تفسير راہنما جلد ۱۱

تفسير راہنما 10%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 750

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 750 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 219015 / ڈاؤنلوڈ: 3020
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

فقال لا هله إمكثوا ...لعلى ء اتيكم منها بقبس

۸ _ آگ كا ظاہر ہونا اور حضرت موسى (ع) كو رسالت عطا كرنے كيلئے خلوت كا فراہم ہونا ايك اہم اور پيغمبر اكرم(ص) كيلئے قابل توجہ واقعہ تھا _هل ا تى ك حديث موسى إذ رء ا نارا

''إذ'' ظرف ہے ''حديث'' كيلئے جو سابقہ آيت ميں تھا اور اس آيت كريمہ ميں استفہام پيغمبر اكرم(ص) كو اس ماجرا كى طرف توجہ كى ترغيب دلانے كيلئے ہے_

۹ _ فطرى اور قدرتى امور انبياء كو رسالت عطا كرنے كے بارے ميں خداتعالى كے ارادے كے عملى ہونے كيلئے تجلى گاہ ہيں _

قدرتى مقدمات ( راستہ گم كردينا ، آگ كى ضرورت كا احساس اور ...) فراہم كركے حضرت موسى كو كوہ طور پر كھينچ لانا _ جيسا كہ بعد والى آيات سے معلوم ہوتاہے مذكورہ نكتے كو بيان كررہاہے)إذ رء اناراً لعلى ء اتيكم منها بقبس

انبياء:انكى نبوت كا سرچشمہ ۹

گھرانہ:اسكى ضروريات پورى كرنا ۷

خداتعالى :اسكے ارادے كى تجلى گاہ ۹

عمل:پسنديدہ عمل ۷

قدرتى عوامل:انكا كردار ۹

كوہ طور:اسكى آگ ۳، ۴، ۵، ۶_اسكى آگ كى اہميت ۸

محمد(ص) :آپ(ص) اور حضرت موسى كا قصہ ۸

موسى (ع) :انكے قصے كى اہميت ۸; انكى بشارتيں ۳; انكے گھر والے ۴، ۶; انكے گھروالوں كى سرگردانى ۱; انكى سرگردانى ۱ ، ۳; انكا قصہ ۱، ۲، ۳، ۴، ۵; انكے گھروالوں كا رات كا سفر ۱; ۱نكا رات كا سفر۱; آپ وادى طوى ميں ۳، ۴; آپ كوہ طور ميں ۵; آپكے ہم سفر ۳،۴

۲۱

آیت ۱۱

( فَلَمَّا أَتَاهَا نُودِي يَا مُوسَى )

پھر جب موسى اس آگ كے قريب آئے تو آواز دى گئي كہ اے موسى (۱۱)

۱ _ حضرت موسى (ع) نے آگ ديكھنے كے بعد اپنے گھر والوں سے جدا ہوكر آگ كى طرف حركت كى _

رء ا نار اً فلما ا تيه

۲ _ جس آگ كا حضرت موسى نے مشاہدہ كيا تھا وہ واقعى چيز تھى اور حضرت موسى نے اپنے آپ كو اس تك پنہچايا _

فلما ا تيه

۳ _ حضرت موسى (ع) جب آگ كے قريب پہنچے تو آپ نے ايك آواز سنى كہ جس ميں حضرت موسى (ع) كو نام كے ساتھ پكارا جارہا تھا_فلما اتيها نودى يا موسى

۴ _ ''يا موسى ''كى صدا اچانك تھى اور جو نہى حضرت موسى (ع) وہاں پہنچے فوراً انہيں اسكے ساتھ مخاطب كيا گيا_

فلما ا تيها نودى يا موسى

۵ _ حضرت موسى (ع) نے ''يا موسى '' كى آواز دينے والے كو نہ پہچانا _نودى يا موسى

''نودي''كا مجہول آنا اور بعد والى آيت ميں جملہ ''فإنى ا نا ربك'' بتاتا ہے كہ حضرت موسى نے آواز سننے كے بعد پہلے مرحلے ميں اس آواز دينے والے كو نہ پہچانا _

كوہ طور:اسكى آگ ۱; اسكى آگ كى حقيقت ۲

موسى (ع) :انكا قصہ ۱، ۲، ۳، ۴، ۵; انكو ندادينے والا ۵; آپ كوہ طور ميں ۲، ۳، ۴; آپ كو ندا ۳، ۴

۲۲

آیت ۱۲

( إِنِّي أَنَا رَبُّكَ فَاخْلَعْ نَعْلَيْكَ إِنَّكَ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًى )

ميں تمھارا پروردگار ہوں لہذا اپنى جوتيوں كو اتار دو كہ تم طوى نام كى ايك مقدس اور پاكيزہ وادى ميں ہو (۱۲)

۱ _ صحرائے سينا ميں واقع وادى طوى ميں خداتعالى نے حضرت موسى (ع) كے ساتھ بات كى _

ى موسى إنى ا نا ربك إنك بالواد المقدس طويً

''واد'' وادى كا مخفف ہے يعنى پہاڑوں كے درميان كى وہ جگہ كہ جہاں سے سيلاب گزرتا ہے ( مصباح) ''طوي'' ممكن ہے كوہ طور كے نيچے والے درے كا نام ہو ( لسان العرب) اس صورت ميں يہ ( الواد المقدس) كيلئے عطف بيان يا بدل ہوگا اور ممكن ہے يہ گھڑى اور لخطے كے معنى ميں ہو(لسان العرب) تو اس صورت ميں يہ ظرف ہوگا '' المقدس'' كيلئے يعنى وہ درّہ كہ جو كچھ وقت (اشارہ ہے خداتعالى كے حضرت موسى كے ساتھ ہم كلام ہونے كے لحظے كى طرف)كيلئے مقدس ہوگيا ہے _

۲ _ خداتعالى نے موسى كے ساتھ مخاطب ہوتے ہوئے انہيں اپنا تعارف كرايا او رسمجھايا كہ تو اپنے پروردگار كے حضور ميں ہے اوراسكى كلام سن رہا ہے _ياموسى إنى ا ناربك

۳ _ وادى طوى ميں خداتعالى كا موسى (ع) كے ساتھ ہم كلام ہونا خداتعالى كى حضرت موسى (ع) كى نسبت ربوبيت كا ايك جلوہ تھا _ياموسى إنى ا نا ربك

۴ _ خداتعالى نے موسى (ع) كو حكم ديا كہ اپنے پروردگار كے حضور كے احترام ميں اپنے جوتے اتاركر مقدس وادى ميں ننگے پاؤں قدم ركھے _فاخلع نعليك انك بالواد المقدس طويً

۵ _ پروردگار كے حضور ميں اور اسكے كلام كو سنتے وقت ادب و احترام كا خيال ركھنا ضرورى ہے _

إنى ا نا ربك فاخلع نعليك

''فاخلع'' كى ''إنى ا ناربك'' پر تفريع بتاتى ہے كہ خداتعالى كے ساتھ بات كرتے وقت مكمل طور پر ادب كا خيال ركھنا ضرورى ہے_ اور چونكہ جب بھى خداتعالى انسان كے ساتھ بات كرتا ہے اس ميں كوئي نہ كوئي واسطہ ہوتا ہے اسلئے كہا جاسكتا ہے كہ قرآن اور ديگر كلمات الہى كى تلاوت كے وقت بھى ادب كى مكمل طور پر رعايت كرنا ضرورى ہے_مقدس مقامات كى حرمت كى حفاظت اور ان كا احترام كرنا ضرورى ہے،جملہ''انك بالواد ...'' ''فاخلع''كى علت بيان كرنے كيلئے ہے اور جس حكم كى علت واضح ہو اسے اس جيسے ديگر موارد ميں بھى اجرا كرنا ضرورى ہوتا ہے_

۲۳

۶ _مقدس مقامات كى حفاظت اور ان كا احترام كرنا ضرورى ہے_فاخلع نعليك إنك بالواد المقدس طويً

جملہ''إنك بالواد ...''،''فاخلع''كے لئے علت ہے اور پروہ حكم كہ جس كى علت ظاہر ہو دوسرے مشابہ مقامات پربھى لگايا جاتا ہے_

۷ _ جوتے اتاركر پابرہنہ ہوجانا مقدس مقامات كے احترام كاسب سے زيادہ واضح نمونہ ہے _فاخلع نعليكإنك بالواد المقدس طويً

۸ _ كوہ طور كے پاس واقع وادى طوى پاك و پاكيزہ اور لائق احترام سرزمين ہے _إنك بالواد المقدس طويً سرزمين مقدس يعنى وہ سرزمين جو طہارت معنوى ركھتى ہو (مفردات راغب)

۹ _ (كوہ طور سے نيچے ) سرزمين طوى ميں جوتوں كے ساتھ داخل ہونا، جائز نہيں ہے _فاخلع نعليكإنك بالواد المقدس طويً ''اخلع'' كے حكم كى''إنك بالواد المقدس'' كے ذريعے علت بيان كرنا بتاتا ہے كہ يہ حكم سب زمانوں ميں سب انسانوں كيلئے ہے_

۱۰ _ جن مقامات ميں خداتعالى اپنے انبياء اور اپنے بندوں كے ساتھ ہم كلام ہوتا ہے وہ پاك و پاكيزہ مقدس اور لائق احترام جگہيں ہيں _ياموسى إنيّ ا ناربك إنك بالواد المقدس طويً اگر چہ آيت كريمہ ميں وادى طوى كے تقدس كى دليل نہيں آئي ليكن مجموعى طور پر آيت كريمہ خداتعالى كے تكلم اور اس سرزمين كے تقدس كے ارتباط كو بيان كررہى ہے _ چا ہے پہلے سے اس كا مقدس ہونا بات كرنے كيلئے اس كے انتخاب كا سبب بنا ہو يا خداتعالى كا بات كرنا اسكے مقدس ہونے كا سبب بنا ہو _

۱۱ _''عن ا بى عبدالله (ع) قال: قال الله عزوجل لموسى (ع) '' فاخلع نعليك'' لا نّها كانت من جلد حمار ميت ; امام صادق(ع) سے روايت ہے كہ خداتعالى نے موسى (ع) كو فرمايا ''فاخلع نعليك'' كيونكہ انكے جوتے گدھے كے مردار كى كھال كے بنے ہوئے تھے_(۱)

____________________

۱ ) علل الشرائع ص ۶۶ ب ۵۵ ح ۱، بحارالانوار ج ۱۳ ص ۶۴ ح ۱ _

۲۴

۱۲ _'' عن الصادق جعفر بن محمد (ع) إنّه قال: فى قول الله عزوجل لموسي(ع) ''فاخلع نعليك'' قال: يعنى إدفع خوفيك، يعنى خوفه من ضياع ا هله و قد خلفها تمخض،و خوفه من فرعون'' خداتعالى نے حضرت موسى كو جو فرمايا تھا ''فاخلع نعليك'' اسكے بارے ميں امام صادق(ع) سے روايت ہے كہ آپ نے فرمايا يعنى اپنے آپ سے دو خوف دور كردے اپنى بيوى كے فوت ہوجانے كا خوف كہ جسے بچہ پيدا كرنے كى حالت ميں چھوڑ كر آئے تھے اور فرعون كا خوف _(۱)

مقدس مقامات:انكا احترام ۶، ۷; ان ميں جوتے اتارنا ۷

خداتعالى :اس كا كلام سننے ميں ادب ۵; اسكے اوامر ۴; اسكے انبياء كے ساتھ ہم كلام ہونے كى جگہ كا پاكيزہ ہونا ۱۰; اسكے انبياء كے ساتھ ہم كلام ہونے كى جگہ كا تقدس ۱۰; اسكى موسى كے ساتھ گفتگو ۲، ۳; اسكى موسى كے ساتھ گفتگو كى جگہ ۱; اسكى ربوبيت كى نشانياں ۳

وادى طوي:اس كا احترام ۸، ۹; اسكى پاكيزگى ۸; اس كا تقدس ۸; اسكى فضيلت ۱; اس ميں جوتے اتارنا ۹; اسكى جغرافيائي موقعيت ۸

روايت : ۱۱، ۱۲

موسى (ع) :انكو حكم ۴; انكا خوف ۱۲; انكى شرعى ذمہ دارى ۴; انكے جوتوں كى نوعيت ۱۱; ان كا قصہ ۱، ۲، ۴; انكا تربيت كرنے والا ۳; آپ وادى طوى ميں ۳; آپ خدا كے حضور ميں ۲، ۴; آپ كے جوتے ۴

آیت ۱۳

( وَأَنَا اخْتَرْتُكَ فَاسْتَمِعْ لِمَا يُوحَى )

اور ہم نے كو منتخب كرليا ہے لہذا جو وحى كى جارہى ہے اسے غور سے سنو (۱۳)

۱ _ خداتعالى نے موسى (ع) كو اپنے پيغمبر كے طور پر چن ليا اور وادى طوى ميں انہيں رسالت كيلئے منتخب ہونے

____________________

۱ ) علل الشرائع ص۶۶ ب ۵۵ ح ۲_ بحارالانوار ج ۱۳ ص ۶۴ ح ۲ _

۲۵

سے مطلع فرمايا _و ا نا ا خترتك فاستمع لما يوحى ''لما يوحى '' كے قرينے سے موسى (ع) كے منتخب ہونے سے مراد انكا پيغمبرى اور وحى الہى كا بوجھ اٹھانے كيلئے منتخب ہونا ہے _

۲ _ موسى (ع) خداتعالى كے برگزيدہ اور اپنے زمانے ميں وحى كے حاصل كرنے اور پيغام الہى كے پہچانے كيلئے بہترين شخص تھے _و ا نا ا خترتك ''اختيار'' مادہ ''خير'' سے ہے اور اس كا معنى ''اصطفائ'' ( ہر چيز ميں سے خالص كو اٹھالينا) ہے ( لسان العرب)

۳ _ انبياخداتعالى كى برگزيدہ ہستياں ہيں _و ا نا ا خترتك فاستمع لما يوحى

۴ _ خداتعالى نے موسى (ع) كو رسالت كيلئے انتخاب كرنے كے بعد انہيں وحى كو دريافت كرنے اور اسے غور سے سننے كا حكم ديا _و ا نا ا خترتك فاستمع لما يوحى

۵ _ ( كوہ طور كے نيچے ) وادى طوى ميں خداتعالى كا حضرت موسى (ع) كے ساتھ بات كرنا،وحى كى صورت ميں تھا _

فاستمع لما يوحى

بعد والى آيت كريمہ ميں جملہ''إننى ا نا الله ''، ''ما يوحي'' كيلئے بدل ہے پس كوہ طور كے نيچے جو كچھ حضرت موسى سے كہا گيا تھا وہ وحى تھى _

۶ _ كلام الہى كو سنتے وقت اس پر كان لگانا ضرورى ہے _فاستمع لما يوحى

اگر چہ مخاطب حضرت موسى (ع) ہيں ليكن خداتعالى نے انہيں وحى كا سامنا كرتے وقت جو آداب سكھائے انہيں قرآن ميں بيان فرمايا ہے تا كہ سب كيلئے مفيد ہوں _

انبياء:انكا برگزيدہ ہونا ۳

خدا كے برگزيدہ بندے: ۳خداتعالى :اسكے اوامر ۴; اسكى حضرت موسى كے ساتھ گفتگو ۵_

موسى (ع) :انكا برگزيدہ ہونا ۱، ۲، ۴; انكى شرعى ذمہ دارى ۴; انكى معاشرتى شخصيت ۲; انكا مقام ۱، ۲، ۴; آپ وادى طوى ميں ۱، ۵; آپكى نبوت ۱، ۴، ۵; آپ كى طرف وحى ۵

وحى :اسے كان لگا سننا ۴; اسے كان لگا كر سننے كى اہميت۶

۲۶

آیت ۱۴

( إِنَّنِي أَنَا اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدْنِي وَأَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِكْرِي )

ميں اللہ ہوں ميرے علاوہ كوئي خدا نہيں ہے ميرى عبادت كرو اور ميرى ياد كے لئے نماز قائم كرو (۱۴)

۱ _ خداتعالى كا يكتا ہونا اور اسكے علاوہ كسى معبود كا حقيقت نہ ركھنا وادى طوى ميں خدا كى طرف سے موسى (ع) كو وحى كا مركزى عنوان _إننى ا نا الله لا إله إلا ا نا

۲ _ ( كوہ طور كے نيچے ) وادى طوى ميں خداتعالى نے موسى (ع) كو سمجھايا كہ اسے الله تعالى مخاطب كررہا ہے اور وہ خدا كا كلام سن رہا ہے_إنّنى ا نا الله

۳ _ گفتگو كے آغاز ميں مخاطب كو اپنا تعارف كرانا دوسروں كے ساتھ ہم كلام ہونے اور بات كرنے كے آداب ميں سے ہے _ياموسى ...إنّنى ا نا الله

خداتعالى نے ''يا موسى ''(ع) كى آواز كے ساتھ انہيں سمجھايا كہ مجھے تيرے نام كا علم ہے پھر موسى (ع) كے ساتھ سخن كے آغاز ميں اسے اپنا تعارف كرايا تاكہ طرفين كى شناخت كے ساتھ گفتگو كا سلسلہ آگے بڑھے _

۴ _ خدا كے علاوہ كسى معبود كى كوئي حقيقت نہيں اور نہ كوئي لائق عبادت ہے _إننى ا نا الله لا إله إلا ا نا

''إلہ'' كا معنى ہے معبود اور آيت كريمہ ميں اس سے مراد ''معبود حق'' ہے كيونكہ باطل معبودوں كا وجود قابل انكار نہيں ہے _

۵ _ موسى (ع) اپنى نبوت اور وحى حاصل كرنے سے پہلے بھى خداتعالى كى معرفت ركھتے تھے اور اسكى ربوبيت كو مانتے تھے _إنى ا نا ربك إنّنى ا نا الله لا إله إلا ا نا

يہ دو جملے '' إنى ا نا ربك'' اور ''إنّنى ا نا الله '' بتارہے ہيں كہ موسى (ع) پہلے سے ہى ان ناموں

۲۷

كو پہچانتے تھے اور ان كا اعتقاد ركھتے تھے اور كوہ طور ميں انہوں نے ''ربّ'' اور ''الله '' كو صاحب آواز پر منطبق كيا _

۶ _ خداتعالى كى عبادت كے ضرورى ہونے اور غير خدا كى پرستش سے پرہيز كى تاكيد، حضرت موسى (ع) كى نبوت كے آغاز ميں خدا كى طرف سے انہيں پہلى نصيحت_لا إله إلا ا نا فاعبدني

۷ _ لوگوں كو خداتعالى اور اسكى وحدانيت سے آشنا كرانا انہيں خدا كى عبادت كى دعوت دينے كا پيش خيمہ ہے _

إننى ا نا الله لا إله إلا ا نا فاعبدني ''فاعبدني'' ميں ''فائ'' سابقہ جملہ پر تفريع كيلئے ہے كہ جس ميں خداتعالى اور اسكى وحدانيت كا تعارف كرايا گيا ہے _

۸ _ مخلصانہ عبادت خداتعالى كے حضور ميں سب سے بڑا فريضہ ہے حتى كہ انبياء كيلئے بھى _إننى ا نا الله لا إله إلاا نا فاعبدني

۹ _ خداتعالى كا يكتا ہونا ( توحيد ذاتي) اسكے لئے مخلصانہ عبادت كو مختص كرنے( توحيد عبادي) كے ضرورى ہونے كى دليل ہے _إننى ا نا الله لا إله إلا ا نا فاعبدني

۱۰ _ نماز كى پابندى اور اسے قائم كرنے كا حكم وادى طوى ميں حضرت موسى (ع) كو ديئے گئے پہلے عملى پروگراموں ميں سے تھا _ا قم الصلوة ''اقامہ نماز'' ( نماز قائم كرنا ) اسكى پابندى كے ساتھ ہے_

۱۱ _ نماز قائم كرنا خداتعالى كے حضور ميں عبوديت كا سب سے واضح جلوہ ہے _فاعبدنى و ا قم الصلوة

۱۲ _ نماز ديگر سب عبادتوں سے زيادہ اہم ہے _فاعبدنى و ا قم الصلوة

سب عبادات ميں سے صرف نماز كا ذكر كرنا ديگر عبادات كے مقابلے ميں اس عمل كے خاص مرتبے اور برتر ہونے كو بيان كرتا ہے _

۱۳ _ دين موسى (ع) ميں نماز تشريع ہوچكى تھى _و ا قم الصلوة

۱۴ _ خداتعالى كى طرف توجہ اور اسكى ياد ميں ہونا نماز كے اہداف اور ثمرات ميں سے ہے _و ا قم الصلوة لذكري

۱۵ _ نماز ميں ذكر خدا كا ہونا خداتعالى كى طرف سے اسے قائم كرنے كى نصيحت اورشوق دلانے كا سبب ہے _

ا قم الصلوة لذكري ''لذكري'' ممكن ہے نماز كے نتيجے كو بيان كررہا ہو كہ نماز دلوں ميں يادخدا كو زندہ كرتى ہے اور ممكن

۲۸

ہے اس سے مراد نماز كا اذكار الہى پر مشتمل ہونا ہو يعنى نماز قائم كرنا اسلئے واجب ہے كہ اس ميں ذكر خدا ہے _

۱۶ _ ضرورى ہے كہ نماز اور ديگر عبادتيں مخلصانہ اور صرف ياد خدا كيلئے ہوں _فاعبدنى و ا قم الصلوة لذكري

''لذكري'' ميں ''ذكر'' كا ياء متكلم كے ساتھ مختص ہونا مذكورہ نكتے كو بيان كررہا ہے يعنى ''لذكرى لا لذكر غيري'' _

۱۷ _ خداتعالى كى ياد اور اسكى طرف توجہ تمام عبادات كا مشتركہ فلسفہ ہے _فاعبدنى و ا قم الصلوة لذكري

جس طرح ''لذكري'' ''ا قم الصلوة'' كى علت كو بيان كررہا ہے ہوسكتا ہے ''فاعبدنى '' كى علت كا بيان بھى ہو _

۱۸ _ ضرورى ہے كہ ہميشہ خدا كى ياد ميں رہيں اور اسكے ذكر سے غافل نہ ہوں _لذكري

۱۹ _''عن ا بى جعفر(ع) قال: إذا فاتتك صلاة فذكرتها فى وقت ا خرى فإن كنت تعلم ا نّك إذا صليت التى فاتتك كنت من الا خرى فى وقت فابدا بالتى فاتتك فإن الله عزوجل يقول: ا قم الصلاة لذكري'' ; امام باقر(ع) سے روايت ہے كہ آپ (ع) نے فرمايا: جب بھى تجھ سے كوئي نماز چھوٹ جائے اور دوسرى نماز كے وقت ميں ياد آئے تو اگر تجھے معلوم ہو كہ نماز قضا كے انجام دينے كے بعد واجب نماز كو اس كے وقت ميں بجالانے كى فرصت بچ جائيگى تو پہلے قضا نماز كو انجام دے كيونكہ خداتعالى نے فرماياہے'' ا قم الصلوة لذكري'' ( اس فقہى نكتے كا استفادہ اس چيز كے پيش نظر ہے كہ '' لذكري'' كا لام ''توقيت'' كيلئے ہو كہ جس كے نتيجے ميں آيت كا معنى يہ ہوگا '' ا قم الصلوة وقت تذكيرى إيّاك'') ( يعنى نماز قائم كر جس وقت تجھے اسكى ياد دلا دوں مترجم) _

انبياء :انكى شرعى ذمہ دارى ۸

شرعى ذمہ داري:سب سے اہم شرعى ذمہ دارى ۸

توحيد:توحيد ذاتى كے اثرات ۹; توحيد كى اہميت ۱; توحيد عبادى كى اہميت ۶، ۱۶; توحيد كى طرف دعوت كى اہميت ۷; توحيد عبادى ۴; توحيد عبادى كى علل ۹

نظريہ كائنات:توحيدى نظريہ كائنات ۴

خداتعالى :

۲۹

اسكے اوامر ۶; خداشناسى كى دعوت كى اہميت ۷; اسكى نصيحت ۱۵; اسكى موسى كے ساتھ گفتگو ۲

ياد :ياد خدا كى اہميت ۱۴، ۱۷، ۱۸; نماز ميں ياد خدا ۱۵

روايت :۹۱

سخن:اسكے آداب ۳

شرك:اس سے اجتناب كى اہميت ۶

عبادت:اس ميں خلوص ۱۶; اس ميں خلوص كى اہميت ۸; عبادت خدا كا پيش خيمہ ۷; عبادات كا فلسفہ ۱۷

عبوديت:اسكى نشانياں ۱۱

معاشرت:اسكے آداب ۳

موسى (ع) :انكى شرعى ذمہ دارى ۶; انكى خداشناسى ۵; آپ وادى طوى ميں ۱، ۲; آپ نبوت سے پہلے ۵; انكى طرف وحى ۱، ۱۰

نماز:اسكے احكام ۱۹; اس ميں خلوص ۱۶; اسے قائم كرنے كى اہميت ۱۰، ۱۱ ; اسكى اہميت ۱۲; اسكى نصيحت ۱۵; اس كا فلسفہ ۱۴، ۱۵; يہ آسمانى اديان ميں ۱; يہ يہوديت ميں ۱۳; نماز قضا كا وقت ۱۹

وحى :اسكى تعليمات ۱

آیت ۱۵

( إِنَّ السَّاعَةَ ءاَتِيَةٌ أَكَادُ أُخْفِيهَا لِتُجْزَى كُلُّ نَفْسٍ بِمَا تَسْعَى )

يقينا وہ قيامت آنے والى ہے اور ميں اسے چھپائے رہوں گا تا كہ ہر نس كو اس كى كوشش كا بدلہ ديا جاسكے (۱۵)

۱ _ قيامت كا آنا حتمى ہے _إن السّاعة ء اتية

۳۰

۲ _ ''ساعة '' قيامت كا ايك نام ہے _إن السّاعة ء اتية

''ساعة'' يعنى وقت كا ايك حصہ بہت سارى آيات ميں قيامت كو ''ساعة '' سے تعبير كيا گيا ہے اور يہ قيامت كے مشہور ناموں ميں سے ايك نام بن گيا ہے _

قيامت كو يہ نام يا تو اسلئے ديا گيا ہے كہ سارى مخلوقات ايك وقت ميں محشور ہوں گى اور يا اسلئے كہ اسكے برپا ہونے كا وقت ايك مختصر لحظہ ہے _( لسان العرب سے اقتباس)

۳ _ قيامت پر ايمان دين موسى كے اہم ترين اعتقادى اركان ميں سے ہے _نودى يا موسى إن السّاعة ء اتية

۴ _ قيامت اور اسكى خصوصيات سے مطلع ہونے كا ذريعہ صرف خداتعالى كى طرف سے آئي ہوئي معلومات ہيں _

ا كاد ا خفيه ''ا خفيہا'' كا خداتعالى كى طرف اسناد بتاتا ہے كہ اگر اس نے قيامت كے بارے ميں بات نہ كى ہوتى تو ہمارے لئے اس سے مطلع ہونے كا كوئي راستہ نہ تھا_

۵ _ خداتعالى نے اپنے ارادہ سے قيامت كے برپا ہونے كے وقت كو انسان سے مخفى ركھا ہے _ا كاد ا خفيه

قاموس ميں آيا ہے كہ اس آيت ميں ''ا كاد'' ''ا ريد'' كے معنى ميں ہے اور ''ا كاد ا خفيہا'' يعنى ميرا ارادہ ہے كہ اسے مخفى ركھوں پس قيامت كو مخفى ركھنے سے مراد اسكے وقوع پذير ہونے كے وقت كو مخفى ركھنا ہوگا نہ خود اسكے وقوع كو مخفى ركھنا _

۶ _ قيامت كا واقع ہونا اچانك ہے _ا كاد ا خفيه

۷ _ ايك ايك انسان كو بدلہ دينا قيامت كے برپا ہونے كا فلسفہ _ء اتية لتجزى كل نفس

''لتجزى '' يا تو ''آتية'' كى علت كا بيان ہے اور '' ا كاد ا خفيہا'' جملہ معترضہ ہے اور يا يہ آيت كريمہ ميں مذكور دونوں چيزوں يعنى قيامت كا آنا اور خداتعالى كى طرف سے اسكى خبردينے كا مخفى ركھنا كى علت كا بيان ہے اور يا يہ صرف ''ا خفيہا'' كى علت كو بيان كررہا ہے ، مذكورہ مطلب پہلے دو احتمالوں كى بناپر ہے _

۸ _ انسان كا قيامت كے برپا ہونے كے وقت سے آگاہ نہ ہونا اسكے اپنے كاموں كى پابندى كرنے اور پھر جزا و سزا كا مستحق بننے كا پيش خيمہ ہے _ا كاد ا خفيها لتجزى كل نفس بما تسعى

مذكورہ بالا نكتے ميں''لتجزى '' كے لام كو''ا كاد ا خفيها'' كى تعليل كيلئے ليا گيا ہے پس جملہ كى تركيب در حقيقت يوں ہوگى''لتسعى كل نفس فتجزى بما تسعى '' خلاصہ اس سے مراد يہ ہوگا كہ ميں نے ارادہ كيا ہے كہ

۳۱

قيامت كو مخفى ركھوں تا كہ سب لوگ اپنى كوشش جارى ركھيں اور اپنے كردار كے نتائج كو ديكھ ليں _ يہ ايك نفسيانى چيز ہے كہ اگر انہيں اپنى موت اور جہان ہستى كى نابودى كا وقت معلوم ہوجائے تو انسان اپنى بہت سى كوششوں كو ترك كرديگا _

۹ _ انسان اپنى دائمى اور مستمر كوششوں اور كردار كے مقابلے ميں ذمہ دار ہے _لتجزى كل نفس بما تسعى

''عمل'' كى جگہ پر مادہ ''سعى '' كا استعمال ممكن اسلئے ہو كہ وہ برائياں جن پر اصرار نہيں كيا جاتا ان سے چشم پوشى كى جائيگى اور يہ نيك اعمال كى نسبت مداومت كى نصيحت ہے _

۱۰ _ دنيا، كوشش كى جگہ اور آخرت جزا و سزا اور اپنى كوشش كا نتيجہ لينے كى جگہ ہے _إنّ السّاعة ء اتية لتجزى كل نفس بما تسعى

۱۱ _ دنيا ميں انسانوں كے اعمال كا بدلہ دينے كيلئے ضرورى وسائل اور گنجاش نہيں ہے _الساعة ء اتية لتجزى كل نفس بما تسعى

بدلہ دينے كيلئے قيامت كے برپا ہونے كا ضرورى ہونا اس چيز كى طرف اشارہ ہے كہ دنيا انسان كى اچھى اور برى كوششو ں كا بدلہ دينے كى گنجائش نہيں ركھتى لہذا ايك اور دن اور حالات فراہم كرنے كى ضرورت ہے تا كہ بدلہ ديا جاسكے _

۱۲ _ انسان كا جزا و سزا پانا خود اسكى كوشش و كردار كا نتيجہ ہے _لتجزى كل نفس بما تسعى

۱۳ _ميدان قيامت ميں حاضر ہونا اور اپنے دنياوى اعمال كے بدلے كا سامنا كرنا سب انسانوں كا انجام ہے _

إنّ السّاعة لتجزى كل نفس بما تسعى

۱۴ _ انسان كا عبادت اور نماز ميں سعى و كوشش كرنا قيامت ميں حتمى جزا ركھتا ہے _فاعبدنى و ا قم الصلوة لتجزى كل نفس بما تسعى

آخرت:اس كا كردار ۱۰

انسان:اسكى اخروى پاداش ۱۰، ۱۳; اس كا محشور ہونا ۱۳; اس كا انجام ۱۳; اسكى ذمہ دارى ۹

ايمان :قيامت پر ايمان كى اہميت ۳

پاداش:اس كا پيش خيمہ ۸; اسكے عوامل ۱۲; اخروى پاداش كے عوامل ۱۴; دنياوى پاداش كا محدود ہونا ۱۱; اسكى جگہ ۱۰

۳۲

كوشش:اس كا پيش خيمہ ۸

خداتعالى :اسكے ارادے كے اثرات ۵; اسكى تعليمات كى اہميت ۴

دنيا :اس كا كردار ۱۰

الساعة: ۲

عبادت:اسكے لئے كوشش كے اثرات ۱۴

عمل:اسكے اثرات ۱۲; اسكى فرصت ۱۰; اس كا ذمہ دار ۹

قيامت :اس ميں پاداش ۷; اس كا حتمى ہونا ۱; اسكے مخفى ہونے كا فلسفہ ۸; اسكے برپا ہونے كا فلسفہ ۷; اس ميں سزا ۷; اسكے مخفى ہونے كا سرچشمہ ۵; اسكے علم كا سرچشمہ ۴; اس كا اچانك ہونا ۶; اس كے نام ۲; اس كا وقت ۵

سزا :اس كا پيش خيمہ ۸; اسكے عوامل ۱۲; دنياوى سزا كا محدود ہونا ۱۱; اسكى جگہ ۱۰

نماز:اسكے لئے كوشش كے اثرات ۱۴

يہوديت:اسكے اركان ۳

آیت ۱۶

( فَلاَ يَصُدَّنَّكَ عَنْهَا مَنْ لاَ يُؤْمِنُ بِهَا وَاتَّبَعَ هَوَاهُ فَتَرْدَى )

اور خبردار تمھيں قيامت كے خيال سے وہ شخص روك نہ دے جس كا ايمان قيامت پر نہيں ہے اور جس نے اپنے خواہشات كى پيروى كى ہے كہ اس طرح تم ہلاك ہو جاؤگے (۱۶)

۱ _ خداتعالى نے وادى طوى ميں حضرت موسى (ع) كو منكرين قيامت كى طرف سے انہيں قيامت كى طرف متوجہ ہونے سے روكنے كے خطرے سے آگاہ كيا اور انہيں انكے مكر و فريب سے ڈرايا _

فاعبدني فلا يصّدنّك عنها من لا يؤمن بها ''عنها'' ، ''بها'' كى ضميروں كا مرجع ''الساعة'' ہے جو گذشتہ آيت ميں تھا _

۲ _ كفار كو لوگوں كے ايمان ميں طمع ركھنے سے مايوس كرنا اور ان كے مؤمنين كو فريب دينے كاميابى كے ذرائع كو ختم كرنا ضرورى ہے _فلا يصّدنّك عنها من لايؤمن به

۳۳

مفسرين نے كہا ہے كہ ''لايصّدنّك'' كى نہى اگر چہ ظاہرى طور پر كفار كو ہے ليكن در حقيقت يہ سبب كو وجود ميں لانے سے نہى ہے يعنى اے موسى تو اور ديگر مؤمنين اس طرح عمل نہ كريں كہ كفار تمہيں ايمان سے باز ركھ سكيں _

۳ _ كفار كے شكوك و شبہات پيدا كرنے اور ان كے دباؤ كے مقابلے ميں دين الہى كى حفاظت كرنا ضرورى ہے _

فلايصّدنّك عنها من لا يؤمن به

۴ _ انبياء كى كفار كے فريب اور وسوسوں سے رہائي خداتعالى كى راہنمائي اور نصيحتوں كے سائے ميں ہے _

فلا يصّدنّك عنها من لا يؤمن به

۵ _ دين الہى اور خدائي پروگراموں كے منكر لوگوں كو دين اور اس پر عمل كى طرف مائل ہونے سے روكنے كے درپے ہيں _*''عنہا'' اور ''بہا'' كى ضميروں كا مرجع ممكن ہے وہ تمام تعليمات اور ہدايات ( توحيد عبادت اور نماز كا لازمى ہونا، معاد اور جزا و سزا ) ہوں جنكى حضرت موسى (ع) كو وادى طوى ميں تعليم دى گئي تھي_

۶ _ ہوا و ہوس نفسانى كى پيروى كا نتيجہ قيامت كا انكار اور اس پرايمان كا نہ ہوناہے _من لا يؤمن بها و اتبع هوى ه

''اتبع'' ماضى ہے اور اس كا ''لايؤمن'' جو مضارع ہے پر عطف كيا گيا ہے تا كہ اسكى علت كو بيان كرے اور دلالت كرے كہ ہوس كى پيروى جو ماضى ميں انجام پائي مستقبل ميں آخرت كے ساتھ عدم ايمان كا سبب ہے _

۷ _ خواہشات نفسانى معاد اور آخرت ميں سزا و جزا كے اعتقاد كے بارے ميں اشكال كرنے كى بنياد ہے _

فلا يصّدنّك عنها من اتبع هوى ه

۸ _ دينى اعتقادات ميں قيامت اور اعمال كى جزا و سزا پر ايمان خاص اہميت كا حامل ہے _الساعة ء اتية فلا يصّدنّك عنه

۹ _ تباہى اور ہلاكت، آخرت كى طرف عدم توجہ اور اعمال كى جزا و سزا سے بے اعتنائي كا انجام ہے _

فلا يصّدنّك عنها فتردى

''تردى '' ''ردي'' بمعنى ہلاكت سے مشتق ہے اوريہ منكرين معاد كے شكوك و شبہات پيدا كرنے كے انجام كو بيان كر رہا ہے _

۱۰ _ خواہشات نفسانى كى پيروى تباہى و ہلاكت كا سبب

۳۴

ہے _فلايصّدنّك عنها من اتبع هوى ه فتردى

آيت كريمہ فريب كھائے ہوئے ہوا پرست لوگوں كو ہلاك شدہ سمجھتى ہے پس حتمى طور پر خود ہوا پرست لوگوں كا يہى انجام ہوگا _

انبياء:انكى نجات كا سرچشمہ ۴

ايمان:قيامت پر ايمان كى اہميت ۸

خداتعالى :اس كا ڈرانا ۱; اسكى نصيحتوں كى اہميت ۴

دين:دينى آسيب شناسى ۵،۶; اصول دين ۸; اسكى حفاظت ۳

غفلت:قيامت سے غفلت كا خطرہ ۱; آخرت سے غفلت كا انجام ۹; عمل كى پاداش سے غفلت كا انجام ۹; عمل كى سزا سے غفلت كا انجام ۹

قيامت :اسے جھٹلانے والوں كا مكر، ۱

كفار:انكى مايوسى كى اہميت ۲; انكى دشمنى ۵; انكى دين دشمني۵; انكا شكوك و شبہات پيدا كرنا ۳; انكے مكر سے ممانعت ۲; انكے مكر سے نجات ۴

كفر:قيامت كے كفر كا پيش خيمہ ۶

تمايلات :دين كى طرف تمايل سے ممانعت ۵

معاد:اسكے بارے ميں شكوك و شبہات كا سرچشمہ ۷

موسى (ع) :انكا قصہ ۱; انكى طرف وحى ۱; انہيں خبردار كرنا ۱

ہلاكت:اسكے عوامل ۹ ، ۱۰

ہواپرستي:اسكے اثرات ۶، ۷، ۱۰

۳۵

آیت ۱۷

( وَمَا تِلْكَ بِيَمِينِكَ يَا مُوسَى )

اور اے موسى يہ تمھارے داہنے ہاتھ ميں كيا ہے (۱۷)

۱ _ حضرت موسى (ع) جب آگ لانے كيلئے اپنے گھروالوں سے جدا ہوئے تو انكا ڈنڈا بھى انكے ہمراہ تھا_

و ما تلك بيمينك يا موسى

''تلك'' مونث كى طرف اشارہ كرنے كيلئے ہے اور دلالت كر رہا ہے كہ جو كچھ حضرت موسى كے ہاتھ ميں تھا اس پر ''خشبہ '' يا ''عودہ'' ( ڈنڈا) كا اطلاق مسلم ہے پس حضرت موسى (ع) سے طلب كيا گيا تھا كہ وہ جواب ميں اس ڈنڈے كى خصوصيات بيان كريں تا كہ وہ متوجہ رہيں كہ كيا چيز سانپ ميں تبديل ہوگى _قابل ذكر ہے كہ بعد والى آيت كے جملے ''ا ہش بہا على غنمي'' سے استفادہ ہوتا ہے كہ موسى (ع) كے كوہ طور پر آنے سے پہلے وہ ڈنڈا انكے ہمراہ تھا _

۲ _ خداتعالى نے وادى طوى ميں حضرت موسى (ع) سے چاہا كہ وہ اپنے ڈنڈے كى خصوصيات بيان كريں _

و ما تلك بيمينك يا موسى

۳ _ خداتعالى ، موسى (ع) كيلئے خاص لطف و كرم ركھتا تھا _و ما تلك بيمينك يا موسى

واضح ہے كہ خداتعالى كا موسى (ع) سے سوال مطلع ہونے كيلئے نہيں تھا بلكہ يہ سوال باب گفتگو كا آغاز ہوسكتا ہے اور موسى (ع) كو انكے ڈنڈے كے معمولى نہ ہونے كى طرف متوجہ كرنا اضطراب اور خوف كو بھى دور كرتا ہے اس سوال كو پيش كرنا اور دوبارہ ''ى موسى '' كے ساتھ مخاطب كرنا موسى (ع) كيلئے الله تعالى كے لطف و كرم كے اظہار كى علامت ہے_

خداتعالى :اسكى نصيحتيں ۲

كوہ طور :اسكى آگ ۱

لطف خدا:

۳۶

يہ جنكے شامل حال ہے ۳

موسى (ع) :انكو نصيحت ۲; انكا ڈنڈا ۱; انكے فضائل ۳; انكاقصہ ۱، ۲; انكے ڈنڈے كى خصوصيات ۲

آیت ۱۸

( قَالَ هِيَ عَصَايَ أَتَوَكَّأُ عَلَيْهَا وَأَهُشُّ بِهَا عَلَى غَنَمِي وَلِيَ فِيهَا مَآرِبُ أُخْرَى )

انھوں نے كہا كہ يہ ميرا عصا ہے جس پر ميں تكيہ كرتا ہوں اور اس ے اپنى بكريوں كے لئے درختوں كى پتياں جھاڑتا ہوں اور اس ميں ميرے اور بہت سے مقاصد ہيں (۱۸)

۱ _ حضرت موسى (ع) نے خداتعالى كے اس سوال كہ آپ كے ہاتھ ميں كيا ہے كے جواب ميں عرض كيا يہ ميرا ڈنڈا ہے _و ما تلك بيمينك يا موسى ...قال هى عصاي

۲ _ موسى (ع) نے ڈنڈے پر سہارا لينا اور اپنى بكريوں كيلئے درختوں كے كمزور پتوں كو گرانا ڈنڈے كے فوائد شمار كئے _

''ہش'' كا معنى ہے پتے گرانے كيلئے خشك درخت كو ڈنڈا مارنا ( لسان العرب) يہ كلمہ ان چيزوں كے بارے ميں استعمال ہوتا ہے جو ملائم ہوں اور سخت نہ ہوں (مفردات راغب) ''على غنمي'' ميں ''علي'' كا استعمال بكريوں كے پتوں سے استفادہ كرنے كيلئے درخت كے نيچے موجود ہونے كى طرف اشارہ ہے _

۳ _ حضرت موسى (ع) نے سہارا لينے اور درختوں كے پتے گرانے كے علاوہ اپنے ڈنڈے كو متعدد ضروريات پورى كرنے كيلئے كارساز قرارديا _ولى فيها مارب ا خرى

''مارب'' كے مفرد ''ماربہ'' كا معنى ہے حاجت اور نياز ( مصباح )

۴ _ہاتھ ميں ڈنڈا پكڑنا اور چلنے اور كھڑا ہونے ميں اس كا سہارا لينا ايك مطلوب اور مفيد كام ہے _

۳۷

و ما تلك بيمينك هى عصاى ا توكؤا عليه

موسي(ع) سے منقول سخن ميں سہارا لينے كو ديگر فوائد پر مقدم كرنا اس فائدے كے ديگر فوائد سے اہم ہونے كى علامت ہے_ اور يہ اہميت حضرت موسى (ع) كى جسمانى صحت بلكہ آپكى جسمانى توانمندى كے پيش نظر زيادہ واضح ہوجاتى ہے _

۵ _ مدين سے مصر جاتے ہوئے حضرت موسى (ع) كے ہمراہ بكرياں تھيں كہ جنہيں آپ خود چراتے تھے_ا هش بها على غنمي ''غنم'' يعنى بكرياں اور يہ كلمہ خود اپنے لفظ سے مفرد نہيں ركھتا اورايك بكرى كو كہا جاتا ہے ''شاة'' (مصباح)_

۶ _ جس سرزمين ميں حضرت موسى (ع) نے جانور ركھے ہوئے تھے اور انہيں چراتے تھے اس ميں ايسے درخت تھے كہ جنكے پتے جانوروں كى غذا كيلئے مناسب تھے _و ا هش بها على غنمى

۷ _ حضرت موسى (ع) نے خداتعالى كے ساتھ ہم كلام ہونے كى فرصت كو غنيمت شمار كيا اور اس سے لذت اٹھا رہے تھے _ما تلك قال هى عصاى ا توكؤا عليها و ا هش ولى فيها ما رب ا خرى

خدا تعالى كے سوال كے جواب ميں جملہ ''ہى عصاى '' كافى تھا لذا ديگر جملوں كا اضافہ كرنا حضرت موسى (ع) كے خدا كے ساتھ ہم كلام ہونے كے اشتياق كو بيان كررہاہے_

۸ _ خداتعالى كى خواہش پر عمل كرنے ميں تمام احتمالات كو انجام دينا ضرورى ہے _

ما تلك هى عصاى ا توكؤا ولى فيها م َارب ا خرى

حضرت موسى (ع) كے ''ہى عصاي'' پر اكتفا نہ كرنے كے بارے ميں كہا گيا ہے كہ اس جواب كے واضح ہونے نے حضرت موسى (ع) كو اس فكر ميں ڈال ديا كہ شايد مقصود ڈنڈے كے فوائد ہوں اور اسى احتمال كى بناپر انہوں نے بعد والے جواب اپنى زبان پر جارى كئے_

اصول عمليہ:اصالة الاحتياط ۸

شرعى ذمہ داري:اس پر عمل كرنے كى كيفيت ۸

خداتعالى :اسكى موسى (ع) كے ساتھ گفتگو ۷; اسكے ساتھ گفتگو كى لذت ۷

ڈنڈا:اسكے فوائد ۴/عمل:پسنديدہ عمل ۴

موسى (ع) :انكى بكريوں كى غذا ۶; انكا ريوڑچرانا ۵; انكا ڈنڈا ۱; انكے ڈنڈے كے فوائد ۲، ۳; انكا قصہ ۱، ۵، ۶; انكى بكرياں ۵; انكى معنوى لذات ۷; انكے جانور چرانے كى جگہ ۶

۳۸

آیت ۱۹

( قَالَ أَلْقِهَا يَا مُوسَى )

ارشاد ہوا تو موسى اسے زمين پر ڈال دو (۱۹)

۱ _ خداتعالى نے وادى طوى ميں حضرت موسى (ع) كو حكم ديا كہ اپنا ڈنڈا زمين پر پھينكيں _قال ا لقها يا موسى

۲ _ خداتعالى كى حضرت موسى (ع) كے ساتھ گفتگو انكے ساتھ لطف و كرم اور را فت كے اظہار كے ہمراہ تھى _

ى موسى قال ا لقها يا موسى

نام كا تكرار مخاطب كے ساتھ كامل محبت كے اظہار كى علامت ہے_ ان آيات كريمہ ميں آيات كے محبت آميز لہجے كے علاوہ خطاب الہى ميں چند مرتبہ حضرت موسي(ع) كے نام كا تكرار ہوا ہے كہ جو خداتعالى كى انكے ساتھ خاص عنايت اور لطف كى علامت ہے _ -

خداتعالى :اسكے اوامر ۱; اسكى موسى (ع) كے ساتھ گفتگو ۲

خداتعالى كا لطف:يہ جنكے شامل حال ہے ۲

موسى (ع) :انكا ڈنڈے كو پھينكنا ۱; انكے فضائل ۲; انكا قصہ ۱

آیت ۲۰

( فَأَلْقَاهَا فَإِذَا هِيَ حَيَّةٌ تَسْعَى )

اب جو موسى نے ڈال ديا تو كيا ديكھا كہ وہ سانپ بن كر دوڑ رہا ہے (۲۰)

۱ _ حضرت موسى (ع) نے حكم خداوندى سے اپنا ڈنڈا زمين پر پھينكا _

۳۹

فا لقى ها

۲ _ پھينكے جانے كے بعد حضرت موسى (ع) كا ڈنڈا متحرك سانپ ميں تبديل ہوگيا _فا لقى ها فإذا هى حية تسعى

۳ _ حضرت موسى (ع) كے ڈنڈے كا پھينكاجانا اور اس كا سانپ ميں تبديل ہونا ايك ہى وقت ميں تھا _

فإذا هى حية ''إذا'' مفاجات كيلئے ہے اور پہلے اور بعد والے جملوں كے وقت كے ايك ہونے پر دلالت كرتا ہے _

۴ _ خداتعالى كا ڈنڈے كے بارے ميں حضرت موسى (ع) سے سوال آپ كو معجزہ اور آيت دكھانے كيلئے آپكى ذہنى آمادگى اور ضرورى ما حول بنانے كى خاطر تھا _و ما تلك بيمينك فا لقيها فإذا هى حية

خداتعالى كے جواب ميں حضرت موسى (ع) كا ڈنڈے كے قدرتى خواص كى وضاحت كرنا انكے ذہن ميں مناسب آمادگى پيدا كررہا ہے تا كہ ڈنڈے كى دو حالتوں كا موازنہ كرنے كے بعد اسكى نئي حالت كے معجزہ ہونے كے بارے ميں انہيں كوئي شك نہ ہو _

۵ _ حضرت موسى (ع) كاڈنڈا سانپ ميں تبديل ہونے كے بعد جان ركھتا تھا اور اپنى مرضى سے اچھل كود كررہا تھا _

حية تسعى خداتعالى نے بعد والى آيات ميں حضرت موسى (ع) اور جادوگروں كے مقابلہ كى داستان ميں جادوگروں كے بارے ميں فرمايا ہے_''يخيّل إليه من سحرهم ا نها تسعى '' اس كا ''تسعى '' ( جو اس آيت ميں ہے) كے ساتھ مقابلہ كرنے سے حضرت موسى (ع) ڈنڈے كى حركت كے حقيقى ہونے كاپتا چلتا ہے_

خداتعالى :اسكے سوال كا فلسفہ ۴

ڈنڈا:اس كا سانپ ميں تبديل ہونا ۲، ۳، ۵

موسى (ع) :انكا ڈنڈے كو پھينكنا ۱; ان ميں آمادگى پيدا كرنا ۴; ان سے سوال ۴; انكے ڈنڈے كا تبديل ہونا ۲; انكا شرعى ذمہ دارى پر عمل ۱; انكا قصہ ۱، ۲; انكا معجزہ ۴; انكے ڈنڈے كى خصوصيات ۲، ۳، ۵

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

۶ _ سخت دشمنى او ر شديدمخالفت، انبيا(ع) ء كے ہلاك شدہ مخالفين كى خصوصيات ميں سے تھيں _ثم صدقنا هم الوعد و أهلكنا المسرفين مذكورہ مطلب اس بناپر ہے كہ اسراف سے مراد_ حكم و موضوع اور آيت كے مورد كے تناسب سے _ انبيا(ع) ء كى مخالفت اور دشمنى ميں حد سے تجاوز كرنا ہے نہ كہ امور مالى و غيرہ ميں اسراف

۷ _ خداتعالى كى جانب سے پيغمبراكرم(ص) اور مؤمنين كى حوصلہ افزائي اور انہيں تسلى دينا اور مشركين كو دھمكى دينا _

ثم صدقنهم الوعد و أهلكنا المسرفين

خداتعالى كے انبيا(ع) ء اور مؤمنين كے ساتھ كاميابى اور ان كے دشمنوں كى نابودى كے وعدے كا تذكرہ ہوسكتا ہے مذكورہ نكتے كو بيان كرنے كيلئے ہو _

۸ _ انبيا(ع) ء كے دشمن اور مخالفين ،اسراف كرنے والے ہيں _ثم صدقناهم الوعد أهلكنا المسرفين

۹ _ اسراف كرنا، حق كو قبول نہ كرنے اور انبيا(ع) ء كى مخالفت كے اسباب فراہم كرتا ہے اور ہلاكت اور نابودى كا سبب ہے _و أهلكنا المسرفين ہلاك ہونے والوں كى ''مسرفين'' كے ساتھ توصيف ان كى ہلاكت ميں اس وصف كى تا ثير اور علت ہونے كى طرف اشارہ ہے _

۱۰ _ مشركين كے خلاف كاميابي، خداتعالى كا پيغمبر(ص) اسلام كے ساتھ وعدہ _ثم صدقناهم الوعد

آيت كريمہ پيغمبر(ص) اسلام كو تسلى دينے كے مقام ميں ہے اور خداتعالى عمومى روش كو بيان كر كے (سب انبيا(ع) ء كى كاميابى كا وعدہ) در حقيقت پيغمبراكرم(ص) كو بھى كاميابى كا وعدہ دے رہا ہے _

اسراف:اسكے اثرات ۹

انبياء(ع) :ان كے دشمنوں كا اسراف ۸; ان كے دشمن۵; ان كے دشمنوں كى دشمنى ۶; ان كے ساتھ دشمنى كے عوامل ۹; ان كے ساتھ وعدہ ۲; انكى كاميابى كا وعدہ ۱; انكى نجات كا وعدہ۱، ۳; ان كے دشمنوں كى خصوصيات ۶; ان كے دشمنوں كى ہلاكت ۲، ۳

حق:اسے قبول نہ كرنے كے عوامل ۹

خداتعالى :

۳۰۱

اسكى مشيتّ كے اثرات ۴; اسكى دھمكياں ۷; اسكے وعدے ۳

دشمن:ان سے نجات كا سرچشمہ ۴; ان سے نجات ۱

مؤمنين:انكى حوصلہ افزائي ۷; انكو تسلى ۷; ان كے ساتھ وعدہ ۲; انكى كاميابى كا وعدہ ۱; انكى نجات كا وعدہ ۱، ۳; ان كے دشمنوں كى ہلاكت ۲، ۳

آنحضرت(ص) :آپ(ص) كى حوصلہ افزائي ۷; آپكو تسلى ۷; آپ كو كاميابى كا وعدہ ۱۰

مسرفين: ۸

انكى دشمنى ۵

مشركين:ان پر كاميابى ۱۰; انكى دھمكي۷

ہلاكت:اسكے عوامل

وعدہ:اسكى وفا، ۳

آیت ۱۰

( لَقَدْ أَنزَلْنَا إِلَيْكُمْ كِتَاباً فِيهِ ذِكْرُكُمْ أَفَلَا تَعْقِلُونَ )

بيشك ہم نے تمھارى طرف وہ كتاب نازل كى ہے جس ميں خود تمھارا بھى ذكر ہے تو كيا تم اتنى بھى عقل نہيں ركھتے ہو (۱۰)

۱ _ قرآن، آسمانى كتاب اور خداتعالى كى طرف سے نازل كى گئي ہے_لقد أنزلنا إليكم كتب

۲ _ قرآن، با عظمت اور بلند مرتبہ كتاب ہے_لقد أنزلنا إليكم كتب ''كتاباً '' كى تنوين تفخيم اور تعظيم پر دال ہے_

۳ _ قرآن، پيغمبراكرم(ص) كے زمانے ميں (بعثت كے پہلے نصف حصے ميں ) كتاب كے طور پر جانى پہچانى جاتى تھي_

لقد أنزلنا إليكم كتب اس چيز كو مد نظر ركھتے ہوئے كے سورہ ''انبيائ'' مكہ ميں نازل ہوئي معلوم ہوتا ہے كہ بعثت كے پہلے نصف حصے ميں قرآن كتاب كے طور پر پہچانا جاتا تھا _

۳۰۲

۴ _ قرآن، انسان كو ياد دہانى كرانے والا اور انسان كے ساتھ مربوط مسائل پر مشتمل ہے_كتاباً فيه ذكر كم

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''ذكر'' كسى چيز كو زبان پر لانے اور ياد كرنے كے معنى ميں ہو_ قابل ذكر ہے كہ يہ معنى اسكے مشہور اور غالب معانى ميں سے ہے _

۵ _ قرآن، انسان كيلئے سبق آموز او رپند و نصيحت كا سبب ہے_كتبا فيه ذكركم

مذكورہ مطلب اس بناپر ہے كہ ''ذكر'' كا معنى نصيحت اور نصيحت حاصل كرنا ہو _

۶ _ قرآن، انسان اور امت اسلامى كى شرافت و بزرگى كا سبب اور اس كا نعرہ ہے_كتبا فيه ذكركم

اہل لغت نے كلمہ ''ذكر'' كيلئے جو معانى ذكر كئے ہيں ان ميں سے شرافت ، بزرگى اور شہرت ہے (قاموس) اس بناپر ''فيہ ذكركم'' سے مراد يہ ہے كہ شرافت و بزرگى اور شہرت، قرآن كے سائے ميں اور اس پر عمل كرنے ميں ہے_

قابل ذكر ہے كہ ''ذكركم'' كى ضمير مخاطب سے مراد ہوسكتا ہے سب انسان ہوں اور ہوسكتا ہے صرف امت اسلامى ہو_ مذكورہ مطلب ميں دونوں احتمال ملحوظ ہيں _

۷ _ انسان كے فطرى اور غريزى محركات و تمايلات سے استفادہ كرنا قرآن كى تربيتى اور ہدايت كرنے كى ايك روش _

فيه ذكركم مذكورہ مطلب مندرجہ ذيل دو نكتوں پر مبتنى ہے ۱_ ذكر ثناء اور نغمے كے معنى ميں ہو _۲_ نام كے ہميشہ رہنے اور بلند شہرت كا شوق ،سب انسانوں كى طبع اور غريزے ميں ہے_

۸ _ خداتعالى ،انسان كو معارف قرآن ميں غور و فكر كرنے كى دعوت ديتا ہے اور اسكى ترغيب دلاتا ہے_أفلا تعقلون

۹ _ مشركين كا قرآن كا جھٹلانا ان كے عقل و خرد سے كام نہ لينے كا نتيجہ ہے _هم فى غفلة معرضوں لاهية قلوبهم لقد أنزلنا أفلا تعقلون

۱۰ _ پيغمبر اكرم(ص) اور قرآن كى حقانيت تك پہنچنے ميں خردمندى اور غور و فكر كا مؤثر اور تعميرى كردار ہے_

لقد أنزلنا أفلا تعقلون

۱۱ _ قرآن كے معارف اور تعليمات عقل و خرد كے موافق او راسكے ساتھ سازگار ہيں _لقد أنزلنا إليكم كتاباً أفلا تعقلون قرآن ميں غور وفكر كرنے كى تشويق دلانا اس نكتے كو بيان كررہا ہے كہ يہ آسمانى كتاب محتوا كے لحاظ سے عقل و خرد كے ساتھ سازگار ہے_

۱۲ _ قرآن اپنى اور پيغمبر(ص) اسلام كى حقانيت كو ثابت كرنے كى بہترين اور سب سے زيادہ قوى دليل اور معجزہ

۳۰۳

ہے_لقد أنزلنا إليكم كتباً فيه ذكركم أفلا تعقلون

ممكن ہے يہ آيت كريمہ مشركين كى طرف سے پيغمبراكرم(ص) سے اپنى حقانيت كو ثابت كرنے كيلئے معجزہ لانے كے بہانے والى درخواست كا جواب ہو يعنى اگر يہ لوگ غور كريں تو سمجھ جائيں گے كے قرآن، پيغمبر(ص) اسلام كا معجزہ ہے _ قابل ذكر ہے كہ اس حقيقت كى لام قسم اور حرف تحقيق (لقد) كے ساتھ تاكيد اسى مطلب كى تائيد كرتى ہے_

آسمانى كتب :۱

آنحضرت(ص) :آپكى حقانيت ۱۰; آپكي(ص) حقانيت كے دلائل ۱۲

تربيت:اسكى روش ۷

غور و فكر كرنا:اسكے اثرات ۱۰; اسكى تشويق ۸; يہ قرآن ميں ۸

خداتعالى :اسكى تشويق ۸

ذكر:انسان كا ذكر ۴

عبرت:اسكے عوامل ۵

عزت:اسكے عوامل ۶

غريزہ:اس كا كردار ۷

فطريات:ان كا كردار ۷

قرآن كريم:اس كا معجزہ ہونا ۱۲; اسكى تاريخ ۳; اس كى تعليمات ۴; اس كا جمع كرنا ۳; اسكى حقانيت ۱۰; اسكى حقانيت كے دلائل ۱۲; اسے جھٹلانے كا پيش خيمہ ۹; اس سے عبرت حاصل كرنا ۵; اسكى عظمت ۲; اسكى تعليمات كا عقلى ہونا ۱۱; اسكى فضيلت ۴; اس كا نزول ۱; اس كا كردار ۵_ ۶، ۱۲; اس كا وحى ہونا ۱

كتاب :۳

مسلمان:انكى عزت كے عوامل ۶

مشركين:ان كے غور نہ كرنے كے اثرات ۹

ہدايت:اسكى روش ۷

۳۰۴

آیت ۱۱

( وَكَمْ قَصَمْنَا مِن قَرْيَةٍ كَانَتْ ظَالِمَةً وَأَنشَأْنَا بَعْدَهَا قَوْماً آخَرِينَ )

اور ہم نے كتنى ہى ظالم بستيوں كو تباہ كرديا اور ان كے بعد ان كى جگہ پر دوسرى قوموں كو ايجاد كرديا (۱۱)

۱ _ خداتعالى نے بہت سے شہروں اور آباديوں كو ان كے لوگوں كے ظلم و ستم كى وجہ سے سختى كے ساتھ كچل ديا اور نابود كردياو كم قصمنا من قرية كانت ظالمة ''قصمنا'' كے مصدر ''قصم'' كا معنى ہے سختى كے ساتھ كسى چيز كو توڑنا اس طرح كہ وہ پراكندہ اجزاء اور ٹكڑوں ميں تبديل ہوجائے (لسان العرب) اور اس آيت ميں اس سے مراد نابودى اور ہلاكت ہے

۲ _ ظلم و ستم، معاشروں اور تہذيبوں كے مكمل انحطاط اورانہدام كا سبب ہے _و كم قصمنا من قرية كانت ظالمة

''قرية'' (شہروں كے لوگ) كى ''ظالمہ'' (ستمگر) كے ساتھ توصيف نابودى اور انہدام ميں ظلم كے كردار كو بيان كررہى ہے _

۳ _ خداتعالى كى طرف سے مشركين اور ستمگر معاشروں اور مشركين كو ہلاكت اور نابودى كى دھمكى _و كم قصمنا من قرية كانت ظالمة

۴ _ قرآن اور پيغمبر(ص) اسلام كى مخالفت اور ان كے ساتھ مقابلہ ظلم و ستم كا واضح مصداق ہے _لقد أنزلنا إليكم و كم قصمنا من قرية كانت ظالمة خداتعالى نے نزول قرآن كو بيان كرنے اور لوگوں كو اس ميں غور و فكر كى دعوت دينے نيز بہت سى اقوام كو ان كے ظلم كى وجہ سے نابود كرنے كا تذكرہ كرنے كے بعد اسلام اور قرآن كے مخالفين كو عذاب اور نابودى كى دھمكى دى ہے اس كا مطلب يہ ہے كہ اسلام اور قرآن كى مخالفت ظلم كا واضح مصداق اور نابودى كا موجب ہے _

۵ _ ظلم، اسراف ہے اور ستمگر معاشرے مسرفين كى تاريخ كے واضح مصداق ہيں _

و أهلكنا المسرفين و كم قصمنا من قرية كانت ظالمة

خداتعالى نے سابقہ دو آيتوں ميں انبيا(ع) ء كے دشمنوں كو مسرفين كہا ہے (و أهلكن المسرفين ) اور اس آيت ميں بہت سارى اقوام كو كہ جو دين الہى كے ساتھ دشمنى كى وجہ سے نابود ہوئي ہيں ظالم كہا ہے ان دو آيتوں كے ارتباط سے يہ سمجھا جاسكتا ہے كہ ظالمين وہى مسرفين ہيں _

۳۰۵

۶ _ بہت سارے معاشروں كا انحطاط اور انكى نابودى ان كے لوگوں كے كردار كى وجہ سے ہوئي _و كم قصمنا من قرية كانت ظالمة ''كم قصمنا'' ميں كلمہ ''كم'' خبريہ اور كثير كے معنى ميں ہے اور قريوں اور امتوں كو ظالم كہنا ان كى ہلاكت اور نابودى كے سبب كا بيان ہے_

۷ _ خداتعالى نے ستمگر اقوام كو نابود كرنے كے بعد دوسرے لوگوں كو پيدا كيا اور ان كى جگہ پر قرار ديا_

و أنشأنا بعدها قوما ء أخرين ''انشأنا'' كے مصدر ''انشائ'' كا معنى ہے كسى جاندار شے كو خلق كرنا اور اسے وجود ميں لانا اور اسكى تربيت كرنا (مفردات راغب)_

۸ _ معاشروں اور تہذيبوں كا تغير و تبدل اور دگرگونى خداتعالى كى مشيت اور ارادے كے تابع ہے _

و كم قصمنا و أنشأنا بعدها قوما ء أخرين

آنحضرت(ص) :آپ(ص) كے ساتھ دشمنى ۴; آپ(ص) كے ساتھ مقابلہ ۴

اسراف:اسكے موارد۵

اقوام:انكے متبادل لانے كا سرچشمہ ۷، ۸

تہذيبيں :ان كے ختم ہونے كے عوامل ۲، ۶; ان كے ختم ہونے كا سرچشمہ ۸

معاشرہ:اسكى آسيب شناسى ۲

خداتعالى :اسكے ارادے كے اثرات ۸; اسكى مشيت كے اثرات ۸; اسكے افعال ۷ ; اسكى دھمكياں ۳

شہر:انكى نابودى كے عوامل ۱

ظالم لوگ: ۵انہيں دھمكى دينا ۳; انكى ہلاكت ۷

ظلم:اسكے اثرات ۱، ۲، ۵; اسكے موارد ۴

عمل:اسكے اثرات ۶

قرآن كريم:اسكے ساتھ د شمنى ۴; اسكے ساتھ مبارزت ۴

مسرفين: ۵مشركين:ان كو دھمكى دينا ۳

ہلاكت:اسكى دھمكى ۳

۳۰۶

آیت ۱۲

( فَلَمَّا أَحَسُّوا بَأْسَنَا إِذَا هُم مِّنْهَا يَرْكُضُونَ )

پھر جب ان لوگوں نے عذاب كى آہٹ محسوس كى تو اسے ديكھ كر بھاگنا شروع كرديا (۱۲)

۱ _ ستمگر اقوام اور معاشرے جب عذاب الہى كے نزول كا احساس كرتے ہيں تو بھاگ كھڑے ہوتے ہيں _

فلما أحسّوا بأسنا إذا هم منها يركضون

(يركضون كے مصدر) ''ركض'' كا اصلى معنى زمين پر پاؤں مارنا ہے اور جب اسے شخص كى طرف نسبت دى جائے تو اس سے مراد بھاگنا اور تيز چلنا ہوتا ہے_

۲ _ ستمگر معاشروں كى ہلاكت اور نابودى سے پہلے عذاب كى نشانيوں او رعلامات كا ظاہر ہونا_فلما أحسّوا بأسن

مذكورہ مطلب اس نكتے پر مبتنى ہے كہ عذاب كے احساس سے مراد اسكى نشانيوں اور علامات كا مشاہدہ ہو اور اس وقت عذاب كے شكار لوگوں كا فرار كرنا اسى مطلب كى تائيد كرتا ہے كيونكہ اگر وہ خود عذاب كا احساس كرتے تو بھاگنے كى فرصت اور راستہ ہى نہ ہوتا _

۳ _ عذاب ا لہى كى علامات اور نشانيوں كے ظہور كے وقت ،ستمگر معاشروں كا شديد اور ناگہانى اضطراب اور وحشت _

فلما أحسّوا إذا هم منها يركضون مذكورہ مطلب ''إذا'' فجائيہ كہ جو ناگہانى اور غير متوقع امر پر دلالت كرتا ہے_ سے حاصل ہوتا ہے كيونكہ ناگہانى فرار ايك قسم كے وحشت اور اضطراب كى دليل ہے_

۴ _ ستمگر معاشروں پر نازل ہونے والا عذاب تدريجى ہوتا تھا _فلما أحسّوا يركضون

اس چيز كے پيش نظر كے آيت كريمہ ميں عذاب كے شكار لوگوں كے فرار كو بيان كيا گيا ہے لگتاہے كہ عذاب كے احساس كے آغاز اور انكى نابودي_ كہ جس كا تذكرہ بعد كى تين آيتوں ميں ہے_ كے درميان فاصلہ موجود تھا _

گذشتہ اقوام:انكى تاريخ ۱; انكا تدريجى عذاب ۴; انكى ہلاكت ۲

ظالم لوگ:

۳۰۷

انكا اضطراب ۳; انكا خوف ۳; يہ عذاب كے وقت ۱، ۳; انكا تدريجى عذاب ۴; انكا فرار ۱; انكى ہلاكت ۲

عذاب:اس سے فرار ۱; اسكى نشانياں ۲

آیت ۱۳

( لَا تَرْكُضُوا وَارْجِعُوا إِلَى مَا أُتْرِفْتُمْ فِيهِ وَمَسَاكِنِكُمْ لَعَلَّكُمْ تُسْأَلُونَ )

ہم نے كہا كہ اب بھاگو نہيں اور اپنے گھروں كى طرف اور اپنے سامان عيش و عشرت كى طرف پلٹ كر جاؤ كہ تم سے اس كے بارے ميں پوچھ كچھ كى جائے گى (۱۳)

۱ _ ''فرار نہ كرو اور پر آسائش زندگى كى طرف پلٹ آو'' مہلك عذاب كے نزول كے وقت خداتعالى كى ستمگر اور پر آسائش كى زندگى گزارنے والوں كے ساتھ استہزا ء والى گفتگو_لاتركضوا و ارجعوا إلى ما أترفتم فيه

''الترف'' كا معنى ہے صاحب نعمت ہونا اور ''الترفہ'' كا معنى ہے خود نعمت اور ''مترف'' اسے كہتے ہيں حو فراوان نعمتوں اور آسائشوں سے بہرہ مند ہو اس طرح كہ غرور كرنے لگے (لسان العرب) يا اس طرح ناز و نعمت ميں ہو كہ اسے كوئي روك نہ سكے اور جو اس كا دل چاہے كرے قابل ذكر ہے كہ ''لاتركضوا'' اور ''ارجعوا ...'' ميں نہى اور امرطلب حقيقى كيلئے نہيں ہيں بلكہ مجاز اور تہكم و استہزا ء كيلئے ہيں _

۲ _ ستمگر اور پرُ آسائش زندگى گزارنے والے معاشروں كا عذاب اور سزا حتمى ہے اور اس سے فرار كا كوئي فائدہ نہيں ہے _لاتركضوا و ارجعوا إلى ما اُترفتم فيه

۳ _ پر آسائش زندگى گزارنے والے ستمگر نزول عذاب كے وقت اپنا مال و متاع اور گھر چھوڑ كر اپنے شہر و ديار سے فرار كر جاتے ہيں _و ارجعوا إلى ما أترفتم فيه و مسكنكم

۴ _ مادى اور خوشگوار زندگى ميں غوطہ زن ہونا ستمگر معاشروں ميں زندگى گزارنے كا طريقہ ہے _قرية كانت ظالمة و ارجعوا إلى ما أترفتم فيه

۵ _ خوش گذرانى اور ناز و نعمت اور آسائشوں ميں غرق رہنا دنيوى عذاب اور ہلاكت كاپيش خيمہ ہے _و كم قصمنا من قرية و ارجعوا إلى ما أترفتم فيه مذكورہ مطلب ''فيہ'' سے كہ جو ظرفيت كل ے ہے حاصل ہوتا ہے اس طرح كہ نعمت اور آسائش كو ظرف اور انسان جو صاحب نعمت ہے اس كومظروف قرار ديا گيا ہے اور يہ چيز پرُ آسائش زندگى گزارنے والے ستمگروں كے ناز و نعمت ميں غرق ہونے كو بيان كرتى ہے_

۳۰۸

۶ _ معاشرے كے ستمگر اور پر آسائش زندگى گزارنے والے لوگ، تہذيبوں كى نابودى اور معاشرے كے افراد كى ہلاكت كا سبب ہيںو كم قصمنا من قرية كانت ظالمة ارجعوا إلى ما أترفتم فيه

ان آيات كے مخاطب كچھ خاص لوگ ہيں كيونكہ خداتعالى نے انكى دو صفتيں بيان كى ہيں ستمگر ہونا اور پر نعمت ہونا اور يہ دو صفتيں عام طور پر معاشرے كے خاص طبقے ميں ہوتى ہيں اور اكثر لوگ نہ ظالم ہيں اور نہ پر آسائش _

۷ _ گذشتہ ظالم معاشروں كے پرُ آسائش زندگى والے لوگ خوبصورت اور مجلل عمارتيں اور گھر ركھتے تھے_و ارجعوا إلى ما أترفتم فيه و مسكنكم پرُ آسائش زندگى والوں كے مال و متاع ميں سے ''گھروں '' كا تذكرہ انكى خصوصيت كا گواہ ہے نيز يہ انكے باسيوں كى دلى وابستگى كى بھى دليل ہے_

۸ _ ستمگر معاشروں كے پرُ آسائش زندگى والے افراد كى ممتاز معاشرتى اور اقتصادى حيثيت_ارجعوا لعلكم تسئلون

اس سلسلے ميں كہ ''تسئلون'' ميں سوال كيا ہے اور سوال كرنے والے كون ہيں مفسرين كى مختلف آراء ہيں _ ان ميں سے ايك يہ ہے كہ سوال كرنے والے لوگ ہيں اور سوال سے مراد، معاشرتى مسائل ميں مشورہ اور اقتصادى مسائل ميں مدد اور درخواست ہے_

۹ _ ماضى كے ستمگر اور پرُ آسائش معاشروں ميں فقير اور نادار طبقے كا وجود _ارجعوا لعلكم تسئلون

مذكورہ مطلب اس احتمال كى بناپر ہے كہ ''لعلكم تسئلون'' سے مراد فقراء كى ان سے درخواست اور سوال ہو_

۱۰ _ گذشتہ معاشروں كے ستمگر اور پرُ آسائش زندگى والے لوگ انبيا(ع) ء الہى كى مخالفت اور ان كے خلاف مقابلہ ميں پيش ہوتے _و كم قصمنامن قرية كانت ظالمة ارجعوا إلى ما أترفتم فيه و مسكنكم لعلكم تسئلون

مذكورہ مطلب اس نكتے كو پيش نظر ركھتے ہوئے حاصل ہوتا ہے ہے كہ يہ آيت كريمہ اور اس سے پہلے كى دو آيتيں ان لوگوں كے بارے ميں ہيں كہ جو انبياء كى مخالفت كى وجہ سے عذاب الہى ميں گرفتار ہوئے_

۱۱ _ پرُآسائش زندگى والے ستمگر لوگوں كا نعمات الہى اور آسائش سے بہرہ مند ہونے كى وجہ سے مؤاخذہ ہوگا اور ان سے سؤال كيا جائيگا_ارجعوا إلى ما أترفتم فيه ومسكنكم لعلكم تسئلون

امتيں :ان كى ہلاكت كے عوامل ۶/انبياء (ع) :

۳۰۹

ان كے دشمن ۱۰

تہذيبيں :ان كے ختم ہونے كے عوامل ۶

معاشرہ:اسكى آسيب شناسى ۶

خداتعالى :اس كا مذاق اڑانا ۱

گذشتہ اقوام:انكى تاريخ ۷، ۸، ۹، ۱۰; ان كے ظالموں كى دشمنى ۱۰; ان كے معاشرتى طبقات ۹; ان كے پر آسائش لوگوں كے گھر ۷; ان كے ظالموں كى معاشرتى حيثيت ۸; ان كے پر آسائش زندگى والے افراد كى معاشرتى حيثيت۸; ان كے ظالموں كى اقتصادى حيثيت ۸; ان كے عيش و عشرت والوں كى اقتصادى حيثيت۸

دنيا پرستي:اسكے اثرات ۵

ظالم لوگ:ان كا مذاق اڑانا ۱; ان كے عذاب كا حتمى ہونا ۲; انكى خوش گذرانى ۴; ان كى دنيا پرستى ۴; ان كى روش زندگى ۴; يہ عذاب كے وقت ۳; انكافرار ۳; انكا مؤاخذہ ۱۱; ان كا نقش و كردار ۶

عذاب:اس كا پيش خيمہ ۵; جڑ سے اكھاڑ پھينكنے والا عذاب ۱; ا س سے فرار ۱

پرآسائش زندگى والے لوگ:ان كا مذاق اڑانا۱; ان كے عذاب كا حتمى ہونا ۲; ماضى كے پر آسائش زندگى والوں كى دشمنى ۱۰; ان كا فرار ۱، ۳; ان كا مواخذہ ۱۱; يہ عذاب كى وقت ۳; انكا نقش و كردار ۶

نعمت:صاحبان نعمت كا مواخذہ ۱۱

ہلاكت:س كا پيش خيمہ ۵

خواہش پرستي:اسكے اثرات ۵

آیت ۱۴

( قَالُوا يَا وَيْلَنَا إِنَّا كُنَّا ظَالِمِينَ )

ان لوگوں نے كہا كہ ہائے افسوس ہم واقعاً ظالم تھے (۱۴)

۱ _ ظالم معاشروں كے عيش و عشرت پسند لوگ، عذاب الہى كے احساس كے بعد اپنے ظلم و ستم كا اعتراف كرليتے ہيں _فلما أحسوا بأسنا قالواياويلناا إنّا كنّا ظالمين

۲ _ عيش و عشرت پسند ظالم لوگ، عذاب الہى كو ديكھ كر

۳۱۰

حسرت اور ندامت ميں ڈوب جاتے ہيں _فلما أحسّوا بأسنا قالوا يا ويلنا إنّا كنا ظالمين

۳ _ ہلاك كردينے والى مشكلات اور عذاب الہى كے مشاہدہ كے وقت انسان كا حقائق كى طرف توجہ كرنا اور اپنے كردار سے پشيمان ہونا_فلما أحسّوا بأسنا قالواياويلناا إنّا كنّا ظالمين

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ جملہ ''قالواياويلناا ...'' مستأنفہ اور جملہ ''فلما أحسّوا بأسنا ...'' كيلئے بيان ہو يعنى جب ہمارے عذاب كو محسوس كرتے ہيں تو اپنے گناہ كا اقرار اور حقيقت حال كا اعتراف كرليتے ہيں پس عذاب كو محسوس كرنا اور تباہ و برباد كردينے والى مشكلات كا مشاہدہ انسان كے حقائق كى طرف توجہ كرنے اور ان كے اعتراف كا سبب ہے_

۴ _معاشروں كے عيش و عشرت پسند اور خوش گذران لوگ ظالم اور ستمگر ہيں _

قرية كانت ظالمة ما أترفتم فيه إنا كنا ظالمين

۵ _ مسلسل ظلم، نابودى اور عذاب الہى كے نزول كا سبب ہے _فلما أحسّوا بأسنا قالواياويلناا إنا كنا ظلمين

مبتلا ہونا:عذاب ميں مبتلا ہونے كے اثرات ۳

اقرار:ظلم كا اقرار ۱

پشيماني:اسكے عوامل ۳

متنبہ ہونا:اسكے عوامل ۳

خوش گذراں لوگ:ان كا ظلم ۴

ظالم لوگ:ان كا اقرار ۱; انكى حسرت۲; يہ عذاب كے وقت۱، ۲

ظلم:اسكے اثرات ۵

عذاب:اسكے ديكھنے كے اثرات ۳; اسكے وقت پشيمانى ۱; اسكے عوامل ۵

عيش و عشرت پر ست لوگ:ان كا اقرار۱; ان كى پشيمانى ۲; انكى حسرت۲; انكا ظلم ۴; يہ عذاب كے وقت ۱، ۲

۳۱۱

آیت ۱۵

( فَمَا زَالَت تِّلْكَ دَعْوَاهُمْ حَتَّى جَعَلْنَاهُمْ حَصِيداً خَامِدِينَ )

اور يہ كہہ كر فرياد كرتے رہے يہاں تك كہ ہم نے انھيں كٹى ہوئي كھيتى كى طرح بنا كر ان كے سارے جوش كو ٹھنڈا كرديا (۱۵)

۱ _ عيش و عشرت پرست ستمگر لوگ ،عذاب كے احساس سے ليكر ہلاكت و نابودى تك افسوس اور پشيمانى ميں رہيں گے_فما زالت تلك دعوى هم حتى جعلناهم حصيداً خمدين

۲ _ عذاب الہى كى نشانياں اور علامات ديكھنے كے بعد ايمان لانا اور ظلم و گناہ كا اعتراف كرنا بے ثمر ہے_

إنا كنا ظالمين فما زالت تلك دعوى هم حتى جعلنهم حصيد

يہ جو خداتعالى نے فرمايا ہے كہ ''گناہ گار لوگ عذاب كے مشاہدے كے وقت سے ليكر ہلاكت كے وقت تك مسلسل اپنے ظلم كا اعتراف كرتے ہيں '' تو اس كا مطلب يہ ہے كہ عذاب كے مشاہدے كے وقت گناہ كا اعتراف كرنا اثر نہيں ركھتا اور ضرورى ہے كہ توبہ عذاب كو ديكھنے سے پہلے انجام پائے_

۳ _ بہت سارے ستمگر اور پر آسائش زندگى والے معاشرے، خداتعالى كے شديد عذاب كے نتيجے ميں بالكل نابود ہوگئے_

و كم قصمنا حتى جعلنهم حصيداً خمدين

''حصيد'' كا معنى ہے محصود يعنى كاٹا ہوا اور ''خامد'' ''خمدت النار خموداً'' كا اسم فاعل ہے يعنى آگ كا بجھا ہوا شعلہ اور يہ اس آيت ميں موت سے كنايہ ہے (مفردات راغب) _

اقرار:ظلم كا اقرار ۲; گناہ كا اقرار۲

ايمان:بے ثمر ايمان ۲

گذشتہ اقوام:انكى تاريخ ۳; انكا عذاب ۳; ان كے ختم ہونے كے عوامل ۳

۳۱۲

ظالم لوگ:انكى پشيماني۱; يہ عذاب كے وقت ۱

عذاب:اسے ديكھنے كے اثرات۲; اسكے وقت پشيماني۱

عيش و عشرت پسندلوگ:انكى پشيمانى ۱; يہ عذاب كے وقت ۱

آیت ۱۶

( وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاء وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا لَاعِبِينَ )

اور ہم نے آسمان و زمين اور ان كے درميان كى تمام چيزوں كو كھيل تماشے كے ئے نہيں بنايا ہے (۱۶)

۱ _ آسمان و زمين اور فضا كے موجودات (عالم وجود) كى خلقت، فضول اور كھيل تماشا نہيں ہے بلكہ بامقصد اور با ہدف ہے_و ما خلقنا السماء والأرض و ما بينهما لعبين

''لعب'' كا معنى ہے ايسا بے فائدہ كام كہ جس كا كوئي صحيح مقصد اور سود نہ ہو ''لاعبين''، ''خلقنا'' كى ضمير كيلئے حال ہے يعنى ہم نے عالم ہستى كو كھيل تماشے كے قصد سے خلق نہيں كيا_

۲ _ آسمان و زمين كے درميان كى فضا ميں مخلوقات اور موجودات ہيں _و ما خلقنا السماء و الأرض و ما بينهما لعبين

۳ _ انبيا(ع) ء كى بعثت اور ستمگر اور دين دشمن معاشروں كى ہلاكت، نظام ہستى كے باہدف ہونے كى بنياد پر ہے_

و كم قصمنا من قرية كانت ظالمة و ما خلقنا السماء و الأرض و ما بينهما لعبين

ستمگر اقوام كى ہلاكت كے بعد كائنات كے باہدف ہونے كى ياددہانى ہوسكتا ہے اس نكتے كو بيان كررہى ہو كہ جب كائنات با مقصد اور باہدف ہے تو ستمگر اقوام كى ہلاكت بھى كائنات كے اسى باہدف ہونے اور كھيل تماشا نہ ہونے كا حصہ ہوگي

۴ _ ظلم اور انبيا(ع) ء كى مخالفت ،عالم ہستى كے قانون كے تابع ہونے والے نظام كے خلاف ہے _

و كم قصمنا من قرية كانت ظالمة و ما خلقنا السماء و الأرض و ما بينهما لعبين

ستمگروں كى نابودى كے بعد، خداتعالى كى طرف سے خلقت كائنات كے فضول نہ ہونے كى ياد دہانى ہوسكتا ہے اس حقيقت كو بيان كررہى ہو كہ انسان ظلم نہ كرے اور ستم كرنا كائنات كى بامقصد حركت كے خلاف ہے_

۵ _ عيش و عشرت پسند ستمگر لوگ ،كائنات كو كھيل تماشااور بے مقصد سمجھتے ہيں _

قرية كانت ظالمة و ارجعوا إلى ما اُترفتم فيه و ما خلقنا السماء و الأرض و ما بينهما لعبين

۶ _ كائنات كو بے مقصد سمجھنا، عالم خلقت كو فضول اور كھيل تماشا سمجھنے كے مترادف ہے _

۳۱۳

و ما خلقنا السماء و الأرض و ما بينهما لعبين

''مبطلين'' كے بجائے ''لعبين'' كى تعبير بتاتى ہے كہ كائنات كو باطل اور بے مقصد سمجھنا عالم خلقت كو كھيل تماشا سمجھنے كے مترادف ہے_

آسمان:اسكى خلقت كا قانون كے مطابق ہونا ۲

خلقت:اسكے ساتھ كھيلنا ۶; اسكو كھوكھلا سمجھنا۵، ۶; اس كا قانون كے مطابق ہونا ۱، ۳، ۴

انبياء(ع) :انكے ساتھ مخالفت كى حقيقت ۴; انكى بعثت كا قانون كے مطابق ہونا ۳

سوچ:غلط سوچ ۶

دين:اسكے دشمنوں كى ہلاكت كا قانون كے مطابق ہونا ۳

زمين:اسكى خلقت كا قانون كے مطابق ہونا۱

ظالم لوگ:انكى سوچ۵; انكا كھوكھلے يں كا طرف تمايل۵; انكى ہلاكت كا قانون كے مطابق ہونا ۳

ظلم:اسكى حقيقت ۴

فضا:اسكے موجودات كى خلقت كا قانون كے مطابق ہونا۱; اسكے موجودات ۲

عيش و عشرت پسند لوگ :ان كى سوچ۵; انكا كھوكھلے پن كى طرف تمايل ۵

آیت ۱۷

( لَوْ أَرَدْنَا أَن نَّتَّخِذَ لَهْواً لَّاتَّخَذْنَاهُ مِن لَّدُنَّا إِن كُنَّا فَاعِلِينَ )

ہم كھيل ہى بنانا چاہتے تو اپنى طرف ہى سے بناليتے اگر ہميں ايسا كرنا ہوتا (۱۷)

۱ _ خداتعالى كا ارادہ ، كھيل اور سرگرمى كى خاطر كسي كام كے انجام دينے كے ساتھ تعلق نہيں پكڑتا _

و ما خلقنا لعبين_ لو أردنا أن نتخذ لهو

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''لو'' امتنا عيہ ہو_ اس بناپر آيت كا معنى يوں بنے گا ''اگر ہم كسى چيز كو _ برفرض محال اور اسكے ممكن يا غير ممكن ہونے يا ہمارى شان سے كم ہونے سے صرف نظر كرتے ہوئے_ كھيل اور اپنى سرگرمى كيلئے انجام ديتے ...'' قابل ذكر ہے كہ بعض مفسرين كے مطابق' ' إن كنّا فاعلين'' ميں ''إن'' نافيہ ہے_ يہ بھى مذكورہ مطلب كا مؤيد ہوگا

۳۱۴

۲ _ مخلوقات كبھى بھى اپنے خالق كے لہو و لعب اور سرگرمى كا ذريعہ نہيں ہيں _

لو أردنا أن نتخذ لهواً لاتّخذنه من لدنا إن كنا فاعلين

۳ _ موجودہ كائنات كو اپنے كھيل تماشے كيلئے خلق كرنے كى قدرت، صرف خداتعالى كے پاس ہے اور كوئي بھى موجود اس پر قادر نہيں ہے_لو أردنا نتخذ لهواً لاتّخذنه من لدنّ

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''من لدنا'' كا معنى ''من جہة قدرتنا'' ہو (جيسا كہ بعض بزرگ مفسرين كى يہى رائے ہے) اور يا كہ يہ ''من لدنا'' (ظرف مختص) ''من لدن غيرنا'' كے مقابلے ميں ہو_ اس بناپر آيت كا پيغام يوں ہوگا اگر بنايہ ہوتى كہ كائنات كو اپنے لئے سرگرمى قرار ديں تو بھى يہ كام صرف ہمارى قدرت ميں ہے نہ ان خداؤں كى قدرت ميں جنكا مشركين دعوى كرتے ہيں اور نہ كوئي اور قدرت اسے انجام دے سكتى ہے پس مطلق قدرت اور ربوبيت صرف خداتعالى كے پاس ہے قابل ذكر ہے كہ ''عندنا'' كى جگہ كہ جو صرف حضور كيلئے ہے ''لدنا'' جو ابتدائے غايت كيلئے ہے كا آنا مذكورہ مطلب كى تائيد كرتا ہے_

۴ _ بر فرض محال اگر خداتعالى اپنى سرگرمى كيلئے كائنات كو خلق كرتا تو يہ مادى كائنات اسكى غرض كے لائق نہيں تھى بلكہ اس سے برتر جہان كا انتخاب كرتا _لو أردنا أن نتخذ لهواً لاتخذنه من لدنا إن كنا فعلين

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''من لدنا'' كا معنى ہو ''مما عندنا'' يا ''مما يليق بحضرتنا ...'' يعنى اگر ہم سرگرمى چاہتے تو ان جہانوں اور موجودات ميں سے كہ جو ہمارے پاس ہيں اور ہمارے زيادہ قريب ہيں اور اس مادى كائنات سے برتر ہيں (جيسے عالم مجردات ...) ان سے انتخاب كرتے_

۵ _ خداتعالى ، كائنات كے خلق كرنے والے كام ميں حق اور صحيح ہدف ركھتا تھا _و ما خلقنا السمائ لعبين لو أردنا أن نتّخذ لهواً لاتّخذنه من لدنا إن كنا فعلين خداتعالى نے گذشتہ آيت ميں كائنات كى خلقت كو با ہدف قرار ديا ہے اور اس آيت ميں مزيد تاكيد كيلئے فرمايا ہے ''ہم نے كائنات كو اپنى سرگرمى اور كھيل كيلئے خلق نہيں كيا'' ان دو آيتوں كے مجموعے سے استفادہ ہوتا ہے كہ كائنات كى خلقت ميں ايك ہدف ملحوظ تھا اور وہ ہدف صحيح اور حق ہے كيونكہ كلمہ'' لہو و لعب'' كا معنى وہى باطل ہے اور جو باطل نہ ہو وہ صحيح اور حق ہوگا_

خلقت:

۳۱۵

اس كے ساتھ سرگرمى ۳، ۴; اس كا قانون كے مطابق ہونا۵; اس كا باہدف ہونا۵

توحيد:توحيد افعالى ۳

خداتعالى :اسكى خالقيت ۳; يہ اور كھيل ۱، ۲، ۳، ۴; يہ اور لہو ،۱، ۲، ۳، ۴; اسكى قدرت ۳; اسكے ارادے كا متعلق ۱

موجودات:انكى حقيقت۲; ان كے ساتھ سرگرمى ۲

آیت ۱۸

( بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَى الْبَاطِلِ فَيَدْمَغُهُ فَإِذَا هُوَ زَاهِقٌ وَلَكُمُ الْوَيْلُ مِمَّا تَصِفُونَ )

بلكہ ہم تو ق كو باطل كے سر پردے مارتے ہيں اور اس كے دماغ كو كچل ديتے ہيں اور وہ تباہ و برباد ہوجاتا ہے اور تمھارے لئے ويل ہے كہ تم ايسى بے ربط باتيں بيان كر رہے ہو (۱۸)

۱ _ حق و باطل كى جنگ ميں آخرى كاميابى اہل حق كى ہے_بل نقذف بالحق على الباطل

۲ _ حق كے عقيدے اور نظريہ كائنات كے حق ہونے كى باطل عقيدے اور باطل نظريہ كائنات پر كاميابى سنت الہى ہے_و ما خلقنا السمائ لعبين بل نقذف بالحق على الباطل فيدمغه

خداتعالى نے گذشتہ آيت ميں كائنات كى خلقت كے باہدف ہونے اور اسكى خلقت كے فضول اور بيہودہ ہونے والے عقيدہ كے باطل ہونے كى بات كى ہے يہ بات قرينہ ہے كہ آيت كريمہ ميں حق و باطل سے مراد حق و باطل عقيدہ اور ان كا نظريہ كائنات ہے قابل ذكر ہے كہ اسى آيت كا ذيل (ولكم الويل مما تصفون) كہ جو خداتعالى كى طرف ناروا نسبت اور اسكى نادرست امور كے ساتھ توصيف كے بارے ميں ہے مذكورہ مطلب كا مؤيد ہے_

۳ _ حق كى باطل پر كاميابي، نظام خلقت كے بامقصد ہونے كا ايك جلوہ ہے_

و ما خلقنا السماء بل نقذف بالحق على الباطل فيدمغه

گذشتہ آيت ميں خداتعالى نے حق كى بنياد پر كائنات كى خلقت كى بات كى تھى اور اس آيت ميں حق كى باطل پر كاميابى كى ياد دہانى كرائي ہے ان دو باتوں كے درميان ارتباط مذكورہ مطلب كو بيان كرتا ہے_

۴ _ طول تاريخ ميں حق و باطل كے درميان مسلسل جنگ اور كشمكش_و كم قصمنا من قرية كانت ظالمة بل نقذف بالحق على الباطل فيد مغه

۳۱۶

۵ _ باطل اور نادرست عقيدوں كى نابودى اہل حق كے باطل كے خلاف ميدان مبارزت ميں حاضر ہونے كا مرہون منت ہے_بل نقذف بالحق على البطل فيدمغه

''بالحق'' ميں ''بائ'' استعانت كيلئے ہے اس بناپر آيت كا معنى يوں بنے گا ''ہم حق كى مدد سے باطل كو نابود اور تہس نہس كرديں گے'' اس كا مطلب يہ ہے كہ حق كا باطل كے مقابلے ميں ميدان كارزار ميں حاضر رہنا ضرورى ہے تا كہ اسكے ذريعے باطل اور نادرست عقيدوں كو نابود كيا جاسكے_ قابل ذكر ہے كہ خداتعالى نے باطل كو نابود كرنے كو اپنى طرف نسبت نہيں دى بلكہ حق كو باطل كا نابود كرنے والا قرار ديا ہے (فيد مغہ) يہ نكتہ بھى اسى مطلب كى تائيد كرتا ہے_

۶ _ غير متوقع حالات ميں باطل كى ناگہانى نابودى _بل نقذف بالحق على البطل فيدمغه فإذا هو زاهق

''إذا'' فجائيہ كہ جو ناگہانى اور غير متوقع ہونے پر دلالت كرتا ہے ،سے مذكورہ بالا مطلب حاصل ہوتا ہے_

۷ _ حق ،استحكام و صلابت ركھتا ہے اور باطل كھوكھلا اورقابل شكست ہے_بل نقذف بالحق على البطل فيدمغه فإذا هو زاهق چونكہ خداتعالى نے حق كو باطل كو ختم كردينے والا اور اسے تہس نہس كردينے والا قرار ديا ہے اس سے حق كا مستحكم ہونا ظاہر ہوتا ہے اور اس سے كہ باطل ناگہانى طور پر اور فوراً ختم ہوگيا اس كا كھوكھلا ہونا معلوم ہوتا ہے_ قابل ذكر ہے كہ تعبير ''قذف'' _ يعنى زور سے پھينكنا_ مذكورہ مطلب كى تائيد كرتى ہے_

۸ _ ماضى كے ستمگر معاشروں كى ہلاكت اور نابودى حق كى باطل كے خلاف كاميابى كا ايك نمونہ ہے_

و كم قصمنا من قرية كانت ظالمة بل نقذف بالحق على الباطل فيدمغه فإذا هو زاهق

۹ _ عصر پيغمبراكرم(ص) كے مشركين كا نظام خلقت اور انبياء (ع) كى بعثت كو كھيل تماشا قرار دينا_و ما خلقنا السمائ لعبين و لكم الويل مما تصفون ''لكم'' اور ''تصفون'' كے مخاطب مشركين ہيں اور گذشتہ آيات قرينہ ہيں كہ توصيف سے مراد مشركين كا خلقت كائنات كے بارے ميں غير صحيح عقيدہ اور خداتعالى كى طرف نظام خلقت كو سرگرمى كے طور پر لينے كى ناروا نسبت ہے _

۱۰ _ خداتعالى كى طرف ناروا نسبت ہلاكت اور عذاب الہى كے مستحق ہونے كا سبب ہے_

لكم الويل مما تصفون ''الويل'' كا اصلى معنى عذاب اور ہلاكت ہے اور يہ اس جگہ استعمال ہوتا ہے جہاں كسى شخص يا اشخاص كو ايسى ہلاكت كا خطرہ ہو جسكے وہ مستحق ہيں (لسان العرب) _

۳۱۷

۱۱ _ خداتعالى كى جانب سے پيغمبراكرم(ص) اور مؤمنين كو كاميابى كى خوشخبرى اور مشركين كو شكست اور نابودى كى دھمكيبل نقذف بالحق و لكم الويل مما تصفون

اس چيز كو مدنظر ركھتے ہوئے كہ پيغمبراكرم(ص) اور اہل حق، حق دشمن مشركين كے ساتھ مقابلے ميں مشغول تھے_ آيت شريفہ كے لحن سے معلوم ہوتا ہے كہ يہ پيغمبراكرم(ص) اور مؤمنين كو كاميابى كى خوشخبرى دے رہى ہے اور اسى طرح مشركين كو شكست اورنابودى كى دھمكى دے رہى ہے_

۱۲ _''عن ا يّوب بن الحر قال: قال لى ا بو عبدالله (ع) : يا ا يوب ما من ا حد إلا و قد برز عليه الحق حتى يصدع، قبله ا م تركه و ذلك ا ن الله يقول فى كتابه:'' بل نقذف بالحق على الباطل فيدمغه فإذا هو زاهق ...'' ; امام صادق (ع) سے روايت كى گئي ہے كہ كوئي شخص نہيں ہے مگر يہ كہ حق مكمل طور پر اس كيلئے ظاہر ہوچكا ہے چاہے اسے قبول كرے يا رد كرے خداتعالى يہى اپنى كتاب ميں فرما رہا ہے''بل نقذف بالحق على البطل فيدمغه فإذا هو زاهق'' _

آنحضرت(ص) :آپ(ص) كو بشارت ۱۱

انبياء (ع) :انكى بعثت كو فضول سمجھنا۹

باطل:اس كا كھوكھلاپن ۷; اسكى شكست كا پيش خيمہ ۵; اسكى شكست ۱، ۲، ۳; اسكى ناگہانى شكست ۶; اس كا انجام ۱; اسكى شكست كے موارد ۸

بشارت:مؤمنين كو كاميابى كى بشارت ۱۱; آنحضرت(ص) كو كاميابى كى بشارت ۱۱

حق:اس كا مستحكم ہونا۷; اسكى كاميابى ۱، ۲، ۳، ۱۲; اس كا انجام۱; اسكى كاميابى كے موارد۸; حق و باطل كے درميان كشمكش ۱، ۴، ۵

حق پرست لوگ:ان كا كردار اور نقش۵

خداتعالى :اسكى بشارتيں ۱۱; اسكى دھمكياں ۱۱; اسكى سنت۲

روايت: ۱۲

گذشتہ اقوام:انكى ہلاكت ۸/ظالم لوگ:انكى ہلاكت ۸

____________________

۱ ) محاسن برقى ج۱، ص ۲۷۶، ب ۳۸، ح ۳۹۱_ نورالثقلين ج۳، ص ۴۱۶، ح ۱۸_

۳۱۸

عذاب:اسكے اسباب ۱۰

عقيدہ:باطل عقيدہ۲، ۵; حق عقيدہ ۲

مؤمنين:انہيں بشارت ۱۱

مشركين:صدر اسلام كے مشركين كى سوچ ۹; انكو دھمكى ۱۱

آیت ۱۹

( وَلَهُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَنْ عِندَهُ لَا يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِهِ وَلَا يَسْتَحْسِرُونَ )

اور اسى خدا كے لئے زمين و آسمان كى كل كائنات ہے اور جو افراد اس كى بارگاہ ميں ہيں وہ نہ اس كى عبادت سے ا كڑ كر انكار كرتے ہيں اور نہ تھكتے ہيں (۱۹)

۱ _ خداتعالى ان سب كا مالك ہے جو آسمانوں اور زمين ميں ہيں _و له من فى السموات و الأرض

۲ _غير خدا كى مالكيت (حتى كہ اپنے اوپر) مجازى ہے _و له من فى السموات و الأرض

۳ _ آسمانوں اور زمين ميں صاحب شعور و عقل مخلوق كا وجود_و له من السموات والأرض

''من'' ان موجودات كيلئے استعمال ہوتا ہے جو صاحب عقل و شعور ہوں _

۴ _ جہان خلقت ميں متعددآسمان ہيں _السموات

۵ _ خداتعالى كا جہان ہستى كا بطور مطلق مالك ہونا حق كى باطل پر كاميابى كى ضمانت اور پشت پناہ ہے_بل نقذف بالحق و له من فى السموات و الأرض جملہ''و له من فى السموات '' كا جمله '' لو أردنا بل نقذف بالحق '' پر عطف ہے اور يہ خلقت كائنات كے حق ہونے اور حق كى باطل كے خلاف كاميابى كو بيان كررہا ہے كيونكہ جب پورى كائنات خداتعالى كى ملكيت ہے تو اس كيلئے حق كو باطل پر كامياب كرنا ممكن اور آسان ہوگا_

۶ _ مقربين خدا (فرشتے) اسكى عبادت سے تكبر نہيں كرتے_و من عنده لايستكبرون عن عبادته

۳۱۹

مفسرين كے بقول ''من عندہ'' سے مراد فرشتے ہيں _

۷ _ تقرب الہى ايسا مقام و مرتبہ ہے كہ جو عبادت ميں تكبر كرنے اور اسكے مقابلے ميں اكڑنے كے ساتھ سازگا نہيں ہے_

و من عنده لايستكبرون عن عبادته ''لايستكبرون عنه'' كے بجائے''لايستكبرون عن عبادته'' كى تعبير سے مذكورہ مطلب حاصل ہوتا ہے_

۸ _ بارگاہ خداوندى كے مقربين كبھى بھى اسكى عبادت سے ملول اور تھكاوٹ كا شكار نہيں ہوتے_من عنده لايستكبرون عن عبادته و لا يستحسرون (''يستحسرون'' كے مصدر) ''استحسار'' كا معنى ہے تھكاوٹ اور ملالت_

۹ _ تقرب الہى كے مقام تك دسترسى كا خداتعالى كى عبادت سے نہ تھكنے اور تكبر نہ كرنے ميں مؤثر ہونا_و من عنده لا يستكبرون عن عبادته و لايستحسرون يہ جو خداتعالى نے فرمايا ہے كہ جو ہمارے پاس اور مقرب ہيں وہ خدا كى عبادت سے نہيں تھكتے اور تكبر نہيں كرتے'' اس سے معلوم ہوتا ہے كہ تقرب الہى كو حاصل كرنا نہ تھكنے اور تكبر نہ كرنے ميں اثر ركھتا ہے_

۱۰ _ خداتعالى كى عبادت ميں تسلسل اور نہ تھكنا پسنديدہ اور قابل قدر چيز يں ہيں _و من عنده لار يستكبرون عن عبادته و لا يستحسرون مذكور مطلب اس چيز سے حاصل ہوتا ہے كہ آيت كريمہ مقربين خدا كى تعريف و تمجيد كر رہى ہے اور بندوں كو پروردگار كى عبادت كى تشويق دلا رہى ہے_

آسمان:ان كا متعدد ہونا۴; ان كے با شعور موجودات ۳

باطل:اس پر كاميابى كا سرچشمہ ۵

تقرب:اسكے اثرات ۹/تكبر:اسكے موانع ۹

حق:اسكى كاميابى كا سرچشمہ ۵

خاضعين: ۶

خداتعالى :اسكى مالكيت كے اثرات ۵; اسكى مالكيت ۱

عبادت:اسكے تسلسل كى قدر و قيمت ۱۰; اس ميں خضوع ۶، ۹; اس ميں سستى كے موانع ۹; اس ميں نشاط ۸،۹

عمل:پسنديدہ عمل ۱۰

۳۲۰

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750