تفسير راہنما جلد ۱۱

تفسير راہنما 7%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 750

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 750 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 219132 / ڈاؤنلوڈ: 3020
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

پھراحمد بن اسحاق نے کہا : اے ہمارے مولا کوئی علامت ہے کہ جس سے میرا دل مطمئن ہو جائے۔

اس وقت وہ بچہ فصیح عربی میں یوں گویا ہوا:

"میں اللہ کی زمین میں اس کا ذخیرہ (بقیۃ اللہ) ہوں اور اس کے دشمنوں سے انتقام لینے والا ہوں۔اے احمد بن اسحاق آنکھوں سے دیکھنے کے بعد کوئی نشانی طلب نہ کرو۔"(۱)

____________________

۱:- کمال الدین ۲/۳۴۸

۸۱

غیبت امام مہدی عجل اللہ فرجہ الشریف کے بارے میں بارہ احادیث

توفیق پروردگار کے ساتھ اور وہی میرے لیے کافی ہے۔

اس مقام پر مؤلف کتاب ھذا بندہ گناہگار و خطاکار محمد تقی بن عبدالرزاق مناسب بلکہ لازم سمجھتا ہے کہ امام ؑ کی غیبت سے متعلقہ آئمہ اہل بیتؑ کی بارہ احادیث نقل کرے تاکہ یہ ہر خاص و عام کے لیے مکمل نفع بخش ہوں اور اس حقیر کے لیے ذخیرہ آخرت قرار پائیں۔یہ احادیث شیخ صدوق ؒ(۱) کی کتاب کمال الدین وتمام النعمۃ سے نقل کر رہا ہوں۔اور پر امید ہوں کہ یہ عمل حضرت حجت ؑ کی خدمت اقدس میں پیش ہو۔ان شاء اللہ تعالی۔

____________________

۱:- ان کا نام محمد بن علی بن الحسین بن موسیٰ بن بابویہ قمی تھا۔ان کی ولادت کی بشارت خود حضرت حجت نے دی تھی۔وفات ۳۸۱ ھجری میں ہوئی۔ان کی قبر اطراف تہران میں ہے۔ان کی عظمت بیان کی محتاج نہیں۔انہوں نے تقریبا تین سو کتابیں لکھیں۔

۸۲

پہلی حدیث:۔

رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

"مہدیؑ میری اولاد میں سے ہیں۔ان کا نام میرا نام اور ان کی کنیت میری کنیت ہے۔وہ لوگوں میں سےسب سے زیادہ خلق و خلق میں میرے مشابہ ہیں۔ان کے لیے ایک ایسی غیبت ہوگی کہ جس پر حیرانی و سرگردانی میں امتیں گمراہ ہوجائیں گی۔پھر وہ شہاب ثاقب کی طرح ظاہر ہوں گے اور زمین کو عدل و انصاف سے یوں بھر دیں گے جس طرح پہلے وہ ظلم و جور سے بھری پڑی ہوگی۔"(۱)

دوسری حدیث:۔

امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیھما السلام نےفرمایا:

اصبغ بن نباتہ کہتے ہیں کہ میں امیرالمومنین ؑ کی خدمت میں شرف یاب ہوا تو دیکھا کہ آپؑ کسی فکر میں ڈوبے ہوئے زمین کرید رہے تھے۔میں نے عرض کیا:

"اے ا میرالمومنین ؑ میں نے آج تک آپ کو اس قدر فکر مند نہیں پایا کیا دنیا کی کوئی فکر لاحق ہے؟"

____________________

۱:- کمال الدین ۱/۲۸۶ ح۱ اور ۴

۸۳

فرمایا:

"نہیں خدا کی قسم میں نے اس دنیا سے ایک دن بھی لگاؤ نہیں رکھا۔میں تو اس مولودؑ کے بارے سوچ رہا ہوں جو میری نسل سے ہوں گے اور میرے بعد گیارہویں فرد ہوں گے۔وہ مہدیؑ ہیں جو زمین کو عدل و انصاف سے یوں بھر دیں گے جس طرح وہ ظلم و جور سے بھری پڑی ہوگی۔ان کے لیے ایک ایسی غیبت ہوگی کہ جس میں کچھ اقوام گمراہ ہوجائیں گی اور کچھ ہدایت پائیں گی۔"

میں نے عرض کیا : "یا امیرالمومنین ؑ کیا ایسا ہوگا؟"

فرمایا :

"ہاں یہ ہو کر رہے گا۔"(۱)

تیسری حدیث:۔

حضرت امام حسن مجتبی ٰعلیہ السلام نےفرمایا:

"ہم اہل بیت ؑ میں سے کوئی ایسا نہیں جس کے گلے میں طاغوت کے ساتھ مصلحت کا طوق نہ ہو سوائے ہمارے قائم ؑ کے جو روح اللہ عیسی ابن مریم کو نماز پڑھائیں گے۔اللہ تعالی ان کی ولادت کو مخفی رکھے گا۔اور ان پہ غیبت کا پردہ

____________________

۱:- کمال الدین ۱/۲۸۹ ح۱

۸۴

ڈال دے گا۔تاکہ جب وہ ظہور کریں تو ان کی گردن پہ کسی کی بیعت کا طوق نہ ہو۔وہ میرے بھائی حسینؑ ابن سیدۃ النساء ؑ کی اولاد میں سے نویں ہونگے۔اللہ ان کی غیبت میں ان کی عمر کو طول دے گا۔پھر اپنی قدرت سے انہیں ایک چالیس سالہ جوان کی مانند ظاہر فرمائے گا۔"(۱)

چوتھی حدیث:۔

حضرت امام حسین علیہ السلام نے فرمایا:

"ا س امت کا قائم میری اولاد میں سے میرےنویں فرزند ہو ں گے۔اور وہ صاحب ٖغیبت ہوں گے۔ان کی میراث تقسیم کی جائے گی جبکہ وہ زندہ ہوں گے۔"(۲)

پانچویں حدیث:۔

حضرت امام ذین العابدین علیہ السلام نے فرمایا :

آپ ؑ نے ابو خالد کابلی سے فرمایا:

"۔۔۔پھر اس کے ولئ خدا اور رسول خداؐ کے اوصیاء میں سے بارہویں کے لیے ایک طویل غیبت کا زمانہ ہوگا۔اے ابو خالد! ان کی ٖغیبت کے زمانہ میں

____________________

۱:- کمال الدین ۱/۳۱۶ ح۲

۲:- کمال الدین ۱/۳۱۷ ح۲

۸۵

وہ لوگ جو ان کی امامت کے قائل اور ان کے ظہور کے منتظر ہوں گے وہ تمام زمانے کے لوگوں سے افضل ہوں گے۔کیونکہ اللہ انہیں علم و معرفت سے نوازے گا اور ان کے نزدیک غیبت بھی مشاہدہ کی طرح ہوگی۔ان کا مقام ان مجاہدین کے برابر ہوگا جنہوں نے رسول خداؐ کی اقتداء میں تلوار سے جہاد کیا۔یہی لوگ حقیقتا ہمارے مخلص اور سچے شیعہ ہوں گے۔وہ لوگوں کو دین خدا کی طرف ظاہرا اور پوشیدہ طور پر دعوت دیں گے۔"(۱)

چھٹی حدیث:۔

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا:

"وہ مہدی ؑ عترت میں سے ہوں گے،ان کے لیے ایسی غیبت اور حیرت و سرگردانی ہو گی کہ جس میں کچھ اقوام گمراہ ہو جائیں گی اور کچھ ہدایت پائیں گی۔"(۲)

ساتویں حدیث:۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:

عبد اللہ ابن ابی یعفور روایت کرتے ہیں کہ امام جعفر صادقؑ نے فرمایا:

"جس نے میرے آباء و اولاد میں سے تمام آئمہ کا اقرار کیا اور مہدی ؑ کا انکار کیا تو یہ ایسے ہی ہے جیسے اس نے تمام انبیاء ؑکا اقرار کیا اور محمد ؐ کا انکار کیا۔"

____________________

۱:- کمال الدین ۱/۳۲۰ ح۲

۲:- کمال الدین ۱/۳۳۰ ح۱۴

۸۶

میں نے عرض کیا اے میرے آقا!آپ کی اولاد میں سے مہدیؑ کون ہوں گے؟

فرمایا:

" ہماری نسل سے ساتویں پشت سے پانچویں ہوں گے۔وہ تمہاری نظروں سے غائب رہیں گے اور تمہارے لیے ان کا نام لینا جائز نہ ہوگا۔"(۱)

آٹھویں حدیث:۔

حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام نے فرمایا:

"جب ساتویں کی اولاد سے پانچویں غائب ہو جائیں تو خدا کے لیے تم اپنے دین کی حفاظت کرنا کوئی تمہیں دین سے برگشتہ نہ کرے۔اے میرے فرزند! اس صاحب امر کے لیے غیبت ضروری ہے۔یہاں تک کہ وہ لوگ بھی اس سے پلٹ جائیں جو کہا کرتے تھے کہ یہ اللہ کی طرف سے مخلوق کے لیے آزمائش ہے۔"(۲)

نویں حدیث:۔

حضرت امام علی رضا علیہ السلام نے فرمایا:

____________________

۱:- کمال الدین ۱/۳۳۷ ح۱۲

۲:- کمال الدین ۱/۳۳۸ ح۱

۸۷

حضرت امام علی رضاؑ ؑ سے پوچھا گیا کہ اے فرزند رسول ؐ آپ اہل بیت ؑ میں سے قائمؑ کون ہے؟

فرمایا:

"میری اولاد میں سے چوتھا ، سیدۃ النساء کا فرزند ہوگا۔اللہ ان کے ذریعے زمین کو ہر ظلم و ستم سے پاک و پاکیزہ کر دے گا۔لوگ ان کی ولادت میں شک کریں گے۔وہ اپنے ظہور سے پہلے غیبت میں رہیں گے۔پس جب وہ ظہور کریں گے تو زمین ان کے نور سے چمک اٹھے گی۔اور وہ لوگوں کے درمیان میزان عدل قائم کریں گے پھر کوئی کسی پر ظلم نہیں کرے گا۔ان کے لیے فاصلے سمٹ جائیں گے اور ان کا کوئی سایہ نہ ہوگا۔اور ان کے لیے آسمان سے ایک منادی ندا دے گا کہ جسے تمام اہل زمین سنیں گے کہ:

"آگاہ ہوجاؤکہ حجت خداؑ بیت اللہ میں ظہور فرما چکے ہیں پس ان کی اتباع کرو۔حق ان کے ساتھ ہے اور ان میں ہے۔"(۱)

دسویں حدیث:۔

حضرت امام محمد تقی علیہ السلام نے فرمایا :

____________________

۱:- کمال الدین ۳۷۱ ح۵

۸۸

آپؑ سےحضرت عبدالعظیم حسنی نے عرض کیا: میں سمجھتا ہوں اہل بیتؑ محمد ؐ ؐمیں سے آپ ہی وہ قائم ہیں جو زمین کو عدل و انصاف سے یوں بھر دیں گے جس طرح وہ ظلم و جور سے بھری پڑی ہوگی۔

امام ؑ نے فرمایا:

"اے ابوالقاسم! ہم میں سے ہرایک امام اللہ کی طرف سے قائم ہے اور دین خدا کی طرف ہدایت کرنے والا ہے۔لیکن وہ قائم ؑ جو زمین کو کافروں اور منکروں سے پاک کرے گا اور زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا وہ امام ہوگا کہ جس کی ولادت لوگوں سے مخفی ہوگی۔ وہ لوگوں کی نظروں سے غائب ہوں گے اور ان پر ان کا نام لینا حرام ہوگا۔ان کا نام و کنیت وہی رسول اللہ ؐ والی ہو گی۔ ان کے لیے فاصلے سمٹ جائیں گے ،ہر سختی اور مشکل ان کے لیے آسان ہوجائےگی۔ اور اہل بدر کی تعداد کے برابر ۳۱۳ اصحاب زمین کے کونے کونے سے ان کے لیے جمع ہوجائیں گے۔ اور یہ اللہ کا ارشاد ہے کہ :

اَيْنَ مَا تَكُـوْنُـوْا يَاْتِ بِكُمُ اللّـٰهُ جَـمِيْعًا ۚ اِنَّ اللّـٰهَ عَلٰى كُلِّ شَىْءٍ قَدِيْرٌ (۱)

____________________

۱:- سورۃ بقرۃ :۱۴۸

۸۹

پس جب یہ اہل اخلاص ان کے لیے جمع ہوجائیں گے تو اللہ اپنے امر کوظاہرکردے گا۔اور جب دس ہزار کا لشکر جمع ہو جائے گا تو اللہ کے حکم سے خروج کریں گے۔اور وہ اس وقت تک دشمنان خدا کو قتل کریں گے جب تک اللہ راضی نہ ہو جائے۔

عبد العظیم کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا :مولا یہ کیسے پتا چلے گا کہ اللہ راضی ہوگیا ہے؟

فرمایا:

اللہ ان کے دل میں رحم ڈال دے گا اور جب وہ مدینہ میں داخل ہوں گے تو لات و عزی کو نکال کر جلا دیں گے۔"

مصنف : میرے نزدیک لات سے مراد پہلا ظالم اور عزی سے مراد دوسرا ظالم ہے۔

گیارہویں حدیث:۔

حضرت امام علی نقی علیہ السلام نے فرمایا:

"میرے بعد میرا بیٹا حسن(عسکری) امام ہوگا۔اور ان کے بعد کیا ہی امامت ہوگی ۔ میں نے پوچھا میں آپ پر قربان جاؤں وہ کیوں؟

فرمایا :

۹۰

کیونکہ تم انہیں نہیں دیکھ پاؤ گے۔اور تمہارے لیے ان کانام لینا جائز نہ ہوگا۔میں نے عرض کیا ہم کیسے ان کا تذکرہ کریں۔ فرمایا: یوں کہو حجت آلؑ محمدؐ۔"(۱)

بارہویں حدیث:۔

حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام نے فرمایا:

حضرت امام حسن عسکری ؑ سے احمد بن اسحاق نے پوچھا: ان میں خضر و ذوالقرنین کی کون سی سنت ہوگی؟

فرمایا: "اے احمد ! لمبی غیبت۔ عرض کیا : فرزند رسول ؐ !کیا ان کی غیبت بہت طولانی ہوگی؟ فرمایا:ہاں قسم بخدا،یہاں تک کہ اس امر پرایمان رکھنے والوں میں سے اکثر اپنی بات سے پھر جائیں گے۔اور فقط وہی بچے گا جس سے اللہ نے ان کی ولایت کا عہد لے رکھا ہےاور اس کےدل میں ایمان جاگزیں کیا ہےاور اپنی روح سے اس کی تائید کی ہے۔"(۲)

____________________

۱:- کمال الدین ۲/۳۸۱ ح۵

۲:- یہ حدیث فوائد دعا میں چودہویں فائدہ میں ذکر کی گئی حدیث کا ابتدائی حصہ ہے۔

۹۱

فصل سوم

پانچ علامات ظہور

حضرت امام مہدی عجل اللہ فرجہ الشریف کا ظہور کسی وقت کے ساتھ معین اور خاص نہیں ہے۔غیبت نعمانی میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ آپ نے ابو بصیر سے فرمایا:

إِنَّا أَهْلُ بَيْتٍ لاَ نُوَقِّتُ وَ قَدْ قَالَ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ كَذَبَ اَلْوَقَّاتُونَ يَا أَبَا مُحَمَّدٍ إِنَّ قُدَّامَ هَذَا اَلْأَمْرِ خَمْسَ عَلاَمَاتٍ أُولاَهُنَّ اَلنِّدَاءُ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ وَ خُرُوجُ اَلسُّفْيَانِيِّ وَ خُرُوجُ اَلْخُرَاسَانِيِّ وَ قَتْلُ اَلنَّفْسِ اَلزَّكِيَّةِ وَ خَسْفٌ بِالْبَيْدَاءِ

"ہم اہل بیت ؑ وقت مقرر نہیں کر رہے۔ حضرت رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا: کذب الوقاتون۔ ظہور کا وقت مقرر کرنے والے جھوٹے ہیں۔اے ابو محمد اس امر (ظہور) کی پانچ علامتیں ہیں:

۹۲

ان میں سے پہلی ماہ رمضان میں آسمانی نداء کا آنا ،دوسری سفیانی کا خروج، تیسری خراسانی کا خروج، چوتھی نفس زکیہ کا قتل اور پانچویں خسف بیداء یعنی وادی بیداء کا دھنسنا۔"(۱)

عریضہ بحضور حضرت صاحب الزمان عجل اللہ فرجہ الشریف:۔

یہاں پر ہم بحار الانوار سے وہ عریضۃ نقل کر رہے ہیں کہ جسے حضرت حجت کی بارگاہ میں بھیجا جاتا ہے۔

یہ عریضہ لکھ کر کسی پاک مٹی میں ڈال کر کسی نہر یا پانی کے چشمہ میں ڈالا جائے اور ڈالتے وقت یہ کہیں

يَا سَيّدي يا أبا القاسم يا حُسين بن رُوْح سَلام عَلَيكَ اَشهدُ أَنَّ وفاتَكَ فِي سَبِيلِ اللهِ وَاَنَكَ حيٌّ عِندَ اللهِ مرزوقٌ وقَد خاطَبتُكَ في حَياتِكَ الّتي لَكَ عَندَ اللهِ عَزَّ وجَلّ وهَذهِ رُقعَتي وحاجَتي إلى مَولاَنا عَليهِ السَلام فَسَلّمها اِليهِ فأنْتَ الثِقة الاَمينِ .

____________________

۱:- غیبۃ النعمانی ص۲۸۹ ح۶

۹۳

عریضہ بحضور حضرت صاحب الزمان عجل اللہ فرجہ الشریف

بسم الله الرحمن الرحيم كَتَبْتُ إلَيْكَ يا مَولاَيَ صَلَواتُ الله عَلَيكَ مُسْتَغِيثاً وشَكَوتُ ما نَزلَ بِي مُستَجِيراً باللهِ عَزَّ وجَلّ ثمَّ بِكَ من أمرٍ قَد دَهَمَني واَشغَلَ قَلبَي وأطالَ فِكْري وسَلَبَني بَعضَ لُبّي وَغَيّر خَطِيرَ نِعمَةِ اللهِ عِنْدِي أسلَمَني عِندَ تَخيّلِ وُرُودِه الخَليلُ وَتَبرَّأَ مِنّي عِنَدَ تَرائي إقْبالِهِ اِليَّ الحِمِيمُ وعَجَزَتْ عَن دِفَاعِهِ حِيلَتي وَخَانَني في تَحَمُّلِهِ صَبْرِي وَقوَّتي فَلَجَأتُ فِيهِ إلَيكَ وَتَوَكَّلْتُ في المسْألةِ لِلّهِ جَلَّ ثَنَاؤهُ عَلَيهِ وعَلَيكَ وفي دِفَاعِهِ عَنّي عِلماً بِمَكَانِكَ مِنَ اللهِ رَبِّ العَالَمِينَ وَلِيّ التَّدْبِيرِ وَمَالِكِ الأُمورِ وَاثِقاً بِكَ في المسارَعَةِ فِي الشّفَاعَةِ إِلَيهِ جَلَّ ثناؤهُ في اَمْري مُتَيقِّناً لاِجَابَتِهِ تَبَاركَ وَتَعالى إيّاكَ بِاِعْطَاءِ سُؤْلي واَنتَ يا مَولايَ جَدِيرٌ بِتَحْقِيقِ ظَنّي وَتَصْدِيقِ اَمَلِي فِيكَ في أَمْرِ (یہاں اپنی حاجت لکھیں)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مِمّا لاَ طَاقةَ لِي بِحَمْلِهِ ولا صَبْرَ لِي عَلَيهِ وَاِن كُنتُ مُستَحِقّاً لَهُ وَلأضعَافِهِ بقَبيحِ أَفعَالِي وَتَفريطي فِي الواجِباتِ الّتي لِلّهِ عَزَّ وجَلَّ عَلَيّ فأغِثْني يا مَولاَيَ صَلَواتُ اللهِ عَلَيكَ عِندَ اللَهفِ وَقَدِّمِ المسْألةَ للهِ عَزَّ وجَلَّ في اَمْرِي قَبلَ حُلولِ التَلَفِ وشِماتَةِ الأعداءِ فَبِكَ بُسِطَتِ النِعْمَةُ عَلَيَّ وَاسْأَلِ اللهَ جَلَ جَلاَلُهُ لِي نَصْراً عَزيزاً وفَتْحاً قَريباً فِيهِ بلُوغُ الآمالِ وَخَيرُ المبَادِي وَخَواتِيمُ الاعمَالِ وَالأمنُ مِنَ المخَاوفِ كُلِّها فِي كُلِّ حَالٍ إنّهُ جَلَّ ثناؤهُ لِما يَشَاءُ فعّالٌ وَهُو حَسبي وَنِعمَ الوكِيلُ في المبدءِ وَالمآل

۹۴

۹۵

دوسراحصہ

۹۶

الحمدلله رب العالمین والصلاة والسلام علی خاتم المرسلین خیرالخلق اجمعین محمد وآله المعصومین ولا سیما امام زماننا خاتم الوصیین ولعنة الله علی اعدائهم و ظالمیهم الی یوم الدین اما بعد

گناہوں اور آرزؤں کے سمندر میں ڈوبا ہوا (محمد تقی بن عبدالرزاق الموسوی الاصفہانی) عفی اللہ عنھما انے مومن بھائیوں سے مخاطب ہے کہ:

یہ میری کتاب (زمانہ غیبت امام میں ہماری ذمہ داریاں ) کا دوسرا حصہ ہے کہ جس میں وہ اعمال جمع کیے ہیں کہ جنہیں امام عصر ؑ کے زمانہ غیبت میں مومنین کو پابندی سے بجا لانا چاہیے۔

یہ اعمال جوکہ چون (۵۴) کی تعداد تک پہنچتے ہیں ، مکتب امامیہ کی معتبر کتب سے جمع کیے گئے ہیں۔کتاب کے پہلے حصہ میں پچیس اعمال ذکر کیے گئے تھے ۔

اب یہاں باقی اعمال ذکر کرنے کا شرف حاصل کرتے ہیں۔

۹۷

۲۶ ۔ چھبیسواں عمل:۔

علماء کو چاہیے کہ وہ اپنا علم ظاہر کریں اور مخالفین کی طرف سے کیے گئے شبہات کے جواب میں لاعلم لوگوں کی رہنمائی کریں تاکہ وہ گمراہ نہ ہوجائیں۔اور اگر وہ حیرت و پریشانی میں مبتلا ہوں تو انہیں اس سے نجات دیں۔یہ کام بطور خاص اس زمانہ میں نہایت اہمیت کا حامل ہے اور علماء پر واجب ہے ۔

تفسیر امام حسن عسکریؑ میں وارد ہوا ہے کہ امام محمد تقی ؑ نے فرمایا:

وہ یتیمان آل محمد کہ جو اپنے امام ؑ سے جدا کر دیئےگئے اور اپنی جہالت کی وجہ سے حیرت و سرگرانی میں پڑے ہوئےہوں،شیاطین کے ہاتھوں میں جکڑے ہوئے اور ہمارے دشمن ناصبیوں کے ہاتھوں قید ہوں تو جن لوگوں نے ان کی کفالت کی اور انہیں ان مشکلات سے نکالا،انہیں اس حیرت و سرگردانی سے باہر لایا،خدا کی حجتوں اور آئمہؑ کی دلیل کے ذریعہ شیاطین اور ناصبیوں کے وسوسے رد کرتےہوئے ان کے قہر سے نجات دلائی تو انہیں اللہ کے ہاں باقی بندوں سے بلند مقام دیا جائے گا۔ان کی فضیلت آسمان کی زمین پر اور اس کی وسعت،کرسی اور حجابات پر فضیلت سے بھی زیادہ ہوگی۔انہیں ایک عابد پر ایسے

۹۸

ہی فضیلت حاصل ہوگی جس طرح چودہویں کے چاند کو باقی تمام ستاروں پر فضیلت حاصل ہوتی ہے۔"(۱)

امام علی نقی ؑ سے روایات ہے کہ فرمایا:

"اگر تمہارے قائم کی غیبت کے بعد ایسے علماء باقی نہ رہتے جو ان کی طرف بلانے والے، رہنمائی کرنے والے،اللہ کی حجتوں کے ذریعے ان کے دین کا دفاع کرنے والے،خدا کے کمزور بندوں کو ابلیس کی چالوں اور ناصبیوں کے شکار سے بچانے والےہیں تو پھر ہر شخص خدا کے دین سے مرتد ہوجاتا۔لیکن یہ ایسے لوگ ہیں کہ جو کمزور شیعوں کے دلوں کو ایسے سنبھالے رکھتے ہیں کہ جیسے کشتی والا سواروں کو سنبھالے رکھتا ہے۔یہی لوگ اللہ کےہاں افضل ہیں۔"(۲)

اصول کافی میں معاویہ بن عمار روایت کرتے ہیں کہ میں نے امام صادق ؑ سے عرض کیا:

"ایک شخص آپ کی حدیث روایت کرتا ہے اور اسے لوگوں میں پھیلاتا ہے اور اسے لوگوں کے دلوں میں اور آپ کے شیعوں کے دلوں میں

____________________

۱:- تفسیرالامام حسن عسکری ؑ:۱۱۶

۲:- تفسیرالامام حسن عسکری ؑ:۱۱۶

۹۹

پیوست کرتا ہے ،جبکہ آپ کے شیعوں میں ایک عبادت گزار ہے کہ جس کے پاس یہ روایت نہیں ہے ۔تو ان دونو ں میں سے کون افضل ہے؟

امام نے فرمایا:

ہماری حدیث روایت کرنا کہ جس سے ہمارے شیعوں کے دل (ا یمان ) کو مضبوط کیا جائے ہزار عابد (کی عبادت)سے افضل ہے۔"(۱)

پس ان احادیث اور ان جیسی دوسری احادیث کی روشنی میں عالم پر واجب ہے کہ اپنی استطاعت کے مطابق اپنا علم ظاہر کرے۔باالخصوص اس زمانے میں کہ جس میں بدعتیں پھوٹ رہی ہیں۔

اصول کافی میں رسول خداؐ سے مروی ہے:

"جب میری امت میں بدعتیں پھوٹنے لگیں تو عالم کو چاہیے کہ اپنا علم ظاہر کرے اور جو ایسا نہ کرے اس پر اللہ کی لعنت ہے۔"(۲)

کتاب الفتن میں بحارالانوار سے نقل کرتے ہوئے رسول خدا ؐ سے مروی ہے کہ آپ نے امیرالمومنین ؑ سے فرمایا:

____________________

۱:- الکافی ۱/۳۳

۲:- الکافی ۱/۵۴

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

۱۰ _ صرف راہ اعتدال پر چلنے والے اور حقيقت كو پالينے والے عذاب سے نجات حاصل كريں گے_

و لو أنّا أهلكنا هم بعذاب فستعلمون من أصحب الصراط السوى و من اهتدى

۱۱ _ اسلام، اعتدال كا راستہ ہے اور مسلمان اس راستے پر چلنے والے اور ہدايت يافتہ ہيں _فستعلمون من أصحب الصراط السوى و من اهتدى ''سوي''بروزن ''فعيل''اسم فاعل كے معنى ميں ہے يعنى مستوى اور معتدل (لسان العرب)

۱۲ _ صدر اسلام كے كفار، راہ اعتدال پر چلنے اور ہدايت يافتہ ہونے كے مدعى تھے _فستعلمون من أصحاب الصراط السوى و من اهتدى

آيات الہي:انكى تكذيب كے اثرات ۱; انہيں جھٹلانے والوں كى ہلاكت ۸

دعوى :ہدايت كا دعوى ۱۲

اسلام:اس كا اعتدال ۱۱; اسكى شكست كى توقع ۸; صدر اسلام كى تاريخ ۷; اسكى حقانيت كا ظہور ۹

انبيائ(ع) :انہيں جھٹلانے والوں كى ہلاكت ۸

ڈرانا:عذاب سے ڈرانا ۲/تاريخ:اس كا مطالعہ ۵; اس كا كردار ۵، ۶

حقائق:ان كے كشف كے عوامل ۵

خداتعالى :اسكے عذاب كا مذاق اڑانا ۴، اسكے وعدے كا عملى ہونا ۹

دين:اسكى حقانيت كے ظہور كا پيش خيمہ ۶

عدالت خواہ لوگ:انكى نجات ۱۰/عذاب:اہل عذاب۱; اس سے نجات ۱۰

كفار:صدر اسلام كے كفار كے دعوے ۱۲; صدر اسلام كے كفار كا مذاق اڑانا ۴; صدر اسلام كے كفار كى توقعات ۷; انہيں ڈرانا ۲; صدر اسلام كے كفار كا ہدايت كو قبول نہ كرنا ۳

كفار مكہ:ان پر اتمام حجت كرنا۱; انكا عذاب۱; انكى ہلاكت ۱

آنحضرت(ص) :آپ(ص) كا ڈرانا ۲; آپ(ص) كى رسالت ۲; آپ(ص) كى مايوسي۳

مسلمان:ان كى ہدايت ۱۱

ہدايت يافتہ لوگ:۱۱/انكى نجات ۱۰

۲۸۱

۲۱-سورہ انبياء

آيت نمبر ۱

( بسم الله الرحمن الرحيم )

( اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ وَهُمْ فِي غَفْلَةٍ مَّعْرِضُونَ )

بنام خدائے رحمان رحيم

لوگوں كے لئے حساب كا وقت آپہنچا ہے اور وہ ابھى غفلت ہى ميں پڑے ہوئے ہيں اور كنارہ كشى كئے جارہے ہيں (۱)

۱ _ انسان، روز قيامت كے حساب كے نزديك ہونے كے باوجود اس سے انتہائي غافل ہےاقترب للناس حسابهم و هم فى غفلة معرضون كلمہ ''في'' ، ''فى غفلة'' ميں ظرفيت مجازى كيلئے ہے اور يہ وصف كى شدت پر دلالت كرتا ہے يعنى لوگوں كى آخرت كے حساب سے غفلت بہت زيادہ ہے_

۲ _ لوگوں كے اعمال كا حساب وكتاب قريب اور قطعى ہےاقترب للنا س حسابهم

۳ _ صدر اسلام كے مشركين، قيامت كے حساب كتاب والے مسئلہ سے بالكل غافل تھے اور اس كے واضح اور روشن دلائل اور علامات ميں غور و فكر كرنے سے بھى روگردان تھے_اقترب للنا س حسابهم و هم فى غفلة معرضون

مذكورہ مطلب اس نكتے كے پيش نظر ہے كہ يہ سورت مكى ہے اور ''الناس'' كے پہلے مخاطب اور مصداق مشركين ہيں _

۴ _ حساب و كتاب ، قيامت كے اہم واقعات ميں سے ہے_اقترب للناس حسابهم

سورہ كے آغاز ميں حساب و كتاب كا تذكرہ اور قيامت كے ديگر واقعات ميں سے صرف اس كا بيان مذكورہ مطلب كو بيان كررہا ہے_

۵ _ قيامت كو ياد كرنا اور اسكے حقائق و واقعات ميں تدبر و تامل ايك ضرورى اور لازمى امر ہے_

۲۸۲

اقترب للناس حسابهم و هم فى غفلة معرضون

آيت كريمہ ان لوگوں كى مذمت كر رہى ہے جو قيامت اور اسكے واقعات سے غافل ہيں يہ مذمت قيامت اور اسكے حالات كے بارے ميں غور و فكر كے لازمى ہونے كو بيان كررہى ہے_

۶ _ انسان اپنى رفتار و كردار كا ذمہ دار ہے اور قيامت كے دن اس سے باز پرس ہوگى اور اس كا مؤاخذہ كيا جائيگا_

اقترب للناس حسابهم

مذكورہ مطلب اس نكتے كے پيش نظر ہے كہ حساب و كتاب اس وقت معقول اور تصور ہے جب ذمہ دارى اور مسئوليت ہو_

۷ _ انسان، قيامت كى نشانيوں اور اس كے اثبات كے دلائل كے بارے ميں غور و فكر كرنے سے روگردانى كرنے والا ہے_اقترب للناس حسابهم و هم فى غفلة معرضون

''غفلت'' اور ''اعراض'' كا متعلق دوچيزيں ہيں كيونكہ غفلت كسى مسئلہ كى طرف توجہ نہ كرنے كى علامت ہے جبكہ روگردانى اسكى طرف توجہ كرنے كى نشانى ہے _اور ممكن نہيں ہے كہ ايك چيز كى طرف توجہ ہو بھى اور نہ بھى ہو لہذا اعراض سے مراد قيامت كو ثابت كرنے والے روشن دلائل سے روگردانى كرنا اور قيامت كے بارے ميں تدبر و تفكر نہ كرنا ہے _

انسان:اس كا اخروى حساب و كتاب ۶; اسكى غفلت ۱; اسكى ذمہ دارى ۶

تفكر:قيامت ميں تفكر كى اہميت ۵; قيامت ميں عدم تفكر كى نشانياں ۷

حساب و كتاب:اخروى حساب و كتاب سے غافل لوگ ۳

ذكر:قيامت كے ذكر كى اہميت ۵

عمل:اسكے حساب و كتاب كا قطعى ہونا ۲; اس كا ذمہ دار ۶; اسكے حساب كا نزديك ہونا ۲

غفلت:اخروى حساب سے غفلت۱; قيامت سے غفلت ۱

قيامت:اس ميں حساب و كتاب ۴; اسكے واقعات ۴; اس سے اعراض كرنے والے ۳، ۷; اسكى خصوصيات ۴

مشركين:صدر اسلام كے مشركين كا عدم تفكر ۳; صدر اسلام كے مشركين كى غفلت ۳

۲۸۳

آیت ۲

( مَا يَأْتِيهِم مِّن ذِكْرٍ مَّن رَّبِّهِم مُّحْدَثٍ إِلَّا اسْتَمَعُوهُ وَهُمْ يَلْعَبُونَ )

ان كے پاس ان كے پروردگار كى طرف سے كوئي نئي ياد دہانى نہيں آتى ہے مگر يہ كہ كان لگا كر سن ليتے ہيں اور پھر كھيل تماشے ميں لگ جاتے ہيں (۲)

۱ _ مشركين، وحى كے نزول اور خداتعالى كے نئے پيغام (قرآن) كو سرسرى ليتے اور كھيلنے كے ساتھ اسے سنتے _

ما يأتيهم من ذكر من ربهم و هم يلعبون زيادہ تر مفسرين كا يہ كہنا ہے كہ ذكر سے مراد ہر قسم كى وحى اور يا فقط قرآن كريم ہے_ اور جملہ ''و ہم يلعبون''، ''استمعوہ'' كے فاعل كيلئے حال ہے يعنى وہ كھيل ميں مصروف ہونے كى حالت ميں آيات الہى كو سنتے اور انہيں سنجيدگى او رسنجيدگى سے استماع نہ كرتے_

۲ _ مشركين كا آيات الہى كے ساتھ غير شائستہ اور كھيل كودوالا سلوك انكى انتہائي غفلت اور بے خبرى كى علامت ہے_

وهم فى غفلة معرضون۰ ما يأتيهم من ذكر من ربهم جملہ ''ما يأتيهم من ذكر '' يا تو سابقہ جملے كيلئے بيان ہے اور يا اسكى تعليل كے طور پر ہے _بہرحال يہ مشركين كى انتہائي غفلت اور بے خبرى كى كيفيت كو بيان كررہا ہے

۳ _ وحى الہى (قرآن اور ...) غفلت كو دور كرنے، انسان كى سوئي ہوئي فطرت كو جگانے اور اس كى فراموش كردہ معلومات كى ياد دہانى كيلئے ہے_و هم فى غفلة معرضون ما يأتيهم من ذكر من ربهم

معنى كے لحاظ سے ''ذكر'' ،''حفظ'' كى طرح ہے اس فرق كے ساتھ كہ ''حفظ شيئ'' اسكے معلوم كرنے اور حاصل كرنے كے ساتھ ہوتا ہے جبكہ ''ذكر شي'' اسے حاضر كرنے اور يادكرنے كے اعتبار سے ہوتا ہے (مفردات راغب) لہذا قرآن كي''ذكر'' كے ساتھ توصيف كرنا اس

۲۸۴

اعتبار سے ہے كہ قرآن ،انسان كى فراموش كردہ معلومات كى ياد دہانى كرانے والا اور غافل انسان كى فطرت كو جگانے والا ہے

۴ _ وحى الہي، لوگوں كو ياد دہانى كرانا اور غفلت و بے خبرى سے انہيں نجات دينا خداتعالى كى ربوبيت كا تقاضا ہے_

ما يأتيهم من ذكر من ربهم

۵ _ '' رب'' خداوند متعال كى اسما و صفات ميں سے ہے_ما يا تيهم من ذكر من ربهم

۵ _ قرآن، ديگر آسمانى كتابوں كے مقابلے ميں نئي اور جديد تعليمات پر مشتمل ہے _ما يأتيهم من ذكر من ربهم محدث

''محدث'' كا معنى ہے جديد او رنئي چيز _اور آيت كريمہ ميں يہ ''ذكر'' كى صفت ہے قرآن كى جديد اور نئے ہونے كے ساتھ توصيف ہوسكتا ہے جديد آيات كے نزول كے اعتبار سے ہو اسى طرح ہوسكتا ہے آيات قرآنى اور اسكى تعليمات كے ديگر آسمانى كتابوں كے مقابلے ميں تازہ اور نئي ہونے كے لحاظ سے ہو مذكورہ مطلب دوسرے فرضيے كى بناپر ہے_

۶ _ عصر بعثت ميں مشركين، روايت پرست اور پرانى ذہنيت كے لوگ تھے _ما يأتيهم من ذكر من ربهم محدث

مشركين كى طرف سے خداتعالى كے جديد پيغامات كى مخالفت انكى روايت پرستى اور پرانى ذہنيت كى علامت ہے_

۷ _ وحى الہى اور آسمانى كتابوں ميں سنجيدہ اور عاقلانہ غور و فكر كى ضرورت ہے _ما يأتيهم من ذكر هم يلعبون

۸ _ وحى ا ورقيامت پر ايمان كے بغير زندگى كھيل تماشا اور بے مقصد ہے _ما يأتيهم من ذكر و هم يلعبون

مذكورہ مطلب اس احتمال كى بنياد پر ہے كہ ''يلعبون'' مشركين كى طبعى اورروزمرہ كى زندگى كى طرف ناظر ہو يعنى نزول وحى كے وقت وہ لوگ سب بے مقصد اور كھيل تماشے والى زندگى ميں مشغول ہوتے لہذا جو لوگ مبدا و معاد كا انكار كرتے ہيں وہ بھى (مشركين كى طرح) زندگى ميں لہو و لعب اور كھيل تماشے ميں گرفتار ہوجاتے ہيں _

۹ _ قيامت سے غفلت، وحى سے بے اعتنائي اور دين كو بازيچہ اطفال قرار دينے كا پيش خيمہ ہے _

و هم فى غفلة معرضون ما يأتيهم و هم يلعبون

۱۰ _ انسان كا دنيا كے ساتھ سرگرم رہنا، اسكے وحى اور دين الہى سے غافل ہونے كا سبب ہے _ما يأتيهم من ذكر و هم يلعبون جملہ''و هم يلعبون'' ،''استمعوه'' كى فاعلى ضمير كيلئے حال اورمشركين اور حق سے گريز كرنے والے لوگوں كى حالت كو بيان كر رہا ہے يہ حالت ہوسكتا ہے حق سے گريز كرنے اور پيغامات الہى سے بے اعتنائي كرنے ميں مؤثر ہو_قابل ذكر ہے كہ بعدوالى آيت كے شروع

۲۸۵

ميں جملہ''لا هية قلوبهم'' كہ جو جملہ''و هم يلعبون'' ميں مبتدا كيلئے حال ہے اسى مطلب كى تائيد كرتا ہے _

۱۱ _'' قال ا بو الحسن (ع) : التوراة و الانجيل والزبور والفرقان و كل كتاب ا نزل كان كلام الله تعالى ا نزله للعالمين نوراً و هديً و هى كلها محدثة و هى غير الله قال: '' ما يا تيهم من ذكر من ربهم محدث إلا استمعوه و هم يلعبون'' و الله ا حدث الكتب كلها الذى أنزلها ...; امام رضا(ع) سے روايت كى گئي ہے كہ آپ(ع) نے فرمايا: تورات، انجيل، زبور، قرآن اور نازل ہونے والى ہر كتاب كلام الہى ہے كہ جسے اس نے سب جہانوں كى ہدايت كيلئے نازل كيا ہے اور يہ سب كتابيں حادث ہيں اور حادث غير خدا ہوتا ہے خداتعالى نے فرمايا ہے''ما يأتيهم من ذكر من ربهم محدث الا استمعوه و هم يلعبون'' اور خداتعالى نے جتنى بھى كتابيں نازل كى ہيں اس نے انہيں خلق كيا ہے(۱)

آيات الہى :ان كے ساتھ كھيلنا ۲

آسمانى كتب:ان كا حادث ہونا ۱۱

اسلام:صدر اسلام كى تاريخ ۶

ايمان:قيامت پر ايمان كے اثرات۸; وحى پر ايمان كے اثرات ۸

تفكر:آسمانى كتابوں ميں تفكر كى اہميت ۸; وحى ميں تفكر كے اثرات ۸

خداتعالى :اسكى ربوبيت كے اثرات ۴

دنيا پرستي:اسكے اثرات ۱۰/دين:اسكى آسيب شناسى ۱۰; اسكے ساتھ كھيلنے كا پيش خيمہ ۹

روايت :۱۱

زندگي:قابل قدر زندگى ۸; زندگى كے كھوكھلا ہونے كے عوامل ۸

غفلت:قيامت سے غفلت كے اثرات ۹; دين سے غفلت كے عوامل ۱۰; وحى سے غفلت كے عوامل ۱۰

فطرت:اسكے متنبہ ہونے كے عوامل ۳

قرآن مجيد:اس كے ساتھ كھيلنا ۱; اس سے بے اعتنائي ۱; اس كا غفلت كو دور كرنا ۳; اس كے نزول كا فلسفہ ۳; اس كا جديد ہونا ۵; اسكى تعليمات كى خصوصيات ۵; اس كا ہدايت كرنا ۳

____________________

۱ ) بحار الانوار ج۱۰، ص ۳۴۴ ح۵_ نورالثقلين ج۳، ص ۴۱۲، ح۶_

۲۸۶

مشركين:صد راسلام كے مشركين كى ہٹ دھرمى ۶; انكا سلوك ۲; صدر اسلام كے مشركين كى روايت پرستى ۶; يہ اور آيات الہى ۲;يہ اور قرآن۱; انكى غفلت كى نشانياں ۲

وحي:اس سے روگردانى كا پيش خيمہ ۹; اس كا فلسفہ ۳; اسكے نزول كا سرچشمہ ۴

ہدايت:اس كا سرچشمہ ۴

آیت ۳

( لَاهِيَةً قُلُوبُهُمْ وَأَسَرُّواْ النَّجْوَى الَّذِينَ ظَلَمُواْ هَلْ هَذَا إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ أَفَتَأْتُونَ السِّحْرَ وَأَنتُمْ تُبْصِرُونَ )

ان كے دل بالكل غافل ہوگئي ہيں اور يہ ظالم اس طرح آپس ميں راز و نياز كى باتيں كيا كرتے ہيں كہ يہ بھى تو تمھارے ہى طرح كے ايك انسان ہين كيا تم ديدہ و دانستہ ان كے جادو كے چكر ميں آرہے ہے (۳)

۱ _ مشركين ايسے لوگ ہيں جو زندگى كے اصلى اور سنجيدہ مسائل سے غافل ہيں اور لغو اور بے قيمت قسم كى چيزوں سے دل لگائے ہوئے ہيں _وهم يلعبونلاهيةقلوبهم

''لہو'' كا معنى وہ چيز ہے جو انسان كو اہم اور سودمند كاموں سے باز ركھے (مفردات راغب) مشركين كى اس بات كے ساتھ توصيف كہ ان كے دل لہو و لعب اور غير اہم كاموں ميں مشغول ہيں مذكورہ مطلب كو بيان كررہى ہے _

۲ _ دل كى بيدارى اور ہوشمندى حقائق الہى كو سمجھنے اور وحى و كتب آسمانى سے متأثر ہونے كى لازمى شرط ہے_

ما يأتيهم لا هية قلوبهم

۳ _ لہو و لعب اور دل كا غير مہم اور بے قدر و قيمت امور ميں مشغول ہونا دل كى بيماريوں ميں سے ہے اور يہ ايك برى اور ناپسنديدہ چيز ہے_لاهية قلوبهم

آيت كريمہ مشركين كے ناپسنديدہ اوصاف، انكى منفى خصوصيات اور ان كى مذمت كے بيان كے مقام ميں ہے _

۴ _ ستم گر مشركين كى طرف سے پيغمبراكرم (ص) كے خلاف خفيہ ميٹنگوں اور مخفى مشاورتوں كا انعقاد _

و أسروا النجوى الذين ظلمو

۵ _ وحى كے ساتھ ناشائستہ سلوك اور اس كے ساتھ كھيلنا ظلم و ستم كا مصداق ہے _و هم يلعبون لاهية قلوبهم الذين ظلمو

۲۸۷

۶ _ ستم گر مشركين پيغمبر اكرم(ص) كى د عوت كے خلاف اجتماعى اور منسجم حركات ركھتے تھے _و أسروا النجوى الذين ظلمو ''اسرّوا'' (مصدر اسرار ہے) يعنى پنہان ركھتے تھے اور ''نجوى '' كا معنى ہے خفيہ گفتگو اور يہ''اسروّ ا''كا مفعول ہے پس ''نجوى ''كرنا ايك اجتماعى تحرك كى دليل ہے اوراسے مخفى ركھنا ان كے اس تحرك كو دوسروں (مسلمانوں ) كى نظروں سے دور ركھنے كى كوشش كا غماز ہے_

۷ _ پيغمبراكرم(ص) اور آپ(ع) كى دعوت كے خلاف مشركين كے خاص گروہ كى طرف سے سازش كا تيار كيا جانا _

و أسروا النجوى الذين ظلمو مذكورہ مطلب اس بناپر ہے كہ ''الذين ظلموا'' قيد احترازى ہو يعنى مشركين كا وہ گروہ جو ظلم و ستم اور تجاوز كرنے والى فطرت ركھتے ہيں _

۸ _ اسلام، ظلم دشمنى كا دين ہے اورتعليمات قرآن معاشرے كے چہرے سے ظلم اور سياہ كارى كو مٹانے كيلئے ہيں _

ما يأتيهم من ذكر من ربهم محدث إلا استمعوه و هم يلعبون و أسروا النجوى الذين ظلمو

ستم گر ٹولے كى طرف سے پيغمبر(ص) اكرم اور قرآن كى مخالفت اور ان كے خلاف سازش اس نكتے كو بيان كرر ہے ہيں كہ اسلام معاشرے سے ظلم كو دور كرنے اور استعمارى طبقے كے ظالمانہ مفادات كو ختم كرنے كے درپے ہے ورنہ كيا وجہ ہے كہ صرف يہى گروہ اسلام كى مخالفت پر تلا ہوا ہے

۹ _ پيغمبر اكرم(ص) كا بشر ہونا، مشركين كى سازش اور خفيہ گفتگو كا محتوى اور اسلام و قرآن كے خلاف دستاويز _

و أسروا النجوى الذين ظلموا هل هذا إلا بشر مثلكم

۱۰ _ مشركين كى نظر ميں انسان ہونے كا مقام نبوت كا حاصل كرنے كے ساتھ سازگار نہ ہونا_هل هذا إلا بشر مثلكم

۱۱ _ پيغمبر اكرم(ص) لوگوں كے درميان بلاواسطہ اور قابل احساس طريقے سے حاضر رہتے اور انہيں كى طرح زندگى گزارتے _هل هذا إلا بشر مثلكم

''مثلكم'' بشر كى صفت ہے (بشر ہونے كے علاوہ) پيغمبراكرم(ص) كى تمہارے جيسا ہونے كے ساتھ توصيف ممكن ہے مذكورہ مطلب كو بيان كررہى ہو_

۱۲ _ ستمگر مشركين كى طرف سے قرآن كى طرف جادو ہونے اور پيغمبراكرم(ص) كى طرف جادوگر ہونے كى ناروا نسبت _أفتأتون السحر و أنتم تبصرون

۱۳ _ستمگر مشركين قرآن پر جادو ہونے كى تہمت لگا كر اسے ہرگز پيروى كے لائق نہيں سمجھتے تھے_

۲۸۸

أفتأتون السحر وأنتم تبصرون جملہ''أفتأتون السحر'' ميں استفہام انكارى ہے اور جملہ ''و انتم تبصرون''''تأتون'' كے فاعل كيلئے حال ہے اس بناپر آيت كا معنى يوں ہوگا كيا تم لوگ آنكھ اور آگاہى كے ساتھ قرآن_ كہ جو جادو ہے _ كے پيچھے جاتے ہو؟ يعنى يہ كہ قرآن كا پيروى كے لائق نہ ہونا واضح و روشن امر ہے_

۱۴ _ پيغمبراكرم(ص) كے زمانے كے لوگوں پر قرآن كى غير معمولى اور تعجب آور تأثير_أفتأتون السحر

قرآن پر جادو ہونے كى تہمت سے لگتا ہے كہ قرآن غير معمولى اثر ركھتا تھا _

۱۵ _ قرآن كا جادو اور پيغمبراكرم(ص) كا جادوگر ہونا ستمگر مشركين كے ايمان نہ لانے كا ايك اور بہانہ اور كھوكھلى دليل _

أفتأتون السحر و أنتم تبصرون

مشركين پيغمبراكرم(ص) كے دعوے كو رد كرنے كيلئے دو بہانے اور كھوكھلى دليليں لاتے تھے ۱_ آنحضرت(ص) كا بشر ہونا (هل هذا إلا بشر مثلكم ) ۲_ آپ(ص) كا جادوگر ہونا (أفتأتون السحر )

۱۶ _ صدر اسلام كے مشركين جادو كى پيروى كو عقل و خرد كے ساتھ سازگار نہيں سمجھتے تھے _أفتأتون السحر و أنتم تبصرون

۱۷ _ پيغمبراكرم(ص) كو جھٹلانا اور انكى طرف ناروا نسبتيں (جادوگر ہونا و غيرہ) دينا ظلم ہے _و أسرّوا النجوى الذين ظلموا هل هذا إلا بشر أفتأتون السحر و أنتم تبصرون جملہ(هل هذا بشر أفتأتون السحر ...) ''النجوى '' كيلئے بدل ہے يعنى ستمگروں كى سرگوشيوں كا محتوا يہ تھا كہ پيغمبراكرم كى طرف جادو كى نسبت ديتے اور ان افراد كو ظالم كہنا بتا تا ہے كہ پيغمبراكرم(ص) كى طرف ناروا نسبت دينا ظلم كا واضح مصداق ہے_

آسمانى كتب:انكے سمجھنے كا پيش خيمہ ۳

اسلام:صدر اسلام كى تاريخ ۴، ۶، ۷; اسلام كے خلاف سازش ۹; اسكى ظلم دشمنى ۸; اسكى خصوصيات۸

آنحضرت(ص) :آپ(ص) كا بشر ہونا۹، ۱۱; آپ(ص) كے خلاف سازش ۴، ۶، ۷; آپ(ص) پر جادوگرى كى تہمت ۱۲، ۱۵، ۱۷;بصيرت:اسكے اثرات ۲

جادو:اسكى پيروى كے موانع ۱۶/حقائق:انكے سمجھنے كا پيش خيمہ ۲

دنيا پرستي:اسكے اثرات ۳/صفات:

۲۸۹

ناپسنديدہ صفات ۳

ظالم لوگ:صدر اسلام كے ظالموں كى سازش ۶، ۷

ظلم:اسكے موارد ۵، ۱۷

عقل:اس كا كردار ۱۶

غافل لوگ:۱

قرآن كريم:اسكے خلاف سازش ۹; اس پر جادو كى تہمت ۱۲، ۱۳، ۱۵; اسكى ظلم دشمنى ۸; اس سے روگردانى كرنے والے ۱۳; اس كا كردار ۱۴

دل:اسكى بيمارى كا پيش خيمہ ۳

لہو و لعب:اسكے اثرات ۳

آپكى سيرت ۱۱; آپ(ص) پر ظلم ۴; آپ كو جھٹلانے كا ظلم ۱۷

لوگ:صدر اسلام كے لوگ اور قرآن ۱۴

مشركين:انكى بہانہ تراشى ۱۵; انكا غير منطقى ہونا ۱۵; انكى سوچ ۱۰; صدر اسلام كے مشركين كى سوچ ۱۶; انكى زندگى كا كھوكھلا ہونا ۱; صدر اسلام كے مشركين كا منظم ہونا۶; صدر اسلام كے مشركين كى سازش ۴، ۶، ۷، ۹; انكى تہمتيں ۱۲، ۱۳، ۱۵; صدر اسلام كے مشركين كى خفيہ ميٹينگيں ۴، ۶; صدر اسلام كے مشركين كى مشاورتى ميٹينگيں ۴; انكى غفلت ۱; صدر اسلام كے مشركين كى سرگوشياں ۹/نبوت:بشر كى نبوت كو جھٹلانے والے ۱۰

وحي:اسكے ساتھ كھيلنا ۵; اسے سمجھنے كا پيش خيمہ ۲

آیت ۴

( قَالَ رَبِّي يَعْلَمُ الْقَوْلَ فِي السَّمَاء وَالأَرْضِ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ )

تو پيغمبر نے جواب ديا كہ ميرا پروردگار آسمان و زمين كى تمام باتوں كو جانتا ہے وہ خوب سننے والا اور جاننے والا ہے (۴)

۱ _ پروردگار كا اہل زمين و آسمان كى تمام باتوں سے آگاہ ہونا _قال ربى يعلم القول فى السماء و الأرض

۲ _ آسمانى موجودات ميں كلام اور سخن كا موجود ہونا_

۲۹۰

قال ربى يعلم القول فى السماء

۳ _ خداتعالى نے پيغمبراكرم(ص) كو ستم گر مشركين كى خفيہ ميٹنيگوں اور مخفى گفتگو سے آگاہ كيا _

أسروا النجوى قال ربى يعلم القول فى السماء

۴ _ خداتعالى كى طرف سے ستمگر مشركين كو پيغمبر اكرم(ص) اور اسلام كے خلاف خفيہ سازشيں اور سرگوشياں كرنے كے بارے ميں تنبيہ _أسروا النجوى الذين ظلموا قال ربى يعلم القول فى السماء و الأرض

سرگوشياں اور سازشيں كرنے والے مشركين كو اس آيت كى ياد دہانى كہ خداتعالى آسمان و زمين ميں ہونے والى ہر بات سے آگاہ ہے ان كيلئے انكى سازشوں كے برے انجام كے بارے ميں تنبيہ ہے _

۵ _ مطلق علم اور شنوائي ،صرف خداتعالى كى شان ہے _و هوالسميع العليم

ادبى لحاظ سے جب بھى مبتدا معرفہ اور خبر پر الف و لام ہو تو يہ حصر كا فائدہ ديتا ہے آيت كريمہ ميں بھى ايسے ہى ہے_

۶ _ اس بات كى طرف توجہ كہ خداتعالى موجودات عالم كے اعمال و گفتار سے مكمل آگاہى ركھتا ہے انسان كو حق دشمنى اور گناہ سے باز ركھتا ہے_أسرّوا النجوى قال ربى يعلم القول فى السماء و الأرض و هو السميع العليم

خداتعالى نے مشركين كى اسلام كے خلاف خفيہ سازشوں اور سرگوشيوں كے جواب ميں پيغمبراكرم كو حكم ديا كہ انہيں خداتعالى كے مكمل علم كى خبرديں _ يہ حقيقت ہوسكتا ہے مذكورہ مطلب كو بيان كررہى ہو_

۷ _ خداتعالى سميع (سننے والا) اورعليم (جاننے والا) ہے_وهو السميع العليم

آسمان:اہل آسمان كا كلام ۱; اسكے موجودات كا گفتگو كرنا ۲; اسكے باشعور موجودات ۲

اسلام:صدر اسلام كى تاريخ ۴; اسكے خلاف سازش كرنا ۴

اسما و صفات:سميع ۷; عليم ۷

انسان:اسكى سخن۱

آنحضرت(ص) :آپ(ص) كے خلاف سازش ۴; آپ(ص) كے علم كا سرچشمہ ۳

حق:حق دشمنى كے موانع ۶

خداتعالى :اسكى خصوصيات ۵; اس كا افشا كرنا ۳; اسكى شنوائي ۵; اس كا علم ۱، ۵; اس كا خبردار كرنا ۴

ذكر:خداتعالى كے علم غيب كے ذكر كے اثرات ۶

۲۹۱

گناہ:اسكے موانع ۶

مشركين:صدر اسلام كے مشركين كو افشا كرنا ۳; انكي سازشيں ۴; صدر اسلام كى مشركين كے خفيہ ميٹينگيں ۳، ۴; صدر اسلام كے مشركين كو تنبيہ ۴

موجودات:ان كا كلام كرنا ۶; انكا عمل ۶

آیت ۵

( بَلْ قَالُواْ أَضْغَاثُ أَحْلاَمٍ بَلِ افْتَرَاهُ بَلْ هُوَ شَاعِرٌ فَلْيَأْتِنَا بِآيَةٍ كَمَا أُرْسِلَ الأَوَّلُونَ )

بلكہ يہ لوگ كہتے ہيں كہ يہ تو سب خواب پريشاں كا مجموعہ ہے بلكہ يہ خود پيغمبر كى طرف سے افتراء ہے بلكہ يہ شاعر ہيں او رشاعرى كر رہے ہيں ورنہ ايسى نشانى لے كر آتے جيسى نشانى لے كر پہلے پيغمبر بھيجے گئے تھے (۵)

۱ _ قرآن كو پراكندہ اور پريشان خواب سمجھنا ،ستمگر مشركين كى طرف سے پيغمبراكرم(ص) كے خلاف زہريلے پروپيگنڈے كا حصہ _بل قالوا أضغاث أحلام

''اضغاث'' (ضغث كى جمع) كا معنى ہے دستے اور مختلط چيزيں اور ''احلام'' (جمع حلم كي) كا معنى ہے خواب_ يہ تعبير (أضغاث أحلام) پريشان اور پراگندہ خوابوں كے سلسلے ميں بولى جاتى ہے_

۲ _ قرآن كو ايك غير منظم مجموعہ اور غير منسجم كتاب كے طور پر متعارف كرانا، ستمگر مشركين كے زہريلے پرو پيگنڈے كا حصہ تھا _بل قالوا أضغاث أحلام

مذكورہ نكتہ ''اضغاث'' كے لغوى معنى (پريشان چيزيں ، پراگندہ اور غير منسجم دستے) كو ديكھتے ہوئے ہے _

۳ _ قرآن كريم كا پيغمبراكرم(ص) كى طرف سے گھڑا ہوا ہونا ستمگر مشركين كى آنحضرت(ص) پر تہمت _بل افترى ه

۴ _ ستمگر مشركين كى طرف سے قرآن اور پيغمبراكرم(ص) كى طرف شعر وشاعرى كى ناروا نسبت _

بل هو شاعر

۵ _ قرآن كا خوبصورت اور جذاب ہونا مشركين مكہ كى نظر ميں مسلّم اور قابل قبول تھا _بل هو شاعر

چونكہ شعر خاص قسم كى خوبصورتى اور جذابيت كا حامل ہوتا ہے اس لئے مشركين، پيغمبراكرم(ص) كو شاعر سمجھتے تھے _

۶ _ مشركين، قرآن كا مقابلہ كرنے ميں اور اسكے خلاف واضح موقف اختيار كرنے ميں سرگردان اور ناتوان تھے _

بل قالوا أضغاث أحلام بل هو شاعر

۲۹۲

آيت كريمہ ميں ''بل'' اضراب انتقالى كيلئے ہے اور يہ صرف ايسے موارد ميں استعمال ہوتا ہے كہ جہاں متكلم پہلے نكتے سے صرف نظر كر كے دوسرا نكتہ بيان كرنے كے در پے ہو اور ايك ہى كلام ميں اس كا تكرار متكلم كے اضطراب، شك و ترديد يا تصميم كرنے ميں اسكى ناتوانى كا غماز ہے_

۷ _ مشركين، پيغمبراكرم(ص) سے سابقہ انبياء كے معجزات جيسا معجزہ طلب كرتے تھے _فليأتنا بأية كما أرسل الأوّلون

۸ _ عصر بعثت ميں مشركين كا حقيقت معجزہ اور اسكے جادو، پريشان خواب اور شعر كے ساتھ فرق سے آگاہ ہونا_

بل قالوا أضغاث أحلام بل افترى ه بل هو شاعر

مشركين پيغمبراكرم (ص) كى مخالفت ميں پہلے تو آپ(ص) كے كلام كو جادو، شعر يا پراكندہ خواب قرار ديتے تھے پھر آپ(ص) كى رسالت كے اثبات كيلئے آپ(ص) سے معجزہ كے طالب ہوئے اس كا مطلب يہ ہے كہ وہ معجزہ اور سحر و شعر و غيرہ كے ساتھ اسكے فرق سے آگاہ تھے اور اس كا اعتراف كرتے تھے_

۹ _ سابقہ انبياء كے معجزوں جيسے معجزے كى درخواست آنحضرت(ص) كى رسالت كو قبول نہ كرنے كيلئے مشركين كا ايك بہانہ _و أسرّوا النجوى الذين ظلموا فليأتنا بآية كما أرسل الأولون

۱۰ _ صدر اسلام كے ستمگر مشركين ہٹ دھرم، حق كو قبول نہ كرنے والے اور بہانہ خور لوگ تھے_

بل قالوا فليأتنا بأية كما أرسل الأولون

۱۱ _ ستمگر مشركين كا پيغمبراكرم(ص) كے خلاف تمام ممكنہ سياسي، ثقافتى اور تبليغى ہتھكنڈوں سے استفادہ كرنا_

أسروا النجوى هل هذا إلا بشر بل قالوا أضغاث أحلام بل افترى ه بل هو شاعر فليأتنا بأية كما أرسل الأولون

اسلام:صدر اسلام كى تاريخ ۱، ۷، ۱۱

افترا باندھنا:قرآن پر افترا باندھنا ۳

قرآن كريم:اسكے خلاف پروپيگنڈا ۲; اس پر پراگندہ ہونے كى تہمت ۲; اس پر منتشر خواب ہونے كى تہمت۱; اس پر شعر ہونے كى تہمت ۴; اسكى جذابيت ۵; اسكے ساتھ مقابلے كى روش ۶; اسكى خوبصورتى ۵

آنحضرت(ص) :آپ(ص) كو جھٹلانے والوں كا بہانہ خور ہونا ۹; آپ(ص) كے خلاف سازش ۱; آپ(ص) پر تہمت ۱، ۳; آپ(ص) پر شاعر ہونے كى تہمت ۴

۲۹۳

مشركين:صدر اسلام كے مشركين كى بہانہ جوئي ۹، ۱۰; صدر اسلام كے مشركين كى سوچ ۸; صدر اسلام كے مشركين كا پروپيگنڈا ۱۱; انكا پروپيگنڈا ۲; انكا حيرت زدہ ہونا۶; انكى سازشيں ۱; انكى تہمتيں ۱، ۳، ۴; صدر اسلام كے مشركين كا حق كو قبول نہ كرنا ۱۰; صدر اسلام كے مشركين كے مطالبے ۷; صدر اسلام كے مشركين كے پروپيگنڈے كى روش ۱۱; انكا عاجز ہونا ۶; صدر اسلام كے مشركين كى ہٹ دھرمى ۱۰

مشركين مكہ:انكى سوچ۵

معجزہ:اس كا جادو سے فرق۸; اسكے حقيقت ۸; اسكى درخواست ۷; مطلوبہ معجزہ كا فلسفہ ۹; مطلوبہ معجزہ۷

آیت ۶

( مَا آمَنَتْ قَبْلَهُم مِّن قَرْيَةٍ أَهْلَكْنَاهَا أَفَهُمْ يُؤْمِنُونَ )

ان سے پہلے ہم نے جن بستيوں كو سركشى كى بناپر تابہ كرڈالا وہ تو ايمان لائے نہيں يہ كيا ايمان لائيں گے (۶)

۱ _ جن امتوں پر عذاب ناز ل كيا گيا انہوں نے معجزات الہى سے بہرہ مند ہونے كے باوجود ايمان قبول نہ كيا _

ما أمنت قبلهم من قرية أهلكنا ها

۲ _ گذشتہ امتوں كى ہلاكت اور ان كا عذاب معجزات الہى پر ايمان نہ لانے كى وجہ سے تھا _فليأتنا بأية ما أمنت قبلهم من قريه اهلكناها

۳ _ ہلاكت ان امتوں كا مقدر ہے جو اپنے درخواست كردہ معجزات پر ايمان نہ لائيں _ما أمنت قبلهم من قرية أهلكناها

۴ _ ايمان، انسانى معاشروں اور تہذيبوں كى حفاظت اور بقا ميں مؤثر ہے _ما أمنت قبلهم من قرية أهلكناها

۵ _ قرآن كى پيشين گوئي تھى كہ صدر اسلام كے بعض

مشركين ايمان نہيں لائيں گے اپنے درخواست كردہ معجزات كے نزول كے بعد بھى _ما أمنت قبلهم أفهم يؤمنون

۶ _ انبياء كو جھٹلانے والے انكى مخالفت كے سلسلے ميں ايك جيسى روش اور حربوں كے حامل ہوتے ہيں _

فليأ تنا بأية ما أمنت قبلهم من قرية أهلكناها أفهم يؤمنون

۲۹۴

خداتعالى نے گذشتہ آيت ميں اس بات كى ياد دہانى كرائي ہے كہ مشركين آنحضرت(ص) سے (سابقہ انبيا(ع) ء كے معجزات جيسے) معجزے كے خواہان ہوئے اور اس آيت ميں فرماتا ہے كہ گذشتہ امتيں انبيا(ع) ء كے معجزے ديكھنے كے باوجود ايمان نہ لائيں پس قطعا تم بھى ايمان نہيں لاؤگے يہ ياد دہانى اس بات سے حكايت كرتى ہے كہ ابنيا(ع) ء كو جھٹلانے والوں كے مقابلے كى روش اور ہتھكنڈے ايك جيسے تھے_

۷ _ صدر اسلام كے بعض مشركين كى ہٹ دھرمى اور عناد سابقہ انبياء كے مخالفين كے مقابلے ميں زيادہ سخت اور شديد تھى _ما أمنت قبلهم أفهم يؤمنون

''أفہم'' كا ہمزہ استفہام انكارى كيلئے اور اسكى ''فائ'' تعقيب كا فائدہ دينے كيلئے ہے اس بناپر آيت كا معنى يوں ہوگا گذشتہ امتيں اپنے درخواست كردہ معجزات كے آنے كے باوجود ايمان نہ لائيں آيا يہ لوگ جو زيادہ ہٹ دھرم اور حق دشمن ہيں ايمان لائيں گے _

۸ _ مكہ كے ستم گر مشركين كى طرف سے معجزے كى درخواست بہانہ تھى نہ حقيقت تك پہنچنے كيلئے _فليأتنا أفهم يؤمنون

خداتعالى نے مشركين كى طرف سے معجزہ كى درخواست كو اسلئے رد فرمايا كہ يہ بھى گذشتہ مشركين كى طرح ايمان نہيں لانا چاہتے لہذا ايسى درخواست صرف ايك بہانہ اور ہتھكنڈا ہے _

۹ _ ستمگر مشركين كا ايمان نہ لانا اور حق كو قبول نہ كرنا ان كے پيغمبراكرم(ص) سے معجزہ كے درخواست كے رد ہونے كى وجہ اور فلسفہ _فليأتنا بأية أفهم يؤمنون

آنحضرت(ص) :آپ(ص) كے دشمن ۷

اسلام:صدر اسلام كى تاريخ ۹

گذشتہ امتيں :انكى تاريخ ۳; انكى ہلاكت كے عوامل ۳; انكا انجام ۳; انكے عذاب كا فلسفہ ۲; انكى ہلاكت كا فلسفہ ۲

انبيا(ع) :انہيں جھٹلانے والوں كا ہدف ۶; ان كے دشمن ۷; ان كے دشمنوں كى ہم آہنگي۶; انہيں جھٹلانے والوں كى ہم آہنگى ۶

ايمان:اسكے اجتماعى اثرات ۴

تہذيبيں :ان كى بقاء كے عوامل ۴

۲۹۵

معاشرہ:معاشروں كى بقا كے عوامل ۴

عذاب:اہل عذاب كا كفر ۱; اہل عذاب كا ليچڑپن ۱

قرآن كريم:اسكى پيشين گوئي ۵

مشركين:صدر اسلام كے مشركين كے حق كو قبول نہ كرنے كے اثرات۹; صدر اسلام كے مشركين كے كفر كے اثرات ۹; صدر اسلام كے مشركين كى دشمنى كي شدت ۷; صدر اسلام كے مشركين كا كفر ۵; صدر اسلام كے مشركين كا ليچڑين ۵

مشركين مكہ:انكى بہانہ جوئي ۸; ان كے مطالبوں كا فلسفہ ۸

معجزہ:اسے جھٹلانے كے اثرات ۳; اسكى درخواست ۸; اپنى مرضى كے معجزہ كے رد ہونے كا فلسفہ ۹; اسے جھٹلانے كى سزا ۲; اپنى مرضى كا معجزہ ۸

آیت ۷

( وَمَا أَرْسَلْنَا قَبْلَكَ إِلاَّ رِجَالاً نُّوحِي إِلَيْهِمْ فَاسْأَلُواْ أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ )

اور ہم نے آپ سے پہلے بھى جن رسولوں كو بھيجا ہے وہ سب مر ہى تھے جن كى طرف ہم وحى كيا كرتے تھے_ تو تم لوگ اگر نہيں جانتے ہو تو جاننے والوں سے دريافت كرلو (۷)

۱ _ تمام انبياء الہي، انسان اور مرد تھے_و ما أرسلنا قبلك الإرجال

۲ _ صاحب رسالت كا انسان ہونے كے منافى ہونا، مشركين كى باطل سوچ _هل هذا إلا بشر مثلكم ما أرسلنا قبلك إلا رجال

۳ _ مقام رسالت، انسان ہونے كے منافى نہيں ہے بلكہ انبيا(ع) كا انسان ہونا سنت الہى ہے_

هل هذا إلا بشر مثلكم ما أرسلنا قبلك إلا رجال

۴ _ خداتعالى ، وحى اور انبيا(ع) ء كو بھيجنے كا سرچشمہ ہے_و ما أرسلنا قبلك إلا رجالا نوحى إليهم

۵ _ انبيا(ع) ء كا وحى سے بہرہ مند ہونا ان كا ديگر انسانوں سے امتياز _

و ما أرسلنا قبلك إلا رجالاً نوحى اليهم

۶ _ وحى الہى كو حاصل كرنا، منصب رسالت كا لازمہ ہے_و ما أرسلنا نوحى إليهم

۷ _ انبياء كى دعوت ،صرف وحى الہى پر مبتنى تھي_بل قالوا أ ضغاث بل هو شاعر. و ما أرسلنا إلا رجالًا نوحى إليهم

۲۹۶

۸ _ خداتعالى كى طرف سے مشركين مكہ كو دعوت كہ وہ سابقہ انبياء كے بشر ہونے كے بارے ميں علم ركھنے والوں سے پوچھ ليں _فسئلوا أهل الذكر ان كنتم لا تعلمون

۹ _ انبيا(ع) ء كا انسان ہونا ،عصر بعثت كے دينى علما اور تاريخ انبيا(ع) ء سے آگاہ لوگوں كے ہاں مسلم تھا _

و ما أرسلنا فسئلوا أهل الذكر إن كنتم لا تعلمون

''اهل ذكر'' سے مراد دينى علما ء ہيں كيونكہ اولاً عام لوگ انبيا(ع) ء كى تاريخ سے بے خبر تھے اور اس قسم كے معلومات دينى علما كے پاس تھے او رثانياً كلمہ ''ذكر'' قرآن ميں آسمانى كتابوں اور خود قرآن پر بولا گيا ہے_

۱۰ _ عصر بعثت كے مشركين كے جاہلانہ ماحول ميں تاريخ انبيا(ع) ء سے واقف لوگوں كا موجود ہونا _

فسئلوا أهل الذكر

۱۱ _ اعتقادى اور دينى مسائل ميں علم و آگاہى كے حصول تك كوشش اور جستجو كرنا ضرورى ہے _

فسئلوا أهل الذكر إن كنتم لا تعلمون

جملہ ''إسئلوا ...'' مقدر شرط كا جواب ہے اور جملہ ''إن كنتم لا تعلمون'' اسكى تفسير كر رہا ہے اور يہ در اصل يوںهي'' إن كنتم لاتعلمون فاسئلوا ...'' (اگر نہيں جانتے تو سوال كرو) اس بات كا لازمہ يہ ہے كہ اگر انسان كسى چيز كو نہيں جانتا تو جاننے تك كوشش اور سوال كرنا ضرورى ہے _

۱۲ _ گذشتہ انبيا(ع) ء كے بشر ہونے كے بارے ميں مشركين مكہ كا تجاہل عارفانہ_فسئلوا أهل الذكر ان كنتم لا تعلمون

''ان كنتم لاتعلمون'' كى قيد مشركين كے علم كى طرف اشارہ ہے ورنہ اگر وہ واقعاً نہيں جانتے تھے تو مذكورہ قيد (اگر نہيں جانتے) كا لانا لغو اور بے سود ہوتا)

۱۳ _ مشركين مكہ كے نزديك دينى علماء اور آسمانى كتابوں كى اطلاع ركھنے والوں كا خاص معاشرتى مقام تھا_فسئلوا أهل الذكر

مشركين كو دينى علماء اور تاريخ انبيا(ع) ء سے واقف لوگوں كى طرف رجوع كرنے كا حكم دينا اس نكتے كو بيان كررہا ہے كہ مشركين كے درميان ان علماء كا خاص مقام تھا اور يہ ان لوگوں كى بات كو قبول كرتے تھے_

۱۴ _ دينى مسائل كے بارے ميں علماء كيلئے جاہلوں كے سوالوں كا جواب دينا ضرورى ہے_فسئلوا أهل الذكر

قابل ذكر ہے كہ اگر سوال واجب ہو تو جواب بھى واجب ہو ورنہ سوال كا واجب ہونا لغو اور بے

۲۹۷

فائدہ ہوگاكيونكہ اگر جواب واجب نہ ہو تو ممكن ہے سوال بغير جواب كے رہ جائے اور اس صورت ميں غرض حاصل نہيں ہوگى اور يہ خداوند حكيم سے دور ہے_

۱۵ _ علماء دين اور اہل خبرہ افراد كى بات كا حجت اور قابل اعتبار ہونافسئلوا أهل الذكر إن كنتم لا تعلمون

مذكورہ مطلب خداتعالى كے ،ناشناختہ مسائل ميں علماء كى طرف رجوع كرنے كے حكم كے لازمے سے استفادہ ہوتا ہے كيونكہ علماء كے اظہار نظر كے حجت اور قابل اعتبار ہونے كے بغير انكى طرف رجوع كو لازمى قرار دينا لغو ہوگا اور يہ خدا كے حكيم ہونے سے دور ہے_

۱۶ _'' قال رسول الله (ص) : لا ينبغى للعالم أن يسكت على علمه و لا ينبغى للجاهل ا ن يسكت على جهله و قد قال الله '' فسئلوا ا هل الذكر إن كنتم لا تعلمون'' ; رسول خدا(ص) نے فرمايا:كہ عالم كيلئے سزاوار نہيں ہے كہ وہ علم كے باوجود خاموش رہے (اور اسے چھپائے) اور جاہل كيلئے سزاوار نہيں ہے كہ جہل كے باوجود خاموش ر ہے (اور سوال نہ كرے) جبكہ خداتعالى نے فرمايا ہے''فسئلوا أهل الذكر إن كنتم لا تعلمون'' (۱)

انبياء (ع) :ان كا بشر ہونا ۱، ۳، ۸، ۹، ۱۲; انكى نوع ۱; انكا مرد ہونا ۱; انكا مقام و مرتبہ ۵; انكى بعثت كا سرچشمہ ۴; انكى دعوت كا سرچشمہ ۷; انكى طرف وحى ۵

اہل خبرہ:انكى بات كا حجت ہونا ۱۵

خيال:باطل خيال۲/جہلائ:انكى ذمہ دارى ۱۶/خداتعالى :اسكى دعوت ۸; اسكى سنت ۳; اس كا نقش و كردار ۴

دين:دينى سؤالوں كا جواب ۱۴/روايت ۱۶/عقيدہ:اعتقاد ى مسائل ميں جستجو ۱۱; اس ميں علم ۱۱

علمائ:ان سے سوال ۸; زمان بعثت كے علما ۱۰; انكى ذمہ دارى ۱۴

دينى علمائ:انكا احترام ۱۳; زمان بعثت كے دينى علما كى سوچ ۹; انكى بات كى حجيت ۱۵; صدر اسلام كے دينى علما ۱۳; انكى معاشرتى حيثيت ۱۳/مشركين:انكى سوچ ۲

مشركين مكہ:انكى سوچ ۱۳; انكا تجاہل عارفانہ ۱۲; انكو دعوت ۸

مؤرخين:زمان بعثت كے مؤرخين كى سوچ ۹; زمان بعثت كے مورخين ۱۰

____________________

۱ ) الدرالمنثور ج ۵، ص ۱۳۳

۲۹۸

نبوت:اس كى شرائط ۶; انسان كى نبوت كو جھٹلانے والے ۲

وحي:اس كا سرچشمہ۴; اس كا كردار ۷; يہ او رنبوت ۶

آیت ۸

( وَمَا جَعَلْنَاهُمْ جَسَداً لَّا يَأْكُلُونَ الطَّعَامَ وَمَا كَانُوا خَالِدِينَ )

اور ہم نے ان لوگوں كے لئے بھى كوئي ايسا جسم نہيں بنايا تھا جو كھانا نہ كھاتا ہو اور وہ بھى ہميشہ رہنے والے نہيں تھے (۸)

۱ _ ديگر انسانوں كى طرح انبيا(ع) ء كے بدن كو بھى غذا كى ضرورت ہے _و ما جعلنهم جسداً لا يأكلون الطعام

۲ _ انبيا(ع) ء اور ديگر لوگ جسمانى خصوصيات اور انسانى ضروريات كے لحاظ سے ايك جيسے ہيں _و ما جعلنهم جسداً لا يأكلون

۳ _ ديگر انسانوں كى طرح انبياء بھى دنيا ميں دائمى زندگى سے بہرہ مند نہيں تھے _و ما جعلنهم جسداً ما كانوا خلدين

۴ _ انبيا(ع) ء كا غذا سے بے نياز ہونا اور ان كا دنيا ميں زندہ و جاويد ہونا، مشركين كا باطل خيال_

و ما جعلنهم جسداً لا يأكلون الطعام و ما كانوا خلدين

۵ _ فانى ہونا اورخوراك كى احتياج، انسانى جسم كے عوارض ميں سے ہے _و ما جعلنهم جسداً لا يأكلون الطعام و ما كانوا خلدين

لفظ ''جسد'' كا استعمال اور پھر انبيا(ع) ء كى يہ توصيف كہ وہ بھى كھاتے اور موت كا شكار ہوتے ہيں اس نكتے كو بيان كررہا ہے كہ يہ دو صفتيں انبيا(ع) ء كے وجود كے جسمانى ہونے كے ساتھ مربوط ہيں كيونكہ يہ انسان كا جسم ہے جسے خوراك كى ضرورت ہے اور يہ فانى ہے نہ انسان كى روح_

۶ _ موت، ايسى حتمى تقدير ہے كہ جس سے حتى انبياء كا بھى

۲۹۹

چھٹكارا نہيں ہے _و ما كانوا خلدين

انبياء:ان كا انسان ہونا ۱، ۲، ۳; انكا دائمى ہونا ۴; ان كا طعام ۱، ۴; انكا انجام ۶; انكى موت ۳، ۶; انكى مادى ضروريات ۱، ۲

انسان:اسكے بدن كا فانى ہونا ۵; اسكى مادى ضروريات ۲، ۵

سوچ:باطل سوچ ۴

مشركين:انكى سوچ۴

ضروريات:غذا كى ضرورت ۱، ۵

آیت ۹

( ثُمَّ صَدَقْنَاهُمُ الْوَعْدَ فَأَنجَيْنَاهُمْ وَمَن نَّشَاء وَأَهْلَكْنَا الْمُسْرِفِينَ )

پھر ہم نے ان كے وعدہ كو سچ كر دكھايا اور انھيں اور ان كے ساتھ جن كو چاہا بچاليا اور زيادتى كرنے والوں كو تباہ و برباد كرديا (۹)

۱ _ انبيا(ع) ء اور مؤمنين كو دشمنوں سے نجات دينا اور انہيں ان پر كاميابى عطا كرنا،خداتعالى كا ان كے ساتھ وعدہ _

و ما ارسلنا قبلك إلّا رجالاً ثم صدقنهم الوعد فأنجينهم و من نشاء

۲ _ دشمنوں كى نابودي، خداتعالى كا انبيا(ع) ء اور مؤمنين كے ساتھ وعدہ _ثم صدقنهم الوعد و أهلكنا المسرفين

۳ _ خداتعالى نے انبيا(ع) ء و مؤمنين كو نجات دينے اور دشمنوں كو ہلاك كرنے والے اپنے وعدے پر عمل كيا _

ثم صدقنهم الوعد فأنجينهم و من نشاء و أهلكنا المسرفين

''صدقنا '' كا مصدر ''صدق'' دو چيزوں ميں استعمال ہوتا ہے _ ۱_ اعتقادات ميں اس صورت ميں اس كا معنى ہوتا ہے واقع كے مطابق اعتقاد _۲_ انسان كے اعمال كے بارے ميں اس صورت ميں اس سے مراد ہو تا ہے كام كو شائستہ

اور صحيح طريقے سے انجام دينا (مفردات راغب) اس آيت ميں دوسرا معنى مقصود ہے_ قابل ذكر ہے كہ مادہ ''صدق'' بعض موارد ميں دو مفعولوں كى طرف متعدى ہوتا ہے اور يہ آيت بھى انہيں ميں سے ہے_

۴ _ لوگوں كى دشمنوں سے نجات اور رہائي، خداتعالى كى مشيت كى مرہون منت ہے _فأنجيناهم و من نشاء

۵ _ اسراف كرنے والے، ابنيا(ع) ء كے مقابلے ميں انكے مخالفين كى صفوں ميں اور ان كے دشمن تھے_

فأنجيناهم

۳۰۰

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750