تفسير راہنما جلد ۱۱

تفسير راہنما 5%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 750

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 750 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 218953 / ڈاؤنلوڈ: 3020
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

۶ _ آدم(ع) و حوا(ع) كے زمين پر اتر نے كا لازمہ پورى نسل انسانى كو اس ميں باقى ركھنا ہے_قال اهبطا بعضكم لبعض عدو فإما يأتينكم ''بعضكم'' اور ''يا تينكم'' كى جمع كى ضميرويں اس نكتے كو بيان كررہى ہيں كہ ہبوط والے حكم كے صادر ہونے كے وقت زمين ميں انسانى زندگى كا مسلسل ہونا قطعى تھا_

۷ _ زمين ميں انسان كى زندگى ہميشہ انسانوں كى آپس ميں دشمنى اور مخالفت كے ہمراہ رہى ہے_اهبطا منها جميعاًبعضكم لبعض عدو ''بعضكم لبعض عدو'' كے بارے ميں دو نظر ہيں ۱_ اس سے مراد شياطين كى انسانوں كے ساتھ دشمنى ہے اس نظريے كے مطابق ''اہبطا'' ابليس اور آدم(ع) كو خطاب ہوگا ۲_ اس سے مراد انسانوں كى آپس كى دشمنى ہے اس نظريہ كى بنياد يہ ہے كہ ''اہبطا'' كے مخاطب آدم(ع) و حوا ہيں _ دونوں صورتوں ميں آدم(ع) اور حوا و ابليس كو مخاطب بنانا انكى اولاد كے لحاظ سے ہوگا _مذكورہ مطلب دوسرے نظريے كى بنياد پر ہے_

۸ _ انسان اور شيطان ايسے دشمن ہيں كہ جن ميں صلح كا امكان نہيں ہے_اهبطا بعضكم لبعض عدو

مذكورہ مطلب ميں ''اہبطا'' آدم(ع) اور ابليس كو خطاب ہے _

۹ _ حضرت آدم(ع) كى بہشت ايسى جگہ تھى كہ جس ميں صلح و آشتى ، اور مكمل ضروريات كى فراہمى تھى اور اسكے باسيوں كے درميان دشمنى نہيں تھى _إن لك ألاّ تجوع اهبطا بعضكم لبعض عدو

چونكہ افراد بشر كى آپس ميں دشمنى كا موضوع، سزا اور ہبوط كے عنوان سے ذكر كيا گيا ہے اس سے لگتا ہے كہ حضرت آدم(ع) كے پہلے گھر (بہشت) ميں يہ چيز نہيں تھى اور ضروريات كى فراہمى كى وجہ سے اس ميں دشمنى كا پيش خيمہ ہى نہيں تھا _

۱۰ _ خداتعالى نے زمين پر انسان كے اترنے كے آغاز سے ہى اسكى زندگى كيلئے رہنمائي اور منصوبہ بندى كرركھى تھي_اهبطا منها فإما ياتينكم منّى هديً ''إما ياتينّكم'' ميں مخاطب صرف انسان ہيں (اگرچہ ''اہبطا'' كے مخاطب آدم(ع) اورو ابليس ہيں ) كيونكہ شياطين كى گمراہى كے حتمى ہونے كے بعد انہيں ہدايت دينا بے سود ہے_

۱۱ _ انسان كو ہدايت سے بہرہ مند كرنا انسان كے پہلے افراد كو خداتعالى كى بشارت _اهبطا فإما ياتينكم منى هديً

''إما ياتينكم'' دو تاكيدوں پر مشتمل ہے_ ۱_''امّا'' (ان ما) ميں مازائدہ _۲_ نون تاكيد اس طرح عبارت كا معنى يہ ہے كہ اگر ميرى طرف سے تمہارے پاس ہدايت آئي_ كہ جو يقينا آئيگي

۲۴۱

۱۲ _ آدم(ع) و حوا(ع) كے ممنوعہ درخت سے كھانے كى وجہ سے انسانوں ميں دشمنى پيدا ہونے كے اسباب فراہم ہوئے _فأكلا بعضكم لبعض عدو

۱۳ _ خداتعالى نے افراد بشر كى آپس كى دشمنى كے بارے ميں آدم(ع) و حوا(ع) كو مطلع كرديا اور انہيں اسكے نتائج سے بچنے كا راستہ بھى دكھا ديا تھا_بعضكم لبعض عدو فمن إتبع هداى فلا يضل و لا يشقى

۱۴ _ خدا تعالى كى ہدايات كى پيروى انسان كو زمين پر رہنے والوں كى باہمى كشمكش اوردشمنى كے برے انجام سے بچاتى ہے _بعضكم لبعض عدو فإما ياتينكم منى هديً

۱۵ _ انسان ہدايت يا گمراہى كے راستے كے انتخاب كے سلسلے ميں با اختيار ہے_فاما ياتينكم منى هديً فمن اتبع هداي

۱۶ _ ہدايت الہى كى پيروى گمراہى اور بدبختى سے مانع ہے_فمن اتّبع هداى فلا يضل و لايشقى

۱۷ _ ہدايات الہى سے روگردانى انسان كى گمراہى اوراسكے رنج و الم ميں گرفتار ہونے كا سبب ہے_فمن اتبع هداى فلا يضل و لا يشقى '' شقاوت'' كا معنى ہے سختى اور دشوارى (قاموس) اور بعد والى آيت قرينہ ہے كہ اس سے مراد زندگى كا دباؤ اور مشكلات ہيں _

۱۸ _ انسان، غلطيوں سے بچنے اور خوش بختى تك پہنچنے كيلئے ہدايت الہى كا محتاج ہے_فمن اتّبع هداى فلا يضل و لا يشقى

آدم (ع) :انكے دھوكہ كھانے كے اثرات ۳; يہ اور ممنوعہ درخت ۱، ۳، ۱۲; انہيں بہشت سے نكالنا ۲، ۳; انكى بہشت ميں امن ۹; انكو بشارت ۱۱; انكى بہشت ميں ضروريات كى فراہمى ۹; انكى بہشت سے نكالنے كا پيش خيمہ ۴; انكے ہبوط كا پيش خيمہ ۴; انكى بہشت ميں صلح ۹; انكى محروميت كے عوامل ۱; انكى بہشت سے محروميت كے عوامل ۱; انكے ہبوط كے عوامل ۳; انكے ھبوط كا فلسفہ ۶; انكا قصہ ۱، ۲; انكا معلم ۱۳; انكى بہشت كى خصوصيات ۹

اطاعت:خداتعالى كى اطاعت كے اثرات ۱۴، ۱۶

انسان:اس كا اختيار ۱۵; زمين ميں اسكى نسل كى بقا۶; اسكے دشمن ۸; اس كى دشمني۷، ۱۳; اس كى دشمنى كا پيش

۲۴۲

خيمہ ۱۲; اسكے انحطاط كے عوامل ۵; اسكى نجات كے عوامل ۱۴; اسكى معنوى ضروريات ۱۸; اسكى ہدايت ۱۰

بشارت:ہدايت كى بشارت ۱۱

جبر و اختيار ۱۵

حوا(ع) :انكے دھوكہ كھانے كے اثرات ۳; يہ اور ممنوعہ درخت ۱، ۳، ۱۲; ان كے ھبوط كا پيش خيمہ ۴; انكى محروميت كے عوامل ۱; ان كے ھبوط كے عوامل ۳; ان كے ھبوط كا فلسفہ ۶; انكا معلم ۱۳

خداتعالى :اسكى بشارتيں ۱۱; اسكى تعليمات ۱۳; اسكى راہنمائي ۱۰; اسكى ہدايات ۱۱، ۱۸

ممنوعہ درخت:اس سے كھانے كے اثرات ۱، ۱۲

دشمني:اس سے نجات كے عوامل ۱۴; اس سے نجات ۱۳

زمين:اس ميں دشمنى ۷

سختى :اسكے عوامل ۱۷

سعادت:اسكے عوامل ۱۸

شخصيت:اسكى آسيب شناسى ۵

شقاوت:اسكے موانع ۱۶

شيطان:اسكے دھوكہ دينے كے اثرات ۲، ۴; اسكے وسوسوں كے اثرات ۳، ۴; اسے نكال باہر كرنا ۲; اسكى دشمنى ۸; اس كا نقش و كردار ۴; اس كا ہبوط ۲

نافرماني:خداتعالى كى نافرمانى كے اثرات ۵،۱۷

گمراہي:اس كا پيش خيمہ ۱۵; اسكے عوامل ۱۷، اس كے موانع ۱۶

ضروريات:ہدايت الہى كى ضرورت ۱۸

ہدايت:اس كا پيش خيمہ ۱۵

۲۴۳

آیت ۱۲۴

( وَمَنْ أَعْرَضَ عَن ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنكاً وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَى )

اور جو ميرے ذكر سے اعراض كرے گا اس كے لئے زندگى كى تنگى بھى ہے اور ہم اسے قيامت كے دن اندھا بھى محشور كريں گے (۱۲۴)

۱ _ہدايت الہى اور اسكى ياد سے روگردانى لئے انسان كے لئے سخت اور مشكلات سے پر زندگى ميں گرفتار ہونے كا سبب ہے_من اتبع هداى و من أعرض عن ذكرى فإن له معيشة ضنك

''معيشة'' يا تو مصدر ميمى ہے اور يا ''ما يعاش بہ'' كے معنى ميں ہے يعنى وہ چيز جسكے ساتھ زندگى گزرتى ہے '' ضنك'' كا معنى ہے تنگى اور سختى (لسان العرب)

۲ _ ہدايت الہى كى پيروى اور خدا كى ياد ميں رہنا زندگى كى آسانى اور مشكلات كے دور ہونے كا سبب ہے_

من اتبع هداي لا يشقى _ و من أعرض عن ذكرى فإن له معيشة ضنك

۳ _ الہى تفكر اور ہدايات كو مدنظر ركھے بغير دنياوى زندگي ايك تنگ اور محدود زندگى ہے_و من أعرض عن ذكرى فان له معيشة ضنك جس طرح خداتعالى نے ديگر آيات ميں دنياوى زندگى كو''متاع قليل'' قرار ديا ہے ممكن ہے اس آيت ميں بھى دنياوى زندگى كو ''تنگ'' زندگى كے طور پر متعارف كرايا ہو يعنى دنيا ہر حد و اندازے اور ہر مقدار ميں اگر ہدايت سے خالى ہو تو يہ ''تنگ زندگي'' كے سوا كچھ نہيں ہوگى كيونكہ بلا مقصد اور آخرت پر اعتقاد كے بغير زندگى تھكا دينے والي، روزمرہ كا تكرار اور فضول زحمت ہے_

۴ _ہدايت الہى كى پيروى اور اسكى طرف توجہ ياد خدا كا جلوہ ہے_من اتبع هداي و من أعرض عن ذكري

اس آيت ميں ''من ا عرض'' سابقہ آيت ميں ''من اتبع'' كے مقابلے ميں ہے مقابلے كا تقاضا يہ تھا كہ فرماتا'' و من لم يتبع هداي'' ليكن اس كے بجائے فرمايا ہے ''و من أعرض عن ذكري'' اس انتخاب كى وجہ يا تو ہدايت ميں ذكر خدا كا كردار ہے اور يا ذكر و ہدايت كا ايك ہوناہے_

۵ _ ہدايت الہى اور ياد خدا سے روگردانى كرنے والے ميدان قيامت ميں اندھے محشور ہوں گے_

و من أعرض عن ذكري و نحشره يوم القيامة ا عمى

۲۴۴

۶ _ ہدايت الہى اور ہميشہ خدا كى ياد ميں رہنا زندگى ميں بصيرت كا سبب ہے _و من أعرض عن ذكرى و نحشره يوم القيامة ا عمى گمراہ لوگوں كا اندھا محشور ہونا دنيا ميں ان كے ہدايت كو ديكھنے اور پانے سے اندھا ہونے كا نتيجہ ہے_ اس خاص سزا سے يہ نتيجہ ليا جاسكتا ہے كہ ہدايت، زندگى كى راہ ميں بصيرت كا سبب ہے_

۷ _ قيامت كے دن حقائق واضح ہوجائيں گے_و نحشره يوم القيامة اعمى

۸ _ قيامت انسانوں كو جمع كرنے اور ان كو حاضر كرنے كا دن ہے _و نحشره يوم القى مة

''حشر'' كا معنى ہے جمع كرنا كہ جس كے ہمراہ پيچھے سے چلانا اور ہانكنا ہو (مقاييس اللغة) يہ كلمہ صرف گروہ كے بارے ميں استعمال ہوتا ہے (مفردات راغب) اور آيت كريمہ ميں ضمائر اگر چہ مفرد كى استعمال كى گئي ہيں ليكن چونكہ ياد خدا سے غافل سب لوگوں كا انجام يہى ہوگا اس لئے ''حشر''كو در حقيقت گروہ كى طرف نسبت دى گئي ہے_

۹ _ قيامت كو برپا كرنا اور اس ميں ياد خدا سے غافل لوگوں كو حاضر كرنا خداتعالى كے اختيار ميں ہے اوروہ اسكے ارادے سے مربوط ہے_و نحشره يوم القيامة اعمى

۱۰ _ مشكل زندگى ياد خدا سے غافل ہونے كا فطرى اثر اور روز قيامت نابينائي اسكى الہى سزا ہے_فإن له معيشة ضنكاً و نحشره يوم القيامة اعمى ''فإن له ...'' اور''نحشره ...'' كى تعبيروں ميں فرق كہ دوسرى كو خداتعالى كى طرف نسبت دى گئي ہے اور پہلى خود عمل پر متفرع ہوئي ہے ممكن ہے مذكورہ مطلب كى طرف اشارہ ہو_

۱۱ _ دنيا ميں سخت زندگى اور قيامت ميں نابينا محشور ہونا انسان كى گمراہى اور بدبختى كے جلوے ہيں _

فمن اتبع هداى فلا يضل و لا يشقى _ و من أعرض عن ذكرى فإن له معيشة ضنكاً و نحشره يوم القيامة ا عمى

مذكورہ مطلب ہدايت يافتہ اور غافلين كے گروہوں كے درميان تقابل كا لازمہ ہے كہ جسے دو آيتيں مجموعى طور پر بيان كر رہى ہيں _

۱۲ _'' عن ا مير المؤمنين (ع) : و إن المعيشة الضنك التى حذر الله منها عدوه ه عذاب القبر، انّه يسلط على الكافر فى قبره تسعة و تسعين تنينا فينهشن لحمه و يكسرن عظمه و يترددن عليه كذلك إلى يوم يبعث ; اميرالمؤمنين(ع) سے روايت كى گئي ہے''معيشة ضنك'' كہ جس سے خداتعالى نے اپنے دشمنوں كو ڈرايا ہے عذاب قبر ہے

۲۴۵

خداتعالى كافر پر اسكى قبر ميں ۹۹ سانپ مسلط كرتا ہے كو جو اسكے گوشت كو ڈستے ہيں اور اسكى ہڈى كو توڑتے ہيں اور اسى طرح اس پر آتے جاتے رہتے ہيں اس دن تك كہ اسے اٹھايا جائے _(۱)

۱۳ _'' معاوية بن عمار عن ا بى عبدالله (ع) قال: سا لته عن رجل لم يحج قط و له مال قال: هو ممّن قال الله : '' و نحشره يوم القيامة ا عمى '' قلت : سبحان الله ا عمي؟ قال: ا عماه الله عن طريق الجنة; معاويہ بن عمار كہتے ہيں ميں نے امام صادق(ع) سے اس شخص كے بارے ميں سوال كيا جسكے پاس مال تھا ليكن اس نے حج نہ كيا تو آپ (ع) نے فرمايا يہ ان لوگوں ميں سے ہے جنكے بارے ميں خداتعالى نے فرمايا ہے '' و نحشرہ يوم القيامة ا عمى '' ميں نے كہا سبحان الله نابينا؟ فرمايا خداتعالى نے اسے بہشت كا راستہ (ديكھنے) سے نابينا كرديا ہے(۲) _

اطاعت:خدا كى اطاعت كے اثرات ۲، ۴

انسان:اس كا محشور ہونا ۸; اسكى شقاوت كى نشانياں ۱۱; اسكى گمراہى كى نشانياں ۱۱

بصيرت:اسكے عوامل ۶

حج:تاركين حج قيامت ميں ۱۳; تاركين حج كا آخرت ميں اندہھاپن ۱۳

خداتعالى :اس سے روگردانى كے اثرات ۱۰; اسكى ہدايت كے اثرات ۳، ۶; اس كا ارادہ ۹; اسكے افعال ۹; اس سے غفلت كرنے والوں كا آخرت ميں اندھاپن ۱۰; اس سے روگردانى كى سزا ۱۰

ذكر:ذكر خدا كے اثرات ۲،۶; ذكر خدا كى نشانياں ۴

روايت: ۱۲، ۱۳

زندگي:اسكى سختى ۱۱; اسے آسان كرنے كے عوامل۱; اسكى سختى كے عوامل ۱، ۳، ۱۰; سخت زندگى سے مراد ۱۲

سختي:اسے دور كرنے كے عوامل ۲

نافرماني:خدا كى نافرمانى كے ا ثرات ۱

غافلين:ان كا آخرت ميں اندھاپن۵; ان كے محشورہونا كا سرچشمہ ۹

غفلت:خدا سے غفلت كے اثرات ۱/قيامت:

____________________

۱ ) امالى شيخ طوسى ج۱، ص۲۷; تفسير برہان ج۳، ص ۴۸، ح۹_ ۲ ) تفسير قمى ج۲، ص ۶۶_ نورالثقلين ج۳، ص ۴۰۶، ح ۱۷۳_

۲۴۶

اس ميں حقائق كا ظہور۷; اس ميں اندھاہونے كے عوامل ۱۰; اس ميں اندھا ہونا۱۱; اس ميں محشور ہونے كا سرچشمہ ۹

كفار:انكا عذاب قبر ۱۲

گمراہ لوگ:ان كا آخرت ميں اندھاپن ۵

خدا سے اعراض كرنے والے:ان كا آخرت ميں اندھاپن ۵، ۱۰

آیت ۱۲۵

( قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِي أَعْمَى وَقَدْ كُنتُ بَصِيراً )

وہ كہے گا كہ پروردگار يہ تونے مجھے اندھا كيوں محشور كيا ہے جب كہ ميں دار دنيا ميں صاحب بصارت تھا (۱۲۵)

۱ _ ہدايت اور ياد الہى سے روگردانى كرنے والے روز قيامت نابينا محشور ہوں گے _قال رب لم حشرتنى أعمى

۲ _ ياد خدا سے غافل لوگ روز قيامت تعجب كے ساتھ اور شكايت كے انداز ميں خداتعالى سے اپنے اندھے ين كى علت كے بارے ميں سوال كريں گے_قال رب لم حشرتنى أعمى

۳ _ ياد خدا سے غافل لوگ روز قيامت محشور ہونے كے بعد اپنى نجات كے راستے كى شناخت سے ناتوان ہوں گے_ *

قال رب لم حشرتنى أعمى ممكن ہے اندھے پن سے مراد قيامت كے ماحول اور اسكى مشكلات سے نجات كا راستہ پانے سے آگاہ نہ ہونا ہو اس بناپر ''قد كنت بصيراً'' كہنے والے اپنے آپ كو اس طرح سمجھتے ہيں كہ جو دنيا ميں سب چيزوں كو خوب سمجھتے تھے اور عميق فكر ركھتے تھے_

۴ _ روز قيامت انسان كو خداتعالى سے سوال پوچھنے كى اجازت ہے _قال رب لم حشرتنى أعمى

''قال'' كے ظاہر سے يوں لگتا ہے كہ يہ سوال لفظوں ميں ہوگا اور نابيناؤں كى طرف سے روز قيامت كيا جائيگا _

۵ _ قيامت كے دن انسان اپنے نقائص كو درك اور محسوس كريگا _قال رب لم حشرتنى أعمى

۶ _ ياد خدا سے اعراض كرنے والے ميدان قيامت ميں

۲۴۷

حاضر ہوكر خداتعالى كى ربوبيت كا اعتراف كريں گے _قال رب

۷ _ بصيرت و بينائي كو عطا كرنا اور اس كا چھيں لينا خداتعالى كى ربوبيت كے جلوے ہيں _قال رب لم حشرتنى أعمى

۸ _ حاضرين قيامت خداتعالى كو انسانوں كا محشور كرنے والا او رفہم و درك كى قوتوں كا اختيار ركھنے والا سمجھتے ہيں _

لم حشرتنى أعمى

۹ _ ياد خدا سے غافل لوگ قيامت ميں حاضر ہونے كے وقت اپنى دنياوى زندگى كو ہوشمندانہ قرار ديكر فہم و درك كے راستے كے بند ہونے سے تعجب كريں گے_*قال رب لم حشرتنى أعمى و قد كنت بصيرا

مذكورہ مطلب بالا اس بنا پر ہے كہ ''ا عمى '' سے مراد''دل كا اندھا'' ہو_

۱۰ _ قيامت كے دن انسان دنيا ميں زندگى كے حالات اور اس ميں اپنى جسمانى خصوصيات سے آگاہ ہوگا_

قال رب لم حشرتنى أعمى و قد كنت بصير

۱۱ _ حاضرين قيامت كى نظر ميں ضرورى ہے كہ انسان كا وہاں كا جسم اسكے دنياوى بدن جيسا ہو _لم حشرتنى أعمى و قد كنت بصير

۱۲ _ روز قيامت انسان كا محشور ہونا جسمانى خصوصيات كے ہمراہ ہوگا _قال رب لم حشرتنى أعمى و قد كنت بصير

۱۳ _ ہدايت الہى كى پيروى روز قيامت بصيرت اور بينائي كا سبب ہے _فمن اتبع هداي و من اعرض لم حشرتنى أعمى

۱۴ _ خدا سے غفلت كے ہوتے ہوئے گہرى فكر بھى در حقيقت اندھاپن اور بے بصيرتى ہے_لم حشرتنى أعمى و قد كنت بصير قيامت ميں اندھاپن دنيا ميں انسان كى حقيقت كا جلوہ ہے يعنى اگر چہ وہ اپنے آپ كو با بصيرت سمجھتا ہے ليكن در حقيقت بصيرت سے عارى ہے_

اطاعت:خدا كى اطاعت كے اثرات ۱۳

اقرار:ربوبيت خدا كا اقرار ۶/اندھاپن:اس كا سرچشمہ ۷

انسان:اسكى اخروى سوچ ۸، ۱۱; اس كا اخروى تنبہ ۱۰; اسكے محشورہونے كا سرچشمہ ۸; اسكے درك كا سرچشمہ ۸; اسكے محشور ہونے كى خصوصيات ۱۲

بصيرت:اخروى بصيرت كے عوامل ۱۳; اس كا سرچشمہ ۷

۲۴۸

خداتعالى :اسكے افعال ۸; اس سے سوال ۲، ۴; اسكى ربوبيت كى نشانياں ۷

خدا سے اعراض كرنے والے:انكا اخروى اقرار ۶; انكا اخروى تعجب ۹; انكا محشور ہونا۱، ۳; انكا عجز ۳; انكا اخروى اندھاپن ۱; انكى دنيوى ہوشيارى ۹

غافلين:انكا اخروى اقرار۶; انكا اخروى سوال ۲; انكا اخروى تعجب ۲، ۹; انكا محشور ہونا ۳; انكا عجز ۳; انكا اخروى اندھاپن ۱، ۲; انكا اندھاپن ۱۴; انكا اخروى گلہ ۲

غفلت:خداتعالى سے غفلت كے اثرات ۱۴

قيامت:اس ميں سوال ۴; اس ميں نقائص كا درك ۵; اس ميں حقائق كا ظہور ۵، ۱۰

گمراہ لوگ:ان كا محشور ہونا۱; ان كا اخروى اندھاپن ۱

معاد:معاد جسمانى ۱۱، ۱۲

آیت ۱۲۶

( الَ كَذَلِكَ أَتَتْكَ آيَاتُنَا فَنَسِيتَهَا وَكَذَلِكَ الْيَوْمَ تُنسَى )

ارشاد ہوگا كہ اسى طرح ہمارى آيتيں تيرے پاس آئے اور تونے انھيں بھلاديا تو آج تو بھى نظر انداز كرديا جائے گا (۱۲۶)

۱ _ خداتعالى نے بشر كى ہدايت اور اسے ياد دہانى كرانے كيلئے متعدد آيات بھيجى ہيں _قال كذلك ا تتك ء اتين

۲ _ آيات اور ہدايت الہى كو فراموش كرنا اوران سے غافل ہونا روز قيامت نابينا محشور ہونے كا سبب ہے _

لم حشرتنى ا عمى قال كذلك ا تتك و ء آيا تنا فنسيته

۳ _ خداتعالى فرائض كے بيان كرنے اور انہيں بندوں تك پہچائے بغير انہيں سزا نہيں ديتا_قال كذلك ء اتيتك ء اى تن

روز قيامت غافلين كو كہا جائيگا''اتتك ء اياتنا'' يعنى تيرے پاس ہمارى آيات آئيں تھيں نہ يہ كہ ہم نے آيات بھيجيں تھيں آپ تك پہنچى ہوں يا نہ لہذا خداتعالى نے مواخذے كا معيار آيات كے ابلاغ كو قرار ديا ہے _

۴ _ مجرمين كا خداتعالى سے سوال اور اس كا جواب وصول كرنا ميدان قيامت كے واقعات ميں سے _

رب لم حشرتني قال كذلك ا تتك اى تن

''قال كذلك'' كے ظاہر سے يوں محسوس ہوتا ہے كہ ''لم حشرتني'' كے سوال كا جواب بھى الفاظ كے ساتھ بيان ہوگا نہ كہ صرف نفس ميں ايك حالت پيدا ہوگى

۲۴۹

اگر چہ ممكن ہے يہ جواب بلاواسطہ نہ ہو بلكہ فرشتوں و غيرہ كے ذريعے انجام پائے _

۵ _ خداتعالى كى طرف سے پہنچائي گئي ہدايات اسكى آيات ہيں _إما يا تينكم منى هديً فمن اتبع هداي قال كذلك ا تتك أى تن گذشتہ آيات ميں ''ہدايت'' كلام كامحور تھا اس آيت ميں ''ہدايات الہى ''كہ جن كا ''ہديً'' اور ''ہداي'' كے ساتھ تذكرہ كيا گيا ہے_كو ''آياتنا'' كے ساتھ تعبير كيا گيا ہے تا كہ اس حقيقت كو بيان كرے كہ ہدايات الہى وہى اسكى آيات ہيں _

۶ _ روز قيامت خداتعالى آيات اور معارف الہى كى اعتناء نہ كرنے والے افراد سے روگردانى كرے گا اور انكى اعتنا نہيں كريگا_أتتك آيا تنا فنسيتها و كذلك اليوم تنسى فعل ''تنسى '' ميں اگر چہ فاعل نامعلوم ہے ليكن (گذشتہ آيت ميں ) ''رب لم حشرتني'' كے قرينے سے كہاجاسكتا ہے كہ فاعل خداتعالى ہے_ نسيان دو معنوں كے درميان مشترك ہے ۱_ غفلت كى وجہ سے ترك كرنا ۲_ جان بوجھ كر ترك كرنا (مصباح) گذشتہ آيات قرينہ ہيں كہ اس آيت ميں دوسرا معنى مراد ہے_

۷ _ آيات اور ہدايات الہى سے غفلت اور انہيں فراموش كردينا روز قيامت انسان كے خداتعالى كى توجہات و عنايات سے محروم ہونے كا ايك عامل ہے_أتتك آيا تنا فنسيتها و كذلك اليوم تنسى

(گذشتہ آيات ميں مذكور) ''من أعرض عن ذكري'' قرينہ كہ ہے ''نسيتہا'' ميں نسيان سے مراد آيات الہى سے روگردانى اور بے اعتنائي ہے اور اس كا ''تنسى '' كے ساتھ تقابل اس نكتے كو بيان كررہا ہے كہ اس كلمے ميں بھى نسيان كا معنى روگردانى اور ترك كرنا ہے_

۸ _ روز قيامت نابينائي اوردرك انسان كے راستے كا مسدود ہونا اسكے خداتعالى كى توجہ اور عنايات سے محروم ہونے كا مظہر ہے_لم حشرتنى ا عمى كذلك اليوم تنسى

۹ _ روز قيامت انسان كو محشور كرنے اور اسكے اعمال كى جزا كى كيفيت اسكے دنياوى كردار كے ساتھ متناسب ہوگي_

فنسيتها تنسى

۱۰ _ روز قيامت انسان كى سزا اسكے دنياوى كردار سے نشأت پكڑتى ہے_فنسيتها اليوم تنسى

آيات خدا:

۲۵۰

انكى فراموشى كے اثرات ۲، ۷; ان سے اعراض كرنے والوں سے بے اعتنائي ۶; ان سے اعراض كرنے والے قيامت ميں ۶; ان كا كردار ۱; انكا ہدايت كرنا ۱، ۵

انسان:اسكے اخروى اندھے پن كا سرچشمہ ۸

پاداش:اس كا عمل كے ساتھ متناسب ہونا ۹; اخروى پاداش كے عوامل ۱۰

محشور ہونا:اسكى كيفيت ۹

خداتعالى :اسكے لطف و كرم سے محروميت كے اثرات ۸; اس سے سوال ۴; اس كے لطف و كرم سے محروميت كے عوامل ۷; اسكى ہدايات ۱، ۵

عمل:اسكے اثرات ۹، ۱۰; اسكى اخروى پاداش ۹; اسكى اخروى سزا ۹

غفلت:آيات الہى سے غفلت كے اثرات ۷; خداتعالى سے غفلت كے اثرات ۲، ۷

قواعد فقہيہ: ۳

قاعدہ عقاب بلا بيان ۳

قيامت:اس ميں سوال و جواب۴; اسكى خصوصيات ۴

اندھاپن:اخروى اندھے پن كے عوامل ۲

سزا:اس كا گناہ كے ساتھ متناسب ہونا ۹; اخروى سزا كے عوامل ۱۰

گناہ گار لوگ:ان كا اخروى جواب۴; ان كا اخروى سوال ۴

جزا كا نظام :۹

سزا كا نظام ۳

ہدايت:اسكى اہميت ۱

۲۵۱

آیت ۱۲۷

( وَكَذَلِكَ نَجْزِي مَنْ أَسْرَفَ وَلَمْ يُؤْمِن بِآيَاتِ رَبِّهِ وَلَعَذَابُ الْآخِرَةِ أَشَدُّ وَأَبْقَى )

اور ہم زيادتى كرنے والے اور اپنے رب كى نشانيوں پر ايمان نہ لانے والوں كو اسى طرح سزا ديتے ہيں اور آخرت كا عذاب يقينا سخت ترين اور ہميشہ باقى رہنے والا ہے (۱۲۷)

۱ _ دنيا ميں سخت اور تنگ زندگى اور قيامت ميں اندھاپن اور خداتعالى كى سرد مہرى ميں گرفتار ہونا اسراف كرنے والوں كى سزا ہے _معيشة ضنكاً و نحشر يوم القيامة ا عمى و كذلك نجزى من ا سرف

اسراف يعنى حد اعتدال سے تجاوز كرنا (مصباح) ''من اتبع ہداي'' كے قرينے سے اس آيت ميں اس سے مراد ہدايات الہى سے تجاوز كرنا ہے اور ''كذلك'' ميں ''ذلك'' ان سزاؤں كى طرف اشارہ ہے كہ جو گذشتہ آيات ميں ياد خدا سے روگردانى كرنے والوں كيلئے بيان ہوچكى ہيں _

۲ _آيات اور ہدايات الہى سے روگردانى كرنے والے اسراف كرنے والوں كا كامل اور بارز مصداق ہيں

و من أعرض عن ذكري و كذلك نجزي من أسرف

اگر''كذلك نجزي ...'' كا گذشتہ آيت پر عطف ہو اور يہ خداتعالى كى ياد الہى سے غافل لوگوں كے ساتھ گفتگو كا تسلسل ہو تو ''من ا سرف'' غافلين كيلئے دوسرا عنوان ہوگا_

۳ _ اسراف كرنے والے اور آيات الہى پر ايمان لانے سے روگردانى كرنے والے روز قيامت خداتعالى كى توجہ اور عنايات سے محروم ہوں گے_و كذلك اليوم تنسى و كذلك نجزى من أسرف و لم يؤمن بأيات ربه

۴ _ انسان كى ہدايت كيلئے آيات پيش كرنا ربوبيت الہى كا ايك جلوہ ہے _بآى ت ربه

۲۵۲

۵ _ خداتعالى مستحقين عذاب كو سزا دينے كے نظام كا حاكم ہے_نجزي

۶ _ دنيوى سزاؤں كى نسيت اخروى عذاب زيادہ سخت اور ديرپا ہوگا_و لعذاب الأخرة أشد و ا بقى

۷ _ اسراف كرنے والوں اور آيات الہى پر ايمان نہ لانے والوں كو دنياوى سزا اور روز قيامت اندھا ہونے كے علاوہ آخرت ميں زيادہ سخت اور ديرپا عذاب كا سامنا ہوگا _و لعذاب الأخرة ا شد و ا بقى

''كذلك'' بتاتا ہے كہ دنيا ميں سخت زندگى اور قيامت كا اندھاپن غافلين كے علاوہ بے ايمان اسراف كرنے والوں كيلئے بھى خطرہ ہے اور جملہ ''لعذاب الآخرة ...'' اس كے علاوہ مزيد عذاب سے حكايت كررہا ہے كہ جو روز قيامت كے ختم ہونے كے بعدشروع ہوگا اور دنياوى اور روز قيامت كے عذاب سے زيادہ سخت اور ديرپا ہوگا _

۸ _ آيات اور ہدايات الہى پر ايمان دنيا و آخرت ميں عذاب الہى سے محفوظ رہنے كى شرط ہے_و كذلك نجزي لم يؤمن ا شد و ا بقى

اسراف كرنے والے: ۲انكے عذاب كا دائمى ہونا۷; انكى زندگى كا سخت ہونا۱; انكا اخروى عذاب ۷; انكا اخروى اندھاپن ۱; انكى سزا ۱، ۷; انكى اخروى محروميت ۳

آيات خدا:ان سے روگردانى كرنے والوں كا اسراف۲; ان سے اعراض كرنے والوں كا اخروى عذاب ۷; ان سے اعراض كرنے والوں كى سزا ۷; ان سے اعراض كرنے والوں كى اخروى محروميت ۳; ان كا كردار ۴

ايمان:آيات الہى پر ايمان كے اثرات ۸; خداتعالى پر ايمان كے اثرات ۸

خداتعالى :اسكى حاكميت ۵; اسكى ربوبيت كى نشانياں ۴

عذاب:اخروى عذاب كى شدت ۶; اس سے بچنے كے شرائط ۸; دنيوى عذاب ۶; اسكے درجے ۶; اخروى عذاب كے درجے ۷

خدا كا لطف و كرم:اس سے محروم لوگ ۳

سزا كا نظام:اس كا حاكم۵

ہدايت:اسكے عوامل ۴

۲۵۳

آیت ۱۲۸

( أَفَلَمْ يَهْدِ لَهُمْ كَمْ أَهْلَكْنَا قَبْلَهُم مِّنَ الْقُرُونِ يَمْشُونَ فِي مَسَاكِنِهِمْ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِّأُوْلِي النُّهَى )

كيا انھيں اس بات نے رہنمائي نہيں دى كہ ہم نے ان سے پہلے كتنى نسلوں كو ہلاك كرديا جو اپنے علاقہ ميں نہايت اطمينان سے چل پھر رہے تھے بيشك اس ميں صاحبان عقل كے لئے بڑى نشانياں ہيں (۱۲۸)

۱ _ خداتعالى نے طول تاريخ ميں بہت سارے معاشروں اور امتوں كو ہلاك اور نابود كيا ہے_كم ائهلكنا قبلهم من القرون ''قرن'' كا معنى ہے قوم اور وہ لوگ جو ايك زمانے ميں زندگى گزار رہے ہوں (مفردات راغب)

۲ _ آيات اور ہدايات الہى كے بارے ميں كفر طول تاريخ ميں بہت سارى امتوں كى نابودى كا سبب بنا_و كذلك نجزى من أسرف و لم يؤمن كم ا هلكنا قبلهم من القرون گذشتہ آيات قرينہ ہيں كہ سابقہ امتوں كى ہلاكت ان كے آيات و ہدايات الہى كے مقابلے ميں كفر اختيار كرنے كى وجہ سے ہوتى تھي_

۳ _ گذشتہ اقوام كى عذاب الہى كے ساتھ ہلاكت خداتعالى كى دھمكيوں كے سنجيدہ ہونے كے واضح نمونے ہيں اور عصر بعثت كے مشركين كيلئے كفايت كرنے والا رہنما _ا فلم يهد لهم كم ا هلكنا قبلهم من القرون

۴ _تاريخ اور گذشتہ امتوں كى ہلاكت سے سبق حاصل نہ كرنا توبيخ اور مذمت كے قابل ہے _أفلم يهد لهم كم ا هلكنا قبلهم ''أفلم ...'' ميں استفہام انكار توبيخى كيلئے ہے اور '' لم يہد'' كا فاعل ''اہلاك'' ہے كہ جو ''كم ا ہلكنا'' سے سمجھ آرھا ہے اور ''لم يہد'' حرف لام كے ساتھ متعدى ہونے كى وجہ سے اس ميں تبيين كا معنى بھى تضمين كيا گيا ہے اور جملے كا معنى يہ ہے كہ كيا بہت سارى گذشتہ امتوں كو نابود كرنے سے مشركين كيلئے واضح نہيں ہوا كہ وہ ان جيسا عمل نہ كريں _

۵ _ عصر پيغمبر(ص) كے كفار بہت سارى گذشتہ امتوں كى ہلاكت سے آگاہ تھے اور ان كے باقى رہ جانے والے آثار قديمہ سے آشنا تھے_ا فلم يهد لهم كم ا هلكنا يمشون فى مسكنهم جملہ ''يمشون ...'' ''ہم'' كيلئے حال ہے اور سياق آيت قرينہ ہے كہ اس سے مراد صدر اسلام كے مشركين ہيں ان كا عاد، ثمود، لوط اور كے گھروں سے عبور كرنا كہ جو جملہ ''يمشون ...'' كا معنى ہے ان كے گذشتہ امتوں كے مرگبار واقعات سے آگاہى كا سبب ہے ہمزہ استفہام سے مستفاد توبيخ بھى ان كى آگاہى پر متفرع ہے_

۲۵۴

۶ _ گذشتہ امتوں ميں سے بہت سے لوگ جب عذاب الہى ميں گرفتار ہوئے اس وقت اپنے شہر اور گھروں ميں معمول كے مطابق رفت و آمد ميں مصروف تھے_*كم ا هلكنا قبلهم من القرون يمشون فى مسكنهم ممكن ہے جملہ ''يمشون ...'' ''القرون'' كيلئے حال ہو_

۷ _ تاريخ كا تغير و تبدل خداتعالى كے ارادے سے وابستہ ہے_كم ا هلكنا قبلهم

۸ _ نابود شدہ اقوام كے باقى رہ جانے والے آثار قديمہ سے سبق حاصل كرنے اور عبرت لينے كيلئے بہت سارى چيزويں ہيں _أفلم يهدلهم كم ا هلكنا إن فى ذلك لأيات

۹ _ گذشتہ امتوں كے باقى رہ جانے والے عبرت آموز آثار كا مطالعہ اور تحقيق اور انكى ہلاكت كے اسباب معلوم كرنا ضرورى ہے_كم ا هلكنا إن فى ذلك لأيات

گذشتہ امتوں كى تاريخ اور ان كے آثار كے آيت ہونے كا تقاضا يہ ہے كہ وہ انسان كو مہم اور قيمتى ہدايات اور عبرتوں كى طرف رہنمائي كرنے كے قابل ہيں _

۱۰ _ گذشتہ امتوں كے باقى رہ جانے والے آثار قديمہ كے مطالعے سے صرف صاحبان عقل بہرہ مند ہوتے ہيں اور عبرت حاصل كرتے ہيں _كم ا هلكنا قبلهم إن فى ذلك لأيات لا ولى النهي

آيات كا نشانى اور آيت ہونا عبرت حاصل كرنے والے كے موجود ہونے كے ساتھ مختص نہيں ہے بلكہ ايك ثابت صفت ہے لہذا اس كا ''ا ولى النہى '' كے ساتھ مختص ہونا صرف صاحبان عقل كے آيات سے بہرہ مند ہونے كى طرف ناظر ہے يعنى اگرچہ آيات اور نشانياں موجود ہيں ليكن بے عقل لوگ اس سے بہرہ مند نہيں ہوتے_

۱۱ _ عقل اور دانايى ايك قيمتى جوہر ہيں اور انسان كو ناروا كاموں سے روكتے ہے_ان فى ذلك لآيات لاولى النهى

''نُہى '' يا تو ''نہية'' (عقل) كى جمع ہے اور يا يہ مفرد لفظ ہے عقل كے معنى ميں (قاموس) اور اس لئے عقل كو يہ نام ديا گيا ہے كہ يہ انسان كو برائيوں سے نہى كرتى ہے_

۲۵۵

۱۲ _ جو لوگ گذشتہ اقوام كے انجام سے عبرت نہيں ليتے وہ عقل و خرد سے بے بہرہ ہيں _إن فى ذلك لأيات لا ولى النهى

۱۳ _ خداتعالى انسان كو عقل سے استفادہ كرنے اور اسے استعمال كرنے كى ترغيب دلاتا ہے _أفلم يهد إن فى ذلك لأيات لا ولى النهى اس آيت كا ذيل كہ جو صاحبان عقل كى تعريف كر رہا ہے مذكورہ مطلب كو بيان كررہا ہے نيز اسكے شروع ميں فاء عاطفہ اس مقدر پر عطف كر رہى ہے كہ جسے آيت كا ذيل بيان كررہا ہے در حقيقت اس پر استفہام توبيخى داخل ہوا ہے اور ''لم يہد'' اس پر تفريع ہے اور اصل ميں كلام يوں تھا ''ا فلم يتفكروا فلم يهد ...'' كيا انہوں نے سوچا نہيں گذشتہ اقوام كے انجام كا مطالعہ انكى ہدايت كا سبب نہيں بنا؟

آثار قديمہ:يہ صدر اسلام ميں ۵; ان سے عبرت لينا ۸، ۹، ۱۰

آيات خدا:انہيں جھٹلانے كے اثرات ۱۲

آثار قديمہ شناسي:اسكى اہميت ۹

گذشتہ اقوام:ان كے آثار قديمہ ۵; انكى تاريخ ۱، ۲، ۶; ان سے عبرت لينا ۹; ان سے عبرت حاصل نہ كرنا ۱۲; انكى ہلاكت كے عوامل ۲; ان كے عذاب كى كيفيت ۶ ; انكى ہلاكت ۱، ۳، ۵

تاريخ:اسكے مطالعے كى اہميت ۹; اس سے عبرت لينا ۴، ۸; اسكے تحولات كا سرچشمہ ۷

تعقل:اسكى تشويق ۱۳

خداتعالى :اسكے ارادے كے اثرات ۷; اسكے افعال ۱; اسكى تشويق ۱۳; اسكى دھمكيوں كا حتمى ہونا ۳

عقلا:يہ اور آثار قديمہ ۱۰/عبرت:عبرت نہ لينے والوں كى بے عقلى ۱۲; عبرت نہ لينے كى مذمت ۴; اسكے عوامل ۸، ۱۰

عذاب:اہل عذاب سے عبرت حاصل كرنا ۴

عقل:اسكى قدر و قيمت ۱۱; بے عقل لوگ ۱۲; اس كا كردار ۱۱

عمل:ناپسنديدہ عمل كے موانع ۱۱

كفار:صدر اسلام كے كفار كا علم ۵

مشركين:صدر اسلام كے مشركين كو دھمكى ۳

۲۵۶

آیت ۱۲۹

( وَلَوْلَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِن رَّبِّكَ لَكَانَ لِزَاماً وَأَجَلٌ مُسَمًّى )

اور اگر آپ كے رب كے طرف سے بات طے نہ ہوچكى ہوتى اور وقت مقرر نہ ہوتا تو عذاب لازمى طور پر آچكا ہوتا (۱۲۹)

۱ _ خداتعالى نے معاشروں اور امتوں كے امور كى تدبير كيلئے محكم و ثابت قوانين اور سنتيں قرار دے ركھى ہيں _

و لو لا كلمة سبقت من ربك اس مناسبت سے كہ بحث معاشروں اور انہيں مہلت دينے كے بارے ميں ہے اس آيت ميں ''كلمة '' سے مراد تاريخ اور معاشروں پر حاكم قوانين الہى اور سنتيں ہيں _

۲ _ كافر امتوں كے انجام اور انكى ہلاكت و بقا كيلئے معين سنن و قوانين اور مشخص اوقات ہيں _

كم اهلكنا قبلهم و لو لا كلمة سبقت من ربك لكان لزام گذشتہ آيت كہ جو كافر معاشروں كى ہلاكت كے بارے ميں ہے قرينہ ہے كہ ''لو لا كلمة ...'' كا معنى يہ ہے خداتعالى نے كفار كے عذاب كا وقت اور اسكے ديگر معيارات كو پہلے سے مشخص و معين كر ركھا ہے_

۳ _ كفار پر الہى سنتوں كا حاكم ہونا ان كے عذاب الہى كے ساتھ جلدى نابود ہونے سے مانع ہے_و لو لا كلمة سبقت من ربك لكان لزام

۴ _ آيات اور ہدايات الہى كے بارے ميں كفر كرنے والے دنيا ميں سزا اور عذاب كے مستحق ہيں _و لو لا كلمة سبقت من ربك لكان لزام لفظ'' لزاماً'' باب مفاعلہ كا مصدر ہے اور مصدر كا خبر واقع ہونا مبالغہ پر دلالت كرتاہے، اس بناپر جملہ''كان لزاماً'' كا مفاد يوں ہوگا(اگر خدا كى طرف سے مجرمين كو مہلت دينے كى سنت نہ ہوتي)عذاب الہى مخالفت كرنے والوں كے ساتھ ساتھ ہوتا (يہاں تك كہ مختصر سى مدت كے ليے بھي) ان سے الگ نہ ہوتا_

۵ _ خداوند متعال ہرگز اپنى سنتوں (طى شدہ باتوں ) سے پيچھے نہيں رہے گا_و لو لاكلمة سبقت من ربك لكان لزام

۲۵۷

۶ _آيات الہى كا انكار كرنااور اللہ تعالى كى ياد سے منہ پھير لينا ناقابل معاف گناہ ہيں _

و من أعرض عن ذكري و لم يؤمن بأيات ربه لو لا كلمة سبقت من ربك لكان لزام

۷ _بعثت كے دوران بسنے والے كافروں اور مشركوں كو مہلت دينا، خداوند عالم كى طرف سے رسول اكرم(ص) پر خصوصى عنايت كى وجہ سے تھي_رَبّك

''ربّ'' كے مقدس نام كارسول خدا كى ضمير خطاب كى طرف اضافہ ہوناكافروں پر عذاب نازل كرنے ميں تاخير اور ان كو مہلت دينا خدا كى طرف سے رسول اكرم(ص) پر خصوصى عنايت ہونے كى طرف اشارہ ہوسكتاہے _ جيسا كہ ايك اور سورے ميں فرماتا ہے:''و ما كان الله ليعذبهم و ا نت فيهم''

۸ _انسانيت سے متعلق مصلحتيں اور خداوند كى طرف سے قوموں كے معاملات كى تدبير كرنا دنيا ميں مخالفين كو جلدى سزا نہ دينے كى دليل ہے_ربَّك

۹ _روى زمين پر انسانى زندگى كو معين مدت تك كے ليے جارى ركھنے كى سنت (طى شدہ قانون) حق كى مخالفت كرنے والوں كو فوراً نابود كرنے كے ساتھ سازگار نہيں ہے_و لو لا كلمة سبقت من ربّك لكان لزاماً و اجل مسميً

(ا جل) كا معنى پورى مدت يا آخرى وقت ہے (لسان العرب) اور ''ا جل مسميً'' ''كلمة'' پر عطف ہوا ہے يعنى '' لو لا كلمة وا جل مسميً ...'' يہاں كلمہ اور اجل سے مراد دو مستقل چيز يں ہيں يا دونوں ايك حقيقت كى دو تعبير ہے اس بارے ميں علماء نے مختلف بيانات ديئےيں _ان ميں سے ايك احتمال يہ ہے كہ ''كلمہ'' سے مراد اللہ تعالى كا وہ كلام ہے جو آدم (ع) كو بہشت سے نكل كرزمين پر آتے وقت فرمايا''لكم فى الا رض مستقر و متاع إلى حين'' (بقرہ ۳۶) اور ''ا جل'' سے مراد اس احتمال كى بناپر دنيا كى آخرى عمر ہے مذكورہ نظريہ اس احتمال كى بناپر ہے_

۱۰ _ اللہ تعالى نے دنيوى زندگى كو تمام كافروں كو جلد مؤاخذہ كرنے كى جگہ قرار نہيں دى ہے _و لو لا ا جل مسميً

اللہ تعالى كى سنت ( اور روش) كى جس پر'' لو لا كلمة ...'' دلالت كرتاہے يہ نہيں ہے كہ اللہ تعالى دنيا ميں كسى بھى مختلف كرنے والے پر عذاب نازل نہيں كرتا بلكہ اسكى سنت يہ ہے كہ سارى مخالفين كو تباہ نہيں كرے گا كيونكہ اگر ہر كافر كو نابود كرنا منشا ہوتا تو انسانى نسل ختم ہونے كا خطرہ تھا( اس صورت ميں ) اجل مسمى تك نسل بشر باقى نہ رہتى _

۱۱ _قوموں كے خاتمے ليئے ايك معين اور طى شدہ مدت ہے_و لو لا كلمة سبقت من ربك لكان لزاماً ا جل مسميً

۲۵۸

آیت ۱۳۰

( فَاصْبِرْ عَلَى مَا يَقُولُونَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوبِهَا وَمِنْ آنَاء اللَّيْلِ فَسَبِّحْ وَأَطْرَافَ النَّهَارِ لَعَلَّكَ تَرْضَى )

لہذا آپ ان كى باتوں پر صبر كريں اور آفتاب نكلنے سے پہلے اور اسكے ڈوبنے كے بعد اپنے رب كى تسبيح كرتے رہيں اور رات كے اوقات ميں اور دن كے اطراف ميں بھى تسبيح پروردگار كريں كہ شايد آپ اس طرح راضى اور خوش ہوجائيں (۱۳۰)

۱ _ كفار رسول خد ا (ص) كو اپنى ( بے بنياد) باتوں كے ذريعے روحى طور پر اذيت پہنچاتے تھے_فاصبر على ما يقولون

خدا كى طرف سے رسول(ص) كى صبر كى تلقين اس بات كى حكايت كرتاہے كہ آنحضرت (ص) كافروں كى باتيں سننے سے رنجيدہ خاطر ہوتے تھے_

۲ _ كفار عذاب ميں تاخير ہونے اور فورى طورپر عذاب نازل نہ ہونے كو بہانہ بناكر رسول خدا كو روحى فشار ميں ركھتے اور انكے خلاف سخت پروپيگنڈا كرتے تھے_فاصبر على ما يقولون ما قبل والى آيت كے قرينے سے ''ما يقولون'' سے مراد كافروں كى وہ باتيں ہيں جو عذاب نازل نہ ہونے اور رسول (ص) خدا كے وعدوں كا مذاق اڑانے كے ليے اظہار كرتے تھے

۳ _خدا كى طرف سے رسول اكرم (ص) كو كافروں كى بے بنياد باتوں اور انكى طرف سے نفسياتى اذيت پہنچانے كے لئے پروپگينڈاكرنے پر صبر و تحمل كرنے كى وصيت_فاصبر على ما يقولون

۴ _ كافروں كو مہلت دينے كى حكمت كے بارے ميں خدا كى طرف سے آيات كا نزول كافروں كى طرف سے كى جانے والى تبليغات پر رسول اكرم(ص) كے تحمل اور صبر كا موجب بنا_لو لا كلمة سبقت فاصبر على ما يقولون

''فا صبر'' ما قبل والى آيت پر عطف اور تفريع ہے يعنى چونكہ كافروں كو عذاب دينے ميں تا خير سہل انگارى كى وجہ سے نہيں بلكہ ايك قانون اور سنت كى وجہ سے ہے پس ان سختيوں كو برداشت كريں ان آيات ميں خداوند عالم نے مخالفين كو مہلت دينے كى علت اور تاريخ (بشريت) پر حكم فرما روشن اور سنت كو بيان فرما كر رسول خدا(ص) اور اہل ايمان كى نسل ہونے كا زمينہ فراہم كرديا ہے_

۵ _ سنت الہى پرسے آگاہ ہونا اور اسكى علت كو سمجھنا سختيوں اور پريشانيوں ميں صبر و تحمل كرنے كے لئے پيش خيمہ_

و لو لا كلمة فاصبر على ما يقولون

۶ _ رسول خدا(ص) اور اہل ايمان لوگوں كو سورج طلوع كرنے اور ڈوبنے سے پہلے اللہ تعالى كى تسبيح كرتے رہنا چاہيئے _

و سبح بحمد ربك قبل طلوع الشمس و قبل غروبه

۲۵۹

''بحمد ربّكَ'' ميں باء يا مصاحبت كے لئے ہے يا استعانت كے لئے بہر حال اللہ تعالى كى حمد اور تسبيح كرنے كا حكم ايك ساتھ آيا ہے_ تسبيح كرنے كا خطاب اگر چہ بظاہر رسول اكرم(ص) كے متعلق ہے ليكن بعد والى آيتوں كے قرينہ سے معلوم ہوتاہے كہ يہ حكم رسول اكرم(ص) كے لئے مختص نہيں ہے (بلكہ تمام اہل ايمان بھى اس حكم كا مخاطب ہيں )

۷ _ رسول خدا (ص) اور اہل ايمان كسى يہ ذمہ دارى ہے كہ رات كے كچھ حصے اور دن كے دونوں فوں ميں اللہ تعالى كى حمد اور تسبيح كيا كريں _و من ء اناء الليل فسبح و اطراف النهار

''ء انائ'' كا معنى اوقات ہے اور ''من'' يہاں تبعيض كے ليے آياہے_لہذا ''من آناء الليل'' سے مراد يہ ہے كہ رات كے كچھ اوقات حمد اور تسبيح ميں مشغول رہيں اور آيت كے شروع ميں ''بحمدك'' آنا اس بات كا قرينہ ہے كہ يہ تسبيح بھى حمد كے ساتھ ہونى چاہيے_

۸ _ تمام اوقات ميں اللہ تعالى كى حمد اور تسبيح اور ذكر لازمى ہے_فسبح قبل طلوع آناء الليل اطراف النهار

اگرچہ اس آيت كريمہ ميں اللہ تعالى كى تسبيح كرنے كے ليے كچھ اوقات معين كيا گيا ہے ليكن ان موارد كى كثرت سے ايسا لگتاہے كہ ہدف يہ ہے كہ تماما فرصت كے موقعوں پر اللہ تعالى كو ياد كرنا اول اسكى تسبيح كرتے رہنا چاہيے_

۹ _انسان سخت شرائط نہيں آنے كى صورت ميں زيادہ صبر اور تحمل حاصل كرنے كے ليے اللہ تعالى كو ياد كرنے اور اسكى تسبيح كرنے كى طرف محتاج ہے_فاصبر على ما يقولون و سبّح بحمد ربّك

صبر كرنے كا دستور دينے كے بعد تسبيح كا دستور آنا اس بات كى نشاندہى كرتاہے كہ صبر كرنے كى طاقت حاصل كرنے كے لئے تسبيح كو دخل ہے_

۱۰ _ خدا اور دين كے خلاف كافروں كى طرف سے ہونے والے پراپگنڈوں كے ساتھ مقابلہ كرنے كے راستوں ميں سے ايك اللہ تعالى كى تسبيح اور حمد كرنا ہے_و سبح بحمد ربك قبل طلوع الشمس و قبل غروبه

۱۲ _رات كے كچھ حصوں ، صبح كے قريب اور سورچ غروب كرنے كے بعد اللہ تعالى كى حمد اور تسبيح كرنا خصوصى نتائج كے حامل ہيں _و من ء اناء الليل فسبح و اطراف النهار

''اطراف نہار'' سے مراد دن كا آغاز اور اختتام ہے_ اور اس لفظ ''اطراف نہار'' كو جمع كى صورت ميں ذكر كرنے كى وجہ يہ ہے چونكہ آناء الليل كے ساتھ آياہے اسكے ساتھ لفظى موافقت كى خاطر جمع لاياہے يا دن كے آغاز اور اختتام كے متعدد

۲۶۰

لحظات كو شامل كرنے كے لئے ہے تا كہ وقت پر وسعت كہ دلالت كرے يعنى ذكر خداوند اور دعاؤں كے آغاز اور اختتام سے پہلے اور آخرى لحظہ سے مخصوص نہيں ہے_

۱۳ _ دن اور رات كے تمام اوقات ذكر اور دعا كے لئے مناسب اور ايك درجہ پر نہيں ہيں _

و سبح بحمد ربك قبل طلوع ء اناء الليل فسبح و ا طراف النهار

۱۴ _خداوند كى تسبيح ( يعنى تمام نقائص سے اس كو پاك اور منزل جاننا) مناسب ہے كہ حمد كے ساتھ ہو اور حمد يعنى خدا كو تمام صفات كمال كے ساتھ متصف جانناہے_و سبح بحمد ربّك اگر ''بحمد ربّك'' ''سبح'' كے فاعل كے لئے حال ہوتو جملہ كا معنى يہ ہوگا: اللہ كى تسبيح كيا كرواس حال ميں كہ اس كى حمدوثناء كرتے ہو_

۱۵ _اللہ تعالى كى صفات كمال كى تعريف كے ذريعے اسكى تسبيح كرنا تسبيح كرنے كا ايك بہترين طريقہ ہے_فسبح بحمد ربك مذكورہ مطلب كے استفادہ كرنے ميں ''بحمد ربك'' كى باء كو استعانت كے معنى ميں ليا گيا ہے_

۱۶ _خداوند كى تدبير، عذاب اور سزاؤں كے لئے ايك خاص قانون كے ہونے پر توجہ كرنا، ہر حال ميں اللہ تعالى كى تسبيح كرنے كا انگيزہ انسان ميں حاصل ہونے كا باعث بنتاہے_و لو لا كلمة بحمد ربك

۱۷ _اللہ تعالى كى تسبيح اور اسكى پاكانى كا بيان، اللہ تعالى كى حمد كے ساتھ ہونا چاہيے جس كے ساتھ خود خداوند نے اپنى تعريف كى ہے_فسح بحمد ربّك حمد كو ''رب''كى طرف اضافہ كرنے كى دو وجوہ ادبى ہوسكتى ہيں _ پہلى وجہ: حمد اپنے فاعل كى طرف اضافہ ہوا ہے _ دوسرى وجہ : حمد اپنے مفعول كى طرف اضافہ ہوا ہے ابھى حمد كے بارے ميں جو مطلب ذكر ہوا ہے وہ احتمال اول كى بناپر تھا جس كا مفاد يہ ہے كہ اللہ تعالى نے جس چيز كے ذريعے اپنى تعريف كى ہے تم اسى كے توسط سے اسكى تسبيح كرو_

۱۸ _ نماز پنجگانہ جو حمد اور تسبيح پر مشتمل ہے يہ ہجرت سے پہلے مكہ مكرمہ ميں تشريع ہوئي ہے _وسبح قبل طلوع ء اناى الليل فسبح و اطراف النهار يہ آيت كريمہ چار نماز كے اوقات كے ساتھ مناسبت ركھتى ہے نماز صبح ( قبل طلوع الشمس) نمازعصر (قبل غروبہا) نماز صبح اور مغرب (اطراف النہار) اور نماز عشاء (آناء الليل) بعض علماء نے اطراف نہار كے اندر زوال آفتاب كو شامل كركے نماز ظہر كو بھى اس آيت ميں شامل سمجھاہے _ ليكن چونكہ سورہ مباركہ ''طہ'' مكہ ميں نازل ہوئي ہے اور يہ سورہ بنى اسرائيل سے پہلے نازل ہوئي ہے كہ جس ميں نماز ظہر كا وقت ذكر ہوا ہے لہذا ہم كہہ سكتے ہيں كہ آيت نماز ظہر كو بيان نہيں كررہى ہے_

۲۶۱

۱۹ _ مقدرات الہى كو رضايت كى نظر سے قبول كرنے كا نتيجہ يہ ہے كہ انسان صبركرتا ہے اور دن اور رات كے مختلف اوقات ميں خداكى حمد اور تسبيح كرتے رہتاہے_و لو لا كلمة سبقت من ربك و سبح بحمد ربك لعلك ترضى

''ترضي'' كا متعلق يعنى مفعول پہلى آيت كے قرينے سے كافروں كو مہلت دينے كى سنت ہے اور آيت كا مفاد يہ ہے كہ خدا كى تسبيح مسلسل كرتے رہنے اور اسكى مدح و ثناء پر مداومت كرنے سے اللہ تعالى كے افعال كى محبت انسان كے دل ميں پختہ ہوجاتى ہے اور اسكے نتيجہ ميں كافروں كو دى جانے والى مہلت اور خدا وند كى ديگر سنتوں پر اانسان راضى رہتاہے_ اور ''لَعَلَّ'' كا لفظ اسى بات كو بيان كرتاہے كہ مكرر تسبيح كرتے رہنے سے انسان كے اندر رضايت كا زمينہ ہموار ہوجاتاہے_

۲۰ _ انسان كو چاہيے كہ خداوند متعال كى تمام خواہشات اور تمام سنتوں پر راضى رہے اور اس كو ہر قسم كے عيب اور نقص سے مبرا سمجھے_لعلَّك ترضى

۲۱ _رضايت كا مقام نہايت بلند اور قيمتى ہے اور اس تك پہنچنا دشوار ہے _فاصبر.و سبح بحمد ربك. لعلك ترضى

۲۲ _ رسول اكرم(ص) كا مقام رضا پر پہنچنا صبر ، تسبيح خدا اور اس كى حمد كى وجہ سے ہے_فاصبر و سبح لعلك ترضى

۲۳ _رسول خدا(ص) اپنى زندگى ميں معنوى تكامل ركھتے تھے_فاصبر لعلك ترضى

۲۴ _ دن اور رات كے مختلف حصوں ميں خداوند متعال كى تسبيح اور حمد كرنے كا نتيجہ باطنى سكون اور مقام رضا تك پہنچناہے_و سبح بحمد ربك لعلك ترضى ممكن ہے آيت ميں مذكور خشنودى كافروں كى باتوں سے پيغمبر اكرم(ص) كى اس دل گيرى كے مقابلے ميں ہو كہ جس كا تذكرہ آيت كے شروع ميں ہے اس صورت ميں مقصود دل كى خوشنودى اور قلبى سكون ہوگا_

۲۵ _''اسماعيل بن الفضل قا: سا لت ا با عبدالله (ع) عن قول الله عزوجل: '' و سبح بحمد ربك قبل طلوع الشمس و قبل غروبها'' فقال: فريضة على كلّ مسلم ا ن يقول قبل طلوع الشمس عشر مرات و قبل غروبها عشر مرات: لا إله إلا الله وحده لا شريك له له الملك و له الحمد يحيى و يميت و هوحى لا يموت بيده الخير و هو على كل شيء قدير ; اسماعيل بن فضل كہتے ہيں ميں نے خداتعالى كے فرمان (و سبح بحمد ربك قبل طلوع الشمس و قبل غروبها ) كے بارے ميں امام صادق (ع) سے سوال كيا توانہوں نے فرمايا ہر مسلمان كا فريضہ ہے كہ طلوع آفتاب اور غروب آفتاب سے پہلے دس مرتبہ'' لا اله الله وحده لا شريك

۲۶۲

له '' كہے(۱) و سبح بحمد ربك لعلك ترضى

۲۶ _'' عن زرار عن ا بى جعفر (ع) قال : قلت له ; '' و ا طراف النهار لعلّك ترضي'' قال : يعنى تطوع بالنهار : زرارہ سے منقول ہے كہ وہ كہتے ہيں ميں نے امام باقر(ع) كى خدمت ميں عرض كيا يہ جو خداتعالى نے فرمايا ہے '' و سبح'''' و أطراف النهار لعلك ترضى '' تو اس سے مراد كيا ہے؟ تو آپ(ع) نے فرمايا يعنى دن ميں مستحب نماز پڑھ(۲)

۲۷ _'' عن النبى (ص) فى قوله: '' و سبح بحمد ربّك قبل طلوع الشمس و قبل غروبها'' قال : '' قبل طلوع الشمس '' صلاة الصبح '' و قبل غروبها'' صلاة العصر ;پيغمبر (ص) اكرم سے روايت كى گئي ہے كہ آپ(ص) نے خداتعالى كے فرمان''و سبح بحمد ربك قبل طلوع الشمس و قبل غروبها'' كے متعلق فرمايا''قبل طلوع الشمس'' نماز صبح (كا وقت) ہے اور''قبل غروبها'' نماز عصر (كا وقت) ہے(۳)

آنحضرت (ص) :آپ(ص) كے صبر كے اثرات ۲۲; آپكو اذيت ۱; آپ (ص) كے خلاف پروپيگنڈا ۲; آپكى تسبيح ۲۲; آپكا تكامل ۲۳; آپكى شرعى ذمہ دارى ۶، ۷; آپ(ص) كو نصيحت ۳; آپكوتسلى ۴; آپكا صبر ۴; آپكا مقام و مرتبہ ۲۳; آپ(ص) كا مقام رضا ۲۲

اسلام:صدر اسلام كى تاريخ۲/اوقات:ان كا تفاوت ۱۳

ايمان:تقديرات الہى پر ايمان ۱۹/انسان:اسكى معنوى ضروريات ۹

تحريك كرنا:اسكے عوامل ۱۶/تسبيح:تسبيح خدا كے اثرات ۹، ۱۹، ۲۲، ۲۴; تسبيح خدا كے آداب ۶، ۱۱، ۱۲، ۱۴، ۱۵، ۱۷; تسبيح خدا كى اہميت۸; تسبيح دن كے آخر ميں ۷، ۱۲; تسبيح سختى ميں ۹; تسبيح رات ميں ۷،۱۲; تسبيح طلوع سے پہلے ۷، ۱۱، ۲۵، ۲۷; تسبيح نماز صبح سے پہلے ۲۷; تسبيح نماز عصر سے پہلے ۲۷; تسبيح غروب سے پہلے ۶، ۱۱، ۲۵، ۲۷; تسبيح خدا ميں حمد ۱۴، ۱۵، ۱۷; تسبيح خدا كا پيش خيمہ ۱۶; تسبيح خدا كى فضيلت ۱۲; تسبيح خدا كا وقت ۶، ۷

حمد:حمد الہى كے اثرات ۲۲، ۲۴; حمد خدا كے آداب ۶، ۱۱، ۱۲; حمد خدا رات ميں ۷، ۱۲; حمد خدا مبارزت ميں ۱۰; حمد خدا نماز ميں ۱۸; حمد خدا طلوع سے

____________________

۱ ) خصال صدوق ج۲ ص ۴۵۲_ب ۱۰ ح ۵۸_ نورالثقلين ج۳ ص ۴۰۷ ح ۱۷۷_ ۲ ) كافى ج۳ ص ۴۴۴ ح ۱۱_ نورالثقلين ج۳ ص ۴۰۷ ح ۱۸۱_

۳ ) الدالمنشور ج۵ ص ۶۱۱_

۲۶۳

پہلے ۶، ۱۱; حمد خدا غروب سے پہلے ۶، ۱۱; حمد خدا كا پيش خيمہ ۱۶; حمد خدا كى فضيلت ۱۱، ۱۲; حمد خدا كا وقت ۶، ۷

خداتعالى :اسكى سنن كے علم كے اثرات ۵; اسكے خلاف پروپيگنڈا ۱۰; اسكى نصيحتيں ۳; اسكى سنن سے راضى ہونا ۲۰; اسكى تقديرات سے رضامندى ۱۹، ۲۰

دعا:اس كا وقت ۱۳

دين:اسكے خلاف پروپيگنڈا ۱۰

روايت :۲۵، ۲۶، ۲۷

سختي:اس ميں صبر كا پيش خيمہ ۵

صبر:اسكے اثرات ۱۹

ضروريات:تسبيح خدا كى ضرورت ۹; ذكر خدا كى ضرورت ۹

عذاب:اسكى تاخير ۲

عمل:ناپسنديدہ عمل ۱۵

كفار:انكى اذيتيں ۱; انكا پروپيگنڈا ۲، ۱۰; ان كے خلاف مقابلے كى روش ۱۰; انكى اذيتوں پر صبر كرنا ۳; انہيں مہلت دينے كا فلسفہ ۴; انہيں مہلت دينا ۲

مؤمنين:انكى شرعى ذمہ دارى ۶، ۷; ان كے مقابلے كرنے كى روش ۱۰

مقام رضا:اسكى قدر و قيمت ۲۱; اس كا پيش خيمہ ۲۴; اسكى سختى ۲۱

نماز:اسكے اذكار ۱۸; يوميہ نمازوں كى تشريع كى تاريخ ۱۸; يوميہ نمازوں كى تشريع كى جگہ ۱۸; مستحب نمازوں كا وقت ۲۶

يادكرنا:تدبير الہى كے يادكرنے كے اثرات ۱۶; ياد خدا كے اثرات ۹; ياد خدا كى اہميت ۸; ياد خدا سختى ميں ۹; عذاب الہى كے قانون كے تابع ہونے كى ياد ۱۶; خداتعالى كى سزاؤں كے قانون كے تابع ہونے كى ياد ۱۶

۲۶۴

آیت ۱۳۱

( وَلَا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلَى مَا مَتَّعْنَا بِهِ أَزْوَاجاً مِّنْهُمْ زَهْرَةَ الْحَيَاةِ الدُّنيَا لِنَفْتِنَهُمْ فِيهِ وَرِزْقُ رَبِّكَ خَيْرٌ وَأَبْقَى )

اور خبردار ہم نے ان ميں سے بعض لوگوں كو جو زندگانى دنيا كى رونق سے مالامال كرديا ہے اس كى طرف آپ نظر اٹھا كر بھى نہ ديكھيں كہ يہ ان كى آزمائش كا ذريعہ ہے اور آپ كے پروردگار كا رزق اس سے كہيں زيادہ بہتر اور پائيدار ہے (۱۳۱)

۱ _ عصر بعثت كے بعض كافر مرد اور عورتيں (مكہ ميں ) بڑى دولت اور وسائل كے مالك تھے_

و لا تمدّنّ عينيك إلى ما متعنا به أزواجاً منهم ''منہم '' كى ضمير ان كفا ر كى طرف لوٹ رہى ہے جن كے بارے ميں گذشتہ آيات ميں بحث ہوئي ہے چونكہ سورہ ''طہ'' مكہ ميں نازل ہوئي ہے اس ل ے مكہ كے كفار مراد ہيں _ ''أزدوج'' يا تو ان مردوں اور عورتوں كے معنى ميں ہے جن سے خاندان تشكيل پاتاہے يا يہ ''اصناف'' كے معنى ميں ہے او ر ''منہم'' ميں من تبعيض كے لي ے ہے_

۲ _خداوند عالم نے پيغمبر اكرم(ص) كو كفار كے خاطر خواہ سرمايہ كى طرف توجہ كرنے اور اس سے بہرہ مند ہونے كے اشتياق سے منع فرمايا ہے_و لا تمدّنّ عينيك إلى ما متعنا به ا زواجاً منهم

''مدالعين'' (آنكھ كھينچنا) نظر كو ايك چيز سے اٹھا كر دوسرى چيز كى طرف متوجہ كرنا اور كھينچ لانا ہے اور ديگر آيات ( جيسے لاتعد عيناك عنہم كہف ۲۸) كے قرينے سے آيت كريمہ سے مراد تہى دستوں سے توجہ ہٹاكر ثروتمندوں كى طرف متوجہ ہونا ہے_ بعض نے يہ احتمال ديا ہے كہ كھينچنے سے مراد جارى ركھنا ہے اور آيت كريمہ عميق اور سيرنگاہ كى طرف ناظر ہے_

۳ _ پيغمبر(ص) اكرم اور مسلمانوں كى زندگى كا معيار، كفار مكہ كى زندگى سے كافى مختلف تھا _

و لاتمدّنّ عينيك إلى ما متعنا به أزواجاً منهم

۴ _ صدر اسلام كے مسلمان كافروں كى آسائش كے نتيجے ميں دنيا كے مال و اسباب كى طرف جذب ہوجانے كے خطرے سے دوچار تھے_و لاتمدّنّ عينيك إلى ما متعنا به أزواجاً منهم يہ آيت كريمہ اگرچہ پيغمبراكرم(ص) كو خطاب ہے ليكن ممكن ہے اس سے مقصود مسلمانوں كى تربيت كرنا ہو اور اگر خود پيغمبر اكرم(ص) مراد ہوں تو ديگر مسلمانوں ميں يہ خطرہ زيادہ ہوگا_

۵ _ دنياداروں كے مال و متاع پر نظريں لگانا اور اس پر رشك كرنا، ناروا اور قابل مذمت امر ہے _و لاتمدّنّ عينيك إلى ما متعنا به أزواجاً منهم

۲۶۵

۶ _ الہى ڑہبروں كيلئے دنيا پرستى اور دنيادارى كى طرف متوجہ ہونے سے پرہيز كرنا ضرورى ہے_لاتمدّنّ عينيك إلى ما متعن

۷ _ كافروں كى بڑى ثروت سے استفادے كے ممكن ہونے كى وجہ سے دينى رہنماؤں كى توجہ كافر اغنياء كى طرف مبذول نہيں ہونى چاہے_و لاتمدّنّ عينيك إلى ما متعنا به أزواجاً منهم

خداتعالى كى طرف سے پيغمبراكرم(ص) كو كافروں كى ثروت كى طرف متوجہ ہونے سے منع كرنا ممكن ہے اس نكتے كو بيان كرنے كيلئے ہوكہ مؤمنين كى زندگى ميں بہترى لانے كيلئے كافروں كے سرمايہ پر نظريں نہيں لگانى چاہيں اور اس مقصد كيلئے ان كے مسلمان ہونے كى آرزو بھى نہيں كرنى چاہے_

۸ _ دنيا اور دوسروں كى پر آسائش زندگى كے ساتھ دل لگانا اور اس پر نظريں جمانا، مقام رضا تك پہنچنے سے مانع ہے_

لعلك ترضى و لاتمدّن عينيك إلى ما متعن ممكن ہے يہ آيت سابقہ آيت كے آخرى جملے كے ساتھ مربوط ہو_ اس ارتباط كا تقاضا يہ ہے كہ شب و روز ميں پروردگار كى تسبيح و تقديس_ كہ جو رضايت خاطر كے حاصل كرنے كا سبب ہے_ كے علاوہ دوسروں كے دنياوى مال و متاع پر نظريں نہ جمانے كا بھى انسان كے مقام رضا تك پہنچے ميں بڑا كردار ہے_

۹ _نظر، انسان كے تمايلات كے برانگيختہ ہونے اور اسكے دلربا مناظر كا شيفتہ ہونے كا باعث ہے_و لاتمدّنّ عينيك إلى ما متعنا به أزواجاً منهم

۱۰ _ نظر، گناہ ميں واقع ہونے كا پيش خيمہ ہے_و لاتمدّنّ عينيك إلى ما متعنا به أزواجاً منهم

۱۱ _ دنيا كے وسائل اور مال و اسباب، سب خداتعالى كى ملك اور اسكى عطا ہيں _متعن

۱۲ _ معاشروں كے افراد كى ثروت كى مقدار كا مختلف ہونا جائز ہے اور ثروت و دولت كے لحاظ سے سب كا برابر ہونا ضرورى نہيں ہے_و لاتمدّنّ عينيك إلى ما متعنا به أزواجاً منهم

۱۳ _ دنياوى زندگى كے وسائل دلربا اور جذاب ہيں اور انسان ان كے فريفتہ ہونے كے خطرے سے دوچار ہے_

و لاتمدّنّ عينيك إلى ما متعنا زهرة الحياة الدني

''زہرة'' كا معنى ہے ايك شگوفہ_ اس آيت كريمہ ميں دنيا كے مال و متاع اور وسائل كو درخت كے شگوفے كے ساتھ تشبيہ دى گئي ہے يعنى جس طرح درخت كا شگوفہ اسكى خوبصورتى اور جذابيت كا سبب ہے دنياوى وسائل بھى دنيوى زندگى كے حسن اور خوبصورتى كا سبب ہيں

۲۶۶

_ اس آيت ميں مذكورہ كلمہ ''ما متّعنا'' ميں ''ما'' كيلئے حال ہے اور اس كا مفرد ہونا دنيا كى تمام لذتوں كے ايك جيسا ہونے سے حكايت كررہا ہے اور ممكن ہے يہ انكى تحقير كيلئے بھى ہو_

۱۴ _ كافروں كى پر آسائش زندگى ان كيلئے الہى آزمائش ہے_زهرة الحياة الدنيا لنفتنهم فيه

در اصل '' فتنة'' اس وقت استعمال كيا جاتا ہے جب سونے يا چاندى كو آگ ميں ركھا جائے تا كہ اچھا اور برا جدا جدا ہوجائے (مصباح) اور چونكہ آزمائش كا ہدف اچھے كو برے سے تميز دينا ہوتا ہے اس لئے اسے بھى ''فتنة'' كہاجاتا ہے كافروں كى آزمائش اس طرح ہے كہ نعمتوں كى كثرت انكى ذمہ داريوں ميں اضافہ كرديتى ہے_

نتيجةً جو كفار اپنى شرعى ذمہ دارى سے فرار كريں گے ان كے عذاب ميں اضافہ ہوجائيگا_

۱۵ _ خداتعالى ، انسانوں كى آزمائش كرنے والا ہے_لنفتنهم فيه

۱۶ _ نعمات الہى اور وسائل دنيا انسانوں كى آزمائش كا پيش خيمہ ہيں _متعنا به لنفتنهم فيه

۱۷ _ڈھيروں ثروت كافروں كيلئے عذاب آور اور ان كيلئے مشكلات كا باعث ہے_لتنفتنهملنفتنهم فيه

''فتنة'' كا ايك معنى عاب اور مشقت ہے (قاموس) كا لام،لام عاقبت ہے اورثروتمندى كے نتايج كو بيان كررہاہے_

۱۸ _ پيغمبراكر(ص) م كو خداتعالى كى جانب سے خصوصى رزق حاصل تھا_ورزق ربك خير

اس چيز كو مدنظر ركھتے ہوئے كہ دنيا كى تمام نعمتيں جيسا كہ ''متعنا'' كى تعبيراسے بيان كررہى ہے_ خداتعالى كا رزق اور اسكى عطا ہے پس پيغمبراكرم (ص) كو عطا كئے گئے رزق سے مراد مخصوص اور معنوى و اخروى قسم كا رزق ہوگا كلمہ''رب'' نيز اس كا ضمير مخاطب كى طرف مضاف ہونا اس نكتے كا قرينہ ہے_

۱۹ _ معنوى رزق اور نعمتيں سب دنياوى نعمتوں سے زيادہ ديرپا اور زيادہ قيمتى ہيںورزق ربك خير و أبقى

۲۰ _ خداتعالى كا پيغمبراكر(ص) م كو خاص رزق عطا كرنا اسكى آپ(ص) پر عنايات اور ربوبيت كا ايك جلوہ ہے_

ورزق ربك

۲۱ _ آخرت كى نعمتيں الہى رزق ہيں اور ان تك دسترسى توفيق الہى سے ہوتى ہے_ورزق ربك

عبارت ''رزق ربك'' كا''زهرة الحياة الدنيا'' كے مقابلے ميں آنا اسكے اخروى ہونے كو بيان كررہا ہے_

۲۲ _ پروردگار كے دائمى اور سراسر خير پر مبنى رزق كى طرف توجہ دوسروں كے دنياوى وسائل پر نظر يں جمانے سے دورى اختيار كرنے كا پيش خيمہ ہےولا تمدّنّ عينيك ورزق ربك خير و أبقى

۲۶۷

آزمائش:اس كا ذريعہ ۱۴، ۱۶; يہ مادى وسائل كے ساتھ ۱۴، ۱۶; يہ نعمت كے ساتھ ۱۶

اسلام:صدر اسلام كى تاريخ ۱، ۴; صدر اسلام ميں اقتصادى تفاوت ۳

آنحضرت(ص) :آپ(ص) كى شرعى ذمہ دارى ۲; آپ كى روزى ۱۸، ۲۰; آپ(ص) كى زندگى كا معيار ۳; آپ(ص) كے وسائل ۱۸; آپ(ص) اور كافروں كے مادى وسائل ۲; آپ(ص) كو نہى ۲

انسان:اس كا امتحان ۱۵; اسكے تمايلات كو برانگيختہ كرنا۹; انسانوں كا اقتصادى تفاوت ۱۲; اسكے لغزش كھانے كى جگہ ۱۳

ثروت:اس كا سرچشمہ ۱۱

ثروت مند لوگ:كافر ثروتمندوں كو اہميت دينا ۷

خداتعالى :اسكى نعمتوں كى قيمت ۱۹; اسكى آزمائش ۱۴، ۱۵; اس كا رازق ہونا ۱۸، ۲۱ ; اسكى عطا ۱۱; اسكى ربوبيت كى نشانياں ۲۰; اسكے نواہى ۲

دنيا پرست لوگ:ان سے بے اعتنائي كرنا ۶

دنياپرستي:اسكے اثرات ۸; اسكى مذمت ۵

دينى راہنما:انكا زہد ۶; انكى ذمہ دارى ۶، ۷

ذكر:روزى كے ذكر كے اثرات ۲۲

رشك:ناپسنديدہ رشك ۵

روزي:اسكى قدر و قيمت ۱۹; اس كا خير ہونا ۲۲; اخروى روزى ۲۱; اس كا سرچشمہ ۲۱

طمع:اسكے اثرات ۸; اسكى مذمت ۵; اسكے موانع ۲۲

عذاب:اس كا ذريعہ ۱۷; يہ ثروت كے ذريعے ۱۷

عمل:ناپسنديدہ عمل ۵

كفار:انكى ثروت كے اثرات ۱۷; انكى ثروت سے استفادہ كرنا ۷; انكا امتحان ۱۴; صدر اسلام كے كافروں كے مادى وسائل ۱; ان كے مادى وسائل سے بے اعتنائي كرنا ۲; صدر اسلام كے كافروں كى آسائش ۴; انكا عذاب ۱۷; صدر اسلام كے ثروتمند كافر۱

كفار مكہ:انكى زندگى كا معيار ۳

۲۶۸

گناہ:اس كا پيش خيمہ ۱۰

خدا كا لطف و كرم:يہ جنكے شامل حال ہے

معاشرتى طبقات:يہ صدر اسلام ميں ۱، ۳

مادى وسائل:انكى قدر و قيمت ۱۹; انكى جذابيت ۱۳; ان كا سرچشمہ ۱۱

مسلمان:صدر اسلام كے مسلمانوں ميں آسائش طلبى كا خطرہ ۴; صدر اسلام كے مسلمانوں كى زندگى كا معيار ۳

مقام رضا:اسكے موانع ۸

نعمت:اخروى نعمتيں ۲۱

نگاہ:اسكے اثرت ۹، ۱۰

آیت ۱۳۲

( وَأْمُرْ أَهْلَكَ بِالصَّلَاةِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا لَا نَسْأَلُكَ رِزْقاً نَّحْنُ نَرْزُقُكَ وَالْعَاقِبَةُ لِلتَّقْوَى )

اور اپنے اہل كو نماز كا حكم ديں اور اس پر صبر كريں ہم آپ سے رزق كے طلبگار نہيں ہيں ہم تو خود ہى رزق ديتے ہيں اور عاقبت صرف صاحبان تقوى كے لئے ہے (۱۳۲)

۱ _ اپنے گھروالوں اور رشتہ داروں كو نماز كا حكم دينا اور انہيں اسكى طرف دعوت دينا، پيغمبر(ص) اكرم كے الہى فرائض ميں شامل تھا_وامر أهلك بالصلوة

ہر شخص كے'' أھل''اس كے گھروالے اور اسكے رشتہ دار ہيں نيز جو لوگ انسان كے ساتھ زيادہ وابستگى ركھتے ہوں انہيں بھى ''أہل'' كہاجاتا ہے (لسان العرب) اور چونكہ سورہ طہ مكہ ميں نازل ہوئي ہے اس لئے آنحضرت(ص) كے مكہ ميں موجود رشتہ دار (حضرت علي(ع) ، جناب خديجہ(ع) اور ...) مدنظر ہيں _

۲ _ گھر والوں كى دينى اور معنوى تربيت اور انكى نگرانى كرنا ضرورى ہےوامر أهلك بالصلوة

۳ _ نماز قائم كرنے كى دائمى نگرانى اور اسكى پابندى كرنا پيغمبر اكرم(ص) كى شرعى ذمہ داريوں ميں سے تھا

و امر أهلك بالصلوة و اصطبر عليه ''اصطبار'' يعنى پورى طاقت كے ساتھ اپنے آپ كو صبر كا پابند بنايئےمفردات راغب)

۲۶۹

۴ _ نماز كى مسلسل نگرانى كرنا اور اسے قائم كرنے كى پابندى ضرورى ہے _وامر أهلك بالصلوة و اصطبر عليه

۵ _ نماز قائم كرنے كى پابندى كرنے كيلئے صبر اور نفس كو اس كا پابند بنانے كى ضرورت ہے_واصطبر عليه

۶ _ معاشرے كے رہنماؤں كے قول و فعل كے درميان ہم آہنگى ضرورى ہے_وامر أهلك بالصلوة و اصطبر عليه

۷ _ مبلغين كيلئے ضرورى ہے كہ وہ اپنى نصيحتوں پر عمل كرنے كيلئے زيادہ كوشش اور پائيدارى دكھائيں _

وامر اهلك بالصلوة و اصطبر عليه نماز پر بہت صبر كرنے كى ذمہ دارى گھروالوں كو اسكى نصيحت كرنے كے بعد مذكورہ نكتے كو بيان كررہى ہے

۸ _ زبانى دعوت كے ساتھ ساتھ عملى دعوت دينا بہى ضرورى ہےو امر أهلك بالصلوة و اصطبر عليه

دوسروں كو نماز كى دعوت دينے كے بعد نمازپر پابند رہنے كى ذمہ دارى ممكن ہے دوسروں كو نماز كى ترغيب دلانے ميں اسكى تأثير كى غرض سے ہو_

۹ _ مسلمان گھرانے ميں نماز كا وجود كافروں كے گھروں كے مال و آسائش كا بہترين بدل ہے_

متعنابه أزواجاً منهم و امر أهلك بالصلوة ان آيات ميں ''ازواج'' اور ''اہل'' كے كلمات ميں گھروالے مد نظر ہيں اور اس طرح يہ مسلمان گھرانے كے كافر گھرانے سے ممتاز ہونے كے لازم ہونے كو بيان كررہا ہے

۱۰ _ نماز قائم كرنا اور اسكى پابندى كرنا دنياپرستانہ تمايلات كے مقابلے ميں ايك بند اور دوسروں كى دنيا پر نظريں جمانے سے مانع ہے _ولا تمدّنّ عينيك وامر أهلك بالصلوة و اصطبر عليه

دنيا داروں كے مال و متاع پر نظريں لگانے سے منع كرنے كے بعد نماز كى پابندى كا حكم اس نكتے كو بيان كررہا ہے كہ نماز قائم كرنے اور اسكے دامن ميں وسعت دينے كے ساتھ دلوں كو كافروں كى ثروت سے موڑنے كے اسباب فراہم كئے جاسكتے ہيں _

۱۱ _ بارگاہ الہى ميں خاندان پيغمبر اكرم(ص) كا بلند مقام تھا_وامر أهلك بالصلوة

۱۲ _ نماز كى تشريع، بعثت كے پہلے سالوں ميں ہى ہوچكى تھي_وامر أهلك بالصلوة و اصطبر عليه

سورہ طہ پہلى مكى سورتوں ميں سے ہے اور لگتا ہے كہ نماز كا حكم اس سے پہلے صادر ہوچكا تھا اور اس سورت ميں اسكے قائم كرنے كى تلقين كى گئي ہے_

۲۷۰

۱۳ _ خداتعالى نے انسان پر توشہ زندگى اور رزق اكٹھا كرنے كى ذمہ دارى عائد نہيں كيلانسئلك رزق

اس آيت كريمہ ميں سوال سے مراد طلب تكليفى ہے اور ''رزقاً'' كو نكرہ لانا تعميم كيلئے ہے پس ''نحن نرزقك'' كے قرينے كو مد نظر ركھتے ہوئے''لانسئلك رزقاً'' كا معنى يوں بنے گا كہ ہم نے تم پر اپنے اور اپنے گھروالوں كا رزق آمادہ كرنے كى ذمہ دارى عائد نہيں كي

۱۴ _ خداتعالى سب كو روزى دينے والا اور انكى ضروريات پورى كرنے والا ہے_نحن نرزقك

۱۵ _ اس بات كى طرف توجہ كہ خداتعالى رازق ہے اور انسان توشہ زندگى كے فراہم كرنے كا ذمہ دار نہيں ہے عبادت و نماز والے فرائض كى انجام دہى اور اس پر كاربند رہنے كيلئے اسباب فراہم كرتى ہے_وامر اهلك بالصلوة لانسئلك رزقاً نحن نرزقك

۱۶ _ خداتعالى نے بندوں كو نماز كى جو ذمہ دارى دى ہے تو اس ميں اس نے اپنے لئے كسى فائدے كو مد نظر نہيں ركھا اور نہ ہى وہ اپنے لئے رزق اور توشہ حيات كے انتظام كى فكر ميں تھا_وامر أهلك بالصلوة لانسئلك رزق

جملہ '' لانسئلك رزقاً'' كا مطلب ممكن ہے يہ ہو كہ ہم تجھے نماز كا حكم دے كر تجھ سے رزق اور اپنى ضروريات كى فراہمى نہيں چاہتے _

۱۷ _ معاش كى فراہمى ميں سب انسانوں كے خداتعالى كا محتاج ہونے كى طرف توجہ، خداتعالى كے بندوں كى عبادت سے فائدہ اٹھانے كى فكر كو ختم كرديتى ہے_لانسئلك رزقاً نحن نرزقك

مذكورہ تفسير ميں جملہ'' نحن نرزقك'' ما قبل جملے كے لئے علت كے مقام پر ہے يعنى چونكہ تيرا رزق ہمارے ہاتھوں سے فراہم ہوتاہے لہذا واضح ہے كہ ہم نے تجھے فرمان نماز ديا ہے اس كے ذريعہ كوئي روزى حاصل نہيں كرنا چاہتے_

۱۸ _ معاش كى فراہمى كى فكر كو عبادت اور تبليغ كى انجام دہى ميں ركاوٹ نہيں بننا چاہيئے_و ا مر با هلك بالصلوة و اصطبر عليها نحن نرزقك

۱۹ _ اہل تقوى كا نيك انجام ہے_والعاقبة للتقوى ''التقوى '' كہہ كر ''اہل تقوى '' مراد لينا مبالغہ كے لئے ہے_

۲۰ _ نماز كا قيام، تقوى كا زمينہ فراہم كرنے كا سبب

۲۷۱

ہے_والعاقبة للتقوى

۲۱ _خداوند عالم انسان سے تقوى كى طرف ميلان چاہتاہے نہ كہ رزق كے ليے تلاش اس كا تقاضا ہے_

لا نسئلك رزقاً والعاقبة للتقوى

۲۲ _ نيك عاقبت سے دل لگانا اور فانى لذات سے ناخو ش ہونا ضرورى ہے_والعاقبة للتقوى

۲۳ _ دينا كى نعمتيں بالاخر اہل تقوى كے اختيار ميں دے دى جائيں گي_والعاقبة للتقوى

ممكن ہے كہ ''العاقبة'' ميں الف لام مضاف اليہ محذوف كا جانشين ہو كہ ماقبل آيت كو ملحوظ خاطر ركھتے ہوئے''عاقبة الحياة الدنيا'' مراد ہوگى اور نيز ممكن ہے كہ الف لام ''جنسيہ'' ہو كہ اس صورت ميں مراد نيك عاقبت ہوگى مذكورہ تفسير پہلے احتمال كى بناء پر ہے _

۲۴ _روى عن الباقر (ع) فى قوله تعالى '' و امر ا هلك بالصلوة و اصطير عليها'' قال ا مر اللّه نبيه ا ن يخصَّ ا هل بيته و ا هله دون الناس ليعلم الناس ا ن لا هله منزلة عنداللّه ليست لغيرهم فا مرهم مع الناس عامته ثم ا مرهم خاصة (۱) امام صادق (ع) سے خداوند عالم كے اس فرمان''و ا مر اهلك بالصلوة ...'' كے بارے ميں روايت منقول ہے كہ آپ (ع) نے ارشاد فرمايا كہ خداوند عالم نے اپنے پيغمبر (ص) كو يہ حكم ديا كہ اپنے خاندان كو لوگوں كے علاوہ ( نماز كے حكم كے سلسلہ ميں مخصوص قرار دے تا كہ لوگوں كو معلوم ہو كہ پيغمبر(ص) اكرم كے اہل بيت (ع) كا خداوند عالم كے نزديك ايسا مقام و مرتبہ ہے جو دوسروں كے لئے نہيں ہے پس خداوند عالم نے (ايك بار) پيغمبر(ص) اكرم كے اہل بيت (ع) كو لوگوں كے ساتھ حكم ديا ہے اور اس كے بعد بطور خاص ان كو مورد خطاب قرار دياہے_

اقدار: ۹//اميدواري:اس كے نيك انجام كى اميدوارى ۲۲

انسان:اس كى ذمہ دارى كا دائرہ كار ۱۳; اس كى ذمہ دارى كا كردار ۱۶

اہل بيت (ع) :ان كے فضائل ۲۴//تبليغ:اس كے موانع ۱۸

تقوى :اس كى اہميت ۲۱;اس كا سبب۲۰//خاندان:اس كى دينى تربيت كى اہميت ۲

خدا:اس كى منفعت رسانى كا خيال ۱۶،۱۷; اس كى نصيحتين ۲۱; اس كى روزى ۱۶; اس كى رازقيت ۱۴

____________________

۱ ) عوالى اللياتى ج۲ ص ۲۲ ح ۴۹ نورالثقلين ج۲ ص ۴۰۸ ح ۱۸۵_

۲۷۲

خود:اپنى بات پر عمل ۷//دعوت:عملى دعوت كى اہميت ۸; اس كى روش۸

دنياطلبي:اس كى موانع ۱۰//ذكر:خدا كى رازقيت كے آثار ۱۰ ; انسانوں كى نيازمندى كے آثار ۱۷

روايت: ۲۴

روزي:اس كا ذمہ دار۱۳ ; اس كا سرچشمہ ۱۴،۲۱//رہنما:ان كى بات ۶;ان كا عمل ۶; ان كى ذمہ دارى ۶

گفتگو:مل كے ساتھ سازگارى ۶

صبر:اس كا سبب ۱۰//لالچ:اس كے موانع ۱۰

عبادت:اس كا سبب ۱۵; اس كے موانع ۱۸

عقيدہ:اس كے باطل ہونے كے موانع ۱۷

كفار:انكے فلاح كى بے وقعتى ۹; ان كے مال كى بے وقعتى ۹

لذات:مادى لذات سے اعراض ۲۲

مبلغين:ان كى عملى دعوت ۷; ان كا صبر ۷; ان كى ذمہ دارى ۷

متيقن:ان كا نيك انجام ۱۹; ان كے فضائل ۲۳

محمد (ص) :ان كى خصوص تبليغ ۲۴; ان كى ذمہ دارى ۱،۳، ۲۴; ان كا خاندان ۱; ان كے خاندان كے مراتب ۱۱

تربيت كرنے والے افراد:انكى بات ۶; ا ن كا عمل ۶; ان كى ذمہ دارى ۶

مسلمان افراد:ان كى نماز كى اہميت ۹; ان كى نماز كى قدر و قيمت ۹

معاش:اس كى فراہمى كا كردار ۱۸

نعمت:نعمت كے شامل حال افراد ۲۳

نماز:اس كے قيام كے آثار ۲۰; اس كے آثار ۱۰; اس كے قيام كى اہميت ۴; اس كى تشريع كى تاريخ ۱۲; اس كے قيام كى دعوت ۲۴; اس كى دعوت ۱; اس كے قيام كا زمينہ ۱۵; اس كے قيام كے سلسلہ ميں صبر ۱۵; اس كى حفاظت ۳، ۴، ۵

۲۷۳

آیت ۱۳۳

( وَقَالُوا لَوْلَا يَأْتِينَا بِآيَةٍ مِّن رَّبِّهِ أَوَلَمْ تَأْتِهِم بَيِّنَةُ مَا فِي الصُّحُفِ الْأُولَى )

اور يہ لوگ كہتے ہيں كہ يہ اپنے رب كى طرف سے كوئي نشانى كيوں نہيں لاتے ہيں توكيا ان كے پاس اگلى كتابوں كى گواہى نہيں آئي ہے (۱۳۳)

۱ _ قرآن مجيد كے معجزہ ہونے كے منكرين نے رسول خدا(ص) كو اس لئے تنقيد كانشانہ بنايا كہ وہ معجزہ اقتراحى كو نہيں دكھاتے ہيں _و قالوا لو لا يا تينابأية من ربه

۲ _ رسول خدا(ص) كى رسالت كے منكرين نے قرآن مجيد كو معجزہ تسليم نہ كرتے ہوئے يہ خيال كيا كہ ان كے پاس كسى قسم كا كوئي معجزہ نہيں ہے_و قالوا لو لا يا تينا با ية من ربه ا و لم تا تهم بينة

۳ _ عصر بعثت كے كفارنے قرآن مجيد كے واضح و روشن اور دوسرى آسمانى كتابوں كے ساتھ سازگار ہونے كے باوجود اس كو نظر انداز كيا اوروہ اس كے معجزہ ہونے كا انكار كرتے تھے_لو لا يا تينابأية من ربه ا و لم تا تهم

۴ _ رسول خدا(ص) كے معجزات اور ان كى رسالت كے واضح دلائل كا انكار،آنحضرت(ص) كے لئے مشقت و رنج كا باعث تھا_فاصبر على ما يقولون و قالو لو لا يا تينا بأية

۵ _ عصر بعثت كے كفار،انسانوں پر ربوبيت الہى كا انكار كرتے تھے_من ربه چنانچہ خداوند عالم كى ربوبيت كا اعتراف كرتے تووہ يہ كہتے''ربّنا'' _

۶ _ قرآن مجيد دوسرى آسمانى كتابوں كى صداقت اور درستگى كے لئے واضح و روشن دليل ہے_ا و لم تا تهم بينة ما فى الصحف الا ولى

''ما فى الصحف الا ولى '' كا عنوان اس بات پر قرينہ ہے كہ''بينة'' سے مراد پيغمبر اكرم(ص) كى آسمانى كتاب قرآن مجيد كے جو دوسرى آسمانى كتابوں كى مانند معارف پر مشتمل ہے اور چونكہ يہ براہ راست خداوند عالم كى جانب سے نازل ہوئي ہے يہ ان كتابوں كے معارف كے صحيح ہونے كى دليل ہے_

۷ _قرآن مجيد، گذشتہ آسمانى كتابوں كے معارف پر مشتمل ہے_ا و لم تا تهم بينة ما فى الصحف الا ولى

قرآن مجيد كى اسى وصف كے ساتھ توصيف وہ دوسرى آسمانى كتابوں كے لئے بينہ ہے دو نكات كو روشن كر رہى ہے؟

۲۷۴

۱_قرآن كے مطالب اور دوسرى آسمانى كتابوں كے مطالب ايك دوسرے سے مشابہ ہيں _۲_ يہ كتاب دوسرى كتابوں كى صداقت پر شاہد واورگواہ ہے_

۸ _قرآن مجيد كے نزول سے قبل چند دوسرى آسمانى كتابوں كا نزول ہوچكا تھا_الصحف الا ولى

۹ _ عصرت بعثت كے كفار، گذشتہ آسمانى كتابوں كے معارف سے آگاہ تھے_قرا و لم تا تهم بينة ما فى الصحف الا ولى

۱۰ _قرآن مجيد آنحضرت (ص) كا معجزہ اور آنحضرت (ص) كى نبوت كى روشن دليل ہے_ا و لم تا تهم بينة ما فى الصحف الا ولى ''بيان '' كا معنى واضح اورانكشاف كرناہے (مصباح) اس بناء پر بينہ ايسى چيز كو كہا جاتاہے جو چيز واضح ہو كلمہ ''من قبلہ'' (ما قبل آيت ميں ) ميں مذكر كى ضمير اس كلمہ كى طرف لوٹ رہى ہے اور يہ اس پر دلالت كررہاہے كہ اس سے برہان و دليل كا ارادہ ہوا ہے(كشاف)

۱۱ _ قرآن مجيد كا نزول ربوبيت خداوند كا جلوہ ہے اوريہ رسالت كے اہداف كى پيشر فت كا وسيلہ ہے_

جملہ'' ا ولم تا تهم ''نے قرآن كو معجزہ كا مصداق قرار ديا ہے كہ خداوند عالم كو اسے پيغمبر اكرم (ص) پر نازل كرنا چاہيے ا ور پيغمبر اكرم(ص) پر ربوبيت خداوندى كو شامل ہے جو آنحضرت(ص) كى رسالت كى ساخت و بنياد كے رشد و تربيت كے معنى ميں ہے_

۱۲ _ قرآن مجيد، انسانوں پر ربوبيت خداوندى كى واضح واورروشن دليل ہے_با ية من ربه ا و لم تا تهم

۱۳ _ قرآن مجيد الہى آيات ميں سے ہے_با ية من ربه أو لم تا تهم

۱۴ _ خداوند عالم كى طرف سے روشن و واضح دلائل كا پيش كرنے كا سرچشمہ ربوبيت خداوندى ہے_

با ية من ربه ا و لم تا تهم بينة ما فى الصحف الا ولى

۱۵ _ اسلام كى بنياد واضح و روشن دليل پر ہے_ا و لم تا تهم بينة ما فى الحف الا ولى

۱۶ _اپنے عقائداوردينى نظريوں كو دليل اور برہان پر استواركرنا ضرورى ہے_ا و لم تا تهم بينة ما فى الصحف الا ولى اسلام:صدر اسلام كى تاريخ ۳; اس كے دلائل ۱۵; اس كا منطقى ہونا ۱۵; اس كى خصوصيات ۱۵

انبياء:

۲۷۵

ان كى بينات ۱۴

انسان:انسانوں كے تربيت كرنے والے ۱۲

خدا:اس كى ربوبيت كے آثار ۱۴; اس كى ربوبيت كے دلائل ۱۲; اس كى ربوبيت كى تكذيب كرنے والے ۵; اس كى ربوبيت كى نشانياں

قرآن:اس كو جھٹلانے والوں كا اعتراض ۱; اس كا معجزہ ۱۰; اس كى تعليمات ۷; اس كو جھٹلانے والوں كے تقاضا ۱;اسكے اعجاز كو جھٹلانے والے ۳; اس كا كردار ۶،۱۰، ۱۱،۱۲; اس كى رہبانيت ۱۱; اس كى خصوصيات ۱۱،۱۲

كفار:صدر اسلام ميں ان كا علم ۹;صدر اسلام اور آسمانى كتابيں ۹; صدر اسلام كا كفر ۵; صدر اسلا م كے كفار كى ہٹ دھرمى ۳

آسمانى كتابيں :اسمانى كتابوں كى تاريخ ۸; ان كى تصديق ۶،۱; اس كا توافق ۶،۷

محمد(ص) :ان پر اعتراض ۱; ان كى بينات اور دلائل۱; ان كو جھٹلانے والوں كى فكر ۲; ان كے معجزہ كى تكذيب ۲،۴; ان كى نبوت كے دلائل ۱۰; ان كى اذيت كے عوامل ۴; ان كے اہداف و مقاصد ميں مؤثر عوامل ۱۱; ان كا معجزہ۷

معجزہ:جديد معجزہ كا ردّ

آیت ۱۳۴

( وَلَوْ أَنَّا أَهْلَكْنَاهُم بِعَذَابٍ مِّن قَبْلِهِ لَقَالُوا رَبَّنَا لَوْلَا أَرْسَلْتَ إِلَيْنَا رَسُولاً فَنَتَّبِعَ آيَاتِكَ مِن قَبْلِ أَن نَّذِلَّ وَنَخْزَى )

اور اگر ہم نے رسول سے پہلے انھيں عذاب كر كے ہلاك كرديا ہوتا تو يہ كہتے پروردگار تونے ہمارى طرف رسول كيوں نہيں بھيجا كہ ہم ذليل اور رسوا ہونے س پہلے ہى تيرى نشانيوں كا اتباع كرليتے (۱۳۴)

۱ _ انبياء كى بعثت اور آيات و معجزات كے نزول كا مقصد_اتمام حجت اور ہر قسم كے اعتراض كى حقانيت_

كو ختم كرنا ہے_و لو ا نا ا هلكنهم بعذاب من قبله لقالوا ربنا لو لا ا رسلت

''من'' كى ضمير سے مراد رسول اكرم (ص) ہيں اور اس پر قرينہ ''لو لا ا رسلت'' ہے اور ممكن ہے يہ ''بينة'' ( ماقبل آيت ميں ) سے متعلق ہو اگر چہ كلمہ ''بينہ'' مو نث ہے_ليكن اس لحاظ سے كہ يہ برہان كے معنى ميں ہے ضمير مذكر كو اس كى طرف لوٹاناصحيح ہے_

۲۷۶

۲ _ خداتعالى ، انبياء كو بھيجے بغير اور لوگوں پر حجت تمام كئے بغير انہيں عذاب نہيں ديتا _و لو أنا أهلكنا هم بعذاب من قبله لقالوا ربنا لو لا أرسلت ''لو أنا ...'' ميں ''لو'' امتناع كيلئے ہے يعنى اگر انبياء كو بھيجے اور حجت تمام كئے بغير عذاب ديتے_ جو يقينا نہيں كريں گے_ تو اعتراض كى گنجائش ہوتى _

۳ _ بيان اورا تمام حجت سے پہلے سزا دينا ناروا كام ہےو لو أنّا لو لا أرسلت الينا رسول

اگر چہ اس آيت ميں''لؤلا أرسلت'' كافروں كى زبان سے نقل كيا گيا ہے اعتراض ہے ليكن اس لحاظ سے كہ اس فرضى اعتراض پر اثر مترتب كيا گياہے اس سے لگتا ہے كہ يہ اعتراض قابل قبول ہے اور اتمام حجت كرنے كيلئے انبياء كو بھيجنا ضرورى ہے_

۴ _ انبياء الہى كى تعليمات، مشركين پر اتمام حجت كيلئے كافى ہيں اگر چہ انہوں نے اپنى رسالت كو معجزات كے ساتھ ثابت نہ كيا ہو_و لو أنّا أهلكنا هم لقالوا ربنا لو لا أرسلت إلينا رسولاً فنتبع ء اى تك

خداتعالى نے انبياء كے آنے سے پہلے مشركين كے عذاب كيلئے قابل قبول اعتراض كو ''آيات الہى سے محروميت '' ميں منحصر كيا ہے يعنى شرك كے بطلان كو سمجھنے كيلئے صرف انبياء كا آنا اورتعليمات الہى كو لانا كافى ہے نہ يہ كہ وہ آيات خدا كو سننے كے بعد معجزے كے صادر ہونے كے منتظر رہيں تاكہ شرك كے بطلان كو سمجھ سكيں _

۵ _ آيات قرآن، منكرين رسالت پر خداتعالى كى طرف سے اتمام حجت _أوَلم تأتهم بينة و لو أنا أهلكنا هم بعذاب من قبله فنتبع ء اى تك

۶ _ بعض لوگوں كا ہدايت كو قبول نہ كرنا انكى طرف پيغمبر الہى كو بھيجنے سے مانع نہيں ہے_أوَلم تأتهم و لو أنّا أهلكنا هم لو لا أرسلت

۷ _ رسالت انبياء كے منكرين، آيات الہى كو حاصل كرنے كے بعد سخت سزا اور تہس نہس كردينے والے عذاب كے ساتھ نابودى كے مستحق ہيں _و لو أنّا اهلكنا هم بعذاب من قبله لقالوا فنتبع ء اى تك عذاب نكرہ ہے اور اس كا نامعلوم ہونا اسكى شدت اور سختى سے حاكى ہے اس طرح كہ اسكى حقيقت كو مخاطب كيلئے ترسيم نہيں كيا جاسكتا_

۸ _ بعثت پيغمبراكرم(ص) سے پہلے اہل مكہ، انبياء الہى كى تعليمات سے محروم تھے_من قبله لقالوا ربنا لو لا أرسلت إلينا رسولًا فنتبع ء ايتك

۹ _ حجت تمام كرنا اور آيات الہى كے ابلاغ كيلئے انبياء كو بھيجنا ،خداتعالى كى ربوبيت كا تقاضا ہے_

۲۷۷

ربنا لو لا أرسلت الينا رسولا فنتبع ء ايتك

۱۰ _ عذاب ميں گرفتار لوگ، خداتعالى كى ربوبيت كا ادراك اور اس كا اعتراف كريں گے _و لو أنا أهلكنا هم لقالوا ربن

۱۱ _ انبياء كو بھيجنا انسان كيلئے ہدايت اور آيات الہى تك دسترسى كى راہ ہموار كرتاہے _لو لا أرسلت إلينا رسولًا فنتبع ء اى تك

۱۲ _ انبياء الہى كے پيروكار، مہلك عذاب سے محفوظ ہوں گے _و لو أنا أهلكنا هم لقالوا ربنا لولا أرسلت الينا رسولًا فنتبع ء اى تك

۱۳ _ تاريخ كے تحولات اور امتوں كى تقدير پر ارادہ الہى كى حكمرانى ہے _و لو أنا أهلكنا هم

۱۴ _ عذاب الہى كے ذريعے ہلاكت، ذلت خوارى كا موجب ہے_و لو أنا أهلكنا هم بعذاب من قبله لقالوا أن نذل و نخزى ذلت كا معنى ہے كمزورى اور حقارت (مصباح) اور''خزي'' نرمي، رسوائي، شرمندگى اور ہلاكت كے معنوں ميں استعمال ہوتا ہے (لسان العرب)

۱۵ _ انبياء اور آيات الہى كى پيروي، عزت و بزرگى كا موجب ہے_لو لا أرسلت فنتبع أى تك من قبل أن نذل و نخزى آيات و انبياء الہى كى پيروى كى صورت ميں ذلت و خزى كا منتفى ہونا صاحب عزت و بزرگى ہونے كے برابر ہے _

آيات خدا:انكى تبليغ ۹; ان كے نزول كا پيش خيمہ ۱۱; ان كے نزول كا فلسفہ ۱

اتمام حجت:اسكے اثرات ۲

اقرار:ربوبيت خدا كا اقرار ۱۰

ابنيائ(ع) :انكى پيروى كے اثرات ۱۵; ان كے ذريعے اتمام حجت ۱; انكى تعليمات كى اہميت ۴; انكى نبوت كے اہميت ۶; انكى تقدير ميں مؤثر عوامل ۱۳; انكى نبوت كا فلسفہ ۱; انہيں جھٹلانے والوں كى سزا ۷; ان كے پيروكاروں كا محفوظ ہونا ۱۲; انكى نبوت كا سرچشمہ ۹; ان كا نقش و كردار ۲، ۹، ۱۱; انكا ہدايت كرنا ۱۱

تاريخ:اسكے تحولات كا سرچشمہ ۱۳

خداتعالى :اسكى ربوبيت كے اثرات ۹; اسكے عذاب كے اثرات ۱۴; اس كا اتمام حجت كرنا۱، ۴، ۵; اسكے ارادے كى حكمرانى ۱۳; اسكے اتمام حجت كا سرچشمہ ۹

۲۷۸

دين:اسكے ساتھ اتمام حجت ۴

ذلت:اسكے عوامل ۱۴

عذاب:اہل عذاب كا اقرار ۱۰; تہس نہس كردينے والا عذاب ۷; اسكے درجے ۷; مہلك عذاب سے محفوظ ہونا ۱۲

عزت:اسكے عوامل ۱۵

قرآن كريم:اسكے ساتھ اتمام حجت ۵; اس كا كردار ۵

قواعد فقہيہ ۳

سزا:بيان كے بغير سزا كا ناپسنديدہ ہونا ۳

آنحضرت(ص) :آپ(ص) كا نقش و كردار ۸

مشركين:ان پر اتمام حجت ۴

معجزہ:اسكے ساتھ اتمام حجت۱; اس كا فلسفہ ۱

مكہ:اس ميں انبيائ۸; اہل مكہ كى محروميت ۸

نبوت:سے جھٹلانے والوں پر اتمام حجت كرنا ۵

ہدايت:اس كا پيش خيمہ ۱۱; اسے قبول نہ كرنے والوں كا نقش و كردار ۶

آیت ۱۳۵

( قُلْ كُلٌّ مُّتَرَبِّصٌ فَتَرَبَّصُوا فَسَتَعْلَمُونَ مَنْ أَصْحَابُ الصِّرَاطِ السَّوِيِّ وَمَنِ اهْتَدَى )

آپ كہہ ديجئے كہ سب اپنے اپنے وقت كا انتظار كر رہے ہيں تم بھى انتظار كرو عنقريب معلوم ہوجائے گا كہ كون لوگ سيدھے راستہ پر چلنے ولاے اور ہدايت يافتہ ہيں (۱۳۵)

۱ _ كفار مكہ پر اتمام حجت كے بعد آيات الہى كے انكار كى وجہ سے نا بودى اور عذاب كے مستحق تھے_

و لو أنّا أهلكنا هم فستعلمون من أصحب الصراط السوى و من اهتدى

۲۷۹

۲ _ كفار كو خداتعالى كى جانب سے عذاب كے ساتھ ہلاكت كے خطرے سے ڈرانا، پيغمبراكرم(ص) كے فرائض ميں سے تھا_ولو أنّا أهلكنا هم بعذاب قل كل متربص فتربصوا فستعلمون

''تربص'' كا معنى ہے انتظار (مصباح) پيغمبر اكرم(ص) كو ''قل'' كا فرمان اس بات كو بيان كررہا ہے كہ كفار كو اس نكتے كا ابلاغ آنخضرت(ص) كا فريضہ تھا

۳ _ پيغمبراكرم(ص) عصر بعثت كے كفار كے ايك گروہ كے ہدايت حاصل كرنے سے مايوس تھے_

قل كل متربص فتربصوا فستعلمون

۴ _ خداتعالى كى طرف سے كافروں كو ہلاكت اور عذاب كى دھمكى كا صدر اسلام كے كفار كى طرف سے مذاق اڑايا جانا _و لو أنّا أهلكناهم بعذاب قل كل متربص چونكہ گذشتہ آيات عذاب كے نازل ہونے، اس ميں تأخير كے اسباب نيز اس پر حاكم سنن الہى كے بارے ميں تھيں لگتا ہے جملہ '' قل كل متربص'' عذاب كے وعدے كے بارے ميں كافروں كے مذاق كا جواب ہے يعنى تم لوگ ہمارے بارے ميں بڑے كڑے وقت كى پيش گوئي كرتے ہو اور جس كى ہميں تمہارے بارے ميں توقع ہے اس سے تم لوگ خوفزدہ نہيں ہو اور اسے كالعدم سمجھتے ہو_ وقت گزرنے دو سب كو حقيقت كا پتا چل جائيگا_

۵ _ وقت كا گزرنا اور كفار و مؤمنين كے انجام كا مشاہدہ، بعض كافروں كيلئے حقائق كے منكشف ہونے كا واحد راستہ ہے_قل كل متربص فتربصوا فستعلمون انتظار كا حكم بتاتا ہے كہ مخاطبين كے متنبہ ہونے كى اميد نہيں ہے اور صرف وقت كا گزرنا ہى ان كيلئے حقيقت كو منكشف كرسكتا ہے_

۶ _ تاريخ، دين الہى كى حقانيت كا مظہر اور اسكى تجلى گاہ ہےفتربصوا فستعلمون من اصحاب الصراط السوي

مستقبل كا حقائق كے قطعى ظہور كے وقت كے عنوان سے تذكرہ كرنا اس نكتے كو بيان كر رہا ہے كہ تاريخ احقاق حق كا مناسب ذريعہ ہے كہ جو حقائق كو حوادث و واقعات كے تناسب سے مرحلہ ظہور ميں پہنچاتى ہے_

۷ _ صدر اسلام كے كفار، اسلام كى نابودى اور شكست كے انتظار ميں تھے_قل كل متربص فتربصوا فستعلمون

۸ _ انبيا(ع) اور آيات الہى كى تكذيب كرنے والوں كى نابودى ايسى سزا ہے كہ ہر آن ميں اور ہر قسم كے حالات ميں اسكے وقوع پذير ہونے كى توقع ہے_ولو أنّا أهلكنا هم بعذاب فتربصوا فستعلمون

۹ _ اسلام اور خداتعالى كے وعدوں كى حقانيت ہميشہ مخفى نہيں رہے گى اور مستقل قريب ميں ہى سب كيلئے واضح ہوجائيگى _فتربصوا فستعلمون من أصحب الصراط السوي

۲۸۰

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750