقت ميں پورے قرآن كا نزول چاہتے تھے اور چونكہ ''القرء ان'' كى تعبير پورے قرآن كے مراد ہونے كے ساتھ زيادہ سازگار ہے اسلئے تيسرے احتمال كو ترجيح دے جاسكتى ہے_

۱۰ _ پيغمبر(ص) اكرم وحى كے ختم ہونے سے پہلے قرآن كى آيات كو زبان پر جارى كرتے اور انكى تلاوت ميں عجلت سے كام ليتے _*و لاتعجل بالقرء ان من قبل ا ن يقضى إليك وحيه

۱۱ _ پيغمبر(ص) اكرم آيات قرآن كو حفظ كرنے اور انہيں سپرد خاطر كرنے كيلئے بہت اشتياق ركھتے تھے _

و لاتعجل بالقرء ان من قبل ا ن يقضى إليك وحيه كہا جاچكا ہے كہ جبرائيل كى قرائت كے ہمراہ پيغمبر اكرم(ص) كے قرائت كا محرك وحى كے كامل حصول كا اطمينان تھا_

۱۲ _ خداتعالى نے پيغمبراكرم (ص) كو وحى كے ختم ہونے سے پہلے آيات كى تلاوت ميں عجلت نہ كرنے كى نصيحت كي_

و لا تعجل بالقرء ان من قبل ا ن يقضى إليك وحيه

۱۳ _ قرآن پورے كا پورا وحى الہى ہے_من قبل ا ن يقضى إليك و حيه

۱۴ _ پيغمبراكرم(ص) پر قرآن كى آيات اور كلمات كا نزول

۲۱۹

تدريجى تھا_و لا تعجل بالقرء ان من قبل ا ن يقضى إليك وحيه

۱۵ _ پيغمبراكرم(ص) قرآن كى آيات كے تدريجى نزول سے پہلے اس سے آگاہ تھے_*ولاتعجل بالقرء ان من قبل ا ن يقضى إليك وحيه آيت كے بارے ميں مذكور احتمالات ميں سے ايك يہ ہے كہ جب بھى جبرائيل پيغمبراكرم(ص) كے سامنے كوئي نئي آيت پڑھتے تو آپ(ص) چونكہ پہلے سے ہى پورے قرآن سے آشنا تھے_ كيونكہ شب قدر ميں اسے حاصل كرچكے تھے_ اسلئے آيت كا بعدوالا حصہ خودہى آگے آگے تلاوت كرتے جاتے اور اس آيت ميں آپ (ص) كو ہر آيت كى وحى كے مكمل ہونے تك پورى طرح خاموش رہنے كا حكم ديا گيا ہے_

۱۶ _ قرآن كا مكرر نزول _ولاتعجل بالقرء ان

مذكورہ مطلب اس احتمال كى بنيادپر ہے كہ پورا قرآن شب قدر ميں نازل ہوا تھا كہ جسكے نتيجے ميں پيغمبر(ص) اكرم آيات كے تدريجى نزول سے پہلے ہى ان سے آگاہ تھے_

۱۷ _ علم كے زيادہ ہونے كى دعا، خداتعالى كى طرف سے پيغمبراكرم(ص) كو نصيحت_و قل رب زدنى علما

۱۸ _ علم انسان كيلئے ايك لامتناہى چيز ہے اور ہميشہ قابل اضافہ ہے _و قل رب زدنى علما

۱۹ _ علم، خداتعالى كا عطيہ ہے اوريہ اسكى ربوبيت سے نشأت پكڑتا ہے _و قل رب زدنى علما

۲۰ _ قرآن ، علم ميں اضافہ كرتا ہے_ولاتعجل بالقرء ان و قل رب زدنى علما

۲۱ _ خداتعالى انبياء كو تعليم دينے والا اور انكى تربيت كرنے والا ہے_و قل رب زدنى علما

۲۲ _ خداتعالى كے علم كے مقابلے ميں پيغمبر(ص) اكرم كا علم محدود اور قابل اضافہ تھا _و قل رب زدنى علما

۲۳ _ پورے قرآن كے نزول ميں جلدى نہ كرنا اور ہر آيت كے نزول كے ختم ہونے تك مكمل خاموشى خداتعالى كى جانب سے علوم پيغمبر(ص) ميں اضافے كا سبب _و لاتعجل بالقرء ان و قل رب زدنى علما

۲۴ _ پيغمبر(ص) اكرم كا علم و آگاہى آپ (ص) كيلئے خدا كا عطيہ_و قل رب زدنى علما

۲۵ _ جلد بازى اور عجلت،تحصيل علم كى آفات ميں سے ہيں _ولا تعجل بالقرء ان و قل رب زدنى علما

۲۶ _ علم ميں اضافہ كيلئے بارگاہ الہى ميں دعا كرنا ضرورى

۲۲۰

ہے_و قل رب زدنى علما

۲۷ _ دعا ميں ''رب'' كے نام كو ذكر كرنا دعا كے آداب ميں سے ہے _و قل رب زدنى علما

آفرينش :اس كا حاكم ۲، ۵; اس كا تحت قانون ہونا ۴; اس كا مالك ۲، ۵; اس كا نظام ۸

اسما و صفات:صفات جلال۳

انبيا(ع) :ان كے علم كا دائرہ ۲۲; انكى تربيت كرنے والا۲۱; انكا معلم ۲۱

خداتعالى :اسكى ربوبيت كے اثرات ۱۹; اسكى خصوصيات ۶; اس كا بے نظير ہونا ۱; اسكى تعليمات ۲۱; اسكى نصيحتيں ۱۲، ۱۷; اسكى حاكميت كا دائمى ہونا ۵; اسكى مالكيت كا دائمى ہونا ۵; اسكى حكمراني۲; اسكى حكمرانى كى حقانيت ۷; اسكى حكومت كى حقانيت ۶; اسكى حقانيت ۳; اسكى حكمت۴; يہ اور باطل۳; اسكى ربوبيت ۲۱; اس كا علو ۱; اس كا كمال ۱; اسكى مالكيت ۲; اسكى حاكميت كى نشانياں ۷، ۸; اسكے علو كى نشانياں ۷، ۸; اسكے علم كى وسعت ۲۲

دعا:اسكے آداب ۷; علم ميں اضافے كى دعا ۱۷، ۲۶

ذكر:ربوبيت خدا كا ذكر ۲۷

عجلت:اسكے اثرات ۲۵

محبت:حفظ قرآن كى محبت ۱۱

علم:اسكى آفات ۲۵; اس كا زيادہ ہونا ۱۸; اس كا سرچشمہ ۱۹; اسكى وسعت ۱۸; اسكى خصوصيات ۱۸

قرآن كريم:اس ميں عجلت كرنے سے اجتناب كرنا ۲۳; اسكے حفظ كى اہميت ۱۱; اسكے نزول كى اہميت ۷; اسكے نزول ميں عجلت كرنا ۹; اسكے نزول كا متعدد ہونا۱۶; اس كا علم ہونا ۲۰; اس كا تدريجى نزول ۱۴; اس كا وحى ہونا ۱۳; اسكى خصوصيات ۱۳ظقيامت:اس كا كردار ۸

محمد(ص) :آپ(ص) كے علم كا زيادہ ہونا ۲۲; آپكى تلاوت قرآن ۱۰، ۱۲; آپ كو نصيحت ۱۲، ۱۷; آپ(ص) كے مطالبے ۹; آپكے علم كے زيادہ ہونے كا پيش خيمہ ۲۳; آپ كى عجلت ۱۰، ۱۲; آپكى محبت ۱۱; آپ كا علم ۱۵، ۲۴; آپ(ص) اور قرآن ۱۵; آپ كا معلم ۲۳; آپكى نعمتيں ۲۴; آپكى طرف وحى ۱۰

نعمت:يہ جنكے شامل حال ہے ۲۴; علم كى نعمت ۱۹

۲۲۱

آیت ۱۱۵

( وَلَقَدْ عَهِدْنَا إِلَى آدَمَ مِن قَبْلُ فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْماً )

اور ہم نے آدم سے اس سے پہلے عہد ليا مگر انھوں نے اسے ترك كرديا اور ہم نے ان كے پاس عزم و ثبات نہيں پايا (۱۱۵)

۱ _ قرآن خداتعالى كے وعدوں اور نصيحتوں پر مشتمل ہے_و كذلك ا نزلنه لعلهم و لقد عهدنا إلي ء ادم من قبل ''عہد'' يعنى نصيحت (قاموس) اور ''و لقد عہدنا'' ميں ''واو'' نے حضرت آدم (ع) كى داستان كا اس سے پہلے والے مطالب (و كذلك ا نزلناہ) پر عطف كيا ہے خداتعالى كے حضرت آدم كے ساتھ عہد كا قرآن كے نازل كرنے كے ساتھ ارتباط اس بات كو بيان كررہا ہے كہ قرآن لوگوں كو خداتعالى كى نصيحتيں سكھانے كيلئے ہے_

۲ _ خداتعالى نے انسان كى خلقت كے آغاز ميں اور نزول قرآن كے زمانے سے پہلے ابوالبشر آدم(ع) كے سامنے خواہش اور نصيحت ركھى تھى _و كذلك ا نزلناه و لقد عهدنا إلى ء ادم من قبل

گذشتہ آيت قرينہ ہے كہ كلمہ ''قبل'' كا مضاف اليہ قرآن كے نزول كا زمانہ ہے اور ممكن ہے اس سے مراد ان واقعات سے قبل ہو جن كا تذكرہ اس سورت كے آغاز سے ہى كيا گيا ہے اور خداتعالى نے حضرت آدم كے ساتھ جو عہد كيا تھا اس سے مراد _ جيسا كہ حضرت آدم كے قصے كى ديگر آيات سے استفادہ ہوتا ہے_ ممنوعہ درخت سے نہ كھانا تھا _

۳ _ حضرت آدم(ع) نے خداتعالى كى نصيحت پر عمل نہ كيا _و لقد عهدنا إلى ء ادم من قبل فنسي

حضرت آدم(ع) كے ساتھ شيطان كى گفتگو (ما نہاكما ربكما اعراف ۲۰) قرينہ ہے كہ نسيان سے مراد حقيقى فراموشى نہيں تھى بلكہ اس كا لازمہ (ترك عمل) تھي_

۴ _ حضرت آدم(ع) ميں خداتعالى كى نصيحت پر كاربند ہونے كيلئے لازمى عزم و ارادہ نہيں تھا _و لقد عهدنا إلى ء ادم فنسى و لم نجد له عزما

۵ _ خداتعالى كى نصيحتوں پر عمل كرنے كيلئے سنجيدہ عزم

۲۲۲

اور تصميم قابل قدر عادت ہے _و لقد عهدنا إلى ء ادم فنسى و لم نجد له عزما

''نہيں تھا'' كى بجائے ''ہم نے نہيں پايا'' كى تعبير اس بات كو بيان كرر ہى ہے كہ ايسے موارد ميں عزم كا وجود مطلوب اور متوقع ہے_

۶ _ خداتعالى كى نصيحتوں پر عمل كرنے كيلئے سنجيدہ عزم و تصميم انسان كے بارگاہ خداوندى ميں قابل قدر ہونے كا سبب ہے _و لم نجد له عزم ''لم نجد'' ميں فاعلى ضمير دلالت كرتى ہے كہ حضرت آدم (ع) ميں عزم كا وجود خداتعالى كو مطلوب تھا اور اس كا نہ ہونا خلاف توقع تھا_

۷ _'' عن ا ب جعفر(ع) قال:إن الله تبارك و تعالى عهد إلى ء ادم (ع) ا ن لا يقرب الشجرة نسى فا كل منها وهو قول الله تبارك و تعالى :''و لقد عهدنا إلى ء ادم من قبل فنسى و لم نجد له عزماً'' ; امام باقر(ع) سے روايت كى گئي ہے كہ خداتعالى نے حضرت آدم(ع) كو حكم ديا تھا كہ اس درخت كے نزديك نہ جائيں انہوں نے وہ حكم فراموش كرديا اور اس درخت سے كھا ليا اور يہى مراد ہے خداتعالى كے فرمان''ولقد عهدنا '' سے_(۱)

آدم(ع) :انكو نصيحت ۲، ۷; انكى نافرمانى ۴; انكى عہدشكنى ۳، ۷; انكى فراموشى ۷; انكا قصہ ۲، ۳، ۴

اخلاق:اخلاقى فضائل ۵

اقدار:انكا معيار ۶

خداتعالى :اسكى نصيحتوں پر عمل كے اثرات ۶; اسكے عہد پر عمل كى تصميم ۵; اسكى نصيحتيں ۱، ۲، ۷; اسكى نصيحتوں پر عمل ۴; اس كا عہد۱; اسكے ساتھ عہد شكنى ۳، ۷

روايت :۷

قرآن كريم:اسكى تعليمات ۱

____________________

۱ ) كمال الدين صدوق ص ۲۱۳ ب ۲۲ ح ۲ نورالثقلين ج۳ ص ۳۹۹ ح ۱۴۷_

۲۲۳

آیت ۱۱۶

( وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ أَبَى )

اور جب ہم نے ملائكہ سے كہا كہ تم سب آدم كے لئے سجدہ كرو تو ابليس كے علاوہ سب نے سجدہ كرليا اور اس نے انكار كرديا (۱۱۶)

۱ _ فرشتوں كے حضرت آدم(ع) كے سامنے سجدہ كرنے اور ابليس كے سجدہ نہ كرنے كى داستان قابل توجہ اور سبق آموز ہے_و إذ قلنا للملئكة اسجدو ''إذ'' فعل محذوف كا مفعول ہے اور اس جيسى آيات كے قرينے سے وہ فعل ''اذكر'' (ياد كرو اور خاطر ميں ركھو)ہے_

۲ _ خداتعالى كے حكم سے فرشتے حضرت آدم(ع) كيلئے سجدہ كرنے اور ان كے سامنے خاضع ہونے پر مامور ہوئے

و إذ قلنا للملئكة اسجدوا لا دم

۳ _ سب فرشتوں نے حضرت آدم(ع) كيلئے سجدے كے حكم كے سامنے سر تسليم خم كيا او ربلاتوقف ان كے سامنے سجدہ ميں گر گئے_فسجدو حرف ''فائ'' سجدے والے حكم اور اسكے انجام كے درميان فاصلہ نہ ہونے پر دلالت كرتا ہے_

۴ _ فرشتوں كى طرح ابليس بھى حضرت آدم(ع) كے سامنے سجدہ كرنے پر مأمور تھا _للملئكة اسجدوا لا دم فسجدوا إلا إبليس

۵ _ ابليس نے حضرت آدم(ع) كے سامنے سجدہ كرنے كے سلسلے ميں حكم خداوندى كى نافرمانى كى _فسجدوا إلا إبليس ا بى

۶ _ ابليس خدا كى اطاعت يا معصيت پر مجبور نہيں تھا _فسجدوا لا دم إلا إبليس ا بى

۷ _ فرشتوں اور ابليس كى خلقت انسان كى خلقت پر مقدم تھى _للملئكة اسجدوا إلا إبليس ا بى

۲۲۴

۸ _ حضرت آدم(ع) كا مقام اور مرتبہ فرشتوں سے برتر تھا _و إذ قلنا للملئكة اسجدوا لا دم

۹ _ انسان اپنى وسيع استعداد اور ذاتى صلاحتيوں كى وجہ سے فرشتوں سے برتر ہے _للملئكة اسجدوا لأدم

۱۰ _ كسى دوسرى چيز كے سامنے سجدہ خداتعالى كے حكم سے اور اسكى اطاعت كرتے ہوئے جائز ہے اور اس شے كى پرستش كى علامت نہيں ہے_و إذ قلنا للملئكة اسجدوا لأدم

آدم(ع) :انكى فرشتوں پر برترى ۵; ان كے قصے سے عبرت حاصل كرنا ۱; انكا قصہ ۳، ۴، ۸; انكا مقام و مرتبہ ۵

ابليس:اس كا اختيار۹; اسكى خلقت كى تاريخ ۱۰; اسكى شرعى ذمہ دارى ۸; اسكى نافرمانى ۱، ۴

احكام: ۷

اطاعت:خدا كى اطاعت ۷

انسان:اسكى استعداد ۶; فرشتوں پر اسكى برترى ۶; اسكى خلقت كى تاريخ ۱۰; اسكے فضائل ۶

جبر و اختيار: ۹

خداتعالى :اسكے اوامر ۲، ۷

ذكر:آدم كے قصے كا ذكر ۱

سجدہ:اسكے احكام ۷; غير خدا كو سجدے كا جواز ۷; آدم(ع) كے سامنے سجدہ ۲، ۳، ۸; آدم(ع) كے سامنے سجدے كو ترك كرنا ۴

عبرت:اسكے عوامل ۱

نافرماني:خدا كى نافرمانى ۴

فرشتے:انكى استعداد ۶; انكا مطيع ہونا ۳; انكى خلقت كى تاريخ ۱۰; انكى شرعى ذمہ دارى ۲، ۸; انكا سجدہ ۳; انكا آدم(ع) كے سامنے سجدہ ۱; انكے فضائل ۶; انكا مقام و مرتبہ ۵

۲۲۵

آیت ۱۱۷

( فَقُلْنَا يَا آدَمُ إِنَّ هَذَا عَدُوٌّ لَّكَ وَلِزَوْجِكَ فَلَا يُخْرِجَنَّكُمَا مِنَ الْجَنَّةِ فَتَشْقَى )

تو ہم نے كہا كہ آدم يہ تمھارا اور تمھارى زوجہ كا دشمن ہے كہيں تمھيں جنّت سے نكال نہ دے كہ تم زحمت ميں پڑجاؤ (۱۱۷)

۱ _حضرت آدم(ع) اور ان كى بيوى حوا ،بہشت ميں رہائش پذير تھے _فقلنا فلا يخرجنكما من الجنة

''جنة''كا معنى باغ ہے اور قرآن ميں عام طورپر''الجنة'' بہشت كے معنى ميں استعمال ہوا ہے قابل ذكر ہے كہ آدم و حوا كا اپنى بہشت سے نكلنا اس بات كى علامت ہے كہ وہ بہشت موعود كے علاوہ تھى _

۲ _ ابليس،آدم(ع) و حوا(ع) كو بہشت سے نكالنے كيلئے كمين لگائے ہوئے تھا _إن هذا عدولك و لزوجك فلا يخرجنكم

۳ _ خداتعالى نے حضرت آدم(ع) كو ابليس كى ان كے ساتھ اور انكى بيوى كے ساتھ دشمنى سے آگاہ كيا_

اسجدوا ا بى فقلنا ى أدم إن هذا عدولك و لزوجك

۴ _ ابليس كا حضرت آدم(ع) كے سامنے سجدہ كرنے سے انكار اسكى حضرت آدم(ع) اور ديگر انسانوں كے ساتھ دشمنى كى علامت ہے _إلا إبليس ا بى فقلنا ى أدم إن هذا عدولك و لزوجك

سجدے سے انكار كے بعد ابليس كو آدم(ع) و حوا(ع) كے دشمن كے طور پر متعارف كرانا اس بات كا غماز ہے كہ ترك سجدہ اس دشمنى كى علامت تھى اور اس كا حوا كا دشمن ہونا اس بات پر دلالت كر رہا ہے كہ حضرت آدم(ع) كے سامنے سجدے والے ماجرا كے بعد ابليس پورى نوع انسانيت كا دشمن ہوگيا تھا_

۵ _ بہشت جو آدم و حوا كى رہائش گاہ تھى وہ ايسى جگہ تھى جو آرام و آسائش كيلئے تيار كى گئي تھى اور وہ ہر قسم كى سختى و مشقت سے دور تھي_فلا يخرجنكما من الجنة فتشقى

۶ _ خداتعالى نے حضرت آدم(ع) كى بہشت سے باہر والى زندگى كو سخت اور رنج آور زندگى قرار ديا اور انہيں اس ميں مبتلا ہونے سے ڈرايا _فلا يخرجنكما من الجنةفتشقى

''شقاوة'' كا معنى ہے سختى اور تنگى (قاموس) بعد والى آيات ميں ان سختيوں كے بعض نمونے تلويحاً بيان كئے گئے ہيں _

۷ _ خداتعالى نے آدم(ع) و حوا(ع) كو انكے ساتھ شيطان كى دشمنى كے سلسلے ميں اس لئے خبردار كيا تا كہ وہ رنج و الم اور سختى ميں گرفتار نہ ہوں _فلايخرجنكما من الجنة فتشقى

۲۲۶

۸ _ ابليس انسان كا دشمن اور بدخواہ ہے اور اسے نعمات الہى سے محروم كرنے اور رنج و الم ميں گرفتار كرنے كے در پے ہےإن هذا عدولك و لزوجك فتشقى

ابليس كى حوا(ع) كے ساتھ دشمنى اس بات كو بيان كر رہى ہے كہ وہ سب انسانوں كا دشمن ہے_

۹ _ آدم (ع) و حوا(ع) اپنى رہائش والى بہشت ميں بھى بعض شرعى ذمہ داريوں كے انجام دينے كے پابند تھے_

فلا يخرجنكم اگر چہ''فلا يخرجنّ'' ابليس كو نہى ہے ليكن اسكے ساتھ آدم و حوا كو مخاطب كرنے كا مطلب يہ ہے كہ يہ ان دو كو شيطان كے القائات سے متاثر ہونے سے نہى ہے_

۱۰ _حوا(ع) اپنى رہائش كى بہشت ميں حضرت آدم(ع) كى بيوى اور انكى سرپرستى ميں تھيں _عدولك و لزوجك فلا يخرجنكم خداتعالى نے حوا(ع) سے متعلق ہدايات حضرت آدم(ع) كے سامنے ركھيں اور حضرت آدم(ع) كو حكم ديا كہ وہ دونوں بہشت سے نكلنے كے اسباب فراہم كرنے سے پرہيز كريں اس طرح كے خطاب كو آدم(ع) كى سرپرستى كى نشانى قرار ديا جاسكتا ہے_

۱۱ _ خداتعالى كے نزديك حضرت آدم(ع) حوا(ع) سے بلند مرتبہ ركھتے تھے_عدولك و لزوجك

اگر چہ بہشت كے ماجرا ميں جناب حوا(ع) حضرت آدم(ع) كے ساتھ انجام ميں شريك تھيں ليكن خداتعالى نے صرف حضرت آدم(ع) كو مخاطب كيا يہ خصوصيت حضرت آدم(ع) كى برترى كى علامت ہے_

۱۲ _ خداتعالى كى حضرت آدم(ع) كے ساتھ بلاواسطہ گفتگو_فقلنا يا ء ادم

۱۳ _ آدم (ع) اور انكى بيوى حوا(ع) خداتعالى كے يہاں بلند مقام ركھتے تھے_اسجدوا لأدم إن هذا عدولك و لزوجك آدم(ع) كے سامنے سجدہ كا حكم كہ جو گذشتہ آيت ميں ذكر كيا گيا ہے_ اور خداتعالى كا حضرت آدم(ع) كو ابليس كى ان كے ساتھ اور حوا(ع) كے ساتھ دشمنى كے بارے ميں خبردار كرنا ان دونوں كے خدا كے نزديك بلند مرتبہ ہونے كى علامت ہے _

۱۴ _ عورت اور مرد دونوں شيطان كے وسوسوں كے شكار ہونے كے خطرے سے دوچار ہيں _فلايخرجنكم

۱۵ _ شوہروں كيلئے ضرورى ہے كہ وہ اپنى بيويوں كے رنج و الم اور سختيوں كو دور كرنے كيلئے كوشش كريں _

فلا يخرجنكما من الجنة فتشقى

۲۲۷

اس بات كو مد نظر ركھتے ہوئے كہ شيطان كى آدم(ع) و حوا(ع) كے ساتھ دشمنى ايك جيسى تھى اور وہ اس بات كے درپے تھا كہ دونوں كو بہشت سے نكال كر انہيں مشقت ميں ڈالے ليكن اسكے باوجود فعل ''تشقى '' مفرد آيا ہے اس كا مطلب يہ ہے كہ حوا(ع) كى سختيوں اور رنج و الم كو دور كرنا بھى حضرت آدم(ع) كى ذمہ دارى تھي_

۱۶ _''حسين بن ميسر قال:سا لت ا با عبد الله (ع) عن جنّة آدم فقال: جنة من جنات الدنيا تطلع فيها الشمس والقمر و لو كانت من جنان الآخره ما خرج منها أبداً'' حسين بن ميسر كہتے ہيں ميں نے امام صادق(ع) سے حضرت آدم(ع) كى بہشت كے بارے ميں سوال كيا تو آپ(ع) نے فرمايا وہ دنيا كے باغوں ميں سے ايك باغ تھا كہ جس پر آفتاب و مہتاب طلوع كرتے تھے اور اگر وہ آخرت كا باغ ہوتا تو ہرگزوہ اس سے خارج نہ ہوتے_(۱)

آدم(ع) :انكى بہشت ميں آسائس۵; انكا انذار ۶; انكى حوا پر برترى ۱۱; بہشت ميں انكى شرعى ذمہ دارى ۹; انكى بہشت كى حقيقت ۱۶; ان كے دشمن ۲، ۳، ۴، ۷; زمين ميں انكى زندگى كى سختى ۶; بہشت ميں انكى رہائش۱; بہشت سے ان كے اخراج كے عوامل ۲; ان كے فضائل ۱۱، ۱۳; ان كے انذار كا فلسفہ ۷; ان كا قصہ ۱، ۴، ۵، ۷، ۹، ۱۰; ان كى مشكلات ۷; انكى بہشت كى خصوصيات ۵، ۹، ۱۰; انكى بيوى ۱۰

ابليس:اس كا دھوكہ دينا ۲، ۸; اسكى دشمنى ۲، ۳، ۷، ۸; اسكى نافرمانى ۴; اسكى دشمنى كى علامتيں ۴

انسان:اسكے دشمن ۴، ۸/حوا(ع) :انكى كفالت كرنا ۱۰; بہشت ميں انكى شرعى ذمہ دارى ۹; ان كے دشمن ۲، ۳، ۷; بہشت ميں انكى رہائش ۱; ان كے فضائل ۱۱، ۱۳; ان كے انذار كا فلسفہ ۷; انكى مشكلات۷

فيملي:اسكى مشكلات كو دور كرنے كا ذمہ دار ۱۵

خداتعالى :اس كا انذار ۶; اسكے انذار كا فلسفہ ۷; اسكى آدم(ع) كے ساتھ گفتگو ۱۲

روايت :۱۶/عورت:اسكے دھوكہ كھانے كا پيش خيمہ ۱۴

سجدہ:آدم (ع) كے سامنے سجدہ ترك كرنا ۴/شوہر:اسكى ذمہ دارى ۱۵

شيطان:اسكے وسوسوں كا خطرہ ۱۴/مرد:اسكے دھوكہ كھانے كا پيش خيمہ ۱۴

مشكلات:ان كا پيش خيمہ ۸/نعمت:اس سے محروميت كے عوامل ۸

____________________

۱ ) كافى ج۳ ص ۲۴۷ ح۲ نورالثقلين ج۱، ص ۶۲، ص ۱۱۷ و ۱۱۸_

۲۲۸

آیت ۱۱۸

( إِنَّ لَكَ أَلَّا تَجُوعَ فِيهَا وَلَا تَعْرَى )

بيشك يہاں جنت ميں تمھارا فائدہ يہ ہے كہ نہ بھوكے رہوگے اور نہ برہنہ رہوگے (۱۱۸)

۱ _ آدم(ع) كيلئے ان كى بہشت ميں خوراك اور لباس كا انتظام تھا _إن لك ا لّا تجوع فيها و لا تعرى

''إن لك ...'' كى تعبير خداتعالى كى جانب سے حضرت آدم(ع) كے ساتھ وعدہ ہے اور يہ بہشت كى خاصيت كا بيان نہيں ہے كيونكہ ممنوعہ درخت سے كھانا اسى بہشت ميں حضرت آدم(ع) كے عريان ہونے كا سبب بنا اور ''لاتعرى '' كا وعدہ ان كے حق ميں عملى نہ ہوا_

۱ _ آدم(ع) و حوا(ع) كو اپنى رہائش والى بہشت ميں لباس و خوراك كى ضرورت تھي_إن لك ا لّا تجوع فيها و لا تعرى

فعلوں كا حضرت آدم(ع) كے ساتھ مختص ہونا شايد اس لئے ہے كہ خداتعالى كى اصل گفتگو آدم(ع) كے ساتھ تھى اور دونوں كو مخاطب كرنے كى ضرورى نہيں تھي_ پس لباس اور خوراك كى جہت سے آدم(ع) كى طرح حوا كى ضرورت بھى پورى ہو رہى تھي_

۳ _ انسان كى آفرينش كے آغاز سے ہى لباس اور خوراك اسكى اصلى ضروريات ميں سے تھے_إن لك ا لّا تجوع فيها و لا تعرى

آدم(ع) :انكا لباس۲; انكى بہشت ميں لباس ۱; انكا كھانا ۲; انكى بہشت ميں كھانا ۱; انكا قصہ ۱، ۲; انكى مادى ضروريات ۲; انكى بہشت كى خصوصيات ۱، ۲

انسان:اسكى مادى ضروريات ۳

حوا(ع) :انكالباس۲;انكاكہانا۲;انكى مادى ضروريات ۲

ضروريات:لباس كى ضرورت ۲، ۳; كہاناكى ضرورت ۲، ۳

۲۲۹

آیت ۱۱۹

( وَأَنَّكَ لَا تَظْمَأُ فِيهَا وَلَا تَضْحَى )

اور يقينا يہاں نہ پيا سے رہوگے اور نہ دھوپ كھاؤ گے (۱۱۹)

۱ _ حضرت آدم (ع) اپنى بہشت ميں پياس اور دھوپ كى تپش سے محفوظ تھے _و ا نك لا تظمئوا فيها و لا تضحى

''لاتضحى '' يعنى آپ سورج كے روبرو قرار نہيں پائيں گے اور اسكى تپش آپ تك نہيں پہنچے گى (لسان العرب) يہ وصف ''جنة'' كے لغوى معنى كو مد نظر ركھتے ہوئے كہ جو درختوں سے ڈھكا ہوا باغ ہے_ آدم(ع) كى رہائش گاہ ميں كثير سايہ كے وجود كى طرف اشارہ ہے_

۲ _ آغاز خلقت سے پانى اور گھر انسان كى بنيادى ضروريات ميں سے ہيں _و ا نك لا تظمئوا فيها و لا تضحى

۳ _ بہشت سے باہر انسان كى بنيادى ضروريات (خوراك، لباس، پاني، گھر) كى فراہمى كا مشكل ہونا خداتعالى كى طرف سے حضرت آدم(ع) كو تنبيہ _فتشقى إن لك ا لا تجوع فيها و لا تعري و أنك لاتضحى

''ا نك'' كا عطف ''ا لّا تجوع'' پر ہے اور جملہ''إن لك '' ''فتشقى '' كى تفسير ہے بھوك، برہنگي، دھوپ اور پياس كى نفى ان سختيوں كى طرف اشارہ ہے كہ جنكا بہشت سے اخراج كى صورت ميں حضرت آدم(ع) كو سامنا ہوگا_

آدم(ع) :انكى بہشت ميں تشنگى ۱; انكا قصہ ۱; انكى بہشت ميں گرمي۱; انكى بہشت كى خصوصيات۱; انكو خبردار كرنا ۳

انسان:اسكى مادى ضروريات ۲

خداتعالى :اس كا خبردار كرنا ۳

ضروريات:دنيوى ضروريات كى فراہمى كا مشكل ہونا۳; پانى كى ضرورت۲; گھر كى ضرورت ۲

۲۳۰

آیت ۱۲۰

( فَوَسْوَسَ إِلَيْهِ الشَّيْطَانُ قَالَ يَا آدَمُ هَلْ أَدُلُّكَ عَلَى شَجَرَةِ الْخُلْدِ وَمُلْكٍ لَّا يَبْلَى )

پھر شيطان نے انھيں وسوسہ ميں مبتلا كرنا چاہا اور كہا كہ آدم ميں تمھيں ہميشگى كے درخت كى طرف رہنمائي كردوں اور ايسا ملك بتادوں جو كبھى زائل نہ ہو (۱۲۰)

۱ _ شيطان، ابليس كا دوسرا نام اور پہچان ہے_إلا إبليس إن هذا عدو فوسوس إليه الشيطان

''شيطان''،''شطن'' كے مادہ سے ليا گيا ہے كہ جس كا معنى ہے دورى يا لمبى رسى يہ اشتقاق ابليس كى رحمت خدا سے دورى يا لمبى خباثت كى طرف اشارہ ہے _

۲ _ شيطان انسانوں كے دلوں ميں وسوسے ڈالتا ہے_فوسوس إليه الشيطان

۳ _ شيطان بہشت ميں حضرت آدم(ع) كو وسوسے ميں ڈال كر انہيں بہشت سے نكلوانے كيلئے زمينہ ہموار كررہا تھا_

فلا يخرجنكما فوسوس إليه الشيطان

۴ _ شيطان، حضرت آدم(ع) كى بہشت ميں حاضر ہوا تھا _قال يا أدم

۵ _ شيطان كى حضرت آدم(ع) كے ساتھ بلاواسطہ گفتگو _قال يا أدم

۶ _ آدم (ع) كى ہميشگى درخت اور دائمى مملكت و سلطنت كى طرف رہنمائي شيطان كا آدم و حوا(ع) كو دھوكہ دينے اور انہيں ممنوعہ درخت كا پھل كھانے پر مجبور كرنے كيلئے جال _هل ا دلك على شجرة الخلد و ملك لا يبلى

''شجرة الخلد'' سے مراد وہ درخت ہے كہ جسكے پھل كا كھانا دوام كا سبب ہو ''ملك'' كا معنى مال ہے اور سلطنت بھى ہے (قاموس) ''ملك لايبلى '' سے مراد وہ سلطنت اور حكمرانى ہے جسے كبھى زوال نہ ہو _

۷ _ خيرخواہيكا لبادہ، انسانوں كے دلوں ميں وسوسے ڈالنے اور انہيں دھوكہ دينے كيلئے شيطان كى روش ہے_

فوسوس إليه الشيطان فقال هل ا دلك

۸ _ انسان دائمى زندگى اور فنا نہ ہونے والے ملك اور مالكيت كا خواہاں ہے_هل ا دلك على شجرة الخلد و ملك لايبلى شيطان نے حضرت آدم(ع) كے سلسلے ميں اپنے وسوسوں كو مؤثر بنانے كيلئے ان چيزوں سے استفادہ كيا جو آدم(ع) ميں موجود تھيں وہ چيزيں ہميشہ رہنے اور فنا نہ ہونے والى مالكيت كى طرف تمايل ہے_

۲۳۱

۹ _ حضرت آدم(ع) كو بہشت ميں اپنى دائمى رہائش كا اطمينان نہيں تھا_إن لك ا لّاتجوع هل ا دلك على شجرة الخلد خداتعالى نے حضرت آدم(ع) كو خوراك، لباس، پانى اور رہائش جيسى ضروريات پورى ہونے كى خبر دى تھى ليكن گويا حضرت آدم(ع) كو ان نعمتوں كى ضمانت كے باوجود اس بہشت ميں اپنے ہميشہ رہنے كا اطمينان نہ تھا اسى وجہ سے شيطان كا وسوسہ ان پر اثر كرگيا _

۱۰ _ شيطان ،انسان كى خواہشات اور آرزؤں سے آگاہ ہے _هل ا دلك على شجرة الخلد و ملك لايبلى

۱۱ _ شيطان انسان كو دھوكہ دينے اور اس كے دل ميں وسوسہ ڈالنے كيلئے اسكى ضروريات اور خواہشات سے استفادہ كرتا ہے_هل ا دلك على شجرة الخلد و ملك لا يبلى

۱۲ _ شيطان اپنے اہداف كى خاطر حقائق كو الٹا كر كے دكھا تا ہے _فلايخرجنكما هل ا دلك على شجرة الخلد

۱۳ _ شيطان انسان كو اپنى خواہشات كے مطابق مجبور نہيں كرسكتا_فوسوس هل ا دلك

۱۴ _ حضرت آدم(ع) بہشت كى بعض درختوں كى خاصيات سے بے خبر تھے _هل ا دلك على شجرة الخلد و ملك لايبلى

آدم(ع) :آپ(ع) اور ممنوعہ درخت۶; انكى بہشت ميں دوام ۹; بہشت سے ان كے اخراج كا پيش خيمہ ۳; انكى بہشت ميں شيطان ۴; انكى بہشت كے پھلوں كے فوائد ۱۴; انكا قصہ ۵، ۶، ۹; ۱۴; ان كے علم كا دائرہ ۱۴; انكا وسوسہ ۳

ابليس:اسكى شيطنت۱; اسكے نام ۱

انسان:اسكى آرزوئيں ۱۰; اس كا اختيار۱۳; اسكى خواہشات ۸، ۱۰; اسكے وسوسے كا پيش خيمہ ۱۱; اسكى ضروريات ۱۱; اس كا وسوسہ ۷

حكومت:

۲۳۲

دائمى حكومت تك پہنچانا ۶; دائمى حكومت كى در خواست ۸

درخت:دائمى درخت تك پہچانا ۶

زندگي:دائمى زندگى كى درخواست ۸

شيطان:اسكى طرف سے خيرخواہى كا تظاہر۷; اسكے دھوكے كى روش ۶، ۱۱، ۱۲; اسكے وسوسوں كى روش۷; اس كا علم ۱۰; اسكى آدم(ع) كے ساتھ گفتگو۵; اس كا نقش و كردار ۱۳; اسكے وسوسے ۲، ۳; اسكى خصوصيات ۲

مالكيت:دائمى مالكيت تك پہنچانا ۶; دائمى مالكيت كى درخواست ۸

ممنوعہ درخت:اس سے كھانے كا پيش خيمہ ۶

آیت ۱۲۱

( فَأَكَلَا مِنْهَا فَبَدَتْ لَهُمَا سَوْآتُهُمَا وَطَفِقَا يَخْصِفَانِ عَلَيْهِمَا مِن وَرَقِ الْجَنَّةِ وَعَصَى آدَمُ رَبَّهُ فَغَوَى )

تو ان دونوں نے درخت سے كھاليا اور ان كے لئے ان كا آگا پيچھا ظاہر ہوگيا اور وہ اسے جنّت كے پتوں سے چھپانے لگے اور آدم نے اپنے پروردگار كى نصيحت پر عمل نہ كيا تو راحت كے راستہ سے بے راہ ہوگئے (۱۲۱)

۱ _ آدم(ع) و حوا(ع) نے شيطان كے وسوسے ميں آكر ممنوعہ درخت سے كھاليا _فوسوس إليه الشيطان فأكلا منه

۲ _ ممنوعہ درخت سے كھانے كے واقع ميں جناب حوا(ع) اپنے شوہر آدم(ع) كى تصميم كے مطابق عمل كررہى تھيں _فوسوس إليه الشيطان فأكلا منه آدم(ع) كا ممنوعہ درخت سے كھانا شيطان كے وسوسوں سے متأثر ہونے كى وجہ سے تھا ليكن حوا(ع) ايسے نہيں تھيں (فوسوس إليہ الشيطان) ممكن ہے حوا(ع) كے اقدام كا سرچشمہ يہ ہو كہ وہ آدم(ع) كے عمل سے متأثر تھيں _

۳ _ آدم(ع) كے خلود، دوام اور لا زوال ملك كى طرف تمايل اور اسكى طمع نے انہيں اور انكى بيوى كو ممنوعہ درخت سے كھانے پر مجبور كيا _

هل ا دلك على شجرة الخلد فأكلا منه

۴ _ آدم (ع) و حوا(ع) باوجود اسكے كہ خداتعالى نے انہيں شيطان كى ان كےساتھ دشمنى كے بارے ميں شدت سے خبردار كيا تھا شيطان كى باتوں سے متأثر ہوگئے_إن هذا عدولك و لزوجك فأكلا منه

۲۳۳

۵ _ آدم(ع) كا شيطان كے وسوسے سے متأثر ہونا اور ممنوعہ درخت سے كھانا ان كے عہد الہى كو فراموش كرنے كا ايك نمونہ تھا_و لقد عهدنا فنسى فأكلا منه آدم(ع) و حوا(ع) كى داستان، ان كے ممنوعہ درخت سے كھانے اور اسكے نتائج كا بيان يہ سب اس مجموعہ كى پہلى آيت كى وضاحت ہے اور عہد الہى كے سلسلے ميں حضرت آدم(ع) كى فراموشى اور ان ميں سنجيدہ عزم كے نہ ہونے كا بيان ہے_

۶ _ خداتعالى كے فرامين اور عہد كى طرف متوجہ رہنا اور انہيں ہميشہ ياد ركھنا انسان كو شيطان كے وسوسوں ميں گرفتار ہونے سے بچاتا ہے_و لقد عهدنا فنسي فأكلا منه

۷ _ انسان دھو كہ كھانے والا ہے_فوسوس فأكلا منه

۸ _ ممنوعہ درخت سے كھانے سے پہلے آدم(ع) و حوا(ع) كى شرمگاہ خود ان سے پوشيدہ تھي_فأكلا منها فبدت لهما سوئ تهم ''سَوأة'' كا معنى ہے شرمگاہ (لسان العرب) اور ممكن ہے ''بدت لہما'' كا معنى يہ ہو كہ ہر ايك كى شرمگاہ دوسرے كيلئے آشكار ہوگئي اور ممكن ہے مراد يہ ہو كہ انكى شرمگاہ خود ان كيلئے آشكار ہوگئي دوسرے احتمال كى بنياد پر ممنوعہ درخت كا پھل كھانا سے پہلے ان كى شرمگاہ خود ان كيلئے بھى پوشيدہ تھي_

۹ _ ممنوعہ درخت سے كھانا آدم(ع) و حوا(ع) كى شرمگاہ كے آشكار ہونے اور ان كى عريانى كا سبب بنا _فأكلا منها فبدت لهما سو ئ تهم

۱۰ _ آدم(ع) و حوا(ع) كى نافرمانى ان كے خداتعالى كے اس وعدے سے محروميت كا سبب بنى كہ بہشت ميں ان كے لباس والى ضرورت پورى ہوگي_إن لك لاتعرى فبدت لهما سوئ تهم

۱۱ _ جھوٹ انسان كو دھوكہ دينے كيلئے شيطان كا ايك ہتھكنڈا _هل ا دلك على شجرة الخلد و ملك لا يبلى ...فبدت لهما سوئ تهم

۱۲ _ شرمگاہوں كے ظاہر ہونے كے بعد آدم(ع) و حوا(ع) انہيں درختوں كے پتوں سے چھپانے كى كوشش كررہے تھے_فبدت لهما سوئ تهما و طفقا يخصفان عليهما من ورق الجنة

''طفقا'' يعنى انہوں نے آغاز كيا اور ''خصف'' اگر ''على '' كے ساتھ متعدى ہو تو اس كا معنى ہوتا ہے چيزوں كو ملا كر سينا اور انہيں ايك جگہ پر ڈالنا يعنى آدم و حوا نے درختوں كے پتوں كو آپس ميں ملاكر اپنے اوپر ڈال ديا _

۲۳۴

۱۳ _ آدم(ع) و حوا(ع) اپنے آپ انسانى غريزے يا عادت كى وجہ سے حتى ايك دوسرے سے بھى اپنى شرم گاہ كو چھپانے كا پابندكئے ہوئے تھے_وطفقا يخصفان عليهما من ورق الجنة

۱۴ _ انسانى فطرت اپنى شرمگاہ كے ظاہر ہونے سے متنفر ہے اور اسے برا سمجھتى ہے_*و طفقا يخصفان عليهم

آدم(ع) و حوا(ع) كى خود كى ڈھانپنے كى كوشش برہنگى كو ناپسنديدہ شمار كرنے كى حكايت كرتى ہے_

۱۵ _ وہ بہشت كہ جس ميں آدم و حوا رہائش پذير تھے ايك مادى باغ اور مادہ كے آثار و خواص كى حامل تھي_يخصفان عليهما من ورق الجنة

۱۶ _ حضرت آدم(ع) نے ممنوعہ درخت سے كھا كر پروردگار كى معصيت كا ارتكاب كيا _فأكلا وعصى ء ادم ربه

۱۷ _ ممنوعہ درخت سے كھانے سے پہلے حضرت آدم(ع) كو خداتعالى كى جانب سے اسكى ممنوعيت كا حكم مل چكا تھا_

فأكلا منها و عصى ء ادم ربه ''عصيان'' اس صورت ميں ہوسكتا ہے جب خداتعالى كى جانب سے امر يا نہى صادر ہوچكا ہو بنابراين اگر چہ ان آيات ميں اس درخت كے ممنوع ہونے كى تصريح نہيں كى گئي ليكن عصيان كا ذكر كرنا اس درخت سے كھانے كے سلسلے ميں نہى كے صادر ہونے كا واضح گواہ ہے_

۱۸ _ خداتعالى كے اوامر و نواہى اور متنبہ كرنا سب ،انسان كے رشد و تكامل اور تربيت كيلئے ہے_ربّه

۱۹ _ حضرت آدم(ع) بہشت ميں دائمى زندگى اور ابدى حكومت كو حاصل نہ كرسكے اور اپنى خواہش كے سلسلے ميں ناكام رہے_هل ا دلك على شجرة الخلد فأكلا فعصى ء ادم ربه فغوى ''غوى '' يعنى ناكام ہوگيا اور راستے كو گم كر بيٹھا (مصباح) ابليس كے وسوسے قرينہ ہيں كہ آدم(ع) كى ناكامى اور گمراہى سے مراد ان كا شيطان كى طرف سے القاء كى گئي آرزؤں كو نہ پانا ہے_

۲۰ _پروردگار كى نافرمانى انسان كى ناكامى اور اسكے رشد وتكامل سے محروم رھنے كا سبب ہے _و عصى ء ادم ربه فغوى

۲۱ _ آدم(ع) خداتعالى كى نافرمانى اورممنوعہ درخت سے كھانے كے نتيجے ميں اپنى ترقى سے محروم رہے_فغوى ''غوى كا مصدر'' ''غي''ہے جوكہ ''رشد'' كى ضد ہے (مقاييس اللغة)

۲۲ _ ہر گناہ كے نتائج اس گناہ كا ارتكاب كرنے والے سب افراد كيلئے ايك جيسے نہيں ہوتے ہيں _فأكلا و عصى ء ادم ربه فغوى جناب حوا(ع) كى نافرمانى كا تذكرہ كرنا شايد اس وجہ سے ہو كہ اپنى نافرمانى ميں وہ خود اصل نہيں تھيں بلكہ انہوں نے اپنے شوہر كے عمل كو اپنے لئے نمونہ بنايا تھا لہذا انكى نافرمانى حضرت آدم(ع) كى نافرمانى كى حد تك نہيں تھي_

۲۳۵

۲۳ _ '' رب'' خداوند متعال كے اسماء و صفات ميں سے ہيں _و عصى ء ادم ربّه

۲۴ _'' عن ا بى عبدالله (ع) فى قوله: '' بدت لها سوا تهما'' قال: كانت سوا تهما لا تبدو لهما ; يعني، كانت داخلة; خداتعالى كے فرمان ''بدت لہما سوء تہما'' كے بارے ميں امام صادق(ع) سے روايت كى گئي ہے كہ اس سے پہلے ان دونوں (آدم و حوا) كى شرمگاہيں ان كيلئے آشكار نہيں تہيں كيونكہ انكى شرمگاہيں ( انكے بدن كى جلد كے) اندر تھيں(۱)

۲۵ _'' قال ا بو عبدالله (ع) : فلمّا ا سكن الله عزوجل آدم و زوجته الجنة قال لهما; '' و لا تقربا هذه الشجرة ...'' فلما ا كلا من الشجرة طار الحلى و الحلل عن اجسادهما و بقيا عريانين ; (ايك حديث ميں ) امام صادق(ع) سے روايت كى گئي ہے كہ آپ (ع) نے فرمايا جب خداتعالى نے آدم و حوا كو بہشت ميں جگہ دى تو انہيں فرمايا اس درخت كے نزديك نہ جانا اور انہوں نے جونہى اس درخت سے كھايا تو ان كے جسم سے زيور اور لباس اڑ گئے اور وہ عريان رہ گئے_(۲)

۲۶ _'' عن الرضا (ع) قال: كان ذلك من آدم قبل النبوة و لم يكن ذلك بذنب كبير استحق به دخول النار و إنما كان من الصغائر الموهوبة التى تجوز على الا نبياء قبل نزول الوحى عليهم ...; (خداتعالى كے فرمان)'' و عصى آدم ربہ فغوى '' كے بارے ميں امام رضا(ع) سے روايت كى گئي ہے كہ آپ(ع) نے فرمايا حضرت آدم(ع) كى يہ نافرمانى نبوت سے پہلے تھى اور يہ كوئي ايسا بڑا گناہ نہيں تھا كہ جسكى وجہ سے حضرت آدم(ع) آگ كے مستحق ہوتے بلكہ صغيرہ گناہوں ميں سے تھا كہ جو بخش ديا گيا اور وحى كے نازل ہونے سے پہلے يہ انبياء كيلئے ممكن ہے _(۳)

آدم (ع) :انكى طمع كے اثرات ۳; انكى نافرمانى كے اثرات ۱۰، ۲۱; آپ نبوت سے پہلے ۲۵; آپ اور ممنوعہ درخت ۱، ۲، ۵، ۸، ۹، ۱۷; آپكا دھوكے ميں آنا ۱، ۴، ۵; آپكى بہشت كے مادى وسائل ۱۵; آپكے تمايلات ۱۳; آپكى نافرمانى كا پيش خيمہ ۳; آپكى شرمگاہ كا چھپانا ۸، ۱۳، ۲۳; آپكى نافرمانى ۱، ۱۶; آپكى شرمگاہ كے ظاہر ہونے كے عوامل ۹، ۱۰; آپ كى محروميت كے عوامل ۱۰; آپكا غريزہ ۱۳; آپكى فراموشى ۵; آپكا فانى ہونا كو ۱۹; آپكا قصہ ۱، ۲، ۳، ۴، ۵، ۸، ۹، ۱۰، ۱۲، ۱۶، ۱۷، ۱۹، ۲۱، ۲۳، ۲۴; آپكى شرمگاہ كا ظاہر ہونا ۱۲، ۲۴; آپكا گناہ

____________________

۱ )تفسير قمى ج۱، ص ۲۲۵; نورالثقلين ج۲ ص ۱۵ ح ۴۱_ ۲ ) معانى الاخبار، ص ۱۰۹; ح ۱_ نورالثقلين ح۲، ص۱۲، ح ۳۵_

۳ ) عيون اخبارالرضا ج۱ ، ص ۱۹۵، ح۱_ نورالثقلين ج۳، ص ۴۰۳، ح۶۰_

۲۳۶

صغيرہ ۲۵; آپكى نافرمانى سے مراد ۲۵; آپكا نقش و كردار ۲; آپكى بہشت كى خصوصيات ۱۵; آپكو خبردار كرنا ۴

احكام:انكا فلسفہ ۱۸

انبياء (ع) :يہ نبوت سے پہلے ۲۵

انسان:اس كا دھوكے ميں آنا ۷; اسكى فطرت ۱۴; اسكى محروميت كے عوامل ۲۰

تربيت:اس ميں مؤثر عوامل ۱۸

تكامل:اسكے عوامل ۱۸; اسكے موانع ۲۰

حوا(ع) :انكى نافرمانى كے اثرات ۱۰; انكا دھوكے ميں آنا ۱، ۴; انكا آدم كى پيروى كرنا ۲; يہ اور ممنوعہ درخت ۱، ۲، ۸، ۹; انكى نافرمانى كا پيش خيمہ ۳; انكى شرمگاہ كا چھپانا ۸، ۱۳، ۲۳; انكى نافرمانى ۱; انكى شرمگاہ كے ظاہر ہونے كے عوامل ۹، ۱۰; انكى محروميت كے عوامل ۱۰; انكا غريزہ ۱۳; انكى شرمگاہ كا ظاہر كرنا ۱۲، ۲۴; انكو خبردار كرنا ۴

خداتعالى :اسكے عہد كى فراموشي۵; اسكے اوامر كا فلسفہ ۱۸; اسكے نواہى كا فلسفہ ۱۸;اسكے متنبہ كرنا كا فلسفہ ۱۸; اس كا متنبہ كرنا ۴

ممنوعہ درخت:اس سے كھانے كے اثرات ۹، ۱۶، ۲۱; اس سے كھانا ۱، ۲، ۵; اس سے كھانے كا پيش خيمہ ۳

جھوٹ:اسكے اثرات ۱۱

ذكر:عہد خدا كے ذكر كے اثرات ۶روايت: ۲۳، ۲۴، ۲۵

شخصيت:اسكى آسيب شناسى ۲۰

شيطان:اسكے فريب دينے كا آلہ ۱۱; اس كا جھوٹ بولنا ۱۱; اسكى دشمنى ۴; اسكے وسوسوں كى تاثير كے موانع ۶; اسكے وسوسے ۱، ۵

نافرماني:خدا كى نافرمانى كے اثرات ۲۰

شرمگاہ:اسے درخت كے پتوں سے چھپانا ۱۲; اسے ظاہر كرنے كاناپسند ہونا ۱۴

گمراہي:اسكے عوامل ۱۱

گناہ:اسكے اثرات ۲۲

گناہ گار لوگ:انكا تفاوت ۲۲

۲۳۷

آیت ۱۲۲

( ثُمَّ اجْتَبَاهُ رَبُّهُ فَتَابَ عَلَيْهِ وَهَدَى )

پھر خدا نے انھيں چن ليا اور انكى توبہ قبول كرلى اور انھيں راستہ پر لگاديا (۱۲۲)

۱ _ حضرت آدم(ع) نافرمانى اور ممنوعہ درخت سے كھانے كے بعد اپنے كئے سے پشيمان ہوئے اور بارگاہ خداوندى ميں توبہ كرنے لگے _ثم اجتبه ربه فتاب عليه ''اجتبي'' كے اصل مادہ ''جباية'' كا معنى ہے جمع كرنا اور حاصل كرنا اور ''اجتبائ'' كا معنى ہے ''اصطفائ'' (خالص چيز كو انتخاب كرنا) اور اختيار (لسان العرب) اس بناپر ''اجتباہ ربہ'' يعنى خداتعالى نے حضرت آدم(ع) كے ادھر ادھر كے تمايلات كو ختم كرديا اور سب كو اپنے لئے جمع كرليا اور انہيں اپنے لئے خالص كر ليا_ يہ تعبير حضرت آدم(ع) كے غير خدا سے مكمل طور پر منقطع ہونے اور انكى حقيقى توبہ سے حكايت كرتى ہے_

۲ _ خداتعالى نے حضرت آدم(ع) كے رشد و ترقى كيلئے ان كے غير الہى تمايلات كو ان سے دور كرديا اور انہيں اپنے لئے خالص كرليا _ثم اجتبه ربه فتاب عليه

۳ _ خداتعالى كى طرف سے حضرت آدم(ع) كو دوبارہ قبول كرنا اور انہيں چن لينا ممنوعہ درخت سے كھانے والى خطا سے كچھ مدت گزرنے كے بعد ہوا_ثم اجتبه ربه فتاب عليه

''ثم'' تراخى كيلئے ہے اور بتاتا ہے كہ اجتبائے الہى كہ جو آدم(ع) كو توبہ اور غير خدا سے منقطع ہونے كى توفيق دينا تھا_ كچھ دير سے انجام پايا _

۴ _ خداتعالى كى طرف سے حضرت آدم(ع) كو چننا اسكى ربوبيت كا ايك جلوہ ہے_ثم اجتبه ربه

۵ _ خداتعالى نے عطوفت اور مہربانى كى ساتھ حضرت آدم(ع) كى توبہ قبول كى اور انكا گناہ معاف كرديا _ثم اجتبه ربه فتاب عليه

''تاب'' يعنى لوٹ آيا اور حرف ''على '' كى وجہ سے اس ميں عطوفت و رحمت كا معنى تضمين كيا گيا ہے يعنى خداتعالى نے اس حالت ميں آدم(ع) كى

۲۳۸

طرف توجہ اور ان پر عنايت كى كہ وہ ان پر عطوف اور مہربان تھا_

۶ _ حضرت آدم(ع) كا غير خدا سے مكمل طور پر منقطع ہونے اور ان كى پورى توجہ كے خدا كى طرف مڑ جانے كى وجہ سے خداتعالى نے انہيں اپنى عنايات سے دوبارہ نوازا_اجتبه ربه فتاب عليه

حرف ''فا'' ''تاب عليہ '' كے اس سابقہ جملہ پر متفرع ہونے كو بيان كر رہا ہے كہ جو حضرت آدم(ع) كى تمام وابستگيوں اور تمايلات كے سمٹ كر خداتعالى كى طرف متوجہ ہونے پر دلالت كرتا ہے_

۷ _ حضرت آدم(ع) منتخب اور معاف ہونے كے بعد ہدايت الہى سے بھى بہرہ مند ہوئے_ثم اجتبه ربه فتاب عليه و هدى

۸ _ حضرت آدم(ع) نے گناہ كى بخشش كے بعد اپنے رشد و ترقى كى راہ كو پاليا_و هدى

گذشتہ آيت ميں آيا تھا كہ حضرت آدم(ع) نافرمانى اور عصيان كے بعد اپنے رشد و تكامل سے محروم رہ گئے (غوى ) اس آيت ميں فعل ''ہدى '' دلالت كررہا ہے كہ خداتعالى نے اس گمراہى كے آثار كو ختم كرديا اور انہيں كمال اور برگزيدگى كى راہ دكھا دى _

۹ _ حضرت آدم(ع) بارگاہ خداوندى ميں قابل قدر شخصيت كے مالك تھے_ثم اجتبه ربه فتاب عليه و هدى

۱۰ _ حضرت آدم(ع) كى توبہ كو قبول كرنا اور انہيں خدا كى طرف حركت كى رہنمائي كرنا ان كيلئے خداتعالى كى تربيت اور اسكى ربوبيت كا ايك جلوہ تھا_ثم اجتبه ربه فتاب عليه و هدى كلمہ ''ربہ'' كا فعل ''تاب'' اور ''ہدى '' كے ساتھ ارتباط مذكورہ مطلب كو بيان كررہا ہے اور ''اجتباہ ربہ'' قرينہ ہے كہ ہدايت سے مراد خداتعالى كى طرف ہدايت ہے _

آدم(ع) :ان كے منقطع ہونے كے اثرات ۶; انكى نافرمانى كے اثرات ۱; آپ اور ممنوعہ درخت ۱; انكى بخشش ۵،۸; انكا برگزيدہ ہونا ۲، ۳، ۴، ۷; انكى تربيت ۲، ۱۰; انكا تكامل ۲، ۸; انكى توبہ ۱; انكى پشيمانى كے عوامل ۱; انكے فضائل۹; انكى توبہ كى قبوليت ۳، ۵، ۱۰; انكا قصہ ۱، ۲، ۳، ۵، ۶، ۷، ۸; انكے اخلاص كا سرچشمہ ۲; انكى ہدايت ۷، ۸، ۱۰

خداتعالى :اسكے لطف و كرم كا پيش خيمہ ۶; اسكى مہربانى ۵; اسكى ربوبيت كى نشانياں ۴، ۱۰

ممنوعہ درخت:اس سے كھانے كے اثرات ۱

ہدايت يافتہ فوگ: ۷

۲۳۹

آیت ۱۲۳

( قَالَ اهْبِطَا مِنْهَا جَمِيعاً بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُم مِّنِّي هُدًى فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَايَ فَلَا يَضِلُّ وَلَا يَشْقَى )

اور حكم ديا كہ تم دونوں يہاں سے نيچے اتر جاؤ سب ايك دوسرے كے دشمن ہوں گے اس كے بعد اگر ميرى طرف ہے ہدايت آجائے تو جو ميرى ہدايت كى پيروى كرے گا وہ نہ گمراہ ہوگا اور نہ پريشان (۱۲۳)

۱ _ آدم(ع) و حوا(ع) نے ممنوعہ درخت سے كھا كر بہشت ميں رہنے كى صلاحيت ضائع كردي_فأكلا منهما قال اهبطا منه ''اہبطائ'' ممكن ہے آدم(ع) و حوا(ع) كو خطاب ہو اور ممكن ہے آدم اور ابليس كو خطاب ہو دوسرى صورت ميں چونكہ حو(ع) ا اپنى نافرمانى اور اس كے نتيجے ميں حضرت آدم كے تابع تھيں اسلئے مخاطب قرار نہيں پائيں _ دونوں صورتوں ميں مذكورہ مطلب حاصل ہوتا ہے_

۲ _ خداتعالى نے حضرت آدم(ع) كو دھوكہ دينے اور انہيں وسوسے ميں ڈالنے كى وجہ سے شيطان كو بہشت سے نكال ديا او راسے زمين پر آنے كا حكم ديا_فوسوس إليه الشيطان قال اهبطا منها جميع

مذكورہ مطلب اس بناپر ہے كہ ''اہبطا'' ميں مخاطب آدم(ع) اور شيطان ہوں _

۳ _ آدم(ع) و حوا(ع) بہشت ميں شيطان كے وسوسے پر عمل كرنے اور خداتعالى كے خبردار كرنے كى پروانہ كرنے كى وجہ سے اس بلند مقام سے نكال ديئےئے اور زمين پر اتر آئے _فأكلا منها و عصى ء ادم قال اهبطا منها جميع

''ہبوط'' يعنى ''نزول'' (مصباح) اور ''اہبطا'' كا حكم ايك حكم تكوينى ہے كيونكہ عام طور پر انسان كيلئے زمين پر ہبوط نہيں ہے_

۴ _ شيطان نے اپنے وسوسے اور فريب دہى كے ساتھ آدم(ع) و حوا(ع) كو بہشت سے نكالنے اور ان كے زمين پر ہبوط كے اسباب فراہم كئے _فوسوس إليه الشيطان قال اهبطا منه

۵ _ پروردگار كے حكم كى مخالفت اور نافرمانى انسان كے سقوط اور اسكے مقام كے تنزل كا سبب ہے_و عصى ء ادم قال اهبطا منه جملہ''ثم اجتباه '' اگر چہ ہبوط والے واقعے سے پہلے ذكر ہوا ہے ليكن ان آيات كى بنياد پر كہ جو سورہ بقرہ ميں گزرچكى ہيں حضرت آدم(ع) كى توبہ ہبوط كے بعد وقوع پذير ہوئي تھى اس بناپر جملہ قال ''اہبطا ...'' حضرت آدم(ع) كى نافرمانى كى سزا كا بيان ہے اور ''ثم اجتبہ ...'' جملہ معترضہ ہے_

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750