تفسير راہنما جلد ۱۱

تفسير راہنما 10%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 750

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 750 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 219163 / ڈاؤنلوڈ: 3021
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

۶ _ آدم(ع) و حوا(ع) كے زمين پر اتر نے كا لازمہ پورى نسل انسانى كو اس ميں باقى ركھنا ہے_قال اهبطا بعضكم لبعض عدو فإما يأتينكم ''بعضكم'' اور ''يا تينكم'' كى جمع كى ضميرويں اس نكتے كو بيان كررہى ہيں كہ ہبوط والے حكم كے صادر ہونے كے وقت زمين ميں انسانى زندگى كا مسلسل ہونا قطعى تھا_

۷ _ زمين ميں انسان كى زندگى ہميشہ انسانوں كى آپس ميں دشمنى اور مخالفت كے ہمراہ رہى ہے_اهبطا منها جميعاًبعضكم لبعض عدو ''بعضكم لبعض عدو'' كے بارے ميں دو نظر ہيں ۱_ اس سے مراد شياطين كى انسانوں كے ساتھ دشمنى ہے اس نظريے كے مطابق ''اہبطا'' ابليس اور آدم(ع) كو خطاب ہوگا ۲_ اس سے مراد انسانوں كى آپس كى دشمنى ہے اس نظريہ كى بنياد يہ ہے كہ ''اہبطا'' كے مخاطب آدم(ع) و حوا ہيں _ دونوں صورتوں ميں آدم(ع) اور حوا و ابليس كو مخاطب بنانا انكى اولاد كے لحاظ سے ہوگا _مذكورہ مطلب دوسرے نظريے كى بنياد پر ہے_

۸ _ انسان اور شيطان ايسے دشمن ہيں كہ جن ميں صلح كا امكان نہيں ہے_اهبطا بعضكم لبعض عدو

مذكورہ مطلب ميں ''اہبطا'' آدم(ع) اور ابليس كو خطاب ہے _

۹ _ حضرت آدم(ع) كى بہشت ايسى جگہ تھى كہ جس ميں صلح و آشتى ، اور مكمل ضروريات كى فراہمى تھى اور اسكے باسيوں كے درميان دشمنى نہيں تھى _إن لك ألاّ تجوع اهبطا بعضكم لبعض عدو

چونكہ افراد بشر كى آپس ميں دشمنى كا موضوع، سزا اور ہبوط كے عنوان سے ذكر كيا گيا ہے اس سے لگتا ہے كہ حضرت آدم(ع) كے پہلے گھر (بہشت) ميں يہ چيز نہيں تھى اور ضروريات كى فراہمى كى وجہ سے اس ميں دشمنى كا پيش خيمہ ہى نہيں تھا _

۱۰ _ خداتعالى نے زمين پر انسان كے اترنے كے آغاز سے ہى اسكى زندگى كيلئے رہنمائي اور منصوبہ بندى كرركھى تھي_اهبطا منها فإما ياتينكم منّى هديً ''إما ياتينّكم'' ميں مخاطب صرف انسان ہيں (اگرچہ ''اہبطا'' كے مخاطب آدم(ع) اورو ابليس ہيں ) كيونكہ شياطين كى گمراہى كے حتمى ہونے كے بعد انہيں ہدايت دينا بے سود ہے_

۱۱ _ انسان كو ہدايت سے بہرہ مند كرنا انسان كے پہلے افراد كو خداتعالى كى بشارت _اهبطا فإما ياتينكم منى هديً

''إما ياتينكم'' دو تاكيدوں پر مشتمل ہے_ ۱_''امّا'' (ان ما) ميں مازائدہ _۲_ نون تاكيد اس طرح عبارت كا معنى يہ ہے كہ اگر ميرى طرف سے تمہارے پاس ہدايت آئي_ كہ جو يقينا آئيگي

۲۴۱

۱۲ _ آدم(ع) و حوا(ع) كے ممنوعہ درخت سے كھانے كى وجہ سے انسانوں ميں دشمنى پيدا ہونے كے اسباب فراہم ہوئے _فأكلا بعضكم لبعض عدو

۱۳ _ خداتعالى نے افراد بشر كى آپس كى دشمنى كے بارے ميں آدم(ع) و حوا(ع) كو مطلع كرديا اور انہيں اسكے نتائج سے بچنے كا راستہ بھى دكھا ديا تھا_بعضكم لبعض عدو فمن إتبع هداى فلا يضل و لا يشقى

۱۴ _ خدا تعالى كى ہدايات كى پيروى انسان كو زمين پر رہنے والوں كى باہمى كشمكش اوردشمنى كے برے انجام سے بچاتى ہے _بعضكم لبعض عدو فإما ياتينكم منى هديً

۱۵ _ انسان ہدايت يا گمراہى كے راستے كے انتخاب كے سلسلے ميں با اختيار ہے_فاما ياتينكم منى هديً فمن اتبع هداي

۱۶ _ ہدايت الہى كى پيروى گمراہى اور بدبختى سے مانع ہے_فمن اتّبع هداى فلا يضل و لايشقى

۱۷ _ ہدايات الہى سے روگردانى انسان كى گمراہى اوراسكے رنج و الم ميں گرفتار ہونے كا سبب ہے_فمن اتبع هداى فلا يضل و لا يشقى '' شقاوت'' كا معنى ہے سختى اور دشوارى (قاموس) اور بعد والى آيت قرينہ ہے كہ اس سے مراد زندگى كا دباؤ اور مشكلات ہيں _

۱۸ _ انسان، غلطيوں سے بچنے اور خوش بختى تك پہنچنے كيلئے ہدايت الہى كا محتاج ہے_فمن اتّبع هداى فلا يضل و لا يشقى

آدم (ع) :انكے دھوكہ كھانے كے اثرات ۳; يہ اور ممنوعہ درخت ۱، ۳، ۱۲; انہيں بہشت سے نكالنا ۲، ۳; انكى بہشت ميں امن ۹; انكو بشارت ۱۱; انكى بہشت ميں ضروريات كى فراہمى ۹; انكى بہشت سے نكالنے كا پيش خيمہ ۴; انكے ہبوط كا پيش خيمہ ۴; انكى بہشت ميں صلح ۹; انكى محروميت كے عوامل ۱; انكى بہشت سے محروميت كے عوامل ۱; انكے ہبوط كے عوامل ۳; انكے ھبوط كا فلسفہ ۶; انكا قصہ ۱، ۲; انكا معلم ۱۳; انكى بہشت كى خصوصيات ۹

اطاعت:خداتعالى كى اطاعت كے اثرات ۱۴، ۱۶

انسان:اس كا اختيار ۱۵; زمين ميں اسكى نسل كى بقا۶; اسكے دشمن ۸; اس كى دشمني۷، ۱۳; اس كى دشمنى كا پيش

۲۴۲

خيمہ ۱۲; اسكے انحطاط كے عوامل ۵; اسكى نجات كے عوامل ۱۴; اسكى معنوى ضروريات ۱۸; اسكى ہدايت ۱۰

بشارت:ہدايت كى بشارت ۱۱

جبر و اختيار ۱۵

حوا(ع) :انكے دھوكہ كھانے كے اثرات ۳; يہ اور ممنوعہ درخت ۱، ۳، ۱۲; ان كے ھبوط كا پيش خيمہ ۴; انكى محروميت كے عوامل ۱; ان كے ھبوط كے عوامل ۳; ان كے ھبوط كا فلسفہ ۶; انكا معلم ۱۳

خداتعالى :اسكى بشارتيں ۱۱; اسكى تعليمات ۱۳; اسكى راہنمائي ۱۰; اسكى ہدايات ۱۱، ۱۸

ممنوعہ درخت:اس سے كھانے كے اثرات ۱، ۱۲

دشمني:اس سے نجات كے عوامل ۱۴; اس سے نجات ۱۳

زمين:اس ميں دشمنى ۷

سختى :اسكے عوامل ۱۷

سعادت:اسكے عوامل ۱۸

شخصيت:اسكى آسيب شناسى ۵

شقاوت:اسكے موانع ۱۶

شيطان:اسكے دھوكہ دينے كے اثرات ۲، ۴; اسكے وسوسوں كے اثرات ۳، ۴; اسے نكال باہر كرنا ۲; اسكى دشمنى ۸; اس كا نقش و كردار ۴; اس كا ہبوط ۲

نافرماني:خداتعالى كى نافرمانى كے اثرات ۵،۱۷

گمراہي:اس كا پيش خيمہ ۱۵; اسكے عوامل ۱۷، اس كے موانع ۱۶

ضروريات:ہدايت الہى كى ضرورت ۱۸

ہدايت:اس كا پيش خيمہ ۱۵

۲۴۳

آیت ۱۲۴

( وَمَنْ أَعْرَضَ عَن ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنكاً وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَى )

اور جو ميرے ذكر سے اعراض كرے گا اس كے لئے زندگى كى تنگى بھى ہے اور ہم اسے قيامت كے دن اندھا بھى محشور كريں گے (۱۲۴)

۱ _ہدايت الہى اور اسكى ياد سے روگردانى لئے انسان كے لئے سخت اور مشكلات سے پر زندگى ميں گرفتار ہونے كا سبب ہے_من اتبع هداى و من أعرض عن ذكرى فإن له معيشة ضنك

''معيشة'' يا تو مصدر ميمى ہے اور يا ''ما يعاش بہ'' كے معنى ميں ہے يعنى وہ چيز جسكے ساتھ زندگى گزرتى ہے '' ضنك'' كا معنى ہے تنگى اور سختى (لسان العرب)

۲ _ ہدايت الہى كى پيروى اور خدا كى ياد ميں رہنا زندگى كى آسانى اور مشكلات كے دور ہونے كا سبب ہے_

من اتبع هداي لا يشقى _ و من أعرض عن ذكرى فإن له معيشة ضنك

۳ _ الہى تفكر اور ہدايات كو مدنظر ركھے بغير دنياوى زندگي ايك تنگ اور محدود زندگى ہے_و من أعرض عن ذكرى فان له معيشة ضنك جس طرح خداتعالى نے ديگر آيات ميں دنياوى زندگى كو''متاع قليل'' قرار ديا ہے ممكن ہے اس آيت ميں بھى دنياوى زندگى كو ''تنگ'' زندگى كے طور پر متعارف كرايا ہو يعنى دنيا ہر حد و اندازے اور ہر مقدار ميں اگر ہدايت سے خالى ہو تو يہ ''تنگ زندگي'' كے سوا كچھ نہيں ہوگى كيونكہ بلا مقصد اور آخرت پر اعتقاد كے بغير زندگى تھكا دينے والي، روزمرہ كا تكرار اور فضول زحمت ہے_

۴ _ہدايت الہى كى پيروى اور اسكى طرف توجہ ياد خدا كا جلوہ ہے_من اتبع هداي و من أعرض عن ذكري

اس آيت ميں ''من ا عرض'' سابقہ آيت ميں ''من اتبع'' كے مقابلے ميں ہے مقابلے كا تقاضا يہ تھا كہ فرماتا'' و من لم يتبع هداي'' ليكن اس كے بجائے فرمايا ہے ''و من أعرض عن ذكري'' اس انتخاب كى وجہ يا تو ہدايت ميں ذكر خدا كا كردار ہے اور يا ذكر و ہدايت كا ايك ہوناہے_

۵ _ ہدايت الہى اور ياد خدا سے روگردانى كرنے والے ميدان قيامت ميں اندھے محشور ہوں گے_

و من أعرض عن ذكري و نحشره يوم القيامة ا عمى

۲۴۴

۶ _ ہدايت الہى اور ہميشہ خدا كى ياد ميں رہنا زندگى ميں بصيرت كا سبب ہے _و من أعرض عن ذكرى و نحشره يوم القيامة ا عمى گمراہ لوگوں كا اندھا محشور ہونا دنيا ميں ان كے ہدايت كو ديكھنے اور پانے سے اندھا ہونے كا نتيجہ ہے_ اس خاص سزا سے يہ نتيجہ ليا جاسكتا ہے كہ ہدايت، زندگى كى راہ ميں بصيرت كا سبب ہے_

۷ _ قيامت كے دن حقائق واضح ہوجائيں گے_و نحشره يوم القيامة اعمى

۸ _ قيامت انسانوں كو جمع كرنے اور ان كو حاضر كرنے كا دن ہے _و نحشره يوم القى مة

''حشر'' كا معنى ہے جمع كرنا كہ جس كے ہمراہ پيچھے سے چلانا اور ہانكنا ہو (مقاييس اللغة) يہ كلمہ صرف گروہ كے بارے ميں استعمال ہوتا ہے (مفردات راغب) اور آيت كريمہ ميں ضمائر اگر چہ مفرد كى استعمال كى گئي ہيں ليكن چونكہ ياد خدا سے غافل سب لوگوں كا انجام يہى ہوگا اس لئے ''حشر''كو در حقيقت گروہ كى طرف نسبت دى گئي ہے_

۹ _ قيامت كو برپا كرنا اور اس ميں ياد خدا سے غافل لوگوں كو حاضر كرنا خداتعالى كے اختيار ميں ہے اوروہ اسكے ارادے سے مربوط ہے_و نحشره يوم القيامة اعمى

۱۰ _ مشكل زندگى ياد خدا سے غافل ہونے كا فطرى اثر اور روز قيامت نابينائي اسكى الہى سزا ہے_فإن له معيشة ضنكاً و نحشره يوم القيامة اعمى ''فإن له ...'' اور''نحشره ...'' كى تعبيروں ميں فرق كہ دوسرى كو خداتعالى كى طرف نسبت دى گئي ہے اور پہلى خود عمل پر متفرع ہوئي ہے ممكن ہے مذكورہ مطلب كى طرف اشارہ ہو_

۱۱ _ دنيا ميں سخت زندگى اور قيامت ميں نابينا محشور ہونا انسان كى گمراہى اور بدبختى كے جلوے ہيں _

فمن اتبع هداى فلا يضل و لا يشقى _ و من أعرض عن ذكرى فإن له معيشة ضنكاً و نحشره يوم القيامة ا عمى

مذكورہ مطلب ہدايت يافتہ اور غافلين كے گروہوں كے درميان تقابل كا لازمہ ہے كہ جسے دو آيتيں مجموعى طور پر بيان كر رہى ہيں _

۱۲ _'' عن ا مير المؤمنين (ع) : و إن المعيشة الضنك التى حذر الله منها عدوه ه عذاب القبر، انّه يسلط على الكافر فى قبره تسعة و تسعين تنينا فينهشن لحمه و يكسرن عظمه و يترددن عليه كذلك إلى يوم يبعث ; اميرالمؤمنين(ع) سے روايت كى گئي ہے''معيشة ضنك'' كہ جس سے خداتعالى نے اپنے دشمنوں كو ڈرايا ہے عذاب قبر ہے

۲۴۵

خداتعالى كافر پر اسكى قبر ميں ۹۹ سانپ مسلط كرتا ہے كو جو اسكے گوشت كو ڈستے ہيں اور اسكى ہڈى كو توڑتے ہيں اور اسى طرح اس پر آتے جاتے رہتے ہيں اس دن تك كہ اسے اٹھايا جائے _(۱)

۱۳ _'' معاوية بن عمار عن ا بى عبدالله (ع) قال: سا لته عن رجل لم يحج قط و له مال قال: هو ممّن قال الله : '' و نحشره يوم القيامة ا عمى '' قلت : سبحان الله ا عمي؟ قال: ا عماه الله عن طريق الجنة; معاويہ بن عمار كہتے ہيں ميں نے امام صادق(ع) سے اس شخص كے بارے ميں سوال كيا جسكے پاس مال تھا ليكن اس نے حج نہ كيا تو آپ (ع) نے فرمايا يہ ان لوگوں ميں سے ہے جنكے بارے ميں خداتعالى نے فرمايا ہے '' و نحشرہ يوم القيامة ا عمى '' ميں نے كہا سبحان الله نابينا؟ فرمايا خداتعالى نے اسے بہشت كا راستہ (ديكھنے) سے نابينا كرديا ہے(۲) _

اطاعت:خدا كى اطاعت كے اثرات ۲، ۴

انسان:اس كا محشور ہونا ۸; اسكى شقاوت كى نشانياں ۱۱; اسكى گمراہى كى نشانياں ۱۱

بصيرت:اسكے عوامل ۶

حج:تاركين حج قيامت ميں ۱۳; تاركين حج كا آخرت ميں اندہھاپن ۱۳

خداتعالى :اس سے روگردانى كے اثرات ۱۰; اسكى ہدايت كے اثرات ۳، ۶; اس كا ارادہ ۹; اسكے افعال ۹; اس سے غفلت كرنے والوں كا آخرت ميں اندھاپن ۱۰; اس سے روگردانى كى سزا ۱۰

ذكر:ذكر خدا كے اثرات ۲،۶; ذكر خدا كى نشانياں ۴

روايت: ۱۲، ۱۳

زندگي:اسكى سختى ۱۱; اسے آسان كرنے كے عوامل۱; اسكى سختى كے عوامل ۱، ۳، ۱۰; سخت زندگى سے مراد ۱۲

سختي:اسے دور كرنے كے عوامل ۲

نافرماني:خدا كى نافرمانى كے ا ثرات ۱

غافلين:ان كا آخرت ميں اندھاپن۵; ان كے محشورہونا كا سرچشمہ ۹

غفلت:خدا سے غفلت كے اثرات ۱/قيامت:

____________________

۱ ) امالى شيخ طوسى ج۱، ص۲۷; تفسير برہان ج۳، ص ۴۸، ح۹_ ۲ ) تفسير قمى ج۲، ص ۶۶_ نورالثقلين ج۳، ص ۴۰۶، ح ۱۷۳_

۲۴۶

اس ميں حقائق كا ظہور۷; اس ميں اندھاہونے كے عوامل ۱۰; اس ميں اندھا ہونا۱۱; اس ميں محشور ہونے كا سرچشمہ ۹

كفار:انكا عذاب قبر ۱۲

گمراہ لوگ:ان كا آخرت ميں اندھاپن ۵

خدا سے اعراض كرنے والے:ان كا آخرت ميں اندھاپن ۵، ۱۰

آیت ۱۲۵

( قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِي أَعْمَى وَقَدْ كُنتُ بَصِيراً )

وہ كہے گا كہ پروردگار يہ تونے مجھے اندھا كيوں محشور كيا ہے جب كہ ميں دار دنيا ميں صاحب بصارت تھا (۱۲۵)

۱ _ ہدايت اور ياد الہى سے روگردانى كرنے والے روز قيامت نابينا محشور ہوں گے _قال رب لم حشرتنى أعمى

۲ _ ياد خدا سے غافل لوگ روز قيامت تعجب كے ساتھ اور شكايت كے انداز ميں خداتعالى سے اپنے اندھے ين كى علت كے بارے ميں سوال كريں گے_قال رب لم حشرتنى أعمى

۳ _ ياد خدا سے غافل لوگ روز قيامت محشور ہونے كے بعد اپنى نجات كے راستے كى شناخت سے ناتوان ہوں گے_ *

قال رب لم حشرتنى أعمى ممكن ہے اندھے پن سے مراد قيامت كے ماحول اور اسكى مشكلات سے نجات كا راستہ پانے سے آگاہ نہ ہونا ہو اس بناپر ''قد كنت بصيراً'' كہنے والے اپنے آپ كو اس طرح سمجھتے ہيں كہ جو دنيا ميں سب چيزوں كو خوب سمجھتے تھے اور عميق فكر ركھتے تھے_

۴ _ روز قيامت انسان كو خداتعالى سے سوال پوچھنے كى اجازت ہے _قال رب لم حشرتنى أعمى

''قال'' كے ظاہر سے يوں لگتا ہے كہ يہ سوال لفظوں ميں ہوگا اور نابيناؤں كى طرف سے روز قيامت كيا جائيگا _

۵ _ قيامت كے دن انسان اپنے نقائص كو درك اور محسوس كريگا _قال رب لم حشرتنى أعمى

۶ _ ياد خدا سے اعراض كرنے والے ميدان قيامت ميں

۲۴۷

حاضر ہوكر خداتعالى كى ربوبيت كا اعتراف كريں گے _قال رب

۷ _ بصيرت و بينائي كو عطا كرنا اور اس كا چھيں لينا خداتعالى كى ربوبيت كے جلوے ہيں _قال رب لم حشرتنى أعمى

۸ _ حاضرين قيامت خداتعالى كو انسانوں كا محشور كرنے والا او رفہم و درك كى قوتوں كا اختيار ركھنے والا سمجھتے ہيں _

لم حشرتنى أعمى

۹ _ ياد خدا سے غافل لوگ قيامت ميں حاضر ہونے كے وقت اپنى دنياوى زندگى كو ہوشمندانہ قرار ديكر فہم و درك كے راستے كے بند ہونے سے تعجب كريں گے_*قال رب لم حشرتنى أعمى و قد كنت بصيرا

مذكورہ مطلب بالا اس بنا پر ہے كہ ''ا عمى '' سے مراد''دل كا اندھا'' ہو_

۱۰ _ قيامت كے دن انسان دنيا ميں زندگى كے حالات اور اس ميں اپنى جسمانى خصوصيات سے آگاہ ہوگا_

قال رب لم حشرتنى أعمى و قد كنت بصير

۱۱ _ حاضرين قيامت كى نظر ميں ضرورى ہے كہ انسان كا وہاں كا جسم اسكے دنياوى بدن جيسا ہو _لم حشرتنى أعمى و قد كنت بصير

۱۲ _ روز قيامت انسان كا محشور ہونا جسمانى خصوصيات كے ہمراہ ہوگا _قال رب لم حشرتنى أعمى و قد كنت بصير

۱۳ _ ہدايت الہى كى پيروى روز قيامت بصيرت اور بينائي كا سبب ہے _فمن اتبع هداي و من اعرض لم حشرتنى أعمى

۱۴ _ خدا سے غفلت كے ہوتے ہوئے گہرى فكر بھى در حقيقت اندھاپن اور بے بصيرتى ہے_لم حشرتنى أعمى و قد كنت بصير قيامت ميں اندھاپن دنيا ميں انسان كى حقيقت كا جلوہ ہے يعنى اگر چہ وہ اپنے آپ كو با بصيرت سمجھتا ہے ليكن در حقيقت بصيرت سے عارى ہے_

اطاعت:خدا كى اطاعت كے اثرات ۱۳

اقرار:ربوبيت خدا كا اقرار ۶/اندھاپن:اس كا سرچشمہ ۷

انسان:اسكى اخروى سوچ ۸، ۱۱; اس كا اخروى تنبہ ۱۰; اسكے محشورہونے كا سرچشمہ ۸; اسكے درك كا سرچشمہ ۸; اسكے محشور ہونے كى خصوصيات ۱۲

بصيرت:اخروى بصيرت كے عوامل ۱۳; اس كا سرچشمہ ۷

۲۴۸

خداتعالى :اسكے افعال ۸; اس سے سوال ۲، ۴; اسكى ربوبيت كى نشانياں ۷

خدا سے اعراض كرنے والے:انكا اخروى اقرار ۶; انكا اخروى تعجب ۹; انكا محشور ہونا۱، ۳; انكا عجز ۳; انكا اخروى اندھاپن ۱; انكى دنيوى ہوشيارى ۹

غافلين:انكا اخروى اقرار۶; انكا اخروى سوال ۲; انكا اخروى تعجب ۲، ۹; انكا محشور ہونا ۳; انكا عجز ۳; انكا اخروى اندھاپن ۱، ۲; انكا اندھاپن ۱۴; انكا اخروى گلہ ۲

غفلت:خداتعالى سے غفلت كے اثرات ۱۴

قيامت:اس ميں سوال ۴; اس ميں نقائص كا درك ۵; اس ميں حقائق كا ظہور ۵، ۱۰

گمراہ لوگ:ان كا محشور ہونا۱; ان كا اخروى اندھاپن ۱

معاد:معاد جسمانى ۱۱، ۱۲

آیت ۱۲۶

( الَ كَذَلِكَ أَتَتْكَ آيَاتُنَا فَنَسِيتَهَا وَكَذَلِكَ الْيَوْمَ تُنسَى )

ارشاد ہوگا كہ اسى طرح ہمارى آيتيں تيرے پاس آئے اور تونے انھيں بھلاديا تو آج تو بھى نظر انداز كرديا جائے گا (۱۲۶)

۱ _ خداتعالى نے بشر كى ہدايت اور اسے ياد دہانى كرانے كيلئے متعدد آيات بھيجى ہيں _قال كذلك ا تتك ء اتين

۲ _ آيات اور ہدايت الہى كو فراموش كرنا اوران سے غافل ہونا روز قيامت نابينا محشور ہونے كا سبب ہے _

لم حشرتنى ا عمى قال كذلك ا تتك و ء آيا تنا فنسيته

۳ _ خداتعالى فرائض كے بيان كرنے اور انہيں بندوں تك پہچائے بغير انہيں سزا نہيں ديتا_قال كذلك ء اتيتك ء اى تن

روز قيامت غافلين كو كہا جائيگا''اتتك ء اياتنا'' يعنى تيرے پاس ہمارى آيات آئيں تھيں نہ يہ كہ ہم نے آيات بھيجيں تھيں آپ تك پہنچى ہوں يا نہ لہذا خداتعالى نے مواخذے كا معيار آيات كے ابلاغ كو قرار ديا ہے _

۴ _ مجرمين كا خداتعالى سے سوال اور اس كا جواب وصول كرنا ميدان قيامت كے واقعات ميں سے _

رب لم حشرتني قال كذلك ا تتك اى تن

''قال كذلك'' كے ظاہر سے يوں محسوس ہوتا ہے كہ ''لم حشرتني'' كے سوال كا جواب بھى الفاظ كے ساتھ بيان ہوگا نہ كہ صرف نفس ميں ايك حالت پيدا ہوگى

۲۴۹

اگر چہ ممكن ہے يہ جواب بلاواسطہ نہ ہو بلكہ فرشتوں و غيرہ كے ذريعے انجام پائے _

۵ _ خداتعالى كى طرف سے پہنچائي گئي ہدايات اسكى آيات ہيں _إما يا تينكم منى هديً فمن اتبع هداي قال كذلك ا تتك أى تن گذشتہ آيات ميں ''ہدايت'' كلام كامحور تھا اس آيت ميں ''ہدايات الہى ''كہ جن كا ''ہديً'' اور ''ہداي'' كے ساتھ تذكرہ كيا گيا ہے_كو ''آياتنا'' كے ساتھ تعبير كيا گيا ہے تا كہ اس حقيقت كو بيان كرے كہ ہدايات الہى وہى اسكى آيات ہيں _

۶ _ روز قيامت خداتعالى آيات اور معارف الہى كى اعتناء نہ كرنے والے افراد سے روگردانى كرے گا اور انكى اعتنا نہيں كريگا_أتتك آيا تنا فنسيتها و كذلك اليوم تنسى فعل ''تنسى '' ميں اگر چہ فاعل نامعلوم ہے ليكن (گذشتہ آيت ميں ) ''رب لم حشرتني'' كے قرينے سے كہاجاسكتا ہے كہ فاعل خداتعالى ہے_ نسيان دو معنوں كے درميان مشترك ہے ۱_ غفلت كى وجہ سے ترك كرنا ۲_ جان بوجھ كر ترك كرنا (مصباح) گذشتہ آيات قرينہ ہيں كہ اس آيت ميں دوسرا معنى مراد ہے_

۷ _ آيات اور ہدايات الہى سے غفلت اور انہيں فراموش كردينا روز قيامت انسان كے خداتعالى كى توجہات و عنايات سے محروم ہونے كا ايك عامل ہے_أتتك آيا تنا فنسيتها و كذلك اليوم تنسى

(گذشتہ آيات ميں مذكور) ''من أعرض عن ذكري'' قرينہ كہ ہے ''نسيتہا'' ميں نسيان سے مراد آيات الہى سے روگردانى اور بے اعتنائي ہے اور اس كا ''تنسى '' كے ساتھ تقابل اس نكتے كو بيان كررہا ہے كہ اس كلمے ميں بھى نسيان كا معنى روگردانى اور ترك كرنا ہے_

۸ _ روز قيامت نابينائي اوردرك انسان كے راستے كا مسدود ہونا اسكے خداتعالى كى توجہ اور عنايات سے محروم ہونے كا مظہر ہے_لم حشرتنى ا عمى كذلك اليوم تنسى

۹ _ روز قيامت انسان كو محشور كرنے اور اسكے اعمال كى جزا كى كيفيت اسكے دنياوى كردار كے ساتھ متناسب ہوگي_

فنسيتها تنسى

۱۰ _ روز قيامت انسان كى سزا اسكے دنياوى كردار سے نشأت پكڑتى ہے_فنسيتها اليوم تنسى

آيات خدا:

۲۵۰

انكى فراموشى كے اثرات ۲، ۷; ان سے اعراض كرنے والوں سے بے اعتنائي ۶; ان سے اعراض كرنے والے قيامت ميں ۶; ان كا كردار ۱; انكا ہدايت كرنا ۱، ۵

انسان:اسكے اخروى اندھے پن كا سرچشمہ ۸

پاداش:اس كا عمل كے ساتھ متناسب ہونا ۹; اخروى پاداش كے عوامل ۱۰

محشور ہونا:اسكى كيفيت ۹

خداتعالى :اسكے لطف و كرم سے محروميت كے اثرات ۸; اس سے سوال ۴; اس كے لطف و كرم سے محروميت كے عوامل ۷; اسكى ہدايات ۱، ۵

عمل:اسكے اثرات ۹، ۱۰; اسكى اخروى پاداش ۹; اسكى اخروى سزا ۹

غفلت:آيات الہى سے غفلت كے اثرات ۷; خداتعالى سے غفلت كے اثرات ۲، ۷

قواعد فقہيہ: ۳

قاعدہ عقاب بلا بيان ۳

قيامت:اس ميں سوال و جواب۴; اسكى خصوصيات ۴

اندھاپن:اخروى اندھے پن كے عوامل ۲

سزا:اس كا گناہ كے ساتھ متناسب ہونا ۹; اخروى سزا كے عوامل ۱۰

گناہ گار لوگ:ان كا اخروى جواب۴; ان كا اخروى سوال ۴

جزا كا نظام :۹

سزا كا نظام ۳

ہدايت:اسكى اہميت ۱

۲۵۱

آیت ۱۲۷

( وَكَذَلِكَ نَجْزِي مَنْ أَسْرَفَ وَلَمْ يُؤْمِن بِآيَاتِ رَبِّهِ وَلَعَذَابُ الْآخِرَةِ أَشَدُّ وَأَبْقَى )

اور ہم زيادتى كرنے والے اور اپنے رب كى نشانيوں پر ايمان نہ لانے والوں كو اسى طرح سزا ديتے ہيں اور آخرت كا عذاب يقينا سخت ترين اور ہميشہ باقى رہنے والا ہے (۱۲۷)

۱ _ دنيا ميں سخت اور تنگ زندگى اور قيامت ميں اندھاپن اور خداتعالى كى سرد مہرى ميں گرفتار ہونا اسراف كرنے والوں كى سزا ہے _معيشة ضنكاً و نحشر يوم القيامة ا عمى و كذلك نجزى من ا سرف

اسراف يعنى حد اعتدال سے تجاوز كرنا (مصباح) ''من اتبع ہداي'' كے قرينے سے اس آيت ميں اس سے مراد ہدايات الہى سے تجاوز كرنا ہے اور ''كذلك'' ميں ''ذلك'' ان سزاؤں كى طرف اشارہ ہے كہ جو گذشتہ آيات ميں ياد خدا سے روگردانى كرنے والوں كيلئے بيان ہوچكى ہيں _

۲ _آيات اور ہدايات الہى سے روگردانى كرنے والے اسراف كرنے والوں كا كامل اور بارز مصداق ہيں

و من أعرض عن ذكري و كذلك نجزي من أسرف

اگر''كذلك نجزي ...'' كا گذشتہ آيت پر عطف ہو اور يہ خداتعالى كى ياد الہى سے غافل لوگوں كے ساتھ گفتگو كا تسلسل ہو تو ''من ا سرف'' غافلين كيلئے دوسرا عنوان ہوگا_

۳ _ اسراف كرنے والے اور آيات الہى پر ايمان لانے سے روگردانى كرنے والے روز قيامت خداتعالى كى توجہ اور عنايات سے محروم ہوں گے_و كذلك اليوم تنسى و كذلك نجزى من أسرف و لم يؤمن بأيات ربه

۴ _ انسان كى ہدايت كيلئے آيات پيش كرنا ربوبيت الہى كا ايك جلوہ ہے _بآى ت ربه

۲۵۲

۵ _ خداتعالى مستحقين عذاب كو سزا دينے كے نظام كا حاكم ہے_نجزي

۶ _ دنيوى سزاؤں كى نسيت اخروى عذاب زيادہ سخت اور ديرپا ہوگا_و لعذاب الأخرة أشد و ا بقى

۷ _ اسراف كرنے والوں اور آيات الہى پر ايمان نہ لانے والوں كو دنياوى سزا اور روز قيامت اندھا ہونے كے علاوہ آخرت ميں زيادہ سخت اور ديرپا عذاب كا سامنا ہوگا _و لعذاب الأخرة ا شد و ا بقى

''كذلك'' بتاتا ہے كہ دنيا ميں سخت زندگى اور قيامت كا اندھاپن غافلين كے علاوہ بے ايمان اسراف كرنے والوں كيلئے بھى خطرہ ہے اور جملہ ''لعذاب الآخرة ...'' اس كے علاوہ مزيد عذاب سے حكايت كررہا ہے كہ جو روز قيامت كے ختم ہونے كے بعدشروع ہوگا اور دنياوى اور روز قيامت كے عذاب سے زيادہ سخت اور ديرپا ہوگا _

۸ _ آيات اور ہدايات الہى پر ايمان دنيا و آخرت ميں عذاب الہى سے محفوظ رہنے كى شرط ہے_و كذلك نجزي لم يؤمن ا شد و ا بقى

اسراف كرنے والے: ۲انكے عذاب كا دائمى ہونا۷; انكى زندگى كا سخت ہونا۱; انكا اخروى عذاب ۷; انكا اخروى اندھاپن ۱; انكى سزا ۱، ۷; انكى اخروى محروميت ۳

آيات خدا:ان سے روگردانى كرنے والوں كا اسراف۲; ان سے اعراض كرنے والوں كا اخروى عذاب ۷; ان سے اعراض كرنے والوں كى سزا ۷; ان سے اعراض كرنے والوں كى اخروى محروميت ۳; ان كا كردار ۴

ايمان:آيات الہى پر ايمان كے اثرات ۸; خداتعالى پر ايمان كے اثرات ۸

خداتعالى :اسكى حاكميت ۵; اسكى ربوبيت كى نشانياں ۴

عذاب:اخروى عذاب كى شدت ۶; اس سے بچنے كے شرائط ۸; دنيوى عذاب ۶; اسكے درجے ۶; اخروى عذاب كے درجے ۷

خدا كا لطف و كرم:اس سے محروم لوگ ۳

سزا كا نظام:اس كا حاكم۵

ہدايت:اسكے عوامل ۴

۲۵۳

آیت ۱۲۸

( أَفَلَمْ يَهْدِ لَهُمْ كَمْ أَهْلَكْنَا قَبْلَهُم مِّنَ الْقُرُونِ يَمْشُونَ فِي مَسَاكِنِهِمْ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِّأُوْلِي النُّهَى )

كيا انھيں اس بات نے رہنمائي نہيں دى كہ ہم نے ان سے پہلے كتنى نسلوں كو ہلاك كرديا جو اپنے علاقہ ميں نہايت اطمينان سے چل پھر رہے تھے بيشك اس ميں صاحبان عقل كے لئے بڑى نشانياں ہيں (۱۲۸)

۱ _ خداتعالى نے طول تاريخ ميں بہت سارے معاشروں اور امتوں كو ہلاك اور نابود كيا ہے_كم ائهلكنا قبلهم من القرون ''قرن'' كا معنى ہے قوم اور وہ لوگ جو ايك زمانے ميں زندگى گزار رہے ہوں (مفردات راغب)

۲ _ آيات اور ہدايات الہى كے بارے ميں كفر طول تاريخ ميں بہت سارى امتوں كى نابودى كا سبب بنا_و كذلك نجزى من أسرف و لم يؤمن كم ا هلكنا قبلهم من القرون گذشتہ آيات قرينہ ہيں كہ سابقہ امتوں كى ہلاكت ان كے آيات و ہدايات الہى كے مقابلے ميں كفر اختيار كرنے كى وجہ سے ہوتى تھي_

۳ _ گذشتہ اقوام كى عذاب الہى كے ساتھ ہلاكت خداتعالى كى دھمكيوں كے سنجيدہ ہونے كے واضح نمونے ہيں اور عصر بعثت كے مشركين كيلئے كفايت كرنے والا رہنما _ا فلم يهد لهم كم ا هلكنا قبلهم من القرون

۴ _تاريخ اور گذشتہ امتوں كى ہلاكت سے سبق حاصل نہ كرنا توبيخ اور مذمت كے قابل ہے _أفلم يهد لهم كم ا هلكنا قبلهم ''أفلم ...'' ميں استفہام انكار توبيخى كيلئے ہے اور '' لم يہد'' كا فاعل ''اہلاك'' ہے كہ جو ''كم ا ہلكنا'' سے سمجھ آرھا ہے اور ''لم يہد'' حرف لام كے ساتھ متعدى ہونے كى وجہ سے اس ميں تبيين كا معنى بھى تضمين كيا گيا ہے اور جملے كا معنى يہ ہے كہ كيا بہت سارى گذشتہ امتوں كو نابود كرنے سے مشركين كيلئے واضح نہيں ہوا كہ وہ ان جيسا عمل نہ كريں _

۵ _ عصر پيغمبر(ص) كے كفار بہت سارى گذشتہ امتوں كى ہلاكت سے آگاہ تھے اور ان كے باقى رہ جانے والے آثار قديمہ سے آشنا تھے_ا فلم يهد لهم كم ا هلكنا يمشون فى مسكنهم جملہ ''يمشون ...'' ''ہم'' كيلئے حال ہے اور سياق آيت قرينہ ہے كہ اس سے مراد صدر اسلام كے مشركين ہيں ان كا عاد، ثمود، لوط اور كے گھروں سے عبور كرنا كہ جو جملہ ''يمشون ...'' كا معنى ہے ان كے گذشتہ امتوں كے مرگبار واقعات سے آگاہى كا سبب ہے ہمزہ استفہام سے مستفاد توبيخ بھى ان كى آگاہى پر متفرع ہے_

۲۵۴

۶ _ گذشتہ امتوں ميں سے بہت سے لوگ جب عذاب الہى ميں گرفتار ہوئے اس وقت اپنے شہر اور گھروں ميں معمول كے مطابق رفت و آمد ميں مصروف تھے_*كم ا هلكنا قبلهم من القرون يمشون فى مسكنهم ممكن ہے جملہ ''يمشون ...'' ''القرون'' كيلئے حال ہو_

۷ _ تاريخ كا تغير و تبدل خداتعالى كے ارادے سے وابستہ ہے_كم ا هلكنا قبلهم

۸ _ نابود شدہ اقوام كے باقى رہ جانے والے آثار قديمہ سے سبق حاصل كرنے اور عبرت لينے كيلئے بہت سارى چيزويں ہيں _أفلم يهدلهم كم ا هلكنا إن فى ذلك لأيات

۹ _ گذشتہ امتوں كے باقى رہ جانے والے عبرت آموز آثار كا مطالعہ اور تحقيق اور انكى ہلاكت كے اسباب معلوم كرنا ضرورى ہے_كم ا هلكنا إن فى ذلك لأيات

گذشتہ امتوں كى تاريخ اور ان كے آثار كے آيت ہونے كا تقاضا يہ ہے كہ وہ انسان كو مہم اور قيمتى ہدايات اور عبرتوں كى طرف رہنمائي كرنے كے قابل ہيں _

۱۰ _ گذشتہ امتوں كے باقى رہ جانے والے آثار قديمہ كے مطالعے سے صرف صاحبان عقل بہرہ مند ہوتے ہيں اور عبرت حاصل كرتے ہيں _كم ا هلكنا قبلهم إن فى ذلك لأيات لا ولى النهي

آيات كا نشانى اور آيت ہونا عبرت حاصل كرنے والے كے موجود ہونے كے ساتھ مختص نہيں ہے بلكہ ايك ثابت صفت ہے لہذا اس كا ''ا ولى النہى '' كے ساتھ مختص ہونا صرف صاحبان عقل كے آيات سے بہرہ مند ہونے كى طرف ناظر ہے يعنى اگرچہ آيات اور نشانياں موجود ہيں ليكن بے عقل لوگ اس سے بہرہ مند نہيں ہوتے_

۱۱ _ عقل اور دانايى ايك قيمتى جوہر ہيں اور انسان كو ناروا كاموں سے روكتے ہے_ان فى ذلك لآيات لاولى النهى

''نُہى '' يا تو ''نہية'' (عقل) كى جمع ہے اور يا يہ مفرد لفظ ہے عقل كے معنى ميں (قاموس) اور اس لئے عقل كو يہ نام ديا گيا ہے كہ يہ انسان كو برائيوں سے نہى كرتى ہے_

۲۵۵

۱۲ _ جو لوگ گذشتہ اقوام كے انجام سے عبرت نہيں ليتے وہ عقل و خرد سے بے بہرہ ہيں _إن فى ذلك لأيات لا ولى النهى

۱۳ _ خداتعالى انسان كو عقل سے استفادہ كرنے اور اسے استعمال كرنے كى ترغيب دلاتا ہے _أفلم يهد إن فى ذلك لأيات لا ولى النهى اس آيت كا ذيل كہ جو صاحبان عقل كى تعريف كر رہا ہے مذكورہ مطلب كو بيان كررہا ہے نيز اسكے شروع ميں فاء عاطفہ اس مقدر پر عطف كر رہى ہے كہ جسے آيت كا ذيل بيان كررہا ہے در حقيقت اس پر استفہام توبيخى داخل ہوا ہے اور ''لم يہد'' اس پر تفريع ہے اور اصل ميں كلام يوں تھا ''ا فلم يتفكروا فلم يهد ...'' كيا انہوں نے سوچا نہيں گذشتہ اقوام كے انجام كا مطالعہ انكى ہدايت كا سبب نہيں بنا؟

آثار قديمہ:يہ صدر اسلام ميں ۵; ان سے عبرت لينا ۸، ۹، ۱۰

آيات خدا:انہيں جھٹلانے كے اثرات ۱۲

آثار قديمہ شناسي:اسكى اہميت ۹

گذشتہ اقوام:ان كے آثار قديمہ ۵; انكى تاريخ ۱، ۲، ۶; ان سے عبرت لينا ۹; ان سے عبرت حاصل نہ كرنا ۱۲; انكى ہلاكت كے عوامل ۲; ان كے عذاب كى كيفيت ۶ ; انكى ہلاكت ۱، ۳، ۵

تاريخ:اسكے مطالعے كى اہميت ۹; اس سے عبرت لينا ۴، ۸; اسكے تحولات كا سرچشمہ ۷

تعقل:اسكى تشويق ۱۳

خداتعالى :اسكے ارادے كے اثرات ۷; اسكے افعال ۱; اسكى تشويق ۱۳; اسكى دھمكيوں كا حتمى ہونا ۳

عقلا:يہ اور آثار قديمہ ۱۰/عبرت:عبرت نہ لينے والوں كى بے عقلى ۱۲; عبرت نہ لينے كى مذمت ۴; اسكے عوامل ۸، ۱۰

عذاب:اہل عذاب سے عبرت حاصل كرنا ۴

عقل:اسكى قدر و قيمت ۱۱; بے عقل لوگ ۱۲; اس كا كردار ۱۱

عمل:ناپسنديدہ عمل كے موانع ۱۱

كفار:صدر اسلام كے كفار كا علم ۵

مشركين:صدر اسلام كے مشركين كو دھمكى ۳

۲۵۶

آیت ۱۲۹

( وَلَوْلَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِن رَّبِّكَ لَكَانَ لِزَاماً وَأَجَلٌ مُسَمًّى )

اور اگر آپ كے رب كے طرف سے بات طے نہ ہوچكى ہوتى اور وقت مقرر نہ ہوتا تو عذاب لازمى طور پر آچكا ہوتا (۱۲۹)

۱ _ خداتعالى نے معاشروں اور امتوں كے امور كى تدبير كيلئے محكم و ثابت قوانين اور سنتيں قرار دے ركھى ہيں _

و لو لا كلمة سبقت من ربك اس مناسبت سے كہ بحث معاشروں اور انہيں مہلت دينے كے بارے ميں ہے اس آيت ميں ''كلمة '' سے مراد تاريخ اور معاشروں پر حاكم قوانين الہى اور سنتيں ہيں _

۲ _ كافر امتوں كے انجام اور انكى ہلاكت و بقا كيلئے معين سنن و قوانين اور مشخص اوقات ہيں _

كم اهلكنا قبلهم و لو لا كلمة سبقت من ربك لكان لزام گذشتہ آيت كہ جو كافر معاشروں كى ہلاكت كے بارے ميں ہے قرينہ ہے كہ ''لو لا كلمة ...'' كا معنى يہ ہے خداتعالى نے كفار كے عذاب كا وقت اور اسكے ديگر معيارات كو پہلے سے مشخص و معين كر ركھا ہے_

۳ _ كفار پر الہى سنتوں كا حاكم ہونا ان كے عذاب الہى كے ساتھ جلدى نابود ہونے سے مانع ہے_و لو لا كلمة سبقت من ربك لكان لزام

۴ _ آيات اور ہدايات الہى كے بارے ميں كفر كرنے والے دنيا ميں سزا اور عذاب كے مستحق ہيں _و لو لا كلمة سبقت من ربك لكان لزام لفظ'' لزاماً'' باب مفاعلہ كا مصدر ہے اور مصدر كا خبر واقع ہونا مبالغہ پر دلالت كرتاہے، اس بناپر جملہ''كان لزاماً'' كا مفاد يوں ہوگا(اگر خدا كى طرف سے مجرمين كو مہلت دينے كى سنت نہ ہوتي)عذاب الہى مخالفت كرنے والوں كے ساتھ ساتھ ہوتا (يہاں تك كہ مختصر سى مدت كے ليے بھي) ان سے الگ نہ ہوتا_

۵ _ خداوند متعال ہرگز اپنى سنتوں (طى شدہ باتوں ) سے پيچھے نہيں رہے گا_و لو لاكلمة سبقت من ربك لكان لزام

۲۵۷

۶ _آيات الہى كا انكار كرنااور اللہ تعالى كى ياد سے منہ پھير لينا ناقابل معاف گناہ ہيں _

و من أعرض عن ذكري و لم يؤمن بأيات ربه لو لا كلمة سبقت من ربك لكان لزام

۷ _بعثت كے دوران بسنے والے كافروں اور مشركوں كو مہلت دينا، خداوند عالم كى طرف سے رسول اكرم(ص) پر خصوصى عنايت كى وجہ سے تھي_رَبّك

''ربّ'' كے مقدس نام كارسول خدا كى ضمير خطاب كى طرف اضافہ ہوناكافروں پر عذاب نازل كرنے ميں تاخير اور ان كو مہلت دينا خدا كى طرف سے رسول اكرم(ص) پر خصوصى عنايت ہونے كى طرف اشارہ ہوسكتاہے _ جيسا كہ ايك اور سورے ميں فرماتا ہے:''و ما كان الله ليعذبهم و ا نت فيهم''

۸ _انسانيت سے متعلق مصلحتيں اور خداوند كى طرف سے قوموں كے معاملات كى تدبير كرنا دنيا ميں مخالفين كو جلدى سزا نہ دينے كى دليل ہے_ربَّك

۹ _روى زمين پر انسانى زندگى كو معين مدت تك كے ليے جارى ركھنے كى سنت (طى شدہ قانون) حق كى مخالفت كرنے والوں كو فوراً نابود كرنے كے ساتھ سازگار نہيں ہے_و لو لا كلمة سبقت من ربّك لكان لزاماً و اجل مسميً

(ا جل) كا معنى پورى مدت يا آخرى وقت ہے (لسان العرب) اور ''ا جل مسميً'' ''كلمة'' پر عطف ہوا ہے يعنى '' لو لا كلمة وا جل مسميً ...'' يہاں كلمہ اور اجل سے مراد دو مستقل چيز يں ہيں يا دونوں ايك حقيقت كى دو تعبير ہے اس بارے ميں علماء نے مختلف بيانات ديئےيں _ان ميں سے ايك احتمال يہ ہے كہ ''كلمہ'' سے مراد اللہ تعالى كا وہ كلام ہے جو آدم (ع) كو بہشت سے نكل كرزمين پر آتے وقت فرمايا''لكم فى الا رض مستقر و متاع إلى حين'' (بقرہ ۳۶) اور ''ا جل'' سے مراد اس احتمال كى بناپر دنيا كى آخرى عمر ہے مذكورہ نظريہ اس احتمال كى بناپر ہے_

۱۰ _ اللہ تعالى نے دنيوى زندگى كو تمام كافروں كو جلد مؤاخذہ كرنے كى جگہ قرار نہيں دى ہے _و لو لا ا جل مسميً

اللہ تعالى كى سنت ( اور روش) كى جس پر'' لو لا كلمة ...'' دلالت كرتاہے يہ نہيں ہے كہ اللہ تعالى دنيا ميں كسى بھى مختلف كرنے والے پر عذاب نازل نہيں كرتا بلكہ اسكى سنت يہ ہے كہ سارى مخالفين كو تباہ نہيں كرے گا كيونكہ اگر ہر كافر كو نابود كرنا منشا ہوتا تو انسانى نسل ختم ہونے كا خطرہ تھا( اس صورت ميں ) اجل مسمى تك نسل بشر باقى نہ رہتى _

۱۱ _قوموں كے خاتمے ليئے ايك معين اور طى شدہ مدت ہے_و لو لا كلمة سبقت من ربك لكان لزاماً ا جل مسميً

۲۵۸

آیت ۱۳۰

( فَاصْبِرْ عَلَى مَا يَقُولُونَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوبِهَا وَمِنْ آنَاء اللَّيْلِ فَسَبِّحْ وَأَطْرَافَ النَّهَارِ لَعَلَّكَ تَرْضَى )

لہذا آپ ان كى باتوں پر صبر كريں اور آفتاب نكلنے سے پہلے اور اسكے ڈوبنے كے بعد اپنے رب كى تسبيح كرتے رہيں اور رات كے اوقات ميں اور دن كے اطراف ميں بھى تسبيح پروردگار كريں كہ شايد آپ اس طرح راضى اور خوش ہوجائيں (۱۳۰)

۱ _ كفار رسول خد ا (ص) كو اپنى ( بے بنياد) باتوں كے ذريعے روحى طور پر اذيت پہنچاتے تھے_فاصبر على ما يقولون

خدا كى طرف سے رسول(ص) كى صبر كى تلقين اس بات كى حكايت كرتاہے كہ آنحضرت (ص) كافروں كى باتيں سننے سے رنجيدہ خاطر ہوتے تھے_

۲ _ كفار عذاب ميں تاخير ہونے اور فورى طورپر عذاب نازل نہ ہونے كو بہانہ بناكر رسول خدا كو روحى فشار ميں ركھتے اور انكے خلاف سخت پروپيگنڈا كرتے تھے_فاصبر على ما يقولون ما قبل والى آيت كے قرينے سے ''ما يقولون'' سے مراد كافروں كى وہ باتيں ہيں جو عذاب نازل نہ ہونے اور رسول (ص) خدا كے وعدوں كا مذاق اڑانے كے ليے اظہار كرتے تھے

۳ _خدا كى طرف سے رسول اكرم (ص) كو كافروں كى بے بنياد باتوں اور انكى طرف سے نفسياتى اذيت پہنچانے كے لئے پروپگينڈاكرنے پر صبر و تحمل كرنے كى وصيت_فاصبر على ما يقولون

۴ _ كافروں كو مہلت دينے كى حكمت كے بارے ميں خدا كى طرف سے آيات كا نزول كافروں كى طرف سے كى جانے والى تبليغات پر رسول اكرم(ص) كے تحمل اور صبر كا موجب بنا_لو لا كلمة سبقت فاصبر على ما يقولون

''فا صبر'' ما قبل والى آيت پر عطف اور تفريع ہے يعنى چونكہ كافروں كو عذاب دينے ميں تا خير سہل انگارى كى وجہ سے نہيں بلكہ ايك قانون اور سنت كى وجہ سے ہے پس ان سختيوں كو برداشت كريں ان آيات ميں خداوند عالم نے مخالفين كو مہلت دينے كى علت اور تاريخ (بشريت) پر حكم فرما روشن اور سنت كو بيان فرما كر رسول خدا(ص) اور اہل ايمان كى نسل ہونے كا زمينہ فراہم كرديا ہے_

۵ _ سنت الہى پرسے آگاہ ہونا اور اسكى علت كو سمجھنا سختيوں اور پريشانيوں ميں صبر و تحمل كرنے كے لئے پيش خيمہ_

و لو لا كلمة فاصبر على ما يقولون

۶ _ رسول خدا(ص) اور اہل ايمان لوگوں كو سورج طلوع كرنے اور ڈوبنے سے پہلے اللہ تعالى كى تسبيح كرتے رہنا چاہيئے _

و سبح بحمد ربك قبل طلوع الشمس و قبل غروبه

۲۵۹

''بحمد ربّكَ'' ميں باء يا مصاحبت كے لئے ہے يا استعانت كے لئے بہر حال اللہ تعالى كى حمد اور تسبيح كرنے كا حكم ايك ساتھ آيا ہے_ تسبيح كرنے كا خطاب اگر چہ بظاہر رسول اكرم(ص) كے متعلق ہے ليكن بعد والى آيتوں كے قرينہ سے معلوم ہوتاہے كہ يہ حكم رسول اكرم(ص) كے لئے مختص نہيں ہے (بلكہ تمام اہل ايمان بھى اس حكم كا مخاطب ہيں )

۷ _ رسول خدا (ص) اور اہل ايمان كسى يہ ذمہ دارى ہے كہ رات كے كچھ حصے اور دن كے دونوں فوں ميں اللہ تعالى كى حمد اور تسبيح كيا كريں _و من ء اناء الليل فسبح و اطراف النهار

''ء انائ'' كا معنى اوقات ہے اور ''من'' يہاں تبعيض كے ليے آياہے_لہذا ''من آناء الليل'' سے مراد يہ ہے كہ رات كے كچھ اوقات حمد اور تسبيح ميں مشغول رہيں اور آيت كے شروع ميں ''بحمدك'' آنا اس بات كا قرينہ ہے كہ يہ تسبيح بھى حمد كے ساتھ ہونى چاہيے_

۸ _ تمام اوقات ميں اللہ تعالى كى حمد اور تسبيح اور ذكر لازمى ہے_فسبح قبل طلوع آناء الليل اطراف النهار

اگرچہ اس آيت كريمہ ميں اللہ تعالى كى تسبيح كرنے كے ليے كچھ اوقات معين كيا گيا ہے ليكن ان موارد كى كثرت سے ايسا لگتاہے كہ ہدف يہ ہے كہ تماما فرصت كے موقعوں پر اللہ تعالى كو ياد كرنا اول اسكى تسبيح كرتے رہنا چاہيے_

۹ _انسان سخت شرائط نہيں آنے كى صورت ميں زيادہ صبر اور تحمل حاصل كرنے كے ليے اللہ تعالى كو ياد كرنے اور اسكى تسبيح كرنے كى طرف محتاج ہے_فاصبر على ما يقولون و سبّح بحمد ربّك

صبر كرنے كا دستور دينے كے بعد تسبيح كا دستور آنا اس بات كى نشاندہى كرتاہے كہ صبر كرنے كى طاقت حاصل كرنے كے لئے تسبيح كو دخل ہے_

۱۰ _ خدا اور دين كے خلاف كافروں كى طرف سے ہونے والے پراپگنڈوں كے ساتھ مقابلہ كرنے كے راستوں ميں سے ايك اللہ تعالى كى تسبيح اور حمد كرنا ہے_و سبح بحمد ربك قبل طلوع الشمس و قبل غروبه

۱۲ _رات كے كچھ حصوں ، صبح كے قريب اور سورچ غروب كرنے كے بعد اللہ تعالى كى حمد اور تسبيح كرنا خصوصى نتائج كے حامل ہيں _و من ء اناء الليل فسبح و اطراف النهار

''اطراف نہار'' سے مراد دن كا آغاز اور اختتام ہے_ اور اس لفظ ''اطراف نہار'' كو جمع كى صورت ميں ذكر كرنے كى وجہ يہ ہے چونكہ آناء الليل كے ساتھ آياہے اسكے ساتھ لفظى موافقت كى خاطر جمع لاياہے يا دن كے آغاز اور اختتام كے متعدد

۲۶۰

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

۲ _ خدائے يكتا كى پرستش ايسا راستہ ہے جو خدا كى طرف جاتا ہے اور لقاء الله پر جاكر ختم ہوتا ہے_و يصدون عن سبيل الله ''سبيل الله '' يعنى راہ خدا_ اور راہ خدا سے مراد ہوسكتا ہے وہ راہ ہو كہ جسے خداتعالى نے اہل ايمان كيلئے تعيين اور ترسيم كيا ہے اور ہوسكتا ہے اس سے مراد وہ راستہ ہو جو خدا كى طرف جاتا ہے اور اس تك پہنچتا ہے_

مذكورہ مطلب دوسرے معنى كى بنياد پر ہے_

۳ _ صدر اسلام كے مشركين كى طرف سے مسلمانوں كو مسجد الحرام كى زيارت اور عبادت خدا كى رسومات انجام دينے سے ممانعت_إن الذين كفروا و يصدون عن سبيل الله و المسجد الحرام (''يصدون'' كے مصدر) ''صدّ'' كا معنى ہے روكنا اور منع كرنا اور ''يصدون'' كا مفعول محذوف ہے اور يہ در اصل يوں ہے ''يصدون الذين آمنوا )

۴ _ بارگاہ خداوندى ميں كعبہ بڑى عزت اور تقدس كا حامل ہے_و يصدون عن سبيل الله و المسجد الحرام

لوگوں كو مسجد الحرام كى زيارت سے منع كرنے كى وجہ سے كفار كو دوزخ كے عذاب كے دھمكى مذكورہ مطلب كو بيان كررہى ہے_

۵ _ حجاج كو مسجد الحرام ميں داخل ہونے سے منع كرنا لوگوں كو راہ خدا سے روكنے كا واضح نمونہ ہے_و يصدون عن سبيل الله و المسجد الحرام ''سبيل الله '' سے مراد_ جيسا كہ پہلے بتاچكے ہيں _ خدائے يكتا كى عبادت ہے_ اس چيز كى بناپر اور اس چيز كو مدنظر ركھتے ہوئے كہ مؤمنين كى طرف سے مسجدالحرام كى زيارت اور اسكے خاص اعمال (طواف، سعى و غيرہ) كو انجام دينا عبادت خدا كے مصداق شمار ہوتے ہيں اسے ''سبيل الله '' كے بعد ذكر كرنا ہوسكتا ہے اس معنى ميں ہوكہ زائرين كو مسجدالحرام ميں داخل ہونے سے روكنا راہ خدا سے روكنے كے واضح مصاديق ميں سے ہے_

۶ _ مسجدالحرام سب خداپرستوں كيلئے ہے اور كسى خاص گروہ كو يہ حق نہيں ہے كہ وہ لوگوں كو اسكى زيارت سے محروم كرے_الذى جعلنا للناس

۷ _ سب مسلمان (اہل مكہ اور ديگر اطراف اور ممالك كے) مسجدالحرام كے سلسلے ميں مساوى حق ركھتے ہيں _الذى جعلنه للناس سواء العاكف فيه و الباد ''سوائ'' بمعنى ''مستوي'' اور ''الناس'' كيلئے حال ہے اور ''عاكف'' كا معنى ہے مقيم (يعنى اہل مكہ) ''بادي'' يعنى اہل باديہ اور اس سے مراد وہ لوگ ہيں كہ جو مكہ سے باہر ديگر سرزمينوں ميں رہتے ہيں يعنى ہم نے مسجدالحرام كو سب لوگوں كيلئے خلق

۵۰۱

كيا ہے _ اور اس سے بہرہ مند ہونے ميں مكى اور ديگر سرزمين كے لوگوں كے درميان كوئي فرق نہيں ہے ا ور كسى كو دوسرے پر برترى حاصل نہيں ہے_

۸ _ حجاج كو مكہ ميں داخل ہونے سے منع كرنا ان كے اس حق كى نسبت تجاوز ہے كہ جو خدانے ان كيلئے قرار ديا ہے_

و يصدون الذى جعلنه للناس

۹ _ اہل مكہ دوسروں كو مسجدالحرام كى زيارت سے روكنے كا حق نہيں ركھتے_الذى جعلنه للناس سواء العاكف فيه و الباد

۱۰ _ حج اور مسجدالحرام كى زيارت جزيرة العرب كے لوگوں كے درميان رائج رسومات_سواء العاكف فيه والباد

۱۱ _ ''مسجدالحرام'' جزيرة العرب كے لوگوں كے درميان ايك رائج اور جانا پہچانانام_و المسجد الحرام الذى جعلنه للناس

۱۲ _ مسجدالحرام كے احاطے ميں حق سے ہر قسم كے انحراف اور دوسروں كے حقوق كى نسبت تجاوز كا ممنوع ہونا_

و من يرد فيه إيلحاد بظلم نذقه من عذاب أليم ''الحاد'' كا معنى ہے انحراف اور كج روى ''الحاد'' اور ''ظلم'' كے نكرہ ہونے سے معلوم ہوتا ہے كہ مسجدالحرام اور اسكى حدود ميں لوگوں كا مكمل طور پر امن اور سكون ميں ہونا ضرورى ہے اور اس سلسلے ميں ذرہ برابر انحراف اور دوسروں كے حقوق كى نسبت تجاوز سے چشم پوشى نہيں كى جائيگي_

۱۳ _ ضرورى ہے كہ مكہ (مسجدالحرام اور اس كى حدود) سب لوگوں كيلئے امن كى جگہ ہو_سوا العاكف فيه والباد

۱۴ _ مسجدالحرام كى حدود ميں حق سے انحراف اور دوسروں كے حقوق كى نسبت تجاوز بہت بڑا گناہ ہے اور كج روى كرنے والے ا ور ستم گر لوگ سخت دنيوى سزا كے منتظر رہيں _و من يردفيه إيلحاد بظلم نذقه من عذاب أليم

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''عذاب اليم'' سے مراد دنيوى سزا بھى ہو_

۱۵ _ دوزخ كا دردناك عذاب، مسجد الحرام كى حدود ميں حق سے ہر قسم كے انحراف اور دوسروں كے حقوق كى نسبت تجاوز كى سزا_

و من يرد فيه إيلحاد بظلم نذقه من عذاب أليم

۱۶ _ حضرت علي(ع) سے روايت ہے كہ رسول خدا(ص) نے اہل مكہ كو اپنے گھر كو كرائے پر دينے اور انہيں دروازے

۵۰۲

لگانے سے منع كرتے ہوئے فرمايا''سوآء العاكف فيه و الباد'' (۱)

۱۷ _ ابوالصباح كنانى كہتے ہيں ميں نے خداتعالى كے فرمان ''و من يرد فيہ إےلحاد بظلم نذقہ من عذاب أليم'' كے بارے ميں سوال كيا تو آپ(ع) نے فرمايا ہر ظلم جوكوئي شخص مكہ ميں اپنے اوپر كرے چاہے وہ چورى ہو يا كسى دوسرے پر ظلم يا ہر قسم كا ستم ميں اسے الحاد اور انحراف سمجھتا ہوں(۲)

۱۸ _ امام صادق(ع) سے خداتعالى كے فرمان''و من يرد فيه إيلحاد بظلم'' كے بارے ميں روايت كى گئي ہے كہ آپ(ع) نے فرمايا جو شخص مكہ ميں غيرخدا كى پرستش كرے يا اولياء خدا كے غير كى ولايت كو قبول كرے تو اس نے''إلحاد بظلم'' كيا ہے(۳)

اسلام:صد راسلام كى تاريخ ۳، ۱۶الحاد :۱۸انحراف:اسكى سزا ،۱۵; اس كا گناہ ۱۴

آنحضرت (ص) :آپ(ص) كے نواہى ۱۶

توحيد:توحيد عبادى كا انجام ۲عرب:انكى رسومات ۱۰

جزيرة العرب:اسكے لوگ اور حج ۱۰; اسكے لوگ اور مسجد الحرام ۱۱

جہنم:اسكے اسباب ۱، ۱۵حجاج:ان كے حقوق كى نسبت تجاوز ۸

حج:اسكى تاريخ ۱۰خود:خود پر ظلم ۱۷

روايت ۱۶، ۱۷، ۱۸

سبيل الله :اس سے روكنا ۵

چلنا:

____________________

۱ ) قرب الا سناد ۱۰۸ ح ۳۷۲_ تفسير برہان ج ۳ ص ۸۴ ح ۸_

۲ ) كافى ج ۴ ص ۲۲۷ ح ۳_ نورالثقلين ج ۳ ص ۴۸۳ ح ۶۰_

۳ ) كافى ج ۸ ص ۳۳۷ ح ۵۳۳_ نورالثقلين ج ۳ ص ۴۸۳ ح ۵۷_

۵۰۳

اسكے راستے ۲

ظلم كرنے والے:انكى دنيوى سزا ، ۱۴

عبادت:عبادت خدا كے ترك كے اثرات ۱; غيرخدا كى عبادت ۱۸; عبادت خدا كے ترك كرنے كا گناہ ۱

عذاب:دردناك عذاب ۱۵; اسكے درجے ۱، ۱۵; اخروى عذاب كے اسباب ۱، ۱۵

كعبہ:اسكى فضيلت ۴; اس كا تقدس ۴

كفر:خدا كے ساتھ كفر كے اثرات ۱; خدا كے ساتھ كفر كا گناہ ۱

گناہ:گناہان كبيرہ ۱۴; ناقابل بخشش گناہ۱

لقاء الله :اس كا پيش خيمہ ۲

لوگ:ان كے حقوق كى نسبت تجاوز ۱۲; ان كے حقوق كى نسبت تجاوز كى سزا ۱۵; ان كے حقوق كى نسبت تجاوز كا گناہ ۱۴

مسجد الحرام:اس كا امن ہونا ۱۳; اسكى زيارت كى تاريخ ۱۰; اسكى تاريخ ۱۱; اس ميں حقوق ۱۴; اسكى زيارت ۷، ۱۱; اس كا سب كيلئے ہونا ۶; اس ميں عبادت خدا سے روكنا ۳; اس سے روكنا ۳، ۵; اس ميں حق تلفى كا ممنوع ہونا ۱۲; اس سے روكنے كا ممنوع ہونا ۶، ۹; اسكى خصوصيات ۱۲، ۱۳

مسلمان:ان كے حقوق كا مساوى ہونا ۷; ان كے حقوق ۷

مكہ كے مسلمان:ان كے حقوق ۷

مكہ:اس كا امن ہونا ۱۳; اسكے گھروں كے دروازے ۱۶; اس ميں ظلم كا گناہ ۱۷; اس سے حاجيوں كو روكنا ۸; اسكے گھروں كو كرائے پر دينے سے نہى ۱۶; اسكى خصوصيات ۱۳

منحرفين:ان كى دنيوى سزا ،۱۴

موحدين:ان كے حقوق ۶

ولايت:اولياء الله كے غير كى ولايت كو قبول كرنا ۱۸

۵۰۴

آیت ۲۶

( وَإِذْ بَوَّأْنَا لِإِبْرَاهِيمَ مَكَانَ الْبَيْتِ أَن لَّا تُشْرِكْ بِي شَيْئاً وَطَهِّرْ بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْقَائِمِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ )

اور اس وقت كو ياد دلاؤ جب ہم نے ابرہمى كے لئے بيت اللہ كى جگہ مہيا كى كہ خبردار ہمارے بارے ميں كسى طرح كا شرك نہ ہونے پائے اور تم ہمارے گھر كو طرف كرنے والے، قيام كرنے والے اور ركوع و سجود كرنے والوں كے لئے پاك و پاكيزہ بناؤ(۲۶)

۱ _ حضرت ابراہيم (ع) كے ہاتھوں كعبہ كى بنياد بہت اہم اور ايسا واقعہ ہے جو ياددہانى كرانے كے قابل ہے_

و اذ بوّانا لابراهيم مكان البيت ''اذ'' اسم زمان اور محل نصب ميں ہے اور يہ ''اذكر'' محذوف كا مفعول ہے يعنى ''يادكيجيئے اس وقت كو كہ جب ہم نے ...''

۲ _ كعبہ، حضرت ابراہيم (ع) كى عبادت كى جگہ_و إذ بوّانا لإبراهيم مكان البيت

(''بوانا'' كے مصدر) ''تبوئة) كا معنى ہے مرجع اور مركز قرار دينا يعني'' اس زمانے كو ياد كيجيئے جب ہم نے كعبہ كى جگہ كو ابراہيم(ع) كيلئے رجوع كرنے كا مقام قرار ديا'' اور حضرت ابراہيم(ع) كا بار بار كعبہ كى جگہ كى طرف رجوع كرنا يا تو خدا كى عبادت كيلئے تھا اور يا اسے تعمير كرنے كيلئے مذكورہ مطلب پہلے احتمال كى بنياد پر ہے_

۳ _ كعبہ كى جگہ خداتعالى كى جانب سے عبادت كيلئے معين كردہ جگہ_و إذ بوّانا لإبراهيم مكان البيت

۴ _ حضرت ابراہيم (ع) كعبہ كى بنياد ركھنے والے اور اسكے

۵۰۵

معمار_و إذ بوّانا لإبراهيم مكان البيت

۵ _ كعبہ، توحيد اور يكتاپرستى كى جلوہ گاہ_و إذ بوّانا لإبراهيم مكان البيت أن لا تشرك بى شيئ

۶ _ خدا كے علاوہ كوئي قابل پرستش نہيں ہے_أن لا تشرك بى شيئ

۷ _ عبادت ميں اخلاص اور اسے ہر قسم كے غير الہى عمل سے آلودہ كرنے سے پرہيز كرنا خداتعالى كى طرف سے حضرت ابراہيم كو نصيحت _أن لا تشرك بى شيئ

۸ _ شرك كے ساتھ آلودہ عبادت كى بارگاہ خداوندى ميں كوئي قدر و قيمت نہيں ہے_أن لا تشرك بى شيئ

۹ _ كعبہ بہت مقدس گھر اور بارگاہ خداوندى ميں بڑى عزت كا حامل ہے_و طهر بيتي

''بيت'' كى باء متكلم كى طرف اضافت، تشريفيہ اور مذكورہ مطلب كو بيان كررہى ہے_

۱۰ _ كعبہ كى توليت اور اسے زائرين كيلئے تيار كرنا، حضرت ابراہيم (ع) كے الہى وظائف ميں سے_و طهر بيتى للطائفين

۱۱ _ مسجد الحرام كى توليت اور اسے زائرين بيت الله كيلئے تيار كرنا توحيدى معاشرے كے رہنماؤں كى ذمہ دارى _

أن لا تشرك بى شيئاً و طهر بيتى للطائفين

۱۲ _ شرك، طہارت و پاكيزگى سے دورى اور پليديگى و ناپاكى كے ساتھ آلودہ ہونا ہے_أن لا تشرك بى شيئاً و طهر بيتي

۱۳ _ مسجد الحرام كى حرمت كى پاسدارى اور اسے ظاہرى آلودگيوں اور باطنى پليدگيوں (شرك كے مظاہر) سے محفوظ ركھنا ضرورى ہے_أن لا تشرك بى شيئاً و طهر بيتي

۱۴ _ طواف، قيام، ركوع اور سجود (نماز) مسجد الحرام كى زيارت كے آداب ميں سے_و طهر بيتى للطائفين و القائمين و الركع السجود ظاہر يہ ہے كہ ''القائمين و الركع السجود'' سے مراد نماز پڑھنے والے ہيں يعنى ميرے گھر كو طواف كرنے والوں اور نماز پڑھنے والوں كيلئے تيار كيجئے_

۱۵ _ مسجد الحرام كى زيارت ميں طواف كو نماز پر مقدم كرنا ضرورى ہے_للطائفين و القائمين و الركع السجود

۱۶ _ قيام، ركوع اور سجود نماز كے اركان ميں سے ہيں _و القائمين و الركع السجود

۱۷ _ طواف اور نماز، حضرت ابراہيم(ع) كى شريعت كى ذمہ داريوں ميں سے _طهر بيتى للطائفين و القائمين و الركع

۵۰۶

السجود

۱۸ _ امام صادق (ع) سے روايت كى گئي ہے جب خداتعالى نے حضرت ابراہيم(ع) كو كعبہ كى تعمير پر مأمور كياتوانہيں معلوم نہيں تھا كہ وہ كعبہ كو كہاں بنائيں تو خداتعالى نے جبرائيل كو بھيجا اور انہوں نے كعبہ كى جگہ پر ان كيلئے لكير كھينچ دي(۱)

ابراہيم (ع) :ان كے دين كى تعليمات ۱۷; انكو نصيحت ۷; انكى عبادت گاہ ۲; انكى ذمہ دارى ۱۰; ان كا نقش و كردار ۱، ۴

توحيد:توحيد عبادى ۶

خداتعالى :اسكى نصيحتيں ۷; اس كا نقش و كردار ۳

ذكر:كعبے كى تعمير كا ذكر، ۱

روايت ۱۸دينى راہنما:انكى ذمہ دارى ۱۱

شرك:شرك عبادى كا بے قدر و قيمت ہونا ۸; اسكى پليدگى ۱۲; اسكى حقيقت ۱۲

طواف:اسكى تاريخ ۱۷; يہ دين ابراہيم(ع) ميں ۱۷

عبادت:اس ميں اخلاص ۷; بے قدر و قيمت عبادت ۸

كعبہ:اس كا احترام ۹; اسے تعمير كرنے والے ۱; اس كا موسس ۴; اسكى تاريخ ۱، ۴; اسكى تطہير ۱۰; اس ميں عبادت ۲، ۳; اسكى فضيلت ۵، ۹; اس كا تقدس ۹; اس كے متولى ۱۰; اسكى تعيين كا سرچشمہ ۳، ۱۸; اس ميں توحيد عبادى كى نشانياں ۵

مسجد الحرام:اسكى زيارت كے آداب ۱۴; اسكى تطہير كى اہميت ۱۳; اسكى حفاظت كى اہميت ۱۳; اس ميں ركوع ۱۴; اس ميں سجدہ ۱۴; اس ميں طواف ۱۴، ۱۵; اسكے متولى ۱۱; اس ميں نماز ۱۴، ۱۵

نظريہ كائنات :توحيدى نظريہ كائنات ۶

نماز:اسكے اركان ۱۶; اسكى تاريخ ۱۷; اس ميں ركوع ۱۶; اس ميں سجدہ ۱۶; اس ميں قيام ۱۶; يہ دين ابراہيم(ع) ميں ۱۷

____________________

۱ ) تفسير قمى ج ۱ ص۶۲_ نورالثقلين ج ۱ ص ۱۲۸ ح ۳۷۶_

۵۰۷

آیت ۲۷

( وَأَذِّن فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ يَأْتُوكَ رِجَالاً وَعَلَى كُلِّ ضَامِرٍ يَأْتِينَ مِن كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ )

اور لوگوں كے درميان حج كا اعلان كردو كہ لوگ تمہارى طرف پيدل اور لاغر سواريوں پر دور دراز علاقوں سے سوار ہو كر آئيں گے (۲۷)

۱ _ حكم خدا سے حضرت ابراہيم (ع) كى طرف سے لوگوں كو حج كى دعوت_و أذن فى الناس بالحج

(''أذّن'' كے مصدر) ''تأذين'' كا معنى ہے اعلان كرنا اور ندا دينا يعنى اے ابراہيم(ع) لوگوں كے درميان جاؤ اور انہيں حج اور زيارت بيت الله كى دعوت دو_

۲ _ حج، دور و نزديك كے تمام لوگوں پر ايك الہى ذمہ داري_يأتوك رجالًا و على كل ضامر يأتين من كل فج عميق

''يأتوك'' شرط محذوف كى جزا ہے اور يہ در حقيقت يوں ہے''إن تأذن فيهم به يأتوك'' ،''رجال''، ''راجل'' كى جمع ہے يعنى ''پيدل'' اور ''ضامر'' كمزور اونٹ كو كہاجاتا ہے _

اور ''فج'' در حقيقت پہاڑ كے شكاف كے معنى ميں ہے اور يہاں پر اس سے مراد راستہ ہے ''عميق'' بعيد كا مترادف ہے يعنى دورپس مذكورہ جملے كا معنى يہ بنے گا اگر لوگوں كو حج كى طرف بلاؤ تو وہ تيرى دعوت پر لبيك كہتے ہوئے پيدل، سوار ہوكر اور دور و نزديك كے راستوں سے چل نكليں گے_

۳ _ تبليغ اور لوگوں كو حج و زيارت بيت الله كى دعوت دينا الہى رہنماؤں كى ذمہ داريوں ميں سے ہے_و أذّن فى الناس بالحج

۴ _ حج، حضرت ابراہيم(ع) (ع) كى شريعت كى ايك يادگار_و أذن فى الناس بالحج

۵ _ حضرت ابراہيم (ع) كى اقامت گاہ ،مسجد الحرام كے جوار

۵۰۸

ميں تھي_يأتوك رجال

جملہ ''يأتوك'' (تيرے پاس پيدل اور سوار ہوكر آئيں گے) سے معلوم ہوتا ہے كہ كعبہ كے مؤسس اسكے جوار ميں رہتے تھے اس طرح، كہ ہر زائر مسجدالحرام ميں داخل ہوتے وقت ان پر بھى وارد ہوتا تھا_

۶ _ دور و نزديك كے لوگوں كا حضرت ابراہيم(ع) پر پختہ ايمان اورحضرت ابراہيم(ع) كى ان كے درميان انتہائي محبوبيت اور نفوذ_و اذن فى الناس بالحج يأتوك رجالا و على كل ضامر

دور و نزديك كے لوگوں كا حضرت ابراہيم (ع) كى دعوت پر لبيك كہنا اور انكا پيدل اور سوار ہوكر كعبے كى زيارت كيلئے نكل پڑنا اور كى آپ(ع) كى شخصيت سے آشنائي اور ان كے درميان آپ(ع) كى محبوبيت كى علامت ہے_

۷ _ حضرت ابراہيم (ع) كے دين توحيدى كا خود ان كى زندگى ميں دور و نزديك كى سرزمين ميں پھيل جانا_يأتوك من كل فج عميق

۸ _ حضرت ابراہيم (ع) كا اپنے زمانے ميں ہر سال حج كى رسومات ميں شريك ہونا_يأتوك رجالًا و على كل ضامر

فعل مضارع ''يأتوك'' ہوسكتا ہے مفيد استمرار ہو لہذا ہر سال لوگوں كا حج كى رسومات ميں حضرت ابراہيم(ع) كے پاس آنا ان كے ہر سال حج كى رسومات ميں شركت كو بيان كررہا ہے_

۹ _ مراسم حج كو اسلامى معاشرے كے رہبر كى محوريت كے ساتھ انجام دينا ضرورى ہے_يأتوك رجالاً و على كل ضامر

يہ جو خداتعالى نے فرمايا ہے كہ ''لوگ پيدل اور سوار ہوكر تيرے (ابراہيم(ع) ) پاس آئيں گے'' ہوسكتا ہے لوگوں كيلئے اس حكم پر مشتمل ہو كہ وہ پہلے الہى رہبر كى زيارت كيلئے جائيں اور اسكى رہبرى ميں مراسم حج كو انجام ديں _

۱۰ _ مناسك حج ميں اسلامى معاشرے كے رہبر سے ملاقات_يأتوك رجالاً و على كل ضامر

۱۱ _ بارگاہ خداوندى ميں پيدل حج كى بڑى فضيلت اور قدر و قيمت_يأتوك رجالاً و على كل ضامر

پيدل لوگوں (رجالًا) كو سواروں (و على كل ضامر) پر مقدم كرنا ہوسكتا ہے مذكورہ مطلب كو بيان كررہا ہو_

۱۲ _ زمين مكہ كى سطح كى بلندى اسكے اردگرد كے مناطق سے زيادہ ہے_يأتوك من كل فج عميق

(''عميق'' كا مصدر) ''عمق'' اس طولانى مسافت كو كہا جاتا ہے كہ جو نيچے كى طرف ہو لہذا ''بعيد'' كى بجائے كلمہ ''عميق'' كا استعمال يا تو اس لحاظ سے ہے كہ سرزمين مكہ كى بلندى اسكے اردگرد كے مناطق سے چونكہ زيادہ ہے لہذا جو لوگ مكہ كى طرف آتے ہيں وہ نيچے سے اوپر كى جانب حركت كرتے ہيں اور يا اسلئے ہے كہ چونكہ

۵۰۹

زمين گيند كى صورت ميں ہے لہذا لوگوں كى دور سے حركت اوپر كى جانب حركت نظر آتى ہے مذكورہ مطلب پہلے فرضيے كى بنياد پر ہے _

۱۳ _ قرآن كا زمين كے گيند كى طرح اور اسكى سطح كے گول ہونے كى طرف اشارہ_يأتين من كل فج عميق

۱۴ _ عبيد الله بن على الحلبى كہتے ہيں ميں نے امام صادق (ع) سے سوال كيا كہ (حج ميں ) تلبيہ كيوں مقرر كيا گيا ہے؟ تو آپ(ع) نے فرمايا بيشك خداتعالى نے حضرت ابراہيم(ع) كى طرف وحى كى''و أذّن فى الناس بالحج يأتوك رجالًا'' پس حضرت ابراہيم نے ندا دى اور دور كے ہر راستے سے ''لبيك'' كے ساتھ حضرت ابراہيم(ع) كو جواب دياگيا(۱)

۱۵ _ امام صادق(ع) نے فرمايا كہ پيغمبراكرم دس سال مدينہ ميں رہے اور حج پر نہ گئے پھرخداتعالى نے آنحضرت پر نازل كيا''و أذن فى الناس بالحج يأتوك رجالاً و على كل ضامر يأتين من كل فج عميق'' پس پيغمبراكرم(ص) نے مناديوں كو حكم ديا كہ وہ بلند آواز كے سا تھ اعلان كريں كہ اس سال رسول الله (ص) حج پرجائيں گے(۲)

آنحضرت(ص) :آپ(ص) كا حج۱۵

ابراہيم (ع) :آپ مسجد الحرام كے جوار ميں ۵; آپكى اقامت گاہ ۵; آپكے حج كا تسلسل ۸; آپ كے دين كى تعليمات ۴; آپكى شرعى ذمہ دارى ۱; آپكى دعوتيں ۱، ۱۴; آپ(ص) كى معاشرتى شخصيت۶; آپكے دين كا پھيلنا ۷; آپ كى محبوبيت ۶

ايمان:ابراہيم پر ايمان ۶

تلبيہ:اسكى تشريع كا فلسفہ ۱۴

حج:اسكے آداب ۹; اس كے احكام ۲; يہ دين ابراہيم ميں ۱۴ ; اسكى دعوت ۱، ۳، ۱۴; پيدل حج كى فضيلت ۱۱

روايت ۱۴، ۱۵

دينى رہنما:انكى ذمہ دارى ۳; حج ميں ان كے ساتھ ملاقات ۱۰; ان كا نقش و كردار ۹

شرعى ذمہ داري:سب كى شرعى ذمہ دارى ۲

زمين:اس كا گيند كى صورت ميں ہونا ۱۳

مكہ:اسكى بلندى ۱۲; اس كا جغرافيائي محل وقوع ۱۲

____________________

۱ ) علل الشرائع ص ۴۱۶ ب ۱۵۷ ح ۱_ نورالثقلين ج ۳ ص ۴۸۶ ح ۶۸_ ۲ ) كافى ح ۴ ص ۲۴۵ ح ۴; نورالثقلين ج ۳ ص ۴۸۷ ح ۷۲_

۵۱۰

آیت ۲۸

( لِيَشْهَدُوا مَنَافِعَ لَهُمْ وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ فِي أَيَّامٍ مَّعْلُومَاتٍ عَلَى مَا رَزَقَهُم مِّن بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْبَائِسَ الْفَقِيرَ )

تا كہ اپنے منافع كا مشاہدہ كريں اور چند معين دنوں ميں ان چوپايوں پر جو خدا نے بطور رزق عطا كئے ہيں خدا كا نام ليں اور پھر تم اس ميں سے كھاؤ اور بھو:ے محتاج افراد كو كھلاؤ (۲۸)

۱ _ حج ، لوگوں كيلئے فائدے و منفعت اور خير و بركت سے سرشار_وأذن فى الناس بالحج ليشهدوا منافع لهم

''منافع''، ''منفعت'' كى جمع ہے يعنى نفع، خير و بركت_ اور اس كاجمع كى صورت ميں آنا حج كى بركات كى فراوانى كو بيان كررہا ہے اور اس كا نكرہ آنا ان بركات ميں سے ہر ايك كى عظمت كو بيان كررہا ہے _

۲ _ حج كى بركات سے بہرہ مند ہونا اسكى رسومات ميں شركت اور اسكے اعمال كى انجام دہى ميں منحصر ہے_وأذن فى الناس بالحج ليشهدوا منافع لهم (''يشہدون'' كے مصدر) ''شہادة'' كا معنى ہے حاضر ہونا پس''ليشهدوا منافع لهم'' كا معنى يہ ہے كہ حج سب لوگوں كيلئے خير و بركت سے سرشار ہے اور جو انہيں حاصل كرنا چاہتا ہے اور ان سے بہرہ مند ہونا چاہتا ہے اس كيلئے ضرورى ہے كہ سفر كى مشقتوں كو برداشت كرے، اسكے مراسم ميں شركت كرے اور اسكے اعمال كو بجالائے_

۳ _ شريعت الہى ميں انسان كے دنيوي، اخروي، مادى اور معنوى پہلوؤں كى طرف توجہ _و أذن فى الناس بالحج ليشهدوا منافع لهم

چونكہ ''منافع'' كو دنيوي، اخروي، معنوى يا مادى كى قيد نہيں لگائي گئي پس كہا جاسكتا ہے كہ اس سے مراد،دينوي، اخروي، مادى اور معنوى سب بركات ہيں _

۵۱۱

۴ _ عرفات اور مشعر ميں وقوف كرنا (احرام كے بعد) مراسم حج ميں حاجيوں كى پہلى ذمہ دارى _يشهدوا منافع لهم

جملہ ''و يذكروا اسم الله ...'' قربانى كى رسومات سے مربوط ہے اور بعد والى آيت حلق، تقصير اور طواف كے بارے ميں ہے پس اس چيز كے پيش نظر كہ احرام باندہنے كے بعد مراسم حج بالترتيب يوں ہيں عرفات اور مشعر ميں و قوف، قربانى كرنا، حلق، تقصير اور طواف _ كہنا ہوگا كہ حضرت ابراہيم(ع) كى شريعت ميں حج، قربانى سے شروع اور طواف كے ساتھ ختم ہوتا تھا اور عرفات و مشعر كا وقوف مراسم حج ميں شا مل نہيں تھا يا يہ كہ جملہ ''ليشہدوا منافع لہم'' تشريع حج كے فلسفے كو بيان كرنے كے علاوہ عرفات و مشعر ميں حاضر ہونے والے مسئلے كى طرف بھى ناظر ہے مذكورہ مطلب دوسرے احتمال كى بنياد پر ہے_

۵ _ عرفات و مشعر، حج كرنے والوں كيلئے كثير خيرو بركت كا مركز_ليشهدوا منافع لهم

مذكورہ مطلب اس بنياد پر ہے كہ ''ليشهدوا '' عرفات و مشعر ميں حاضر ہونے سے مربوط ہو_

۶ _ عرفات و مشعر ميں حاضر ہونے كے بعد قربانى كرنا حج كے واجب اعمال ميں سے ہے _و يذكروا اسم الله على مارزقهم من بهيمة الأنعام

۷ _ قربانى كو ذبح يانحر كرتے وقت الله كا نام لينا ضرورى ہے_و يذكروا اسم الله على ما رزقهم من بهيمة الأنعام

۸ _ لوگوں كو ذبح كرنے كى طريقے كى تعليم دينا (جانور كو نحر يا ذبح كرتے وقت خدا كا نام لينا)حج كے فلسفوں ميں سے ايك ہے_ليشهدوا منافع لهم و يذكروا اسم الله فى ايام معلومات ''يذكروا'' كا عطف ''ليشہدوا'' پر ہے اور اس چيز كو مد نظر ركھتے ہوئے كہ اس كا لام تعليل كيلئے ہے اور يہ حج كى تشريع كے فلسفے كو بيان كررہا ہے ''يذكروا'' كا ''يشہدوا'' پر عطف تشريع حج كے ايك اور فلسفہ كا بيان ہے_

۹ _ قربانى والے حكم كا انجام دينا خاص اور معين وقت پر موقوف ہے (دس سے تيرہ ذى الحج تك)_و يذكورا اسم الله فى ايام معلومات على ما رزقهم من بهيمة الانعام اہل بيت (ع) سے وارد ہونے والى روايات كى بنياد پر ''ايام معلومات'' سے مراد ذى الحج كے ايام تشريق (دس سے تيرہ تك) ہيں _

۱۰ _ قربانى كو ذبح يانحر كرتے وقت خداتعالى كے اسما (الله ، رحمان و غيرہ) ميں سے ہر ايك كے ذكر كا جواز_و يذكروا اسم الله ہوسكتا ہے ''اسم'' كى ''الله '' كى طرف اضافہ بيانيہ ہو اس صورت ميں ''اسم اللہ'' يعنى وہ نام كہ جو اللہ سے عبادت ہے اسى طرح اضافہ لاميہ

۵۱۲

بھى ہوسكتاہے اس صورت ميں '' اسم اللّہ'' يعنى ہر وہ نام كہ جو خدا كے لئے ہو پہلے احتمال كى بناپر قربانى كے وقت ''اللّہ'' كے لفظ كے علاوہ كسى اور لفظ كا لينا جائز نہيں ہے برخلاف احتمال دوم گذشتہ مطلب دوسرے احتمال كى بناپر ہے_

۱۱ _ دس ذى الحج كے بجائے گيارہ، بارہ اور تيرہ ذى الحج كو قربانى كرنے كا جواز _و يذكروا اسم الله فى أيام معلومات من بهيمة الأنعام

۱۲ _ اونٹ، گائے اور بھيڑ بكرى ميں سے ہر ايك كى قربانى كرنا جائز ہے_على ما رزقهم من بهيمة الانعام

(''نعم'' كى جمع) ''انعام ''كا اصلى معنى ''اونٹ'' ہے ليكن بعض اوقات اونٹ گائے اور بھيڑ بكرى كے مجمموعے پر بھى اس كا اطلاق ہوتا ہے تمام مفسرين كے نظريے كے مطابق يہاں پر اس سے مراد دوسرا معنى (اونٹ، گائے اور بھيڑ بكرى كا مجموعہ) ہے قابل ذكر ہے كہ ''بہيمہ'' كا معنى ہے ''چوپايہ'' اور اس كى ''أنعام'' كى طرف اضافت بيانيہ ہے يعنى وہ چوپايہ جو اونٹ، گائے اور بھيڑ بكرى ہے_

۱۳ _ اونٹ، گائے اور بھيڑ بكرى انسانوں كى روزى اور ان كيلئے خدا كى عطا ہے_على ما رزقهم من بهيمة الأنعام

۱۴ _ قربانى كے گوشت سے استفادے كا حرام ہونا جاہليت كے عربوں كا باطل خيال _فكلوا منه قربانى كے گوشت كے استعمال كو جائز كرنا جاہليت كے عربوں كے باطل خيال كى طرف ناظر ہے كہ جو اسے حرام سمجھتے تھے_

۱۵ _ اونٹ، گائے اور بھيڑبكرى حلال گوشت چوپائے ہيں _على ما رزقهم من بهيمة الأنعام فكلوا منه

۱۶ _ حجاج كيلئے قربانى كے گوشت كے استعمال كا جواز_فكلوا منه

۱۷ _ حج كے موقع پر قربانى كے گوشت سے تنگدست لوگوں كو اطعام كرنے كا ضرورى ہونا_و ا طعموا البائس الفقير

۱۸ _ قربانى كے پورے گوشت كو استعمال كرنا جائز نہيں ہے_فكلوا منها و ا طعموا البائس الفقير

''منہا'' ميں ''من'' تبعيضيہ ہے پس ''كلوا منہا'' يعنى اس كا ايك حصہ كھاؤ (نہ پورا)

۱۹ _ لوگوں كى مدد اور تنگدستوں اور ضرورتمندوں كى دستگيرى كرنا حج كے فلسفوں ميں سے اور اس كا ايك سبق ہے_

و أطعموا البائس الفقير

۲۰ _ ربيع بن خيثم كہتے ہيں ميں نے امام صادق (ع) كو ديكھا كہ آپ(ع) نے فرمايا ميں نے خداتعالى كو يہ فرماتے ہوئے سنا ہے''ليشهدوا منافع لهم'' تو ميں نے امام (ع) سے عرض كيا ''منافع'' سے مراد دنياوى فوائدہيں يا اخروي؟ تو آپ(ع) نے فرمايا سب

۵۱۳

منافع(۱)

۲۱ _ امام صادق (ع) سے روايت كى گئي ہے كہ خداتعالى كے كلام ''ويذكروا اسم الله '' ميں ذكر سے مراد وہ تكبيريں ہيں جو پندرہ نمازوں ميں _ كہ جن ميں سے پہلى عيدوالے دن ظہر كى نماز ہے_ كہى جاتى ہيں(۲)

۲۲ _ امام صادق(ع) سے الله تعالى كے فرمان ''و يذكروا اسم الله فى أيام معلومات'' كے بارے ميں روايت كى گئي ہے كہ انہوں نے فرمايا اس سے مراد ايام تشريق ہيں(۳)

۲۳ _ صفوان بن يحيى كہتے ہيں ميں نے امام كاظم(ع) سے عرض كيا شخص كسى كو كھال اتارنے كيلئے قربانى ديتا ہے اسكى كھال كے مقابلے ميں يعنى كھال كو اپنى مزدورى كے طور پر لے لے_ (تو اس كا حكم كيا ہے) _

فرمايا اس ميں كوئي اشكال نہيں ہے كيونكہ خداتعالى نے فرمايا ہے ''فكلوا منہا و أطمعوا'' اور كھال نہ كھائي جاتى ہے اور نہ (اسكے ذريعے) اطعام كيا جاتا ہے(۴)

احكام ۴، ۶، ۷، ۹، ۱۰، ۱۱، ۱۲، ۱۵، ۱۶، ۱۷، ۱۸/جاہليت:اسكے مشركين كى سوچ ۱۴; اسكى رسومات ۱۴

چوپائے:ان كے گوشت كى حليت ۱۵/حجاج:ان كا حج كى قربانى سے استفادہ كرنا ۱۶

حج:اسكے اثرات ۲; اسكے احكام ۴، ۶، ۹، ۱۶، ۱۷; اسكى قربانى كے گوشت سے استفادہ كرنا ۱۸; اسكى بركات۱; اسكى قربانى كى كھال ۲۳; اسكى قربانى كو مؤخر كرنا ۱۱; اسكى تعليمات ۱۹; اس ميں تكبير ۲۱; اس كا خير ہونا ۱; اس ميں گائے كو ذبح كرنا ۱۲; اس ميں بھيڑ بكرى كو ذبح كرنا ۱۲; اسكى بركات كا پيش خيمہ ۲; اس كا فلسفہ ۸، ۱۹; اسكى قربانى ۶، ۱۲; اسكى قربانى كا گوشت ۱۶، ۱۷; اسكى قربانى كے مصارف ۱۷; اسكے مناسك ۴، ۶، ۹، ۱۱، ۱۲;اسكے اخروى منافع ۲۰; اسكے منافع۱; اسكے دنيوى منافع ۲۰; اس ميں اونٹ كو نحر ركنا ۱۲; اسكے واجبات ۶; اسكى قربانى كا وقت ۹

حلال جانور :۱۵/خداتعالى :اسكى روزى ۱۳; اسكے عطيے ۱۳/كھانے كى چيزيں :ان كے احكام ۱۵; كھانے كى حلال چيزيں ۱۵

دين:

____________________

۱ ) كافى ج۴ ص ۴۲۲ ح ۱_ نورالثقلين ج ۳ ص ۴۸۸ ح ۷۷_/ ۲ ) عوالى اللئامى ج ۲ ص ۸۸ ح ۲۳۷_ نورالثقلين ج ۳ ص ۴۹۰ ص ۸۲_

۳ ) معانى الاخبار ص ۲۹۷ ح ۱، ۳_ نورالثقلين ج ۳ ص ۴۹۰ ح ۸۴_

۴ ) علل الشرائع ص ۴۳۹ب ۱۸۲ ح ۱_ نورالثقلين ج ۳ ص ۴۹۹ ح ۱۳۹_

۵۱۴

اسكے اخروى پہلو ۳; اسكے مادى پہلو ۳; اسكے معنوى پہلو۳; يہ اور عينيت ۳

ذبح:اسكے احكام ۷، ۱۰; اس ميں بسم الله ۷،۸، ۱۰; اسكى تعليم ۸

ذكر:ذكر خدا ايام تشريق ميں ۲۲; ذكر خدا حج ميں ۲۱

روايت : ۲۰، ۲۱، ۲۲، ۲۳

اونٹ:اسكے گوشت كا حلال ہونا ۱۵

عرفات:اسكى بركات ۵; اس كا خير ہونا ۵; اس ميں وقوف ۴

فقرا:انہيں اطعام كرنا ۱۷; انكى حاجت روائي كى اہميت ۱۹

قرباني:جاہليت ميں اسكے گوشت كى تحريم ۱۴

گائے:اسكے گوشت كى حليت ۱۵

بھيڑ بكري:اسكے گوشت كى حليت ۱۵

مسجدالحرام:اسكى بركات ۵; اس كا خير ہونا ۵

مشعرالحرام:اس ميں وقوف كرنا ۴

نعمت:اونٹ كى نعمت ۱۳; گائے كى نعمت ۱۳; بھيڑ بكرى كى نعمت ۱۳

آیت ۲۹

( ثُمَّ لْيَقْضُوا تَفَثَهُمْ وَلْيُوفُوا نُذُورَهُمْ وَلْيَطَّوَّفُوا بِالْبَيْتِ الْعَتِيقِ )

پھر لوگوں كو چاہئے كہ اپنے بدن كى كثافت كو دور كريں اور اپنى نذروں كو پورا كريں اور اس قديم ترين مكان كا طواف كريں (۲۹)

۱ _ مراسم حج كى انجام دہى كے بعد تقصير اور احرام سے خارج ہونے كا وجوب _و يذكروا اسم الله ثم ليقضوا تفثهم

(''يقضون'' كے مصدر قضا) كا معنى ہے كاٹنا اور جدا كرنا ''تفث'' يعنى وہ غبار اور ميل جو بدن پر ہوتى ہے پس''ثم ليقضوا تفثهم'' يعنى حاجى

قربانى كى رسومات ادا كرنے كے بعد اپنے سر اور ناخن تراش كر كے كہ جسے احرام كى وجہ سے انجام نہيں دے سكے تھے_ اپنے آپ كو صاف كريں اور يہ احرام سے خارج ہونے سے كنايہ ہے_

۵۱۵

۲ _ طواف بجالانے كيلئے آلودہ اور بے ہنگم سر اور بدن كے ساتھ مسجدالحرام ميں داخل ہونا ممنوع ہے_ثم ليقضوا تفثهم

۳ _ تقصير اور احرام سے خارج ہونے كے بعد نذر كى ادائيگى كا ضرورى ہونا_و ليوفوا نذورهم

۴ _ تقصير اور احرام سے خارج ہونے كے بعد طواف كا لازم ہونا_ثم ليقضوا تفثهم و ليطّوفّو

۵ _ تقصير اور طواف كى ادائيگى كو قربانى كرنے كے بعد تك مؤخر كرنا جائز ہے_ثم ليقضوا تفثهم و ليطوفو

''ثم '' كہ جو تراخى زمان كيلئے ہے _ كا استعمال مذكورہ مطلب كو بيان كررہا ہے _

۶ _ كعبہ كا اپنا ماضى اور تاريخ ہے_بالبيت العتيق ''عتيق'' ہر اس چيز كو كہا جاتا ہے كہ جو وقت، جگہ يا مرتبے كے لحاظ سے تقدم ركھتى ہو اسى وجہ سے قديم كو بھى عتيق كہتے ہيں ''بيت عتيق'' يعنى وہ گھر جو اپنا ماضى اور تاريخ ركھتا ہے_

۷ _ عبدالله بن سنان كہتے ہيں ميں امام صادق (ع) كے پاس آيا اور ان سے عرض كى آپ(ع) پر قربان جاؤں خداتعالى كے فرمان ''ثم ليقضوا تفثهم '' (سے مقصود) كيا ہے تو آپ(ع) نے فرمايا: (اس سے مقصود) مونچھيں كاٹنا، ناخن اتارنا و غيرہ ہے(۱)

۸ _ اميرالمؤمنين (ع) سے روايت كى گئي ہے كہ انہوں نے خداتعالى كے فرمان''ثم ليقضوا تفثهم و ليوفوا نذورهم و ليطوفوا بالبيت العتيق'' كے بارے ميں فرمايا ''تفث'' سے مراد رمى جمرات اور سر منڈہوانا ہے اور ''نذور'' سے مراد وہ ہے كہ جس نے پيدل جانے كى نذر كى ہو اور طواف سے مراد طواف زيارت ہے(۲)

شايد مقصود يہ ہو كہ كسى نے منا سے مكہ پيدل جانے كى نذر كى ہو نہ اپنے وطن سے پيدل مكہ جانے كى كيونكہ اس صورت ميں يہ آيت كے ظاہر كے ساتھ متناسب نہيں ہے_

۹ _ امام صادق(ع) سے روايت كى گئي ہے آپ(ع) نے خداتعالى كے فرمان''و ليطوفوا بالبيت العتيق'' كے بارے ميں فرمايا (اس سے مراد) طواف النساء ہے(۳)

____________________

۱ ) كافى ج ۴ ص ۵۴۹ ح ۴_ نورالثقلين ج ۳ ص ۴۹۲ ح ۹۷_

۲ ) دعائم الاسلام ج ۱ ص ۳۳۰_ بحارالانوار ج ۹۶ ص ۳۱۲ ح ۳۹_

۳ ) كافى ج ۴ ص ۵۱۳ ح ۲_ تہذيب شيخ طوسى ج۵ ص ۲۵۳ ح ۱۵_

۵۱۶

۱۰ _ امام صادق (ع) سے روايت كى گئي ہے كہ طوفان نوح كے روز خداتعالى نے پورى زمين كو غرق كرديا سوائے بيت (الله ) كے پس اس دن اسے ''عتيق'' كا نام ديا گيا كيونكہ اس دن يہ غرق ہونے سے آزاد ہوا(۱)

۱۱ _ ابوحمزہ ثمالى كہتے ہيں ميں نے مسجدالحرام ميں امام صادق (ع) سے عرض كيا كيوں خداتعالى نے (بيت الله ) كو عتيق كا نام ديا ہے،؟ تو آپ(ع) نے فرمايا خداتعالى نے زمين پر كوئي گھرنہيں بنايا مگر يہ كہ اس كے مالك ہيں اور اس ميں لوگ رہتے ہيں سوائے اس گھر كے كہ جس كا خدائے عزوجل كے علاوہ كوئي مالك نہيں ہے اور يہ (افراد كى ملكيت سے) آزاد ہے(۲)

احكام: ۲، ۳، ۴، ۵

حج:اسكے احكام ۳، ۵; اس ميں تقصير كو مؤخر كرنا ۵; اس ميں طواف كو موخر كرنا ۵; اس ميں تقصير ۱، ۳، ۴، ۷; اس ميں رمى جمرات ۸; اس ميں منڈہوانا ۸; اس ميں طواف ۸، ۹; اس ميں قربانى ۱; اسكے اعمال ۱، ۴، ۷، ۸، ۹; اس ميں نذر ۸; اسكے واجبات ۱، ۴ ; روايت ۷، ۸، ۹، ۱۰، ۱۱

طواف:اسكے آداب ۲; اسكے احكام ۴; طواف النساء ۹

كعبہ:اسكى تاريخ ۶، ۱۰; اس كا نام ركھنے كا فلسفہ ۱۰، ۱۱; اس كا قديمى ہونا ۶; يہ طوفان نوح كے وقت ۱۰; اسكى مالكيت ۱۱

مسجدالحرام:اسكے آداب ۲; اس ميں پاكيزگى ۲

نذر:اسكے احكام ۳; اسكى وفا ۳

____________________

۱ ) علل الشرائع ج ۲ ص ۳۹۹ ح ۵_ نورالثقلين ج۳ ص ۴۹۴ ح ۱۱۴_

۲ ) كافى ج ۴ ص ۱۸۹ ح ۵ نورالثقلين ج ۳ ص ۴۹۴ ح ۱۰۹_

۵۱۷

آیت ۳۰

( ذَلِكَ وَمَن يُعَظِّمْ حُرُمَاتِ اللَّهِ فَهُوَ خَيْرٌ لَّهُ عِندَ رَبِّهِ وَأُحِلَّتْ لَكُمُ الْأَنْعَامُ إِلَّا مَا يُتْلَى عَلَيْكُمْ فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ )

يہ ايك حكم خدا ہے اور جو شخص بھى خدا كى محترم چيزوں كى تعظيم كرے گا وہ اس كے حق ميں پيش پروردگار بہترى كا سبب ہوگى اور تمہارے لئے تمام جانور حلال كردئے گئے ہيں علاوہ ان كے جن كے بارے ميں تم سے بيان جائے گا لہذا تم نا پاك بتوں سے پرہيز كرتے رہو اور لغو اور مہمل باتوں سے اجتناب كرتے رہو (۳۰)

۱ _ حج اور اسكے اعمال، خداتعالى كے نزديك بلند مقام و مرتبے كے حامل ہيں _و أذن فى الناس بالحج و ليطوفوا بالبيت العتيق ذلك ''ذلك'' ان تمام مطالب كى طرف اشارہ ہے كہ جو يہاں تك حج اور اسكے اعمال كے بارے ميں بيان ہوئے ہيں اور يہاں پر ''ذلك'' كے ا ستعمال سے غرض سابقہ اور بعد والے كلام كے درميان فاصلہ كرنا اور ايك اہم مطلب سے دوسرے اہم مطلب كى طرف منتقل ہونا ہے ايسے موارد ميں كلمہ ''ہذا'' كو استعمال كرتے ہيں جيسے ''ہذا و إن للطاغين لشرمآب'' (ص ۵۵۳۸) اس بناپر ''ذلك'' كہ جو بعيد كى طرف اشارہ كرنے كيلئے ہے_ كا استعمال ممكن ہے بارگاہ خداوندى ميں حج اور اسكے اعمال كى اعلى قدر و منزلت كو بيان كرنے كيلئے ہو_

۲ _ حدود و احكام الہى كى تعظيم كرنے، انہيں معمولى نہ سمجھنے اور ان كے حريم سے تجاوز نہ كرنے كا ضرورى ہونا_

و من يعظم حرمت الله

('' يعظم'' كے مصدر) تعظيم كامعنى ہے بڑا سمجھنا ''حرمات''، ''حرمت'' كى جمع ہے يعنى وہ چيز كہ جسكى ہتك كرنا ممنوع اور اسكى حفاظت كرنا واجب ہے ''حرمات الله '' يعنى وہ حدود و احكام كہ جو خدا كى طرف سے مشخص كئے گئے ہيں اور لوگوں كا فريضہ ہے كہ انكى رعايت كريں _ يہ مذكورہ جملہ خداتعالى كى طرف سے اہل ايمان كو نصيحت ہے كہ وہ حتماً حدود و احكام الہى كو بڑا سمجھيں اور ان كے حريم ميں تجاوز كرنے سے سخت پرہيز كريں _

۵۱۸

۳ _ حدود و احكام الہى كى تعظيم ، انہيں بڑا سمجھنا اور ان كے حريم كى رعايت كرنا اہل ايمان كيلئے خير و سعادت اور خوشبختى كا سبب ہے_و من يعظم حرمت الله فهو خير له عند ربه ''فهو خيرله'' كى ''ہو'' خير كا مرجع (''يعظم'' كا مصدر ) تعظيم ہے يعنى''فالتعظيم خير له عند ربه''

۴ _ خداتعالى كے احكام اور حدود، انسان كى سعادت اور بھلائي كيلئے ہيں _ومن يعظم حرمت الله فهوخير له عند ربه

۵ _ قوانين اور احكام الہى كو معمولى سمجھنا اور ان كى حرمت شكنى انسان كى بدبختى اور شقاوت كا سبب ہے_

و من يعظم حرمت الله فهو خير له عند ربه ''تعظيم'' ''تحقير'' كى ضد ہے پس جملے كا مفہوم يوں ہوگا''و من يحقر حرمات الله فهو شر له عند ربه''

۶ _ خداتعالى ، انسانوں كا پروردگار ہے_عند ربه

۷ _ خداتعالى كى طرف سے سعادت بخش احكام و قوانين كا وضع كرنا اسكى ربوبيت اور پروردگار ہونے كا مقتضا ہے_

و من يعظم حرمت الله فهو خير له عند ربه

۸ _ اونٹ، گائے اور بھيڑبكرى حلال گوشت جانور ہيں _و أحلت لكم الأنعام ''أنعام'' (''نعم'' كى جمع) در اصل اونٹ كے معنى ميں ہے پس انعام يعنى اونٹ ليكن بعض اوقات ''انعام'' بول كر اس سے مجموعى طور پر اونٹ، گائے اور بھيڑ بكرى مراد ليتے ہيں مذكورہ جملے ميں ''انعام'' دوسرے طريقے سے استعمال كيا گيا ہے_ قابل ذكر ہے كہ جملہ''أحلت لكم الأنعام'' ،''أحلت لكم أكل لحوم الأنعام'' كى تقدير ميں ہے يعنى تمہارے لئے اونٹ، گائے اور بھيڑبكرى كا گوشت كھانا حلال ہے_

۹ _ اونٹ، گائے اور بھيڑبكرى كے گوشت سے استفادہ كرنا حلال اور جائز ہے سوائے ان موارد كے كہ جن ميں الله تعالى نے انہيں حرام كيا ہے_

۱۰ _ خداتعالى كى جانب سے كھانے كى حرام چيزوں كے بارے ميں متعدد آيات كا نازل ہونا اور لوگوں كيلئے انہيں مكرر وطور پر بيان كرنا_و أحلت لكم الأنعام إلا ما يتلى عليكم بعض مفسرين كا خيال يہ ہے كہ ''يتلى '' زمان مستقبل كيلئے ہے يعنى اونٹ، گائے اور بھيڑبكرى جيسے چوپاؤں كا گوشت تمہارے لئے حلال ہے مگر وہ جسے مستقبل ميں تمہارے لئے بيان كي جائيگا_لہذا كلمہ ''يتلي'' سورہ مائدہ كى آيت نمبر ۳ ''حرمت عليكم الميتة و الدم و لحم الخنزير و ...'' كى طرف اشارہ ہے كہ جو مورد بحث آيت كے بعد نازل ہوئي ہے_

۵۱۹

اور بعض مفسرين كا خيال يہ ہے كہ كلمہ ''يتلي'' مضارع استمرارى ہے اور يہ ان آيات كى طرف اشارہ ہے كہ جو اس سے پہلے مكہ ميں (آيت ۱۴۵ سورہ انعام اور آيت ۱۱۵ سورہ نحل) اور ہجرت كے چھ ماہ بعد مدينہ ميں (آيت ۱۷۳ سورہ بقرہ) نازل ہوئي ہيں مذكورہ مطلب دوسرے نظريئےے مطابق ہے _

۱۱ _ اس جانور كے گوشت سے استفادہ كرنا حرام ہے كہ جسے غيرخدا كے نام كے ساتھ ذبح كيا گيا ہو_و أحلت لكم الأنعام إلا ما يتلى عليكم ''إلا ما يتلى عليكم'' ميں كلمہ ''ما'' اگرچہ عام ہے اور ان تمام موارد كو شامل ہے كہ جو ''محرمات اكل''كى آيات ميں بيان ہوئے ہيں ليكن گذشتہ دو آيتوں ميں جملہ ''ويذكروا اسم الله على ما رزقہم من بہيمة الأنعام'' نيز جملہ ''فاجتنبوا الرجس من الأوثان ...'' (آيت كا ذيل) كى جملہ''أحلت لكم الأنعام إلا ما يتلى عليكم'' پر تفريع كے قرينے سے كہا جاسكتا ہے كہ ''ما'' سے مرادفقط وہ موارد ہيں كہ جہاں جانور كو غيرخدا (بتوں ) كے نام سے ذبح كيا گيا ہو_

۱۲ _ زمانہ جاہليت ميں مراسم حج و قربانى كا شرك و بت پرستى كے مظاہر كے ساتھ آميختہ ہونا_

و احلت لكم الانعام الا ما يتلى عليكم فاجتنبوا الرجس من الاوثان

۱۳ _ بت، رجس اور پليدگى كا مظہر ہے_فاجتنبوا الرجس من الاوثان

۱۴ _ بتوں سے اجتناب كا ضرورى ہونا_فاجتنبوا الرجس من الاوثان ''رجس'' ہر برى اور پليد چيز كو كہاجاتا ہے ''اوثان''، ''وثن'' كى جمع اور بتوں كے معنى ميں ہے اور ''من الاوثان'' ميں ''من'' بيانيہ ہے پس''فاجتنبوا الرجس من الاوثان'' يعنى بتوں سے كہ جو برے اور پليد ہيں اجتناب كرو_

۱۵ _ بت پرست، پليد لوگ ہيں _فاجتنبوا الرجس من الاوثان

۱۶ _ عصر بعثت كے مشركين، متعدد بت ركھتے تھے_فاجتنبوا الرجس من الاوثان

۱۷ _ عصر جاہليت كے مراسم حج ميں مشركانہ اورمخالف توحيد نعروں كا وجود_واجتنبوا قول الزور

''زور'' كا معنى ہے''قول باطل'' اور''قول الزور'' ميں اضافت بيانيہ ہے يعنى باطل سخن اور ياوہ گوئي سے دورى اختيار كرو اس چيز كو مد نظر ركھتے ہوئے كہ يہ آيت حج سے مربوط آيات ميں سے ہے كہا جاسكتا ہے كہ ''ياوہ گوئي'' سے مراد وہ مشركانہ نعرے ہيں كہ جو مشركين مراسم حج ميں اور شايد اپنے ان بتوں كے پاؤں ميں _ كہ جنہيں انہوں نے منى ميں نصب كرركھا تھا قربانى كو ذبح كرتے وقت لگاتے تھے_

۱۸ _ جھوٹ بولنے اور سخن باطل سے پرہيز كرنا ضرورى ہے_

۵۲۰

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750