تفسير راہنما جلد ۱۱

تفسير راہنما 7%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 750

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 750 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 219128 / ڈاؤنلوڈ: 3020
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

۱۰ _ صرف راہ اعتدال پر چلنے والے اور حقيقت كو پالينے والے عذاب سے نجات حاصل كريں گے_

و لو أنّا أهلكنا هم بعذاب فستعلمون من أصحب الصراط السوى و من اهتدى

۱۱ _ اسلام، اعتدال كا راستہ ہے اور مسلمان اس راستے پر چلنے والے اور ہدايت يافتہ ہيں _فستعلمون من أصحب الصراط السوى و من اهتدى ''سوي''بروزن ''فعيل''اسم فاعل كے معنى ميں ہے يعنى مستوى اور معتدل (لسان العرب)

۱۲ _ صدر اسلام كے كفار، راہ اعتدال پر چلنے اور ہدايت يافتہ ہونے كے مدعى تھے _فستعلمون من أصحاب الصراط السوى و من اهتدى

آيات الہي:انكى تكذيب كے اثرات ۱; انہيں جھٹلانے والوں كى ہلاكت ۸

دعوى :ہدايت كا دعوى ۱۲

اسلام:اس كا اعتدال ۱۱; اسكى شكست كى توقع ۸; صدر اسلام كى تاريخ ۷; اسكى حقانيت كا ظہور ۹

انبيائ(ع) :انہيں جھٹلانے والوں كى ہلاكت ۸

ڈرانا:عذاب سے ڈرانا ۲/تاريخ:اس كا مطالعہ ۵; اس كا كردار ۵، ۶

حقائق:ان كے كشف كے عوامل ۵

خداتعالى :اسكے عذاب كا مذاق اڑانا ۴، اسكے وعدے كا عملى ہونا ۹

دين:اسكى حقانيت كے ظہور كا پيش خيمہ ۶

عدالت خواہ لوگ:انكى نجات ۱۰/عذاب:اہل عذاب۱; اس سے نجات ۱۰

كفار:صدر اسلام كے كفار كے دعوے ۱۲; صدر اسلام كے كفار كا مذاق اڑانا ۴; صدر اسلام كے كفار كى توقعات ۷; انہيں ڈرانا ۲; صدر اسلام كے كفار كا ہدايت كو قبول نہ كرنا ۳

كفار مكہ:ان پر اتمام حجت كرنا۱; انكا عذاب۱; انكى ہلاكت ۱

آنحضرت(ص) :آپ(ص) كا ڈرانا ۲; آپ(ص) كى رسالت ۲; آپ(ص) كى مايوسي۳

مسلمان:ان كى ہدايت ۱۱

ہدايت يافتہ لوگ:۱۱/انكى نجات ۱۰

۲۸۱

۲۱-سورہ انبياء

آيت نمبر ۱

( بسم الله الرحمن الرحيم )

( اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ وَهُمْ فِي غَفْلَةٍ مَّعْرِضُونَ )

بنام خدائے رحمان رحيم

لوگوں كے لئے حساب كا وقت آپہنچا ہے اور وہ ابھى غفلت ہى ميں پڑے ہوئے ہيں اور كنارہ كشى كئے جارہے ہيں (۱)

۱ _ انسان، روز قيامت كے حساب كے نزديك ہونے كے باوجود اس سے انتہائي غافل ہےاقترب للناس حسابهم و هم فى غفلة معرضون كلمہ ''في'' ، ''فى غفلة'' ميں ظرفيت مجازى كيلئے ہے اور يہ وصف كى شدت پر دلالت كرتا ہے يعنى لوگوں كى آخرت كے حساب سے غفلت بہت زيادہ ہے_

۲ _ لوگوں كے اعمال كا حساب وكتاب قريب اور قطعى ہےاقترب للنا س حسابهم

۳ _ صدر اسلام كے مشركين، قيامت كے حساب كتاب والے مسئلہ سے بالكل غافل تھے اور اس كے واضح اور روشن دلائل اور علامات ميں غور و فكر كرنے سے بھى روگردان تھے_اقترب للنا س حسابهم و هم فى غفلة معرضون

مذكورہ مطلب اس نكتے كے پيش نظر ہے كہ يہ سورت مكى ہے اور ''الناس'' كے پہلے مخاطب اور مصداق مشركين ہيں _

۴ _ حساب و كتاب ، قيامت كے اہم واقعات ميں سے ہے_اقترب للناس حسابهم

سورہ كے آغاز ميں حساب و كتاب كا تذكرہ اور قيامت كے ديگر واقعات ميں سے صرف اس كا بيان مذكورہ مطلب كو بيان كررہا ہے_

۵ _ قيامت كو ياد كرنا اور اسكے حقائق و واقعات ميں تدبر و تامل ايك ضرورى اور لازمى امر ہے_

۲۸۲

اقترب للناس حسابهم و هم فى غفلة معرضون

آيت كريمہ ان لوگوں كى مذمت كر رہى ہے جو قيامت اور اسكے واقعات سے غافل ہيں يہ مذمت قيامت اور اسكے حالات كے بارے ميں غور و فكر كے لازمى ہونے كو بيان كررہى ہے_

۶ _ انسان اپنى رفتار و كردار كا ذمہ دار ہے اور قيامت كے دن اس سے باز پرس ہوگى اور اس كا مؤاخذہ كيا جائيگا_

اقترب للناس حسابهم

مذكورہ مطلب اس نكتے كے پيش نظر ہے كہ حساب و كتاب اس وقت معقول اور تصور ہے جب ذمہ دارى اور مسئوليت ہو_

۷ _ انسان، قيامت كى نشانيوں اور اس كے اثبات كے دلائل كے بارے ميں غور و فكر كرنے سے روگردانى كرنے والا ہے_اقترب للناس حسابهم و هم فى غفلة معرضون

''غفلت'' اور ''اعراض'' كا متعلق دوچيزيں ہيں كيونكہ غفلت كسى مسئلہ كى طرف توجہ نہ كرنے كى علامت ہے جبكہ روگردانى اسكى طرف توجہ كرنے كى نشانى ہے _اور ممكن نہيں ہے كہ ايك چيز كى طرف توجہ ہو بھى اور نہ بھى ہو لہذا اعراض سے مراد قيامت كو ثابت كرنے والے روشن دلائل سے روگردانى كرنا اور قيامت كے بارے ميں تدبر و تفكر نہ كرنا ہے _

انسان:اس كا اخروى حساب و كتاب ۶; اسكى غفلت ۱; اسكى ذمہ دارى ۶

تفكر:قيامت ميں تفكر كى اہميت ۵; قيامت ميں عدم تفكر كى نشانياں ۷

حساب و كتاب:اخروى حساب و كتاب سے غافل لوگ ۳

ذكر:قيامت كے ذكر كى اہميت ۵

عمل:اسكے حساب و كتاب كا قطعى ہونا ۲; اس كا ذمہ دار ۶; اسكے حساب كا نزديك ہونا ۲

غفلت:اخروى حساب سے غفلت۱; قيامت سے غفلت ۱

قيامت:اس ميں حساب و كتاب ۴; اسكے واقعات ۴; اس سے اعراض كرنے والے ۳، ۷; اسكى خصوصيات ۴

مشركين:صدر اسلام كے مشركين كا عدم تفكر ۳; صدر اسلام كے مشركين كى غفلت ۳

۲۸۳

آیت ۲

( مَا يَأْتِيهِم مِّن ذِكْرٍ مَّن رَّبِّهِم مُّحْدَثٍ إِلَّا اسْتَمَعُوهُ وَهُمْ يَلْعَبُونَ )

ان كے پاس ان كے پروردگار كى طرف سے كوئي نئي ياد دہانى نہيں آتى ہے مگر يہ كہ كان لگا كر سن ليتے ہيں اور پھر كھيل تماشے ميں لگ جاتے ہيں (۲)

۱ _ مشركين، وحى كے نزول اور خداتعالى كے نئے پيغام (قرآن) كو سرسرى ليتے اور كھيلنے كے ساتھ اسے سنتے _

ما يأتيهم من ذكر من ربهم و هم يلعبون زيادہ تر مفسرين كا يہ كہنا ہے كہ ذكر سے مراد ہر قسم كى وحى اور يا فقط قرآن كريم ہے_ اور جملہ ''و ہم يلعبون''، ''استمعوہ'' كے فاعل كيلئے حال ہے يعنى وہ كھيل ميں مصروف ہونے كى حالت ميں آيات الہى كو سنتے اور انہيں سنجيدگى او رسنجيدگى سے استماع نہ كرتے_

۲ _ مشركين كا آيات الہى كے ساتھ غير شائستہ اور كھيل كودوالا سلوك انكى انتہائي غفلت اور بے خبرى كى علامت ہے_

وهم فى غفلة معرضون۰ ما يأتيهم من ذكر من ربهم جملہ ''ما يأتيهم من ذكر '' يا تو سابقہ جملے كيلئے بيان ہے اور يا اسكى تعليل كے طور پر ہے _بہرحال يہ مشركين كى انتہائي غفلت اور بے خبرى كى كيفيت كو بيان كررہا ہے

۳ _ وحى الہى (قرآن اور ...) غفلت كو دور كرنے، انسان كى سوئي ہوئي فطرت كو جگانے اور اس كى فراموش كردہ معلومات كى ياد دہانى كيلئے ہے_و هم فى غفلة معرضون ما يأتيهم من ذكر من ربهم

معنى كے لحاظ سے ''ذكر'' ،''حفظ'' كى طرح ہے اس فرق كے ساتھ كہ ''حفظ شيئ'' اسكے معلوم كرنے اور حاصل كرنے كے ساتھ ہوتا ہے جبكہ ''ذكر شي'' اسے حاضر كرنے اور يادكرنے كے اعتبار سے ہوتا ہے (مفردات راغب) لہذا قرآن كي''ذكر'' كے ساتھ توصيف كرنا اس

۲۸۴

اعتبار سے ہے كہ قرآن ،انسان كى فراموش كردہ معلومات كى ياد دہانى كرانے والا اور غافل انسان كى فطرت كو جگانے والا ہے

۴ _ وحى الہي، لوگوں كو ياد دہانى كرانا اور غفلت و بے خبرى سے انہيں نجات دينا خداتعالى كى ربوبيت كا تقاضا ہے_

ما يأتيهم من ذكر من ربهم

۵ _ '' رب'' خداوند متعال كى اسما و صفات ميں سے ہے_ما يا تيهم من ذكر من ربهم

۵ _ قرآن، ديگر آسمانى كتابوں كے مقابلے ميں نئي اور جديد تعليمات پر مشتمل ہے _ما يأتيهم من ذكر من ربهم محدث

''محدث'' كا معنى ہے جديد او رنئي چيز _اور آيت كريمہ ميں يہ ''ذكر'' كى صفت ہے قرآن كى جديد اور نئے ہونے كے ساتھ توصيف ہوسكتا ہے جديد آيات كے نزول كے اعتبار سے ہو اسى طرح ہوسكتا ہے آيات قرآنى اور اسكى تعليمات كے ديگر آسمانى كتابوں كے مقابلے ميں تازہ اور نئي ہونے كے لحاظ سے ہو مذكورہ مطلب دوسرے فرضيے كى بناپر ہے_

۶ _ عصر بعثت ميں مشركين، روايت پرست اور پرانى ذہنيت كے لوگ تھے _ما يأتيهم من ذكر من ربهم محدث

مشركين كى طرف سے خداتعالى كے جديد پيغامات كى مخالفت انكى روايت پرستى اور پرانى ذہنيت كى علامت ہے_

۷ _ وحى الہى اور آسمانى كتابوں ميں سنجيدہ اور عاقلانہ غور و فكر كى ضرورت ہے _ما يأتيهم من ذكر هم يلعبون

۸ _ وحى ا ورقيامت پر ايمان كے بغير زندگى كھيل تماشا اور بے مقصد ہے _ما يأتيهم من ذكر و هم يلعبون

مذكورہ مطلب اس احتمال كى بنياد پر ہے كہ ''يلعبون'' مشركين كى طبعى اورروزمرہ كى زندگى كى طرف ناظر ہو يعنى نزول وحى كے وقت وہ لوگ سب بے مقصد اور كھيل تماشے والى زندگى ميں مشغول ہوتے لہذا جو لوگ مبدا و معاد كا انكار كرتے ہيں وہ بھى (مشركين كى طرح) زندگى ميں لہو و لعب اور كھيل تماشے ميں گرفتار ہوجاتے ہيں _

۹ _ قيامت سے غفلت، وحى سے بے اعتنائي اور دين كو بازيچہ اطفال قرار دينے كا پيش خيمہ ہے _

و هم فى غفلة معرضون ما يأتيهم و هم يلعبون

۱۰ _ انسان كا دنيا كے ساتھ سرگرم رہنا، اسكے وحى اور دين الہى سے غافل ہونے كا سبب ہے _ما يأتيهم من ذكر و هم يلعبون جملہ''و هم يلعبون'' ،''استمعوه'' كى فاعلى ضمير كيلئے حال اورمشركين اور حق سے گريز كرنے والے لوگوں كى حالت كو بيان كر رہا ہے يہ حالت ہوسكتا ہے حق سے گريز كرنے اور پيغامات الہى سے بے اعتنائي كرنے ميں مؤثر ہو_قابل ذكر ہے كہ بعدوالى آيت كے شروع

۲۸۵

ميں جملہ''لا هية قلوبهم'' كہ جو جملہ''و هم يلعبون'' ميں مبتدا كيلئے حال ہے اسى مطلب كى تائيد كرتا ہے _

۱۱ _'' قال ا بو الحسن (ع) : التوراة و الانجيل والزبور والفرقان و كل كتاب ا نزل كان كلام الله تعالى ا نزله للعالمين نوراً و هديً و هى كلها محدثة و هى غير الله قال: '' ما يا تيهم من ذكر من ربهم محدث إلا استمعوه و هم يلعبون'' و الله ا حدث الكتب كلها الذى أنزلها ...; امام رضا(ع) سے روايت كى گئي ہے كہ آپ(ع) نے فرمايا: تورات، انجيل، زبور، قرآن اور نازل ہونے والى ہر كتاب كلام الہى ہے كہ جسے اس نے سب جہانوں كى ہدايت كيلئے نازل كيا ہے اور يہ سب كتابيں حادث ہيں اور حادث غير خدا ہوتا ہے خداتعالى نے فرمايا ہے''ما يأتيهم من ذكر من ربهم محدث الا استمعوه و هم يلعبون'' اور خداتعالى نے جتنى بھى كتابيں نازل كى ہيں اس نے انہيں خلق كيا ہے(۱)

آيات الہى :ان كے ساتھ كھيلنا ۲

آسمانى كتب:ان كا حادث ہونا ۱۱

اسلام:صدر اسلام كى تاريخ ۶

ايمان:قيامت پر ايمان كے اثرات۸; وحى پر ايمان كے اثرات ۸

تفكر:آسمانى كتابوں ميں تفكر كى اہميت ۸; وحى ميں تفكر كے اثرات ۸

خداتعالى :اسكى ربوبيت كے اثرات ۴

دنيا پرستي:اسكے اثرات ۱۰/دين:اسكى آسيب شناسى ۱۰; اسكے ساتھ كھيلنے كا پيش خيمہ ۹

روايت :۱۱

زندگي:قابل قدر زندگى ۸; زندگى كے كھوكھلا ہونے كے عوامل ۸

غفلت:قيامت سے غفلت كے اثرات ۹; دين سے غفلت كے عوامل ۱۰; وحى سے غفلت كے عوامل ۱۰

فطرت:اسكے متنبہ ہونے كے عوامل ۳

قرآن مجيد:اس كے ساتھ كھيلنا ۱; اس سے بے اعتنائي ۱; اس كا غفلت كو دور كرنا ۳; اس كے نزول كا فلسفہ ۳; اس كا جديد ہونا ۵; اسكى تعليمات كى خصوصيات ۵; اس كا ہدايت كرنا ۳

____________________

۱ ) بحار الانوار ج۱۰، ص ۳۴۴ ح۵_ نورالثقلين ج۳، ص ۴۱۲، ح۶_

۲۸۶

مشركين:صد راسلام كے مشركين كى ہٹ دھرمى ۶; انكا سلوك ۲; صدر اسلام كے مشركين كى روايت پرستى ۶; يہ اور آيات الہى ۲;يہ اور قرآن۱; انكى غفلت كى نشانياں ۲

وحي:اس سے روگردانى كا پيش خيمہ ۹; اس كا فلسفہ ۳; اسكے نزول كا سرچشمہ ۴

ہدايت:اس كا سرچشمہ ۴

آیت ۳

( لَاهِيَةً قُلُوبُهُمْ وَأَسَرُّواْ النَّجْوَى الَّذِينَ ظَلَمُواْ هَلْ هَذَا إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ أَفَتَأْتُونَ السِّحْرَ وَأَنتُمْ تُبْصِرُونَ )

ان كے دل بالكل غافل ہوگئي ہيں اور يہ ظالم اس طرح آپس ميں راز و نياز كى باتيں كيا كرتے ہيں كہ يہ بھى تو تمھارے ہى طرح كے ايك انسان ہين كيا تم ديدہ و دانستہ ان كے جادو كے چكر ميں آرہے ہے (۳)

۱ _ مشركين ايسے لوگ ہيں جو زندگى كے اصلى اور سنجيدہ مسائل سے غافل ہيں اور لغو اور بے قيمت قسم كى چيزوں سے دل لگائے ہوئے ہيں _وهم يلعبونلاهيةقلوبهم

''لہو'' كا معنى وہ چيز ہے جو انسان كو اہم اور سودمند كاموں سے باز ركھے (مفردات راغب) مشركين كى اس بات كے ساتھ توصيف كہ ان كے دل لہو و لعب اور غير اہم كاموں ميں مشغول ہيں مذكورہ مطلب كو بيان كررہى ہے _

۲ _ دل كى بيدارى اور ہوشمندى حقائق الہى كو سمجھنے اور وحى و كتب آسمانى سے متأثر ہونے كى لازمى شرط ہے_

ما يأتيهم لا هية قلوبهم

۳ _ لہو و لعب اور دل كا غير مہم اور بے قدر و قيمت امور ميں مشغول ہونا دل كى بيماريوں ميں سے ہے اور يہ ايك برى اور ناپسنديدہ چيز ہے_لاهية قلوبهم

آيت كريمہ مشركين كے ناپسنديدہ اوصاف، انكى منفى خصوصيات اور ان كى مذمت كے بيان كے مقام ميں ہے _

۴ _ ستم گر مشركين كى طرف سے پيغمبراكرم (ص) كے خلاف خفيہ ميٹنگوں اور مخفى مشاورتوں كا انعقاد _

و أسروا النجوى الذين ظلمو

۵ _ وحى كے ساتھ ناشائستہ سلوك اور اس كے ساتھ كھيلنا ظلم و ستم كا مصداق ہے _و هم يلعبون لاهية قلوبهم الذين ظلمو

۲۸۷

۶ _ ستم گر مشركين پيغمبر اكرم(ص) كى د عوت كے خلاف اجتماعى اور منسجم حركات ركھتے تھے _و أسروا النجوى الذين ظلمو ''اسرّوا'' (مصدر اسرار ہے) يعنى پنہان ركھتے تھے اور ''نجوى '' كا معنى ہے خفيہ گفتگو اور يہ''اسروّ ا''كا مفعول ہے پس ''نجوى ''كرنا ايك اجتماعى تحرك كى دليل ہے اوراسے مخفى ركھنا ان كے اس تحرك كو دوسروں (مسلمانوں ) كى نظروں سے دور ركھنے كى كوشش كا غماز ہے_

۷ _ پيغمبراكرم(ص) اور آپ(ع) كى دعوت كے خلاف مشركين كے خاص گروہ كى طرف سے سازش كا تيار كيا جانا _

و أسروا النجوى الذين ظلمو مذكورہ مطلب اس بناپر ہے كہ ''الذين ظلموا'' قيد احترازى ہو يعنى مشركين كا وہ گروہ جو ظلم و ستم اور تجاوز كرنے والى فطرت ركھتے ہيں _

۸ _ اسلام، ظلم دشمنى كا دين ہے اورتعليمات قرآن معاشرے كے چہرے سے ظلم اور سياہ كارى كو مٹانے كيلئے ہيں _

ما يأتيهم من ذكر من ربهم محدث إلا استمعوه و هم يلعبون و أسروا النجوى الذين ظلمو

ستم گر ٹولے كى طرف سے پيغمبر(ص) اكرم اور قرآن كى مخالفت اور ان كے خلاف سازش اس نكتے كو بيان كرر ہے ہيں كہ اسلام معاشرے سے ظلم كو دور كرنے اور استعمارى طبقے كے ظالمانہ مفادات كو ختم كرنے كے درپے ہے ورنہ كيا وجہ ہے كہ صرف يہى گروہ اسلام كى مخالفت پر تلا ہوا ہے

۹ _ پيغمبر اكرم(ص) كا بشر ہونا، مشركين كى سازش اور خفيہ گفتگو كا محتوى اور اسلام و قرآن كے خلاف دستاويز _

و أسروا النجوى الذين ظلموا هل هذا إلا بشر مثلكم

۱۰ _ مشركين كى نظر ميں انسان ہونے كا مقام نبوت كا حاصل كرنے كے ساتھ سازگار نہ ہونا_هل هذا إلا بشر مثلكم

۱۱ _ پيغمبر اكرم(ص) لوگوں كے درميان بلاواسطہ اور قابل احساس طريقے سے حاضر رہتے اور انہيں كى طرح زندگى گزارتے _هل هذا إلا بشر مثلكم

''مثلكم'' بشر كى صفت ہے (بشر ہونے كے علاوہ) پيغمبراكرم(ص) كى تمہارے جيسا ہونے كے ساتھ توصيف ممكن ہے مذكورہ مطلب كو بيان كررہى ہو_

۱۲ _ ستمگر مشركين كى طرف سے قرآن كى طرف جادو ہونے اور پيغمبراكرم(ص) كى طرف جادوگر ہونے كى ناروا نسبت _أفتأتون السحر و أنتم تبصرون

۱۳ _ستمگر مشركين قرآن پر جادو ہونے كى تہمت لگا كر اسے ہرگز پيروى كے لائق نہيں سمجھتے تھے_

۲۸۸

أفتأتون السحر وأنتم تبصرون جملہ''أفتأتون السحر'' ميں استفہام انكارى ہے اور جملہ ''و انتم تبصرون''''تأتون'' كے فاعل كيلئے حال ہے اس بناپر آيت كا معنى يوں ہوگا كيا تم لوگ آنكھ اور آگاہى كے ساتھ قرآن_ كہ جو جادو ہے _ كے پيچھے جاتے ہو؟ يعنى يہ كہ قرآن كا پيروى كے لائق نہ ہونا واضح و روشن امر ہے_

۱۴ _ پيغمبراكرم(ص) كے زمانے كے لوگوں پر قرآن كى غير معمولى اور تعجب آور تأثير_أفتأتون السحر

قرآن پر جادو ہونے كى تہمت سے لگتا ہے كہ قرآن غير معمولى اثر ركھتا تھا _

۱۵ _ قرآن كا جادو اور پيغمبراكرم(ص) كا جادوگر ہونا ستمگر مشركين كے ايمان نہ لانے كا ايك اور بہانہ اور كھوكھلى دليل _

أفتأتون السحر و أنتم تبصرون

مشركين پيغمبراكرم(ص) كے دعوے كو رد كرنے كيلئے دو بہانے اور كھوكھلى دليليں لاتے تھے ۱_ آنحضرت(ص) كا بشر ہونا (هل هذا إلا بشر مثلكم ) ۲_ آپ(ص) كا جادوگر ہونا (أفتأتون السحر )

۱۶ _ صدر اسلام كے مشركين جادو كى پيروى كو عقل و خرد كے ساتھ سازگار نہيں سمجھتے تھے _أفتأتون السحر و أنتم تبصرون

۱۷ _ پيغمبراكرم(ص) كو جھٹلانا اور انكى طرف ناروا نسبتيں (جادوگر ہونا و غيرہ) دينا ظلم ہے _و أسرّوا النجوى الذين ظلموا هل هذا إلا بشر أفتأتون السحر و أنتم تبصرون جملہ(هل هذا بشر أفتأتون السحر ...) ''النجوى '' كيلئے بدل ہے يعنى ستمگروں كى سرگوشيوں كا محتوا يہ تھا كہ پيغمبراكرم كى طرف جادو كى نسبت ديتے اور ان افراد كو ظالم كہنا بتا تا ہے كہ پيغمبراكرم(ص) كى طرف ناروا نسبت دينا ظلم كا واضح مصداق ہے_

آسمانى كتب:انكے سمجھنے كا پيش خيمہ ۳

اسلام:صدر اسلام كى تاريخ ۴، ۶، ۷; اسلام كے خلاف سازش ۹; اسكى ظلم دشمنى ۸; اسكى خصوصيات۸

آنحضرت(ص) :آپ(ص) كا بشر ہونا۹، ۱۱; آپ(ص) كے خلاف سازش ۴، ۶، ۷; آپ(ص) پر جادوگرى كى تہمت ۱۲، ۱۵، ۱۷;بصيرت:اسكے اثرات ۲

جادو:اسكى پيروى كے موانع ۱۶/حقائق:انكے سمجھنے كا پيش خيمہ ۲

دنيا پرستي:اسكے اثرات ۳/صفات:

۲۸۹

ناپسنديدہ صفات ۳

ظالم لوگ:صدر اسلام كے ظالموں كى سازش ۶، ۷

ظلم:اسكے موارد ۵، ۱۷

عقل:اس كا كردار ۱۶

غافل لوگ:۱

قرآن كريم:اسكے خلاف سازش ۹; اس پر جادو كى تہمت ۱۲، ۱۳، ۱۵; اسكى ظلم دشمنى ۸; اس سے روگردانى كرنے والے ۱۳; اس كا كردار ۱۴

دل:اسكى بيمارى كا پيش خيمہ ۳

لہو و لعب:اسكے اثرات ۳

آپكى سيرت ۱۱; آپ(ص) پر ظلم ۴; آپ كو جھٹلانے كا ظلم ۱۷

لوگ:صدر اسلام كے لوگ اور قرآن ۱۴

مشركين:انكى بہانہ تراشى ۱۵; انكا غير منطقى ہونا ۱۵; انكى سوچ ۱۰; صدر اسلام كے مشركين كى سوچ ۱۶; انكى زندگى كا كھوكھلا ہونا ۱; صدر اسلام كے مشركين كا منظم ہونا۶; صدر اسلام كے مشركين كى سازش ۴، ۶، ۷، ۹; انكى تہمتيں ۱۲، ۱۳، ۱۵; صدر اسلام كے مشركين كى خفيہ ميٹينگيں ۴، ۶; صدر اسلام كے مشركين كى مشاورتى ميٹينگيں ۴; انكى غفلت ۱; صدر اسلام كے مشركين كى سرگوشياں ۹/نبوت:بشر كى نبوت كو جھٹلانے والے ۱۰

وحي:اسكے ساتھ كھيلنا ۵; اسے سمجھنے كا پيش خيمہ ۲

آیت ۴

( قَالَ رَبِّي يَعْلَمُ الْقَوْلَ فِي السَّمَاء وَالأَرْضِ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ )

تو پيغمبر نے جواب ديا كہ ميرا پروردگار آسمان و زمين كى تمام باتوں كو جانتا ہے وہ خوب سننے والا اور جاننے والا ہے (۴)

۱ _ پروردگار كا اہل زمين و آسمان كى تمام باتوں سے آگاہ ہونا _قال ربى يعلم القول فى السماء و الأرض

۲ _ آسمانى موجودات ميں كلام اور سخن كا موجود ہونا_

۲۹۰

قال ربى يعلم القول فى السماء

۳ _ خداتعالى نے پيغمبراكرم(ص) كو ستم گر مشركين كى خفيہ ميٹنيگوں اور مخفى گفتگو سے آگاہ كيا _

أسروا النجوى قال ربى يعلم القول فى السماء

۴ _ خداتعالى كى طرف سے ستمگر مشركين كو پيغمبر اكرم(ص) اور اسلام كے خلاف خفيہ سازشيں اور سرگوشياں كرنے كے بارے ميں تنبيہ _أسروا النجوى الذين ظلموا قال ربى يعلم القول فى السماء و الأرض

سرگوشياں اور سازشيں كرنے والے مشركين كو اس آيت كى ياد دہانى كہ خداتعالى آسمان و زمين ميں ہونے والى ہر بات سے آگاہ ہے ان كيلئے انكى سازشوں كے برے انجام كے بارے ميں تنبيہ ہے _

۵ _ مطلق علم اور شنوائي ،صرف خداتعالى كى شان ہے _و هوالسميع العليم

ادبى لحاظ سے جب بھى مبتدا معرفہ اور خبر پر الف و لام ہو تو يہ حصر كا فائدہ ديتا ہے آيت كريمہ ميں بھى ايسے ہى ہے_

۶ _ اس بات كى طرف توجہ كہ خداتعالى موجودات عالم كے اعمال و گفتار سے مكمل آگاہى ركھتا ہے انسان كو حق دشمنى اور گناہ سے باز ركھتا ہے_أسرّوا النجوى قال ربى يعلم القول فى السماء و الأرض و هو السميع العليم

خداتعالى نے مشركين كى اسلام كے خلاف خفيہ سازشوں اور سرگوشيوں كے جواب ميں پيغمبراكرم كو حكم ديا كہ انہيں خداتعالى كے مكمل علم كى خبرديں _ يہ حقيقت ہوسكتا ہے مذكورہ مطلب كو بيان كررہى ہو_

۷ _ خداتعالى سميع (سننے والا) اورعليم (جاننے والا) ہے_وهو السميع العليم

آسمان:اہل آسمان كا كلام ۱; اسكے موجودات كا گفتگو كرنا ۲; اسكے باشعور موجودات ۲

اسلام:صدر اسلام كى تاريخ ۴; اسكے خلاف سازش كرنا ۴

اسما و صفات:سميع ۷; عليم ۷

انسان:اسكى سخن۱

آنحضرت(ص) :آپ(ص) كے خلاف سازش ۴; آپ(ص) كے علم كا سرچشمہ ۳

حق:حق دشمنى كے موانع ۶

خداتعالى :اسكى خصوصيات ۵; اس كا افشا كرنا ۳; اسكى شنوائي ۵; اس كا علم ۱، ۵; اس كا خبردار كرنا ۴

ذكر:خداتعالى كے علم غيب كے ذكر كے اثرات ۶

۲۹۱

گناہ:اسكے موانع ۶

مشركين:صدر اسلام كے مشركين كو افشا كرنا ۳; انكي سازشيں ۴; صدر اسلام كى مشركين كے خفيہ ميٹينگيں ۳، ۴; صدر اسلام كے مشركين كو تنبيہ ۴

موجودات:ان كا كلام كرنا ۶; انكا عمل ۶

آیت ۵

( بَلْ قَالُواْ أَضْغَاثُ أَحْلاَمٍ بَلِ افْتَرَاهُ بَلْ هُوَ شَاعِرٌ فَلْيَأْتِنَا بِآيَةٍ كَمَا أُرْسِلَ الأَوَّلُونَ )

بلكہ يہ لوگ كہتے ہيں كہ يہ تو سب خواب پريشاں كا مجموعہ ہے بلكہ يہ خود پيغمبر كى طرف سے افتراء ہے بلكہ يہ شاعر ہيں او رشاعرى كر رہے ہيں ورنہ ايسى نشانى لے كر آتے جيسى نشانى لے كر پہلے پيغمبر بھيجے گئے تھے (۵)

۱ _ قرآن كو پراكندہ اور پريشان خواب سمجھنا ،ستمگر مشركين كى طرف سے پيغمبراكرم(ص) كے خلاف زہريلے پروپيگنڈے كا حصہ _بل قالوا أضغاث أحلام

''اضغاث'' (ضغث كى جمع) كا معنى ہے دستے اور مختلط چيزيں اور ''احلام'' (جمع حلم كي) كا معنى ہے خواب_ يہ تعبير (أضغاث أحلام) پريشان اور پراگندہ خوابوں كے سلسلے ميں بولى جاتى ہے_

۲ _ قرآن كو ايك غير منظم مجموعہ اور غير منسجم كتاب كے طور پر متعارف كرانا، ستمگر مشركين كے زہريلے پرو پيگنڈے كا حصہ تھا _بل قالوا أضغاث أحلام

مذكورہ نكتہ ''اضغاث'' كے لغوى معنى (پريشان چيزيں ، پراگندہ اور غير منسجم دستے) كو ديكھتے ہوئے ہے _

۳ _ قرآن كريم كا پيغمبراكرم(ص) كى طرف سے گھڑا ہوا ہونا ستمگر مشركين كى آنحضرت(ص) پر تہمت _بل افترى ه

۴ _ ستمگر مشركين كى طرف سے قرآن اور پيغمبراكرم(ص) كى طرف شعر وشاعرى كى ناروا نسبت _

بل هو شاعر

۵ _ قرآن كا خوبصورت اور جذاب ہونا مشركين مكہ كى نظر ميں مسلّم اور قابل قبول تھا _بل هو شاعر

چونكہ شعر خاص قسم كى خوبصورتى اور جذابيت كا حامل ہوتا ہے اس لئے مشركين، پيغمبراكرم(ص) كو شاعر سمجھتے تھے _

۶ _ مشركين، قرآن كا مقابلہ كرنے ميں اور اسكے خلاف واضح موقف اختيار كرنے ميں سرگردان اور ناتوان تھے _

بل قالوا أضغاث أحلام بل هو شاعر

۲۹۲

آيت كريمہ ميں ''بل'' اضراب انتقالى كيلئے ہے اور يہ صرف ايسے موارد ميں استعمال ہوتا ہے كہ جہاں متكلم پہلے نكتے سے صرف نظر كر كے دوسرا نكتہ بيان كرنے كے در پے ہو اور ايك ہى كلام ميں اس كا تكرار متكلم كے اضطراب، شك و ترديد يا تصميم كرنے ميں اسكى ناتوانى كا غماز ہے_

۷ _ مشركين، پيغمبراكرم(ص) سے سابقہ انبياء كے معجزات جيسا معجزہ طلب كرتے تھے _فليأتنا بأية كما أرسل الأوّلون

۸ _ عصر بعثت ميں مشركين كا حقيقت معجزہ اور اسكے جادو، پريشان خواب اور شعر كے ساتھ فرق سے آگاہ ہونا_

بل قالوا أضغاث أحلام بل افترى ه بل هو شاعر

مشركين پيغمبراكرم (ص) كى مخالفت ميں پہلے تو آپ(ص) كے كلام كو جادو، شعر يا پراكندہ خواب قرار ديتے تھے پھر آپ(ص) كى رسالت كے اثبات كيلئے آپ(ص) سے معجزہ كے طالب ہوئے اس كا مطلب يہ ہے كہ وہ معجزہ اور سحر و شعر و غيرہ كے ساتھ اسكے فرق سے آگاہ تھے اور اس كا اعتراف كرتے تھے_

۹ _ سابقہ انبياء كے معجزوں جيسے معجزے كى درخواست آنحضرت(ص) كى رسالت كو قبول نہ كرنے كيلئے مشركين كا ايك بہانہ _و أسرّوا النجوى الذين ظلموا فليأتنا بآية كما أرسل الأولون

۱۰ _ صدر اسلام كے ستمگر مشركين ہٹ دھرم، حق كو قبول نہ كرنے والے اور بہانہ خور لوگ تھے_

بل قالوا فليأتنا بأية كما أرسل الأولون

۱۱ _ ستمگر مشركين كا پيغمبراكرم(ص) كے خلاف تمام ممكنہ سياسي، ثقافتى اور تبليغى ہتھكنڈوں سے استفادہ كرنا_

أسروا النجوى هل هذا إلا بشر بل قالوا أضغاث أحلام بل افترى ه بل هو شاعر فليأتنا بأية كما أرسل الأولون

اسلام:صدر اسلام كى تاريخ ۱، ۷، ۱۱

افترا باندھنا:قرآن پر افترا باندھنا ۳

قرآن كريم:اسكے خلاف پروپيگنڈا ۲; اس پر پراگندہ ہونے كى تہمت ۲; اس پر منتشر خواب ہونے كى تہمت۱; اس پر شعر ہونے كى تہمت ۴; اسكى جذابيت ۵; اسكے ساتھ مقابلے كى روش ۶; اسكى خوبصورتى ۵

آنحضرت(ص) :آپ(ص) كو جھٹلانے والوں كا بہانہ خور ہونا ۹; آپ(ص) كے خلاف سازش ۱; آپ(ص) پر تہمت ۱، ۳; آپ(ص) پر شاعر ہونے كى تہمت ۴

۲۹۳

مشركين:صدر اسلام كے مشركين كى بہانہ جوئي ۹، ۱۰; صدر اسلام كے مشركين كى سوچ ۸; صدر اسلام كے مشركين كا پروپيگنڈا ۱۱; انكا پروپيگنڈا ۲; انكا حيرت زدہ ہونا۶; انكى سازشيں ۱; انكى تہمتيں ۱، ۳، ۴; صدر اسلام كے مشركين كا حق كو قبول نہ كرنا ۱۰; صدر اسلام كے مشركين كے مطالبے ۷; صدر اسلام كے مشركين كے پروپيگنڈے كى روش ۱۱; انكا عاجز ہونا ۶; صدر اسلام كے مشركين كى ہٹ دھرمى ۱۰

مشركين مكہ:انكى سوچ۵

معجزہ:اس كا جادو سے فرق۸; اسكے حقيقت ۸; اسكى درخواست ۷; مطلوبہ معجزہ كا فلسفہ ۹; مطلوبہ معجزہ۷

آیت ۶

( مَا آمَنَتْ قَبْلَهُم مِّن قَرْيَةٍ أَهْلَكْنَاهَا أَفَهُمْ يُؤْمِنُونَ )

ان سے پہلے ہم نے جن بستيوں كو سركشى كى بناپر تابہ كرڈالا وہ تو ايمان لائے نہيں يہ كيا ايمان لائيں گے (۶)

۱ _ جن امتوں پر عذاب ناز ل كيا گيا انہوں نے معجزات الہى سے بہرہ مند ہونے كے باوجود ايمان قبول نہ كيا _

ما أمنت قبلهم من قرية أهلكنا ها

۲ _ گذشتہ امتوں كى ہلاكت اور ان كا عذاب معجزات الہى پر ايمان نہ لانے كى وجہ سے تھا _فليأتنا بأية ما أمنت قبلهم من قريه اهلكناها

۳ _ ہلاكت ان امتوں كا مقدر ہے جو اپنے درخواست كردہ معجزات پر ايمان نہ لائيں _ما أمنت قبلهم من قرية أهلكناها

۴ _ ايمان، انسانى معاشروں اور تہذيبوں كى حفاظت اور بقا ميں مؤثر ہے _ما أمنت قبلهم من قرية أهلكناها

۵ _ قرآن كى پيشين گوئي تھى كہ صدر اسلام كے بعض

مشركين ايمان نہيں لائيں گے اپنے درخواست كردہ معجزات كے نزول كے بعد بھى _ما أمنت قبلهم أفهم يؤمنون

۶ _ انبياء كو جھٹلانے والے انكى مخالفت كے سلسلے ميں ايك جيسى روش اور حربوں كے حامل ہوتے ہيں _

فليأ تنا بأية ما أمنت قبلهم من قرية أهلكناها أفهم يؤمنون

۲۹۴

خداتعالى نے گذشتہ آيت ميں اس بات كى ياد دہانى كرائي ہے كہ مشركين آنحضرت(ص) سے (سابقہ انبيا(ع) ء كے معجزات جيسے) معجزے كے خواہان ہوئے اور اس آيت ميں فرماتا ہے كہ گذشتہ امتيں انبيا(ع) ء كے معجزے ديكھنے كے باوجود ايمان نہ لائيں پس قطعا تم بھى ايمان نہيں لاؤگے يہ ياد دہانى اس بات سے حكايت كرتى ہے كہ ابنيا(ع) ء كو جھٹلانے والوں كے مقابلے كى روش اور ہتھكنڈے ايك جيسے تھے_

۷ _ صدر اسلام كے بعض مشركين كى ہٹ دھرمى اور عناد سابقہ انبياء كے مخالفين كے مقابلے ميں زيادہ سخت اور شديد تھى _ما أمنت قبلهم أفهم يؤمنون

''أفہم'' كا ہمزہ استفہام انكارى كيلئے اور اسكى ''فائ'' تعقيب كا فائدہ دينے كيلئے ہے اس بناپر آيت كا معنى يوں ہوگا گذشتہ امتيں اپنے درخواست كردہ معجزات كے آنے كے باوجود ايمان نہ لائيں آيا يہ لوگ جو زيادہ ہٹ دھرم اور حق دشمن ہيں ايمان لائيں گے _

۸ _ مكہ كے ستم گر مشركين كى طرف سے معجزے كى درخواست بہانہ تھى نہ حقيقت تك پہنچنے كيلئے _فليأتنا أفهم يؤمنون

خداتعالى نے مشركين كى طرف سے معجزہ كى درخواست كو اسلئے رد فرمايا كہ يہ بھى گذشتہ مشركين كى طرح ايمان نہيں لانا چاہتے لہذا ايسى درخواست صرف ايك بہانہ اور ہتھكنڈا ہے _

۹ _ ستمگر مشركين كا ايمان نہ لانا اور حق كو قبول نہ كرنا ان كے پيغمبراكرم(ص) سے معجزہ كے درخواست كے رد ہونے كى وجہ اور فلسفہ _فليأتنا بأية أفهم يؤمنون

آنحضرت(ص) :آپ(ص) كے دشمن ۷

اسلام:صدر اسلام كى تاريخ ۹

گذشتہ امتيں :انكى تاريخ ۳; انكى ہلاكت كے عوامل ۳; انكا انجام ۳; انكے عذاب كا فلسفہ ۲; انكى ہلاكت كا فلسفہ ۲

انبيا(ع) :انہيں جھٹلانے والوں كا ہدف ۶; ان كے دشمن ۷; ان كے دشمنوں كى ہم آہنگي۶; انہيں جھٹلانے والوں كى ہم آہنگى ۶

ايمان:اسكے اجتماعى اثرات ۴

تہذيبيں :ان كى بقاء كے عوامل ۴

۲۹۵

معاشرہ:معاشروں كى بقا كے عوامل ۴

عذاب:اہل عذاب كا كفر ۱; اہل عذاب كا ليچڑپن ۱

قرآن كريم:اسكى پيشين گوئي ۵

مشركين:صدر اسلام كے مشركين كے حق كو قبول نہ كرنے كے اثرات۹; صدر اسلام كے مشركين كے كفر كے اثرات ۹; صدر اسلام كے مشركين كى دشمنى كي شدت ۷; صدر اسلام كے مشركين كا كفر ۵; صدر اسلام كے مشركين كا ليچڑين ۵

مشركين مكہ:انكى بہانہ جوئي ۸; ان كے مطالبوں كا فلسفہ ۸

معجزہ:اسے جھٹلانے كے اثرات ۳; اسكى درخواست ۸; اپنى مرضى كے معجزہ كے رد ہونے كا فلسفہ ۹; اسے جھٹلانے كى سزا ۲; اپنى مرضى كا معجزہ ۸

آیت ۷

( وَمَا أَرْسَلْنَا قَبْلَكَ إِلاَّ رِجَالاً نُّوحِي إِلَيْهِمْ فَاسْأَلُواْ أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ )

اور ہم نے آپ سے پہلے بھى جن رسولوں كو بھيجا ہے وہ سب مر ہى تھے جن كى طرف ہم وحى كيا كرتے تھے_ تو تم لوگ اگر نہيں جانتے ہو تو جاننے والوں سے دريافت كرلو (۷)

۱ _ تمام انبياء الہي، انسان اور مرد تھے_و ما أرسلنا قبلك الإرجال

۲ _ صاحب رسالت كا انسان ہونے كے منافى ہونا، مشركين كى باطل سوچ _هل هذا إلا بشر مثلكم ما أرسلنا قبلك إلا رجال

۳ _ مقام رسالت، انسان ہونے كے منافى نہيں ہے بلكہ انبيا(ع) كا انسان ہونا سنت الہى ہے_

هل هذا إلا بشر مثلكم ما أرسلنا قبلك إلا رجال

۴ _ خداتعالى ، وحى اور انبيا(ع) ء كو بھيجنے كا سرچشمہ ہے_و ما أرسلنا قبلك إلا رجالا نوحى إليهم

۵ _ انبيا(ع) ء كا وحى سے بہرہ مند ہونا ان كا ديگر انسانوں سے امتياز _

و ما أرسلنا قبلك إلا رجالاً نوحى اليهم

۶ _ وحى الہى كو حاصل كرنا، منصب رسالت كا لازمہ ہے_و ما أرسلنا نوحى إليهم

۷ _ انبياء كى دعوت ،صرف وحى الہى پر مبتنى تھي_بل قالوا أ ضغاث بل هو شاعر. و ما أرسلنا إلا رجالًا نوحى إليهم

۲۹۶

۸ _ خداتعالى كى طرف سے مشركين مكہ كو دعوت كہ وہ سابقہ انبياء كے بشر ہونے كے بارے ميں علم ركھنے والوں سے پوچھ ليں _فسئلوا أهل الذكر ان كنتم لا تعلمون

۹ _ انبيا(ع) ء كا انسان ہونا ،عصر بعثت كے دينى علما اور تاريخ انبيا(ع) ء سے آگاہ لوگوں كے ہاں مسلم تھا _

و ما أرسلنا فسئلوا أهل الذكر إن كنتم لا تعلمون

''اهل ذكر'' سے مراد دينى علما ء ہيں كيونكہ اولاً عام لوگ انبيا(ع) ء كى تاريخ سے بے خبر تھے اور اس قسم كے معلومات دينى علما كے پاس تھے او رثانياً كلمہ ''ذكر'' قرآن ميں آسمانى كتابوں اور خود قرآن پر بولا گيا ہے_

۱۰ _ عصر بعثت كے مشركين كے جاہلانہ ماحول ميں تاريخ انبيا(ع) ء سے واقف لوگوں كا موجود ہونا _

فسئلوا أهل الذكر

۱۱ _ اعتقادى اور دينى مسائل ميں علم و آگاہى كے حصول تك كوشش اور جستجو كرنا ضرورى ہے _

فسئلوا أهل الذكر إن كنتم لا تعلمون

جملہ ''إسئلوا ...'' مقدر شرط كا جواب ہے اور جملہ ''إن كنتم لا تعلمون'' اسكى تفسير كر رہا ہے اور يہ در اصل يوںهي'' إن كنتم لاتعلمون فاسئلوا ...'' (اگر نہيں جانتے تو سوال كرو) اس بات كا لازمہ يہ ہے كہ اگر انسان كسى چيز كو نہيں جانتا تو جاننے تك كوشش اور سوال كرنا ضرورى ہے _

۱۲ _ گذشتہ انبيا(ع) ء كے بشر ہونے كے بارے ميں مشركين مكہ كا تجاہل عارفانہ_فسئلوا أهل الذكر ان كنتم لا تعلمون

''ان كنتم لاتعلمون'' كى قيد مشركين كے علم كى طرف اشارہ ہے ورنہ اگر وہ واقعاً نہيں جانتے تھے تو مذكورہ قيد (اگر نہيں جانتے) كا لانا لغو اور بے سود ہوتا)

۱۳ _ مشركين مكہ كے نزديك دينى علماء اور آسمانى كتابوں كى اطلاع ركھنے والوں كا خاص معاشرتى مقام تھا_فسئلوا أهل الذكر

مشركين كو دينى علماء اور تاريخ انبيا(ع) ء سے واقف لوگوں كى طرف رجوع كرنے كا حكم دينا اس نكتے كو بيان كررہا ہے كہ مشركين كے درميان ان علماء كا خاص مقام تھا اور يہ ان لوگوں كى بات كو قبول كرتے تھے_

۱۴ _ دينى مسائل كے بارے ميں علماء كيلئے جاہلوں كے سوالوں كا جواب دينا ضرورى ہے_فسئلوا أهل الذكر

قابل ذكر ہے كہ اگر سوال واجب ہو تو جواب بھى واجب ہو ورنہ سوال كا واجب ہونا لغو اور بے

۲۹۷

فائدہ ہوگاكيونكہ اگر جواب واجب نہ ہو تو ممكن ہے سوال بغير جواب كے رہ جائے اور اس صورت ميں غرض حاصل نہيں ہوگى اور يہ خداوند حكيم سے دور ہے_

۱۵ _ علماء دين اور اہل خبرہ افراد كى بات كا حجت اور قابل اعتبار ہونافسئلوا أهل الذكر إن كنتم لا تعلمون

مذكورہ مطلب خداتعالى كے ،ناشناختہ مسائل ميں علماء كى طرف رجوع كرنے كے حكم كے لازمے سے استفادہ ہوتا ہے كيونكہ علماء كے اظہار نظر كے حجت اور قابل اعتبار ہونے كے بغير انكى طرف رجوع كو لازمى قرار دينا لغو ہوگا اور يہ خدا كے حكيم ہونے سے دور ہے_

۱۶ _'' قال رسول الله (ص) : لا ينبغى للعالم أن يسكت على علمه و لا ينبغى للجاهل ا ن يسكت على جهله و قد قال الله '' فسئلوا ا هل الذكر إن كنتم لا تعلمون'' ; رسول خدا(ص) نے فرمايا:كہ عالم كيلئے سزاوار نہيں ہے كہ وہ علم كے باوجود خاموش رہے (اور اسے چھپائے) اور جاہل كيلئے سزاوار نہيں ہے كہ جہل كے باوجود خاموش ر ہے (اور سوال نہ كرے) جبكہ خداتعالى نے فرمايا ہے''فسئلوا أهل الذكر إن كنتم لا تعلمون'' (۱)

انبياء (ع) :ان كا بشر ہونا ۱، ۳، ۸، ۹، ۱۲; انكى نوع ۱; انكا مرد ہونا ۱; انكا مقام و مرتبہ ۵; انكى بعثت كا سرچشمہ ۴; انكى دعوت كا سرچشمہ ۷; انكى طرف وحى ۵

اہل خبرہ:انكى بات كا حجت ہونا ۱۵

خيال:باطل خيال۲/جہلائ:انكى ذمہ دارى ۱۶/خداتعالى :اسكى دعوت ۸; اسكى سنت ۳; اس كا نقش و كردار ۴

دين:دينى سؤالوں كا جواب ۱۴/روايت ۱۶/عقيدہ:اعتقاد ى مسائل ميں جستجو ۱۱; اس ميں علم ۱۱

علمائ:ان سے سوال ۸; زمان بعثت كے علما ۱۰; انكى ذمہ دارى ۱۴

دينى علمائ:انكا احترام ۱۳; زمان بعثت كے دينى علما كى سوچ ۹; انكى بات كى حجيت ۱۵; صدر اسلام كے دينى علما ۱۳; انكى معاشرتى حيثيت ۱۳/مشركين:انكى سوچ ۲

مشركين مكہ:انكى سوچ ۱۳; انكا تجاہل عارفانہ ۱۲; انكو دعوت ۸

مؤرخين:زمان بعثت كے مؤرخين كى سوچ ۹; زمان بعثت كے مورخين ۱۰

____________________

۱ ) الدرالمنثور ج ۵، ص ۱۳۳

۲۹۸

نبوت:اس كى شرائط ۶; انسان كى نبوت كو جھٹلانے والے ۲

وحي:اس كا سرچشمہ۴; اس كا كردار ۷; يہ او رنبوت ۶

آیت ۸

( وَمَا جَعَلْنَاهُمْ جَسَداً لَّا يَأْكُلُونَ الطَّعَامَ وَمَا كَانُوا خَالِدِينَ )

اور ہم نے ان لوگوں كے لئے بھى كوئي ايسا جسم نہيں بنايا تھا جو كھانا نہ كھاتا ہو اور وہ بھى ہميشہ رہنے والے نہيں تھے (۸)

۱ _ ديگر انسانوں كى طرح انبيا(ع) ء كے بدن كو بھى غذا كى ضرورت ہے _و ما جعلنهم جسداً لا يأكلون الطعام

۲ _ انبيا(ع) ء اور ديگر لوگ جسمانى خصوصيات اور انسانى ضروريات كے لحاظ سے ايك جيسے ہيں _و ما جعلنهم جسداً لا يأكلون

۳ _ ديگر انسانوں كى طرح انبياء بھى دنيا ميں دائمى زندگى سے بہرہ مند نہيں تھے _و ما جعلنهم جسداً ما كانوا خلدين

۴ _ انبيا(ع) ء كا غذا سے بے نياز ہونا اور ان كا دنيا ميں زندہ و جاويد ہونا، مشركين كا باطل خيال_

و ما جعلنهم جسداً لا يأكلون الطعام و ما كانوا خلدين

۵ _ فانى ہونا اورخوراك كى احتياج، انسانى جسم كے عوارض ميں سے ہے _و ما جعلنهم جسداً لا يأكلون الطعام و ما كانوا خلدين

لفظ ''جسد'' كا استعمال اور پھر انبيا(ع) ء كى يہ توصيف كہ وہ بھى كھاتے اور موت كا شكار ہوتے ہيں اس نكتے كو بيان كررہا ہے كہ يہ دو صفتيں انبيا(ع) ء كے وجود كے جسمانى ہونے كے ساتھ مربوط ہيں كيونكہ يہ انسان كا جسم ہے جسے خوراك كى ضرورت ہے اور يہ فانى ہے نہ انسان كى روح_

۶ _ موت، ايسى حتمى تقدير ہے كہ جس سے حتى انبياء كا بھى

۲۹۹

چھٹكارا نہيں ہے _و ما كانوا خلدين

انبياء:ان كا انسان ہونا ۱، ۲، ۳; انكا دائمى ہونا ۴; ان كا طعام ۱، ۴; انكا انجام ۶; انكى موت ۳، ۶; انكى مادى ضروريات ۱، ۲

انسان:اسكے بدن كا فانى ہونا ۵; اسكى مادى ضروريات ۲، ۵

سوچ:باطل سوچ ۴

مشركين:انكى سوچ۴

ضروريات:غذا كى ضرورت ۱، ۵

آیت ۹

( ثُمَّ صَدَقْنَاهُمُ الْوَعْدَ فَأَنجَيْنَاهُمْ وَمَن نَّشَاء وَأَهْلَكْنَا الْمُسْرِفِينَ )

پھر ہم نے ان كے وعدہ كو سچ كر دكھايا اور انھيں اور ان كے ساتھ جن كو چاہا بچاليا اور زيادتى كرنے والوں كو تباہ و برباد كرديا (۹)

۱ _ انبيا(ع) ء اور مؤمنين كو دشمنوں سے نجات دينا اور انہيں ان پر كاميابى عطا كرنا،خداتعالى كا ان كے ساتھ وعدہ _

و ما ارسلنا قبلك إلّا رجالاً ثم صدقنهم الوعد فأنجينهم و من نشاء

۲ _ دشمنوں كى نابودي، خداتعالى كا انبيا(ع) ء اور مؤمنين كے ساتھ وعدہ _ثم صدقنهم الوعد و أهلكنا المسرفين

۳ _ خداتعالى نے انبيا(ع) ء و مؤمنين كو نجات دينے اور دشمنوں كو ہلاك كرنے والے اپنے وعدے پر عمل كيا _

ثم صدقنهم الوعد فأنجينهم و من نشاء و أهلكنا المسرفين

''صدقنا '' كا مصدر ''صدق'' دو چيزوں ميں استعمال ہوتا ہے _ ۱_ اعتقادات ميں اس صورت ميں اس كا معنى ہوتا ہے واقع كے مطابق اعتقاد _۲_ انسان كے اعمال كے بارے ميں اس صورت ميں اس سے مراد ہو تا ہے كام كو شائستہ

اور صحيح طريقے سے انجام دينا (مفردات راغب) اس آيت ميں دوسرا معنى مقصود ہے_ قابل ذكر ہے كہ مادہ ''صدق'' بعض موارد ميں دو مفعولوں كى طرف متعدى ہوتا ہے اور يہ آيت بھى انہيں ميں سے ہے_

۴ _ لوگوں كى دشمنوں سے نجات اور رہائي، خداتعالى كى مشيت كى مرہون منت ہے _فأنجيناهم و من نشاء

۵ _ اسراف كرنے والے، ابنيا(ع) ء كے مقابلے ميں انكے مخالفين كى صفوں ميں اور ان كے دشمن تھے_

فأنجيناهم

۳۰۰

۶ _ سخت دشمنى او ر شديدمخالفت، انبيا(ع) ء كے ہلاك شدہ مخالفين كى خصوصيات ميں سے تھيں _ثم صدقنا هم الوعد و أهلكنا المسرفين مذكورہ مطلب اس بناپر ہے كہ اسراف سے مراد_ حكم و موضوع اور آيت كے مورد كے تناسب سے _ انبيا(ع) ء كى مخالفت اور دشمنى ميں حد سے تجاوز كرنا ہے نہ كہ امور مالى و غيرہ ميں اسراف

۷ _ خداتعالى كى جانب سے پيغمبراكرم(ص) اور مؤمنين كى حوصلہ افزائي اور انہيں تسلى دينا اور مشركين كو دھمكى دينا _

ثم صدقنهم الوعد و أهلكنا المسرفين

خداتعالى كے انبيا(ع) ء اور مؤمنين كے ساتھ كاميابى اور ان كے دشمنوں كى نابودى كے وعدے كا تذكرہ ہوسكتا ہے مذكورہ نكتے كو بيان كرنے كيلئے ہو _

۸ _ انبيا(ع) ء كے دشمن اور مخالفين ،اسراف كرنے والے ہيں _ثم صدقناهم الوعد أهلكنا المسرفين

۹ _ اسراف كرنا، حق كو قبول نہ كرنے اور انبيا(ع) ء كى مخالفت كے اسباب فراہم كرتا ہے اور ہلاكت اور نابودى كا سبب ہے _و أهلكنا المسرفين ہلاك ہونے والوں كى ''مسرفين'' كے ساتھ توصيف ان كى ہلاكت ميں اس وصف كى تا ثير اور علت ہونے كى طرف اشارہ ہے _

۱۰ _ مشركين كے خلاف كاميابي، خداتعالى كا پيغمبر(ص) اسلام كے ساتھ وعدہ _ثم صدقناهم الوعد

آيت كريمہ پيغمبر(ص) اسلام كو تسلى دينے كے مقام ميں ہے اور خداتعالى عمومى روش كو بيان كر كے (سب انبيا(ع) ء كى كاميابى كا وعدہ) در حقيقت پيغمبراكرم(ص) كو بھى كاميابى كا وعدہ دے رہا ہے _

اسراف:اسكے اثرات ۹

انبياء(ع) :ان كے دشمنوں كا اسراف ۸; ان كے دشمن۵; ان كے دشمنوں كى دشمنى ۶; ان كے ساتھ دشمنى كے عوامل ۹; ان كے ساتھ وعدہ ۲; انكى كاميابى كا وعدہ ۱; انكى نجات كا وعدہ۱، ۳; ان كے دشمنوں كى خصوصيات ۶; ان كے دشمنوں كى ہلاكت ۲، ۳

حق:اسے قبول نہ كرنے كے عوامل ۹

خداتعالى :

۳۰۱

اسكى مشيتّ كے اثرات ۴; اسكى دھمكياں ۷; اسكے وعدے ۳

دشمن:ان سے نجات كا سرچشمہ ۴; ان سے نجات ۱

مؤمنين:انكى حوصلہ افزائي ۷; انكو تسلى ۷; ان كے ساتھ وعدہ ۲; انكى كاميابى كا وعدہ ۱; انكى نجات كا وعدہ ۱، ۳; ان كے دشمنوں كى ہلاكت ۲، ۳

آنحضرت(ص) :آپ(ص) كى حوصلہ افزائي ۷; آپكو تسلى ۷; آپ كو كاميابى كا وعدہ ۱۰

مسرفين: ۸

انكى دشمنى ۵

مشركين:ان پر كاميابى ۱۰; انكى دھمكي۷

ہلاكت:اسكے عوامل

وعدہ:اسكى وفا، ۳

آیت ۱۰

( لَقَدْ أَنزَلْنَا إِلَيْكُمْ كِتَاباً فِيهِ ذِكْرُكُمْ أَفَلَا تَعْقِلُونَ )

بيشك ہم نے تمھارى طرف وہ كتاب نازل كى ہے جس ميں خود تمھارا بھى ذكر ہے تو كيا تم اتنى بھى عقل نہيں ركھتے ہو (۱۰)

۱ _ قرآن، آسمانى كتاب اور خداتعالى كى طرف سے نازل كى گئي ہے_لقد أنزلنا إليكم كتب

۲ _ قرآن، با عظمت اور بلند مرتبہ كتاب ہے_لقد أنزلنا إليكم كتب ''كتاباً '' كى تنوين تفخيم اور تعظيم پر دال ہے_

۳ _ قرآن، پيغمبراكرم(ص) كے زمانے ميں (بعثت كے پہلے نصف حصے ميں ) كتاب كے طور پر جانى پہچانى جاتى تھي_

لقد أنزلنا إليكم كتب اس چيز كو مد نظر ركھتے ہوئے كے سورہ ''انبيائ'' مكہ ميں نازل ہوئي معلوم ہوتا ہے كہ بعثت كے پہلے نصف حصے ميں قرآن كتاب كے طور پر پہچانا جاتا تھا _

۳۰۲

۴ _ قرآن، انسان كو ياد دہانى كرانے والا اور انسان كے ساتھ مربوط مسائل پر مشتمل ہے_كتاباً فيه ذكر كم

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''ذكر'' كسى چيز كو زبان پر لانے اور ياد كرنے كے معنى ميں ہو_ قابل ذكر ہے كہ يہ معنى اسكے مشہور اور غالب معانى ميں سے ہے _

۵ _ قرآن، انسان كيلئے سبق آموز او رپند و نصيحت كا سبب ہے_كتبا فيه ذكركم

مذكورہ مطلب اس بناپر ہے كہ ''ذكر'' كا معنى نصيحت اور نصيحت حاصل كرنا ہو _

۶ _ قرآن، انسان اور امت اسلامى كى شرافت و بزرگى كا سبب اور اس كا نعرہ ہے_كتبا فيه ذكركم

اہل لغت نے كلمہ ''ذكر'' كيلئے جو معانى ذكر كئے ہيں ان ميں سے شرافت ، بزرگى اور شہرت ہے (قاموس) اس بناپر ''فيہ ذكركم'' سے مراد يہ ہے كہ شرافت و بزرگى اور شہرت، قرآن كے سائے ميں اور اس پر عمل كرنے ميں ہے_

قابل ذكر ہے كہ ''ذكركم'' كى ضمير مخاطب سے مراد ہوسكتا ہے سب انسان ہوں اور ہوسكتا ہے صرف امت اسلامى ہو_ مذكورہ مطلب ميں دونوں احتمال ملحوظ ہيں _

۷ _ انسان كے فطرى اور غريزى محركات و تمايلات سے استفادہ كرنا قرآن كى تربيتى اور ہدايت كرنے كى ايك روش _

فيه ذكركم مذكورہ مطلب مندرجہ ذيل دو نكتوں پر مبتنى ہے ۱_ ذكر ثناء اور نغمے كے معنى ميں ہو _۲_ نام كے ہميشہ رہنے اور بلند شہرت كا شوق ،سب انسانوں كى طبع اور غريزے ميں ہے_

۸ _ خداتعالى ،انسان كو معارف قرآن ميں غور و فكر كرنے كى دعوت ديتا ہے اور اسكى ترغيب دلاتا ہے_أفلا تعقلون

۹ _ مشركين كا قرآن كا جھٹلانا ان كے عقل و خرد سے كام نہ لينے كا نتيجہ ہے _هم فى غفلة معرضوں لاهية قلوبهم لقد أنزلنا أفلا تعقلون

۱۰ _ پيغمبر اكرم(ص) اور قرآن كى حقانيت تك پہنچنے ميں خردمندى اور غور و فكر كا مؤثر اور تعميرى كردار ہے_

لقد أنزلنا أفلا تعقلون

۱۱ _ قرآن كے معارف اور تعليمات عقل و خرد كے موافق او راسكے ساتھ سازگار ہيں _لقد أنزلنا إليكم كتاباً أفلا تعقلون قرآن ميں غور وفكر كرنے كى تشويق دلانا اس نكتے كو بيان كررہا ہے كہ يہ آسمانى كتاب محتوا كے لحاظ سے عقل و خرد كے ساتھ سازگار ہے_

۱۲ _ قرآن اپنى اور پيغمبر(ص) اسلام كى حقانيت كو ثابت كرنے كى بہترين اور سب سے زيادہ قوى دليل اور معجزہ

۳۰۳

ہے_لقد أنزلنا إليكم كتباً فيه ذكركم أفلا تعقلون

ممكن ہے يہ آيت كريمہ مشركين كى طرف سے پيغمبراكرم(ص) سے اپنى حقانيت كو ثابت كرنے كيلئے معجزہ لانے كے بہانے والى درخواست كا جواب ہو يعنى اگر يہ لوگ غور كريں تو سمجھ جائيں گے كے قرآن، پيغمبر(ص) اسلام كا معجزہ ہے _ قابل ذكر ہے كہ اس حقيقت كى لام قسم اور حرف تحقيق (لقد) كے ساتھ تاكيد اسى مطلب كى تائيد كرتى ہے_

آسمانى كتب :۱

آنحضرت(ص) :آپكى حقانيت ۱۰; آپكي(ص) حقانيت كے دلائل ۱۲

تربيت:اسكى روش ۷

غور و فكر كرنا:اسكے اثرات ۱۰; اسكى تشويق ۸; يہ قرآن ميں ۸

خداتعالى :اسكى تشويق ۸

ذكر:انسان كا ذكر ۴

عبرت:اسكے عوامل ۵

عزت:اسكے عوامل ۶

غريزہ:اس كا كردار ۷

فطريات:ان كا كردار ۷

قرآن كريم:اس كا معجزہ ہونا ۱۲; اسكى تاريخ ۳; اس كى تعليمات ۴; اس كا جمع كرنا ۳; اسكى حقانيت ۱۰; اسكى حقانيت كے دلائل ۱۲; اسے جھٹلانے كا پيش خيمہ ۹; اس سے عبرت حاصل كرنا ۵; اسكى عظمت ۲; اسكى تعليمات كا عقلى ہونا ۱۱; اسكى فضيلت ۴; اس كا نزول ۱; اس كا كردار ۵_ ۶، ۱۲; اس كا وحى ہونا ۱

كتاب :۳

مسلمان:انكى عزت كے عوامل ۶

مشركين:ان كے غور نہ كرنے كے اثرات ۹

ہدايت:اسكى روش ۷

۳۰۴

آیت ۱۱

( وَكَمْ قَصَمْنَا مِن قَرْيَةٍ كَانَتْ ظَالِمَةً وَأَنشَأْنَا بَعْدَهَا قَوْماً آخَرِينَ )

اور ہم نے كتنى ہى ظالم بستيوں كو تباہ كرديا اور ان كے بعد ان كى جگہ پر دوسرى قوموں كو ايجاد كرديا (۱۱)

۱ _ خداتعالى نے بہت سے شہروں اور آباديوں كو ان كے لوگوں كے ظلم و ستم كى وجہ سے سختى كے ساتھ كچل ديا اور نابود كردياو كم قصمنا من قرية كانت ظالمة ''قصمنا'' كے مصدر ''قصم'' كا معنى ہے سختى كے ساتھ كسى چيز كو توڑنا اس طرح كہ وہ پراكندہ اجزاء اور ٹكڑوں ميں تبديل ہوجائے (لسان العرب) اور اس آيت ميں اس سے مراد نابودى اور ہلاكت ہے

۲ _ ظلم و ستم، معاشروں اور تہذيبوں كے مكمل انحطاط اورانہدام كا سبب ہے _و كم قصمنا من قرية كانت ظالمة

''قرية'' (شہروں كے لوگ) كى ''ظالمہ'' (ستمگر) كے ساتھ توصيف نابودى اور انہدام ميں ظلم كے كردار كو بيان كررہى ہے _

۳ _ خداتعالى كى طرف سے مشركين اور ستمگر معاشروں اور مشركين كو ہلاكت اور نابودى كى دھمكى _و كم قصمنا من قرية كانت ظالمة

۴ _ قرآن اور پيغمبر(ص) اسلام كى مخالفت اور ان كے ساتھ مقابلہ ظلم و ستم كا واضح مصداق ہے _لقد أنزلنا إليكم و كم قصمنا من قرية كانت ظالمة خداتعالى نے نزول قرآن كو بيان كرنے اور لوگوں كو اس ميں غور و فكر كى دعوت دينے نيز بہت سى اقوام كو ان كے ظلم كى وجہ سے نابود كرنے كا تذكرہ كرنے كے بعد اسلام اور قرآن كے مخالفين كو عذاب اور نابودى كى دھمكى دى ہے اس كا مطلب يہ ہے كہ اسلام اور قرآن كى مخالفت ظلم كا واضح مصداق اور نابودى كا موجب ہے _

۵ _ ظلم، اسراف ہے اور ستمگر معاشرے مسرفين كى تاريخ كے واضح مصداق ہيں _

و أهلكنا المسرفين و كم قصمنا من قرية كانت ظالمة

خداتعالى نے سابقہ دو آيتوں ميں انبيا(ع) ء كے دشمنوں كو مسرفين كہا ہے (و أهلكن المسرفين ) اور اس آيت ميں بہت سارى اقوام كو كہ جو دين الہى كے ساتھ دشمنى كى وجہ سے نابود ہوئي ہيں ظالم كہا ہے ان دو آيتوں كے ارتباط سے يہ سمجھا جاسكتا ہے كہ ظالمين وہى مسرفين ہيں _

۳۰۵

۶ _ بہت سارے معاشروں كا انحطاط اور انكى نابودى ان كے لوگوں كے كردار كى وجہ سے ہوئي _و كم قصمنا من قرية كانت ظالمة ''كم قصمنا'' ميں كلمہ ''كم'' خبريہ اور كثير كے معنى ميں ہے اور قريوں اور امتوں كو ظالم كہنا ان كى ہلاكت اور نابودى كے سبب كا بيان ہے_

۷ _ خداتعالى نے ستمگر اقوام كو نابود كرنے كے بعد دوسرے لوگوں كو پيدا كيا اور ان كى جگہ پر قرار ديا_

و أنشأنا بعدها قوما ء أخرين ''انشأنا'' كے مصدر ''انشائ'' كا معنى ہے كسى جاندار شے كو خلق كرنا اور اسے وجود ميں لانا اور اسكى تربيت كرنا (مفردات راغب)_

۸ _ معاشروں اور تہذيبوں كا تغير و تبدل اور دگرگونى خداتعالى كى مشيت اور ارادے كے تابع ہے _

و كم قصمنا و أنشأنا بعدها قوما ء أخرين

آنحضرت(ص) :آپ(ص) كے ساتھ دشمنى ۴; آپ(ص) كے ساتھ مقابلہ ۴

اسراف:اسكے موارد۵

اقوام:انكے متبادل لانے كا سرچشمہ ۷، ۸

تہذيبيں :ان كے ختم ہونے كے عوامل ۲، ۶; ان كے ختم ہونے كا سرچشمہ ۸

معاشرہ:اسكى آسيب شناسى ۲

خداتعالى :اسكے ارادے كے اثرات ۸; اسكى مشيت كے اثرات ۸; اسكے افعال ۷ ; اسكى دھمكياں ۳

شہر:انكى نابودى كے عوامل ۱

ظالم لوگ: ۵انہيں دھمكى دينا ۳; انكى ہلاكت ۷

ظلم:اسكے اثرات ۱، ۲، ۵; اسكے موارد ۴

عمل:اسكے اثرات ۶

قرآن كريم:اسكے ساتھ د شمنى ۴; اسكے ساتھ مبارزت ۴

مسرفين: ۵مشركين:ان كو دھمكى دينا ۳

ہلاكت:اسكى دھمكى ۳

۳۰۶

آیت ۱۲

( فَلَمَّا أَحَسُّوا بَأْسَنَا إِذَا هُم مِّنْهَا يَرْكُضُونَ )

پھر جب ان لوگوں نے عذاب كى آہٹ محسوس كى تو اسے ديكھ كر بھاگنا شروع كرديا (۱۲)

۱ _ ستمگر اقوام اور معاشرے جب عذاب الہى كے نزول كا احساس كرتے ہيں تو بھاگ كھڑے ہوتے ہيں _

فلما أحسّوا بأسنا إذا هم منها يركضون

(يركضون كے مصدر) ''ركض'' كا اصلى معنى زمين پر پاؤں مارنا ہے اور جب اسے شخص كى طرف نسبت دى جائے تو اس سے مراد بھاگنا اور تيز چلنا ہوتا ہے_

۲ _ ستمگر معاشروں كى ہلاكت اور نابودى سے پہلے عذاب كى نشانيوں او رعلامات كا ظاہر ہونا_فلما أحسّوا بأسن

مذكورہ مطلب اس نكتے پر مبتنى ہے كہ عذاب كے احساس سے مراد اسكى نشانيوں اور علامات كا مشاہدہ ہو اور اس وقت عذاب كے شكار لوگوں كا فرار كرنا اسى مطلب كى تائيد كرتا ہے كيونكہ اگر وہ خود عذاب كا احساس كرتے تو بھاگنے كى فرصت اور راستہ ہى نہ ہوتا _

۳ _ عذاب ا لہى كى علامات اور نشانيوں كے ظہور كے وقت ،ستمگر معاشروں كا شديد اور ناگہانى اضطراب اور وحشت _

فلما أحسّوا إذا هم منها يركضون مذكورہ مطلب ''إذا'' فجائيہ كہ جو ناگہانى اور غير متوقع امر پر دلالت كرتا ہے_ سے حاصل ہوتا ہے كيونكہ ناگہانى فرار ايك قسم كے وحشت اور اضطراب كى دليل ہے_

۴ _ ستمگر معاشروں پر نازل ہونے والا عذاب تدريجى ہوتا تھا _فلما أحسّوا يركضون

اس چيز كے پيش نظر كے آيت كريمہ ميں عذاب كے شكار لوگوں كے فرار كو بيان كيا گيا ہے لگتاہے كہ عذاب كے احساس كے آغاز اور انكى نابودي_ كہ جس كا تذكرہ بعد كى تين آيتوں ميں ہے_ كے درميان فاصلہ موجود تھا _

گذشتہ اقوام:انكى تاريخ ۱; انكا تدريجى عذاب ۴; انكى ہلاكت ۲

ظالم لوگ:

۳۰۷

انكا اضطراب ۳; انكا خوف ۳; يہ عذاب كے وقت ۱، ۳; انكا تدريجى عذاب ۴; انكا فرار ۱; انكى ہلاكت ۲

عذاب:اس سے فرار ۱; اسكى نشانياں ۲

آیت ۱۳

( لَا تَرْكُضُوا وَارْجِعُوا إِلَى مَا أُتْرِفْتُمْ فِيهِ وَمَسَاكِنِكُمْ لَعَلَّكُمْ تُسْأَلُونَ )

ہم نے كہا كہ اب بھاگو نہيں اور اپنے گھروں كى طرف اور اپنے سامان عيش و عشرت كى طرف پلٹ كر جاؤ كہ تم سے اس كے بارے ميں پوچھ كچھ كى جائے گى (۱۳)

۱ _ ''فرار نہ كرو اور پر آسائش زندگى كى طرف پلٹ آو'' مہلك عذاب كے نزول كے وقت خداتعالى كى ستمگر اور پر آسائش كى زندگى گزارنے والوں كے ساتھ استہزا ء والى گفتگو_لاتركضوا و ارجعوا إلى ما أترفتم فيه

''الترف'' كا معنى ہے صاحب نعمت ہونا اور ''الترفہ'' كا معنى ہے خود نعمت اور ''مترف'' اسے كہتے ہيں حو فراوان نعمتوں اور آسائشوں سے بہرہ مند ہو اس طرح كہ غرور كرنے لگے (لسان العرب) يا اس طرح ناز و نعمت ميں ہو كہ اسے كوئي روك نہ سكے اور جو اس كا دل چاہے كرے قابل ذكر ہے كہ ''لاتركضوا'' اور ''ارجعوا ...'' ميں نہى اور امرطلب حقيقى كيلئے نہيں ہيں بلكہ مجاز اور تہكم و استہزا ء كيلئے ہيں _

۲ _ ستمگر اور پرُ آسائش زندگى گزارنے والے معاشروں كا عذاب اور سزا حتمى ہے اور اس سے فرار كا كوئي فائدہ نہيں ہے _لاتركضوا و ارجعوا إلى ما اُترفتم فيه

۳ _ پر آسائش زندگى گزارنے والے ستمگر نزول عذاب كے وقت اپنا مال و متاع اور گھر چھوڑ كر اپنے شہر و ديار سے فرار كر جاتے ہيں _و ارجعوا إلى ما أترفتم فيه و مسكنكم

۴ _ مادى اور خوشگوار زندگى ميں غوطہ زن ہونا ستمگر معاشروں ميں زندگى گزارنے كا طريقہ ہے _قرية كانت ظالمة و ارجعوا إلى ما أترفتم فيه

۵ _ خوش گذرانى اور ناز و نعمت اور آسائشوں ميں غرق رہنا دنيوى عذاب اور ہلاكت كاپيش خيمہ ہے _و كم قصمنا من قرية و ارجعوا إلى ما أترفتم فيه مذكورہ مطلب ''فيہ'' سے كہ جو ظرفيت كل ے ہے حاصل ہوتا ہے اس طرح كہ نعمت اور آسائش كو ظرف اور انسان جو صاحب نعمت ہے اس كومظروف قرار ديا گيا ہے اور يہ چيز پرُ آسائش زندگى گزارنے والے ستمگروں كے ناز و نعمت ميں غرق ہونے كو بيان كرتى ہے_

۳۰۸

۶ _ معاشرے كے ستمگر اور پر آسائش زندگى گزارنے والے لوگ، تہذيبوں كى نابودى اور معاشرے كے افراد كى ہلاكت كا سبب ہيںو كم قصمنا من قرية كانت ظالمة ارجعوا إلى ما أترفتم فيه

ان آيات كے مخاطب كچھ خاص لوگ ہيں كيونكہ خداتعالى نے انكى دو صفتيں بيان كى ہيں ستمگر ہونا اور پر نعمت ہونا اور يہ دو صفتيں عام طور پر معاشرے كے خاص طبقے ميں ہوتى ہيں اور اكثر لوگ نہ ظالم ہيں اور نہ پر آسائش _

۷ _ گذشتہ ظالم معاشروں كے پرُ آسائش زندگى والے لوگ خوبصورت اور مجلل عمارتيں اور گھر ركھتے تھے_و ارجعوا إلى ما أترفتم فيه و مسكنكم پرُ آسائش زندگى والوں كے مال و متاع ميں سے ''گھروں '' كا تذكرہ انكى خصوصيت كا گواہ ہے نيز يہ انكے باسيوں كى دلى وابستگى كى بھى دليل ہے_

۸ _ ستمگر معاشروں كے پرُ آسائش زندگى والے افراد كى ممتاز معاشرتى اور اقتصادى حيثيت_ارجعوا لعلكم تسئلون

اس سلسلے ميں كہ ''تسئلون'' ميں سوال كيا ہے اور سوال كرنے والے كون ہيں مفسرين كى مختلف آراء ہيں _ ان ميں سے ايك يہ ہے كہ سوال كرنے والے لوگ ہيں اور سوال سے مراد، معاشرتى مسائل ميں مشورہ اور اقتصادى مسائل ميں مدد اور درخواست ہے_

۹ _ ماضى كے ستمگر اور پرُ آسائش معاشروں ميں فقير اور نادار طبقے كا وجود _ارجعوا لعلكم تسئلون

مذكورہ مطلب اس احتمال كى بناپر ہے كہ ''لعلكم تسئلون'' سے مراد فقراء كى ان سے درخواست اور سوال ہو_

۱۰ _ گذشتہ معاشروں كے ستمگر اور پرُ آسائش زندگى والے لوگ انبيا(ع) ء الہى كى مخالفت اور ان كے خلاف مقابلہ ميں پيش ہوتے _و كم قصمنامن قرية كانت ظالمة ارجعوا إلى ما أترفتم فيه و مسكنكم لعلكم تسئلون

مذكورہ مطلب اس نكتے كو پيش نظر ركھتے ہوئے حاصل ہوتا ہے ہے كہ يہ آيت كريمہ اور اس سے پہلے كى دو آيتيں ان لوگوں كے بارے ميں ہيں كہ جو انبياء كى مخالفت كى وجہ سے عذاب الہى ميں گرفتار ہوئے_

۱۱ _ پرُآسائش زندگى والے ستمگر لوگوں كا نعمات الہى اور آسائش سے بہرہ مند ہونے كى وجہ سے مؤاخذہ ہوگا اور ان سے سؤال كيا جائيگا_ارجعوا إلى ما أترفتم فيه ومسكنكم لعلكم تسئلون

امتيں :ان كى ہلاكت كے عوامل ۶/انبياء (ع) :

۳۰۹

ان كے دشمن ۱۰

تہذيبيں :ان كے ختم ہونے كے عوامل ۶

معاشرہ:اسكى آسيب شناسى ۶

خداتعالى :اس كا مذاق اڑانا ۱

گذشتہ اقوام:انكى تاريخ ۷، ۸، ۹، ۱۰; ان كے ظالموں كى دشمنى ۱۰; ان كے معاشرتى طبقات ۹; ان كے پر آسائش لوگوں كے گھر ۷; ان كے ظالموں كى معاشرتى حيثيت ۸; ان كے پر آسائش زندگى والے افراد كى معاشرتى حيثيت۸; ان كے ظالموں كى اقتصادى حيثيت ۸; ان كے عيش و عشرت والوں كى اقتصادى حيثيت۸

دنيا پرستي:اسكے اثرات ۵

ظالم لوگ:ان كا مذاق اڑانا ۱; ان كے عذاب كا حتمى ہونا ۲; انكى خوش گذرانى ۴; ان كى دنيا پرستى ۴; ان كى روش زندگى ۴; يہ عذاب كے وقت ۳; انكافرار ۳; انكا مؤاخذہ ۱۱; ان كا نقش و كردار ۶

عذاب:اس كا پيش خيمہ ۵; جڑ سے اكھاڑ پھينكنے والا عذاب ۱; ا س سے فرار ۱

پرآسائش زندگى والے لوگ:ان كا مذاق اڑانا۱; ان كے عذاب كا حتمى ہونا ۲; ماضى كے پر آسائش زندگى والوں كى دشمنى ۱۰; ان كا فرار ۱، ۳; ان كا مواخذہ ۱۱; يہ عذاب كى وقت ۳; انكا نقش و كردار ۶

نعمت:صاحبان نعمت كا مواخذہ ۱۱

ہلاكت:س كا پيش خيمہ ۵

خواہش پرستي:اسكے اثرات ۵

آیت ۱۴

( قَالُوا يَا وَيْلَنَا إِنَّا كُنَّا ظَالِمِينَ )

ان لوگوں نے كہا كہ ہائے افسوس ہم واقعاً ظالم تھے (۱۴)

۱ _ ظالم معاشروں كے عيش و عشرت پسند لوگ، عذاب الہى كے احساس كے بعد اپنے ظلم و ستم كا اعتراف كرليتے ہيں _فلما أحسوا بأسنا قالواياويلناا إنّا كنّا ظالمين

۲ _ عيش و عشرت پسند ظالم لوگ، عذاب الہى كو ديكھ كر

۳۱۰

حسرت اور ندامت ميں ڈوب جاتے ہيں _فلما أحسّوا بأسنا قالوا يا ويلنا إنّا كنا ظالمين

۳ _ ہلاك كردينے والى مشكلات اور عذاب الہى كے مشاہدہ كے وقت انسان كا حقائق كى طرف توجہ كرنا اور اپنے كردار سے پشيمان ہونا_فلما أحسّوا بأسنا قالواياويلناا إنّا كنّا ظالمين

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ جملہ ''قالواياويلناا ...'' مستأنفہ اور جملہ ''فلما أحسّوا بأسنا ...'' كيلئے بيان ہو يعنى جب ہمارے عذاب كو محسوس كرتے ہيں تو اپنے گناہ كا اقرار اور حقيقت حال كا اعتراف كرليتے ہيں پس عذاب كو محسوس كرنا اور تباہ و برباد كردينے والى مشكلات كا مشاہدہ انسان كے حقائق كى طرف توجہ كرنے اور ان كے اعتراف كا سبب ہے_

۴ _معاشروں كے عيش و عشرت پسند اور خوش گذران لوگ ظالم اور ستمگر ہيں _

قرية كانت ظالمة ما أترفتم فيه إنا كنا ظالمين

۵ _ مسلسل ظلم، نابودى اور عذاب الہى كے نزول كا سبب ہے _فلما أحسّوا بأسنا قالواياويلناا إنا كنا ظلمين

مبتلا ہونا:عذاب ميں مبتلا ہونے كے اثرات ۳

اقرار:ظلم كا اقرار ۱

پشيماني:اسكے عوامل ۳

متنبہ ہونا:اسكے عوامل ۳

خوش گذراں لوگ:ان كا ظلم ۴

ظالم لوگ:ان كا اقرار ۱; انكى حسرت۲; يہ عذاب كے وقت۱، ۲

ظلم:اسكے اثرات ۵

عذاب:اسكے ديكھنے كے اثرات ۳; اسكے وقت پشيمانى ۱; اسكے عوامل ۵

عيش و عشرت پر ست لوگ:ان كا اقرار۱; ان كى پشيمانى ۲; انكى حسرت۲; انكا ظلم ۴; يہ عذاب كے وقت ۱، ۲

۳۱۱

آیت ۱۵

( فَمَا زَالَت تِّلْكَ دَعْوَاهُمْ حَتَّى جَعَلْنَاهُمْ حَصِيداً خَامِدِينَ )

اور يہ كہہ كر فرياد كرتے رہے يہاں تك كہ ہم نے انھيں كٹى ہوئي كھيتى كى طرح بنا كر ان كے سارے جوش كو ٹھنڈا كرديا (۱۵)

۱ _ عيش و عشرت پرست ستمگر لوگ ،عذاب كے احساس سے ليكر ہلاكت و نابودى تك افسوس اور پشيمانى ميں رہيں گے_فما زالت تلك دعوى هم حتى جعلناهم حصيداً خمدين

۲ _ عذاب الہى كى نشانياں اور علامات ديكھنے كے بعد ايمان لانا اور ظلم و گناہ كا اعتراف كرنا بے ثمر ہے_

إنا كنا ظالمين فما زالت تلك دعوى هم حتى جعلنهم حصيد

يہ جو خداتعالى نے فرمايا ہے كہ ''گناہ گار لوگ عذاب كے مشاہدے كے وقت سے ليكر ہلاكت كے وقت تك مسلسل اپنے ظلم كا اعتراف كرتے ہيں '' تو اس كا مطلب يہ ہے كہ عذاب كے مشاہدے كے وقت گناہ كا اعتراف كرنا اثر نہيں ركھتا اور ضرورى ہے كہ توبہ عذاب كو ديكھنے سے پہلے انجام پائے_

۳ _ بہت سارے ستمگر اور پر آسائش زندگى والے معاشرے، خداتعالى كے شديد عذاب كے نتيجے ميں بالكل نابود ہوگئے_

و كم قصمنا حتى جعلنهم حصيداً خمدين

''حصيد'' كا معنى ہے محصود يعنى كاٹا ہوا اور ''خامد'' ''خمدت النار خموداً'' كا اسم فاعل ہے يعنى آگ كا بجھا ہوا شعلہ اور يہ اس آيت ميں موت سے كنايہ ہے (مفردات راغب) _

اقرار:ظلم كا اقرار ۲; گناہ كا اقرار۲

ايمان:بے ثمر ايمان ۲

گذشتہ اقوام:انكى تاريخ ۳; انكا عذاب ۳; ان كے ختم ہونے كے عوامل ۳

۳۱۲

ظالم لوگ:انكى پشيماني۱; يہ عذاب كے وقت ۱

عذاب:اسے ديكھنے كے اثرات۲; اسكے وقت پشيماني۱

عيش و عشرت پسندلوگ:انكى پشيمانى ۱; يہ عذاب كے وقت ۱

آیت ۱۶

( وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاء وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا لَاعِبِينَ )

اور ہم نے آسمان و زمين اور ان كے درميان كى تمام چيزوں كو كھيل تماشے كے ئے نہيں بنايا ہے (۱۶)

۱ _ آسمان و زمين اور فضا كے موجودات (عالم وجود) كى خلقت، فضول اور كھيل تماشا نہيں ہے بلكہ بامقصد اور با ہدف ہے_و ما خلقنا السماء والأرض و ما بينهما لعبين

''لعب'' كا معنى ہے ايسا بے فائدہ كام كہ جس كا كوئي صحيح مقصد اور سود نہ ہو ''لاعبين''، ''خلقنا'' كى ضمير كيلئے حال ہے يعنى ہم نے عالم ہستى كو كھيل تماشے كے قصد سے خلق نہيں كيا_

۲ _ آسمان و زمين كے درميان كى فضا ميں مخلوقات اور موجودات ہيں _و ما خلقنا السماء و الأرض و ما بينهما لعبين

۳ _ انبيا(ع) ء كى بعثت اور ستمگر اور دين دشمن معاشروں كى ہلاكت، نظام ہستى كے باہدف ہونے كى بنياد پر ہے_

و كم قصمنا من قرية كانت ظالمة و ما خلقنا السماء و الأرض و ما بينهما لعبين

ستمگر اقوام كى ہلاكت كے بعد كائنات كے باہدف ہونے كى ياددہانى ہوسكتا ہے اس نكتے كو بيان كررہى ہو كہ جب كائنات با مقصد اور باہدف ہے تو ستمگر اقوام كى ہلاكت بھى كائنات كے اسى باہدف ہونے اور كھيل تماشا نہ ہونے كا حصہ ہوگي

۴ _ ظلم اور انبيا(ع) ء كى مخالفت ،عالم ہستى كے قانون كے تابع ہونے والے نظام كے خلاف ہے _

و كم قصمنا من قرية كانت ظالمة و ما خلقنا السماء و الأرض و ما بينهما لعبين

ستمگروں كى نابودى كے بعد، خداتعالى كى طرف سے خلقت كائنات كے فضول نہ ہونے كى ياد دہانى ہوسكتا ہے اس حقيقت كو بيان كررہى ہو كہ انسان ظلم نہ كرے اور ستم كرنا كائنات كى بامقصد حركت كے خلاف ہے_

۵ _ عيش و عشرت پسند ستمگر لوگ ،كائنات كو كھيل تماشااور بے مقصد سمجھتے ہيں _

قرية كانت ظالمة و ارجعوا إلى ما اُترفتم فيه و ما خلقنا السماء و الأرض و ما بينهما لعبين

۶ _ كائنات كو بے مقصد سمجھنا، عالم خلقت كو فضول اور كھيل تماشا سمجھنے كے مترادف ہے _

۳۱۳

و ما خلقنا السماء و الأرض و ما بينهما لعبين

''مبطلين'' كے بجائے ''لعبين'' كى تعبير بتاتى ہے كہ كائنات كو باطل اور بے مقصد سمجھنا عالم خلقت كو كھيل تماشا سمجھنے كے مترادف ہے_

آسمان:اسكى خلقت كا قانون كے مطابق ہونا ۲

خلقت:اسكے ساتھ كھيلنا ۶; اسكو كھوكھلا سمجھنا۵، ۶; اس كا قانون كے مطابق ہونا ۱، ۳، ۴

انبياء(ع) :انكے ساتھ مخالفت كى حقيقت ۴; انكى بعثت كا قانون كے مطابق ہونا ۳

سوچ:غلط سوچ ۶

دين:اسكے دشمنوں كى ہلاكت كا قانون كے مطابق ہونا ۳

زمين:اسكى خلقت كا قانون كے مطابق ہونا۱

ظالم لوگ:انكى سوچ۵; انكا كھوكھلے يں كا طرف تمايل۵; انكى ہلاكت كا قانون كے مطابق ہونا ۳

ظلم:اسكى حقيقت ۴

فضا:اسكے موجودات كى خلقت كا قانون كے مطابق ہونا۱; اسكے موجودات ۲

عيش و عشرت پسند لوگ :ان كى سوچ۵; انكا كھوكھلے پن كى طرف تمايل ۵

آیت ۱۷

( لَوْ أَرَدْنَا أَن نَّتَّخِذَ لَهْواً لَّاتَّخَذْنَاهُ مِن لَّدُنَّا إِن كُنَّا فَاعِلِينَ )

ہم كھيل ہى بنانا چاہتے تو اپنى طرف ہى سے بناليتے اگر ہميں ايسا كرنا ہوتا (۱۷)

۱ _ خداتعالى كا ارادہ ، كھيل اور سرگرمى كى خاطر كسي كام كے انجام دينے كے ساتھ تعلق نہيں پكڑتا _

و ما خلقنا لعبين_ لو أردنا أن نتخذ لهو

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''لو'' امتنا عيہ ہو_ اس بناپر آيت كا معنى يوں بنے گا ''اگر ہم كسى چيز كو _ برفرض محال اور اسكے ممكن يا غير ممكن ہونے يا ہمارى شان سے كم ہونے سے صرف نظر كرتے ہوئے_ كھيل اور اپنى سرگرمى كيلئے انجام ديتے ...'' قابل ذكر ہے كہ بعض مفسرين كے مطابق' ' إن كنّا فاعلين'' ميں ''إن'' نافيہ ہے_ يہ بھى مذكورہ مطلب كا مؤيد ہوگا

۳۱۴

۲ _ مخلوقات كبھى بھى اپنے خالق كے لہو و لعب اور سرگرمى كا ذريعہ نہيں ہيں _

لو أردنا أن نتخذ لهواً لاتّخذنه من لدنا إن كنا فاعلين

۳ _ موجودہ كائنات كو اپنے كھيل تماشے كيلئے خلق كرنے كى قدرت، صرف خداتعالى كے پاس ہے اور كوئي بھى موجود اس پر قادر نہيں ہے_لو أردنا نتخذ لهواً لاتّخذنه من لدنّ

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''من لدنا'' كا معنى ''من جہة قدرتنا'' ہو (جيسا كہ بعض بزرگ مفسرين كى يہى رائے ہے) اور يا كہ يہ ''من لدنا'' (ظرف مختص) ''من لدن غيرنا'' كے مقابلے ميں ہو_ اس بناپر آيت كا پيغام يوں ہوگا اگر بنايہ ہوتى كہ كائنات كو اپنے لئے سرگرمى قرار ديں تو بھى يہ كام صرف ہمارى قدرت ميں ہے نہ ان خداؤں كى قدرت ميں جنكا مشركين دعوى كرتے ہيں اور نہ كوئي اور قدرت اسے انجام دے سكتى ہے پس مطلق قدرت اور ربوبيت صرف خداتعالى كے پاس ہے قابل ذكر ہے كہ ''عندنا'' كى جگہ كہ جو صرف حضور كيلئے ہے ''لدنا'' جو ابتدائے غايت كيلئے ہے كا آنا مذكورہ مطلب كى تائيد كرتا ہے_

۴ _ بر فرض محال اگر خداتعالى اپنى سرگرمى كيلئے كائنات كو خلق كرتا تو يہ مادى كائنات اسكى غرض كے لائق نہيں تھى بلكہ اس سے برتر جہان كا انتخاب كرتا _لو أردنا أن نتخذ لهواً لاتخذنه من لدنا إن كنا فعلين

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''من لدنا'' كا معنى ہو ''مما عندنا'' يا ''مما يليق بحضرتنا ...'' يعنى اگر ہم سرگرمى چاہتے تو ان جہانوں اور موجودات ميں سے كہ جو ہمارے پاس ہيں اور ہمارے زيادہ قريب ہيں اور اس مادى كائنات سے برتر ہيں (جيسے عالم مجردات ...) ان سے انتخاب كرتے_

۵ _ خداتعالى ، كائنات كے خلق كرنے والے كام ميں حق اور صحيح ہدف ركھتا تھا _و ما خلقنا السمائ لعبين لو أردنا أن نتّخذ لهواً لاتّخذنه من لدنا إن كنا فعلين خداتعالى نے گذشتہ آيت ميں كائنات كى خلقت كو با ہدف قرار ديا ہے اور اس آيت ميں مزيد تاكيد كيلئے فرمايا ہے ''ہم نے كائنات كو اپنى سرگرمى اور كھيل كيلئے خلق نہيں كيا'' ان دو آيتوں كے مجموعے سے استفادہ ہوتا ہے كہ كائنات كى خلقت ميں ايك ہدف ملحوظ تھا اور وہ ہدف صحيح اور حق ہے كيونكہ كلمہ'' لہو و لعب'' كا معنى وہى باطل ہے اور جو باطل نہ ہو وہ صحيح اور حق ہوگا_

خلقت:

۳۱۵

اس كے ساتھ سرگرمى ۳، ۴; اس كا قانون كے مطابق ہونا۵; اس كا باہدف ہونا۵

توحيد:توحيد افعالى ۳

خداتعالى :اسكى خالقيت ۳; يہ اور كھيل ۱، ۲، ۳، ۴; يہ اور لہو ،۱، ۲، ۳، ۴; اسكى قدرت ۳; اسكے ارادے كا متعلق ۱

موجودات:انكى حقيقت۲; ان كے ساتھ سرگرمى ۲

آیت ۱۸

( بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَى الْبَاطِلِ فَيَدْمَغُهُ فَإِذَا هُوَ زَاهِقٌ وَلَكُمُ الْوَيْلُ مِمَّا تَصِفُونَ )

بلكہ ہم تو ق كو باطل كے سر پردے مارتے ہيں اور اس كے دماغ كو كچل ديتے ہيں اور وہ تباہ و برباد ہوجاتا ہے اور تمھارے لئے ويل ہے كہ تم ايسى بے ربط باتيں بيان كر رہے ہو (۱۸)

۱ _ حق و باطل كى جنگ ميں آخرى كاميابى اہل حق كى ہے_بل نقذف بالحق على الباطل

۲ _ حق كے عقيدے اور نظريہ كائنات كے حق ہونے كى باطل عقيدے اور باطل نظريہ كائنات پر كاميابى سنت الہى ہے_و ما خلقنا السمائ لعبين بل نقذف بالحق على الباطل فيدمغه

خداتعالى نے گذشتہ آيت ميں كائنات كى خلقت كے باہدف ہونے اور اسكى خلقت كے فضول اور بيہودہ ہونے والے عقيدہ كے باطل ہونے كى بات كى ہے يہ بات قرينہ ہے كہ آيت كريمہ ميں حق و باطل سے مراد حق و باطل عقيدہ اور ان كا نظريہ كائنات ہے قابل ذكر ہے كہ اسى آيت كا ذيل (ولكم الويل مما تصفون) كہ جو خداتعالى كى طرف ناروا نسبت اور اسكى نادرست امور كے ساتھ توصيف كے بارے ميں ہے مذكورہ مطلب كا مؤيد ہے_

۳ _ حق كى باطل پر كاميابي، نظام خلقت كے بامقصد ہونے كا ايك جلوہ ہے_

و ما خلقنا السماء بل نقذف بالحق على الباطل فيدمغه

گذشتہ آيت ميں خداتعالى نے حق كى بنياد پر كائنات كى خلقت كى بات كى تھى اور اس آيت ميں حق كى باطل پر كاميابى كى ياد دہانى كرائي ہے ان دو باتوں كے درميان ارتباط مذكورہ مطلب كو بيان كرتا ہے_

۴ _ طول تاريخ ميں حق و باطل كے درميان مسلسل جنگ اور كشمكش_و كم قصمنا من قرية كانت ظالمة بل نقذف بالحق على الباطل فيد مغه

۳۱۶

۵ _ باطل اور نادرست عقيدوں كى نابودى اہل حق كے باطل كے خلاف ميدان مبارزت ميں حاضر ہونے كا مرہون منت ہے_بل نقذف بالحق على البطل فيدمغه

''بالحق'' ميں ''بائ'' استعانت كيلئے ہے اس بناپر آيت كا معنى يوں بنے گا ''ہم حق كى مدد سے باطل كو نابود اور تہس نہس كرديں گے'' اس كا مطلب يہ ہے كہ حق كا باطل كے مقابلے ميں ميدان كارزار ميں حاضر رہنا ضرورى ہے تا كہ اسكے ذريعے باطل اور نادرست عقيدوں كو نابود كيا جاسكے_ قابل ذكر ہے كہ خداتعالى نے باطل كو نابود كرنے كو اپنى طرف نسبت نہيں دى بلكہ حق كو باطل كا نابود كرنے والا قرار ديا ہے (فيد مغہ) يہ نكتہ بھى اسى مطلب كى تائيد كرتا ہے_

۶ _ غير متوقع حالات ميں باطل كى ناگہانى نابودى _بل نقذف بالحق على البطل فيدمغه فإذا هو زاهق

''إذا'' فجائيہ كہ جو ناگہانى اور غير متوقع ہونے پر دلالت كرتا ہے ،سے مذكورہ بالا مطلب حاصل ہوتا ہے_

۷ _ حق ،استحكام و صلابت ركھتا ہے اور باطل كھوكھلا اورقابل شكست ہے_بل نقذف بالحق على البطل فيدمغه فإذا هو زاهق چونكہ خداتعالى نے حق كو باطل كو ختم كردينے والا اور اسے تہس نہس كردينے والا قرار ديا ہے اس سے حق كا مستحكم ہونا ظاہر ہوتا ہے اور اس سے كہ باطل ناگہانى طور پر اور فوراً ختم ہوگيا اس كا كھوكھلا ہونا معلوم ہوتا ہے_ قابل ذكر ہے كہ تعبير ''قذف'' _ يعنى زور سے پھينكنا_ مذكورہ مطلب كى تائيد كرتى ہے_

۸ _ ماضى كے ستمگر معاشروں كى ہلاكت اور نابودى حق كى باطل كے خلاف كاميابى كا ايك نمونہ ہے_

و كم قصمنا من قرية كانت ظالمة بل نقذف بالحق على الباطل فيدمغه فإذا هو زاهق

۹ _ عصر پيغمبراكرم(ص) كے مشركين كا نظام خلقت اور انبياء (ع) كى بعثت كو كھيل تماشا قرار دينا_و ما خلقنا السمائ لعبين و لكم الويل مما تصفون ''لكم'' اور ''تصفون'' كے مخاطب مشركين ہيں اور گذشتہ آيات قرينہ ہيں كہ توصيف سے مراد مشركين كا خلقت كائنات كے بارے ميں غير صحيح عقيدہ اور خداتعالى كى طرف نظام خلقت كو سرگرمى كے طور پر لينے كى ناروا نسبت ہے _

۱۰ _ خداتعالى كى طرف ناروا نسبت ہلاكت اور عذاب الہى كے مستحق ہونے كا سبب ہے_

لكم الويل مما تصفون ''الويل'' كا اصلى معنى عذاب اور ہلاكت ہے اور يہ اس جگہ استعمال ہوتا ہے جہاں كسى شخص يا اشخاص كو ايسى ہلاكت كا خطرہ ہو جسكے وہ مستحق ہيں (لسان العرب) _

۳۱۷

۱۱ _ خداتعالى كى جانب سے پيغمبراكرم(ص) اور مؤمنين كو كاميابى كى خوشخبرى اور مشركين كو شكست اور نابودى كى دھمكيبل نقذف بالحق و لكم الويل مما تصفون

اس چيز كو مدنظر ركھتے ہوئے كہ پيغمبراكرم(ص) اور اہل حق، حق دشمن مشركين كے ساتھ مقابلے ميں مشغول تھے_ آيت شريفہ كے لحن سے معلوم ہوتا ہے كہ يہ پيغمبراكرم(ص) اور مؤمنين كو كاميابى كى خوشخبرى دے رہى ہے اور اسى طرح مشركين كو شكست اورنابودى كى دھمكى دے رہى ہے_

۱۲ _''عن ا يّوب بن الحر قال: قال لى ا بو عبدالله (ع) : يا ا يوب ما من ا حد إلا و قد برز عليه الحق حتى يصدع، قبله ا م تركه و ذلك ا ن الله يقول فى كتابه:'' بل نقذف بالحق على الباطل فيدمغه فإذا هو زاهق ...'' ; امام صادق (ع) سے روايت كى گئي ہے كہ كوئي شخص نہيں ہے مگر يہ كہ حق مكمل طور پر اس كيلئے ظاہر ہوچكا ہے چاہے اسے قبول كرے يا رد كرے خداتعالى يہى اپنى كتاب ميں فرما رہا ہے''بل نقذف بالحق على البطل فيدمغه فإذا هو زاهق'' _

آنحضرت(ص) :آپ(ص) كو بشارت ۱۱

انبياء (ع) :انكى بعثت كو فضول سمجھنا۹

باطل:اس كا كھوكھلاپن ۷; اسكى شكست كا پيش خيمہ ۵; اسكى شكست ۱، ۲، ۳; اسكى ناگہانى شكست ۶; اس كا انجام ۱; اسكى شكست كے موارد ۸

بشارت:مؤمنين كو كاميابى كى بشارت ۱۱; آنحضرت(ص) كو كاميابى كى بشارت ۱۱

حق:اس كا مستحكم ہونا۷; اسكى كاميابى ۱، ۲، ۳، ۱۲; اس كا انجام۱; اسكى كاميابى كے موارد۸; حق و باطل كے درميان كشمكش ۱، ۴، ۵

حق پرست لوگ:ان كا كردار اور نقش۵

خداتعالى :اسكى بشارتيں ۱۱; اسكى دھمكياں ۱۱; اسكى سنت۲

روايت: ۱۲

گذشتہ اقوام:انكى ہلاكت ۸/ظالم لوگ:انكى ہلاكت ۸

____________________

۱ ) محاسن برقى ج۱، ص ۲۷۶، ب ۳۸، ح ۳۹۱_ نورالثقلين ج۳، ص ۴۱۶، ح ۱۸_

۳۱۸

عذاب:اسكے اسباب ۱۰

عقيدہ:باطل عقيدہ۲، ۵; حق عقيدہ ۲

مؤمنين:انہيں بشارت ۱۱

مشركين:صدر اسلام كے مشركين كى سوچ ۹; انكو دھمكى ۱۱

آیت ۱۹

( وَلَهُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَنْ عِندَهُ لَا يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِهِ وَلَا يَسْتَحْسِرُونَ )

اور اسى خدا كے لئے زمين و آسمان كى كل كائنات ہے اور جو افراد اس كى بارگاہ ميں ہيں وہ نہ اس كى عبادت سے ا كڑ كر انكار كرتے ہيں اور نہ تھكتے ہيں (۱۹)

۱ _ خداتعالى ان سب كا مالك ہے جو آسمانوں اور زمين ميں ہيں _و له من فى السموات و الأرض

۲ _غير خدا كى مالكيت (حتى كہ اپنے اوپر) مجازى ہے _و له من فى السموات و الأرض

۳ _ آسمانوں اور زمين ميں صاحب شعور و عقل مخلوق كا وجود_و له من السموات والأرض

''من'' ان موجودات كيلئے استعمال ہوتا ہے جو صاحب عقل و شعور ہوں _

۴ _ جہان خلقت ميں متعددآسمان ہيں _السموات

۵ _ خداتعالى كا جہان ہستى كا بطور مطلق مالك ہونا حق كى باطل پر كاميابى كى ضمانت اور پشت پناہ ہے_بل نقذف بالحق و له من فى السموات و الأرض جملہ''و له من فى السموات '' كا جمله '' لو أردنا بل نقذف بالحق '' پر عطف ہے اور يہ خلقت كائنات كے حق ہونے اور حق كى باطل كے خلاف كاميابى كو بيان كررہا ہے كيونكہ جب پورى كائنات خداتعالى كى ملكيت ہے تو اس كيلئے حق كو باطل پر كامياب كرنا ممكن اور آسان ہوگا_

۶ _ مقربين خدا (فرشتے) اسكى عبادت سے تكبر نہيں كرتے_و من عنده لايستكبرون عن عبادته

۳۱۹

مفسرين كے بقول ''من عندہ'' سے مراد فرشتے ہيں _

۷ _ تقرب الہى ايسا مقام و مرتبہ ہے كہ جو عبادت ميں تكبر كرنے اور اسكے مقابلے ميں اكڑنے كے ساتھ سازگا نہيں ہے_

و من عنده لايستكبرون عن عبادته ''لايستكبرون عنه'' كے بجائے''لايستكبرون عن عبادته'' كى تعبير سے مذكورہ مطلب حاصل ہوتا ہے_

۸ _ بارگاہ خداوندى كے مقربين كبھى بھى اسكى عبادت سے ملول اور تھكاوٹ كا شكار نہيں ہوتے_من عنده لايستكبرون عن عبادته و لا يستحسرون (''يستحسرون'' كے مصدر) ''استحسار'' كا معنى ہے تھكاوٹ اور ملالت_

۹ _ تقرب الہى كے مقام تك دسترسى كا خداتعالى كى عبادت سے نہ تھكنے اور تكبر نہ كرنے ميں مؤثر ہونا_و من عنده لا يستكبرون عن عبادته و لايستحسرون يہ جو خداتعالى نے فرمايا ہے كہ جو ہمارے پاس اور مقرب ہيں وہ خدا كى عبادت سے نہيں تھكتے اور تكبر نہيں كرتے'' اس سے معلوم ہوتا ہے كہ تقرب الہى كو حاصل كرنا نہ تھكنے اور تكبر نہ كرنے ميں اثر ركھتا ہے_

۱۰ _ خداتعالى كى عبادت ميں تسلسل اور نہ تھكنا پسنديدہ اور قابل قدر چيز يں ہيں _و من عنده لار يستكبرون عن عبادته و لا يستحسرون مذكور مطلب اس چيز سے حاصل ہوتا ہے كہ آيت كريمہ مقربين خدا كى تعريف و تمجيد كر رہى ہے اور بندوں كو پروردگار كى عبادت كى تشويق دلا رہى ہے_

آسمان:ان كا متعدد ہونا۴; ان كے با شعور موجودات ۳

باطل:اس پر كاميابى كا سرچشمہ ۵

تقرب:اسكے اثرات ۹/تكبر:اسكے موانع ۹

حق:اسكى كاميابى كا سرچشمہ ۵

خاضعين: ۶

خداتعالى :اسكى مالكيت كے اثرات ۵; اسكى مالكيت ۱

عبادت:اسكے تسلسل كى قدر و قيمت ۱۰; اس ميں خضوع ۶، ۹; اس ميں سستى كے موانع ۹; اس ميں نشاط ۸،۹

عمل:پسنديدہ عمل ۱۰

۳۲۰

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750