تفسير راہنما جلد ۱۱

تفسير راہنما 10%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 750

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 750 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 218983 / ڈاؤنلوڈ: 3020
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

اور جب یہود سے کہا گیا : جو کچھ خاتم الانبیا ء پر نازل کیا گیا ہے اس پرایمان لاؤ،تو انھوں نے کہا : جو کچھ ہم لوگوں پر نازل ہوا ہے ہم اس پر ایمان لائے ہیں اور جو ہم پر نازل نہیں ہوا ہے ہم اس کے منکر ہیں،جب کہ وہ جو کچھ خاتم الانبیاء پر نازل کیا گیا حق ہے اور انبیاء کی کتابوں میں موجود اخبار کی تصدیق اور اثبات کرتا ہے یعنی وہ اخبار جو بعثت خاتم الانبیاء سے متعلق ہیں اوران کے پاس ہیں،اے پیغمبر!ان سے کہہ دو! اگر تم لوگ خود کو مومن خیال کرتے ہو تو پھر کیوں اس سے پہلے آنے والے انبیاء کو قتل کر ڈالا ؟ کس طرح کہتے ہو کے جو کچھ تم پر نازل کیا گیا ہے اس پر ہم ایمان لائے ہیں جب کہ حضرت موسیٰ روشن علامتوںاور آیات کے ساتھ تمہارے پاس آئے اور تم لوگ خدا پر ایمان لانے کے بجائے گوسالہ پرست ہوگئے؟! اس وقت بھی خدا وندعالم نے جس طرح حضرت موسیٰ پر روشن آیات نازل کی تھیں اسی طرح خاتم الانبیاء محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر بھی نازل کی ہیں اور بجز کافروں کے اس کا کوئی منکر نہیں ہوگا۔

اگر یہود ایمان لے آئیں اور خدا سے خوف کھائیں یقینا خدا انھیں جزا دے گا ،لیکن کیا فائدہ کہ اہل کتاب کے کفار اور مشرکین کو یہ بات پسند نہیں ہے کہ تم مسلمانوںپر کسی قسم کی کوئی آسمانی خبر یا کتاب نازل ہو،جب کہ خدا وندعالم جسے چاہے اپنی رحمت سے مخصوص کر دے ۔

خدا وندعالم اگر کوئی حکم نسخ کرے یااسے تاخیر میں ڈالے تو اس سے بہتر یا اس کے مانند لے آتا ہے خدا ہر چیز پر قادر اور توانا ہے۔بہت سارے اہل کتاب اس وجہ سے کہ وحی الٰہی بنی اسرائیل کے علاوہ پر نازل ہوئی ہے حاسدانہ طور پر یہ چاہتے ہیں کہ تمہیں خاتم الانبیاء پر ایمان لانے کے بجائے کفر کی طرف پھیر دیںاور ایسااس حال میں ہے کہ حق ان پر روشن اور آشکار ہو چکاہے!یہ تم لوگوں سے کہتے ہیں کہ یہود اور نصاریٰ کے علاوہ کوئی جنت میں نہیں جائے گا یعنی تم لوگ اپنے اسلام کے باوجودبہشت سے محروم رہو گے؛کہو: اپنی دلیل پیش کرو !البتہ جو بھی اسلام لے آئے اور نیک اور اچھا عمل انجا م د ے اسکی جزا خدا کے یہاں محفوظ ہے اور یہود ونصاری تم سے کبھی راضی نہیں ہوں گے مگر یہ کہ تم ان کے دین کا اتباع کرو۔

اُس کے بعد یہود کومخاطب کر کے فرمایا :اے بنی اسرائیل ؛جن نعمتوں کو ہم نے تم پر نازل کیا ہے اور تم لوگوں کو تمہارے زمانے کے لوگوں پر فضیلت وبرتری دی ہے اسے یاد کرو اور روز قیامت سے ڈرو۔

اس کے بعد یہود اور پیغمبر کے درمیان نزاع ودشمنی وعداوت کا سبب اور اس کی کیفیت بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے: ہم بیت المقدس سے تحویل قبلہ کے سلسلے میں آسمان کی طرف تمہاری انتظار آمیز نگاہوں سے باخبر ہیں ابھی اس قبلہ کی طرف تمھیں لوٹا دیں گے جس سے تم راضی وخوشنود ہوجاؤگے۔

۴۱

(اے رسول! )تم جہاں کہیں بھی ہو اور تمام مسلمان اپنے رخ مسجد الحرام کی طرف موڑ لیں اہل کتاب،یہود جو تم سے دشمنی کرتے ہیں اور نصاریٰ یہ سب خوب اچھی طرح جانتے ہیں قبلہ کا کعبہ کی طرف موڑنا حق اور خدا وندکی جانب سے ہے اور تم جب بھی کوئی آیت یا دلیل پیش کرو تمہاری بات نہیں مانیں گے اور تمہارے قبلہ کی پیروی نہیں کریں گے۔

عنقریب بیوقوف کہیںگے : انھیں کونسی چیز نے سابق قبلہ بیت المقدس سے روک دیا ہے؟کہوحکم ،حکم خدا ہے مشرق و مغرب سب اسکا ہے جسے چاہتا ہے راہ راست کی ہدایت کرتا ہے، بیت المقدس کو اس کا قبلہ بنا نا اور پھر مکّہ کی طرف موڑنا لوگوں کے امتحان کی خاطر تھا مکّہ والوں کو کعبہ سے بیت المقدس کی طرف اور یہود کو مدینہ میں بیت المقدس سے کعبہ کی طرف موڑ کر امتحان کرتا ہے تا کہ ظاہر ہو جائے کہ آیایہ جاننے کے بعد بھی کہ یہ موضوع حق اور خدا وندعالم کی جانب سے ہے اپنے قومی وقبائلی اور اسرائیلی تعصب سے باز آتے ہیں یا نہیں اور بیت المقدس سے کعبہ کی طرف رخ کرتے ہیں یا نہیں اوراس گروہ کا امتحان اس وجہ سے ہوا تاکہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ماننے والے ان لوگوں سے جو جاہلیت کی طرف پھرجائیں گے مشخص اور ممتاز ہوجائیں ،انکی نمازیں جو اس سے قبل بیت المقدس کی طرف پڑھی ہیں خدا کے نزدیک برباد نہیں ہوں گی۔

اس طرح واضح ہوجاتا ہے کہ تبدیلی آیت سے مراد ،جس کا ذکر سورۂ نحل کی مکی آیات میں قریش کی نزاع اور اختلاف کے ذکر کے تحت آیا ہے، خدا کی جانب سے ایک حکم کا دوسرے حکم سے تبدیل ہوناہے، اس نزاع کی تفصیل سورۂ انعام کی ۱۳۸تا۱۴۶ویں آیات میں آئی ہے۔

اور یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ (یہود مدینہ کی داستان میں ) نسخ آیت اور اس کی مدت کے خاتمہ سے مقصود و مراد موسیٰ کی شریعت میں نسخ حکم یا ایک خاص شریعت کی مدت کا ختم ہونا ہے ( اس حکمت کی بنا ء پر جسے خدا جانتا ہے)

راغب اصفہانی نے لفظ (آیت) کی تفسیر میں صحیح راستہ اختیار کیاہے وہ فرماتے ہیں :کوئی بھی جملہ جو کسی حکم پر دلالت کرتا ہے آیت ہے، چاہے وہ ایک کامل سورہ ہو یا ایک سورہ کا بعض حصّہ ( سورہ میں آیت کے معنی کے اعتبار سے)یااس کے چند حصّے ہوں ۔

لہٰذا مذکورہ دوآیتوں میں ایک آیت کودوسری آیت سے تبدیل کرنے اور آیت کے نسخ اور اس کے تاخیر میں ڈالنے سے مراد یہی ہے کہ جس کا تذ کرہ ہم نے کیا ہے ، اب آئندہ بحث میں حضرت موسیٰ کی شریعت میں نسخ کی حیثیت اور اس کی حکمت ( خدا کی اجازت اور توفیق سے ) تحقیق کے ساتھ بیان کریں گے۔

۴۲

۴

حضرت موسیٰ ـ کی شریعت بنی اسرائیل سے مخصوص ہے

حضرت موسیٰ کی شریعت جس کا تذکرہ توریت میں آیا ہے بنی اسرائیل سے مخصوص ہے ،جیسا کہ سفرتثنیہ کے ۳۳ ویں باب کے چوتھے حصّہ میں آیا ہے:

''موسیٰ نے ہم کو ایک ایسی سنت کا حکم دیا ہے جو کہ جما عت یعقوب کی میراث ہے''

یعنی موسیٰ نے ہمیں ایک ایسی شریعت کا حکم دیا ہے جو کہ جماعت یعقوب یعنی بنی اسرائیل سے مخصوص ہے ،گزشتہ آیات میں بھی اس خصوصیت کا ذکر ہوا ہے ،آئندہ بحث میں انشاء ﷲ امر نسخ کی بسط وتفصیل کے ساتھ تحقیق و بررسی کریں گے۔

حضرت موسیٰ ـکی شریعت میں نسخ کی حقیقت

اس بحث میں ہم سب سے پہلے قرآن سے( زمانے کے تسلسل کا لحاظ کر تے ہو ئے )بنی اسرائیل کی داستان کا آغا ز کر یں گے، پھر ان کی شریعت میں نسخ کے مسئلہ کو بیان کریں گے ۔

۴۳

اوّل:بنی اسرائیل کو نعمت خدا وندی کی یاد دہانی

۱۔خدا وندعالم سورۂ بقرہ میں ارشاد فرماتا ہے:( یا بنی اسرائیل أذکر وانعمتی التی أنعمت علیکم و أنی فضّلتکم علی العالمین..و اِذ نجّینا کم من آل فرعون یسومو نکم سوء العذاب یذ بحون أبناء کم و یستحیون نساء کم و فی ذلکم بلاء من ربکم عظیم) (و أذفرقنا بکم البحر فانجیناکم وأغرقنا آل فرعون و ٔنتم تنظرون و أذ واعدناموسیٰ أربعین لیلة ثم ٔاتخذتم العجل من بعده و أنتم ظالمون ) ( ۱ )

اے بنی اسرائیل! جو نعمتیںہم نے تم پر نازل کی ہیں انھیں یاد کرو اور یہ کہ ہم نے تم کو عالمین پر برتری اور فضیلت دی ہے...اورجب ہم نے تم کو فرعونیوں کے خونخوارچنگل سے آزادی دلائی وہ لوگ تمہیں بری طرح شکنجہ میں ڈالے ہوئے تھے تمہارے فرزندوں کے سر اڑا دیتے اور تمہاری عورتوں کوزندہ رکھتے تھے اس میں تمہارے لئے تمہارے رب کی طرف سے عظیم امتحان تھا اور جب ہم نے تمہارے لئے دریا کو شگاف کیا اور تمھیں نجات دی اور فرعونیوں کوغرق کر ڈالا ،درانحالیکہ یہ سب کچھ تم اپنی آنکھوںسے دیکھ رہے تھے اور جب موسیٰ کے ساتھ چالیس شب کا وعدہ کیا پھر تم لوگوں نے اس کے بعد گو سالہ کا انتخاب کیا جب کہ تم لوگ ظالم وستم گر تھے۔

۲۔سورۂ اعراف میں ارشاد فرماتا ہے:( وجاوزنا ببنی اسرائیل البحر فاتوا علی قوم یعکفون علیٰ أصنام لهم قالوا یا موسیٰ اجعل لنا اِلٰهاً کما لهم آلهة قال انکم قوم تجهلون ) ( ۲ )

اور ہم نے بنی اسرائیل کو دریا سے پار کرایا راستے میں ایسے گروہ سے ملاقات ہوئی جو خضوع خشوع کے ساتھ اپنے بتوں کے ارد گرد اکٹھا تھے، تو ان لوگوں نے کہا : اے موسیٰ !ہمارے لئے بھی ان کے خداؤں کے مانند کوئی خدا بنا دو ،انہوں نے فرمایا:سچ ہے تم لوگ ایک نادان اور جاہل قوم ہو۔

۳۔ سورۂ طہ میں ارشاد ہوتا ہے:( و اضلّهم السامری فکذٰلک القی السّامریفاخرج لهم عجلًا جسداً له خوار فقالو هذا اِلهکم واِلٰه موسیٰ و لقد قال لهم هارو ن من قبل یا قوم اِنّما فتنتم به و اِنَّ ربّکم الرحمن فا تبعونی وأَطیعوا أَمریقالو لن نبرح علیه عاکفین حتّیٰ یرجع اِلینا موسیٰ )

اورسامری نے انھیں گمراہ کر دیا ...اور سامری نے اس طرح ان کے اندر القاء کیا اور ان کے لئے گوسالہ کا ایسا مجسمہ جس میں سے گو سالہ کی آواز آتی تھی بنادیا تو ان سب نے کہا :یہ تمہارا اورموسیٰ کا خداہے... اور اس سے پہلے ہارون نے ان سے کہا : اے میری قوم والو! تم لوگ اس کی وجہ سے امتحان میں مبتلا ہو گئے ہو ، تمہارا رب خدا وند رحمان ہے میری پیروی کرو اور میرے حکم و فرمان کی اطاعت کرو ، کہنے لگے :

____________________

(۱)بقرہ۴۷،۴۹،۵۰،۵۱(۲) اعراف۱۳۸

۴۴

ہم اسی طرح اس کے پابند ہیں یہاں تک کہ موسیٰ ہماری طرف لوٹ کر آ جائیں۔( ۱ )

۴۔ سورۂ بقرہ میں ارشاد ہوا :

( واِذْ قال موسیٰ لقومه یا قوم أنّکم ظلمتم انفسکم باتّخاذکم العجل فتو بوا ألی بارئکم فاقتلوا أنفسکم ذلکم خیر لکم عند بارئکم فتاب علیکم أنّه هو التوّاب الرّحیم ) ( ۲ )

اُس وقت کو یاد کرو جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا : اے میری قوم !تم نے گوسا لہ کا انتخاب کر کے اپنے اوپر ظلم کیا ہے لہٰذا تو بہ کرو اور اپنے خالق کی طرف لوٹ آؤ اور اپنے نفسوں کو قتل کر ڈالو کیونکہ یہ کام تمہارے ربّ کے نزدیک بہتر ہے پھر خدا وند عالم نے تمہاری توبہ قبول کی بیشک وہ توبہ قبول کرنے والا اور مہر بان ہے۔

دوم : توریت اور اس کے بعض احکام :

۱۔ خدا وند عالم سورہ ٔ بقرہ میں فرماتا ہے :

( واِذ أخذنا میثاقکم و رفعنا فوقکم الطّور خذوا ما آتینا کم بقوّة و اذ کروا ما فیه لعلّکم تتقون ) ( ۳ )

اس وقت کو یاد کرو جب ہم نے تم سے عہد و پیمان لیا اور کوہِ طور کو تمہارے او پر قرار دیا ( اور تم سے کہا) جو کچھ ہم نے تم کو دیا ہے ا سے محکم طریقے سے پکڑ لو اور جو کچھ اس میں ہے اسے یاد رکھو شاید پرہیز گار ہو جاؤ۔

۲۔ سورۂ اسراء میں ارشاد ہوتا ہے:

( وآتینا موسیٰ الکتاب وجعلناه هُدیً لبنی اسرائیل.. ) .)( ۴ )

اورہم نے موسیٰ کو آسمانی کتاب عطا کی اوراسے بنی اسرائیل کی ہدایت کا وسیلہ قرار دیا ۔

۳۔سورۂ آل عمران میں ارشاد ہوتا ہے:

( کلّ الطعام کان حلًا لبنی اسرائیل اِلّا ما حرم اسرائیل علیٰ نفسه من قبل أن تنزّل التوراة... ) ( ۵ )

کھانے کی تمام چیزیں بنی اسرائیل کے لئے حلال تھیں جزان اشیاء کے جنہیںخوداسرائیل (یعقوب)

____________________

(۱)طہ ۸۵ ،۹۱ .(۲)بقرہ ۵۴ (۳)بقرہ ۶۳،اس مضمون سے ملتی جلتی آیتیں سورہ بقرہ کی ۹۳ ویں آیت اور سورئہ اعراف کی ۱۷۱ویں آیت میں بھی آئی ہیں )

(۴)اسرائ۲ (۵)آل عمران ۹۳

۴۵

نے توریت کے نزول سے پہلے اپنے اوپر حرام کرلیا تھا۔

۴۔ سورۂ انعام میں فرمایا :

( و ماعلی الذین هادوا حرّمنا کلّ ذی ظفر من البقر و الغنم حرّمنا علیهم شحومهما الا ماحملت ظهور هما أو الحوایا أو ما اختلط بعظم ذلک جزیناهم ببغیهم و انّا لصاد قون ) ( ۱ )

یہودیوں پر ہم نے تمام ناخن دار حیو ا نوں کو حرام کیا ، گائے اورگوسفند سے ا ن کی چربی ان پر حرام کی جزاس چربی کے جو ان کی پشت پر ہو یا جو پہلو میں ہو یا جو ہڈیوں سے متصل اورمخلوط ہو یہ ان کی بغاوت و سرکشی کا نتیجہ ہے کہ ہم نے انھیں اور سزا کا مستحق قرار دیا اور ہم سچ کہتے ہیں۔

۵۔ سورۂ نحل میں ارشاد ہوتا ہے:

( و علٰی الذین هادوا حرّمنا ما قصصنا علیک من قبل و ما ظلمنا هم و لکن کانوا أنفسهم یظلمون ) ( ۲ )

اورہم نے جن چیزوں کی اس سے پہلے تمہارئے لئے تفصیل بیان کی ہے ،ان چیزوں کویہود پر حرام کیا؛ ہم نے ان پر ظلم و ستم نہیں کیا ،بلکہ ان لوگوں نے خود اپنے نفوس پر ظلم کیا ہے۔

۶۔سورۂ نساء میں ارشاد ہوتا ہے:

( یَسَْلُکَ َهْلُ الْکِتَابِ َنْ تُنَزِّلَ عَلَیْهِمْ کِتَابًا مِنْ السَّمَائِ فَقَدْ سََلُوا مُوسَی َکْبَرَ مِنْ ذَلِکَ فَقَالُوا َرِنَا ﷲ جَهْرَةً فَعَفَوْنَا عَنْ ذَلِکَ... (۱۵۳) وَرَفَعْنَا فَوْقَهُمْ الطُّورَ بِمِیثَاقِهِم.... وَقُلْنَا لَهُمْ لاَتَعْدُوا فِی السَّبْتِ وََخَذْنَا مِنْهُمْ مِیثَاقًا غَلِیظًا (۱۵۴) فَبِمَا نَقْضِهِمْ مِیثَاقَهُمْ وَکُفْرِهِمْ بِآیَاتِ ﷲ وَقَتْلِهِمْ الَْنْبِیَائَ (۱۵۵) وَبِکُفْرِهِمْ وَقَوْلِهِمْ عَلَی مَرْیَمَ بُهْتَانًا عَظِیمًا (۱۵۶) فَبِظُلْمٍ مِنْ الَّذِینَ هَادُوا حَرَّمْنَا عَلَیْهِمْ طَیِّبَاتٍ ُحِلَّتْ لَهُمْ وَبِصَدِّهِمْ عَنْ سَبِیلِ ﷲ کَثِیرًا (۱۶۰) وََخْذِهِمْ الرِّبَا وَقَدْ نُهُوا عَنْهُ وََکْلِهِمْ َمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ.... ) ( ۳ )

اہل کتاب تم سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ان پر آسمان سے کوئی کتاب نازل کرو ؛ انھوں نے توحضرت موسیٰ سے اس سے بھی بڑی چیز کی خواہش کی تھی اور کہا تھا : خدا کو واضح اور آشکار طور سے ہمیں دکھا ؤ لیکن ہم نے انھیں در گزر کر دیا ...اور ہم نے ان کے عہد کی خلاف ورزی کی بنا پر ان کے سروں پر کوہ طور کو بلند کردیا

____________________

(۱)انعام ۱۴۶(۲)نحل ۱۱۸

(۳)نسائ۱۵۴۱۵۳ ۱۵۶۱۵۵ ۱۶۱۱۶۰.

۴۶

اوران سے کہا :سنیچر کے دن تجاوز اور تعدی نہ کرو اوران سے محکم عہد و پیمان لیا ،ان کی پیمان شکنی ،آیات خداوندی کا انکار ،پیغمبروں کے قتل اور ان کے کفر کی وجہ سے نیزاس عظیم تہمت کی وجہ سے جو حضرت مریم پر لگائی، نیزاس ظلم کی وجہ سے جو یہود سے صادر ہوا اور بہت سارے لوگوں کو راہ راست سے روکنے کی وجہ سے بعض پاکیزہ چیزوں کو جو ان پرحلال تھیںان کے لئے ہم نے حرام کر دیا اور ربا اور سود خوری کی وجہ سے جب کہ اس سے ممانعت کی گئی تھی اور لوگوں کے اموال کو باطل انداز سے خرد برد کرنے کی بنا پر ۔

۷۔ سورۂ اعراف میں ارشاد ہوتا ہے:

( و سئلهم عن القرية التی کانت حاضرة البحراذ یعدون فی السبت اِذ تأ تیهم حیتانهم یوم سبتهم شُرّعاً ویوما لایسبتون لاتاتیهم کذٰلک نبلوهم بما کانوایفسقون ) ( ۱ )

دریا کے ساحل پر واقع ایک شہر کے بارے میں ان سے سوال کرو ؛ جب کہ سنیچر کے دن تجاوزکرتے تھے،اس وقت سنیچر کو دریا کی مچھلیاں ان پر ظاہر ہو جاتی تھیں اوراس کے علاوہ دوسرے دنوںمیں اس طرح ظاہر نہیں ہو تی تھیں ، اس طرح سے ہم نے ان کا اس چیز سے امتحان لیا جس کے نتیجہ میں وہ نافرمانی کرتے تھے ۔

۸۔ سورۂ نحل میں ارشاد ہو تا ہے:

( انّما جعل السبت علی الذین اختلفو فیه ) ( ۲ )

سنیچر کا دن صرف اور صرف ان کے مجازات اور سزا کے عنوان سے تھاان لوگوں کے لئے جو اس میں اختلاف کرتے تھے۔

سوم:خدا وند عالم کی بنی اسرائیل پر نعمتیں اور ان کی سرکشی و نا فرمانی

۱۔خدا وند عالم سورۂ اعراف میں ارشاد فرماتا ہے:

( وَقَطَّعْنَاهُمْ اثْنَتَیْ عَشْرَةَ َسْبَاطًا ُمَمًا وََوْحَیْنَا ِلَی مُوسَی ِذْ اسْتَسْقَاهُ قَوْمُهُ َنْ اضْرِب بِعَصَاکَ الْحَجَرَ فَانْبَجَسَتْ مِنْهُ اثْنَتَا عَشْرَةَ عَیْنًا قَدْ عَلِمَ کُلُّ ُنَاسٍ مَشْرَبَهُمْ وَظَلَّلْنَا عَلَیْهِمْ الْغَمَامَ وََنزَلْنَا عَلَیْهِمْ الْمَنَّ وَالسَّلْوَی کُلُوا مِنْ طَیِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاکُمْ وَمَا ظَلَمُونَا وَلَکِنْ کَانُوا َنفُسَهُمْ یَظْلِمُونَ (۱۶۰) وَِذْ قِیلَ لَهُمْ اسْکُنُوا هَذِهِ الْقَرْیَةَ وَکُلُوا مِنْهَا حَیْثُ شِئْتُمْ وَقُولُوا حِطَّة

____________________

(۱)اعراف ۱۶۳۔بقرہ ۶۵۔ نساء ۴۸، ۱۵۴.(۲)نحل ۱۲۴

۴۷

وَادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا نَغْفِرْ لَکُمْ خَطِیئَاتِکُمْ سَنَزِیدُ الْمُحْسِنِینَ (۱۶۱) فَبَدَّلَ الَّذِینَ ظَلَمُوا مِنْهُمْ قَوْلًا غَیْرَ الَّذِی قِیلَ لَهُمْ فَاَرْسَلْنَا عَلَیْهِمْ رِجْزًا مِنْ السَّمَائِ بِمَا کَانُوا یَظْلِمُونَ ) ( ۱ )

اورہم نے بنی اسرائیل کو ایک نسل کے بارہ قبیلوں میں تقسیم کر دیا اور جب موسیٰ کی قوم نے ان سے پانی طلب کیا تو ان کو ہم نے وحی کی : اپنے عصا کو پتھر پر مارو! اچا نک اس سے بارہ چشمے پھوٹ پڑے اس طرح سے کہ ہر گروہ اپنے گھاٹ کو پہچانتا تھا اور بادل کوان پر سائبان۔قرار دیا اوران کے لئے من وسلویٰ بھیجا( اور ہم نے کہا) جو تمھیں پاکیزہ رزق دیا ہے اسے کھاؤ انھوں نے ہم پر ستم نہیں کیا ہے بلکہ خود پر ستم کیاہے اور جس وقت ان سے کہا گیا : اس شہر (بیت المقدس ) میں سکونت اختیار کرو اور جہاں سے چاہو وہاں سے کھاؤ اور کہو: خدایا ہمارے گناہوں کو بخش دے! اوراس در سے تواضع و انکساری کے ساتھ داخل ہو جاؤتا کہ تمہارے گناہوں کو ہم بخش دیں اور نیکو کاروں کو اس سے بڑھ کر جزا دیں،لیکن ان ستمگروں نے جوان سے کہا گیا تھا اس کے علاوہ بات کہی یعنی اس میں تبدیلی کردی اور ہم نے اس وجہ سے کہ وہ مسلسل ظالم و ستمگر رہے ہیںان کے لئے آسمان سے بلا نازل کردی ہے۔

۱۔سورۂ مائدہ میں ارشاد فرمایا:

( وَاِذْ قَالَ مُوسَی لِقَوْمِهِ یَاقَوْمِ اذْکُرُوا نِعْمَةَ ﷲ عَلَیْکُمْ ِذْ جَعَلَ فِیکُمْ َنْبِیَائَ وَجَعَلَکُمْ مُلُوکًا وَآتَاکُمْ مَا لَمْ یُؤْتِ َحَدًا مِنْ الْعَالَمِینَ (۲۰) یَاقَوْمِ ادْخُلُوا الَْرْضَ الْمُقَدَّسَةَ الَّتِی کَتَبَ ﷲ لَکُمْ وَلاَتَرْتَدُّوا عَلَی َدْبَارِکُمْ فَتَنْقَلِبُوا خَاسِرِینَ (۲۱) قَالُوا یَامُوسَی ِنَّ فِیهَا قَوْمًا جَبَّارِینَ وَِنَّا لَنْ نَدْخُلَهَا حَتَّی یَخْرُجُوا مِنْهَا فَِنْ یَخْرُجُوا مِنْهَا فَِنَّا دَاخِلُونَ (۲۲) قَالَ رَجُلاَنِ مِنْ الَّذِینَ یَخَافُونَ َنْعَمَ ﷲ عَلَیْهِمَا ادْخُلُوا عَلَیْهِمْ الْبَابَ فَِذَا دَخَلْتُمُوهُ فَِنَّکُمْ غَالِبُونَ وَعَلَی ﷲ فَتَوَکَّلُوا ِنْ کُنتُمْ مُؤْمِنِینَ (۲۳) قَالُوا یَامُوسَی ِنَّا لَنْ نَدْخُلَهَا َبَدًا مَا دَامُوا فِیهَا فَاذْهَبْ َنْتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلاَِنَّا هَاهُنَا قَاعِدُونَ (۲۴) قَالَ رَبِّ ِنِّی لاََمْلِکُ ِلاَّ نَفْسِی وََخِی فَافْرُقْ بَیْنَنَا وَبَیْنَ الْقَوْمِ الْفَاسِقِینَ (۲۵) قَالَ فَِنَّهَا مُحَرَّمَة عَلَیْهِمْ َرْبَعِینَ سَنَةً یَتِیهُونَ فِی الْاَرْضِ فَلاَتَْسَ عَلَی الْقَوْمِ الْفَاسِقِینَ )

اور جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا : اے میری قوم! اپنے اوپرﷲ کی نعمتوں کو یاد کرو، جبکہ اس نے تمہارے درمیان پیغمبروں کو بھیجا اور تمھیں حاکم بنایا اور تمہیں ایسی چیزیں عطا کیں کہ دنیا والوں میں کسی کو

____________________

(۱)اعراف ۱۶۰، ۱۶۲

۴۸

ویسی نہیں دی ہیں، اے میری قوم! مقدس سر زمین میں جسے خدا وند عالم نے تمہارے لئے مقر ر کیا ہے داخل ہو جاؤ اور الٹے پاؤں واپس نہ ہونا ورنہ نقصان اٹھانے والوں میں ہوگے ،ان لوگوں نے کہا: اے موسیٰ ! وہاں ستمگر لوگ رہتے ہیں، ہم وہاں ہر گز نہیں جائیں گے جب تک کہ وہ وہاں سے نکل نہیں جاتے اگر وہ لوگ وہاں سے نکل جائیں تو ہم داخل ہو جائیں گے ، خدا ترس دومردوں نے جن پر خدا نے نعمت نازل کی تھی کہا:تم لوگ ان کے پاس شہر کے دروازہ سے داخل ہو جاؤ اگر تم دروازہ میں داخل ہوگئے تو یقیناً ان پر کامیاب ہو جاؤ گے اورا گرایمان رکھتے ہو تو خدا پر بھروسہ کرو ، ان لوگوں نے کہا: اے موسیٰ ! وہ لوگ جب تک وہاں ہیں ہم لوگ ہرگز داخل نہیں ہوں گے ! تم اور تمہارا رب جائے اوران سے جنگ کرے ہم یہیں پر بیٹھے ہوئے ہیں، کہا: پروردگارا! میں صرف اپنا اور اپنے بھائی کا ذمہ دار ہوں، میرے اور اس گنا ہ گار جماعت کے درمیان جدائی کر دے،فرمایا :یہ سرزمین ان کے لئے چالیس سال تک کے لئے ممنوع ہے وہ لوگ ہمیشہ سرگرداںاور پریشان رہیں گے اور تم اس گناہ گار قوم پر غمگین مت ہو۔( ۱ )

کلمات کی تشریح

۱۔''اسرائیل'': یعقوب،آپ ابراہیم خلیل ﷲ کے فرزند حضرت اسحق کے بیٹے ہیں،ان کا لقب اسرائیل ہے بنی اسرائیل ان ہی کی نسل ہے جوان کے بارہ بیٹوں سے ہے۔

۲۔'' یسومونکم'': تمکو عذاب دیتے تھے، رسوا کن عذاب ۔

۳۔''یستحیون'': زندہ رکھتے تھے۔

۴۔''یعکفون'': خاضعانہ طور پر عبادت کرتے تھے، پابندتھے ۔

۵۔''خوار'' : گائے اور بھیڑ کی آواز ۔

۶ ۔''لن نبرح'': ہم ہرگز جدا نہیں ہوں گے، آگے نہ بڑھیں گے ۔

۷۔''فتنتم'':تمھارا امتحان لیا گیا، آزمائش خدا وندی ، بندوں کے امتحان کے لئے ہے اور ابلیس اور لوگوں کا فتنہ ، گمراہی اور زحمت میں ڈالنے کے معنی میں ہے، خدا وند عالم نے لوگوں کو فتنہ ابلیس سے خبردار کیا ہے اور فرمایا ہے:

____________________

(۱) مائدہ۲۰، ۲۶

۴۹

( یا بنی آدم لا یفتنّنکم الشیطان )

اے آدم کے بیٹو!کہیں شیطان تمھیں فتنہ اور فریب میں مبتلا نہ کرے: اور لوگوں کے فتنہ کے بارے میں فرمایا:

( اِنّ الذّین فتنوا المومنین و المومنات ثّم لم یتوبوا فلهم عذاب جهنم و لهم عذاب الحریق )

بیشک جن لوگوں نے با ایمان مردوں اور عورتوں کو زحمتوں میں مبتلا کیا ہے پھر انھوں نے توبہ نہیں کی ان کیلئے جہنم کا عذاب اور جھلسا دینے والی آگ کا عذاب ہے۔

۸۔'' باری'': خالق اور ہستی عطا کرنے والا

۹۔ ''أسباطاً'' : اسباط یہاں پر قبیلہ اور خاندان کے معنی میں ہے۔

۱۰۔''فا نبجست'': ابلنے لگا ، پھوٹ پڑا ۔

۱۱۔''المن والسلوی''ٰ:المن؛جامد شہد کے مانند چپکنے والی اور شیریں ایک چیز ہے اور السلوی ؛ بٹیر،ایساپرندہ جس کا شمار بحر ابیض کے پرندوں میں ہوتا ہے ، جو موسم سرما میں مصر اور سوڈان کی طرف ہجرت اختیار کرتا ہے۔

۱۲۔''حِطّة'': ہمارے گناہ کو جھاڑ دے،دھو دے، ہمارے بوجھ کو ہلکا کردے۔

۱۳۔''رفعنا'': ہم نے بلند کیا ، رفعت عطا کی۔

۱۴۔''میثاقکم'': تمہارا عہد و پیمان ، میثاق : ایسا عہد وپیمان جس کی تاکید کی گئی ہو، عہد وپیمان کا پابند ہونا۔

۱۵۔''رجز'': عذاب ، رجز الشیطان... اس کا وسوسہ۔

۱۶۔''یتیھون'': حیران و پریشان ہوتے ہیں ،راستہ بھول جاتے ہیں۔

۱۷۔''لا تأس'': غمز دہ نہ ہو، افسوس نہ کرو۔

۱۸۔''لا تعدوا'': تجاوز نہ کرو ،ظلم وستم نہ کرو۔

۱۹۔''میثاقاً غلیظاً'': محکم و مظبوط عہد و پیمان ۔

۲۰۔''الحوایا'': آنتیں

۲۱۔''شرعًّا'': آشکار اور نزدیک۔

۲۲۔جعل لھم: ان کے لئیقانون گزاری کی، قانون مقرر و معین کیا۔

۵۰

آیات کی تفسیر

خدا وند عالم نے گزشتہ آیات میں بنی اسرائیل سے فرما یا :اُن نعمتوںکو یاد کرو جو ہم نے تمہیں دی ہیں اور تمہارے درمیان پیغمبروں اور حکّام کو قرار دیا نیز من وسلویٰ جیسی نعمت جو کہ دنیا میں کسی کو نہیں د ی ہے تمہیںدی ، خدا وند سبحان نے انھیں فرعون کی غلامی، اولاد کے قتل اور عورتوں کو کنیزی میں زندہ رکھنے کی ذلت سے نجات دی،فرعون اور اس کے ساتھیوں کو غرق کر دیا اور انہیں دریا سے عبور کرا دیا، اس کے باوجود جب انھوں نے دیکھا کہ کچھ لوگ بتوں کی عبادت اورپوجا میں مشغول ہیں ، تو موسیٰ سے کہا : ہمارے لئے بھی انہی کے مشابہ اور مانند خدا بنادو تاکہ ہم اس کی عبادت اور پرستش کریں ! اور جب حضرت موسیٰ کوہِ طور پر توریت لینے گئے تو یہ لوگ گوسالہ پرستی کرنے لگے اور جب موسیٰ نے انھیں حکم دیا کہ اس مقدس سر زمین میں داخل ہو جائیںجو خدا نے ان کے لئے مقرر کی ہے تو ان لوگوں نے کہا : اے موسیٰ ! وہاں ظالم اور قدرت مند گروہ (عمالقہ )ہے جب تک وہ لوگ وہاں سے خارج نہیں ہوں گے ہم وہاں داخل نہیں ہوسکتے''یشوع'' یا ''یسع'' اور ان کی دوسری فرد نے ان سے کہا : شہر میں داخل ہو جاؤ بہت جلدی کا میاب ہو جاؤ گے،تو انھوں نے سر کشی اور نا فرمانی کی اور بولے:اے موسیٰ تم اور تمہارا رب جائے اور عمالقہ سے جنگ کرے ہم یہیں بیٹھے ہوئے ہیں! موسیٰ نے کہا : پروردگارا ! میں صرف اپنے اور اپنے بھا ئی کا مالک و مختار ہوں میرے اور اس گناہ گار قوم کے درمیان جدائی کردے! خداوند سبحان نے فرمایا : یہ مقدس اور پاکیزہ سر زمین ان لوگوں پرچالیس سال تک کے لئے حرام کر دی گئی ہے اتنی مدت یہ لوگ سینا نامی صحرا میں حیران و سرگرداں پھر تے رہیں گے تم ان گناہ گاروں کی خاطر غمگین نہ ہو۔

خدا وندعالم ان لوگوں کے بارے میں سورۂ اعراف میں فرماتا ہے : بنی اسرائیل کو بارہ خاندان اور قبیلوں میں تقسیم کیا اورانہوں نے جب موسیٰ سے پانی طلب کیا تو ہم نے موسی پر وحی کی کہ اپنا عصا پتھر پر مارو، اُس سے بارہ چشمے پھوٹ پڑ ے ہر قبیلہ کے لئے ایک چشمہ، نیزبادل کو ان کے سروں پر سایہ فگن کر دیا تاکہ خورشید کی حرارت وگرمی سے محفوظ رہیں ،شہد کے مانند شرینی اور پرندہ کا گوشت ان کے کھانے کے لئے فراہم کیا، پھر کچھ مسافت طے کرنے کے بعدان سے کہا گیا : اس شہر میں جو کہ تمہارے رو برو ہے سکونت اختیار کرو اور اس کے محصولات سے کھاؤ

۵۱

اور شہر کے دروازے سے داخل ہوتے وقت خدا کا شکر ادا کرو اور اس کا سجدہ ادا کرتے ہوئے کہو !''حطة'' یعنی خدا وندا ! ہمارے گناہوں کو بخش دے ستمگروں نے اس لفظ کو بدل ڈا لا اور ''حطة''کے بجائے''حنطة''کہنے لگے ،( ۱ ) یعنی ہم گندم ( گیہوں ) کے سراغ میں ہیں! خداوندعالم نے ان کے اس اعمال کے سبب آسمان سے عذاب نازل فرمایا۔

خدا وند عالم نے سورۂ نساء میں فرمایا: اے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ! تم سے اہل کتاب کی خوا ہش ہے کہ تم کوئی کتاب ان کے لئے آسمان سے نازل کرو،یہ لوگ تو اس سے پہلے بھی اس سے عظیم چیز کا حضرت موسیٰ سے مطالبہ کرچکے ہیں کہ خدا کو ہمیں آشکار اور کھلم کھلا دکھلادو تا کہ ہم اسے اپنی آنکھوں سے دیکھیں ! ہم نے ان کے گناہوں کو معاف کیااور کوِہ طور کو ان کے اوپر جگہ دی۔

اسرائیل(یعقوب) کی پسندیدہ اور مرغو ب ترین غذا دودھ ا وراونٹ کا گوشت تھی ، یعقوب ایک طرح کی بیماری میں مبتلا ہوئے اورخدا نے انھیں شفا بخشی ،تو انھوں نے بھی خدا وند عالم کے شکرانے کے طور پر محبوب ترین کھانے اور پینے کی چیزوں کو جیسے دودھ اور اونٹ کا گوشت وغیرہ کو اپنے اوپر حرام کر لیا اور اسی طرح انھوں نے جگر اور گردے کی مخصوص چربی نیز دیگر چربی کو بھی اپنے اوپر حرام کر لیا کیونکہ اس چربی کو ماضی میں قر بانی کے لئے لے جاتے تھے اور آگ اسے کھا جاتی تھی ۔( ۲ )

قوم یہود کا خدا سے جو عہد وپیمان تھا منجملہ ان کے ایک یہ تھا کہ جن کے مبعوث ہونے کی موسیٰ ابن عمران نے بشارت دی ہے یعنی حضرت عیسیٰ اور حضرت خاتم الا نبیاء محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بعثت،ان پر ایمان لائیں، اس بشارت کو اس سے پہلے ہم نے توریت کے سفر تثنیہ سے نقل کیا ہے۔

احکام کے بارے میں بھی انھوں نے عہد وپیمان کیا کہ شنبہ یعنی سنیچر کے دن تجاوز نہیں کریںگے ( کام کاج چھوڑ دیں گے ) خدا نے اس سلسلے میں محکم اور مضبوط عہد وپیمان لیا تھا،ان لوگوں نے خدا سے کئے ہوئے عہد وپیمان کو توڑ ڈالا اورآیات خدا وندی کا انکار کر گئے اور پاک وپاکیزہ خاتون مریم پر عظیم بہتان

____________________

(۱)آیت کی تفسیر کے ذیل میں بحارالا نوار اور مجمع البیان میں اسی طرح مذکور ہے

(۲ ) سیرئہ ابن ہشام ،طبع حجازی قاہرہ ، ج۲ ، ص ۱۶۸ ،۱۶۹ جو کچھ ہم نے متن میں ذکر کیا ہے تفسیر طبری اور سیوطی سے ماخوذ ہے میرے خیال میں جو کچھ سیرئہ ہشام میں ہے وہ متن میں مذکور عبارت سے زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے

۵۲

باندھا اور زبر دست الزام لگایا اسی لئے تو خدا وند عالم نے تادیب کے عنوان سے بہت سی پاکیزہ چیزوں کو جو ان پر حلال تھیں حرام کردیا اورجب وہ لوگ گوسالہ پرستی کرنے لگے تو انھیں حکم دیا کہ وہ اپنے آپ کو قتل کریں یعنی جس نے بھی گوسالہ پر ایمان نہیں رکھا گوسالہ پرستوں قتل کرے اسی طرح جب یہ لوگ خدا پر ایمان لانے سے مانع ہوئے اور سود کا معاملہ کرنے لگے اور سود کھانے لگے ، باوجود یکہ سود (ربا ) سے انھیں منع کیا گیا تھا تواُن پر حلال اورپاکیزہ چیزیں بھی حرام کردی گئیں۔

ان کی دوسری مخالفت اس پیمان کا توڑنا تھا جو انھوں نے خدا سے کیا تھا کہ شنبہ کے دن مچھلی کا شکار نہیں کریںگے اوراس کے لئے انھیں سخت تاکید کی گئی تھی ،سنیچر کے دن مچھلیاںساحل کے کنارے سطح آب پر آجاتی تھیں لیکن دیگر ایام میں ایسا نہیں کرتی تھیں اور یہ ان کا مخصوص امتحان تھا سنیچر کے دن چھٹی کرنا صرف اور صرف بنی اسرائیل سے مخصوص تھا ،وہی لوگ کہ جنھوں نے اس کے بارے میں اختلاف کیا، اس امتحان میں گرفتار ہوئے۔

خدا وندعالم سورۂ نساء میں فرماتا ہے:

اہل کتاب یہودی تم سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ان کے لئے آسمان سے کوئی کتاب نازل کرو،یہ لوگ تو اس سے پہلے بھی اس سے عظیم چیز کا حضرت موسیٰ سے مطالبہ کر چکے ہیںکہ خدا کو ہمیں آشکار اور کھلم کھلا دکھاؤ تا کہ ہم اسے اپنی آنکھوں سے دیکھیں ! ہم نے ان کے گنا ہوں کو معاف کیااور کوِہ طور کوان کے سروں پر لٹکادیا اوران سے سخت اور محکم عہد و پیمان لیا کہ جو کچھ موسیٰ ابن عمران ان کے لئے لائے ہیںاس پر ایمان لاکر عمل کریں گے ، ہمارے پیمان کا بعض حصّہ خدا کے پیغمبر بالخصوص حضرت عیسیٰ ابن مریم اورمحمد ابن عبد ﷲ پر ایمان لانا تھا ، لیکن ان لوگوں نے مریم عذرا پر نا روا تہمت لگائی اور توریت کے احکام کو کذب پر محمول کیا ، خدا کے نبیوں کا انکار کیا اور بہت سوں کو قتل کر ڈالا اور راہ خدا سے روکا ، سود لیا، لوگوں کے اموال کو ناجائز طور پر خورد و برد کیا تو ہم نے بھی ان تمام ظلم و ستم کے باعث ان پاکیزہ چیزوں کو جو اس سے پہلے ان کے لئے حلال تھیں حرام کردیا، ان پر حرام ہونے والی اشیاء میں سنیچر کے دن ساحل پر رہنے والوں کے لئے مچھلی کا شکار کرنا بھی تھا جہاں اس دن مچھلیاں آشکار طور پران سے نزدیک ہو جاتی تھیں اور خود نمائی کرتی تھیں۔

۵۳

بحث کا نتیجہ

خدا وندعالم نے بنی اسرائیل کو مصر کے ''فرعونیوں '' اور شام کے''عمالقہ'' اور اس عصر کی تمام ملتوں پر فضیلت اور برتری دی تھی بہت سے انبیاء جیسے موسیٰ ، ہارون ،عیسیٰ اور ان کے اوصیاء کوان کے درمیان مبعوث کیا اوراس سے بھی اہم یہ کہ توریت ان پر نازل کی ، ان سے سخت اور محکم پیمان لیا تا کہ جو کچھ ان کی کتابوں میں مذکور ہے اس پر عمل کریں ،''من وسلویٰ'' جیسی نعمت کا نزول ، پتھر سے ان کے لئے پانی کا چشمہ جاری کرنا وغیرہ وغیرہ نعمتوںسے سرفرازفرمایا، لیکن ان لوگوں نے تمام نعمتوں کے باوجودآیات الٰہی کا انکار کیا اور گوسالہ کے پجاری ہو گئے، سود لیا ،لوگوں کے اموال ناجائز طورپر کھائے اور اس کے علاوہ ہر طرح کی نافرمانی اور طغیانی کی، ایسے لوگوں کے اپنے آلودہ نفوس کی تربیت کی سخت ضرورت تھی اس لئے خدا وند عالم نے ان پر خود کو قتل کرنا واجب قرار دیا نیز سنیچر کے دن دنیاوی امور کی انجام دہی ان پر حرام کردی ،لیکن ان لوگوں نے سنیچر کے دن ترک عمل پر اختلاف کیا ، جیسا کہ اس ساحلی شہر کے لوگوں نے بھی اس سلسلے میں حیلے( ۱ ) اور بہانے سے کام لیا !خدا وندسبحان نے ان چیزوں کو جو کچھ اسرائیل نے اپنے او پر حرام کیا تھا(چربی ،اونٹ کا گوشت اور اس جیسی چیزوں کا کھا نا) ان کی جان کی حفاظت کی غرض سے ان پر بھی حرام کردیا، اس کے علاوہ چونکہ بنی اسرئیل ہمیشہ قبائلی اتحاد و یکجہتی اور اٹوٹ رشتہ کے محتاج تھے تا کہ ا ن سرکش وطاغی عمالقہ اور قبطیوں کا مقابلہ کر سکیں جو ان کو چاروں طرف سے اپنے محاصرہ میں لئے ہوئے تھے، لہٰذا خداوندعالم نے بھی قبل اس کے کہ ہیکلِ سلیمان نامی معروف مسجد کی تعمیر کریں،ان پر واجب قرار دیا کہ سب ایک ساتھ عبادت کے لئے '' خیمہ اجتماع'' کے پاس جمع ہوں اور اپنی دینی رسومات کو ہارون کے فرزند وں کی سر پرستی میں بجا لائیں جس طرح عیسیٰ ابن مریم کواور ان کی مادر گرامی مریم کو جو کہ حضرت داؤد کی نسل (جوبنی اسرائیل کے یہودا کی نسل )سے تھیںان کی طرف روانہ کیااور بعض وہ چیزیں جوان پر حرام تھیں حلال کر دیا ،جیسا کہ حضرت عیسیٰ کی زبانی سورۂ آل عمران میں ارشاد ہوتا ہے:

____________________

(۱) مادہ''سبت '' کے سلسلے میں کتاب قاموس کتاب مقدس ، تفسیر طبری ، ابن کثیر اور سیوطی ملاحظہ ہو ۔

۵۴

( اِنّی قد جئتکم بآية من ربّکم... و مصدقاً لما بین یدیّ من التوراة و لأحلّ لکم بعض الذی حرّم علیکم... ) ( ۱ )

میں تمہارے پر وردگار کی جانب سے تمہارے لئے ایک نشانی لایا ہوں اور جو کچھ مجھ سے پہلے توریت میں موجود تھااس کی تصدیق اور اثبات کرتا ہوں اورآیا ہوں تاکہ بعض وہ چیزیں جو تم پرحرا م کی گئی تھیں حلال کر دوں۔

جو کچھ ہم نے ذکر کیااس سے واضح ہو گیاکہ انبیاء بنی اسرائیل موسیٰ ابن عمران سے لے کر عیسیٰ ابن مریم تک بنی اسرائیل کی طرف مبعوث ہوئے ہیں ، نیز توریت میں بعض شرعی احکام بھی صرف بنی اسرائیل کی مصلحت کے لئے نازل ہوئے ہیں اس بنا پر ایسے احکام موقت یعنی وقتی ہوتے ہیںاور یہ ان چیزوں کے مانند ہیںجنہیں اسرائیل( یعقوب) نے خود اپنے اوپر حرا م کرلیا تھا لہٰذاان میں بعض کی مدت عیسیٰ ابن مریم کی بعثت سے تمام ہوگئی اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ا ُن محرمات میں سے کچھ کوان کے لئے حلال کر دیا اور کچھ باقی بچے ہوئے تھے جن کی مدت حضرت خاتم الانبیاء محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بعثت تک تھی وہ بھی تمام ہو گئی لہٰذاایسے میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آئے اور ان سب کی مدت تمام ہونے کو بیان فرمایا۔

خدا وند عالم اس موضوع کو سورۂ اعراف میں اس طرح بیان کرتا ہے :

( الذین یتبعون الرسول النّبی الأمیّ الذی یجدونه مکتوباً عندهم فی التوارة و الأنجیل یا مرهم با لمعروف و ینها هم عن المنکر ویحلّ لهم الطيّبات و یحرّم علیهم الخبائث و یضع عنهم أِصر هم و الأغلال التی کانت علیهم ) ( ۲ )

جو لوگ اس رسول نبی امی کا اتباع کرتے ہیںجس کے صفات توریت اور انجیل میں جو خود ان کے پاس موجود ہے ،لکھا ہوا ہے وہ لوگوں کو نیکی کا حکم دیتا ہے اور برائی اور منکر سے روکتا ہے، پاکیزہ چیزوں کوان کے لئے حلال اور ناپاک چیزوں کو حرام کرتا ہے اوران کے سنگین بار کو ان پر سے اٹھا دیا ہے اور جن زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے انھیں اس سے آزاد کردیتا ہے۔

'' اِصرھم'' :ان کے سنگین بوجھ یعنی وہ سخت تکالیف و احکام جوان کے ذمّہ تھے۔

نسخ کی یہ شان حضرت موسیٰ کی شریعت میں ان سے پہلے شرائع کی بنسبت تھی ، اسی طرح بعض وہ چیزیں

جو موسیٰ کی شریعت میں تھیں حضرت خاتم الانبیاء محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شریعت میں نسخ ہو گئیں۔

''نسخ''کی دوسری قسم یہ ہے کہ یہ نسخ صرف ایک پیغمبر کی شریعت میں واقع ہو تاہے ،جیسا کہ آگے آئے گا۔

____________________

(۱)آل عمران ۴۹۔ ۵۰

(۲)اعراف ۱۵۷

۵۵

ایک پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شریعت میں نسخ کے معنی

ایک پیغمبر کی شریعت میں نسخ کے معنی کی شناخت کے لئے ، اس کے کچھ نمونے جو حضرت خاتم الانبیاء کی شریعت میں واقع ہوئے ہیں بیان کررہے ہیں:

یہ نمونہ وجوب صدقہ کے نسخ ان لوگوں کے لئے تھا جو چاہتے تھے کہ پیغمبر سے نجویٰ اورراز ونیاز کی باتیں کریں ،جیسا کہ سورۂ ''مجادلہ ''میں ذکر ہوا ہے:

( یَاَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا ِذَا نَاجَیْتُمْ الرَّسُولَ فَقَدِّمُوا بَیْنَ یَدَیْ نَجْوَاکُمْ صَدَقَةً ذَلِکَ خَیْر لَکُمْ وََطْهَرُ فَِنْ لَمْ تَجِدُوا فَِنَّ ﷲ غَفُور رَحِیم (۱۲) ََشْفَقْتُمْ َنْ تُقَدِّمُوا بَیْنَ یَدَیْ نَجْوَاکُمْ صَدَقَاتٍ فَِذْ لَمْ تَفْعَلُوا وَتَابَ ﷲ عَلَیْکُمْ فََقِیمُوا الصَّلاَةَ وَآتُوا الزَّکَاةَ وََطِیعُوا ﷲ وَرَسُولَهُ وَﷲ خَبِیر بِمَا تَعْمَلُونَ (۱۳ ) ( ۱ )

اے صاحبان ایمان! جب رسول ﷲ سے نجویٰ کرنا چاہو تواس سے پہلے صدقہ دو ، یہ تمہارے لئے بہتر اور پاکیزہ ہے اور اگرصدقہ دینے کو تمھارے پاس کچھ نہ ہو تو خدا وندعالم بخشنے والا اور مہر بان ہے، کیا تم نجویٰ کرنے سے پہلے صدقہ دینے سے ڈرتے ہو ؟ اب جبکہ یہ کام تم نے انجام نہیں دیا اور خدا نے تمہاری توبہ قبول کر لی، تو نماز قائم کرو ، زکوة ادا کرو اور خدا و پیغمبر کی اطاعت کرو کیو نکہ تم جو کام انجام دیتے ہو اس سے خدا آگاہ اور باخبر ہے۔

اس داستان کی تفصیل تفاسیر میں اس طرح ہے:

بعض صحابہ حدسے زیا دہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نجویٰ کرتے تھے اور اس کام سے یہ ظاہر کرنا چاہتے تھے کہ وہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خاص الخاص اور نزدیک ترین افراد میں سے ہیں ،رسول اکرم کا کریمانہ اخلاق بھی ا یسا تھا کہ کسی ضرورتمند کی درخواست کو رد نہیں کرتے تھے ، یہ کام رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے بسا اوقات دشواری کا باعث بن جاتا تھااس کے باوجود آپ اس پر صبر وتحمل کرتے تھے ۔

____________________

(۱)مجادلہ ۱۲، ۱۳،( اس آیت کی تفسیر کے سلسلے میں تفسیر طبری اور دیگر روائی تفاسیر دیکھئے )

۵۶

اس بنا پر جو لوگ پیغمبر سے نجوی کرنا چاہتے تھے ان کے لئے صدقہ دینے کا حکم نازل ہوا پھر اس گروہ نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نجویٰ کرنا چھوڑ دیا لیکن حضرت امام علی بن ابی طالب نے ایک دینار کو دس درہم میں تبدیل کر کے دس مرتبہ صدقہ دے کر پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے اہم چیزوں کے بارے میں نجویٰ و سر گوشی فرمائی. اس ہدف کی تکمیل اور اس حکم کے ذریعہ اس گروہ کی تربیت کے بعد اس کی مدت تمام ہو گئی اور صدقہ دینے کا حکم منسوخ ہو گیا ( اٹھا لیا گیا)۔

نسخ کی بحث کا خلاصہ اوراس کا نتیجہ

جمعہ کا دن حضرت آدم سے لیکر انبیاء بنی اسرائیل کے زمانے تک یعنی موسیٰ ابن عمران سے عیسیٰ بن مریم تک بنی آدم کے لئے ایک مبارک اور آرام کا دن تھا۔

اسی طرح حضرت آدم اوران کے بعد حضرت ابراہیم کے زمانے تک سارے پیغمبروں نے منا سک حج انجام دئے ، میدان عرفات ،مشعر اور منیٰ گئے اور خانہ کعبہ کا سات بار طواف کیا ، اس کے بعد حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل نے خانہ کعبہ کی تعمیر کی اس کے بعد اپنے تا بعین اور ماننے والوں کے ہمراہ حج میں خانہ کعبہ کا طواف کیا۔

حضرت نوح نے بھی حضرت آدم کے بعدان کی شریعت کی تجدید کی اور حضرت خاتم الا نبیاءصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شریعت کے مانند شریعت پیش کی اوران کے بعد تمام انبیاء نے ا ن کی پیروی کی کیو نکہ خدا وند متعال فرماتا ہے:

۱۔( شرع لکم من الد ین ما وصّیٰ به نوحاً ) ...)(۱ )

تمہارے لئے وہ دین مقرر کیا ہے جس کا نوح کو حکم دیا تھا ۔

۲۔( و ِأن من شیعة لأِبراهیم )

ابراہیم ان کے پیروکاروں اور شیعوں میں تھے۔( ۲ )

۳۔ خاتم الانبیاءصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ان کی امت سے بھی فرماتا ہے:

الف۔( اتبع ملّة ابراهیم حنیفاً )

ابراہیم کے خالص اور محکم دین کا اتباع کرو۔

ب ۔( فاتّبعوا ملّة أِبراهیم حنیفاً )

____________________

(۱)شوری ۱۳(۲)،صافات ۸۳

۵۷

پھر ابراہیم کے خالص اور محکم و استوار دین کا اتباع کرو۔( ۱ )

اس لحاظ سے رسولوں کی شریعتیں حضرت آدم کے انتخاب سے لے کر حضرت خاتمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چناؤ اور انتخاب تک یکساں ہیں مگر جو کچھ انبیاء بنی اسرائیل کی ارسالی شریعت میں موسیٰ ابن عمران سے عیسیٰ بن مریم تک وجود میں آیااس میں خاص کر اس قوم کی مصلحت کا لحاظ کیا گیا تھا، خدا وند عالم ان کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے:

۱۔( کلّ الطّعام کان حلاً لبنی أسرائیل اِلاّ حرّم اِسرائیل علیٰ نفسه ) ( ۲ )

کھا نے کی تمام چیزیں بنی اسرائیل کے لئے حلال تھیں ، بجزاس کے جسے اسرائیل نے اپنے اوپر حرام کر لیا تھا۔

۲۔( و علیٰ الذین هادوا حر منا ما قصصنا علیک من قبل ) ( ۳ )

اور اس سے پہلے جس کی تم سے ہم نے شرح و تفصیل بیان کی وہ سب ہم نے قوم یہود پر حرام کردیا۔

۳۔( اِنّما جعل السبت علیٰ الذین اختلفوا فیه ) ( ۴ )

سنیچر کے دن کی تعطیل صر ف ان لوگوں کے لئے ہے جنھوں نے اس کے بارے میں اختلاف کیا ہے۔

توریت کے سفر تثنیہ کے ۳۳ ویں باب کے چوتھے حصّہ میں بھی صراحت کے ساتھ ذکر ہوا ہے:''موسیٰ نے ہمیں با لخصوص اولاد یعقوب کی شریعت کا حکم دیا ہے''

اس تغییر کی بھی حکمت یہ تھی کہ بنی اسرائیل ایک ہٹ دھرم ،ضدی ، جھگڑالواور کینہپرور قوم تھی اس قوم کے لوگ اپنے انبیاء سے عداوت و دشمنی کرتے اور نفس امارہ کی پیروی کرتے تھے اور دشمنوں کے مقابلہ میں سستی ،بے چار گی اور زبوں حالی کا مظاہرہ کرتے ، یہ لوگ اس کے بعد کہ خدا نے ان کے لئے دریا میں راستہ بنایا اور فرعون کی غلامی جیسی ذلت و رسوا ئی سے نجات دی ، گوسالہ پرست ہو گئے اور مقدس سر زمین جسے خدا نے ان کے لئے مہّیا کیا تھا ،عمالقہ کے ساتھ مقابلہ کی دہشت سے اس میں داخل ہو نے سے انکار کر گئے؛ اس طرح کی امت کے نفوس کی از سر نو تربیت اور تطہیرکے لئے شریعت میں ایک قسم کی سختی درکار تھی لہٰذا وہ مومنین جو خود گوسالہ پرست نہیں تھے انہیںگوسالہ پرست مرتدین کو قتل کر ڈالنے کا حکم دیا گیا ، نیزان پر سنیچر کے دن کام کرنا حرام کر دیا گیااور انھیںصحرائے سینا میں چالیس سال تک حیران و سر گرداں بھی رہنا ہڑا۔

____________________

(۱)آل عمران۹۵(۲)آل عمران ۹۳ (۳)نحل ۱۱۸ (۴)نحل ۱۲۴

۵۸

دوسری طرف ، اس لحاظ سے کہ وہ اپنے زمانہ کے تنہا مومن تھے اور ان کے گرد ونواح کا ،تجاوز گر کافروں اور طاقتور ملتوں نے احاطہ کر رکھا تھا لہٰذا انھیں آپس میں قوی و محکم ارتباط و اتحاد کی شدید ضرورت تھی تا کہ اپنے کمزوریوں کی تلافی کرتے ہوئے ایک دوسرے کی مدد کریں اور دوسروں سے خود کو جدا کرتے ہوئے اپنی مستقل شناخت بنا ئیں اور اپنے درمیان اتحاد و اتفاق قائم رکھیں ، لہٰذا خداوند عالم نے ان ا ہداف تک پہنچنے کے لئے ان کے لئے ایک مخصوص قبلہ معین فرمایا ،جس میں وہ تابوت رکھا تھا کہ جس میں الواح توریت ، ان سے مخصوص کتاب شریعت اورآل موسیٰ اور ہارون کاتمام ترکہ تھا ۔( ۱ ) نیز بہت سے دیگر قوانین جو ان کے زمان ومکان کے حالات اور ان کی خاص ظرفیت کے مطابق تھے ان کے لئے نازل فرمائے ۔

حضرت عیسی بن مریم کے زمانہ میں بعض حالات کے نہ ہو نے کی وجہ سے ان میں سے بعض قوانین ختم ہوگئے اور عیسیٰ نے ان میں سے بعض محرمات کو خدا کے حکم سے حلال کر دیا ۔

حضرت خاتم الانبیاء کے زمانہ میں بنی اسرائیل شہروں میں پھیل گئے اور تمام لوگوں کے ساتھ مل جل کر رہنے لگے ، وہ لوگ جن ملتوں کے درمیان زندگی گزار رہے تھے اس بات سے کہ ان کی حقیقت جدا ہے اور دوسرے لوگ یہ درک کر لیں کہ یہ لوگ ان لوگوں کی جنس سے نہیں ہیں اور ان کارہن و سہن پڑوسیوں اور دیگر ہم شہریوں سے الگ تھلگ ہے ، وہ لوگ آزردہ خاطر رہتے تھے خاص کر شہر والے اسرائیلیوں کو اپنوں میں شمار نہیں کرتے تھے اورانھیں ایک متحد سماج و معاشرہ کے لئے مشکل ساز اور بلوائی سمجھتے تھے، اسی لئے جو احکام انھیں دیگر امتوں سے جدا اور ممتاز کرتے تھے ا ن کے لئے وبال جان ہو گئے سنیچر کے دن کی تعطیل جیسے امور جو کہ تمام امتوں کے بر خلاف تھے ا ن کے لئے بار ہو گئے جیسا کہ سفر تثنیہ میں اس کی تفصیل گزر چکی ہے ۔

حضرت خاتم الانبیاء محمد ابن عبد ﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خدا وند عالم کے حکم سے ان کی مشکل بر طرف کر دی اور گزشتہ زمانوں میں جو چیزیںان پر حرام ہو گئی تھیںان سب کو حلال کر دیا ، خدا وندعالم نے سورۂ اعراف میں ارشاد فرمایا :

( الذین یتبعون الرسول النبّی الأمّی الذی یجدونه مکتوباً عندهم فی التوراة و الأنجیل یأمرهم بالمعروف وینها هم عن المنکر ویحلّ لهم الطيّبا ت و یحرّم علیهم الخبائث و یضع عنهم أِصر هم والأغلال الّتی کا نت علیهم ) ( ۲ )

____________________

(۱) سورئہ بقرہ ۲۸۴

(۲)اعراف۱۵۷

۵۹

وہ لوگ جو اس رسول نبی امی کی پیروی کرتے ہیںجس کے صفات اپنے پاس موجود توریت و انجیل میں لکھا ہواپاتے ہیں وہ پیغمبران لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہوئے منکر اور برائیوں سے روکتا ہے پاکیزہ چیزوں کوان کے لئے حلال اور گند گیوں اورنا پاک چیزوں کو حرام کرتاہے؛ اور ان کے سنگین باران سے اٹھا تے ہوئے ان کی گردن میں پڑی زنجیر کھول دیتا ہے ۔

خدا وندعالم نے اس طرح سے ان احکام کو جو گزشتہ زمانوں میں ان کے فائد ہ کیلئے تھے اور بعد کے زمانے میں جب یہ لوگ عالمی سطح پر دوسرے لوگوں سے مخلوط ہو تے تو یہی احکام ان کے لئے وبال جان بن گئے ، خدا نے ایسے احکام کوان کی گردن سے اٹھا لیا ، لیکن جو احکام حضرت موسیٰ ابن عمران کی شریعت میں تمام لوگوںکے لئے تھے اور بنی اسرائیل بھی انھیں میں سے تھے نہ وہ احکام اٹھا ئے گئے اور نہ ہی نسخ ہوئے جیسے کہ توریت میں قصاص کا حکم، خدا وندعالم سورۂ مائدہ میں اس کی خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے:

( اِنّا انزلناالتوراة فیها هدیً و نور یحکم بها النبيّون الذین أسلموا للذین هادوا...) (و کتبنا علیهم فیها أنّ النفس با لنفس و العین با لعین والأنف بالأنف و الاذن بالاذن و السّن با لسّن و الجروح قصاص فمن تصدّق به فهو کفّارة له و من لم یحکم بما انزل ﷲ فأولائک هم الظالمون ) ( ۱ )

ہم نے توریت نازل کی کہ جس میں ہدایت اور نورہے ، خدا کے سامنے سراپا تسلیم پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسی سے یہود کے درمیان حکم دیاکرتے تھے اوران پر ا س(توریت) میں ہم نے یہ معین کیا کہ جان کے بدلے جان ،آنکھ کے بدلے آنکھ، ناک کے بدلے ناک، کان کے عوض کان ،دانت کے عوض دانت ہو اور ہر زخم قصاص رکھتا ہے اور جوقصاص نہ کرے یعنی معاف کردے تو یہ اس کے ( گناہوں )کے لئے کفارہ ہے اور جو کوئی خدا کے نازل کردہ حکم کے مطابق حکم نہ کرے تو وہ ظالم و ستمگر ہے۔

جس حکم قصاص کا یہاں تذکرہ ہے توریت سے پہلے اور اس کے بعد آج تک اس کا سلسلہ جاری ہے،وہ تمام احکام جن کو خدانے انسان کے لئے اس حیثیت سے کہ وہ انسان ہیں مقرر و معین فرمایا ہے وہ کسی بھی انبیاء کے زمانے اور شریعتوں میں تبدیل نہیں ہوئے ۔

____________________

(۱)مائدہ ۴۴ ،۴۵

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

۶ _ آدم(ع) و حوا(ع) كے زمين پر اتر نے كا لازمہ پورى نسل انسانى كو اس ميں باقى ركھنا ہے_قال اهبطا بعضكم لبعض عدو فإما يأتينكم ''بعضكم'' اور ''يا تينكم'' كى جمع كى ضميرويں اس نكتے كو بيان كررہى ہيں كہ ہبوط والے حكم كے صادر ہونے كے وقت زمين ميں انسانى زندگى كا مسلسل ہونا قطعى تھا_

۷ _ زمين ميں انسان كى زندگى ہميشہ انسانوں كى آپس ميں دشمنى اور مخالفت كے ہمراہ رہى ہے_اهبطا منها جميعاًبعضكم لبعض عدو ''بعضكم لبعض عدو'' كے بارے ميں دو نظر ہيں ۱_ اس سے مراد شياطين كى انسانوں كے ساتھ دشمنى ہے اس نظريے كے مطابق ''اہبطا'' ابليس اور آدم(ع) كو خطاب ہوگا ۲_ اس سے مراد انسانوں كى آپس كى دشمنى ہے اس نظريہ كى بنياد يہ ہے كہ ''اہبطا'' كے مخاطب آدم(ع) و حوا ہيں _ دونوں صورتوں ميں آدم(ع) اور حوا و ابليس كو مخاطب بنانا انكى اولاد كے لحاظ سے ہوگا _مذكورہ مطلب دوسرے نظريے كى بنياد پر ہے_

۸ _ انسان اور شيطان ايسے دشمن ہيں كہ جن ميں صلح كا امكان نہيں ہے_اهبطا بعضكم لبعض عدو

مذكورہ مطلب ميں ''اہبطا'' آدم(ع) اور ابليس كو خطاب ہے _

۹ _ حضرت آدم(ع) كى بہشت ايسى جگہ تھى كہ جس ميں صلح و آشتى ، اور مكمل ضروريات كى فراہمى تھى اور اسكے باسيوں كے درميان دشمنى نہيں تھى _إن لك ألاّ تجوع اهبطا بعضكم لبعض عدو

چونكہ افراد بشر كى آپس ميں دشمنى كا موضوع، سزا اور ہبوط كے عنوان سے ذكر كيا گيا ہے اس سے لگتا ہے كہ حضرت آدم(ع) كے پہلے گھر (بہشت) ميں يہ چيز نہيں تھى اور ضروريات كى فراہمى كى وجہ سے اس ميں دشمنى كا پيش خيمہ ہى نہيں تھا _

۱۰ _ خداتعالى نے زمين پر انسان كے اترنے كے آغاز سے ہى اسكى زندگى كيلئے رہنمائي اور منصوبہ بندى كرركھى تھي_اهبطا منها فإما ياتينكم منّى هديً ''إما ياتينّكم'' ميں مخاطب صرف انسان ہيں (اگرچہ ''اہبطا'' كے مخاطب آدم(ع) اورو ابليس ہيں ) كيونكہ شياطين كى گمراہى كے حتمى ہونے كے بعد انہيں ہدايت دينا بے سود ہے_

۱۱ _ انسان كو ہدايت سے بہرہ مند كرنا انسان كے پہلے افراد كو خداتعالى كى بشارت _اهبطا فإما ياتينكم منى هديً

''إما ياتينكم'' دو تاكيدوں پر مشتمل ہے_ ۱_''امّا'' (ان ما) ميں مازائدہ _۲_ نون تاكيد اس طرح عبارت كا معنى يہ ہے كہ اگر ميرى طرف سے تمہارے پاس ہدايت آئي_ كہ جو يقينا آئيگي

۲۴۱

۱۲ _ آدم(ع) و حوا(ع) كے ممنوعہ درخت سے كھانے كى وجہ سے انسانوں ميں دشمنى پيدا ہونے كے اسباب فراہم ہوئے _فأكلا بعضكم لبعض عدو

۱۳ _ خداتعالى نے افراد بشر كى آپس كى دشمنى كے بارے ميں آدم(ع) و حوا(ع) كو مطلع كرديا اور انہيں اسكے نتائج سے بچنے كا راستہ بھى دكھا ديا تھا_بعضكم لبعض عدو فمن إتبع هداى فلا يضل و لا يشقى

۱۴ _ خدا تعالى كى ہدايات كى پيروى انسان كو زمين پر رہنے والوں كى باہمى كشمكش اوردشمنى كے برے انجام سے بچاتى ہے _بعضكم لبعض عدو فإما ياتينكم منى هديً

۱۵ _ انسان ہدايت يا گمراہى كے راستے كے انتخاب كے سلسلے ميں با اختيار ہے_فاما ياتينكم منى هديً فمن اتبع هداي

۱۶ _ ہدايت الہى كى پيروى گمراہى اور بدبختى سے مانع ہے_فمن اتّبع هداى فلا يضل و لايشقى

۱۷ _ ہدايات الہى سے روگردانى انسان كى گمراہى اوراسكے رنج و الم ميں گرفتار ہونے كا سبب ہے_فمن اتبع هداى فلا يضل و لا يشقى '' شقاوت'' كا معنى ہے سختى اور دشوارى (قاموس) اور بعد والى آيت قرينہ ہے كہ اس سے مراد زندگى كا دباؤ اور مشكلات ہيں _

۱۸ _ انسان، غلطيوں سے بچنے اور خوش بختى تك پہنچنے كيلئے ہدايت الہى كا محتاج ہے_فمن اتّبع هداى فلا يضل و لا يشقى

آدم (ع) :انكے دھوكہ كھانے كے اثرات ۳; يہ اور ممنوعہ درخت ۱، ۳، ۱۲; انہيں بہشت سے نكالنا ۲، ۳; انكى بہشت ميں امن ۹; انكو بشارت ۱۱; انكى بہشت ميں ضروريات كى فراہمى ۹; انكى بہشت سے نكالنے كا پيش خيمہ ۴; انكے ہبوط كا پيش خيمہ ۴; انكى بہشت ميں صلح ۹; انكى محروميت كے عوامل ۱; انكى بہشت سے محروميت كے عوامل ۱; انكے ہبوط كے عوامل ۳; انكے ھبوط كا فلسفہ ۶; انكا قصہ ۱، ۲; انكا معلم ۱۳; انكى بہشت كى خصوصيات ۹

اطاعت:خداتعالى كى اطاعت كے اثرات ۱۴، ۱۶

انسان:اس كا اختيار ۱۵; زمين ميں اسكى نسل كى بقا۶; اسكے دشمن ۸; اس كى دشمني۷، ۱۳; اس كى دشمنى كا پيش

۲۴۲

خيمہ ۱۲; اسكے انحطاط كے عوامل ۵; اسكى نجات كے عوامل ۱۴; اسكى معنوى ضروريات ۱۸; اسكى ہدايت ۱۰

بشارت:ہدايت كى بشارت ۱۱

جبر و اختيار ۱۵

حوا(ع) :انكے دھوكہ كھانے كے اثرات ۳; يہ اور ممنوعہ درخت ۱، ۳، ۱۲; ان كے ھبوط كا پيش خيمہ ۴; انكى محروميت كے عوامل ۱; ان كے ھبوط كے عوامل ۳; ان كے ھبوط كا فلسفہ ۶; انكا معلم ۱۳

خداتعالى :اسكى بشارتيں ۱۱; اسكى تعليمات ۱۳; اسكى راہنمائي ۱۰; اسكى ہدايات ۱۱، ۱۸

ممنوعہ درخت:اس سے كھانے كے اثرات ۱، ۱۲

دشمني:اس سے نجات كے عوامل ۱۴; اس سے نجات ۱۳

زمين:اس ميں دشمنى ۷

سختى :اسكے عوامل ۱۷

سعادت:اسكے عوامل ۱۸

شخصيت:اسكى آسيب شناسى ۵

شقاوت:اسكے موانع ۱۶

شيطان:اسكے دھوكہ دينے كے اثرات ۲، ۴; اسكے وسوسوں كے اثرات ۳، ۴; اسے نكال باہر كرنا ۲; اسكى دشمنى ۸; اس كا نقش و كردار ۴; اس كا ہبوط ۲

نافرماني:خداتعالى كى نافرمانى كے اثرات ۵،۱۷

گمراہي:اس كا پيش خيمہ ۱۵; اسكے عوامل ۱۷، اس كے موانع ۱۶

ضروريات:ہدايت الہى كى ضرورت ۱۸

ہدايت:اس كا پيش خيمہ ۱۵

۲۴۳

آیت ۱۲۴

( وَمَنْ أَعْرَضَ عَن ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنكاً وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَى )

اور جو ميرے ذكر سے اعراض كرے گا اس كے لئے زندگى كى تنگى بھى ہے اور ہم اسے قيامت كے دن اندھا بھى محشور كريں گے (۱۲۴)

۱ _ہدايت الہى اور اسكى ياد سے روگردانى لئے انسان كے لئے سخت اور مشكلات سے پر زندگى ميں گرفتار ہونے كا سبب ہے_من اتبع هداى و من أعرض عن ذكرى فإن له معيشة ضنك

''معيشة'' يا تو مصدر ميمى ہے اور يا ''ما يعاش بہ'' كے معنى ميں ہے يعنى وہ چيز جسكے ساتھ زندگى گزرتى ہے '' ضنك'' كا معنى ہے تنگى اور سختى (لسان العرب)

۲ _ ہدايت الہى كى پيروى اور خدا كى ياد ميں رہنا زندگى كى آسانى اور مشكلات كے دور ہونے كا سبب ہے_

من اتبع هداي لا يشقى _ و من أعرض عن ذكرى فإن له معيشة ضنك

۳ _ الہى تفكر اور ہدايات كو مدنظر ركھے بغير دنياوى زندگي ايك تنگ اور محدود زندگى ہے_و من أعرض عن ذكرى فان له معيشة ضنك جس طرح خداتعالى نے ديگر آيات ميں دنياوى زندگى كو''متاع قليل'' قرار ديا ہے ممكن ہے اس آيت ميں بھى دنياوى زندگى كو ''تنگ'' زندگى كے طور پر متعارف كرايا ہو يعنى دنيا ہر حد و اندازے اور ہر مقدار ميں اگر ہدايت سے خالى ہو تو يہ ''تنگ زندگي'' كے سوا كچھ نہيں ہوگى كيونكہ بلا مقصد اور آخرت پر اعتقاد كے بغير زندگى تھكا دينے والي، روزمرہ كا تكرار اور فضول زحمت ہے_

۴ _ہدايت الہى كى پيروى اور اسكى طرف توجہ ياد خدا كا جلوہ ہے_من اتبع هداي و من أعرض عن ذكري

اس آيت ميں ''من ا عرض'' سابقہ آيت ميں ''من اتبع'' كے مقابلے ميں ہے مقابلے كا تقاضا يہ تھا كہ فرماتا'' و من لم يتبع هداي'' ليكن اس كے بجائے فرمايا ہے ''و من أعرض عن ذكري'' اس انتخاب كى وجہ يا تو ہدايت ميں ذكر خدا كا كردار ہے اور يا ذكر و ہدايت كا ايك ہوناہے_

۵ _ ہدايت الہى اور ياد خدا سے روگردانى كرنے والے ميدان قيامت ميں اندھے محشور ہوں گے_

و من أعرض عن ذكري و نحشره يوم القيامة ا عمى

۲۴۴

۶ _ ہدايت الہى اور ہميشہ خدا كى ياد ميں رہنا زندگى ميں بصيرت كا سبب ہے _و من أعرض عن ذكرى و نحشره يوم القيامة ا عمى گمراہ لوگوں كا اندھا محشور ہونا دنيا ميں ان كے ہدايت كو ديكھنے اور پانے سے اندھا ہونے كا نتيجہ ہے_ اس خاص سزا سے يہ نتيجہ ليا جاسكتا ہے كہ ہدايت، زندگى كى راہ ميں بصيرت كا سبب ہے_

۷ _ قيامت كے دن حقائق واضح ہوجائيں گے_و نحشره يوم القيامة اعمى

۸ _ قيامت انسانوں كو جمع كرنے اور ان كو حاضر كرنے كا دن ہے _و نحشره يوم القى مة

''حشر'' كا معنى ہے جمع كرنا كہ جس كے ہمراہ پيچھے سے چلانا اور ہانكنا ہو (مقاييس اللغة) يہ كلمہ صرف گروہ كے بارے ميں استعمال ہوتا ہے (مفردات راغب) اور آيت كريمہ ميں ضمائر اگر چہ مفرد كى استعمال كى گئي ہيں ليكن چونكہ ياد خدا سے غافل سب لوگوں كا انجام يہى ہوگا اس لئے ''حشر''كو در حقيقت گروہ كى طرف نسبت دى گئي ہے_

۹ _ قيامت كو برپا كرنا اور اس ميں ياد خدا سے غافل لوگوں كو حاضر كرنا خداتعالى كے اختيار ميں ہے اوروہ اسكے ارادے سے مربوط ہے_و نحشره يوم القيامة اعمى

۱۰ _ مشكل زندگى ياد خدا سے غافل ہونے كا فطرى اثر اور روز قيامت نابينائي اسكى الہى سزا ہے_فإن له معيشة ضنكاً و نحشره يوم القيامة اعمى ''فإن له ...'' اور''نحشره ...'' كى تعبيروں ميں فرق كہ دوسرى كو خداتعالى كى طرف نسبت دى گئي ہے اور پہلى خود عمل پر متفرع ہوئي ہے ممكن ہے مذكورہ مطلب كى طرف اشارہ ہو_

۱۱ _ دنيا ميں سخت زندگى اور قيامت ميں نابينا محشور ہونا انسان كى گمراہى اور بدبختى كے جلوے ہيں _

فمن اتبع هداى فلا يضل و لا يشقى _ و من أعرض عن ذكرى فإن له معيشة ضنكاً و نحشره يوم القيامة ا عمى

مذكورہ مطلب ہدايت يافتہ اور غافلين كے گروہوں كے درميان تقابل كا لازمہ ہے كہ جسے دو آيتيں مجموعى طور پر بيان كر رہى ہيں _

۱۲ _'' عن ا مير المؤمنين (ع) : و إن المعيشة الضنك التى حذر الله منها عدوه ه عذاب القبر، انّه يسلط على الكافر فى قبره تسعة و تسعين تنينا فينهشن لحمه و يكسرن عظمه و يترددن عليه كذلك إلى يوم يبعث ; اميرالمؤمنين(ع) سے روايت كى گئي ہے''معيشة ضنك'' كہ جس سے خداتعالى نے اپنے دشمنوں كو ڈرايا ہے عذاب قبر ہے

۲۴۵

خداتعالى كافر پر اسكى قبر ميں ۹۹ سانپ مسلط كرتا ہے كو جو اسكے گوشت كو ڈستے ہيں اور اسكى ہڈى كو توڑتے ہيں اور اسى طرح اس پر آتے جاتے رہتے ہيں اس دن تك كہ اسے اٹھايا جائے _(۱)

۱۳ _'' معاوية بن عمار عن ا بى عبدالله (ع) قال: سا لته عن رجل لم يحج قط و له مال قال: هو ممّن قال الله : '' و نحشره يوم القيامة ا عمى '' قلت : سبحان الله ا عمي؟ قال: ا عماه الله عن طريق الجنة; معاويہ بن عمار كہتے ہيں ميں نے امام صادق(ع) سے اس شخص كے بارے ميں سوال كيا جسكے پاس مال تھا ليكن اس نے حج نہ كيا تو آپ (ع) نے فرمايا يہ ان لوگوں ميں سے ہے جنكے بارے ميں خداتعالى نے فرمايا ہے '' و نحشرہ يوم القيامة ا عمى '' ميں نے كہا سبحان الله نابينا؟ فرمايا خداتعالى نے اسے بہشت كا راستہ (ديكھنے) سے نابينا كرديا ہے(۲) _

اطاعت:خدا كى اطاعت كے اثرات ۲، ۴

انسان:اس كا محشور ہونا ۸; اسكى شقاوت كى نشانياں ۱۱; اسكى گمراہى كى نشانياں ۱۱

بصيرت:اسكے عوامل ۶

حج:تاركين حج قيامت ميں ۱۳; تاركين حج كا آخرت ميں اندہھاپن ۱۳

خداتعالى :اس سے روگردانى كے اثرات ۱۰; اسكى ہدايت كے اثرات ۳، ۶; اس كا ارادہ ۹; اسكے افعال ۹; اس سے غفلت كرنے والوں كا آخرت ميں اندھاپن ۱۰; اس سے روگردانى كى سزا ۱۰

ذكر:ذكر خدا كے اثرات ۲،۶; ذكر خدا كى نشانياں ۴

روايت: ۱۲، ۱۳

زندگي:اسكى سختى ۱۱; اسے آسان كرنے كے عوامل۱; اسكى سختى كے عوامل ۱، ۳، ۱۰; سخت زندگى سے مراد ۱۲

سختي:اسے دور كرنے كے عوامل ۲

نافرماني:خدا كى نافرمانى كے ا ثرات ۱

غافلين:ان كا آخرت ميں اندھاپن۵; ان كے محشورہونا كا سرچشمہ ۹

غفلت:خدا سے غفلت كے اثرات ۱/قيامت:

____________________

۱ ) امالى شيخ طوسى ج۱، ص۲۷; تفسير برہان ج۳، ص ۴۸، ح۹_ ۲ ) تفسير قمى ج۲، ص ۶۶_ نورالثقلين ج۳، ص ۴۰۶، ح ۱۷۳_

۲۴۶

اس ميں حقائق كا ظہور۷; اس ميں اندھاہونے كے عوامل ۱۰; اس ميں اندھا ہونا۱۱; اس ميں محشور ہونے كا سرچشمہ ۹

كفار:انكا عذاب قبر ۱۲

گمراہ لوگ:ان كا آخرت ميں اندھاپن ۵

خدا سے اعراض كرنے والے:ان كا آخرت ميں اندھاپن ۵، ۱۰

آیت ۱۲۵

( قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِي أَعْمَى وَقَدْ كُنتُ بَصِيراً )

وہ كہے گا كہ پروردگار يہ تونے مجھے اندھا كيوں محشور كيا ہے جب كہ ميں دار دنيا ميں صاحب بصارت تھا (۱۲۵)

۱ _ ہدايت اور ياد الہى سے روگردانى كرنے والے روز قيامت نابينا محشور ہوں گے _قال رب لم حشرتنى أعمى

۲ _ ياد خدا سے غافل لوگ روز قيامت تعجب كے ساتھ اور شكايت كے انداز ميں خداتعالى سے اپنے اندھے ين كى علت كے بارے ميں سوال كريں گے_قال رب لم حشرتنى أعمى

۳ _ ياد خدا سے غافل لوگ روز قيامت محشور ہونے كے بعد اپنى نجات كے راستے كى شناخت سے ناتوان ہوں گے_ *

قال رب لم حشرتنى أعمى ممكن ہے اندھے پن سے مراد قيامت كے ماحول اور اسكى مشكلات سے نجات كا راستہ پانے سے آگاہ نہ ہونا ہو اس بناپر ''قد كنت بصيراً'' كہنے والے اپنے آپ كو اس طرح سمجھتے ہيں كہ جو دنيا ميں سب چيزوں كو خوب سمجھتے تھے اور عميق فكر ركھتے تھے_

۴ _ روز قيامت انسان كو خداتعالى سے سوال پوچھنے كى اجازت ہے _قال رب لم حشرتنى أعمى

''قال'' كے ظاہر سے يوں لگتا ہے كہ يہ سوال لفظوں ميں ہوگا اور نابيناؤں كى طرف سے روز قيامت كيا جائيگا _

۵ _ قيامت كے دن انسان اپنے نقائص كو درك اور محسوس كريگا _قال رب لم حشرتنى أعمى

۶ _ ياد خدا سے اعراض كرنے والے ميدان قيامت ميں

۲۴۷

حاضر ہوكر خداتعالى كى ربوبيت كا اعتراف كريں گے _قال رب

۷ _ بصيرت و بينائي كو عطا كرنا اور اس كا چھيں لينا خداتعالى كى ربوبيت كے جلوے ہيں _قال رب لم حشرتنى أعمى

۸ _ حاضرين قيامت خداتعالى كو انسانوں كا محشور كرنے والا او رفہم و درك كى قوتوں كا اختيار ركھنے والا سمجھتے ہيں _

لم حشرتنى أعمى

۹ _ ياد خدا سے غافل لوگ قيامت ميں حاضر ہونے كے وقت اپنى دنياوى زندگى كو ہوشمندانہ قرار ديكر فہم و درك كے راستے كے بند ہونے سے تعجب كريں گے_*قال رب لم حشرتنى أعمى و قد كنت بصيرا

مذكورہ مطلب بالا اس بنا پر ہے كہ ''ا عمى '' سے مراد''دل كا اندھا'' ہو_

۱۰ _ قيامت كے دن انسان دنيا ميں زندگى كے حالات اور اس ميں اپنى جسمانى خصوصيات سے آگاہ ہوگا_

قال رب لم حشرتنى أعمى و قد كنت بصير

۱۱ _ حاضرين قيامت كى نظر ميں ضرورى ہے كہ انسان كا وہاں كا جسم اسكے دنياوى بدن جيسا ہو _لم حشرتنى أعمى و قد كنت بصير

۱۲ _ روز قيامت انسان كا محشور ہونا جسمانى خصوصيات كے ہمراہ ہوگا _قال رب لم حشرتنى أعمى و قد كنت بصير

۱۳ _ ہدايت الہى كى پيروى روز قيامت بصيرت اور بينائي كا سبب ہے _فمن اتبع هداي و من اعرض لم حشرتنى أعمى

۱۴ _ خدا سے غفلت كے ہوتے ہوئے گہرى فكر بھى در حقيقت اندھاپن اور بے بصيرتى ہے_لم حشرتنى أعمى و قد كنت بصير قيامت ميں اندھاپن دنيا ميں انسان كى حقيقت كا جلوہ ہے يعنى اگر چہ وہ اپنے آپ كو با بصيرت سمجھتا ہے ليكن در حقيقت بصيرت سے عارى ہے_

اطاعت:خدا كى اطاعت كے اثرات ۱۳

اقرار:ربوبيت خدا كا اقرار ۶/اندھاپن:اس كا سرچشمہ ۷

انسان:اسكى اخروى سوچ ۸، ۱۱; اس كا اخروى تنبہ ۱۰; اسكے محشورہونے كا سرچشمہ ۸; اسكے درك كا سرچشمہ ۸; اسكے محشور ہونے كى خصوصيات ۱۲

بصيرت:اخروى بصيرت كے عوامل ۱۳; اس كا سرچشمہ ۷

۲۴۸

خداتعالى :اسكے افعال ۸; اس سے سوال ۲، ۴; اسكى ربوبيت كى نشانياں ۷

خدا سے اعراض كرنے والے:انكا اخروى اقرار ۶; انكا اخروى تعجب ۹; انكا محشور ہونا۱، ۳; انكا عجز ۳; انكا اخروى اندھاپن ۱; انكى دنيوى ہوشيارى ۹

غافلين:انكا اخروى اقرار۶; انكا اخروى سوال ۲; انكا اخروى تعجب ۲، ۹; انكا محشور ہونا ۳; انكا عجز ۳; انكا اخروى اندھاپن ۱، ۲; انكا اندھاپن ۱۴; انكا اخروى گلہ ۲

غفلت:خداتعالى سے غفلت كے اثرات ۱۴

قيامت:اس ميں سوال ۴; اس ميں نقائص كا درك ۵; اس ميں حقائق كا ظہور ۵، ۱۰

گمراہ لوگ:ان كا محشور ہونا۱; ان كا اخروى اندھاپن ۱

معاد:معاد جسمانى ۱۱، ۱۲

آیت ۱۲۶

( الَ كَذَلِكَ أَتَتْكَ آيَاتُنَا فَنَسِيتَهَا وَكَذَلِكَ الْيَوْمَ تُنسَى )

ارشاد ہوگا كہ اسى طرح ہمارى آيتيں تيرے پاس آئے اور تونے انھيں بھلاديا تو آج تو بھى نظر انداز كرديا جائے گا (۱۲۶)

۱ _ خداتعالى نے بشر كى ہدايت اور اسے ياد دہانى كرانے كيلئے متعدد آيات بھيجى ہيں _قال كذلك ا تتك ء اتين

۲ _ آيات اور ہدايت الہى كو فراموش كرنا اوران سے غافل ہونا روز قيامت نابينا محشور ہونے كا سبب ہے _

لم حشرتنى ا عمى قال كذلك ا تتك و ء آيا تنا فنسيته

۳ _ خداتعالى فرائض كے بيان كرنے اور انہيں بندوں تك پہچائے بغير انہيں سزا نہيں ديتا_قال كذلك ء اتيتك ء اى تن

روز قيامت غافلين كو كہا جائيگا''اتتك ء اياتنا'' يعنى تيرے پاس ہمارى آيات آئيں تھيں نہ يہ كہ ہم نے آيات بھيجيں تھيں آپ تك پہنچى ہوں يا نہ لہذا خداتعالى نے مواخذے كا معيار آيات كے ابلاغ كو قرار ديا ہے _

۴ _ مجرمين كا خداتعالى سے سوال اور اس كا جواب وصول كرنا ميدان قيامت كے واقعات ميں سے _

رب لم حشرتني قال كذلك ا تتك اى تن

''قال كذلك'' كے ظاہر سے يوں محسوس ہوتا ہے كہ ''لم حشرتني'' كے سوال كا جواب بھى الفاظ كے ساتھ بيان ہوگا نہ كہ صرف نفس ميں ايك حالت پيدا ہوگى

۲۴۹

اگر چہ ممكن ہے يہ جواب بلاواسطہ نہ ہو بلكہ فرشتوں و غيرہ كے ذريعے انجام پائے _

۵ _ خداتعالى كى طرف سے پہنچائي گئي ہدايات اسكى آيات ہيں _إما يا تينكم منى هديً فمن اتبع هداي قال كذلك ا تتك أى تن گذشتہ آيات ميں ''ہدايت'' كلام كامحور تھا اس آيت ميں ''ہدايات الہى ''كہ جن كا ''ہديً'' اور ''ہداي'' كے ساتھ تذكرہ كيا گيا ہے_كو ''آياتنا'' كے ساتھ تعبير كيا گيا ہے تا كہ اس حقيقت كو بيان كرے كہ ہدايات الہى وہى اسكى آيات ہيں _

۶ _ روز قيامت خداتعالى آيات اور معارف الہى كى اعتناء نہ كرنے والے افراد سے روگردانى كرے گا اور انكى اعتنا نہيں كريگا_أتتك آيا تنا فنسيتها و كذلك اليوم تنسى فعل ''تنسى '' ميں اگر چہ فاعل نامعلوم ہے ليكن (گذشتہ آيت ميں ) ''رب لم حشرتني'' كے قرينے سے كہاجاسكتا ہے كہ فاعل خداتعالى ہے_ نسيان دو معنوں كے درميان مشترك ہے ۱_ غفلت كى وجہ سے ترك كرنا ۲_ جان بوجھ كر ترك كرنا (مصباح) گذشتہ آيات قرينہ ہيں كہ اس آيت ميں دوسرا معنى مراد ہے_

۷ _ آيات اور ہدايات الہى سے غفلت اور انہيں فراموش كردينا روز قيامت انسان كے خداتعالى كى توجہات و عنايات سے محروم ہونے كا ايك عامل ہے_أتتك آيا تنا فنسيتها و كذلك اليوم تنسى

(گذشتہ آيات ميں مذكور) ''من أعرض عن ذكري'' قرينہ كہ ہے ''نسيتہا'' ميں نسيان سے مراد آيات الہى سے روگردانى اور بے اعتنائي ہے اور اس كا ''تنسى '' كے ساتھ تقابل اس نكتے كو بيان كررہا ہے كہ اس كلمے ميں بھى نسيان كا معنى روگردانى اور ترك كرنا ہے_

۸ _ روز قيامت نابينائي اوردرك انسان كے راستے كا مسدود ہونا اسكے خداتعالى كى توجہ اور عنايات سے محروم ہونے كا مظہر ہے_لم حشرتنى ا عمى كذلك اليوم تنسى

۹ _ روز قيامت انسان كو محشور كرنے اور اسكے اعمال كى جزا كى كيفيت اسكے دنياوى كردار كے ساتھ متناسب ہوگي_

فنسيتها تنسى

۱۰ _ روز قيامت انسان كى سزا اسكے دنياوى كردار سے نشأت پكڑتى ہے_فنسيتها اليوم تنسى

آيات خدا:

۲۵۰

انكى فراموشى كے اثرات ۲، ۷; ان سے اعراض كرنے والوں سے بے اعتنائي ۶; ان سے اعراض كرنے والے قيامت ميں ۶; ان كا كردار ۱; انكا ہدايت كرنا ۱، ۵

انسان:اسكے اخروى اندھے پن كا سرچشمہ ۸

پاداش:اس كا عمل كے ساتھ متناسب ہونا ۹; اخروى پاداش كے عوامل ۱۰

محشور ہونا:اسكى كيفيت ۹

خداتعالى :اسكے لطف و كرم سے محروميت كے اثرات ۸; اس سے سوال ۴; اس كے لطف و كرم سے محروميت كے عوامل ۷; اسكى ہدايات ۱، ۵

عمل:اسكے اثرات ۹، ۱۰; اسكى اخروى پاداش ۹; اسكى اخروى سزا ۹

غفلت:آيات الہى سے غفلت كے اثرات ۷; خداتعالى سے غفلت كے اثرات ۲، ۷

قواعد فقہيہ: ۳

قاعدہ عقاب بلا بيان ۳

قيامت:اس ميں سوال و جواب۴; اسكى خصوصيات ۴

اندھاپن:اخروى اندھے پن كے عوامل ۲

سزا:اس كا گناہ كے ساتھ متناسب ہونا ۹; اخروى سزا كے عوامل ۱۰

گناہ گار لوگ:ان كا اخروى جواب۴; ان كا اخروى سوال ۴

جزا كا نظام :۹

سزا كا نظام ۳

ہدايت:اسكى اہميت ۱

۲۵۱

آیت ۱۲۷

( وَكَذَلِكَ نَجْزِي مَنْ أَسْرَفَ وَلَمْ يُؤْمِن بِآيَاتِ رَبِّهِ وَلَعَذَابُ الْآخِرَةِ أَشَدُّ وَأَبْقَى )

اور ہم زيادتى كرنے والے اور اپنے رب كى نشانيوں پر ايمان نہ لانے والوں كو اسى طرح سزا ديتے ہيں اور آخرت كا عذاب يقينا سخت ترين اور ہميشہ باقى رہنے والا ہے (۱۲۷)

۱ _ دنيا ميں سخت اور تنگ زندگى اور قيامت ميں اندھاپن اور خداتعالى كى سرد مہرى ميں گرفتار ہونا اسراف كرنے والوں كى سزا ہے _معيشة ضنكاً و نحشر يوم القيامة ا عمى و كذلك نجزى من ا سرف

اسراف يعنى حد اعتدال سے تجاوز كرنا (مصباح) ''من اتبع ہداي'' كے قرينے سے اس آيت ميں اس سے مراد ہدايات الہى سے تجاوز كرنا ہے اور ''كذلك'' ميں ''ذلك'' ان سزاؤں كى طرف اشارہ ہے كہ جو گذشتہ آيات ميں ياد خدا سے روگردانى كرنے والوں كيلئے بيان ہوچكى ہيں _

۲ _آيات اور ہدايات الہى سے روگردانى كرنے والے اسراف كرنے والوں كا كامل اور بارز مصداق ہيں

و من أعرض عن ذكري و كذلك نجزي من أسرف

اگر''كذلك نجزي ...'' كا گذشتہ آيت پر عطف ہو اور يہ خداتعالى كى ياد الہى سے غافل لوگوں كے ساتھ گفتگو كا تسلسل ہو تو ''من ا سرف'' غافلين كيلئے دوسرا عنوان ہوگا_

۳ _ اسراف كرنے والے اور آيات الہى پر ايمان لانے سے روگردانى كرنے والے روز قيامت خداتعالى كى توجہ اور عنايات سے محروم ہوں گے_و كذلك اليوم تنسى و كذلك نجزى من أسرف و لم يؤمن بأيات ربه

۴ _ انسان كى ہدايت كيلئے آيات پيش كرنا ربوبيت الہى كا ايك جلوہ ہے _بآى ت ربه

۲۵۲

۵ _ خداتعالى مستحقين عذاب كو سزا دينے كے نظام كا حاكم ہے_نجزي

۶ _ دنيوى سزاؤں كى نسيت اخروى عذاب زيادہ سخت اور ديرپا ہوگا_و لعذاب الأخرة أشد و ا بقى

۷ _ اسراف كرنے والوں اور آيات الہى پر ايمان نہ لانے والوں كو دنياوى سزا اور روز قيامت اندھا ہونے كے علاوہ آخرت ميں زيادہ سخت اور ديرپا عذاب كا سامنا ہوگا _و لعذاب الأخرة ا شد و ا بقى

''كذلك'' بتاتا ہے كہ دنيا ميں سخت زندگى اور قيامت كا اندھاپن غافلين كے علاوہ بے ايمان اسراف كرنے والوں كيلئے بھى خطرہ ہے اور جملہ ''لعذاب الآخرة ...'' اس كے علاوہ مزيد عذاب سے حكايت كررہا ہے كہ جو روز قيامت كے ختم ہونے كے بعدشروع ہوگا اور دنياوى اور روز قيامت كے عذاب سے زيادہ سخت اور ديرپا ہوگا _

۸ _ آيات اور ہدايات الہى پر ايمان دنيا و آخرت ميں عذاب الہى سے محفوظ رہنے كى شرط ہے_و كذلك نجزي لم يؤمن ا شد و ا بقى

اسراف كرنے والے: ۲انكے عذاب كا دائمى ہونا۷; انكى زندگى كا سخت ہونا۱; انكا اخروى عذاب ۷; انكا اخروى اندھاپن ۱; انكى سزا ۱، ۷; انكى اخروى محروميت ۳

آيات خدا:ان سے روگردانى كرنے والوں كا اسراف۲; ان سے اعراض كرنے والوں كا اخروى عذاب ۷; ان سے اعراض كرنے والوں كى سزا ۷; ان سے اعراض كرنے والوں كى اخروى محروميت ۳; ان كا كردار ۴

ايمان:آيات الہى پر ايمان كے اثرات ۸; خداتعالى پر ايمان كے اثرات ۸

خداتعالى :اسكى حاكميت ۵; اسكى ربوبيت كى نشانياں ۴

عذاب:اخروى عذاب كى شدت ۶; اس سے بچنے كے شرائط ۸; دنيوى عذاب ۶; اسكے درجے ۶; اخروى عذاب كے درجے ۷

خدا كا لطف و كرم:اس سے محروم لوگ ۳

سزا كا نظام:اس كا حاكم۵

ہدايت:اسكے عوامل ۴

۲۵۳

آیت ۱۲۸

( أَفَلَمْ يَهْدِ لَهُمْ كَمْ أَهْلَكْنَا قَبْلَهُم مِّنَ الْقُرُونِ يَمْشُونَ فِي مَسَاكِنِهِمْ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِّأُوْلِي النُّهَى )

كيا انھيں اس بات نے رہنمائي نہيں دى كہ ہم نے ان سے پہلے كتنى نسلوں كو ہلاك كرديا جو اپنے علاقہ ميں نہايت اطمينان سے چل پھر رہے تھے بيشك اس ميں صاحبان عقل كے لئے بڑى نشانياں ہيں (۱۲۸)

۱ _ خداتعالى نے طول تاريخ ميں بہت سارے معاشروں اور امتوں كو ہلاك اور نابود كيا ہے_كم ائهلكنا قبلهم من القرون ''قرن'' كا معنى ہے قوم اور وہ لوگ جو ايك زمانے ميں زندگى گزار رہے ہوں (مفردات راغب)

۲ _ آيات اور ہدايات الہى كے بارے ميں كفر طول تاريخ ميں بہت سارى امتوں كى نابودى كا سبب بنا_و كذلك نجزى من أسرف و لم يؤمن كم ا هلكنا قبلهم من القرون گذشتہ آيات قرينہ ہيں كہ سابقہ امتوں كى ہلاكت ان كے آيات و ہدايات الہى كے مقابلے ميں كفر اختيار كرنے كى وجہ سے ہوتى تھي_

۳ _ گذشتہ اقوام كى عذاب الہى كے ساتھ ہلاكت خداتعالى كى دھمكيوں كے سنجيدہ ہونے كے واضح نمونے ہيں اور عصر بعثت كے مشركين كيلئے كفايت كرنے والا رہنما _ا فلم يهد لهم كم ا هلكنا قبلهم من القرون

۴ _تاريخ اور گذشتہ امتوں كى ہلاكت سے سبق حاصل نہ كرنا توبيخ اور مذمت كے قابل ہے _أفلم يهد لهم كم ا هلكنا قبلهم ''أفلم ...'' ميں استفہام انكار توبيخى كيلئے ہے اور '' لم يہد'' كا فاعل ''اہلاك'' ہے كہ جو ''كم ا ہلكنا'' سے سمجھ آرھا ہے اور ''لم يہد'' حرف لام كے ساتھ متعدى ہونے كى وجہ سے اس ميں تبيين كا معنى بھى تضمين كيا گيا ہے اور جملے كا معنى يہ ہے كہ كيا بہت سارى گذشتہ امتوں كو نابود كرنے سے مشركين كيلئے واضح نہيں ہوا كہ وہ ان جيسا عمل نہ كريں _

۵ _ عصر پيغمبر(ص) كے كفار بہت سارى گذشتہ امتوں كى ہلاكت سے آگاہ تھے اور ان كے باقى رہ جانے والے آثار قديمہ سے آشنا تھے_ا فلم يهد لهم كم ا هلكنا يمشون فى مسكنهم جملہ ''يمشون ...'' ''ہم'' كيلئے حال ہے اور سياق آيت قرينہ ہے كہ اس سے مراد صدر اسلام كے مشركين ہيں ان كا عاد، ثمود، لوط اور كے گھروں سے عبور كرنا كہ جو جملہ ''يمشون ...'' كا معنى ہے ان كے گذشتہ امتوں كے مرگبار واقعات سے آگاہى كا سبب ہے ہمزہ استفہام سے مستفاد توبيخ بھى ان كى آگاہى پر متفرع ہے_

۲۵۴

۶ _ گذشتہ امتوں ميں سے بہت سے لوگ جب عذاب الہى ميں گرفتار ہوئے اس وقت اپنے شہر اور گھروں ميں معمول كے مطابق رفت و آمد ميں مصروف تھے_*كم ا هلكنا قبلهم من القرون يمشون فى مسكنهم ممكن ہے جملہ ''يمشون ...'' ''القرون'' كيلئے حال ہو_

۷ _ تاريخ كا تغير و تبدل خداتعالى كے ارادے سے وابستہ ہے_كم ا هلكنا قبلهم

۸ _ نابود شدہ اقوام كے باقى رہ جانے والے آثار قديمہ سے سبق حاصل كرنے اور عبرت لينے كيلئے بہت سارى چيزويں ہيں _أفلم يهدلهم كم ا هلكنا إن فى ذلك لأيات

۹ _ گذشتہ امتوں كے باقى رہ جانے والے عبرت آموز آثار كا مطالعہ اور تحقيق اور انكى ہلاكت كے اسباب معلوم كرنا ضرورى ہے_كم ا هلكنا إن فى ذلك لأيات

گذشتہ امتوں كى تاريخ اور ان كے آثار كے آيت ہونے كا تقاضا يہ ہے كہ وہ انسان كو مہم اور قيمتى ہدايات اور عبرتوں كى طرف رہنمائي كرنے كے قابل ہيں _

۱۰ _ گذشتہ امتوں كے باقى رہ جانے والے آثار قديمہ كے مطالعے سے صرف صاحبان عقل بہرہ مند ہوتے ہيں اور عبرت حاصل كرتے ہيں _كم ا هلكنا قبلهم إن فى ذلك لأيات لا ولى النهي

آيات كا نشانى اور آيت ہونا عبرت حاصل كرنے والے كے موجود ہونے كے ساتھ مختص نہيں ہے بلكہ ايك ثابت صفت ہے لہذا اس كا ''ا ولى النہى '' كے ساتھ مختص ہونا صرف صاحبان عقل كے آيات سے بہرہ مند ہونے كى طرف ناظر ہے يعنى اگرچہ آيات اور نشانياں موجود ہيں ليكن بے عقل لوگ اس سے بہرہ مند نہيں ہوتے_

۱۱ _ عقل اور دانايى ايك قيمتى جوہر ہيں اور انسان كو ناروا كاموں سے روكتے ہے_ان فى ذلك لآيات لاولى النهى

''نُہى '' يا تو ''نہية'' (عقل) كى جمع ہے اور يا يہ مفرد لفظ ہے عقل كے معنى ميں (قاموس) اور اس لئے عقل كو يہ نام ديا گيا ہے كہ يہ انسان كو برائيوں سے نہى كرتى ہے_

۲۵۵

۱۲ _ جو لوگ گذشتہ اقوام كے انجام سے عبرت نہيں ليتے وہ عقل و خرد سے بے بہرہ ہيں _إن فى ذلك لأيات لا ولى النهى

۱۳ _ خداتعالى انسان كو عقل سے استفادہ كرنے اور اسے استعمال كرنے كى ترغيب دلاتا ہے _أفلم يهد إن فى ذلك لأيات لا ولى النهى اس آيت كا ذيل كہ جو صاحبان عقل كى تعريف كر رہا ہے مذكورہ مطلب كو بيان كررہا ہے نيز اسكے شروع ميں فاء عاطفہ اس مقدر پر عطف كر رہى ہے كہ جسے آيت كا ذيل بيان كررہا ہے در حقيقت اس پر استفہام توبيخى داخل ہوا ہے اور ''لم يہد'' اس پر تفريع ہے اور اصل ميں كلام يوں تھا ''ا فلم يتفكروا فلم يهد ...'' كيا انہوں نے سوچا نہيں گذشتہ اقوام كے انجام كا مطالعہ انكى ہدايت كا سبب نہيں بنا؟

آثار قديمہ:يہ صدر اسلام ميں ۵; ان سے عبرت لينا ۸، ۹، ۱۰

آيات خدا:انہيں جھٹلانے كے اثرات ۱۲

آثار قديمہ شناسي:اسكى اہميت ۹

گذشتہ اقوام:ان كے آثار قديمہ ۵; انكى تاريخ ۱، ۲، ۶; ان سے عبرت لينا ۹; ان سے عبرت حاصل نہ كرنا ۱۲; انكى ہلاكت كے عوامل ۲; ان كے عذاب كى كيفيت ۶ ; انكى ہلاكت ۱، ۳، ۵

تاريخ:اسكے مطالعے كى اہميت ۹; اس سے عبرت لينا ۴، ۸; اسكے تحولات كا سرچشمہ ۷

تعقل:اسكى تشويق ۱۳

خداتعالى :اسكے ارادے كے اثرات ۷; اسكے افعال ۱; اسكى تشويق ۱۳; اسكى دھمكيوں كا حتمى ہونا ۳

عقلا:يہ اور آثار قديمہ ۱۰/عبرت:عبرت نہ لينے والوں كى بے عقلى ۱۲; عبرت نہ لينے كى مذمت ۴; اسكے عوامل ۸، ۱۰

عذاب:اہل عذاب سے عبرت حاصل كرنا ۴

عقل:اسكى قدر و قيمت ۱۱; بے عقل لوگ ۱۲; اس كا كردار ۱۱

عمل:ناپسنديدہ عمل كے موانع ۱۱

كفار:صدر اسلام كے كفار كا علم ۵

مشركين:صدر اسلام كے مشركين كو دھمكى ۳

۲۵۶

آیت ۱۲۹

( وَلَوْلَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِن رَّبِّكَ لَكَانَ لِزَاماً وَأَجَلٌ مُسَمًّى )

اور اگر آپ كے رب كے طرف سے بات طے نہ ہوچكى ہوتى اور وقت مقرر نہ ہوتا تو عذاب لازمى طور پر آچكا ہوتا (۱۲۹)

۱ _ خداتعالى نے معاشروں اور امتوں كے امور كى تدبير كيلئے محكم و ثابت قوانين اور سنتيں قرار دے ركھى ہيں _

و لو لا كلمة سبقت من ربك اس مناسبت سے كہ بحث معاشروں اور انہيں مہلت دينے كے بارے ميں ہے اس آيت ميں ''كلمة '' سے مراد تاريخ اور معاشروں پر حاكم قوانين الہى اور سنتيں ہيں _

۲ _ كافر امتوں كے انجام اور انكى ہلاكت و بقا كيلئے معين سنن و قوانين اور مشخص اوقات ہيں _

كم اهلكنا قبلهم و لو لا كلمة سبقت من ربك لكان لزام گذشتہ آيت كہ جو كافر معاشروں كى ہلاكت كے بارے ميں ہے قرينہ ہے كہ ''لو لا كلمة ...'' كا معنى يہ ہے خداتعالى نے كفار كے عذاب كا وقت اور اسكے ديگر معيارات كو پہلے سے مشخص و معين كر ركھا ہے_

۳ _ كفار پر الہى سنتوں كا حاكم ہونا ان كے عذاب الہى كے ساتھ جلدى نابود ہونے سے مانع ہے_و لو لا كلمة سبقت من ربك لكان لزام

۴ _ آيات اور ہدايات الہى كے بارے ميں كفر كرنے والے دنيا ميں سزا اور عذاب كے مستحق ہيں _و لو لا كلمة سبقت من ربك لكان لزام لفظ'' لزاماً'' باب مفاعلہ كا مصدر ہے اور مصدر كا خبر واقع ہونا مبالغہ پر دلالت كرتاہے، اس بناپر جملہ''كان لزاماً'' كا مفاد يوں ہوگا(اگر خدا كى طرف سے مجرمين كو مہلت دينے كى سنت نہ ہوتي)عذاب الہى مخالفت كرنے والوں كے ساتھ ساتھ ہوتا (يہاں تك كہ مختصر سى مدت كے ليے بھي) ان سے الگ نہ ہوتا_

۵ _ خداوند متعال ہرگز اپنى سنتوں (طى شدہ باتوں ) سے پيچھے نہيں رہے گا_و لو لاكلمة سبقت من ربك لكان لزام

۲۵۷

۶ _آيات الہى كا انكار كرنااور اللہ تعالى كى ياد سے منہ پھير لينا ناقابل معاف گناہ ہيں _

و من أعرض عن ذكري و لم يؤمن بأيات ربه لو لا كلمة سبقت من ربك لكان لزام

۷ _بعثت كے دوران بسنے والے كافروں اور مشركوں كو مہلت دينا، خداوند عالم كى طرف سے رسول اكرم(ص) پر خصوصى عنايت كى وجہ سے تھي_رَبّك

''ربّ'' كے مقدس نام كارسول خدا كى ضمير خطاب كى طرف اضافہ ہوناكافروں پر عذاب نازل كرنے ميں تاخير اور ان كو مہلت دينا خدا كى طرف سے رسول اكرم(ص) پر خصوصى عنايت ہونے كى طرف اشارہ ہوسكتاہے _ جيسا كہ ايك اور سورے ميں فرماتا ہے:''و ما كان الله ليعذبهم و ا نت فيهم''

۸ _انسانيت سے متعلق مصلحتيں اور خداوند كى طرف سے قوموں كے معاملات كى تدبير كرنا دنيا ميں مخالفين كو جلدى سزا نہ دينے كى دليل ہے_ربَّك

۹ _روى زمين پر انسانى زندگى كو معين مدت تك كے ليے جارى ركھنے كى سنت (طى شدہ قانون) حق كى مخالفت كرنے والوں كو فوراً نابود كرنے كے ساتھ سازگار نہيں ہے_و لو لا كلمة سبقت من ربّك لكان لزاماً و اجل مسميً

(ا جل) كا معنى پورى مدت يا آخرى وقت ہے (لسان العرب) اور ''ا جل مسميً'' ''كلمة'' پر عطف ہوا ہے يعنى '' لو لا كلمة وا جل مسميً ...'' يہاں كلمہ اور اجل سے مراد دو مستقل چيز يں ہيں يا دونوں ايك حقيقت كى دو تعبير ہے اس بارے ميں علماء نے مختلف بيانات ديئےيں _ان ميں سے ايك احتمال يہ ہے كہ ''كلمہ'' سے مراد اللہ تعالى كا وہ كلام ہے جو آدم (ع) كو بہشت سے نكل كرزمين پر آتے وقت فرمايا''لكم فى الا رض مستقر و متاع إلى حين'' (بقرہ ۳۶) اور ''ا جل'' سے مراد اس احتمال كى بناپر دنيا كى آخرى عمر ہے مذكورہ نظريہ اس احتمال كى بناپر ہے_

۱۰ _ اللہ تعالى نے دنيوى زندگى كو تمام كافروں كو جلد مؤاخذہ كرنے كى جگہ قرار نہيں دى ہے _و لو لا ا جل مسميً

اللہ تعالى كى سنت ( اور روش) كى جس پر'' لو لا كلمة ...'' دلالت كرتاہے يہ نہيں ہے كہ اللہ تعالى دنيا ميں كسى بھى مختلف كرنے والے پر عذاب نازل نہيں كرتا بلكہ اسكى سنت يہ ہے كہ سارى مخالفين كو تباہ نہيں كرے گا كيونكہ اگر ہر كافر كو نابود كرنا منشا ہوتا تو انسانى نسل ختم ہونے كا خطرہ تھا( اس صورت ميں ) اجل مسمى تك نسل بشر باقى نہ رہتى _

۱۱ _قوموں كے خاتمے ليئے ايك معين اور طى شدہ مدت ہے_و لو لا كلمة سبقت من ربك لكان لزاماً ا جل مسميً

۲۵۸

آیت ۱۳۰

( فَاصْبِرْ عَلَى مَا يَقُولُونَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوبِهَا وَمِنْ آنَاء اللَّيْلِ فَسَبِّحْ وَأَطْرَافَ النَّهَارِ لَعَلَّكَ تَرْضَى )

لہذا آپ ان كى باتوں پر صبر كريں اور آفتاب نكلنے سے پہلے اور اسكے ڈوبنے كے بعد اپنے رب كى تسبيح كرتے رہيں اور رات كے اوقات ميں اور دن كے اطراف ميں بھى تسبيح پروردگار كريں كہ شايد آپ اس طرح راضى اور خوش ہوجائيں (۱۳۰)

۱ _ كفار رسول خد ا (ص) كو اپنى ( بے بنياد) باتوں كے ذريعے روحى طور پر اذيت پہنچاتے تھے_فاصبر على ما يقولون

خدا كى طرف سے رسول(ص) كى صبر كى تلقين اس بات كى حكايت كرتاہے كہ آنحضرت (ص) كافروں كى باتيں سننے سے رنجيدہ خاطر ہوتے تھے_

۲ _ كفار عذاب ميں تاخير ہونے اور فورى طورپر عذاب نازل نہ ہونے كو بہانہ بناكر رسول خدا كو روحى فشار ميں ركھتے اور انكے خلاف سخت پروپيگنڈا كرتے تھے_فاصبر على ما يقولون ما قبل والى آيت كے قرينے سے ''ما يقولون'' سے مراد كافروں كى وہ باتيں ہيں جو عذاب نازل نہ ہونے اور رسول (ص) خدا كے وعدوں كا مذاق اڑانے كے ليے اظہار كرتے تھے

۳ _خدا كى طرف سے رسول اكرم (ص) كو كافروں كى بے بنياد باتوں اور انكى طرف سے نفسياتى اذيت پہنچانے كے لئے پروپگينڈاكرنے پر صبر و تحمل كرنے كى وصيت_فاصبر على ما يقولون

۴ _ كافروں كو مہلت دينے كى حكمت كے بارے ميں خدا كى طرف سے آيات كا نزول كافروں كى طرف سے كى جانے والى تبليغات پر رسول اكرم(ص) كے تحمل اور صبر كا موجب بنا_لو لا كلمة سبقت فاصبر على ما يقولون

''فا صبر'' ما قبل والى آيت پر عطف اور تفريع ہے يعنى چونكہ كافروں كو عذاب دينے ميں تا خير سہل انگارى كى وجہ سے نہيں بلكہ ايك قانون اور سنت كى وجہ سے ہے پس ان سختيوں كو برداشت كريں ان آيات ميں خداوند عالم نے مخالفين كو مہلت دينے كى علت اور تاريخ (بشريت) پر حكم فرما روشن اور سنت كو بيان فرما كر رسول خدا(ص) اور اہل ايمان كى نسل ہونے كا زمينہ فراہم كرديا ہے_

۵ _ سنت الہى پرسے آگاہ ہونا اور اسكى علت كو سمجھنا سختيوں اور پريشانيوں ميں صبر و تحمل كرنے كے لئے پيش خيمہ_

و لو لا كلمة فاصبر على ما يقولون

۶ _ رسول خدا(ص) اور اہل ايمان لوگوں كو سورج طلوع كرنے اور ڈوبنے سے پہلے اللہ تعالى كى تسبيح كرتے رہنا چاہيئے _

و سبح بحمد ربك قبل طلوع الشمس و قبل غروبه

۲۵۹

''بحمد ربّكَ'' ميں باء يا مصاحبت كے لئے ہے يا استعانت كے لئے بہر حال اللہ تعالى كى حمد اور تسبيح كرنے كا حكم ايك ساتھ آيا ہے_ تسبيح كرنے كا خطاب اگر چہ بظاہر رسول اكرم(ص) كے متعلق ہے ليكن بعد والى آيتوں كے قرينہ سے معلوم ہوتاہے كہ يہ حكم رسول اكرم(ص) كے لئے مختص نہيں ہے (بلكہ تمام اہل ايمان بھى اس حكم كا مخاطب ہيں )

۷ _ رسول خدا (ص) اور اہل ايمان كسى يہ ذمہ دارى ہے كہ رات كے كچھ حصے اور دن كے دونوں فوں ميں اللہ تعالى كى حمد اور تسبيح كيا كريں _و من ء اناء الليل فسبح و اطراف النهار

''ء انائ'' كا معنى اوقات ہے اور ''من'' يہاں تبعيض كے ليے آياہے_لہذا ''من آناء الليل'' سے مراد يہ ہے كہ رات كے كچھ اوقات حمد اور تسبيح ميں مشغول رہيں اور آيت كے شروع ميں ''بحمدك'' آنا اس بات كا قرينہ ہے كہ يہ تسبيح بھى حمد كے ساتھ ہونى چاہيے_

۸ _ تمام اوقات ميں اللہ تعالى كى حمد اور تسبيح اور ذكر لازمى ہے_فسبح قبل طلوع آناء الليل اطراف النهار

اگرچہ اس آيت كريمہ ميں اللہ تعالى كى تسبيح كرنے كے ليے كچھ اوقات معين كيا گيا ہے ليكن ان موارد كى كثرت سے ايسا لگتاہے كہ ہدف يہ ہے كہ تماما فرصت كے موقعوں پر اللہ تعالى كو ياد كرنا اول اسكى تسبيح كرتے رہنا چاہيے_

۹ _انسان سخت شرائط نہيں آنے كى صورت ميں زيادہ صبر اور تحمل حاصل كرنے كے ليے اللہ تعالى كو ياد كرنے اور اسكى تسبيح كرنے كى طرف محتاج ہے_فاصبر على ما يقولون و سبّح بحمد ربّك

صبر كرنے كا دستور دينے كے بعد تسبيح كا دستور آنا اس بات كى نشاندہى كرتاہے كہ صبر كرنے كى طاقت حاصل كرنے كے لئے تسبيح كو دخل ہے_

۱۰ _ خدا اور دين كے خلاف كافروں كى طرف سے ہونے والے پراپگنڈوں كے ساتھ مقابلہ كرنے كے راستوں ميں سے ايك اللہ تعالى كى تسبيح اور حمد كرنا ہے_و سبح بحمد ربك قبل طلوع الشمس و قبل غروبه

۱۲ _رات كے كچھ حصوں ، صبح كے قريب اور سورچ غروب كرنے كے بعد اللہ تعالى كى حمد اور تسبيح كرنا خصوصى نتائج كے حامل ہيں _و من ء اناء الليل فسبح و اطراف النهار

''اطراف نہار'' سے مراد دن كا آغاز اور اختتام ہے_ اور اس لفظ ''اطراف نہار'' كو جمع كى صورت ميں ذكر كرنے كى وجہ يہ ہے چونكہ آناء الليل كے ساتھ آياہے اسكے ساتھ لفظى موافقت كى خاطر جمع لاياہے يا دن كے آغاز اور اختتام كے متعدد

۲۶۰

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750