تفسير راہنما جلد ۱۱

تفسير راہنما 7%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 750

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 750 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 219076 / ڈاؤنلوڈ: 3020
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

۶ _ آدم(ع) و حوا(ع) كے زمين پر اتر نے كا لازمہ پورى نسل انسانى كو اس ميں باقى ركھنا ہے_قال اهبطا بعضكم لبعض عدو فإما يأتينكم ''بعضكم'' اور ''يا تينكم'' كى جمع كى ضميرويں اس نكتے كو بيان كررہى ہيں كہ ہبوط والے حكم كے صادر ہونے كے وقت زمين ميں انسانى زندگى كا مسلسل ہونا قطعى تھا_

۷ _ زمين ميں انسان كى زندگى ہميشہ انسانوں كى آپس ميں دشمنى اور مخالفت كے ہمراہ رہى ہے_اهبطا منها جميعاًبعضكم لبعض عدو ''بعضكم لبعض عدو'' كے بارے ميں دو نظر ہيں ۱_ اس سے مراد شياطين كى انسانوں كے ساتھ دشمنى ہے اس نظريے كے مطابق ''اہبطا'' ابليس اور آدم(ع) كو خطاب ہوگا ۲_ اس سے مراد انسانوں كى آپس كى دشمنى ہے اس نظريہ كى بنياد يہ ہے كہ ''اہبطا'' كے مخاطب آدم(ع) و حوا ہيں _ دونوں صورتوں ميں آدم(ع) اور حوا و ابليس كو مخاطب بنانا انكى اولاد كے لحاظ سے ہوگا _مذكورہ مطلب دوسرے نظريے كى بنياد پر ہے_

۸ _ انسان اور شيطان ايسے دشمن ہيں كہ جن ميں صلح كا امكان نہيں ہے_اهبطا بعضكم لبعض عدو

مذكورہ مطلب ميں ''اہبطا'' آدم(ع) اور ابليس كو خطاب ہے _

۹ _ حضرت آدم(ع) كى بہشت ايسى جگہ تھى كہ جس ميں صلح و آشتى ، اور مكمل ضروريات كى فراہمى تھى اور اسكے باسيوں كے درميان دشمنى نہيں تھى _إن لك ألاّ تجوع اهبطا بعضكم لبعض عدو

چونكہ افراد بشر كى آپس ميں دشمنى كا موضوع، سزا اور ہبوط كے عنوان سے ذكر كيا گيا ہے اس سے لگتا ہے كہ حضرت آدم(ع) كے پہلے گھر (بہشت) ميں يہ چيز نہيں تھى اور ضروريات كى فراہمى كى وجہ سے اس ميں دشمنى كا پيش خيمہ ہى نہيں تھا _

۱۰ _ خداتعالى نے زمين پر انسان كے اترنے كے آغاز سے ہى اسكى زندگى كيلئے رہنمائي اور منصوبہ بندى كرركھى تھي_اهبطا منها فإما ياتينكم منّى هديً ''إما ياتينّكم'' ميں مخاطب صرف انسان ہيں (اگرچہ ''اہبطا'' كے مخاطب آدم(ع) اورو ابليس ہيں ) كيونكہ شياطين كى گمراہى كے حتمى ہونے كے بعد انہيں ہدايت دينا بے سود ہے_

۱۱ _ انسان كو ہدايت سے بہرہ مند كرنا انسان كے پہلے افراد كو خداتعالى كى بشارت _اهبطا فإما ياتينكم منى هديً

''إما ياتينكم'' دو تاكيدوں پر مشتمل ہے_ ۱_''امّا'' (ان ما) ميں مازائدہ _۲_ نون تاكيد اس طرح عبارت كا معنى يہ ہے كہ اگر ميرى طرف سے تمہارے پاس ہدايت آئي_ كہ جو يقينا آئيگي

۲۴۱

۱۲ _ آدم(ع) و حوا(ع) كے ممنوعہ درخت سے كھانے كى وجہ سے انسانوں ميں دشمنى پيدا ہونے كے اسباب فراہم ہوئے _فأكلا بعضكم لبعض عدو

۱۳ _ خداتعالى نے افراد بشر كى آپس كى دشمنى كے بارے ميں آدم(ع) و حوا(ع) كو مطلع كرديا اور انہيں اسكے نتائج سے بچنے كا راستہ بھى دكھا ديا تھا_بعضكم لبعض عدو فمن إتبع هداى فلا يضل و لا يشقى

۱۴ _ خدا تعالى كى ہدايات كى پيروى انسان كو زمين پر رہنے والوں كى باہمى كشمكش اوردشمنى كے برے انجام سے بچاتى ہے _بعضكم لبعض عدو فإما ياتينكم منى هديً

۱۵ _ انسان ہدايت يا گمراہى كے راستے كے انتخاب كے سلسلے ميں با اختيار ہے_فاما ياتينكم منى هديً فمن اتبع هداي

۱۶ _ ہدايت الہى كى پيروى گمراہى اور بدبختى سے مانع ہے_فمن اتّبع هداى فلا يضل و لايشقى

۱۷ _ ہدايات الہى سے روگردانى انسان كى گمراہى اوراسكے رنج و الم ميں گرفتار ہونے كا سبب ہے_فمن اتبع هداى فلا يضل و لا يشقى '' شقاوت'' كا معنى ہے سختى اور دشوارى (قاموس) اور بعد والى آيت قرينہ ہے كہ اس سے مراد زندگى كا دباؤ اور مشكلات ہيں _

۱۸ _ انسان، غلطيوں سے بچنے اور خوش بختى تك پہنچنے كيلئے ہدايت الہى كا محتاج ہے_فمن اتّبع هداى فلا يضل و لا يشقى

آدم (ع) :انكے دھوكہ كھانے كے اثرات ۳; يہ اور ممنوعہ درخت ۱، ۳، ۱۲; انہيں بہشت سے نكالنا ۲، ۳; انكى بہشت ميں امن ۹; انكو بشارت ۱۱; انكى بہشت ميں ضروريات كى فراہمى ۹; انكى بہشت سے نكالنے كا پيش خيمہ ۴; انكے ہبوط كا پيش خيمہ ۴; انكى بہشت ميں صلح ۹; انكى محروميت كے عوامل ۱; انكى بہشت سے محروميت كے عوامل ۱; انكے ہبوط كے عوامل ۳; انكے ھبوط كا فلسفہ ۶; انكا قصہ ۱، ۲; انكا معلم ۱۳; انكى بہشت كى خصوصيات ۹

اطاعت:خداتعالى كى اطاعت كے اثرات ۱۴، ۱۶

انسان:اس كا اختيار ۱۵; زمين ميں اسكى نسل كى بقا۶; اسكے دشمن ۸; اس كى دشمني۷، ۱۳; اس كى دشمنى كا پيش

۲۴۲

خيمہ ۱۲; اسكے انحطاط كے عوامل ۵; اسكى نجات كے عوامل ۱۴; اسكى معنوى ضروريات ۱۸; اسكى ہدايت ۱۰

بشارت:ہدايت كى بشارت ۱۱

جبر و اختيار ۱۵

حوا(ع) :انكے دھوكہ كھانے كے اثرات ۳; يہ اور ممنوعہ درخت ۱، ۳، ۱۲; ان كے ھبوط كا پيش خيمہ ۴; انكى محروميت كے عوامل ۱; ان كے ھبوط كے عوامل ۳; ان كے ھبوط كا فلسفہ ۶; انكا معلم ۱۳

خداتعالى :اسكى بشارتيں ۱۱; اسكى تعليمات ۱۳; اسكى راہنمائي ۱۰; اسكى ہدايات ۱۱، ۱۸

ممنوعہ درخت:اس سے كھانے كے اثرات ۱، ۱۲

دشمني:اس سے نجات كے عوامل ۱۴; اس سے نجات ۱۳

زمين:اس ميں دشمنى ۷

سختى :اسكے عوامل ۱۷

سعادت:اسكے عوامل ۱۸

شخصيت:اسكى آسيب شناسى ۵

شقاوت:اسكے موانع ۱۶

شيطان:اسكے دھوكہ دينے كے اثرات ۲، ۴; اسكے وسوسوں كے اثرات ۳، ۴; اسے نكال باہر كرنا ۲; اسكى دشمنى ۸; اس كا نقش و كردار ۴; اس كا ہبوط ۲

نافرماني:خداتعالى كى نافرمانى كے اثرات ۵،۱۷

گمراہي:اس كا پيش خيمہ ۱۵; اسكے عوامل ۱۷، اس كے موانع ۱۶

ضروريات:ہدايت الہى كى ضرورت ۱۸

ہدايت:اس كا پيش خيمہ ۱۵

۲۴۳

آیت ۱۲۴

( وَمَنْ أَعْرَضَ عَن ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنكاً وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَى )

اور جو ميرے ذكر سے اعراض كرے گا اس كے لئے زندگى كى تنگى بھى ہے اور ہم اسے قيامت كے دن اندھا بھى محشور كريں گے (۱۲۴)

۱ _ہدايت الہى اور اسكى ياد سے روگردانى لئے انسان كے لئے سخت اور مشكلات سے پر زندگى ميں گرفتار ہونے كا سبب ہے_من اتبع هداى و من أعرض عن ذكرى فإن له معيشة ضنك

''معيشة'' يا تو مصدر ميمى ہے اور يا ''ما يعاش بہ'' كے معنى ميں ہے يعنى وہ چيز جسكے ساتھ زندگى گزرتى ہے '' ضنك'' كا معنى ہے تنگى اور سختى (لسان العرب)

۲ _ ہدايت الہى كى پيروى اور خدا كى ياد ميں رہنا زندگى كى آسانى اور مشكلات كے دور ہونے كا سبب ہے_

من اتبع هداي لا يشقى _ و من أعرض عن ذكرى فإن له معيشة ضنك

۳ _ الہى تفكر اور ہدايات كو مدنظر ركھے بغير دنياوى زندگي ايك تنگ اور محدود زندگى ہے_و من أعرض عن ذكرى فان له معيشة ضنك جس طرح خداتعالى نے ديگر آيات ميں دنياوى زندگى كو''متاع قليل'' قرار ديا ہے ممكن ہے اس آيت ميں بھى دنياوى زندگى كو ''تنگ'' زندگى كے طور پر متعارف كرايا ہو يعنى دنيا ہر حد و اندازے اور ہر مقدار ميں اگر ہدايت سے خالى ہو تو يہ ''تنگ زندگي'' كے سوا كچھ نہيں ہوگى كيونكہ بلا مقصد اور آخرت پر اعتقاد كے بغير زندگى تھكا دينے والي، روزمرہ كا تكرار اور فضول زحمت ہے_

۴ _ہدايت الہى كى پيروى اور اسكى طرف توجہ ياد خدا كا جلوہ ہے_من اتبع هداي و من أعرض عن ذكري

اس آيت ميں ''من ا عرض'' سابقہ آيت ميں ''من اتبع'' كے مقابلے ميں ہے مقابلے كا تقاضا يہ تھا كہ فرماتا'' و من لم يتبع هداي'' ليكن اس كے بجائے فرمايا ہے ''و من أعرض عن ذكري'' اس انتخاب كى وجہ يا تو ہدايت ميں ذكر خدا كا كردار ہے اور يا ذكر و ہدايت كا ايك ہوناہے_

۵ _ ہدايت الہى اور ياد خدا سے روگردانى كرنے والے ميدان قيامت ميں اندھے محشور ہوں گے_

و من أعرض عن ذكري و نحشره يوم القيامة ا عمى

۲۴۴

۶ _ ہدايت الہى اور ہميشہ خدا كى ياد ميں رہنا زندگى ميں بصيرت كا سبب ہے _و من أعرض عن ذكرى و نحشره يوم القيامة ا عمى گمراہ لوگوں كا اندھا محشور ہونا دنيا ميں ان كے ہدايت كو ديكھنے اور پانے سے اندھا ہونے كا نتيجہ ہے_ اس خاص سزا سے يہ نتيجہ ليا جاسكتا ہے كہ ہدايت، زندگى كى راہ ميں بصيرت كا سبب ہے_

۷ _ قيامت كے دن حقائق واضح ہوجائيں گے_و نحشره يوم القيامة اعمى

۸ _ قيامت انسانوں كو جمع كرنے اور ان كو حاضر كرنے كا دن ہے _و نحشره يوم القى مة

''حشر'' كا معنى ہے جمع كرنا كہ جس كے ہمراہ پيچھے سے چلانا اور ہانكنا ہو (مقاييس اللغة) يہ كلمہ صرف گروہ كے بارے ميں استعمال ہوتا ہے (مفردات راغب) اور آيت كريمہ ميں ضمائر اگر چہ مفرد كى استعمال كى گئي ہيں ليكن چونكہ ياد خدا سے غافل سب لوگوں كا انجام يہى ہوگا اس لئے ''حشر''كو در حقيقت گروہ كى طرف نسبت دى گئي ہے_

۹ _ قيامت كو برپا كرنا اور اس ميں ياد خدا سے غافل لوگوں كو حاضر كرنا خداتعالى كے اختيار ميں ہے اوروہ اسكے ارادے سے مربوط ہے_و نحشره يوم القيامة اعمى

۱۰ _ مشكل زندگى ياد خدا سے غافل ہونے كا فطرى اثر اور روز قيامت نابينائي اسكى الہى سزا ہے_فإن له معيشة ضنكاً و نحشره يوم القيامة اعمى ''فإن له ...'' اور''نحشره ...'' كى تعبيروں ميں فرق كہ دوسرى كو خداتعالى كى طرف نسبت دى گئي ہے اور پہلى خود عمل پر متفرع ہوئي ہے ممكن ہے مذكورہ مطلب كى طرف اشارہ ہو_

۱۱ _ دنيا ميں سخت زندگى اور قيامت ميں نابينا محشور ہونا انسان كى گمراہى اور بدبختى كے جلوے ہيں _

فمن اتبع هداى فلا يضل و لا يشقى _ و من أعرض عن ذكرى فإن له معيشة ضنكاً و نحشره يوم القيامة ا عمى

مذكورہ مطلب ہدايت يافتہ اور غافلين كے گروہوں كے درميان تقابل كا لازمہ ہے كہ جسے دو آيتيں مجموعى طور پر بيان كر رہى ہيں _

۱۲ _'' عن ا مير المؤمنين (ع) : و إن المعيشة الضنك التى حذر الله منها عدوه ه عذاب القبر، انّه يسلط على الكافر فى قبره تسعة و تسعين تنينا فينهشن لحمه و يكسرن عظمه و يترددن عليه كذلك إلى يوم يبعث ; اميرالمؤمنين(ع) سے روايت كى گئي ہے''معيشة ضنك'' كہ جس سے خداتعالى نے اپنے دشمنوں كو ڈرايا ہے عذاب قبر ہے

۲۴۵

خداتعالى كافر پر اسكى قبر ميں ۹۹ سانپ مسلط كرتا ہے كو جو اسكے گوشت كو ڈستے ہيں اور اسكى ہڈى كو توڑتے ہيں اور اسى طرح اس پر آتے جاتے رہتے ہيں اس دن تك كہ اسے اٹھايا جائے _(۱)

۱۳ _'' معاوية بن عمار عن ا بى عبدالله (ع) قال: سا لته عن رجل لم يحج قط و له مال قال: هو ممّن قال الله : '' و نحشره يوم القيامة ا عمى '' قلت : سبحان الله ا عمي؟ قال: ا عماه الله عن طريق الجنة; معاويہ بن عمار كہتے ہيں ميں نے امام صادق(ع) سے اس شخص كے بارے ميں سوال كيا جسكے پاس مال تھا ليكن اس نے حج نہ كيا تو آپ (ع) نے فرمايا يہ ان لوگوں ميں سے ہے جنكے بارے ميں خداتعالى نے فرمايا ہے '' و نحشرہ يوم القيامة ا عمى '' ميں نے كہا سبحان الله نابينا؟ فرمايا خداتعالى نے اسے بہشت كا راستہ (ديكھنے) سے نابينا كرديا ہے(۲) _

اطاعت:خدا كى اطاعت كے اثرات ۲، ۴

انسان:اس كا محشور ہونا ۸; اسكى شقاوت كى نشانياں ۱۱; اسكى گمراہى كى نشانياں ۱۱

بصيرت:اسكے عوامل ۶

حج:تاركين حج قيامت ميں ۱۳; تاركين حج كا آخرت ميں اندہھاپن ۱۳

خداتعالى :اس سے روگردانى كے اثرات ۱۰; اسكى ہدايت كے اثرات ۳، ۶; اس كا ارادہ ۹; اسكے افعال ۹; اس سے غفلت كرنے والوں كا آخرت ميں اندھاپن ۱۰; اس سے روگردانى كى سزا ۱۰

ذكر:ذكر خدا كے اثرات ۲،۶; ذكر خدا كى نشانياں ۴

روايت: ۱۲، ۱۳

زندگي:اسكى سختى ۱۱; اسے آسان كرنے كے عوامل۱; اسكى سختى كے عوامل ۱، ۳، ۱۰; سخت زندگى سے مراد ۱۲

سختي:اسے دور كرنے كے عوامل ۲

نافرماني:خدا كى نافرمانى كے ا ثرات ۱

غافلين:ان كا آخرت ميں اندھاپن۵; ان كے محشورہونا كا سرچشمہ ۹

غفلت:خدا سے غفلت كے اثرات ۱/قيامت:

____________________

۱ ) امالى شيخ طوسى ج۱، ص۲۷; تفسير برہان ج۳، ص ۴۸، ح۹_ ۲ ) تفسير قمى ج۲، ص ۶۶_ نورالثقلين ج۳، ص ۴۰۶، ح ۱۷۳_

۲۴۶

اس ميں حقائق كا ظہور۷; اس ميں اندھاہونے كے عوامل ۱۰; اس ميں اندھا ہونا۱۱; اس ميں محشور ہونے كا سرچشمہ ۹

كفار:انكا عذاب قبر ۱۲

گمراہ لوگ:ان كا آخرت ميں اندھاپن ۵

خدا سے اعراض كرنے والے:ان كا آخرت ميں اندھاپن ۵، ۱۰

آیت ۱۲۵

( قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِي أَعْمَى وَقَدْ كُنتُ بَصِيراً )

وہ كہے گا كہ پروردگار يہ تونے مجھے اندھا كيوں محشور كيا ہے جب كہ ميں دار دنيا ميں صاحب بصارت تھا (۱۲۵)

۱ _ ہدايت اور ياد الہى سے روگردانى كرنے والے روز قيامت نابينا محشور ہوں گے _قال رب لم حشرتنى أعمى

۲ _ ياد خدا سے غافل لوگ روز قيامت تعجب كے ساتھ اور شكايت كے انداز ميں خداتعالى سے اپنے اندھے ين كى علت كے بارے ميں سوال كريں گے_قال رب لم حشرتنى أعمى

۳ _ ياد خدا سے غافل لوگ روز قيامت محشور ہونے كے بعد اپنى نجات كے راستے كى شناخت سے ناتوان ہوں گے_ *

قال رب لم حشرتنى أعمى ممكن ہے اندھے پن سے مراد قيامت كے ماحول اور اسكى مشكلات سے نجات كا راستہ پانے سے آگاہ نہ ہونا ہو اس بناپر ''قد كنت بصيراً'' كہنے والے اپنے آپ كو اس طرح سمجھتے ہيں كہ جو دنيا ميں سب چيزوں كو خوب سمجھتے تھے اور عميق فكر ركھتے تھے_

۴ _ روز قيامت انسان كو خداتعالى سے سوال پوچھنے كى اجازت ہے _قال رب لم حشرتنى أعمى

''قال'' كے ظاہر سے يوں لگتا ہے كہ يہ سوال لفظوں ميں ہوگا اور نابيناؤں كى طرف سے روز قيامت كيا جائيگا _

۵ _ قيامت كے دن انسان اپنے نقائص كو درك اور محسوس كريگا _قال رب لم حشرتنى أعمى

۶ _ ياد خدا سے اعراض كرنے والے ميدان قيامت ميں

۲۴۷

حاضر ہوكر خداتعالى كى ربوبيت كا اعتراف كريں گے _قال رب

۷ _ بصيرت و بينائي كو عطا كرنا اور اس كا چھيں لينا خداتعالى كى ربوبيت كے جلوے ہيں _قال رب لم حشرتنى أعمى

۸ _ حاضرين قيامت خداتعالى كو انسانوں كا محشور كرنے والا او رفہم و درك كى قوتوں كا اختيار ركھنے والا سمجھتے ہيں _

لم حشرتنى أعمى

۹ _ ياد خدا سے غافل لوگ قيامت ميں حاضر ہونے كے وقت اپنى دنياوى زندگى كو ہوشمندانہ قرار ديكر فہم و درك كے راستے كے بند ہونے سے تعجب كريں گے_*قال رب لم حشرتنى أعمى و قد كنت بصيرا

مذكورہ مطلب بالا اس بنا پر ہے كہ ''ا عمى '' سے مراد''دل كا اندھا'' ہو_

۱۰ _ قيامت كے دن انسان دنيا ميں زندگى كے حالات اور اس ميں اپنى جسمانى خصوصيات سے آگاہ ہوگا_

قال رب لم حشرتنى أعمى و قد كنت بصير

۱۱ _ حاضرين قيامت كى نظر ميں ضرورى ہے كہ انسان كا وہاں كا جسم اسكے دنياوى بدن جيسا ہو _لم حشرتنى أعمى و قد كنت بصير

۱۲ _ روز قيامت انسان كا محشور ہونا جسمانى خصوصيات كے ہمراہ ہوگا _قال رب لم حشرتنى أعمى و قد كنت بصير

۱۳ _ ہدايت الہى كى پيروى روز قيامت بصيرت اور بينائي كا سبب ہے _فمن اتبع هداي و من اعرض لم حشرتنى أعمى

۱۴ _ خدا سے غفلت كے ہوتے ہوئے گہرى فكر بھى در حقيقت اندھاپن اور بے بصيرتى ہے_لم حشرتنى أعمى و قد كنت بصير قيامت ميں اندھاپن دنيا ميں انسان كى حقيقت كا جلوہ ہے يعنى اگر چہ وہ اپنے آپ كو با بصيرت سمجھتا ہے ليكن در حقيقت بصيرت سے عارى ہے_

اطاعت:خدا كى اطاعت كے اثرات ۱۳

اقرار:ربوبيت خدا كا اقرار ۶/اندھاپن:اس كا سرچشمہ ۷

انسان:اسكى اخروى سوچ ۸، ۱۱; اس كا اخروى تنبہ ۱۰; اسكے محشورہونے كا سرچشمہ ۸; اسكے درك كا سرچشمہ ۸; اسكے محشور ہونے كى خصوصيات ۱۲

بصيرت:اخروى بصيرت كے عوامل ۱۳; اس كا سرچشمہ ۷

۲۴۸

خداتعالى :اسكے افعال ۸; اس سے سوال ۲، ۴; اسكى ربوبيت كى نشانياں ۷

خدا سے اعراض كرنے والے:انكا اخروى اقرار ۶; انكا اخروى تعجب ۹; انكا محشور ہونا۱، ۳; انكا عجز ۳; انكا اخروى اندھاپن ۱; انكى دنيوى ہوشيارى ۹

غافلين:انكا اخروى اقرار۶; انكا اخروى سوال ۲; انكا اخروى تعجب ۲، ۹; انكا محشور ہونا ۳; انكا عجز ۳; انكا اخروى اندھاپن ۱، ۲; انكا اندھاپن ۱۴; انكا اخروى گلہ ۲

غفلت:خداتعالى سے غفلت كے اثرات ۱۴

قيامت:اس ميں سوال ۴; اس ميں نقائص كا درك ۵; اس ميں حقائق كا ظہور ۵، ۱۰

گمراہ لوگ:ان كا محشور ہونا۱; ان كا اخروى اندھاپن ۱

معاد:معاد جسمانى ۱۱، ۱۲

آیت ۱۲۶

( الَ كَذَلِكَ أَتَتْكَ آيَاتُنَا فَنَسِيتَهَا وَكَذَلِكَ الْيَوْمَ تُنسَى )

ارشاد ہوگا كہ اسى طرح ہمارى آيتيں تيرے پاس آئے اور تونے انھيں بھلاديا تو آج تو بھى نظر انداز كرديا جائے گا (۱۲۶)

۱ _ خداتعالى نے بشر كى ہدايت اور اسے ياد دہانى كرانے كيلئے متعدد آيات بھيجى ہيں _قال كذلك ا تتك ء اتين

۲ _ آيات اور ہدايت الہى كو فراموش كرنا اوران سے غافل ہونا روز قيامت نابينا محشور ہونے كا سبب ہے _

لم حشرتنى ا عمى قال كذلك ا تتك و ء آيا تنا فنسيته

۳ _ خداتعالى فرائض كے بيان كرنے اور انہيں بندوں تك پہچائے بغير انہيں سزا نہيں ديتا_قال كذلك ء اتيتك ء اى تن

روز قيامت غافلين كو كہا جائيگا''اتتك ء اياتنا'' يعنى تيرے پاس ہمارى آيات آئيں تھيں نہ يہ كہ ہم نے آيات بھيجيں تھيں آپ تك پہنچى ہوں يا نہ لہذا خداتعالى نے مواخذے كا معيار آيات كے ابلاغ كو قرار ديا ہے _

۴ _ مجرمين كا خداتعالى سے سوال اور اس كا جواب وصول كرنا ميدان قيامت كے واقعات ميں سے _

رب لم حشرتني قال كذلك ا تتك اى تن

''قال كذلك'' كے ظاہر سے يوں محسوس ہوتا ہے كہ ''لم حشرتني'' كے سوال كا جواب بھى الفاظ كے ساتھ بيان ہوگا نہ كہ صرف نفس ميں ايك حالت پيدا ہوگى

۲۴۹

اگر چہ ممكن ہے يہ جواب بلاواسطہ نہ ہو بلكہ فرشتوں و غيرہ كے ذريعے انجام پائے _

۵ _ خداتعالى كى طرف سے پہنچائي گئي ہدايات اسكى آيات ہيں _إما يا تينكم منى هديً فمن اتبع هداي قال كذلك ا تتك أى تن گذشتہ آيات ميں ''ہدايت'' كلام كامحور تھا اس آيت ميں ''ہدايات الہى ''كہ جن كا ''ہديً'' اور ''ہداي'' كے ساتھ تذكرہ كيا گيا ہے_كو ''آياتنا'' كے ساتھ تعبير كيا گيا ہے تا كہ اس حقيقت كو بيان كرے كہ ہدايات الہى وہى اسكى آيات ہيں _

۶ _ روز قيامت خداتعالى آيات اور معارف الہى كى اعتناء نہ كرنے والے افراد سے روگردانى كرے گا اور انكى اعتنا نہيں كريگا_أتتك آيا تنا فنسيتها و كذلك اليوم تنسى فعل ''تنسى '' ميں اگر چہ فاعل نامعلوم ہے ليكن (گذشتہ آيت ميں ) ''رب لم حشرتني'' كے قرينے سے كہاجاسكتا ہے كہ فاعل خداتعالى ہے_ نسيان دو معنوں كے درميان مشترك ہے ۱_ غفلت كى وجہ سے ترك كرنا ۲_ جان بوجھ كر ترك كرنا (مصباح) گذشتہ آيات قرينہ ہيں كہ اس آيت ميں دوسرا معنى مراد ہے_

۷ _ آيات اور ہدايات الہى سے غفلت اور انہيں فراموش كردينا روز قيامت انسان كے خداتعالى كى توجہات و عنايات سے محروم ہونے كا ايك عامل ہے_أتتك آيا تنا فنسيتها و كذلك اليوم تنسى

(گذشتہ آيات ميں مذكور) ''من أعرض عن ذكري'' قرينہ كہ ہے ''نسيتہا'' ميں نسيان سے مراد آيات الہى سے روگردانى اور بے اعتنائي ہے اور اس كا ''تنسى '' كے ساتھ تقابل اس نكتے كو بيان كررہا ہے كہ اس كلمے ميں بھى نسيان كا معنى روگردانى اور ترك كرنا ہے_

۸ _ روز قيامت نابينائي اوردرك انسان كے راستے كا مسدود ہونا اسكے خداتعالى كى توجہ اور عنايات سے محروم ہونے كا مظہر ہے_لم حشرتنى ا عمى كذلك اليوم تنسى

۹ _ روز قيامت انسان كو محشور كرنے اور اسكے اعمال كى جزا كى كيفيت اسكے دنياوى كردار كے ساتھ متناسب ہوگي_

فنسيتها تنسى

۱۰ _ روز قيامت انسان كى سزا اسكے دنياوى كردار سے نشأت پكڑتى ہے_فنسيتها اليوم تنسى

آيات خدا:

۲۵۰

انكى فراموشى كے اثرات ۲، ۷; ان سے اعراض كرنے والوں سے بے اعتنائي ۶; ان سے اعراض كرنے والے قيامت ميں ۶; ان كا كردار ۱; انكا ہدايت كرنا ۱، ۵

انسان:اسكے اخروى اندھے پن كا سرچشمہ ۸

پاداش:اس كا عمل كے ساتھ متناسب ہونا ۹; اخروى پاداش كے عوامل ۱۰

محشور ہونا:اسكى كيفيت ۹

خداتعالى :اسكے لطف و كرم سے محروميت كے اثرات ۸; اس سے سوال ۴; اس كے لطف و كرم سے محروميت كے عوامل ۷; اسكى ہدايات ۱، ۵

عمل:اسكے اثرات ۹، ۱۰; اسكى اخروى پاداش ۹; اسكى اخروى سزا ۹

غفلت:آيات الہى سے غفلت كے اثرات ۷; خداتعالى سے غفلت كے اثرات ۲، ۷

قواعد فقہيہ: ۳

قاعدہ عقاب بلا بيان ۳

قيامت:اس ميں سوال و جواب۴; اسكى خصوصيات ۴

اندھاپن:اخروى اندھے پن كے عوامل ۲

سزا:اس كا گناہ كے ساتھ متناسب ہونا ۹; اخروى سزا كے عوامل ۱۰

گناہ گار لوگ:ان كا اخروى جواب۴; ان كا اخروى سوال ۴

جزا كا نظام :۹

سزا كا نظام ۳

ہدايت:اسكى اہميت ۱

۲۵۱

آیت ۱۲۷

( وَكَذَلِكَ نَجْزِي مَنْ أَسْرَفَ وَلَمْ يُؤْمِن بِآيَاتِ رَبِّهِ وَلَعَذَابُ الْآخِرَةِ أَشَدُّ وَأَبْقَى )

اور ہم زيادتى كرنے والے اور اپنے رب كى نشانيوں پر ايمان نہ لانے والوں كو اسى طرح سزا ديتے ہيں اور آخرت كا عذاب يقينا سخت ترين اور ہميشہ باقى رہنے والا ہے (۱۲۷)

۱ _ دنيا ميں سخت اور تنگ زندگى اور قيامت ميں اندھاپن اور خداتعالى كى سرد مہرى ميں گرفتار ہونا اسراف كرنے والوں كى سزا ہے _معيشة ضنكاً و نحشر يوم القيامة ا عمى و كذلك نجزى من ا سرف

اسراف يعنى حد اعتدال سے تجاوز كرنا (مصباح) ''من اتبع ہداي'' كے قرينے سے اس آيت ميں اس سے مراد ہدايات الہى سے تجاوز كرنا ہے اور ''كذلك'' ميں ''ذلك'' ان سزاؤں كى طرف اشارہ ہے كہ جو گذشتہ آيات ميں ياد خدا سے روگردانى كرنے والوں كيلئے بيان ہوچكى ہيں _

۲ _آيات اور ہدايات الہى سے روگردانى كرنے والے اسراف كرنے والوں كا كامل اور بارز مصداق ہيں

و من أعرض عن ذكري و كذلك نجزي من أسرف

اگر''كذلك نجزي ...'' كا گذشتہ آيت پر عطف ہو اور يہ خداتعالى كى ياد الہى سے غافل لوگوں كے ساتھ گفتگو كا تسلسل ہو تو ''من ا سرف'' غافلين كيلئے دوسرا عنوان ہوگا_

۳ _ اسراف كرنے والے اور آيات الہى پر ايمان لانے سے روگردانى كرنے والے روز قيامت خداتعالى كى توجہ اور عنايات سے محروم ہوں گے_و كذلك اليوم تنسى و كذلك نجزى من أسرف و لم يؤمن بأيات ربه

۴ _ انسان كى ہدايت كيلئے آيات پيش كرنا ربوبيت الہى كا ايك جلوہ ہے _بآى ت ربه

۲۵۲

۵ _ خداتعالى مستحقين عذاب كو سزا دينے كے نظام كا حاكم ہے_نجزي

۶ _ دنيوى سزاؤں كى نسيت اخروى عذاب زيادہ سخت اور ديرپا ہوگا_و لعذاب الأخرة أشد و ا بقى

۷ _ اسراف كرنے والوں اور آيات الہى پر ايمان نہ لانے والوں كو دنياوى سزا اور روز قيامت اندھا ہونے كے علاوہ آخرت ميں زيادہ سخت اور ديرپا عذاب كا سامنا ہوگا _و لعذاب الأخرة ا شد و ا بقى

''كذلك'' بتاتا ہے كہ دنيا ميں سخت زندگى اور قيامت كا اندھاپن غافلين كے علاوہ بے ايمان اسراف كرنے والوں كيلئے بھى خطرہ ہے اور جملہ ''لعذاب الآخرة ...'' اس كے علاوہ مزيد عذاب سے حكايت كررہا ہے كہ جو روز قيامت كے ختم ہونے كے بعدشروع ہوگا اور دنياوى اور روز قيامت كے عذاب سے زيادہ سخت اور ديرپا ہوگا _

۸ _ آيات اور ہدايات الہى پر ايمان دنيا و آخرت ميں عذاب الہى سے محفوظ رہنے كى شرط ہے_و كذلك نجزي لم يؤمن ا شد و ا بقى

اسراف كرنے والے: ۲انكے عذاب كا دائمى ہونا۷; انكى زندگى كا سخت ہونا۱; انكا اخروى عذاب ۷; انكا اخروى اندھاپن ۱; انكى سزا ۱، ۷; انكى اخروى محروميت ۳

آيات خدا:ان سے روگردانى كرنے والوں كا اسراف۲; ان سے اعراض كرنے والوں كا اخروى عذاب ۷; ان سے اعراض كرنے والوں كى سزا ۷; ان سے اعراض كرنے والوں كى اخروى محروميت ۳; ان كا كردار ۴

ايمان:آيات الہى پر ايمان كے اثرات ۸; خداتعالى پر ايمان كے اثرات ۸

خداتعالى :اسكى حاكميت ۵; اسكى ربوبيت كى نشانياں ۴

عذاب:اخروى عذاب كى شدت ۶; اس سے بچنے كے شرائط ۸; دنيوى عذاب ۶; اسكے درجے ۶; اخروى عذاب كے درجے ۷

خدا كا لطف و كرم:اس سے محروم لوگ ۳

سزا كا نظام:اس كا حاكم۵

ہدايت:اسكے عوامل ۴

۲۵۳

آیت ۱۲۸

( أَفَلَمْ يَهْدِ لَهُمْ كَمْ أَهْلَكْنَا قَبْلَهُم مِّنَ الْقُرُونِ يَمْشُونَ فِي مَسَاكِنِهِمْ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِّأُوْلِي النُّهَى )

كيا انھيں اس بات نے رہنمائي نہيں دى كہ ہم نے ان سے پہلے كتنى نسلوں كو ہلاك كرديا جو اپنے علاقہ ميں نہايت اطمينان سے چل پھر رہے تھے بيشك اس ميں صاحبان عقل كے لئے بڑى نشانياں ہيں (۱۲۸)

۱ _ خداتعالى نے طول تاريخ ميں بہت سارے معاشروں اور امتوں كو ہلاك اور نابود كيا ہے_كم ائهلكنا قبلهم من القرون ''قرن'' كا معنى ہے قوم اور وہ لوگ جو ايك زمانے ميں زندگى گزار رہے ہوں (مفردات راغب)

۲ _ آيات اور ہدايات الہى كے بارے ميں كفر طول تاريخ ميں بہت سارى امتوں كى نابودى كا سبب بنا_و كذلك نجزى من أسرف و لم يؤمن كم ا هلكنا قبلهم من القرون گذشتہ آيات قرينہ ہيں كہ سابقہ امتوں كى ہلاكت ان كے آيات و ہدايات الہى كے مقابلے ميں كفر اختيار كرنے كى وجہ سے ہوتى تھي_

۳ _ گذشتہ اقوام كى عذاب الہى كے ساتھ ہلاكت خداتعالى كى دھمكيوں كے سنجيدہ ہونے كے واضح نمونے ہيں اور عصر بعثت كے مشركين كيلئے كفايت كرنے والا رہنما _ا فلم يهد لهم كم ا هلكنا قبلهم من القرون

۴ _تاريخ اور گذشتہ امتوں كى ہلاكت سے سبق حاصل نہ كرنا توبيخ اور مذمت كے قابل ہے _أفلم يهد لهم كم ا هلكنا قبلهم ''أفلم ...'' ميں استفہام انكار توبيخى كيلئے ہے اور '' لم يہد'' كا فاعل ''اہلاك'' ہے كہ جو ''كم ا ہلكنا'' سے سمجھ آرھا ہے اور ''لم يہد'' حرف لام كے ساتھ متعدى ہونے كى وجہ سے اس ميں تبيين كا معنى بھى تضمين كيا گيا ہے اور جملے كا معنى يہ ہے كہ كيا بہت سارى گذشتہ امتوں كو نابود كرنے سے مشركين كيلئے واضح نہيں ہوا كہ وہ ان جيسا عمل نہ كريں _

۵ _ عصر پيغمبر(ص) كے كفار بہت سارى گذشتہ امتوں كى ہلاكت سے آگاہ تھے اور ان كے باقى رہ جانے والے آثار قديمہ سے آشنا تھے_ا فلم يهد لهم كم ا هلكنا يمشون فى مسكنهم جملہ ''يمشون ...'' ''ہم'' كيلئے حال ہے اور سياق آيت قرينہ ہے كہ اس سے مراد صدر اسلام كے مشركين ہيں ان كا عاد، ثمود، لوط اور كے گھروں سے عبور كرنا كہ جو جملہ ''يمشون ...'' كا معنى ہے ان كے گذشتہ امتوں كے مرگبار واقعات سے آگاہى كا سبب ہے ہمزہ استفہام سے مستفاد توبيخ بھى ان كى آگاہى پر متفرع ہے_

۲۵۴

۶ _ گذشتہ امتوں ميں سے بہت سے لوگ جب عذاب الہى ميں گرفتار ہوئے اس وقت اپنے شہر اور گھروں ميں معمول كے مطابق رفت و آمد ميں مصروف تھے_*كم ا هلكنا قبلهم من القرون يمشون فى مسكنهم ممكن ہے جملہ ''يمشون ...'' ''القرون'' كيلئے حال ہو_

۷ _ تاريخ كا تغير و تبدل خداتعالى كے ارادے سے وابستہ ہے_كم ا هلكنا قبلهم

۸ _ نابود شدہ اقوام كے باقى رہ جانے والے آثار قديمہ سے سبق حاصل كرنے اور عبرت لينے كيلئے بہت سارى چيزويں ہيں _أفلم يهدلهم كم ا هلكنا إن فى ذلك لأيات

۹ _ گذشتہ امتوں كے باقى رہ جانے والے عبرت آموز آثار كا مطالعہ اور تحقيق اور انكى ہلاكت كے اسباب معلوم كرنا ضرورى ہے_كم ا هلكنا إن فى ذلك لأيات

گذشتہ امتوں كى تاريخ اور ان كے آثار كے آيت ہونے كا تقاضا يہ ہے كہ وہ انسان كو مہم اور قيمتى ہدايات اور عبرتوں كى طرف رہنمائي كرنے كے قابل ہيں _

۱۰ _ گذشتہ امتوں كے باقى رہ جانے والے آثار قديمہ كے مطالعے سے صرف صاحبان عقل بہرہ مند ہوتے ہيں اور عبرت حاصل كرتے ہيں _كم ا هلكنا قبلهم إن فى ذلك لأيات لا ولى النهي

آيات كا نشانى اور آيت ہونا عبرت حاصل كرنے والے كے موجود ہونے كے ساتھ مختص نہيں ہے بلكہ ايك ثابت صفت ہے لہذا اس كا ''ا ولى النہى '' كے ساتھ مختص ہونا صرف صاحبان عقل كے آيات سے بہرہ مند ہونے كى طرف ناظر ہے يعنى اگرچہ آيات اور نشانياں موجود ہيں ليكن بے عقل لوگ اس سے بہرہ مند نہيں ہوتے_

۱۱ _ عقل اور دانايى ايك قيمتى جوہر ہيں اور انسان كو ناروا كاموں سے روكتے ہے_ان فى ذلك لآيات لاولى النهى

''نُہى '' يا تو ''نہية'' (عقل) كى جمع ہے اور يا يہ مفرد لفظ ہے عقل كے معنى ميں (قاموس) اور اس لئے عقل كو يہ نام ديا گيا ہے كہ يہ انسان كو برائيوں سے نہى كرتى ہے_

۲۵۵

۱۲ _ جو لوگ گذشتہ اقوام كے انجام سے عبرت نہيں ليتے وہ عقل و خرد سے بے بہرہ ہيں _إن فى ذلك لأيات لا ولى النهى

۱۳ _ خداتعالى انسان كو عقل سے استفادہ كرنے اور اسے استعمال كرنے كى ترغيب دلاتا ہے _أفلم يهد إن فى ذلك لأيات لا ولى النهى اس آيت كا ذيل كہ جو صاحبان عقل كى تعريف كر رہا ہے مذكورہ مطلب كو بيان كررہا ہے نيز اسكے شروع ميں فاء عاطفہ اس مقدر پر عطف كر رہى ہے كہ جسے آيت كا ذيل بيان كررہا ہے در حقيقت اس پر استفہام توبيخى داخل ہوا ہے اور ''لم يہد'' اس پر تفريع ہے اور اصل ميں كلام يوں تھا ''ا فلم يتفكروا فلم يهد ...'' كيا انہوں نے سوچا نہيں گذشتہ اقوام كے انجام كا مطالعہ انكى ہدايت كا سبب نہيں بنا؟

آثار قديمہ:يہ صدر اسلام ميں ۵; ان سے عبرت لينا ۸، ۹، ۱۰

آيات خدا:انہيں جھٹلانے كے اثرات ۱۲

آثار قديمہ شناسي:اسكى اہميت ۹

گذشتہ اقوام:ان كے آثار قديمہ ۵; انكى تاريخ ۱، ۲، ۶; ان سے عبرت لينا ۹; ان سے عبرت حاصل نہ كرنا ۱۲; انكى ہلاكت كے عوامل ۲; ان كے عذاب كى كيفيت ۶ ; انكى ہلاكت ۱، ۳، ۵

تاريخ:اسكے مطالعے كى اہميت ۹; اس سے عبرت لينا ۴، ۸; اسكے تحولات كا سرچشمہ ۷

تعقل:اسكى تشويق ۱۳

خداتعالى :اسكے ارادے كے اثرات ۷; اسكے افعال ۱; اسكى تشويق ۱۳; اسكى دھمكيوں كا حتمى ہونا ۳

عقلا:يہ اور آثار قديمہ ۱۰/عبرت:عبرت نہ لينے والوں كى بے عقلى ۱۲; عبرت نہ لينے كى مذمت ۴; اسكے عوامل ۸، ۱۰

عذاب:اہل عذاب سے عبرت حاصل كرنا ۴

عقل:اسكى قدر و قيمت ۱۱; بے عقل لوگ ۱۲; اس كا كردار ۱۱

عمل:ناپسنديدہ عمل كے موانع ۱۱

كفار:صدر اسلام كے كفار كا علم ۵

مشركين:صدر اسلام كے مشركين كو دھمكى ۳

۲۵۶

آیت ۱۲۹

( وَلَوْلَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِن رَّبِّكَ لَكَانَ لِزَاماً وَأَجَلٌ مُسَمًّى )

اور اگر آپ كے رب كے طرف سے بات طے نہ ہوچكى ہوتى اور وقت مقرر نہ ہوتا تو عذاب لازمى طور پر آچكا ہوتا (۱۲۹)

۱ _ خداتعالى نے معاشروں اور امتوں كے امور كى تدبير كيلئے محكم و ثابت قوانين اور سنتيں قرار دے ركھى ہيں _

و لو لا كلمة سبقت من ربك اس مناسبت سے كہ بحث معاشروں اور انہيں مہلت دينے كے بارے ميں ہے اس آيت ميں ''كلمة '' سے مراد تاريخ اور معاشروں پر حاكم قوانين الہى اور سنتيں ہيں _

۲ _ كافر امتوں كے انجام اور انكى ہلاكت و بقا كيلئے معين سنن و قوانين اور مشخص اوقات ہيں _

كم اهلكنا قبلهم و لو لا كلمة سبقت من ربك لكان لزام گذشتہ آيت كہ جو كافر معاشروں كى ہلاكت كے بارے ميں ہے قرينہ ہے كہ ''لو لا كلمة ...'' كا معنى يہ ہے خداتعالى نے كفار كے عذاب كا وقت اور اسكے ديگر معيارات كو پہلے سے مشخص و معين كر ركھا ہے_

۳ _ كفار پر الہى سنتوں كا حاكم ہونا ان كے عذاب الہى كے ساتھ جلدى نابود ہونے سے مانع ہے_و لو لا كلمة سبقت من ربك لكان لزام

۴ _ آيات اور ہدايات الہى كے بارے ميں كفر كرنے والے دنيا ميں سزا اور عذاب كے مستحق ہيں _و لو لا كلمة سبقت من ربك لكان لزام لفظ'' لزاماً'' باب مفاعلہ كا مصدر ہے اور مصدر كا خبر واقع ہونا مبالغہ پر دلالت كرتاہے، اس بناپر جملہ''كان لزاماً'' كا مفاد يوں ہوگا(اگر خدا كى طرف سے مجرمين كو مہلت دينے كى سنت نہ ہوتي)عذاب الہى مخالفت كرنے والوں كے ساتھ ساتھ ہوتا (يہاں تك كہ مختصر سى مدت كے ليے بھي) ان سے الگ نہ ہوتا_

۵ _ خداوند متعال ہرگز اپنى سنتوں (طى شدہ باتوں ) سے پيچھے نہيں رہے گا_و لو لاكلمة سبقت من ربك لكان لزام

۲۵۷

۶ _آيات الہى كا انكار كرنااور اللہ تعالى كى ياد سے منہ پھير لينا ناقابل معاف گناہ ہيں _

و من أعرض عن ذكري و لم يؤمن بأيات ربه لو لا كلمة سبقت من ربك لكان لزام

۷ _بعثت كے دوران بسنے والے كافروں اور مشركوں كو مہلت دينا، خداوند عالم كى طرف سے رسول اكرم(ص) پر خصوصى عنايت كى وجہ سے تھي_رَبّك

''ربّ'' كے مقدس نام كارسول خدا كى ضمير خطاب كى طرف اضافہ ہوناكافروں پر عذاب نازل كرنے ميں تاخير اور ان كو مہلت دينا خدا كى طرف سے رسول اكرم(ص) پر خصوصى عنايت ہونے كى طرف اشارہ ہوسكتاہے _ جيسا كہ ايك اور سورے ميں فرماتا ہے:''و ما كان الله ليعذبهم و ا نت فيهم''

۸ _انسانيت سے متعلق مصلحتيں اور خداوند كى طرف سے قوموں كے معاملات كى تدبير كرنا دنيا ميں مخالفين كو جلدى سزا نہ دينے كى دليل ہے_ربَّك

۹ _روى زمين پر انسانى زندگى كو معين مدت تك كے ليے جارى ركھنے كى سنت (طى شدہ قانون) حق كى مخالفت كرنے والوں كو فوراً نابود كرنے كے ساتھ سازگار نہيں ہے_و لو لا كلمة سبقت من ربّك لكان لزاماً و اجل مسميً

(ا جل) كا معنى پورى مدت يا آخرى وقت ہے (لسان العرب) اور ''ا جل مسميً'' ''كلمة'' پر عطف ہوا ہے يعنى '' لو لا كلمة وا جل مسميً ...'' يہاں كلمہ اور اجل سے مراد دو مستقل چيز يں ہيں يا دونوں ايك حقيقت كى دو تعبير ہے اس بارے ميں علماء نے مختلف بيانات ديئےيں _ان ميں سے ايك احتمال يہ ہے كہ ''كلمہ'' سے مراد اللہ تعالى كا وہ كلام ہے جو آدم (ع) كو بہشت سے نكل كرزمين پر آتے وقت فرمايا''لكم فى الا رض مستقر و متاع إلى حين'' (بقرہ ۳۶) اور ''ا جل'' سے مراد اس احتمال كى بناپر دنيا كى آخرى عمر ہے مذكورہ نظريہ اس احتمال كى بناپر ہے_

۱۰ _ اللہ تعالى نے دنيوى زندگى كو تمام كافروں كو جلد مؤاخذہ كرنے كى جگہ قرار نہيں دى ہے _و لو لا ا جل مسميً

اللہ تعالى كى سنت ( اور روش) كى جس پر'' لو لا كلمة ...'' دلالت كرتاہے يہ نہيں ہے كہ اللہ تعالى دنيا ميں كسى بھى مختلف كرنے والے پر عذاب نازل نہيں كرتا بلكہ اسكى سنت يہ ہے كہ سارى مخالفين كو تباہ نہيں كرے گا كيونكہ اگر ہر كافر كو نابود كرنا منشا ہوتا تو انسانى نسل ختم ہونے كا خطرہ تھا( اس صورت ميں ) اجل مسمى تك نسل بشر باقى نہ رہتى _

۱۱ _قوموں كے خاتمے ليئے ايك معين اور طى شدہ مدت ہے_و لو لا كلمة سبقت من ربك لكان لزاماً ا جل مسميً

۲۵۸

آیت ۱۳۰

( فَاصْبِرْ عَلَى مَا يَقُولُونَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوبِهَا وَمِنْ آنَاء اللَّيْلِ فَسَبِّحْ وَأَطْرَافَ النَّهَارِ لَعَلَّكَ تَرْضَى )

لہذا آپ ان كى باتوں پر صبر كريں اور آفتاب نكلنے سے پہلے اور اسكے ڈوبنے كے بعد اپنے رب كى تسبيح كرتے رہيں اور رات كے اوقات ميں اور دن كے اطراف ميں بھى تسبيح پروردگار كريں كہ شايد آپ اس طرح راضى اور خوش ہوجائيں (۱۳۰)

۱ _ كفار رسول خد ا (ص) كو اپنى ( بے بنياد) باتوں كے ذريعے روحى طور پر اذيت پہنچاتے تھے_فاصبر على ما يقولون

خدا كى طرف سے رسول(ص) كى صبر كى تلقين اس بات كى حكايت كرتاہے كہ آنحضرت (ص) كافروں كى باتيں سننے سے رنجيدہ خاطر ہوتے تھے_

۲ _ كفار عذاب ميں تاخير ہونے اور فورى طورپر عذاب نازل نہ ہونے كو بہانہ بناكر رسول خدا كو روحى فشار ميں ركھتے اور انكے خلاف سخت پروپيگنڈا كرتے تھے_فاصبر على ما يقولون ما قبل والى آيت كے قرينے سے ''ما يقولون'' سے مراد كافروں كى وہ باتيں ہيں جو عذاب نازل نہ ہونے اور رسول (ص) خدا كے وعدوں كا مذاق اڑانے كے ليے اظہار كرتے تھے

۳ _خدا كى طرف سے رسول اكرم (ص) كو كافروں كى بے بنياد باتوں اور انكى طرف سے نفسياتى اذيت پہنچانے كے لئے پروپگينڈاكرنے پر صبر و تحمل كرنے كى وصيت_فاصبر على ما يقولون

۴ _ كافروں كو مہلت دينے كى حكمت كے بارے ميں خدا كى طرف سے آيات كا نزول كافروں كى طرف سے كى جانے والى تبليغات پر رسول اكرم(ص) كے تحمل اور صبر كا موجب بنا_لو لا كلمة سبقت فاصبر على ما يقولون

''فا صبر'' ما قبل والى آيت پر عطف اور تفريع ہے يعنى چونكہ كافروں كو عذاب دينے ميں تا خير سہل انگارى كى وجہ سے نہيں بلكہ ايك قانون اور سنت كى وجہ سے ہے پس ان سختيوں كو برداشت كريں ان آيات ميں خداوند عالم نے مخالفين كو مہلت دينے كى علت اور تاريخ (بشريت) پر حكم فرما روشن اور سنت كو بيان فرما كر رسول خدا(ص) اور اہل ايمان كى نسل ہونے كا زمينہ فراہم كرديا ہے_

۵ _ سنت الہى پرسے آگاہ ہونا اور اسكى علت كو سمجھنا سختيوں اور پريشانيوں ميں صبر و تحمل كرنے كے لئے پيش خيمہ_

و لو لا كلمة فاصبر على ما يقولون

۶ _ رسول خدا(ص) اور اہل ايمان لوگوں كو سورج طلوع كرنے اور ڈوبنے سے پہلے اللہ تعالى كى تسبيح كرتے رہنا چاہيئے _

و سبح بحمد ربك قبل طلوع الشمس و قبل غروبه

۲۵۹

''بحمد ربّكَ'' ميں باء يا مصاحبت كے لئے ہے يا استعانت كے لئے بہر حال اللہ تعالى كى حمد اور تسبيح كرنے كا حكم ايك ساتھ آيا ہے_ تسبيح كرنے كا خطاب اگر چہ بظاہر رسول اكرم(ص) كے متعلق ہے ليكن بعد والى آيتوں كے قرينہ سے معلوم ہوتاہے كہ يہ حكم رسول اكرم(ص) كے لئے مختص نہيں ہے (بلكہ تمام اہل ايمان بھى اس حكم كا مخاطب ہيں )

۷ _ رسول خدا (ص) اور اہل ايمان كسى يہ ذمہ دارى ہے كہ رات كے كچھ حصے اور دن كے دونوں فوں ميں اللہ تعالى كى حمد اور تسبيح كيا كريں _و من ء اناء الليل فسبح و اطراف النهار

''ء انائ'' كا معنى اوقات ہے اور ''من'' يہاں تبعيض كے ليے آياہے_لہذا ''من آناء الليل'' سے مراد يہ ہے كہ رات كے كچھ اوقات حمد اور تسبيح ميں مشغول رہيں اور آيت كے شروع ميں ''بحمدك'' آنا اس بات كا قرينہ ہے كہ يہ تسبيح بھى حمد كے ساتھ ہونى چاہيے_

۸ _ تمام اوقات ميں اللہ تعالى كى حمد اور تسبيح اور ذكر لازمى ہے_فسبح قبل طلوع آناء الليل اطراف النهار

اگرچہ اس آيت كريمہ ميں اللہ تعالى كى تسبيح كرنے كے ليے كچھ اوقات معين كيا گيا ہے ليكن ان موارد كى كثرت سے ايسا لگتاہے كہ ہدف يہ ہے كہ تماما فرصت كے موقعوں پر اللہ تعالى كو ياد كرنا اول اسكى تسبيح كرتے رہنا چاہيے_

۹ _انسان سخت شرائط نہيں آنے كى صورت ميں زيادہ صبر اور تحمل حاصل كرنے كے ليے اللہ تعالى كو ياد كرنے اور اسكى تسبيح كرنے كى طرف محتاج ہے_فاصبر على ما يقولون و سبّح بحمد ربّك

صبر كرنے كا دستور دينے كے بعد تسبيح كا دستور آنا اس بات كى نشاندہى كرتاہے كہ صبر كرنے كى طاقت حاصل كرنے كے لئے تسبيح كو دخل ہے_

۱۰ _ خدا اور دين كے خلاف كافروں كى طرف سے ہونے والے پراپگنڈوں كے ساتھ مقابلہ كرنے كے راستوں ميں سے ايك اللہ تعالى كى تسبيح اور حمد كرنا ہے_و سبح بحمد ربك قبل طلوع الشمس و قبل غروبه

۱۲ _رات كے كچھ حصوں ، صبح كے قريب اور سورچ غروب كرنے كے بعد اللہ تعالى كى حمد اور تسبيح كرنا خصوصى نتائج كے حامل ہيں _و من ء اناء الليل فسبح و اطراف النهار

''اطراف نہار'' سے مراد دن كا آغاز اور اختتام ہے_ اور اس لفظ ''اطراف نہار'' كو جمع كى صورت ميں ذكر كرنے كى وجہ يہ ہے چونكہ آناء الليل كے ساتھ آياہے اسكے ساتھ لفظى موافقت كى خاطر جمع لاياہے يا دن كے آغاز اور اختتام كے متعدد

۲۶۰

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

۶ _ سخت دشمنى او ر شديدمخالفت، انبيا(ع) ء كے ہلاك شدہ مخالفين كى خصوصيات ميں سے تھيں _ثم صدقنا هم الوعد و أهلكنا المسرفين مذكورہ مطلب اس بناپر ہے كہ اسراف سے مراد_ حكم و موضوع اور آيت كے مورد كے تناسب سے _ انبيا(ع) ء كى مخالفت اور دشمنى ميں حد سے تجاوز كرنا ہے نہ كہ امور مالى و غيرہ ميں اسراف

۷ _ خداتعالى كى جانب سے پيغمبراكرم(ص) اور مؤمنين كى حوصلہ افزائي اور انہيں تسلى دينا اور مشركين كو دھمكى دينا _

ثم صدقنهم الوعد و أهلكنا المسرفين

خداتعالى كے انبيا(ع) ء اور مؤمنين كے ساتھ كاميابى اور ان كے دشمنوں كى نابودى كے وعدے كا تذكرہ ہوسكتا ہے مذكورہ نكتے كو بيان كرنے كيلئے ہو _

۸ _ انبيا(ع) ء كے دشمن اور مخالفين ،اسراف كرنے والے ہيں _ثم صدقناهم الوعد أهلكنا المسرفين

۹ _ اسراف كرنا، حق كو قبول نہ كرنے اور انبيا(ع) ء كى مخالفت كے اسباب فراہم كرتا ہے اور ہلاكت اور نابودى كا سبب ہے _و أهلكنا المسرفين ہلاك ہونے والوں كى ''مسرفين'' كے ساتھ توصيف ان كى ہلاكت ميں اس وصف كى تا ثير اور علت ہونے كى طرف اشارہ ہے _

۱۰ _ مشركين كے خلاف كاميابي، خداتعالى كا پيغمبر(ص) اسلام كے ساتھ وعدہ _ثم صدقناهم الوعد

آيت كريمہ پيغمبر(ص) اسلام كو تسلى دينے كے مقام ميں ہے اور خداتعالى عمومى روش كو بيان كر كے (سب انبيا(ع) ء كى كاميابى كا وعدہ) در حقيقت پيغمبراكرم(ص) كو بھى كاميابى كا وعدہ دے رہا ہے _

اسراف:اسكے اثرات ۹

انبياء(ع) :ان كے دشمنوں كا اسراف ۸; ان كے دشمن۵; ان كے دشمنوں كى دشمنى ۶; ان كے ساتھ دشمنى كے عوامل ۹; ان كے ساتھ وعدہ ۲; انكى كاميابى كا وعدہ ۱; انكى نجات كا وعدہ۱، ۳; ان كے دشمنوں كى خصوصيات ۶; ان كے دشمنوں كى ہلاكت ۲، ۳

حق:اسے قبول نہ كرنے كے عوامل ۹

خداتعالى :

۳۰۱

اسكى مشيتّ كے اثرات ۴; اسكى دھمكياں ۷; اسكے وعدے ۳

دشمن:ان سے نجات كا سرچشمہ ۴; ان سے نجات ۱

مؤمنين:انكى حوصلہ افزائي ۷; انكو تسلى ۷; ان كے ساتھ وعدہ ۲; انكى كاميابى كا وعدہ ۱; انكى نجات كا وعدہ ۱، ۳; ان كے دشمنوں كى ہلاكت ۲، ۳

آنحضرت(ص) :آپ(ص) كى حوصلہ افزائي ۷; آپكو تسلى ۷; آپ كو كاميابى كا وعدہ ۱۰

مسرفين: ۸

انكى دشمنى ۵

مشركين:ان پر كاميابى ۱۰; انكى دھمكي۷

ہلاكت:اسكے عوامل

وعدہ:اسكى وفا، ۳

آیت ۱۰

( لَقَدْ أَنزَلْنَا إِلَيْكُمْ كِتَاباً فِيهِ ذِكْرُكُمْ أَفَلَا تَعْقِلُونَ )

بيشك ہم نے تمھارى طرف وہ كتاب نازل كى ہے جس ميں خود تمھارا بھى ذكر ہے تو كيا تم اتنى بھى عقل نہيں ركھتے ہو (۱۰)

۱ _ قرآن، آسمانى كتاب اور خداتعالى كى طرف سے نازل كى گئي ہے_لقد أنزلنا إليكم كتب

۲ _ قرآن، با عظمت اور بلند مرتبہ كتاب ہے_لقد أنزلنا إليكم كتب ''كتاباً '' كى تنوين تفخيم اور تعظيم پر دال ہے_

۳ _ قرآن، پيغمبراكرم(ص) كے زمانے ميں (بعثت كے پہلے نصف حصے ميں ) كتاب كے طور پر جانى پہچانى جاتى تھي_

لقد أنزلنا إليكم كتب اس چيز كو مد نظر ركھتے ہوئے كے سورہ ''انبيائ'' مكہ ميں نازل ہوئي معلوم ہوتا ہے كہ بعثت كے پہلے نصف حصے ميں قرآن كتاب كے طور پر پہچانا جاتا تھا _

۳۰۲

۴ _ قرآن، انسان كو ياد دہانى كرانے والا اور انسان كے ساتھ مربوط مسائل پر مشتمل ہے_كتاباً فيه ذكر كم

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''ذكر'' كسى چيز كو زبان پر لانے اور ياد كرنے كے معنى ميں ہو_ قابل ذكر ہے كہ يہ معنى اسكے مشہور اور غالب معانى ميں سے ہے _

۵ _ قرآن، انسان كيلئے سبق آموز او رپند و نصيحت كا سبب ہے_كتبا فيه ذكركم

مذكورہ مطلب اس بناپر ہے كہ ''ذكر'' كا معنى نصيحت اور نصيحت حاصل كرنا ہو _

۶ _ قرآن، انسان اور امت اسلامى كى شرافت و بزرگى كا سبب اور اس كا نعرہ ہے_كتبا فيه ذكركم

اہل لغت نے كلمہ ''ذكر'' كيلئے جو معانى ذكر كئے ہيں ان ميں سے شرافت ، بزرگى اور شہرت ہے (قاموس) اس بناپر ''فيہ ذكركم'' سے مراد يہ ہے كہ شرافت و بزرگى اور شہرت، قرآن كے سائے ميں اور اس پر عمل كرنے ميں ہے_

قابل ذكر ہے كہ ''ذكركم'' كى ضمير مخاطب سے مراد ہوسكتا ہے سب انسان ہوں اور ہوسكتا ہے صرف امت اسلامى ہو_ مذكورہ مطلب ميں دونوں احتمال ملحوظ ہيں _

۷ _ انسان كے فطرى اور غريزى محركات و تمايلات سے استفادہ كرنا قرآن كى تربيتى اور ہدايت كرنے كى ايك روش _

فيه ذكركم مذكورہ مطلب مندرجہ ذيل دو نكتوں پر مبتنى ہے ۱_ ذكر ثناء اور نغمے كے معنى ميں ہو _۲_ نام كے ہميشہ رہنے اور بلند شہرت كا شوق ،سب انسانوں كى طبع اور غريزے ميں ہے_

۸ _ خداتعالى ،انسان كو معارف قرآن ميں غور و فكر كرنے كى دعوت ديتا ہے اور اسكى ترغيب دلاتا ہے_أفلا تعقلون

۹ _ مشركين كا قرآن كا جھٹلانا ان كے عقل و خرد سے كام نہ لينے كا نتيجہ ہے _هم فى غفلة معرضوں لاهية قلوبهم لقد أنزلنا أفلا تعقلون

۱۰ _ پيغمبر اكرم(ص) اور قرآن كى حقانيت تك پہنچنے ميں خردمندى اور غور و فكر كا مؤثر اور تعميرى كردار ہے_

لقد أنزلنا أفلا تعقلون

۱۱ _ قرآن كے معارف اور تعليمات عقل و خرد كے موافق او راسكے ساتھ سازگار ہيں _لقد أنزلنا إليكم كتاباً أفلا تعقلون قرآن ميں غور وفكر كرنے كى تشويق دلانا اس نكتے كو بيان كررہا ہے كہ يہ آسمانى كتاب محتوا كے لحاظ سے عقل و خرد كے ساتھ سازگار ہے_

۱۲ _ قرآن اپنى اور پيغمبر(ص) اسلام كى حقانيت كو ثابت كرنے كى بہترين اور سب سے زيادہ قوى دليل اور معجزہ

۳۰۳

ہے_لقد أنزلنا إليكم كتباً فيه ذكركم أفلا تعقلون

ممكن ہے يہ آيت كريمہ مشركين كى طرف سے پيغمبراكرم(ص) سے اپنى حقانيت كو ثابت كرنے كيلئے معجزہ لانے كے بہانے والى درخواست كا جواب ہو يعنى اگر يہ لوگ غور كريں تو سمجھ جائيں گے كے قرآن، پيغمبر(ص) اسلام كا معجزہ ہے _ قابل ذكر ہے كہ اس حقيقت كى لام قسم اور حرف تحقيق (لقد) كے ساتھ تاكيد اسى مطلب كى تائيد كرتى ہے_

آسمانى كتب :۱

آنحضرت(ص) :آپكى حقانيت ۱۰; آپكي(ص) حقانيت كے دلائل ۱۲

تربيت:اسكى روش ۷

غور و فكر كرنا:اسكے اثرات ۱۰; اسكى تشويق ۸; يہ قرآن ميں ۸

خداتعالى :اسكى تشويق ۸

ذكر:انسان كا ذكر ۴

عبرت:اسكے عوامل ۵

عزت:اسكے عوامل ۶

غريزہ:اس كا كردار ۷

فطريات:ان كا كردار ۷

قرآن كريم:اس كا معجزہ ہونا ۱۲; اسكى تاريخ ۳; اس كى تعليمات ۴; اس كا جمع كرنا ۳; اسكى حقانيت ۱۰; اسكى حقانيت كے دلائل ۱۲; اسے جھٹلانے كا پيش خيمہ ۹; اس سے عبرت حاصل كرنا ۵; اسكى عظمت ۲; اسكى تعليمات كا عقلى ہونا ۱۱; اسكى فضيلت ۴; اس كا نزول ۱; اس كا كردار ۵_ ۶، ۱۲; اس كا وحى ہونا ۱

كتاب :۳

مسلمان:انكى عزت كے عوامل ۶

مشركين:ان كے غور نہ كرنے كے اثرات ۹

ہدايت:اسكى روش ۷

۳۰۴

آیت ۱۱

( وَكَمْ قَصَمْنَا مِن قَرْيَةٍ كَانَتْ ظَالِمَةً وَأَنشَأْنَا بَعْدَهَا قَوْماً آخَرِينَ )

اور ہم نے كتنى ہى ظالم بستيوں كو تباہ كرديا اور ان كے بعد ان كى جگہ پر دوسرى قوموں كو ايجاد كرديا (۱۱)

۱ _ خداتعالى نے بہت سے شہروں اور آباديوں كو ان كے لوگوں كے ظلم و ستم كى وجہ سے سختى كے ساتھ كچل ديا اور نابود كردياو كم قصمنا من قرية كانت ظالمة ''قصمنا'' كے مصدر ''قصم'' كا معنى ہے سختى كے ساتھ كسى چيز كو توڑنا اس طرح كہ وہ پراكندہ اجزاء اور ٹكڑوں ميں تبديل ہوجائے (لسان العرب) اور اس آيت ميں اس سے مراد نابودى اور ہلاكت ہے

۲ _ ظلم و ستم، معاشروں اور تہذيبوں كے مكمل انحطاط اورانہدام كا سبب ہے _و كم قصمنا من قرية كانت ظالمة

''قرية'' (شہروں كے لوگ) كى ''ظالمہ'' (ستمگر) كے ساتھ توصيف نابودى اور انہدام ميں ظلم كے كردار كو بيان كررہى ہے _

۳ _ خداتعالى كى طرف سے مشركين اور ستمگر معاشروں اور مشركين كو ہلاكت اور نابودى كى دھمكى _و كم قصمنا من قرية كانت ظالمة

۴ _ قرآن اور پيغمبر(ص) اسلام كى مخالفت اور ان كے ساتھ مقابلہ ظلم و ستم كا واضح مصداق ہے _لقد أنزلنا إليكم و كم قصمنا من قرية كانت ظالمة خداتعالى نے نزول قرآن كو بيان كرنے اور لوگوں كو اس ميں غور و فكر كى دعوت دينے نيز بہت سى اقوام كو ان كے ظلم كى وجہ سے نابود كرنے كا تذكرہ كرنے كے بعد اسلام اور قرآن كے مخالفين كو عذاب اور نابودى كى دھمكى دى ہے اس كا مطلب يہ ہے كہ اسلام اور قرآن كى مخالفت ظلم كا واضح مصداق اور نابودى كا موجب ہے _

۵ _ ظلم، اسراف ہے اور ستمگر معاشرے مسرفين كى تاريخ كے واضح مصداق ہيں _

و أهلكنا المسرفين و كم قصمنا من قرية كانت ظالمة

خداتعالى نے سابقہ دو آيتوں ميں انبيا(ع) ء كے دشمنوں كو مسرفين كہا ہے (و أهلكن المسرفين ) اور اس آيت ميں بہت سارى اقوام كو كہ جو دين الہى كے ساتھ دشمنى كى وجہ سے نابود ہوئي ہيں ظالم كہا ہے ان دو آيتوں كے ارتباط سے يہ سمجھا جاسكتا ہے كہ ظالمين وہى مسرفين ہيں _

۳۰۵

۶ _ بہت سارے معاشروں كا انحطاط اور انكى نابودى ان كے لوگوں كے كردار كى وجہ سے ہوئي _و كم قصمنا من قرية كانت ظالمة ''كم قصمنا'' ميں كلمہ ''كم'' خبريہ اور كثير كے معنى ميں ہے اور قريوں اور امتوں كو ظالم كہنا ان كى ہلاكت اور نابودى كے سبب كا بيان ہے_

۷ _ خداتعالى نے ستمگر اقوام كو نابود كرنے كے بعد دوسرے لوگوں كو پيدا كيا اور ان كى جگہ پر قرار ديا_

و أنشأنا بعدها قوما ء أخرين ''انشأنا'' كے مصدر ''انشائ'' كا معنى ہے كسى جاندار شے كو خلق كرنا اور اسے وجود ميں لانا اور اسكى تربيت كرنا (مفردات راغب)_

۸ _ معاشروں اور تہذيبوں كا تغير و تبدل اور دگرگونى خداتعالى كى مشيت اور ارادے كے تابع ہے _

و كم قصمنا و أنشأنا بعدها قوما ء أخرين

آنحضرت(ص) :آپ(ص) كے ساتھ دشمنى ۴; آپ(ص) كے ساتھ مقابلہ ۴

اسراف:اسكے موارد۵

اقوام:انكے متبادل لانے كا سرچشمہ ۷، ۸

تہذيبيں :ان كے ختم ہونے كے عوامل ۲، ۶; ان كے ختم ہونے كا سرچشمہ ۸

معاشرہ:اسكى آسيب شناسى ۲

خداتعالى :اسكے ارادے كے اثرات ۸; اسكى مشيت كے اثرات ۸; اسكے افعال ۷ ; اسكى دھمكياں ۳

شہر:انكى نابودى كے عوامل ۱

ظالم لوگ: ۵انہيں دھمكى دينا ۳; انكى ہلاكت ۷

ظلم:اسكے اثرات ۱، ۲، ۵; اسكے موارد ۴

عمل:اسكے اثرات ۶

قرآن كريم:اسكے ساتھ د شمنى ۴; اسكے ساتھ مبارزت ۴

مسرفين: ۵مشركين:ان كو دھمكى دينا ۳

ہلاكت:اسكى دھمكى ۳

۳۰۶

آیت ۱۲

( فَلَمَّا أَحَسُّوا بَأْسَنَا إِذَا هُم مِّنْهَا يَرْكُضُونَ )

پھر جب ان لوگوں نے عذاب كى آہٹ محسوس كى تو اسے ديكھ كر بھاگنا شروع كرديا (۱۲)

۱ _ ستمگر اقوام اور معاشرے جب عذاب الہى كے نزول كا احساس كرتے ہيں تو بھاگ كھڑے ہوتے ہيں _

فلما أحسّوا بأسنا إذا هم منها يركضون

(يركضون كے مصدر) ''ركض'' كا اصلى معنى زمين پر پاؤں مارنا ہے اور جب اسے شخص كى طرف نسبت دى جائے تو اس سے مراد بھاگنا اور تيز چلنا ہوتا ہے_

۲ _ ستمگر معاشروں كى ہلاكت اور نابودى سے پہلے عذاب كى نشانيوں او رعلامات كا ظاہر ہونا_فلما أحسّوا بأسن

مذكورہ مطلب اس نكتے پر مبتنى ہے كہ عذاب كے احساس سے مراد اسكى نشانيوں اور علامات كا مشاہدہ ہو اور اس وقت عذاب كے شكار لوگوں كا فرار كرنا اسى مطلب كى تائيد كرتا ہے كيونكہ اگر وہ خود عذاب كا احساس كرتے تو بھاگنے كى فرصت اور راستہ ہى نہ ہوتا _

۳ _ عذاب ا لہى كى علامات اور نشانيوں كے ظہور كے وقت ،ستمگر معاشروں كا شديد اور ناگہانى اضطراب اور وحشت _

فلما أحسّوا إذا هم منها يركضون مذكورہ مطلب ''إذا'' فجائيہ كہ جو ناگہانى اور غير متوقع امر پر دلالت كرتا ہے_ سے حاصل ہوتا ہے كيونكہ ناگہانى فرار ايك قسم كے وحشت اور اضطراب كى دليل ہے_

۴ _ ستمگر معاشروں پر نازل ہونے والا عذاب تدريجى ہوتا تھا _فلما أحسّوا يركضون

اس چيز كے پيش نظر كے آيت كريمہ ميں عذاب كے شكار لوگوں كے فرار كو بيان كيا گيا ہے لگتاہے كہ عذاب كے احساس كے آغاز اور انكى نابودي_ كہ جس كا تذكرہ بعد كى تين آيتوں ميں ہے_ كے درميان فاصلہ موجود تھا _

گذشتہ اقوام:انكى تاريخ ۱; انكا تدريجى عذاب ۴; انكى ہلاكت ۲

ظالم لوگ:

۳۰۷

انكا اضطراب ۳; انكا خوف ۳; يہ عذاب كے وقت ۱، ۳; انكا تدريجى عذاب ۴; انكا فرار ۱; انكى ہلاكت ۲

عذاب:اس سے فرار ۱; اسكى نشانياں ۲

آیت ۱۳

( لَا تَرْكُضُوا وَارْجِعُوا إِلَى مَا أُتْرِفْتُمْ فِيهِ وَمَسَاكِنِكُمْ لَعَلَّكُمْ تُسْأَلُونَ )

ہم نے كہا كہ اب بھاگو نہيں اور اپنے گھروں كى طرف اور اپنے سامان عيش و عشرت كى طرف پلٹ كر جاؤ كہ تم سے اس كے بارے ميں پوچھ كچھ كى جائے گى (۱۳)

۱ _ ''فرار نہ كرو اور پر آسائش زندگى كى طرف پلٹ آو'' مہلك عذاب كے نزول كے وقت خداتعالى كى ستمگر اور پر آسائش كى زندگى گزارنے والوں كے ساتھ استہزا ء والى گفتگو_لاتركضوا و ارجعوا إلى ما أترفتم فيه

''الترف'' كا معنى ہے صاحب نعمت ہونا اور ''الترفہ'' كا معنى ہے خود نعمت اور ''مترف'' اسے كہتے ہيں حو فراوان نعمتوں اور آسائشوں سے بہرہ مند ہو اس طرح كہ غرور كرنے لگے (لسان العرب) يا اس طرح ناز و نعمت ميں ہو كہ اسے كوئي روك نہ سكے اور جو اس كا دل چاہے كرے قابل ذكر ہے كہ ''لاتركضوا'' اور ''ارجعوا ...'' ميں نہى اور امرطلب حقيقى كيلئے نہيں ہيں بلكہ مجاز اور تہكم و استہزا ء كيلئے ہيں _

۲ _ ستمگر اور پرُ آسائش زندگى گزارنے والے معاشروں كا عذاب اور سزا حتمى ہے اور اس سے فرار كا كوئي فائدہ نہيں ہے _لاتركضوا و ارجعوا إلى ما اُترفتم فيه

۳ _ پر آسائش زندگى گزارنے والے ستمگر نزول عذاب كے وقت اپنا مال و متاع اور گھر چھوڑ كر اپنے شہر و ديار سے فرار كر جاتے ہيں _و ارجعوا إلى ما أترفتم فيه و مسكنكم

۴ _ مادى اور خوشگوار زندگى ميں غوطہ زن ہونا ستمگر معاشروں ميں زندگى گزارنے كا طريقہ ہے _قرية كانت ظالمة و ارجعوا إلى ما أترفتم فيه

۵ _ خوش گذرانى اور ناز و نعمت اور آسائشوں ميں غرق رہنا دنيوى عذاب اور ہلاكت كاپيش خيمہ ہے _و كم قصمنا من قرية و ارجعوا إلى ما أترفتم فيه مذكورہ مطلب ''فيہ'' سے كہ جو ظرفيت كل ے ہے حاصل ہوتا ہے اس طرح كہ نعمت اور آسائش كو ظرف اور انسان جو صاحب نعمت ہے اس كومظروف قرار ديا گيا ہے اور يہ چيز پرُ آسائش زندگى گزارنے والے ستمگروں كے ناز و نعمت ميں غرق ہونے كو بيان كرتى ہے_

۳۰۸

۶ _ معاشرے كے ستمگر اور پر آسائش زندگى گزارنے والے لوگ، تہذيبوں كى نابودى اور معاشرے كے افراد كى ہلاكت كا سبب ہيںو كم قصمنا من قرية كانت ظالمة ارجعوا إلى ما أترفتم فيه

ان آيات كے مخاطب كچھ خاص لوگ ہيں كيونكہ خداتعالى نے انكى دو صفتيں بيان كى ہيں ستمگر ہونا اور پر نعمت ہونا اور يہ دو صفتيں عام طور پر معاشرے كے خاص طبقے ميں ہوتى ہيں اور اكثر لوگ نہ ظالم ہيں اور نہ پر آسائش _

۷ _ گذشتہ ظالم معاشروں كے پرُ آسائش زندگى والے لوگ خوبصورت اور مجلل عمارتيں اور گھر ركھتے تھے_و ارجعوا إلى ما أترفتم فيه و مسكنكم پرُ آسائش زندگى والوں كے مال و متاع ميں سے ''گھروں '' كا تذكرہ انكى خصوصيت كا گواہ ہے نيز يہ انكے باسيوں كى دلى وابستگى كى بھى دليل ہے_

۸ _ ستمگر معاشروں كے پرُ آسائش زندگى والے افراد كى ممتاز معاشرتى اور اقتصادى حيثيت_ارجعوا لعلكم تسئلون

اس سلسلے ميں كہ ''تسئلون'' ميں سوال كيا ہے اور سوال كرنے والے كون ہيں مفسرين كى مختلف آراء ہيں _ ان ميں سے ايك يہ ہے كہ سوال كرنے والے لوگ ہيں اور سوال سے مراد، معاشرتى مسائل ميں مشورہ اور اقتصادى مسائل ميں مدد اور درخواست ہے_

۹ _ ماضى كے ستمگر اور پرُ آسائش معاشروں ميں فقير اور نادار طبقے كا وجود _ارجعوا لعلكم تسئلون

مذكورہ مطلب اس احتمال كى بناپر ہے كہ ''لعلكم تسئلون'' سے مراد فقراء كى ان سے درخواست اور سوال ہو_

۱۰ _ گذشتہ معاشروں كے ستمگر اور پرُ آسائش زندگى والے لوگ انبيا(ع) ء الہى كى مخالفت اور ان كے خلاف مقابلہ ميں پيش ہوتے _و كم قصمنامن قرية كانت ظالمة ارجعوا إلى ما أترفتم فيه و مسكنكم لعلكم تسئلون

مذكورہ مطلب اس نكتے كو پيش نظر ركھتے ہوئے حاصل ہوتا ہے ہے كہ يہ آيت كريمہ اور اس سے پہلے كى دو آيتيں ان لوگوں كے بارے ميں ہيں كہ جو انبياء كى مخالفت كى وجہ سے عذاب الہى ميں گرفتار ہوئے_

۱۱ _ پرُآسائش زندگى والے ستمگر لوگوں كا نعمات الہى اور آسائش سے بہرہ مند ہونے كى وجہ سے مؤاخذہ ہوگا اور ان سے سؤال كيا جائيگا_ارجعوا إلى ما أترفتم فيه ومسكنكم لعلكم تسئلون

امتيں :ان كى ہلاكت كے عوامل ۶/انبياء (ع) :

۳۰۹

ان كے دشمن ۱۰

تہذيبيں :ان كے ختم ہونے كے عوامل ۶

معاشرہ:اسكى آسيب شناسى ۶

خداتعالى :اس كا مذاق اڑانا ۱

گذشتہ اقوام:انكى تاريخ ۷، ۸، ۹، ۱۰; ان كے ظالموں كى دشمنى ۱۰; ان كے معاشرتى طبقات ۹; ان كے پر آسائش لوگوں كے گھر ۷; ان كے ظالموں كى معاشرتى حيثيت ۸; ان كے پر آسائش زندگى والے افراد كى معاشرتى حيثيت۸; ان كے ظالموں كى اقتصادى حيثيت ۸; ان كے عيش و عشرت والوں كى اقتصادى حيثيت۸

دنيا پرستي:اسكے اثرات ۵

ظالم لوگ:ان كا مذاق اڑانا ۱; ان كے عذاب كا حتمى ہونا ۲; انكى خوش گذرانى ۴; ان كى دنيا پرستى ۴; ان كى روش زندگى ۴; يہ عذاب كے وقت ۳; انكافرار ۳; انكا مؤاخذہ ۱۱; ان كا نقش و كردار ۶

عذاب:اس كا پيش خيمہ ۵; جڑ سے اكھاڑ پھينكنے والا عذاب ۱; ا س سے فرار ۱

پرآسائش زندگى والے لوگ:ان كا مذاق اڑانا۱; ان كے عذاب كا حتمى ہونا ۲; ماضى كے پر آسائش زندگى والوں كى دشمنى ۱۰; ان كا فرار ۱، ۳; ان كا مواخذہ ۱۱; يہ عذاب كى وقت ۳; انكا نقش و كردار ۶

نعمت:صاحبان نعمت كا مواخذہ ۱۱

ہلاكت:س كا پيش خيمہ ۵

خواہش پرستي:اسكے اثرات ۵

آیت ۱۴

( قَالُوا يَا وَيْلَنَا إِنَّا كُنَّا ظَالِمِينَ )

ان لوگوں نے كہا كہ ہائے افسوس ہم واقعاً ظالم تھے (۱۴)

۱ _ ظالم معاشروں كے عيش و عشرت پسند لوگ، عذاب الہى كے احساس كے بعد اپنے ظلم و ستم كا اعتراف كرليتے ہيں _فلما أحسوا بأسنا قالواياويلناا إنّا كنّا ظالمين

۲ _ عيش و عشرت پسند ظالم لوگ، عذاب الہى كو ديكھ كر

۳۱۰

حسرت اور ندامت ميں ڈوب جاتے ہيں _فلما أحسّوا بأسنا قالوا يا ويلنا إنّا كنا ظالمين

۳ _ ہلاك كردينے والى مشكلات اور عذاب الہى كے مشاہدہ كے وقت انسان كا حقائق كى طرف توجہ كرنا اور اپنے كردار سے پشيمان ہونا_فلما أحسّوا بأسنا قالواياويلناا إنّا كنّا ظالمين

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ جملہ ''قالواياويلناا ...'' مستأنفہ اور جملہ ''فلما أحسّوا بأسنا ...'' كيلئے بيان ہو يعنى جب ہمارے عذاب كو محسوس كرتے ہيں تو اپنے گناہ كا اقرار اور حقيقت حال كا اعتراف كرليتے ہيں پس عذاب كو محسوس كرنا اور تباہ و برباد كردينے والى مشكلات كا مشاہدہ انسان كے حقائق كى طرف توجہ كرنے اور ان كے اعتراف كا سبب ہے_

۴ _معاشروں كے عيش و عشرت پسند اور خوش گذران لوگ ظالم اور ستمگر ہيں _

قرية كانت ظالمة ما أترفتم فيه إنا كنا ظالمين

۵ _ مسلسل ظلم، نابودى اور عذاب الہى كے نزول كا سبب ہے _فلما أحسّوا بأسنا قالواياويلناا إنا كنا ظلمين

مبتلا ہونا:عذاب ميں مبتلا ہونے كے اثرات ۳

اقرار:ظلم كا اقرار ۱

پشيماني:اسكے عوامل ۳

متنبہ ہونا:اسكے عوامل ۳

خوش گذراں لوگ:ان كا ظلم ۴

ظالم لوگ:ان كا اقرار ۱; انكى حسرت۲; يہ عذاب كے وقت۱، ۲

ظلم:اسكے اثرات ۵

عذاب:اسكے ديكھنے كے اثرات ۳; اسكے وقت پشيمانى ۱; اسكے عوامل ۵

عيش و عشرت پر ست لوگ:ان كا اقرار۱; ان كى پشيمانى ۲; انكى حسرت۲; انكا ظلم ۴; يہ عذاب كے وقت ۱، ۲

۳۱۱

آیت ۱۵

( فَمَا زَالَت تِّلْكَ دَعْوَاهُمْ حَتَّى جَعَلْنَاهُمْ حَصِيداً خَامِدِينَ )

اور يہ كہہ كر فرياد كرتے رہے يہاں تك كہ ہم نے انھيں كٹى ہوئي كھيتى كى طرح بنا كر ان كے سارے جوش كو ٹھنڈا كرديا (۱۵)

۱ _ عيش و عشرت پرست ستمگر لوگ ،عذاب كے احساس سے ليكر ہلاكت و نابودى تك افسوس اور پشيمانى ميں رہيں گے_فما زالت تلك دعوى هم حتى جعلناهم حصيداً خمدين

۲ _ عذاب الہى كى نشانياں اور علامات ديكھنے كے بعد ايمان لانا اور ظلم و گناہ كا اعتراف كرنا بے ثمر ہے_

إنا كنا ظالمين فما زالت تلك دعوى هم حتى جعلنهم حصيد

يہ جو خداتعالى نے فرمايا ہے كہ ''گناہ گار لوگ عذاب كے مشاہدے كے وقت سے ليكر ہلاكت كے وقت تك مسلسل اپنے ظلم كا اعتراف كرتے ہيں '' تو اس كا مطلب يہ ہے كہ عذاب كے مشاہدے كے وقت گناہ كا اعتراف كرنا اثر نہيں ركھتا اور ضرورى ہے كہ توبہ عذاب كو ديكھنے سے پہلے انجام پائے_

۳ _ بہت سارے ستمگر اور پر آسائش زندگى والے معاشرے، خداتعالى كے شديد عذاب كے نتيجے ميں بالكل نابود ہوگئے_

و كم قصمنا حتى جعلنهم حصيداً خمدين

''حصيد'' كا معنى ہے محصود يعنى كاٹا ہوا اور ''خامد'' ''خمدت النار خموداً'' كا اسم فاعل ہے يعنى آگ كا بجھا ہوا شعلہ اور يہ اس آيت ميں موت سے كنايہ ہے (مفردات راغب) _

اقرار:ظلم كا اقرار ۲; گناہ كا اقرار۲

ايمان:بے ثمر ايمان ۲

گذشتہ اقوام:انكى تاريخ ۳; انكا عذاب ۳; ان كے ختم ہونے كے عوامل ۳

۳۱۲

ظالم لوگ:انكى پشيماني۱; يہ عذاب كے وقت ۱

عذاب:اسے ديكھنے كے اثرات۲; اسكے وقت پشيماني۱

عيش و عشرت پسندلوگ:انكى پشيمانى ۱; يہ عذاب كے وقت ۱

آیت ۱۶

( وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاء وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا لَاعِبِينَ )

اور ہم نے آسمان و زمين اور ان كے درميان كى تمام چيزوں كو كھيل تماشے كے ئے نہيں بنايا ہے (۱۶)

۱ _ آسمان و زمين اور فضا كے موجودات (عالم وجود) كى خلقت، فضول اور كھيل تماشا نہيں ہے بلكہ بامقصد اور با ہدف ہے_و ما خلقنا السماء والأرض و ما بينهما لعبين

''لعب'' كا معنى ہے ايسا بے فائدہ كام كہ جس كا كوئي صحيح مقصد اور سود نہ ہو ''لاعبين''، ''خلقنا'' كى ضمير كيلئے حال ہے يعنى ہم نے عالم ہستى كو كھيل تماشے كے قصد سے خلق نہيں كيا_

۲ _ آسمان و زمين كے درميان كى فضا ميں مخلوقات اور موجودات ہيں _و ما خلقنا السماء و الأرض و ما بينهما لعبين

۳ _ انبيا(ع) ء كى بعثت اور ستمگر اور دين دشمن معاشروں كى ہلاكت، نظام ہستى كے باہدف ہونے كى بنياد پر ہے_

و كم قصمنا من قرية كانت ظالمة و ما خلقنا السماء و الأرض و ما بينهما لعبين

ستمگر اقوام كى ہلاكت كے بعد كائنات كے باہدف ہونے كى ياددہانى ہوسكتا ہے اس نكتے كو بيان كررہى ہو كہ جب كائنات با مقصد اور باہدف ہے تو ستمگر اقوام كى ہلاكت بھى كائنات كے اسى باہدف ہونے اور كھيل تماشا نہ ہونے كا حصہ ہوگي

۴ _ ظلم اور انبيا(ع) ء كى مخالفت ،عالم ہستى كے قانون كے تابع ہونے والے نظام كے خلاف ہے _

و كم قصمنا من قرية كانت ظالمة و ما خلقنا السماء و الأرض و ما بينهما لعبين

ستمگروں كى نابودى كے بعد، خداتعالى كى طرف سے خلقت كائنات كے فضول نہ ہونے كى ياد دہانى ہوسكتا ہے اس حقيقت كو بيان كررہى ہو كہ انسان ظلم نہ كرے اور ستم كرنا كائنات كى بامقصد حركت كے خلاف ہے_

۵ _ عيش و عشرت پسند ستمگر لوگ ،كائنات كو كھيل تماشااور بے مقصد سمجھتے ہيں _

قرية كانت ظالمة و ارجعوا إلى ما اُترفتم فيه و ما خلقنا السماء و الأرض و ما بينهما لعبين

۶ _ كائنات كو بے مقصد سمجھنا، عالم خلقت كو فضول اور كھيل تماشا سمجھنے كے مترادف ہے _

۳۱۳

و ما خلقنا السماء و الأرض و ما بينهما لعبين

''مبطلين'' كے بجائے ''لعبين'' كى تعبير بتاتى ہے كہ كائنات كو باطل اور بے مقصد سمجھنا عالم خلقت كو كھيل تماشا سمجھنے كے مترادف ہے_

آسمان:اسكى خلقت كا قانون كے مطابق ہونا ۲

خلقت:اسكے ساتھ كھيلنا ۶; اسكو كھوكھلا سمجھنا۵، ۶; اس كا قانون كے مطابق ہونا ۱، ۳، ۴

انبياء(ع) :انكے ساتھ مخالفت كى حقيقت ۴; انكى بعثت كا قانون كے مطابق ہونا ۳

سوچ:غلط سوچ ۶

دين:اسكے دشمنوں كى ہلاكت كا قانون كے مطابق ہونا ۳

زمين:اسكى خلقت كا قانون كے مطابق ہونا۱

ظالم لوگ:انكى سوچ۵; انكا كھوكھلے يں كا طرف تمايل۵; انكى ہلاكت كا قانون كے مطابق ہونا ۳

ظلم:اسكى حقيقت ۴

فضا:اسكے موجودات كى خلقت كا قانون كے مطابق ہونا۱; اسكے موجودات ۲

عيش و عشرت پسند لوگ :ان كى سوچ۵; انكا كھوكھلے پن كى طرف تمايل ۵

آیت ۱۷

( لَوْ أَرَدْنَا أَن نَّتَّخِذَ لَهْواً لَّاتَّخَذْنَاهُ مِن لَّدُنَّا إِن كُنَّا فَاعِلِينَ )

ہم كھيل ہى بنانا چاہتے تو اپنى طرف ہى سے بناليتے اگر ہميں ايسا كرنا ہوتا (۱۷)

۱ _ خداتعالى كا ارادہ ، كھيل اور سرگرمى كى خاطر كسي كام كے انجام دينے كے ساتھ تعلق نہيں پكڑتا _

و ما خلقنا لعبين_ لو أردنا أن نتخذ لهو

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''لو'' امتنا عيہ ہو_ اس بناپر آيت كا معنى يوں بنے گا ''اگر ہم كسى چيز كو _ برفرض محال اور اسكے ممكن يا غير ممكن ہونے يا ہمارى شان سے كم ہونے سے صرف نظر كرتے ہوئے_ كھيل اور اپنى سرگرمى كيلئے انجام ديتے ...'' قابل ذكر ہے كہ بعض مفسرين كے مطابق' ' إن كنّا فاعلين'' ميں ''إن'' نافيہ ہے_ يہ بھى مذكورہ مطلب كا مؤيد ہوگا

۳۱۴

۲ _ مخلوقات كبھى بھى اپنے خالق كے لہو و لعب اور سرگرمى كا ذريعہ نہيں ہيں _

لو أردنا أن نتخذ لهواً لاتّخذنه من لدنا إن كنا فاعلين

۳ _ موجودہ كائنات كو اپنے كھيل تماشے كيلئے خلق كرنے كى قدرت، صرف خداتعالى كے پاس ہے اور كوئي بھى موجود اس پر قادر نہيں ہے_لو أردنا نتخذ لهواً لاتّخذنه من لدنّ

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''من لدنا'' كا معنى ''من جہة قدرتنا'' ہو (جيسا كہ بعض بزرگ مفسرين كى يہى رائے ہے) اور يا كہ يہ ''من لدنا'' (ظرف مختص) ''من لدن غيرنا'' كے مقابلے ميں ہو_ اس بناپر آيت كا پيغام يوں ہوگا اگر بنايہ ہوتى كہ كائنات كو اپنے لئے سرگرمى قرار ديں تو بھى يہ كام صرف ہمارى قدرت ميں ہے نہ ان خداؤں كى قدرت ميں جنكا مشركين دعوى كرتے ہيں اور نہ كوئي اور قدرت اسے انجام دے سكتى ہے پس مطلق قدرت اور ربوبيت صرف خداتعالى كے پاس ہے قابل ذكر ہے كہ ''عندنا'' كى جگہ كہ جو صرف حضور كيلئے ہے ''لدنا'' جو ابتدائے غايت كيلئے ہے كا آنا مذكورہ مطلب كى تائيد كرتا ہے_

۴ _ بر فرض محال اگر خداتعالى اپنى سرگرمى كيلئے كائنات كو خلق كرتا تو يہ مادى كائنات اسكى غرض كے لائق نہيں تھى بلكہ اس سے برتر جہان كا انتخاب كرتا _لو أردنا أن نتخذ لهواً لاتخذنه من لدنا إن كنا فعلين

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''من لدنا'' كا معنى ہو ''مما عندنا'' يا ''مما يليق بحضرتنا ...'' يعنى اگر ہم سرگرمى چاہتے تو ان جہانوں اور موجودات ميں سے كہ جو ہمارے پاس ہيں اور ہمارے زيادہ قريب ہيں اور اس مادى كائنات سے برتر ہيں (جيسے عالم مجردات ...) ان سے انتخاب كرتے_

۵ _ خداتعالى ، كائنات كے خلق كرنے والے كام ميں حق اور صحيح ہدف ركھتا تھا _و ما خلقنا السمائ لعبين لو أردنا أن نتّخذ لهواً لاتّخذنه من لدنا إن كنا فعلين خداتعالى نے گذشتہ آيت ميں كائنات كى خلقت كو با ہدف قرار ديا ہے اور اس آيت ميں مزيد تاكيد كيلئے فرمايا ہے ''ہم نے كائنات كو اپنى سرگرمى اور كھيل كيلئے خلق نہيں كيا'' ان دو آيتوں كے مجموعے سے استفادہ ہوتا ہے كہ كائنات كى خلقت ميں ايك ہدف ملحوظ تھا اور وہ ہدف صحيح اور حق ہے كيونكہ كلمہ'' لہو و لعب'' كا معنى وہى باطل ہے اور جو باطل نہ ہو وہ صحيح اور حق ہوگا_

خلقت:

۳۱۵

اس كے ساتھ سرگرمى ۳، ۴; اس كا قانون كے مطابق ہونا۵; اس كا باہدف ہونا۵

توحيد:توحيد افعالى ۳

خداتعالى :اسكى خالقيت ۳; يہ اور كھيل ۱، ۲، ۳، ۴; يہ اور لہو ،۱، ۲، ۳، ۴; اسكى قدرت ۳; اسكے ارادے كا متعلق ۱

موجودات:انكى حقيقت۲; ان كے ساتھ سرگرمى ۲

آیت ۱۸

( بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَى الْبَاطِلِ فَيَدْمَغُهُ فَإِذَا هُوَ زَاهِقٌ وَلَكُمُ الْوَيْلُ مِمَّا تَصِفُونَ )

بلكہ ہم تو ق كو باطل كے سر پردے مارتے ہيں اور اس كے دماغ كو كچل ديتے ہيں اور وہ تباہ و برباد ہوجاتا ہے اور تمھارے لئے ويل ہے كہ تم ايسى بے ربط باتيں بيان كر رہے ہو (۱۸)

۱ _ حق و باطل كى جنگ ميں آخرى كاميابى اہل حق كى ہے_بل نقذف بالحق على الباطل

۲ _ حق كے عقيدے اور نظريہ كائنات كے حق ہونے كى باطل عقيدے اور باطل نظريہ كائنات پر كاميابى سنت الہى ہے_و ما خلقنا السمائ لعبين بل نقذف بالحق على الباطل فيدمغه

خداتعالى نے گذشتہ آيت ميں كائنات كى خلقت كے باہدف ہونے اور اسكى خلقت كے فضول اور بيہودہ ہونے والے عقيدہ كے باطل ہونے كى بات كى ہے يہ بات قرينہ ہے كہ آيت كريمہ ميں حق و باطل سے مراد حق و باطل عقيدہ اور ان كا نظريہ كائنات ہے قابل ذكر ہے كہ اسى آيت كا ذيل (ولكم الويل مما تصفون) كہ جو خداتعالى كى طرف ناروا نسبت اور اسكى نادرست امور كے ساتھ توصيف كے بارے ميں ہے مذكورہ مطلب كا مؤيد ہے_

۳ _ حق كى باطل پر كاميابي، نظام خلقت كے بامقصد ہونے كا ايك جلوہ ہے_

و ما خلقنا السماء بل نقذف بالحق على الباطل فيدمغه

گذشتہ آيت ميں خداتعالى نے حق كى بنياد پر كائنات كى خلقت كى بات كى تھى اور اس آيت ميں حق كى باطل پر كاميابى كى ياد دہانى كرائي ہے ان دو باتوں كے درميان ارتباط مذكورہ مطلب كو بيان كرتا ہے_

۴ _ طول تاريخ ميں حق و باطل كے درميان مسلسل جنگ اور كشمكش_و كم قصمنا من قرية كانت ظالمة بل نقذف بالحق على الباطل فيد مغه

۳۱۶

۵ _ باطل اور نادرست عقيدوں كى نابودى اہل حق كے باطل كے خلاف ميدان مبارزت ميں حاضر ہونے كا مرہون منت ہے_بل نقذف بالحق على البطل فيدمغه

''بالحق'' ميں ''بائ'' استعانت كيلئے ہے اس بناپر آيت كا معنى يوں بنے گا ''ہم حق كى مدد سے باطل كو نابود اور تہس نہس كرديں گے'' اس كا مطلب يہ ہے كہ حق كا باطل كے مقابلے ميں ميدان كارزار ميں حاضر رہنا ضرورى ہے تا كہ اسكے ذريعے باطل اور نادرست عقيدوں كو نابود كيا جاسكے_ قابل ذكر ہے كہ خداتعالى نے باطل كو نابود كرنے كو اپنى طرف نسبت نہيں دى بلكہ حق كو باطل كا نابود كرنے والا قرار ديا ہے (فيد مغہ) يہ نكتہ بھى اسى مطلب كى تائيد كرتا ہے_

۶ _ غير متوقع حالات ميں باطل كى ناگہانى نابودى _بل نقذف بالحق على البطل فيدمغه فإذا هو زاهق

''إذا'' فجائيہ كہ جو ناگہانى اور غير متوقع ہونے پر دلالت كرتا ہے ،سے مذكورہ بالا مطلب حاصل ہوتا ہے_

۷ _ حق ،استحكام و صلابت ركھتا ہے اور باطل كھوكھلا اورقابل شكست ہے_بل نقذف بالحق على البطل فيدمغه فإذا هو زاهق چونكہ خداتعالى نے حق كو باطل كو ختم كردينے والا اور اسے تہس نہس كردينے والا قرار ديا ہے اس سے حق كا مستحكم ہونا ظاہر ہوتا ہے اور اس سے كہ باطل ناگہانى طور پر اور فوراً ختم ہوگيا اس كا كھوكھلا ہونا معلوم ہوتا ہے_ قابل ذكر ہے كہ تعبير ''قذف'' _ يعنى زور سے پھينكنا_ مذكورہ مطلب كى تائيد كرتى ہے_

۸ _ ماضى كے ستمگر معاشروں كى ہلاكت اور نابودى حق كى باطل كے خلاف كاميابى كا ايك نمونہ ہے_

و كم قصمنا من قرية كانت ظالمة بل نقذف بالحق على الباطل فيدمغه فإذا هو زاهق

۹ _ عصر پيغمبراكرم(ص) كے مشركين كا نظام خلقت اور انبياء (ع) كى بعثت كو كھيل تماشا قرار دينا_و ما خلقنا السمائ لعبين و لكم الويل مما تصفون ''لكم'' اور ''تصفون'' كے مخاطب مشركين ہيں اور گذشتہ آيات قرينہ ہيں كہ توصيف سے مراد مشركين كا خلقت كائنات كے بارے ميں غير صحيح عقيدہ اور خداتعالى كى طرف نظام خلقت كو سرگرمى كے طور پر لينے كى ناروا نسبت ہے _

۱۰ _ خداتعالى كى طرف ناروا نسبت ہلاكت اور عذاب الہى كے مستحق ہونے كا سبب ہے_

لكم الويل مما تصفون ''الويل'' كا اصلى معنى عذاب اور ہلاكت ہے اور يہ اس جگہ استعمال ہوتا ہے جہاں كسى شخص يا اشخاص كو ايسى ہلاكت كا خطرہ ہو جسكے وہ مستحق ہيں (لسان العرب) _

۳۱۷

۱۱ _ خداتعالى كى جانب سے پيغمبراكرم(ص) اور مؤمنين كو كاميابى كى خوشخبرى اور مشركين كو شكست اور نابودى كى دھمكيبل نقذف بالحق و لكم الويل مما تصفون

اس چيز كو مدنظر ركھتے ہوئے كہ پيغمبراكرم(ص) اور اہل حق، حق دشمن مشركين كے ساتھ مقابلے ميں مشغول تھے_ آيت شريفہ كے لحن سے معلوم ہوتا ہے كہ يہ پيغمبراكرم(ص) اور مؤمنين كو كاميابى كى خوشخبرى دے رہى ہے اور اسى طرح مشركين كو شكست اورنابودى كى دھمكى دے رہى ہے_

۱۲ _''عن ا يّوب بن الحر قال: قال لى ا بو عبدالله (ع) : يا ا يوب ما من ا حد إلا و قد برز عليه الحق حتى يصدع، قبله ا م تركه و ذلك ا ن الله يقول فى كتابه:'' بل نقذف بالحق على الباطل فيدمغه فإذا هو زاهق ...'' ; امام صادق (ع) سے روايت كى گئي ہے كہ كوئي شخص نہيں ہے مگر يہ كہ حق مكمل طور پر اس كيلئے ظاہر ہوچكا ہے چاہے اسے قبول كرے يا رد كرے خداتعالى يہى اپنى كتاب ميں فرما رہا ہے''بل نقذف بالحق على البطل فيدمغه فإذا هو زاهق'' _

آنحضرت(ص) :آپ(ص) كو بشارت ۱۱

انبياء (ع) :انكى بعثت كو فضول سمجھنا۹

باطل:اس كا كھوكھلاپن ۷; اسكى شكست كا پيش خيمہ ۵; اسكى شكست ۱، ۲، ۳; اسكى ناگہانى شكست ۶; اس كا انجام ۱; اسكى شكست كے موارد ۸

بشارت:مؤمنين كو كاميابى كى بشارت ۱۱; آنحضرت(ص) كو كاميابى كى بشارت ۱۱

حق:اس كا مستحكم ہونا۷; اسكى كاميابى ۱، ۲، ۳، ۱۲; اس كا انجام۱; اسكى كاميابى كے موارد۸; حق و باطل كے درميان كشمكش ۱، ۴، ۵

حق پرست لوگ:ان كا كردار اور نقش۵

خداتعالى :اسكى بشارتيں ۱۱; اسكى دھمكياں ۱۱; اسكى سنت۲

روايت: ۱۲

گذشتہ اقوام:انكى ہلاكت ۸/ظالم لوگ:انكى ہلاكت ۸

____________________

۱ ) محاسن برقى ج۱، ص ۲۷۶، ب ۳۸، ح ۳۹۱_ نورالثقلين ج۳، ص ۴۱۶، ح ۱۸_

۳۱۸

عذاب:اسكے اسباب ۱۰

عقيدہ:باطل عقيدہ۲، ۵; حق عقيدہ ۲

مؤمنين:انہيں بشارت ۱۱

مشركين:صدر اسلام كے مشركين كى سوچ ۹; انكو دھمكى ۱۱

آیت ۱۹

( وَلَهُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَنْ عِندَهُ لَا يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِهِ وَلَا يَسْتَحْسِرُونَ )

اور اسى خدا كے لئے زمين و آسمان كى كل كائنات ہے اور جو افراد اس كى بارگاہ ميں ہيں وہ نہ اس كى عبادت سے ا كڑ كر انكار كرتے ہيں اور نہ تھكتے ہيں (۱۹)

۱ _ خداتعالى ان سب كا مالك ہے جو آسمانوں اور زمين ميں ہيں _و له من فى السموات و الأرض

۲ _غير خدا كى مالكيت (حتى كہ اپنے اوپر) مجازى ہے _و له من فى السموات و الأرض

۳ _ آسمانوں اور زمين ميں صاحب شعور و عقل مخلوق كا وجود_و له من السموات والأرض

''من'' ان موجودات كيلئے استعمال ہوتا ہے جو صاحب عقل و شعور ہوں _

۴ _ جہان خلقت ميں متعددآسمان ہيں _السموات

۵ _ خداتعالى كا جہان ہستى كا بطور مطلق مالك ہونا حق كى باطل پر كاميابى كى ضمانت اور پشت پناہ ہے_بل نقذف بالحق و له من فى السموات و الأرض جملہ''و له من فى السموات '' كا جمله '' لو أردنا بل نقذف بالحق '' پر عطف ہے اور يہ خلقت كائنات كے حق ہونے اور حق كى باطل كے خلاف كاميابى كو بيان كررہا ہے كيونكہ جب پورى كائنات خداتعالى كى ملكيت ہے تو اس كيلئے حق كو باطل پر كامياب كرنا ممكن اور آسان ہوگا_

۶ _ مقربين خدا (فرشتے) اسكى عبادت سے تكبر نہيں كرتے_و من عنده لايستكبرون عن عبادته

۳۱۹

مفسرين كے بقول ''من عندہ'' سے مراد فرشتے ہيں _

۷ _ تقرب الہى ايسا مقام و مرتبہ ہے كہ جو عبادت ميں تكبر كرنے اور اسكے مقابلے ميں اكڑنے كے ساتھ سازگا نہيں ہے_

و من عنده لايستكبرون عن عبادته ''لايستكبرون عنه'' كے بجائے''لايستكبرون عن عبادته'' كى تعبير سے مذكورہ مطلب حاصل ہوتا ہے_

۸ _ بارگاہ خداوندى كے مقربين كبھى بھى اسكى عبادت سے ملول اور تھكاوٹ كا شكار نہيں ہوتے_من عنده لايستكبرون عن عبادته و لا يستحسرون (''يستحسرون'' كے مصدر) ''استحسار'' كا معنى ہے تھكاوٹ اور ملالت_

۹ _ تقرب الہى كے مقام تك دسترسى كا خداتعالى كى عبادت سے نہ تھكنے اور تكبر نہ كرنے ميں مؤثر ہونا_و من عنده لا يستكبرون عن عبادته و لايستحسرون يہ جو خداتعالى نے فرمايا ہے كہ جو ہمارے پاس اور مقرب ہيں وہ خدا كى عبادت سے نہيں تھكتے اور تكبر نہيں كرتے'' اس سے معلوم ہوتا ہے كہ تقرب الہى كو حاصل كرنا نہ تھكنے اور تكبر نہ كرنے ميں اثر ركھتا ہے_

۱۰ _ خداتعالى كى عبادت ميں تسلسل اور نہ تھكنا پسنديدہ اور قابل قدر چيز يں ہيں _و من عنده لار يستكبرون عن عبادته و لا يستحسرون مذكور مطلب اس چيز سے حاصل ہوتا ہے كہ آيت كريمہ مقربين خدا كى تعريف و تمجيد كر رہى ہے اور بندوں كو پروردگار كى عبادت كى تشويق دلا رہى ہے_

آسمان:ان كا متعدد ہونا۴; ان كے با شعور موجودات ۳

باطل:اس پر كاميابى كا سرچشمہ ۵

تقرب:اسكے اثرات ۹/تكبر:اسكے موانع ۹

حق:اسكى كاميابى كا سرچشمہ ۵

خاضعين: ۶

خداتعالى :اسكى مالكيت كے اثرات ۵; اسكى مالكيت ۱

عبادت:اسكے تسلسل كى قدر و قيمت ۱۰; اس ميں خضوع ۶، ۹; اس ميں سستى كے موانع ۹; اس ميں نشاط ۸،۹

عمل:پسنديدہ عمل ۱۰

۳۲۰

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750