تفسير راہنما جلد ۱۱

تفسير راہنما 10%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 750

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 750 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 219122 / ڈاؤنلوڈ: 3020
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

عوامل اختلاف كے ساتھ قاطعيت كے ساتھ نمٹنے واكے رہبر تھے _إنى خشيت ا ن تقول فرقت بين بنى إسرائيل

۲۰ _ انتشار و افتراق ڈالنے كا الزام حضرت ہارون(ع) كيلئے سخت اور ناقابل برداشت تھا _إنى خشيت ا ن تقول فرقت بين بنى إسرائيل حضرت ہارون(ع) كا تفرقہ ڈالنے كے الزام سے خوف كلمہ ''خشيت'' كو مد نظر ركھتے ہوئے كہ جس ميں خوف كے ہمراہ بڑا شمار كرنا بھى ہے اسكے ان كے لئے سخت ناگوار ہونے پر دلالت كرتا ہے_

۲۱ _ لمبى ڈاڑھي، اديان آسمانى كے ماننے والوں كى تاريخ ميں مطلوب وضع قطع كا حصہ رہى ہے _لا تأخذ بلحيتي

۲۲ _''على بن سالم عن ا بيه قال: قلت لابى عبدالله (ع) ا خبرنى عن هارون لم قال لموسي(ع) يابن ا م و لم يقل يابن ا بى فقال: إنّ العداوات بين الاخوة ا كثرها تكون اذا كانوا بنى علات و متى كانوا بنى ا م قلت العداوة بينهم قال: قلت له : فلم ا خذ برا سه يجره اليه و بلحيته و لم يكن له فى اتخاذهم العجل و عبادتهم له ذنب؟ فقال: انّما فعل ذلك به لأنه لم يفارقهم لما فعلوا ذلك و لم يلحق بموسى (ع) و كان اذا فارقهم ينزل بهم العذاب ; على ابن سالم نے اپنے باپ سے نقل كيا ہے كہ اس نے كہا ميں نے امام صادق (ع) كى خدمت ميں عرض كيا مجھے حضرت ہارون(ع) كے بارے ميں بتايئےہ انہوں نے كيوں اپنے بھائي موسى (ع) سے كہا''اے ميرى ماں كے بيٹے ...'' اور نہيں كہا اے ميرے باپ كے بيٹے؟ تو امام(ع) نے فرمايا بھائيوں كے درميان اس وقت دشمنى زيادہ ہوتى ہے جب ان كى مائيں مختلف ہوں اور اگر انكى ماں ايك ہو تو ان كے درميان دشمنى كم ہوتى ہے_ ميں نے امام(ع) سے عرض كيا كيوں حضرت موسى (ع) نے اپنے بھائي كى داڑھى پكڑ كر اسے اپنى طرف كھينچا تھا جبكہ اس قوم كى بچھڑا پرستى ميں ہارون(ع) كا كوئي قصور نہيں تھا امام نے فرمايا اس لئے كہ وہ بچھڑا پرستى كے زمانے ميں ان سے جدا ہوكر موسي(ع) كے ساتھ ملحق نہ ہوئے اور اگر انہيں چھوڑ ديتے تو ان پر عذاب نازل ہوجاتا _(۱)

۲۳ _''عن ا بى جعفر (ع) قال: انّ ا مير المؤمنين (ع) خطب الناس فقال: كان هارون ا خا موسى لابيه و ا مّه ; امام محمد باقر(ع) سے روايت كى گئي ہے كہ آپ (ع) نے فرمايا اميرالمؤمنين (ع) نے لوگوں كو خطبہ ديا پھر فرمايا ہارون(ع) ،حضرت موسى (ع) كے

____________________

۱ ) علل الشرائع ص ۶۸ ب ۵۸ ح ۱; نورالثقلين ج ۳ ص ۷۲ ج ۲۷_

۱۸۱

باپ اور ماں كى طرف سے بھائي تھے_(۱)

اتحاد:اسكى اہميت ۱۴/انبياء (ع) :ان كا اثر قبول كرنا ۶; ان كے احساسات كو تحريك كرنا ۶; انكے علم كا دائرہ ۱۰

اہم و مہم: ۱۴/ان كے درج۱۵

بنى اسرائيل:انكى بچھڑا پرستى كے اثرات ۱، ۲; انكے اتحاد كى اہميت ۱۲; يہ موسي(ع) كى عدم موجودگى ميں ۱۷; انكى تاريخ ۱، ۲، ۳، ۱۲، ۱۷; انكى گمراہى كو بيان كرنا ۸; ان كے بچھڑا پرستوں كى حكمرانى ۱۷; ان كے اختلاف كا خطرہ ۱۱; ان كے بچھڑا پرستوں كے ساتھ نمٹنے كى روش ۸; انكى گمراہى كے عوامل ۳; انكى بچھڑا پرستى كے عوامل ۳; ان كے بچھڑا پرستوں كا مقابلہ ۱۱

جمود:اس سے اجتناب ۱۶/شرعى ذمہ داري:اس پرعمل كى روش ۱۶

خود:خود كا دفاع ۹

روايت :۲۲، ۲۳/داڑھي:اسكى تاريخ ۲۱; يہ آسمانى اديان ميں ۲۱

غضب:پسنديدہ غضب ۴/ملزمين:ان كے حقوق ۹

موسى (ع) :انكا اتحاد كو اہميت دينا ۱۳; انكا باپ اور ماں كى طرف سے بھائي ۲۳; انكا مادرى بھائي ۷، ۲۲; انكى سوچ ۳، ۱۹; ان كے جذبات كو تحريك كرنا ۵; انكى نصيحتيں ۱۳; انكا سلوك ۲; ان كے غضب كے عوامل ۱; انكا غضب ۲، ۵; انكى قاطعيت ۱۹; انكا قصہ ۱، ۲، ۳، ۵، ۸، ۱۳، ۱۷، ۱۸; يہ اور ہارون(ع) ۱۹

ہارون(ع) :ان كا مہلت طلب كرنا ۸; انكا باپ اور ماں كى طرف سے بھائي ۲۳; انكا مادرى بھائي ۷، ۲۲; انكے ساتھ سلوك ۲; انكو اتحاد كى نصيحت ۱۳; ان پر اختلاف ڈالنے كى تہمت ۲۰; ان كے رد عمل كا اظہار نہ كرنے كى وجوہات ۱۲; انكا شرعى ذمہ دارى پر عمل كرنا ۱۸; انكا قصہ ۲، ۳، ۵، ۸، ۱۲، ۱۳، ۱۸، ۲۰; انكى داڑھى پكڑنا ۲; انكا سر پكڑنا ۲; انكا مواخذہ ۲; انكا ذمہ دارى قبول كرنا ۱۸; انكا كردار و تأثير ۳، ۵; يہ موسي(ع) كے عدم موجودگى ميں ۱۸

ہدايت:اس كا پيش خيمہ ۱۴

____________________

۱ ) كافى ج ۸ ص ۷۲ ص ۴; نور الثقلين ج ۲ ص ۷۲ ح ۲۷۲_

۱۸۲

آیت ۹۵

( قَالَ فَمَا خَطْبُكَ يَا سَامِرِيُّ )

پھر موسى نے سامرى سے كہا كہ تيرا كيا حال ہے (۹۵)

۱ _ حضرت موسي(ع) نے بنى اسرائيل كى توبيخ اور ہارون(ع) كے ساتھ سختى سے نمٹنے كے بعد،بنى اسرائيل كى بچھڑا پرستى ميں سامرى كى بلا واسطہ مداخلت كوديكھ كر اس سے بازپرس اور تفتيش كى _قال فما خطبك يا سامريّ

۲ _ سنہرى بچھڑا بنانے اور لوگوں كو گمراہ كرنے ميں سامرى كے ہدف اور مقصد كے بارے ميں سوال ، حضرت موسي(ع) كے بازپرسى كے موارد ميں سےفماخطبك يا سامري

بعض اہل لغت كے نزديك ''خطب'' كامعنى ہے سبب امر (لسان العرب) زمخشرى نے اسے طلب كے معنى ميں قرار ديا ہے اس كا مطلب يہ ہے كہ ''ما خطبك'' يعنى تيرے كام كا سبب يا تيرا مطلوب اور مقصود كيا تھا؟نيز اس كلمے كے معانى ميں سے ''شأن'' اور ''امر'' بھى شمار كئے گئے ہيں (قاموس)

۳ _ لوگوں كے اعتقادى او رفكرى انحرافات كے بارے ميں تحقيق اور ان كے علل و اسباب كى شناخت ضرورى ہے _

قال فما خطبك يا سامري مسلّم ہے كہ سامرى كا كام، انحراف، مذموم اور حضرت موسي(ع) كے اعتقادات كے مخالف تھا اسكے باوجود حضرت موسى (ع) اسكے كام كے بارے ميں سوال كر كے اسكے علل و اسباب جاننا چاہتے ہيں _

۴_ حضرت موسى (ع) نڈر، اور مضبوط ارادي اور بلند همت والي شخص تهي_يا هرون . قال فما خطبك يا سامري

قال ياقوم قال

حضرت موسي(ع) نے ميقات سے واپسى كے بعد تن تنہا بنى اسرائيل كے سردار و رعايا اور فردو گروہ كى باز پرس كى اور ان كے غالب نظام كے ساتھ ٹكرائے اور ان سب سے قوت كے ساتھ مخاطب ہوئے يہ روش، انكى شجاعت اور بلند ہمت ہونے كى علامت ہے _

بنى اسرائيل:انكى تاريخ ۱، ۲; انكى سرزنش۱;

۱۸۳

انكى گمراہى كے عوال ۲; انكى بچھڑا پرستى كے عوامل۱

سامري:اس كا گمراہ كرنا ۲; اسكى مجسمہ سازى كا مقصد ۲; اس كا قصہ ۱، ۲;اس كا مواخذہ۱،۲; اس كا نقش و تاثير ۱

گمراہي:اسكے عوامل تلاش كرنا ۳موسى (ع)ان كا ارادہ ۴; انكے سلوك كى روش ۱; انكى طرف سے سرزنش ۱; انكى شجاعت ۴; انكے فضائل ۴; انكى قدرت ۴; انكا قصہ ۱، ۲; پہ اور ہاورن(ع) ۱

ہارون(ع) :ان كا قصہ ۱

آیت ۹۶

( قَالَ بَصُرْتُ بِمَا لَمْ يَبْصُرُوا بِهِ فَقَبَضْتُ قَبْضَةً مِّنْ أَثَرِ الرَّسُولِ فَنَبَذْتُهَا وَكَذَلِكَ سَوَّلَتْ لِي نَفْسِي )

اس نے كہا كہ ميں نے وہ ديكھا ہے جو ان لوگوں نے نہيں ديكھا ہے تو ميں نے نمائں دہ پروردگار كے نشان قدم كى ايك مٹھى خاك اٹھالى اور اس كو گوسالہ كے اندر ڈال ديا اور مجھے ميرے نفس نے اسى طرح سمجھايا تھا (۹۶)

۱ _ سامرى اس بات كا مدعى تھاكہ وہ ممتاز فكر، درك حقائق اور ان علوم كا مالك ہے كہ جن سے دوسرے لوگ بے بہرہ ہيں _قال بصرت بمالم يبصروا به

فعل ''بصر'' اس وقت آنكھ كے ساتھ ديكھنے كے بارے ميں استعمال ہوتا ہے كہ جب اسكے ہمراہ قلبى ادراك بھى ہو اور ايسے موارد ميں اس كا استعمال نہايت كم ہے كہ جہاں قلبى ادراك نہ ہو (مفردات راغب)اس بارے ميں كہ سامرى كى اس بات سے مراد كيا تھى كئي احتمالات ذكر كئے گئے ہيں ، ان ميں سے ايك يہ ھے كہ مجھے ايسے فنون و حقائق سے آگاہى حاصل ہوئي كہ جن كى بناپر ميں رسالت كے اثرات سے زيادہ ا ستفادہ كرسكا اور دوسرے لوگ اس سے محروم رہے _

۲ _ سامرى كو بنى اسرائيل پر علمى برترى حاصل تھى _قال بصرت بمالم يبصروا به

۳ _ سامرى نے اپنے علم و آگاہى كى مدد سے خدا كے ايك بھيجے رسولوں ميں سے ايك رسول كے بعض آثار اور تعليمات تك دسترسى حاصل كى اور انہيں اپنے اختيار ميں لے ليا _بصرت فقبضت قبضةً من ا ثر الرسول

ممكن ہے''أثر الرسول'' سے مراد وہ علم و اسرار ہوں كہ جو حضرت موسى (ع) اورہارون(ع) يا ان سے پہلے كے انبياء كے پاس تھے اوروہ سامرى كے ہاتھ لگ گئے تھے اور اس نے اپنے نفس كى گمراہى كے ذريعے انہيں لوگوں كو گمراہ كرنے كيلئے

۱۸۴

استعمال كياہو_''الرسول'' كا ''ال'' دلالت كررہا ہے كہ سامرى كے مد نظر شخص كو حضرت موسي(ع) بھى پہچانتے تھے ليكن گويا سامرى نے دوسرے لوگوں كے ماجرا كى حقيقت تك نہ پہنچنے كى خاطر بنى اسرائيل كے عام لوگوں كيلئے رسول كا نام اور اس كا اثر معين نہ كيا_

۴ _ بنى اسرائيل كو گمراہ كرنے اور ان كے درميان بچھڑا پرستى كو ترويج دينے كيلئے دين اور تعليمات آسمانى سے سوء استفادہ كرنا،حضرت موسى (ع) كے سامنے سامرى كے اعترافات ميں سے تھا _فنبذته

ممكن ہے ''نبذتہا'' ميں ''نبذ'' اپنے حقيقى معنى ''يعنى آثار رسالت كو دور پھينكنا'' ميں ہو اور ممكن ہے مجاز اور خداكے رسولوں كى تعليمات سے سوء استفادہ كے معنى ميں ہو دوسرے معنى كى بنياد پر سامرى اعتراف كرتا ہے كہ اس نے اپنى معلومات سے غلط استفادہ كر كے انہيں ضائع اور نابود كرديا _

۵ _ سامرى نے اپنى خصوصى اور الہى معلومات كى بے اعتنائي كر كے اور انہيں دور پھينك كر بچھڑا سازى اور لوگوں كو گمراہ كرنا شروع كرديا _فنبذتها و كذلك سولت لى نفسي

مندرجہ بالا آيت كے معانى ميں ايك احتمالى معنى يہ ہے كہ ''نبذتہا'' سے مراد معلومات (بصرت قبضت) سے بے اعتنائي كرنا ہو يعنى سامرى نے اعتراف كيا تھا كہ ميں نے الہى علوم و دانش كہ جو ميں نے انبياء سے حاصل كئے تھے_ كو دور پھينك ديا اسكے نتيجے ميں اپنے نفس سے دھوكہ كھا كريہ سب انجام دے ديا _

۶ _ سامرى كا مرتد ہونا،بنى اسرائيل كے انحراف كا سبب بنا _فنبذته

۷ _ خطا كرنا اور نفس كى تسويل (نفس كا عمل كو مزين كر كے پيش كرنا) بازپرسى كے وقت سامرى كے اعترافات ميں سے _قالبصرت و كذلك سولت لى نفسي

''تسويل'' كا معنى ہے كسى چيز كو دوسرے كى نظر ميں خوبصورت كر كے اور محبوب صورت ميں پيش كرنا تا كہ وہ مخصوص بات كے كہنے يا خاص كام كے انجام دينے پر مجبور ہو جائے (لسان العرب) بعض نے اسے ''سول''بمعني'' استرخا'' (نرمى و آساني) سے مشتق قرار ديا ہے اور اسے آسان كرنے كے معنى ميں ليا ہے _

۸ _ نفس كى فريب كارى اور اسكى ظاہرسازى نے سامرى كو بنى اسرائيل ميں بچھڑا پرستى والا انحراف پيدا كرنے پر مجبور كيا _و كذلك سولت لى نفسي ايسے موارد ميں ''كذلك'' ايك چيز كو اپنے ساتھ تشبيہ دينے كيلئے ہوتا ہے اس بناپر سامرى كا

۱۸۵

اس تشبيہ سے مراد يہ كہ ہے ميرى نفسانى تسويلات كيلئے خود اسى تسويل_ كہ جو لوگوں كو بچھڑاپرستى كى دعوت دينا ہے_ سے بہتر مثال نہيں ہے _

۹ _ نفس كے وسوسے اور تسويلات،لوگوں كو گمراہ كرنے اور انحراف پيدا كرنے كى خاطر دين و دانش كے استعمال كيلئے زمينہ ہموار كرتے ہيں _بصرت فنبذتها و كذلك سولت لى نفسي

جو كچھ سامرى كے ہاتھ ميں تھا جو خود اسكى اور بہت سارے لوگوں كى گمراہى كا سبب بنا وہ علوم و معارف تھے كہ جنہيں اس نے لوگوں كو گمراہ كرنے كيلئے استعمال كيا _

۱۰ _ نفس كى تسويلات (برے اور ناروا كاموں كو خوبصورت كر كے پيش كرنا) ايسا خطرہ جو افراد اور جوامع كيلئے كمين لگائے ہوئے ہے_و كذلك سوّلت لى نفسي

۱۱ _ ناروا كاموں كو خوبصورت بنانا،انسانى نفس كى خصوصيات ميں سے ہے _و كذلك سولت لى نفسي

۱۲ _ انسان كے لئے اپنے نفس كى تسويلات كے مقابلے ميں ہوشيار رہنا ضرورى ہے_و كذلك سوّلت لى نفسي

اقرار:ناپسنديدہ عمل كو خوبصورت بنانے كا اقرار ۷

انبيائ(ع) :ان كے علم تك دسترسى ۳

بنى اسرائيل:انكى تاريخ ۴، ۶، ۷، ۸; انكى گمراہى كے عوامل ۶; انكى بچھڑا پرستى كے عوامل ۸

معاشرہ:معاشرتى آسيب شناسى ۹، ۱۰; اسكے انحطاط كے عوامل ۱۰

خداتعالى :اسكى تعليمات سے بے اعتنائي ۵

دين:اس سے سوء استفادہ كرنے كا پيش خيمہ ۹; اس سے سوء استفادہ كرنا ۴

سامري:اسكے مرتد ہونے كے اثرات ۶; اسكى خواہش پرستى كے اثرات ۸; اسكے گمراہ كرنے كا آلہ ۴; اسكے دعوے ۱; اس كا گمراہ كرنا ۵، ۷، ۸; اس كا اقرار ۴، ۷; اسكى تبليغ كى روشن۴; اس كا سود استفادہ ۴; اس كا علم ۱، ۲; اسكے فضائل۲; اس كا قصہ ۳، ۴، ۵، ۶، ۷; اسكى مجسمہ سازى ۵; اسكے علم كا سرچشمہ۳/عمل:ناپسنديدہ عمل كو خوبصورت بنانے كے اثرات ۱۰; ناپسنديدہ عمل كو خوبصورت بنانا۱۱/لوگ:لوگوں كو گمراہ كرنے كا پيش خيمہ ۹

خواہش پرستي:اسكے اثرات ۹، ۱۱; اسكے مقابلے ميں ہوشيارى كى اہميت ۱۲

۱۸۶

آیت ۹۷

( قَالَ فَاذْهَبْ فَإِنَّ لَكَ فِي الْحَيَاةِ أَن تَقُولَ لَا مِسَاسَ وَإِنَّ لَكَ مَوْعِداً لَّنْ تُخْلَفَهُ وَانظُرْ إِلَى إِلَهِكَ الَّذِي ظَلْتَ عَلَيْهِ عَاكِفاً لَّنُحَرِّقَنَّهُ ثُمَّ لَنَنسِفَنَّهُ فِي الْيَمِّ نَسْفاً )

موسى نے كہا كہ اچھا جا دور ہوجا اب زندگانى دنيا ميں تيرى سزا يہ ہے كہ ہر ايك سے بہى كہتاپھرے گا كہ مجھے چھونا نہيں اور آخرت ميں ايك خاص وعدہ ہے جس كى مخالفت نہيں ہوسكتى اور اب ديكھ اپنے خدا كو جس كے گرد تونے اعتكاف كر ركھا ہے كہ ميں اسے جلاكر خاكستر كردوں گا اور اس كى راكھ دريا ميں اڑادوں گا (۹۷)

۱ _ حضرت موسى (ع) نے سامرى كى عدالتى كاروائي كے بعد اسكے فورى طور پر معاشرے سے نكل جانے، تنہا ہوجانے اور پورى زندگى ميں لوگوں كے ساتھ اسكى قطع تعلقى كا فيصلہ سنايا _قال فاذهب فإن لك فى الحى وة إن تقول لامساس

''فاذہب'' كى ''فائ'' اس بات پر دلالت كرنے كے علاوہ كہ سامرى كے نكل جانے كا حكم اس كے خلاف فيصلے پر مترتب تھا اسكے فورى ہونے پر بھى دلالت كرتا ہے ''مساس'' باب مفاعلہ كا مصدر ہے اور ''لامساس'' كا مطلب ہے ہر قسم كے رابطے اور تعلق كى نفى يعنى تو اپنى زندگى ميں اس انجام كا مستحق ہے كہ تيرى پہلى اور آخرى بات اپنى بے كسى اور اس بات كى خبردينا ہوگى كہ تيرے ساتھ كوئي بھى رابطے ميں نہيں ہے_

۲ _ دين موسى (ع) ميں دہتكارنا اور تن تنہا كردينا،مرتدوں اور گمراہ كرنے والوں كى سزا تھيقال فاذهب فإن لك فى الحى وة ا ن تقول لا مساس ''لامساس'' كے بارے ميں دو رائے كا اظہار كيا گيا ہے ۱_ يہ حضرت موسى (ع) كى طرف سے عدالتى فيصلہ تھا ۲_ يہ سامرى كے بارے ميں حضرت موسى (ع) كى نفرين ہے مذكورہ مطلب پہلى رائے كے مطابق ہے _

۳ _ سامرى كا لوگوں سے دور ہونے اور لوگوں كا اس سے دور ہونے سے دوچار ہونا اسكے بارے ميں حضرت موسي(ع) كى نفرين كا نتيجہ تھا_فإن لك فى الحيوة ا ن تقول لامساس

جيسا كہ بعض مفسرين نے كہا ہے احتمال ہے كہ ''فإن لك فى الحياة ...'' سامرى كے بارے ميں حضرت موسي(ع) كى نفرين ہو _ يعنى سامرى اپنى خاص نفسياتى يا جسمانى بيمارى ميں مبتلا ہوجائے كہ لوگ اس سے دور رہيں اور وہ لوگوں سے دورى اختيار كرے _

۱۸۷

۴ _ لوگوں سے رابطہ ختم ہونا اور معاشرے سے دہتكاراجانا اور تنہا ہوجانا ايسى سزاتھى كہ جو سامرى كيلئے سزاوار تھي_

قال فاذهب فإن لك لامساس

''لك'' كا ''لام'' سامرى كے استحقاق پر دلالت كرتا ہے اور (پچھلى آيت ميں مذكور) ''نبذتہا'' كو مد نظر ركھتے ہوئے كہا جاسكتا ہے كہ معاشرے سے دھتكارا جانا سامرى كى طرف سے رسالت كے آثار كو درو پھينكنے والے گناہ كے مناسب سزا تھى _

۵ _ معاشرے كو گمراہ كرنے والے عناصر سے پاك كرنا اور ان كے اور لوگوں كے دو طرفہ روابط كو منقطع كرنا ضرورى ہے_قال فاذهب لامساس

۶ _ سامرى كو دنياوى سزا كے علاوہ آخرت ميں حتمى اور قطعى سزا كا سامنا ہوگا _لك فى الحياة و إن لك موعداً لن تخلفه

''موعد'' ''وعدہ، وعدہ كى جگہ اور وعدہ كا وقت كے معانى ميں استعمال ہوتا ہے اور ظاہراً اس سے مراد وہ عذاب ہے جس كا قيامت ميں وعدہ ديا گيا ہے_

۷ _ گمراہ قائدين دنياوى سزا كى وجہ سے اخروى سزا سے معاف نہيں ہوں گے _فى الحى وة لامساس و إن لك موعداً لن تخلفه

۸ _ خداتعالى كى بعض دھمكيوں كا قطعى ہونا _موعدا لن تخلفه ''لن تخلفہ'' مجہول ہے اور اس كا غير مذكورہ فاعل خداتعالى ہے _

۹ _ سامرى خود بھى اپنے ہاتھ سے بنائے ہوئے بچھڑے كى پرستش كرتا تھا _و انظر إلى إلهك الذى ظلت عليه عاكف

''الہك'' سامرى كے معبود كى تحقير كے علاوہ اس بات پر بھى دلالت كرتا ہے كہ خود سامرى نے بھى اسے معبود كے طور پر قبول كر ركھا تھا_

۱۰ _ سامرى نے خود كو اپنے دست ساز بچھڑے كى مكمل نگرانى كا پابند بناركھا تھا اور مسلسل اسكے ہمراہ رہتا_ظلت عليه عاكف ''ظلت''،''ظللت'' (تو اس پر كاربند تھا) كا مخفف ہے ''عكوف'' كا معنى ہے كسى چيز كو چمٹا رہنا اور اسى سے دائمى سركشى ہے (مصباح) اور''ظلت عليه عاكفاً'' يعنى اسكى طرف تيرى بہت توجہ تھى اور تو ہميشہ اس كا ديدار كررہا تھا _

۱۱ _ سامرى كے بچھڑے كو مكمل طور پر جلاكر اسكے آثار كو ختم كردينا اور اسكى راكھ كو دريا ميں پھينك دينا سامرى كے

۱۸۸

سنہرے بچھڑے كے بارے ميں حضرت موسى (ع) كى قطعى اور مؤكد تصميم _و انظر إلى إلهك لنحرقنه ثم لننسفنه فى اليم نسف (''لنحرقنہ'' كے مصدر) تحريق كا معنى ہے زيادہ جلانا (مصباح) نسف كامعنى ہے جڑ سے اكھاڑنا، گرادينا اور ہوا ميں منتشر كردينا (قاموس)قابل ذكرہے كہ آيت ميں آخرى معنى زيادہ مناسب لگ رہا ہے پس ''ثم لننسفنہ'' يعنى بچھڑے كو جلانے كے بعد ( اسے راكھ كرنا) اسكى راكھ كو دريا ميں پھينك ديں گے _

۱۲ _ سامرى كے بچھڑے كو جلانا اور اسكى راكھ كو دريا ميں پھينكنا ،سامرى اور ديگر لوگوں كے سامنے انجام پايا_و انظر لنحرقنه ثم لننسفنه فى اليم ''انظر'' حضرت موسي(ع) كى طرف سے سامرى كو حكم ہے اور ظاہراً اس سے مراد جلانے اور دريا ميں پھينكنے والے پروگرام كا نظارہ كرنا ہے_ ''لنحرقنہ'' اور ''لننسفنہ'' كى جمع كى ضمير ميں موقع پر لوگوں كے حاضر ہونے كو بيان كر رہى ہيں _

۱۳ _ حضرت موسى (ع) نے سامرى كے بچھڑے كو نابود كرنے كيلئے بنى اسرائيل كى مدد كا انتظام كيا تھا اور آپ انہيں اس كام ميں شريك كرنے پر مصمم تھے_لنحرقنه ثم لننسفنه ''لنحرقنه' ' اور ''لننسفنہ'' كى جمع كى ضمير يں مذكورہ مطلب كو بيان كررہى ہيں _

۱۴ _ سامرى كے بچھڑے كو تراش كر اسے ناقابل استعمال برادے ميں تبديل كرنا اور پھر اسے دريا ميں منتشر كردينا بنى اسرائيل كے بچھڑا پرستى والے انحراف كا قلع قمع كرنے كيلئے حضرت موسي(ع) كا پروگرام _لنحرقنه

''حرق'' اور ''تحريق'' كے معانى ميں سے ايك نرم كرنا اور پگھلانا ہے _اور ''تحريق'' اسكے تسلسل اور شدت پر دلالت كر رہا ہے (لسان العرب) مذكورہ مطلب اسى معنى كى بناپر ہے_

۱۵ _ شرك كے فكرى اور عينى ذرائع كے ساتھ مقابلہ كرنا اور انہيں نابود كرنا،بنى اسرائيل كى بچھڑاپرستى كے خلاف حضرت موسي(ع) كى روش_إلهك الذي لنحرقنه ثم لننسفنه

سامرى كے بچھڑے كو جلانا چند جہات سے قابل تامل ہے ۱: نابود كرنے اور اسے لوگوں كى نظروں سے مٹا دينے كى جہت سے تا كہ دوبارہ اسكى طرف مائل نہ ہوجائيں ۲: اس سنہرے بچھڑے كو جلاكر راكھ كردينے سے ظاہر بينوں كيلئے اس كے معبود نہ ہونے كو ثابت كرنا _ پہلى جہت عينى اور دوسرى فكرى ہے_

۱۶ _ شرك اور غير خدا كى پرستش كى جڑوں كو كاٹنا اور لوگوں

۱۸۹

كى زندگى سے اسكے آثار كو محو كردينا ضرورى ہے _إلهك لنحرقنه ثم لننسفنه فى اليم نسف

۱۷ _ مادى اور فنى اقدار كو شرك كے خلاف مقابلے اور اسكے آثار اور ذرائع كو نابود كرنے ميں سستى كاموجب نہيں بننا چاہے_و انظر إلى إلهك لنحرقنه ثم لننسفنه فى اليم نسف باوجود اسكے كہ سامرى كا بچھڑا قيمتى دھاتوں سے بنايا گيا تھا اور اس سے صحيح استفادے كا امكان تھا حضرت موسي(ع) نے جلانے اور نابود كردينے كا حكم ديا كيونكہ صحيح عقائد كى حفاظت اور اعتقادى انحرافات كے ساتھ مقابلے كى قدر و قيمت مادى اقدار كے ساتھ قابل قياس نہيں ہے_

ہنرى آثار:انكا كردار ۱۷

مدد طلب كرنا:بنى اسرائل سے مدد طلب كرنا ۱۳

بنى اسرائيل:انكى تاريخ ۱، ۳، ۱۳، ۱۴، ۱۵; انكى بچھڑا پرستى كے خلاف مبارزت كى روش ۱۴، ۱۵; انكا كردار نقش و ۱۳

خداتعالى :اسكى دھمكيوں كا قطعى ہونا ۸

راہنما:گمراہى كے راہنماؤں كى اخروى سزا ۷; گمراہى كے راہنماؤں كى دنيوى سزا ۷

سامري:اسكے بچھڑے كو دريا برد ہ كرنا ۱۱، ۱۲; اسكى جلا وطنى ۱; اسكے بچھڑے كونابود كرنے كى روش ۱۴; اسكے بچھڑے كو جلانا ۱۱، ۱۲; اسے مطرود كرنا ۳، ۴، ۶; اس كا قصہ ۱، ۳، ۹، ۱۰; اسكے ساتھ قطع تعلقى ۱; اسكى اخروى سزا كا قطعى ہونا ۶; اسكى دنيوى سزا ۶; اسكى سزا ۴; اسكى بچھڑا پرستى ۹; اسكے بچھڑے كى نگرانى ۱۰; اسكے خلاف عدالتى كا روائي۱; اسكے بچھڑے كى نابودى ۱۳; اس پر نفرين ۳; اس كا كردار ونقش ۱۰

شرك دشمني:اسكى اہميت ۱۶، ۱۷

گمراہ لوگ:انكے ساتھ نمٹنے كى روش ۵; انہيں مطرود كرنا۵; انكے ساتھ قطع تعلقي۵

مرتد:اسكے احكام ۲; اسكى جلا وطني۲; يہ يہوديت ميں ۲

موسي(ع) (ع) :انكى نفرين كے اثرات ۳; انكى تصميم ۱۱; انكى شرك دشمنى كى روشء ۱۵; انكا قصہ ۱، ۳، ۱۱، ۱۲، ۱۳، ۱۴، ۱۵; انكا فيصلہ۱; يہ اور سامرى كا بچھڑ ۱۱

يہوديت:اسكى تعليمات ۲

۱۹۰

آیت ۹۸

( إِنَّمَا إِلَهُكُمُ اللَّهُ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ وَسِعَ كُلَّ شَيْءٍ عِلْماً )

يقينا تم سب كا خدا صرف اللہ ہے جس كے علاوہ كوئي خدا نہيں ہے اور وہى ہر شے كا وسيع علم ركھنے والا ہے (۹۸)

۱ _ لوگوں كو عبادت ميں توحيد كى طرف متوجہ كرنا، حضرت موسي(ع) كا سامرى كے بچھڑے كو جلا كر راكھ كردينے كا مقصد_لنحرقنه إنما إلهكم الله

ظاہراً يہ آيت حضرت موسي(ع) كى اپنى قوم كے ساتھ گفتگو كا تسلسل ہے _ سامرى كے خلاف عدالتى كاروائي اور اسكے خلاف فيصلے نيز اسكے بچھڑے كو نابود كرنے كے بعد ان بيانات كو پيش كرناكى تصميم اس پورے واقعے كا نتيجہ ہے اور يہ اس نكتے كو بيان كر رہا ہے كہ حضرت موسي(ع) نے يہ نتيجہ (شرك كا ابطال اور توحيد كا اثبات) اخذ كرنے كيلئے يہ سب كام انجام ديئے تھے _

۲ _ صرف الله تعالى ،انسانوں كا حقيقى معبود ہے _إنما إلهكم الله

۳ _ ''الله '' عالم ہستى كے واحد حقيقى معبود كا مخصوص نام ہے_إنما إلهكم الله الذى لا إله إلا هو

۴ _ انسان كا حقيقى معبود،عالم ہستى كا يكتا معبود ہےإنما إلهكم الله الذى لا إله إلا هو

''الذي ...'' كا وصف تعليل كيلئے ہے يعنى چونكہ ''الله '' وہ ذات ہے كہ كائنات ميں اسكے سوا كوئي معبود بر حق نہيں ہے لذا تمہارا خدا بھى وہى ہے_

۵ _ كائنات كى تمام مخلوقات،خدائے يكتا كے علم ميں ہيںالله الذي وسع كل شيء علم

''علماً''،''وسع'' كے فاعل كيلئے تميز ہے يعنى خداتعالى علم و آگاہى كے لحاظ سے تمام مخلوقات پر محيط ہے _

۶ _ وہ معبود لائق عبادت ہے جو شريك سے بے نياز ہو اس كا علم مطلق ہو اور سب چيزوں پر محيط ہو _

إنما إلهكم الله وسع كل شيء علم

۱۹۱

''وسع'' كا جملہ ''لا إلہ إلا ہو'' كيلئے بدل ہے اور يہ دونوں '' إنما إلہكم ...'' كيلئے تعليل ہيں _

اسما و صفات : الله ۳

انسان:اس كا معبود ۴

توحيد:توحيد عبادى كى اہميت ۱; توحيد عبادي۴

خداتعالى :اسكى خصوصيات ۲; اسكے علم كى وسعت ۵

سامري:اسكے بچھڑے كو نابود كرنے كا فلسفہ ۱سچامعبود ۲، ۴

اس كا احاطہ ۶; اس كا بے مثال ہونا ۶; اس كا بے نياز ہونا ۶; اسكى شرائط ۶; اس كا علم ۶; اس كا نام ۳

موجودات:ان كا علم ۵

موسى (ع) :انكے اہداف ۱

آیت ۹۹

( كَذَلِكَ نَقُصُّ عَلَيْكَ مِنْ أَنبَاء مَا قَدْ سَبَقَ وَقَدْ آتَيْنَاكَ مِن لَّدُنَّا ذِكْراً )

اور ہم اسى طرح گذشتہ دور كے واقعات آپ سے بيان كرتے ہيں اور ہم نے اپنى بارگاہ سے آپ كو قرآن بھى عطا كرديا ہے (۹۹)

۱ _ سابقہ اقوام كى سرگذشت نقل كرنے ميں قرآنى روش كى طرف توجہ كرنا ضرورى ہے _كذلك نقص عليك من ا نباء ما قد سبق ''كذلك'' دوسروں كى سرگذشت كے نقل كرنے كو موسي(ع) كى داستان كے نقل كرنے كے ساتھ تشبيہ دينے كيلئے ہے اور آيت كا ذيل ''آتيناك ذكراً'' اس نكتے كو بيان كر رہا ہے كہ خداتعالى ان قصوں ميں بھى پندآموز نكات كا انتخاب كر كے انہيں قرآن ميں بيان كرتاہے جيسا كہ اس نے حضرت موسى (ع) اور بنى اسرائيل كى دوستان ميں كيا ہے_

۲ _ گذشتہ انبياء (ع) اور امتوں كى اخبار كو مسلسل نقل كرنا، خداتعالى كا پيغمبر (ص) كے ساتھ ايك وعدہ _

۱۹۲

كذلكنقص عليك من ا نباء ما قد سبق

''نقص عليك ...''گذشتہ لوگوں كى تاريخ كے گوشوں كو نقل كرنے كے سلسلے ميں خداتعالى كا وعدہ ہے_

۳ _ قرآن مجيد كى داستانيں ،تاريخى واقعيات سے ماخوذ ہيںنقص عليك من ا نباء ما قد سبق

''نبا'' خبر كے معنى ميں ہے ''ما قد سبق'' يعنى وہ جو ماضى ميں واقع ہوچكا ہے نہ يہ كہ صرف خيالى اور غير واقعى امور ہوں _

۴ _ قرآن مجيد خداتعالى كى طرف سے پيغمبر اكرم(ص) كيلئے ايك عظيم عطيہ اور نصيحت گيرى اور ہوشيار رہنے كا ايك ذريعہ ہے _و قد ء اتيناك من لدنّا ذكرا

''ذكرا'' كا نكرہ ہونا اسكى عظمت پر دلالت كرتا ہے (بعد والى آيت ميں ) ''من ا عرض عنہ'' قرينہ ہے كہ ذكر سے مراد قرآن ہے_

۵ _ قرآن كريم ميں گذشتہ لوگوں كى داستانوں كو نقل كرنا يادآورى اور بيدار كرنے كيلئے ہے _نقص عليك من ا نباء ما قد سبق ذكرا

۶ _ نصيحت گيرى اور سبق حاصل كرنے كيلئے قرآن كى داستانوں ميں غور و فكر كرنا ضرورى ہے _نقص عليك من ا نبا ئ ذكرا

۷ _ ''ذكر'' قرآن مجيد كے ناموں اور اوصاف ميں سے ہے_و قد ء اتيناك من لدنا ذكرا

۸ _ قرآن مجيد كى داستانيں ،خداتعالى كے علم كے سرچشمہ سے نازل ہوئي ہيں نہ يہ كہ دوسروں كى باتوں سے مأخوذہوں _

من لدنا

آنحضرت(ص) :آپ(ص) كے ساتھ وعدہ ۲

تدبر:قرآن كے قصوں ميں تدبر ۶

خداتعالى :اسكے عطيات ۴; اس كا علم ۸; اسكے وعدے ۲

ذكر: ۷قرآن مجيد:اس ميں تاريخ ۱، ۲; اسكى تعليمات كى روش ۱; اس كى فضيلت ۴; اسكے قصوں كا فلسفہ۵; اسكے نزول كا فلسفہ ۴; اسكے قصوں كا سرچشمہ ۸; اسكے نام ۷; اسكے قصوں كى حقيقت ۳

نعمت:قرآن كى نعمت۴

ياددہاني:پيغمبر كوياد دہانى ۴; اسكے عوامل ۴، ۵، ۶

۱۹۳

آیت ۱۰۰

( مَنْ أَعْرَضَ عَنْهُ فَإِنَّهُ يَحْمِلُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وِزْراً )

جو اس سے اعراض كرے گا وہ قيامت كے دن اس ا نكار كا بوجھ اٹھائے گا (۱۰۰)

۱ _ قرآن مجيد اور اسكى نصيحتوں سے روگردانى كرنے والے قيامت كے دن اپنے كندھوں پر گناہ كا بھارى بوجھ اٹھائے ہوئے ہوں گے _من أعرض عند فإنه يحمل يوم القيامة وزرا

۲ _ قرآن مجيد سے روگردانى گناہ ہے اور قيامت والے دن يہ انسان كے دامنگير ہوگى _من أعرض عنه فإنه يحمل يوم القيامة وزرا

۳ _ قرآن اور اسكى نصيحتوں سے روگردانى كرنے والے دنيا ميں انحراف اور گناہ ميں گرفتار ہوتے ہيں _

ء اتيناك من لدنا ذكراً_ من أعرض عنه فانه يحمل وزرا

جملہ '' فإنہ يحمل ...'' ممكن ہے قرآن مجيد سے اعراض كرنے والوں كے ديگر گناہوں ميں گرفتار ہونے كو بيان كررہا ہو يعنى يہ لوگ اس روگردانى كى وجہ سے دنيا ميں گناہ كے جال ميں پھنس جائيں گے اور قيامت ميں اس كے بوجھ تلے اور اسے اٹھائے ہوئے ہوں گے_

۴ _ قيامت،انسان كے دنياوى اعمال كے ظہور كا دن ہے _من أعرض عنه فإنه يحمل يوم القيامة وزرا

''وزر'' كا معنى ہے پھارى بوجھ اور چونكہ گناہ بھى گناہ گار كے كا ندھے پر بھارى بوجھ ہوتا ہے اس لئے اسے بھى ''وزر'' كہتے ہيں (مفردات راغب) ''حمل وزر'' اس چيز كى حكايت كررہا ہے كہ قيامت كے دن گناہ، گناہ گار كے كندھے پر بوجھ كى صورت ميں ظاہر ہوگا_

۵ _ قرآن مجيد اور اسكى نصيحتوں كى طرف توجہ قيامت والے دن بوجھ كے ہلكا ہونے اور نجات كا سبب ہے _

من أعرض عنه فإنه يحمل يوم القيامة وزرا

جس طرح قرآن مجيدسے روگردانى قيامت كے دن بوجھ كے بھارى ہونے اور پريشانى كا سبب ہے اسى طرح قرآن مجيد كى طرف پلٹنا اور اسكے ساتھ تمسك قيامت والے دن انسان كے بوجھ كے ہلكا كرنے اور اسكى نجات كا سبب ہے_

۱۹۴

۶ _ قرآن مجيد، قيامت والے دن اعمال كے پركھنے كا محور اور ميزان ہے _من أعرض عنه فإنه يحمل يوم القيامة وزرا

آيت كا منطوق دلالت كرر ہا ہے كہ قرآن سے روگردانى ''وزر'' آور ہے اور اس كا مفہوم يہ ہے كہ اسكى طرف توجہ نجات كا سبب ہے پس قيامت كے دن انسان كے اعمال اور عقائد كى قدر و قيمت كا معيار اس كى قرآن سے دورى اور نزديكى ہوگى اور اس ذريعہ سے اس كيلئے ثواب و عقاب كى درجہ بندى ہوگى _

ذكر:قرآن كے ذكر كے اثرات ۵

عمل:اس كا ميزان ۶

قرآن مجيد:اس سے روگردانى كے اثرات ۳; اس سے روگردانى كرنے والوں كے گناہ كا سنگين ہونا۱; اس سے روگردانى كرنے والوں كى گمراہى ۳; اس سے روگردانى كرنے كا گناہ ۲; اس سے روگردانى كرنے والے قيامت ميں ۱; اس كا اخروى كردار ۶

قيامت:اس ميں پاداش ۴; اس ميں عمل كا مجسم ہونا ۴; اس ميں حقائق كا ظہور ۴; اس ميں سزا ۴; اسكى خصوصيات ۴

گمراہي:اسكے عوامل ۳

گناہ:اسكے عوامل ۳

نجات:اخروى نجات كے عوامل ۵

آیت ۱۰۱

( خَالِدِينَ فِيهِ وَسَاء لَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ حِمْلاً )

اور پھر اسى حال ميں رہے گا اور قيامت كے دن يہ بہت بڑا بوجھ ہوگا (۱۰۱)

۱ _ قرآن مجيد سے اعراض كرنے كى سزا،قيامت ميں بھارى بوجھ كى طرح اعراض كرنے والوں كے گندھوں پر ہوگي_

من ا عرض عنه وزراً خلدين فيه حملا

''حمل'' اس اٹھائي ہوئي چيز كو كہتے ہيں كہ جو سر يا پشت پر اٹھائے ہوئے وزن كى طرح آشكار ہو (لسان العرب) اور اس كا نكرہ ہونا اسكے بھارى ہونے كو بيان كررہا _

۲ _ قرآن مجيد سے روگردانى كرنے والوں كى اخروى سز

۱۹۵

اور نتائج ابدى ہوں گے اور كبھى جدا نہيں ہوں گے _وزرا خلدين فيه و ساء لهم

''فيہ'' كى ضمير كا مرجع ''وزرا'' ہے جو گذشتہ آيت ميں تھا ''وزر'' ميں خلود اور ہميشگى كا معنى اسكے اثرات اور نتائج كا دائمى ہونا _

۳ _ قيامت كے دن قرآن مجيد سے روگردانى كا وزر اور عقوبت روگردانى كرنے والوں كے كندھوں پر ناگوار اور مشقت بار وزن ہوگا _وزراً و ساء لهم يوم القيامة حملًا

۴ _ اخروى سزائيں ،دنيوى اعمال كا تجسم ہيں _فإنه يحمل يوم القيامة وزراً خلدين فيه حملًا

گناہ گاروں كا وزر اور گناہ ميں ہميشہ رہنا اس چيز كو بيان كررہا ہے كہ قيامت كى عقوبتيں اور مشكلات دنياوى اعمال كا تجسم ہيں كيونكہ وہ اپنے گناہ ميں ہميشہ ہيں _

۵ _ قيامت،گناہ گاروں كى سزا كا دن ہے_وساء لهم يوم القيامة حملا

عذاب:اس ميں ہميشہ رہنا ۲

عمل:اس كا مجسم ہونا ۴

قرآن مجيد:اس سے روگردانى كرنے والوں كى سزا كا سخت ہونا۳; اس سے روگردانى كرنے والوں كى سزا كا سنگين ہونا ۱; اس سے روگردانى كرنے والوں كى اخروى سزا ۱، ۲

قيامت:اسكى خصوصيات ۵

سزا:اخروى سزا كى حقيقت ۴

گناہ گار لوگ:انكى اخروى سزا ۵

آیت ۱۰۲

( يَوْمَ يُنفَخُ فِي الصُّورِ وَنَحْشُرُ الْمُجْرِمِينَ يَوْمَئِذٍ زُرْقاً )

جس دن صور پھونكا جائے گا اور ہم تمام مجرمين كو بدلے ہوئے رنگ ميں اكٹھا كريں گے (۱۰۲)

۱ _ صور (بگل يا صورت اور پيكر ) ميں پھونكا جانا،روز قيامت كے واقعات ميں سے ہے _يوم ينفخ فى الصور

ممكن ہے صوران دو معنوں ميں سے ايك ميں ہو_ ۱_سينگ كے

۱۹۶

معنى ميں تو اس صورت ميں مراد بگل ميں پھونكاجانا ہوگا كيونكہ قديم زمانے ميں جانوروں كے سينگ ميں سوراخ كر كے اس سے بناتے تھے ۲_ ممكن ہے صور''صورة'' كى جمع ہو تو اس صورت ميں مراد مردوں كے جسموں اور پيكروں ميں پھونكاجانا ہوگا تا كہ وہ زندہ ہوجائيں بعض آيات كہ جن ميں كلمہ '' صور'' آيا ہے دوسرے معنى كے ساتھ سازگار نہيں ہيں _

۲ _ صور ميں پھونكاجانا اور قيامت ميں محشور ہونا ايسے دو واقعات ہيں جو ايك دوسرے كے ساتھ مربوط ہيں _يوم ينفخ فى الصور و نحشر المجرمين ''حشر'' كا ''نفخ صور'' پر عطف بتاتا ہے قيامت كے برپا ہونے كے سلسلے ميں يہ دو واقعات آپس ميں مربوط ہيں _

۳ _ قيامت،مردوں كے اجساد ميں دوبارہ روحوں كے پھونكے جانے كا دن _*يوم ينفخ فى الصور

مذكورہ مطلب اس احتمال كى بناپر ہے كہ ''صور'' ''صورة'' كى جمع اور ''اجساد'' كے معنى ميں ہو_

۴ _ مجرمين جس لحظے قيامت ميں حاضر ہوں گے پريشانى كے ساتھ اپنے انجام پر نظر يں لگائے مبہوت اور حيرت زدہ ہوں گے _و نحشرالمجرمين يومئذ زرقا

''زرقاً''،''المجرمين'' كيلئے حال ہے اور اس كا مفرد ''ارزق'' يا ''رزقائ'' اس شخص كو كہاجاتا ہے كہ جس كى آنكھ كى سفيدى اسكى سياہى كو ڈھانپ لے (لسان العرب) يہ حالت مجرمين كے ٹكٹكى باندھ كر ديكھنے كى علامت ہے اور ان كے شديد اندرونى اضطراب كو بيان كررہى ہے بعض لوگوں كا كہنا ہے كہ آنكھ كے سفيدہونے كا لازمہ اس كا اندھا ہونا ہے (لسان العرب)_

۵ _ قيامت ميں مجرمين كا محشور ہونا شديد رنج،الم اور وحشت كے ساتھ ہوگا _و ساء لهم يوم القيامة حملاً نحشر المجرمين يومئذ زرقا ''حملا'' اور ''زرقا'' قيامت كے دن منكرين قرآن كى پريشان حالى اور سخت حالات پر دلالت كررہے ہيں

۶ _ قيامت كے دن مجرمين نيل پڑے اور اترے ہوئے چہروں كے ساتھ محشور ہوں گے _*و نحشرالمجرمين يومئذ زرقا

ممكن ہے (''زرقاً'' كے مفرد) ''ا رزق'' يا ''زرقائ'' سے مراد لاجوردى رنگ ہوكہ جسے آسمانى رنگ يا نيلگوں بھى كہا جاتا ہے يہ صفت اگرچہ عام طور پر آنكھو كيلئے استعمال ہوتى ہے ليكن آنكھ كے غير ميں بھى استعمال ہوتى ہے (لسان العرب) مذكورہ مطلب اس بنياد پر ہے كہ ''زرقاً'' مجرمين كى جسمانى حالت كو بيان كررہا ہو_

۷ _ قيامت انسانوں كے جمع اور اكٹھا ہونے كا دن _نحشر المجرمين

''حشر'' كا معنى ہے جمع كرنا (لسان العرب) اور اس ميں چلانے كا معنى ہى ملحوظ ہوتا ہے _

۱۹۷

۸ _ قيامت برپا كرنا اور اس ميں مجرمين كو حاضر كرنا خداتعالى كے اختيار ميں اور اسكے ارادے كے ساتھ مربوط ہے _نحشر

۹ _ قرآن مجيد سے روگردانى كرنے والے ايسے مجرم ہيں جن كا برا انجام ہے _ء اتينك من أعرض و نحشر المجرمين يومئذ زرقا

انسان:اس ميں روح پھونكنا ۳

خداتعالى :اسكے ارادے كے اثرات ۸

قرآن مجيد:اس سے روگردانى كرنے والوں كا انجام ۹

قيامت :اس ميں جمع ہونا ۷; اس ميں محشورہونا ۲; اس ميں آنكھ خيرہ ہونا ۴; اسكے برپا ہونے كا سرچشمہ ۴; اس ميں صور پھونكنا ۱، ۲; اسكى خصوصيات ۱، ۳، ۷

گناہ گار لوگ:انكى اخروى حيرت ۴; ان كا اخروى خوف ۵; انكے چہرے كا رنگ ۶; انكى آنكھ كا خيرہ ہونا ۴; انكا برا انجام ۹; انكے محشور ہونے كا سرچشمہ۸; انكى اخروى پريشاني۴; ان كے محشور ہونے كى خصوصيات ۵

مردے:انہيں آخرت ميں زندہ كرنا ۳

آیت ۱۰۳

( يَتَخَافَتُونَ بَيْنَهُمْ إِن لَّبِثْتُمْ إِلَّا عَشْراً )

يہ سب آپس ميں يہ بات كر رہے ہوں گے كہہم دنيا ميں صرف دس ہى دن تو رہے ہيں (۱۰۳)

۱ _ گناہ گار اور قرآن سے روگردانى كرنے والے روز قيامت ايك دوسرے كے ساتھ آہستہ آہستہ باتيں كريں گے _

يتخفتون بينهم

''خفت'' كا مطلب ہے بات كو مخفى ركھنا (لسان العرب) ''يتخافتون'' باب تفاعل سے ہے اور اس بات پر دلالت كرتا ہے كہ ايك دوسرے كے ساتھ گفتگو كرتے وقت انكى آواز سنائي نہيں ديں گى قابل ذكر ہے كہ (بعد والى آيات ميں مذكور) ''خشعت الا صوات للرحمان'' قرينہ ہے كہ خداتعالى كى عظمت كے احساس اور اسكى رحمت كى توقع نے مجرمين كو آوازيں ا نيچى ركھنے پر مجبور كيا _

۱۹۸

۲ _ برزخ ميں ٹھہرنے كى مدت كا اندازہ قيامت كے دن قرآن سے روگردانى كرنے والوں كى آپس ميں خفيہ گفتگو كا حصہ _

يتخفتون بينهم إن لبثتم

اپنے ٹھہرنے كى مدت كے بارے ميں مجرمين كا سوال _ اس قرينے كو مد نظر ركھتے ہوئے كہ دنيا ميں انكى عمر يں بہت مختلف تھيں _ موت كے بعد گزرنے والى مدت كے بارے ميں سوال ہے_

۳ _ مجرمين اور قرآن سے روگردانى كرنے والا ايك گروہ،قيامت كے دن برزخ ميں اپنے ٹھہرنے كى مدت كا اندازہ دس دن لگائے گا _إن لبثتم إلا عشرا

''لبث'' كا معنى ہے ٹھہرنا اور بعد والى آيت ميں مذكورہ ''يوماً''قرينہ ہے كہ ''عشراً'' سے مراددس دن ہيں يہ كلمہ اگر چہ صرف مو نث (جيسے ليالي) كيلئے استعمال ہوتا ہے ليكن اگر تميز محذوف ہو تو مذكر (جيسے ايام) كيلئے بھى استعمال ہوتاہے _

۴ _ موت سے روز قيامت تك كا فاصلہ،حاضرين قيامت كى نظر ميں بہت ہى كم اور معمولى فاصلہ ہے_

يتخفون بينهم إن لبثتم إلا عشرا

۵ _ قيامت ميں بھى بعض لوگوں كيلئے بعض حقائق مخفى رہيں گے _يتخفتون بينهم إن لبثتم إلا عشرا

جملہ ''يتخفتون'' بتاتا ہے كہ''إن لبثتم إلا عشراً'' كا محتوا مجرمين كى گفتگو كا محور تھا نہ يہ كہ اس پر ان كا اتفاق رائے ہو اور مختلف نظريات كا پيش كرنا ان ميں سے بعض كيلئے حقيقت كے مشخص نہ ہونے سے حكايت كرتا ہے_

عدد:دس كا عدد ۳عالم برزخ

اسكى مدت كا كم ہونا ۴; اسكى مدت ۲، ۳

قرآن مجيد:اس سے روگردانى كرنے والوں كى آخرى سرگوشياں ۱، ۲، ۳

قيامت:اس ميں حقائق كا مخفى رہنا ۵

گناہ گار لوگ:انكى اخروى سرگوشياں ۱

موت:اس كا قيامت تك كا فاصلہ ۴

۱۹۹

آیت ۱۰۴

( نَحْنُ أَعْلَمُ بِمَا يَقُولُونَ إِذْ يَقُولُ أَمْثَلُهُمْ طَرِيقَةً إِن لَّبِثْتُمْ إِلَّا يَوْماً )

ہم ان كى باتوں كو خوب جانتے ہيں جب ان كا سب ہے ہوشيار يہ كہہ رہا تھا كہ تم لوگ صرف ايك دن رہے ہو (۱۰۴)

۱ _ الله تعالى ،قيامت كے دن مجرمين كى برزخ ميں ان كے ٹھہرنے كى مدت كے بارے ميں ايك دوسرے كے ساتھ گفتگو كے بارے ميں سب سے زيادہ آگاہ ہے_إن لبثتم إلا عشراً نحن أعلم بما يقولون

''ما يقولون'' يعنى جو وہ كہتے ہيں او رممكن ہے اس سے مراد مجرمين كى طرف سے آپس ميں بولے گئے جملے ہوں اور ممكن ہے اس سے مراد وہ موضوع ہو كہ جسكے بارے ميں مجرمين اظہار نظر كرتے ہيں مذكورہ مطلب ميں پہلا احتمال مد نظر ركھا گيا ہے _

۲ _ خداتعالى سے كوئي چيز مخفى نہيں ہے _يتخفتون نحن أعلم بما يقولون

۳ _ خداتعالى برزخ ميں انسانوں كے ٹھہرنے كى مدت كے بارے ميں سب سے زيادہ آگاہ ہے _نحن أعلم بما يقولوں

''ما يقولون'' كے دو احتمالى معنوں ميں سے ايك كى بنياد پر اس سے مراد وہ موضوع ہے كہ جو روز قيامت مجرمين كى گفتگو كا محور ہوگا _

۴ _ روز قيامت سب سے زيادہ صحيح فكر والے مجرمين سب كيلئے برزخ ميں ٹھہرنے كى مدت كا اندازہ ايك دن لگائيں گے _

إذ يقول ا مثلهم طريقة إن لبثتم إلا يوما ''ا مثلهم طريقةً'' اس شخص كو كہا جاتا ہے جو افراد ميں سے سب سے زيادہ منصف اور حق پرستوں كے سب سے زيادہ مشابہ ہو اور جو كچھ كہتا ہو زيادہ اطمينان سے كہتا ہو (قاموس) _

۵ _ برزخ كى تھوڑى سى مدت كاايك دن يا اس سے زيادہ اندازہ لگانا،ايك نادرست اور حقيقت سے دور انداز ہ ہے

نحن أعلم إذ يقول إلا يوما ''إذ'' ،''أعلم'' كيلئے ظرف ہے اور اس سے مراد يہ ہے كہ صحيح ترين فكروالے مجرمين كى طرف سے اظہار رائے كى صورت ميں بھى خداتعالى سب سے زيادہ آگاہ ہے_ اور يہ چيز كنايہ ہے كہ ان ميں

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

۶ _ آدم(ع) و حوا(ع) كے زمين پر اتر نے كا لازمہ پورى نسل انسانى كو اس ميں باقى ركھنا ہے_قال اهبطا بعضكم لبعض عدو فإما يأتينكم ''بعضكم'' اور ''يا تينكم'' كى جمع كى ضميرويں اس نكتے كو بيان كررہى ہيں كہ ہبوط والے حكم كے صادر ہونے كے وقت زمين ميں انسانى زندگى كا مسلسل ہونا قطعى تھا_

۷ _ زمين ميں انسان كى زندگى ہميشہ انسانوں كى آپس ميں دشمنى اور مخالفت كے ہمراہ رہى ہے_اهبطا منها جميعاًبعضكم لبعض عدو ''بعضكم لبعض عدو'' كے بارے ميں دو نظر ہيں ۱_ اس سے مراد شياطين كى انسانوں كے ساتھ دشمنى ہے اس نظريے كے مطابق ''اہبطا'' ابليس اور آدم(ع) كو خطاب ہوگا ۲_ اس سے مراد انسانوں كى آپس كى دشمنى ہے اس نظريہ كى بنياد يہ ہے كہ ''اہبطا'' كے مخاطب آدم(ع) و حوا ہيں _ دونوں صورتوں ميں آدم(ع) اور حوا و ابليس كو مخاطب بنانا انكى اولاد كے لحاظ سے ہوگا _مذكورہ مطلب دوسرے نظريے كى بنياد پر ہے_

۸ _ انسان اور شيطان ايسے دشمن ہيں كہ جن ميں صلح كا امكان نہيں ہے_اهبطا بعضكم لبعض عدو

مذكورہ مطلب ميں ''اہبطا'' آدم(ع) اور ابليس كو خطاب ہے _

۹ _ حضرت آدم(ع) كى بہشت ايسى جگہ تھى كہ جس ميں صلح و آشتى ، اور مكمل ضروريات كى فراہمى تھى اور اسكے باسيوں كے درميان دشمنى نہيں تھى _إن لك ألاّ تجوع اهبطا بعضكم لبعض عدو

چونكہ افراد بشر كى آپس ميں دشمنى كا موضوع، سزا اور ہبوط كے عنوان سے ذكر كيا گيا ہے اس سے لگتا ہے كہ حضرت آدم(ع) كے پہلے گھر (بہشت) ميں يہ چيز نہيں تھى اور ضروريات كى فراہمى كى وجہ سے اس ميں دشمنى كا پيش خيمہ ہى نہيں تھا _

۱۰ _ خداتعالى نے زمين پر انسان كے اترنے كے آغاز سے ہى اسكى زندگى كيلئے رہنمائي اور منصوبہ بندى كرركھى تھي_اهبطا منها فإما ياتينكم منّى هديً ''إما ياتينّكم'' ميں مخاطب صرف انسان ہيں (اگرچہ ''اہبطا'' كے مخاطب آدم(ع) اورو ابليس ہيں ) كيونكہ شياطين كى گمراہى كے حتمى ہونے كے بعد انہيں ہدايت دينا بے سود ہے_

۱۱ _ انسان كو ہدايت سے بہرہ مند كرنا انسان كے پہلے افراد كو خداتعالى كى بشارت _اهبطا فإما ياتينكم منى هديً

''إما ياتينكم'' دو تاكيدوں پر مشتمل ہے_ ۱_''امّا'' (ان ما) ميں مازائدہ _۲_ نون تاكيد اس طرح عبارت كا معنى يہ ہے كہ اگر ميرى طرف سے تمہارے پاس ہدايت آئي_ كہ جو يقينا آئيگي

۲۴۱

۱۲ _ آدم(ع) و حوا(ع) كے ممنوعہ درخت سے كھانے كى وجہ سے انسانوں ميں دشمنى پيدا ہونے كے اسباب فراہم ہوئے _فأكلا بعضكم لبعض عدو

۱۳ _ خداتعالى نے افراد بشر كى آپس كى دشمنى كے بارے ميں آدم(ع) و حوا(ع) كو مطلع كرديا اور انہيں اسكے نتائج سے بچنے كا راستہ بھى دكھا ديا تھا_بعضكم لبعض عدو فمن إتبع هداى فلا يضل و لا يشقى

۱۴ _ خدا تعالى كى ہدايات كى پيروى انسان كو زمين پر رہنے والوں كى باہمى كشمكش اوردشمنى كے برے انجام سے بچاتى ہے _بعضكم لبعض عدو فإما ياتينكم منى هديً

۱۵ _ انسان ہدايت يا گمراہى كے راستے كے انتخاب كے سلسلے ميں با اختيار ہے_فاما ياتينكم منى هديً فمن اتبع هداي

۱۶ _ ہدايت الہى كى پيروى گمراہى اور بدبختى سے مانع ہے_فمن اتّبع هداى فلا يضل و لايشقى

۱۷ _ ہدايات الہى سے روگردانى انسان كى گمراہى اوراسكے رنج و الم ميں گرفتار ہونے كا سبب ہے_فمن اتبع هداى فلا يضل و لا يشقى '' شقاوت'' كا معنى ہے سختى اور دشوارى (قاموس) اور بعد والى آيت قرينہ ہے كہ اس سے مراد زندگى كا دباؤ اور مشكلات ہيں _

۱۸ _ انسان، غلطيوں سے بچنے اور خوش بختى تك پہنچنے كيلئے ہدايت الہى كا محتاج ہے_فمن اتّبع هداى فلا يضل و لا يشقى

آدم (ع) :انكے دھوكہ كھانے كے اثرات ۳; يہ اور ممنوعہ درخت ۱، ۳، ۱۲; انہيں بہشت سے نكالنا ۲، ۳; انكى بہشت ميں امن ۹; انكو بشارت ۱۱; انكى بہشت ميں ضروريات كى فراہمى ۹; انكى بہشت سے نكالنے كا پيش خيمہ ۴; انكے ہبوط كا پيش خيمہ ۴; انكى بہشت ميں صلح ۹; انكى محروميت كے عوامل ۱; انكى بہشت سے محروميت كے عوامل ۱; انكے ہبوط كے عوامل ۳; انكے ھبوط كا فلسفہ ۶; انكا قصہ ۱، ۲; انكا معلم ۱۳; انكى بہشت كى خصوصيات ۹

اطاعت:خداتعالى كى اطاعت كے اثرات ۱۴، ۱۶

انسان:اس كا اختيار ۱۵; زمين ميں اسكى نسل كى بقا۶; اسكے دشمن ۸; اس كى دشمني۷، ۱۳; اس كى دشمنى كا پيش

۲۴۲

خيمہ ۱۲; اسكے انحطاط كے عوامل ۵; اسكى نجات كے عوامل ۱۴; اسكى معنوى ضروريات ۱۸; اسكى ہدايت ۱۰

بشارت:ہدايت كى بشارت ۱۱

جبر و اختيار ۱۵

حوا(ع) :انكے دھوكہ كھانے كے اثرات ۳; يہ اور ممنوعہ درخت ۱، ۳، ۱۲; ان كے ھبوط كا پيش خيمہ ۴; انكى محروميت كے عوامل ۱; ان كے ھبوط كے عوامل ۳; ان كے ھبوط كا فلسفہ ۶; انكا معلم ۱۳

خداتعالى :اسكى بشارتيں ۱۱; اسكى تعليمات ۱۳; اسكى راہنمائي ۱۰; اسكى ہدايات ۱۱، ۱۸

ممنوعہ درخت:اس سے كھانے كے اثرات ۱، ۱۲

دشمني:اس سے نجات كے عوامل ۱۴; اس سے نجات ۱۳

زمين:اس ميں دشمنى ۷

سختى :اسكے عوامل ۱۷

سعادت:اسكے عوامل ۱۸

شخصيت:اسكى آسيب شناسى ۵

شقاوت:اسكے موانع ۱۶

شيطان:اسكے دھوكہ دينے كے اثرات ۲، ۴; اسكے وسوسوں كے اثرات ۳، ۴; اسے نكال باہر كرنا ۲; اسكى دشمنى ۸; اس كا نقش و كردار ۴; اس كا ہبوط ۲

نافرماني:خداتعالى كى نافرمانى كے اثرات ۵،۱۷

گمراہي:اس كا پيش خيمہ ۱۵; اسكے عوامل ۱۷، اس كے موانع ۱۶

ضروريات:ہدايت الہى كى ضرورت ۱۸

ہدايت:اس كا پيش خيمہ ۱۵

۲۴۳

آیت ۱۲۴

( وَمَنْ أَعْرَضَ عَن ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنكاً وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَى )

اور جو ميرے ذكر سے اعراض كرے گا اس كے لئے زندگى كى تنگى بھى ہے اور ہم اسے قيامت كے دن اندھا بھى محشور كريں گے (۱۲۴)

۱ _ہدايت الہى اور اسكى ياد سے روگردانى لئے انسان كے لئے سخت اور مشكلات سے پر زندگى ميں گرفتار ہونے كا سبب ہے_من اتبع هداى و من أعرض عن ذكرى فإن له معيشة ضنك

''معيشة'' يا تو مصدر ميمى ہے اور يا ''ما يعاش بہ'' كے معنى ميں ہے يعنى وہ چيز جسكے ساتھ زندگى گزرتى ہے '' ضنك'' كا معنى ہے تنگى اور سختى (لسان العرب)

۲ _ ہدايت الہى كى پيروى اور خدا كى ياد ميں رہنا زندگى كى آسانى اور مشكلات كے دور ہونے كا سبب ہے_

من اتبع هداي لا يشقى _ و من أعرض عن ذكرى فإن له معيشة ضنك

۳ _ الہى تفكر اور ہدايات كو مدنظر ركھے بغير دنياوى زندگي ايك تنگ اور محدود زندگى ہے_و من أعرض عن ذكرى فان له معيشة ضنك جس طرح خداتعالى نے ديگر آيات ميں دنياوى زندگى كو''متاع قليل'' قرار ديا ہے ممكن ہے اس آيت ميں بھى دنياوى زندگى كو ''تنگ'' زندگى كے طور پر متعارف كرايا ہو يعنى دنيا ہر حد و اندازے اور ہر مقدار ميں اگر ہدايت سے خالى ہو تو يہ ''تنگ زندگي'' كے سوا كچھ نہيں ہوگى كيونكہ بلا مقصد اور آخرت پر اعتقاد كے بغير زندگى تھكا دينے والي، روزمرہ كا تكرار اور فضول زحمت ہے_

۴ _ہدايت الہى كى پيروى اور اسكى طرف توجہ ياد خدا كا جلوہ ہے_من اتبع هداي و من أعرض عن ذكري

اس آيت ميں ''من ا عرض'' سابقہ آيت ميں ''من اتبع'' كے مقابلے ميں ہے مقابلے كا تقاضا يہ تھا كہ فرماتا'' و من لم يتبع هداي'' ليكن اس كے بجائے فرمايا ہے ''و من أعرض عن ذكري'' اس انتخاب كى وجہ يا تو ہدايت ميں ذكر خدا كا كردار ہے اور يا ذكر و ہدايت كا ايك ہوناہے_

۵ _ ہدايت الہى اور ياد خدا سے روگردانى كرنے والے ميدان قيامت ميں اندھے محشور ہوں گے_

و من أعرض عن ذكري و نحشره يوم القيامة ا عمى

۲۴۴

۶ _ ہدايت الہى اور ہميشہ خدا كى ياد ميں رہنا زندگى ميں بصيرت كا سبب ہے _و من أعرض عن ذكرى و نحشره يوم القيامة ا عمى گمراہ لوگوں كا اندھا محشور ہونا دنيا ميں ان كے ہدايت كو ديكھنے اور پانے سے اندھا ہونے كا نتيجہ ہے_ اس خاص سزا سے يہ نتيجہ ليا جاسكتا ہے كہ ہدايت، زندگى كى راہ ميں بصيرت كا سبب ہے_

۷ _ قيامت كے دن حقائق واضح ہوجائيں گے_و نحشره يوم القيامة اعمى

۸ _ قيامت انسانوں كو جمع كرنے اور ان كو حاضر كرنے كا دن ہے _و نحشره يوم القى مة

''حشر'' كا معنى ہے جمع كرنا كہ جس كے ہمراہ پيچھے سے چلانا اور ہانكنا ہو (مقاييس اللغة) يہ كلمہ صرف گروہ كے بارے ميں استعمال ہوتا ہے (مفردات راغب) اور آيت كريمہ ميں ضمائر اگر چہ مفرد كى استعمال كى گئي ہيں ليكن چونكہ ياد خدا سے غافل سب لوگوں كا انجام يہى ہوگا اس لئے ''حشر''كو در حقيقت گروہ كى طرف نسبت دى گئي ہے_

۹ _ قيامت كو برپا كرنا اور اس ميں ياد خدا سے غافل لوگوں كو حاضر كرنا خداتعالى كے اختيار ميں ہے اوروہ اسكے ارادے سے مربوط ہے_و نحشره يوم القيامة اعمى

۱۰ _ مشكل زندگى ياد خدا سے غافل ہونے كا فطرى اثر اور روز قيامت نابينائي اسكى الہى سزا ہے_فإن له معيشة ضنكاً و نحشره يوم القيامة اعمى ''فإن له ...'' اور''نحشره ...'' كى تعبيروں ميں فرق كہ دوسرى كو خداتعالى كى طرف نسبت دى گئي ہے اور پہلى خود عمل پر متفرع ہوئي ہے ممكن ہے مذكورہ مطلب كى طرف اشارہ ہو_

۱۱ _ دنيا ميں سخت زندگى اور قيامت ميں نابينا محشور ہونا انسان كى گمراہى اور بدبختى كے جلوے ہيں _

فمن اتبع هداى فلا يضل و لا يشقى _ و من أعرض عن ذكرى فإن له معيشة ضنكاً و نحشره يوم القيامة ا عمى

مذكورہ مطلب ہدايت يافتہ اور غافلين كے گروہوں كے درميان تقابل كا لازمہ ہے كہ جسے دو آيتيں مجموعى طور پر بيان كر رہى ہيں _

۱۲ _'' عن ا مير المؤمنين (ع) : و إن المعيشة الضنك التى حذر الله منها عدوه ه عذاب القبر، انّه يسلط على الكافر فى قبره تسعة و تسعين تنينا فينهشن لحمه و يكسرن عظمه و يترددن عليه كذلك إلى يوم يبعث ; اميرالمؤمنين(ع) سے روايت كى گئي ہے''معيشة ضنك'' كہ جس سے خداتعالى نے اپنے دشمنوں كو ڈرايا ہے عذاب قبر ہے

۲۴۵

خداتعالى كافر پر اسكى قبر ميں ۹۹ سانپ مسلط كرتا ہے كو جو اسكے گوشت كو ڈستے ہيں اور اسكى ہڈى كو توڑتے ہيں اور اسى طرح اس پر آتے جاتے رہتے ہيں اس دن تك كہ اسے اٹھايا جائے _(۱)

۱۳ _'' معاوية بن عمار عن ا بى عبدالله (ع) قال: سا لته عن رجل لم يحج قط و له مال قال: هو ممّن قال الله : '' و نحشره يوم القيامة ا عمى '' قلت : سبحان الله ا عمي؟ قال: ا عماه الله عن طريق الجنة; معاويہ بن عمار كہتے ہيں ميں نے امام صادق(ع) سے اس شخص كے بارے ميں سوال كيا جسكے پاس مال تھا ليكن اس نے حج نہ كيا تو آپ (ع) نے فرمايا يہ ان لوگوں ميں سے ہے جنكے بارے ميں خداتعالى نے فرمايا ہے '' و نحشرہ يوم القيامة ا عمى '' ميں نے كہا سبحان الله نابينا؟ فرمايا خداتعالى نے اسے بہشت كا راستہ (ديكھنے) سے نابينا كرديا ہے(۲) _

اطاعت:خدا كى اطاعت كے اثرات ۲، ۴

انسان:اس كا محشور ہونا ۸; اسكى شقاوت كى نشانياں ۱۱; اسكى گمراہى كى نشانياں ۱۱

بصيرت:اسكے عوامل ۶

حج:تاركين حج قيامت ميں ۱۳; تاركين حج كا آخرت ميں اندہھاپن ۱۳

خداتعالى :اس سے روگردانى كے اثرات ۱۰; اسكى ہدايت كے اثرات ۳، ۶; اس كا ارادہ ۹; اسكے افعال ۹; اس سے غفلت كرنے والوں كا آخرت ميں اندھاپن ۱۰; اس سے روگردانى كى سزا ۱۰

ذكر:ذكر خدا كے اثرات ۲،۶; ذكر خدا كى نشانياں ۴

روايت: ۱۲، ۱۳

زندگي:اسكى سختى ۱۱; اسے آسان كرنے كے عوامل۱; اسكى سختى كے عوامل ۱، ۳، ۱۰; سخت زندگى سے مراد ۱۲

سختي:اسے دور كرنے كے عوامل ۲

نافرماني:خدا كى نافرمانى كے ا ثرات ۱

غافلين:ان كا آخرت ميں اندھاپن۵; ان كے محشورہونا كا سرچشمہ ۹

غفلت:خدا سے غفلت كے اثرات ۱/قيامت:

____________________

۱ ) امالى شيخ طوسى ج۱، ص۲۷; تفسير برہان ج۳، ص ۴۸، ح۹_ ۲ ) تفسير قمى ج۲، ص ۶۶_ نورالثقلين ج۳، ص ۴۰۶، ح ۱۷۳_

۲۴۶

اس ميں حقائق كا ظہور۷; اس ميں اندھاہونے كے عوامل ۱۰; اس ميں اندھا ہونا۱۱; اس ميں محشور ہونے كا سرچشمہ ۹

كفار:انكا عذاب قبر ۱۲

گمراہ لوگ:ان كا آخرت ميں اندھاپن ۵

خدا سے اعراض كرنے والے:ان كا آخرت ميں اندھاپن ۵، ۱۰

آیت ۱۲۵

( قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِي أَعْمَى وَقَدْ كُنتُ بَصِيراً )

وہ كہے گا كہ پروردگار يہ تونے مجھے اندھا كيوں محشور كيا ہے جب كہ ميں دار دنيا ميں صاحب بصارت تھا (۱۲۵)

۱ _ ہدايت اور ياد الہى سے روگردانى كرنے والے روز قيامت نابينا محشور ہوں گے _قال رب لم حشرتنى أعمى

۲ _ ياد خدا سے غافل لوگ روز قيامت تعجب كے ساتھ اور شكايت كے انداز ميں خداتعالى سے اپنے اندھے ين كى علت كے بارے ميں سوال كريں گے_قال رب لم حشرتنى أعمى

۳ _ ياد خدا سے غافل لوگ روز قيامت محشور ہونے كے بعد اپنى نجات كے راستے كى شناخت سے ناتوان ہوں گے_ *

قال رب لم حشرتنى أعمى ممكن ہے اندھے پن سے مراد قيامت كے ماحول اور اسكى مشكلات سے نجات كا راستہ پانے سے آگاہ نہ ہونا ہو اس بناپر ''قد كنت بصيراً'' كہنے والے اپنے آپ كو اس طرح سمجھتے ہيں كہ جو دنيا ميں سب چيزوں كو خوب سمجھتے تھے اور عميق فكر ركھتے تھے_

۴ _ روز قيامت انسان كو خداتعالى سے سوال پوچھنے كى اجازت ہے _قال رب لم حشرتنى أعمى

''قال'' كے ظاہر سے يوں لگتا ہے كہ يہ سوال لفظوں ميں ہوگا اور نابيناؤں كى طرف سے روز قيامت كيا جائيگا _

۵ _ قيامت كے دن انسان اپنے نقائص كو درك اور محسوس كريگا _قال رب لم حشرتنى أعمى

۶ _ ياد خدا سے اعراض كرنے والے ميدان قيامت ميں

۲۴۷

حاضر ہوكر خداتعالى كى ربوبيت كا اعتراف كريں گے _قال رب

۷ _ بصيرت و بينائي كو عطا كرنا اور اس كا چھيں لينا خداتعالى كى ربوبيت كے جلوے ہيں _قال رب لم حشرتنى أعمى

۸ _ حاضرين قيامت خداتعالى كو انسانوں كا محشور كرنے والا او رفہم و درك كى قوتوں كا اختيار ركھنے والا سمجھتے ہيں _

لم حشرتنى أعمى

۹ _ ياد خدا سے غافل لوگ قيامت ميں حاضر ہونے كے وقت اپنى دنياوى زندگى كو ہوشمندانہ قرار ديكر فہم و درك كے راستے كے بند ہونے سے تعجب كريں گے_*قال رب لم حشرتنى أعمى و قد كنت بصيرا

مذكورہ مطلب بالا اس بنا پر ہے كہ ''ا عمى '' سے مراد''دل كا اندھا'' ہو_

۱۰ _ قيامت كے دن انسان دنيا ميں زندگى كے حالات اور اس ميں اپنى جسمانى خصوصيات سے آگاہ ہوگا_

قال رب لم حشرتنى أعمى و قد كنت بصير

۱۱ _ حاضرين قيامت كى نظر ميں ضرورى ہے كہ انسان كا وہاں كا جسم اسكے دنياوى بدن جيسا ہو _لم حشرتنى أعمى و قد كنت بصير

۱۲ _ روز قيامت انسان كا محشور ہونا جسمانى خصوصيات كے ہمراہ ہوگا _قال رب لم حشرتنى أعمى و قد كنت بصير

۱۳ _ ہدايت الہى كى پيروى روز قيامت بصيرت اور بينائي كا سبب ہے _فمن اتبع هداي و من اعرض لم حشرتنى أعمى

۱۴ _ خدا سے غفلت كے ہوتے ہوئے گہرى فكر بھى در حقيقت اندھاپن اور بے بصيرتى ہے_لم حشرتنى أعمى و قد كنت بصير قيامت ميں اندھاپن دنيا ميں انسان كى حقيقت كا جلوہ ہے يعنى اگر چہ وہ اپنے آپ كو با بصيرت سمجھتا ہے ليكن در حقيقت بصيرت سے عارى ہے_

اطاعت:خدا كى اطاعت كے اثرات ۱۳

اقرار:ربوبيت خدا كا اقرار ۶/اندھاپن:اس كا سرچشمہ ۷

انسان:اسكى اخروى سوچ ۸، ۱۱; اس كا اخروى تنبہ ۱۰; اسكے محشورہونے كا سرچشمہ ۸; اسكے درك كا سرچشمہ ۸; اسكے محشور ہونے كى خصوصيات ۱۲

بصيرت:اخروى بصيرت كے عوامل ۱۳; اس كا سرچشمہ ۷

۲۴۸

خداتعالى :اسكے افعال ۸; اس سے سوال ۲، ۴; اسكى ربوبيت كى نشانياں ۷

خدا سے اعراض كرنے والے:انكا اخروى اقرار ۶; انكا اخروى تعجب ۹; انكا محشور ہونا۱، ۳; انكا عجز ۳; انكا اخروى اندھاپن ۱; انكى دنيوى ہوشيارى ۹

غافلين:انكا اخروى اقرار۶; انكا اخروى سوال ۲; انكا اخروى تعجب ۲، ۹; انكا محشور ہونا ۳; انكا عجز ۳; انكا اخروى اندھاپن ۱، ۲; انكا اندھاپن ۱۴; انكا اخروى گلہ ۲

غفلت:خداتعالى سے غفلت كے اثرات ۱۴

قيامت:اس ميں سوال ۴; اس ميں نقائص كا درك ۵; اس ميں حقائق كا ظہور ۵، ۱۰

گمراہ لوگ:ان كا محشور ہونا۱; ان كا اخروى اندھاپن ۱

معاد:معاد جسمانى ۱۱، ۱۲

آیت ۱۲۶

( الَ كَذَلِكَ أَتَتْكَ آيَاتُنَا فَنَسِيتَهَا وَكَذَلِكَ الْيَوْمَ تُنسَى )

ارشاد ہوگا كہ اسى طرح ہمارى آيتيں تيرے پاس آئے اور تونے انھيں بھلاديا تو آج تو بھى نظر انداز كرديا جائے گا (۱۲۶)

۱ _ خداتعالى نے بشر كى ہدايت اور اسے ياد دہانى كرانے كيلئے متعدد آيات بھيجى ہيں _قال كذلك ا تتك ء اتين

۲ _ آيات اور ہدايت الہى كو فراموش كرنا اوران سے غافل ہونا روز قيامت نابينا محشور ہونے كا سبب ہے _

لم حشرتنى ا عمى قال كذلك ا تتك و ء آيا تنا فنسيته

۳ _ خداتعالى فرائض كے بيان كرنے اور انہيں بندوں تك پہچائے بغير انہيں سزا نہيں ديتا_قال كذلك ء اتيتك ء اى تن

روز قيامت غافلين كو كہا جائيگا''اتتك ء اياتنا'' يعنى تيرے پاس ہمارى آيات آئيں تھيں نہ يہ كہ ہم نے آيات بھيجيں تھيں آپ تك پہنچى ہوں يا نہ لہذا خداتعالى نے مواخذے كا معيار آيات كے ابلاغ كو قرار ديا ہے _

۴ _ مجرمين كا خداتعالى سے سوال اور اس كا جواب وصول كرنا ميدان قيامت كے واقعات ميں سے _

رب لم حشرتني قال كذلك ا تتك اى تن

''قال كذلك'' كے ظاہر سے يوں محسوس ہوتا ہے كہ ''لم حشرتني'' كے سوال كا جواب بھى الفاظ كے ساتھ بيان ہوگا نہ كہ صرف نفس ميں ايك حالت پيدا ہوگى

۲۴۹

اگر چہ ممكن ہے يہ جواب بلاواسطہ نہ ہو بلكہ فرشتوں و غيرہ كے ذريعے انجام پائے _

۵ _ خداتعالى كى طرف سے پہنچائي گئي ہدايات اسكى آيات ہيں _إما يا تينكم منى هديً فمن اتبع هداي قال كذلك ا تتك أى تن گذشتہ آيات ميں ''ہدايت'' كلام كامحور تھا اس آيت ميں ''ہدايات الہى ''كہ جن كا ''ہديً'' اور ''ہداي'' كے ساتھ تذكرہ كيا گيا ہے_كو ''آياتنا'' كے ساتھ تعبير كيا گيا ہے تا كہ اس حقيقت كو بيان كرے كہ ہدايات الہى وہى اسكى آيات ہيں _

۶ _ روز قيامت خداتعالى آيات اور معارف الہى كى اعتناء نہ كرنے والے افراد سے روگردانى كرے گا اور انكى اعتنا نہيں كريگا_أتتك آيا تنا فنسيتها و كذلك اليوم تنسى فعل ''تنسى '' ميں اگر چہ فاعل نامعلوم ہے ليكن (گذشتہ آيت ميں ) ''رب لم حشرتني'' كے قرينے سے كہاجاسكتا ہے كہ فاعل خداتعالى ہے_ نسيان دو معنوں كے درميان مشترك ہے ۱_ غفلت كى وجہ سے ترك كرنا ۲_ جان بوجھ كر ترك كرنا (مصباح) گذشتہ آيات قرينہ ہيں كہ اس آيت ميں دوسرا معنى مراد ہے_

۷ _ آيات اور ہدايات الہى سے غفلت اور انہيں فراموش كردينا روز قيامت انسان كے خداتعالى كى توجہات و عنايات سے محروم ہونے كا ايك عامل ہے_أتتك آيا تنا فنسيتها و كذلك اليوم تنسى

(گذشتہ آيات ميں مذكور) ''من أعرض عن ذكري'' قرينہ كہ ہے ''نسيتہا'' ميں نسيان سے مراد آيات الہى سے روگردانى اور بے اعتنائي ہے اور اس كا ''تنسى '' كے ساتھ تقابل اس نكتے كو بيان كررہا ہے كہ اس كلمے ميں بھى نسيان كا معنى روگردانى اور ترك كرنا ہے_

۸ _ روز قيامت نابينائي اوردرك انسان كے راستے كا مسدود ہونا اسكے خداتعالى كى توجہ اور عنايات سے محروم ہونے كا مظہر ہے_لم حشرتنى ا عمى كذلك اليوم تنسى

۹ _ روز قيامت انسان كو محشور كرنے اور اسكے اعمال كى جزا كى كيفيت اسكے دنياوى كردار كے ساتھ متناسب ہوگي_

فنسيتها تنسى

۱۰ _ روز قيامت انسان كى سزا اسكے دنياوى كردار سے نشأت پكڑتى ہے_فنسيتها اليوم تنسى

آيات خدا:

۲۵۰

انكى فراموشى كے اثرات ۲، ۷; ان سے اعراض كرنے والوں سے بے اعتنائي ۶; ان سے اعراض كرنے والے قيامت ميں ۶; ان كا كردار ۱; انكا ہدايت كرنا ۱، ۵

انسان:اسكے اخروى اندھے پن كا سرچشمہ ۸

پاداش:اس كا عمل كے ساتھ متناسب ہونا ۹; اخروى پاداش كے عوامل ۱۰

محشور ہونا:اسكى كيفيت ۹

خداتعالى :اسكے لطف و كرم سے محروميت كے اثرات ۸; اس سے سوال ۴; اس كے لطف و كرم سے محروميت كے عوامل ۷; اسكى ہدايات ۱، ۵

عمل:اسكے اثرات ۹، ۱۰; اسكى اخروى پاداش ۹; اسكى اخروى سزا ۹

غفلت:آيات الہى سے غفلت كے اثرات ۷; خداتعالى سے غفلت كے اثرات ۲، ۷

قواعد فقہيہ: ۳

قاعدہ عقاب بلا بيان ۳

قيامت:اس ميں سوال و جواب۴; اسكى خصوصيات ۴

اندھاپن:اخروى اندھے پن كے عوامل ۲

سزا:اس كا گناہ كے ساتھ متناسب ہونا ۹; اخروى سزا كے عوامل ۱۰

گناہ گار لوگ:ان كا اخروى جواب۴; ان كا اخروى سوال ۴

جزا كا نظام :۹

سزا كا نظام ۳

ہدايت:اسكى اہميت ۱

۲۵۱

آیت ۱۲۷

( وَكَذَلِكَ نَجْزِي مَنْ أَسْرَفَ وَلَمْ يُؤْمِن بِآيَاتِ رَبِّهِ وَلَعَذَابُ الْآخِرَةِ أَشَدُّ وَأَبْقَى )

اور ہم زيادتى كرنے والے اور اپنے رب كى نشانيوں پر ايمان نہ لانے والوں كو اسى طرح سزا ديتے ہيں اور آخرت كا عذاب يقينا سخت ترين اور ہميشہ باقى رہنے والا ہے (۱۲۷)

۱ _ دنيا ميں سخت اور تنگ زندگى اور قيامت ميں اندھاپن اور خداتعالى كى سرد مہرى ميں گرفتار ہونا اسراف كرنے والوں كى سزا ہے _معيشة ضنكاً و نحشر يوم القيامة ا عمى و كذلك نجزى من ا سرف

اسراف يعنى حد اعتدال سے تجاوز كرنا (مصباح) ''من اتبع ہداي'' كے قرينے سے اس آيت ميں اس سے مراد ہدايات الہى سے تجاوز كرنا ہے اور ''كذلك'' ميں ''ذلك'' ان سزاؤں كى طرف اشارہ ہے كہ جو گذشتہ آيات ميں ياد خدا سے روگردانى كرنے والوں كيلئے بيان ہوچكى ہيں _

۲ _آيات اور ہدايات الہى سے روگردانى كرنے والے اسراف كرنے والوں كا كامل اور بارز مصداق ہيں

و من أعرض عن ذكري و كذلك نجزي من أسرف

اگر''كذلك نجزي ...'' كا گذشتہ آيت پر عطف ہو اور يہ خداتعالى كى ياد الہى سے غافل لوگوں كے ساتھ گفتگو كا تسلسل ہو تو ''من ا سرف'' غافلين كيلئے دوسرا عنوان ہوگا_

۳ _ اسراف كرنے والے اور آيات الہى پر ايمان لانے سے روگردانى كرنے والے روز قيامت خداتعالى كى توجہ اور عنايات سے محروم ہوں گے_و كذلك اليوم تنسى و كذلك نجزى من أسرف و لم يؤمن بأيات ربه

۴ _ انسان كى ہدايت كيلئے آيات پيش كرنا ربوبيت الہى كا ايك جلوہ ہے _بآى ت ربه

۲۵۲

۵ _ خداتعالى مستحقين عذاب كو سزا دينے كے نظام كا حاكم ہے_نجزي

۶ _ دنيوى سزاؤں كى نسيت اخروى عذاب زيادہ سخت اور ديرپا ہوگا_و لعذاب الأخرة أشد و ا بقى

۷ _ اسراف كرنے والوں اور آيات الہى پر ايمان نہ لانے والوں كو دنياوى سزا اور روز قيامت اندھا ہونے كے علاوہ آخرت ميں زيادہ سخت اور ديرپا عذاب كا سامنا ہوگا _و لعذاب الأخرة ا شد و ا بقى

''كذلك'' بتاتا ہے كہ دنيا ميں سخت زندگى اور قيامت كا اندھاپن غافلين كے علاوہ بے ايمان اسراف كرنے والوں كيلئے بھى خطرہ ہے اور جملہ ''لعذاب الآخرة ...'' اس كے علاوہ مزيد عذاب سے حكايت كررہا ہے كہ جو روز قيامت كے ختم ہونے كے بعدشروع ہوگا اور دنياوى اور روز قيامت كے عذاب سے زيادہ سخت اور ديرپا ہوگا _

۸ _ آيات اور ہدايات الہى پر ايمان دنيا و آخرت ميں عذاب الہى سے محفوظ رہنے كى شرط ہے_و كذلك نجزي لم يؤمن ا شد و ا بقى

اسراف كرنے والے: ۲انكے عذاب كا دائمى ہونا۷; انكى زندگى كا سخت ہونا۱; انكا اخروى عذاب ۷; انكا اخروى اندھاپن ۱; انكى سزا ۱، ۷; انكى اخروى محروميت ۳

آيات خدا:ان سے روگردانى كرنے والوں كا اسراف۲; ان سے اعراض كرنے والوں كا اخروى عذاب ۷; ان سے اعراض كرنے والوں كى سزا ۷; ان سے اعراض كرنے والوں كى اخروى محروميت ۳; ان كا كردار ۴

ايمان:آيات الہى پر ايمان كے اثرات ۸; خداتعالى پر ايمان كے اثرات ۸

خداتعالى :اسكى حاكميت ۵; اسكى ربوبيت كى نشانياں ۴

عذاب:اخروى عذاب كى شدت ۶; اس سے بچنے كے شرائط ۸; دنيوى عذاب ۶; اسكے درجے ۶; اخروى عذاب كے درجے ۷

خدا كا لطف و كرم:اس سے محروم لوگ ۳

سزا كا نظام:اس كا حاكم۵

ہدايت:اسكے عوامل ۴

۲۵۳

آیت ۱۲۸

( أَفَلَمْ يَهْدِ لَهُمْ كَمْ أَهْلَكْنَا قَبْلَهُم مِّنَ الْقُرُونِ يَمْشُونَ فِي مَسَاكِنِهِمْ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِّأُوْلِي النُّهَى )

كيا انھيں اس بات نے رہنمائي نہيں دى كہ ہم نے ان سے پہلے كتنى نسلوں كو ہلاك كرديا جو اپنے علاقہ ميں نہايت اطمينان سے چل پھر رہے تھے بيشك اس ميں صاحبان عقل كے لئے بڑى نشانياں ہيں (۱۲۸)

۱ _ خداتعالى نے طول تاريخ ميں بہت سارے معاشروں اور امتوں كو ہلاك اور نابود كيا ہے_كم ائهلكنا قبلهم من القرون ''قرن'' كا معنى ہے قوم اور وہ لوگ جو ايك زمانے ميں زندگى گزار رہے ہوں (مفردات راغب)

۲ _ آيات اور ہدايات الہى كے بارے ميں كفر طول تاريخ ميں بہت سارى امتوں كى نابودى كا سبب بنا_و كذلك نجزى من أسرف و لم يؤمن كم ا هلكنا قبلهم من القرون گذشتہ آيات قرينہ ہيں كہ سابقہ امتوں كى ہلاكت ان كے آيات و ہدايات الہى كے مقابلے ميں كفر اختيار كرنے كى وجہ سے ہوتى تھي_

۳ _ گذشتہ اقوام كى عذاب الہى كے ساتھ ہلاكت خداتعالى كى دھمكيوں كے سنجيدہ ہونے كے واضح نمونے ہيں اور عصر بعثت كے مشركين كيلئے كفايت كرنے والا رہنما _ا فلم يهد لهم كم ا هلكنا قبلهم من القرون

۴ _تاريخ اور گذشتہ امتوں كى ہلاكت سے سبق حاصل نہ كرنا توبيخ اور مذمت كے قابل ہے _أفلم يهد لهم كم ا هلكنا قبلهم ''أفلم ...'' ميں استفہام انكار توبيخى كيلئے ہے اور '' لم يہد'' كا فاعل ''اہلاك'' ہے كہ جو ''كم ا ہلكنا'' سے سمجھ آرھا ہے اور ''لم يہد'' حرف لام كے ساتھ متعدى ہونے كى وجہ سے اس ميں تبيين كا معنى بھى تضمين كيا گيا ہے اور جملے كا معنى يہ ہے كہ كيا بہت سارى گذشتہ امتوں كو نابود كرنے سے مشركين كيلئے واضح نہيں ہوا كہ وہ ان جيسا عمل نہ كريں _

۵ _ عصر پيغمبر(ص) كے كفار بہت سارى گذشتہ امتوں كى ہلاكت سے آگاہ تھے اور ان كے باقى رہ جانے والے آثار قديمہ سے آشنا تھے_ا فلم يهد لهم كم ا هلكنا يمشون فى مسكنهم جملہ ''يمشون ...'' ''ہم'' كيلئے حال ہے اور سياق آيت قرينہ ہے كہ اس سے مراد صدر اسلام كے مشركين ہيں ان كا عاد، ثمود، لوط اور كے گھروں سے عبور كرنا كہ جو جملہ ''يمشون ...'' كا معنى ہے ان كے گذشتہ امتوں كے مرگبار واقعات سے آگاہى كا سبب ہے ہمزہ استفہام سے مستفاد توبيخ بھى ان كى آگاہى پر متفرع ہے_

۲۵۴

۶ _ گذشتہ امتوں ميں سے بہت سے لوگ جب عذاب الہى ميں گرفتار ہوئے اس وقت اپنے شہر اور گھروں ميں معمول كے مطابق رفت و آمد ميں مصروف تھے_*كم ا هلكنا قبلهم من القرون يمشون فى مسكنهم ممكن ہے جملہ ''يمشون ...'' ''القرون'' كيلئے حال ہو_

۷ _ تاريخ كا تغير و تبدل خداتعالى كے ارادے سے وابستہ ہے_كم ا هلكنا قبلهم

۸ _ نابود شدہ اقوام كے باقى رہ جانے والے آثار قديمہ سے سبق حاصل كرنے اور عبرت لينے كيلئے بہت سارى چيزويں ہيں _أفلم يهدلهم كم ا هلكنا إن فى ذلك لأيات

۹ _ گذشتہ امتوں كے باقى رہ جانے والے عبرت آموز آثار كا مطالعہ اور تحقيق اور انكى ہلاكت كے اسباب معلوم كرنا ضرورى ہے_كم ا هلكنا إن فى ذلك لأيات

گذشتہ امتوں كى تاريخ اور ان كے آثار كے آيت ہونے كا تقاضا يہ ہے كہ وہ انسان كو مہم اور قيمتى ہدايات اور عبرتوں كى طرف رہنمائي كرنے كے قابل ہيں _

۱۰ _ گذشتہ امتوں كے باقى رہ جانے والے آثار قديمہ كے مطالعے سے صرف صاحبان عقل بہرہ مند ہوتے ہيں اور عبرت حاصل كرتے ہيں _كم ا هلكنا قبلهم إن فى ذلك لأيات لا ولى النهي

آيات كا نشانى اور آيت ہونا عبرت حاصل كرنے والے كے موجود ہونے كے ساتھ مختص نہيں ہے بلكہ ايك ثابت صفت ہے لہذا اس كا ''ا ولى النہى '' كے ساتھ مختص ہونا صرف صاحبان عقل كے آيات سے بہرہ مند ہونے كى طرف ناظر ہے يعنى اگرچہ آيات اور نشانياں موجود ہيں ليكن بے عقل لوگ اس سے بہرہ مند نہيں ہوتے_

۱۱ _ عقل اور دانايى ايك قيمتى جوہر ہيں اور انسان كو ناروا كاموں سے روكتے ہے_ان فى ذلك لآيات لاولى النهى

''نُہى '' يا تو ''نہية'' (عقل) كى جمع ہے اور يا يہ مفرد لفظ ہے عقل كے معنى ميں (قاموس) اور اس لئے عقل كو يہ نام ديا گيا ہے كہ يہ انسان كو برائيوں سے نہى كرتى ہے_

۲۵۵

۱۲ _ جو لوگ گذشتہ اقوام كے انجام سے عبرت نہيں ليتے وہ عقل و خرد سے بے بہرہ ہيں _إن فى ذلك لأيات لا ولى النهى

۱۳ _ خداتعالى انسان كو عقل سے استفادہ كرنے اور اسے استعمال كرنے كى ترغيب دلاتا ہے _أفلم يهد إن فى ذلك لأيات لا ولى النهى اس آيت كا ذيل كہ جو صاحبان عقل كى تعريف كر رہا ہے مذكورہ مطلب كو بيان كررہا ہے نيز اسكے شروع ميں فاء عاطفہ اس مقدر پر عطف كر رہى ہے كہ جسے آيت كا ذيل بيان كررہا ہے در حقيقت اس پر استفہام توبيخى داخل ہوا ہے اور ''لم يہد'' اس پر تفريع ہے اور اصل ميں كلام يوں تھا ''ا فلم يتفكروا فلم يهد ...'' كيا انہوں نے سوچا نہيں گذشتہ اقوام كے انجام كا مطالعہ انكى ہدايت كا سبب نہيں بنا؟

آثار قديمہ:يہ صدر اسلام ميں ۵; ان سے عبرت لينا ۸، ۹، ۱۰

آيات خدا:انہيں جھٹلانے كے اثرات ۱۲

آثار قديمہ شناسي:اسكى اہميت ۹

گذشتہ اقوام:ان كے آثار قديمہ ۵; انكى تاريخ ۱، ۲، ۶; ان سے عبرت لينا ۹; ان سے عبرت حاصل نہ كرنا ۱۲; انكى ہلاكت كے عوامل ۲; ان كے عذاب كى كيفيت ۶ ; انكى ہلاكت ۱، ۳، ۵

تاريخ:اسكے مطالعے كى اہميت ۹; اس سے عبرت لينا ۴، ۸; اسكے تحولات كا سرچشمہ ۷

تعقل:اسكى تشويق ۱۳

خداتعالى :اسكے ارادے كے اثرات ۷; اسكے افعال ۱; اسكى تشويق ۱۳; اسكى دھمكيوں كا حتمى ہونا ۳

عقلا:يہ اور آثار قديمہ ۱۰/عبرت:عبرت نہ لينے والوں كى بے عقلى ۱۲; عبرت نہ لينے كى مذمت ۴; اسكے عوامل ۸، ۱۰

عذاب:اہل عذاب سے عبرت حاصل كرنا ۴

عقل:اسكى قدر و قيمت ۱۱; بے عقل لوگ ۱۲; اس كا كردار ۱۱

عمل:ناپسنديدہ عمل كے موانع ۱۱

كفار:صدر اسلام كے كفار كا علم ۵

مشركين:صدر اسلام كے مشركين كو دھمكى ۳

۲۵۶

آیت ۱۲۹

( وَلَوْلَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِن رَّبِّكَ لَكَانَ لِزَاماً وَأَجَلٌ مُسَمًّى )

اور اگر آپ كے رب كے طرف سے بات طے نہ ہوچكى ہوتى اور وقت مقرر نہ ہوتا تو عذاب لازمى طور پر آچكا ہوتا (۱۲۹)

۱ _ خداتعالى نے معاشروں اور امتوں كے امور كى تدبير كيلئے محكم و ثابت قوانين اور سنتيں قرار دے ركھى ہيں _

و لو لا كلمة سبقت من ربك اس مناسبت سے كہ بحث معاشروں اور انہيں مہلت دينے كے بارے ميں ہے اس آيت ميں ''كلمة '' سے مراد تاريخ اور معاشروں پر حاكم قوانين الہى اور سنتيں ہيں _

۲ _ كافر امتوں كے انجام اور انكى ہلاكت و بقا كيلئے معين سنن و قوانين اور مشخص اوقات ہيں _

كم اهلكنا قبلهم و لو لا كلمة سبقت من ربك لكان لزام گذشتہ آيت كہ جو كافر معاشروں كى ہلاكت كے بارے ميں ہے قرينہ ہے كہ ''لو لا كلمة ...'' كا معنى يہ ہے خداتعالى نے كفار كے عذاب كا وقت اور اسكے ديگر معيارات كو پہلے سے مشخص و معين كر ركھا ہے_

۳ _ كفار پر الہى سنتوں كا حاكم ہونا ان كے عذاب الہى كے ساتھ جلدى نابود ہونے سے مانع ہے_و لو لا كلمة سبقت من ربك لكان لزام

۴ _ آيات اور ہدايات الہى كے بارے ميں كفر كرنے والے دنيا ميں سزا اور عذاب كے مستحق ہيں _و لو لا كلمة سبقت من ربك لكان لزام لفظ'' لزاماً'' باب مفاعلہ كا مصدر ہے اور مصدر كا خبر واقع ہونا مبالغہ پر دلالت كرتاہے، اس بناپر جملہ''كان لزاماً'' كا مفاد يوں ہوگا(اگر خدا كى طرف سے مجرمين كو مہلت دينے كى سنت نہ ہوتي)عذاب الہى مخالفت كرنے والوں كے ساتھ ساتھ ہوتا (يہاں تك كہ مختصر سى مدت كے ليے بھي) ان سے الگ نہ ہوتا_

۵ _ خداوند متعال ہرگز اپنى سنتوں (طى شدہ باتوں ) سے پيچھے نہيں رہے گا_و لو لاكلمة سبقت من ربك لكان لزام

۲۵۷

۶ _آيات الہى كا انكار كرنااور اللہ تعالى كى ياد سے منہ پھير لينا ناقابل معاف گناہ ہيں _

و من أعرض عن ذكري و لم يؤمن بأيات ربه لو لا كلمة سبقت من ربك لكان لزام

۷ _بعثت كے دوران بسنے والے كافروں اور مشركوں كو مہلت دينا، خداوند عالم كى طرف سے رسول اكرم(ص) پر خصوصى عنايت كى وجہ سے تھي_رَبّك

''ربّ'' كے مقدس نام كارسول خدا كى ضمير خطاب كى طرف اضافہ ہوناكافروں پر عذاب نازل كرنے ميں تاخير اور ان كو مہلت دينا خدا كى طرف سے رسول اكرم(ص) پر خصوصى عنايت ہونے كى طرف اشارہ ہوسكتاہے _ جيسا كہ ايك اور سورے ميں فرماتا ہے:''و ما كان الله ليعذبهم و ا نت فيهم''

۸ _انسانيت سے متعلق مصلحتيں اور خداوند كى طرف سے قوموں كے معاملات كى تدبير كرنا دنيا ميں مخالفين كو جلدى سزا نہ دينے كى دليل ہے_ربَّك

۹ _روى زمين پر انسانى زندگى كو معين مدت تك كے ليے جارى ركھنے كى سنت (طى شدہ قانون) حق كى مخالفت كرنے والوں كو فوراً نابود كرنے كے ساتھ سازگار نہيں ہے_و لو لا كلمة سبقت من ربّك لكان لزاماً و اجل مسميً

(ا جل) كا معنى پورى مدت يا آخرى وقت ہے (لسان العرب) اور ''ا جل مسميً'' ''كلمة'' پر عطف ہوا ہے يعنى '' لو لا كلمة وا جل مسميً ...'' يہاں كلمہ اور اجل سے مراد دو مستقل چيز يں ہيں يا دونوں ايك حقيقت كى دو تعبير ہے اس بارے ميں علماء نے مختلف بيانات ديئےيں _ان ميں سے ايك احتمال يہ ہے كہ ''كلمہ'' سے مراد اللہ تعالى كا وہ كلام ہے جو آدم (ع) كو بہشت سے نكل كرزمين پر آتے وقت فرمايا''لكم فى الا رض مستقر و متاع إلى حين'' (بقرہ ۳۶) اور ''ا جل'' سے مراد اس احتمال كى بناپر دنيا كى آخرى عمر ہے مذكورہ نظريہ اس احتمال كى بناپر ہے_

۱۰ _ اللہ تعالى نے دنيوى زندگى كو تمام كافروں كو جلد مؤاخذہ كرنے كى جگہ قرار نہيں دى ہے _و لو لا ا جل مسميً

اللہ تعالى كى سنت ( اور روش) كى جس پر'' لو لا كلمة ...'' دلالت كرتاہے يہ نہيں ہے كہ اللہ تعالى دنيا ميں كسى بھى مختلف كرنے والے پر عذاب نازل نہيں كرتا بلكہ اسكى سنت يہ ہے كہ سارى مخالفين كو تباہ نہيں كرے گا كيونكہ اگر ہر كافر كو نابود كرنا منشا ہوتا تو انسانى نسل ختم ہونے كا خطرہ تھا( اس صورت ميں ) اجل مسمى تك نسل بشر باقى نہ رہتى _

۱۱ _قوموں كے خاتمے ليئے ايك معين اور طى شدہ مدت ہے_و لو لا كلمة سبقت من ربك لكان لزاماً ا جل مسميً

۲۵۸

آیت ۱۳۰

( فَاصْبِرْ عَلَى مَا يَقُولُونَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوبِهَا وَمِنْ آنَاء اللَّيْلِ فَسَبِّحْ وَأَطْرَافَ النَّهَارِ لَعَلَّكَ تَرْضَى )

لہذا آپ ان كى باتوں پر صبر كريں اور آفتاب نكلنے سے پہلے اور اسكے ڈوبنے كے بعد اپنے رب كى تسبيح كرتے رہيں اور رات كے اوقات ميں اور دن كے اطراف ميں بھى تسبيح پروردگار كريں كہ شايد آپ اس طرح راضى اور خوش ہوجائيں (۱۳۰)

۱ _ كفار رسول خد ا (ص) كو اپنى ( بے بنياد) باتوں كے ذريعے روحى طور پر اذيت پہنچاتے تھے_فاصبر على ما يقولون

خدا كى طرف سے رسول(ص) كى صبر كى تلقين اس بات كى حكايت كرتاہے كہ آنحضرت (ص) كافروں كى باتيں سننے سے رنجيدہ خاطر ہوتے تھے_

۲ _ كفار عذاب ميں تاخير ہونے اور فورى طورپر عذاب نازل نہ ہونے كو بہانہ بناكر رسول خدا كو روحى فشار ميں ركھتے اور انكے خلاف سخت پروپيگنڈا كرتے تھے_فاصبر على ما يقولون ما قبل والى آيت كے قرينے سے ''ما يقولون'' سے مراد كافروں كى وہ باتيں ہيں جو عذاب نازل نہ ہونے اور رسول (ص) خدا كے وعدوں كا مذاق اڑانے كے ليے اظہار كرتے تھے

۳ _خدا كى طرف سے رسول اكرم (ص) كو كافروں كى بے بنياد باتوں اور انكى طرف سے نفسياتى اذيت پہنچانے كے لئے پروپگينڈاكرنے پر صبر و تحمل كرنے كى وصيت_فاصبر على ما يقولون

۴ _ كافروں كو مہلت دينے كى حكمت كے بارے ميں خدا كى طرف سے آيات كا نزول كافروں كى طرف سے كى جانے والى تبليغات پر رسول اكرم(ص) كے تحمل اور صبر كا موجب بنا_لو لا كلمة سبقت فاصبر على ما يقولون

''فا صبر'' ما قبل والى آيت پر عطف اور تفريع ہے يعنى چونكہ كافروں كو عذاب دينے ميں تا خير سہل انگارى كى وجہ سے نہيں بلكہ ايك قانون اور سنت كى وجہ سے ہے پس ان سختيوں كو برداشت كريں ان آيات ميں خداوند عالم نے مخالفين كو مہلت دينے كى علت اور تاريخ (بشريت) پر حكم فرما روشن اور سنت كو بيان فرما كر رسول خدا(ص) اور اہل ايمان كى نسل ہونے كا زمينہ فراہم كرديا ہے_

۵ _ سنت الہى پرسے آگاہ ہونا اور اسكى علت كو سمجھنا سختيوں اور پريشانيوں ميں صبر و تحمل كرنے كے لئے پيش خيمہ_

و لو لا كلمة فاصبر على ما يقولون

۶ _ رسول خدا(ص) اور اہل ايمان لوگوں كو سورج طلوع كرنے اور ڈوبنے سے پہلے اللہ تعالى كى تسبيح كرتے رہنا چاہيئے _

و سبح بحمد ربك قبل طلوع الشمس و قبل غروبه

۲۵۹

''بحمد ربّكَ'' ميں باء يا مصاحبت كے لئے ہے يا استعانت كے لئے بہر حال اللہ تعالى كى حمد اور تسبيح كرنے كا حكم ايك ساتھ آيا ہے_ تسبيح كرنے كا خطاب اگر چہ بظاہر رسول اكرم(ص) كے متعلق ہے ليكن بعد والى آيتوں كے قرينہ سے معلوم ہوتاہے كہ يہ حكم رسول اكرم(ص) كے لئے مختص نہيں ہے (بلكہ تمام اہل ايمان بھى اس حكم كا مخاطب ہيں )

۷ _ رسول خدا (ص) اور اہل ايمان كسى يہ ذمہ دارى ہے كہ رات كے كچھ حصے اور دن كے دونوں فوں ميں اللہ تعالى كى حمد اور تسبيح كيا كريں _و من ء اناء الليل فسبح و اطراف النهار

''ء انائ'' كا معنى اوقات ہے اور ''من'' يہاں تبعيض كے ليے آياہے_لہذا ''من آناء الليل'' سے مراد يہ ہے كہ رات كے كچھ اوقات حمد اور تسبيح ميں مشغول رہيں اور آيت كے شروع ميں ''بحمدك'' آنا اس بات كا قرينہ ہے كہ يہ تسبيح بھى حمد كے ساتھ ہونى چاہيے_

۸ _ تمام اوقات ميں اللہ تعالى كى حمد اور تسبيح اور ذكر لازمى ہے_فسبح قبل طلوع آناء الليل اطراف النهار

اگرچہ اس آيت كريمہ ميں اللہ تعالى كى تسبيح كرنے كے ليے كچھ اوقات معين كيا گيا ہے ليكن ان موارد كى كثرت سے ايسا لگتاہے كہ ہدف يہ ہے كہ تماما فرصت كے موقعوں پر اللہ تعالى كو ياد كرنا اول اسكى تسبيح كرتے رہنا چاہيے_

۹ _انسان سخت شرائط نہيں آنے كى صورت ميں زيادہ صبر اور تحمل حاصل كرنے كے ليے اللہ تعالى كو ياد كرنے اور اسكى تسبيح كرنے كى طرف محتاج ہے_فاصبر على ما يقولون و سبّح بحمد ربّك

صبر كرنے كا دستور دينے كے بعد تسبيح كا دستور آنا اس بات كى نشاندہى كرتاہے كہ صبر كرنے كى طاقت حاصل كرنے كے لئے تسبيح كو دخل ہے_

۱۰ _ خدا اور دين كے خلاف كافروں كى طرف سے ہونے والے پراپگنڈوں كے ساتھ مقابلہ كرنے كے راستوں ميں سے ايك اللہ تعالى كى تسبيح اور حمد كرنا ہے_و سبح بحمد ربك قبل طلوع الشمس و قبل غروبه

۱۲ _رات كے كچھ حصوں ، صبح كے قريب اور سورچ غروب كرنے كے بعد اللہ تعالى كى حمد اور تسبيح كرنا خصوصى نتائج كے حامل ہيں _و من ء اناء الليل فسبح و اطراف النهار

''اطراف نہار'' سے مراد دن كا آغاز اور اختتام ہے_ اور اس لفظ ''اطراف نہار'' كو جمع كى صورت ميں ذكر كرنے كى وجہ يہ ہے چونكہ آناء الليل كے ساتھ آياہے اسكے ساتھ لفظى موافقت كى خاطر جمع لاياہے يا دن كے آغاز اور اختتام كے متعدد

۲۶۰

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750