تفسير راہنما جلد ۱۱

تفسير راہنما 7%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 750

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 750 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 219147 / ڈاؤنلوڈ: 3021
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

حضرت امام جعفر صادق سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا :

'' لا جبرولا تفو یض ولکن أمر بین أمر ین، قال قُلتُ: و ما أمر بین أمر ین؟ قال مثل ذلک رجل رأ یته علیٰ معصية ٍ فنهیتهُ فلم ینته فتر کته ففعل تلک المعصية، فلیس حیثُ لم یقبل منک فتر کته کنت أنت الذّی أمر ته بالمعصية'' ( ۱ )

نہ جبرہے اور نہ تفو یض ، بلکہ ان دونوں کے درمیا ن ایک چیز ہے، راوی کہتا ہے : میں نے کہا : ان دونوں کے درمیا ن ایک چیز کیا ہے؟ فر مایا: اس کی مثال اس شخص کی سی ہے کہ جو گنا ہ کی حا لت میں ہو اور تم اسے منع کرو اور وہ قبول نہ کر ے اس کے بعد تم اسے اس کی حالت پر چھو ڑ دو اور وہ اس گناہ کو انجام دے ، پس چونکہ اس نے تمہا ری بات نہیں مانی اور تم نے اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا ، لہٰذا ایسا نہیں ہے کہ تم ہی نے اسے گناہ کی دعوت دی ہے۔

۲'' ما استطعت أن تلو م العبد علیه فهو منه و ما لم تستطع أن تلو م العبد علیه فهو من فعل ﷲ، یقول ﷲ للعبد: لم عصیت؟ لم فسقت؟لم شربت الخمر؟ لم ز نیت؟ فهذا فعل العبد ولا یقول له لم مر ضت؟ لم قصرت؟ لم ابیضضتَ؟ لم اسو ددت؟ لأنه من فعل ﷲ تعا لیٰ'' ( ۲ )

جس کام پر بندہ کو ملا مت و سر زنش کر سکو وہ اس کی طرف سے ہے اور جس کام پرملا مت وسر زنش نہ کرسکو وہ خدا کی طرف سے ہے، خدا اپنے بندوں سے فرما تا ہے : تم نے کیوں سر کشی کی ؟ کیوں نافرمانی کی ؟کیوں شراب پی؟ کیوں زنا کیا؟ کیو نکہ یہ بندے کا کام ہے ، خدا اپنے بندوں سے یہ نہیں پو چھتا : کیو ں مر یض ہوگئے ؟ کیوں تمہا را قد چھوٹاہے؟ کیوں سفید رنگ ہو؟ کیوں سیا ہ رو ہو؟ کیو نکہ یہ سارے امور خدا کے ہیں ۔

روایات کی تشریح

جبر وتفویض کے دوپہلو ہیں :

۱۔ ایک پہلو وہ ہے جو خدا اوراس کے صفا ت سے متعلق ہے۔

۲۔ دوسرا پہلووہ ہے جس کی انسان اوراس کے صفا ت کی طر ف بازگشت ہو تی ہے۔

'' جبر و تفویض'' میں سے جو کچھ خدا اوراس کے صفات سے مر بوط اور متعلق ہے ، اس بات کا سزا وار

____________________

(۱) کافی،ج، ۱، ص ۱۶۰ اور توحید صدو ق، ص ۳۶۲.(۲)بحار ج۵،ص۵۹ح۱۰۹

۱۸۱

ہے کہ اس کو خدا،اس کے انبیا ء اور ان کے اوصیا ء سے اخذ کر یں اور جو چیز انسا ن اوراس کے صفات اور افعال سے متعلق ہو تی ہے ، اسی حد کافی ہے کہ ہم کہیں : میں یہ کام کر وں گا ، میں وہ کام نہیں کرو ں گا تا کہ جانیں جو کچھ ہم انجام دیتے ہیں اپنے اختیا ر سے انجام دیتے ہیں ، گزشتہ بحثو ں میں بھی ہم نے یہ بھی جانا کہ انسا ن کی زندگی کی رفتا ر ذ رہ ، ایٹم، سیارات اور کہکشا نو ں نیز خدا کے حکم سے دیگر مسخرات کی رفتار سے حرکات اور نتا ئج میں یکساں نہیں ہے ،یہ ایک طرف ، دو سری طرف خدا وند سبحا ن نے انسا ن کوا س کے حال پر نہیں چھو ڑا اوراسے خود اس کے حوالے نہیں کیا تا کہ جو چا ہے ، جس طرح چاہے اور نفسیا نی خو اہشا ت جس کاحکم دیںاسی کو انجام دے ، بلکہ خدا وند عالم نے اپنے انبیا ء کے ذریعہ اس کی راہنما ئی کی ہے : اسے قلبی ایمان کی راہ بھی حق کے ساتھ دکھا ئی نیزاعمال شائستہ جو اس کے لئے جسمانی اعتبار سے مفید ہیں ان کی طرف بھی راہنمائی کی اور نقصا ن دہ اعمال سے بھی آگا ہ کیا ہے، اگر وہ خدا کی ہدا یت کا اتبا ع کرے اور ﷲ کی سیدھی را ہ پر ایک قد م آگے بڑھ جا ئے تو خدا وند عا لم اسے اس کا ہا تھ پکڑ کر اسے دس قد م آگے بڑھا دیتا ہے پھر دنیا و آخرت میں آثار عمل کی بناء پر اس کوسات سو گنازیادہ جزا دیتا ہے اور خدا وند عالم اپنی حکمت کے اقتضاء اور اپنی سنت کے مطابق جس کے لئے چا ہتا ہے اضا فہ کرتاہے۔

ہم نے اس سے قبل مثا ل دی اور کہا: خدا وند عا لم نے اس دنیا کو'' سلف سروس''والے ہوٹل کے مانندمو من اور کا فر دو نوں کے لئے آما دہ کیا ہے، جیسا کہ سورۂ اسرا ء کی بیسویں آیت میں فرماتا ہے:

( کلاًّ نمدّ هٰؤلا ء و هٰؤٰلآء من عطا ئِ ربّک و ما کان عطائُ ربِّک محظورا )

ہم دو نو ں گروہوںکوخواہ یہ خواہ وہ تمہا رے رب کی عطا سے امداد کر تے ہیں ، کیو نکہ تمہا رے ربّ کی عطاکسی پربند نہیں ہے۔

یقینا اگر خدا کی امداد نہ ہو تی اور خدا کے بند ے جسمی اور فکر ی توا نائی اور اس عا لم کے آمادہ و مسخر اسباب و وسا ئل خدا کی طرف سے نہ رکھتے تو نہ راہ یا فتہ مو من عمل صا لح اور نیک و شا ئستہ عمل انجام دے سکتا تھا اور نہ ہی گمرا ہ کا فر نقصا ن دہ اور فا سد اقدامات کی صلا حیت رکھتا، سچ یہ ہے کہ اگر خدا ایک آن کے لئے اپنی عطا انسا ن سے سلب کر لے چا ہے اس عطا کا ایک معمو لی اور ادنیٰ جز ہی کیوں نہ ہوجیسے بینائی، سلا متی، عقل اور خرد وغیرہ... تویہ انسان کیا کر سکتا ہے ؟ اس لحا ظ سے انسا ن جو بھی کر تا ہے اپنے اختیا رسے اور ان وسا ئل و اسباب کے ذریعہ کرتاہے جو خدا نے اسے بخشے ہیں لہٰذا انسا ن انتخاب اور اکتسا ب میں مختار ہے۔

۱۸۲

جی ہاں ،انسا ن اس عالم میں مختارکل بھی نہیں ہے جس طرح سے وہ صرف مجبور بھی نہیں ہے، نہ اس عالم کے تمام اموراس کے حوالے اور سپرد کر دئے گئے ہیں اور نہ ہی اپنے انتخا ب کر دہ امور میں مجبور ہے، بلکہ ان دو نوں کے درمیا ن ایک امر ہے اور وہ ہے( امر بین امرین) اوریہ وہی خدا کی مشیت اور بند وں کے افعال کے سلسلے میں اس کا قا نو ن اور سنت ہے، '' ولن تجد لسنة ﷲ تبد یلا ً'' ہر گز سنت الٰہی میں تغیر و تبد یلی نہیں پا ؤ گے!

چند سوال ا و ر جو اب

اس حصّہ میں د ر ج ذیل چا ر سوا ل پیش کئے جا رہے ہیں:

۱۔ انسا ن جو کچھ کر تا ہے ا س میں مختار کیسے ہے، با وجو د یکہ شیطا ن اس پر تسلط اور غلبہ رکھتا ہے جب کہ وہ دکھا ئی بھی نہیں دیتا آد می کو اغوا( گمراہ) کرنے کے چکر میں لگا رہتا ہے اوراس کے دل میں و سو سہ ڈالتا رہتاہے اور اپنے شر آمیز کاموں کی دعوت دیتا ہے؟

۲۔انسان فا سد ماحول اور برے کلچرمیں بھی ایسا ہی ہے، وہ فسا د اور شر کے علا وہ کو ئی چیز نہیں دیکھتا پھر کس طرح وہ اپنے اختیا ر سے عمل کر تاہے ؟

۳۔ایسا انسا ن جس تک پیغمبروں کی دعو ت نہیں پہنچی ہے اوردور درازافتادہ علا قہ میں زند گی گزا رتا ہے وہ کیا کرے ؟

۴۔'' زنا زا دہ'' کا گنا ہ کیا ہے ؟( یعنی نا جا ئز بچہ کاکیا گنا ہ ہے) کیوں وہ دو سر وں کی رفتا ر کی بنا ء پر شر پسند ہوتا ہے اور شرار ت و برائی کر تا ہے؟

پہلے اور دوسرے سوال کا جو اب:

ان دو سو الوں کا جواب ابتدا ئے کتاب میں جو ہم نے میثا ق کی بحث کی ہے ا س میں تلا ش کیجئے۔( ۱ )

وہاں پر ہم نے کہا کہ خدا نے انسا ن پر اپنی حجت تمام کردی ہے ا ور تمام موجودات کے سبب سب کے متعلق جستجواور تلاش کے غریزہ کو ودیعت کرکے اس کی بہانہ بازی کا دروازہ بند کردیا ہے، لہٰذااسے چاہیئے کہ اس غریزہ کی مدد سے اس اصلی سبب سازتک پہنچے ، اسی لئے سورۂ اعرا ف کی ۱۷۲ ویں آ یت میں میثا ق خدا وند ی سے متعلق ارشاد فرما یا:

____________________

(۱)اسی کتاب کی پہلی جلد، بحث میثاق .ملاحظہ ہو.

۱۸۳

( أن تقولوا یو م القیامة اِنّا کُناعن هذا غا فلین )

تا کہ قیا مت کے دن یہ نہ کہہ سکو کہ ہم اس (پیمان ) سے غا فل تھے ہمیں ۔

انسا ن جس طر ح ہر حا لت میں بھو ک کے غر یزہ سے غا فل نہیں ہو تا ہے جب تک کہ اپنی شکم کو غذا سے سیر نہ کرلے ، اسی طرح معر فت طلبی کے غر یزہ سے بھی غا فل نہیں ہو تا یہاں تک کہ حقیقی مسب الاسباب کی شناخت حا صل کرلے۔

تیسر ے سوال کا جو اب:

ہم اس سوال کے جواب میں کہیںگے : خداو ند سبحا ن نے سورہ بقرہ کی ۲۸۶ ویں آیت میں ارشا د فرما یا:

( لایکلف ﷲ نفساًاِلاّوسعها )

خدا کسی کو بھی اس کی طا قت سے زیا دہ تکلیف نہیں دیتا۔

چو تھے سوا ل کا جو اب:

نا جا ئز اولا د بھی بُرے کا م انجام دینے پر مجبو ر نہیں ہے ، جو کچھ ہے وہ یہ ہے کہ بد کار مرد اور عو رت کی روحی حالت اور کیفیت ارتکاب گناہ کے وقت اس طرح ہوتی ہے کہ خو د کو سما جی قوا نین کا مجرم اور خا ئن تصور کرتے ہیں اور یہ بھی جا نتے ہیں کہ معا شرہ ان کے کام کو برااور گناجا نتا ہے اور اگر ان کی رفتا ر سے آگا ہ ہو جائے اورایسی گند گی اور پستی کے ارتکاب کے وقت دیکھ لے تو ان سے دشمنی کر تے ہو ئے انھیں اپنے سے دور کر دیگا اور یہ بھی جانتے ہیں کہ تمام نیکو کار ، پا کیز ہ کر دار اور اخلاق کر یمہ کے ما لک ایسے کا م سے بیزاری کرتے ہیں یہ رو حی حا لت اور اندرونی کیفیت نطفہ پر اثر اندا ز ہو تی ہے اور میرا ث کے ذریعہ اس نو مو لو د تک منتقل ہو تی ہے اورنوزاد پر اثر انداز ہوتی ہے جواسے شر دوست اور نیکیوں کا دشمن بنا تی ہے اور سما ج کے نیک افراد اور مشہو ر و معروف لو گوں سے جنگ پر آمادہ کرتی ہے اس سیرت کا بارز نمو نہ'' زیا د ابن ابیہ'' اور اس کا بیٹا ابن زیاد ہے کہ انھوں نے عرا ق میں اپنی حکومت کے دوران جو نہیں کر نا چا ہئے تھا وہ کیا ،با لخصوص'' ابن زیاد'' کہ اسکے حکم سے امام حسین کی شہا دت کے بعد آپ اور آپ کے پا کیزہ اصحاب کے جسم اطہر کو مثلہ کیاگیا اور سروں کو شہروں میں پھرایا گیا اور رسول ﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حرم کو اسیر کر کے کو فہ و شام پہنچا یا گیا اور دیگر امور جو اس کے حکم سے انجام پا ئے اور یہ ایسے حا ل میں ہو اکہ حضرت امام حسین کی شہا دت کے بعد کو ئی فرد ایسی نہیں بچی تھی جو ان لوگوںکی حکو مت کا مقا بلہ کر ے

۱۸۴

اور کسی قسم کی تو جیہ اس کے ان افعا ل کیلئے نہیں تھی، بجز اس کے کہ وہ شر و برا ئی کا خو گر تھا اس کی خو اہش یہ تھی کہ عرب اور اسلام کے شریف ترین گھرا نے کی شا ن و شو کت، عظمت و سطو ت ختم کرکے انھیں بے اعتبار بنا دے، ہاں وہ ذا تی طور پر برا ئی کا دوست اور نیکیوں کا دشمن تھا اور سماج و معا شرہ کے کریم و شر یف افراد سے بر سر پیکا ر تھا۔( ۱ )

اس بنا پر ( صحیح ہے اور ہم قبو ل کر تے ہیں کہ) شر سے دوستی، نیکی سے دشمنی، نیکو کاروں کو آزار و اذیت دنیا اور سماج کے پا کیز ہ لو گوں کو تکلیف پہنچا نا زنا زادہ میں حلال زادہ کے بر خلاف تقریباًاس کی ذات اور فطرت کا حصہ ہے، لیکن ان تمام باتوں کے با وجو د ان دو میں سے کو ئی بھی خواہ امور خیر ہوں یا شر جو وہ انجام دیتے ہیں یا نہیں دیتے مجبو ر ،ان پر نہیں ہیں، ان دو نوں کی مثال ایک تندرست و صحت مند ، با لغ و قوی جوان اور کمر خمیدہ بوڑھے مر د کی سی ہے: پہلا جسما نی شہو ت میں غرق اور نفسانی خوا ہشا ت تک پہنچنے کا خواہاں ہے اور دوسرا وہ ہے جس کے یہا ں جو انی کی قوت ختم ہو چکی ہے اور جسمانی شہو ت کا تارک ہے! ایسے حال میں واضح ہے کہ کمر خمیدہ مرد '' زنا ''نہیں کر سکتا اور وہ جوان جس کی جنسی تو انا ٰئی اوج پر ہے وہ زنا کرنے پر مجبو ر بھی نہیں کہ مجبوری کی حالت میں وہ ایسے نا پسندیدہ فعل کا مر تکب ہو تومعذور کہلا ئے، بلکہ اگر زنا کا مو قع اور ما حو ل فر اہم ہو اور وہ ''خا ف مقا م ربہ'' اپنے رب کے حضور سے خو فز دہ ہو، ( ونھیٰ النفس عن الھوی) اور اپنے نفس کو بیجا خو اہشوں سے رو ک رکھے تو( فاِنّ الجنة ھی المأویٰ) یقینا اس کا ٹھکا نہ بہشت ہے۔( ۲ )

اس طرح ہم اگر انسان کی زندگی کے پہلؤوں کی تحقیق کر یں اور ان کے بارے میں غور و فکر کر یں، تو اسے اپنے امور میں صا حب اختیا ر پا ئیں گے، جز ان امور کے جو غفلت اور عدم آگا ہی کی بنیا د پر صا در ہوتے ہیں اور اخروی آثا ر نہیںرکھتے ہیں ۔

یہاں تک مباحث کی بنیاد قرآن کر یم کی آیات کی روشنی میں '' عقائد اسلام '' کے بیان پر تھی آئندہ بحثوں میں انشاء ﷲ خدا کے اذ ن سے مبلغین الٰہی کی سیرت کی قرآ ن کریم کی رو سے تحقیق و بررسی کر یں گے اور جس قدر توریت ،انجیل اور سیرت کی کتابوں سے قرآن کریم کی آیات کی تشریح و تبیین میں مفید پا ئیں گے ذکر کر یں گے۔

''الحمد لله ربّ العا لمین''

____________________

(۱)زیادکے الحاق ( معاویہ کا اسے اپنا پدری بھائی بنانے ) کی بحث آپ کتاب عبدﷲ بن سبا کی جلد اول میں ، اور شہادت امام حسین کی بحث معالم المدر ستین کی جلد ۳ میں ملاحظہ کریں. (۲)سورۂ ناز عا ت کی چا لیسویں آیت ''و امّا من خاف...'' سے اقتبا س ہے.

۱۸۵

(۹)

ملحقات

اسلا می عقا ئد میں بحث و تحقیق کے راستے اور راہ اہل بیت کی فوقیت و بر تری( ۱ )

اسلا می عقا ئد ہمیشہ مسلما نوں اور اسلامی محققین کی بحث و تحقیق کا موضوع رہے ہیں اور تمام مسلما نو ں کا نظر یہ یہ ہے کہ اسلا می عقا ئد کا مر جع قرآ ن اور حدیث ہی ہے ، وہ اس بات پر اتفاق نظر رکھتے ہیں لیکن اس کے باوجود گز شتہ زمانے میں صدیو ں سے، مختلف وجوہ اور متعدد اسباب( ۲ ) کی بنا پر مختلف خیا لات اور نظریات اسلا می عقائد کے سلسلہ میں پیدا ہوئے کہ ان میں بعض اسباب کی جانب اشارہ کر رہے ہیں۔

۱۔ بحث وتحقیق اور استنبا ط کے طریقے اور روش میں اختلا ف.

۲۔ علما ئے یہو د و نصا ریٰ (احبار و رہبا ن)کا مسلما نو ں کی صفو ں میں نفو ذ اور رخنہ انداز ی اور اسلا می رو ایا ت کا ''اسرا ئیلیا ت''اور جعلی داستانوں سے مخلوط ہونا۔

۳۔ بد عتیں اور اسلا می نصو ص کی غلط اور نا درست تا ویلیں اور تفسیر یں۔

۴۔سیا سی رجحا نا ت اور قبا ئلی جھگڑے۔

۵۔ اسلا می نصوص سے ناواقفیت اور بے اعتنا ئی ۔

ہم اس مقا لہ میں سب سے پہلے سبب '' راہ اور روش میں اختلا ف ''کی تحقیق وبر رسی کر یں گے اور اسلامی عقائد کی تحقیق و بر رسی میں جو مو جو دہ طریقے اور را ہیں ہیں ان کا اہل بیت کی راہ و روش سے موازنہ کر کے قا رئین کے حو الے کر یں گے ، نیز آخری روش کی فو قیت وضا حت کے ساتھ بیان کر یں گے ۔

____________________

(۱) مجمع جہانی اہل البیت ، تہران کے نشریہ رسالة الثقلین نامی مجلہ میں آقا شیخ عباس علی براتی کے مقالہ کا ترجمہ ملاحظہ ہونمبر ۱۰، سال سوم ۱۴۱۵ ھ، ق.(۲) مقدمہ کتاب '' فی علم الکتاب '' : ڈاکٹر احمد محمود صبحی ج۱، ص ۴۶پانچواں ایڈیشن، بیروت، ۱۴۰۵ھ، ۱۹۸۵ ئ.

۱۸۶

عقید تی اختلا فا ت اور اس کی بنیاد اور تا ریخ

مسلما نوں کے درمیا ن فکر ی اور عقید تی اختلا ف پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانے سے ہی ظا ہر ہو چکا تھا ،لیکن اس حد تک نہیں تھا کہ، کلامی اور فکر ی مکا تب و مذاہب کے وجو د کا سبب قرار پائے، کیو نکہ رسو لصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا بنفس نفیس اس کا تدارک کرتے تھے اور اس کے پھیلنے کی گنجا ئش با قی نہیں ر کھتے تھے ، بالخصوص روح صدا قت وبرا دری، اخوت و محبت اس طرح سے اسلامی معاشرہ پر حا کم تھی کہ تا ریخ میں بے مثا ل یا کم نظیر ہے۔

نمو نہ کے طور پر اورانسا نو ں کی سر نو شت '' قدر'' کا مو ضو ع تھا جس نے پیغمبر کے اصحا ب اور انصا ر کے ذہن و فکر کو مکمل طور پر اپنے میں حصار میں لے لیا تھا اور انھیں اس کے متعلق بحث کر نے پر مجبور کردیا تھا ، یہاں تک کہ آخر میں بات جنگ و جدا ل اور جھگڑے تک پہنچ گئی جھگڑے کی آ واز پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کان سے ٹکر ائی توآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے (جیسا کہ حدیث کی کتا بو ں میں ذ کر ہوا ہے) اس طرح سے ان لو گو ں کو اس مو ضو ع کے آگے بڑھانے کے عواقب و انجام سے ڈرایا:

احمد ابن حنبل نے عمر و بن شعیب سے اس نے اپنے با پ سے اور اس نے اپنے جد سے رو ایت کی ہے کہ انھو ں نے کہا : ایک دن رسو ل خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے گھر سے باہر نکلے تو لو گو ں کو قدر کے مو ضو ع پر گفتگو کرتے دیکھا،راو ی کہتا ہے : پیغمبر اکر م کے چہر ہ کا رنگ غیظ و غضب کی شدت سے اس طرح سر خ ہو گیا تھا، گو یا انار کے دانے ان کے رخسا ر مبارک پربکھرے ہوئے ہو ں! فر مایا: تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ کتاب خدا کی جر ح وتعدیل اور تجزیہ و تحلیل کر رہے ہو اسکے بعض حصّہ کا بعض سے مو از نہ کر رہے ہو( اس کی نفی و اثبات کرر ہے ہو )؟ تم سے پہلے وا لے افراد انہی کا موں کی و جہ سے نا بو د ہو گئے ہیں۔( ۱ )

قرآن کر یم اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سنت میں اسلامی عقا ئد کے اصو ل اور اس کے بنیادی مبا نی بطو ر کلی امت اسلام کے لئے بیا ن کیے گئے ہیںبعد میں بعض سو الات اس لئے پیش آئے کہ ( ظا ہر اً)قرآن و سنت میں ان کا صریح اور واضح جو اب ان لوگوںکے پاس نہیں تھا اورمسلمان اجتہا د و استنبا ط کے محتا ج ہو ئے تو یہ ذ مہ داری عقا ئد و احکام میں فقہا ء و مجتہد ین کے کا ند ھوں پر آئی، اس لئے اصحا ب پیغمبر بھی کبھی کبھی اعتقا دی مسا ئل میں ایک دوسرے سے اختلا ف رائے ر کھتے تھے ، اگر چہ پیغمبر کی حیات میں ان کے اختلاف کے آثا ر و نتائج، بعد کے

____________________

(۱)مسند احمد ج۳،ص۱۷۸تا ۱۹۶.

۱۸۷

زمانوں میں ان کے اختلاف کے آثار و نتائج سے مختلف تھے ،کیو نکہ ، پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنی حیات میں خو د ہی ان کے درمیا ن قضا وت کر تے تھے اور اپنی را ہنما ئی سے اختلا ف کی بنیا د کواکھاڑ دیتے تھے !( ۱ )

لیکن پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد لو گ مجبو ر ہو ئے کہ کسی صحا بی یا ان کے ایک گروہ سے( جوکہ خلفا ء و حکا م کے بر گز یدہ تھے) اجتہا د کا سہا را لیں اور ان سے قضا وت طلب کر یں جب کہ دو سرے اصحا ب اپنے آرا ء ونظریات کو محفو ظ ر کھتے تھے ( اور یہ خو د ہی اختلا ف میں اضا فہ کا سبب بنا ) اس اختلا ف کے واضح نمونے مند ر جہ ذ یل باتیں ہیں۔

۱۔ پیغمبر اکر مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفا ت کے بعد امت کا خلا فت اور اما مت کے بارے میں اختلاف۔( ۲ )

۲۔ زکو ة نہ دینے وا لو ں کا قتل اور یہ کہ آیا زکو ة نہ دینا ارتد اد اور دین سے خا رج ہو نے کا با عث ہے یا نہیں؟اس طرح سے ہر اختلا ف،خاص آراء و خیا لا ت ، گروہ اور کلا می اور اعتقا دی مکا تب کی پید ائش کا سر چشمہ بن گیاجس کے نتیجہ میں ہر ایک اس رو ش کے ساتھ جو اس نے استد لا ل و استنبا ط میں اختیا ر کی تھی اپنے آ را ء و عقا ئد کی تر ویج و تد وین میں مشغول ہوگیا ، ہما ری تحقیق کے مطا بق ان مکا تب میں اہم تر ین مکاتب مند ر جہ ذیل ہیں :

۱۔خالص نقلی مکتب۔

۲۔ خالص عقلی مکتب

۳۔ ذو قی و اشراقی مکتب

۴۔ حسّی و تجر بی مکتب

۵۔ فطر ی مکتب

الف ۔ خالص نقلی مکتب:

'' احمد ابن حنبل'' حبنلی مذ ہب کے امام ( متو فی ۲۴۱ ھ) اپنے زمانے میں اس مکتب کے پیشوا اور پیشر و شما ر کئے جاتے تھے، یہ مکتب ،اہل حد یث ( اخبار یین عا مہ) کے مکتب کے مانند ہے: ان لو گو ں کارو ایات

____________________

(۱)سیرہ ٔ ابن ہشام ، ص ۳۴۱،۳۴۲ ،اورڈاکٹرمحمد حمیدﷲ مجموعة الوثائق السیاسةج۱،ص۷.(۲)اشعری '' مقا لات الاسلامیین و اختلاف المصلین '' ج ۱، ص ۳۴، ۳۹ اور ابن حزم '' الفصل فی الملل والاہواء والنحل '' ج ۲، ص ۱۱۱ اور احمد امین '' فجر الاسلام ''.

۱۸۸

کی حفا ظت وپا سدا ری نیز ان کے نقل کر نے کے علا وہ کوئی کام نہ تھااوران کے مطا لب میں تد بر اور غور خوض کرنے نیزصحیح کو غلط سے جدا کرنے سے انھیںکوئی تعلق نہ تھا ،اس طرح کی جہت گیر ی کو آخری زمانوں میں ''سلفیہ'' کہتے ہیں، اور فقہ میں اہل سنت کے حنبلی مذہب والے میں اس روش کی پیر وی کرتے ہیں، وہ لوگ دینی مسا ئل میں رائے و نظر کو حرام( سبب و علت کے بارے میں ) سوال کو بدعت اور تحقیق اور استد لال کو بدعت پرستی اورہوا پر ستوں کے مقا بلے میں عقب نشینی جانتے ہیں، اس گروہ نے اپنی سا ری طاقت سنت کے تعقل وتفکرسے خالی درس و بحث پر وقف کر دی اوراس کو سنت کی پیر وی کرنااوراس کے علاوہ کو ''بد عت پرستی'' کہتے ہیں۔

ان کی سب سے زیادہ اور عظیم تر ین کو شش و تلا ش یہ ہے کہ اعتقا دی مسا ئل سے مر بو ط احا دیث کی تدوین اور جمع بندی کرکے اس کے الفا ظ و کلما ت اور اسنا د کی شر ح کریں جیسا کہ بخا ر ی ، احمد ابن حنبل ، ابن خز یمہ، بیہقی اور ابن بطّہ نے کیا ہے، وہ یہاںتک آگے بڑھ گئے کہ عقید تی مسا ئل میں علم کلا م اور عقلی نظر یا ت کو حرا م قراردے دیا،ان میں سے بعض نے اس سلسلہ میں مخصوص رسا لہ بھی تد وین کیا ، جیسے ابن قدامہ نے''تحریم النظر فی علم الکلا م''نا می رسا لہ تحریر کیا ہے۔

احمد ابن حنبل نے کہا ہے: اہل کلام کبھی کا میاب نہیں ہو ں گے ، ممکن نہیں کہ کوئی کلام یا کلامی نظر یہ کا حامل ہو اور اس کے دل میں مکر و حیلہ نہ ہو،اس نے متکلمین کی اس درجہ بد گو ئی کی کہ حا رث محا سبی جیسے (زا ہد و پرہیز گا ر) انسا ن سے بھی دور ہو گیا اور اس سے کنا رہ کشی اختیا ر کر لی، کیو نکہ اس نے بد عت پرست افراد کی رد میں کتا ب تصنیف کی تھی احمد نے اس سے کہا : تم پر وا ئے ہو! کیا تم پہلے ان کی بد عتوں کا ذکر نہیں کروگے تاکہ بعد میں اس کی رد کر و؟ کیا تم اس نوشتہ سے لوگوں کو بد عتوں کا مطا لعہ اور شبہو ں میں غو ر و فکر کرنے پر مجبور نہیں کروگے یہ بذات خود ان لو گو ں کو تلا ش و جستجو اورفکرونظر کی دعوت دینا ہے۔

احمد بن حنبل نے یہ بھی کہا ہے: علما ئے کلا م ز ند یق اور تخریب کا ر ہیں۔

زعفرا نی کہتا ہے :شا فعی نے کہا : اہل کلام کے بارے میں میرا حکم یہ ہے کہ انھیں کھجور کی شاخ سے زدو کوب کرکے عشا ئر اور قبا ئل کے درمیا ن گھما ئیں اور کہیں: یہ سزا اس شخص کی ہے جو کتاب و سنت کو چھوڑ کر علم کلام سے وابستہ ہوگیا ہے!

تمام اہل حدیث سلفیو ں(اخبار یین عا مہ) کا اس سلسلہ میں متفقہ فیصلہ ہے اور متکلمین کے مقا بل ان کے عمل کی شد ت اس سے کہیں زیادہ ہے جتنا لوگوں نے نقل کیا ہے، یہ لو گ کہتے ہیں : پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحا ب باوجو د یکہ حقائق کے سب سے زیا دہ عا لم اور گفتا ر میں دوسرو ں سے زیا دہ محکم تھے، انہوں نے عقائد سے متعلق با ت کر نے میں اجتنا ب نہیں کیا مگر صرف اس لئے کہ وہ جا نتے تھے کہ کلام سے شر و فسا د پیدا ہوگا۔ یہی و جہ ہے کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ایک ہی جملے کی تین با ر تکرا ر کی اور فر مایا :

۱۸۹

(هلک المتعمقون، هلک المتعمقون ،هلک المتعمقون )

غو ر وخو ض کر نے وا لے ہلا ک ہو گئے، غو ر وخو ض کر نے وا لے ہلا ک ہو گئے، غو ر وخو ض کر نے والے ہلا ک ہو گئے، یعنی (دینی) مسا ئل گہرائی کے ساتھ غور و فکر کر نے والے ہلا ک ہوگئے!

یہ گروہ(اخبا ریین عا مہ) عقیدہ میں تجسیم اور تشبیہ(یعنی خدا کے جسم اور شبا ہت) کا قائل ہے ، '' ْقدر'' اور سر نوشت کے ناقابل تغییر ہونے اور انسا ن کے مسلو ب الا را دہ ہونے کا معتقدہے۔( ۱ )

یہ لو گ عقا ئد میں تقلید کو جا ئز جا نتے ہیں اور اس کے سلسلہ میں را ئے و نظر کو جیسا کہ گز ر چکا ہے حرام سمجھتے ہیں۔

ڈاکٹر احمد محمود صبحی فر ماتے ہیں:

'' با وجو د یکہ عقا ئد میں تقلید- عبد ﷲ بن حسن عنبری، حشویہ اور تعلیمیہ( ۲ ) کے نظریہ کے بر خلا ف نہ ممکن ہے اور نہ جائز ہے،یہی نظریہ ''محصل '' میں فخر رازی کا ہے( ۳ )

اورجمہو ر کا نظریہ یہ ہے کہ عقائد میں تقلیدجائز نہیں ہے اور استاد ابو اسحا ق نے ''شرح التر تیب'' میں اس کی نسبت اجماع اہل حق اور اس کے علاوہ کی طرف دی ہے اور امام الحرمین نے کتاب''الشامل'' میں کہا ہے کہ حنبلیوں کے علا وہ کو ئی بھی عقائد میں تقلید کا قائل نہیں ہے ، اس کے با وجود ، امام شو کا نی نے لو گو ں پر عقائد میں غور و فکر کو واجب جاننے کو''تکلیف مالایطاق'' (ایسی تکلیف جو قدرت و توانائی سے باہر ہو) سے تعبیر کیا ہے، وہ بزرگان دین کے نظریات اور اقوال پیش کرنے کے بعد کہتے ہیں: خدا کی پناہ !یہ کتنی عجیب و غریب باتیں ہیں یقیناً یہ ، لوگوں کے حق میں بہت بڑا ظلم ہے کہ امت مرحومہ کو ایسی چیز کا مکلف بنایا جائے جس کی ان میں قدرت نہیں ہے،(کیا ا یسا نہیں ہے ) وہی صحا بہ کا حملی اور تقلیدی ایمان جو اجتہا د و نظر کی منزل تک نہیں پہنچے تھے، بلکہ اس سے نزدیک بھی نہیں ہوئے تھے ، ان کے لئے کافی ہو ؟۔

____________________

(۱)صابونی ؛ ابو عثمان اسماعیل ؛رسالة عقیدةالسلف و اصحاب الحدیث(فی الرسائل المنیرة).

(۲)آمری؛ ''الاحکام فی اصول الاحکام'' ،ج۴ ، ص ۳۰۰.

(۳)شوکانی: '' ارشاد الفحول '' ص۲۶۶-۲۶۷.

۱۹۰

انھوں نے اس سلسلے میں نظر دینے کو بہت سارے لو گو ں پر حرا م اور اس کو گمرا ہی اور نا دانی میں شما ر کیا ہے ۔( ۱ )

اس لحا ظ سے ان کے نز دیک علم منطق بھی حرا م ہے اور ان کے نزدیک منطق انسانی شنا خت اور معرفت تک رسا ئی کی رو ش بھی شما ر نہیں ہو تی ہے، با وجودیکہ علم منطق ایک مشہو ر ترین اور قدیم تر ین مقیاس و معیا ر ہے یہ ایک ایسا علم ہے جس کو ارسطو نے'' ار غنو ن'' نامی کتاب میں تد وین کیا ہے اور اس کا نام علم سنجش و میز ان رکھا ہے۔

اس روش کو اپنا نے والوں کی نظر میں تنہا علم منطق ذہن کو خطا و غلط فہمی سے محفو ظ رکھنے کے لئے کا فی نہیں ہے ،یہ لوگ کہتے ہیں بہت سارے اسلامی مفکرین جیسے کندی .فا رابی، ابن سینا ، امام غزالی ، ابن ماجہ ، ابن طفیل اور ابن رشد علم منطق میں ممتا ز حیثیت کے مالک ہیں، لیکن آرا ء وافکا ر اور نظریاتمیں آپس میں شد ید اور بنیا دی اختلا فات کا شکا ر ہو گئے ہیں،لہٰذا منطق حق و با طل کی میزان نہیں ہے ۔

البتہ آخری دورمیں اس گروہ کا موقف علم منطق اور علم کلا م کے مقابلہ میں بہت نرم ہو گیا تھا جیسے ابن تیمیہ کے موقف کو علم کلام کے مقا بل مضطرب دیکھتے ہیں ،وہ علم کلام کو کلی طور پر حرا م نہیں کرتا بلکہ اگر ضرو رت اقتضا ء کرے اور کلا م عقلی اور شرعی دلائل پر مستند ہو اور تخریب کا روں، زند یقوں اور ملحدوں کے شبہو ں کو جدا کرنے کا سبب ہو توا سے جائز سمجھتا ہے۔( ۲ )

اس کے با وجود اس نے منطق کو حرا م کیا اور اس کی ردّ میں '' رسا لة الر د علیٰ المنطقین'' نا می رسا لہ لکھا ہے: اور اس کے پیرو کہتے ہیں:'' ڈیکا رٹ فر انسیسی''(۱۵۹۶۔۱۶۵۰ئ) نے خطا وصوا ب کی تشخیص کے لئے ارسطا طا لیس کی منطق کے بجا ئے ایک نئی میزا ن اور معیا ر اخترا ع کیا اور تا کید کی کہ اگر انسا ن اپنے تفکر میں قدم بہ قدم اس کے اختر اعی مقیا س کو اپنا ئے تو صواب کے علا وہ کو ئی اور راہ نہیں پا ئے گا'' ڈکا رٹ'' کی رو ش کا استعمال کر نا یقین آور نتیجہ دیتا ہے، لیکن ایسا نہیں ہوا اور دورمعاصرمیں ڈکا رٹ کی روش سے جو امیدیں جاگیں تھیں ان کا حال بھی منطق ارسطو سے پائی جانے والی امیدوںکی طرح رہا اور میلاد مسیح سے لے کر اب تک کے موضوع بحث مسائل ویسے کے ویسے پڑے رہ گئے۔( ۳ )

____________________

(۱) امام جوینی: '' الار شاد الی قواطع الادلة '' ص۲۵، غزالی '' الجام العوام عن العلم الکلام '' ص ۶۶، ۶۷.ڈاکٹر احمد محمود صبحی : '' فی علم الکلام'' مقدمہ ٔ جلد اول

(۲)ابن تیمیہ :''مجموع الفتاوی ''ج۳ ،ص ۳۰۶ ، ۳۰۷.(۳)ڈاکٹر عبد الحلیم محمود : '' التوحید الخالص'' ، ص ۵تا ۲۰.

۱۹۱

یہ و ہی چیز ہے جس کے باعث بہت سارے پہلے کے مسلما ن مفکر ین منجملہ امام غزا لی(۴۵۰۔۵۰۵ھ) روش عقلی کے ترک کر نے اور اسے مطر ود قرار دینے کے قا ئل ہوئے ، غز الی اپنی کتا ب ( تھا فة الفلاسفہ) میں عقلی دلا ئل سے فلسفیوں کے آراء و خیا لا ت کو باطل اور رد کرتا ہے ، غزالی کی اس کتاب میں دقت ا س بات کی گواہ ہے کہ وہ عقل جو کہ دلا ئل کا مبنیٰ ہے، وہی عقل ہے جو ان سب کو برباد کر دیتی ہے۔

غزالی ثابت کرتاہے کہ عالم الٰہیات اور اخلا ق میں انسا نی عقل سے ظن و گمان کے علاوہ کچھ حا صل ہونے والا نہیں ہے۔

اسلامی فلسفی ابن رشد اند لسی(متوفی ۔۵۹۵ھ) نے اپنی کتاب ( تھا فةالتہافت) میں غزا لی کے آراء و خیا لات کی رد کی ہے ، ابن رشد وہ شخص ہے جو اثبا ت کرتا ہے کہ عقل صریح اور نقل صحیح کے درمیا ن کسی قسم کا کوئی تعا رض نہیں ہے ، اوریہ بات ا س کی کتاب (فصل المقال بین الحکمة و الشر یعة من الا تصا ل) سے واضح ہو تی ہے ، حیرت انگیز یہ ہے کہ وہ اس موقف میں '' ابن تیمیہ'' کے ساتھ اپنی کتاب ( عقل صریح کی نقل صحیح سے مو افقت) میں ایک نتیجہ پر پہنچے ہیں۔

پھر ابن تیمیہ کے دو نوں موقف: '' عقلی روش سے مخالفت اور عقل صریح کے حکم سے موافقت''کے درمیان جمع کی کیا صورت ہوسکتی ہے ؟ نہیں معلوم ۔

مکتب خلفا ء کے اہل حدیث اور مکتب اہل بیت کے اخباریوں کی روش ؛ نصوص شر عی،آیات وروا یات کے ظواہر کی پیروی کرنا اوررائے و قیا س سے حتی الامکان اجتناب کرنا ہے۔( ۱ ) ( سلفی مکتب) یا اہل حدیث کا مر کز اس وقت جز یرة العر ب (نجد کا علا قہ) ہے نیز ان کے کچھ گروہ عرا ق، شام اور مصر میں بھی پا ئے جاتے ہیں۔( ۲ )

ب: خالص عقلی مکتب

اس مکتب کے ماننے وا لے عقل انسا نی کی عظمت و شان پر تکیہ کر تے ہو ئے، شنا خت و معر فت کے اسباب و وسا ئل کے مانند، دوسروں سے ممتاز اور الگ ہیں ، یہ لوگ اسلامی نقطہ نظر سے ''مکتب رائے''کے ماننے والے اور عقیدہ میں ''معتز لہ '' کہلاتے ہیں ۔

____________________

(۱) شیخ مفید ، '' اوائل المقالات ''؛سیوطی'' صون المنطق والکلام عن علمی المنطق والکلام'' ص ۲۵۲.شوکانی : ارشاد الفحول ؛ ص ۲۰۲ ؛ علی سامی النشار : ''مناھج البحث عند مفکری الاسلام''ص ۱۹۴ تا ۱۹۵،علی حسین الجابری ،الفکرالسلفی عند الاثنی عشر یہ ،ص ۱۵۴، ۱۶۷، ۲۰۴ ، ۲۴۰ ، ۴۲۴، ۴۳۹ .(۲)قاسمی '' تاریخ الجہمیہ والمعتزلة ''ص ۵۶۔ ۵۷.

۱۹۲

اس مکتب کی پیدائش تاریخ اسلام کے ابتدا ئی دور میں ہوئی ہے ، سب سے پہلے مکتب اعتزال کی بنیاد'' واصل ابن عطا( ۸۰ھ، ۱۳۱ ھ) اور اس کے ہم کلا س '' عمر و بن عبید''( ۸۰ ھ۔ ۱۴۴ھ) منصور دوا نقی کے معاصر نے ڈالی ، اس کے بعد مامون عباسی کے وزیر'' ابی داؤد''اور قاضی عبد الجبا ر بن احمدہمدا نی،متوفی ۴۱۵''جیسے کچھ پیشوا اس مکتب نے پیدا کئے اس گروہ کے بزرگوں میں '' نظّا م''''ابو ہذ یل علاّف''''جا حظ'' اور جبا ئیان کا نام لیا جا سکتا ہے۔

اس نظر یہ نے انسا نی عقل کو بہت اہمیت دی ،خدا وند سبحا ن اور اس کے صفات کی شناخت اور معرفت میں اسے اہم ترین اور قوی ترین شما ر کرتا ہے، شریعت اسلامی کا ادراک اور اس کی تطبیق و موا زنہ اس گروہ کی نگاہ میں ، عقل انسا نی کے بغیر انجام نہیں پا سکتا۔

یہ مکتب ( معتز لہ) ہمارے زمانے میں اس نام سے اپنے پیرو اور یار ویاور نہیں رکھتا صرف ا ن کے بعض افکار'' زید یہ'' اور ابا ضیہ فرقے میں دا خل ہو گئے ہیں اور یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ لوگ'' معتزلہ'' کے ساتھ بعض افکار ونظریات میں شر یک ہیں اسی طرح '' معتز لہ'' شیعہ اثنا عشری اور اسما علیہ کے ساتھ بعض جو انب کے لحاظ سے ایک ہیں ،اہل حدیث( اخباریین عا مہ) نے'' معتزلہ'' کواس لحا ظ سے کہ ارادہ اور انتخاب میں انسان کی آزا دی کے قا ئل ہیں'' قدر یہ'' کالقب دیا ہے۔

عقائد میں ان کی سب سے اہم کتاب'' شر ح الاصول الخمسة'' قا ضی عبد الجبا ر معتزلی کی تا لیف اور ''رسائل العدل والتو حید'' ہے جو کہ معتز لہ کے رہبروں کے ایک گروہ جیسے حسن بصری ، قاسم رسی اور عبد الجبا ر بن احمد کی تالیف کردہ کتاب ہے۔

معتزلہ ایسے تھے کہ جب بھی ایسی قرا نی آیات نیز مروی سنت سے رو برو ہو تے تھے جو ان کے عقائد کے بر خلا ف ہو تی تھی اس کی تا ویل کرتے تھے اسی لئے انھیں '' مکتب تاویل'' کے ماننے والوں میں شما ر کیا جاتاہے، اس کے با وجود ان لوگوں نے اسلام کیلئے عظیم خد متیں انجام دی ہیں اور عباسی دور کے آغا ز میں جب کہ اسلام کے خلاف زبردست فکری اور ثقا فتی یلغا ر تھی اس کے مقا بلہ کے لئے اٹھ کھڑ ے ہوئے ، بعض خلفاء جیسے'' مامون'' اور'' معتصم ''ان سے منسلک ہو گئے ، لیکن کچھ دنوں بعد ہی'' متو کل'' کے زمانے میں قضیہ برعکس ہو گیا اور ان کے نقصا ن پر تمام ہو ا اور کفر و گمرا ہی اور فسق کے احکا م یکے بعد دیگرے ان کے خلا ف صادر ہوئے، بالکل اسی طرح جس طرح خود یہ لوگ درباروں پر اپنے غلبہ و اقتدار کے زمانے میں اپنے مخالفین کے ساتھ کرتے تھے اور جو ان کے آراء و نظریات کوقبول نہیں کرتے تھے انھیں اذیت و آزار دیتے تھے۔

۱۹۳

اس کی مزید وضاحت معتزلہ کے متعلق جد ید اور قدیم تا لیفا ت میں ملا حظہ کیجئے ۔( ۱ )

فرقۂ معتز لہ حسب ذیل پانچ اصول سے معروف و مشہور ہے :

۱۔توحید، اس معنی میں کہ خدا وند عالم مخلو قین کے صفات سے منزہ ہے اور نگا ہوں سے خدا کو دیکھنا بطور مطلق ممکن نہیں ہے ۔

۲۔ عدل، یعنی خدا وند سبحا ن نے اپنے بندوں پر ظلم نہیں کیا ہے اور اپنی مخلو قات کو گناہ کر نے پر مجبور نہیں کرتا ہے

۳۔ ''المنز لة بین المنز لتین''

یعنی جو گناہ کبیرہ انجام دیتا ہے نہ مو من ہے نہ کافر بلکہ فا سق ہے۔

۴۔ وعدو وعید، یعنی خدا پر واجب ہے کہ جو وعدہ ( بہشت کی خو شخبری) اور وعید ( جہنم سے ڈرا نا) مومنین اور کا فرین سے کیا ہے اسے وفا کرے۔

۵۔ امر با لمعروف اور نہی عن المنکر، یعنی ظالم حکام جو اپنے ظلم سے باز نہیں آ تے ،ان کی مخا لفت وا جب ہے۔( ۲ )

مکتب اشعر ی :ما تر یدی یا اہل سنت میں متوسط راہ

'' مکتب اشعر ی'' کہ آج زیا دہ تر اہل سنت اسی مکتب کے ہم خیال ہیں،'' معتزلہ مکتب'' اور اہل حدیث کے درمیان کا راستہ ہے ، اس کے بانی شیخ ابو الحسن اشعر ی(متوفی ۳۲۴ ھ ) خودابتدا میں ( چا لیس سال تک) معتز لی مذ ہب رکھتے تھے ،لیکن تقریبا ۳۰۰ ھ کے آس پاس جا مع بصرہ کے منبر پر جا کر مذ ہب اعتزا ل سے بیزا ری اور مذہب سنت وجما عت کی طر ف لوٹنے کا اعلان کیا اور اس بات کی کوشش کی کہ ایک میا نہ اور معتدل روش جو کہ معتزلہ کی عقلی روش اور اہل حد یث کی نقلی روش سے مرکب ہو ، لوگوں کے درمیان عام

____________________

(۱)زھدی حسن جار ﷲ:( المعتز لة) طبع بیروت، دار الا ھلےة للنشر و التو زیع، ۱۹۷۴ ئ.

(۲) قاسم رسی،'' رسا ئل العدل و التو حید و نفی التشبیہ عن ﷲ الوا حد الصمد'' ج،۱،ص ۱۰۵۔

۱۹۴

کریں، وہ اسی تگ ودو میں لگ گئے، تا کہ مکتب اہل حدیث کو تقو یت پہنچائیں اور اس کی تائید و نصرت کریں، لیکن یہ کام معتزلہ کی اسی بروش یعنی : عقلی اور بر ہا نی استد لا ل سے انجام دیاکرتے تھے اس وجہ سے معتز لہ اور اہل حدیث کے نز دیک مردود و مطرود ہو گئے اور دونو ں گر وہوں میں سے ہر ایک اب تک اہم اور اساسی اعترا ضا ت وارد کر کے ا ن کی روش کو انحرا فی اور گمراہ کن جانتا ہے، یہا ں تک کہ ان کے بعض شد ت پسند وں نے ان کے کفر کا فتویٰ د ے دیا ۔

ایک دوسرا عالم جو کہ اشعری کا معاصر تھا ، بغیر اس کے کہ اس سے کو ئی را بطہ اورتعلق ہو،اس بات کی کوشش کی کہ اسی راہ وروش کو انتخاب کر کے اسے با قی رکھے اور آگے بڑھائے ، وہ ابو منصور ما تر ید ی سمرقندی(متوفی ۳۳۳ھ) ہے وہ بھی اہل سنت کے ایک گروہ کا عقید تی پیشوا ہے، یہ دو نو ں رہبرمجمو عی طور پر آپس میں آراء و نظریات میں اختلا ف بھی رکھتے ہیں بعض لوگو ں نے ان میں سے اہم ترین اختلاف کو گیا رہ تک ذکرکیا ہے ۔( ۱ )

اشعر ی مکتب کی سب سے اہم خصو صیت یہ ہے کہ ایک طرف آیات و روایات کے ظا ہری معنی کی تاویل سے شدت کے ساتھ اجتناب کرتا ہے، دوسری طرف کوشش کرتا ہے کہ''بلا کیف'' کے قول کے ذریعہ یعنی یہ کہ با ری تعا لیٰ کے صفا ت میں کیفیت کا گزر نہیں ہے '' تشبیہ و تجسیم'' کے ہلا کت بار گڈ ھے میں سے فرار کرتا ہے اور'' با لکسب'' کے قول سے یعنی یہ کہ انسان اپنے کردار میں جو کچھ انجام دیتا ہے کسب کے ذریعہ ہے نہ اقدا م کے ذریعہ ''جبر'' کی دلدل میں پھنسنے سے دوری اختیار کر تا ہے، اگر چہ علماء کے ایک گروہ کی نظر میں یہ روش بھی فکری واعتقا دی مسا ئل کے حل کے لئے نا کافی اور ضعیف و ناتواں شمار کی گئی ہے ،'' اشعری مکتب'' نے تدریجا ً اپنے استقلا ل اور ثبات قدم میں اضا فہ کیا ہے اور اہل حدیث ( اخبا ریین عا مہ) کے بالمقابل استقا مت کا مظا ہر ہ کیا اور عا لم اسلام میں پھیل گیا۔( ۲ )

____________________

(۱)دیکھئے: محمد ابو زہر ہ؛ '' تاریخ المذ اھب الاسلا مےة'' قسم الا شا عرہ و الما تر یدےة، آےة ﷲ شیخ جعفر سبحانی ، ا لملل والنحل، ج، ۱،۲، ۴، الفر د بل : ( الفرق الا سلا مےة فی الشما ل الا فر یقی) ص ۱۱۸۔ ۱۳۰، احمد محمود صبحی: ( فی علم الکلا م)

(۲)سبکی : ''الطبقات الشافعیة ج ۳، ص ۳۹۱ الیافعی '' مرآة الجنان '' ج ۳، ص۳۴۳. ابن کثیر ؛ '' البدایة والنہایة '' ج ۱۴، ص ۷۶.

۱۹۵

ج:۔ ذو قی و اشر اقی مکتب

بات کا رخ دوسری طرف موڑتے ہیں اور ایک علیحدہ اور جدا گانہ روش کہ جس میں کلامی مسائل جن کا اپنے

محور بحث اور منا قشہ ہے ان سے آزاد ہو کر صو فیوں کے رمزی اور عشقی مسلک کی پیروی کرتے ہیں، یہ مسلک تمام پہلؤوں میں فلسفیو ں اور متکلمین کی روش کا جوکہ عقل و نقل پر استوار ہے، مخا لف رہا ہے.'' منصور حلاج'' (متوفی ۳۰۹ھ) کوبغدا د میں اس مذ ہب کا با نی اور '' امام غزا لی'' کو اس کا عظیم رہبر شمار کیا ہے، غزالی اپنی کتاب''الجام العوا م عن علم الکلا م'' میں کہتا ہے ! یہ راہ '' خواص'' اوربر گز یدہ افراد کی راہ ہے اور اس راہ کے علاوہ( کلام و فلسفہ وغیرہ)''عوام'' اور کمتر در جے وا لوں نیزان لوگو ں کی راہ ہے جن کے اور عوام کے درمیان فرق صرف ادلہ کے جاننے میں ہے اور صرف ادلہّ سے آگا ہی استد لال نہیں ہے۔( ۱ )

بعض محققین نے عقائد اسلامی کے دریا فت کرنے میں امام غزالی اور صو فیوں کی روش کے بارے میں مخصوص کتا ب تا لیف کی ہے ۔( ۲ ) ڈاکٹر صبحی، غزا لی کی راہ و روش کو صحیح درک کر نے کے بعد کہتے ہیں:

اگر چہ غزالی ذا ت خدا وندی کی حقیقت کے بارے میں غو ر و خوض کرنے کو عوام پر حرا م جانتے ہیں اور یہ ایک ایسی بات ہے جس کا ان کے متعلق کوئی انکار نہیں کرتا ، لیکن انھوں نے اد بائ، نحو یوں، محد ثین ،فقہاء اور متکلمین کو عوام کی صف میں قرار دیا ہے اور تاویل کو راسخون فی العلم میں محدود و منحصر جا نا ہے اور وہ لوگ ان کی نظر میں اولیا ء ہیں جو معرفت کے دریا میں غر ق اور نفسانی خواہشات سے منزہ ہیں اور یہ عبارت بعض محققین کے اس دعویٰ کی صحت پر خود ہی قر ینہ ہے کہ'' غزا لی'' حکمت اشرا قی و ذوقی وغیرہ... میں ایک مخصوص اور مرموز عقیدہ رکھتے ہیں جو کہ ان کے عام اور آشکار اعتقاد کے مغائر ہے کہ جس کی بنا ء پروہ لوگو ں کے نز دیک حجةالاسلام کی منزل پر فا ئز ہوئے ۔

ڈ اکٹر صبحی سوال کرتے ہیں:

کیا حقیقت میں را سخون فی العلم صرف صو فی حضرا ت ہیں اور فقہا ئ، مفسر ین اور متکلمین حضرات ان سے خارج ہیں؟!

اگر ایسا ہے کہ فن کلام کی پیدا ئش اور اس کے ظاہر ہو نے سے برائیوں میں اضافہ ہوا ہے توکیا یہ استثنائ(صرف صو فیوںکو را سخون فی العلم جاننا ) ان کے لئے ایک خاص مو قع فراہم نہیں کرتا ہے کہ وہ اس خاص موقع سے فائدہ اٹھائیں اور نا روا دعوے اور نازیباگستا خیا ں کریں؟

____________________

(۱)''الجام العوام عن علم الکلام '' ص ۶۶تا ۶۷.

(۲) ڈاکٹر سلیمان دنیا ؛ '' الحقیقة فی نظر الغزالی ''

۱۹۶

تصوف فلسفی کے نظر یات جیسے فیض، اشرا ق اوراس کے ( شرع سے) بیگا نہ اصول بہت زیا دہ واضح ہیں،اور ان کا اسلا می عقائد کے سلسلے میں شر و نقصا ن متکلمین کے شرور سے کسی صورت میں کم نہیں ہے۔( ۱ )

لیکن بہر صورت ، اس گروہ نے اسلامی عقائد میں صو فیا نہ طر ز کے کثرت سے آثا ر چھو ڑے ہیں کہ ان کے نمو نوں میں سے ایک نمو نہ'' فتو حات مکیہ'' نامی کتاب ہے۔( ۲ )

د: حسی و تجر بی مکتب( آج کی اصطلا ح میں علمی مکتب)

یہ روش اسلامی فکر میں ایک نئی روش ہے کہ بعض مسلما ن دا نشو روں نے آخری صدی میں ، یو رپ کے معا صرفکر ی رہبر وںکی پیر وی میں اس کو بنایاہے ، اس روش کا اتباع کر نے والے جد ید مصر، ہند، عرا ق اور ان دیگر اسلا می مما لک میں نظر آتے ہیںجو غرب کے استعما ری تمد ن اور عا لم اسلا م پر وارد ہو نے والی فکری امواج سے متاثر ہوگئے ہیں۔

وہ لوگ انسا نی معرفت و شنا خت کے وسا ئل کے بارے میں مخصوص نظر یات رکھتے ہیں، حسی اور تجر بی رو شوں پر مکمل اعتماد کر نا اور پر انی عقلی راہ وروش اور ارسطو ئی منطق کو با لکل چھو ڑ دینا ان کے اہم خصو صیات میں سے ہے. یہ لوگ کو شش کرتے ہیں کہ'' معا رف الٰہی'' کی بحث اور ما وراء الطبیعت مسا ئل کو'' علوم تجربی''کی رو شوں سے اور میدان حس وعمل میں پیشکریں۔( ۳ )

اس جدید کلامی مکتب کے منجملہ آثار میں سے معجز ات کی تفسیر اس دنیا کی ما دی علتوں کے ذریعہ کرنا ہے ، اور نبو ت کی تفسیر انسا نی نبوغ اورخصو صیا ت سے کرنا ہے، بعض محققین نے ان نظر یات کی تحقیق و بر رسی کے لئے مستقل کتا ب تا لیف کی ہے۔( ۴ )

اس نظریہ کے کچھ نمو نے ہمیں '' سرسید احمد خان ہندی'' کے نو شتوں میں ملتے ہیں اگرانھیں اس مکتب کا پیرو نہ ما نیں ، تب بھی وہ ان لو گوں میں سے ضرور ہیں جو اس نظر یہ سے ہمسوئی اور نزدیکی رکھتے ہیں، اس نزدیکی کا

____________________

(۱) ڈاکٹر احمد محمود صبحی ؛ '' فی علم الکلام '' ج ۲، ص۰۴ ۶تا۶۰۶. (۲) شعرانی عبد الوہاب بن احمد ؛ '' الیواقیت والجواہر فی بیان عقاید الاکابر '' سمیع عاطف الزین ؛ '' الصوفیة فی نظر الاسلام '' تیسرا ایڈیشن ، دار الکتاب اللبنانی ، ۱۴۰۵ ھ ، ۱۹۸۵ ئ. (۳)ڈاکٹر عبد الحلیم محمود: '' التو حید الخا لص اوا لا سلا م و العقل'' ، مقدمہ.

(۴)ڈا کٹر عبد الر زّ اق نو فل؛ '' المسلمو ن و العلم الحدیث''. فر ید وجدی؛'' الا سلام فی عصر العلم''.

۱۹۷

سبب بھی یہ ہے کہ انھوں نے غرب کے جد ید دا نشو روں کے آراء و نظریات کو قرآن کی تفسیر میں پیش کرکے اوراپنی تفسیر کو ان نظر یات سے پُر کر کے یہ کو شش کی ہے کہ یہ ثا بت کر یں کہ قرآ ن تمام جد ید انکشا فات سے مو ا فق اور ہماہنگ ہے،سر سیداحمد خا ن ہندی بغیر اس کے کہ اپنے نظریئے کے لئے کوئی حد ومر ز مشخص کریں، اوردینی مسا ئل اور جد ید علمی مبا حث میں اپنا ہد ف، روش اور مو ضو ع واضح کریں، ایک جملہ میں کہتے ہیں:'' پو را قرآ ن علوم تجر بی انکشافات سے مو افق اور ہم آہنگ ہے''۔( ۱)

ھ:اہل بیت کا مکتب راہ فطرت

اس مکتب یعنی راہ فطرت کاخمیر، اہل بیت کی تعلیمات میں مو جو د ہے، ان حضرات نے لوگو ں کے لئے بیا ن کیا ہے :'' اسلامی عقائد کا صحیح طریقہ سے سمجھنا انسانی فطرت سے ہم آہنگی اور مطا بقت کے بغیر ممکن نہیں ہے'' اس بیان کی اصل قرآن و سنت میں مو جود ہے ، کیو نکہ قرآ ن کریم جہا ں با طل کا کسی صورت سے گزر نہیں ہے اس میں ذکر ہوا ہے:

(( فطرة ﷲ التی فطر الناس علیها لا تبدیل لخلق ﷲ ذلک الدین القیم و لکن اکثر الناس لایعلمون ) سورہ روم :۳۰.

ﷲ کی وہ فطرت جس پر اس نے انسا نوں کو خلق کیا ہے ، ﷲ کی آفر ینش میں کوئی تغیر اور تبد یلی نہیں ہے ، یہ ہے محکم آئین لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے!

پروردگا ر عا لم نے اس آیت میں اشارہ فرمایا: دینی معارف تک پہنچنے کی سب سے اچھی راہ انسان کی فطر ت سلیم ہے، ایسی فطرت کہ جسے غلط اور فا سد معاشرہ نیز بری تربیت کاما حول بھی بد ل نہیں سکتا اوراسے خواہشات ، جنگ و جدا ل محوا ورنابود نہیں کر سکتے اور اس بات کی علت کہ اکثر لوگ حق و حقیقت کو صحیح طر یقے سے درک نہیں کر سکتے یہ ہے کہ خود خواہی ( خود پسند ی) اور بے جا تعصب نے ان کے نور فطرت کو خا موش کر دیا ہے، اور ان کے اور ﷲ کے واقعی علوم و حقائق کے اور ان کی فطری درک و ہدایت کے درمیا ن طغیا نی اور سرکشی حا ئل ہو گئی ہے اور دونو ں کے درمیا ن فا صلہ ہو گیا ہے۔

____________________

(۱)۔محمود شلو ت '' تفسیر القرآن الکریم'' الا جزاء العشر ة الا ولی'' ص ۱۱ ۔ ۱۴، اقبال لاہو ری: ( احیا ئے تفکر دینی در اسلا م) احمد آرام کا تر جمہ ص ۱۴۷۔۱۵۱ ، سید جمال الدین اسد آبادی: ( العر وة الو ثقیٰ) شمار ہ ۷ ،ص ۳۸۳ ، روم، اٹلی ملا حظہ ہو.

۱۹۸

اس معنی کی سنت نبویصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں بھی تا کید ہو ئی ہے اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ایک روایت میں مذ کور ہے :

''کل مولودٍ یو لد علی الفطر ةِ فا بوٰ اه یهو دٰ ا نه او ینصرٰا نه او يُمجسانه' '( ۱ )

ہر بچہ ﷲ کی پا کیزہ فطرت پرپیداہوتاہے یہ تو اس کے ماں باپ ہیں جواسے ( اپنی تربیت سے) یہودی، نصرا نی یا مجو سی بنا دیتے ہیں۔

راہ فطرت کسی صورت عقل و نقل، شہود و اشرا ق ، علمی وتجر بی روش سے استفادہ کے مخا لف نہیں ہے، اہم بات یہ ہے کہ یہ راہ شنا خت کے اسباب و وسا ئل میں سے کسی ایک سبب اور وسیلہ میں محدود و منحصر نہیں ہے بلکہ ہر ایک کو اپنی جگہ پر خداوند عا لم کی ہدایت کے مطابق میں استعمال کرتی ہے ، وہ ہدا یت جس کے بارے میں قرآن کریم خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے:

( یمنو ن علیک أن أسلموا قل لاتمنوا علیّ اِسلا مکم بل ﷲ یمن علیکم أن هدا کم للاِیمان اِن کنتم صا دقینَ ) ( ۲ )

(اے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم )وہ لوگ تم پر اسلا م لانے کا احسان جتا تے ہیں ، تو ان سے کہہ دو! اپنے اسلام لا نے کا مجھ پر احسان نہ جتا ؤ ، بلکہ خدا تم پر احسان جتا تا ہے کہ اس نے تمھیں ایما ن کی طر ف ہدا یت کی ہے، اگر ایمان کے دعوے میں سچے ہو !

دوسری جگہ فرماتا ہے :( و لولا فضل ﷲ علیکم و رحمته ما زکیٰ منکم من أحدٍ أبدا ) () ( ۳ )

اگر خدا کا فضل اور اس کی رحمت تم پر نہ ہو تی تو تم میں سے کو ئی بھی کبھی پاک نہ ہو تا ۔

اس راہ کا ایک امتیاز اور خصو صیت یہ ہے کہ اس کے ما ننے وا لے کلا می منا ظر ے اور پیچیدہ شکو ک و شبہات میں نہیں الجھتے اور اس سے دور ی اختیا ر کرتے ہیںاور اس سلسلے میں اہل بیت کی ان احا دیث سے استنا د کرتے ہیں جو دشمنی اور جنگ و جدا ل سے رو کتی ہیں، ان کی نظر میں وہ متکلمین جنھیں اس راہ کی تو فیق نہیں ہو ئی ہے ان کے اختلا ف کی تعداد ایک مذ ہب کے اعتقادی مسا ئل میں کبھی کبھی ( تقریبا)سینکڑوں مسائل تک پہنچ جاتی ہے۔( ۴ )

____________________

(۱) صحیح بخاری: کتاب جنائز و کتاب تفسیر ؛ صحیح مسلم : کتاب قدر ، حدیث ۲۲تا ۲۴.مسند احمد : ج ۲، ص ۲۳۳، ۲۷۵، ۲۹۳، ۴۱۰، ۴۸۱، ج۳،ص ۳۵۳؛ صراط الحق: آصف محسنی (۲)سورہ حجرات ۱۷

(۳)سورہ ٔ نور ۲۱.

(۴) علی ابن طاؤوس ، ''کشف المحجة لثمرة الحجة '' ص ۱۱اور ص ۲۰، پریس داروی قم

۱۹۹

یہ پا کیزہ '' فطرت'' جس پر خدا نے انسان کو پیدا کیا ہے ، اہل بیت کی روایات میں کبھی ''طینت اور سرشت'' اور کبھی'' عقل طبیعی'' سے تعبیر ہو تی ہے، اس مو ضو ع کی مز ید معلو مات کے لئے اہل بیت کی گرانبہا میرا ث کے محا فظ اور ان کے شیعوں کی حد یث کی کتا بوں کی طرف رجو ع کر سکتے ہیں۔( ۱ )

اسلامی عقا ئد کے بیان میں مکتب اہل بیت کے اصول و مبا نی

عقائد میں ایک مہم ترین بحث اس کے ماخذ و مدارک کی بحث ہے ، اسلامی عقائد کے مدا رک جیسا کہ ہم نے پہلے بھی بیان کیا ہے،صرف کتاب خدا وندی اور سنت نبویصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہیں، لیکن مکتب اہل بیت اور دیگرمکاتب میں بنیا دی فرق یہ ہے کہ مکتب اہل بیت پوری طرح سے اپنے آپ کو ان مدا رک کا تا بع جانتا ہے اور کسی قسم بھی کی خو اہشات ، ہوائے نفس اوردلی جذ با ت اور تعصب کو ان پر مقدم نہیںکرتا اور ان دونوں مر جع سے عقائد حاصل کرنے میں صرف قرآ ن کریم اور روایات رسول اسلام میں اجتہاد کے اصول عامہ کو ملحوظ رکھتا ہے ، ا ن میں سے بعض اصول یہ ہیں:

۱۔ان نصوص و تصر یحا ت کے مقا بلے میں ، جو معا رض سے خالی ہوں یا معارض ہو لیکن نص کے مقا بل استقا مت کی صلا حیت نہ رکھتا ہو، کبھی اجتہا د کو نص پر مقد م نہیں رکھتے اس حال میں کہ بعض ہوا پر ستوں اور نت نئے مکتب بنا نے وا لوں کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ لغو اور بیہودہ تا ویلا ت کے ذریعہ اپنے آپ کو نصوص کی قید سے آزا د کر لیں ،عنقریب اس کے ہم چند نمو نوںکی نشان دہی کریں گے۔

حضرت امام امیر المو منین ـ ''حارث بن حوط'' کے جو اب میں فرما تے ہیں :

''انک لم تعرف الحقّ فتعرف من اتاه و لم تعرف البا طل فتعرف مَن أتا ه ''( ۲ )

تم نے حق ہی کو نہیں پہچا ناکہ اس پر عمل کرنے والوں کو پہچا نو اور تم نے باطل ہی کو نہیں پہچا نا کہ اس پر عمل کر نے والوں کو پہچا نو۔

۲۔ دوسرے لفظوںمیں ہم یہ کہہ سکتے ہیں: مکتب اہل بیت کے ما ننے وا لے کسی چیز کو نص اوراس روایت پر جو قطعی اور متو اتر ہو مقدم نہیں کرتے اور یہ اسلام کے عقیدہ میں نہایت اہم اصلی ہے ، کیو نکہ عقائد میں ظن و گما ن اور اوہام کا گزر نہیں ہے ، اس پر ان لوگوں کو توجہ دینی چاہیئے جو کہ ''سلفی'' نقطۂ نظر رکھتے ہیں ، نیز

____________________

(۱)کافی کلینی: ترجمہ ، ج۳، ص ۲، باب طینة المؤمن والکافر ، چوتھا ایڈیشن ، اسلامیہ تہران ، ۱۳۹۲ ھ.(۲)نہج البلا غہ، حکمت:۲۶۲:

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

لحظات كو شامل كرنے كے لئے ہے تا كہ وقت پر وسعت كہ دلالت كرے يعنى ذكر خداوند اور دعاؤں كے آغاز اور اختتام سے پہلے اور آخرى لحظہ سے مخصوص نہيں ہے_

۱۳ _ دن اور رات كے تمام اوقات ذكر اور دعا كے لئے مناسب اور ايك درجہ پر نہيں ہيں _

و سبح بحمد ربك قبل طلوع ء اناء الليل فسبح و ا طراف النهار

۱۴ _خداوند كى تسبيح ( يعنى تمام نقائص سے اس كو پاك اور منزل جاننا) مناسب ہے كہ حمد كے ساتھ ہو اور حمد يعنى خدا كو تمام صفات كمال كے ساتھ متصف جانناہے_و سبح بحمد ربّك اگر ''بحمد ربّك'' ''سبح'' كے فاعل كے لئے حال ہوتو جملہ كا معنى يہ ہوگا: اللہ كى تسبيح كيا كرواس حال ميں كہ اس كى حمدوثناء كرتے ہو_

۱۵ _اللہ تعالى كى صفات كمال كى تعريف كے ذريعے اسكى تسبيح كرنا تسبيح كرنے كا ايك بہترين طريقہ ہے_فسبح بحمد ربك مذكورہ مطلب كے استفادہ كرنے ميں ''بحمد ربك'' كى باء كو استعانت كے معنى ميں ليا گيا ہے_

۱۶ _خداوند كى تدبير، عذاب اور سزاؤں كے لئے ايك خاص قانون كے ہونے پر توجہ كرنا، ہر حال ميں اللہ تعالى كى تسبيح كرنے كا انگيزہ انسان ميں حاصل ہونے كا باعث بنتاہے_و لو لا كلمة بحمد ربك

۱۷ _اللہ تعالى كى تسبيح اور اسكى پاكانى كا بيان، اللہ تعالى كى حمد كے ساتھ ہونا چاہيے جس كے ساتھ خود خداوند نے اپنى تعريف كى ہے_فسح بحمد ربّك حمد كو ''رب''كى طرف اضافہ كرنے كى دو وجوہ ادبى ہوسكتى ہيں _ پہلى وجہ: حمد اپنے فاعل كى طرف اضافہ ہوا ہے _ دوسرى وجہ : حمد اپنے مفعول كى طرف اضافہ ہوا ہے ابھى حمد كے بارے ميں جو مطلب ذكر ہوا ہے وہ احتمال اول كى بناپر تھا جس كا مفاد يہ ہے كہ اللہ تعالى نے جس چيز كے ذريعے اپنى تعريف كى ہے تم اسى كے توسط سے اسكى تسبيح كرو_

۱۸ _ نماز پنجگانہ جو حمد اور تسبيح پر مشتمل ہے يہ ہجرت سے پہلے مكہ مكرمہ ميں تشريع ہوئي ہے _وسبح قبل طلوع ء اناى الليل فسبح و اطراف النهار يہ آيت كريمہ چار نماز كے اوقات كے ساتھ مناسبت ركھتى ہے نماز صبح ( قبل طلوع الشمس) نمازعصر (قبل غروبہا) نماز صبح اور مغرب (اطراف النہار) اور نماز عشاء (آناء الليل) بعض علماء نے اطراف نہار كے اندر زوال آفتاب كو شامل كركے نماز ظہر كو بھى اس آيت ميں شامل سمجھاہے _ ليكن چونكہ سورہ مباركہ ''طہ'' مكہ ميں نازل ہوئي ہے اور يہ سورہ بنى اسرائيل سے پہلے نازل ہوئي ہے كہ جس ميں نماز ظہر كا وقت ذكر ہوا ہے لہذا ہم كہہ سكتے ہيں كہ آيت نماز ظہر كو بيان نہيں كررہى ہے_

۲۶۱

۱۹ _ مقدرات الہى كو رضايت كى نظر سے قبول كرنے كا نتيجہ يہ ہے كہ انسان صبركرتا ہے اور دن اور رات كے مختلف اوقات ميں خداكى حمد اور تسبيح كرتے رہتاہے_و لو لا كلمة سبقت من ربك و سبح بحمد ربك لعلك ترضى

''ترضي'' كا متعلق يعنى مفعول پہلى آيت كے قرينے سے كافروں كو مہلت دينے كى سنت ہے اور آيت كا مفاد يہ ہے كہ خدا كى تسبيح مسلسل كرتے رہنے اور اسكى مدح و ثناء پر مداومت كرنے سے اللہ تعالى كے افعال كى محبت انسان كے دل ميں پختہ ہوجاتى ہے اور اسكے نتيجہ ميں كافروں كو دى جانے والى مہلت اور خدا وند كى ديگر سنتوں پر اانسان راضى رہتاہے_ اور ''لَعَلَّ'' كا لفظ اسى بات كو بيان كرتاہے كہ مكرر تسبيح كرتے رہنے سے انسان كے اندر رضايت كا زمينہ ہموار ہوجاتاہے_

۲۰ _ انسان كو چاہيے كہ خداوند متعال كى تمام خواہشات اور تمام سنتوں پر راضى رہے اور اس كو ہر قسم كے عيب اور نقص سے مبرا سمجھے_لعلَّك ترضى

۲۱ _رضايت كا مقام نہايت بلند اور قيمتى ہے اور اس تك پہنچنا دشوار ہے _فاصبر.و سبح بحمد ربك. لعلك ترضى

۲۲ _ رسول اكرم(ص) كا مقام رضا پر پہنچنا صبر ، تسبيح خدا اور اس كى حمد كى وجہ سے ہے_فاصبر و سبح لعلك ترضى

۲۳ _رسول خدا(ص) اپنى زندگى ميں معنوى تكامل ركھتے تھے_فاصبر لعلك ترضى

۲۴ _ دن اور رات كے مختلف حصوں ميں خداوند متعال كى تسبيح اور حمد كرنے كا نتيجہ باطنى سكون اور مقام رضا تك پہنچناہے_و سبح بحمد ربك لعلك ترضى ممكن ہے آيت ميں مذكور خشنودى كافروں كى باتوں سے پيغمبر اكرم(ص) كى اس دل گيرى كے مقابلے ميں ہو كہ جس كا تذكرہ آيت كے شروع ميں ہے اس صورت ميں مقصود دل كى خوشنودى اور قلبى سكون ہوگا_

۲۵ _''اسماعيل بن الفضل قا: سا لت ا با عبدالله (ع) عن قول الله عزوجل: '' و سبح بحمد ربك قبل طلوع الشمس و قبل غروبها'' فقال: فريضة على كلّ مسلم ا ن يقول قبل طلوع الشمس عشر مرات و قبل غروبها عشر مرات: لا إله إلا الله وحده لا شريك له له الملك و له الحمد يحيى و يميت و هوحى لا يموت بيده الخير و هو على كل شيء قدير ; اسماعيل بن فضل كہتے ہيں ميں نے خداتعالى كے فرمان (و سبح بحمد ربك قبل طلوع الشمس و قبل غروبها ) كے بارے ميں امام صادق (ع) سے سوال كيا توانہوں نے فرمايا ہر مسلمان كا فريضہ ہے كہ طلوع آفتاب اور غروب آفتاب سے پہلے دس مرتبہ'' لا اله الله وحده لا شريك

۲۶۲

له '' كہے(۱) و سبح بحمد ربك لعلك ترضى

۲۶ _'' عن زرار عن ا بى جعفر (ع) قال : قلت له ; '' و ا طراف النهار لعلّك ترضي'' قال : يعنى تطوع بالنهار : زرارہ سے منقول ہے كہ وہ كہتے ہيں ميں نے امام باقر(ع) كى خدمت ميں عرض كيا يہ جو خداتعالى نے فرمايا ہے '' و سبح'''' و أطراف النهار لعلك ترضى '' تو اس سے مراد كيا ہے؟ تو آپ(ع) نے فرمايا يعنى دن ميں مستحب نماز پڑھ(۲)

۲۷ _'' عن النبى (ص) فى قوله: '' و سبح بحمد ربّك قبل طلوع الشمس و قبل غروبها'' قال : '' قبل طلوع الشمس '' صلاة الصبح '' و قبل غروبها'' صلاة العصر ;پيغمبر (ص) اكرم سے روايت كى گئي ہے كہ آپ(ص) نے خداتعالى كے فرمان''و سبح بحمد ربك قبل طلوع الشمس و قبل غروبها'' كے متعلق فرمايا''قبل طلوع الشمس'' نماز صبح (كا وقت) ہے اور''قبل غروبها'' نماز عصر (كا وقت) ہے(۳)

آنحضرت (ص) :آپ(ص) كے صبر كے اثرات ۲۲; آپكو اذيت ۱; آپ (ص) كے خلاف پروپيگنڈا ۲; آپكى تسبيح ۲۲; آپكا تكامل ۲۳; آپكى شرعى ذمہ دارى ۶، ۷; آپ(ص) كو نصيحت ۳; آپكوتسلى ۴; آپكا صبر ۴; آپكا مقام و مرتبہ ۲۳; آپ(ص) كا مقام رضا ۲۲

اسلام:صدر اسلام كى تاريخ۲/اوقات:ان كا تفاوت ۱۳

ايمان:تقديرات الہى پر ايمان ۱۹/انسان:اسكى معنوى ضروريات ۹

تحريك كرنا:اسكے عوامل ۱۶/تسبيح:تسبيح خدا كے اثرات ۹، ۱۹، ۲۲، ۲۴; تسبيح خدا كے آداب ۶، ۱۱، ۱۲، ۱۴، ۱۵، ۱۷; تسبيح خدا كى اہميت۸; تسبيح دن كے آخر ميں ۷، ۱۲; تسبيح سختى ميں ۹; تسبيح رات ميں ۷،۱۲; تسبيح طلوع سے پہلے ۷، ۱۱، ۲۵، ۲۷; تسبيح نماز صبح سے پہلے ۲۷; تسبيح نماز عصر سے پہلے ۲۷; تسبيح غروب سے پہلے ۶، ۱۱، ۲۵، ۲۷; تسبيح خدا ميں حمد ۱۴، ۱۵، ۱۷; تسبيح خدا كا پيش خيمہ ۱۶; تسبيح خدا كى فضيلت ۱۲; تسبيح خدا كا وقت ۶، ۷

حمد:حمد الہى كے اثرات ۲۲، ۲۴; حمد خدا كے آداب ۶، ۱۱، ۱۲; حمد خدا رات ميں ۷، ۱۲; حمد خدا مبارزت ميں ۱۰; حمد خدا نماز ميں ۱۸; حمد خدا طلوع سے

____________________

۱ ) خصال صدوق ج۲ ص ۴۵۲_ب ۱۰ ح ۵۸_ نورالثقلين ج۳ ص ۴۰۷ ح ۱۷۷_ ۲ ) كافى ج۳ ص ۴۴۴ ح ۱۱_ نورالثقلين ج۳ ص ۴۰۷ ح ۱۸۱_

۳ ) الدالمنشور ج۵ ص ۶۱۱_

۲۶۳

پہلے ۶، ۱۱; حمد خدا غروب سے پہلے ۶، ۱۱; حمد خدا كا پيش خيمہ ۱۶; حمد خدا كى فضيلت ۱۱، ۱۲; حمد خدا كا وقت ۶، ۷

خداتعالى :اسكى سنن كے علم كے اثرات ۵; اسكے خلاف پروپيگنڈا ۱۰; اسكى نصيحتيں ۳; اسكى سنن سے راضى ہونا ۲۰; اسكى تقديرات سے رضامندى ۱۹، ۲۰

دعا:اس كا وقت ۱۳

دين:اسكے خلاف پروپيگنڈا ۱۰

روايت :۲۵، ۲۶، ۲۷

سختي:اس ميں صبر كا پيش خيمہ ۵

صبر:اسكے اثرات ۱۹

ضروريات:تسبيح خدا كى ضرورت ۹; ذكر خدا كى ضرورت ۹

عذاب:اسكى تاخير ۲

عمل:ناپسنديدہ عمل ۱۵

كفار:انكى اذيتيں ۱; انكا پروپيگنڈا ۲، ۱۰; ان كے خلاف مقابلے كى روش ۱۰; انكى اذيتوں پر صبر كرنا ۳; انہيں مہلت دينے كا فلسفہ ۴; انہيں مہلت دينا ۲

مؤمنين:انكى شرعى ذمہ دارى ۶، ۷; ان كے مقابلے كرنے كى روش ۱۰

مقام رضا:اسكى قدر و قيمت ۲۱; اس كا پيش خيمہ ۲۴; اسكى سختى ۲۱

نماز:اسكے اذكار ۱۸; يوميہ نمازوں كى تشريع كى تاريخ ۱۸; يوميہ نمازوں كى تشريع كى جگہ ۱۸; مستحب نمازوں كا وقت ۲۶

يادكرنا:تدبير الہى كے يادكرنے كے اثرات ۱۶; ياد خدا كے اثرات ۹; ياد خدا كى اہميت ۸; ياد خدا سختى ميں ۹; عذاب الہى كے قانون كے تابع ہونے كى ياد ۱۶; خداتعالى كى سزاؤں كے قانون كے تابع ہونے كى ياد ۱۶

۲۶۴

آیت ۱۳۱

( وَلَا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلَى مَا مَتَّعْنَا بِهِ أَزْوَاجاً مِّنْهُمْ زَهْرَةَ الْحَيَاةِ الدُّنيَا لِنَفْتِنَهُمْ فِيهِ وَرِزْقُ رَبِّكَ خَيْرٌ وَأَبْقَى )

اور خبردار ہم نے ان ميں سے بعض لوگوں كو جو زندگانى دنيا كى رونق سے مالامال كرديا ہے اس كى طرف آپ نظر اٹھا كر بھى نہ ديكھيں كہ يہ ان كى آزمائش كا ذريعہ ہے اور آپ كے پروردگار كا رزق اس سے كہيں زيادہ بہتر اور پائيدار ہے (۱۳۱)

۱ _ عصر بعثت كے بعض كافر مرد اور عورتيں (مكہ ميں ) بڑى دولت اور وسائل كے مالك تھے_

و لا تمدّنّ عينيك إلى ما متعنا به أزواجاً منهم ''منہم '' كى ضمير ان كفا ر كى طرف لوٹ رہى ہے جن كے بارے ميں گذشتہ آيات ميں بحث ہوئي ہے چونكہ سورہ ''طہ'' مكہ ميں نازل ہوئي ہے اس ل ے مكہ كے كفار مراد ہيں _ ''أزدوج'' يا تو ان مردوں اور عورتوں كے معنى ميں ہے جن سے خاندان تشكيل پاتاہے يا يہ ''اصناف'' كے معنى ميں ہے او ر ''منہم'' ميں من تبعيض كے لي ے ہے_

۲ _خداوند عالم نے پيغمبر اكرم(ص) كو كفار كے خاطر خواہ سرمايہ كى طرف توجہ كرنے اور اس سے بہرہ مند ہونے كے اشتياق سے منع فرمايا ہے_و لا تمدّنّ عينيك إلى ما متعنا به ا زواجاً منهم

''مدالعين'' (آنكھ كھينچنا) نظر كو ايك چيز سے اٹھا كر دوسرى چيز كى طرف متوجہ كرنا اور كھينچ لانا ہے اور ديگر آيات ( جيسے لاتعد عيناك عنہم كہف ۲۸) كے قرينے سے آيت كريمہ سے مراد تہى دستوں سے توجہ ہٹاكر ثروتمندوں كى طرف متوجہ ہونا ہے_ بعض نے يہ احتمال ديا ہے كہ كھينچنے سے مراد جارى ركھنا ہے اور آيت كريمہ عميق اور سيرنگاہ كى طرف ناظر ہے_

۳ _ پيغمبر(ص) اكرم اور مسلمانوں كى زندگى كا معيار، كفار مكہ كى زندگى سے كافى مختلف تھا _

و لاتمدّنّ عينيك إلى ما متعنا به أزواجاً منهم

۴ _ صدر اسلام كے مسلمان كافروں كى آسائش كے نتيجے ميں دنيا كے مال و اسباب كى طرف جذب ہوجانے كے خطرے سے دوچار تھے_و لاتمدّنّ عينيك إلى ما متعنا به أزواجاً منهم يہ آيت كريمہ اگرچہ پيغمبراكرم(ص) كو خطاب ہے ليكن ممكن ہے اس سے مقصود مسلمانوں كى تربيت كرنا ہو اور اگر خود پيغمبر اكرم(ص) مراد ہوں تو ديگر مسلمانوں ميں يہ خطرہ زيادہ ہوگا_

۵ _ دنياداروں كے مال و متاع پر نظريں لگانا اور اس پر رشك كرنا، ناروا اور قابل مذمت امر ہے _و لاتمدّنّ عينيك إلى ما متعنا به أزواجاً منهم

۲۶۵

۶ _ الہى ڑہبروں كيلئے دنيا پرستى اور دنيادارى كى طرف متوجہ ہونے سے پرہيز كرنا ضرورى ہے_لاتمدّنّ عينيك إلى ما متعن

۷ _ كافروں كى بڑى ثروت سے استفادے كے ممكن ہونے كى وجہ سے دينى رہنماؤں كى توجہ كافر اغنياء كى طرف مبذول نہيں ہونى چاہے_و لاتمدّنّ عينيك إلى ما متعنا به أزواجاً منهم

خداتعالى كى طرف سے پيغمبراكرم(ص) كو كافروں كى ثروت كى طرف متوجہ ہونے سے منع كرنا ممكن ہے اس نكتے كو بيان كرنے كيلئے ہوكہ مؤمنين كى زندگى ميں بہترى لانے كيلئے كافروں كے سرمايہ پر نظريں نہيں لگانى چاہيں اور اس مقصد كيلئے ان كے مسلمان ہونے كى آرزو بھى نہيں كرنى چاہے_

۸ _ دنيا اور دوسروں كى پر آسائش زندگى كے ساتھ دل لگانا اور اس پر نظريں جمانا، مقام رضا تك پہنچنے سے مانع ہے_

لعلك ترضى و لاتمدّن عينيك إلى ما متعن ممكن ہے يہ آيت سابقہ آيت كے آخرى جملے كے ساتھ مربوط ہو_ اس ارتباط كا تقاضا يہ ہے كہ شب و روز ميں پروردگار كى تسبيح و تقديس_ كہ جو رضايت خاطر كے حاصل كرنے كا سبب ہے_ كے علاوہ دوسروں كے دنياوى مال و متاع پر نظريں نہ جمانے كا بھى انسان كے مقام رضا تك پہنچے ميں بڑا كردار ہے_

۹ _نظر، انسان كے تمايلات كے برانگيختہ ہونے اور اسكے دلربا مناظر كا شيفتہ ہونے كا باعث ہے_و لاتمدّنّ عينيك إلى ما متعنا به أزواجاً منهم

۱۰ _ نظر، گناہ ميں واقع ہونے كا پيش خيمہ ہے_و لاتمدّنّ عينيك إلى ما متعنا به أزواجاً منهم

۱۱ _ دنيا كے وسائل اور مال و اسباب، سب خداتعالى كى ملك اور اسكى عطا ہيں _متعن

۱۲ _ معاشروں كے افراد كى ثروت كى مقدار كا مختلف ہونا جائز ہے اور ثروت و دولت كے لحاظ سے سب كا برابر ہونا ضرورى نہيں ہے_و لاتمدّنّ عينيك إلى ما متعنا به أزواجاً منهم

۱۳ _ دنياوى زندگى كے وسائل دلربا اور جذاب ہيں اور انسان ان كے فريفتہ ہونے كے خطرے سے دوچار ہے_

و لاتمدّنّ عينيك إلى ما متعنا زهرة الحياة الدني

''زہرة'' كا معنى ہے ايك شگوفہ_ اس آيت كريمہ ميں دنيا كے مال و متاع اور وسائل كو درخت كے شگوفے كے ساتھ تشبيہ دى گئي ہے يعنى جس طرح درخت كا شگوفہ اسكى خوبصورتى اور جذابيت كا سبب ہے دنياوى وسائل بھى دنيوى زندگى كے حسن اور خوبصورتى كا سبب ہيں

۲۶۶

_ اس آيت ميں مذكورہ كلمہ ''ما متّعنا'' ميں ''ما'' كيلئے حال ہے اور اس كا مفرد ہونا دنيا كى تمام لذتوں كے ايك جيسا ہونے سے حكايت كررہا ہے اور ممكن ہے يہ انكى تحقير كيلئے بھى ہو_

۱۴ _ كافروں كى پر آسائش زندگى ان كيلئے الہى آزمائش ہے_زهرة الحياة الدنيا لنفتنهم فيه

در اصل '' فتنة'' اس وقت استعمال كيا جاتا ہے جب سونے يا چاندى كو آگ ميں ركھا جائے تا كہ اچھا اور برا جدا جدا ہوجائے (مصباح) اور چونكہ آزمائش كا ہدف اچھے كو برے سے تميز دينا ہوتا ہے اس لئے اسے بھى ''فتنة'' كہاجاتا ہے كافروں كى آزمائش اس طرح ہے كہ نعمتوں كى كثرت انكى ذمہ داريوں ميں اضافہ كرديتى ہے_

نتيجةً جو كفار اپنى شرعى ذمہ دارى سے فرار كريں گے ان كے عذاب ميں اضافہ ہوجائيگا_

۱۵ _ خداتعالى ، انسانوں كى آزمائش كرنے والا ہے_لنفتنهم فيه

۱۶ _ نعمات الہى اور وسائل دنيا انسانوں كى آزمائش كا پيش خيمہ ہيں _متعنا به لنفتنهم فيه

۱۷ _ڈھيروں ثروت كافروں كيلئے عذاب آور اور ان كيلئے مشكلات كا باعث ہے_لتنفتنهملنفتنهم فيه

''فتنة'' كا ايك معنى عاب اور مشقت ہے (قاموس) كا لام،لام عاقبت ہے اورثروتمندى كے نتايج كو بيان كررہاہے_

۱۸ _ پيغمبراكر(ص) م كو خداتعالى كى جانب سے خصوصى رزق حاصل تھا_ورزق ربك خير

اس چيز كو مدنظر ركھتے ہوئے كہ دنيا كى تمام نعمتيں جيسا كہ ''متعنا'' كى تعبيراسے بيان كررہى ہے_ خداتعالى كا رزق اور اسكى عطا ہے پس پيغمبراكرم (ص) كو عطا كئے گئے رزق سے مراد مخصوص اور معنوى و اخروى قسم كا رزق ہوگا كلمہ''رب'' نيز اس كا ضمير مخاطب كى طرف مضاف ہونا اس نكتے كا قرينہ ہے_

۱۹ _ معنوى رزق اور نعمتيں سب دنياوى نعمتوں سے زيادہ ديرپا اور زيادہ قيمتى ہيںورزق ربك خير و أبقى

۲۰ _ خداتعالى كا پيغمبراكر(ص) م كو خاص رزق عطا كرنا اسكى آپ(ص) پر عنايات اور ربوبيت كا ايك جلوہ ہے_

ورزق ربك

۲۱ _ آخرت كى نعمتيں الہى رزق ہيں اور ان تك دسترسى توفيق الہى سے ہوتى ہے_ورزق ربك

عبارت ''رزق ربك'' كا''زهرة الحياة الدنيا'' كے مقابلے ميں آنا اسكے اخروى ہونے كو بيان كررہا ہے_

۲۲ _ پروردگار كے دائمى اور سراسر خير پر مبنى رزق كى طرف توجہ دوسروں كے دنياوى وسائل پر نظر يں جمانے سے دورى اختيار كرنے كا پيش خيمہ ہےولا تمدّنّ عينيك ورزق ربك خير و أبقى

۲۶۷

آزمائش:اس كا ذريعہ ۱۴، ۱۶; يہ مادى وسائل كے ساتھ ۱۴، ۱۶; يہ نعمت كے ساتھ ۱۶

اسلام:صدر اسلام كى تاريخ ۱، ۴; صدر اسلام ميں اقتصادى تفاوت ۳

آنحضرت(ص) :آپ(ص) كى شرعى ذمہ دارى ۲; آپ كى روزى ۱۸، ۲۰; آپ(ص) كى زندگى كا معيار ۳; آپ(ص) كے وسائل ۱۸; آپ(ص) اور كافروں كے مادى وسائل ۲; آپ(ص) كو نہى ۲

انسان:اس كا امتحان ۱۵; اسكے تمايلات كو برانگيختہ كرنا۹; انسانوں كا اقتصادى تفاوت ۱۲; اسكے لغزش كھانے كى جگہ ۱۳

ثروت:اس كا سرچشمہ ۱۱

ثروت مند لوگ:كافر ثروتمندوں كو اہميت دينا ۷

خداتعالى :اسكى نعمتوں كى قيمت ۱۹; اسكى آزمائش ۱۴، ۱۵; اس كا رازق ہونا ۱۸، ۲۱ ; اسكى عطا ۱۱; اسكى ربوبيت كى نشانياں ۲۰; اسكے نواہى ۲

دنيا پرست لوگ:ان سے بے اعتنائي كرنا ۶

دنياپرستي:اسكے اثرات ۸; اسكى مذمت ۵

دينى راہنما:انكا زہد ۶; انكى ذمہ دارى ۶، ۷

ذكر:روزى كے ذكر كے اثرات ۲۲

رشك:ناپسنديدہ رشك ۵

روزي:اسكى قدر و قيمت ۱۹; اس كا خير ہونا ۲۲; اخروى روزى ۲۱; اس كا سرچشمہ ۲۱

طمع:اسكے اثرات ۸; اسكى مذمت ۵; اسكے موانع ۲۲

عذاب:اس كا ذريعہ ۱۷; يہ ثروت كے ذريعے ۱۷

عمل:ناپسنديدہ عمل ۵

كفار:انكى ثروت كے اثرات ۱۷; انكى ثروت سے استفادہ كرنا ۷; انكا امتحان ۱۴; صدر اسلام كے كافروں كے مادى وسائل ۱; ان كے مادى وسائل سے بے اعتنائي كرنا ۲; صدر اسلام كے كافروں كى آسائش ۴; انكا عذاب ۱۷; صدر اسلام كے ثروتمند كافر۱

كفار مكہ:انكى زندگى كا معيار ۳

۲۶۸

گناہ:اس كا پيش خيمہ ۱۰

خدا كا لطف و كرم:يہ جنكے شامل حال ہے

معاشرتى طبقات:يہ صدر اسلام ميں ۱، ۳

مادى وسائل:انكى قدر و قيمت ۱۹; انكى جذابيت ۱۳; ان كا سرچشمہ ۱۱

مسلمان:صدر اسلام كے مسلمانوں ميں آسائش طلبى كا خطرہ ۴; صدر اسلام كے مسلمانوں كى زندگى كا معيار ۳

مقام رضا:اسكے موانع ۸

نعمت:اخروى نعمتيں ۲۱

نگاہ:اسكے اثرت ۹، ۱۰

آیت ۱۳۲

( وَأْمُرْ أَهْلَكَ بِالصَّلَاةِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا لَا نَسْأَلُكَ رِزْقاً نَّحْنُ نَرْزُقُكَ وَالْعَاقِبَةُ لِلتَّقْوَى )

اور اپنے اہل كو نماز كا حكم ديں اور اس پر صبر كريں ہم آپ سے رزق كے طلبگار نہيں ہيں ہم تو خود ہى رزق ديتے ہيں اور عاقبت صرف صاحبان تقوى كے لئے ہے (۱۳۲)

۱ _ اپنے گھروالوں اور رشتہ داروں كو نماز كا حكم دينا اور انہيں اسكى طرف دعوت دينا، پيغمبر(ص) اكرم كے الہى فرائض ميں شامل تھا_وامر أهلك بالصلوة

ہر شخص كے'' أھل''اس كے گھروالے اور اسكے رشتہ دار ہيں نيز جو لوگ انسان كے ساتھ زيادہ وابستگى ركھتے ہوں انہيں بھى ''أہل'' كہاجاتا ہے (لسان العرب) اور چونكہ سورہ طہ مكہ ميں نازل ہوئي ہے اس لئے آنحضرت(ص) كے مكہ ميں موجود رشتہ دار (حضرت علي(ع) ، جناب خديجہ(ع) اور ...) مدنظر ہيں _

۲ _ گھر والوں كى دينى اور معنوى تربيت اور انكى نگرانى كرنا ضرورى ہےوامر أهلك بالصلوة

۳ _ نماز قائم كرنے كى دائمى نگرانى اور اسكى پابندى كرنا پيغمبر اكرم(ص) كى شرعى ذمہ داريوں ميں سے تھا

و امر أهلك بالصلوة و اصطبر عليه ''اصطبار'' يعنى پورى طاقت كے ساتھ اپنے آپ كو صبر كا پابند بنايئےمفردات راغب)

۲۶۹

۴ _ نماز كى مسلسل نگرانى كرنا اور اسے قائم كرنے كى پابندى ضرورى ہے _وامر أهلك بالصلوة و اصطبر عليه

۵ _ نماز قائم كرنے كى پابندى كرنے كيلئے صبر اور نفس كو اس كا پابند بنانے كى ضرورت ہے_واصطبر عليه

۶ _ معاشرے كے رہنماؤں كے قول و فعل كے درميان ہم آہنگى ضرورى ہے_وامر أهلك بالصلوة و اصطبر عليه

۷ _ مبلغين كيلئے ضرورى ہے كہ وہ اپنى نصيحتوں پر عمل كرنے كيلئے زيادہ كوشش اور پائيدارى دكھائيں _

وامر اهلك بالصلوة و اصطبر عليه نماز پر بہت صبر كرنے كى ذمہ دارى گھروالوں كو اسكى نصيحت كرنے كے بعد مذكورہ نكتے كو بيان كررہى ہے

۸ _ زبانى دعوت كے ساتھ ساتھ عملى دعوت دينا بہى ضرورى ہےو امر أهلك بالصلوة و اصطبر عليه

دوسروں كو نماز كى دعوت دينے كے بعد نمازپر پابند رہنے كى ذمہ دارى ممكن ہے دوسروں كو نماز كى ترغيب دلانے ميں اسكى تأثير كى غرض سے ہو_

۹ _ مسلمان گھرانے ميں نماز كا وجود كافروں كے گھروں كے مال و آسائش كا بہترين بدل ہے_

متعنابه أزواجاً منهم و امر أهلك بالصلوة ان آيات ميں ''ازواج'' اور ''اہل'' كے كلمات ميں گھروالے مد نظر ہيں اور اس طرح يہ مسلمان گھرانے كے كافر گھرانے سے ممتاز ہونے كے لازم ہونے كو بيان كررہا ہے

۱۰ _ نماز قائم كرنا اور اسكى پابندى كرنا دنياپرستانہ تمايلات كے مقابلے ميں ايك بند اور دوسروں كى دنيا پر نظريں جمانے سے مانع ہے _ولا تمدّنّ عينيك وامر أهلك بالصلوة و اصطبر عليه

دنيا داروں كے مال و متاع پر نظريں لگانے سے منع كرنے كے بعد نماز كى پابندى كا حكم اس نكتے كو بيان كررہا ہے كہ نماز قائم كرنے اور اسكے دامن ميں وسعت دينے كے ساتھ دلوں كو كافروں كى ثروت سے موڑنے كے اسباب فراہم كئے جاسكتے ہيں _

۱۱ _ بارگاہ الہى ميں خاندان پيغمبر اكرم(ص) كا بلند مقام تھا_وامر أهلك بالصلوة

۱۲ _ نماز كى تشريع، بعثت كے پہلے سالوں ميں ہى ہوچكى تھي_وامر أهلك بالصلوة و اصطبر عليه

سورہ طہ پہلى مكى سورتوں ميں سے ہے اور لگتا ہے كہ نماز كا حكم اس سے پہلے صادر ہوچكا تھا اور اس سورت ميں اسكے قائم كرنے كى تلقين كى گئي ہے_

۲۷۰

۱۳ _ خداتعالى نے انسان پر توشہ زندگى اور رزق اكٹھا كرنے كى ذمہ دارى عائد نہيں كيلانسئلك رزق

اس آيت كريمہ ميں سوال سے مراد طلب تكليفى ہے اور ''رزقاً'' كو نكرہ لانا تعميم كيلئے ہے پس ''نحن نرزقك'' كے قرينے كو مد نظر ركھتے ہوئے''لانسئلك رزقاً'' كا معنى يوں بنے گا كہ ہم نے تم پر اپنے اور اپنے گھروالوں كا رزق آمادہ كرنے كى ذمہ دارى عائد نہيں كي

۱۴ _ خداتعالى سب كو روزى دينے والا اور انكى ضروريات پورى كرنے والا ہے_نحن نرزقك

۱۵ _ اس بات كى طرف توجہ كہ خداتعالى رازق ہے اور انسان توشہ زندگى كے فراہم كرنے كا ذمہ دار نہيں ہے عبادت و نماز والے فرائض كى انجام دہى اور اس پر كاربند رہنے كيلئے اسباب فراہم كرتى ہے_وامر اهلك بالصلوة لانسئلك رزقاً نحن نرزقك

۱۶ _ خداتعالى نے بندوں كو نماز كى جو ذمہ دارى دى ہے تو اس ميں اس نے اپنے لئے كسى فائدے كو مد نظر نہيں ركھا اور نہ ہى وہ اپنے لئے رزق اور توشہ حيات كے انتظام كى فكر ميں تھا_وامر أهلك بالصلوة لانسئلك رزق

جملہ '' لانسئلك رزقاً'' كا مطلب ممكن ہے يہ ہو كہ ہم تجھے نماز كا حكم دے كر تجھ سے رزق اور اپنى ضروريات كى فراہمى نہيں چاہتے _

۱۷ _ معاش كى فراہمى ميں سب انسانوں كے خداتعالى كا محتاج ہونے كى طرف توجہ، خداتعالى كے بندوں كى عبادت سے فائدہ اٹھانے كى فكر كو ختم كرديتى ہے_لانسئلك رزقاً نحن نرزقك

مذكورہ تفسير ميں جملہ'' نحن نرزقك'' ما قبل جملے كے لئے علت كے مقام پر ہے يعنى چونكہ تيرا رزق ہمارے ہاتھوں سے فراہم ہوتاہے لہذا واضح ہے كہ ہم نے تجھے فرمان نماز ديا ہے اس كے ذريعہ كوئي روزى حاصل نہيں كرنا چاہتے_

۱۸ _ معاش كى فراہمى كى فكر كو عبادت اور تبليغ كى انجام دہى ميں ركاوٹ نہيں بننا چاہيئے_و ا مر با هلك بالصلوة و اصطبر عليها نحن نرزقك

۱۹ _ اہل تقوى كا نيك انجام ہے_والعاقبة للتقوى ''التقوى '' كہہ كر ''اہل تقوى '' مراد لينا مبالغہ كے لئے ہے_

۲۰ _ نماز كا قيام، تقوى كا زمينہ فراہم كرنے كا سبب

۲۷۱

ہے_والعاقبة للتقوى

۲۱ _خداوند عالم انسان سے تقوى كى طرف ميلان چاہتاہے نہ كہ رزق كے ليے تلاش اس كا تقاضا ہے_

لا نسئلك رزقاً والعاقبة للتقوى

۲۲ _ نيك عاقبت سے دل لگانا اور فانى لذات سے ناخو ش ہونا ضرورى ہے_والعاقبة للتقوى

۲۳ _ دينا كى نعمتيں بالاخر اہل تقوى كے اختيار ميں دے دى جائيں گي_والعاقبة للتقوى

ممكن ہے كہ ''العاقبة'' ميں الف لام مضاف اليہ محذوف كا جانشين ہو كہ ماقبل آيت كو ملحوظ خاطر ركھتے ہوئے''عاقبة الحياة الدنيا'' مراد ہوگى اور نيز ممكن ہے كہ الف لام ''جنسيہ'' ہو كہ اس صورت ميں مراد نيك عاقبت ہوگى مذكورہ تفسير پہلے احتمال كى بناء پر ہے _

۲۴ _روى عن الباقر (ع) فى قوله تعالى '' و امر ا هلك بالصلوة و اصطير عليها'' قال ا مر اللّه نبيه ا ن يخصَّ ا هل بيته و ا هله دون الناس ليعلم الناس ا ن لا هله منزلة عنداللّه ليست لغيرهم فا مرهم مع الناس عامته ثم ا مرهم خاصة (۱) امام صادق (ع) سے خداوند عالم كے اس فرمان''و ا مر اهلك بالصلوة ...'' كے بارے ميں روايت منقول ہے كہ آپ (ع) نے ارشاد فرمايا كہ خداوند عالم نے اپنے پيغمبر (ص) كو يہ حكم ديا كہ اپنے خاندان كو لوگوں كے علاوہ ( نماز كے حكم كے سلسلہ ميں مخصوص قرار دے تا كہ لوگوں كو معلوم ہو كہ پيغمبر(ص) اكرم كے اہل بيت (ع) كا خداوند عالم كے نزديك ايسا مقام و مرتبہ ہے جو دوسروں كے لئے نہيں ہے پس خداوند عالم نے (ايك بار) پيغمبر(ص) اكرم كے اہل بيت (ع) كو لوگوں كے ساتھ حكم ديا ہے اور اس كے بعد بطور خاص ان كو مورد خطاب قرار دياہے_

اقدار: ۹//اميدواري:اس كے نيك انجام كى اميدوارى ۲۲

انسان:اس كى ذمہ دارى كا دائرہ كار ۱۳; اس كى ذمہ دارى كا كردار ۱۶

اہل بيت (ع) :ان كے فضائل ۲۴//تبليغ:اس كے موانع ۱۸

تقوى :اس كى اہميت ۲۱;اس كا سبب۲۰//خاندان:اس كى دينى تربيت كى اہميت ۲

خدا:اس كى منفعت رسانى كا خيال ۱۶،۱۷; اس كى نصيحتين ۲۱; اس كى روزى ۱۶; اس كى رازقيت ۱۴

____________________

۱ ) عوالى اللياتى ج۲ ص ۲۲ ح ۴۹ نورالثقلين ج۲ ص ۴۰۸ ح ۱۸۵_

۲۷۲

خود:اپنى بات پر عمل ۷//دعوت:عملى دعوت كى اہميت ۸; اس كى روش۸

دنياطلبي:اس كى موانع ۱۰//ذكر:خدا كى رازقيت كے آثار ۱۰ ; انسانوں كى نيازمندى كے آثار ۱۷

روايت: ۲۴

روزي:اس كا ذمہ دار۱۳ ; اس كا سرچشمہ ۱۴،۲۱//رہنما:ان كى بات ۶;ان كا عمل ۶; ان كى ذمہ دارى ۶

گفتگو:مل كے ساتھ سازگارى ۶

صبر:اس كا سبب ۱۰//لالچ:اس كے موانع ۱۰

عبادت:اس كا سبب ۱۵; اس كے موانع ۱۸

عقيدہ:اس كے باطل ہونے كے موانع ۱۷

كفار:انكے فلاح كى بے وقعتى ۹; ان كے مال كى بے وقعتى ۹

لذات:مادى لذات سے اعراض ۲۲

مبلغين:ان كى عملى دعوت ۷; ان كا صبر ۷; ان كى ذمہ دارى ۷

متيقن:ان كا نيك انجام ۱۹; ان كے فضائل ۲۳

محمد (ص) :ان كى خصوص تبليغ ۲۴; ان كى ذمہ دارى ۱،۳، ۲۴; ان كا خاندان ۱; ان كے خاندان كے مراتب ۱۱

تربيت كرنے والے افراد:انكى بات ۶; ا ن كا عمل ۶; ان كى ذمہ دارى ۶

مسلمان افراد:ان كى نماز كى اہميت ۹; ان كى نماز كى قدر و قيمت ۹

معاش:اس كى فراہمى كا كردار ۱۸

نعمت:نعمت كے شامل حال افراد ۲۳

نماز:اس كے قيام كے آثار ۲۰; اس كے آثار ۱۰; اس كے قيام كى اہميت ۴; اس كى تشريع كى تاريخ ۱۲; اس كے قيام كى دعوت ۲۴; اس كى دعوت ۱; اس كے قيام كا زمينہ ۱۵; اس كے قيام كے سلسلہ ميں صبر ۱۵; اس كى حفاظت ۳، ۴، ۵

۲۷۳

آیت ۱۳۳

( وَقَالُوا لَوْلَا يَأْتِينَا بِآيَةٍ مِّن رَّبِّهِ أَوَلَمْ تَأْتِهِم بَيِّنَةُ مَا فِي الصُّحُفِ الْأُولَى )

اور يہ لوگ كہتے ہيں كہ يہ اپنے رب كى طرف سے كوئي نشانى كيوں نہيں لاتے ہيں توكيا ان كے پاس اگلى كتابوں كى گواہى نہيں آئي ہے (۱۳۳)

۱ _ قرآن مجيد كے معجزہ ہونے كے منكرين نے رسول خدا(ص) كو اس لئے تنقيد كانشانہ بنايا كہ وہ معجزہ اقتراحى كو نہيں دكھاتے ہيں _و قالوا لو لا يا تينابأية من ربه

۲ _ رسول خدا(ص) كى رسالت كے منكرين نے قرآن مجيد كو معجزہ تسليم نہ كرتے ہوئے يہ خيال كيا كہ ان كے پاس كسى قسم كا كوئي معجزہ نہيں ہے_و قالوا لو لا يا تينا با ية من ربه ا و لم تا تهم بينة

۳ _ عصر بعثت كے كفارنے قرآن مجيد كے واضح و روشن اور دوسرى آسمانى كتابوں كے ساتھ سازگار ہونے كے باوجود اس كو نظر انداز كيا اوروہ اس كے معجزہ ہونے كا انكار كرتے تھے_لو لا يا تينابأية من ربه ا و لم تا تهم

۴ _ رسول خدا(ص) كے معجزات اور ان كى رسالت كے واضح دلائل كا انكار،آنحضرت(ص) كے لئے مشقت و رنج كا باعث تھا_فاصبر على ما يقولون و قالو لو لا يا تينا بأية

۵ _ عصر بعثت كے كفار،انسانوں پر ربوبيت الہى كا انكار كرتے تھے_من ربه چنانچہ خداوند عالم كى ربوبيت كا اعتراف كرتے تووہ يہ كہتے''ربّنا'' _

۶ _ قرآن مجيد دوسرى آسمانى كتابوں كى صداقت اور درستگى كے لئے واضح و روشن دليل ہے_ا و لم تا تهم بينة ما فى الصحف الا ولى

''ما فى الصحف الا ولى '' كا عنوان اس بات پر قرينہ ہے كہ''بينة'' سے مراد پيغمبر اكرم(ص) كى آسمانى كتاب قرآن مجيد كے جو دوسرى آسمانى كتابوں كى مانند معارف پر مشتمل ہے اور چونكہ يہ براہ راست خداوند عالم كى جانب سے نازل ہوئي ہے يہ ان كتابوں كے معارف كے صحيح ہونے كى دليل ہے_

۷ _قرآن مجيد، گذشتہ آسمانى كتابوں كے معارف پر مشتمل ہے_ا و لم تا تهم بينة ما فى الصحف الا ولى

قرآن مجيد كى اسى وصف كے ساتھ توصيف وہ دوسرى آسمانى كتابوں كے لئے بينہ ہے دو نكات كو روشن كر رہى ہے؟

۲۷۴

۱_قرآن كے مطالب اور دوسرى آسمانى كتابوں كے مطالب ايك دوسرے سے مشابہ ہيں _۲_ يہ كتاب دوسرى كتابوں كى صداقت پر شاہد واورگواہ ہے_

۸ _قرآن مجيد كے نزول سے قبل چند دوسرى آسمانى كتابوں كا نزول ہوچكا تھا_الصحف الا ولى

۹ _ عصرت بعثت كے كفار، گذشتہ آسمانى كتابوں كے معارف سے آگاہ تھے_قرا و لم تا تهم بينة ما فى الصحف الا ولى

۱۰ _قرآن مجيد آنحضرت (ص) كا معجزہ اور آنحضرت (ص) كى نبوت كى روشن دليل ہے_ا و لم تا تهم بينة ما فى الصحف الا ولى ''بيان '' كا معنى واضح اورانكشاف كرناہے (مصباح) اس بناء پر بينہ ايسى چيز كو كہا جاتاہے جو چيز واضح ہو كلمہ ''من قبلہ'' (ما قبل آيت ميں ) ميں مذكر كى ضمير اس كلمہ كى طرف لوٹ رہى ہے اور يہ اس پر دلالت كررہاہے كہ اس سے برہان و دليل كا ارادہ ہوا ہے(كشاف)

۱۱ _ قرآن مجيد كا نزول ربوبيت خداوند كا جلوہ ہے اوريہ رسالت كے اہداف كى پيشر فت كا وسيلہ ہے_

جملہ'' ا ولم تا تهم ''نے قرآن كو معجزہ كا مصداق قرار ديا ہے كہ خداوند عالم كو اسے پيغمبر اكرم (ص) پر نازل كرنا چاہيے ا ور پيغمبر اكرم(ص) پر ربوبيت خداوندى كو شامل ہے جو آنحضرت(ص) كى رسالت كى ساخت و بنياد كے رشد و تربيت كے معنى ميں ہے_

۱۲ _ قرآن مجيد، انسانوں پر ربوبيت خداوندى كى واضح واورروشن دليل ہے_با ية من ربه ا و لم تا تهم

۱۳ _ قرآن مجيد الہى آيات ميں سے ہے_با ية من ربه أو لم تا تهم

۱۴ _ خداوند عالم كى طرف سے روشن و واضح دلائل كا پيش كرنے كا سرچشمہ ربوبيت خداوندى ہے_

با ية من ربه ا و لم تا تهم بينة ما فى الصحف الا ولى

۱۵ _ اسلام كى بنياد واضح و روشن دليل پر ہے_ا و لم تا تهم بينة ما فى الحف الا ولى

۱۶ _اپنے عقائداوردينى نظريوں كو دليل اور برہان پر استواركرنا ضرورى ہے_ا و لم تا تهم بينة ما فى الصحف الا ولى اسلام:صدر اسلام كى تاريخ ۳; اس كے دلائل ۱۵; اس كا منطقى ہونا ۱۵; اس كى خصوصيات ۱۵

انبياء:

۲۷۵

ان كى بينات ۱۴

انسان:انسانوں كے تربيت كرنے والے ۱۲

خدا:اس كى ربوبيت كے آثار ۱۴; اس كى ربوبيت كے دلائل ۱۲; اس كى ربوبيت كى تكذيب كرنے والے ۵; اس كى ربوبيت كى نشانياں

قرآن:اس كو جھٹلانے والوں كا اعتراض ۱; اس كا معجزہ ۱۰; اس كى تعليمات ۷; اس كو جھٹلانے والوں كے تقاضا ۱;اسكے اعجاز كو جھٹلانے والے ۳; اس كا كردار ۶،۱۰، ۱۱،۱۲; اس كى رہبانيت ۱۱; اس كى خصوصيات ۱۱،۱۲

كفار:صدر اسلام ميں ان كا علم ۹;صدر اسلام اور آسمانى كتابيں ۹; صدر اسلام كا كفر ۵; صدر اسلا م كے كفار كى ہٹ دھرمى ۳

آسمانى كتابيں :اسمانى كتابوں كى تاريخ ۸; ان كى تصديق ۶،۱; اس كا توافق ۶،۷

محمد(ص) :ان پر اعتراض ۱; ان كى بينات اور دلائل۱; ان كو جھٹلانے والوں كى فكر ۲; ان كے معجزہ كى تكذيب ۲،۴; ان كى نبوت كے دلائل ۱۰; ان كى اذيت كے عوامل ۴; ان كے اہداف و مقاصد ميں مؤثر عوامل ۱۱; ان كا معجزہ۷

معجزہ:جديد معجزہ كا ردّ

آیت ۱۳۴

( وَلَوْ أَنَّا أَهْلَكْنَاهُم بِعَذَابٍ مِّن قَبْلِهِ لَقَالُوا رَبَّنَا لَوْلَا أَرْسَلْتَ إِلَيْنَا رَسُولاً فَنَتَّبِعَ آيَاتِكَ مِن قَبْلِ أَن نَّذِلَّ وَنَخْزَى )

اور اگر ہم نے رسول سے پہلے انھيں عذاب كر كے ہلاك كرديا ہوتا تو يہ كہتے پروردگار تونے ہمارى طرف رسول كيوں نہيں بھيجا كہ ہم ذليل اور رسوا ہونے س پہلے ہى تيرى نشانيوں كا اتباع كرليتے (۱۳۴)

۱ _ انبياء كى بعثت اور آيات و معجزات كے نزول كا مقصد_اتمام حجت اور ہر قسم كے اعتراض كى حقانيت_

كو ختم كرنا ہے_و لو ا نا ا هلكنهم بعذاب من قبله لقالوا ربنا لو لا ا رسلت

''من'' كى ضمير سے مراد رسول اكرم (ص) ہيں اور اس پر قرينہ ''لو لا ا رسلت'' ہے اور ممكن ہے يہ ''بينة'' ( ماقبل آيت ميں ) سے متعلق ہو اگر چہ كلمہ ''بينہ'' مو نث ہے_ليكن اس لحاظ سے كہ يہ برہان كے معنى ميں ہے ضمير مذكر كو اس كى طرف لوٹاناصحيح ہے_

۲۷۶

۲ _ خداتعالى ، انبياء كو بھيجے بغير اور لوگوں پر حجت تمام كئے بغير انہيں عذاب نہيں ديتا _و لو أنا أهلكنا هم بعذاب من قبله لقالوا ربنا لو لا أرسلت ''لو أنا ...'' ميں ''لو'' امتناع كيلئے ہے يعنى اگر انبياء كو بھيجے اور حجت تمام كئے بغير عذاب ديتے_ جو يقينا نہيں كريں گے_ تو اعتراض كى گنجائش ہوتى _

۳ _ بيان اورا تمام حجت سے پہلے سزا دينا ناروا كام ہےو لو أنّا لو لا أرسلت الينا رسول

اگر چہ اس آيت ميں''لؤلا أرسلت'' كافروں كى زبان سے نقل كيا گيا ہے اعتراض ہے ليكن اس لحاظ سے كہ اس فرضى اعتراض پر اثر مترتب كيا گياہے اس سے لگتا ہے كہ يہ اعتراض قابل قبول ہے اور اتمام حجت كرنے كيلئے انبياء كو بھيجنا ضرورى ہے_

۴ _ انبياء الہى كى تعليمات، مشركين پر اتمام حجت كيلئے كافى ہيں اگر چہ انہوں نے اپنى رسالت كو معجزات كے ساتھ ثابت نہ كيا ہو_و لو أنّا أهلكنا هم لقالوا ربنا لو لا أرسلت إلينا رسولاً فنتبع ء اى تك

خداتعالى نے انبياء كے آنے سے پہلے مشركين كے عذاب كيلئے قابل قبول اعتراض كو ''آيات الہى سے محروميت '' ميں منحصر كيا ہے يعنى شرك كے بطلان كو سمجھنے كيلئے صرف انبياء كا آنا اورتعليمات الہى كو لانا كافى ہے نہ يہ كہ وہ آيات خدا كو سننے كے بعد معجزے كے صادر ہونے كے منتظر رہيں تاكہ شرك كے بطلان كو سمجھ سكيں _

۵ _ آيات قرآن، منكرين رسالت پر خداتعالى كى طرف سے اتمام حجت _أوَلم تأتهم بينة و لو أنا أهلكنا هم بعذاب من قبله فنتبع ء اى تك

۶ _ بعض لوگوں كا ہدايت كو قبول نہ كرنا انكى طرف پيغمبر الہى كو بھيجنے سے مانع نہيں ہے_أوَلم تأتهم و لو أنّا أهلكنا هم لو لا أرسلت

۷ _ رسالت انبياء كے منكرين، آيات الہى كو حاصل كرنے كے بعد سخت سزا اور تہس نہس كردينے والے عذاب كے ساتھ نابودى كے مستحق ہيں _و لو أنّا اهلكنا هم بعذاب من قبله لقالوا فنتبع ء اى تك عذاب نكرہ ہے اور اس كا نامعلوم ہونا اسكى شدت اور سختى سے حاكى ہے اس طرح كہ اسكى حقيقت كو مخاطب كيلئے ترسيم نہيں كيا جاسكتا_

۸ _ بعثت پيغمبراكرم(ص) سے پہلے اہل مكہ، انبياء الہى كى تعليمات سے محروم تھے_من قبله لقالوا ربنا لو لا أرسلت إلينا رسولًا فنتبع ء ايتك

۹ _ حجت تمام كرنا اور آيات الہى كے ابلاغ كيلئے انبياء كو بھيجنا ،خداتعالى كى ربوبيت كا تقاضا ہے_

۲۷۷

ربنا لو لا أرسلت الينا رسولا فنتبع ء ايتك

۱۰ _ عذاب ميں گرفتار لوگ، خداتعالى كى ربوبيت كا ادراك اور اس كا اعتراف كريں گے _و لو أنا أهلكنا هم لقالوا ربن

۱۱ _ انبياء كو بھيجنا انسان كيلئے ہدايت اور آيات الہى تك دسترسى كى راہ ہموار كرتاہے _لو لا أرسلت إلينا رسولًا فنتبع ء اى تك

۱۲ _ انبياء الہى كے پيروكار، مہلك عذاب سے محفوظ ہوں گے _و لو أنا أهلكنا هم لقالوا ربنا لولا أرسلت الينا رسولًا فنتبع ء اى تك

۱۳ _ تاريخ كے تحولات اور امتوں كى تقدير پر ارادہ الہى كى حكمرانى ہے _و لو أنا أهلكنا هم

۱۴ _ عذاب الہى كے ذريعے ہلاكت، ذلت خوارى كا موجب ہے_و لو أنا أهلكنا هم بعذاب من قبله لقالوا أن نذل و نخزى ذلت كا معنى ہے كمزورى اور حقارت (مصباح) اور''خزي'' نرمي، رسوائي، شرمندگى اور ہلاكت كے معنوں ميں استعمال ہوتا ہے (لسان العرب)

۱۵ _ انبياء اور آيات الہى كى پيروي، عزت و بزرگى كا موجب ہے_لو لا أرسلت فنتبع أى تك من قبل أن نذل و نخزى آيات و انبياء الہى كى پيروى كى صورت ميں ذلت و خزى كا منتفى ہونا صاحب عزت و بزرگى ہونے كے برابر ہے _

آيات خدا:انكى تبليغ ۹; ان كے نزول كا پيش خيمہ ۱۱; ان كے نزول كا فلسفہ ۱

اتمام حجت:اسكے اثرات ۲

اقرار:ربوبيت خدا كا اقرار ۱۰

ابنيائ(ع) :انكى پيروى كے اثرات ۱۵; ان كے ذريعے اتمام حجت ۱; انكى تعليمات كى اہميت ۴; انكى نبوت كے اہميت ۶; انكى تقدير ميں مؤثر عوامل ۱۳; انكى نبوت كا فلسفہ ۱; انہيں جھٹلانے والوں كى سزا ۷; ان كے پيروكاروں كا محفوظ ہونا ۱۲; انكى نبوت كا سرچشمہ ۹; ان كا نقش و كردار ۲، ۹، ۱۱; انكا ہدايت كرنا ۱۱

تاريخ:اسكے تحولات كا سرچشمہ ۱۳

خداتعالى :اسكى ربوبيت كے اثرات ۹; اسكے عذاب كے اثرات ۱۴; اس كا اتمام حجت كرنا۱، ۴، ۵; اسكے ارادے كى حكمرانى ۱۳; اسكے اتمام حجت كا سرچشمہ ۹

۲۷۸

دين:اسكے ساتھ اتمام حجت ۴

ذلت:اسكے عوامل ۱۴

عذاب:اہل عذاب كا اقرار ۱۰; تہس نہس كردينے والا عذاب ۷; اسكے درجے ۷; مہلك عذاب سے محفوظ ہونا ۱۲

عزت:اسكے عوامل ۱۵

قرآن كريم:اسكے ساتھ اتمام حجت ۵; اس كا كردار ۵

قواعد فقہيہ ۳

سزا:بيان كے بغير سزا كا ناپسنديدہ ہونا ۳

آنحضرت(ص) :آپ(ص) كا نقش و كردار ۸

مشركين:ان پر اتمام حجت ۴

معجزہ:اسكے ساتھ اتمام حجت۱; اس كا فلسفہ ۱

مكہ:اس ميں انبيائ۸; اہل مكہ كى محروميت ۸

نبوت:سے جھٹلانے والوں پر اتمام حجت كرنا ۵

ہدايت:اس كا پيش خيمہ ۱۱; اسے قبول نہ كرنے والوں كا نقش و كردار ۶

آیت ۱۳۵

( قُلْ كُلٌّ مُّتَرَبِّصٌ فَتَرَبَّصُوا فَسَتَعْلَمُونَ مَنْ أَصْحَابُ الصِّرَاطِ السَّوِيِّ وَمَنِ اهْتَدَى )

آپ كہہ ديجئے كہ سب اپنے اپنے وقت كا انتظار كر رہے ہيں تم بھى انتظار كرو عنقريب معلوم ہوجائے گا كہ كون لوگ سيدھے راستہ پر چلنے ولاے اور ہدايت يافتہ ہيں (۱۳۵)

۱ _ كفار مكہ پر اتمام حجت كے بعد آيات الہى كے انكار كى وجہ سے نا بودى اور عذاب كے مستحق تھے_

و لو أنّا أهلكنا هم فستعلمون من أصحب الصراط السوى و من اهتدى

۲۷۹

۲ _ كفار كو خداتعالى كى جانب سے عذاب كے ساتھ ہلاكت كے خطرے سے ڈرانا، پيغمبراكرم(ص) كے فرائض ميں سے تھا_ولو أنّا أهلكنا هم بعذاب قل كل متربص فتربصوا فستعلمون

''تربص'' كا معنى ہے انتظار (مصباح) پيغمبر اكرم(ص) كو ''قل'' كا فرمان اس بات كو بيان كررہا ہے كہ كفار كو اس نكتے كا ابلاغ آنخضرت(ص) كا فريضہ تھا

۳ _ پيغمبراكرم(ص) عصر بعثت كے كفار كے ايك گروہ كے ہدايت حاصل كرنے سے مايوس تھے_

قل كل متربص فتربصوا فستعلمون

۴ _ خداتعالى كى طرف سے كافروں كو ہلاكت اور عذاب كى دھمكى كا صدر اسلام كے كفار كى طرف سے مذاق اڑايا جانا _و لو أنّا أهلكناهم بعذاب قل كل متربص چونكہ گذشتہ آيات عذاب كے نازل ہونے، اس ميں تأخير كے اسباب نيز اس پر حاكم سنن الہى كے بارے ميں تھيں لگتا ہے جملہ '' قل كل متربص'' عذاب كے وعدے كے بارے ميں كافروں كے مذاق كا جواب ہے يعنى تم لوگ ہمارے بارے ميں بڑے كڑے وقت كى پيش گوئي كرتے ہو اور جس كى ہميں تمہارے بارے ميں توقع ہے اس سے تم لوگ خوفزدہ نہيں ہو اور اسے كالعدم سمجھتے ہو_ وقت گزرنے دو سب كو حقيقت كا پتا چل جائيگا_

۵ _ وقت كا گزرنا اور كفار و مؤمنين كے انجام كا مشاہدہ، بعض كافروں كيلئے حقائق كے منكشف ہونے كا واحد راستہ ہے_قل كل متربص فتربصوا فستعلمون انتظار كا حكم بتاتا ہے كہ مخاطبين كے متنبہ ہونے كى اميد نہيں ہے اور صرف وقت كا گزرنا ہى ان كيلئے حقيقت كو منكشف كرسكتا ہے_

۶ _ تاريخ، دين الہى كى حقانيت كا مظہر اور اسكى تجلى گاہ ہےفتربصوا فستعلمون من اصحاب الصراط السوي

مستقبل كا حقائق كے قطعى ظہور كے وقت كے عنوان سے تذكرہ كرنا اس نكتے كو بيان كر رہا ہے كہ تاريخ احقاق حق كا مناسب ذريعہ ہے كہ جو حقائق كو حوادث و واقعات كے تناسب سے مرحلہ ظہور ميں پہنچاتى ہے_

۷ _ صدر اسلام كے كفار، اسلام كى نابودى اور شكست كے انتظار ميں تھے_قل كل متربص فتربصوا فستعلمون

۸ _ انبيا(ع) اور آيات الہى كى تكذيب كرنے والوں كى نابودى ايسى سزا ہے كہ ہر آن ميں اور ہر قسم كے حالات ميں اسكے وقوع پذير ہونے كى توقع ہے_ولو أنّا أهلكنا هم بعذاب فتربصوا فستعلمون

۹ _ اسلام اور خداتعالى كے وعدوں كى حقانيت ہميشہ مخفى نہيں رہے گى اور مستقل قريب ميں ہى سب كيلئے واضح ہوجائيگى _فتربصوا فستعلمون من أصحب الصراط السوي

۲۸۰

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750